اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت اقدس! مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ بندہ سے معاشرتی کوتاہیاں برداشت نہیں ہوسکتیں، جب کوئی ہمیشہ یہ کوتاہیاں کرتا ہو اور بے فکری سے کام لیتا ہو، تو اس وقت فوراً غصہ آتا ہے اور اس شخص کو پھر ملنے کو جی تک نہیں چاہتا اور اگر یہ شخص غلطی کا تدارک کرے اور معافی مانگے تو دل خوش ہوتا ہے اور دل میں پھر کچھ میل نہیں پاتا۔ یہ صورتحال اپنے لئے بھی ہے اور دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی یہی حالت نفس پر گزرتی ہے۔ حضرت! رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
دیکھیں! تین باتیں ہیں، اگر کوئی برا کام دیکھے تو ہاتھ سے روکے، اگر نہیں تو زبان سے روکے، ورنہ پھر دل میں اس کو برا سمجھے۔ لہٰذا اگر وہ ناجائز کوتاہی ہو یا ایسی معاشرتی کوتاہی ہو جس کی شریعت میں ممانعت ہو، تو اس کو برا سمجھنا یہ ایمان کی علامت ہے، اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ یہ اس پر depend کرتا ہے کہ اگر آپ اس کی طاقت رکھتے ہوں کہ آپ اس کو ہاتھ سے روک سکیں تو ہاتھ سے روکنا ہے، اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے کہہ دیں اور زبان سے کہہ کر پھر آپ بے فکر ہوجائیں، یہ نہ کریں کہ اس کو آپ پالنا شروع کرلیں، کیونکہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، آپ ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا تھا کہ ہم نے آپ کو ان پر داروغہ نہیں بنایا تھا۔ اس وجہ سے اپنی نصیحت یا اپنے طریقہ سے آپ سمجھا سکتے ہیں، تو اس کو سمجھانے کی کوشش کرلیں، نہیں تو پھر اپنے آپ کو فارغ سمجھیں۔ البتہ اس کام کو برا سمجھیں نہ کہ اس آدمی کو، کیونکہ آدمی ممکن ہے کہ کسی اور عمل کی وجہ سے ہم سے اچھا ہو، اس لئے آدمی کو نہیں، بلکہ اس کام کو برا سمجھیں۔ باقی اس قسم کی بات اگر آتی ہے تو ایک ہوتا ہے محسوس کرنا اور ایک ہوتا ہے اس پر عمل کرنا، جبکہ عمل کرنے کے لئے حکمت اور موقع چاہئے ہوتا ہے، کیونکہ مردم شناسی، محل شناسی، مزاج شناسی، یہ تمام چیزیں اصلاح کے لئے ضروری ہوتی ہیں، اس لئے جتنا انسان کے ذمہ ہے، اتنا ہی کام کریں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ شیخ محترم! مجھے جس طرح سمجھ میں آتا ہے، وہ بتا دیتی ہوں کہ مجھے حسد ہوتا ہے، لیکن ہر کسی سے نہیں، بلکہ اپنے گھر کی حد تک کہ جب کوئی واقعی دوسروں کی پروا کیے بغیر دوسروں کا حصہ بھی لے رہا ہو، اس کے علاوہ کبھی کسی کو ملنے والی نعمت پر حسد نہیں کرتی، البتہ جب خیال آئے کہ کسی کو یہ نعمت ملی ہے مگر مجھے نہیں ملی، تو اگلا خیال یہ ہوتا ہے کہ میں اپنا ذکر کرکے سب سے بڑی نعمت حاصل کرسکتی ہوں اور وہ رب کا قرب ہے۔ جو بھی میرے ساتھ غلط کرتا ہے تو اس پہ غصہ آجاتا ہے، مگر بغیر لڑائی جھگڑے کے دور دور رہتی ہوں اور ایک ضد سی باندھ لیتی ہوں ایسے بندہ سے کہ ان سے خود بھی دور رہوں اور دوسرے بھی دور رہیں۔ routine میں چغلی نہیں کرتی، مگر کوئی دوست کی صورت میں کسی دوسرے کی ذات پر حملہ کرتا ہے، لیکن منہ پر میٹھا بنا رہتا ہے، تو صرف alert کرنے کے لئے اس بندہ کے بارے میں تھوڑی بہت بات نکل جاتی ہے، مگر بڑے فساد والی بات نہیں بتاتی۔ اس کے علاوہ کبھی بھی چغلی نہیں کرتی۔ جب میرے منہ پر کوئی مجھے کہتا ہے کہ تمھاری صحت اچھی نہیں ہے، تم ایسی ہو، ویسی ہو، تو میں دکھی ہو کے امی وغیرہ کو بتا دیتی ہوں کہ مجھے اللہ نے ایسا بنایا ہے، اس میں ہمارا کیا اختیار ہے۔ کیا یہ شکایت کرنا بھی میری برائی ہے؟ پہلے کسی کی بات سنتی تھی تو دوسروں کو تھوڑا بہت بتا بھی دیتی تھی کہ فلاں ایسے ہیں، مگر اب زیادہ نہیں بولتی، نہ ہی ادھر کی باتیں ادھر کرتی ہوں، کوئی اپنی سنائے بھی تو دلچسپی نہیں لیتی، دوسروں کے معاملات میں جھوٹ نہیں بولتی، بے شک کسی دشمن کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو، مگر اس پر بھی ایک لفظ جھوٹا نہیں بولتی، مگر کبھی کسی فساد سے بچنے بچانے کے لئے مصلحتاً جھوٹ بول جاتی ہوں، جس کا مقصد صرف بچاؤ ہوتا ہے، ہر کسی کے نقصان والا جھوٹ کبھی نہیں بولتی۔ اگر کوئی خیال negative آجائے تو ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ‘‘ پڑھ لیتی ہوں اور پاک ہوجاتی ہوں۔ کوئی خلاف مزاج بات کرے تو منہ پھیلا لیتی ہوں، پھر کوئی کام اگر کرنے کا بھی ہو تو ضد سے وہ بھی نہیں کرتی کہ بلاوجہ کوئی روک ٹوک نہ کرے۔ باقی شیخ محترم! آپ کے پوچھنے میں بھی ایک ایسی تاثیر ہے کہ مجھ پر میری برائیاں واضح نہیں تھیں، مگر اب سب نظر آنے لگی ہیں۔ میری تمام برائیوں کے باوجود بھی کسی کو مجھ سے شکایت نہیں ہوتی، کیونکہ جو بھی غم و غصہ ہوتا ہے، دل میں رکھتی ہوں، ظاہر نہیں کرتی، زیادہ تر چپ رہتی ہوں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ آپ کی زیادہ صحبت میں آنے کے بعد اب میرا ہر فعل یا عمل فوراً مجھ پر واضح ہوجاتا ہے کہ میں غلط ہوں یا صحیح اور غلط ہونے کی صورت میں میں بہت اذیت کا شکار ہوجاتی ہوں کہ بس ایک جنگ سی چھڑ جاتی ہے میرے اندر کہ میں ایسی کیوں ہوں؟ میں دوسروں کے لئے دعا کرتی ہوں کہ ہر کوئی ہر شر سے محفوظ رہے۔ آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
یہ جو آپ نے بتا دیا، یہ بہت اچھا کیا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ حسد تو بہت خطرناک چیز ہے، اللہ جل شانہٗ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔ باقی اگر کسی کے ساتھ بھی حسد محسوس ہو تو لوگوں کے سامنے اس کی بھلائی بیان کریں، اس کی اچھی چیزیں بیان کریں، اس میں ایک تو نفس کی مخالفت ہوجائے گی، جس سے نفس کا علاج ہوجائے گا، دوسری بات یہ ہے کہ جب اس تک یہ بات پہنچے گی تو اس کا آپ کے ساتھ اچھا تعلق ہوجائے گا، جس کی وجہ سے آپ کا بھی اس کے ساتھ اچھا تعلق ہوجائے گا۔ باقی جو بات غصہ والی ہے تو کسی بری چیز پر غصہ آنا کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن اس صورت میں کرنا کیا ہے؟ یہ حکمت کے تقاضا کے مطابق کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال اس کی تفصیلی بات پھر میں ان شاء اللہ! ایک ایک کرکے آپ کو بتا دوں گا، فی الحال آپ حسد والے مسئلے کو صحیح کرلیں، جیسا کہ میں نے بتا دیا ہے۔ مزید اس میں کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لیں۔ باقی باتیں آہستہ آہستہ ٹھیک ہوں گی ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 3:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
اَلْحَمْدُ للہ! آپ نے اس کو ٹھیک سمجھا ہے اور بس اب کوشش کرلیں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ کو صحت اور عافیت میں رکھے، علاجی ذکر کو ایک ماہ ہوگیا ہے، جو کہ پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور پندرہ منٹ مراقبہ تنزیہ اور صفات سلبیہ اور دس منٹ مراقبہ دعائیہ ملا ہوا تھا۔ حضرت جی! باقاعدگی سے کررہی ہوں اَلْحَمْدُ للہ۔ اگر توڑ توڑ کر کرنا پڑے پھر بھی کرلیتی ہوں۔ ذکر ہورہا ہے، کچھ کچھ محسوس ہوجاتا ہے، لیکن مراقبہ کا اثر زیادہ سمجھ نہیں آرہا۔ اس کے علاوہ تین بار فجر قضا ہوئی ہے۔ ’’چہل درود پاک‘‘ اور ’’مناجات مقبول‘‘ بھی ابھی باقاعدہ نہیں ہے، باقی معمولات کررہی ہوں۔ حضرت جی! مجھے اندازہ ہے کہ میرے اندر اتنے رذائل ہیں کہ میں بے حد پریشان ہوگئی ہوں، اللہ پاک اور رسول اللہ ﷺ کی محبت ذرا بھی نہیں ہے، ذرا سی بات مزاج کے خلاف ہو تو پریشانی کا شکار ہوجاتی ہوں، بے صبری اور خود غرضی بہت زیادہ ہے، اللہ کی رضا میں بالکل راضی نہیں رہتی، شکر کی توفیق بھی کم ہے، اس کے علاوہ بھی ذہن ہر بات پر فوراً برا ہوجاتا ہے، دوسروں کے بارے میں بس بدگمانی کا شکار ہوجاتی ہوں، کچھ ذہن کا مسئلہ بھی ہے، اور بیماری میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ ہر چیز negative لگتی ہے، ہر چیز بری لگتی ہے، اس کا علاج کروا تو رہی ہوں، لیکن اصلاحی لحاظ سے میری رہنمائی فرمائیں کہ اپنے علاج کے لئے کیا کروں؟ اب مجھے لگ رہا ہے کہ سوائے تھوڑے بہت معمولات کرنے کے اندر سے میں بہت خراب ہوں، آخرت کی بالکل پروا نہیں، دنیا کی چیز اپنی مرضی کے مطابق چاہئے، ورنہ پریشانی شروع ہوجاتی ہے، عین موقع پر دنیا کی تکالیف کا اجر اور آخرت کے انعامات کچھ بھی ذہن میں نہیں رہتے۔
جواب:
آپ کو میں آپ کی ایک خوبی بتا دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کم از کم مجھے سچ سچ بتایا ہے، یہ بھی ایک خوبی ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ تو ان شاء اللہ! اس کی برکت سے آپ کو مزید فائدے حاصل ہوں گے، سب سے پہلے آپ یہ کریں کہ جو مراقبہ ہے، اس کو آپ درست کرلیں، اس کے لئے آپ اوقات ذرا بہتر کرلیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو بھی آپ کے ساتھ بات ہو، جس پہ آپ negative سوچیں، تو اس کو postpone کرلیا کریں کہ میں پوچھ لوں گی، جس طرح پھر بتایا جائے گا اسی طرح کرلوں گی۔ بس فی الحال یہ دو کام کرلیں، ان شاء اللہ! آہستہ آہستہ یہ ٹھیک ہوجائیں گے۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔ حضرت جی! ایک خواب دیکھا تھا کچھ دن پہلے، جس میں دیکھا کہ آپ کہیں کسی مجلس میں تشریف فرما ہیں اور آپ مجھے فرما رہے ہیں کہ معمولات کا چارٹ باقاعدگی کے ساتھ بھیجا کرو اور معمولات کو باقاعدگی سے کیا کرو، فلاں مرید تھا جو نہیں کرتا تھا، تو وہ فوت ہوگیا۔ پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت! میرے پاس تو صرف ایک کمرہ ہے، جس میں سب رہتے ہیں اور معمولات کرنا مشکل ہوتا ہے۔ حضرت جی! اصل میں بھی صورتحال ایسی ہے، چونکہ ہم سب کا اکٹھا کمرہ ہے، جس کی وجہ سے الگ سے کوئی ترتیب نہیں بن پاتی، مثلاً اگر میں نے جلدی سونا ہو یا کوئی معمول کرنا ہو تو اکٹھے ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتے اور رہ جاتے ہیں، جو کہ بعد میں سستی کا باعث بن جاتا ہے، گھر میں اکثر اس موضوع پر چپقلش بھی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وقت بھی ضائع ہوجاتا ہے، نظام الاوقات سب خراب ہوجاتا ہے، اس سلسلے میں گھر میں بڑوں سے (والدین سے) علیحدہ ہونے کی بھی دو تین مرتبہ بات کی ہے، لیکن وہ کرائے پر بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ حضرت جی! اس پریشانی کے پیش نظر میں بیرونِ شہر اور ملک نوکری کی تلاش میں بھی ہوں کہ شاید کچھ بہتری ہوجائے۔ حضرت جی! اس سلسلہ میں مجھے ہدایت فرمائیں کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے؟
جواب:
فی الحال جو معمولات ہیں، وہ آپ مسجد میں کرلیا کریں یعنی جب نماز پڑھ لیا کریں، تو اس جگہ معمولات کرلیا کریں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت میرے ساتھ کچھ مسائل ہیں، دعا فرمادیں۔ میری کچھ نمازیں بھی قضا ہوئی ہیں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ مسائل حل فرمائے۔ باقی جو نمازیں قضا ہوئی ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لئے تین تین روزے رکھ لیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت شاہ صاحب دامت برکاتھم! میں فلاں میرانشاہ سے۔ ستمبر کے مہینے کے معمولات کی شیٹ ارسال کررہی ہوں۔ معمولات درج ذیل ہیں: دو سو، چار سو، چھ سو، ساڑھے چار ہزار اور لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ ہے۔ اس مہینے معمولات میں کافی خلل واقع ہوا ہے، ذکر علاجی کا اس مہینے میں چار دن ناغہ ہوا ہے، معمولات کے اوقات میں سرکاری، دفتری مصروفیات کی وجہ سے ذکر علاجی کا معمول پورا نہ کرسکا، معمولات کی وجہ سے طبیعت پر بوجھ تھا، مصروفیات بھی زیادہ رہیں۔ آگے کے لئے کیا رہنمائی ہے؟
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ جو معمولات ہیں، وہ آپ لطیفۂ اخفیٰ تک یعنی پانچوں لطائف دس دس منٹ کرلیں اور مراقبۂ احدیت ساتھ کرلیں۔ مراقبۂ احدیت سے مراد یہ ہے کہ آپ تصور کرلیں کہ فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہا ہے آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے قلب پر آرہا ہے۔ یہ پندرہ منٹ کے لئے آپ نے سوچنا ہے، باقی لطائف دس دس منٹ جو ہیں، وہ پہلے کی طرح کرنا ہے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، اللہ آپ کو اپنی حفاظت و امان میں رکھے۔ (آمین) اَلْحَمْدُ للہ! میں نے بلاناغہ مراقبہ دس منٹ کے لئے اور جو تسبیحات آپ نے بتائی تھیں، وہ پوری کی ہیں، بس ایک دن فجر کی نماز قضا ہوئی تھی، اس کے بعد کی تسبیحات لیٹ پڑھی تھی، اللہ معاف فرمائے۔ اب آگے کیا حکم ہے؟ جزاک اللہ خیراً۔ مراقبہ میں کبھی پورا ٹائم focus ہوتا ہے اور کبھی ذہن منتشر ہوجاتا ہے، لیکن اَلْحَمْدُ للہ! ٹائم پورا ہوجاتا ہے۔ حضرت جی! میں نے آپ کو خواب میں دیکھا تھا کہ آپ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں، کچھ عورتیں اور بھی ہیں اور آپ ان کو وعظ و نصیحت فرما رہے ہیں۔
جواب:
سبحان اللہ! آپ اس طرح کرلیں کہ جو دس منٹ کے لئے آپ مراقبہ کررہی تھیں، اس کو پندرہ منٹ کرلیں۔ باقی مراقبہ میں آپ اپنی طرف سے alert ہونے کی کوشش کرلیں، اس کے بعد پھر جیسے بھی ہو تو وہ احوال ہوتے ہیں، وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور فجر کی نماز جو قضا ہوئی ہے، اس کے لئے بطور جرمانہ تین دن روزے رکھ لیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ محترم حضرت! ذکر اور مراقبات اَلْحَمْدُ للہ! بلاناغہ جاری ہیں۔ آپ نے راہ سلوک پر چلنے کا فرمایا تھا کہ نفس اللہ تعالیٰ کے جن احکامات کو ماننے کی زیادہ مخالفت کرتا ہے، وہ آپ کو لکھ کر بتاؤں۔ محترم حضرت! نفس کے درج ذیل رذائل میں نے آپ کو لکھ کر بتائے ہیں کہ بدنظری، غیبت، جھوٹ، ناجائز غصہ اور اس کے علاوہ زیادہ غیر ضروری باتیں۔ نصیحت کے مطابق سب سے زیادہ مشکل پہلے بدنظری، پھر غیبت اور اب جھوٹ پر ایک ماہ control کیا، روزانہ کا record نوٹ کررہا ہوں، اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کے فضل اور آپ کے فیض کی وجہ سے پورا مہینہ محتاط رہتے ہوئے تقریباً یہ کہہ سکتا ہوں کہ بدنظری، غیبت اور جھوٹ سے (بس ایک مرتبہ غیر ارادی طور پر خلاف واقع ایک جملہ ادا ہوا، اس کے علاوہ) مکمل محفوظ رہا، مگر مذکورہ بالا تینوں رذائل کی سو فیصد report دینے کی ہمت نہیں ہورہی، اس لئے پندرہ دن کی تاخیر سے احوال message کررہا ہوں۔
جواب:
ابھی جو ناجائز غصہ ہے، اس کے بارے میں آپ کو عرض کروں کہ آپ کو اس کی زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ آپ کے پاس پورا ایک unit ہے، اس کے لئے آپ کو ضرورت ہے کہ ناجائز غصہ نہ ہو۔ لہٰذا اس کے لئے پھر آپ یوں سمجھیں کہ آپ تصور کریں کہ جتنا مجھے اس پر اختیار ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو آپ پر اختیار ہے، بس جب بھی کبھی اس قسم کی بات ہو اور غصہ کسی پر آجائے تو اس وقت نہ کریں، بلکہ postpond کرلیں آدھا گھنٹے کے لئے اور آدھا گھنٹہ سوچیں کہ اس پر کتنا غصہ کرنا چاہئے، کتنا صحیح ہوگا؟ اس کے بعد اگر تربیتی طور پر یا اس کی اصلاح کے لئے جتنے غصے کی ضرورت ہے، وہ ضرور کرلیں، لیکن وہ ناجائز نہ ہو۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I pray you are keeping well dear Sheikh. This is فلاں from UK. اَلْحَمْدُ للہ having delivered your blessed بیان to my locality for the past month myself and the public are clearly benefiting and I have observed that their interest has increased in their اصلاح. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant me the ability to practice on what I passed on and grant me اخلاص. Some people have requested if these بیانات could be live streamed for the benefit of others. But I have not responded to their request yet because I wanted to ask you for advice in this matter. (Answer: Yes you can do this.)
Secondly, I have a question, beloved Sheikh. There is much pointless اختلافات among the Muslims in our society. We stop them from being united and benefiting from one another. How should we then do امر بالمعروف اور نہی المنکر and connect the hearts of one another? Dangerous result of it is that people have no respect or appreciation for اکابر. This leaves them feeling weak as they have no example to follow. What should our behavior be? Kindly remember me in your dua.
جواب:
ماشاء اللہ! بہت اچھی بات ہے کہ آپ کی بات کا اثر ہورہا ہے اَلْحَمْدُ للہ۔ باقی خطیب حضرات کو اس کی کوشش کرنی چاہئے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر چونکہ بنیادی ڈیوٹی ہے، اس لئے جمعہ کے دن اگر chance ملتا ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان اس فرض سے سبکدوش ہوسکتا ہے آسانی کے ساتھ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک اختلاف کا تعلق ہے، تو اختلاف تو ہوگا، لیکن اس پر بھی آپ lecture دیں اور سب کے ساتھ ملاقات بھی کرلیں اور آپس میں مل بیٹھیں کہ ہمارے آپس میں اختلافات صحیح ہیں، لیکن جن چیزوں پہ ہمارے اختلافات نہیں ہیں، ان کو ہم سب پیش کرلیں، مثلاً کوئی کچھ بھی ہے، لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سب اکٹھے ہیں۔ اس طرح پھر ہوسکتا ہے کہ وہ اختلافی باتیں نہ چھیڑیں، بلکہ وہ چیزیں جو سب کے نزدیک common ہیں، مثلاً جھوٹ سب کے نزدیک برا ہے، اس کی اصلاح کی کوشش کرلیں، رشوت ہے، سود ہے، فضول گوئی ہے، ریا ہے، اخلاص کو پیدا کرنا ہے، اسی طرح خواہ مخواہ دکھاوا ہے، یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان پر سب لوگ متفق ہیں۔ لہٰذا آپس میں طے کرلیں کہ جو متفقہ چیزیں ہیں، ان پہ ہم سب بولیں، مگر ایک دوسرے کے خلاف نہیں بولیں، باقی جب آپس میں میٹنگ ہو تو اس میں بات کریں گے، یعنی اگر کبھی میٹنگ ہو، تو پھر ایک دوسرے سے ملیں گے، اور پھر ایک دوسرے کے اکرام کے ساتھ بات ضرور کرلیا کریں گے، لیکن publicity ان باتوں کے کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہاں ہم اتفاقی باتیں کریں گے۔ بس آپ آپس میں اگر کوشش کرلیں تو امید ہے کہ کامیابی ہوگی، البتہ اللہ پاک سے مانگتے رہیں تہجد کے وقت، یہ بہت ضروری ہے۔
سوال نمبر 11:
سیدی و سندی و مولائی، حضرت شاہ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ پاک سے دعا اور امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ اللہ پاک کے فضل و کرم اور آپ کی دعا سے تسبیحات بلاناغہ جاری ہیں، اَلْحَمْدُ للہ! خاموش ذکر بھی کررہی ہوں، لیکن اس مہینے کل تین دن (ہر جمعرات) ناغہ ہوگیا تھا، مجھے اس کا بہت افسوس ہوا، اس لئے اب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پہلے مراقبہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اَلْحَمْدُ للہ! دو ہفتے سے ناغہ نہیں ہوا۔ حضرت جی! جب آنکھیں اور زبان بند کرکے پہلے دن بیٹھی کہ دل کی زبان ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہی ہے، تو کانوں میں حضرت یوسف متالہ رحمۃ اللہ علیہ کی آواز گونجنے لگی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اللہ میری کوتاہیاں معاف فرمائے کہ میں نے ان کی قدر نہیں کی، ابھی بھی بے اختیار انہی کی آواز سنائی دیتی ہے کہ میں ٹھیک ہوں جس طرح میں کررہی ہوں، اس میں مجھے آپ کی دعاؤں اور توجہ سے فائدہ بہت ہوا ہے کہ نماز میں، تلاوت قرآن میں دھیان بہتر ہوا ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ آپ کو حضرت کے جملہ فیوض و برکات نصیب فرمائے، وہ ہمارے بزرگ تھے۔ اور ٹھیک ہے کہ حضرت کا فیض وہاں پر موجود ہے، اگرچہ حضرت تشریف لے گئے ہیں، لیکن حضرت کا فیض تو موجود ہے، اس لئے اگر اس کے ذریعہ سے اللہ پاک مدد کررہے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس آپ معمولات جاری رکھیں۔ باقی آپ کے گزشتہ معمولات کیا تھے؟ وہ آپ نے نہیں بتائے، اس لئے مجھے اوپر دیکھنے پڑے۔ بہرحال وہ مجھے مل گئے ہیں کہ تین تسبیح ہے، ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ ہیں اور اس کے بعد پھر میں نے بتایا کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو مرتبہ اور نماز کے بعد والا ذکر یہ عمر بھر کے لئے ہے۔ اور ایک مہینے کے لئے دس منٹ آنکھیں بند والا ذکر دیا تھا۔ خیر مراقبہ ابھی ماشاء اللہ! دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ کے لئے کریں۔ اور اب آئندہ کے لئے جب بھی آپ کوئی message کرلیا کریں تو اس میں آپ مجھے بتا دیا کریں کہ اس وقت آپ کے معمولات کیا ہیں؟ کیونکہ پھر مجھے اوپر دیکھنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ اس میں کبھی مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور آئندہ مجھے بتا دیا کریں کہ آپ کا دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے یا نہیں کررہا؟ یہ بھی ذرا مجھے بتا دیں اس دفعہ۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت مرشدی دامت برکاتھم! میرے بولنے کا انداز بھی اچھا نہیں ہے، کبھی میرے اندر بے صبری بھی آجاتی ہے۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ میں جب بہت زیادہ کھانا کھانے لگ جاتا ہوں تو میرے اندر روحانی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ میں نے اپنے عیوب کی لسٹ تو دے دی ہے، اب کیا میں اپنے ذکر و احوال کی لسٹ بھی بھیج دوں؟
I suffer from the following issues. I can get jealous of others at times. I generally don’t like sharing my food, especially sweets but I don’t have this problem when it comes to sharing or giving away money? I only have this problem with food items.
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ بنیادی بات جو حسد والی ہے، اس کو پہلے cover کریں۔ حسد کے لئے آپ یہ کریں کہ جس کے ساتھ بھی آپ کو حسد ہو، اس کے لئے دعائیں شروع کرلیں، بالخصوص تہجد کی دعائیں اور اللہ پاک سے ان کے لئے خیر مانگیں اور ان کی مشکلات دور کرنے کے لئے دعا مانگیں۔ لہٰذا اب یہ دعا ان کے لئے شروع کرلیں اور ساتھ یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں میں اضافہ فرما دے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اپنی نعمتوں سے نوازے۔ لہٰذا یہ آپ فی الحال کریں، باقی جو دوسری باتیں ہیں، وہ پھر ان شاء اللہ! میں دوبارہ بات کروں گا۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: اسم ذات کا زبانی ذکر پچیس سو مرتبہ ہے۔
جواب:
اب ان کو تین ہزار مرتبہ بتا دیں۔
نمبر 2: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ ہے، تمام لطائف پر محسوس ہوتا ہے اَلْحَمْدُ للہ۔
جواب:
اب ان کو دس دس منٹ لطائف کا اور ساتھ مراقبۂ احدیت بتا دیں اور جو ذکر ہے تین تسبیحات اور ہر نماز کے بعد والا وہ بھی بتا دیں۔
نمبر 3: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ ہے، دینی امور کا شوق اور محبت بڑھ گئی ہے اور مدرسہ کی محبت دل میں بڑھ گئی ہے۔
جواب:
مراقبہ تجلیات افعالیہ کے بعد اب ان کو مراقبہ صفات ثبوتیہ دے دیجئے گا۔
نمبر 4: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات پر یقین بڑھ گیا ہے۔
جواب:
تمام لطائف پر دس منٹ کا ذکر جاری رکھیں اور ان کو مراقبہ شیونات ذاتیہ کا بتا دیں۔
نمبر 5: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ دس منٹ ہے، محسوس ہونے لگا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مختلف شیونات ہیں، جو مخلوقات کی شیونات سے جدا ہیں۔
جواب:
اس میں آپ یہ کریں کہ شیونات ذاتیہ سے آپ کی توجہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہو اور اللہ پاک کے ساتھ تعلق ہو اور ذات کی طرف توجہ فرما لیں۔
نمبر 6: پندرہ سو مرتبہ لسانی ذکر اور لطیفۂ قلب پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
آپ اس کو فی الحال جاری رکھیں۔
نمبر 7: اسم ذات کا ہزار مرتبہ لسانی ذکر بھی ہے۔
جواب:
اب یہ پندرہ سو مرتبہ کردیں۔
نمبر 8: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ احدیت پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا، وساوس بہت آتے ہیں۔
جواب:
اصل میں مراقبۂ احدیت کو محسوس کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کو کوئی جسم میں تبدیلی محسوس ہوگی، بس آپ یہ محسوس کریں کہ فیض آرہا ہے، اس لئے آپ اس کو دوبارہ کرلیں۔
نمبر 9: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ ہے، ہر وقت اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! اب تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر جاری رکھیں اور مراقبہ تجلیات افعالیہ کی جگہ اب مراقبہ صفات ثبوتیہ بتائیں۔
نمبر 10: مراقبہ تمام لطائف پر پانچ منٹ اور صبح شام چار رکعت نوافل میں مراقبہ احسان ہے، اپنے غلط کام نظر آتے ہیں اور احساس ہوتا ہے۔ فرائض اور نوافل کا اہتمام کرتی ہوں، سخت بیماری کی وجہ سے ایک دن کی نمازیں قضا ہوگئی۔
جواب:
قضا نمازیں پڑھ لیجئے گا اور تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر جاری رکھیں اور اپنے غلط کاموں کی تفصیل مجھے بھیج دیں۔
سوال نمبر 14:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کرلیں کہ ’’منزل جدید‘‘ اگر آپ کے پاس نہیں ہے، تو اس کو ہماری ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کرلیں اور ان کو پڑھنے کا بتا دیں کہ اس کو پڑھ لیا کریں روزانہ شام کے وقت مغرب کے بعد۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم۔ حضرت جی! امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت صاحب! آپ نے جو علاجی ذکر بتایا تھا وہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ پندرہ سو مرتبہ اور لطیفۂ قلب پانچ منٹ، لطیفۂ روح پانچ منٹ، لطیفۂ سر پانچ منٹ، لطیفۂ خفی پانچ منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پانچ منٹ اور پندرہ منٹ مراقبہ شیونات ذاتیہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض آرہا ہے آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی طرف سے فیض میرے شیخ پر اور میرے شیخ کی طرف سے میرے دل پہ آرہا ہے۔ یہ پندرہ منٹ کا آپ نے دیا تھا۔ معمولات: صبح شام درود شریف کے ساتھ تلاوت قرآن، رات کو استغفار، کبھی نماز صلوٰۃ توبہ، مہینے میں ایک بار صلوٰۃ التسبیح۔ حضرت! اکثر جب میں گاڑی میں کسی کام سے جاتا ہوں، تو گاڑی میں میوزک لگا ہوتا ہے اور سفر اکثر بہت زیادہ ہوتا ہے تو میرے پاس ایک counter ہوتا ہے، جس پر میں درود شریف پڑھتا ہوں، اب میرے اندر ہمت بھی نہیں ہوتی کہ کسی کو کہہ دوں کہ میوزک بند کردیں۔ حضرت جی! کیا کرنا چاہئے ان چیزوں سے بچنے کے لئے؟ تاکہ ہمارا ذہن وہاں نہ جائے، صرف اس ٹائم سو جائیں ہم۔
جواب:
ٹھیک ہے اگر نیند آجائے تو آپ سو بھی سکتے ہیں اور اپنا درود شریف بھی جاری رکھیں، کیونکہ اگر وہ رکتے نہیں ہیں تو ان کے عمل کا آپ کے اوپر اثر نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کا پندرہ منٹ کا جو مراقبہ شیونات ذاتیہ ہے، اس میں آپ کیا تصور کرتے ہیں؟ یہ آپ نے نہیں بتایا، اس لئے اب مجھے بتا دیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم۔ حضرت! میں نے شناختی کارڈ بننے کے دوران جھوٹ بولا تھا کہ میں نے ماموں کو باپ بنا دیا تھا، اب اگر شناختی کارڈ درست کروں تو کچھ رکاوٹیں ہیں۔ حضرت! کوئی وظیفہ یا دعا بتائیں کہ وہ رکاوٹیں دور ہوجائیں اور شناختی کارڈ خیریت کے ساتھ درست ہوجائے۔
جواب:
اس کے لئے کسی جاننے والے ساتھی کے ساتھ رابطہ کرلیں کہ کس طریقہ سے بہتر ہوسکتا ہے، لیکن ٹھیک کرنا ضروری ہے، کیونکہ اپنا نسب تبدیل کرنا بہت خطرناک بات ہے۔
سوال نمبر 17:
حضرت! جو دوسری ذکر والی مجلسیں ہوتی ہیں، اس میں ہم شامل ہوسکتے ہیں؟
جواب:
اگر وہ صحیح مرشد ہے تو ٹھیک ہے، اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ مزید اس سلسلے میں آپ مشورہ کرسکتے ہیں کہ کون ہیں وہ؟
سوال نمبر 18:
حضرت! میرا سوال ذرا تصوف سے ہٹ کے ہے کہ میرے بھائی کی فوتگی ہوگئی تھی اور قل کے لئے پورے محلے کو کہا، تو میں آپ کے لئے بھی حاضر ہوا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ یہ شرع کے خلاف ہے، مگر مجھے نہیں پتا تھا، بس اس سلسلہ میں اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ کرتے ہیں۔
جواب:
اصل میں لوگ رواج سے مجبور ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایصال ثواب کے لئے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے، کسی بھی وقت ایصال ثواب ہوسکتا ہے اور ایصال ثواب اس طرح کرنا جیسے نمائشی انداز ہوتا ہے یعنی خواہ مخواہ سب کے سامنے کرنا یہ ٹھیک نہیں ہے، بلکہ بہتر ایصال ثواب یہ ہوتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ جیسے کسی مدرسہ میں پیسے دے دیئے یا کسی رفاعی کام میں پیسے دے دیئے یا جیسے آج کل سیلاب وغیرہ آیا ہوا ہے، ان لوگوں تک پیسے پہنچا دیں، پھر اس کا ثواب ان کو بخش دیں، تو یہ ایصال ثواب بہترین ہے۔
سوال نمبر 19:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
سِر پر تو آرہا ہے، لیکن ساتھ یہ بھی آپ تصور کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا تو آپ نے کرلیا کہ ان کا فیض آرہا ہے، مگر اب اللہ جل شانہٗ کی شیونات ذاتیہ کا کریں کہ ان فیض آرہا ہے۔ لہٰذا اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہونے کا تصور کیا کریں کہ اس کا فیض آرہا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ