سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 561

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث شریف ہے کہ اگر تم کوئی برائی ہوتے ہوئے دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو، اگر ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روکو اور اگر زبان سے بھی نہ روک سکو تو دل میں ہی برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر: 5012)

سوال یہ ہے کہ اگر اس حدیث پر عمل کریں تو یہاں جس ادارے میں ہمارے مرد حضرات job کرتے ہیں، وہاں کی بے ضابطگیاں دیکھ کر انہیں روکنے کی کوشش کرو تو کوئی درست نہیں کرتا، بلکہ بدتمیزی شروع ہوجاتی ہے، لڑائی، بحث، شکایت سب کرکے دیکھ لیا، کوئی بھی اثر نہیں ہوتا، تو پھر ہم اس حدیث پر عمل کیسے کریں؟ اور بعض دفعہ تو اپنے ہی گھر میں ایسی صورتحال پیش آجاتی ہے، پھر گھر میں کیا رویہ رکھیں؟

جواب:

اصل میں اول تو آپ مجھے اپنے کام کی نوعیت اور اپنی position کے بارے میں آگاہ کرتیں، تو پھر میں کچھ کہہ سکتا، کیونکہ ہر ایک کے لئے جواب ایک جیسا نہیں ہوتا، مثلاً کوئی استاذ ہے تو اس کے لئے جواب الگ ہے، کوئی باپ ہے تو اس کا جواب الگ ہے، کوئی بیٹا ہے تو اس کا جواب الگ ہے، کوئی شوہر ہے تو اس کا جواب الگ ہے، کوئی بیوی ہے تو اس کا جواب الگ ہے یعنی ہر ایک کا اپنا اپنا domain ہے اور اپنا اپنا influence ہے اور اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ اس وجہ سے میں کوئی general بات ہلکی سی کرکے اس کو پورا کروں گا، البتہ اگر آپ مجھے اپنی پوری detail بتا دیں کہ کس قسم کی آپ کی job ہے اور اس میں آپ کی کیا position ہے، تو پھر اس کے بارے میں کچھ میں کہہ سکوں گا، اس وقت تو فی الحال اس میں general بات کو ہی بیان کیا جاسکتا۔ حدیث میں آتا ہے:

’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 5200)

ترجمہ: ’’تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا‘‘۔

لہٰذا اس لحاظ سے ہر ایک شخص اپنے اپنے طور پہ ذمہ دار ہے، لیکن کون کتنا ہے؟ یہ ہر شخص کے لئے مختلف ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مؤثر شخص ہوتا ہے، جس کا influence ہوتا ہے اور جن سے لوگ impress ہوتے ہیں، تو ان کا اشارہ بھی کافی ہوتا ہے، جبکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایسا ہوتا ہے، وہ ایسی position میں ہوتا ہے کہ وہ اگر ناراض بھی ہوجائے تو کوئی پروا نہیں کرتے۔ اس لئے اصل میں effect کی بات ہے کہ انسان کتنا effect کرسکتا ہے، اس وجہ سے تین درجے بتائے ہیں، پہلا درجہ کام کا ہے یا influential person کا ہے، جیسے گھر میں باپ ہے، یا boss ہے یا اس قسم کا جو influential person ہے، ان کے لئے تو یہ ہے کہ یہ ہاتھ سے روک دیں۔ دوسرا یہ ہے کہ زبان سے روکیں، یہ علماء کرام کے لئے اور ٹیچروں کے لئے اور اس طریقہ سے ان کے لئے ہے جو اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں، اگر وہ ہاتھ سے نہیں روک سکتے، ان کی position یہ نہیں ہے تو پھر وہ زبان سے روکیں، اس سے ان کا کام پورا ہوجائے گا اور اگر کوئی ان دونوں positions میں نہیں ہے تو پھر وہ معذور ہے، لیکن اس کے اندر اگر جذبہ ہے، تو اس کا دل کڑھے گا، اس وجہ سے اس کو پھر اس کا اجر بھی ملے گا اور وہ رکے گا صرف اس لئے کہ کہیں فساد نہ ہوجائے۔ میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں ہارون علیہ السلام کی اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی اور بڑی مثال شاید میں آپ کو نہ دے سکوں کہ ہارون علیہ السلام نبی ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے ان کو اپنی قوم میں چھوڑا ہے اور وہ اپنی قوم کو کھلا شرک کرتے دیکھتے ہیں یعنی بچھڑے کو وہ سجدہ کررہے ہیں جو کہ کھلا شرک ہے، لیکن ہارون علیہ السلام اس پر تفرقے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں تفرقہ ڈالنے والا نہ ہوجاؤں اور بجائے فائدے کے نقصان نہ ہونے لگے، اس لئے وہ خاموش رہے کہ موسیٰ علیہ السلام آجائیں، پھر میں مشورہ کرکے کام پورا کروں۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام آئے تو سب سے پہلے تو بہت زیادہ جلالی طبیعت میں ان کو داڑھی سے پکڑا کہ آپ نے کیا کیا؟ میں نے آپ کو کس لئے چھوڑا تھا؟ انہوں نے کہا کہ اے میری ماں کے بیٹے! مجھے ان کے سامنے رسوا نہ کرو، میں اس وجہ سے رکا رہا کہ کہیں میں تفرقہ ڈالنے والوں میں نہ ہوجاؤں، یہ سن کر موسیٰ علیہ السلام نے ان کو چھوڑ دیا، کیونکہ عذر معقول تھا، تو پھر انہوں نے فوراً دعا کی اپنے لئے بھی اور اپنے بھائی کے لئے بھی۔ لہٰذا اس میں ہمارے لئے بہت بڑا ثبوت ہے کہ اگر کوئی اس قسم کی position ہو تو پھر کیا کرنا چاہئے۔ پھر بلاوجہ اپنے کارتوس ضائع نہیں کرنے چاہئیں، بس جہاں پر اس سے کوئی فائدہ ہوتا ہو، پھر اس کو استعمال کرنا چاہئے، کیونکہ بعض دفعہ انسان صرف اپنے جذبات کی وجہ سے بول لیتا ہے اور جو کام وہ بعد میں کرسکتا ہے، وہ بھی رہ جاتا ہے اور اس کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں اپنے اس اثر کو بچانے کے لئے کہ کہیں وہ بالکل ہی ختم نہ ہوجائے، ذرا انتظار کرنا چاہئے، کیونکہ بعض دفعہ ایسا ٹائم ہوتا ہے کہ ایک آدمی کسی وقت ایک حالت میں ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی وقت غصے میں ہے یا کسی محفل میں ہے کہ جس میں فسق و فجور عام ہے، اس وقت اس کو اگر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ نصیحت لینے کے بجائے لڑائی شروع کردیتا ہے، لیکن اسی آدمی سے بعد میں اگر بات کی جائے ٹھنڈے دل سے کہ بھائی صاحب! آپ ناراض نہ ہوں، اصل میں بات یہ ہے کہ میں آپ کے فائدے کے لئے بات کررہا تھا، اگر مجھ سے غلطی ہوئی تو میں معافی چاہتا ہوں، لیکن یہ بات چونکہ ایسی ہے کہ آپ کے فائدے کے لئے میں عرض کررہا تھا یعنی اس طرح بتانے سے ماشاء اللہ! بات کام کرجاتی ہے۔ دراصل اپنے نفس کو مارنا یہ کوئی آسان بات نہیں ہوتی، بعض دفعہ صرف اپنے نفس کی وجہ سے معاملہ بگڑ جاتا ہے، مثلاً وہ کچھ کہتے ہیں تو یہ اس سے دوگنی بات کرلیتا ہے، حالانکہ داعی کو تو بہت زیادہ polite ہونا چاہئے، گویا کہ اس کے لئے pain لینا ہوتا ہے، پیغمبروں نے بھی ایسے ہی کیا ہے یعنی پیغمبر جب پہلے آتے تھے مثلاً آپ ﷺ کا مکی دور دیکھیں کہ کیا حالات تھے اور مدنی دور کے حالات کیسے ہیں، بس دونوں کا اپنا اپنا طریقۂ کار ہے۔ اس لحاظ سے میں عرض کروں گا کہ اس مسئلہ میں details بہت زیادہ ہیں، بس آپ نے جو کرلیا اور آپ کی جو کڑھن ہے، اس پر آپ کو اجر ملے گا۔ البتہ آئندہ کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ اس کے بارے میں مجھے اگر تفصیل بھیجیں تو پھر میں کچھ عرض کرسکوں گا۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فیض کو عام کرے۔ حضرت! ایک سوال ہے کہ کیا مراقبہ شروع کرتے وقت نیت یہ کرنی ہے کہ اللہ کی رحمت سلسلہ کے مشائخ کے قلوب سے میرے قلب میں آرہی ہے یا یہ کہ اللہ کی رحمت آرہی ہے، میرے دل میں سما رہی ہے؟ دونوں میں صحیح کون سی ہے یا دونوں صحیح ہیں کہ ان کو الگ الگ وقت میں کرنا ہوتا ہے؟

جواب:

اصل میں جو مراقبات ہوتے ہیں، وہ سالک کے حال کے مطابق ہوتے ہیں اور سلسلے کے مزاج کے مطابق ہوتے ہیں یعنی سلسلے کا جو مزاج ہوتا ہے، اس میں جن چیزوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے، اس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی رحمت میں اگر براہ راست یہ تصور کروں کہ اللہ جل شانہٗ کی رحمت میرے دل پہ آرہی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اگر یہ کرلوں کہ خانہ کعبہ پہ جو رحمت اتر رہی ہے، وہاں سے میرے پاس آرہی ہے، تو یہ بھی بالکل ٹھیک ہے۔ اور ایک روایت ہے کہ پہلے رحمت خانہ کعبہ پہ اترتی ہے، پھر اس کے بعد پورے عالم میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس لئے اگر کوئی آدمی اس کو کرتا ہے تو یہ بھی کرسکتا ہے۔ دوسری بات کہ سلسلے کی جو برکات ہیں، وہ سلسلہ کے ذریعے سے ملا کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ جو برکات ہوتی ہیں، اس کا بھی مراقبہ کیا جاسکتا ہے کہ فیض آرہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے جو سلسلہ ہے، اس سے ہوتا ہوا شیخ کی طرف آتا ہے اور شیخ سے پھر میرے دل پہ آتا ہے۔ واقعی ہوتا تو ایسے ہی ہے کہ سلسلہ کا جو فیض ہوتا ہے، وہ سلسلے سے ہوتا ہوا آتا ہے، اور اس کا مراقبہ بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ لوگ اتنا زیادہ pursue نہیں کرسکتے، اتنا زیادہ imagine نہیں کرسکتے، اس لئے پھر ان کو بتایا جاتا ہے کہ فیض آرہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پہ آرہا ہے اور شیخ کے قلب سے میرے قلب میں آرہا ہے۔ ایک دفعہ ہم مرحبا مسجد میں اعتکاف میں تھے کہ ایک نو وارد آدمی آیا، جو صاحب کشف تھا، پہلی دفعہ ہمارے ساتھ اعتکاف کیا تھا، اس نے مجھے کہا کہ آپ جب ذکر کررہے تھے تو ذکر کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بجلی کی طرح کوئی چیز کوند کے آرہی ہے اور پورے سلسلے سے ہوتے ہوئے آپ کی طرف آرہی ہے اور پھر وہاں سے آپ کی پوری مجلس میں پھیل رہی ہے۔ خیر اس کو تو میں نے اتنا کچھ نہیں کہا، کیونکہ اس سے بھی انسان خواہ مخواہ پھول جاتا ہے یعنی اپنے بارے میں حسن ظن میں بہت زیادہ مبتلا ہوجاتا ہے، جبکہ اپنے بارے میں سوء ظن ہی اچھا ہوتا ہے، لیکن یہ بات ہے کہ خود میں نے جان لیا کہ اس کو کشف صحیح ہوا ہے، کیونکہ چیز تو ایسی ہی ہوتی ہے یعنی جو سلسلے سے ہوتے ہوئے آتی ہے اور پھر تقسیم ہوتی ہے، اس لئے یہ کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا، بلکہ ہورہی ہوتی ہے، اس لئے جو آپ کو شیخ بتا دے، بس وہی کریں، اس میں اپنی طرف سے کوئی بات نہ کریں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم۔ حضرت جی! ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو ’’اللہ‘‘ اور لطیفۂ سر پر مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ہے۔ یہ مراقبہ میں تین ماہ سے کررہا ہوں، اس مرتبہ کچھ محسوس نہیں ہوا اور ناغے بھی ہوتے رہے ہیں، کیونکہ آفس کی routine بھی بہت خراب اور مشکل چل رہی ہے، آنے جانے کا کوئی وقت نہیں ہے اور boss زیادہ تنگ کررہا ہے۔

جواب:

اگر آپ صرف ایک چیز پہ غور کرلیں تو ان شاء اللہ! فائدہ ہوگا کہ آپ صرف اپنے آپ کو ذرا tune کریں، ایک تو آپ ناغہ نہ کریں، ناغہ نہ کرنے کا میں اس لئے نہیں کہتا کہ آپ کے آفس کی routine کو میں سمجھ نہیں رہا، نہیں! میں سمجھ رہا ہوں، فرق صرف یہ ہے کہ آپ صرف ایک رخ کو دیکھ رہے ہیں اور میں آپ کو دوسرا رخ بھی سمجھانا چاہتا ہوں۔ دیکھیں! ذکر اگر انسان normally آسانی کے ساتھ کرسکتا ہو تو صرف اس کا دل بن رہا ہوتا ہے، لیکن اس کے لئے اگر وہ مشکل ہوجائے یا اس کا نفس اس کے لئے تیار نہ ہو اور وہ اس کو بڑی مشکل سے کرے، جس کو کہتے ہیں دھکا start گاڑی، تو اگر اس طریقے سے آپ اس کو کروا رہے ہوتے ہیں تو اس سے آپ کے نفس کا بھی علاج ہورہا ہوتا ہے، کیونکہ یہ مجاہدہ بن جاتا ہے اور مجاہدہ سے نفس کا علاج ہوتا ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں آپ کے لئے یہ ایک بات ہے کہ اگر آپ اس کو محسوس کرلیں کہ آپ کا علاج ہورہا ہے اور یہ مجاہدہ ہے اور اس مجاہدہ میں آپ ذکر کی طرف (ذکر کے وقت میں) دھیان کریں، تو ان شاء اللہ! باقی اوقات میں یہ آپ کی help کرے گا یعنی آپ کو normal رکھے گا، اس لئے آپ اس کی tension نہ لیں، بلکہ اس کا جو اثر ہے، وہ آپ cash کرلیں یعنی بجائے اس کے کہ آپ اس سے بھی tension لے لیں کہ ناغے ہورہے ہیں اور کام نہیں ہورہا، نہیں! آپ یہ کریں کہ آپ اس کو مجاہدہ سمجھ کر کریں، آخر مجاہدہ بھی تو لوگ کرتے ہیں، مثال کے طور پر کسی کا آدھا گھنٹے کا مجاہدہ ہے، تو کیا آدھے گھنٹے کی exercise کیا لوگ نہیں کرتے؟ اگرچہ اس کا دل نہیں چاہتا exercise کرنے کو بلکہ ایک بوجھ سمجھتا ہے، لیکن ڈاکٹر نے کہا ہوتا ہے کہ آپ نے exercise کرنی ہے تو صبح سویرے وہ اٹھتا ہے اور جاتا ہے اور یہ کرتا ہے، وہ کرتا ہے، باقاعدہ exercise کرتا ہے، تو یہ ایک انسان کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور وہ کرتا ہے، اس سے پھر اس کو فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ اس کو ایک مجاہدہ سمجھ لیں اور مجاہدے کے طور پہ اس کو کریں، ان شاء اللہ! آپ کو اس کے دونوں فائدے حاصل ہوں گے اور آہستہ آہستہ آپ کے آفس کی routine کو بھی بہتر کرے گا اور بہت ساری چیزیں بہتر ہوں گی اور پھر اللہ کی مدد بھی آئے گی، کیونکہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

اس وجہ سے آپ اس کو مجاہدہ کے طور پہ لیں، ان شاء اللہ! اس سے آپ کے لئے آسانیاں پیدا ہوں گی۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ میں فلاں ہوں Ragdale UK سے۔ اَلْحَمْدُ للہ! پچھلے مہینے کی تسبیحات اور منزل میں کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ کوئی خاص محسوسات نہیں ہیں اور نہ کوئی حال ہے۔ بے چینی، بے صبری اور لوگوں کا چھیڑنا تقریباً ستر فیصد کم ہوگیا ہے، رات کے وقت بے چینی زیادہ ہوتی ہے، اس لئے میں دن میں تسبیح کرتا ہوں، تسبیح پانچ سو، ہزار، چھ سو اور پندرہ سو ہے۔

جواب:

یہ تسبیح کے بارے میں آپ نے جو بتایا ہے، اس سے مجھے سمجھ نہیں آیا کہ آپ پانچ سو کیا کررہے ہیں، ہزار کیا کررہے ہیں، چھ سو کیا کررہے ہیں اور پندرہ سو کیا کررہے ہیں؟ کیونکہ ہماری routine میں یہ چیز نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بہرحال آپ اس کی explanation کرلیں اور آپ دن کے وقت بے شک کرلیں، کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں ہے، بس آپ time set کرلیں کہ جس میں آپ کو زیادہ آسانی ہو اور کوئی خاص problem نہ ہو۔ باقی یہ کہ ماشاء اللہ! ناغہ نہیں ہوا، یہ بڑی اچھی بات ہے، ان شاء اللہ! اس سے آپ کو فائدہ ہوگا، بلکہ ہوگیا ہے کہ تقریباً ستر فیصد آپ بتا رہے ہیں کہ یہ چیزیں کم ہوگئی ہیں، ان شاء اللہ! اور بھی فائدہ ہوگا، لیکن اول تو مجھے یہ بتائیں کہ یہ آپ تسبیح کیا کررہے ہیں؟ کس وقت سے شروع ہے اور یہ کیا کیا ہیں؟

سوال نمبر 5:

کسی نے مجھے پوسٹ بھیجی ہے کہ اس زمانہ میں جو قحط الرجال کا زمانہ ہے، اس میں جو جنس سب سے زیادہ کم یاب ہے وہ اولیاء اور اتقیاء کا وجود ہے، امر بالمعروف ونہی المنکر جو علماء کا فریضۂ خاص تھا، وہ مسامحت اور مداہنت میں بدلتا جارہا ہے، ہم برائیاں دیکھتے ہیں، بدعات روز مرہ نظر سے گزرتی ہیں، مگر society کی تاثیر، کبھی مصلحت کے وقت کا خیال، کبھی بڑوں کی بڑائی اور اکثر حب جاہ اور طمع دنیا کلمہ حق کے اظہار سے باز رکھتی ہے اور یہ ہمارے علماء کی وہ کمی ہے، جس سے بہت کم لوگ محفوظ ہیں۔

جواب:

یہ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ ہے، جس میں کوئی بات غلط نہیں ہے، بالکل صحیح ملفوظ ہے، لیکن یہ کن کے لئے ہے؟ یہ علماء کرام کے لئے ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ جو چیز علماء کرام کے لئے ہو، اس کو علماء کرام کی مجلس میں ہونا چاہئے، کسی اور مجلس میں نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ جیسے teacher کا اثر اس کے students پر ہونا چاہئے، شیخ کا اثر مریدوں پر ہونا چاہئے اور علماء کا اثر عوام پر ہونا چاہئے، تو اگر کسی وجہ سے ان کا اثر کم ہوجائے تو پھر اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہیں تو وہ فائدہ نہیں ہوگا یعنی ان کا اثر ہی نہیں ہوگا۔ جیسے رائیونڈ میں ایک حلقہ لگتا ہے، جو علماء کرام کا ہوتا ہے اور اب بھی ہوتا ہے، اس میں ممانعت ہوتی تھی کہ کوئی غیر عالم وہاں پر نہ آئے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ علماء کو علماء ڈانٹ سکتے ہیں، لیکن عام لوگ نہیں ڈانٹ سکتے۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے، چونکہ حضرت خود نماز عموماً نہیں پڑھاتے تھے، کوئی ساتھی مدرسے کا یا مسجد کا ہوتا تھا، وہ نماز پڑھاتا، ایک دفعہ ایک young آدمی نے نماز پڑھائی، اس وقت کوئی عالم بھی آئے ہوئے تھے، جب نماز ہوگئی، تو تسبیحات کرتے وقت شاید موسم کا تقاضا ہوگا کہ وہ تھوڑا سا صف سے آگے ہوگئے، تاکہ کھلا بیٹھ جائیں اور آسانی کے ساتھ تسبیحات کریں، لیکن اس امام صاحب نے اسے کہا کہ آپ صف میں بیٹھیں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دیکھ لیا، تو حضرت تو پھر حضرت تھے، حضرت نے اس سے فرمایا کہ دیکھو! آپ نے ان کو کیوں کہا؟ کیا یہ شرعاً ضروری تھا؟ اس کی آپ کے پاس دلیل ہونی چاہئے، کیونکہ نماز ہوگئی ہے اور صفوں کی صف بندی نماز کے لئے ہوتی ہے، بیٹھنے کے لئے تھوڑی ہوتی ہے، اور نماز تو ہوگئی ہے، اب آپ نے کیوں کہا کہ آپ صف میں آجائیں؟ ایک غلطی یہ کی آپ نے اور دوسری غلطی آپ نے یہ کی کہ آپ غیر عالم ہیں اور وہ عالم ہیں اور غیر عالم عالم کو نہیں کہہ سکتا، تو آپ نے کیوں کہا؟ خیر حضرت نے ان کا خوب مزاج درست کیا۔ لہٰذا یہ چیزیں علماء کے لئے ہیں، ان کو normal انداز میں نہیں لینا چاہئے، نہ ہی لوگوں کے سامنے انہیں لانا چاہئے۔ اور پھر ہمارا اس وقت کا جو سیشن ہے، یہ سوال و جواب کا ہے، یہ posts کا نہیں ہے، اس لئے اس میں پوسٹ بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ باقی اگر میرے لئے بھیجنی ہے تو میں دیکھ لوں گا، لیکن وہ میرے Personal number پر آپ بھیج سکتے ہیں، کیونکہ جو میں لوگوں کے ساتھ contact کے لئے رکھتا ہوں، یہ میں ہفتے میں ایک دفعہ دیکھتا ہوں، لہٰذا اگر کوئی ضروری بات مجھے آپ نے بتانی ہے تو وہ میرے Personal number پہ بھیجیں، ورنہ اس کو تو میں ہفتے کے بعد دیکھوں گا، خیر آئندہ اس بات کا خیال رکھیں، ان شاء اللہ العزیز! بہت بہتری ہوگی۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته۔ حضرت! دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے تین ہزار مرتبہ اسم ذات ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر اور لطیفۂ قلب، روح، سر پر دس منٹ اور خفی پندرہ منٹ شروع کیا ہوا ہے، اس میں ناغہ نہیں ہوا، اَلْحَمْدُ للہ! بوجھ محسوس نہیں ہوا، اور مہینہ ختم ہوچکا ہے، آپ کی رہنمائی اور خصوصی دعاؤں کا طالب ہوں۔

جواب:

ذرا مہربانی کرکے جن لطائف پہ آپ ذکر کررہے ہیں اس کا بتا دیں کہ وہ ذکر محسوس ہورہا ہے یا نہیں؟ اور کتنا محسوس ہورہا ہے؟ اس کی تفصیل بتا دیجئے، تاکہ آئندہ سبق کا بتا سکوں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں اور میں فلاں کی زوجہ ہوں۔ حضرت جی! میں نے چالیس دن والا ابتدائی ذکر کر لیا تھا اور آپ نے مجھے لطیفۂ قلب تعلیم فرمایا تھا، لیکن اس مراقبے کو جاری نہیں رکھ سکی۔ حضرت جی! اب دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہوں، اب کہاں سے شروع کروں؟ خواتین کا درس باقاعدگی سے سننے کی کوشش کرتی ہوں۔

جواب:

ماشاء اللہ! یہ خواتین کا باقاعدگی سے درس سننے کی وجہ سے ہی آپ کو توفیق ہوئی ہے کہ آپ کو پھر اس کی فکر ہوگئی ہے، اس وجہ سے اس کو تو جاری رکھیں، اس سے اور بھی فائدہ ہوگا۔ باقی آپ نے چونکہ ابتدائی وظیفہ کر لیا تھا اور آپ نے لطیفۂ قلب کی تعلیم کے دوران چھوڑا تھا، اس لئے ابھی لطیفۂ قلب کا ذکر پندرہ منٹ کے لئے روزانہ ایک وقت مخصوص کرکے شروع کرلیں اور یہ تصور کریں کہ میرا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ اور اگر ایسا محسوس نہیں ہورہا تو دل کی جگہ پہ انگوٹھا رکھ کے سمجھیں کہ اس کے نیچے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہورہا ہے، اور ایک مہینہ کرکے پھر مجھے بتا دیجئے گا۔ اور یہ قبلہ رخ بیٹھنا ہوتا ہے اور باوضو ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے، لیکن بعض دفعہ جیسے بعض ایام میں نماز نہیں پڑھنی ہوتی، تو اس وقت ویسے ہی بیٹھ سکتے ہیں اور ذکر میں ناغہ نہیں ہونا چاہئے اور یہ یکسوئی کے ساتھ کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 8:

ایک صاحب نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا، میں نے اس کا جواب دے دیا، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ایک بہت اہم سوال ہے کہ بغیر آنسوؤں کے رونا کیا ہے؟

جواب:

میں نے پوچھا کہ اس سوال کا تصوف سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو کوئی شاعری کی بات ہوسکتی ہے یعنی تصوف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور شاعری ایک ایسی سیکولر چیز ہے کہ وہ تصوف میں بھی استعمال ہوتی ہے اور دوسری چیزوں میں بھی، بہت اچھے اچھے شاعر بھی گزرے ہیں، بہت برے برے شاعر بھی گزرے ہیں، گمراہ کرنے والے شاعر بھی ہیں اور اللہ کی طرف بلانے والے شاعر بھی ہیں، اس وجہ سے صرف شاعری پہ ہم فیصلہ نہیں کرسکتے۔ باقی اگر کسی صوفی کا شعر ہے تو پھر بتا دیجئے تو وہ تصوف میں آجائے گا، ماشاء اللہ! پھر ہم اس کی تشریح بھی کرلیں گے۔ پھر شعر جو اس نے کہا تو مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی، میں نے پوچھا کہ یہ کس کا شعر ہے؟ لیکن ابھی تک اس نے جواب نہیں دیا۔ شعر میں سنا دیتا ہوں۔

درد دل نے میرے دل کو جلا کر دھواں کردیا

آنکھوں کو بغیر اشک کے رولا کے اشکبار کردیا

دیکھیں! اول تو اگر یہ پہلا شعر ہے، تو یہ پھر ٹھیک ہی نہیں ہے، کیونکہ غزل کا پہلا شعر ایسا ہوتا ہی نہیں، بلکہ دونوں ایک ہوتے ہیں، لیکن اگر پہلا نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے، لیکن آنکھوں کو بغیر اشک رولا کے اشکبار کردیا، تو یہ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اشکبار کا مطلب اشک ہے یعنی بغیر آنسوؤں کے آنسوں نہیں ہوتے، ورنہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بغیر آنسوؤں کے آنسوں، بغیر ہنسنے کی ہنسی، بغیر رونے کا رونا، بغیر بولنے کا بولنا، اب یہ ایک چیستان ہی ہے، اس وجہ سے میں نے کہا کہ یہ کس کا شعر ہے؟ اگر یہ کسی صوفی کا شعر ہے تو پھر ہم ان کی باقی شاعری سے اندازہ لگا لیں گے کہ اس کا مطلب کیا ہے اور پھر ہم بھی ان شاء اللہ! اس کو سمجھیں گے اور پھر آپ کو بھی بتا دیں گے، لیکن اگر ویسے ہی کوئی عام شاعر کا شعر ہے تو پھر ہم اپنے آپ کو کیوں ان چیزوں میں ڈالیں؟ اَلْحَمْدُ للہ! بہت سارے کام کرنے کے ہوتے ہیں، اس لئے ہم اپنا وقت ان چیزوں میں ضائع نہیں کرنا چاہتے، بہت ضروری ضروری کام بھی ہیں۔ باقی میرے خیال میں اگر آپ شاعری دیکھنا چاہتے ہیں تو خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کی دیکھیں، فائدہ ہوگا ان شاء اللہ! اور یہ میں اردو کی شاعری کی بات کررہا ہوں، ورنہ فارسی میں اور عربی میں تو بہت زیادہ ہیں، یہ تو ممکن ہے کہ ہماری range سے باہر ہوجائیں، لیکن اردو میں دیکھنی ہو تو پھر خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کی دیکھیں، حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی دیکھیں، اسی طریقے سے ہمارے بڑے بڑے جو شعراء گزرے ہیں جیسے خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کی دیکھیں اور یہ صوفیاء شاعر ہیں۔ حضرت میر درد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مشہور شعر ہے کہ

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

اب لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی گانا ہے، کیونکہ بعد میں لوگوں نے اس کو گانے میں گایا ہے، لیکن یہ بہت قیمتی شعر ہے، کیونکہ یہ جینا کوئی آسان بات نہیں ہے، اس میں بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر اپنے نفس کے خلاف کرنا پڑتا ہے، حضرت نے اس طرف ہی اشارہ فرمایا ہے۔ لہٰذا یہ جو صوفیاء شعراء ہوتے ہیں، یہ ماشاء اللہ! بہت ہی گہری باتیں کرتے ہیں۔ اس لئے اگر یہ کسی صوفی کا شعر ہے تو پھر اس سے آگے پیچھے کا بھی بتا دیجئے گا، پھر ان شاء اللہ! ہمیں اس کا اندازہ ہوجائے گا، لیکن ویسے ہی ایسی چیزوں کی طرف دھیان کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنے والی بات ہوگی۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو اپنی جان، مال، وقت اور اولاد صحیح کاموں میں لگانے کی توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر 9:

حضرت! ہر وقت حالتِ ذکر میں رہنے کے متعلق میں یہ سمجھا ہوں کہ دل ہر وقت دعا یا شکر یا ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنے میں مصروف رہے یعنی مختلف طریقوں سے دل میں اللہ کی یاد رکھی جائے۔ کیا یہ درست ہے اور کیا ہر وقت کی حالت سے ہی نماز میں بھی توجہ اور دھیان آئے گا؟

جواب:

ذکر اصل میں کیا ہے؟ میرے خیال میں یہ تھوڑا سا سمجھنا چاہئے کہ ذکر اصل میں یاد کو کہتے ہیں اور تذکیر یادہانی کو کہتے ہیں یعنی اگر آپ کسی کو یاد دلا رہے ہیں تو یہ تذکیر بن جائے گا اور اگر خود کسی کو یاد کررہے ہیں تو یہ ذکر بن جائے گا۔ اور یاد میں ضروری نہیں کہ الفاظ استعمال ہوں، بلکہ الفاظ بعض اوقات اس کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن ہمیشہ نہیں، مثلاً اس وقت مجھے پتا ہے کہ میں خانقاہ میں بیٹھا ہوں، اب اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں اس کو صحیح جواب دے دوں گا کہ میں خانقاہ میں ہوں یعنی اگر کوئی ٹیلی فون کرے اور مجھے کہے کہ آپ کہاں ہیں؟ تو میں کہوں گا میں خانقاہ میں ہوں، کیونکہ یہ مجھے یاد تھا، اس کے لئے مجھے الفاظ کی ضرورت نہیں تھی، بس دل میں ایک کیفیت تھی۔ اسی طرح میں اللہ کا بندہ ہوں، اگر مجھے یہ یاد رہے تو یہ بھی ذکر ہے اور بہت بڑا ذکر ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ذکر اصل میں وہ ہے جو آپ کو گناہ سے روک دے۔ لہٰذا یہ بندگی کی کیفیت میں ہی ہوسکتا ہے کہ انسان بندگی اختیار کرلے، اس سے پھر وہ گناہ نہیں کرتا، کیونکہ وہ کہتا ہے کہ میرا آقا اس پر ناراض ہوجائے گا۔ لہٰذا اصل ذکر تو یہی ہے، البتہ اس حالت تک پہنچنے کے لئے اور بہت ساری قسمیں ہیں، مثال کے طور پر ابتدا میں لسانی ذکر ہوتا ہے، اس لئے لسانی ذکر ماشاء اللہ! کم چیز نہیں ہے، جیسے اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جب میرے نام پہ، میرے ذکر سے کسی کے ہونٹ ہلتے ہوں، تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ پھر اس کے بعد دل میں ذکر ہے، پھر سانس کے ساتھ ذکر ہے، پھر خیال میں ذکر ہے، لہٰذا یہ مختلف طریقے ذکر کے ہوتے ہیں، لیکن سب کا راستہ اس طرف ہو کہ اللہ یاد رہے یعنی بنیاد سب کی یہی ہے، target سب کا یہی ہے کہ ہم اس حالت تک پہنچیں، چاہے لسانی ذکر سے پہنچیں، چاہے قلبی ذکر سے پہںچیں، بلکہ بعض دفعہ تو پہلے لسانی کراتے ہیں، پھر قلبی کراتے ہیں، پھر اس کے بعد مراقبات کراتے ہیں، تب جاکر اس حالت تک پہنچتے ہیں۔ بہرحال اگر آپ اس route پر ہیں یعنی یہ ذکر کررہے ہیں، تو یقیناً نماز کی توجہ میں بھی اضافہ ہوگا اور دھیان صحیح آئے گا، البتہ نفس کی اصلاح پھر بھی ضروری ہوگی، کیونکہ بغیر نفس کی اصلاح کے جو انسان کو یاد دلایا جارہا ہے، اس کو باقی رکھنا مشکل ہوگا، مثلاً دیکھیں! اگر آپ کسی چیز پر کوئی چیز رکھنا چاہتے ہیں اور وہ چیز مسلسل ہل رہی ہے، تو کیا کریں گے آپ؟ ظاہر ہے کہ جب تک وہ ساکن نہیں ہوتی، اس وقت تک اس پہ نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا نفس کی مثال یہی ہے کہ اگر نفس تیار نہ ہو تو آپ اس پہ لائیں گے اور وہ hide کرے گا، آپ لائیں گے اور وہ دور کرے گا، آپ لائیں گے اور وہ دور پھینکے گا، اس وجہ سے اس چیز کو قائم رہنے کے لئے نفس کا تعاون ضروری ہے اور یہ تب ہوسکتا ہے، جب نفس نفس مطمئنہ ہوجائے یعنی جب یہ چیز ساتھ ہوگی، پھر اس کے بعد آپ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں، ورنہ نہیں کرسکتے، مثلاً اللہ پاک آپ کو یاد ہے، آپ گناہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن نفس آپ کا تابعدار نہیں ہے، تو پھر کیا ہوگا؟ یعنی خود آپ کو گناہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یاد ہے، لیکن نہیں رک رہے، تو اس کو کیا کہیں گے آپ؟ باغی نفس اس کو ہی کہتے ہیں، یہی باغی نفس ہے، لہٰذا جب تک آپ نفس کو قابو نہیں کریں گے، اس وقت تک ٹھیک ہے کہ آپ try جاری رکھیں، لیکن ہوگا اس کے ساتھ۔

سوال نمبر 10:

بچوں کو کس عمر میں ذکر اور پھر اصلاحی ذکر کی طرف راغب کرنا چاہئے؟

جواب:

شعور کی عمر میں پہنچنے سے پہلے پہلے ان کو عادت آہستہ آہستہ ڈلوائی جائے، تاکہ وہ شعور میں آتے ہی ان چیزوں کو بھی ساتھ pick کرلیں، کیونکہ آپ دیکھیں کہ جو بچہ ہوتا ہے، infant جو ہوتا ہے یعنی New born، وہ ہاتھ پیر ہلاتا ہے، مگر بغیر کسی مقصد کے، بغیر کسی control کے، بس ہلاتا ہے، کوئی مقصد نہیں ہوتا، نہ کوئی destination ہوتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اس میں control آنا شروع ہوجاتا ہے، مثلاً کوئی ہاتھ آپ اس کے سامنے کرلیں، تو وہ پکڑنے کی کوشش کرے گا، کیونکہ destination آجاتا ہے اس میں، پھر اپنی طرف سے کسی چیز کی طرف ہاتھ پہنچانے کی کوشش کرے گا، لہٰذا اس میں شعور کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں آتی ہیں، لیکن ہمیں خاص point معلوم نہیں کہ کب یہ شعور آتا ہے؟ اس لئے یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے دن سے بھی شعور آنا شروع ہوجاتا ہے، لیکن وہ جتنا ہوتا ہے، اس کو آپ شعور نہیں سمجھتے۔ لیکن پھر یہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے، اس لئے اس کے ساتھ ساتھ ہی آپ کو اپنے آپ کو tune کرنا پڑے گا اور بچوں کو اس طرف لانے کے لئے آپ ابتدا ہی سے آہستہ آہستہ ان کو ذکر کی طرف لائیں گے، باقی اصلاحی ذکر شعور کی عمر کے بعد ہی ہوسکتا ہے، لیکن کم از کم اس کو اصلاح کا پتا تو چلے کہ اصلاح کس چیز کو کہتے ہیں؟ جب تک اس کو اصلاح کا پتا ہی نہیں ہے، اس وقت تک آپ اس کو کیا سمجھائیں گے؟ البتہ صحبت صالحین کے ساتھ اس کو مانوس کرلیں، کیونکہ بچوں کو سب سے زیادہ فائدہ اسی سے ہوتا ہے کہ وہ صحبت صالحین کے اندر بیٹھنا سیکھ لیں اور آہستہ آہستہ وہ رنگ پکڑتا ہے، جیسے کہتے ہیں کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، لہٰذا آہستہ آہستہ ماحول سے وہ چیزیں pick کرنا شروع کر لیتے ہیں۔ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، انہوں نے اپنی ماں کی گود میں ہی ایک پارہ حفظ کیا ہوا تھا، کیونکہ ان کی ماں حافظہ تھی، وہ پڑھ رہی تھی، ساتھ یہ بھی شروع ہوگئے۔ اور ایسا ہوتا ہے extraordinary لوگ بھی ہوتے ہیں، اور ہماری تاریخ میں عجیب عجیب واقعات ہیں، اگر دیکھا جائے تو اس میں بڑی information ملتی ہے، مثلاً مائیں اپنے بچوں کا اتنا خیال رکھتی تھیں کہ جب پیٹ میں بچہ ہوتا تھا تو وہ کوئی مشکوک چیز نہیں کھاتی تھیں یعنی اس کا اتنا احتیاط ہوتا تھا اور جو کھلاتی تھیں ان کو، وہ پاک چیز ہوتی تھی اور ساتھ ذکر اور درود شریف پڑھتی تھیں۔ چنانچہ ان ماؤں سے جو بچے پیدا ہوتے تھے، ان کا پھر تاریخ نے record کیا ہوا ہے کہ ماں کے پیٹ میں ابھی بچہ ہے، ابھی آیا بھی نہیں ہے، لیکن اس ماں کو خیال ہے، اس کا پھر اثر ہوتا ہے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت!

May Allah preserve you. I haven't been very regular this month with my اوراد and I am fully responsible for this. Please allow me to start it again ان شاء اللہ.

جواب:

Yes, not only should you start it but you should regularly inform me about your ذکر. It is this lack of information which led you to this situation. Therefore, you should inform me about your ذکر regularly and to begin with I think you should inform me on a weekly basis. After that ان شاء اللہ it will come to monthly. Then it will make your habits clear.

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرا ایک ماہ کا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ ذکر دو، چار، چھ اور ڈھائی ہزار ہے۔ آپ نے سلوک سے متعلق فرمایا تھا کہ اپنی خامیوں کی list بنائیں، میں نے جو غور کیا تو مجھے مندرجہ ذیل چیزیں سمجھ آئیں۔ خلاف مزاج باتوں پر غصہ آنا، گفتگو میں بے احتیاطی، مجلس یا فون پر دوسروں کی غیبت کا مجبوراً سننا، ناپسندیدگی کا اظہار کرنا، باقی آپ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

ٹھیک ہے، لیکن میرے خیال میں ابھی اس میں کچھ اور چیزیں بھی جمع ہونی چاہئیں، فی الحال مجھے incomplete لگتی ہیں، اس لئے آپ کوشش کرلیں، تاکہ صراحت میں آجائیں۔ باقی فی الحال اگر آپ کو خلاف مزاج باتوں پر غصہ آجائے، تو غصہ نہ کریں، کیونکہ اس وقت غصہ نہ کرنا مجاہدہ ہوگا اور اس مجاہدہ سے اصلاح ہوگی ان شاء اللہ! اور گفتگو میں بھی جو بے احتیاطی ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ چپ رہنے کا مجاہدہ شروع کرلیں۔ چپ رہنے کے مجاہدہ میں یہ ہوتا ہے کہ جہاں پر آپ بولنا چاہتے ہوں، وہاں پر دس منٹ کی خاموشی اختیار کرکے، پھر اس کے بعد احتیاط کے ساتھ بولا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ احتیاط کے لئے بولنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں سوچنے کا موقع ملے، کیونکہ اگر انسان سوچ نہ سکے اور مسلسل بول رہا ہو تو وہ کیسے احتیاط کرے گا؟ اس وقت احتیاط ہو ہی نہیں سکے گی۔ لہٰذا جب تک آپ کو خاموش رہنا نہیں آئے گا، اس وقت تک آپ یہ احتیاط نہیں کرسکتے، اس لئے اس کے لئے دس منٹ کی خاموشی اختیار کریں، حدیث پاک ہے:

’’مَنْ صَمَتَ نَجَا‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2501)

ترجمہ: ’’جس نے خاموشی اختیار کی اس کو نجات ملی‘‘۔

لہٰذا اس پر عمل کی نیت سے خاموشی اختیار کی جائے، البتہ یہ بھی نہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے روکا جائے، نہیں، وہ الگ بات ہے، لیکن اس کے کرنے کے لئے بھی planning کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے اس خاموشی میں اس کی planning کرلیں کہ میں کیسے بات کروں، کس وقت اور کس انداز میں بات کروں؟ کہ اس کو فائدہ ہو۔ میرے خیال میں فی الحال ان دو باتوں پہ عمل کریں، یہ کافی ہیں، کیونکہ ساری چیزوں کی ایک ہی وقت میں اصلاح نہیں ہوسکتی، یہ انسانی فطرت ہے، اسی لئے مشائخ کی جو ترتیب ہوتی ہے، وہ یہی ہوتی ہے، جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ سارے عیوب لکھ لیں اور ایک وقت میں ایک عیب کی اصلاح کرائی جائے یعنی یہ بھی ساتھ فرماتے تھے، کیونکہ Step by step اصلاح ہوتی ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ جب ساری لکھی جاتی ہیں، مثال کے طور پر تیس لکھی گئی ہیں تو ان میں سے ممکن ہے کہ sixteen کو pick کرلیں، کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے خیال میں جس چیز کو اہم سمجھتا ہے، وہ اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی کہ دوسری اہم ہوتی ہے، اور شیخ اسی لئے ہوتا ہے، وہ یہی کرتا ہے کہ وہ دیکھ لیتا ہے کہ اس کو کون سی چیز زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ مثلاً اگر کسی کی bleeding بھی ہورہی ہو اور سانس بھی رک رہا ہو اور پیٹ میں بھی درد ہو، تو کس کا علاج پہلے کریں گے؟ سانس کا کریں گے، اور ڈاکٹروں کا باقاعدہ protocol ہوتا ہے کہ کس وقت کس چیز کو کرو گے؟ کیونکہ اگر وہ سانس کنٹرول نہیں کررہا اور خون بند کرنے کی کوشش کررہا ہے یا پیٹ کا درد ٹھیک کررہا ہے کہ اس دوران میں وہ مر جائے تو کیا کرے گا؟ کیونکہ سانس تو بالکل ایسی ہی چیز ہے کہ سیکنڈوں میں بات ختم ہوسکتی ہے، اس وجہ سے پہلے اس کی کوشش کی جائے گی، پھر خون بند کیا جائے گا، پھر بعد میں ٹائم ملا تو پیٹ ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لہٰذا بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو فوری نوعیت کی ہوتی ہیں، کیونکہ بہت ساری چیزوں کو وہ نقصان پہنچا رہی ہوتی ہیں، اس لئے ایسی چیزوں کو پہلے پکڑا جاتا ہے، جیسے آپ ﷺ نے بھی مختلف صحابہ کرام کو مختلف چیزیں بتائیں، کسی کو بتایا غصہ نہ کرو، کسی کو فرمایا جھوٹ نہ بولو، کسی کو کچھ فرمایا تو کسی کو کچھ اور فرمایا، کیونکہ ان کے لئے وہ چیز preventing ہوتی تھی یعنی ان کی اس حالت کے مطابق وہ ضروری ہوتی تھی۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ حضرت صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، اللہ آپ کے جان و مال میں برکت عطا فرمائے۔

نمبر 1: حضرت صاحب! تین مہینے کی مدت ہوگئی ہے کہ آپ سے رابطہ نہیں ہوا، یہ مجھ گناہگار کی نالائقی کا ثبوت ہے اور شیطان اور نفس کے جال میں پھنس گیا، اس لئے آپ سے رابطہ جلدی نہیں کرسکا، بار بار آپ کو message کرنے کا سوچا، مگر دنیا کی محبت کی وجہ سے شیطان بھلا دیتا تھا۔ پاکستان آیا ہوں، ادھر ڈپارٹمنٹ میں ایک ساتھی تھا۔ جو دنیا میں کافی مگن تھا اور کاروبار بھی کرتا تھا، اس نے مجھے بھی ساتھ ملایا تو اس کی غفلت مجھ میں بھی آگئی اور دنیا سے محبت مجھے بھی ہوگئی، پھر ذکر میں ناغہ ہوتا گیا۔ حضرت! خانقاہ کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی صحبت کو کافی miss کرتا ہوں اور اپنی محرومی محسوس کرتا ہوں۔ میں گھر والوں کو ادھر لایا ہوں اور اب میں ذکر مستقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ حضرت صاحب! پاکستان میں دنیا کے اثرات جب آجاتے ہیں تو آپ کی صحبت یعنی خانقاہ آجاتے ہیں، مگر آپ جب باہر ہوں تو آپ کی صحبت کس طرح حاصل کی جائے؟ کس طرح دنیا کی ظلمتوں دل سے دور ہوں؟ میں آپ سے لیا ہوا ذکر کررہا ہوں اور آپ کی برکت سے جس کی مدت ایک مہینے سے زیادہ ہوچکی ہے، جس میں بارہ تسبیحات اور پانچ سو بار اللہ کا ذکر ہے، دس منٹ لطیفۂ قلب، دس منٹ لطیفۂ روح پر، دس منٹ لطیفۂ سر پر اور پندرہ منٹ لطیفۂ خفی پر مراقبہ ہے۔ لطائف میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر محسوس ہوتا ہے۔ مراقبہ میں یکسوئی کم ہے، کافی کوشش کے بعد بھی یکسوئی نہیں ہورہی۔ لطیفۂ سر پر مراقبہ شروع کرنے کے ساتھ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پر بھی اللہ کا ذکر محسوس ہوتا ہے یعنی تین لطائف کے ساتھ ایک ساتھ اللہ کا ذکر محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے، لطیفۂ خفی پر بھی ذکر ہوتا ہے، مگر زیادہ دیر نہیں اور جب توجہ اللہ کی طرف مسجد میں کرتا ہوں، تب بھی لطائف کا اثر محسوس ہوتا ہے۔ نمبر سات قرآن شریف کی تلاوت میں استقامت نہیں ہے، اگرچہ انفرادی سورتوں میں تو مستقل مزاجی ہے، جیسے سونے سے پہلے سورۃ ملک کی تلاوت، صبح سورۃ یس کی تلاوت کرنا۔ صبح کی نماز میں بھی سستی ہوجاتی ہے اور پورا دن اس پہ استغفار کرتا ہوں یعنی جب وقت ہوتا ہے۔ حضرت صاحب! کچھ اور مسائل بھی ہیں جن کی آپ سے Personal discussion کرنی ہے، اگر آپ کی اجازت ہو۔ حضرت صاحب اگر message میں کوئی ناگوار اور غیر مناسب بات ہو تو معذرت قبول فرمائیں۔

جواب:

آپ کی فکر ماشاء اللہ! مبارک ہے، اور یہ فکر آپ کو واپس اپنی position پہ لے جائے گی، البتہ صرف فکر سے کام نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو عقل کا کام ہے، لیکن ساتھ اپنے دل کو اور نفس کو بھی involve کرنا ہوتا ہے اور دل کو involve کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ذکر میں ناغہ نہ کریں اور آپ کا ذکر باقاعدگی کے ساتھ ہو، پھر آپ کا دل normal رہے گا اور اللہ کی طرف متوجہ ہوگا اور آپ کو بھی متوجہ کرے گا۔ اور نفس کے لئے مجاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے آپ اس طرح کرلیں کہ ان چیزوں میں خود ہی دیکھ لیں کہ آپ کا نفس کیا چاہتا ہے؟ جو آپ کا نفس چاہتا ہے، اس کی ضد پہ عمل کرلیں اگر وہ غلط ہے، اور اس کی ضد پہ عمل کرنا ہی آپ کا علاج بھی بن جائے گا، کیونکہ وہ مجاہدہ ہوگا۔ بس فی الحال آپ یہ کرلیں اور بعد میں پھر ان شاء اللہ العزیز! آپ کو مزید بتا دیا جائے گا، اور فی الحال آپ اپنے ذکر کو regular کرلیں اور جو چیزیں آپ نے مجھے بتائی ہیں، اس میں علاج بضد خود کرلیں اور پھر آپ مجھے بتائیں کہ اس میں عمل کیسا ہورہا ہے؟

سوال نمبر 14:

السلام علیکم۔ حضرت! میں اپنی والدہ کی وفات پر پاکستان آیا ہوں، ان شاء اللہ! آپ کی زیارت کے لئے جلد آؤں گا۔ حضرت! آپ سے اصلاحی تعلق کے بعد پہلی دفعہ پاکستان آیا ہوں، کچھ معاملات ہیں کہ پہلے جو کمی کوتاہی ہوتی تھی، مگر اب عمل کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ہاں Combined family system ہے، بھابھیاں، کزن اور سالیاں مجھ سے پردہ نہیں کرتیں، باقی رشتہ دار خواتین بھی والدہ کی تعزیت کے لئے جب آتی ہیں تو وہ بھی نہیں کرتیں، مجھ سے جتنا ہوسکتا ہے، میں نظر جھکا کے رکھتا ہوں، مگر پھر بھی نظر پڑ جاتی ہے، میں دل ہی دل میں توبہ کرتا ہوں اور بہت بے چینی رہتی ہے، family بہت بڑی ہے، اس لئے کوئی نہ کوئی آیا رہتا ہے ملاقات کے لئے۔ دوسرا بولنا بہت پڑتا ہے کہ ہر کوئی UK کا پوچھتا ہے، پھر کچھ نہ کچھ بولنا پڑتا ہے، دل کافی اداس ہے کہ فضول گوئی ہورہی ہے، اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں کہ کیا کروں؟

جواب:

سبحان اللہ! کہتے ہیں ازالہ ضروری نہیں ہوتا، امالہ ضروری ہوتا ہے۔ ازالہ کسی چیز کو ختم کرنا ہوتا ہے اور امالہ میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو صحیح رخ دے دیتے ہیں۔ لہٰذا جیسے آپ فرما رہے ہیں، تو ان دونوں میں دعوت کی بات چل سکتی ہے کہ اگر پردہ نہیں کرتیں، تو اس وقت نظریں نیچے کرکے پردے کی دعوت دینا شروع کرلیں، جب آپ اس وقت خود عمل کریں گے اور دعوت دیں گے تو اس دعوت میں اثر ہوگا اور اس دعوت کی برکت سے آپ کو توفیق ہوگی اور ان کو بھی ان شاء اللہ! توفیق ہوگی، یہی ہم نے اَلْحَمْدُ للہ! سنا ہے اور دیکھا ہے کہ ایسی صورت میں پھر یہی کرنا پڑتا ہے، کیونکہ آپ اس سے بچ تو نہیں سکتے، اس لئے اس سے پھر فائدہ اٹھائیں اور فائدہ اٹھانے کا یہی طریقہ ہے کہ خود آپ نگاہیں نیچے رکھیں اور ساتھ ساتھ یہ بتائیں کہ شریعت میں جیسے حکم ہے، ویسے ہی ہم سب کو اس پر عمل کرنا چاہئے اور آپ لوگوں کی بڑی مہربانی کہ آپ لوگ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ لہٰذا اس طرح آپ بات کریں، اور یہ میں نے صرف ایک sample دے دیا ہے، باقی آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ UK کا اگر کوئی پوچھتا ہے، تو گویا کہ آپ اس position میں ہیں کہ ان کو UK کا ضرور کچھ بتائیں، لیکن ساتھ ساتھ کچھ نصیحت کی بات بھی کر لیا کریں، مثلاً وہاں کی کچھ برائیاں جو actual ہیں، وہ برائیاں بیان کریں کہ وہاں تو اس قسم کی چیزیں ہیں، شکر ہے اَلْحَمْدُ للہ! وہ چیزیں یہاں پر نہیں ہیں، ہمیں ان چیزوں کو باقی رکھنا ہے، اور ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا ہے، دنیا کے پیچھے پڑ کے بعض دفعہ بہت زیادہ نقصان ہوجاتا ہے، یہ چیزیں آپ جب ان کو کہیں گے تو آپ کی بات میں اثر بھی زیادہ ہوگا، کیونکہ آپ جو بات کررہے ہوں گے، وہ موقع کی بات ہوگی۔ فی الحال اس پر عمل کرلیں، باقی ملاقات ہوجائے گی تو ان شاء اللہ! اس پر مزید عرض کروں گا۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا پندرہ منٹ کا لطیفۂ قلب کے ذکر کو ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے، آپ سے گزارش کہ مجھے آگے کا ذکر بتا دیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے، اللہ جل شانہٗ آپ کو مزید استقامت عطا فرمائے، البتہ آپ ذرا مجھے اپنی کیفیت کے بارے میں بتا دیں کہ آپ کا لطیفۂ قلب کا ذکر محسوس ہورہا ہے یا نہیں ہورہا؟ اگر محسوس ہورہا ہو تو وہ بھی بتا دیں اور اگر نہ ہورہا ہو تو پھر بھی بتا دیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے تھے، ان کو ایک مہینہ مکمل ہوچکا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ اور اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، لیکن حضرت! ابھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہو۔

جواب:

ماشاء اللہ! ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پانچ ہزار مرتبہ کریں، باقی چیزیں وہی ہوں گی اور پانچ منٹ کا تصور بھی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم۔ حضرت جی! معمولات اَلْحَمْدُ للہ! معمول کے مطابق ہورہے ہیں، لیکن ہسپتال میں اپنے مریض کو خون دینے کی وجہ سے ایسی حالت ہوگئی تھی کہ اس رات کوشش کے باوجود میں ’’منزل جدید‘‘ مکمل نہ پڑھ سکا، پڑھتے ہوئے کمزوری محسوس ہوتی اور تحریر میں نہیں دیکھ سکتا تھا اور اس رات ’’مناجات مقبول‘‘ بھی قضا ہوگئی، دوسرے دن ذکر علاجی بھی تھوڑا کرسکا۔ حضرت جی! میرا ذکر ایک مہینے کے لئے دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ’’اَللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور دس ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ ہے اور پندرہ منٹ کا مراقبہ یعنی دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کو محسوس کرنا اور ہر نماز کے بعد ایک سانس میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پچھتر مرتبہ اور نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ ابھی جاری ہے اور دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ فی الحال محسوس نہیں ہوا، لیکن دل کے آس پاس سینہ بیجھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، اب پتا نہیں معدہ ہے یا دل ہے، پر یہ کیفیت کبھی کبھار ذکر کے دوران اور ویسے بھی محسوس ہوتی ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! کچھ اثرات شروع ہوگئے ہیں، اس لئے آپ یہ ذکر فی الحال جاری رکھیں، البتہ جو پندرہ منٹ کا مراقبہ ہے، اس پہ اپنی توجہ کچھ بڑھائیں، تاکہ یہ چیز چل پڑے۔ باقی خون دینے میں ذرا اپنے ڈاکٹر سے پہلے مشورہ کرلیا کریں کہ آپ کو خون دینا چاہئے یا نہیں دینا چاہئے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود کمزور ہوتا ہے، اس لئے بجائے اس سے کہ دوسروں کا فائدہ ہو، اپنا بھی نقصان ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس میں آپ یہ نیت کرلیں کہ مریض کو بھی صحتمند آدمی کا خون چاہئے، کمزور آدمی کا نہیں، اس وجہ سے آپ اس نیت سے کسی اور کو بے شک تیار کرلیں، اور ایسے ہوتے ہیں ماشاء اللہ! یعنی اچھے لوگ ہوتے ہیں، وہ دیتے بھی ہیں۔ بس یہ کریں پھر مسئلہ نہیں ہوگا، اور فی الحال آپ یہی کریں جو میں نے عرض کیا تھا۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ شیخ محترم، میرے حضرت جی! اَلْحَمْدُ للہ! آپ کی ہدایت کے مطابق درج ذیل ذکر مکمل ہوا ہے۔ دو سو، چار سو، چھ سو اور پندرہ سو، دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ احوال یہ ہیں کہ دل کے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنے کے متعلق یہ بات ہے کہ ابھی بھی دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرتا ہوا محسوس نہیں ہوتا، ذکر میں کُل پانچ بار ناغے ہوئے ہیں، اس پر بہت ندامت اور شرمندگی ہے۔ ذکر کرتے ہوئے ذہن میں بہت خیالات آتے ہیں، جس میں زیادہ تر مستقبل میں کیا ہوگا، ایسے ہوگا، ویسے ہوگا، کیا کرنا ہے؟ یعنی اس طرح کے خیالات ہیں۔ ذکر کے دوران کئی بار بہت نیند آتی ہے۔ اور سو مرتبہ تیسرا کلمہ، سو مرتبہ درود شریف اور سو مرتبہ استغفار کرنے میں بہت کوتاہی ہے، ہر وقت عجیب سا اضطراب ہوتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ آپ سے اس سلسلے میں رہنمائی کی درخواست ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنا فیض نبی کریم ﷺ سے آپ تک اور آپ سے مجھ تک پہنچائے۔

جواب:

ابھی آپ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ دو ہزار مرتبہ کریں اور ناغے نہ کریں۔ باقی ذکر کے دوران جو خیالات آتے ہیں، تو آپ مجھے بتائیں کہ خیالات اگر اس طرح آتے ہوں تو پھر نیند نہیں آنی چاہئے، بلکہ اس کی فکر کرنی چاہئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں معاملے شیطان کی طرف سے ہیں، اس لئے آپ اس کی پروا نہ کریں، ذکر کی طرف دھیان لگائیں، اللہ تعالیٰ بہتر فرمائے۔

سوال نمبر 19:

ہمشیرہ فلاں۔ السلام علیکم۔ حضرت جی! دعا کیجئے کہ روحانی صحت مل جائے۔ لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ چل رہا ہے۔ فروری کی 13 تاریخ سے بیمار ہوں، اب تک مارچ میں مراقبہ میں دو ناغے ہوئے ہیں۔ فروری کی 21 تاریخ کو نماز فجر calendar پہ ٹائم دیکھے بغیر ادا کرلی، غفلت اتنی کہ عشاء کے وقت بھی ٹائم نہیں دیکھا، مغرب کے وقت ٹائم دیکھا تو قضا ادا کرلی، ایک دم غافل سو دم کافر مجھ پہ صادق آتا ہے۔ ایک کمی یہ ہوئی کہ میں نے دو ماہ سے منزل نہیں پڑھی۔ حضرت جی! کس طرح اس غفلت کا سدباب کروں؟ جو مجھے برباد کررہی ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اصل بات یہ ہے کہ ہمت ہی اس کا علاج ہے، کیونکہ غفلت کے مقابلہ میں ہمت ہوتی ہے، لہٰذا آپ بجائے اس کے کہ بعد میں پشیمان ہوں پہلے سے ہمت کرلیا کریں کہ ایسا نہ ہو۔ باقی بیماری میں اگر کچھ چیز رہ جائے تو اس کی تو compensation ہوتی ہے، لیکن غفلت میں رہ جائے، تو اس کے مسائل ہوتے ہیں، اس کا نقصان ہوتا ہے، اس لئے آپ بس اس طرح کرلیں کہ غفلت کا سدباب ہمت کے ساتھ کریں۔ باقی یہ جو آپ بتا رہی ہیں کہ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح اور لطیفۂ سر پر جو ذکر ہورہا ہے، تو یہ بتائیں کہ کیا محسوس ہورہا ہے یا نہیں ہورہا؟ اس کے بارے میں ذرا مجھے بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ قائم رکھے۔ حضرت! میں ایبٹ آباد سے فلاں میجر صاحب بات کررہا ہوں، میرے معمولات مندرجہ ذیل ہیں: دو سو، چار سو، چھ سو اور سو اور دس منٹ کا مراقبہ۔ حضرت جی! معمولات کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، لیکن میری کوتاہی کی وجہ سے چار دن کا ناغہ ہوا ہے، جس کے لئے معافی کا طلبگار ہوں، اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے میں نے عرض کیا تھا کہ مراقبہ کے دوران ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی ترتیب محسوس ہوتی ہے، جس پر آپ نے مجھے سو مرتبہ ’’اَللّٰہُ‘‘ کا ذکر بھی عنایت فرمایا تھا، جس سے مراقبہ کے دوران ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی ترتیب ٹھیک ہوگئی ہے۔ براہ مہربانی آئندہ کے لئے فرما دیجئے۔

جواب:

دیکھیں! آپ نے میرا کوئی نقصان نہیں کیا، بلکہ نقصان آپ نے اپنا کیا ہے، لہٰذا اس پر توبہ کرلیں اور آئندہ کے لئے اس سے بچیں۔ باقی جو ذکر ہے، وہ آپ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی بجائے تین سو مرتبہ کرلیں اور دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ مراقبہ کریں، بس فی الحال یہ کرلیں، پھر ان شاء اللہ! مجھے بتا دیجئے گا اور باقی چیزیں وہی ہوں گی۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! آپ نے مندرجہ ذیل اذکار تیس دن کے لئے دیئے تھے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ’’حَقْ‘‘ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو سو دفعہ اور تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ، اللہ کے فضل سے تیس دن مکمل ہوگئے ہیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ دو سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ایک سو مرتبہ، باقی اسی طریقہ سے ان شاء اللہ! جاری رکھیں۔

سوال نمبر 22:

حضرت جی! میری ذہنی توجہ حاضر نہیں ہوتی، ہر وقت یا تو دنیا یا دین کے مستقبل کے کام کے بارے میں سوچ ہوتی ہے، اس لئے حال میں ذہن نہیں ہوتا، بلکہ مستقبل کی سوچ میں رہتا ہے۔ بتائیں! میں کیا کروں؟ ذہن پر مستقبل کا اتنا طول عمل ہوتا ہے کہ حال کمزور رہ جاتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! آپ نے صحیح diagnosis کی ہے، اس لئے آپ کو اپنے مستقبل کے بارے میں عملی انداز میں سوچنا ہے، مثلاً ایک student ہے، اس کا داخلہ ہوگیا میڈیکل کالج میں یا انجینئرنگ کالج میں یا کسی professional کالج میں داخلہ ہوگیا، تو اب وہ سوچتا ہے کہ میں جب انجینئر بن جاؤں گا تو کیا کروں گا یا میں ڈاکٹر بن جاؤں گا تو کیا کروں گا یا میں lawyer بن جاؤں گا تو کیا کروں گا؟ یعنی وہ روزانہ یہ سوچتا ہو، لیکن پڑھتا نہ ہو، تو کیا خیال ہے، کیا وہ کام جو سوچ رہا ہے وہ ہوسکے گا؟ نہیں، اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی، کیونکہ نہ وہ پاس ہوگا، نہ اس کا فائدہ ہوگا، اس وجہ سے ان چیزوں کے لئے آپ اپنے ذہن کو بنائیں کہ اگر میں نے یہ کام کرنے ہیں تو اس کے لئے یہ کرنا ہے اور اس میں جب بات مستقبل کی آئے، تو کہیں کہ اس وقت میں حال میں ہوں، ابھی مجھے یہ کرنا ہے، بعد میں دیکھا جائے گا، اور ذکر کے دوران تو خصوصاً ان چیزوں کو قریب نہ آنے دیں اور آپ اپنا کام جاری رکھیں۔

سوال نمبر 23:

Lack of confidence کا کیا علاج ہے؟

جواب:

اصل میں confidence ایک ایسی چیز ہے جو کہ Step by step ہوتی ہے، مثلاً ایک انسان بہت بڑی چیز کو اٹھانا چاہے اور وہ نہ اٹھ سکے تو کیا نتیجہ ہوگا؟ اور اگر نہیں تو پھر ملا نصیر الدین صاحب بن جائیں، اس لئے کہ یہ بھی بہت زبردست قسم کے آدمی تھے، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی جنگل میں بہت بڑی چٹان پڑی ہوئی تھی، انہوں نے ایک طرف سے زور لگایا، پھر دوسری طرف سے زور لگایا، پھر تیسری طرف سے زور لگایا اور پھر چٹان کے اوپر کھڑے ہوکر زور لگایا کہ واہ واہ مجھ میں بڑھاپے میں اور جوانی میں کوئی فرق نہیں ہے کہ میں جوانی میں بھی اس کو نہیں اٹھا سکتا تھا اب بڑھاپے میں بھی نہیں اٹھا سکتا۔ لہٰذا یا تو آپ ملا نصیر الدین بن جائیں، پھر آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، لیکن اگر کسی نے practical کام کرنا ہے تو ہر چیز کے لئے باقاعدہ ایک انتظام چاہئے، انتظام سے ہی کام ہوگا اور پھر خود بخود confidence آئے گا اور یہ بات بہت اہم ہے کہ انتظام سے کام ہوگا اور پھر confidence آئے گا، مثلاً schedule آپ نے اپنا بنانا ہے اور یہ انتظام سے بناؤ، calculate کرلو کہ میں کتنا کرسکتا ہوں، پھر اتنا ہی بناؤ، اس سے آپ کو ہمت ہوگی کہ بھئی ہوسکتا ہے، ورنہ پھر بے ہمتی ہوگی کہ دیکھو میں یہ کرنا چاہتا ہوں، پر نہیں ہوا، اس لئے Realistic procedure follow کرکے انسان confidence کو gain کرسکتا ہے۔ بہرحال یہ پورا نفسیاتی chapter ہے، اس کو دو لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے، ورنہ میرے خیال میں اس بارے میں جو ماہرین نے اتنی باتیں کی ہیں، ان کو بیکار کہنا پڑے گا، کیونکہ آخر وہ باتیں کسی چیز کے لئے تو ہیں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم۔ حضرت جی! آپ نے فرمایا کہ میں بتاؤں کہ کس بات کی معافی مانگ رہی ہوں؟ حضرت جی! ایک دفعہ آپ نے کوئی حال بیان کیا تھا، مجھے لگا کہ شاید سب کا یہی حال ہوتا ہے۔ اور یہی میری عظیم غلطی تھی، اس غلطی کی وجہ سے میرے ساتھ کیا ہوا، please یہ سب دوبارہ نہیں دہرانا چاہتی۔ لیکن خیر بعد میں آپ سے معافی مانگی تھی اور اپنے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید دلائی تھی، مگر آپ نے اپنے بارے میں نہیں بتایا تھا کہ آپ نے معاف کیا یا نہیں؟ اس لئے دوبارہ پوچھنا چاہتی تھی، لیکن بالکل ہمت نہیں ہوئی تھی۔ خیر بہت شکریہ کہ آپ نے معاف کیا، کیونکہ اصل میں مجھے بالکل سکون نہیں آرہا تھا، اس لئے بار بار اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی رہی تھی۔

جواب:

حضرت نے اس کا جواب ارشاد نہیں فرمایا۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ حضرت جی! جامعہ کی باجی اور امی ہیں، وہ ذکر لینا چاہتی ہیں۔

جواب:

آپ کو جو پہلا ذکر دیا تھا یعنی تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘، یہ وہ روزانہ کوئی وقت مقرر کرکے چالیس دن کریں، پھر مجھے بتا دیں اور ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘، تینتیس بار ’’اَلْحَمْدُ للهِ، چونتیس بار ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور تین دفعہ کلمۂ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی بھی ان کو بتا دیجئے، پھر ان شاء اللہ! چالیس دن کے بعد مجھے بتائیں، ان شاء اللہ! پھر اگلا بتاؤں گا۔

سوال نمبر 26:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں ایبٹ آباد سے اہلیہ فلاں میجر صاحب بات کررہی ہوں۔ میرے معمولات مندرجہ ذیل ہیں: سو مرتبہ تیسرا کلمہ، سو مرتبہ درود شریف، سو مرتبہ استغفار اور دس منٹ مراقبہ۔ حضرت جی! روزانہ دس منٹ اسم اللہ کے مراقبہ کو ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ شروع کے چند دن مجھے مراقبہ کے دوران اجنبی لوگوں کے چہرے دیکھائی دیتے رہے، لیکن اب قلب پر اسم اللہ محسوس ہوتا ہے۔ براہ کرم آئندہ کے لئے رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب:

اب اس کو دس منٹ کے بجائے پندرہ منٹ کریں اور باقی چیزیں وہی ہیں۔

سوال نمبر 27:

السلام علیکم۔ حضرت!

Please tell me the location of the لطیفۂ سر .

جواب:

ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے، آپ اس طرح کرلیں کہ دل کی location تو آپ کو معلوم ہوگی، اس کے reference سے سارے لطائف کی جگہیں معلوم ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا آپ لطیفۂ قلب سے چار انگل اوپر ایک نشان لگائیں اور پھر اس سے سینے کی طرف دو انگل پہ ایک نشان لگائیں، تو یہ جو point ہے، یہ لطیفۂ سر کا ہے، اس پر آپ لطیفۂ سر والا ذکر کرسکتی ہیں۔

سوال نمبر 28:

حضرت جی! قلب میں محسوس ہوتا ہے اور روح بھی محسوس ہوتا ہے، البتہ سر تھوڑا کم اور خفی بھی کم اور قلب کے اثرات باقی لطائف میں محسوس ہوتے ہیں۔

جواب:

ماشاء اللہ! آپ اس کو اسی طرح جاری رکھیں، آہستہ آہستہ یہ قلب کے اثرات باقی لطائف میں بھی سرایت کر جائیں گے، اس لئے جتنا ٹائم بتایا ہے، اتنا ٹائم یہ کر لیا کریں۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب