اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر 1:
السلام علیکم! محترم شیخ صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم مجھے پانچ پانچ منٹ کے سب پانچ مراقبے دیئے گئے تھے، اس کے ساتھ چار ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر بھی تھا۔ ذکر محسوس ہوتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! یہ پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ جاری رکھیں اور ساتھ مراقبۂ احدیت شروع کرلیں۔ مراقبۂ احدیت اسے کہتے ہیں کہ اصل میں تو فیض اللہ پاک کی طرف سے ہے۔ فیض ہر وہ چیز ہوتی ہے جس سے آپ کو فائدہ ہو اور فیض تو اللہ پاک کی طرف سے ہی آپ ﷺ کے پاس آتا ہے یعنی آپ ﷺ قاسم ہیں، تقسیم کے لئے اللہ پاک نے آپ ﷺ کی ذات مبارک کو بھیجا ہے، پھر آپ ﷺ کی طرف سے فیض شیخ کے پاس آتا ہے اور شیخ سے پھر آپ کے دل پر آئے گا تو اس طریقے سے یہ مراقبۂ احدیت اور چار ہزار مرتبہ اسمِ ذات یہ بھی آپ ایک مہینہ کرلیں، اِنْ شَاءَ اللہ اگلے مہینے پھر دیکھا جائے گا۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم! مرشد آج آپ کی روانگی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اللہ حافظ، اللہ پاک آپ کی زیارت سے جلد مشرف فرمائیں۔ آج چالیس دن والا ابتدائی ذکر ختم ہوگیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔
I did it without fail for forty days.
جواب:
یہ اصل میں ایک صاحب تھے مکہ مکرمہ میں وہ ملنا چاہتے تھے لیکن بہرحال ان کی مصروفیات کچھ ایسی تھیں کہ ان کو موقع نہیں مل سکا۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم! شیخِ محترم اللہ کے کرم سے میرا مراقبۂ تنزیہ اور صفاتِ سلبیہ مکمل ہوگیا ہے۔ مراقبے کے ابتدائی دنوں میں، میں نے خواب دیکھا کہ مغرب کی جانب آسمان میں بدلی سی ہوتی ہے اس میں مسجدِ نبوی ﷺ کا سبز گنبد نظر آتا ہے، جو کہ zoom نظر آتا ہے اور میں دیکھ کر بے اختیار سُبْحَانَ اللہ، مَاشَاءَ اللہ بولتی ہوں، پھر آسمان پر منظر بدلنے لگتا ہے اور اس جانب اور بھی بدلی نظر آتی ہے، اس میں کبھی خانہ کعبہ، کبھی مسجدِ نبوی ﷺ نظر آتے ہیں، پورا علاقہ اس منظر کو دیکھ کر سُبْحَانَ اللہ، مَاشَاءَ اللہ بول رہا ہوتا ہے، اس دوران آذان کی آواز بھی ساتھ ہی آرہی ہوتی ہے۔ شیخِ محترم باقی مجھے یہ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے کہ کس مراقبے سے مجھ میں کون سی تبدیلی آئی ہے، بس بدلتی جاتی ہوں کہ دوسروں کی پریشانی ختم کروں بے شک وہ میرے ساتھ اچھا نہ ہو، اوروں کے لئے دل بہت نرم ہوگیا ہے، خود کے بجائے دوسروں پر پیسہ خرچ کرتی ہوں کہ شاید دوسروں کی ضرورت مجھ سے اہم ہو اور پردے کی کافی کوشش کرتی ہوں۔ اللہ پاک کے لئے میں کوئی بھی چیز یا رشتہ چھوڑ دیتی ہوں جس سے رب ناراض ہوتا ہو، اللہ سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہیں لگتا۔ شیخِ محترم اگلے مراقبے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
سُبْحَانَ اللہ! یہی چیز تو حاصل کرنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نصیب فرمائی ہے۔ بس اس پر شکر ادا کریں کیونکہ شکر سے نعمت بڑھ جاتی ہے۔ اور خواب بھی مبارک ہے، اگرچہ ہمارے ہاں خوابوں پہ اتنا زیادہ زور نہیں دیا جاتا، لیکن اچھا خواب، اچھا خواب ہوتا ہے، لہٰذا اس پر انسان شکر ادا کرے کیونکہ یہ ہمارے سلسلے کی نسبت ہے کہ اس میں توحید بھی ہے اور آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل بھی ہے۔ جو آپ کو سبز گنبد آیا، یہ آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کی کوشش کے لئے بشارت ہے اور خانہ کعبہ جو نظر آیا، یہ توحید کی بشارت ہے، اس کے ساتھ اِنْ شَاءَ اللہ جو ترقی بھی ہورہی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ مَاشَاءَ اللہ اب اگلا مراقبہ شانِ جامع کا ہے یعنی وہ تمام چار مراقبات تجلیاتِ افعالیہ، صفاتِ ثبوتیہ، شیوناتِ ذاتیہ اور سلبیہ یہ چاروں کے چاروں کا جو فیض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آرہا ہے پھر آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے آپ کے لطیفۂ اخفیٰ پر آرہا ہے، لطیفۂ اخفیٰ یعنی پانچویں لطیفے پہ آرہا ہے، اب یہ کرلیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! نام فلاں، والد فلاں، شہر فلاں، تعلیم یہ۔ یہ گزشتہ ماہ کے اذکار: قلبی ذکر لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ روزانہ کی تسبیحات معمول کے مطابق جاری ہیں۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح دس منٹ ہی رکھیں اور لطیفۂ سِر آپ پندرہ منٹ کرلیں، لیکن یاد رکھئیے کہ یہ اس صورت میں ہے جب آپ کو ان لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہو کیونکہ آپ نے لکھا نہیں ہے کہ محسوس ہوتا ہے۔ اگر محسوس ہوتا ہو پھر تو آپ اس کو کرلیں، ورنہ پھر مجھے بتا دیں کہ ابھی آپ کو محسوس نہیں ہورہا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم! شاہ صاحب میں کراچی سے فلاں ہوں۔ پہلے بھی آپ سے بات کی تھی کہ میں serious امراض میں مبتلا ہوں، آپ کو اللہ اور رسول ﷺ کا واسطہ ہے، میرا نام لے کر میری صحت کی دعا کردیں، میرے ساتھ جنات کے پیدائشی مسائل بھی ہیں۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ آپ کو صحت عطا فرما دیں۔
سوال نمبر 6:
حضرت میرا نام فلاں ہے، بھکر سے بات کررہا ہوں۔ آپ کے سلسلے کی کتابیں انٹرنیٹ سے دیکھیں تو اندازہ ہوا کہ سلاسل کو سمجھنے اور سمجھانے والی ہستیاں آج بھی دنیا میں موجود ہیں، تو بہت خوشی ہوئی۔ بندۂ ناچیز بھی کافی عرصہ سے اپنے قلب اور نفس کو ٹھیک کرنے کے لئے کافی کوشش کرتا رہا، لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اب نہ تو کوئی عمل کرسکتا ہوں، نہ ہی کسی شرعی کام کی طاقت رہی، نہ ذکر میں دل لگتا ہے۔
جواب:
واقعی آپ نے مَاشَاءَ اللہ یہ بات بتائی کہ تصوف کو سمجھنا اور سمجھانا یہ دونوں اہم کام ہیں اور ہمارے اکابر نے اس پر بڑی محنت کی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ مشہور نام حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، پھر اس کے بعد حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، اس کے بعد مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اس طرح اور بھی ہمارے اکابر ان حضرات نے بڑی محنتیں کی ہیں، ہم بھی انہی کی تحقیقات کو آگے کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جملہ برکات نصیب فرمائیں۔ البتہ آپ نے یہ بات جو کی کہ آپ کافی عرصے سے اپنے قلب اور نفس کو ٹھیک کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں، لیکن آپ کو مشکلات پیش آئی ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ تین طریقے ہوتے ہیں، ایک طریقہ اخیار کا ہوتا ہے یعنی انسان اپنے طور پر اپنی Will power سے علم حاصل کرکے پھر Will power کے ذریعے سے اس پر عمل کرتا ہے، زیادہ تر لوگ یہی کرتے ہیں، لیکن اس میں کامیاب تھوڑے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے صحیح وقت پہ صحیح کام نہ کرنا، پھر بتانے والا کوئی نہیں ہوتا جو تسلی دے کہ یہ ٹھیک ہورہا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہورہا۔ اس کی وجہ سے مایوسی کی کیفیت بھی آجاتی ہے جیسا کہ آپ بیان فرما رہے ہیں۔ لہٰذا اخیار والا ایک طریقہ موجود ہے لیکن اس میں کامیابی کے امکانات کافی کم ہوتے ہیں۔ دوسرا طریقہ ابرار کا ہے، ابرار کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی صاحبِ سلسلہ، صاحبِ نسبت بزرگ کے ہاتھ پر کوئی بیعت ہوجائے اور پھر اس کی مان کے چلے یعنی اپنی Will power اس میں استعمال کرے کہ میں نے اب شیخ کی بات ماننی ہے، بس اب Will power کا کام اتنا ہی رہ گیا ہے۔ اس سے اس کو دو فائدے فوراً مل جاتے ہیں، ایک فائدہ یہ کہ اس کو پیر صاحب کا experience مل جاتا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ سلسلے کی برکت بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جب یہ دو چیزیں مل جاتی ہیں تو اس سے اس کی اصلاح کی speed بڑھ جاتی ہے اور اکثر لوگ اس طریقے سے کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر آپ ہمارے بزرگوں کی history پڑھیں تو ان میں سے تقریباً ہر ایک اسی راستے سے گیا ہے، چاہے وہ بہت بڑا نام ہی کیوں نہیں، مثلاً شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، یہ سب جتنے بھی اکابر گزرے ہیں وہ تقریباً اسی راستے سے گزرے ہیں۔ لہٰذا یہ طریقہ کافی محفوظ طریقہ ہے اور بہت ہی زیادہ فائدہ دیتا ہے۔ تیسرا طریقہ بہت rare ہے اور وہ یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو کہ اس کو شیخ کی بات ماننے کے لئے Will power کی ضرورت ہی نہ پڑے بلکہ وہ خود ہی چاہتا ہے کہ مجھے شیخ کچھ کہہ دے تاکہ میں اس پہ عمل کرلوں۔ اس کی speed بہت زیادہ ہوتی ہے دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ کم ہوتے ہیں، اس وجہ سے زیادہ تر لوگوں کو دوسرے طریقے سے فائدہ ہوتا ہے۔ بس آپ اگر سمجھتے ہیں کہ میرے لئے بھی یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے تو میرے خیال میں پھر آپ اس کے لئے محنت اور کوشش کریں، مایوسی والی بات نہ کریں، یہ بات بہت غلط ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ اللہ پاک کے در میں کوئی مایوسی نہیں ہے، اللہ پاک کے در میں مایوسی کی کوئی حاجت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بھی معاف فرماتے ہیں اور اللہ پاک راستہ بھی دیتے ہیں۔
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
ہاں البتہ آپ طریقے سے کام کریں اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اللہ پاک کی مدد آپ اپنے سامنے پائیں گے، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور ہم سب کو بھی یہ کامیابی نصیب فرما دیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! حضرت جی اللہ پاک آپ کو عافیت والی زندگی اور صحت عطا فرمائیں۔ حضرت جی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عطا کیے گئے ذکر کا مہینہ پورا ہوگیا ہے، میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور نو ہزار ہے۔ قلب کا ذکر دس منٹ، روح کا ذکر دس منٹ، جبکہ سِر کا ذکر پندرہ منٹ ہے، حضرت جی میں کبھی کبھی قلب پر حرکت کا گمان کرتا ہوں مگر توجہ کرنے پر کچھ محسوس نہیں ہوتا، آگے کے لئے آپ جیسے حکم فرمائیں۔
جواب:
آپ اس طرح کریں کہ فی الحال جو دوسرا ذکر ہے: دو سو، چار سو، چھ سو اور نو ہزار اس کو دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے نو ہزار کرلیں باقی فی الحال صرف قلب پر ہی دس منٹ کریں کیونکہ اگر قلب کا ذکر آگے نہیں چل رہا پھر آگے تو ظاہر ہے ویسے خیال ہی ہوگا۔ لہٰذا آپ پہلے قلب کا ذکر کریں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! نام فلاں، تعلیم فلاں، شہر فلاں۔ گزشتہ ماہ کا قلبی ذکر لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ، مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ۔ شیخِ محترم اس ماہ میں جو سوچ یا خیال حاوی رہے جیسے مجھے ایک مرکز مل گیا ہو اور ایک ہی راستہ، ایک ہی منزل اور جو بھی ہے بس اللہ سے ہے، خوشی ہو یا دکھ ہو یہ اہم نہیں، بس اللہ سے رابطہ ہو۔ شیخِ محترم بیشتر اوقات آپ کا تصور خیال رہا۔ مراقبے کے دوران پندرہ منٹ کے مراقبہ میں اگر پندرہ منٹ کے بعد بھی آنکھیں کھل جائیں یا کسی وجہ سے رابطہ یا تصور ٹوٹ جائے تو کبھی بہت بے چینی ہوجاتی ہے، ایسی حالت میں بیٹھنا مشکل ہو تو مراقبہ دوبارہ سے شروع کرلینا چاہیے یا چھوڑ دینا چاہیے؟
جواب:
ماشاء اللہ اپنے شیخ کا تصور تو بڑی اچھی بات ہے۔
جہاں تک دوسری بات ہے تو اگر وقت سے پہلے آنکھ کھل جائے تو پھر بے شک ادھر ہی سے آنکھیں بند کر کے دوبارہ شروع کرکے وقت کو پورا کرلیں۔ آپ نے لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر، لطیفۂ خفی کا بتایا ہے، لیکن لطیفہ اخفیٰ کا نہیں بتایا۔ اور مراقبۂ احدیت آپ نے بتایا ہے لیکن آپ کو جو پہلے ذکر دیا تھا دو سو، دو سو والا وہ آپ نے بتایا نہیں، کیا آپ کو بتایا نہیں گیا تھا یا آپ بھول گئے ہیں؟ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب، پھر آپ مجھے بتا دیں تاکہ میں آپ کو آگے بتاؤں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم حضرت جی میرا ذکر اور مراقبہ پنتالیس دن سے جاری ہے، اگلے ذکر کی رہنمائی فرمائیں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ ہزار۔ مراقبات: پانچ منٹ کے لئے مراقبہ دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، لطیفۂ روح پر پانچ منٹ، لطیفۂ سِر پر پانچ منٹ، لطیفۂ خفی پر پانچ منٹ۔ کیفیت: مراقبہ دل پر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ابھی ’’اَللّٰہْ‘‘ ساڑھے پانچ ہزار کرلیں، باقی چیزیں یہی رکھیں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ آپ کا سایہ ہمارے اوپر قائم رکھیں اور آپ کے علم، صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائیں آمین۔ حضرت جی میرے پچھلے دو مہینے کے معمولات کچھ ایسے تھے کہ ایک نماز قضا ہوئی تھی اس کے تین روزے رکھ لیے تھے، ان دو مہینوں میں ذکر میں ناغہ تو نہیں ہوا لیکن میں زیادہ تر دنوں میں ذکر ایک جگہ بیٹھ کر نہیں کرسکا تھا، کبھی سوتے ہوئے، کبھی لیٹ کر، کبھی صوفے پر یا bed پر بیٹھ کر، اس دوران بچے بھی تنگ کرتے ہیں، درمیان میں دل دنیاوی خیالات میں گم رہتا ہے اور مراقبہ ان دو مہینوں میں نہیں کیا۔ میرا ذکر تقریباً پچھلے ایک ماہ سے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ ہزار مرتبہ، حضرت جی ان معاملات میں مزید آپ کی رہنمائی چاہیے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ آپ ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹر تو یہ بتاتے ہیں کہ As prescribed by the practitioner کہ جیسے ڈاکٹر نے کہا ہے اسی طرح ہی کرنا چاہیے۔ لہٰذا مجھے آپ بتائیں کہ میں نے آپ کو کس طرح کرنے کو بتایا ہے؟ پھر میں بتاؤں گا کہ کیسے کرنا چاہیے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی جب آپ عمرے پر تشریف لے گئے تھے تو امیر صاحب کے حکم کے مطابق میں خانقاہ میں ترویحہ میں مراقبہ کراتا تھا، اس وقت میں یہ مراقبہ کرتا تھا کہ آپ کے قلب پر جو فیض آرہا ہے اس میں سے مجھے بھی مل رہا ہے، اب اعتکاف میں بھی یہی مراقبہ ترویحہ میں اور ویسے مجلس میں بھی کرتا ہوں اور اکثر اوقات محسوس بھی ہوتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ آپ کی موجودگی میں یہ کرنا کیسا ہے اور آپ کی غیر موجودگی میں رہ کر مراقبہ کرنا، کیا یہ تصورِ شیخ تو نہیں ہے؟
جواب:
اصل میں مراقبۂ احدیت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آرہا ہے، پھر وہاں سے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ پہ آرہا ہے یہ تصورِ شیخ ہے۔ یہ تو ایک channel ہے، اس میں ہم لوگ محسوس کریں یا نہ کریں لیکن اسی طرح ہوتا ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ تصورِ شیخ کی پھر اور کچھ چیزیں بتائی جاتی ہیں، یہ تصورِ شیخ نہیں ہے یہ مراقبۂ احدیت کی ایک قسم ہے۔ لہٰذا اگر آپ اس کی بجائے مراقبۂ احدیت ہی کرلیں تو زیادہ بہتر ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے یہ فیض آتا ہے، اور آپ ﷺ کے ذریعے سے ہی آتا ہے، پھر آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آتا ہے اور آپ کی طرف بھی آتا ہے۔ اِنْ شَاءَ اللہ آپ اسی طرح ہی کرلیں تو زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم! سوال برائے پیر مجلس، حضرت تیرہ تسبیحات کے علاوہ والا لسانی ذکر کرتے ہوئے مثلاً اسمِ ذات کا ذکر کرتے ہوئے سامنے ایک نقطہ پر نگاہوں کو مرکوز کرتا ہوں تاکہ خیال منتشر نہ ہو، اس کے ساتھ قلب کی طرف اس طرح متوجہ ہوتا ہوں کہ اس پر ضرب بھی نہ لگے، کیا اس طرح درست ہے؟
جواب:
اسمِ ذات کا ذکر سو مرتبہ تو آپ اس طرح کرلیں، باقی سادہ ذکر کریں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، مسلسل میں پھر مسائل ہوتے ہیں۔
سوال نمبر 13:
نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! حضرت جی امی کی چالیس دن کی تسبیح بلاناغہ مکمل ہوگئی ہے، آگے کیا حکم ہے؟
نمبر 2:
حضرت جی وساوس پہ توجہ نہیں دوں گی، لیکن میں نے تجدیدیت کرنی ہے please کرلیں۔ والدین، آپ اور اساتذہ کے لئے جب بھی توفیق ملتی ہے دعائیں کرتی ہوں، حضرت جی میں اس میں خود محتاج ہوں اور جانتی ہوں کہ میری دعائیں بلند وبالا عمارت کو ہوا کا جھونکا دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتیں، لیکن بس میرے دل کو تسکین ہوجاتی ہے، please آپ سے کوئی شکایت کرنا یا کچھ اور کرنا مقصود نہیں ہے بس جو حال درپیش تھا وہ بتا دیا۔
جواب:
اصل میں اپنے آپ کو تو کچھ نہیں سمجھنا چاہیے، لیکن دعا بہت بڑی دولت ہے۔
’’اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3371)
ترجمہ: ’’دعا عبادت کا مغز (حاصل و نچوڑ) ہے‘‘۔
’’اَلدُّعَآءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2969)
ترجمہ: ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘۔
تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا کی بڑی قدر ہے، جو دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوتے ہیں اور جو دعا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ دعا جاری رکھیں اور ہمارے لئے بھی دعا کریں۔ باقی وساوس پہ بالکل توجہ نہ دیا کریں اور امی کا جو چالیس دن کا ذکر کہ تسبیح بلاناغہ مکمل ہوگئی ہے، سُبْحَانَ اللہ، اب ان کو یہ بتا دیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے پڑھا کریں اور پانچ منٹ کے لئے تصور کریں کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ یہ ایک مہینے کے لئے کریں اس کے بعد پھر بتا دیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ کو صحت اور عافیت میں رکھیں۔ اللہ پاک نے اعتکاف کی توفیق دی ہے، دعا فرمائیں قبول ہوجائے، اللہ پاک مشکلات آسان فرمائیں آمین۔ حضرت جی جب ہمیں کسی چیز کی بہت خواہش ہوتی ہے وہ بھی دین کی تکمیل کے لئے، جیسے شادی کی، شوہر کی اور بہت دعاؤں کے بعد وہ نصیب بھی ہوجائے تو اس کے ساتھ کتنی محبت ہونی چاہیے؟ یعنی طبعی طور پر تو سب سے زیادہ محبت اس کے ساتھ ہی ہوتی ہے، فطری طور پر جو چیز بہت مانگ کر ملے اس کی قدر دل میں بہت ہوتی ہے، کیا اس طبعی محبت کا بھی سب سے زیادہ حق اللہ پاک اور رسول اللہ ﷺ کا ہی ہے اور شوہر اس کے بعد آتا ہے؟ ایسا تو نہیں کہ جس نے وہ نعمت عطا کی ہے اس کا ٹھیک طرح شکر نہ ادا کرسکوں اور اللہ پاک کی محبت دب گئی ہو، شوہر کی محبت میں اپنے آپ کو بھول گئی ہوں تو دنیا کی وہ نعمت آزمائش بن گئی ہو کہ اس نے میری ناقدری کردی۔ عقلی طور پر شریعت پر مکمل عمل تو یقیناً کرنا ہے، کیونکہ اللہ پاک اور رسول اللہ ﷺ کی بات سب سے اوپر ہے اس سے اوپر کسی کا درجہ نہیں۔ میں نے شوہر کی محبت میں شریعت پر سختی کو نہیں چھوڑا، لیکن اس سے بھی دوسرے انسان نے یہی اثر لیا کہ اس کا دین سخت ہے اور دوسرے انسان کو space نہیں دیتا۔
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں بہت مختصر لیکن بہت مناسب بات فرمائی ہے کہ اللہ جل شانہٗ کی ذات وراء الوراء ہے، لہٰذا اس کی محبت بھی عموماً غیر محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب اس کا وقت آتا ہے تو پھر بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً جس کے ساتھ آپ کو بہت محبت ہے وہ اللہ پاک کی شان کے بارے میں کوئی گستاخی کردے تو پھر آپ کا اس کے ساتھ کیسا رویہ ہوتا ہے؟ انسان جل بھن جاتا ہے اور مرنے مارنے پر آجاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل محبت تو اس کے ساتھ ہے اور طبعی محبت بھی اصل میں اسی کے ساتھ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہ محسوس نہیں ہوتی۔ لہٰذا آپ اطمینان رکھیں، آپ کو اللہ پاک کے ساتھ زیادہ محبت ہے تبھی تو آپ نے یہ لکھا ہے ورنہ آپ کیوں لکھتیں، یعنی آپ کا یہ لکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کو اللہ پاک کے ساتھ زیادہ محبت ہے، کیونکہ آپ کو اللہ پاک کی محبت کی فکر ہوگئی کہ کہیں میرے شوہر کی محبت اللہ پاک کی محبت سے زیادہ تو نہیں ہے۔ باقی آپ ﷺ کی محبت بھی اللہ پاک کی محبت سے زیادہ بعض دفعہ اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ آپ ﷺ دائرہ محسوسات میں سے ہیں، یعنی تاریخ میں سارے واقعات گزر چکے ہیں، ہمیں معلوم ہیں اور انسانی محسوسات کے اندر اندر ساری چیزیں ہیں، لہٰذا زیادہ تر محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اس میں بھی بات یہی ہے کہ جو صفات آپ ﷺ کو عطا ہوئیں، وہ بھی تو اس نے ہی عطا کی ہیں، چنانچہ اصل محبت تو اللہ جل شانہٗ ہی کی ہے۔ باقی اس کے بعد پھر والدین کی، شیخ کی، شوہر کی، یہ سب محبتیں بتدریج اگر اللہ کے لئے ہیں تو اللہ کی محبت میں معاون ہیں، اگر دنیا کے لئے ہیں تو پھر اس میں مسائل ہیں۔ بہرحال آپ ان سب کو اللہ کی محبت کا ذریعہ بنا دیں، مثلاً شوہر کی بات مانیں اس لئے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ شوہر کی بات مانو، شوہر کے ساتھ محبت کرو کیونکہ محبت تو اللہ کو پسند ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دیتا ہے تو اس پر بھی اللہ پاک اس سے خوش ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ آپس میں محبت پر خوش ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب کو اللہ کی محبت کا ذریعہ بنا دیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم! حضرت دروس میں سنا یاد آتا ہے کہ شیخ اور مرید میں ایسے بھی ہوتا ہے کہ کبھی مزید احوال لکھ لیے اور خط بھیجنے سے پہلے حالت تبدیل ہوجاتی ہے تو خط بھیجنے کی ضرورت نہیں رہتی، کبھی خط لکھنے بیٹھتے اور یہی باقی لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی، کبھی بیٹھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں بھی ایسے ہی محسوس کرتا ہوں کئی بار لکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ کوئی چیز جو روکتی ہے کہ فضول میں اپنی منافقت کی باتوں سے اپنے شیخ کا وقت ضائع نہ کرو، پھر بعد میں پچھتاتا بھی ہوں کہ کیوں بات نہیں کی، کم ازکم منافقت کا علاج تو ہوجاتا۔ تکبر کا بھی خیال آتا ہے اور امراض کا بھی جو میں سننے سے بہت ڈرتا ہوں، برائے مہربانی مجھے بتا دیں کہ مجھ میں اور کون کون سی بیماریاں ہیں اور ان کا علاج کس ترتیب سے ہونا چاہیے؟
جواب:
محبت کی نرالی ادائیں۔ بہرحال مَاشَاءَ اللہ آپ نے جو بات کی بالکل صحیح کی ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔ اصل میں تبدیلی تو اللہ تعالیٰ لاتے ہیں، لہٰذا اگر آپ کا اخلاص کے ساتھ اپنے شیخ کو لکھنا اللہ کو پسند آجائے اور ابھی آپ نے لکھا نہیں کہ آپ کی حالت بدل دے تو یہ ناممکن تو نہیں ہے، اس کے لئے تو ممکن ہے۔ البتہ ضروری نہیں کہ ہر وقت ایسا ہو، کیونکہ عالمِ اسباب کے علاوہ باتیں کرنا، یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت ہو، ہاں کبھی کبھی ہوجائے تو ہوتی رہتی ہیں۔ اس لئے آپ کو جو ضرورت ہو اور واقعی ضرورت ہو تو آپ ضرور لکھا کریں، اس کو نہ دیکھیں کہ میرا اس سے وقت ضائع ہوگا، وقت ضائع نہیں ہوگا بلکہ قیمتی بنے گا۔ البتہ مختصر لکھنا چاہیے تاکہ بلاوجہ وقت ضائع نہ ہو اور بس مناسب بات ہو، تو اس طریقے سے کرلیا کریں، خط بے شک لکھا کریں اور جب اس کے ساتھ تبدیلی بھی آگئی ہے تو ٹھیک ہے، اگر اس کی بھی اطلاع کردیں تو یہ بھی اچھی بات ہے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم حضرت!
نمبر 1:
رمضان میں تو شیطان بند ہوتا ہے پھر بھی ہمیں گناہوں کے خیال آتے رہتے ہیں، کیا یہ وسوسہ ہے یا خود بنائے ہوئے خیالات ہیں؟ اس کا کیا علاج کریں؟
جواب:
شیطان بند ہوتا ہے، لیکن شیطان کی صحبت کا جو اثر ہے وہ تو نکلے گا، یعنی وہ جو گیارہ مہینے ہمارے ساتھ رہا ہے کوئی ایسی ویسی تو بات نہیں ہے، لہٰذا اس کا اثر تو نکلے گا۔ جیسے کہتے ہیں کہ کوئی ہندو مسلمان ہوا تو گڑبڑ کرلیتا تھا، اس کے دوست نے کہا جس کے ذریعے سے مسلمان ہوا تھا کہ یار اب تو ٹھیک ہوجاؤ، کہتا ہے یار برسوں کا حرام نکلتے نکلتے نکلے گا، یعنی یہ تو ہوتا ہے اور نفس تو پھر ساتھ ہی ہے۔
نمبر 2:
یہ خیالات، وسوسے لمبی تراویح میں زیادہ آتے ہیں، چھوٹی نماز میں کم یا نہیں آتے ہیں۔
جواب:
زیادہ لمبی تراویح میں زیادہ وقت ہوتا ہے اور یکسوئی ہوجاتی ہے۔ یکسوئی سے مراد یہ ہے کہ جیسے کسی جگہ کوئی گڑھا بن جائے تو اِدھر اُدھر جو پانی کھڑا ہوتا ہے وہ کہاں جائے گا؟ ظاہر ہے اس گڑھے میں جائے گا۔ وہ جو یکسوئی کی کیفیت ہوجاتی ہے تو اس سے اِدھر اُدھر کے خیالات جو دماغ میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں، وہ اس طرح متوجہ ہوجاتے ہیں۔
نمبر 3:
ہم بچوں کو موبائل سے تو روکتے ہیں لیکن مرد جب گھر سے باہر ہوتا ہے تو عورتیں بچوں کو موبائل دیتی ہیں کہ بچے ہمیں کام نہیں کرنے دیتے۔ اس کے لئے کیا بندوبست کیا جائے؟
جواب:
اس کے مختلف طریقے ہیں، ایک طریقہ تو ہر جگہ suit نہیں کرے گا، لیکن سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ جو بغیر smartphone والا موبائل ہے وہ اگر آپ لے لیں تو اس میں پھر یہ مسائل نہیں ہوں گے، بچت ہوجائے گی۔
نمبر 4:
خانقاہ میں یا اعتکاف میں وقت لگانا مشکل ہوتا ہے، اس دوران بھی ہم دنیاوی معاملات کے لئے رابطہ رکھتے ہیں، اس کے برعکس لوگ تبلیغ کے لئے چار مہینے تک وقت نکال لیتے ہیں، ہمارے اندر کون سی کمزوری ہے کہ ہم یکسوئی کے ساتھ زیادہ وقت نہیں نکالتے؟
جواب:
تبلیغ والوں کے ساتھ ہمیں حسد نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ان کو اور بھی زیادہ توفیقات سے نوازیں کہ وہ اپنا وقت اور بھی زیادہ صحیح استعمال کرلیں۔ ان کے مسائل اپنے ہیں، ہمارے مسائل اپنے ہیں۔ ان کے مسائل یہ ہیں کہ وہ آپ کو گھر سے بھی کاٹ دیتے ہیں، مشائخ سے بھی کاٹ دیں گے، علماء سے بھی کاٹ دیں گے، سب سے کاٹ دیں گے، ظاہر ہے یہ غلط ہے، کیونکہ سب سے تو نہیں کاٹنا چاہیے۔ البتہ ہمارے مسائل یہ ہیں کہ ہمارے پیچھے شیطان زیادہ لگا ہوتا ہے، مثلاً سب سے پہلے شیطان کا سب سے زیادہ زور اس پر ہوتا ہے کہ شیخ سے کاٹ دے۔ اور شیخ سے کاٹنے کا طریقہ وہ یہ اختیار کرتا ہے کہ وہ تعجیل ڈالتا ہے یعنی جلدی، جلدی، جلدی یہ مل جائے، یہ مل جائے، یہ مل جائے، تو نیت میں فساد آجاتا ہے، تعجیل کی وجہ سے شیخ سے بدگمانی ہوجاتی ہے اور اس طریقے سے شیطان کامیاب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے، عقل ہوش سے کام لینا چاہیے۔ اور اللہ پاک تبلیغ والوں کو بھی اپنے مشائخ کے ساتھ، اپنے علماء کے ساتھ جڑنے کی توفیق عطا فرمائیں کیونکہ اس کے بغیر تو تعلیم و تربیت سے بے بہرہ ہوں گے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم! حضرت نقشبندی سلسلے کے مراقبات اور احوال کے بارے میں سوال ہے۔ مراقبات میں ہم اپنے نفس کو ہٹا کر جو ہورہا ہوتا ہے، اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور مختلف قسم کے مشاہدات بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح مراقبے کی ابتداء میں ہمیں concept ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ ہم نے احادیث شریفہ میں یہ بھی پڑھا ہے کہ شیطان نے تصرف کے ذریعے سے صحابہ کرام کو تلاوت سنوائی، بعد میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تلاوت میں نے نہیں کی۔ ہم آپ ﷺ کے بہت بعد کے زمانے کے ہیں، ہمیں کس طرح پتا چلے کہ اللہ پاک کی طرف سے مشاہدہ ہورہا ہے، ہمارا خیال ہے یا شیطان کی طرف سے ہے؟
جواب:
مجھے بتائیں شیخ کس مرض کی دوا ہے؟ پوچھنا تو شیخ سے ہے، آخر صحابہ کرام آپ ﷺ سے پوچھتے تھے، تو آپ ﷺ بتا دیتے تھے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی جب تربیت ہورہی تھی تو اپنے شیخ سے ہی پوچھتے تھے، شیخ ان کو بتا دیتے تھے۔ اسی طرح جتنے بھی اکابر ہیں، ان کو جو بھی مسئلہ ہوتا تھا وہ اپنے شیخ کے سامنے بیان کرتے تھے۔ اس وجہ سے جب انسان اپنے احوال بیان کرتا ہے تو شیخ پھر اس کے مطابق بتا دیتا ہے۔ ہم اپنے حضرت سے جب خواب بھی بیان کرتے تو سُبْحَانَ اللہ! حضرت فرماتے کہ یہاں تک خواب صحیح ہے اس سے آگے شیطان کا تصرف ہے، یہ حضرت سمجھا دیتے تھے۔ لہٰذا اس قسم کی چیزیں تو ہوتی ہیں۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم! حضرت آپ کے مختلف بیانات میں اہلِ بیت سے تعلق اور ان کے ذریعے دین ملنے کے بارے میں سنا ہے۔
نمبر 1:
اہلِ بیت کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟
جواب:
اس میں تفصیلات ہیں۔ ہماری مائیں یعنی امہات المومنین بھی اہلِ بیت ہیں، ظاہر ہے گھر کی ہیں، اور جو اولادِ فاطمہ ہے ان کو اہلِ بیت کی خصوصی نسبت حاصل ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے ان کو اپنی چادر میں رکھا تھا اور خود بھی ساتھ ہوئے تھے، یہ مباہلہ کی صورت ہوگئی۔ ظاہر ہے یہ اہلِ بیت کی خاصیت ہے۔ لیکن بہرحال اگر ان کو بھی کہا جائے تو اس کو غلط نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اہلِ بیت عرفی وہ ہیں، ان کے مقامات بہت اونچے ہیں۔ بس میں صرف اس کو سمجھنے کے Point of view سے اس حد تک حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ تین گروہ ہیں، نمبر ایک: عام صحابہ جس میں سب شامل ہیں، پھر ان میں امہات المؤمنین کی تخصیص ہے جو ہماری مائیں ہیں اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات ہیں۔ تیسرے وہ اہلِ بیت جن کا تعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ تھا، وہ اہلِ بیت ہیں۔ بہرحال تینوں بہت اہم ہیں، تینوں کے ذریعے سے ہمیں ہدایت ملتی ہے۔ جنہوں نے تینوں سے لیا تو پورا لے لیا اور جنہوں نے ان میں سے کسی سے لیا، کسی سے نہیں لیا تو انہوں نے ناقص لیا اور جنہوں نے کسی کا انکار کردیا تو انہوں نے کچھ بھی نہیں لیا۔ اہلِ سنت والجماعت ان تینوں سے لینے کے قائل ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا مکتوب شریف نمبر 123 جو اہلِ بیت کے بارے میں ہے، اس کو دیکھ لیں اس میں یہی اہلِ بیت مراد ہیں۔ اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا باقاعدہ ذکر ہے۔ الغرض چاہے غوث ہو، اوتاد ہو، جو بھی ہوں ان سب کا فیض کن کے ذریعے سے ملتا ہے؟ اہلِ بیت کے ذریعے سے ملتا ہے۔ اس مکتوب میں حضرت نے یہ حضرت نے فرمایا ہے۔ ایک صاحبِ کشف نے بڑی عجیب بات کی، کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوں اور بہت سخت اندھیرا ہے اور راستہ تقریباً آٹھ انچ چوڑا ہے، اس پہ ہم جارہے ہیں۔ آٹھ انچ چوڑا کیا راستہ ہوتا ہے؟ اور آپ کے پاس torch ہے اور اس torch سے ہمیں صرف اگلا قدم نظر آتا ہے اتنا سخت اندھیرا ہے، کہتے ہیں کہ آپ نے بائیں ہاتھ سے مجھے پکڑا ہوا ہے کیونکہ نیچے کھائی ہے اور آپ مجھے گرنے نہیں دے رہے۔ کہتے ہیں میں نے سوچا کہ شاہ صاحب نے تو مجھے پکڑا ہوا ہے لیکن شاہ صاحب کو کس نے پکڑا ہے، کہتے ہیں جب میں نے غور کیا تو آپ کو اہلِ بیت نے پکڑا ہوا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ بیت کے ذریعے سے یہ معاملہ چلتا ہے۔ لہٰذا ان کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ آج کل اس میں کمزوری پائی جاتی ہے، اس لئے بہت ساری باتیں میں مجبوراً کررہا ہوں، کیونکہ جس چیز کی کمی ہو، اس کو زیادہ بیان کرنا چاہیے۔ مثلاً صحابہ کے بارے میں ہمارے اس قسم کے خیالات نہیں ہیں، خدانخواستہ اگر صحابہ کے بارے میں بھی کسی کی کمی کے خیالات ہوں تو اس وقت ہم ہی دفاع کریں گے اِنْ شَاءَ اللہ۔ کیوںکہ ہم تو سب کو مانتے ہیں، ہمارا تو سب کے ساتھ تعلق ہے، لہٰذا اس وقت ہم ہی دفاع کریں گے۔ اور یہ اس امت میں چلتا رہا ہے کہ جس چیز کی کمی ہوگئی تو اس کو لوگوں نے بہت بیان کرنا شروع کردیا، پھر وہ زیادہ ہوگئی اور باقی کم ہوگئی تو پھر ان کے لئے لوگوں نے بیان کرنا شروع کردیا۔ اور یہ چیز ہماری امت میں مَاشَاءَ اللہ چلی آرہی ہے۔ علماءِ کرام نے اس پر بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں کہ کبھی صحابہ کے مقامات پر، کبھی اہلِ بیت کے، کبھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے سے۔ لہٰذا اس کی ضرورت کے مطابق بات ہوتی رہتی ہے۔
نمبر 2:
ان سے تعلق رکھنے سے کیا مراد ہے، کیا ان کی دنیاوی خدمت کی جائے؟
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! جن اہلِ بیت کا ہم ذکر کررہے ہیں، ان سے تعلق کا مطلب یہ ہے کہ ان کی محبت دل میں رکھیں، ان کی تعلیمات کو اپنے لئے روشنی کا مینارہ سمجھیں۔ باقی ان کی دنیا کی خدمت ہم کیا کریں گے؟ البتہ جو اہلِ بیت کی اولاد ہیں، ان کی دنیاوی خدمت اگر محبت کی وجہ سے کی جائے جو محبت اہلِ بیت کے ساتھ ہے تو وہ رائیگاں نہیں جاتی۔ میں ایک واقعہ سناتا ہوں، حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا حج پر جانے کا پروگرام ہوتا تھا کہ ایک سال حج پہ جاتے اور ایک سال جہاد پہ جاتے تھے یہ ان کا معمول تھا۔ جس سال حج پہ جانا تھا اس کے لئے پیسے تیار رکھے تھے، فجر کی نماز کے لئے جارہے تھے دیکھا کہ ایک عورت نے ایک مردہ مرغی کو گندگی کے ڈھیر سے اٹھایا اور تھیلے میں باندھ کر چلی گئی، انہوں نے کہا یا اللہ! یہ تو کوئی خطرناک صورتحال ہے، تو وہ ان کے پیچھے چلے گئے اور وہ عورت جس گھر میں داخل ہوئی، اس پہ نشان لگا دیا کہ صبح نماز کے بعد بات کروں گا۔ بہرحال نماز پڑھ کے فوراً اس نشانی پہ آئے، دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے آواز آئی کہ آپ کون صاحب ہیں؟ ہمارے گھر میں تو مرد نہیں ہے، ہمارے شوہر فوت ہوگئے ہیں، آپ کو ہم جیسے لوگوں سے کیا کام ہے؟
انہوں نے کہا کہ بی بی میں نے کچھ ایسا واقعہ دیکھا ہے، کیا آپ لوگوں کے ساتھ کوئی بہت زیادہ مشکل حالات تو نہیں ہیں؟ میں ذرا یہ تسلی کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا: ہاں، اصل میں میرے شوہر سید تھے اور ان کی چار بیٹیاں ہیں، ان کی وہ شادی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اچانک فوت ہوگئے۔ اب ہمارے گھر میں فاقوں کا سلسلہ تھا، ہم کسی سے مانگتے نہیں ہیں، تو آج یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہمارے لئے یہ جائز ہوگیا ہے اس لئے لائی ہوں۔ انہوں نے کہا بہن آپ نے ابھی استعمال تو نہیں کیا؟ کہتی ہیں نہیں۔ انہوں نے کہا استعمال نہ کریں میں آرہا ہوں۔ اور جو پیسے حج کے لئے رکھے تھے وہ لا کے ان کو دے دیئے کہ یہ میری طرف سے استعمال کرلیں۔ خیر! اس عورت نے تو ان کو دعا دینی ہی تھی، دے دی، لیکن پھر وہ چاروں بیٹیاں آئیں اور پردے کی اوٹ سے ہر ایک نے منفرد دعا دی اور وہ حضرت چلے گئے۔ وہ حج پہ نہیں جا سکے، اب جن کا دل حج کے ساتھ لگا ہو اور ہر دوسرے سال وہ حج پہ جاتا ہو، وہ تکلیف تو ان کو بہت تھی۔ خیر! جس وقت لوگ واپس آئے تو انہوں نے کہا: چلو حج پہ تو نہیں جا سکے لیکن حج والوں سے ملاقات تو ہوجائے جن کے ساتھ جایا کرتے تھے یا معمول تھا۔ اب ان سے ملاقات ہوئی اور مبارک دی تو کہتے آپ کو بھی مبارک ہو۔ جس کو دیکھتے ہیں وہ کہتا ہے کہ آپ کو بھی مبارک ہو۔ وہ حیران ہوگئے کہ یہ مجھے الّو بنا رہے ہیں، میں نے حج تو کیا نہیں اور یہ کہتے ہیں آپ کو بھی حج مبارک ہو۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ لوگوں نے ایکا کیا ہوا ہے کہ میرے ساتھ اس طرح حرکت کررہے ہو؟ کہتے ہیں کیوں؟ ان بزرگ نے فرمایا کہ میں نے تو اس دفعہ حج نہیں کیا۔ لوگوں نے کہا: کیوں آپ ہمیں بیوقوف سمجھ رہے ہیں؟ ایک نے کہا آپ منیٰ میں ہمارے ساتھ نہیں تھے؟ دوسرے نے کہا آپ ہمارے ساتھ مدینہ منورہ میں نہیں تھے؟ تیسرے نے کہا بابِ جبرائیل سے آپ باہر آئے اور آپ نے مجھے اشرفیوں کی ایک ہمیانی دی تھی اور کہا تھا کہ یہ میں آپ سے ملک میں لے لوں گا، وہ میرے پاس پڑی ہے، میں ابھی لاتا ہوں، اور وہ لے آئے۔ اب اس کو جب کھولا تو اس میں دس گنا اشرفیاں تھیں، یعنی وہ جو حج پہ خرچ ہونے تھے اس سے دس گنا زیادہ تھیں۔ اب یہ حیران کہ میں یہ کیا سن رہا ہوں اور کیا دیکھ رہا ہوں، اسی پریشانی میں رات ہوگئی، خیر! نماز پڑھی پھر اس کے بعد سو گئے تو حضور ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے فرمایا: بتاؤ اور کتنی نشانیاں چاہتے ہو یہ بتانے کے لئے کہ آپ کا حج قبول ہوگیا ہے؟ نہ صرف قبول ہوگیا ہے بلکہ ایک فرشتے کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ ہر سال آپ کی طرف سے حج کرے گا، اس دفعہ بھی آپ کی طرف سے وہ حج کرچکا ہے، اس وجہ سے لوگ کہہ رہے ہیں اور یہ پیسے آپ ہی کے لئے ہیں، آپ ان کو خرچ کرسکتے ہیں۔ اور پھر میں نے اللہ پاک سے دعا کی تھی کہ اس نے میری اولاد کا خیال رکھا، اے اللہ تو ان کا بھی خیال رکھ اور ان کو اس کا بدلہ عطا فرما۔
بہرحال یہ بات تو ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ محبت کا تعلق ہونا چاہیے، مروت والی بات نہیں ہے کہ خواہ مخواہ مروتاً یا دیکھا دیکھی والا معاملہ ہو، بلکہ واقعی محبت ہو، اعتقاد ہو، احسان نوازی نہ ہو کہ اس کو احسان جتایا جائے بلکہ یہ صرف اور صرف اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت کی وجہ سے ہو، پھر تو واقعی اس کا رنگ ہے اور اگر کوئی اس طرح کرتا ہے تو یقیناً اللہ پاک ہی اس کا اجر دیتا ہے، انسان نہیں دے سکتا۔ بہرحال تاریخ میں بہت سارے واقعات اس قسم کے آتے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ حال تھا کہ یہ بادشاہ کے پہلوان تھے اور پہلوانی میں اکھاڑے میں جو ہاتھ ملاتے ہیں، تو ایک دبلا پتلا آدمی مقابلے میں آگیا، وہ آیا تو لوگ حیران تھے یہ کیا ہورہا ہے، بھائی یہ کیا پہلوانی کرے گا، بہرحال اس شخص نے ہاتھ ملایا اور کہا میں سید ہوں مجھے ضرورت ہے، میں نے کہا کہ کہیں شاید اس وجہ سے کچھ پیسے مل جائیں اور میرا کام بن جائے، بس اتنا کہا اور شروع ہوگئے۔ اب جنید صاحب رحمۃ اللہ علیہ تو سوچوں میں پڑ گئے کہ ان کو میں کیسے گراؤں، تو اس کے لئے اپنے آپ کو گرا دیا، بادشاہ نے کہا: Foul play, foull play دوبارہ پھر اپنے آپ کو گرا دیا، تین بار گرے تو بادشاہ نے ان کو خوب سنائیں کہ تو نے میرا نام ہلکا کیا اور ایسا کیا اور ایسا کیا۔ یہ سر نیچے کرکے سب سنتے رہے اور کچھ نہیں کہا۔ اَللہُ اَکْبَر! رات کو آپ ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی اور فرمایا کہ تو نے میری اولاد کا خیال رکھا، میں نے اللہ پاک سے دعا کی، اللہ پاک نے تمہارا نام اولیاء میں لکھ دیا۔ بادشاہ کو جب یہ پتا چلا تو بادشاہ نے کہا تو نے بالکل ٹھیک کیا ہے، ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔
نمبر 3:
یا ان کی طرف سے دنیاوی نقصان پر صبر کیا جائے؟
جواب:
ہاں یہ بات بھی ہے، دنیاوی نقصان میں صبر کیا جائے اگر محبت کی وجہ سے ہو تو یہ بھی ٹھیک ہے۔
نمبر 4:
دینی لحاظ سے تو سارے اہلِ بیت کی اصلاح نہیں ہوتی یا سارے علماء نہیں ہوتے، اس لئے ان سے دینی تعلق کی کیا نوعیت ہونی چاہیے؟
جواب:
ہاں! بالکل صحیح فرمایا، اہلِ بیت اگر عالِم نہیں ہے تو ان سے مسئلے نہ پوچھا کریں، اس کی وجہ ہے کہ ان کو مسئلوں کا پتہ نہیں ہے، یہ تو علم کی بات ہے، نسب کی بات تو نہیں ہے، علم نسب سے نہیں منتقل ہوتا بلکہ علم تو علم سے منتقل ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے ائمہ گزرے ہیں مَاشَاءَ اللہ علماء بھی تھے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھا ہے، امام باقر رحمۃ اللہ علیہ، امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، یہ علماء بھی تھے، مشائخ بھی تھے بہت بڑے بڑے لوگ تھے، لہٰذا ان سے تو سیکھنا تھا۔ لیکن اگر کوئی سید بے شک نیک آدمی ہے، لیکن شیخ نہیں ہے تو اس سے بیعت بھی نہیں ہونا چاہیے اور اگر عالم نہیں ہے تو اس سے مسئلے بھی نہیں پوچھنے چاہئیں، بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ شیخ سے بھی مسئلے نہیں پوچھنے چاہئیں۔ جو علمی مسئلے ہوتے ہیں وہ مفتی سے پوچھنے چاہئیں اور شیخ سے تو اپنی تربیت کروانی چاہیے۔
نمبر 5:
ہمیں کس طرح اہلِ بیت سے تعلق رکھنا چاہیے کہ دینی فائدہ ہو اور نقصان نہ ہو۔
جواب:
میرے خیال میں گزشتہ سوالوں کے جوابات سے اس سوال کا جواب خود بخود سمجھ میں آنا چاہیے، جتنے سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں اس میں اس کے جواب موجود ہیں۔
’’عَلِّمُوْا اَوْلَادَکُمْ مَحَبَّۃَ اٰلِ بَیْتِ النَّبِیِّ ﷺ‘‘ اور ’’عَلِّمُوْا اَوْلَادَکُمْ مَحَبَّۃَ النَّبِیِّ ﷺ‘‘۔ مَاشَاءَ اللہ یہ تو واقعی اچھی کتابیں ہیں اور تالیفاتِ اشرفیہ نے چھاپی ہیں۔ ایک دفعہ میں سید نفیس شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں گیا تھا، حضرت سے میری ملاقات ہوئی تو میرے لئے اطہر مبارک پوری کی ایک کتاب ’’علی وحسین‘‘ رکھی تھی اور فرمایا کہ آپ کا ذوق یہ ہے تو آپ اس کو پڑھیں۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ! حضرت تراویح کے دوران میں یہ تصور کرتا ہوں کہ قرآنِ مجید میرے دل پر اتر رہا ہے، اس کے ساتھ آپ نے نماز سے پہلے والا مراقبہ دیا ہے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں اور جسم اللہ کے سامنے سجدہ ریز محسوس کرتا ہوں، ساتھ یہ تصور کرتا ہوں کہ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ شروع کی تراویح میں یکسوئی نہیں ہوتی، اس کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ کی برکت سے یکسوئی رہتی ہے، اگر میں اس تصور میں کوئی غلطی کررہا ہوں تو اصلاح فرما دیجئے۔
جواب:
دیکھیں! یہ ساری باتیں ہوسکتی ہیں۔ کیسے؟ میں اس وقت جہانگیرہ میں بھی ہوں، میں اس وقت KPK میں بھی ہوں، میں اس وقت پاکستان میں بھی ہوں، اس وقت عصر کے بعد کا وقت ہے مجھے پتہ ہے، اس وقت افطاری میں اتنا وقت ہے یہ ساری باتیں مجھے معلوم ہیں یا نہیں؟ ایک ہی وقت میں ساری چیزیں معلوم ہیں۔ اسی طریقے سے ایک ہی وقت میں ساری چیزیں ہوسکتی ہیں۔ قرآن مجید کا اثر دل پر محسوس کررہا ہوں اس میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ کیونکہ تلاوت جو ہو رہی ہے اس کا اثر دل پر محسوس کررہا ہوں اور اللہ کے سامنے کھڑا ہوں تو اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، حضور ﷺ نے فرمایا:
’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَانْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 50)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔
اور یہ جو آپ نے کہا کہ اپنے جسم کو اللہ کے سامنے سجدہ ریز پاتا ہوں۔ یہ تو عبدیت ہے۔ لہٰذا یہ ساری باتیں ہوسکتی ہیں اِنْ شَاءَ اللہ۔ اور یہ جو آپ نے کہا کہ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ یہ بھی صحیح ہے کیونکہ بیت اللہ شریف کی طرف رخ کرنے کا تو حکم ہے۔ اس وجہ سے اس میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے، بالکل صحیح ہے۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم! محترم حضرت مرشد دامت برکاتھم امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اِنْ شَاءَ اللہ۔ حضرت جی اگر Sensing point اچھی طرح محسوس ہوتے ہوں تو کیا پھر بھی انگلی رکھ کر مراقبہ کرنا چاہیے؟
جواب:
نہیں بھائی! یہ تو صرف اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہے، اگر آپ Sensing point پر محسوس کرتے ہیں تو پھر کوئی انگلی رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم! کیا خواتین ایامِ مخصوصہ میں بیعت ہوسکتی ہیں؟
جواب:
بیعت کے لئے وضو شرط نہیں ہے برکت والی چیز ہے، اور جب وضو ہو تو برکت میں بھی کمی نہیں ہوگی، عذر میں تو بہت ساری چیزیں ہیں۔ آپ ﷺ کے پاس حج کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گئی تھیں، ان کو یہ حالت پیش آئی تو وہ رو رہی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک نے عورتوں پہ یہ بات لکھی ہے، بس آپ طواف نہ کریں اور مسجد میں نہ جائیں، باقی سارے کام کرسکتی ہیں۔ اس وجہ سے بیعت میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔ اس لئے جب لوگ وضو کرسکتے ہوں تو ہم لوگوں کو وضو کا کہتے ہیں تاکہ اس کی برکت بھی حاصل ہوجائے، خود بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت ہمارا وضو ہو، کیونکہ وضو سلاح المومن ہے، لہٰذا اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ بیعت ایک contract ہے اور موت اور زندگی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا، تو یہ contract کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم! معذرت میں لکھنا بھول گیا۔ لطیفۂ قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ سب پر دس منٹ ذکر ہوتا ہے اور لسانی ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اب آپ اس طرح کریں کہ دس منٹ کے ذکر کے بعد آپ کو جو مراقبۂ احدیت بتایا تھا، اگر آپ نے وہ کرلیا ہے تو اب اس کے بعد مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ آپ کرسکتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ یہی مراقبہ جو فیض کا ہے، اس کو آپ اس میں بدل لیں کہ وہ خاص فیض جس کا تعلق تجلیاتِ افعالیہ کے ساتھ ہے کہ اللہ سب کچھ کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر، شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر آرہا ہے، اب اس کی جگہ یہ کرلیں اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک صحابی نے پوچھا کہ بہترین رات کون سی ہے؟ انہوں نے فرمایا شبِ قدر۔ یہ بات بالکل صحیح ہے، لیکن جب یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھی گئی کہ بہترین رات کون سی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جس رات بندہ کی توبہ قبول ہوجائے وہ بہترین رات ہے۔ حضرت بات سمجھ نہیں آئی، کیونکہ شبِ قدر کا تو پتہ ہوتا ہے کہ آخری دس راتوں میں ہوتی ہے لیکن اس رات کا تو کسی کو پتہ نہیں چل سکتا کہ کب کس کی توبہ قبول ہوگی۔
جواب:
تو کیا آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی توبہ قبول ہوگئی ہے؟ یہ ضروری تو نہیں ہے۔ لیکن توبہ کا قبول ہونا یہ ہمارے لئے بڑی خوش نصیبی ہوگی۔ لہٰذا بار بار توبہ کرنی چاہیے، اللہ پاک کی ذات بڑی کریم ہے، لیکن اس کا معلوم ہونا، اس کا موت سے پہلے پہلے کچھ پتہ نہیں۔ بلکہ بعض لوگ تو اسی غلغلے میں رہتے ہیں، دغدغے میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے میں کچھ الفاظ بھی فرماتے ہیں کہ یہ جو اس قسم کی کیفیت ہوتی ہے یعنی گو مگو کی کیفیت ہوتی ہے کہ کیا ہورہا ہے، کیا ہورہا ہے، لیکن اس میں یہی کیفیت اچھی ہوتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں: ’’اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ‘‘ کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے آپ اللہ پاک سے اچھی امید کے ساتھ کرتے رہیں۔ جیسے حدیث پاک میں ہے:
’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری: 7405)
ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے‘‘۔
باقی جو توبہ کی قبولیت کی بات ہے، واقعی جس رات میں بھی قبول ہوگئی اس کے لئے وہ بہترین رات ہے۔ بھائی! لیلۃ القدر کی دعا کون سی بتائی ہے؟ ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: 3513) اس میں مانگا تو ہم نے یہی ہے، اگر یہ کسی اور رات میں کسی کی قبول ہوجائے تو پھر ظاہر ہے یہ اللہ کی دین ہے۔
سوال نمبر 24:
ایک صاحب نے بتایا تھا کہ میں ذکر کبھی کدھر کرتا ہوں اور کبھی کدھر کرتا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ میں نے آپ کو کیسے بتایا تھا؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ:
حضرت جی آپ نے ایک جگہ یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر ذکر کرنے کا بتایا تھا۔
جواب:
میرے خیال میں اسی پر ہی عمل کریں اور بطور ڈاکٹر آپ سے میں expect کرتا ہوں کہ آپ اس کو exactly follow کریں گے، اور As prescribed by the practitioner یعنی اس میں درمیان میں کوئی اپنی طرف سے اجتہاد نہ کیا جائے، جو بات شیخ نے بتائی ہے اسی طرح اس پہ عمل کرو گے تو اس کا فائدہ ملے گا اور اگر اپنی طرف سے اجتہاد کیا تو فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ میں آپ کو ایک بات بتاؤں: ڈاکٹر صاحب فرما رہے ہیں کہ ہم ان کو کہتے ہیں اپنا دماغ استعمال نہ کرنا، بس صرف جو بتایا گیا اسی پہ عمل کرنا۔ ایک ڈاکٹر صاحب تھے وہ خود بیمار ہوگئے تھے اور اپنے علاج سے ٹھیک نہیں ہورہے تھے، تو اپنے colleague ڈاکٹر سے کہا کہ آپ مجھے دوائی دیں اور اگر آپ مجھے پانی بھی پینا بند کردیں تو میں پانی بھی نہیں پیوں گا۔ چنانچہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ exactly follow کرنا ہوتا ہے، پھر مَاشَاءَ اللہ فائدہ ہوتا ہے، ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ کبھی کیا ہوتا ہے، کبھی کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا جس طریقے سے میں نے بتایا ہے آپ اسی طریقے پر اس کے لئے وقت نکال کر کریں۔ اور میں آپ کو یہ بات بتاؤں کہ جو ذکر آپ کی زندگی بدلتا ہے وہ آپ کے لئے بہت اہم ہے، ثواب یقیناً بہت بڑی چیز ہے لیکن ثواب کو سنبھالنا بھی تو ہوتا ہے۔ اگر اصلاح نہ ہو تو ثواب سنبھالا جاسکتا ہے؟ ثواب بھی ضائع ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے اس کو سنبھالنے کے لئے جو چیز ہے اس کو ایسے سنبھالنا ہوتا ہے کہ جیسے کہتے ہیں: جان پر کھیل کر حاصل کرنا۔ جیسے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ اگر پہاڑ کے اوپر برف پہ چڑھ کر اور پھر برف پہ پھسل کر اگر آپ کو بیعت کے لئے جانا پڑے تو جائیں۔ تو اس وقت یہ اہم بات ہوگی۔ اس وجہ سے اپنی اصلاح کی لائن سب سے زیادہ اہم کام ہے، اس کے لئے کوشش جاری رکھنی چاہیے جَزَاکَ اللہ۔
یہ جو بات کہی گئی ہے کہ جس طرح آپ کو بتایا گیا ہے اسی طرح کریں، اس کی مثال یہ ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو دعا سکھائی، اور انھوں نے جب "وَبِرَسُوْلِكَ الَّذِيْ أَرْسَلْتَ" پڑھا تو آپ ﷺ نے ٹوکا کہ نہیں "وَبِنَبِّيَكَ الَّذِيْ أَرْسَلْتَ" ہی پڑھو۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5952)
لہٰذا واقعی اسی طریقے سے کرنا چاہیے جس طرح بتایا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی طرف سے تبدیلی کرنے کی جو عادت بن جاتی ہے وہ پھر بڑھتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے جیسے کہا جائے اسی پر من و عن عمل ہو تو پھر مَاشَاءَ اللہ فائدہ ہوتا ہے، اللہ ہمیں توفیق عطا فرما دیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔