اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا وظیفہ تین ہزار مرتبہ ’’اَللہ، اللہ‘‘ زبان پر، تین مرتبہ آیت الکرسی اور آدھا گھنٹہ مراقبہ دل پر ہے۔ دل میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا اور تین مہینے سے میں نے نیا وظیفہ نہیں لیا۔ وظیفہ مجھ سے رہ گیا۔ الحمد للہ! پھر سے معمولات شروع کرلئے۔ حضرت جی! میری ساس بھی آپ سے بیعت ہوئی، انہوں نے چالیس دن کا وظیفہ پورا کرلیا ہے اور اب بھی وہی کررہی ہیں۔ میں نے ایک دو ہفتے پہلے message کیا، لیکن ہم دونوں کو نیا وظیفہ نہیں ملا۔ آگے ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ حضرت جی! کوتاہیوں پر معافی چاہتی ہوں۔ دعاؤں کی طلبگار ہوں۔
جواب:
ابھی آپ ساڑھے تین ہزار مرتبہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ زبان پر کریں اور باقی چیزیں وہی ہوں۔ مراقبہ صرف دس منٹ دل پر کرنے کی کوشش کرلیں، اگر محسوس ہو، جس وقت محسوس ہوجائے تو مجھے بتا دیجئے گا، لیکن اُس وقت تک ابھی ایک مہینے کے لئے ساڑھے تین ہزار مرتبہ زبان پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کرلیا کریں۔ اور اپنی ساس کو بتا دیجئے کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ روزانہ، یہ عمر بھر کے لئے ہے، جو نماز کے بعد والا وظیفہ ہے وہ بھی عمر بھر کے لئے جاری رہے گا اور دس منٹ کے لئے زبان بند کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے یہ تصور کرنا کہ میرا دل ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کررہا ہے۔ یہ ان کو بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ درست کہہ رہے ہیں، مگر در اصل بات یہ ہے کہ سوالات اتنے زیادہ ہیں اور آپس میں باہم مربوط ہیں کہ میں تفصیلی طور پر ان کے بارے میں مشورہ چاہتی ہوں، ورنہ لکھ کر کافی طویل ہوجائیں گے۔ اس لئے برائے مہربانی مجھے فون پر وقت دے دیں۔
جواب:
اصل میں ہمارے پاس لا محدود وقت نہیں ہوتا، کئی سارے کام چل رہے ہوتے ہیں، اس وجہ سے آپ پہلے یہ بتا دیجئے کہ سوالات کس قسم کے ہیں، اس کا ایک خاکہ آپ مجھے بھیج دیجئے گا۔ اگر اس میں میرے کچھ کرنے کا کام ہوا، تو پھر میں آپ کو موقع دے دوں گا، ورنہ عین ممکن ہے کہ جس میں آپ مجھ سے رہنمائی چاہتی ہوں، وہ کام ہی کسی اور کا ہو۔ اس وجہ سے میں پوچھ رہا ہوں کہ سوالات آپ کے کون سے ہیں۔ لہٰذا آپ اس طرح کرلیں کہ پہلے ان سوالات کا خاکہ جو بھی آپ کے ذہن میں ہے، جن کے متعلق آپ پوچھنا چاہتی ہیں، وہ مجھے لکھ کر بھیجیں، تاکہ پھر میں آپ کو ان کے بارے میں کچھ عرض کرسکوں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت صاحب! مجھے مندرجہ ذیل ذکر کرتے ہوئے تیس دن ہوگئے ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ تین سو مرتبہ۔ مسنون تسبیحات میں چند ناغے ہوگئے ہیں، برائے مہربانی آگے ارشاد کا فرمائیں۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ’’اَللہ‘‘ پانچ سو مرتبہ شروع کرلیجئے اور تسبیحات میں ناغے نہ کیا کریں، اس میں بہت نقصان ہوتا ہے۔ اگرچہ تسبیحات ثوابی ذکر ہیں، لیکن ثوابی ذکر کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئے، کیونکہ یہ ہمارے لئے بہت بڑی کمائی ہے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں آپ سے ذکر نہیں لیتی تھی، تو بھی شاید مجھے ذکر محسوس ہوتا تھا، لیکن مجھے پتا نہیں ہوتا تھا کہ یہ ذکر ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ میرے اندر کوئی جن ہے، کیونکہ عاملوں کے پاس جاتی تھی۔ اس وقت میں صرف نماز کے بعد کا ذکر کرتی تھی، اس وقت یہ کیسے ہوتا تھا؟ اور اس automatic ذکر کا ہمیں ثواب کیا ملتا تھا؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے آپ ﷺ سے محبت نہیں ہے، اللہ مجھے معاف کرے۔ آپ کی بات پر عمل کرنے کو میرا دل کرتا ہے، کیونکہ اللہ کو یہ پسند ہے اور اپنے لئے بھی اس میں خیر سمجھتی ہوں۔
جواب:
یہ کہنا کہ مجھے آپ ﷺ کی محبت محسوس نہیں ہوتی، یہ بھی محبت ہی کی وجہ سے ہے، ورنہ اگر آپ کو محبت نہیں، تو پھر اس کی فکر کیوں ہوتی۔ محبت کے رنگ مختلف ہیں۔ البتہ یہ ہے کہ آپ درود شریف کثرت سے پڑھ لیا کریں، تاکہ اس کا ظہور ہوجائے۔ اور باقی یہ ہے کہ جو ذکر میں بتاؤں، وہ آپ اسی طریقہ سے کرلیا کریں جس طریقہ سے میں نے کہا ہے۔ اس سے پہلے کیا ہوتا ہے، اس کو آپ بھول جائیں، کیونکہ یہ ساری چیزیں آپس میں interrelated ہیں اور اس کے ذریعہ سے ان شاء اللہ آپ کا کام آگے چلے گا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
Respected and honourable مرشد صاحب I pray that you and your loved ones are well. Ameen! اَلْحَمْدُ للہ I have completed the current thirty days ذکر without miss which is two hundred times ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’, three hundred times ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو’’, three hundred times, حق and اللہ five hundred times. Five minutes ذکر on heart with مراقبہ. I also on your instructions have been attempting to listen to my heart saying Allah Allah throughout the day at random times but I don’t do this for a set time. I have been doing less compared to last update.
Regarding مراقبہ, I have heard nothing but many a times, I get feelings internally that Allah سبحانہ و تعالیٰ is emanating from the heart and sometimes I feel blankness. I don’t hear a feel of anything just my brain is focused on heart and sometimes غیر اللہ thoughts spring up. جزاک اللہ خیراً
جواب:
اصل میں قلب اس کو ہی کہتے ہیں، جو ہر وقت تبدیل ہونے والا ہو، اس وجہ سے اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو ایک چیز پر جمانے کے لئے کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اور طریقہ اس کا یہی ہے کہ بار بار جس چیز کا ذکر کیا جائے، تو وہ دل میں بیٹھ جاتی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز آہستہ آہستہ یہ چیزیں develop ہوتی جائیں گی۔ ابھی فی الحال دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کرلیا کریں اور پانچ منٹ دل کے اوپر ذکر آپ باقاعدہ کرلیا کریں، باقی جو بے قاعدہ آپ بتا رہے ہیں، وہ بھی بے شک آپ جاری رکھیں۔
سوال نمبر 6:
سیدی ومرشدی ومولائی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید اور دعا ہے کہ حضرت اقدس خیریت اور عافیت سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ حضرت کا سایہ ہم پر قائم رکھے اور مجھے حضرت سے اپنی مکمل اصلاح کروانا نصیب فرمائے۔
ستمبر کے آخر میں حضرت کو لکھنے کے لئے message کھولا، تو دوبارہ آڈیو message سننے پر حیران ہوا کہ مجھ سے ذکر کے عدد میں غلطی ہوگئی تھی، ’’حَقْ‘‘ کا ورد تین سو کے بجائے میں دو سو مرتبہ کررہا تھا، غلطی درست کر کے پھر شروع کیا۔ الحمد للہ! تب سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ذکر کی تسبیحات کا روزانہ معمول رہا ہے، کبھی رہ جائے تو دوسرے دن صبح شام ادا کر کے تلافی کرلیتا ہوں۔ البتہ ستمبر میں تین دن لگاتار ایسے گزرے کہ ذکر نہ کرسکا۔ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، تین سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، تین سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ یومیہ تسبیحات کو اکثر مکمل کرلیتا ہوں، لیکن کبھی weekend کو رہ جاتی ہیں۔ اہلیہ اپنی یومیہ تسبیحات مکمل کرتی ہے، لیکن مراقبہ کئی دن نہیں کرسکیں، اہلیہ کا مراقبہ دس منٹ کا (یہ ہے کہ) دل میں (ایک) زبان بن گئی ہے، جو ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کررہی ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘ کا ذکر باقاعدگی کے ساتھ روزانہ اور نماز کے بعد والا ذکر اور تین تسبیحات؛ یہ آپ جاری رکھیں اور کوشش کرلیں کہ کوئی ناغہ نہ ہو اور اپنے وقت پر ذکر ہو، کیونکہ ناغے سے نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے، اس میں consistency اور continuity بہت زیادہ اہم ہے۔ اس وجہ سے کوشش کرلیں کہ درمیان میں ناغہ نہ ہو۔ اور اہلیہ کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کہ کیا ان کو ’’اَللہ، اَللہ‘‘ دل سے ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا نہیں؟ تاکہ اس کے بارے میں کچھ عرض کرسکوں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ جناب محترم شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ خیریت والی زندگی عطا فرمائے، آمین۔ حضرت والا! آپ صاحب کا بتایا ہوا ذکر یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ دو ہزار مرتبہ۔ الحمد للہ! 26 اکتوبر کو مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ آگے حضرت جو آپ کا حکم ہو، ارشاد ہو۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
ابھی آپ ما شاء اللہ! دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ دو ہزار پانچ سو مرتبہ شروع فرما لیں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ العزیز آگے صحیح طور پہ چلنے کی توفیق آپ کو مل جائے گی۔
سوال نمبر 8:
محترم و مکرم مرشد پاک! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اپنی معاشرت کے اخلاقی برتاؤ میں اصلاح اور رہنمائی درکار ہے۔ مہمان کی خدمت کرنے کو ہمیشہ اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھا ہے، البتہ حال میں ایک مہمان جو ابتدا میں دوسرے ملک سے اعلیٰ تعلیم کے لئے آئے تھے اور میرے دور کے رشتہ داروں میں بھانجے لگتے ہیں، تین ہفتوں کے لئے تشریف لائے۔ الحمد للہ! ہر قسم کی راحت اور آرام فراہم کرنے کی کوشش کی اور الحمد للہ! نمازوں کی دعوت بھی دی، جس سے الحمد للہ! وہ پانچ وقت کی نماز باجماعت پڑھنے لگے۔ مجھ سے عمر میں کافی چھوٹا ہے۔ میں نے کافی بے تکلفی کے ساتھ تعلق رکھا، تاکہ دین کی باتیں زیادہ اثر کریں۔ ان شاء اللہ ان کے مزاج میں کافی تبدیلی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تین ہفتے سے تین مہینے ہوگئے اور کوئی معلوم نہیں کہ ان کا آگے کا ارادہ کیا ہے۔ ان کے والدین اپنے ملک میں کافی hi-fi قسم کے حضرات ہیں، اس لحاظ سے پیسے کی کمی ان کو ہے نہیں اور دوسرے رشتہ دار جو ان کے قریبی لگتے ہیں، وہ بھی اس ملک میں ہیں۔ میرے والدین بوڑھے اور بیمار ہیں اور یہ لڑکا بہت سست ہے۔ پورا دن سوتا ہے اور رات میں Video game کھیلتا ہے، اب تک میں بہت نرمی سے پیش آیا، لیکن کچھ دن قبل کچھ اصولی باتیں ان کو سمجھا دیں۔ مثلاً: بیت الخلاء میں چپل پہن کر جانا، جو چیز استعمال کرنا واپس دوسری جگہ رکھنا وغیرہ۔ جب تین ہفتوں سے تین مہینے ہوئے، تو میں نے دریافت کیا کہ آگے کیا ارادے ہے؟ مختلف بہانے سے بات کو گول کرنا چاہا، لیکن مجھے غصہ آگیا اور میں نے کہا کہ تم میرے چھوٹے بھائی جیسے ہو، ایک بات سن لو، آئندہ بھی ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔ تم مجھے صوفی ماموں کہتے ہو، لیکن مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے بات کا غلط جواب دیتے ہو، لیکن Face saving کے لئے پہلے میں نے آپ سے تنبیہ میں احتیاط کی تھی۔
جب ذکر یا درود شریف کے لئے بیٹھتا ہوں، تو کبھی ساتھ بٹھاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جب پندرہ منٹ تمہارے ہوجائیں تو تم جاسکتے ہو۔ اور میں اپنا باقی ذکر پورا کرلیتا ہوں۔
حضرت! بات مختصر یہ ہے کہ میرا برتاؤ بد اخلاقی ہے؟ اور کیا مجھے اور نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے یا کیا صبر کرنا چاہئے؟
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ اصولی بات تو انسان اصولی انداز میں کہہ سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عذر کہ آپ کا اپنا گھر نہیں ہے، آپ کے والدین کا گھر ہے اور والدین خود خدمت کے محتاج ہیں، لہٰذا آپ ان سے آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ آپ مہمان ہیں، لہٰذا آپ تشریف لایا کریں، جتنی مہمانی ہم سے ہوسکے گی، ہم کریں گے، لیکن اپنے لئے مستقل کوئی بندوبست آپ کرلیجئے گا، کیونکہ والدین بوڑھے ہیں۔ لہٰذا اس طرح آپ کو بھی راحت ہوگی اور ہمیں بھی راحت ہوگی۔ اس طریقہ سے آپ صحیح انداز میں بات کرلیں، یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، کیونکہ اصول پر عمل دونوں طرف سے ہونا چاہئے۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ احدیت پندرہ منٹ۔ نیک اعمال کی طرف رغبت بڑھ گئی اور نماز کی پابندی بھی نصیب ہوگئی ہے، الحمد للہ۔
جواب:
بہت اچھا۔ اب مراقبۂ احدیت کے بجائے ان کو مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ کا طریقہ کار آپ بتا دیں پندرہ منٹ کے لئے۔ اور باقی چیزیں یہی ہوں گی، ان شاء اللہ۔
نمبر 2: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ صفات سلبیہ پندرہ منٹ۔ ابھی کچھ محسوس نہیں ہوا۔
جواب:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اگر وہ محسوس کررہی ہیں، تو مراقبہ صفاتِ سلبیہ اچھی طرح سمجھا دیں کہ وہ ہے کیا، شاید اس کو صحیح طور سے سمجھا نہیں، اس لئے اس کو کچھ محسوس نہیں ہورہا۔ یہ اصل میں تنزیہ کے لئے ہے، تنزیہ کا مفہوم اس کو بتا دیجئے گا۔
نمبر 3: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
تمام لطائف پر دس منٹ کا ذکر بھی ان سے پوچھ لیا کریں۔ اگر وہ مستقل ہورہا ہے تو پھر ٹھیک ہے، پھر مراقبہ صفات ثبوتیہ کا مطلب سمجھا دیں کہ مراقبہ صفات ثبوتیہ کیا ہے اور اس کا کیا کیا اثر ہوتا ہے اور آپ نے اس کو کیسے کرنا ہے۔ یہ ان کو بتا دیں۔
نمبر 4: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے الحمد للہ۔
جواب: اب اس کو لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ اور لطیفۂ سر پندرہ منٹ دے دیجئے گا۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم
My dear and respected مرشد دامت برکاتھم I hope you are well ان شاء اللہ یا سیدی دامت برکاتھم all اذکار completed for this month without any ناغہ الحمد للہ
کبھی تھوڑی دیر بھی ہوگئی اذکار پورا کرنے میں، لیکن ناغہ نہیں ہوا۔ ذکر کی ترتیب یہ ہے کہ دو، چار، چھ اور ساڑھے تین ہزار۔ بنوری لطائف دس منٹ لطیفہ قلب روح سر خفی اور لطیفہ اخفیٰ کا۔
I am able to sense Allah Allah from all sensing points. I can also feel myself gently rocking backwards and forwards during مراقبہ. This sensation is also present even when I am just sitting and not doing مراقبہ. Fifteen minutes مراقبہ معیت
مراقبہ معیت کے دوران کوئی وزنی چیز دل اور سینے پہ برابر آرہی ہوتی ہے اور کبھی پسینہ بھی آنے لگ جاتا ہے، میں اللہ کے خیال میں اتنا چلا جاتا ہوں کہ اور چیزیں بھولنا شروع ہوجاتی ہیں جب کبھی دن میں اپنی آنکھیں بند کرلوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ میرے ماتھے سے کوئی چیز جارہی ہے
جواب:
مراقبہ معیت کے ساتھ اب آپ امت کے لئے دعا کرنا شروع کرلیں، دل دل میں، زبان سے نہیں، دل دل میں دعا کرنا شروع کرلیں امت کے لئے۔ آج کل امت پر جو مشکلات ہیں، اس سے اللہ تعالیٰ نکال دے۔ یہ دعا آپ شروع کرلیں۔ کیونکہ آپ کو خیال تو ہوگا کہ میں اللہ کے ساتھ ہوں، یعنی اللہ میرے ساتھ ہے، تو بس پھر آپ اللہ پاک سے مانگنا شروع کرلیں اور وہ بھی دل دل میں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔ امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے مجھ سے عیوب کی فہرست مانگی تھی، جس میں پہلے آپ نے بد نظری پر کام کرنے کو کہا تھا۔ الحمد للہ! ایک مہینہ پورا ہوگیا اور دل سے اسی فیصد بہتری آئی ہے کہ جب بھی غیر محرم پر نظر پڑجائے، تو میں منہ موڑ لیتا ہوں۔ اس پر مزید کام جاری ہے کہ جڑ سے ہی نکل جائے۔ خود کو کبھی محفوظ نہیں سمجھتا اس مسئلہ کے بارے میں، عیوب کی لسٹ آپ کے کہنے پر آپ کے Personal number پر بھیجی ہے۔
اس کے علاوہ ذکر یہ ہے: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، دو سو مرتبہ ’’اللہُ اللہ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور چار سو مرتبہ ’’حَقْ اَللہ‘‘۔ ’’حَقْ اَللہ‘‘ کے ذکر میں یکسوئی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پانچ منٹ ہر لطیفہ پر ’’اَللہ اَللہ‘‘ محسوس کرنا اور ہر نماز سے پہلے پانچ منٹ کے لئے یہ سوچنا کہ میں اللہ کا ہوں اور جس طرح اس کے سامنے کھڑا ہونا چاہئے، کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ نماز سے پہلے پانچ منٹ والے مراقبہ میں باقاعدگی نہیں ہے، تین سے چار ناغے ذکر میں بھی ہیں۔ تہجد اور اوابین کے علاوہ اور باقی معمولات میں بھی باقاعدگی نہیں ہے۔ ایک فجر کی نماز بھی قضا ہوئی ہے۔
جواب:
فجر کی نماز کی قضا کے لئے تو تین روزے رکھ لیں۔ اور باقی یہ ہے کہ آئندہ نیت کرلیں کہ کوئی ناغہ آپ کا نہیں ہوگا، کیونکہ ناغہ سے انسان بہت پیچھے ہوجاتا ہے۔ ذکر آپ یہی رکھیں۔ اور جو بد نظری والا عیب ہے، اس پہ آپ اپنا کام جاری رکھیں اور کوشش کرلیں کہ سو فیصد کامیابی ہوجائے، ان شاء اللہ ایک مہینے کے بعد مجھے بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں اللہ پاک سے آپ کی صحت اور تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ حضرت جی! میرا ذکر مکمل ہوگیا ہے، دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللہ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’اَللہُ اَللہ‘‘، تین سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ کا ذکر ہے۔ ذکر کے دوران کیفیات کچھ بھی نہیں ہیں۔
حضرت جی! میرے اندر اسراف اور فضول خرچی کا مرض ہے، بلا ضرورت چیزوں پر خرچ کرلیتا ہوں اور بعد میں تنگ ہوتا ہوں، قناعت کی خوبی میں اپنے اندر نہیں پاتا، جس کی وجہ سے مالی معاملات میں تنگدستی رہتی ہے، مالی مشکلات کی وجہ سے ہر ماہ پنڈی خانقاہ میں حاضر ہونا مشکل ہوتا ہے، اس لئے ساتھیوں کے ساتھ خانقاہ آنے جانے کی ترتیب بنتی ہے۔ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ صرف ’’اَللہ‘‘ کا ذکر پانچ سو مرتبہ کرلیں، باقی یہی رکھیں۔
باقی یہ ہے کہ یہ جو اسراف اور فضول خرچی ہے، یہ انسان کی اختیاری چیز ہے، غیر اختیاری چیز نہیں ہے۔ لہٰذا اختیاری طور پر اس کو control بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ کرلیں کہ آپ پورے مہینے کا اپنا بجٹ بنا لیں، جو آپ کے Fixed charges ہیں، وہ آپ اس کے اوپر رکھیں، اس کے علاوہ جو بچیں، ان کی پھر ترتیب بنا لیں کہ اس دفعہ آپ نے اس میں سے کیا کیا کرنا ہے۔ پھر اس پر tick کرنا ہے۔ اور کچھ پیسے ذرا جو ہنگامی طور پر ضرورت کے لئے انسان رکھتا ہے کہ اگر ایسی کوئی بات آجائے تو اس وقت استعمال کرلیں گے، تو کچھ پیسے اس کے لئے رکھ لیں۔ مثال کے طور پر Ten percent اس کے لئے رکھ لیں۔ باقی بجٹ بنا لیں اور جو fixed چیزیں ہیں، ان کا علیحدہ خرچ ہو اور جو Subject to condition خرچ ہے، اس کے مطابق آپ بجٹ بنا لیں اور بجٹ کے مطابق چلیں، تو پھر ان شاء اللہ مسئلہ نہیں ہوگا، ورنہ اگر بجٹ کے مطابق نہیں چلیں گے، تو پھر یہی بات ہوتی ہے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم۔ حضرت جی! درود شریف
In the month of ربیع الاول, ten thousand درود شریف from me and family daily of three lacs in the whole month. ان شاء اللہ
جواب:
سبحان اللہ!
سوال نمبر 14:
:ذکر
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ two hundred, ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو’’ four hundred, حق six hundred اللہ hundred. Ten minutes مراقبہ on قلب، روح، سر، خفی and اخفی and fifteen minutes مراقبہ احدیت on قلب done for one month اَلْحَمْدُ للہ. Now waiting for your instructions.
جواب:
ذکر تو آپ کا یہی جاری رہے، باقی جو آپ کا مراقبۂ احدیت ہے، وہ تبدیل کرلیتے ہیں مراقبہ تجلیات افعالیہ کے ساتھ۔ مراقبہ تجلیات افعالیہ میں یہ ہوتا ہے کہ یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ سارے کام اللہ کرتا ہے، ہر کام اللہ ہی کرتا ہے، تو اس کا جو فیض ہے یعنی تجلیات افعالیہ کا جو فیض ہے، وہ آپ ﷺ کے پاس آرہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور آپ ﷺ سے آپ کے شیخ کی طرف آرہا ہے اور آپ کے شیخ سے آپ کے قلب پر آرہا ہے۔ اس کا مراقبہ شروع فرما لیں۔ اور باقی یہ ہے کہ درود شریف کی الحمد للہ! اللہ پاک نے آپ کو توفیق عطا فرمائی کہ اس کی عادت ہوگئی ہے، تو اس عادت کو جاری رکھیں، یہ بڑی قیمتی عادت ہے۔ اور ہمارا اور باقی لوگوں کا اسی بات میں فرق ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم کسی خاص مہینے کو درود شریف کے لئے خاص نہیں سمجھتے، ہاں! خاص مہینے میں درود شریف کی توفیق ہوجانا؛ یہ بھی اللہ کا فضل ہے، لیکن پھر اس کو خاص مہینے تک نہیں رکھتے، بلکہ اس کو بعد میں بھی continue کرتے ہیں، کیونکہ درود شریف کا عام حکم قرآن پاک میں آیا ہے، لہٰذا آپ بھی درود شریف عام طور پر ہی پڑھیں۔ اللہ پاک آپ کو اور ہم سب کو کثرت سے درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ میں اکثر کوشش کرتی ہوں کہ آپ کے بیانات اور سوال و جواب کا سیشن سن لوں، ٹائم کی کمی کی وجہ سے میں ساتھ میں قرآن پڑھتی رہتی ہوں یا تسبیحات پڑھ لیتی ہوں، کیا یہ ٹھیک ہے؟ میرا ایک بیٹا ہے جو حافظ ہے، لیکن تھوڑا باغی ہوگیا ہے، اس کے لئے دعا بھی فرمائیں اور کوئی وظیفہ بھی بتا دیں۔ اللہ پاک آپ کو بہترین جزا نصیب فرما دے۔
جواب:
یہ جو آپ نے بات فرمائی ہے، اس میں میں یہ کہوں گا کہ دونوں کام اپنے اپنے طور پہ توجہ کے محتاج ہیں، یعنی اگر آپ بیان سنتی ہیں، تو بیان سے بھی آپ کو تبھی اس کا اصل فائدہ ہوگا کہ جب آپ اس کی طرف پوری توجہ کریں گی اور جو تسبیحات ہیں، وہ بھی آپ کو تبھی صحیح فائدہ پہنچائیں گی کہ جب آپ ان کو صحیح توجہ دے دیں۔ اس میں جو ثوابی تسبیحات ہیں، وہ تو پھر بھی کسی نہ کسی درجہ میں ثواب مل جاتا ہے، اگر زبان ہل رہی ہو، تو زبان ہلنے کا تو ثواب مل ہی جاتا ہے، لیکن اگر علاجی تسبیحات ہوں، تو معاملہ بہت زیادہ مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ علاجی تسبیحات میں علاج تب ہوتا ہے جب انسان full توجہ کے ساتھ ان کو کرے، ورنہ پھر علاج اس کا نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ ذرا اپنے ٹائم کو بہتر طریقہ سے manage کرلیں، تاکہ دونوں کو اپنا اپنا وقت آپ دے دیں۔
اور آپ کے بیٹے کے لئے میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد سے جلد سیدھے راستے پہ لے آئے۔ آپ نماز کے بعد تین مرتبہ یہ دعا مانگیں: ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الفاتحہ: 5) اس میں اپنے بیٹے کو ساتھ شامل کرلیا کریں، کیونکہ ہدایت کے ہم ہر وقت محتاج ہیں۔ لہٰذا صرف اس کے لئے ہم نہیں مانگیں گے، اپنے لئے بھی مانگیں گے، لیکن اس میں اس کو ساتھ شامل کرلیا کریں۔ ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحہ: 5-7) اللہ جل شانہٗ سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک بندہ کسی غلط عقیدہ بزرگ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، اس کو کوئی شخص شیخ کی محبت کے بارے میں یا شیخ کی اہمیت کے بارے میں چیزیں بھیجے، تو بڑا مسئلہ ہوجاتا ہے کہ ہماری طرف سے کچھ بھیجنے کی وجہ سے وہ اپنے غلط شیخ کے ساتھ اور پکا ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اس کو کیسے غلط عقیدہ لوگوں سے علیحدہ کیا جائے؟ اللہ پاک آپ سے، آپ کے گھر والوں سے اور آپ کے والدین سے راضی ہو۔
جواب:
بہت اچھا سوال ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ میں صحیح طور پہ اس کا جواب دے سکوں، ہے کافی مشکل کام۔ مجھے تو یہ بات بہت زیادہ مسئلہ کرتی ہے، کیونکہ میرے پاس جو مختلف لوگ آجاتے ہیں، تو بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو غلط عقیدے کے ہوتے ہیں یا غلط عقیدہ لوگوں سے بیعت ہوتے ہیں۔ اب اگر میں شیخ کی فضیلت بیان کرلوں کہ شیخ کی صحبت میں رہو اور اس کی ہر چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھو، تو یہ ان کو خراب کرنے والی بات ہوجائے گی اور اگر نہیں کہتا، تو دوسرے لوگوں کی محرومی ہوتی ہے، جو صحیح عقیدے والے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ تو اس کا طریقہ پھر یہ ہے کہ جو شریعت کی اہمیت ہے، وہ ساتھ ساتھ اچھی طرح سمجھائی جائے، کیونکہ اصل میں ہم تو شریعت پر چلنے کے لئے کسی شیخ کے پاس جاتے ہیں، شیخ کے پاس جانا مقصود نہیں ہے، یہ ذریعہ ہے۔ کس چیز کا ذریعہ ہے؟ ہدایت پر آنے کا ذریعہ ہے۔ اور ہدایت کون سی ہے؟ وہ شریعت پر چلنا ہے، دل و جان سے شریعت پر چلنا ہدایت ہے۔ اب جب یہ والی بات ہے تو شریعت کی اہمیت بعض لوگوں کے ذہنوں میں نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر جو غلط عقیدے والے لوگ ہوتے ہیں، سب سے پہلا کام ان کا یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دل دماغ سے وہ شریعت کی بات نکال لیتے ہیں اور اپنی اہمیت شریعت سے زیادہ کردیتے ہیں۔ اور پہچان ہی اصل میں یہی ہے صحیح اور غلط کی کہ آپ صحیح اور غلط میں اگر پہچان کرنا چاہیں، تو یہ ہوگا کہ جو صحیح لوگ ہوں گے، وہ اپنی طرف نہیں بلائیں گے، وہ شریعت کی طرف بلائیں گے، اللہ کی طرف بلائیں گے، آپ ﷺ کے طریقہ کی طرف بلائیں گے، وہ خود اپنی طرف نہیں بلائیں گے، ذریعہ کے طور پہ تو کریں گے، لیکن مقصدیت کے طور پہ نہیں کریں گے۔ اس وجہ سے شریعت کے بارے میں اگر آپ ان کا اچھی طرح ذہن بنا سکیں، تو پھر بعد میں ان کو کہیں گے کہ جہاں پہ بھی آپ بیٹھے ہوں، تو آپ دیکھیں کہ آیا آپ کو شریعت پر چلنے کی توفیق زیادہ ہورہی ہے یا آپ کو دنیا کی طرف ترجیح زیادہ بڑھ رہی ہے۔ پھر اس کے بعد شیخ کی جو نشانیاں ہیں، وہ ان کو مختلف انداز میں سمجھا دیں کہ صحیح شیخ کی نشانیاں کیا ہیں۔ میرے خیال میں اگر ہوشیار ہوگا تو کچھ نہ کچھ اندازہ تو اس کو ہو ہی جائے گا اور اگر اپنے آپ کو ٹھیک کرنا چاہے گا تو اس کے بارے میں کوشش بھی کرے گا۔ الحمد للہ! جو کوشش کرتے ہیں، تو اللہ پاک ان کو پھر راستہ دے ہی دیتے ہیں۔ اس طریقہ سے ان شاء اللہ العزیز فائدہ کی امید ہے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم۔ حضرت! اصلاحی ذکر سے دنیاوی پریشانی کم ہوجاتی ہے اور دل کو سکون ملتا ہے اور روزانہ ذکر کرنے سے پہلے سکون کی امید بھی ہوتی ہے۔ کیا میں اصلاحی ذکر کو غلط استعمال کررہا ہوں؟ اگر یہ سکون حاصل نہ ہو، تو شاید طبیعت ٹھیک نہ رہے۔ کبھی کبھار کچھ stable ہوتا ہوں، تو ذکر اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن کچھ سیکنڈ سے زیادہ توجہ نہیں رہتی۔
جواب:
دیکھیں! میں آپ کو ایک بات بتاؤں، ایک ہوتا ہے وسوسہ اور ایک ہوتا ہے انسان کا ارادہ۔ ارادہ اور وسوسے میں فرق کرنا چاہئے۔ وسوسے تو آتے رہیں گے، ان سے تو انسان کبھی بھی خالی نہیں ہوتا، لیکن وسوسے کا کوئی اعتبار نہیں کرنا چاہئے، اصل بات ارادہ کی ہے۔ لہٰذا آپ ارادہ کرلیا کریں کہ میں ذکر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے کرتا ہوں۔ اس کے بعد پھر وسوسے آتے رہیں، تو آتے رہیں، کیونکہ اگر آپ اس کو نہیں کرنا چاہتے، تو آپ کا ارادہ نہیں کرنے کا ہے۔ جب ارادہ نہیں کرنے کا ہے، تو وہ خود بخود آئے گا، تو وہ وسوسے ہوگا اور وسوسہ کی بس پروا نہیں کیا کریں۔ لہٰذا کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
سوال نمبر 18:
حضرت صاحب!
May Allah preserve you بارک اللہُ فیکم.
I am contacting to update my ورد I have been practising for almost two months and also about the سلوک first exercise being humble in my relationship. Actual ورد five hundred times ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’, fifteen hundred times ‘‘حَقْ اَللہ’’, fifteen hundred times ‘‘حَقْ’’, fifteen hundred times ‘‘اَللہْ’’, five hundred times ‘‘حَقْ ھُوْ’’ and five hundred times ‘‘ھُوْ’’. Fifteen minutes ‘‘اَللہْ’’ with respiration. May Allah preserve you.
فلاں from France
جواب:
Now you should do this but increase the time of Allah with respiration پاس انفاس to thirty minutes and the rest will be the same ان شاء اللہ.
سوال نمبر 19:
حضرت! یہ جو ضرب و جہر والا ذکر ہوتا ہے، اس سے تو انسان کے جسم پہ اثر پڑتا ہے اور اگر کوئی بیمار ہے تو اس سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، مثلاً اگر کوئی دل کا مریض ہے۔ لیکن کیا لطائف کے ذکر سے بھی دل کے جو مریض ہیں، ان کو کوئی نقصان ہوسکتا ہے؟
جواب:
جی اس وقت ہوسکتا ہے، جب ان کے لطائف Out of control ہونے لگیں۔ بعض لوگ Out of control ہوتے ہیں، جس کو اختلاجِ قلب کہتے ہیں یعنی palpitation، اس قسم کی صورت ہوجاتی ہے بعض دفعہ، تو ایسے لوگوں کو پھر یہ ذکر نہیں دینا ہوتا، پھر ہم ان کو اور طریقوں سے بتاتے ہیں، لیکن یہ ہے کہ اگر اس قسم کی بات نہ ہو، تو لطائف کے ذکر سے نقصان نہیں ہوتا۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تقریباً پورا جسم ما شاء اللہ! ذاکر ہوتا تھا، لیکن ان کو heart کا problem تھا، asthma کا problem تھا اور بہت سارے problem تھے، جس کی وجہ سے حضرت احتیاط کرتے تھے کہ کسی ذکر کی مجلس میں نہیں بیٹھتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی اور جو inspiring چیزیں ان سے ہوتی تھیں، اس کے باوجود بھی بعض دفعہ کسی اور وجہ سے ہوجاتا تھا تو اس کو control کرنے میں حضرت کو بڑی مشکل پیش آتی تھی۔ ایک دفعہ کسی کو ہمارے سامنے ذکر سکھا رہے تھے، ’’اَللہ، اَللہ‘‘ یعنی اسمِ ذات والا ذکر سکھا رہے تھے، تو تھوڑا سا کہتے کہ ’’اَللہ، اَللہ، اَللہ‘‘، بس پھر Out of control ہوگئے، پھر بہت مشکل سے جیسے انسان گھوڑے کی تنابیں کھینچتے ہیں، اس طرح بڑی مشکل سے روک کے کہا کہ بھائی! اس طرح نہیں، یہ ویسے ہوگیا تھا۔ تو بعض کا ایسے ہوجاتا ہے، اس سے پھر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
سوال نمبر 20:
نقشبندی سلسلہ میں جو مجاہدات والی بات ہے کہ اس میں مسنون مجاہدات ہوتے ہیں، تو اس کی تھوڑی سی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
مسنون مجاہدات سے مراد شریعت پر چلنے میں جو مشکلات ہیں، ان کو برداشت کرنا، یہ مسنون مجاہدات ہیں۔ مثلاً دیکھیں! ہر حالت میں نماز پڑھنا، ہر موسم کے اندر اس میں کمی نہ آنے دینا، سفر و حضر میں اس کو برقرار رکھنا اور وضو اچھے طریقہ سے کرنا۔ اسی طریقہ سے روزہ کے بارے میں کہ ایک روزہ ہوتا ہے کہ صرف کھانا پینا بند کرنا اور ایک یہ کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ میری زبان سے کوئی جھوٹ نہ نکلے، نظر غلط استعمال نہ ہو، کسی غلط چیز کا تذکرہ نہ ہو۔ اگر آپ ان چیزوں کا خیال رکھیں گے، تو یہ عزیمت ہے۔ باقی حضرات جو دوسری لائن پہ مجاہدات کرلیتے ہیں، تو وہ باقی چیزوں میں رخصت پر بھی عمل کرتے ہیں۔ نقشبندی حضرات ان چیزوں میں عزیمت پر عمل کرتے ہیں، رخصت اپنے لئے نہیں رکھتے۔ لہٰذا اگر نقشبندی ہو کر مجاہدات بھی نہ کریں اور عزیمت پر بھی عمل نہ کریں، تو پھر خالی خولی رہ گئے، یعنی کچھ بھی نہیں ملا، تو ایک طرف تو کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر 21:
حضرت! ایک تو یہ ہے کہ جو فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے آپ ﷺ کے قلب پر اور پھر شیخ کے قلب پر آتا ہے، تو اس کے بعد direct یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مرید کے قلب پر فیض آتا ہے یا دوسرے لطائف پر، تو درمیان سے سلسلے کے اور لوگوں کو کیوں نکال دیا؟
جواب:
جی بالکل، اصل تو یہی بات ہے، لیکن اصل میں بات یہ ہے کہ اگر ہم سب بتا دیں، تو نہ تو تمام مشائخ لوگوں کو یاد ہوتے ہیں اور وہ چیز اتنی پھیل جائے گی کہ اصل چیز ذہن سے نکل جائے گی اور یہ بات رہ جائے گی۔ اس وجہ سے جس کو Noodle points کہتے ہیں، وہ ان کو بتاتے ہیں، تاکہ ان کو اصل مل جائے اور وہ تفصیلات میں نہ جائیں۔ اللہ جل شانہٗ تو عطا فرمانے والے ہیں، یہ sure بات ہے اور آپ ﷺ تقسیم فرمانے والے ہیں۔ حدیث میں ہے:
’’اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰهُ یُعْطِیْ‘‘۔ (مشکٰوۃ: 200)
ترجمہ: ’’میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ دیتا ہے‘‘۔
پھر اس کے بعد جو شیخ ہوتا ہے، وہ مرید کے لئے اس تقسیم میں اپنا حصہ لینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، تو شیخ کی طرف آتا ہے۔ اور پھر شیخ سے مرید کی طرف۔
سوال نمبر 22:
1: گھر میں چھوٹے بچے ہیں، ان کو اگر ان کی سمجھ کے مطابق سیرت تھوڑی تھوڑی سنائی جائے یا پڑھائی جائے، تو کیسا ہے؟
جواب:
ٹھیک ہے، بلکہ ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو آپ ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام کے اعمال ان کی سمجھ کے مطابق کبھی کہانیوں کے انداز میں، کہیں سوال و جواب کے انداز میں، عرض مختلف طریقوں سے ان کو سمجھائے جائیں، تو یہ بہت زیادہ مفید ہوتا ہے، یہ ان کے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔
2: ہم نے ابھی گھر میں شروع کیا ہے، رات کو سونے سے پہلے بچوں کو بیٹھا کے ابتدا سے آپ ﷺ کی پیدائش سے تھوڑا تھوڑا دس دس منٹ کا روزانہ اور دن کو سارا دن ان سے مذاکرہ رہتا ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کرلیں کہ جو آپ ان کو بتایا کریں، تو اس کو ریکارڈ بھی کرلیا کریں، ریکارڈ کر کے پھر اس کو fair کر کے لکھ لیا کریں، ممکن ہے کہ بچوں کے لئے ایک اچھی چیز بن جائے، ان شاء اللہ۔
3: دن کو ترتیب یہ بنائی ہے کہ سارے گھر والے جو بڑے ہوتے ہیں، وہ اس پہ نوٹس لکھ لیتے ہیں، پھر دن میں مذاکرہ رہتا ہے کہ مثلاً: ابراہیم علیہ السلام کے کتنے بیٹے تھے؟ وہ بچے پیچھے پھرتے رہتے ہیں اور ساتھ بتاتے ہیں۔ آگے ان کے کتنے بیٹے تھے؟ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کون سے شہر میں پیدا ہوئے تھے؟ آپ ﷺ کی پیدائش کے وقت کیا ہوا؟ یعنی جو رات کو سنتے ہیں، وہ دن کو سارا دن گھومتے پھرتے ان کے ساتھ مذاکرہ ہوتا ہے۔ اس طرح بچوں کو چیزیں یاد ہوجاتی ہیں۔
جواب:
یاد بھی ہوجاتی ہیں اور ان کو ما شاء اللہ! دلچسپی بھی ہوتی ہے۔
4: بہت دلچسپی ہوجاتی ہے اور ساتھ ایک سبق آموز کہانی بھی کسی کوے کی شکل میں یا پھر اس کہانی سے ہمیں کیا سبق ملا اور کیا کرنا چاہئے۔ وہ کہانی بھی بچوں کو ما شاء اللہ! یاد ہوجاتی تھی۔ تو کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟
جواب:
جی، بالکل ٹھیک ہے۔ آپ اس طرح کرلیں کہ اس کو بس ریکارڈ کرلیا کریں اور پھر بعد میں اس کو لکھ لیا کریں۔
5: ہم نے یہ سوچا ہے کہ ابھی فی الحال بچوں کو سناتے ہیں، بچوں کو جب چیزیں یاد ہوجائیں گی، تو پھر بچوں کی زبانی ہی ریکارڈ کریں گے، ان بچوں سے سنیں گے، تو اس کو پانچ پانچ منٹ ریکارڈنگ کر کے اور بچوں کو سنائیں گے۔
جواب:
نہیں، یہ تو ان کے فائدے کے لئے تو ہے۔ اصل میں میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان کی کاوش ہے، تو وہ کاوش رائیگاں تو نہیں جانی چاہئے۔ ہماری کتاب جو تصوف کا خلاصہ ہے، وہ اس کا بہترین نمونہ ہے کہ یہ ایک بچے کے سوالات کے جوابات ہیں۔ ابتدا میں ایسا ہی ہوا تھا، بعد میں ذرا اس میں اور بھی شامل کئے گئے، لیکن ابتدا میں یہی تھا کہ جو محمد تھا، وہ چوتھی جماعت میں تھا، وہ سوالات کرتا تھا تو میں پھر اس کو جوابات دیتا تھا۔ پھر میں نے سمجھا کہ یہ تو لکھنے کی چیز ہے، پھر میں نے لکھنا شروع کیا، لکھ کر پھر میں نے مولانا مفتی طورو صاحب کے پاس بھیج دیا، میں نے کہا کہ اگر یہ کوئی کام کی چیز ہو، تو آپ بتا دیں کہ اس کو کتاب کی شکل دی جائے۔ انہوں نے مجھے لکھ کے بھیجا کہ اس موضوع پر میں نے اس سے بہتر چیز اور کہیں نہیں پڑھی، لہٰذا آپ اس کو مکمل کریں اور میرے بھی بیس سوالوں کے جوابات اس میں لکھ دیں۔ بیس سوالات انہوں نے بھیجے تھے، ان کے جوابات بھی اس میں شامل ہوگئے۔ تو ابتدا میں ایک چھوٹا سا رسالہ بن گیا۔ وہ رسالہ ہمارے چھاپنے کی position میں نہیں تھا، پھر میں نے یہ کیا کہ میں نے اپنے دفتر کے ایک ساتھی کو کہا کہ تم سوال کرلیا کرو اور میں جواب دوں گا، اور ریکارڈنگ کرلی۔ وہ ریکارڈنگ پہلے چلتی تھی، کافی عرصہ وہ ریکارڈنگ چلتی رہی، اس کے بعد پھر اس ریکارڈنگ کو ہم نے چونکہ لکھا ہوا تھا، اس لئے اس کو پھر ہم نے ذرا set کر کے اس کو چھاپا، پھر اس کے بعد دوسرا ایڈیشن پھر تیسرا ایڈیشن، اس طریقہ سے الحمد للہ! میرے خیال میں ہماری ساری کتابوں میں موثر ترین کتاب اگر کوئی لی جائے، تو شاید یہی کتاب ہے، جس سے بہت سارے لوگوں کو فائدہ ہوا، بڑے بڑے لوگوں کو فائدہ ہوا، یعنی صرف بچوں کو ہی نہیں، بڑے بڑے لوگوں کو فائدہ ہوا۔ ما شاء اللہ! وہ خود کہتے ہیں۔ پس اس طرح آپ حضرات جو کوشش فرما رہے ہیں، ان کوششوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ اس سے اور لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا، ان شاء اللہ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ اس طرح لوگ محنتیں کریں، بچوں کے اوپر بھی اور خواتین کے لئے بھی، یہ دو areas بہت اہم ہیں نوجوانوں کے لئے۔ تو نوجوانوں کو بچپن سے feed کیا جائے، اس وقت ان کی توجہ بھی زیادہ ہوتی ہے اور capability بھی زیادہ ہوتی ہے یعنی صلاحیت ان کی سمجھنے کی بہت ہوتی ہے، میدان خالی ہوتا ہے، لہٰذا اس وقت سے اگر کام شروع کیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 23:
حضرت! یہ بات ہورہی تھی مسنون مجاہدہ کی۔ ذکر سے انسان کے اندر قوتِ ارادی بڑھتی ہے، اگر اسی پہ بہت زیادہ محنت کی جائے، تو کیا کافی نہیں؟
جواب:
ذکر سے للّہیت بڑھتی ہے، کام تو بے شک آپ جو بھی کریں، لیکن وہ خاص اللہ کے لئے ہوجائے۔ ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری: 1) یہ ذکر کی برکت ہے. کیونکہ قوتِ عازمہ دل میں ہوتی ہے اور ذکر سے دل کی اصلاح ہوتی ہے۔ جب دل کی اصلاح ہوگی، تو آپ کی نیت صحیح ہوگی، کیوں کہ نیت قوت عازمہ کے مطابق ہوگی، تو ظاہر ہے کہ نیت صحیح ہوگی۔ جب نیت صحیح ہوگی، تو بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی صحیح کام کرنا چاہتا ہے، لیکن نفس نہیں مانتا، تو اس کی نیت تو صحیح ہے، لیکن نفس اس کا ساتھ نہیں دے رہا، تو اس کے لئے پھر سلوک طے کرنا ہوتا ہے، جو میں نے آپ کو بتایا۔ اس کے لئے پھر سلوک طے کرنا ہوتا ہے تاکہ نفس بھی ساتھ دے دے۔ لیکن start میں دل چاہتا ہے کہ صحیح کام کرے، لیکن دل کے راستے تو نفس سے گزرتے ہیں، تو نفس اگر ساتھ نہ دے تو کیا کرسکتے ہیں؟ جیسے بادشاہ بہت اچھا ہو اور رعایا باغی ہو، تو کیا کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے سلوک طے کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بہرحال یہ ہے کہ ابتدا چوں کہ آپ دل سے کررہے ہیں، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ جب ذکر کرتے ہیں، تو اس سے للّہیت پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالی کا استحضار پیدا ہوتا ہے، اللہ کے ساتھ محبت پیدا ہوتی ہے۔
سوال نمبر 24:
حضرت! ویسے جن کے اندر قوتِ ارادی ہوتی ہے، (نہیں، قوت عازمہ) تو ان کے لئے شریعت پہ چلنا زیادہ آسان ہوتا ہوگا؟
جواب:
اگر نفس ساتھ دے تو۔ (سائل: اس کے باوجود بھی؟) ظاہر ہے، کیوں کہ راستہ تو وہی ہے۔ (سائل: یعنی نفس بھی polish ہو۔) جی، نفس فرمانبردار ہوجائے۔ دیکھو! دل بیدار ہوجائے، نفس تابعدار ہوجائے، عقل سمجھدار ہوجائے۔ بس یہ تین کام ہیں۔ جب یہ تین کام ہوجائیں، تو آدمی سبحان اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔
سوال نمبر 25:
حضرت! ایک سوال اس میں ہوا تھا کہ جب بیان سن رہے ہوں تو ذکر نہ کیا جائے، کیونکہ توجہ دو طرف نہیں ہوسکتی، تو قلبی ذکر کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اصل بات میں عرض کرتا ہوں کہ شیخ کی صحبت میں اگر کوئی بیٹھا ہو، تو یہ اس کے لئے کہا تھا۔ شیخ کی صحبت میں اگر کوئی بیٹھا ہے، تو اس کے لئے بہترین راستہ شیخ کے قلب کی طرف متوجہ ہونا ہے، کیونکہ اس وقت اس کے لئے وہ دروازہ ہے، یعنی جو اللہ پاک اس کو دینا چاہتا ہے، وہ شیخ کے دل پہ اتارے گا، وہاں سے آپ کے پاس آئے گا، یعنی آپ کے دل کی طرف آئے گا۔ تو اگر اس قسم کا نظام اللہ نے بنا لیا ہے اور آپ اُدھر بیٹھ کر بھی اس کی طرف توجہ نہیں کررہے، تو آپ lose کررہے ہیں، chance miss کررہے ہیں۔ اس وجہ سے شیخ کی مجلس میں بیٹھ کر تمام باتوں کو چھوڑ دے، حتیٰ کہ لسانی ذکر بھی نہ کرے، تاکہ آپ کا قلب مکمل متوجہ ہو ان کے قلب کی طرف، تاکہ آپ کو جو اللہ دینا چاہتا ہے، اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ بس یہی بات ہے۔
سوال نمبر 26:
حضرت! یہ جو چالیس دن کا بنیادی ذکر ہے عوام الناس کے لئے، اگر ان کو کوئی بھی مسئلہ ہے، تو کیا دے دیا جائے، جس طرح عامل لوگ دیتے ہیں؟
جواب:
start میں ہم نے سب کو اجازت دی ہے، لیکن ساتھ یہ بتایا ہے کہ چالیس دن پورا ہونے کے بعد رابطہ ہمارے ساتھ کرے، دینے والے کے ساتھ نہیں، کیونکہ پھر تو وہ شیخ بن جائے گا۔ سمجھ میں آگئی بات؟ اس لئے آگے ذمہ داری دینے کے لئے تو شیخ ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا چالیس دن کا ذکر ہر ایک دے سکتا ہے، لیکن اس کے بعد جب پورا ہوجائے، تو رابطہ کس کے ساتھ کرے گا؟ شیخ کے ساتھ کرے، تاکہ وہ اس کو استعمال کرے۔
سوال نمبر 27:
حضرت! یہ جو چالیس کے بعد کا ہے، اکثر یہاں پہ اٹک جاتے ہیں۔
جواب:
میں آپ کو بتاؤں! چالیس کی کیا بات ہے، چالیس کے درمیان میں بھی بڑا مشکل ہوتا ہے۔ بعض ساتھیوں نے دو دو سال لگائے ہیں اس کو پورا کرنے میں، کیونکہ شیطان اس کے اتنا خلاف ہے، اتنی رکاوٹ ڈالتا ہے۔ بلکہ بعض لوگوں سے تو انتالیسویں دن ناغہ کروایا۔ لیکن اگر انسان باہمت ہو اور کہتا ہے کہ نہیں، میں نے کرنا ہے، تو پھر کسی نہ کسی طریقہ سے ہوجاتا ہے۔ جب ہوجاتا ہے پھر راستہ چلنا شروع کردیتا ہے۔
سوال نمبر 28:
حضرت! بالفرض اگر ایک آدمی کو چالیس دن کے بعد بھی شرح صدر نہ ہو کہ یہ کیا شیخ سے رابطہ ہے، تو کیا وہ سالہا سال لگاتار کرتا رہے؟
جواب:
وسوسے کے انداز میں ہوسکتا ہے۔ وسوسے کے انداز میں تو کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو اللہ کے بارے میں وسوسے نہیں آتے؟ آپ ﷺ کے بارے میں وسوسے آتے ہیں، صحابہ کے بارے میں وسوسے آتے ہیں، تو ان وسوسوں کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہئے، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب اس کو برا سمجھ رہا ہے، تو پھر تو وہ وسوسہ ہے۔
سوال نمبر 29:
حضرت! جو قوتِ عازمہ ہے، اگر نفس اور عقل کی اصلاح نہ ہو، تو یہ غلط کام پر بھی ہوسکتی ہے۔
جواب:
لوگ غلط استعمال کرتے بھی ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے۔ تو قوتِ عازمہ غلط چیز کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ (سائل: جیسے لوگ بدعت کرتے ہیں) تو قوتِ عازمہ اس کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ دیکھیں! ضروری تو نہیں کہ دل ٹھیک ہو۔ دل ٹھیک ہوتا ہے ذکر سے۔ میں نے اس کی مثال دی کہ جو ذکر کررہا ہے، اس کا دل ٹھیک ہوگیا، لیکن آگے جا کر رکاوٹ نفس کی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو باقاعدہ خواب کی تعبیر میں صراحتاً فرمایا تھا کہ مختصر راستے پہ چلے گئے دو ترک، تو آگے جا کر دیکھا کہ پہاڑ ہے، تو ترک اپنی استقامت کے جوش میں پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے، یہ بھی دھیرے دھیرے جارہے تھے، لیکن بالآخر یہ بھی اُدھر پہنچ گئے۔ حضرت نے اس کی تعبیر یہ دی کہ نقشبندی سلسلہ مختصر ہے یعنی عام routine پر نہیں ہے، جس کو طریقِ نامسلوک کہتے ہیں، وہ ایسا ہے۔ لیکن نفس کا مجاہدہ اس کو کرنا پڑے گا، یعنی نفس کو زیر کرنا پڑے گا۔ تو وہ پہاڑ ہے، اس پہاڑ کے اوپر تو چڑھنا پڑے گا۔ نفس کی اصلاح کے لئے جو مجاہدہ، کوشش اور ریاضتیں ہیں، وہ تو کرنی پڑیں گی۔ اور جو شخص دل کی اصلاح کرچکا ہے، اس کے لئے وہ آسان ہوجاتی ہیں، کیونکہ دل کی قوتِ عازمہ اس کا ساتھ دیتی ہے۔ صرف نفس کے لئے وہ کام کررہا ہے، جس کا دل بھی ٹھیک نہیں ہے اور نفس بھی باغی ہے، اس کے لئے تو ڈبل کام ہے، دل بھی نہیں چاہتا اور نفس بھی باغی ہے، تو پھر بہت مشکل ہوجائے گی۔
سوال نمبر 30:
حضرت! طریقِ نامسلوک کو بعض لوگوں نے حسرتِ نایافت کا عنوان دیا ہے، تو اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟
جواب:
نہیں، یہ اور چیز ہے اور طریقِ نامسلوک اور چیز ہے۔ طریقِ نامسلوک سے مراد یہ ہے کہ ہونا تو چاہئے تھا کہ جذب بعد میں ملتا سلوک طے کرنے کے بعد جو Usual routine ہے، لیکن اس کو کاپی کر کے گویا اس کو پہلے مرحلہ میں کرلیا جاتا ہے یعنی ابتدا میں، ذکر کے ذریعہ سے اور مراقبات کے ذریعہ سے، تاکہ اس میں اتنی استعداد پیدا ہوجائے کہ نفس کی مشقت برداشت کرسکے، یعنی جو نفس کی تربیت کی مشقت ہے، وہ برداشت کرسکے۔ تو طریقِ نامسلوک کہتے ہیں Actual routine سے کٹ کے ایک درمیانی راستہ پہ چل پڑے، جو انہوں نے نیا طریقہ دریافت کیا ہے، اس لئے اس کو طریقِ نامسلوک کہتے ہیں۔ یعنی چوں کہ سلوک اس میں ابھی طے نہیں ہوا، اس لئے اس کو طریقِ نامسلوک کہتے ہیں۔ باقی! جو نایافت ہے، وہ اصل میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے حضرت مجدد صاحب کے اسی خواب میں تھا کہ وہ جب وہاں پہنچ گیا اور جب خیمہ دیکھا، تو خیمہ میں بادشاہ نہیں تھا۔ فرمایا کہ وہ ہوتا بھی نہیں ہے، کیونکہ اللہ پاک کو تو کوئی نہیں دیکھ سکتا اور نہ کوئی اس کو پاسکتا ہے۔ تو یہ طریقِ نایافت ہے۔
سوال نمبر 31:
حضرت! بعض اوقات بعض لوگوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ شیخ کے ساتھ رابطہ اور ملاقات کا جی بھی چاہتا ہے اور ملاقات سے بندہ ساری بات بھی کرسکتا ہے اور فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن وہ نہ خط لکھ سکتا ہے، نہ message کرسکتا ہے، نہ فون کرسکتا ہے، بس ویسے ہی problem ہوتی ہے کہ ایک بندے سے یہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
دیکھیں! میں آپ کو بات بتاؤں، یہاں کئی لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ جس وقت ہم خانقاہ میں آنے کا ارادہ کرلیتے ہیں، تو اتنے سارے کام ہمیں یاد آجاتے ہیں اور کام پڑ جاتے ہیں۔ جب بار بار ہونے لگا تو ہم نے کہا کہ یہ تو شیطانی چکر ہے۔ پھر ہم نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے، خانقاہ میں گھستے نہیں ہیں، لیکن وہاں ہاتھ لگا کر واپس آجائیں گے، لیکن جانا ضرور ہے۔ کوئی بات نہیں، ٹھیک ہے ہمارا وقت ضائع ہوجائے، لیکن وہاں جا کر واپس آئیں گے۔ لیکن جب آتے ہیں تو پھر ٹھیک ہوجاتا ہے، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس کام میں جتنی رکاوٹ شیطان کی ہے، وہ تو ایسی ہے کہ باقی چیزوں کے لئے اتنی نہیں ہے، یعنی وہ آپ کو جہاد کے لئے چھوڑ دے گا، لیکن خانقاہ کے لئے نہیں چھوڑے گا۔
سوال نمبر 32:
حضرت! یہ اصلاح فرضِ عین ہے، لیکن اس کی طرف آتے ہوئے زندگیاں گزر جاتی ہیں۔ انسان کبھی اُس راستے پر جاتا ہے کہ علماء بتا رہے ہیں وہ وہ راستے ہیں۔ تو اِس راستے پہ پہنچتے ہوئے زندگیاں گزر جاتی ہیں اور آتا بھی اکا دکا ہے، تو پھر اس کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
دیکھیں! جو general بیانات ہیں، جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ ہیں، یہ ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ انسان کا ذہن بنایا جائے کہ یہ کام ضروری ہے، اس کو کرنا چاہئے، اس میں صرف اتنا کام ہوتا ہے۔ باقی جس کا ذہن بن جاتا ہے، تو وہ اس کے لئے پھر راستے ڈھونڈتا ہے، اس کے لئے کوشش کرتا ہے۔ تو اللہ پاک کا وعدہ ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔
تو جو لوگ طریقہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں، تو اللہ پاک ان کو کہیں پہنچا دیتے ہیں، جہاں ان کے لئے مناسب ہو، اس کے لئے پھر راستہ اللہ تعالیٰ ان کو دے دیتے ہیں۔ لیکن ابتدا میں ان کا ذہن بنایا جاتا ہے کہ یہ کام ضروری ہے اور مجھے اس کو کرنا ہے، اس کے لئے ہمیں اپنی کوشش کرنی ہے، ورنہ بیانات سے اصلاح نہیں ہوتی، بیانات سے اصلاح کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
سوال نمبر 33:
حضرت! یہ جو خواتین کا جوڑ ہوتا ہے مہینے میں ایک دفعہ، اگر ہم یہ اپنے گھر میں رکھ لیں، مثلاً: جب خانقاہ میں جوڑ ہوتا ہے تو ہم یہاں آئیں اور اس کے بعد ایک ہفتہ یا دو ہفتے بعد آپ کا یہاں والا بیان جو گیارہ سے بارہ بجے ہوتا ہے، اس سے پہلے دو گھنٹے کا جوڑ اگر ہم گھر پر رکھ لیں اور جو خواتین ادھر جوڑ میں آتی ہیں، ادھر خواتین میں بیان کرلیں اور ادھر سے آن لائن وہ گیارہ بجے والا بیان سن لیں، تو کیسا ہے؟
جواب:
ہاں ٹھیک ہے۔ ان کو فرض عین علم سکھایا جاسکتا ہے یعنی جو دو گھنٹے ہیں، ان میں ضروری باتیں ان کو سکھائی جاسکتی ہیں۔ پھر گیارہ بجے کا بیان گیارہ بجے fix، ادھر والا بیان آن لائن پھر ادھر بارہ بجے دعا ہوجائے، تو ہوسکتا ہے، کیوں نہیں ہوسکتا۔ ما شاء اللہ! بہت اچھا ہے۔ آپ کے گھر میں تو مسئلہ بھی نہیں ہے، ان شاء اللہ آپ کے گھر والے ان کو سمجھا سکتے ہیں۔
سوال نمبر 34:
ابھی ہم نے مشورہ بھی کیا، ترتیب یہی بنائی ہے کہ جوڑ اب اُدھر ہوتا ہے، تو ظاہر ہے کہ اور کہیں تو نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا بیان تو آن لائن ہوتا ہی ہے، وہ والی خواتین جو یہاں بیان کرتی ہیں، ادھر جوڑ نہ ہو، تو وہاں پہ ان کو بلا کے بیان ہوجائے، گیارہ بجے بیان شروع ہوجائے، یہ ترتیب ہے۔
جواب:
ہاں! ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت دے دے اور توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر 35: کیا راز ہے کہ ذکر میں قوت اتنی پاتے ہیں، جتنا رابطہ قوی، صاف اور سچا ہو، جبکہ شیخ کی ذات مقصود نہیں اور مقصود اللہ کی یاد ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! خود ہی سوال میں جواب دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا جواب ہے۔ بات یہ ہے کہ شیخ مقصود نہیں، شیخ مقصود کو پانے کا ذریعہ ہے۔ تو کیا ذریعہ کے بغیر کام ہوتا ہے؟ ذریعہ مقصود نہیں ہے، لیکن ذریعہ مقصود کو حاصل کرنے کا راستہ تو ہے۔ پس شیخ چونکہ ذریعہ ہے، لہٰذا جو اس ذریعہ کو استعمال کرے گا، تو مقصود پانے کی صلاحیت بڑھ جائے گی۔ تو کہتے ہیں کہ ذکر میں قوت اتنی انسان پاتا ہے جتنا رابطہ قوی ہو۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کیوں کہ رابطہ کمزور ہوجائے، تو معمولات کمزور ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ پھر ختم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا بات یہ ہے کہ رابطہ قوی ہونا چاہئے۔ شیخ بالکل مقصود نہیں ہے، لیکن مقصود حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس ذریعہ کو lose نہیں کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 36:
حضرت! رابطہ مختلف ہے، کسی Person کے ذریعے سے یا WhatsApp کے ذریعے سے۔
جواب:
جو بھی طریقہ شیخ نے متعین کیا ہے رابطہ کا، اسی طریقہ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً: ہمارے ہاں دو بجے سے لے کر تین بجے تک ٹائم ہے ٹیلی فون کرنے کا، تو اسی وقت ہی ٹیلی فون کیا جائے، کیونکہ دوسرے وقت میں کریں گے، تو پھر معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کام کررہے ہیں، اس وجہ سے تکدر سے بچنے کے لئے اسی وقت میں ٹیلی فون کیا جائے یعنی دو سے لے کے تین بجے تک۔ اور جو یہاں جیسے پیر کا دن ہے سوالوں کے جوابات کا، تو اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے، whatsapp کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے، ٹیلی فون کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے، لہٰذا اس طریقہ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
سوال نمبر 37:
ماہانہ اگلا ذکر لینا؛ یہ بھی ایک رابطہ ہے؟
جواب:
جی، یہ بھی ایک رابطہ ہے اور اصل میں بات یہ ہے کہ جو local لوگ ہیں، جیسے اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگ ہیں، تو وہ تو کم از کم کوشش کرلیں کہ مہینے میں ایک دفعہ کسی نہ کسی پروگرام میں آجایا کریں اس رابطہ کو زیادہ polish کرنے کے لئے، کیونکہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو صرف صحبت سے ہی سمجھ میں آسکتی ہیں، کچھ چیزیں ایسی ہیں، ساری چیزیں نہیں۔ کچھ چیزیں علمی ہوتی ہیں، وہ تو انسان کتاب سے بھی حاصل کرسکتا ہے اور ٹیلی فون سے بھی، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو صحبت سے حاصل کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر دل سے دل کا جو رابطہ ہے، اب کیا یہ آپ ٹیلی فون سے حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ ٹیلی فون سے حاصل نہیں ہوتا، محفل میں آپ موجود ہوں گے تو پھر ہوگا۔ اس وجہ سے جن کو یہ سعادت حاصل نہ ہو یعنی وہ local نہ ہوں، تو ان کے لئے مجبوری کی وجہ سے دوسرے ذرائع بھی کافی ہوجاتے ہیں۔ لیکن جو یہاں local لوگ ہوں، ان کے لئے چونکہ مجبوری نہیں ہے، وہ پھر بھی lose کرتے ہیں اور اس کو استعمال نہیں کرتے۔ یہ والی بات ہے۔ ایک صاحب نے مجھے خود بتایا، F-8 میں وہ ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں جب گھر میں آپ کے بیان سنتا ہوں، تو مجھے اتنا فائدہ نہیں ہوتا، لیکن جب خانقاہ میں سنتا ہوں تو مجھے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ چونکہ اسلام آباد میں ہیں اس لئے ایسا ہے۔ کراچی والوں کے لئے ایسا مسئلہ نہیں ہے، لاہور والوں کے لئے بھی ایسا مسئلہ نہیں ہے، ان کو اُدھر بھی ایسا ہی فائدہ ہوگا۔ اب تو ما شاء اللہ! ایسے لوگ ہیں جو انڈیا میں ہیں، جو سعودی عرب میں ہیں، جو امریکہ میں ہیں، جو انگلینڈ میں ہیں اور وہ فائدہ حاصل کرتے ہیں اور ایسا حاصل کرتے ہیں کہ یہاں والوں سے بھی شاید بعض دفعہ زیادہ حاصل کرتے ہیں، کیوں کہ ان کی مجبوری ہے، تو مجبوری کی وجہ سے وہ حاصل کرتے ہیں۔ خواتین کا بھی یہ مسئلہ ہے، خواتین کو چونکہ شرعاً مجبوری ہے، اس لئے ان کو گھر بیٹھے بیٹھے ساری چیزیں مل جاتی ہیں۔ ان کے رابطہ کی صورت ہی مختلف ہے۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ نصیب فرما دیتے ہیں، لیکن جن کی مجبوری نہ ہو، تو وہ اس کو اپنے لئے ضروری سمجھیں اور اللہ پاک کی طرف سے انعام سمجھیں۔ یہ بات ہے۔ ویسے خوش قسمتی کم ہی لوگوں کی ہوتی ہے۔ ہم نے دیکھا مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو، سبحان اللہ! اللہ نے ان کو کیا مقام دیا تھا۔ لیکن قریب والے لوگوں نے ان سے نہیں لیا، جو بہت قریب لوگ تھے انہوں نے، نہ رشتہ داروں نے، نہ قریب والے لوگوں نے، نہ پڑوسیوں نے لیا۔ لیا تو کس نے لیا؟ جنوبی اضلاع والوں نے لیا، لاہور والوں نے لے لیا، کبھی کراچی والوں نے لے لیا یا دوسرے لوگوں نے یعنی جنوبی افریقہ والوں نے۔ حیران ہوتے ہیں کہ اتنے دور دور سے لوگ لیتے ہیں، لیکن قریب والے محروم ہیں، کیونکہ قریب والوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ بس ہم چلے جائیں گے، تو کیا مسئلہ ہے۔ یہ بات ہمیں اس طرح معلوم ہوگئی کہ میں فلکیات کے دورے کراتا تھا، یہاں اسلام آباد اور راولپنڈی کا کا تو آپ کو بتایا تھا، یہاں تو ہر مدرسہ کہتا ہے کہ ہمارے مدرسہ میں ہو تو پھر ٹھیک ہے، کسی اور جگہ ہو تو پھر ٹھیک نہیں ہے۔ ایک تو یہ مسئلہ ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ جب ہم مولانا اشرف صاحب کی جگہ پہ نے کرلیا، تو وہاں ٹیکسلا سے لوگ آگئے، دوسری جگہوں سے آ گئے، لیکن راولپنڈی کے لوگ نہیں آئے، اسلام آباد کے لوگ نہیں آئے، تو اب اس کا کیا کیا جاسکتا ہے۔ اور دوسرا جو ہمارے قریب گاؤں کے حقانیہ ہے، جہاں میں خود جاتا تھا، میں نے مولانا انوار الحق صاحب سے بات کی، تو کہنے لگے کہ میاں صاحب! آپ تو ہمارے اپنے آدمی ہیں، جب آپ چاہیں گے، آپ آجائیں گے۔ میں نے کہا کہ میں ہر وقت کیسے آجاؤں گا، میں تو ملازم آدمی ہوں، میں ہر وقت تو نہیں آسکتا۔ مطلب یہ ہے کہ جو قریب والے ہوتے ہیں، چاہے کسی رخ سے بھی ہوں، تو ان کو قدر نہیں ہوتی۔ نتیجتًا وہ زیادہ تر محروم رہ جاتے ہیں۔
سوال نمبر 38:
حضرت! اصولاً جو قریب والے ہیں، ان کو magnetism زیادہ ہونا چاہئے، طلب ان کو پہلے ہونی چاہئے۔
جواب:
طلب بھی کہاں ہوتی ہے؟ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا﴾ پہلے ہے، ﴿لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ بعد میں ہے۔ اور جو کھینچے جاتے ہیں، وہ special لوگ ہوتے ہیں، ان کے بارے میں discuss نہیں کرتے۔ وہ جو محبوبین ہوتے ہیں، ان کی بات الگ ہے، ان کا معاملہ الگ ہوتا ہے، ان کو جہاں بھی وہ ہوں، کھینچ لیتے ہیں۔ لیکن جو Normal rule ہے، وہ یہ کہ بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مل گیا اور ابوجہل کو نہیں ملا، پاس ہی تھا۔ مدینہ منورہ والوں کو مل گیا اور مکہ کے لوگ محروم رہ گئے۔ یہ ہمارے پاس بہت زبردست example ہے۔ یہی تو چیز ہے کہ حبشہ میں نجاشی کو مل گیا، جو آ بھی نہیں سکا، لیکن چونکہ طلب تھی اور حق کو قبولیت کرنے کی صلاحیت تھی لہٰذا انہوں نے حق کو قبول کرلیا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس میں ابتدا کہاں سے ہوتی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
سوال نمبر 39:
حضرت! طلب بھی تو کسی اہلِ حق کے موجود ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہوگی؟
جواب:
ہاں، بالکل۔
سوال نمبر 40:
پھر تو قریب والوں کو یہ فائدہ تو ہوا۔
جواب:
نہیں! ہونا چاہئے۔ ’’ہوتا ہے‘‘ والی بات نہیں ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہونا چاہئے، تو پھر میں آپ کے ساتھ ہوں، لیکن ہوتا ہے، تو یہ ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ دیکھیں! اتنی طلب تو ہونی چاہئے۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، اللہ کا شکر ہے، الحمد للہ! چاہے غلط تھا یا صحیح تھا، لیکن ہمیں الحمد للہ! طلب تھی۔ یہاں تک طلب تھی کہ ہم کہتے کہ چاہے جنگل میں جانا پڑے، تو جنگل میں چلے جائیں گے۔ تصوف کا پتا نہیں تھا کہ تصوف کیا ہوتا ہے۔ وہ جو ڈائجسٹی تصوف ہوتا ہے، ہم تو اسی تصوف کے قائل تھے۔ یعنی پڑھا تو وہی تھا، ہم نے کہتے کہ بس جنگل میں جانا پڑے گا اور یہ کرنا پڑے گا اور وہ کرنا پڑے گا۔ ہم نے کہا کہ چلیں! پڑھ لیں گے، پھر اس کے بعد جائیں گے۔ پس طلب تو تھی، اگرچہ کمزور قسم کی طلب تھی، لیکن طلب تھی۔ تو نتیجہ کیا ہوا؟ پشاور یونیورسٹی میں گئے، نہ مدرسہ تھا نہ خانقاہ، لیکن کسی نے کہا کہ یہاں پہ بزرگ ہیں اور وہ عصر کے بعد بیان فرماتے ہیں، اُدھر چلتے ہیں، ذرا دیکھ لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے، چل کے دیکھ لیتے ہیں۔ غالباً ابتدائی دو تین دن کی بات ہے۔ پھر جب گئے اور حضرت کو دیکھا، تو دل نے گواہی دی کہ یہ جگہ صحیح ہے۔ بس اتنی سی بات تھی، آگے پھر سارے راستے کھل گئے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ