اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرے مندرجہ ذیل اذکار کو تقریباً تین ماہ ہوگئے ہیں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہْ‘‘ آٹھ ہزار مرتبہ۔ پانچ منٹ کے لئے سوچنا ہے کہ اَللہ اَللہ میرے دل میں محسوس ہورہا ہے یا نہیں۔ حضرت جی عرض ہے کہ دل کی کیفیت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی محسوس نہیں ہوتی، جبکہ مجموعی طور پر ذکر کرتے ہوئے اڑھائی سال ہونے کو ہیں۔ آپ نے جوڑ پر حاضری کا ارشاد فرمایا تھا جو ممکن نہیں ہوسکا، اگر ممکن ہو تو آج ملاقات کا وقت عنایت فرما دیں۔ جَزَاکَ اللہُ خَیْراً۔ دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے۔
جواب:
کوئی خاص طریقہ سب کے لئے ایک جیسا نہیں ہوتا، ہر ایک کے لئے مختلف طریقہ ہوتا ہے، البتہ یہ ہے کہ مزاج اپنا اپنا ہوتا ہے اس کو پہچاننا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے مزاج میں لطائف والا ذکر نہیں ہے تو اس میں کوئی فکر کی بات نہیں ہے، آپ جو دوسرا ذکر کررہے ہیں، اسی سے اِنْ شَاءَ اللہ آپ کو فائدہ حاصل ہوگا۔ لہٰذا ابھی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہْ‘‘ نو ہزار مرتبہ کریں۔ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اس سے ہی فائدہ حاصل ہوگا۔ ضروری نہیں کہ سب کو لطائف دیئے جائیں، چشتیہ سلسلے میں لطائف کا یہ concept نہیں ہے جو سلسلۂ نقشبندیہ میں ہے، اسی طرح قادریہ میں اپنا ہے، سہروردیہ میں اپنا ہے، لہٰذا اس میں فکر کی کوئی بات نہیں۔
البتہ ملاقات کی جو بات ہے اس کے لیے آپ جوڑ پر تشریف لایا کریں، جوڑ پہ مناسب ہوتا ہے۔ ایک تو ہفتے کا دن اتوار کے دن کے ساتھ ملا ہوتا ہے، لہٰذا سب کے لئے آسان ہوتا ہے۔ تو آپ اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز اگلے جوڑ پہ آجائیں۔ ویسے اگر ہمارا کہیں جانا ہو تو اس کا اعلان ہوتا ہے، لہٰذا کوئی اعلان ہوچکا ہو تو آپ مجھ سے معلوم کرلیں، نہیں تو پھر بے شک آپ آجائیں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں فلاں کی زوجہ بات کررہی ہوں۔ حضرت جی آپ نے جو اذکار بتائے ہیں وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ باقاعدگی سے کررہی ہوں۔ حضرت جی مراقبہ مکمل نہیں ہوتا، مراقبہ کرتے وقت کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ مراقبہ چھوٹ جاتا ہے۔
جواب:
اس میں ایسا ہی ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان آپ کے علاجی ذکر پر ہی زیادہ attack کرے گا اور اگر آپ ثوابی ذکر بہت زیادہ بھی کرلیں تو شیطان کو اس کی اتنی پروا نہیں ہوتی، لیکن جو علاجی ذکر ہوتا ہے اس کی شیطان کو پروا ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو اس سے آپ کی اصلاح ہوتی ہے اور دوسرا فرضِ عین کا جو مقدمہ ہوتا ہے وہ بھی اسی کی طرح ہوتا ہے۔ چونکہ اپنے نفس کا علاج فرضِ عین ہے تو اس سلسلے میں اس کا مقدمہ بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے، اس لئے شیطان اس پہ زیادہ وار کرتا ہے، لہٰذا اپنے مراقبے کو آپ بہتر فرمائیں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! فیصل آباد سے ایک صاحب لکھ رہے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اس ماہ کا ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو اور ذکرِ خفی لطیفۂ قلب پہ دس منٹ، لطیفۂ روح پہ دس منٹ، لطیفۂ سِر پہ پندرہ منٹ۔ شیخِ محترم لطیفۂ سِر پر ذکر کرنے سے اس مقام پر بھی لطیفۂ قلب کی طرح دھڑکن vibration چبھن سی محسوس ہوتی ہے۔ لطیفۂ قلب، روح اور لطیفۂ سِر ایک ساتھ ایک ہی حرکت میں محسوس ہوتے ہیں۔ شیخِ محترم میں نے تقریباً ڈیڑھ سال اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ذکر میں کبھی ناغہ نہیں کیا، اپنے طور پہ توجہ سے ذکر کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ میں اور زیادہ کرسکتا تھا اور بہتر بھی ہوسکتا ہے، اپنے آپ سے کچھ دیر مطمئن ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ لوگوں سے سنا ہے کہ ان کو اچھے اچھے خواب آتے ہیں جس سے ان کا پتا چلتا ہے کہ اس سے مراد حاصل ہوئی ہے، مجھے اس سے کوئی خواب نہیں آتا ہے۔ کیا عمل کے بعد اللہ کی محبت کے علاوہ کسی بزرگ پر نظر رکھنا اور ان کے بارے میں سوچنا ٹھیک ہے؟
جواب:
خوابوں سے اپنے آپ کا اندازہ لگانا یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ خواب غیر اختیاری چیز ہے اور فیصلہ اختیاری چیز پر ہے۔ مثلاً ایک آدمی بہت ذہین ہے تو اس پر اس کو کتنا ثواب ملے گا؟ ظاہر ہے اس کو ذہانت کے استعمال پر ثواب ملے گا، ممکن ہے وہ ذہانت اچھائی کے لئے استعمال کرتا ہو، اگر برائی کے لئے استعمال کرتا ہے تو سخت سزا ہوگی اور اچھائی کے لئے استعمال کرے گا تو بہت اجر ملے گا۔ اسی طریقے سے خواب آپ کے کسی اچھے عمل کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے لیکن اس سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہے، اس پہ کوئی ثواب نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ خوابوں کے فکر میں نہ رہیں، نہ اس طرح کہ آپ اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگیں۔ اپنے آپ پر بدگمانی ہی اچھی ہوتی ہے، نیک گمان کرنا تو بڑا مسئلہ ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے کہا کہ حضرت کچھ ایسی چیز بتا دیجئے کہ اطمینان ہوجائے؟ فرمایا کیا بات کررہے ہو، کفر کا مجھ سے سوال کرتے ہو؟ اس زندگی میں تو اپنے اوپر اطمینان ہونا کفر کی بات ہے۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو سنبھالیے اور ان فکروں میں نہ پڑیں، جو ذکر کررہے ہیں اسی کو آگے بڑھائیں۔ باقی ذکر جو آپ کے دو سو، چار سو، چھ سو، پانچ سو وہ تو ہے ہی، لیکن لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح اور لطیفۂ سِر پہ دس دس منٹ کریں اور لطیفۂ خفی پہ اب پندرہ منٹ شروع کرلیجئے گا۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم! حضرت فلاں
From Bangladesh. حضرت thirty days past with the ذکر نفی اثبات hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ and hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ hundred times ‘‘حَقْ’’ and hundred times ‘‘اَللّٰہ اللہ’’. Although I missed a lot of days, I try to do the قضا. Exams are near. I am in need of your blessings.
I am not consistent with ذکر as I have to hide ذکر and عبادات from my parents and guardians. I have started منزلِ جدید and it immensly benefited me and it’s impact was also in my family. Some benefits are as follows;
No. 1: Fighting in the family especially between parents is reduced and stopped.
No. 2: I used to hear noises from where I don’t know which distracted me and now it is reduced.
No. 3: Relief from headache
No. 4: Sleep disability reduced.
Sheikh is it Ok if I visit other Ulemas and attend their ذکر محافل and listen their بیان until anything against sharia and عقائد ofاہلِ سنہ is visible among them? Some اصلاحی مجالس; I try to visit Engineer Professor Hameed ur Rahman خلیفہ of حضرت شاہ ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ. Hazrat is approximately one year old but still مجالس is held every Saturday and تفسیر is held in our mosque every Friday evening by امام صاحب son of مفتی اعظم مفتی نور اللہ رحمۃ اللہ علیہ one of the senior خلیفہ حضرت اقدس فدائے ملت سید اسعد مدنی رحمہ اللہ. Can I attend them also when تعلیم by تبلیغی brothers are held in mosque? I tried to sit with them or any Sharia permitted محفل. Is it ok?
جواب:
I think you should be very much consistent with ذکر because it is the path to اصلاح. Try to get more and more involved in this. So if you do it in a place where you have to hide it so you can do it in the form of لسانی ذکر but you should concentrate on words in real sense and with a slight ضرب on the heart. Just like ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ and ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ but with the slight voice but don’t miss it because it is a treatment and in treatment, one should not miss anything.
As far as the majlis of خلیفہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ is concerned you can visit him. It is not a problem and also join the تفسیر of امام صاحب. You can sit with تبلیغی حضرات in their مجالس but again I will tell you that you should be very much consistent with the ذکر اصلاحی because it is for اصلاح. One thing is knowledge. You can get it from anywhere but اصلاح will be only from one Sheikh. So if you have chosen one Sheikh then you should be very much attached to him. I think with you, the available means is only writing to me or doing this ذکر. So, try to do it as punctually as possible.
For the ذکر, you will do اِنْ شَاءَ اللہ ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ two hundred times ‘‘حَقْ’’ two hundred times and ‘‘اَللّٰہ’’ hundred time اِنْ شَاءَ اللہ. It will be for one month.
سوال نمبر 5:
بَارَکَ اللہُ فِیْکُمْ
My Sheikh of فقہ responds to me that it is fine to be with them in return if it is different from Christmas to wish them.
جواب:
As far as I am concerned I am considering this from the شعائر of other people. Maybe your Sheikh’s فقہ is thinking differently and I think you should not ask me these things again because you don’t follow me so try to follow him. It will be better for him. If you want to have some اصلاحی تعلق with me, try to ask those things which are for اصلاح from me. As far as فقہ is concerned you can ask him.
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت میں فلاں ہوں۔ اللہ آپ کو صحت وعافیت میں رکھے۔ علاجی ذکر کو ایک ماہ ہوگیا تھا، پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ پندرہ منٹ ملا ہوا تھا۔ حضرت جی قلبی ذکر بھی ٹھیک محسوس ہوتا ہے، کافی ہلکا محسوس ہوتا ہے، مراقبہ ٹھیک محسوس ہوتا ہے لیکن پھر بھی سمجھ نہیں آرہا ایک دن اس کا ناغہ بھی ہوگیا تھا، نیند کے باعث ایک دن فجر کی نماز قضا ہوئی۔ حضرت جی اس بات کا احساس مسلسل ہونے لگ گیا ہے کہ میں بہت بے صبری اور ناشکری ہوں، اللہ پاک کی ذات ہر ایک سے بے نیاز ہے مگر کوئی بھی کام اچھا یا برا ہو اس کو اللہ کی حکمت سمجھتی ہوں، خاوند کے دنیادار ہونے کی وجہ سے پریشانی بہت زیادہ رہتی ہے، پہلے وہ میرے کہنے پر نماز کی پابندی اور دین کی باتوں پر عمل کرنے لگ گئے تھے۔ اب میں ذرا بھی کچھ کہہ دوں تو خفا ہوجاتے ہیں۔ شاید اللہ پاک مجھ پر یہ بات کھول رہے ہیں کہ ہدایت اسی کے ہاتھ میں ہے، میرے یا کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ میرے ہاتھ میں دعا سے زیادہ کچھ نہیں، آپ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک آسانی کے ساتھ یہ معاملات حل فرمائیں، دلوں کو جوڑے رکھیں اور مجھے حکمت اور دین میں استقامت نصیب فرمائیں۔ نجی زندگی سے ہر وقت دل بے چین اور ڈرا ڈرا رہتا ہے، خاوند کی حد سے زیادہ فکر اور دوسرا میں خود خراب نہ ہوجاؤں اپنی اصلاح کی فکر قائم رکھ سکوں، اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کی یہ فکر مبارک فرمائیں۔ اپنی اصلاح کی فکر اور دوسروں کے بارے میں بہتری کا سوچنا یہ بڑی اچھی فکر ہے۔ البتہ جیسے آپ نے فرمایا کہ ہدایت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ پاک ہی ہدایت دے سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لئے اللہ پاک سے ہدایت کی دعا مسلسل کیا کریں، ان کی خدمت بھی بجا لایا کریں۔ ان کو براہِ راست نہ کہا کریں کہ یہ کام کریں، یہ کام کریں، بلکہ مذاکرہ کے طور پہ کہ لیا کریں کہ ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے۔ یہ مذاکرے والی لائن بہت زیادہ مفید ہوتی ہے، تبلیغی جماعت والے بھی یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ جب کبھی جماعت باہر سے ہو کے آتی ہے تو لوگوں کو یہ نہیں کہتے کہ آپ یہ کریں، آپ یہ کریں بلکہ اپنے واقعات سناتے ہیں۔ پھر اس کا اثر وہ لوگ محسوس کرلیتے ہیں۔ لہٰذا آپ بھی اس طرح کرلیا کریں۔ باقی آپ کو شیوناتِ ذاتیہ کا پندرہ منٹ کا جو مراقبہ ملا تھا اس کے بارے میں آپ مجھے بتائیں کہ آپ کی کیا کیفیت ہے اور آپ کو کیا محسوس ہورہا ہے؟ اس پر پھر میں آپ سے بات کروں گا۔
سوال نمبر 7:
محترم شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اور آخرت کی خوشیاں نصیب فرمائیں۔ حضرت اتنا عرصہ رابطہ نہ کرنے کی وجہ سے معافی کا طلبگار ہوں، آپ سے تعلق کو دس سال ہوگئے ہیں، لیکن اپنی کوتاہیوں سے وقت ضائع کردیا۔ حضرت میں اپنے حالات بہتر کرنے کے لئے دوبارہ کوشش کرنا چاہتا ہوں، اس کے لئے آپ کی دعا اور توجہ کا طلبگار ہوں۔ میرا اہم مسئلہ موبائل اور کمپیوٹر کا غلط استعمال ہے جس کی وجہ سے میرے دنیا اور آخرت کے کام متاثر ہیں، حتیٰ کہ میری ازدواجی زندگی بھی۔ کچھ دن پہلے میں نے کچھ ایسی چیزیں دیکھیں جس سے مجھے لگا کہ میں اپنا ایمان کھو بیٹھا ہوں، اس پر میں توبہ استغفار کررہا ہوں، تجدیدِ ایمان کی نیت سے دوبارہ کلمہ بھی پڑھا لیکن اس کے باوجود بھی اس سے جان نہیں چھڑا پا رہا، اس پر آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔ دوسرا میں ذکر دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کو چھوڑے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہے، میرا آخری ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘، ’’اَللّٰہ‘‘ دو سو، چار سو، چھ سو اور سو تھا۔ حضرت کیا مجھے تجدیدِ بیعت بھی کرنی چاہیے؟ حضرت آپ سے ایمان کی سلامتی اور خاتمہ بالایمان کی دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
بھائی صاحب ایک تو یہ ہے کہ آپ نے اس پر معافی مانگی ہے، اس سلسلے میں آپ نے میرا تو کوئی قصور نہیں کیا، اگر کوئی ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا اور اپنی بیماری بڑھا لیتا ہے تو کیا ڈاکٹر سے اس کو معافی مانگنی چاہیے؟ ظاہر ہے ڈاکٹر سے معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ اس نے ڈاکٹر کا تو نقصان ہی نہیں کیا، نقصان تو اس نے اپنا کیا ہے۔ ہاں البتہ اللہ پاک سے معافی مانگنی چاہیے، کیونکہ اس کی وجہ سے اللہ جل شانہٗ کے احکامات پر عمل نہیں ہوا، اس میں کچھ مسائل پیش آئے۔ یہ بات ضرور ہے کہ مَاشَاءَاللہ آپ کو اس کا احساس ہے، لہٰذا آپ اللہ پاک سے معافی مانگیں، دو رکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ندامت تو آپ کو حاصل ہے، چنانچہ اب اس چیز کو چھوڑیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آئندہ کے لئے اس کو نہ کرنے کا عزم کرلیں اور ایسے اسباب اختیار کریں کہ دوبارہ اس کو استعمال کرنے کی ضرورت نہ ہو اور جب آپ توبہ کرلیتے ہیں تو اس میں آپ کلمہ بھی پڑھ لیتے ہیں تو تجدیدِ ایمان تو ہو ہی جاتا ہے۔ باقی تجدیدِ بیعت کے لئے آپ پھر مجھے ٹیلی فون کرلیں، ٹیلی فون پر آپ کو بتا دوں گا۔ ٹیلی فون کرنے کی timings ہمارے ٹائم کے لحاظ سے دن کے وقت بارہ بجے سے ایک بجے تک ہے۔ اور جو ذکر آپ نے جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے شروع کرلیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘، اور ’’اَللّٰہْ‘‘ دو سو، چار سو، چھ سو اور سو مرتبہ تھا تو اس کو دو سو، چار سو، چار سو اور سو مرتبہ سے شروع کرلیں۔ باقی میں بھی دعا کرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں، بالخصوص تہجد کے وقت کی دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے، اس کی کوشش کرلیا کریں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم! شیخ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ
I completed reading your book with brother فلاں explaining it to me even though I could not translate it in Chinese language but through the explanation it made me have more understanding and got more knowledge then before about تصوف. I just want to share three important feelings.
No. 1: Doing the تصوف process is very important. No need to care about good feelings and bad feelings or sometimes even having no feelings. No need to care about it. We should inform our Sheikh and follow what Sheikh asks us to do.
No. 2: Nothing is important in this world but Allah is the greatest.
No. 3: After the explanation of the book, it made me have a deep understanding about obedience to Allah. Whatever Allah gives to us we just accept it with شکر whether it is good or not because Allah knows but humans don’t know this. These are my important feelings. Certainly I have some more feelings but I don’t want to disturb my Sheikh. اِنْ شَاءَ اللہ I will let you know in future Sheikh. Kindly let me know what I should do next? جَزَاکَ اللہُ خَیْراً
جواب:
Now you should try to translate it because the things you got from this book are to be communicated to other people, especially those Chinese brothers and sisters. So now you should try to start this and then discuss it with brother Faisal اِنْ شَاءَ اللہ he will guide you whether you are translating it right or not because you are the person of your language. So you can better translate it but he can’t understand what you translate whether it is correct because of the concept of the basic book he has. So I think you should now translate it and show it to him اِنْ شَاءَ اللہ he will inform you whether it is correct or it should be improved more.
سوال نمبر 9:
اَفْضَلُ الذِّکْر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ وَاَفْضَلُ الدُّعَا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ جو چیز ابھی حاصل نہیں ہوئی کیا اس کے لئے دعا کے طور پر یہ گمان قائم کرتے ہوئے کہ وہ مجھ پہلے ہی سے حاصل ہوچکی ہے، اس لئے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ پڑھنا تاکہ وہ حقیقت میں مجھے حاصل ہوجائے، کیا یہ درست ہوگا؟
جواب:
اَفْضَلُ الذِّکْر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ تو اصل میں بہت بڑی حقیقت ہے یعنی اللہ جل شانہٗ کی معرفت کی بنیاد ہے، اس وجہ سے اس کو اَفْضَلُ الذِّکْر کہا گیا ہے۔ یعنی انسان کو ہر وقت لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو خیال میں رکھنا چاہیے اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان تمام چیزوں سے کٹ جائے اور اللہ پاک کے ساتھ تعلق قائم ہوجائے، یعنی بنیادی طور پر صرف اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور جو دوسروں کے ساتھ تعلق ہے وہ اللہ کے لئے ہے۔ ایک ہوتا ہے ’’لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ پھر اس کے بعد ’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ پھر ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ تو ’’لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ میں عبادت صرف اللہ ہی کی کرنی ہے۔ تو اس میں ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ﴾ (الفاتحہ: 4) کا مفہوم ہے۔ تو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ میں عبادت صرف اللہ کی کرنی ہے، ایک تو یہ بات ہوگئی۔ ’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ یعنی اللہ ہی کو راضی کرنا ہے اور اللہ کو راضی کرنے کے لئے سب کچھ کرنا ہے، تو ’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ اس کے لئے ہے۔ اور ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ میں انسان کے اوپر یہ حالت طاری ہوسکتی ہے کہ انسان دوسرے کے بارے میں سوچ ہی نہ سکے، کیونکہ اس کے اوپر اللہ جل شانہٗ کی موجودگی کا خیال اتنا زیادہ طاری ہو کہ باقی سب چیزوں کو بشمول خود اپنے آپ کو وہ غائب پائے یعنی اس کی طرف توجہ ہی نہ ہو۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا نفس چونکہ ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس کو اللہ پاک سے دور کرتا ہے تو اللہ پاک کی طرف کوئی توجہ کرنا بھی چاہے تو نفس نہیں کرنے دیتا، لیکن یہ سلسلہ جب ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہ‘‘ تک پہنچتا ہے تو پھر نفس کی تمام چیزیں غائب ہوجاتی ہیں اور اللہ جل شانہٗ کی سب چیزیں رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی کوشش بھی کرے تو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، یہ اس وجہ سے منتہی کی حالت ہے۔ اور ’’اَفْضَلُ الدُّعَاءِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ یہ میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، مثلاً جب کسی سخی کو کہہ دیں کہ اے سخی۔ تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یہی مطلب ہوتا ہے کہ میری کچھ مدد فرما دے۔ اسی طرح اگر آپ کسی کو کہہ دیں اے کریم شخص! تو اس کا مطلب ہے کہ میرے ساتھ بھی کچھ کرم کریں۔ اگر آپ کسی کو عالِم کہہ دیں تو اس کا مطلب ہے کہ میں آپ کے علم سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ جس وقت آپ ان تمام صفات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں، تو اب یہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعریف اگر کی جاسکتی ہے تو صرف اللہ کی کی جاسکتی ہے یعنی اللہ کی ذات کی کی جاسکتی ہے اور جب آپ صرف اللہ کی ذات تک تعریف کو منحصر سمجھتے ہیں تو پھر یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ جل شانہٗ سے آپ نے سب کچھ مانگ لیا۔ کیونکہ سب کچھ اللہ پاک کے پاس ہے اور آپ نے اس کی ہر چیز کی تعریف کردی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے سب کچھ کی درخواست کردی، لہٰذا یہ بہترین دعا ہے۔ چنانچہ اس کو بہترین دعا اس لئے کہا گیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ شکر کے ضمن میں بھی آتا ہے:
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔
یعنی جس چیز پر بھی آپ شکر کریں گے وہ اللہ تعالیٰ بڑھا دیں گے، تو اس وجہ سے بھی بہترین دعا ہے۔ باقی انسان اپنے بارے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے فلاں چیز حاصل ہوئی، کیونکہ اپنی سوچ ناقص ہے، لیکن اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیے، اس لحاظ سے انسان اللہ پاک سے امید رکھ سکتا ہے کہ مجھے بھی عطا فرما دے گا۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو نصیب فرمائیں۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم! حضرت جی میرا ذکر دو ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ زبان پر، تین مرتبہ آیت الکرسی، تیس منٹ کا مراقبہ دل پر، مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ دل میں تھوڑی دیر کے لئے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے، آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ٹھیک ہے مَاشَاءَ اللہ۔ ابھی دو ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہْ‘‘ زبان پر، تین مرتبہ آیت الکرسی کو رکھیں اور اگر آپ کو دل پر تھوڑا تھوڑا اثر محسوس ہونے لگا ہے تو اسی کو جاری رکھیں تاکہ تیس منٹ پورے اس کا اثر شروع ہوجائے اور آپ کو ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہونا شروع ہوجائے، یہ ایک مہینہ اور بھی کرلیں اِنْ شَاءَ اللہ۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم! حضرت آپ نے جو اذکار دیئے تھے ان کو ایک مہینے سے زائد ہوچکا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے تین ہزار اور اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ لیکن حضرت محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
بالکل کوئی بات نہیں اِنْ شَاءَ اللہ آپ کو محسوس ہونے لگے گا اور اس سے نہ بھی ہو تو یہ جو آپ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر کررہی ہیں یہی اِنْ شَاءَ اللہ راستہ بنائے گا۔ تو ابھی آپ دو سو، چار سو، چھ سو اور چار ہزار مرتبہ، یہ ایک مہینے کے لئے شروع فرما لیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی اللہ پاک سے دعا ہے آپ سلامت رہیں، اللہ پاک ہمیں آپ کا ذوق نصیب فرمائے، آمین۔ حضرت جی میرے ذکر کی ترتیب یوں ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘ چار سو، ’’اَللّٰہُ اَللّٰہْ‘‘ چھ سو اور پانچ سو زبان سے خفی طور پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ لطیفۂ سِر پر مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ ہے۔ حضرت جی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ذکر اچھا ہورہا ہے لیکن کوشش کے باوجود مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ میں ناغہ ہوا ہے، وہ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ ذکر کرتے کرتے سو گیا تھا۔ حضرت جی اب دل کسی سے متاثر نہیں ہوتا نہ کسی بڑے گھر اور گاڑی وغیرہ یا کسی بڑے عہدے سے، دنیا سے بے رغبتی ہورہی ہے، خوشی بھی عارضی لگتی ہے اور یہ بھی مجھے پروا نہیں کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے، اب لباس کی بھی زیادہ فکر نہیں ہوتی، پہلے تو brand کے پیچھے بھاگتا تھا، بس اب اللہ پاک کافی ہے، نہ کوئی نئی چیز لینے کا دل کرتا ہے۔ گھر میں فضول رسم ورواج سے دل کو بہت تکلیف ہوتی ہے، جیسے خاندان میں کوئی شادی آجائے تو مہندی پر گھر والوں کی تیاری دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کیا کررہے ہیں، کھانے کا شوقین ہوں اس سے ابھی دل نہیں بھرا، دل کرتا ہے اچھی سے اچھی چیز کھاؤں۔ اس کا کیا کروں؟ آپ رہنمائی فرما دیں۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ! بہرحال اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ نے اپنے لئے خود ہی مجاہدہ تجویز کروا دیا اور وہ یہ ہے کہ ذکر تو آپ یہی کریں، ہاں مراقبے میں ناغہ بالکل نہ کیجئے گا اور یہ بات یاد رکھیں کہ نفس کی خواہش صحیح بھی ہو پھر بھی اس کی زیادہ چاہت مناسب نہیں ہوتی، انگریز لوگ بھی کہتے ہیں: Excess of everything is bad تو ہر چیز کی افراط ٹھیک نہیں ہوتی اور کھانے کے لحاظ سے تو یہ بات ہے کہ اگر اس میں افراط ہوجائے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس وجہ سے جس چیز کو بہت جی چاہے تو اندازہ کریں کہ اس کو آپ کتنا چاہتے ہیں؟ جتنا کھانا چاہتے ہیں اس سے آدھا کھائیں اور آدھا نہ کھائیں۔ فی الحال آپ اسی کو ہی رکھیں پھر اِنْ شَاءَ اللہ ایک مہینے کے بعد مجھے بتائیں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم! حضرت جی اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے اوپر قائم رکھیں اور آپ کے علم، صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائیں آمین۔ حضرت جی پہلے ایک مہینے میں میرے معمولات کچھ ایسے تھے کہ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے دو تین فجر کی نمازیں قضا ہوئیں جن کے روزے رکھ لیے تھے۔ اس مہینے ذکر میں ناغہ تو نہیں ہوا لیکن میرا ذکر میں دل نہیں لگتا، دل دنیاوی خیالات میں گم رہتا ہے اور جہری ذکر کے بعد جب دس منٹ کے لئے مراقبہ کرتا ہوں تو توجہ کے باوجود بار بار خیالات میں کہیں سے کہیں چلا جاتا ہوں۔ میرا ذکر پچھلے تقریباً ایک ماہ سے یہ ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو، ’’حَقْ‘‘ چھ سو، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو، ’’اَللّٰہ‘‘ کا تصور دس منٹ۔ حضرت ان معاملات میں مزید آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
شکر ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ آپ نے قضا نمازوں کے روزے رکھ لیے اور آئندہ کے لئے فجر کی نماز بالخصوص اور ساری نمازوں میں بالکل قضا ہونے کا تصور بھی نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ نماز کے بارے میں تو اللہ پاک کا special حکم ہے۔ جیسے کہتے ہیں:
روزِ محشر کہ جاں گداز بود
اولیں پرسشِ نماز بود
سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا، لہٰذا نماز کسی وجہ سے بھی قضا نہیں ہونی چاہیے۔ باقی سستی کے باوجود ذکر کرنا یہ مجاہدہ ہوتا ہے اور مجاہدہ پہ اجر ہے اور اس پہ انسان کو اثر یعنی فائدہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے خیالات ادھر ادھر چلے بھی جاتے ہیں تو آپ ان خیالات کی طرف نہ جائیں بلکہ آپ بس ذکر کی طرف توجہ کریں، ان خیالات کے ساتھ لڑیں نہیں، البتہ ذکر کی طرف لوٹ کے آجائیں۔ اور ’’اَللّٰہ‘‘ کا تصور اب دس منٹ کے بجائے پندرہ منٹ کریں باقی چیزیں فی الحال یہی رکھیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! جس شخص کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت نصیب نہ ہو تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی ہے؟
جواب:
نہیں بالکل نہیں، غیر اختیاری چیزوں پر کوئی گرفت نہیں ہے، یہ ہمارے سلسلے کی special بات ہے کہ اختیاری اور غیر اختیاری کی تمیز سکھائی گئی ہے۔ جو غیر اختیاری ہوتا ہے اس پہ اللہ پاک کوئی گرفت نہیں کرتے اور اس پہ کوئی اجر بھی نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے آپ اس کے بارے میں بالکل بھی ذہن میں کوئی ایسی بات نہ لائیں کہ اس پر کوئی کمی ہوگی، اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو خوب جانتا ہے، اس کو اللہ پہ چھوڑ دینا چاہیے۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نمبر 1:
چالیس دن کا ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا کرلیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔
جواب:
سُبْحَانَ اللہ! اب ان کو تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور دس منٹ کے لئے دل والا ذکر دے دیجئے گا۔
نمبر 2:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو چاروں لطائف پر دس منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ یعنی پانچواں لطیفہ، اس کا پندرہ منٹ بتا دیں۔
نمبر 3:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ پندرہ منٹ، اس مراقبے سے صبر بڑھ گیا ہے۔ پہلے بچوں کی بہت مسرت تھی اور بہت بددعائیں بھی دیتی تھی، اب بچوں کو کچھ نہیں کہتی اور دل کا اطمینان بھی بہت بڑھ گیا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ۔
جواب:
مَاشَاءَ اللہ ٹھیک ہے۔ اب اس طرح کریں کہ تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ کا ذکر جاری رکھیں اور مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ کے بجائے اب مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ کا ان کو بتا دیجئے گا۔
نمبر 4:
لطیفۂ قلب دس منٹ یہاں تک کیا تھا کہ پھر سر درد کی تکلیف ہونے سے ذکر چھوڑ دیا تھا، اب دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے ان کو دوبارہ بتا دیں۔
نمبر 5:
ہزار مرتبہ لسانی ذکر، اس نے بھی ذکر چھوڑ دیا تھا، دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے اب ان کو دوبارہ شروع کرا دیں۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! درود شریف پچانوے ہزار مرتبہ ہوا آپ کی برکت سے، اس میں ساتھ دو لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کے اس درود شریف پڑھنے کو قبول فرمائیں اور آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کا ذریعہ بنا دیں۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی میرا موجودہ ذکر مندرجہ ذیل ہے۔ دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے پانچ ہزار، اس کے علاوہ پانچ منٹ ’’اَللّٰہ‘‘ کا تصور قلب پر جو کہ محسوس نہیں ہورہا، ایک مہینہ ہوگیا ہے۔
جواب:
ابھی دو سو، چار سو، چھ سو اور چھ ہزار کرلیجئے اور ساتھ پانچ منٹ ’’اَللّٰہ‘‘ کا تصور۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! محترم حضرت جی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ آپ کی ہدایت کے مطابق مندرجہ ذیل ذکر مکمل ہوا ہے: دو سو، چار سو، چھ سو اور ہزار، پانچ منٹ کے لئے یہ تصور کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ احوال ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنے کے متعلق ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی آواز ذہن میں گونجتی ہے، جیسے کوئی بات سنی جارہی ہو تو کچھ دیر کے لئے ذہن میں گونجتی رہتی ہے یا بعض گشت محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کبھی آواز سنائی دیتی ہے، کیا ایسے ہی یا کچھ اور؟
اس بار بھی چند ایک ناغے ہوئے ہیں، آپ سے پہلے بھی ذکر کیا کہ میں بہت کوشش کے ساتھ routine بناتا ہوں لیکن پھر کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سب درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اس بار والد صاحب سے بہت لڑائی ہوئی ہے، اب خیر میں نے ان سے معافی مانگ کر معاملہ ٹھیک کرلیا ہے، اس پر مجھے اپنی زبان پر قابو نہ رہا، اس سلسلے میں آپ کو فون کیا تھا، لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے بات نہیں کرسکا، بہت رنج وغم کیا۔ بس اللہ کے کرم سے کوئی نماز قضا نہیں ہوئی، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کر پایا۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے، ایسے موقعوں پر اپنے آپ کو کیسے سنبھالا کروں؟ تاکہ اگر طبیعت کے خلاف بھی کچھ ہو تو جو کرنے کے کام ہیں وہ کرتا رہوں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اپنا فیض نبی کریم ﷺ سے آپ تک پہنچائیں اور آپ سے مجھ تک۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ آپ کو اپنی حفظ وامان میں رکھیں۔ لکھنے میں کمی بیشی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
جواب:
فی الحال آپ اس طرح ہی کرلیجئے گا اِنْ شَاءَ اللہُ الْعَزِیْز آہستہ آہستہ دل میں بھی اتر جائے گا اور ذکر میں جو ناغہ ہوا ہے اس سے بچنے کی بہت کوشش کریں، کیونکہ اصلاحی ذکر میں ناغہ بہت پیچھے لے جاتا ہے۔ باقی جو عین وقت پہ صبر کرنا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو control کرنا ہوتا ہے، یہی تو چیز ہے جس کو حاصل کرنا ہے۔ ایک ہوتا ہے Short term اور ایک ہوتا ہے Long term اصلاح، Short term اصلاح تو یہ ہے کہ جب کسی کو کسی چیز پر غصہ آئے تو اگر بڑا ہے تو خود اپنی جگہ کو چھوڑ دے اور اگر چھوٹا ہے تو اس کو اپنی جگہ سے دوسری جگہ لے جائیں اور اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کر دیں۔ اور Long term یہ ہے کہ اپنے نفس کا علاج یعنی اصلاح ہوجائے تو پھر یہ چیزیں نہیں آتیں۔ لہٰذا مَاشَاءَ اللہ آپ کو فکر ہے اللہ تعالیٰ اس فکر کی برکت سے آپ کی اصلاح فرما دے گا اور توبہ استغفار بھی آپ نے کیا ہے اور ساتھ والد صاحب سے معافی بھی مانگی ہے تو اللہ جل شانہٗ آپ کے اس گناہ کو معاف کردیں، والدین کا بڑا حق ہوتا ہے، اللہ پاک آپ کو ان کے ساتھ سلامتی سے وقت گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت جی معمولات پر اللہ نے استقامت عطا فرمائی۔ میرا اللہ کے فضل سے اور آپ کی تربیت کی برکت سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ معمولات میں ناغہ نہیں ہوتا۔ ذکر: حضرت جی میرا ذکر ایک مہینے کے لئے دو سو، چار سو، چھ سو اور نو ہزار اور پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ کہ دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنا اور نماز کے بعد ایک سانس میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پچھتر مرتبہ اللہ کے فضل سے آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔ نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ ابھی جاری ہے، دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ فی الحال محسوس نہیں ہوتا، میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
ابھی اِنْ شَاءَ اللہ آپ ساڑھے نو ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں، باقی چیزیں یہی رکھیں اِنْ شَاءَ اللہ اللہ پاک مدد فرمائیں گے۔ بہرحال ساتھ ساتھ آپ کا ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اسمِ ذات کا جو ذکر بڑھ رہا ہے اس سے بھی مَاشَاءَ اللہ فائدہ ہورہا ہے۔
سوال نمبر 20:
حضرت ایک تو یہ عبادت ہوتی ہے جیسے نماز، روزہ، نفلی عبادات وغیرہ، اس میں بعض اوقات زیادہ تقویٰ محسوس ہوتا ہے اور معاملات میں بعض اوقات کمی محسوس ہوتی ہے، جبکہ بعض دفعہ کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا پھر بھی کمی محسوس ہوتی رہتی ہے اور عبادت پر زیادہ تسلی ہوتی ہے کہ یہ ٹھیک ہورہی ہے۔
جواب:
اصل میں معاملات کا معاملہ حقوق العباد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں انسان کو زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی کا کچھ رہ نہ جائے، تو اس میں تو کوئی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ معاف کرے گا بہت کم Rare chance ہوتا ہے کہ کوئی معاف کرتا ہے۔ لیکن اللہ پاک کی معافی کے بارے میں دل میں ذرا خیال ہوتا ہے کہ اگر حقوق اللہ میں کوئی بات ایسی رہ گئی ہوئی تو اللہ پاک بہت کریم ہیں معاف فرما دیں گے۔ اس وجہ سے ایک شعوری تسلی انسان کے ذہن میں موجود ہوتی ہے، ورنہ صحیح بات ہے کہ ڈرنے کی بات تو یہ زیادہ ہے، کیونکہ اللہ جل شانہٗ کی عبادت کا کوئی حق ادا نہیں کرسکتا، وہ تو اللہ کی ذات اتنی بڑی ہے کہ ہماری کوئی چیز بھی اس کے لئے ضروری نہیں ہے۔ میں آپ کو صاف بات عرض کرتا ہوں کہ ہم جب زبان سے کہتے ہیں: ’’اللہ‘‘۔ تو یہ ذکر ہے، اور ذکر ہم کررہے ہیں، چنانچہ ایک سوچ تو یہ ہے کہ ہم نے ذکر کیا اور اس پر خوش ہوگئے اور ایک سوچ یہ ہے کہ ہماری زبان کتنی ناپاک زبان ہے اور اس سے ہی اللہ پاک نے ہمیں اللہ کا نام لینے کی اجازت دی ہے، یہ اللہ پاک کا کتنا کرم ہے ورنہ اس زبان کے ساتھ ہم کیسے اللہ کا نام لے سکتے ہیں۔ ہمارے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر میرے جسم کے ہر بال کے ستر منہ ہوجائیں اور اس میں ستر ستر زبانیں ہوں اور اس کے ساتھ میں اللہ کا ذکر کروں تو اس کا شکر کیسے ادا کروں گا کہ اللہ نے اتنی زبانیں دی ہیں۔ یعنی ہونا تو یہ چاہیے لیکن انسان کو اللہ پاک سے زیادہ معافی کی امید ہوتی ہے اس لئے زیادہ محسوس نہیں ہوتا اور معاملات میں چونکہ لوگوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے اس وجہ سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
سوال نمبر 21:
عبادت کا ٹھیک ہونا ایک علیحدہ چیز ہوتی ہے۔ ایک اس میں کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ ویسے خشکی سی محسوس ہوتی ہے، بندہ کہتا ہے میں ویسے لگا ہوا ہوں پتا نہیں یہ کسی اور معاملے کی وجہ سے اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب:
دیکھیں! دو باتیں ہیں، اللہ کے ساتھ تو ہمیشہ حسنِ ظن رکھنا چاہیے اور اپنے اعمال کے ساتھ سوءِ ظن رکھنا چاہیے، یہ دو confirm باتیں ہیں، یہ ترقی کا راستہ ہے۔ کیونکہ اللہ جل شانہٗ کا کرم اتنا زیادہ ہے کہ اس کے سامنے ہماری کوئی کمی کچھ بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے وہ تو ہر ایک چیز معاف کرسکتا ہے لیکن بس یہاں پر ایک احتیاط کرنی چاہیے کہ اگر ہم اپنے بارے میں اتنا سوچتے ہیں تو دوسروں کے بارے میں بھی سوچیں کہ اللہ پاک ان کو بھی معاف کرسکتے ہیں، ہمارا ترازو اپنی طرف ہی جھکتا ہے کہ اپنے بارے میں تو ہم امید کرلیتے ہیں کہ اللہ ہمیں معاف کردے گا لیکن دوسرے کے بارے میں یہ نہیں ہوتا، ان کے بارے میں سخت ہوتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو سب کے ساتھ ایک جیسا ہے اور اپنے عیوب انسان کو confirm نظر آتے ہیں، پتا چلتا ہے کیونکہ اس نے خود کیے ہیں یعنی اپنی چیزیں حضوری کیفیت والی ہیں اور دوسروں کی چیزیں سماعی کیفیت کی ہیں۔ تو اس کو اس رنگ میں لینا چاہیے تاکہ اللہ پاک سے اپنے لئے جو ہمارا حسنِ ظن ہے دوسروں کے بارے میں بھی وہی حسنِ ظن ہونا چاہیے، تو پھر یہ بہت کام دیتا ہے۔ باقی جو ہمارے اعمال ہیں ان کے ساتھ تو سوءِ ظن ہی رکھنا چاہیے لیکن اللہ پاک سے دعا کرنی چاہیے کہ اس کو قبول فرما دے اور صحیح اعمال کی جگہ اس کو قبول فرمائیں۔
سوال نمبر 22:
یہ جو حسنِ ظن والی بات ہے کبھی کبھی یہ حسنِ ظن بہت آگے چلا جاتا ہے، جیسے ایک بے نمازی آدمی اور بے احتیاطی کی زندگی گزارنے والا اس کے بارے میں خیال آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ بھائی یہ تو سادہ آدمی ہے، اس کے پاس علم نہیں ہے۔
جواب:
یہ ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، دوسروں کے بارے میں اچھا ہی گمان رکھنا چاہیے۔ لیکن اچھے گمان کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں شریعت کا احترام باقی نہ رہے، شریعت کا احترام تو رکھیں گے، اس کے لئے ہم یوں کریں گے کہ شریعت کی طرف ان کو بلائیں گے اور ان کے لئے راستہ بنائیں گے لیکن End result یعنی فی المعاد ہم سمجھیں گے کہ اللہ پاک سب کو معاف کرسکتے ہیں تو اس کو بھی معاف کرسکتے ہیں۔ اس وجہ سے میں ان کے ساتھ بدظنی نہیں کرتا، لیکن چونکہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ یہ کام ہمیں کرنے چاہئیں۔ لہٰذا اگر یہ نہیں کررہا اور میرے بس میں ہے کہ میں اس کو بتاؤں، جیسے خطیب ہونے کے لحاظ سے آپ کی ذمہ داری ہے۔ تو پھر اس کی طرف ان کو بلانا چاہیے۔
سوال نمبر 23:
محلے میں جہاں پہ ابھی ہم shift ہوئے ہیں، وہاں ساتھ جو مسجد ہے وہاں میں نماز پڑھتا ہوں، اس امام صاحب کی تلفظ کی کافی غلطیاں ہیں یعنی بعض الفاظ کو دوسرے الفاظ کے ساتھ بدل دیتے ہیں، مثلاً ’’ض‘‘ کو وہ ’’د‘‘ ہی پڑھتے ہیں اور یہ بالکل واضح ہوتا ہے۔ اور آج کل تو حالات ایسے ہیں کہ بات کرتے ہوئے بھی دیکھنا پڑتا ہے، پھر نئے آدمی کو ذرا احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ اس کی کیا صورت اختیار کرنی چاہیے؟
جواب:
اصل میں یہ معاملہ تو فتوے کا ہے، فتویٰ جس حد تک گنجائش دیتا ہے اتنی گنجائش دینی چاہیے، اس سے زیادہ نہیں دینی چاہیے۔ کیونکہ اس میں دوسرے لوگوں کی نمازوں کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اگر گنجائش ہو تو ٹھیک ہے اور اس گنجائش پہ اس کو رکھنا چاہیے اور اگر گنجائش نہ ہو تو پھر ان کو بتانا چاہیے، اگر خود نہ بتائیں تو کسی اور کے ذریعے سے بتائیں، کیونکہ اس میں دوسروں کی نمازیں شامل ہیں۔ (سائل) ’’ض‘‘ کو بالکل ’’د‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ (جواب) آپ اس طرح کرلیں کہ ان کی recording کرلیں اور پھر یہ کریں کہ اگرچہ خود آپ کو ان ساری چیزوں کے علوم ہیں لیکن اپنے آپ سے ہٹانے کے لئے کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیں جو ان چیزوں کا ماہر ہو، پھر جو فیصلہ ہو وہ کسی کے ذریعے سے ان تک communicate کیا جائے، یہ مناسب ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ