سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 574

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

1اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم، کیا حال ہے حضرت؟ میرا ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ ہے۔ اس ذکر کو کرتے ہوئے کافی عرصہ ہوچکا ہے، میرے لیے آگے کیا حکم ہے؟

جواب:

ما شاء اللہ، اب ’’اَللّٰہ‘‘ کو چھ ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی وہی رہنے دیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم شیخ محترم! میرا شان جامع کا مراقبہ اللہ کے فضل سے مکمل ہوچکا ہے۔ شیخ محترم مراقبات کے دوران مجھے ایک چیز واضح محسوس ہوئی کہ میرے اندر کوئی Alert system activate ہوچکا ہے، ہر غلط سوچ اور غلط بات بولتے وقت احساس ہوجاتا ہے کہ یہ چیز غلط ہے، یہ نہیں کرنی چاہئے۔ ایک میرے اندر یہ تبدیلی بھی آئی ہے کہ جیسے میرے اندر مجھے اچھا برا سمجھانے کے لئے کوئی استاد بیٹھا ہو۔ شیخ محترم مراقبہ کے دوران کافی دنوں میں ایسا ہوتا تھا کہ جیسے فیض اللہ تعالیٰ سے نبی کریم ﷺ کے قلب پر دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے آتا ہے۔ باقی مراقبہ کے دوران آسانی تھی جس پر شکرانہ کے طور پر آپ نے درود اور اول کلمہ کثرت سے پڑھنے کا بولا تھا، وہ میں نے الحمد للہ کثرت سے پڑھا۔ شیخ محترم آگے بھی ہمیشہ کے لئے یہ ذکر جاری رکھوں یا بتائے ہوئے طریقہ سے استغفار کو بھی شامل کرلوں؟ آگے مراقبہ اور ذکر کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ما شاء اللہ، آپ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ عمر بھر جاری رکھئے، اور اس کے علاوہ درود شریف جتنا بھی پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں کیونکہ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کی وجہ سے کوئی ضروری کام رہ نہ جائے۔ یہ بات ذہن میں رکھ کر جتنی کثرت سے پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ آپ نے شان جامع کا مراقبہ کرلیا ہے اس لئے اب آپ معیتِ الہٰی والا مراقبہ کرلیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ میرے ساتھ ہیں۔ ساتھ ہونے کی کیفیت کے بارے میں اللہ کو پتا ہے، مجھے پتا نہیں ہے، لیکن اللہ پاک میرے ساتھ ہیں۔ اس کا فیض اللہ پاک کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ سے میرے شیخ کی طرف اور وہاں سے میرے اوپر آرہا ہے۔ اس کو آپ شروع فرما لیں اور ایک مہینہ کے بعد اطلاع کریں۔

سوال نمبر 3:

Monthly اذکار update and احوال:

السلام علیکم

My dear and respected مرشد, I hope you are well ان شاء اللہ یا سیدی. All اذکار completed for the month without any ناغہ الحمد للہ

اگرچہ کبھی کبھار اذکار پورے کرنے میں تھوڑی دیر ہوگئی لیکن ناغہ کبھی نہیں ہوا۔ ذکر کی ترتیب یہ ہے: دو، چار، چھ اور ساڑھے تین ہزار اس کے علاوہ دس دس منٹ لطیفہ قلب، روح، سر، خفی and لطیفہ اخفیٰ۔

I am able to sense Allah Allah from all sensing points. I can also feel myself gently rocking backwards and forwards during مراقبہ

مراقبہ شیونات ذاتیہ کے دوران کبھی کوئی بہت وزنی چیز سینے پر آرہی ہوتی ہے، یہاں تک کہ سانس میں بھی تھوڑی دشواری پیش آجاتی ہے اور کبھی پسینہ بھی آنے لگ جاتا ہے۔ پہلے کی نسبت ایام غفلت میں چلے جانا بہت کم ہوتا ہے۔ مراقبہ کے دوران کبھی میں اپنے سر کے عین اوپر گویا کہ بالکل بیچ میں لطیفہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ حرکت میں آرہا ہے اور کبھی ان احوال میں سے کوئی بھی احوال نہیں ہوتا۔ یا سیدی Please advise further for this

جواب:

ما شاء اللہ! ابھی آپ کے ذکر کی ترتیب تو وہی رہے گی یعنی دو، چار، چھ اور ساڑھے تین ہزار۔ تمام لطائف اور شیونات ذاتیہ کا مراقبہ بھی دس دس منٹ رہے گا۔ اس کے بعد آپ مراقبہ تنزیہ کریں گے جس کو صفاتِ سلبیہ کا مراقبہ بھی کہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کی صفات مخلوق کی طرح نہیں ہیں، کیونکہ مخلوق کی بعض صفات اللہ پاک میں نہیں ہیں، مثلًا نہ اللہ پاک کو کسی نے جنا اور نہ اللہ پاک نے کسی کو جنا، نہ اس کی بیوی ہے، نہ وہ سوتا ہے، نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے بلکہ وہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ ہم اللہ جل شانہٗ کو سُبحان اسی وجہ سے کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ ما شاء اللہ جس وزنی چیز کے بارے میں بتا رہے ہیں، وہ ٹھیک ہے، ساری چیزیں وزنی ہی ہیں۔ البتہ آپ نے لطیفہ سر کے بارے میں جو بتایا ہے، یہ واقعی بنوری لطائف میں سے ہے، اس لئے اب آپ بنوری لطائف بھی شروع کرلیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ آپ کے لطیفہ قلب اور لطیفہ روح وہی ہیں، البتہ لطیفہ سر کا مقام قلب اور روح کے بالکل درمیان تھوڑا سا مائل بہ قلب ہوگا۔ یہ سر کا بنوری لطیفہ ہے۔ اب لطیفہ سر کا مراقبہ اسی جگہ کرلیں۔ لطیفہ خفی کا مقام ماتھے کے اوپر دو ابرو کے درمیان ہے۔ اور لطیفہ اخفیٰ جو آپ محسوس کر رہے ہیں اس کو دماغ کہتے ہیں۔ یہ تالو کے اوپر والی جگہ پر محسوس ہوتا ہے۔ اب ان شاء اللہ ان پانچ لطائف پر اس طریقہ سے توجہ کرکے آپ اللہ اللہ محسوس کیا کریں۔ گویا کہ اس میں آپ کے لطائف تبدیل ہوگئے ہیں۔ پہلے دو لطائف اپنی جگہ پر ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے، تیسرا، چوتھا، پانچواں تبدیل ہوگیا ہے۔

سوال نمبر 4:

ایک صاحب نے اپنے طور پہ گھر کا ایک حال بتایا ہے کہ بچوں نے ان کے سامنے کچھ ایسی باتیں کیں جو صرف بڑے جانتے ہیں، وہ باتیں بچوں کو نہیں جاننی چاہئیں۔ اس پر وہ بڑے پریشان ہیں کہ یہ بچے تو ہمارے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟

جواب:

یہ بات فکر کی تو ہے لیکن ہمیں یہ یاد بات رکھنی چاہئے کہ اس وقت ہم دورِ فتن میں ہیں۔ دور فتن اس دور کو کہتے ہیں جس میں انسان اپنی مرضی کے حالات میں نہیں ہوتا بلکہ گمراہی اور فتنے اس طرح برس رہے ہوتے ہیں جیسے تسبیح کے دانے ٹوٹ ٹوٹ کر ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم اس دور میں ہیں۔ یقینی طور پر اس وقت بہت مشکل ہے لیکن چونکہ اللہ کے لئے سب کچھ آسان ہے، اس لئے انسان کو سب سے پہلے اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ یعنی بجائے کہ انسان tension لے، یا پریشان ہو اور اس کا کوئی حل بھی اس کے پاس نہ نکلے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی یہ فکر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے میں تبدیل کرلے، جس کے پاس اس کا حل ہے۔ اللہ پاک کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے۔ اس میں اللہ پاک کی طرف جتنی زیادہ توجہ ہوگی اس سے ان شاء اللہ العزیز اللہ پاک مہربانی فرمائیں گے اور اللہ پاک کوئی راستہ نکالیں گے۔

میں آپ کو اپنا حال بتاتا ہوں۔ میرا بیٹا اپنی دادی کا کافی لاڈلا تھا۔ چونکہ وہ کافی لڑکیوں کے بعد دنیا میں آیا ہے تو خاندان میں ایسا بچہ بہت زیادہ لاڈلا ہوتا ہے۔ یہ جو کہتا تھا وہ پورا کیا جاتا اور ہم بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ والدہ والدہ ہوتی ہیں۔ ان کی بات کیسے ٹالی جائے۔ بہرحال یہ اچھا خاصا مسئلہ تھا اور میرے لئے واقعی بہت پریشانی کی بات تھی۔ وہ کسی وقت کچھ بھی مانگتا تو اس کے لئے وہ چیز لانا ضروری ہوتا تھا۔ دارالعلوم عثمانیہ میں مفتی عبدالرحمٰن صاحب ہمارے بزرگ ہیں، میں وہاں میراث کا دورہ کرانے کے لئے گیا تو پانچ دن میں ادھر رہا۔ ان کے ساتھ ایک دن ہم کھانا کھا رہے تھے تو میں نے مفتی صاحب سے کہا کہ مفتی صاحب! میرے لئے دعا کریں، میرا بیٹا میرے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ میں اس کے ساتھ کیا کروں؟ انہوں نے بڑی لاپرواہی سے کہا کہ شاہ صاحب آپ فکر نہ کریں، اللہ پاک ٹھیک کرے گا۔ آپ دین کا کام کر رہے ہیں، یہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے کہا ما شاء اللہ، یہ بھی ایک دعا ہے۔ خیر، پانچ دن پورے ہوئے تو میں گھر واپس آگیا۔ یہاں آکر دیکھا تو ساری صورتحال بالکل بدل گئی تھی۔ ماشاء اللہ نماز کی طرف توجہ بھی ہورہی تھی اور ہر چیز کا خیال بھی رکھا جارہا تھا۔ میں نے سوچا کہ ما شاء اللہ دعا تو وہی ہے لیکن اس کا physical ذریعہ کیا بنا؟ گھر والوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جیسے اس کی عادت ہے کہ جس چیز کو یہ کہے کہ میری ہے تو اس کو کوئی منع نہیں کرتا کہ ٹھیک ہے، آپ کی ہی ہے۔ میرے پاس مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب کی اور حکیم اختر صاحب کی چھوٹی چھوٹی کتابیں تھیں جو مجھے یہ حضرات بھیجتے تھے، وہ میرے پاس الماری میں بہت خوبصورت ریک میں سامنے رکھی ہوئی تھیں تو ان پر اس نے قبضہ کرلیا کہ یہ میری ہیں، چنانچہ وہ اس کی ہوگئیں۔ اس کا ایک صندوق تھا، اس نے وہ ساری کتابیں اپنے صندوق میں بھر دیں اور پھر انہیں پڑھنا شروع کیا۔ مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب کی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں بڑی اچھی باتیں ہوتی ہیں۔ جب اس نے پڑھنی شروع کیں تو ما شاء اللہ انہوں نے اثر کرنا شروع کردیا اور الحمد للہ اس میں تبدیلی آگئی۔

پھر چونکہ میرا دارالعلوم کراچی آنا جانا ہوتا تھا تو میں نے مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب کو اطلاع کردی کہ میرے بیٹے کو ما شاء اللہ آپ کی کتابوں سے بڑا فائدہ حاصل ہوا، تو حضرت بہت خوش ہوئے اور ان کے لئے مجھے مزید کتابیں دے دیں اور ان کے لئے دعائیں کی۔ پھر جب ادھر پنڈی تشریف لائے تو میں اپنے دونوں بچوں کو ان کے پاس لے گیا تھا، وہ بڑے خوش ہوئے اور ان کو سو سو روپے بھی دیئے۔ یعنی ایک راستہ بن گیا۔ راستہ بننے کی ہی دیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزاج بدل سکتا ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی طرف رجوع بنیادی اور main چیز ہے۔ دجالیت کا حل صرف اور صرف روحانیت میں ہے اس کے علاوہ اس کا اور کوئی حل نہیں ہے۔ آپ بغیر روحانیت کے اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ ایک چیز کو ٹھیک کریں گے، دوسری خراب ہوجائے گی، دوسری کو ٹھیک کریں گے تیسری خراب ہوجائے گی، تیسری کو ٹھیک کریں گے تو چوتھی خراب ہوجائے گی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ابھی حال یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اپنے گھر میں بٹھا کر بھی مطمئن نہیں رہ سکتے، کیونکہ یہ چیزیں گھر میں بھی آگئی ہیں۔ گھر میں اگر نہیں بھی ہیں بچوں نے سکول یا مدرسے تو لازمی جانا ہوتا ہے، وہاں دوسرے ان سب چیزوں سے آگاہ ہوتے ہیں تو وہ بتا دیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ بچے اگر اللہ کی حفاظت میں نہ ہوں تو آپ ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ اس لئے سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اللہ کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور اللہ پاک سے مانگنا چاہئے۔ تہجد کے بعد کا مانگنا بہت قیمتی ہوتا ہے، اللہ ہمیں نصیب فرمائے۔

دوسری عرض یہ کرسکتا ہوں کہ حتی الوسع ان کے لئے نیک صحبت کا بندوبست کریں۔ ﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119) قرآنی حکم ہے۔ ان کے لئے باقاعدہ نیک صحبت کا راستہ بنانے کی فکر ہونی چاہئے۔ جب فکر ہوتی ہے تو راستے بنتے ہیں۔ جیسے مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب وغیرہ حضرات کے ساتھ ان کا رابطہ ہوگیا تو اللہ نے ان کو فائدہ پہنچایا۔ اس طرح ان کی بھی کسی کے ساتھ مناسبت نکل آئے گی۔ جس کے ساتھ بھی مناسبت نکل آئی، ان کو فائدہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ تیسری بات ان کو صحبت سوء سے حتی الوسع بچانا۔ حتی الوسع کا مطلب یہ ہے کہ جتنا آپ کے بس میں ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے دوستی کا معاملہ کرنا اور ان کو اپنا بنانا۔ کیونکہ اگر آپ نے اپنے بچوں کو دوست نہیں بنایا تو دوسرے ان کو دوست بنا لیں گے اور مسئلہ ہو جائے گا۔ آپ ان کے ساتھ اس طریقہ سے deal کریں کہ وہ کم از کم اپنے دل کی بات کسی اور سے کہنے کی بجائے آپ سے کہہ سکیں۔ اور ایسی باتیں جو بڑوں کی ہوتی ہیں وہ چھوٹوں میں ہونے لگیں تو اس کے لئے علاج کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنے گھر میں ایک تعلیم شروع کی جائے جس میں اللہ پاک کی عظمت، اللہ پاک کی بڑائی، اللہ پاک کی محبت، آپ ﷺ کی محبت، آپ ﷺ کی اتباع، پیروی اور ادب جیسی چیزوں پہ بات چیت چلتی رہے۔ یہ سب دو طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ ایک باقاعدہ تعلیم سے اور ایک indirect طریقے سے۔ یعنی باتوں باتوں میں مختلف طریقوں سے اس چیز کو سامنے لانا کہ یہ ہونا چاہئے۔

جب گھر میں یہ ہوتا ہے تو اس کے بعد ان کو پتا چل جاتا ہے۔ بہت ساری مائیں ما شاء اللہ اس طریقہ پہ چلتی ہیں اور ان کو بڑا فائدہ ہوا ہے۔ وہ بچوں میں یہ چیز پیدا کرلیتی ہیں کہ اس چیز سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، ان کو اگر اس چیز کا احساس ہو جائے کہ اللہ اس سے ناراض ہوگا تو پھر ان کو روکنے کے لئے یہ بات کافی ہوتی ہے کہ نہیں بیٹا، اس طرح نہیں کرتے، اس طرح نہیں کہتے، اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے، یہ بڑوں کی بات ہے چھوٹوں کی نہیں۔ جب چھوٹے کہتے ہیں تو اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر اس قسم کی باتیں انہوں نے پڑھی ہیں تو آپ اس سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس دلائل اور ثبوت ہوں گے تو صرف یہی بات ان کے لئے کافی ہو جائے گی کہ یہ بڑوں کی باتیں ہیں چھوٹوں کی نہیں ہیں۔ جیسے ہم نے اپنے بچوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ موبائل بڑوں کی چیز ہے، چھوٹوں کی نہیں۔ چھوٹوں کو اس سے بڑا نقصان ہوتا ہے اور اس سے اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور ادھر بھی درد ہو جاتا ہے، ادھر بھی درد ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ ان کو اس طرح سمجھانا کہ ان کو بات سمجھ میں آجائے۔ اس طرح آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ لیکن ٹھیک ہونے کا راستہ روحانیت ہے۔ اگر آپ اس راستے سے جائیں تو ان شاء اللہ العزیز فائدہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔

جنہوں نے یہ سوال کیا ہے یہ بڑے پتے کا سوال ہے، اب مجھے پتا ہے اس پہ مزید سوال آئیں گے کیونکہ یہ بہت General method ہے اور اس میں سب لوگ پریشان ہیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت جی! میرا ایک ماہ کا وظیفہ پورا ہوگیا جو یہ تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو اور اسم ذات تین ہزار۔ اس کے ساتھ غصے پر control کی مشق بھی شامل تھی۔ غصہ عموماً خلاف شرع کاموں پر آتا ہے۔

جواب:

یہ بڑی اچھی بات ہے۔ خلاف شرع امور پر غصہ آنا چاہئے لیکن غصہ مطلوب نہیں ہے۔ غصہ ایک کیفیت ہے جو انسان کے ساتھ attach ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے کام کیا لیا جائے؟ جواب یہ ہے کہ اس سے فکر پیدا ہونی چاہئے کہ میں غیر شرعی چیزوں کو کیسے ختم کروں۔ اگر غصہ سے ختم ہوتی ہیں تو بھلے غصے سے ختم کرلیں لیکن کیا آج کل غصے سے یہ باتیں ختم ہوتی ہیں؟ نہیں، بلکہ غصے سے یہ سب زیادہ ہو جاتا ہے کیونکہ reaction پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس غصے کو فکر میں تبدیل کیا جائے کہ میں اسے کس طریقے سے ٹھیک استعمال کروں۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے مثال کے طور پر گاؤں وغیرہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگ جو اگرچہ مخلص ہوتے ہیں، مگر وہ کبھی ایسی چیز دیکھیں جو ٹھیک نہیں ہے تو اس پر غصے سے ایسا ردعمل دیتے ہیں جس سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے بگڑ جاتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر کسی نے مسجد میں بایاں پیر پہلے رکھ دیا تو ظاہر ہے کہ اول تو یہ مستحبات میں سے ہے، واجبات اور مؤکدہ چیزوں میں نہیں ہے اور مستحب کا معاملہ یہ ہے کہ آپ اس کے ترک پہ کسی کو ملامت نہیں کرسکتے، صرف ترغیب دے سکتے ہیں اور ترغیب دینے کا راستہ ہمیشہ نرم ہوتا ہے، اس میں سختی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر اس بندے کو دوست بنا لیا جائے اور دوستی کے انداز میں بات کی جائے کہ اندر تو داخل ہونا ہے، دایاں پیر بھی پہلے اندر کرسکتے ہیں اور بایاں بھی اندر کرسکتے ہیں لیکن ہم اگر دایاں پیر پہلے اندر کرلیں تو ہمیں سنت کا ثواب مل جائے گا۔ ہمیں سنت پر عمل کے جتنے مواقع ملتے ہیں اور ہمارے لئے ممکن بھی ہو اور آسان بھی ہو یعنی اس میں کوئی مشکل بھی نہ ہو تو اس کو کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔ یعنی اس انداز میں ترغیب دی جاسکتی ہے۔ اور اس سے ان شاء اللہ العزیز فائدہ بھی ہوتا ہے۔ یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے۔ گاؤں میں اس کے برعکس ہوتا ہے، وہ غصے سے کہتے ہیں کہ یہ کیا کردیا؟ کیا اس طرح کرتے ہیں؟ وغیرہ۔ ایک بات میں عموماً اپنوں کے ساتھ کرتا ہوں کہ مثلاً assume کرلیتے ہیں جو شخص غصہ کر رہا ہے، اس کی تربیت ہوچکی ہے تو کیا اس کی تربیت فورًا ایک دن میں ہوئی ہے یا اس میں ٹائم لگا ہے؟ اچھا خاصا ٹائم لگا ہے۔ کیا اتنا ٹائم کسی اور کا حق نہیں ہے کہ وہ بھی بات سمجھنے کے لئے کم از کم اتنا ٹائم لے؟ کم از کم ہم تو سمجھ سکتے ہیں کہ اتنا وقت لگتا ہے۔ اس لئے ہم اس کو کہہ دیں کہ اس سے فوراً ٹھیک ہونے کا تقاضا نہ ہو بلکہ اس کے سامنے بہتر طریقہ سے بات لائی جائے، اس طرح ممکن ہے کہ ان شاء اللہ العزیز وہ ہماری نسبت زیادہ جلدی اس کو pick کرلے اور اس کو زیادہ بہتر طریقہ سے لے لے۔ اس لئے غصے کو فکر کی صورت میں transfer کیا جائے اور اس کو بطور assignment لے لیا جائے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ یہی غصہ بہت کام کا بن جائے گا۔ کیونکہ خلاف شرع امور پر غصہ آنا تو عین مطلوب ہے۔

مجھے کسی خاتون نے پرسوں سوال بھیجا تھا کہ آج کل یہ جو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی ہوتی ہے اور دوسرا آج کل انڈیا کی طرف سے وہاں مسئلہ چل رہا ہے تو مجھے بڑا غصہ آتا ہے۔ میں اسے اس وقت کوئی جواب نہیں دیا لیکن آج مجھے اس کا میسج آیا کہ مجھے جواب مل گیا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو تو میں نے جواب نہیں دیا تو آپ کو کہاں سے جواب مل گیا؟ کہتی ہیں کہ آپ نے فلاں وقت جو بیان کیا تھا، وہ باقی تو میں نہیں سنا لیکن جو حصہ میں نے سنا اس میں جواب موجود تھا۔ میں نے کہا چلیں شکر ہے، اللہ پاک نے آپ کا بھلا کردیا کہ آپ کو جواب مل گیا۔ یہی چیز جو میں عرض کر رہا ہوں کہ ایسی چیزوں پہ غصہ عین ایمان کا تقاضا ہے، نہیں ہوگا تو یہ خطرناک بات ہوگی، لیکن اس وقت ہمیں calculate کرنا چاہئے کہ کیا چیخنے سے کام بنتا ہے یا کیا لڑنے سے کام بنتا ہے۔ کون سا طریقہ ہے جس سے کام بنے اور فائدہ ہو۔ اس کے لئے plan کیا جائے۔ مثال کے طور پر احتجاج بھی ایک طریقہ ہے۔ صحیح طریقہ سے احتجاج کیا جائے اور اپنی آواز کو مؤثر لوگوں تک پہنچا دیا جائے اور ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کیا جائے جو اس قسم کے کام کرتے ہیں اور ان کے لئے جہاں تک ہوسکے راستے بند کردیئے جائیں۔ بجائے چیخنے کے ہم یہ سارے کام کرسکتے ہیں۔ ہم چیخیں بھی اور ساری چیزیں بھی ان کی کھائیں تو ان کو آپ کے چیخنے سے کیا نقصان ہوگا؟ الٹا ان کو ہنسنے کا موقع ملے گا کہ آپ نے خود کو ان کا محتاج بنا دیا ہے۔ وہ تو خوش ہوں گے کہ دیکھو ہم نے ان کو کتنا تنگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ شیطان بھی اس سے خوش ہوگا۔ ان کی حرکتوں پر غصہ آنا عین ایمان ہے لیکن غصہ کو اتنا ظاہر نہ کریں، صرف احتجاج کی صورت میں کرلیں۔ ایسا step لیں جس سے وہ خود سوچنے پہ مجبور ہو جائے کہ میں نے غلط کیا، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اور خود واپس ہو جائے۔ بہرحال یہ طریقہ زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ بہرحال یہ بڑا لمبا topic ہے، اس وقت مختصر جواب یہی ہے۔

سوال نمبر 6:

حضرت السلام علیکم، میرا نام فلاں ہے، میری فلاں بیٹی ما شاء اللہ اگلے مہینے بارہ سال کی ہو جائے گی، اس کے لئے ذکر عنایت فرما دیں۔

اس کے علاوہ میری ساس نے تقریباً پندرہ رمضان کو مراقبہ شروع کیا تھا، صرف ایک دن ناغہ کے علاوہ ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ دس منٹ لطیفہ قلب اور پندرہ منٹ لطیفہ روح کا مراقبہ تھا۔ کیفیت یہ بتاتی ہیں کہ دونوں جگہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اشراق، اوابین اور فوت شدہ نمازیں بھی قضا کرتی ہیں۔ مسنون ذکر بھی ہو جاتا ہے۔ قرآن تو مکمل نہیں کیا لیکن تھوڑا تھوڑا روزانہ پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

جواب:

ما شاء اللہ! بہت اچھا ہے۔ اب آپ اس طرح کریں کہ بیٹی کو ابتدائی وظیفہ یعنی تیسرے کلمہ کا پہلا حصہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ تین سو دفعہ اور دو سو دفعہ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ ایک sitting میں ایک وقت مقرر کرکے چالیس دن تک کروا دیں۔ اور آپ کی ساس جو کر رہی ہیں اس سے ما شاء اللہ بہت خوشی ہوئی۔ ان کو بتا دیں کہ یہ مراقبہ اب لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پر دس دس منٹ اور لطیفہ سر پہ پندرہ منٹ کریں۔ باقی جو کر رہی ہیں وہ ما شاء اللہ ٹھیک ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار ہمیشہ کے لئے سو سو مرتبہ جاری رہے گا۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم میرا نام فلاں ہے، میں نے آپ سے ایک ماہ کے لئے ذکر لیا تھا جو پورا ہوگیا ہے، وہ ذکر یہ تھا: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘۔

جواب:

ما شاء اللہ! بہت اچھا ہے، ابھی آپ اس کو پورا کرنے کے بعد پانچ منٹ کے لئے تصور رکھیں کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ دل کا مقام ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ کہاں پر ہے، بس اسی طرف توجہ کریں کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ زبان سے آپ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ نہیں کریں گے، زبان بند ہوگی، قبلہ رخ بیٹھے ہوں گے اور آنکھیں بھی بند ہوں گی۔ بس صرف توجہ اور تصور سے آپ یہ محسوس کریں گے کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، میرا نام فلاں ہے، تعلیم اتنی ہے اور شہر فیصل آباد سے تعلق ہے۔ میرا ذکر روزانہ کی تسبیحات، سو بار تیسرا کلمہ، سو بار ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘ ، سو بار درود ابراہیمی، لسانی ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ ہے۔ قلبی ذکر میں لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر دس منٹ، لطیفہ خفی دس منٹ، لطیفہ اخفیٰ دس منٹ اور مراقبہ احدیت پندرہ منٹ ہے۔ شیخ محترم مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری طبیعت میں سکون اور خاموشی ہے۔ بولنے کو بھی دل نہیں کرتا اور لوگوں میں بیٹھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ خدا کا تصور تو رہتا ہے لیکن کسی خیال کی کوئی واضح شکل نہیں آتی۔ پے در پے ایک کے بعد ایک خیال آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ ذہن کسی جگہ نہیں ٹکتا۔ شیخ محترم میں آپ کا بہت ممنون اور شکر گزار ہوں کہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے آپ نے اس طرح چلایا اور رہنمائی فرمائی۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پندرہ منٹ کا مراقبہ ہم ایک سے زیادہ دفعہ کرسکتے ہیں؟

جواب:

ما شاء اللہ! ابھی آپ جو مراقبہ احدیت کر رہے ہیں، اس کے فیض کا آپ کو ادراک ہونا شروع ہوگیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے دل کی طرف فیض ہی آرہا ہے۔ اب آپ نے اس کو تھوڑا سا آگے بڑھانا ہے۔ آپ نے اب یہ تصور کرنا ہے کہ خاص فیض یعنی اس کا فیض کہ اللہ پاک سب کچھ کرتا ہے، اس کا فیض اللہ پاک سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفہ قلب پر آرہا ہے۔ یہ آپ نے ایک مہینے تک پندرہ منٹ روزانہ کرنا ہے۔ باقی چیزیں وہی ہیں، صرف مراقبہ احدیت تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ مراقبے پندرہ منٹ کیے جاتے ہیں، فی الحال آپ ان شاء اللہ اتنا ہی کرلیں۔ اس کے علاوہ آپ بغیر کسی توجہ کے لسانی ذکر جتنا زیادہ کرسکیں، کرلیا کریں۔ فی الحال یہی کریں، پھر ان شاء اللہ اس کے بعد بتائیں گے۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت جی میں پشاور سے آپ کی فلاں مرید بات کر رہی ہوں۔ حضرت جی مجھے یہ مراقبہ کرتے ہوئے تقریباً تین سے چار ماہ ہوگئے ہیں کہ پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر کرنا تھا، اس کے بعد پندرہ منٹ یہ تصور کرنا تھا کہ اللہ ہر وقت میرے ساتھ ہے اور میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ کس طرح میرے ساتھ ہے یہ وہی جانتا ہے۔ حضرت جی غلطی اور گناہ تو بہت سرزد ہوتے ہیں لیکن اللہ کا بہت شکر ہے کہ فوراً توبہ کی توفیق مل جاتی ہے اور ہر وقت اور ہر لمحہ اس کی طرف دھیان رہتا ہے۔ چاہے میں کسی کام میں کیوں نہ مصروف ہوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی میرے اندر رہتا ہے اور میرے اندر سے جھانک رہا ہے، تو پھر میں کہاں ہوں۔ دن میں کئی مرتبہ موت کی یاد آتی ہے، اس دنیا میں دل نہیں لگتا اور اوپر جانے کی بہت تمنا ہے۔ اپنے رب سے ملنے کی بہت خواہش ہے، لیکن اس سب کے درمیان جو موت حائل ہے اس سے بہت ڈر لگتا ہے۔ حضرت جی میری طبیعت اکثر بہت خراب رہتی ہے کیونکہ گھر کا کام بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر مراقبہ کا ناغہ ہو جاتا ہے، جس کا مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ اب آپ سے گزارش ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تو مجھے آگے کا سبق دے دیں کہ مجھے اور کیا مراقبہ کرنا ہوگا۔

جواب:

دراصل اس وقت آپ کی جو حالت ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے، یہی مطلوب ہے۔ آپ کے لئے یہ مراقبہ کافی ہے۔ آپ پانچ پانچ منٹ کے لئے پانچوں مقامات پر جو ذکر محسوس کر رہی ہیں یہ اسی طرح رکھیں، اور یہی مراقبہ معیت بھی اس طرح ہی رکھیں۔ جب آپ کو وقت ملے بھلے کام کے دوران، اللہ پاک سے دل ہی دل میں مانگنا شروع کرلیں، امید ہے کہ یہ ان شاء اللہ آپ کے لئے بہت مفید ہوگا۔ پھر مجھے ایک مہینے کے بعد اطلاع کردیں کہ کیا صورتحال ہے۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم حضرت، میں پوری طرح سے صِفر ہوگیا ہوں۔ شاید کوشش بھی صحیح نہیں کی۔ آپ نے تین ماہ سے شیونات ذاتیہ کا ذکر دیا تھا، جس میں دو ماہ سے ناغہ ہورہا ہے۔ شرم کے مارے آپ سے رابطہ کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ دعا کی بہت ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ حج پر بیوی کو لے جا رہا ہوں، کوشش ہے کہ 28 جون کے دن آپ کی زیارت کے لئے آؤں اور جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کرلوں۔

جواب:

جانے سے پہلے ضرور تشریف لایئے کیونکہ اس میں آپ کا بڑا فائدہ ہے۔ اس وقت آپ کے ساتھ ان شاء اللہ کچھ چیزیں discuss ہو جائیں گی۔ البتہ اگر آپ یہ تین ماہ شیونات ذاتیہ کا مراقبہ فی الحال نہیں کرسکتے تو فے الحال پندرہ منٹ کے لئے یہ مراقبہ کرلیا کریں کہ آپ زبان سے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں اور دل سے تصور کرلیں کہ اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس سے ان شاء اللہ باقی چیزیں بھی چل پڑیں گی۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت! میرا ذکر چار ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنے کا ہے۔ مزید رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

اب آپ یہ ساڑھے چار ہزار مرتبہ کرلیں۔

سوال نمبر 12:

Reminder for next ذکر:

حضرت السلام علیکم

I have been reciting ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ eight and half thousand times followed by ‘‘یَا اَللہُ یَا سُبْحَانُ یَا عَظِیْمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَھَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِیْ یَا سَلَامُ’’ hundred times followed by ‘‘یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ’’ ten times. Kindly advise the next ذکر.

جواب:

Now you should do nine thousands ‘‘اَللّٰہ اَللّٰہ’’ and the rest will be the same. ان شاء اللہ

سوال نمبر 13:

السلام علیکم حضرت جی، میرا وظیفہ زبان پر تین ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، تین مرتبہ آیت الکرسی اور آدھا گھنٹہ دل پر مراقبہ تھا، اس کا ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ مراقبے میں ابھی پہلے کی طرح بائیں طرف پسلی کے نیچے خالی محسوس ہوتا ہے۔ حضرت جی اس مہینے مجھ سے تین مرتبہ وظیفہ رہ گیا ہے، کیونکہ میں سفر میں تھی، پہلے ڈی آئی خان سے وزیرستان چلی گئی اور پھر واپس ڈی آئی خان اور پھر وہاں سے اپنے شوہر کے ساتھ کوئٹہ چلی گئی۔ اس آنے جانے کے لئے تیاریوں میں مجھ سے وظیفہ رہ گیا، جس کی وجہ سے پہلے جو تاثرات تھے وہ ویسے نہیں ہیں اور پہلے کی طرح زیادہ محسوس نہیں ہوتا۔ کوتاہیوں پر معافی چاہتی ہوں۔

جواب:

اب آپ اس طرح کریں کہ جہاں سے آپ نے وظیفہ چھوڑا تھا وہیں سے دوبارہ شروع کرلیں اور بغیر ناغے کے ایک مہینہ پورا کرکے مجھے اطلاع کردیں۔

سوال نمبر 14:

جب کسی موقع پر صبر کرنا ہوتا ہے تو جیسے دل پر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے اور بہت شاق لگتا ہے۔ اس کے لئے کیا کروں؟

جواب:

صبر کی definition ہی یہی ہے۔ ہمارے پشتو میں کہتے ہیں: په جنګ کښې حلواګانې نه تقسیمیږی یعنی جنگ میں حلوہ تقسیم نہیں ہوتا۔ صبر اپنے نفس کے ساتھ جنگ ہے، اس میں بھی حلوہ تقسیم نہیں ہوتا۔ صبر میں اس طرح ہوتا ہے، بہرحال یہ جتنا آپ کے لئے سخت ہے اتنا ہی اس پہ اجر بھی ہے، قرآن پاک میں ہے:

﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ۝ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ - وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156۔157)

ترجمہ1: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔

یعنی صبر مشکل ہوتا ہے لیکن جو چاہتے ہیں ان کو مل جاتا ہے

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

I pray and hope you are well dear Sheikh. This is فلاں from the UK. Sheikh, I have been wanting to contact you for the whole month but every Sunday, شیطان would keep delaying me for one reason or the other until I missed the opportunity to message. ان شاء اللہ I will never let this happen again.

I have been doing the following ذکر for around three months ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times ‘‘حَقْ’’ six hundred and ‘‘اَللّٰہ’’ thousand times. I feel all parts of ذکر and my eyes cheer up throughout even though I feel my concentration is poor. Also the biggest changes I have experienced recently are as follows:

No. 1: My eyes cheer up a lot اَلْحَمْدُ للہ during various اعمال such as during almost every Salah, I do dua and تلاوت.

No. 2: My focus and love towards Salah has increased overall اَلْحَمْدُ للہ. Salah has truly started to feel like the most important part of my life. I get depressed if I miss my جماعت but even if I feel it is the most important part of my life, I am angry and upset. I get peace and سکون from praying Salah in the مسجد. Kindly advise next.

I also have two questions dear Sheikh.

No. 1: How does health and exercise affect our روحانیت and closeness to اللہ سبحانہ و تعالیٰ? I ask this because a lot of people either take care of their health or spend a lot of time in the gym and dieting.

No. 2: To motivate and inspire others, can we tell other people about our own عبادات? For example, to inspire others to make dua by telling them about dua from اللہ تعالیٰ.

جواب:

ما شاء اللہ! بڑی خوشی ہوئی۔ الحمد للہ یہ بڑے اچھے حالات ہیں، اللہ تعالیٰ مزید توفیقات نصیب فرمائے۔ آپ نے تمام مقامات پر جو ذکر محسوس کیا ہے، اس کے بعد کیا میں نے آپ کو مراقبہ احدیت دیا تھا، اس کے بارے میں مجھے تھوڑا سا بتا دیں، کیونکہ اس سوال میں مجھے نظر نہیں آرہا واللہ اعلم بالصواب، اس کے بعد کچھ بتا سکوں گا۔

باقی میں سوالات کے جوابات دے دیتا ہوں، مرد کے لئے exercise بالکل نا کرنا اور صحت سے غافل ہونا ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ فوری طور پہ تو اگرچہ اس کا نقصان نہیں ہے، لیکن آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو اس کا نقصان ہوتا جائے گا۔ اپنی صحت کو برقرار رکھنا لازم ہے۔ اس دور کے مجدد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ باقاعدہ صبح Morning walk کیا کرتے تھے، اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ سے وابستہ ہمارے مشائخ ما شاء اللہ باقاعدہ Morning walk کرتے ہیں۔ حضرت چونکہ حافظ تھے تو وہ چلتے چلتے تلاوت بھی کرتے تھے اور جتنی walk ہوتی تھی اس میں تلاوت چلتی رہتی تھی۔ ہم اگر حافظ نہیں ہیں تو ہم ذکر کرسکتے ہیں لیکن اس میں اتنا زیادہ بھی involve نہیں ہونا چاہئے کہ بس یہی مقصد بن جائے۔ جیسے کھیل تفریح کا ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی تفریح کو اصل کام بنا لے تو ٹھیک اور مناسب نہیں ہے۔ اس لئے اعتدال لازمی ہے۔ اپنی صحت کا خیال ضرور رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ کسی ایسے ڈاکٹر سے مشورہ لے کر جو اس چیز کو جانتا ہو، جتنی آپ کے لئے ضروری ہے اتنی روزانہ کرلیا کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ motivate کرنا اچھا کام ہے لیکن اپنی بات کے دوران اپنا حال ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ کسی اور بزرگ کا حوالہ دے دیا کریں جن کے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ اس طرح کرتے تھے۔ اس سے ما شاء اللہ اپنی بچت ہو جاتی ہے اور ان کو بھی فائدہ ہو جاتا ہے۔ مذاکرہ میں جو لوگ کارگزاری بیان کرتے ہیں اس میں یہ ہے کہ بجائے اپنے احوال بتانے کے آپ دوسروں کی باتیں کرکے اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ بس اپنا حال ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔ اب دیکھیں، میں آپ کا نام نہیں لے رہا، حالانکہ میں آپ کی ساری باتیں یہاں کر رہا ہوں، نام نہ لینے کی وجہ یہی ہے کہ اس سے آپ کا حال ظاہر ہو جائے گا اور آپ کو نقصان ہو جائے گا۔ اس وجہ سے ہم لوگ اس کو پردے میں رکھتے ہیں، اس لئے آپ خود بھی اس کو پردے میں رکھیں۔ اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم حضرت امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ پاک آپ کی جان و مال میں برکت دے۔ گزشتہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ نماز تراویح کی پابندی رہی، تہجد پورا رمضان ادا کی، اور قرآن کی تلاوت مستقل طور پر کی آپ کی دعا سے۔ مگر رمضان میں جو میری حالت تھی، اب اس طرح نہیں ہے۔ تہجد میں بھی کمزوری ہوگئی ہے اور تلاوت قرآن پاک میں بھی۔ آپ کی برکت سے آپ سے لیا ہوا ذکر کر رہا ہوں جس میں بارہ تسبیح، پانچ سو مرتبہ اللہ کے نام کا ذکر، دس منٹ لطیفہ قلب پر، دس منٹ لطیفہ روح پر، دس منٹ لطیفہ سر پر اور پندرہ منٹ لطیفہ خفی پر مراقبہ۔ حضرت صاحب! مراقبہ میں یکسوئی نہیں رہتی۔ میں research کا کام کر رہا ہوں، اس لئے ذہن پر ہر وقت وہی چیز سوار رہتی ہے حتی کہ نماز میں بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ لطائف پر اللہ کا ذکر محسوس ہوتا ہے۔ حضرت اگر میں فون پہ کوئی بات پوچھنا چاہوں تو آپ کے رابطہ والے اوقات میں یعنی بارہ سے ایک بجے تک regular PTCL پہ فون کروں یا Whatsapp پر؟ اگر کوئی غیر مناسب بات ہو تو مجھے بتا دیں۔

جواب:

ما شاء اللہ آپ نے بتا کر بہت اچھا کیا۔ تہجد میں دو وجہوں سے کمزوری ہوسکتی ہے ایک تو رمضان شریف کی اپنی برکت ہے کہ سحری کے لئے لوگ اٹھتے ہیں تو تہجد کی نماز بھی ہو جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے فوراً بعد گرمیاں آئیں اور گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں، چنانچہ راتیں چھوٹی ہونے میں یہ مسئلہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے پاس بعد میں اپنی نیند پوری کرنے کے وسائل ہیں تو پھر پڑھنی چاہئے اور اگر بعد میں نہیں ہیں اور آپ کے کاموں میں حرج ہوتا ہے تو اس کے لئے یہ طریقہ ہے کہ عشاء کے بعد وتر سے پہلے آپ چار رکعت تہجد کی نیت سے پڑھ لیا کریں اور اگر زوال سے پہلے آپ کو وقت مل جائے تو چار رکعت چاشت کی نماز بھی پڑھ لیں۔ اس سے ان شاء اللہ کسی حد تک compensation ہو جائے گی۔ باقی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ دوسرے اعمال میں سستی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ نے لطیفہ خفی پر ذکر کا بتایا ہے، اب آپ دس منٹ لطیفہ قلب، دس منٹ لطیفہ روح، دس منٹ لطیفہ سر، دس منٹ لطیفہ خفی اور پندرہ منٹ لطیفہ اخفیٰ پہ شروع کریں۔ باقی research کے کام میں واقعی یہ حالت ہوتی ہے، لیکن جب آپ نماز میں تکبیر تحریمہ ’’اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ کہیں تو سمجھیں کہ میں نے پوری research پیچھے پھینک دی، اب اس کے بارے میں نہیں سوچنا اور صرف نماز میں کھڑا ہونا ہے۔ اور صرف اللہ کی طرف توجہ کریں۔

اگر آپ نے کوئی بات پوچھنی ہو تو بہتر یہ ہے کہ اگر فوری جواب چاہئے تو PTCL پہ پوچھیں، لیکن اب ہمارا ٹائم دو سے تین بجے تک ہے۔ بارہ سے ایک بجے تک پرانا ٹائم تھا، اس میں نمازوں کے اوقات کی وجہ سے مسائل آرہے تھے اس لئے اب ہم نے ایسا ٹائم set کرلیا ہے کہ گرمیوں سردیوں دونوں اس پہ چل سکیں گے۔ کیونکہ ہمارے یہاں ظہر کی نماز پونے دو بجے ہے، اس کے فوراً بعد یہ وقت شروع ہو جاتا ہے تو اس میں ان شاء اللہ change نہیں آئے گا۔ اگر آپ نے فوراً جواب لینا ہو تو PTCL پہ کریں، نہیں تو آپ Whatsapp پر بھی ان شاء اللہ العزیز پوچھ سکتے ہیں۔ یہ آپ مجھے اسی نمبر پہ بھیج دیجئے گا، پچھلی دفعہ آپ نے دوسرے پہ بھیجا تھا۔

سوال نمبر 17:

میں فلاں from بہاولپور، السلام علیکم حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے تھے ان کو اَلْحَمْدُ للہ ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے۔ حضرت! میں کچھ دن اذکار کی تعداد مکمل نہیں کرسکا۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ میرا ذکر یہ تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے پانچ ہزار مرتبہ اور اس کے ساتھ پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔ لیکن حضرت ابھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہا ہے۔

جواب:

کوئی بات نہیں، اب آپ اللہ چھ ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی اذکار ویسے ہی رکھیں، مراقبہ بھی پانچ منٹ کریں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم حضرت جی! آپ نے مجھے مندرجہ ذیل اذکار دیئے تھے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چار سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ۔ یہ ذکر ملے ہوئے تیس دن سے زیادہ ہوگئے لیکن ذکر میں غفلت بہت زیادہ ہورہی ہے۔ پورے مہینے میں کچھ دن ہی ذکر ہوا، اس کے لئے مسنون تسبیحات کی گئیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ذکر پورا کروں لیکن نفس اور شیطان کا بہت زیادہ غلبہ ہے۔

جواب:

نفس اور شیطان کا غلبہ ہے لیکن اس سے بچنے کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو جو ذکر دیا تھا آپ وہ بھی نہیں کر پا رہے، تو پھر میرے پاس کیا علاج ہے؟ یہاں سے دم وغیرہ بھی نہیں ہوسکتا اور ان چیزوں کے ہم قائل بھی نہیں ہیں۔ اس کے لئے تو خود کو محنت کرنی ہوتی ہے۔ اگر آپ محنت کے لئے تیار نہیں تو پھر مجھے کیوں لکھ رہے ہیں؟ جب آپ محنت کے لئے تیار ہو جائیں تو پھر مجھے لکھیں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت اقدس امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے۔ آپ نے بندہ کو ایک مہینے کے لئے جو ذکر دیا تھا اس کو بندہ نے بلاناغہ اَلْحَمْدُ للہ پورا کر لیا ہے۔ وہ ذکر یہ ہے: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور اس کے ساتھ دس دس منٹ تک لطیفہ قلب اور لطیفہ سر، اور پندرہ منٹ تک لطیفہ خفی کا مراقبہ۔

جواب:

اب آپ باقی چار لطائف پہ دس دس منٹ اور لطیفہ اخفیٰ پر پندرہ منٹ کرلیں اور ان شاء اللہ ایک مہینہ کے بعد بتائیں۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم حضرت جی، آپ کی خیریت چاہتا ہوں اور آپ کی بلندی درجات کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ اور تین سو مرتبہ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہْ‘‘ مکمل ہوگیا ہے۔

جواب:

ابھی آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ سو مرتبہ کریں۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

نمبر 1:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ۔ یہ مراقبہ تین ماہ تک کرلیا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ اس مراقبہ سے اس کی کیفیت میں پختگی آئی ہے کہ اپنا آپ عمل کے اعتبار سے ہر کسی سے کمتر نظر آتا ہے۔ کسی کو ظاہراً برائی پر بھی دیکھ لوں تو یہی خیال آتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی ایسی خوبی ہو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس سے بڑے درجہ پہ فائز ہو اس لئے برائی سے تو نفرت کرتی ہوں لیکن برائی کی وجہ سے اس شخص سے نفرت نہیں کرتی۔ اس ماہ کے شروع میں جب نماز پڑھتی تھی تو یوں لگتا تھا کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے اور ایک خاص قسم کی تجلی مجھ پر پڑ رہی ہے، لیکن اب ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یکسوئی بہت کمزور ہوگئی ہے نہ مراقبہ میں یکسوئی ہوتی ہے نہ نماز میں، خیالات پراگندہ رہتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں بہت بگڑ گئی ہوں اور میری اصلاح نہیں ہورہی۔

جواب:

ما شاء اللہ، آپ ابھی اسی مراقبہ کو توجہ کے ساتھ جاری رکھیں، ان شاء اللہ یہ چلتا رہے گا اور اس کی برکات آپ کو ملتی رہیں گی۔

نمبر 2:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ۔ کچھ محسوس نہیں ہوتا، اس لئے دو ماہ یہ مراقبہ کیا ہے۔

جواب:

ابھی آپ اس کو ایک مہینہ اور کرلیں۔

نمبر 3:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ۔ یہ مراقبہ دو ماہ کرلیا اور اس مراقبہ سے ہر کسی کے لئے دل بہت صاف ہوگیا ہے چاہے جیسا معاملہ بھی کوئی کرے دل میں اس کے بارے میں پہلے کی طرح برائی نہیں آتی، صرف وقتی طور پر غم ہوتا ہے۔ جب نماز پڑھتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں حرم شریف میں نماز پڑھ رہی ہوں اور اس کے اردگرد سفید کبوتر نظر آرہے ہوتے ہیں۔ تنہائی پسند ہوگئی ہوں اور لوگوں میں تنگ ہوتی ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ بہت اچھا ہے۔ ابھی ان شاء اللہ العزیز مراقبہ حقیقت صلوٰۃ شروع کرلیں۔

نمبر 4:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ۔ اس مراقبہ کو ایک ماہ کرلیا ہے۔ نماز پڑھتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ میرے سامنے ہے۔ وہاں جانے کا شوق دل میں بڑھ گیا ہے، تنہائی پسند ہوگئی ہوں اور لوگوں میں دل تنگ ہوتا ہے۔ اس بات کا یقین پختہ ہوا کہ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود اس مراقبہ سے مطمئن نہیں ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ، آپ جو مراقبہ کر رہی ہیں یہ صحیح ہورہا ہے۔ ابھی آپ مراقبہ حقیقت صلوٰۃ شروع فرمالیں۔

نمبر 5:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ۔ اس مراقبہ کے دوران ایک دن یہ منظر دیکھا کہ شفاف پانی اوپر سے نیچے کی طرف گر رہا ہے۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے مسائل پڑھ رہی تھی تو دل میں خانہ کعبہ جانے کا بہت شوق پیدا ہوگیا، اس کے علاوہ اور کچھ محسوس نہیں ہورہا۔

جواب:

اس کو ایک مہینہ مزید کر لیں۔

نمبر 6:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ پندرہ منٹ ایک ماہ کرلیا ہے۔ خانہ کعبہ کی عظمت دل میں بڑھ گئی ہے اور یہ بات دل میں پختہ ہوگئی ہے کہ خانہ کعبہ صرف پتھروں کا ایک کمرہ ہے اور اس کی عظمت کی اصل وجہ اللہ تعالیٰ کی تجلی مسجودی ہے جو اس پر پڑتی ہے۔ اس مراقبہ کی وجہ سے حقیقت صلوٰۃ کا مراقبہ پختہ ہوگیا ہے۔

جواب:

سبحان اللہ، ماشاء اللہ، یہ ایک مہینہ مزید بھی کرلیں۔

نمبر 7:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور نماز میں مراقبہ احسان۔ اس مراقبہ کو پانچ ماہ ہوگئے ہیں۔ نمازوں میں توجہ بڑھ گئی ہے اور فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام بھی کرنے لگی ہوں۔ دل ہر وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے اپنی غلطیوں پر نظر پڑ گئی ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ، اس کو ابھی ایک مہینہ مزید کرلیں۔

نمبر 8:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور نماز میں حقیقت صلوٰۃ، حقیقت کعبہ اور حقیقت قرآن کو محسوس کرنا۔ نماز میں یہ حالت طاری ہوتی ہے۔ پہلے نمازوں میں زیادہ سورتیں نہیں پڑھتی تھی اور اب زیادہ سورتیں پڑھتی ہوں تو بہت حلاوت محسوس ہوتی ہے۔ غیر محرم سے نظر کی حفاظت کرتی ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ، جب قرآن پڑھیں تو مراقبہ حقیقت قرآن سامنے رکھیں اور جب نماز پڑھیں تو مراقبہ حقیقت صلوٰۃ سامنے رکھیں اور چونکہ نماز میں کعبہ کی طرف رخ ہوتا ہے، اس لئے اس میں حقیقت کعبہ کی practice بھی کرلیا کریں۔

نمبر 9:

لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر دس منٹ اور لطیفہ خفی پندرہ منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! ابھی لطیفہ اخفیٰ پر پندرہ منٹ اور باقی لطائف پر آپ دس دس منٹ ذکر محسوس کیا کریں ۔

نمبر 10:

لطیفہ قلب دس منٹ۔ اَلْحَمْدُ للہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ابھی لطیفہ قلب دس منٹ اور لطیفہ روح پندرہ منٹ کرلیں۔

نمبر 11:

لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ اور لطیفہ سر پندرہ منٹ۔

جواب:

ابھی ان تینوں پر دس دس منٹ اور لطیفہ خفی پر پندرہ منٹ کرلیں۔

نمبر 12:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ بیس منٹ۔ دل نیکی کی طرف مائل رہتا ہے اور خوشی محسوس کرتی ہوں۔

جواب:

ما شاء اللہ، آپ اس کو ایک مہینہ مزید کرلیں۔

نمبر 13:

حضرت نے سوال نہیں پڑھا۔

جواب:

انہوں نے جو مراقبہ کیا ہے، ان کو بتا دیں کہ اب ان دونوں کو حقیقت کعبہ کے ساتھ جمع کرلیں اور ان دونوں کو بھی بتا دیں کہ اگر حقیقت قرآن کا مراقبہ نہیں کیا تو حقیقت قرآن کرلیں۔

سوال نمبر 22:

حضرت میرے آپ سے تین سوال تھے ایک آپ سے پوچھا تھا لیکن اس سوال کا جواب مجھے نہیں ملا۔ حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ اسی طرح خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ داتا علی ہجویری کی بارگاہ یعنی مزار پر چلہ کاٹنے جاتے تھے۔ اس طرح یہ دونوں مرید بہت ٹائم بعد یعنی پچیس سال کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت ابوالحسن خرقانی حضرت بایزید بسطامی کے بعد پیدا ہوئے، اس طرح امام جعفر کے بھی بہت عرصہ بعد پیدا ہوئے ہیں تو یہ کس طرح ان کے مرید ہوئے؟

جواب:

دیکھیں، اگر کوئی صاحب نسبت ہو، یعنی جس کے نفس کی اصلاح ہو چکی ہو یا یوں سمجھ لیجئے کہ جس کے تینوں لطائف یعنی لطیفہ قلب، لطیفہ نفس اور لطیفہ عقل ایک جگہ پہ آچکے ہوں تو ایسا شخص قبر سے بھی فیض حاصل کرسکتا ہے۔ قبر سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان پہلے صاحب قبر کو ایصال ثواب کرتا ہے اور پھر تصور کرتا ہے کہ فیض آرہا ہے، اگر یہ شخص صاحب نسبت ہے تو وہ اس سے فیض اخذ کرنا شروع کرلیتا ہے۔ تو یہ اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی خاص مناسبت کی وجہ سے بعض حضرات کی طرف کوئی خاص روح خود ہی متوجہ ہو جائے اور پھر اس کی تربیت کرنا شروع کردے۔ ایسی نسبت کو اویسی نسبت کہا جاتا ہے، یعنی بعض لوگوں کی تربیت اویسی نسبت کے ذریعہ سے کروا دی جاتی ہے۔ جب اویسی نسبت سے ان کی تکمیل ہو جاتی ہے تو پھر کوئی زندہ شخص اس کو اجازت عطا فرما دیتے ہیں۔ تربیت ادھر سے ہوچکی ہوتی ہے، اجازت اس زندہ کی چلتی ہے، اس طرح یہ دونوں صورتیں ممکن ہیں۔

سوال نمبر 23:

بابا فرید گنج شکر کے معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ایک ملفوظ تھا کہ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص مرید ہونے کے لئے آیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کلمہ کس طرح پڑھتے ہو؟ اس نے کہا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ چشتی رسول اللہ پڑھو۔ اور بعد میں فرمایا کہ حال کی کیفیت کی وجہ سے میں نے تمہیں یہ بات کہی ہے۔ حضرت! کیا یہ ملفوظ صحیح ہے؟

جواب:

میں اس کو خود سیاق و سباق کے ساتھ دیکھ کر اس کے اوپر بات کروں گا، میں اس طرح غیر محتاط انداز میں اس قسم کی بات نہیں کرتا۔

سوال نمبر 24:

بریلوی حضرات نے دیوبند کے اکابرین مثلًا مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف فتوے دیئے ہیں اور بدعتیں بھی ایجاد کیں، پھر بھی ان سے کرامات کا ظہور ہوا۔ حضرت مجھے اس چیز کی سمجھ نہیں آئی کہ بدعتی لوگوں سے کرامات کیسے صادر ہوسکتی ہیں؟

جواب:

دراصل کرامات الگ چیز ہیں اور شعبدہ بازیاں الگ چیز ہیں۔ شعبدہ بازی کافروں کے ہاتھ سے بھی ہوجاتی ہیں۔ ہم ہر چیز کو کرامت نہیں کہہ سکتے، کرامت شریعت پر چلنے والے شخص سے انہونی بات کے صدور کو کہتے ہیں۔ حالانکہ بدعت شریعت کی سخت مخالفت ہے، کیونکہ فرمایا: ”کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ“ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 224) یعنی ہر بدعت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ لہٰذا ایک بدعتی شخص کے ہاتھ سے کرامت نہیں ہوسکتی۔ کبھی کبھار کوئی شخص بدعتی نہیں ہوتا لیکن اس کو بدعتی کہا جاتا ہے تاکہ عام لوگ جو فرق نہیں سمجھ پاتے وہ لوگ اس سے متنفر ہوں۔ جیسے مثال کے طور پر آپ نے ابھی ایک بات پوچھی تو میں نے کہا کہ میں بغیر خود پڑھے اس پہ بات نہیں کر رہا۔ بعض اوقات ایک چیز بدعت نہیں ہوتی، لیکن اس کو چونکہ عوام نہیں جانتے، لہٰذا اس وجہ سے ان کو بدعتی کہہ دیتے ہیں۔ وہ وقتی بات ہوتی ہے، اور خود ان کی دل سے قدر کرتے ہیں، لیکن لوگوں کو بچانے کے لئے کہہ دیتے ہیں۔ جیسے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو ایک محتسب بدعتی کہتے تھے، حالانکہ دل سے ان کی بڑی قدر کرتے تھے، لیکن چونکہ ان کی چیزیں لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہی تھیں تو اس لئے انہیں بدعتی کہہ دیا۔ لہٰذا بعض دفعہ اس طرح ہوتا ہے، لیکن جو لوگ واقعی بدعتی ہوں، ان کے ہاتھ پہ کرامت نہیں ہوتی بلکہ استدراج ہوتا ہے۔ آپ اس کتاب کا نام اور یہ ملفوظ مجھے Whatsapp کردیں تو پھر اس کا جواب دوں گا۔

سوال نمبر 25:

ایک بھائی نے ایک کتاب میں دیکھا، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق اس میں لکھا ہوا تھا کہ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ حضور پاک علیہ السلام اور مولانا پل صراط پہ چل رہے ہیں اور مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی پاک علیہ السلام کو پل صراط سے گرنے سے بچا لیا۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ تو بہت ہی غلط بات ہے۔ میں نے کہا اگرچہ خواب شرعی حجت نہیں ہوتے لیکن اس کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے انہوں نے اپنے دور میں نبی پاک علیہ السلام کی سنتوں کو زندہ کیا ہے۔

جواب:

جی! مولانا نے امت پہ کام کیا اور امت کو گرنے سے بچا لیا اور ما شاء اللہ جو دیوبند کی علمی طور پہ خدمت ہوئی، اس کی طرف اشارہ ہے۔ دیکھیں! بعض لوگ تعصب میں آکے بہت باتیں پھیلا دیتے ہیں۔ مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ وہ ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘ کہنا چاہتے ہیں، لیکن اس کی زبان سے بار بار ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ اَشْرَفْ عَلِیْ رَسُوْلُ اللہِ‘‘ نکلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنی زبان کو روک رہا ہوں کہ یہ زبان سے کیا نکل رہا ہے، لیکن زبان سے پھر بھی یہ نکل رہا ہے۔ وہ اس سے بہت گھبرا کر خواب سے جاگ گئے اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ جس کا تم نام لے رہے ہو اس کے بارے میں تمھیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ شخص متبع سنت یعنی آپ ﷺ کا تابعدار ہے۔ اب دیکھیں یہ ایک اچھی تعبیر ہے۔ دوسرا چونکہ یہ خواب کا واقعہ ہے اور خواب میں تو انسان مکلف ہی نہیں ہوتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ تین لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک وہ شخص بھی شامل ہے جو نیند میں ہو۔ جب اس سے تو قلم اٹھا لیا گیا ہے تو اس کی کسی بات پر اللہ پاک گرفت نہیں کرتے، چاہے وہ اچھی چیز دیکھے یا بری چیز دیکھے۔ لیکن مخالفین نے کہا کہ یہ لوگ خود کو پیغمبر مانتے ہیں، اس لئے مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرید کو کچھ نہیں کہا اور نا اس پر سختی کی۔ حالانکہ جب اس کی کسی بات پر خود اللہ پاک گرفت نہیں کرتے تو انسان کیوں گرفت کرے؟ اس سے معلوم ہوا کہ یہ محض تعصب ہے۔ اس کا مولانا سرفراز خان صفدر صاحب نے بڑا عجیب جواب دیا ہے، انہوں نے کہا کہ ان لوگوں میں سے کسی شخص نے اپنے فرقے کے ایک بڑے شخص کی وفات کے بعد خواب دیکھا کہ آپ ﷺ اس کے جنازے میں شرکت فرمانے تشریف لا رہے ہیں۔ جب اس نے اپنے فرقے کے سربراہ کو (میں اس کا نام نہیں لیتا، کیونکہ لوگ اس کو خوامخواہ مخالفت سمجھ لیتے ہیں) خط میں یہ خواب لکھا تو اس نے کہا کہ اَلْحَمْدُ للہ، وہ جنازہ میں نے پڑھایا تھا۔ حضرت نے کہا کہ آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے اس نے جنازہ پڑھایا تو اس پر اس کو شرم نہیں آرہی تھی؟ کیا یہ بے ادبی اور گستاخی نہیں تھی؟ اور ادھر جو بیچارہ کہہ رہا ہے کہ اس نے خواب میں بھی control کرنا چاہا لیکن چونکہ خواب میں انسان کو control نہیں ہوتا اس لئے نہیں ہوسکا۔ اللہ پاک بھی اس پر گرفت نہیں کر رہے لیکن پھر بھی یہ لوگ اس پر اتنا شور مچا رہے ہیں، تو اصل بات تعصب کی ہے، اور تعصب کا کوئی جواب نہیں ہوتا، اس پہ انسان خاموش ہی رہے اور ہدایت کی دعا کردے تو اچھا ہے۔

سوال نمبر 26:

السلام علیکم حضرت، کچھ مہینے سے ایسا محسوس ہوا ہے کہ اب نماز میں توجہ حاصل ہورہی ہے جیسے قدم جم گئے ہیں۔ اس پر میں بہت خوش تھا لیکن ابھی نماز میں آگے پیچھے کی سوچیں آرہی ہیں اور برائی کی وجہ سے قیام کے وقت سجدہ کی جگہ پر نظر رکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

جواب:

بھائی! ایک بات یاد رکھیں، جو آپ کے اختیار میں ہے اس میں سستی نہ کریں اور جو اختیار میں نہیں ہے اس کے درپے نہ ہوں، یہ general اصول ہے۔ آپ جو نماز میں آگے پیچھے کی سوچیں آنے کا کہہ رہے ہیں، ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ آپ خود سے سوچیں مت لائیں کیونکہ سوچیں لانے پر گرفت ہے۔ لیکن سوچیں آنے پر گرفت نہیں ہے، اس لئے آپ ان کی طرف توجہ نہ کریں۔ انسان کو بہت ساری سوچیں آسکتی ہیں، مثال کے طور پر انگلی میں درد ہے تو نماز کے دوران آپ درد کو محسوس کریں گے لیکن آپ درد کی طرف خیال نہیں کریں گے، بلکہ خود بخود جو خیال آرہا ہوگا اس کی پروا نہیں کریں گے، آپ اپنی نماز کی طرف توجہ رکھیں گے۔ اسی طریقہ سے اگر خیالات بھی آرہے ہوں تو ان خیالات کی طرف آپ توجہ نہ کریں بس نماز کی طرف توجہ کریں۔ باقی قیام کے وقت سجدہ کی جگہ پر نظر رکھنا ایک اختیاری چیز ہے، اس میں آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی آپ کا چہرہ زبردستی وہاں سے ہٹا دیتا ہو، اگر آپ کو ایسی کوئی مشکل ہے تو مجھے عملی طور پر بتا دیں تاکہ میں عملی طور پہ سمجھ جاؤں کہ آپ کی نظر کو کوئی کیسے ہٹاتا ہے۔ اگر کوئی نہیں ہٹاتا تو آپ خود ہٹاتے ہیں، اور اس صورت میں آپ خود ذمہ دار ہیں۔ اس لئے آپ اس طرح کریں کہ آپ اپنے ارادہ سے سجدہ کی جگہ پہ نظر رکھیں، اس کو ان شاء اللہ کوئی بھی نہیں ہٹائے گا۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب