سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 556

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مجھے لطیفۂ خفی کا ذکر دیا گیا ہے، شیخِ محترم: لطیفۂ خفی کے مقام کا تعین فرما دیں کہ یہ دائیں پستان کے اوپر ہوگا یا بھنوؤں کے درمیان؟

جواب:

یہ مَاشَاءَ اللہ آپ نے اچھا سوال کیا ہے، اس سے اِنْ شَاءَ اللہ دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ لطائف کے جو مقامات ہیں وہ کشفی طور پر معلوم ہوئے ہیں منصوص نہیں ہیں، منصوص صرف لطیفۂ قلب ہے، اس وجہ سے اس میں کشفی طور پر اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ ہمارے نقشبندی سلسلے میں جو سلسلے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے آرہے ہیں اس میں دو بڑے سلسلے ہیں، ایک معصومی ہے اور ایک بنوری ہے۔ معصومی طریقے میں جو پانچ لطائف ہیں قلب، روح، سِر، خفی، اخفٰی یہ پانچوں سینے میں ہیں یعنی اگر آپ ایک ایسی لائن کھینچیں جو جسم کو بالکل آدھا کررہی ہو یعنی دائیں اور بائیں تقسیم کررہی ہو تو اس لائن سے بائیں طرف دل جتنے فاصلے پہ ہے، اس لائن سے دائیں طرف اتنے ہی فاصلے پہ جو مقام ہے اس کو لطیفۂ روح کہتے ہیں، دل والی جگہ کو لطیفۂ قلب کہتے ہیں اور پھر لطیفۂ قلب سے چار انگلی اوپر ایک نقطہ لگائیں اور پھر وہاں سے اس لائن کی طرف دو انگلی کے فاصلے پہ ایک نقطہ لگائیں یہ جگہ معصومی طریقے میں لطیفۂ سِر ہے اور بنوری طریقے میں لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح کے درمیان تھوڑا سا مائل بقلب یہ لطیفۂ سِر کہلاتا ہے، لہٰذا دونوں میں فرق ہوگیا۔ پھر اس لائن سے جتنے فاصلے پر لطیفۂ سِر ہے، اس لائن کے اس مقام سے دائیں طرف اتنے ہی فاصلے پر جو مقام ہوگا یہ لطیفۂ خفی ہوگا، پھر آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو دو اوپر کے مقام یعنی لطیفۂ سِر اور لطیفۂ خفی ان کو اور گلے کی جڑ کو لے لیں تو ان تینوں کے درمیان بالکل عین وسط میں جو جگہ ہے اس کو لطیفۂ اخفیٰ کہتے ہیں یہ معصومی طریقے میں ہے۔ چنانچہ لطیفۂ خفی معصومی طریقے میں تو بتا دیا گیا کہ سینے میں ہے لیکن بنوری طریقے میں لطیفۂ خفی بھنوؤں کے درمیان ماتھے میں ہے یعنی تھوڑا سا بھنوؤں کے درمیان سے کچھ اوپر ماتھے میں ہے اور لطیفۂ اخفیٰ بنوری طریقے میں امّ الدماغ میں ہے یعنی تالو، سر کے اندر جو جگہ ہے اس میں ہے۔ تو یہ مختلف مقامات کشفی ہیں، لہٰذا اس پہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ شیخ کسی کو جو بھی دیتا ہے تو اس کو ادھر ہی وہ حرکت محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ شیخ کا فیض ہوتا ہے۔ بہرحال یہ دو طریقے ہیں، ہمارے ہاں طریقہ یہ ہے کہ ہم مردوں کو معصومی بھی کراتے ہیں اور بنوری بھی کراتے ہیں، جبکہ عورتوں کو صرف معصومی کراتے ہیں۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! درود شریف پینتالیس ہزار مرتبہ۔ حضرت جی میری بہن آپ سے بیعت ہونا چاہتی ہیں لیکن ان کے شوہر اجازت نہیں دے رہے وہ سعودیہ میں ہوتے ہیں، ستمبر اکتوبر میں ادھر ہی تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت ہونا ہے آپ لے جائیں اور آپ بھی بیعت ہوجائیں تو کہتے ہیں کہ میں تمھیں لے جاؤں گا اور تم بیعت ہوجانا میں نے بیعت نہیں ہونا، پھر کہتے ہیں اب نہیں جب اگلی دفعہ آؤں گا تو لے جاؤں گا، اب آپ نے فون پر بیعت ہونے کا بتا کر پوچھا تو بس ٹال جاتے ہیں۔ آپی کہتی ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ اجازت دیں گے، کہتی ہیں کہ بیعت نہ بھی ہوئی تو خیر لیکن اصلاح تو فرض ہے میں کراؤں گی، مجھے کہا کہ آپ سے بات کراؤں کہ وہ اصلاح کروانا چاہتی ہے، ان کی condition آپ کے سامنے رکھ دی اب آپ جو چاہیں۔

جواب:

اصل میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ہم اجازت کی بات اس لئے کرتے ہیں کہ اس میں پھر بعد میں لوگوں کو بات کرنے کا موقع نہ ملے اور خواتین کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے تو ان کے لئے پھر آپ ذریعہ بن جایئے۔ چوںکہ آپ مجھ سے پہلے سے بیعت ہیں تو آپ کے ذریعے سے وہ ذکر لیا کریں گی اور پھر آپ ان کو بتا دیا کریں گی۔ لہٰذا اب ان کو پہلے بتا دیں کہ تین سو دفعہ تیسرے کلمے کا پہلا حصہ ’’سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ اس کو چالیس دن تک بلاناغہ وہ کریں گی۔ جیسے آپ کو پتا ہے کہ خواتین کے لئے ایام میں ذکر کرنے کی اجازت ہے تو وہ ذکر کرسکتی ہیں، یہ چالیس دن پورے کرکے پھر مجھے اِنْ شَاءَ اللہ اطلاع کریں گی آپ کے ذریعے سے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’’سُبْحَانَ اللهِ‘‘، تینتیس بار ’’اَلْحَمْدُ للهِ، چونتیس بار ’’اَللهُ أَكْبَرُ‘‘ تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درودِ ابراہیمی، تین دفعہ استغفار، ایک مرتبہ آیت الکرسی یہ ان کا عمر بھر کے لئے ہوگا اِنْ شَاءَ اللہ۔ چالیس دن کے بعد پھر آپ کے ذریعے وہ مجھے اِنْ شَاءَ اللہ بتائیں گی۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ کو سلامت رکھیں۔ قصیدۂ بُردہ شریف کی اردو ترجمہ کے ساتھ کون سی کتاب اچھی ہے؟ مہربانی کر کے رہنمائی فرما دیں جَزَاکَ اللہ والسلام۔

جواب:

اِنْ شَاءَ اللہ اس کی تحقیق کرکے آپ کو جواب دیں گے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت میرا موجودہ ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور چھ ہزار ہے اور اس کے علاوہ پانچ منٹ ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر جو کہ محسوس نہیں ہورہا، ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے، آگے رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

تو آپ اب دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے چھ ہزار شروع فرما لیں۔


سوال نمبر 5:

السلام علیکم حضور جناب کے حکم پر ماہانہ Report-wise whatsapp پر پیش کررہا ہوں، ماہانہ report پیش کرنے میں چند روز تاخیر ہوگئی ہے، حضور میں اس کوتاہی کے لئے معافی چاہتا ہوں۔ حضور مہینے کے شروع میں تو کیفیات بہتر رہیں، کسی حد تک اعتدال کی بھی کیفیت رہی۔ تاہم آہستہ آہستہ نفس زور پکڑنے لگا، مجھ سے یہ سستی ہوئی کہ میں نے نفس کو لگام نہیں ڈالی اور کچھ پھیل گیا تو نفسانی لذات کی طلب بڑھتی گئی اور سستی بھی پیدا ہوتی گئی۔ تاہم اس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ علاجی ذکر میں کوئی ناغہ نہیں ہوا لیکن ذکر میں عموماً دل نہیں لگتا، کبھی دل اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو کبھی دل کا وزن نفس کے پلڑے میں چلا جاتا ہے، نہ نفس کا مجھ پر پورا زور چلا نہ میں نفس پر صحیح طور پر قابو پا رہا ہوں، کبھی ایمان کمزور کبھی قدرِ طاقتور محسوس ہوتا ہے۔ میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور سو ہے۔

جواب:

ذکر تو اب آپ دو سو، چار سو، چھ سو اور تین سو کریں اور باقی جو آپ فرما رہے ہیں بالکل ایسے ہی ہوتا ہے اصل میں انسان کا نفس اتنی آسانی کے ساتھ نہیں مانتا، یہ جو محاورہ ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے تو یہ نفس بھی لاتوں کا بھوت ہے یہ باتوں سے نہیں مانتا۔ اچھا لاتوں کے بھوت سے مراد کیا ہے یعنی کون سی لاتیں؟ تو اس میں نفس کے لئے جو لاتیں ہیں وہ مجاہدہ ہے یعنی نفس مجاہدے کے بغیر نہیں مانتا، لہٰذا نفس کے علاج کے ساتھ مجاہدہ لازمی شرط ہے۔ ذکر دل کی اصلاح کے لئے ہے لیکن اصلاح پائیدار تب ہوتی ہے جب ساتھ نفس کی اصلاح بھی ہو، تو نفس کی اصلاح کے لئے پھر مجاہدہ ہے۔ دو چیزیں بزرگوں نے بتائی ہیں فاعلہ اور مجاہدہ، فاعلہ اصل میں انسان کے اندر جو اللہ پاک نے خصوصی صلاحیتیں رکھی ہیں ان کو اجاگر کرنا اور جو رذائل امتحان کے طور پہ رکھے ہیں ان کو دبانا یہ مجاہدہ ہے۔ بہرحال یہ دونوں کام کرنے پڑتے ہیں تو آپ کا علاجی ذکر شروع ہے، مجاہدے کی لائن ابھی شروع نہیں ہوئی لیکن آپ کا علاجی ذکر بھی کام کررہا ہے، یعنی وقتی طور پر اس سے دل کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ لہٰذا آپ کو احساس ہوتا ہے اور احساس کی وجہ سے آپ وقتی طور پہ نفس کو control کرلیتے ہیں اور ایسا ہی ہوتا ہے اور جس وقت وہ پھر دوبارہ کام شروع کرتا ہے یعنی اپنی بات چلانے لگتا ہے تو پھر آپ کے ذکر کا وقت ہوجاتا ہے، گویا کہ یہ لڑائی اس کے ساتھ جاری رہے گی اِلَّا کہ اس کی پوری اصلاح ہوجائے یعنی باقاعدہ مقاماتِ سلوک طے ہوجائیں۔ تو آپ گھبرائیں نہیں یہ ایک مستقل محنت ہے اور محنت کرنی پڑتی ہے، سستی آپ نہ کریں اِنْ شَاءَ اللہ وقت پر سب کچھ ہوجائے گا۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں ایبٹ آباد سے فلاں کی اہلیہ عرض کررہی ہوں۔ حضرت جی میں مورخہ 26 ستمبر کو آپ سے بیعت ہوئی تھی اور آپ کے حکم کے مطابق بلاناغہ چالیس دن کی تسبیحات مکمل کرلی تھیں لیکن کچھ گھریلو حالات کی وجہ سے دوبارہ آپ سے رابطہ نہیں کرسکی، برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اصل میں جن چیزوں سے معاملات درست ہوتے ہیں ان میں سستی کرنے سے پھر یہ توقع کرنا کہ خود بخود معاملات درست ہوجائیں گے یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ بیماری کا علاج ہوتا ہے اور علاج کے لئے پھر استقامت اختیار کرنی ہوتی ہے، باقاعدہ اپنے وقت پر دوائی کھانی پڑتی ہے اور جتنا اس میں ناغہ ہوتا ہے وہ بیماری جڑ پکڑتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ اپنے علاج میں مخلص ہیں اور چاہتی ہیں تو آپ اپنے ذکر میں استقامت پیدا کریں اس کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ گویا کہ نفس کے علاج کے لئے کم سے کم مجاہدہ وہ ذکر پر استقامت ہے، ذکر پر استقامت جب آپ کرتی ہیں تو یہ بھی ایک قسم کا وقتی طور پر ایک مجاہدے کی صورت ہے۔ اتنا فائدہ تو اس کا ہوتا ہے کہ وقتی طور پر بہتر ہوجاتا ہے لیکن یہ بات ہے کہ مستقل تب ہوتا ہے جب اس level کا مجاہدہ ہو۔ جس level کے رذائل ہیں، ڈاکٹر صاحب جس level کا انفیکشن ہو اس level کی antibiotic دینی پڑتی ہے یا نہیں؟ جی اگر آپ اس سے کم دیں تو پھر کیا ہوگا؟ بالکل اس کا مطلب ہے کہ آپ کو جس level کا علاج چاہیے ہوگا اسی level کی دوائی آپ کو کھانی ہوگی۔ بہرحال یہ بات درمیان میں آگئی۔ اب آپ اس طرح کریں کہ تیسرا کلمہ پورا، درود شریف اور استغفار یہ سو سو مرتبہ عمر بھر کے لئے آپ پڑھیں گی اِنْ شَاءَ اللہ، ہر نماز کے بعد جو نماز والا ذکر ہے تینتیس دفعہ، تینتیس دفعہ، چونتیس دفعہ، تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درودِ ابراہیمی، تین دفعہ استغفار، ایک مرتبہ آیت الکرسی یہ آپ عمر بھر کے لئے کریں گی اِنْ شَاءَ اللہ۔ اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے آپ یہ تصور کریں گی کہ میرا دل خود بخود ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے آپ نے نہیں کروانا، آپ نے صرف اس کو watch کرنا ہے یہ آپ نے دس منٹ روزانہ کرنا ہے، اس کے لئے باقاعدگی کے ساتھ ایک وقت مقرر کرکے بیٹھنا ہے اِنْ شَاءَ اللہ۔ ایک مہینہ تک اس کو کرکے پھر مجھے اطلاع فرما دیں۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرے مندرجہ ذیل اذکار کو تقریباً ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہْ‘‘ نو ہزار مرتبہ۔ حضرت جی عرض ہے کہ دل کی کیفیت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی محسوس نہیں ہوتی، آگے ذکر کی کیا ترتیب رکھنی ہے؟

جواب:

اصل میں کیفیت تو اپنے طور پہ ہوگی لیکن اصل میں گناہوں سے بچنا یہ ذکر کا اصل فائدہ ہے، لہٰذا آپ نے اس کو watch کرنا ہے کہ آپ کے گناہ کتنے کم ہورہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں یا اپنی جگہ پہ ہیں؟ یہ آپ نے بتانا ہے۔ بہرحال ذکر آپ ابھی دو سو، چار سو، چھ سو اور نو ہزار پانچ سو مرتبہ شروع فرما لیں۔

سوال نمبر 8:

کیفیتِ احسانیہ کی قوت اور ضعف کا راز کیا ہے؟

جواب:

حضرت حکیم اختر صاحب کا سفرنامہ رنگون میں ایک ملفوظ ہے، ارشاد فرمایا کہ شیخ جتنا قوی نسبت ہوگا اور جتنی قوی کیفیتِ احسانی کا حامل ہوتا ہے اتنی ہی قوی نسبت اور کیفیتِ احسانی ان کے مریدین میں منتقل ہوتی ہے۔ صحابہ کو ایمان اور اسلام حضور ﷺ کی زبانِ مبارک سے ملا تھا اور کیفیتِ احسانی سید الانبیاء ﷺ کے قلبِ نبوت سے ملی، اس کے بعد اب قیامت تک کسی کو پیغمبر کا قلب نہیں مل سکتا، اس لئے اب کوئی صحابی نہیں بن سکتا، صحابی جیسا ایمان واحسان اب کسی کا نہیں ہوسکتا۔ حضور ﷺ کے بعد اب کیفیتِ احسان امتی سے امتی کے قلب میں منتقل ہورہی ہے، تو کہاں نبی اور کہاں امتی! نبی ﷺ کے قلب مبارک سے جو ایمان اور احسان، کیفیت امتی کے قلب میں منتقل ہوئی وہ ایمان واحسان امتی سے امتی کے قلب میں کیسے منتقل ہوسکتا ہے، اس لئے دنیا کا بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیفیتِ احسانی ایک کلی مشکّک ہے، نبی کے قلب کی احسانی کیفیت تو اب کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، کیونکہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، لہٰذا اب یہ کیفیتِ احسانی امتی سے امتی کے قلب میں منتقل ہوگی۔ کسی صاحبِ نسبت امتی کے قلب میں جس درجہ کیفیتِ احسانی ہوگی اسی درجے کی دوسرے امتی میں منتقل ہوگی۔ اس لئے شیخ جتنا قوی نسبتوں کا حامل اور کیفیتِ احسانی قوی ہوگی اتنی قوی کیفیتِ احسانی دوسرے کے قلب میں منتقل ہوگی۔ حضرت کی بات ختم ہوگئی ہے، لیکن درمیان میں ایک بات رہتی ہے جس کی وجہ سے شاید سوال کیا گیا ہے۔ شیخ صاحب نسبت ہونا ضروری ہے؟ کس نے کہا کہ نہیں ضروری؟ اگر شیخ صاحبِ نسبت نہیں ہوگا تو نسبت کیسے منتقل ہوگی، پوری بات اس ایک لفظ میں آگئی کہ شیخ کا صاحبِ نسبت ہونا ضروری ہے۔ اب شیخ صاحبِ نسبت ہو اور ایسا ہو مثلاً بارش برس رہی ہو اور آپ گھڑے کو الٹا رکھ دیں تو کتنی بارش اس میں آجائے گی؟ ایک قطرہ بھی نہیں آئے گا۔ لہٰذا مرید کی طلب پر بات ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ اگر مرید کی طلب نہیں ہوگی تو شیخ بے شک کتنا ہی قوی نسبت کیوں نہ ہو، اس کا فائدہ اس کو نہیں ہوگا، اس وجہ سے مرید میں کم ازکم اتنی طلب ضروری ہے کہ وہ شیخ کی طرف اپنی اصلاح کے لئے متوجہ ہو، ایک بات ہوگئی۔

پھر اس طلب کی کوئی theoretical جانچ نہیں ہے کہ آپ کوئی theory میں کوئی formula develop کرلیں گے، بلکہ اس کا ایک عملی مظاہرہ ہوتا ہے اور عملی مظاہرہ یہ ہے کہ وہ شیخ کی بات پر عمل کرتا ہے یا نہیں کرتا، اگر وہ شیخ کی بات پر عمل نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ طالب نہیں ہے۔ جب وہ طالب نہیں ہے تو پھر اس کے ساتھ غیرِ طالب والا معاملہ ہی چلے گا۔ اب جو شیخ کی بات پر عمل ہے اس میں شیخ کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اس کو تدریجاً فنی لحاظ سے آہستہ آہستہ اپنی منزل تک چلائیں۔ گویا کہ یوں سمجھ لیجئیے کہ جو شیخ کی نسبت ہے اس کے لئے جگہ بنانی ہوتی ہے اور اس کے لئے جگہ نفس کی رکاوٹ کو دور کرکے بنائی جاتی ہے، اگر نفس کی رکاوٹ موجود ہے تو جگہ ہی نہیں بنے گی۔ اگر گہرے کالے پردے آپ کھڑکی کے اوپر ڈال دیں تو سورج کی کتنی روشنی آئے گی؟ سورج تو آب وتاب سے چمک رہا ہے لیکن اندر تو روشنی نہیں آئے گی۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نفس کے جو حجابات ہیں وہ دور کرنے پڑتے ہیں اور نفس کے حجابات کیسے دور ہوتے ہیں، کیا ذکر سے دور ہوتے ہیں؟ وہ مجاہدات سے دور ہوتے ہیں۔ چنانچہ شیخ مجاہدات بتائے گا لیکن کرے گا کون؟ مرید کرے گا، جتنا شیخ کی بات پر عمل کرے گا اور مجاہدات کرے گا جو ان کو بتایا جائے گا، اتنے اتنے اس کے حجابات دور ہوتے جائیں گے اور کیفیتِ احسانی کے لئے راستہ بنتا جائے گا۔ ہوتا یوں ہے کہ پہلے نفس مان لیتا ہے، پھر دل اصل میں جان لیتا ہے، بس یہی دل کا جو جاننا ہے وہ اصل میں دل میں کیفیتِ احسان کی جگہ بن جاتی ہے۔

’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘۔

اس پہ جسم میں سے عمل کون کرے گا، دماغ کرے گا؟ بلکہ دل کرے گا۔ لیکن نفس کے حجابات دور ہوں گے تو کرے گا، نفس کے حجابات اگر دل کے اردگرد ہیں تو کیسے کرے گا، یعنی کیفیتِ احسان کا تعلق دل کے ساتھ ہے لیکن اس کے لئے نفس کی رکاوٹ کو پہلے دور کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا پہلے نفسِ مطمئنہ حاصل ہوتا ہے، پھر بعد میں کیفیتِ احسان حاصل ہوتی ہے۔ نفسِ مطمئنہ حاصل کرنے کی محنت میں دو چیزیں ہیں، ایک یہ ہے کہ دل کی اتنی اصلاح کہ انسان نفس کی اصلاح کے لئے تیار ہوجائے، مجاہدات کرنے کے لئے تیار ہوجائے، وہ ساری چیزیں ہوجائیں تو نفس کی اصلاح کے ذریعے سے جو مقامات طے ہوجاتے ہیں، دس مقامات جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پہ نفسِ مطمئنہ حاصل ہوجاتا ہے، جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہوجاتا ہے تو اب کیفیتِ احسان کے لئے راستہ کھل گیا۔ لہٰذا اب مَاشَاءَ اللہ ذکر کے ذریعے سے آپ کی عبادات بہتر ہوتی جائیں گی کیونکہ نماز میں بھی تو ذکر ہے:

﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طہ: 14)

ترجمہ: ’’مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔

اور ویسے بھی آپ علاجی ذکر کررہے ہیں تو ان دونوں کے ساتھ مل کے مَاشَاءَ اللہ کیفیتِ احسان آپ کو حاصل ہوگی اور اس میں بتدریج ترقی بھی ہوگی، ترقی کا مطلب کیا ہے؟ ترقی کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سیر الی اللہ ختم ہوگا، سیر الی اللہ ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نفسِ مطمئنہ مل گیا، اس کے بعد ہمیں سیر فی اللہ کرنا پڑتا ہے، چنانچہ سیر فی اللہ میں کیفیتِ احسان بھی ہے اس میں پھر پتا نہیں چلتا کہ شیخ آگے بڑھ گیا یا مرید آگے بڑھ گیا، پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا اپنا معاملہ ہے۔ سیر الی اللہ تک شیخ کے ساتھ رہے گا، شیخ کی بات مانے گا، جس وقت سیر الی اللہ مکمل ہوجائے گا تو پھر سیر فی اللہ میں میدان بڑا وسیع ہے۔ میرے خیال میں اس ملفوظ سے لوگوں کو غلط فہمی ہوسکتی ہے جیسا کہ بہت سارے لوگوں کو ہوئی تھی کہ بس شیخ ہی سب کچھ کرتا ہے مجھے تو کچھ بھی نہیں کرنا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس چیز کو ٹھیک کرنے کے لئے اس پر پوری محنت کی کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مجھے شیخ نے ہی سب کچھ کرنا ہے، لہٰذا حضرت بار بار فرماتے: بھائی کرنا تو مرید نے ہے شیخ تو صرف راستہ بتاتا ہے، بار بار حضرت یہ بات فرماتے تھے۔ اور اس چیز کا مسئلہ اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ بس شیخ جب نظر کرے گا تو اس کی نظر سے سارا کچھ ٹھیک ہوجائے گا، بلکہ ابھی بھی بعض لوگ کہتے ہیں جی نظر فرما دیں، نظر کرلیں، ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بس وہ نظر سے سارا کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ بھائی جب تک آپ نے اس کے لئے راستہ نہیں بنایا، اس کے لئے جگہ نہیں بنائی، تو کیسے ہوگا؟ دیکھیں ڈاکٹر آپ کو علاج بتا دیں اور آپ کہیں ڈاکٹر صاحب علاج تو سارے لوگ کرتے ہیں، آپ کسی اور طریقے سے خود بخود کچھ کردیں کیونکہ دوائی وائی کھانے کا تو سارے ڈاکٹر کرتے ہیں، تو آپ میں اور ان میں کیا فرق ہوا۔ لہٰذا ڈاکٹر کیا کہے گا؟ وہ کہے گا پھر ویسے ہی رہو۔

مَاشَاءَ اللہ یہ ملفوظ آپ کو یاد ہوگا جس میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ شیخ کے لئے ماہرِ فن ہونا لازم ہے اور متقی ہونا اس پر مزید اضافہ ہے، کیونکہ متقی کی تعلیم میں نور ہوتا ہے، لیکن اگر فن اس کو نہ آتا ہو تو کام نہیں بنے گا۔ بتائیں! حضرت نے یہ بات فرمائی ہے یا نہیں؟ چنانچہ بات بالکل واضح فرما دی۔ ماہرِ فن کس چیز کا ہوتا ہے؟ یعنی کہ وہ تمام چیزوں کو صحیح طریقے سے کروانا جانتا ہو اور متقی ہونا مزید اس پر اضافہ ہے یعنی اس سے مَاشَاءَ اللہ عمل میں نور آتا ہے اور فائدہ ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو اس بات کو ذرا اس انداز میں سمجھنا ہوگا کہ رہنمائی شیخ کی ہے، نسبت شیخ کی ہے لیکن محنت مرید کی ہے، مرید جتنی طلب سے محنت کرے گا اتنا شیخ کی رہنمائی سے اس کو فائدہ ہوگا، اتنا اس کو نسبت سے زیادہ اثر ہوگا۔ لہٰذا اس پر میرے خیال میں ساری باتیں اِنْ شَاءَ اللہ دونوں طرف کی ٹھیک ہوجائیں گی۔

اسی کے ضمن میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ آج کل کے دور میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ ضروری ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے سلسلے کا طریقہ، بلکہ یہ چیز جو خاص میں بتا رہا ہوں۔ حضرت کے مواعظ اور ملفوظات میں آپ کو ایک چیز ملے گی کہ حضرت جب کوئی بات کررہے ہیں تو ان کو پتا ہوتا تھا کہ لوگ اس سے کیا مطلب لیں گے، لہٰذا اس کی تمام چیزیں بتا دیتے تھے کہ اچھا فلاں یہ اشکال کرسکتا ہے، فلاں کو یہ مسئلہ ہوسکتا ہے، فلاں کی یہ بات ہوتی ہے، ساری چیزیں وہ ساتھ ساتھ بتاتے جاتے تھے تاکہ کسی کو بعد میں مسئلہ نہ ہو۔ اس وجہ سے آج کل بات کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے، یعنی میں کوئی بات کرگیا اس کی repulsion کے طور پر کسی نے کچھ اور مطلب لے لیا اور میں نے اس کی مزید تشریح صحیح نہیں کی تو آگے جا کر اس کا مسئلہ تو خراب ہوگیا۔ ایک دفعہ ایک جنرل صاحب ڈاکٹر تھے وہ Pharmacology کا viva لے رہے تھے، اس میں انہوں نے کہا کہ فلاں چیز کی dose کیا ہے؟ لڑکے نے dose بتائی اور وہ غلط تھی، وہ نمبر لگانے لگے تو لڑکے نے کہا: sir sorry sir sorry یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے، پھر صحیح بتایا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: بس اب بیٹھ جاؤ آرام سے، مریض مر چکا ہے۔ کیونکہ آپ نے نسخہ لکھ دیا اور وہ گیٹ سے باہر چلا گیا پھر آپ کے پاس کیا وسیلہ ہے؟ آپ اس کو کیسے اطلاع کریں گے کہ یہ تو میں نے آپ کو غلط بتایا، جو ہونا ہے وہ تو ہوچکا۔ اس کا مطلب ہے ہم لوگوں کو بھی بہت محتاط رہنا ہوتا ہے کہ میں جو بات کررہا ہوں اس سے دوسرے لوگ کیا اثر لیتے ہیں۔ یہ بات میں نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ حضرت میں بدرجہ اتم note کی ہے کہ حضرت جب بھی بات فرماتے ہیں، اس کی پوری وضاحت کرتے ہیں۔ آپ ابھی randomly مواعظ کھول لیں اور کہیں سے شروع کرلیں آپ کو یہ چیز ملے گی، ساتھ ساتھ حضرت remind کرتے جاتے ہیں کہ اس سے لوگ یہ مطلب لیتے ہیں، اس سے یہ مسئلہ ہوجائے گا، اس سے یہ ہوجائے گا، اس سے یہ ہوجائے گا وغیرہ، ساتھ ساتھ وہ بتاتے جاتے ہیں حضرت کا analytical انداز ہے، اور یہی آج کل بہت ضروری ہے۔ مثلاً اس مکتوب شریف سے جو کسی کے ذہن میں اشکال آیا اور سوال آگیا، وجہ کیا تھی کہ مکمل نہیں ہے، اس کے ساتھ مزید کچھ تشریحات کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر یہ تشریحات نہ کی جائیں تو مسائل ہوسکتے ہیں۔ عین ممکن ہے اس کے ساتھ تشریحات ہوں، بعد میں آئی ہوں لیکن یہاں نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو پورے بیان سے لے گیا ہے، یہ تو نہیں ہوگا کہ حضرت نے صرف یہی بات فرمائی ہے، بلکہ یہ بیان سے لیا گیا ہے، اس لئے ممکن ہے کہ اس کی تشریح بعد میں حضرت نے فرمائی ہو لیکن اس ملفوظ میں نہیں ہے، اس ٹکڑے میں نہیں ہے، لہٰذا مسائل تو ہوں گے۔ لہٰذا جو لوگ quotation کرتے ہیں اس میں بھی بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کہ جب آپ کسی بزرگ کے قول سے quotation لیتے ہیں تو آپ کو یہ پورا ادراک ہونا چاہیے کہ آیا اس کی واقعی پوری تشریح اس جگہ موجود ہے یا نہیں، ورنہ پھر اس سے اس قسم کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم حضرت سوال وجواب میں یہ بات ہوئی کہ کچھ لوگوں کو اللہ اپنے لئے رکھتے ہیں جن کو مستہلکین کہتے ہیں، تو دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی اس طرح بن جاؤں اور چپ چاپ گم نامی میں اس دنیا سے چلا جاؤں، کیا اس طرح سوچنا درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

میرا خیال ہے کہ اخلاص کے لئے تو درست ہے لیکن دوسری چیز کے لئے جو اس کا مقصد ہے وہ سامنے رہنا چاہیے کہ اپنی اصلاح مقصود ہو، پھر اللہ جو فیصلہ کریں، فیصلہ اللہ پہ چھوڑ دیں۔ اتنی بات ہمارے پاس ہونی چاہیے کہ ہم لوگ کم ازکم ذہن میں اپنے آپ کے لئے خلافت کی آرزو نہ رکھیں اور ان چیزوں میں نہ جائیں کیونکہ یہ اخلاص کے خلاف ہے اور جس چیز میں اخلاص نہیں ہے تو پھر کیا ہوگا۔ لیکن یہ جو بات ہے کہ اپنے آپ کو مستہلکین سمجھنا یہ بھی اپنی ایک خواہش ہے، تو اس خواہش کو بھی پھر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے کہ جو اللہ نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے وہی ہے۔ میں آپ کو اس پر ایک واقعہ سناتا ہوں، میری ایک غزل تھی وہ کسی نے پڑھی بھی ہے اور بڑی عمدہ طور پہ پڑھی ہے وہ غزل یہ ہے:

کیا ضروری ہے کہ ہر چیز سے آشنا رہوں میں

اب بظاہر یہ چیز بالکل صحیح تھی کیونکہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ مجھے ہر چیز معلوم ہو، ہر ایک چیز تو ہر ایک کو معلوم نہیں ہوسکتی۔ لیکن اس پر بھی مجھے ڈانٹ پڑی اور بڑی خوبصورت ڈانٹ پڑی سُبْحَانَ اللہ۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ڈانٹ پڑی کہ اللہ پاک نے نبی ﷺ سے فرمایا:

﴿قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ (طہٰ: 114)

ترجمہ: ’’یہ دعا کرتے رہا کرو کہ: میرے پروردگار! مجھے علم میں اور ترقی عطا فرما‘‘۔

آپ ﷺ کے پاس کتنا علم تھا یعنی اتنے علم کے باوجود، ظاہر ہے کم ازکم جو علم دعوت کی لائن کے لئے اور لوگوں کے لئے چاہیے وہ تو آپ ﷺ کے پاس سب سے زیادہ تھا، اس کے باوجود آپ ﷺ سے اللہ پاک فرما رہے ہیں: ﴿رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾۔ تو میں نے فوراً اس غزل سے اس کو ہٹا دیا، پتہ نہیں دوسرا کیا کہا تھا۔ ٹھیک ہے مستہلکین میں سے ہونا اگر اللہ پاک کا فیصلہ ہے تو سُبْحَانَ اللہ بالکل ٹھیک ہے، عشاق بھی یہی ہوتے ہیں، عشاق کچھ اور نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ میرا معشوق جو چاہے بس وہی ٹھیک ہے اور اگر اللہ پاک ڈیوٹی لگا دیں تو پھر بھی ٹھیک ہے اس سے بیزار نہ ہو۔ اس کی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عمدہ مثال دی ہے، اللہ تعالیٰ حضرت کو اجر عطا فرمائیں بہت مشکل مشکل چیزیں بہت آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے ہیں اور میرے خیال میں اس میں بہت ساری چیزوں کا اثر ہے، ایک تو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا فیض کہ حضرت میں بھی یہ بات تھی اور دوسری بات مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی کلیدِ مثنوی پہ کام کیا، حضرت کے ہاں بھی یہ بات تھی۔ بہرحال ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے کہ خود سوچیں کہ یہ ہونا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر ہمیں راضی رہنا چاہیے، ہمارے ساتھ وہ جو معاملہ فرمانا چاہیں، بس وہ ٹھیک ہے۔ ہاں! دعا میں بخل نہیں کرنا چاہیے، دعا میں ہمیں وہ چیز مانگنی چاہیے جو ہم اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں، لیکن فیصلہ اللہ پہ چھوڑنا چاہیے، کیونکہ اللہ کو پتا ہے کہ ہمارے لئے کون سی چیز بہتر ہے۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم! مرشد

From Singapore.

We hope that you and your family are all in the best of health. Please see our report below.

Myself current اعمال: Two hundred, two hundred, two hundred and fifteen hundred. Special zikr: اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ‘‘three hundred and thirteen times ’’یَا وَدُوْدُ‘‘، ’’یَا سَلَامُ‘‘، ’’یَا رَحِیْمُ‘‘، ’’یَا غَفُوْرُ‘‘ one hundred and eleven times.

Condition for last one week: I didn’t do my اعمال as I was hospitalized for a heart problem just before that. Whenever I recite ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ I hear a word like echo reciting with me coming from my throat.

جواب:

Brother I don’t know what your condition is now. How are you? Please tell me so that I can tell you something about you.

Question: My wife: مراقبۂ قلب، روح، سِر، خفی، اخفیٰ ten minutes each مراقبۂ تنزیہ for fifteen minutes from Allah to the قلب of Prophet Muhammad ﷺ and then to the قلب of my مرشد and to my لطیفۂ خفی. Special zikr: ‘‘اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ’’ three hundred and thirteen times.‘‘یَا وَدُوْدُ‘‘، ’’یَا سَلَامُ‘‘، ’’یَا رَحِیْمُ‘‘، ’’یَا غَفُوْرُ’’one hundred and eleven times.

Condition: اَلْحَمْدُ لِلّٰہ مرشد I am still reading the Quran daily and waking up regularly to perform my تہجد prayers اَلْحَمْدُ لِلّٰہ and still feeling very much at peace and very much happier now. Somehow there is this feeling of tranquility that comes each time when I am doing prayers and I am in so much gratitude towards Allah.

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ مرشد I am able to concentrate while doing مراقبہ but strangely this time, I feel really small and then I will get emotional. I am not sure why I feel this way this time around?

Answer: ما شاء اللہ as far as your wife is concerned اَلْحَمْدُ لِلّٰہ its very good and if she has done مراقبۂ تنزیہ properly with having this feeling it is okey. Now she should do مراقبہ شانِ جامع. It means the effect of all these four مراقبہ at her لطیفۂ اخفیٰ. So she should start this and as far feeling oneself small is concerned, it is very good and I think it is because of the عظمت of اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ that one feels oneself very small.

Son twenty one years current اعمال: Two hundred. four hundred, six hundred and three thousand.

Condition: This time, he doesn’t feel anything.

Answer: Ok. He should now do two hundred, four hundred six hundred and thirty five hundred.

Second son current اعمال: Two hundred, four hundred, six hundred and three thousand. Recite یا اللہ seven times with feeling of استغفار spend fifteen minutes thinking his heart is saying Allah Allah.

Condition: He said he feels calm and feeling of closeness to Allah especially during the fifteen minutes thinking, his heart is saying Allah Allah.

Answer: So ok. Now he should do all these things with ten minutes feeling with heart and fifteen minutes at لطیفۂ روح.

Elder daughter current اعمال: Allah with tongue four thousands, مراقبہ Allah Allah in قلب for ten minutes and Allah لطیفۂ روح ten minutes and Allah on لطیفۂ سِر fifteen minutes. Condition: She has no change. She still feels calm and peaceful when doing her مراقبہ.

Answer: Ok very good. Now she should do these three لطائف for ten minutes and the fourth one لطیفۂ خفی for fifteen minutes.

Younger daughter current اعمال: Allah on tongue forty five hundred, مراقبہ Allah on قلب twenty minutes.

Condition: She is feeling peaceful and feels very much closer to Allah.

Answer: سُبْحَانَ اللہ so now she should do مراقبہ Allah in قلب ten minutes and مراقبہ Allah in لطیفۂ روح for fifteen minutes and the rest will be the same اِنْ شَاءَ اللہ.

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! شیخِ محترم حضرت جی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ کی ہدایت کے مطابق درج ذیل ذکر مکمل ہوا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو، ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘، دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ احوال: ابھی بھی دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرتا محسوس نہیں ہوتا، ذکر میں اس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ صرف ایک ناغہ ہوا ہے، اس پر بھی بہت نادم ہوں لیکن خوش اس لئے ہوں کہ میرے لئے یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ ذکر کو اب میں باقاعدہ لازمی جزو رکھ کر کرتا ہوں، دل میں ہر کام کرتے ہوئے خیال ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی کیا منشاء ہے، اپنی کم علمی کم عملی اور کم ہمتی پہ بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے، خوف اور رجاء کی کیفیت میں خوف میں افراط محسوس ہوتا ہے۔ آپ کی ہدایت پر ایک سائیکالوجسٹ سے بھی consult کرنا شروع کیا ہے۔ اس بات کی بہت آرزو ہے کہ کسی طرح اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ خوش ہوجائیں، لیکن اپنے اعمال میں اپنے آپ میں بس خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب تک ساری زندگی ضائع کردی ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر کام میں ریاکاری اور منافقت ہے، اس پر کئی بار رونا آجاتا ہے کہ کیا کروں، پھر بھی اپنے آپ کو دلاسہ دے کر روزمرہ کے کام کرتے رہنے کی کوشش کرتا ہوں، برابر یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ اے اللہ مجھے ایمان اخلاص اور طریقۂ رسول ﷺ پر عمل محض اپنی رضا سے کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آگے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنا فیض نبی کریم ﷺ سے آپ تک اور آپ سے مجھ تک پہنچائے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے والسلام۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ ابھی آپ اس طرح کریں کہ باقی سارے تو آپ وہی کریں بس صرف ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پندرہ سو مرتبہ کریں، باقی ساری چیزیں as it is ہوں گی اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم! میں فلاں UK سے ہوں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ذکر اور منزل کا پڑھنا جاری ہے، ذکر کرتے وقت مجھے بے صبری ہوتی ہے۔ ایک دفعہ میں سوچ رہا تھا کہ میں بیس پچیس منٹ سے ذکر کررہا ہوں لیکن time check کرنے کے بعد صرف چھ یا ساتھ منٹ گزرے تھے، منزل پڑھتے وقت بھی بے چینی ہوتی ہے، ذکر کے دوران مجھے کھجلی بھی ہوتی ہے۔ گناہوں سے پرہیز کافی دیر رہا ہے لیکن پھر دوبارہ مبتلا ہو گیا، پھر میں نے دوبارہ توبہ کی۔

ایک سوال ہے کہ کل پہلی دفعہ مغرب کے بعد منزل نہ پڑھ سکا، میں نے عشاء کو تھوڑی تاخیر کرکے بعد میں پڑھ لی، کیا میں اس کو عشاء کے بعد بھی پڑھ سکتا ہوں؟

جواب:

اصل میں اپنے نفس کو قابو کرنے والی بات ہے اور ذکر میں انسان کو اگر مجاہدہ محسوس ہوتا ہو، تکلیف محسوس ہو تو اس کو ذکر دونوں فائدے دیتے ہیں یعنی دل کو بھی فائدہ ہوتا ہے، نفس کو بھی فائدہ ہوتا ہے، لہٰذا آپ کو ایک ٹکٹ میں دو مزے مل رہے ہیں تو آپ اس پر گھبرائیں نہیں بلکہ اس کو مجاہدہ سمجھ کر باقاعدگی کے ساتھ جتنا ٹائم بتایا اتنا ٹائم آپ کرتے رہیں، اِنْ شَاءَ اللہ اس سے آپ کو double فائدہ ہوگا اور یہ منزل جو آپ نہیں پڑھ سکے تو ٹھیک ہے عشاء کے بعد بھی آپ پڑھ سکتے ہیں، اس میں ہم نے لکھا ہے کہ بہتر تو یہ ہے کہ مغرب کے بعد پڑھیں، لیکن اگر مغرب کے بعد نہ ہوسکے تو پھر عشاء کے بعد، لہٰذا آپ عشاء کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرے معمولات مندرجہ ذیل ہیں: دو سو، چار سو، چار سو، سو اور دس منٹ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ گزشتہ تین ہفتوں سے معمولات پہ استقامت ہوئی ہے اور جو تین ماہ کا توقف آیا تھا اب ختم ہوگیا ہے، دس منٹ کے مراقبہ میں فی الحال خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں ہوئی، برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔ حضرت جی اس کے علاوہ ایک خواب کا حال آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران تین چار مرتبہ یہ خواب دیکھ چکا ہوں، مجھے آسمان میں دو چاند دکھائی دیتے ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مکمل چاند اور سورج ایک ہی وقت میں دکھائی دیتے ہیں، گزشتہ رات خواب میں دو سیارے دیکھے جو مغرب کی سمت میں غروب آفتاب کے بعد دکھائی دیئے اور گمان یہ تھا کہ یہ وینس اور مریخ تھے، ان کے ساتھ ایک تیسرا سیارہ تھا جو واضح نہیں تھا۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ ابھی آپ نے ذکر کے بارے میں جو فرمایا ہے کہ ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اور چار سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ ہے، تو چار سو مرتبہ کی جگہ چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ کرلیں اور سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور دس منٹ کا مراقبہ اور خوابوں کے بارے میں زیادہ نہ سوچیں، اصل چیز اعمال ہیں، اعمال کی فکر زیادہ کریں۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! احوال: حضرت جی معمولات پر اللہ نے اپنے فضل سے استقامت عطا فرمائی ہے اور آپ کی تربیت کی برکت ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔ ذکر: حضرت جی میرا ذکر ایک مہینے کے لئے یہ تھا دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے نو ہزار اور پندرہ منٹ کا مراقبہ دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہر نماز کے بعد ایک سانس میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پچھتر مرتبہ اللہ کے فضل سے، نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے۔ دل میں اَللہ اَللہ فی الحال محسوس نہیں ہورہا، میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟ حضرت جی کوتاہیوں پر معافی کا طلبگار ہوں۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! ابھی آپ دس ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں اور باقی چیزیں آپ کی بالکل وہی رہیں گی اور اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز آپ کو اسی سے ہی فائدہ ہوگا، اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے سارے فوائد نصیب فرمائیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میں مسجد رحمانیہ سے فلاں ہوں۔ ہفتہ کے دن بیان میں آپ نے کثرتِ ذکر سے متعلق بات فرمائی تھی، کثرتِ ذکر سے کیا مراد ہے، کیا شیخ کا دیا ہوا ذکر کثرتِ ذکر کہلاتا ہے، کتنا ذکر کریں تو کثرتِ ذکر میں شمار ہوجائے گا؟

جواب:

اچھا سوال ہے۔ اصل میں ذکر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ ذکر ہے جو علاجی ہے، لہٰذا علاجی ذکر میں تو جتنا بتایا جاتا ہے اتنا ہی کرنا ہوتا ہے اس پہ یہ چیز لاگو نہیں ہوتی، کیونکہ وہ علاج ہے۔ اور جو ثواب والا ذکر ہے تو آپ کو پتا ہے کہ ثواب کتنا چاہیے؟ ظاہر ہے جتنا زیادہ سے زیادہ آپ ثواب حاصل کرنا چاہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کی جو حیثیت ہے وہ آپ کے سامنے ہونی چاہیے کہ یہ مستحب ہے، تو مستحب کے لئے کسی واجب کا ترک کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اگر کسی واجب پہ اس کا اثر پڑ رہا ہو تو پھر آپ کو روکنا پڑے گا۔ البتہ آپ کو اگر chance مل رہا ہے اور آپ کرسکتے ہیں تو جتنا زیادہ سے زیادہ ثوابی ذکر کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم صبح سے لے کے دوپہر تک جتنا بھی ہمارے پاس ٹائم ہو تو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ اور دوپہر کے بعد درود شریف، مغرب کے بعد استغفار جتنا زیادہ سے زیادہ آپ کرسکیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت میرا مسئلہ یہ ہے کہ بیماری کے باعث تقریباً دو ماہ کے لئے ذکر بند رہا، اب آپ سے ذکر دوبارہ لیا لیکن معمولات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ تہجد میں اٹھتا ہوں لیکن پھر سو جاتا ہوں کہ کل سے شروع کرلوں گا یا نیند کے غلبہ کے باعث پھر سو جاتا ہوں، اس کے علاوہ ہفتے میں صرف تین دن ہی چہل درود شریف، مناجاتِ مقبول پڑھتا ہوں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ چھوٹا درود شریف تقریباً سارا دن پڑھتا رہا ہوں، کچھ وجہ وقت کی کمی بھی ہے کہ صبح سات بجے سے دفتر کی تیاری شروع ہوتی ہے اور رات کو آٹھ بجے کے بعد ہی گھر واپسی ہوتی ہے، لیکن نفس اعمال پر نہیں آرہا، اعمال اور اخلاق پر کچھ اثر نہیں ہوتا، اہل وعیال سے بدستور لڑائی جھگڑا رہتا ہے اگرچہ بعد میں اس پر افسوس ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت بیماری آئے تو رجوع الی اللہ خوب ہوتا ہے، لیکن جیسے حالات بہتر ہوتے ہیں تو پھر غفلت طاری ہونے لگتی ہے، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! بالکل آپ وہی کہہ رہے ہیں اور ظاہر ہے ایسا ہی ہوتا ہے، نفس کے ساتھ مسائل تو چلتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سے گھبرا کر آپ کم ازکم یہ نہ چھوڑیں اور آپ اپنا علاج جاری رکھیں اور یہ کوشش کریں کہ timing ایسی رکھ لیں کہ اس میں آپ سے ناغہ نہ ہو، اس طریقے سے کافی بہتری ہوسکتی ہے اِنْ شَاءَ اللہ۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نمبر 01:

تمام لطائف پر دس منٹ اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ پندرہ منٹ، اس مراقبے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی صفات پر عقیدہ پختہ ہوگیا ہے۔

جواب:

سُبْحَانَ اللہ! اب ان کو شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ دے دیجئے گا۔

نمبر 02:

لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ۔ پہلے پہلے دل پر محسوس ہوتا تھا لیکن اب دونوں پر محسوس نہیں ہوتا، روح پر تین مہینے پہلے پندرہ منٹ کیا لیکن محسوس نہیں ہوتا تھا پھر ذکر چھوڑ دیا، پھر شروع کیا اور دو مہینے کیا لیکن اب بھی دونوں پر محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

یہ محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، یہ تو میری سمجھ میں آتا ہے، لیکن چھوڑنا مجھے سمجھ میں نہیں آتا، یہ مجھے آپ سمجھا دیں، پھر میں باقی بات سمجھا دوں گا۔

نمبر 03:

لطیفۂ قلب دس منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

ٹھیک ہے مَاشَاءَ اللہ! اب لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ بتا دیں۔

نمبر 04:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت پندرہ منٹ، چار مہینے یہ وظیفہ کیا ہے۔ یہ خاتون کہتی ہیں کہ اس مراقبے سے دل ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے حتیٰ کہ سوتے میں بھی ذکر شروع ہوجاتا ہے جس سے آنکھ کھل جاتی ہے، مزید یہ کہ دل بہت نرم ہوگیا ہے اور زیادہ تر اللہ تعالیٰ کی مختلف شانیں دیکھ لی ہیں، مراقبہ کے بعد دل میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل گندگی سے صاف ہوگیا ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! یہ مراقبۂ معیت کی برکات ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، ان کو فی الحال ایک مہینہ اور بھی کروائیں۔

نمبر 05:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ پندرہ منٹ، یہ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

صفاتِ ثبوتیہ والے مراقبے میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی، یہ آپ پر اثر ڈالے گا، آپ نے اس اثر کو محسوس کرنا ہے۔

نمبر 06:

لطیفۂ قلب پندرہ منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

ٹھیک ہے ان کو ایک ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر بتا دیں۔

نمبر 07:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ حقیقتِ صلوٰۃ پندرہ منٹ، اب نماز کے الفاظ اور مفاہیم کی طرف توجہ رہتی ہے اور نوافل کی عادت ہوگئی ہے۔

جواب:

سُبْحَانَ اللہ! اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

نمبر 08:

چالیس دن کا ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا کرلیا ہے۔

جواب:

مَاشَاءَ اللہ! اب ان کو پہلا ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور دس منٹ کے لئے دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا بتا دیں۔

نمبر 09:

اسمِ ذات کا زبانی ذکر چھ ہزار مرتبہ۔

جواب:

اب اس کو ساڑھے چھ ہزار مرتبہ کرلیں۔

سوال نمبر 18:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ I am Ok مرشد. The doctors have given me an appointment to consult them for bypass surgery. اِنْ شَاءَ اللہ whatever I will try to postpone till after Ramadan.

جواب:

May Allah سبحانہٗ وتعالیٰ grant you complete صحت


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب