اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
اکثر خواتین صدقہ کی نیت سے کچھ گوشت گھر کی چھت پر مغرب کے بعد ڈال دیتی ہیں۔ ان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ مغرب کے بعد بلائیں آ کر یہ گوشت کھا لیتی ہیں اور مصیبت دور ہو جاتی ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اور گھر کی چھت پہ اس نیت سے گوشت ڈالنا کہ بلی وغیرہ کھا لے گی اور صدقہ ہو جائے گا، کیا یہ درست ہے؟ مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
بلاؤں والی بات تو غلط ہے، بلاؤں کا گوشت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلائیں ان چیزوں سے دور نہیں ہوتیں، کیونکہ یہ ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں سے بچاتا ہے۔ اس کے لئے انسان کو مسنون اعمال کرنے چاہئیں۔ مسنون اعمال کے ذریعہ سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں ہم لوگوں میں ہندوؤں سے آئی ہیں کیونکہ ہندو ہر اس چیز کے سامنے ماتھا ٹیک دیتے ہیں جس سے انہیں کسی نقصان کا اندیشہ ہو یا جس کو وہ اچھا سمجھتے ہوں۔ یہ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حتی کہ انہوں نے ابھی Corona کے بھی بت بنائے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے باقاعدہ نذانے چڑھاتے ہیں تاکہ Corona کی مصیبت سے نجات مل جائے، کیونکہ انڈیا میں Corona نے بہت برا حال کیا ہوا ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے کچھ نہیں ہو سکتا۔
دوسری بات یہ کہ جانور چونکہ زندہ مخلوق ہیں اس لیے ان کے ساتھ مہربانی کرنی چاہیے۔ ان کو کھلانا ثواب کا کام ہے لیکن صدقے کی نیت سے نہیں کھلانا چاہئے۔ صدقہ صرف ان کو کھلائیں جن پہ صدقہ لگتا ہے جیسے غریب غرباء وغیرہ۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت! میں فلاں ہوں اور امی کے حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت آپ نے امی کو ساڑھے چار ہزار بار بلا ناغہ زبانی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر تلقین فرمایا تھا جس کی ایک مہینے کے بعد اطلاع دینی تھی۔ ایک مہینہ 12 فروری کو پورا ہو چکا ہے اور ابھی تک ذکر جاری ہے۔ حضرت آگے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
آگے ان کو پانچ ہزار مرتبہ پڑھنا چاہئے۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ شیخ محترم! سوال یہ ہے کہ چند روز قبل کے درس قرآن میں آپ نے فرمایا کہ اکثر لوگ زیادہ تر دعائیں دنیا کے لئے کرتے ہیں اور آخرت کے لئے بہت کم دعائیں کرتے ہیں۔ ان دونوں میں کس طرح balance کیا جائے؟ اور جب حلال دنیا ملے تو اس پر کیسے خوش ہوں کہ آخرت بھی ذہن میں رہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنا فیض نبی کریم ﷺ سے آپ تک اور آپ سے مجھ تک پہنچائے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔
جواب:
اصل میں آخرت کو اس لئے سامنے رکھنا چاہئے کہ آخرت میں بہت طویل اور نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔ وہاں کی تکالیف بھی زیادہ ہیں اور وہاں کے مزے بھی زیادہ ہیں۔ لہٰذا عقلی تقاضا یہ ہے کہ اس کے لئے انسان کو زیادہ دعا کرنی چاہئے۔ لیکن چونکہ دنیا بھی اللہ ہی دے سکتے ہیں، لہٰذا انسان کو اپنی دنیا کی حاجات بھی اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنی چاہئیں۔ اللہ پاک اس پر خوش ہوتے ہیں۔ لیکن priority آخرت کو ہی حاصل ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اوپر جب اللہ پاک نے فتوحات جاری فرمائیں تو غنیمت کے طور پر بہت سی چیزیں ان کے ہاتھ آئیں۔ لیکن وہ ڈر گئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ساری چیزیں اِدھر ہی مل رہی ہیں اور آخرت میں نا ملیں۔ یہ ڈرنا بہت اچھا ہے کیونکہ اس میں انسان کی آخرت کے لئے زیادہ فکر ثابت ہوتی ہے۔ دنیا اس طرح مانگیں کہ میں کسی کا محتاج نہ ہوں اور عافیت رہے۔ یعنی اصل چیز مانگیں، اِدھر اُدھر کی چیزیں مت مانگیں۔ جیسے لیلۃ القدر میں ایک شخص اپنے ہاتھ میں تنکا اٹھائے ہوئے دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ اس کو سونے کا بنا دے۔ اس طرح مانگنا نامناسب ہے۔ ذہن پہ اس قسم کی دنیا حاوی نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن اپنے لئے صحت مانگنا، عافیت مانگنا، اور محتاجی سے بچنا مانگنا بالکل درست ہے کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو دین متاثر ہو سکتا ہے اور اگر عافیت نہ ہو تو ناشکری ہو سکتی ہے۔ اس طرح اور بھی بہت ساری باتیں ہیں اس لئے ان چیزوں سے بچنے کے لئے اللہ پاک سے مانگنا چاہئے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم، آپ نے جو ذکر بتایا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو اور دس دس منٹ یہ تصور کہ پانچوں لطائف ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کر رہے ہیں۔ پانچوں لطائف سے ہلکی ہلکی ’’اَللّٰہ‘‘ کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پندرہ منٹ کے لئے یہ تصور کرنا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے، اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے دل پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے دل سے شیخ کے دل پر اور وہاں سے میرے دل پر آ رہا ہے۔ اسے بھی ایک مہینہ ہو گیا ہے لیکن اس میں کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔ بس کبھی کبھی دل پہ دباؤ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
دراصل اس پر تو ذکر کی طرح کوئی چیز محسوس کرنے کا بتایا بھی نہیں تھا، وہ تو ذکر ہی ہوتا ہے۔ اس مراقبے میں ”اللہ سب کچھ کرتا ہے“ کا اثر مقصود ہے۔ آپ اس اثر کے لئے مراقبہ کریں اور اس میں اگر آپ کو کچھ اثر محسوس ہو تو وہ بتا دیں، اور اس کو ایک مہینے تک دوبارہ کر لیں۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم حضرت جی میرا وظیفہ دو سو، چار سو، چھ سو، تین سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اور پانچ منٹ کا مراقبہ تھا جو مکمل ہوگیا ہے۔ اب کیا کروں؟
جواب:
اب پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اور پانچ منٹ کا مراقبہ کرلیں، باقی چیزیں ان شاء اللہ وہی ہوں گی۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، میں کراچی سے فلاں ڈاکٹر بات کر رہا ہوں۔ حضرت جی آپ نے تسبیحات بدل کر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘، ’’اَللّٰهُ اَللّٰهْ‘‘ اور ’’اَللّٰہ‘‘ کر دی ہیں۔ مجھے جذب کسبی کے ثمرات محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ کیفیات لکھ کر بتانا مشکل ہے اس لئے اگر آپ کی اجازت ہو تو Recorded message میں یا فون پر بتانا کچھ آسان ہوگا۔ بہر کیف! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کے ورد کے دوران صرف اللہ جل شانہ کے ملجا و ماویٰ ہونے کا استحضار ہو رہا ہے۔ ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ کے ساتھ دل کے صنم کدوں کے ٹوٹنے کا استحضار اور ’’اَللّٰهُ اَللّٰهْ‘‘ کے دوران ہر شخص اور ہر چیز سے تعلق اللہ جل شانہ کے واسطے اور اللہ جل شانہ کے ضابطے کے ساتھ ہی سیکھنے اور کرنے کا احساس ہو رہا ہے۔ ’’اَللّٰہ‘‘ کے دوران بھی اللہ جل شانہ کے فیض کا احساس اور کبھی اپنے وجود کی نفی کا استحضار اور کبھی کوئی اور کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ پہلی دفعہ یہ سمجھ آنے لگا کہ ہر تعلق ہی تعلق مع اللہ ہے اور اس سے انصاف کا طریقہ قرآن و سنت کی اقتدا ہی سے ممکن ہے۔ جانتا ہوں کہ مسافر ہوں اور سفر بہت لمبا ہے لیکن منزل سے زیادہ استقامت کا طالب ہوں۔ حضرت جی دعا فرمائیے۔ جزاک اللہ خیراً۔
جواب:
ما شاء اللہ یہ اَلْحَمْدُ للہ بہت اچھی بات ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ جذب کسبی کے ثمرات ما شاء اللہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھا دئیے ہیں۔ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر اگر سو دفعہ کر رہے ہیں تو اس کو پانچ سو دفعہ کر لیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم حضرت جی، امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی ذکر کا ایک ماہ پورا ہو گیا ہے جو کہ بالترتیب دو سو، چار سو، چھ سو، چار ہزار اور دس منٹ کا مراقبہ تھا۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
دس منٹ کے مراقبہ کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں بتایا کہ وہ کیسا چل رہا ہے؟ اس کے بارے میں بتائیے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی بھی حال میں اپنے دین کے احکامات سے روگردانی نہ کرے بلکہ اپنی ہر خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے۔ چنانچہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردہ کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا موسیقی اور شور و ہنگامہ کرنا وغیرہ یہ سب ناجائز امور ہیں، اور جن تقریبات میں ناجائز اور گناہ کا ارتکاب ہو وہ خلاف شریعت ہیں۔ لہٰذا ایسی تقریبات جو فی نفسہٖ تو جائز ہوں لیکن ان میں غیر شرعی امور مثلًا مخلوط اجتماع، بے پردگی اور موسیقی وغیرہ کا ارتکاب کیا جا رہا ہو تو ان میں شرکت کا کیا حکم ہے؟
اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز تقریب میں شرکت کرنے کے لئے نہیں جانا چاہئے، اگرچہ اپنی طرف سے مکمل پردہ کا خیال رکھا جائے۔ البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم ہو یا مقتدا ہو اور اس سے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جا کر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہئے تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔ اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہو رہا ہے بلکہ وہاں جا کر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہو جائے تو اندر نہ جائے، وہیں سے واپس لوٹ جائے۔ البتہ اندر جا کر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو وہاں جا کر اس کو روک دے۔ اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پہ قدرت بھی نہ ہو تو مدعو شخص اگر عالم یا مقتدا ہو تو وہ بھی وہاں نہ بیٹھے بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے کیونکہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم دین کا استخفاف ہے۔ البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔
جواب:
یہ بات بالکل ٹھیک ہے، اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ یہ بات واقعی قابل لحاظ ہے کہ جو مقتدا ہیں ان کو زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مقتدا اگرچہ اس محفل میں کوئی غیر شرعی کام نہ کر رہا ہو، وہ صرف کسی کا دل رکھنے کے لئے شرکت کر رہا ہو، لیکن اس کی وہاں موجودگی اس محفل کی تائید کی علامت قرار دی جاتی ہے اور لوگ اس سے یہی مراد لیتے ہیں، جس کی وجہ سے فائدے کی جگہ نقصان ہوتا ہے۔ فقہ کا مشہور formula ہے کہ دفع مضرت جلب منفعت سے زیادہ اہم ہے، لہٰذا اگر کسی کی شمولیت سے کسی ناجائز امر کو تقویت ہوتی ہو تو اسے اس سے بچنا چاہئے۔
میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا عرس ہوا کرتا تھا۔ حضرت لوگوں کو اس میں شمولیت سے منع فرماتے تھے۔ اور اپنے ساتھیوں کو تو ضرور فرماتے تھے کہ اس موقع پہ خانقاہ میں نہ آیا کریں۔ چاہے کسی اور کام کے لئے آنا ہو تب بھی نہ آیا کریں تاکہ اس عمل کو تقویت نہ ملے۔ انہی عرس کے دنوں میں ایک مرتبہ حضرت کے کچھ خاص لوگ صرف حضرت سے ملنے کی غرض سے آ گئے۔ یا تو ان کو اس بات خیال نہیں رہا یا ان کو حضرت کے منع کرنے کا پتا نہیں تھا، واللہ أعلم۔ جب حضرت کو انہوں نے اپنے آنے کی اطلاع دی تو اس وقت حضرت اپنی خانقاہ میں چہرے پر چادر ڈالے لیٹے ہوئے تھے۔ حضرت نے چادر سے اپنا چہرہ نہیں نکالا اور غصہ میں کہا کہ تم ان دنوں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ حضرت ہم تو صرف آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔ فرمایا کہ بھلے صرف مجھ سے ملنے آئے ہو لیکن ان کے سواد (تعداد) کو بڑھا رہے ہو یا نہیں بڑھا رہے؟ کس کو پتا ہے کہ تم میرے لئے آئے ہو؟ ہر ایک یہی کہے گا کہ تم بھی اس میں شمولیت کے لئے آئے ہو، لہٰذا میں تم لوگوں سے نہیں ملوں گا۔ چنانچہ حضرت نے ان کو ملے بغیر رخصت کر دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔
اس وقت ہمارے علاقے میں بھی کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا عرس ہو رہا ہے۔ یہ عرس 16 رجب سے شروع ہوتا ہے اور 24 رجب تک جاری رہتا ہے۔ 24 رجب کو چراغاں ہوتا ہے۔ جب سے ہم نے اَلْحَمْدُ للہ ہوش سنبھالا اور سمجھ آ گئی کہ یہ چیزیں خلاف شریعت ہیں تب سے ہم وہاں نہیں جاتے۔ صرف ایک بار مجھے خصوصی طور پر بلایا گیا تو یہی بات سوچ کر کہ اگر کسی فائدے کی امید ہو تو جایا جا سکتا ہے، میں نے ہامی بھر لی کہ میں دین کی بات کرنے کی نیت سے چلا جاتا ہوں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں ٹیلی ویژن والے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ سے انٹرویو لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں ٹیلی ویژن کو انٹرویو نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو آپ کو اسی کے لئے بلایا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ پہلے بتا دیتے تو میں نہ آتا۔ آپ نے مجھے نہیں بتایا تبھی میں آ گیا لیکن میں ٹیلی ویژن کو انٹرویو نہیں دے سکتا۔ پروگرام کا پروڈیوسر بڑا ہوشیار آدمی تھا، اس نے کہا کہ میاں صاحب! ہم اس طرح کرتے ہیں کہ آپ side پہ رہ کر انٹرویو دے دیں ہم کیمرے کے سامنے آپ کے چہرے کی جگہ چراغ کر دیں گے۔ لوگ چراغ کو دیکھیں گے اور ہم آپ سے بات چیت کریں گے۔ میں نے کہا کہ ہاں! اس طرح ٹھیک ہے۔ خیر، انہوں نے مجھ سے انٹرویو لے لیا۔ میں نے جو جوابات دینے تھے وہ دے دیئے۔
اس کے بعد مسجد میں تقریب شروع ہوئی اور بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مجھے صدر جلسہ بنایا گیا۔ تقریب میں سب مقررین کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات کے بیان کر رہے تھے۔ میں نے organizers سے request کی کہ میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ Cheif guest ہیں اس لئے آپ اخیر میں بات کریں گے۔ میں نے کہا کہ Cheif guest بضرورت درمیان میں بھی بات کر سکتے ہیں، آخر میں بات کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ تشریف لائیں۔ میں گیا تو میں نے کہا کہ ما شاء اللہ آپ لوگوں نے اپنے بیانات میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی کرامات بیان کی ہیں، میرا آپ سے صرف ایک سوال ہے کہ کرامات تو ان کے سامنے بیان کی جاتی ہیں جو کسی کی بزرگی کے قائل نہ ہوں۔ یعنی یا تو نئے لوگوں کے سامنے کرامات بیان کی جاتی ہیں یا مخالفین کے سامنے بیان کی جاتی ہیں۔ کیونکہ کرامت ولی اللہ کے ہاتھ پہ اللہ تعالیٰ کی کسی قدرت کے ظہور کا نام ہے۔ اور یہ اس لئے ظاہر ہوتی ہے کہ لوگ اس ولی سے استفادہ کر سکیں۔ جیسے انبیاء کرام کے ہاتھ پہ معجزہ ہوتا ہے اس طرح اولیاء اللہ کے ہاتھ پہ کرامت ہوتی ہے۔ مجھے بتائیں کہ یہ سب لوگ جو سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی ہے جو کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معتقد نہ ہو؟ یہاں تو سب کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے معتقدین آئے ہوئے ہیں، لہٰذا ان کو کرامات بیان کرنا تحصیل حاصل ہے۔ یعنی جو چیز پہلے سے موجود ہے اس کو آپ دوبارہ ان سے کروا رہے ہیں۔ البتہ اگر یہ اس لئے آئے ہیں کہ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا کچھ فیض مل جائے تو کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فیض ان کی تعلیمات پر چلنے میں ہے۔ آپ ان کو حضرت کی تعلیمات اور زندگی سے آگاہ کریں، ان کو بتائیں کہ انہوں نے کیسے زندگی گزاری، کن چیزوں سے نفرت کی اور کن چیزوں سے محبت کی، یہ ان کے لئے مفید چیزیں ہیں۔ یہ سب ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے معتقدین ہیں اس لئے ہمارے اوپر ان کا حق بنتا ہے کہ ہم ان کو یہ باتیں بتائیں۔
پھر میں نے کہا کہ چلیں میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں جو حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ یعنی گل بابا کی کتاب میں لکھی ہے۔ انہوں نے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بابا! بزرگوں کے مقامات ہوتے ہیں، آپ کا کون سا مقام ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ میں نے بزرگی بزرگوں کے لئے چھوڑی، درویشی درویشوں کو دے دی اور علم علماء کے حوالے کیا۔ میرے گلے میں شریعت کی پابندی کا جو طوق ہے، بس وہ موت تک میرے گلے میں رہے، یہی میرا مقام ہے۔ گویا کہ عاشقانہ الفاظ میں مقامِ عبدیت کا بتایا۔ مقام عبدیت بہت اونچا مقام ہے۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ اب میں آپ حضرات کے سامنے ایک بات لانا چاہتا ہوں کہ ما شاء اللہ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں بڑی صلاحیت موجود ہے، لیکن صرف ایک چیز کی کمی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم میں کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ والی عاجزی نہیں ہے۔ اگر یہ چیز ہم میں پیدا ہو جائے تو حضرت کے فیوض و برکات ہمیں ملنے لگیں گے اور ان سے استفادہ ہونے لگے گا۔ میں یہاں صرف یہ پیغام پہنچانے کے لئے آیا ہوں کہ آپ کو بتاؤں کہ جو چیز ہم میں کم ہے وہ ہم اپنے اندر پیدا کریں۔ اس کا ما شاء اللہ بہت اثر ہوا۔ اس کے بعد جتنے بیانات ہوئے ان میں کچھ نہ کچھ یہ چیزیں بھی آنے لگیں۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس طرح کی محافل میں جانے میں کوئی خیر کا پہلو ہو تو انسان ضرورتًا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر خیر کا پہلو نہ ہو اور محض دل رکھنے کے لئے کوئی جاتا ہے تو اس کے لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک formula ہے کہ کسی کی دل شکنی سے بچنے کے لئے اپنی دین شکنی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بہت اہم بات ہے جو حضرت مختلف پیرایوں میں سمجھاتے تھے۔ کبھی کبھی فرماتے تھے کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھری گم نہ کریں۔ یعنی آپ کے اوپر دوسروں کا حق ضرور ہے لیکن اتنا نہیں کہ آپ اپنے آپ کو تباہ کر لیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہی افراط تفریط سے بچنے کی راہ ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو حق کے ساتھ کر دے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی! میں جہلم سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ ان شاء اللہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی اگر حرام مال کھا لیا ہو تو اس کا اثر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو روحانیت سکون اور اطمینان اس کی وجہ سے کھو دیا ہو، وہ دوبارہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اگر حرام مال کھا لیا ہو تو اس کے لئے ہم لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ تو اختیار نہیں کر سکتے۔ حضرت نے ایک بار پتا نہ ہونے کی وجہ سے حرام لقمہ کھا لیا تھا، بعد میں جب اس کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ حرام تھا، حضرت اب اس کو پیٹ سے نکالنے کے لئے زور لگا کر قے کرنے لگے لیکن چونکہ بہت فاقے کی حالت میں کھایا تھا تو اس کا نکالنا بہت مشکل تھا۔ حضرت نے پوری کوشش کی اور بالآخر اسے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ لوگوں نے کہا بھی کہ آپ کو گناہ نہیں ہوگا کیونکہ آپ کو پتا نہیں تھا۔ لیکن حضرت نے فرمایا میں اس کو نہیں کھا سکتا کیونکہ اس سے جو خون اور گوشت بنے گا اس کا علاج جہنم کی آگ ہے، جس کو میں برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ کام کرنا تو ہمارے لئے مشکل ہے لیکن یہاں ما شاء اللہ مفتیان کرام بیٹھے ہوئے ہیں جو اس کی componsetion کا کوئی طریقہ کار بتا سکتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کی کوئی چیز لی ہو تو اگر اس کی قیمت کے برابر اس کو رقم دے دی جائے کہ یہ آپ سے میں نے خرید لی تو اس میں ایک تو یہ فائدہ ہوگا کہ ہم حرام سے بچ جائیں گے اور دوسرا یہ فائدہ ہوگا کہ اس کو پتا چل جائے گا کہ ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ یعنی یہ دعوت کی صورت بھی بن جائے گی۔ لیکن اگر اس میں فساد کا ڈر ہو تو پھر اس کو کسی اور طریقہ سے بات پہنچا دی جائے تاکہ لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آئے کیونکہ اگر اس نے کہا کہ کیا آپ نے مجھے حرام خور سمجھ رکھا ہے؟ تو جھگڑا ہو جائے گا کیونکہ بعض لوگ حرام کو حرام نہیں سمجھتے۔ ضروری نہیں کہ وہ بھی حرام کو حرام سمجھتا ہو۔
ایک دفعہ ہم ایک ریٹائرڈ تحصیلدار کے گھر ان کو ملنے کے لئے گئے۔ انہوں نے مجھ سے خود ہی کہا کہ میری بیوی میرے مال سے کھانا نہیں کھاتی، وہ اپنا انتظام اپنے پیسوں سے کر لیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیوں نہیں کھاتیں؟ اس نے کہا کہ تمہارا مال حرام ہے، کیونکہ تمہارے پیسے بینک میں fix deposit میں رکھے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے کہا اگرچہ یہ حرام ہے لیکن میرے لئے میری ماں کے دودھ کی طرح ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے کیسے کہہ دیا کہ یہ میرے لئے ماں کے دودھ کی طرح حلال ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس سے آج کل کوئی بچ ہی نہیں سکتا کیونکہ تنخواہوں کا سارا نظام بینک کے ذریعہ ہوتا ہے اور بینک میں سودی نظام ہے، تو اس طرح آپ کی تنخواہیں بھی ناجائز ہو گئیں۔ اس طرح کی کچھ اور باتیں بھی انہوں نے کیں۔ میں نے کہا حضرت! اگر بات سمجھنے کی کوشش فرمانا چاہیں تو میں کچھ عرض کروں؟ کہتے ہیں بالکل، آپ بتائیں۔ میں نے کہا کرنسی نوٹ پہ تصویر بنی ہوتی ہے حالانکہ تصویر تو حرام ہے لیکن اس کو جیب میں رکھنے سے ہم لوگ گناہ گار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ حکومت کی طرف سے ہے، لہٰذا اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔ اس کو تبدیل کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے، اس لئے فقہاء اور مفتیان کرام نے اس کی اجازت دی ہے کہ آپ کرنسی نوٹ جیب میں رکھ سکتے ہیں۔ اس کی دلیل قرآن پاک کی آیت ہے:
﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ1: "اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا"۔
اس لئے جو چیز آپ کے بس میں نہیں، اس پہ اللہ تعالیٰ آپ کو نہیں پکڑیں گے۔ البتہ اگر سیاسی طور پر اس کو تبدیل کئے جانے کی کوششیں ہو رہی ہوں تو ہم اس کا ساتھ ضرور دیں گے۔ اگر اس کے خلاف باقاعدہ طریقہ کار سے کوئی کام ہو رہا ہو تو اس کی support کرنا ہم سب کے اوپر لازم ہے تاکہ وہ کام ہو جائے۔ لیکن اکیلے آدمی کے اوپر کچھ لازم نہیں ہے کیونکہ صرف اس کے نا کرنے سے وہ کام کم نہیں ہو سکتا، لیکن اگر کوئی حرام کام آپ کی اپنی مرضی سے ہو رہا ہے تو اس میں تو آپ کی گرفت ہو جائے گی۔ اس وجہ سے آپ کی بیوی بالکل ٹھیک کر رہی ہے۔ یہ آپ کا ذاتی عمل ہے اور آپ نے اپنی مرضی سے کیا ہے اور یہ حرام ہے۔ کہنے لگے کہ آج آپ نے مجھے صحیح سمجھایا ہے۔
اصل بات یہی ہے کہ بعض لوگ واقعی حرام کو حرام نہیں سمجھتے۔ انہوں نے اپنے لئے کچھ باتیں بنائی ہوئی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیطان کے شر سے بچائے، یہ ایسا ظالم ہے کہ جو لوگ حرام میں مبتلا ہوتے ہیں یہ ان کو عبادات کی طرف بہت زیادہ لگا دیتا ہے تاکہ ان کا ذہن اسی میں لگا رہے کہ ہم تو عبادت کر رہے ہیں۔
ہمارے ایک دور کے رشتہ دار تھے، وہ باقاعدہ کھل کے اعلانیہ اور فخریہ طور پر رشوت لیتے تھے، لیکن رمضان شریف میں ان کے گھر سے اعتکاف والوں اور نمازیوں کے لئے باقاعدہ افطاریاں اور اعتکاف والوں کے لئے کھانا جاتا تھا۔ یہ ان کا پکا معمول تھا۔ اخیر عمر میں جس وقت بہت بیمار ہو گئے تو ہسپتال میں admit تھے۔ ایک بار وہاں سے یہ پوچھنے کے لئے فون کیا کہ کیا وہ کھانے اور افطاری کا سارا نظام چل رہا ہے؟ جواب دیا گیا کہ جی ہاں، جیسے آپ چلا رہے تھے بالکل اسی طرح چل رہا ہے۔ اس سے ان کو تسلی ہو گئی۔ ان کے خیال میں ہمارے سب گناہ اس سے معاف ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ اگر آپ حرام سے صدقہ کریں گے تو وہ صدقہ نہیں ہوگا۔ جب وہ مال ہی آپ کا نہیں ہے تو آپ اسے کیسے صدقہ کر سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں ناسمجھی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
ایسی صورت میں بعض دفعہ شر سے بچنے کے لئے کسی ایسے طریقے سے مال ان کو پہنچانا ہوتا ہے کہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔ باقی جو آپ نے روحانی سکون اور کیفیات دوبارہ حاصل کرنے سے متعلق سوال کیا ہے، اس کے بارے میں تفصیل بتائیں کہ حرام مال حکومت سے لیا ہے یا کسی شخص سے؟ جب تفصیل بتائیں گے تو اس کے مطابق بات ہوگی۔ جیسے بزرگوں نے لکھا ہے کہ اگر مثال کے طور پر ریلوے کے محمکہ سے کسی نے پیسے کھائے ہوں تو ٹکٹ لے کر اس کو پھاڑ دینے سے اس ادارے میں پیسے چلے جائیں گے۔ اور اگر کسی فرد کے پیسے ہیں تو اگر اسے بتانا مشکل نہ ہو تو اس کو بتا دیں اور اگر مشکل ہو کسی اور طریقے سے دے دیں۔
سوال نمبر 11:
نمبر 1:
حضرت! اضطرار کے ساتھ دعا مانگنے میں اور دعا کرنے کے بعد بے صبری کرنے میں کیا فرق ہے؟
جواب:
مضطر کی دعا کا شمار بہت قبول ہونے والی دعاؤں میں ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ﴾ (النمل: 62)
ترجمہ: "بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بےقرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔"
کیونکہ اضطراری حالت میں جب انسان اللہ پاک سے دعا کرتا ہے تو اسے اللہ فوراً قبول کرتے ہیں، کیونکہ اس وقت اس کا دل Hundred percent اللہ کی طرف ہوتا ہے۔ جیسے کسی کو پھانسی لگنے والی ہو تو اس وقت وہ کیسے دعا کرے گا؟ ظاہر ہے وہ ہر طرف سے کٹ کے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگا۔ دعا کرنے کے بعد بے صبری نہیں ہے، بلکہ جب آپ نے دعا کر لی تو اس کے بعد فیصلہ اللہ پہ چھوڑنا ہوتا ہے، اس میں تفویض شامل کرنی ہوتی ہے جیسے ارشاد ہے کہ:
﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)
ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
اس کے بعد انسان جلدی نہ مچائے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پہ راضی رہے۔ کیونکہ دعا کے معاملہ میں آپ ﷺ نے تین صورتیں بتائی ہیں کہ اس نے جو چیز مانگی ہے اگر وہ اس کے حق میں اچھی ہو تو بعینہ وہی چیز مل جاتی ہے، یا اگر اس پہ کوئی مصیبت آنے والی ہو تو اس کی وجہ سے وہ مصیبت ہٹا دی جاتی ہے، یا اس دعا کو آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ آخرت کے لئے ذخیرہ کی جانے والی دعاؤں کے بارے میں فرمایا کہ اس وقت جب لوگوں کو پتا چلے گا کہ وہ دعائیں جن کا ان کو صلہ نہیں ملا تھا آج ان کو ان تمام دعاؤں کا صلہ دیا جا رہا ہے تو وہ کہیں گے کاش! ہماری کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔ اس کی مثال arrear کی طرح ہے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے ہماری تنخواہ بند ہو جائے یا کسی اور چیز کی وجہ سے اس میں ٹائم لگ جائے تو اگرچہ آدمی نے ابتدا میں اضطراری طور پر اس کو واگزار کروانے کی کوشش کی ہو، لیکن بعد میں جب سال، دو سال یا کچھ ماہ کی اکٹھی تنخواہ ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ یہ اچھا ہوا کہ اس طرح Compulsory saving ہوگئی۔
اس طریقہ سے بعض دفعہ انسان کے لئے دعا کی بھی ایسی صورت بن جاتی ہے کہ اللہ جل شانہ اس کو مؤخر کرکے وہاں دینا چاہتا ہے، اس لئے اس میں بے صبری نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہئے کہ وہ بہت مہربان ہے، مجھے ان شاء اللہ عطا فرما دے گا۔ اور اپنے ساتھ سوء ظن رکھنا چاہئے کہ میں نے دعا کا حق ادا نہیں کیا۔
نمبر 02:
کیا منفی سوچ اور بدگمانی کا علاج شکر کی عادت ڈالنے سے ہوسکتا ہے تاکہ ہر حال میں انسان مثبت پہلو کو دیکھے؟
جواب:
دیکھیں! منفی سوچ ایک سوچ کا نام ہے جس کو Negative thinking کہتے ہیں۔ ایسی سوچ کا حامل شخص ہر چیز میں منفی پہلو دیکھتا ہے، اور مثبت پہلو کی طرف بالکل نہیں آتا۔ ایسے لوگوں کو قنوطی اور مایوس لوگ کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ اتنے مایوس ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھ کے دوسرے لوگ بھی مایوس ہو جاتے ہیں۔ وہ اس طرح باتیں کرتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے اور اس پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ گویا کہ ان میں مایوسی radiate ہو رہی ہوتی ہے۔
بدگمانی دوسری بیماری ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی کے ساتھ اچھا گمان نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ وہ ہر ایک سے سوء ظن رکھتا ہے جس کی قرآن پاک میں ممانعت ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (الحجرات: 12)
ترجمہ: "بعض گمان گناہ ہوتے ہیں"۔
البتہ ان کا علاج کیسے کرنا چاہئے تو یہ ہر صورت میں الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ شکر بہت اچھی چیز ہے اگر آپ کو شکر نصیب ہوگیا تو ان شاء اللہ العزیز آپ کا اس طرف خیال ہی نہیں جائے گا۔ لیکن ان چیزوں کے ہوتے ہوئے شکر کرنا بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔ کیونکہ اگر منفی thinking ہوگی تو اس کے اعمال بھی اس کے مطابق ہوں گے، اس لئے وہ مثبت کی طرف صرف theoretically جائے گا، practically نہیں جائے گا۔ بدگمانی اور منفی سوچ کا علاج یہ ہے کہ انسان خود کو شعور میں لانے کی کوشش کرے۔ شعور سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ سوچے تو اس کی عقل اس کو پا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک قنوطی یعنی Negative thinking والے شخص کو اس کی Negative thinking کی وجہ سے صحت کا بھی نقصان ہوتا ہے اور اس کے کاموں میں بھی خلل پڑتا ہے۔ تو اس کا حل یہ ہے کہ اس کو یہ مستحضر ہو جائے کہ جو کچھ ہونا ہوگا ہو کر رہے گا، میں کیوں اپنی thinking کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنی صحت اور اپنے کاموں کو خراب کروں؟ ایسے مراقبات کر کے وہ اس سے نکل سکتا ہے۔ یعنی انسان کو عملًا یہ احساس ہو جائے کہ یہ راستہ میرے لئے خطرناک ہے۔
بدگمانی کا علاج بھی اس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ سوچے کہ میں اگر بدگمانی کروں اور وہ چیز اگلے بندے میں نہ ہو تو اس کا گناہ میرے اوپر آئے گا۔
ایک بزرگ کہیں جا رہے تھے راستے میں دیکھا کہ ایک عورت لیٹی ہے اور ایک شخص اس کے سینے پہ بیٹھ کر ایک بوتل اس کے منہ میں ڈالی ہوئی ہے۔ ان کو خیال آیا کہ یہ کتنے بے شرم ہیں، یہ بھی خیال نہیں رکھ رہے کہ ہم کہاں ہیں۔ ان کے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ اتنے میں شور اٹھا کہ کشتی الٹ گئی، وہ آدمی اس عورت کو اسی حال میں چھوڑ کے یکدم اٹھا اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ دریا میں جا کر اس نے تین چار لوگوں کو بچا لیا۔ کچھ لوگ ڈوب بھی گئے۔ وہ گیلے کپڑوں کے ساتھ باہر نکلا اور ان بزرگوار کو کہا دیکھو! میں نے تو تین چار لوگ بچا لیے ہیں، آپ نے کیا کیا؟ اور کہا کہ یہ میری ماں ہے، اور یہ چونکہ بیمار ہے اس لئے میں اس کو دوائی پلا رہا تھا۔ چونکہ وہ کوئی اللہ والے بزرگ تھے، اس لئے ان پہ اللہ پاک نے بات کھول دی۔ حالانکہ انہوں نے صرف دل میں سوچا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ بعض دفعہ انسان اپنی Negative thinking کی وجہ سے اپنا نقصان کر لیتا ہے۔ آرمی کے test کے دوران ایک ٹیسٹ میں وہ کچھ تصویریں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان پہ لکھو کہ یہ کیا ہے۔ اس سے وہ اس کا Brain study کرتے ہیں کہ یہ کس انداز میں سوچتا ہے۔ یا وہ اس طرح کا کوئی topic introduce کر لیتے ہیں جس پہ discussion سے وہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس کی thinking کس قسم کی ہے۔ army والے یا establishments یہ سب اس لئے کرتے ہیں کیونکہ thinking کا بہت بڑا effect ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ان کے شر سے بچانے کے لئے یہ سب کرتے ہیں کہ اگر کوئی Negative thinking والا آ گیا تو ہم پر مصیبت آئے گی اور خواہ مخواہ مسئلہ بن جائے گا، اس لئے ہمارے پاس کم از کم ایسے لوگ نہ آئیں جو ہمارے لیے مصیبت بنیں۔ اگر ہم تھوڑا سا غور کر لیں تو پتہ چلے گا کہ Negative thinking والا شخص در اصل خود اپنے لئے مصیبت ہوتا ہے۔ لہذا اس concepts کو درست کرلیں۔ اگر اس کو عقل فہیم حاصل ہو جائے تو پھر ما شاء اللہ وہ ان چیزوں سے بچ سکتا ہے۔
شکر کی عادت رضا بالقضا کے بعد آتی ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ سے راضی ہوتا ہے تو اس کے بعد اسے شکر نصیب ہوتا ہے، ورنہ وہ theoretical شکر کرتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی نہ ہونے سے اچھا ہے لیکن جو اصل شکر ہے وہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ سے راضی ہوتا ہے اور اس کو اللہ پاک کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کو وہ شکر نہیں کہتا اور نہ کہنا چاہئے کیونکہ اللہ کا شکر کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ اللہ کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم صرف try کر سکتے ہیں۔ اور وہ کوشش بھی قبول ہو جاتی ہے۔
سوال نمبر 12:
I pray you and your beloved ones are all well dear Sheikh. This is فلاں from UK. جزاک اللہ خیراً for your reply last week and for all your care, concern and help for me. I can’t put my gratitude in words for how grateful I am for your توجہ care and duas. My life is completely transformed since Allah سبحانہ و تعالیٰ blessed me with my first presentation in your خدمت. May Allah سبحانہ و تعالیٰ allow me to fully benefit from your فیض and make me genuine مرید and grant me your love.
I have completed my last month ذکر of ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred ‘‘حَقْ’’ six hundred and Allah thousand. I regret to inform you that I missed three days of ذکر this time and the last two were only in the previous week due to a stomach issue I experienced. I really try my best to not miss a day but unfortunately شیطان and my نفس made me slip. ان شاء اللہ I will try harder for the next time. May Allah سبحانہ و تعالیٰ grant me توفیق.
اَلْحَمْدُ للہ I did my مسنون ذکر everyday. I feel all parts of ذکر on most days but not everyday. Sometimes I enjoy it so much that my eyes tear up from the start to the end and I accidently do a little more ذکر. I also feel my body heat up from inside during Salah and I can feel that effect in most Salahs after finishing them. اَلْحَمْدُ للہ I have also felt some of the following effects.
اَلْحَمْدُ للہ I feel like I have little interest with money as I live with my parents for the past year. I have been giving all my wages from امامت to students and teaching the Quran to them and never even opened the envelope to check how much I earned. I also have no desire for fame. I just want to live in this world in such a way that Allah سبحانہ و تعالیٰ is pleased with me and that I am from the richest people in the آخرت. I have started to hate praise and stay away from people who praise me a lot. Also, my interest in enjoying delicious food has decreased a lot and I have started to hate being with people who always talk about food. I stopped eating all sugar a year ago and try to eat enough to keep me enjoying myself but sometimes I go over. I really want to start praying تہجد especially after hearing your بیانات but I struggle to get up even though I go to sleep shortly after عشاء
اَلْحَمْدُ للہ I am able to do تلاوت for thirty minutes daily though before فجر I am very happy to inform you also dear Sheikh that I will be coming to Pakistan next week ان شاء اللہ. I will send the details on your private number.
جواب:
ما شاء اللہ یہ ساری باتیں اَلْحَمْدُ للہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی ہیں۔ اللہ پاک ہمارے سلسلہ پہ اپنے فضل کی برکت سے آپ کی شکر کی کیفیت کو ان شاء اللہ مزید بڑھا دے گا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، یہ اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ:
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ: "اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا"۔
اور اصل نعمتیں یہی ہیں کہ انسان دنیا کے اندر آخرت کی تیاری کرے۔ دنیوی چیزوں سے منع نہیں کیا گیا لیکن دنیا کی چیزوں میں گم ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ دنیا کو اپنا مقصود نہیں بنانا چاہئے لیکن انسان کو جو دنیا ضرورتًا اختیار کرنی پڑتی ہے وہ مجبوری ہے۔ ہمارا سائنس کا Second law of thermodynamics اس کو explain کرسکتا ہے کہ کسی بھی source سے کام لینے کے لئے اس کی کچھ energy اس کے sank کو جاتی ہے۔ Without that ہم اس سے کام نہیں لے سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا کچھ وقت اور کچھ efforts دنیا کے لئے جانا ضروری ہیں تاکہ ہم زندہ رہیں، اور کام کر سکیں اور زندگی عبادت میں استعمال ہو سکے۔ اس میں صرف نیت کو تبدیل کرنا پڑتا ہے یعنی نیت کو دنیا سے ہٹا کر اللہ کے لئے کرنا پڑتا ہے اس سے وہ دنیا بھی دین بن جاتی ہے۔ ما شاء اللہ یہ ہمارے لئے بہت خوشی کی بات ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے اوپر یہ چیزیں کھولیں۔ ان شاء اللہ باقی باتیں جب آپ تشریف لائیں گے تو ہو جائیں گی۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم، حضرت جی میں فلاں ہوں، میرا ذکر ہے: دو سو مرتبہ، چار سو مرتبہ، چھ سو مرتبہ، سات ہزار اسم ذات، پندرہ منٹ لطیفہ قلب، دس منٹ لطیفہ روح، دس منٹ لطیفہ سر، دس منٹ خفی اور دس منٹ لطیفہ اخفیٰ۔ 16 فروری کو مہینہ پورا ہوگیا تھا۔ 19، 20 فروری کو مراقبہ میں ناغہ ہوا۔ صرف آخری چار دن میں ذکر محسوس ہوا، اس سے پہلے پورا مہینہ کسی لطیفہ پر تھوڑی دیر بھی ذکر محسوس نہیں ہوا۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ما شاء اللہ بہت اچھی بات ہے، اللہ تعالیٰ اس کو مزید بڑھائیں۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ ہمت کرو، ہمت کرو، ہمت کرو اور ہمت کرو۔ اصل بات یہی ہے اور ایسے ہی راستے کھلتے ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے بس میں نہیں ہیں لیکن اللہ پاک ان کو دیتے ہیں جو اس کے لئے کوششیں کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
یہ چیزیں من جانب اللہ نصیب ہوتی ہیں، لیکن اس کے لئے کوشش ہماری طرف سے ہے اور عطا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس وجہ سے جب آپ نے کوششیں جاری رکھیں تو اللہ پاک نے آپ کو آخری چار دن میں ذکر محسوس کرا دیا۔ اس امید پر کہ ان شاء اللہ آگے بھی ہوگا، اپنی کوشش جاری رکھیں اور مایوسی کی طرف بالکل مت جائیں۔ اب آپ یہی ذکر کریں یعنی دو سو، چار سو، چھ سو، ساڑھے سات ہزار۔ آپ نے لطائف کی جو ترتیب بتائی ہے وہ تھوڑی سی change ہے۔ لطیفہ قلب پندرہ منٹ نہیں ہے، صرف لطیفہ اخفیٰ پندرہ منٹ ہے، باقی دس دس منٹ ہیں۔ اب ان کو ان شاء اللہ العزیز اسی ترتیب سے شروع کر لیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم حضرت جی! بھتیجیوں نے ذکر مراقبہ چھوڑ دیا ہے۔ ایک نے کہا کہ میں نہیں کرسکتی اور دوسری نے کہا کہ مجھے مراقبہ میں ڈر لگتا ہے اور یہ بہت زیادہ ہے اس لئے میں نہیں کرسکتی۔ حضرت جی پچھلے مہینے آپ نے ان کے احوال پہ کہا تھا کہ بعد میں بات کروں گا۔ بھابھی کے معمولات میں مراقبہ دس منٹ دل، دس منٹ روح، دس منٹ سر، دس منٹ لطیفہ خفی اور دس منٹ اخفیٰ پر اور دو ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہے۔ مندرجہ بالا پانچوں مقامات پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مراقبہ احدیت پچھلے مہینے سے کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ان کو فیض بھی محسوس ہو رہا ہے۔ ان کے لئے آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
ما شاء اللہ! ابھی ان کو یہ بتا دیں کہ مراقبہ احدیت کی جگہ تجلیات افعالیہ کا مراقبہ کر لیں۔ یعنی وہ فیض جو عام ہے اب اس کو خاص کر لیں۔ خاص فیض سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک ہی سب کچھ کرتے ہیں، اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب پر اور آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب کی طرف آ رہا ہے۔ باقی چیزیں ان شاء اللہ وہی رکھیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت! مزاج بخیر ہوں گے۔ بندہ کو ایک مہینے کے لئے جو ذکر دیا گیا تھا اس کا ایک مہینہ بلاناغہ پورا ہو گیا ہے۔ وہ ذکر یہ ہے: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘۔ اس کے ساتھ اللہ کا مراقبہ قلبی بھی تھا جس کو بندہ محسوس کرتا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اب مراقبہ قلبی دس منٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ روحی کر لیں، یعنی لطیفہ روح پر بھی اس کو محسوس کرنا شروع کر لیں۔ باقی چیزیں ان شاء اللہ وہی رہیں گی۔
سوال نمبر 16:
مجھے قلب پر الہامات بھی ہوتے ہیں، اور سوچیں اور شیطانی وسوسے بھی بھی بہت آتے ہیں۔ استخارے بھی کرتا ہوں مگر قوت فیصلہ بڑی ہی کمزور ہے۔ اس سب میں یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ کیا کیا جائے؟
جواب:
جب کسی کا کشف محفوظ نہ ہو تو کشف کے علاوہ جو یقینی ذرائع ہیں، صرف ان پر ہی عمل کریں، کیونکہ کشف پر عمل کرنے میں خطرہ ہے۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صاحب کو ایک آدمی کی کتابیں پڑھنے سے روکا تھا کیونکہ ان میں مسائل تھے۔ اس آدمی کا نام میں نہیں لیتا کیونکہ خواہ مخواہ مسائل شروع ہو جاتے۔ ان کی کتابیں پڑھنے سے روکنے کے بعد ان صاحب کو فرمایا کہ کبھی کھچڑی کھائی ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں کھائی ہے۔ فرمایا اگر اس میں کوئی چھوٹا سا پتھر ہو تو کیا آپ کی زبان اسے نکال سکتی ہے؟ وہ چپ ہو گیا۔ فرمایا: اگر کسی کی زبان اتنی حساس ہو کہ وہ کھچڑی میں آنے والے چھوٹے چھوٹے کنکر وغیرہ کو نکال سکے تو اس کو کھچڑی کھانی چاہئے ورنہ نہیں کھانی چاہئے۔ آپ کو وہ کتابیں تب پڑھنی چاہئیں جب آپ کے پاس اتنا علم ہو کہ ان میں اگر کوئی غلط بات ہو تو آپ کو پتا چل جائے۔ یہی بات کشف کی ہے، بلکہ کشف تو اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اس وجہ سے ہم کشف کے اوپر چیزوں کو منحصر نہیں کر سکتے۔ یہ ہم پر لازم بھی نہیں ہے اور اس کا ہم سے مطالبہ بھی نہیں ہے۔ اگر کسی کا شیخ بھی ہو، یقینی چیزیں بھی ہوں اور ما شاء اللہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ و ملفوظات بھی ہوں تو پھر اس کو کسی اور چیز یعنی کشف وغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟ ہم لوگوں کو ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ؎
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خوابوں کے سنانے پر یہ سنایا کرتے تھے۔ یقین جانیے کہ خواب کا مرتبہ کشف سے بلند ہے۔ اگر خواب کے بارے میں حضرت کا یہ خیال ہے تو کشف کے بارے میں کیا خیال ہوگا، بالخصوص اس وقت جب اس میں risk بھی ہو کہ غلط بات بھی آ سکتی ہے اور شیطان کی طرف سے بھی بات آ سکتی ہے۔
کافی لوگ ہمارے بارے میں کہیں گے کہ یہ بڑے خشک قسم کے لوگ ہیں، کسی چیز کو نہیں مانتے۔ لیکن ہم کیا کریں؟؎
جس کو ہو جان و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں؟
ہم شیطان کی گلی میں خواہ مخواہ جا کر کیوں اپنے آپ کو خراب کریں؟ اس لئے محفوظ رہنا اچھا ہے۔ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے ولی تھے اور نقشبندی سلسلے کے بہت اونچے بزرگ تھے۔ حضرت شاہ غلام علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب ان سے بیعت ہونے لگے تو انہیں فرمایا کہ مجھے سے بیعت ہو کر کیا کرنا ہے؟ یہاں مزہ وزہ کچھ نہیں ہے، یہاں تو پتھر کے اوپر نمک ڈال کے چاٹنے والی بات ہے؟ حضرت نے کہا کہ مجھے یہی قبول ہے، تو فرمایا کہ اگر ایسے دیوانے ہو تو آ جاؤ۔ اور ان کو بیعت فرما لیا۔ بس ہم بھی یہی ہیں۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے تین ہزار اسم ذات کا ذکر، اور لطیفہ قلب، روح اور لطیفہ سر دس دس منٹ۔ مزید آپ کی ہدایت کے مطابق خفی پندرہ منٹ شروع کیا ہے۔ اس میں ناغہ نہیں ہوا، اور اَلْحَمْدُ للہ بوجھ بھی محسوس نہیں ہوا۔ شہوت کی طرف میلان کم ہوا ہے۔ مہینہ ختم ہونے میں ایک ہفتہ باقی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر پچھلے ایک ہفتے سے پھر عود آیا ہے۔ آپ سے رہنمائی اور خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ رہیں اور اللہ پاک سے مدد طلب کرتے رہیں اور یہ معمولات کرتے رہیں۔ ابھی ایک ہفتہ باقی ہے، اللہ پاک توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر 18:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
ایک صاحبہ بڑے مشکل حالات میں ہیں، انہوں نے مجھے اپنا مسئلہ بتایا تھا اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اس پہ ضرور بات کروں گا۔ وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتیں، معاشرہ کی تکالیف اور بالخصوص خاندانی حالات کی وجہ سے ان کو احساس کمتری ہونا شروع ہو گیا ہے اور انہوں نے اپنے بارے میں یہ گمان کرنا شروع کر دیا ہے کہ میں کسی چیز کے قابل نہیں ہوں۔
ایک بار جب میں نے حضرت سے سامنے اس قسم کی باتیں کیں تو حضرت نے مجھے روکا اور فرمایا کہ تواضع اگرچہ بہت اچھی چیز ہے لیکن یاد رکھیں! کہیں یہ احساس کمتری کی طرف نہ چلی جائے۔ کیونکہ احساس کمتری انسان کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتا ہے۔ احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے انسان کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور دوسروں کی صلاحیتوں سے حسد ہونے لگتا ہے اور بعض دفعہ کینہ بھی پیدا ہو جاتا ہے جس سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ پاک نے جو صلاحیتیں دی ہیں ان کا شکر ادا کریں۔
مثال کے طور پر اگر اللہ پاک نے انڈیا میں کسی کو ایمان نصیب فرمایا ہے تو میں کہتا ہوں کہ اگرچہ باقی کافروں میں دنیا جہاں کی صلاحیتوں کی بھرمار ہو لیکن اس ایمان کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگرچہ ان کی صلاحیتیں یہاں پر کام آ جائیں گی، یہاں ان کا نام بھی ہوگا اور یہاں ان کے کام بھی ہوں گے لیکن اصل چیز ایمان ہے۔ اگر کسی کو ایمان کی دولت ملی ہو تو وہ اس پر بھی کبھی شکر پورا نہیں کرسکتا۔ اگر ایک انسان کی گردن اتنی موٹی ہو جائے کہ ساٹھ سال تک اس پہ چھری چلتی رہے، وہ نہ مرے اور چھری سے ہونے والی تکلیف جھیلتا رہے اور آخر میں ایمان کے ساتھ دنیا سے چلا جائے تو وہ کامیاب ہے۔ اس کے مقابلہ میں اگر کوئی شخص پورے ساٹھ سال بادشاہت کرے، اس کو سب کچھ میسر ہو لیکن ایمان کے بغیر چلا جائے تو وہ ناکام ہے۔ اس لئے ہمیں اس پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ پاک نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے۔ اللہ اس کو قائم رکھے اور اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں ان کو ہم اللہ کے لئے استعمال کریں اور جو حالات آتے ہیں ان کو تفویض کریں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔