اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ حضرت! میں بہت طویل عرصے کے بعد آپ سے رابطہ کررہا ہوں، لیکن آپ کے بیانات میں باقاعدگی اور اہتمام سے سنتا ہوں، کسی اور کے اصلاحی یا تبلیغی بیانات نہیں سنتا، مجھے سب کچھ اَلْحَمْدُ للہ! آپ سے مل رہا ہے، معمولات کا چارٹ بھی send کرتا ہوں، لیکن حضرت! میں رابطہ اور احوال میں بہت غافل رہتا ہوں، آپ نے پچھلے سال جو مجھے ذکر دیا تھا، وہ میں تقریباً دو مہینے پہلے تک کررہا تھا، لیکن اس میں بھی ناغے ہوجاتے تھے۔ ابھی دو مہینے سے بالکل نہیں کررہا، وہ اس وجہ سے کہ صرف میرے اپنے time کی mismanagement ہے۔ معمولات کبھی کبھی بہت اچھے ہوتے ہیں، کبھی بالکل چھوٹ جاتے ہیں، استقامت نہیں ہے۔ حضرت! آخری بار آپ نے فرمایا تھا کہ ابھی ذکر سے پہلے قضا نمازوں کے روزے رکھوں، کیونکہ نفس مسئلہ کررہا ہے، تو ان نمازوں کے روزے میں نے پورے کر لئے تھے۔ آخری ذکر جو آپ نے دیا تھا وہ یہ تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ۔ حضرت! اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
دیکھیں! اللہ جل شانہٗ نے جس چیز کا مطالبہ کیا ہے اور جس چیز پر بہت بڑا وعدہ کیا ہے، وہ استقامت ہے، چنانچہ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ1: ’’(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔
اس وجہ سے استقامت کا ہونا بہت ضروری ہے، آپ اس کو ذرا تھوڑا سا ایک اور چیز کے ساتھ link کرلیں کہ یہ جو روحانی بیماریاں ہیں، ان کا معاملہ بھی جسمانی بیماریوں کی طرح ہوتا ہے یعنی جیسے جسمانی بیماریوں کا علاج لازمی ہوتا ہے کہ اس وقت کھانے پینے کو تو sacrifice کیا جاسکتا ہے، لیکن دوائیوں میں sacrifice نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ لازم ہوتی ہیں، اگر وہ نہیں کھائے گا تو مرض لاعلاج ہوسکتا ہے، مزید بڑھ سکتا ہے، بہت سارے کام کسی کے رہ سکتے ہیں، اس وجہ سے علاج کے سلسلہ میں بہت زیادہ انسان کو محتاط رہنا پڑتا ہے۔ اب چونکہ آپ میں علاج کے بارے میں ہی استقامت نہیں ہے، کیونکہ آپ نے جتنی بھی مجھے سستیوں کی تعریف بتائی ہے، وہ سب علاجی اذکار میں ہیں اور یہ بہت بڑا نقصان ہے، جو آپ کو ہو رہا ہے، اس میں میں بتاؤں یا نہ بتاؤں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن نقصان ہو رہا ہے، بتانے کا صرف یہ فائدہ ہے کہ آپ نقصان سے اپنے آپ کو بچا لیں، کیونکہ اگر میں نہ بھی بتاؤں تو نقصان تو کم نہیں ہو رہا، نقصان تو زیادہ ہوگا۔ باقی ذکر تو ابھی میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اب آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ کرلیں، لیکن اپنے آپ کو پابند کرلیں، کوئی وقت ایسا مقرر کرلیں، جس میں پھر کچھ بھی ہوجائے مگر یہ نہ چھوڑیں۔ جیسے ایک جنرل صاحب بیعت ہوئے تھے، تو چونکہ آرمی آرمی ہوتی ہے، ان کا اپنا ایک discipline ہوتا ہے، وہ مجھے بتانے لگے کہ جو وقت میں نے آپ کے اس کام کو دیا ہے، اس میں اگر کوئی بھی آجائے تو میں کہتا ہوں sorry، یہ کام میں نے کرنا ہے، یہ میں نے وقت پہلے سے کسی کو دیا ہوا ہے، تو میں کسی طور پہ بھی اس پہ compromise نہیں کرتا۔ لہٰذا پھر اللہ پاک نے اس کو بہت جلدی جلدی فائدہ عطا فرمایا۔ اور یہ ہوتا ہے کہ جو بھی اس کام کے ساتھ sincere ہو اور اس میں انتظام کے ساتھ چلے، استقامت کے ساتھ چلے تو اس کو بہت جلدی فائدہ ہوتا ہے، ورنہ پھر مدتیں گزر جاتی ہیں اور ایسے ہی انسان رہتا ہے۔ اس لئے آپ بھی اب توبہ کرلیں اور آئندہ کے لئے بالکل سستی نہ کریں، سستی کا علاج چستی ہے، بس اب یہ جو ذکر ہے، اس کو پابندی کے ساتھ کرلیں اور پابندی کے ساتھ مجھے مہینے میں اس کی اطلاع دے دیا کریں۔ دیکھیں! اتنا عرصہ آپ نے ضائع کرلیا، اس کا نقصان کس کو ہوا؟ یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ یہ بات مجھے کافی عرصے کے بعد سمجھ آئی کہ پچھلے کچھ برس سے میں نے غلط دوستی میں وقت گزارا ہے، مگر گھر کا ماحول دینی تھا، اس لئے اَلْحَمْدُ للہ! مجھے اللہ نے بچا لیا اور اب میرے کافی دوست چھوٹ گئے ہیں، مگر ایک دوست ابھی بھی ہے، جو کالج میں میرے ساتھ ہوتی ہے، ہماری دوستی پانچ چھ سال پرانی ہوگئی ہے، مگر اب چونکہ مجھے غلط صحبت کا اثر سمجھ میں آگیا ہے، اس لئے میں اسے چھوڑنا چاہ رہی ہوں، اگرچہ میں اس کے ساتھ غلط کام میں شریک نہیں ہوتی، مثلاً موسیقی، ہلا گلا وغیرہ میں، مگر پھر بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ وقت گزارنا مجھے اللہ سے دور کردے گا۔ مگر میرا اس کے علاوہ کوئی اور دوست نہیں ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ میں اس کو کیسے چھوڑ دوں؟ جبکہ کالج میں میرا اس سے آمنا سامنا لازمی ہے، کیا اس کے ساتھ محض وقت گزارنا رکھوں کہ دل سے دوست تو سمجھنا غلط ہے یا اگر میں اس طرح دوستی ختم کرنے کا کہہ دوں تو ٹھیک ہے یا مجھ پر ابھی تک دین پہنچانے کی ذمہ داری ہے؟ رہنمائی کیجئے۔
جواب:
کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو بچانا ہے، پھر دوسرے کو بچانا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آپ جہاز میں کبھی سفر کرچکی ہوں تو اس میں ایک announcement ہوتی ہے کہ اگر جہاز میں pressure کم ہوجائے تو mask آپ کے سامنے گر جائے گا اور اگر آپ کے پاس کوئی infant ہے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو mask لگائیں، پھر اس کے بعد infant کو لگائیں، کیونکہ اگر آپ نے اس کو لگایا اور اس دوران میں آپ خود بیہوش ہوگئے تو وہ بھی گیا اور آپ بھی گئے اور اگر آپ نے اپنے آپ کو لگایا تو کم از کم آپ تو بچے ہوں گے، تو اس کے لئے کچھ کرلیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے، ورنہ پھر جو اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا وہ دوسرے کو کیا بچا سکتا ہے، اس لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو بچانا ہے اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے جس چیز سے آپ کو نقصان ہے، اس سے اپنے آپ کو چھڑانا ہے۔ باقی ایسی صورت میں اس دوست کے ساتھ زیادہ وقت نہ گزاریں، اعلان نہ کریں کہ میری دوستی آپ کے ساتھ ختم ہے، لیکن آپ اس کے ساتھ زیادہ وقت نہ گزاریں، صرف باقی لوگوں کے ساتھ جیسے علامتی ملاقات ہوتی ہے اور پھر آپ اپنے کام میں مصروف ہوجاتی ہیں، بس اسی طرح آپ رہیں اور ان کے ساتھ وقت نہ گزاریں اور اگر وہ کسی طرف لے جانا چاہے تو آپ اپنے کام کا بتا کر کہ میرا فلاں کام ہے اس سے اپنے آپ کو چھڑا لیا کریں۔ اس طریقے سے بغیر کسی ہلا گلا کے ان شاء اللہ العزیز! آپ اس سے چھوٹ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے بری صحبت سے بچنے کی۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں فلاں ہوں لاہور سے اور فلاں صاحب کے ذریعہ سے آپ کے پاس آتا تھا۔ شاہ صاحب! میں آپ سے پہلے مسلسل رابطہ میں تھا، پھر میری life میں کچھ ایسی Family tragedy ہوئی، جس وجہ سے میں بہت disturb ہوگیا تھا اور ذکر وغیرہ نہ کرسکا تھا۔ kindly مجھے دوبارہ start کرنا ہے۔ میں نے ذکر تقریباً چار پانچ مہینے سے نہیں کیا اور میں نے چالیس دن والا complete کرلیا تھا۔ kindly آپ دعا کریں اور مجھے دوبارہ بتا دیں۔ باقی درود پاک میرا continue ہے daily۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ آپ شروع کرلیں اور تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ یہ عمر بھر کے لئے جاری رکھیں اور جو نماز کے بعد والا ذکر تھا وہ بھی جاری رہے گا۔ لیکن یہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ کے بارے میں مہینہ کے بعد مجھے بتانا ہے، لیکن ناغہ بالکل نہیں کرنا، بہت ناغے ہو چکے ہیں، بہت نقصان آپ نے اپنے آپ کو دیا ہے۔ دوسری بات کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جب انسان پریشانی میں آئے تو اس وقت پریشانی میں جس سے آپ کو فائدہ ہو یا جو آپ کو support کرتا ہو تو کیا آپ اس سے اپنے آپ کو چھڑائیں گے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ایسے ہی چونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہماری حفاظت کرتا ہے ہر پریشانی سے، تو ایسے وقت میں تو اور زیادہ کرنا چاہئے، چہ جائے کہ اس کو چھوڑ دے۔ لہٰذا آئندہ آپ کو خیال رکھنا چاہئے، experience آپ کو ہوگیا ہے اور جتنا وقت آپ ضائع کرسکتے تھے، کرلیا ہے، اب مزید وقت ضائع کرنے سے اپنے آپ کو بچائیں اور ذکر آپ جیسے میں نے بتایا ہے اس کو شروع کرلیں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت! میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ علاجی ذکر کو مزید ایک ماہ گزر گیا تھا کہ پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ ملا ہوا تھا۔ حضرت جی! ابھی تھوڑا وقت مخصوص کرنے میں مشکل ہو رہی ہے، بس ناغہ سے بچنے کے لئے جب موقع ہو کر لیتی ہوں، کبھی کبھی تھوڑا بے توجہی سے بھی کرنا پڑتا ہے، اگرچہ اس طرح کرنے سے مجھے پتا ہے کہ وہ فائدہ نہیں ہوتا جو یکسوئی سے کرنے سے ہوتا ہے، لیکن کر لیتی ہوں کہ رہ نہ جائے۔ بیماری کے باعث ایک ناغہ بھی ہوا ہے۔ اس مراقبہ کا اثر نہیں بتا سکتی کہ کچھ ہوا ہے یا نہیں۔ شکر ادا کرتی رہتی ہوں اکثر، لیکن پھر بھی حساس طبیعت کی ہوں۔ حضرت جی! طبیعت اور شریعت کے خلاف چیزوں کو برداشت کرنا بہت مشکل لگ رہا ہے، میں خاموش نہیں رہ پاتی، جب کہیں کچھ گناہ کی چیز دیکھوں تو بس بولنا شروع کردیتی ہوں، حالانکہ مجھے پتا ہے کہ ہر جگہ اور ہر ایک سے بولنا اور بحث کرنا بعض دفعہ کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور دوسرے شخص کو اپنی طرح نہیں سمجھایا جاسکتا، جبکہ سامنے والا مزاج میں بہت الگ ہو، لیکن اپنے مزاج کے خلاف اور گناہ کی چیز کو دیکھ کر صبر بھی نہیں کر پاتی اور کچھ وقت کے لئے اوسان خطا ہوجاتے ہیں، دعا بھی اچھی طرح نہیں مانگ سکتی اور اندر سے لگتا ہے کہ گناہ کی چیزیں اپنے سامنے بار بار دیکھنے اور سننے سے چڑ رہی ہوں، بلکہ چڑ تو رہی ہوں، پر ساتھ میں روحانیت بھی متأثر ہو رہی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو اس سے الگ بھی نہیں کرسکتی، ignore کرنا آتا نہیں، بس اس میں فوراً ذہن پر اثر آجاتا ہے اور جب بار بار وہی چیز سامنے آتی ہے تو پھر برداشت ختم ہوجاتی ہے بالکل اور شور بھی کر لیتی ہوں۔ آگے رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! یہ تو دینی غیرت ہے، لیکن دینی غیرت کے ساتھ دینی حکمت بھی شامل ہونی چاہئے۔ مثلاً دیکھیں! آپ ﷺ سے زیادہ آپ تبلیغی نہیں ہوسکتی کہ مکہ مکرمہ میں جیسے حالات تھے تو اس وقت جیسے حکم چلتا تھا یعنی جس طریقہ سے برداشت کا حکم تھا، تو لہٰذا جب آپ کی مکی زندگی کے حالات ہوں تو اس وقت محسوس تو کرنا چاہئے، جیسے آپ کررہی ہیں، یہ اچھی بات ہے، لیکن برداشت کی قوت ہونی چاہئے کہ آپ اس کو برداشت کرلیں اور اس کو پلاننگ کا حصہ سمجھیں، چونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ برداشت کرتی ہیں اور ان کی خدمت کرتی رہتی ہیں، تو وہ ممنون ہوجاتے ہیں، پھر جب آپ ان کو کچھ کہیں تو وہ بات جڑ پکڑ لیتی ہے اور کام شروع ہوجاتا ہے اور اگر آپ مقابلہ پہ آتی ہیں تو وہ ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اور لڑنے پہ اتر آتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ان کی زبان سے کوئی ایسے کلمات نکلیں جو کفر کے ہوں، جس سے اور بھی سخت بات ہوجائے۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو بھی بچانا چاہئے اور ان کو بھی بچانا چاہئے، اس لئے فی الحال آپ برداشت کرلیا کریں اور جب کبھی خوش رنگ ماحول ہو، اچھا ماحول ہو، سننے والا ماحول ہو تو اس وقت ایک دو بات مناسب کر لیا کریں، لیکن ہر وقت لڑنا جھگڑنا مناسب نہیں ہے، یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ باقی خود اپنے اعمال کا اپنے آپ کو example بنا دیں، تاکہ لوگ آپ کو دیکھ کر کم از کم ان کو اپنے اعمال یاد آنے لگیں۔ بس یہ طریقہ ان شاء اللہ! ٹھیک رہے گا۔ باقی مراقبات میں دیکھ لیں کہ discontinuity نہ ہو اور ذکر جو ہوتا ہے، وہ اگر آپ دوسرے وقت بھی کرلیں تو کوئی بات نہیں۔ یہ صرف آپ کی condition کے لئے کہہ رہا ہوں، ایسا نہ ہو کہ باقی لوگ سن کر وہ بھی اس طرح کرنے لگیں، بس آپ اس طرح کریں ان شاء اللہ! امید ہے کہ کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم۔ شیخ محترم! میرا پانچواں ذکر لطیفۂ اخفیٰ کا اللہ کے کرم سے مکمل ہوگیا ہے۔ ذکر کے پہلے روز ہی یہ لطیفہ بیدار ہوگیا تھا اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ورد چلتا ہوا محسوس ہوتا رہا۔ ذکر کے ابتدائی ایام میں چار دن جسم جھولنے کی کیفیت محسوس ہوئی۔ چند دن اس ذکر سے ایسا محسوس ہوا جیسے ہر لطیفہ سے دائیں بائیں ذکر کی movement ہو رہی ہو اور ایسا پھر دوسرے لطائف پر بھی کئی بار محسوس ہوا ہے اور لیٹنے پر خوب زور و شور سے ذکر اور تمام اثر چلتا رہا ہے۔ شیخ محترم! مجھے ذکر کے لئے مزید رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
ٹھیک ہے، اَلْحَمْدُ للہ! آپ نے ماشاء اللہ! جو ذکر محسوس کیا ہے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ ابھی آپ تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر محسوس کرتی رہیں اور پھر اس کے بعد پندرہ منٹ کے لئے مراقبۂ احدیت شروع کرلیں۔ مراقبۂ احدیت یوں ہے کہ آپ یہ تصور کرلیں کہ فیض (فیض ہر وہ چیز ہوتی ہے، جو فائدہ دے اور جس سے ملتا ہے، تو وہ اس کا فیض ہوتا ہے، اور اللہ جل شانہٗ چونکہ تمام فیوض کا منبع ہے کہ اولاً وہیں سے سب کچھ آتا ہے اور آپ ﷺ کے ذریعہ تقسیم ہوتا ہے اور شیخ اس کا ذریعہ ہوتا ہے، لہٰذا آپ یوں تصور کرلیں کہ فیض) جیسے اللہ کی شان ہے تو وہ اس طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آرہا ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے دل میں آرہا ہے اور شیخ کے دل سے آپ کے دل پر آرہا ہے اور یہ پندرہ منٹ کے لئے آپ روزانہ کرلیا کریں، باقی پانچ پانچ منٹ کے لئے ہر لطیفہ پر آپ ذکر محسوس کریں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔ حضرت جی! عرض یہ ہے کہ میرا ابتدائی ذکر پانچ منٹ دل پر، پانچ منٹ لطیفۂ روح پر، پانچ منٹ لطیفۂ سر پر، پانچ منٹ لطیفۂ خفی پر اور پانچ منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر اللہ سننے کا اور مراقبۂ احدیت کا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہر نیکی کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کے قلب مبارک پر اور ان کے قلب سے میرے شیخ کے قلب پر اور ان کے وسیلے سے مجھ کو مل رہی ہے، اس دوران دل میں بہت اطمینان اور سکون ہوتا ہے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ اب خاص فیض کا مراقبہ کریں یعنی جو general فیض تھا، وہ آپ نے کیا ہے، لیکن اب ایک مخصوص فیض میں آپ نے focus کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر کام اللہ پاک ہی کرتے ہیں۔ اس کو تجلیات افعالیہ کا مراقبہ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں آپ یہ محسوس کریں گی مراقبۂ احدیت کی جگہ کہ تجلیات افعالیہ کا یہ خاص فیض (جو کہ اللہ پاک ہر چیز کرواتا ہے، کرتا ہے، تو اس کا فیض) آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر آرہا ہے۔ اس کو بھی آپ نے پندرہ منٹ کرنا ہے، ان شاء اللہ!
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔ آپ نے جو ذکر بتایا تھا وہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ اور دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ لطیفۂ دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کررہا ہے، دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ لطیفۂ روح ’’اَللہ اَللہ‘‘ کررہا ہے اور پندرہ منٹ کے لئے یہ تصور کہ لطیفۂ سر بھی ’’اَللہ اَللہ‘‘ کررہا ہے۔ اس کا ایک مہینہ ہوگیا ہے اور لطیفۂ دل، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر سے ہلکی ہلکی اللہ پاک کی آواز آتی محسوس ہو رہی ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کرلیں کہ ابھی آپ تینوں لطائف دس دس منٹ کریں اور لطیفۂ خفی (جو لطیفۂ سر کے دائیں طرف ہے اور لطیفۂ روح کے اوپر ہے) پہ پندرہ منٹ ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا تصور کرنا ہے۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے ہیں، ان کا ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ اذکار ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ڈھائی ہزار مرتبہ اور اس کے ساتھ پانچ منٹ تصور کرنا کہ دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کررہا ہے۔ حضرت! ابھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کررہا ہو۔
جواب:
ابھی آپ باقی سارے اذکار وہی کرلیں اور پانچ منٹ کا بھی اسی طرح رکھیں، البتہ ’’اَللہ اَللہ‘‘ اب ڈھائی ہزار کی جگہ تین ہزار مرتبہ کرلیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ محترم! میری والدہ کو کل رات شدید heart attack ہوا ہے، دعا فرمائیں اللہ پاک انہیں شفا دے۔
جواب:
اللہ جل شانہٗ بہت جلدی اس کو صحت کاملہ عاجلہ نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
I finished forty days of the first وظیفہ
جواب:
So now you should do second وظیفہ in which you have to recite third کلمہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ‘‘ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ hundred times and hundred times صلوٰۃ النبی ’’وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ or any درود which is صحیح and مستند from صحیح حدیث and hundred times استغفار ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ‘‘. You should do all these hundred times each and besides this, you should do ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ hundred times . This is جہری ذکر and ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ hundred times ‘‘حَقْ’’ hundred times and اللہ hundred times and the ذکر after صلوٰۃ will remain the same.
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا نام فلاں ہے، میں راولپنڈی سے ہوں، میرے دس دس منٹ کے لطائف ہیں اور پندرہ منٹ کا مراقبہ ہے، اسے مہینہ مکمل نہیں ہوا، بہت مصروفیت کی وجہ سے تین ناغے ہوگئے ہیں کہ میں سفر میں تھی، اس کی وجہ سے کیا دوبارہ سے یہی ذکر start کرلوں؟
جواب:
آپ دس دن یہ ذکر اور کرلیں پھر مجھے بتا دیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرا ذکر اور مراقبہ تینتیس دن سے جاری ہے، اب اگلے ذکر کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ ہزار مرتبہ اور دس منٹ کے لئے مراقبۂ دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اور لطیفۂ روح پر پندرہ منٹ کرتا ہوں اور روزانہ بیس منٹ کے لئے نیچے دیکھنے کا مجاہدہ کرتا ہوں۔ کیفیات یہ ہیں کہ کام کی مصروفیت کی وجہ سے مراقبہ میں دھیان کم ہوتا ہے۔
جواب:
اگر لطیفۂ دل اور لطیفۂ روح پر محسوس ہو رہا ہے تو دس منٹ دس منٹ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کریں اور لطیفۂ سر پر پندرہ منٹ کرلیں اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا جو ذکر ہے، اس کو ساڑھے چار ہزار مرتبہ کرلیں۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! حال یہ ہے کہ مدت دراز سے بندہ تہجد کے وقت بیدار نہیں ہوتا باوجود جلدی سونے کے۔ حضرت! اقدس! دعا فرمائیں اور علاج فرمائیں۔ والسلام۔
جواب:
درمیان میں گرمیوں کی وجہ سے راتیں چونکہ چھوٹی تھیں، تو شاید اس وجہ سے آپ نہیں اٹھ سکتے ہوں گے، لیکن اب تو راتیں لمبی ہوگئی ہیں، اس لئے اب کوشش کریں، ان شاء اللہ! ہوجائے گا۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! مجھے طعن و تشنیع کی بہت عادت ہے، خاص طور پر جب بیوی کے ساتھ جھگڑا ہو تو اسے بہت طعنے دیتا ہوں، اگرچہ اس وقت ذہن میں سورۃ ھمزہ کی ابتدائی آیت بھی آتی ہے، لیکن اپنے آپ کو روک نہیں پاتا۔ اس بارے میں رہنمائی کی درخواست ہے، اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے۔ دعاؤں کی درخواست ہے، پریشانی اور بے چینی بہت ہے، خصوصاً آج کے ذکر کے دوران تو بہت بے چینی ہوئی۔
جواب:
ایک بات یاد رکھیے کہ جب انسان جانتا ہو کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، اور پھر بھی کرتا ہو تو یہ نفس کی بغاوت کی وجہ سے ہوتا ہے، اس وقت کوئی اور بات نہیں ہوتی، یہ صرف نفس ہی کی بغاوت کی وجہ سے ہوتا ہے، لہٰذا آپ کا نفس بہت ہی زیادہ dominant ہو چکا ہے۔ اور جب آپ اسی بغاوت کے دوران نفس کی بات نہ مانیں تو یہ بہترین مجاہدہ ہوتا ہے، اس وقت انسان کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کو جب طعن و تشنیع کی عادت ہو اور بیوی کے ساتھ لڑائی ہو اور آپ کا دل چاہتا ہو، نفس چاہتا ہو کہ طعن و تشنیع کرلے، تو اس وقت آپ سمجھیں کہ میں اپنا علاج کررہا ہوں، میں مجاہدہ کررہا ہوں، تو اس مجاہدے کا آپ کو ثواب بھی ہوگا اور ساتھ ساتھ یہ علاج بھی ہوگا۔
سوال نمبر 15:
حضرت! یہ جو ذکر محسوس کرنے کی کیفیت ہے، یہ کیسے ہوگی؟ جیسے نبض چلتی ہے یا مکمل آواز ہوگی؟
جواب:
بہت اچھا سوال ہے، کیونکہ اس سے بہت سارے لوگ confuse ہوتے ہیں۔ دیکھیں! انسان یہ ان کانوں سے تو نہیں سن سکتا، یہ تو سر کے کان ہیں، لیکن دل کے کان بھی ہوتے ہیں، اور یہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس وجہ سے آپ کو اس کا جو pulse ہے، (یا جو بھی ہے) اس کے ساتھ آپ کو اگر خود آواز محسوس ہوتی ہے یعنی جہاں سے آپ سمجھ رہے ہیں کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہو رہا ہے تو یہ کافی ہے یعنی اس میں یہ نہیں ہوتا کہ بالکل آپ کو اسی طرح محسوس ہوتا ہے، اگرچہ جس وقت بہت dominant ہوجائے تو تقریباً وہی condition ہوجاتی ہے کہ اس کو باہر کے لوگ بھی محسوس کرسکتے ہیں یعنی ایسا بھی ہوتا ہے، لیکن وہ Next stage ہے، اور ہر ایک کے ساتھ اور ہر وقت بھی نہیں ہوتا، بہرحال یہ ایک الگ بات ہے، لیکن جو عام طور پر ہوتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کی sensation ایسی ہوتی ہے کہ آپ محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہو رہا ہے، مگر اس میں چونکہ ہر ایک کا perimeter علیحدہ ہے، لہٰذا کوئی general بات نہیں کی جاسکتی۔ میں حرم شریف میں خادم تھا حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، ان کے لئے میں چائے لے جاتا تھا۔ حضرت جب تک چاہتے تو وہیں پر آرام کرنے کے لئے لیٹ بھی جاتے اور پھر وضو فرما لیتے، پھر بیٹھ جاتے، تو ایک روز حضرت لیٹے ہوئے تھے اور میں ذرا دور بیٹھا حضرت کو دیکھ رہا تھا، تو میں نے دیکھا کہ حضرت کا یہ انگوٹھا دائیں پاؤں والا بالکل اس طرح تھا جیسے کلمہ پڑھ رہا ہے، حالانکہ حضرت سو رہے تھے، اب یہ کیا چیز ہے؟ ایسے ہی بعض لوگوں کی باقاعدہ زبان ہلتی ہے نیند میں، لیکن یہ Special cases ہیں، یہ general نہیں ہیں یعنی عمومی طور پر یہی ہوتا ہے کہ دل میں یہ محسوس ہوتا ہے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، start اسی سے ہوتا ہے، پھر بعد میں develop ہوتا رہتا ہے۔
سوال نمبر 16:
حضرت! کیا خیال کو اس طرف لے جانے سے ایسا ہوسکتا ہے؟ مثلاً بندہ سویا ہوا ہے، لیکن تلاوت کررہا ہے اور پارے پہ پارہ پڑھ جاتا ہے اور زبان سے پڑھتا ہے اور بالکل سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں کون سا سپارا پڑھ رہا ہوں اور پھر یاد بھی ہوتا ہے کہ میں نے کون سا سپارا خواب میں پڑھا ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟ اور ذکر میں بھی ایسا ہوتا ہے۔
جواب:
یہ ٹھیک ہے، یہ انسان کی اپنی عادت اس کے اوپر غالب آجاتی ہے، جس کو کہتے ہیں شعور کا جو حصہ ہوتا ہے، وہ تحت الشعور میں چلا جاتا ہے یعنی وہاں پر کام ہو رہا ہوتا ہے اور ذکر میں بھی یہی ہوسکتا ہے۔ بلکہ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ اس طرح جھول رہے ہوتے ہیں اور بلاوجہ جھول رہے ہوتے ہیں یعنی ان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم جھول رہے ہیں، لیکن وہ جھول رہے ہوتے ہیں، تو یہ ذکر کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی قرآن جن کو حفظ ہوتا ہے، تو وہ بھی اس طرح کرتے ہیں یعنی جھول رہے ہوتے ہیں۔ اور ذاکر جو ہوتا ہے وہ اس طرح جھول رہا ہوتا ہے۔
آج میں آپ کو ذکر کے بارے میں ایک کلام سناتا ہوں۔
ذکر ایسا ہو کہ ہر چیز سے وہ یاد آجائے
اور اس کی یاد سے ٹھنڈک سی دل میں چھا جائے
ایک ایک پتے پہ دفتر ہے معرفت کا لکھا
اس کے پڑھنے کا اگر گُر کوئی سمجھا جائے
یہ پہاڑ اور یہ چشمے یہ چرند و پرند
دیکھنا غور سے انہیں، راستہ دکھا جائے
اس کو سمجھانے کے لئے میں ایک مثال عرض کرتا ہوں کہ یورپ لوگ جاتے ہیں، تو دو قسم کے اثرات محسوس ہوتے ہیں، ہر شخص کا ایک Critical stage ہوتا ہے اچھائی کا یا برائی کا یعنی اچھائی کی طلب کا یا برائی کی طلب کا stage ہوتا ہے۔ اب اگر اس کی اچھائی کا stage, critical سے زیادہ ہے تو یورپ میں اور بھی اچھا ہوجائے گا، وہ کیسے اچھا ہوجائے گا؟ وہ reaction میں آجائے گا یعنی وہ جب برائی کو دیکھے گا تو برائی سے اس کو reaction ہوگا اور پھر اس reaction کی وجہ سے وہ مزید مضبوط ہوگا اور مزید اچھائی پر جمے گا، جس کی وجہ سے اس کو مجاہدہ کا ثواب ملے گا اور مجاہدہ کا فائدہ ہوگا اور پھر جب یورپ سے آئے گا تو یہاں کے مقابلہ میں اچھا ہوگا، کیونکہ وہ reaction میں وقت گزار چکا ہے۔ دوسری طرف اگر اس کا اچھائی level, critical value سے کم ہو تو یہ پھر اور بھی خراب ہوجائے گا، کیوں خراب ہوجائے گا؟ کیونکہ یہاں تو کر نہیں سکتا کہ یہاں پابندیاں تھیں، مگر وہاں پابندیاں ہوں گی نہیں، وہاں تو کھلا میدان ہوگا، ان کو availability ہوگی، اس سے پھر نقصان اٹھائے گا اور مزید خراب ہوجائے گا۔ لہٰذا یہاں جو ذکر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ذکر اگر ایک Critical value تک آپ کرلیں یعنی آپ کا دل اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگ جائے اور اللہ پاک کی معرفت کا آپ کو کچھ درجہ ذکر کے ذریعہ سے حاصل ہوجائے، تو پھر کیا ہوگا؟ پھر یہ ہوگا کہ آپ درخت کو بھی دیکھیں گے تو اس میں بھی آپ کو اللہ پاک کی معرفت کی چیزیں نظر آئیں گی، آپ پہاڑ کو بھی دیکھیں گے تو اس میں بھی اللہ پاک کی معرفت کی چیزیں نظر آئیں گی، آپ پانی کو چلتے ہوئے بھی دیکھیں گے تو اس میں بھی اللہ پاک کی معرفت آپ کو نظر آئیں گی، لہٰذا اس کے ذریعہ سے ماشاء اللہ! آپ کی معرفت مزید بڑھے گی اور اگر آپ کا ذکر کا level اس سے کم ہے تو یہ چیزیں آپ کو غافل کردیں گی، پہاڑ بھی آپ کو غافل کردے گا، آپ کو پانی بھی غافل کردے گا، آپ کو درخت بھی غافل کردے گا، آپ کو پرندے بھی غافل کردیں گے یعنی آپ اس میں الجھ کے رہ جائیں گے اور جو اس وقت کچھ کرسکیں گے، وہ بھی آپ کا رہ جائے گا۔ لہٰذا مشائخ کے ہاں جنہوں نے ذکر وغیرہ کیا ہو اور اس Critical value سے جب وہ آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں تو پھر ان کے لئے یہ چیزیں مزید اللہ پاک کے ذکر کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
یہ جو آسماں پہ ہیں ان گنت ستارے روشن
ان سے اک نور معرفت دل میں سما جائے
یعنی اس میں بھی بات یہ ہے کہ ایک انسان کو جس وقت اللہ تعالیٰ کی یاد نصیب ہوجائے تو پھر چیزوں میں غور کرنے سے اس کی معرفت بڑھے گی اور اس کا قرآن میں ثبوت ہے، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں‘‘۔
یعنی ذکر اگر اس کی عادت ہے، پہلے سے وہ ذکر کرتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ چیزوں کی طرف دیکھتا ہے تو اس ذکر کی برکت سے اس کو ان چیزوں کے دیکھنے سے معرفت ملے گی یعنی اللہ پاک کی صفات ان پر کھلیں گی، اللہ پاک کی صفات کی وجہ سے وہ اس کی طرف متوجہ ہوگا اور اللہ کی طرف متوجہ ہوگا یعنی آپ یوں سمجھ لیجئے کہ جو ستارے ہیں، یہ اللہ پاک کی تخلیق ہے، تو اس تخلیق کو جب انسان دیکھتا ہے تو اس میں مزید معرفت ملتی ہے۔ مثلاً دیکھیں! سورۃ ملک کی تلاوت رات کے وقت میں مسنون ہے اور اس وقت ستارے ہوتے ہیں، تو اگر آپ سورۃ ملک پڑھ رہے ہوں اور آپ کو پتا بھی چل رہا ہو کہ سورۃ ملک میں کیا ہے یعنی آپ پڑھ رہے ہوں:
﴿تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ﴾ (الملک: 1-2)
ترجمہ: ’’بڑی شان ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے‘‘۔
یعنی یہ پڑھ رہے ہوں تو دیکھیں! کہ اس کے بعد اللہ فرماتے ہیں کہ آنکھیں بالکل آپ کی تھک جائیں گی اور واپس آجائیں گی، لیکن اس میں آپ کوئی فتور نہیں دیکھ سکیں گے۔ لہٰذا یہ ساری چیزیں آپ کی بالکل مشاہدہ میں ہیں یعنی اگر آپ آسمان کی طرف رات کو دیکھیں اور سورۃ ملک آپ پڑھ رہے ہوں تو کتنا زبردست ہوگا کہ آپ کو اللہ پاک کی معرفت حاصل ہوگی۔ اس پر مجھے ایک بات یاد آگئی جو کہ بہت ضروری ہے، جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ احادیث شریفہ میں مختلف دعائیں ہیں خصوصی مقاصد کے لئے، مثلاً حفاظت کی جو دعائیں ہیں جیسے دعائے انس ہے، یہ حادثات سے بچنے کی دعا ہے، اسی طرح اور دعائیں ہیں، اب ان دعاؤں کے اوپر اگر آپ غور کرلیں یعنی اس کے الفاظ میں اگر آپ غور کرلیں تو اس میں جو چیز موجود ہوتی ہے، جس کے ذریعہ سے آپ مانگ رہے ہوتے ہیں، تو جب آپ یہ دعائیں کررہے ہوں اور آپ اس کے معنیٰ کو بھی جان رہے ہوں اور آپ اس کو سمجھ رہے ہوں، اور پھر وہ دعا آپ کررہے ہوں تو وہ الفاظ اور اس کا مطلب وہ آپ کے لئے وسیلہ بن جاتا ہے اللہ سے مانگنے کا یعنی آپ کے لئے اصل طاقت اس چیز سے آتی ہے، مگر عام لوگ صرف اس کو یاد کرکے بس طوطے کی طرح پڑھ لیتے ہیں، اگرچہ ٹھیک ہے، برکت اس کی بھی ہے، یہ نہیں کہ برکت اس کی نہیں ہے، لیکن اصل فائدہ تب ہوتا ہے، جس وقت آپ اس کو معرفت کے ساتھ پڑھتے ہیں یعنی آپ اس کو جانتے ہوں کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ جیسے سورۃ فاتحہ ہم نماز میں پڑھتے ہیں اور ہر نماز میں پڑھتے ہیں، ہر رکعت میں پڑھتے ہیں، لیکن ہم پر اثر کرتا ہے؟ تو کیا اللہ پاک نے اس لئے نماز رکھی ہے کہ ہم پر اثر نہ کرے؟ کیوں، وجہ کیا ہے؟ کہ ہم اس کا حق ادا نہیں کررہے۔ اگر ہم اس کا حق ادا کریں اور اس کے اندر جو مفہوم ہے، جو اللہ پاک نے رکھا ہے، جو اتنا اہم ہے کہ وہ ہر نماز میں ہر رکعت میں اللہ پاک ہمیں یاد دلانا چاہتا ہے۔ اب اگر ہم اس کو سمجھ رہے ہوں اور ہم اس کو سمجھ کے لحاظ سے پڑھ رہے ہوں تو کتنی روحانیت آپ کو ہر ہر رکعت میں اس کے ذریعہ سے ملے گی اور کتنی آپ کی نماز بڑھتی جائے گی یعنی مزید بڑھتی جائے گی۔ اسی طرح سجدے میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَلیٰ‘‘ اور رکوع میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘ اور اٹھتے ہوئے ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ پڑھتے ہیں اور ’’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ پڑھتے ہیں، ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ پڑھتے ہیں تو ہر ایک چیز کا اپنا اپنا ایک significance ہے اور اس میں اللہ پاک نے جو روحانیت کا ایک پورا نظام رکھا ہوتا ہے، تو اگر ہم لوگ ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر ان اعمال کو کریں تو اس کے اثرات ہمارے اوپر بہت جلدی آئیں۔
تر رکھو ذکر سے اس کے زباں اپنی شبیرؔ
دل اس کے ساتھ ہو تو سب کچھ تُو اس سے پا جائے
یہ آپ ﷺ کی حدیث شریف طرف اشارہ ہے۔ یعنی زبان پہ آپ ذکر رکھیں اور آپ کا قلب بھی اس کی طرف متوجہ ہو کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں یعنی ایک ہی وقت میں جو زبان پر ذکر ہے، اسی کے ساتھ آپ کا دل بھی ہے، تو پھر اس کے اندر اتنی روحانیت، اتنی طاقت آجاتی ہے کہ اس سے آپ کے سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ کیوں، وجہ کیا ہے؟ کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان زبان پہ ذکر کررہا ہوتا ہے اور اس کی زبان اور ہونٹ ہل رہے ہوتے ہیں تو اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اور یہ confirm بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ساتھ ہوتے ہیں اور جب اللہ ساتھ ہوتے ہیں اور آپ کا دل بھی اس طرف متوجہ ہوتا ہے تو آپ کا دل اللہ کے ساتھ ہوگا۔ اب بتاؤ! پھر کسی چیز کا درمیان میں فاصلہ رہ گیا؟ بس آپ کا کام بن گیا، اب آپ اللہ تعالیٰ سے جو عرض معروض کریں گے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرم ہوگا، فضل کے فیصلے ہوں گے۔ جیسے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مراقبہ میں ابتداً تو خلوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس میں خاموشی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یکسوئی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے یعنی ساری چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ ابتدا کی باتیں ہیں، جس وقت آپ کو اس مراقبہ کے اندر پختگی حاصل ہوجائے، تو اس کے بعد پھر آپ گاڑی کے ساتھ لٹک رہے ہوں، پھر بھی آپ مراقبہ کرسکیں گے، پھر اس کے لئے آنکھیں بند کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی، بلکہ اس وقت وہ مراقبہ عملی مراقبہ ہوگا، صحیح مراقبہ ہوگا۔ مثال کے طور پر آپ کسی وقت مصیبت میں ہیں، تو اس طرح تو نہیں کریں گے کہ آپ آنکھیں بند کریں، بلکہ اس وقت آنِ واحد میں جو اللہ کی طرف قلب کا تصور جائے گا، وہی اصل چیز ہے، ایسے ہی جہاد میں کے موقع پر اور اسی طرح اور مختلف مواقع پہ۔ لہٰذا یہ چیز اسی کی تیاری ہے کہ ہم لوگ اپنے مراقبہ کو اتنا strong کریں کہ کسی بھی حالت میں ہم اس کو کرسکتے ہوں۔ اسی طریقہ سے یہ جو ہم ذکر زبانی کررہے ہیں اور ساتھ مراقبہ کی کیفیت بھی ہو یعنی اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوں تو بہت پاورفل قسم کی چیز ہے اور یہی میرے خیال میں شاید ہمارے مشائخ کی تحقیق ہے۔ مجھے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا بیٹا! زبان سے بھی ذکر کیا کرو اور دل میں بھی ذکر ہو یعنی یہ دونوں باتیں ہوں، تو اگر کبھی دل رک کیا ہوگا تو زبان تو چل رہی ہوگی اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے اور انسان کو پتا نہیں ہوتا کہ اس کا دل رک گیا ہوتا ہے، مگر اس صورت میں یہ چیز نہیں رہتی، کیونکہ زبان تو بہرحال آپ کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ چل ہی رہی ہے۔ لہٰذا ایک تو کم از کم اس میں لگی ہوئی ہوگی۔ اس لئے ہمارے مشائخ دونوں کا ذکر کرتے ہیں یعنی دل کا بھی کرتے ہیں اور ساتھ زبان کا بھی کرتے ہیں، تاکہ اکٹھے ہوجائیں۔ جیسے ہم جو ذکر دیتے ہیں تو لسانی ذکر بھی دیتے ہیں دو سو، چار سو، چھ سو تو یہ جہری ذکر دیتے ہیں اور ساتھ پھر مراقبات بھی دیتے ہیں تو ماشاء اللہ! دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں، اس وجہ سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اَلْحَمْدُ للہ۔ اور آج کل کے دور کے لئے یہ بہت زیادہ مفید ہے، کیونکہ آج کل انتشار کا دور ہے، کوئی بھی آدمی یکسو نہیں ہے، یکسوئی عنقاء ہوگئی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ موبائل، موبائل لوگ چھوڑتے ہیں کسی وقت؟ ایسے ہی گھروں کے حالات لے لو، یہ رش دیکھو، پھر گاڑیوں میں سفر دیکھو، عجیب و غریب حالات ہیں آج کل، یہ پہلے کبھی اس طرح نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں خود یاد ہے کہ اَلْحَمْدُ للہ! ہم گاؤں میں ہوتے تھے، مغرب کے بعد بالکل ساری چیزیں بدل جاتی تھیں، بس لوگ عشاء کی نماز کا انتظار کرتے کہ عشاء کی نماز پڑھیں اور بس سو جائیں، لیکن اب حالت ایسی نہیں ہوتی۔ ہم صحن میں سوتے تھے اکٹھے، تقریباً نو چارپائیاں ہوتی تھیں اور اس میں ایک Pedestal fan ہوتا تھا اور سارے سو جاتے اور صبح سویرے اٹھ جاتے تھے اور اب اب آج کل کیا ہے کہ اپنے اپنے کمروں میں ہوتے ہیں اور بارہ بجے، ایک بجے، دو بجے پتا نہیں کیا حالات ہیں، تو اب یکسوئی کدھر سے آئے؟ یکسوئی تو گئی، لہٰذا ایسی صورت میں وہ مراقبے کے حالات جو پہلے لوگوں کو حاصل تھے، وہ اب بڑے مشکل ہوجاتے ہیں، اب یہی hybrid ذکر جہری اور مراقبہ دونوں کو ساتھ کرکے آپ اس combination بنا سکتے ہیں اور یہی زیادہ مفید ہے آج کل۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم۔ کیا ’’منزل جدید‘‘ کسی دنیاوی مسئلہ کے لئے پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب:
کیوں نہیں، دعا کیا دنیاوی مسئلے کے لئے نہیں کی جاسکتی؟ دنیا کے مسئلے کے لئے تو دعا کی جاسکتی ہے، اسی طرح ’’منزل جدید‘‘ بھی دنیا کے مسئلوں کے لئے پڑھی جا سکتی ہے، بلکہ دنیا کے تمام مسئلوں کو حال ہے اس میں اور ساتھ روحانی مسئلوں کا بھی حل ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ’’منزل جدید‘‘ روزانہ پڑھ لیا کریں، ان شاء اللہ! اس میں دونوں قسم کے فائدے حاصل ہوں گے۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ میرے معمولات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ تین سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ اور دس منٹ کا مراقبہ ہے۔ حضرت جی! میرا سوال ہے کہ کیا ان اذکار کو ایک ہی وقت پر کرنا لازم ہے؟ یا الگ الگ وقت میں بھی کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا ان کی ترتیب بدلی جاسکتی ہے؟
جواب:
اصل میں دو قسم کے ذکر ہیں، ایک آپ نے دیا ہے اور ایک آپ نے نہیں دیا۔ جو آپ نے نہیں دیا وہ کیا ہے؟ وہ سو دفعہ تیسرا کلمہ، سو دفعہ درود شریف، سو دفعہ استغفار یہ شاید بھول گئے ہوں یا آپ اس کو ذکر نہ سمجھتے ہوں، لیکن بہرحال میں یاد دلاتا ہوں کہ وہ بھی میں نے دیا ہوا تھا اور اس کو ہم ثوابی ذکر کہتے ہیں۔ اور جو ذکر آپ کو ابھی دیا ہے یعنی دو سو، تین سو، تین سو اور سو اور دس منٹ کا مراقبہ، یہ علاجی ذکر ہے۔ اور علاجی ذکر کو اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کو کوئی ڈاکٹر exercise بتا دے، تو آپ کیا اس کو علیحدہ علیحدہ کرسکتے ہیں؟ اگر آپ کو بتا دیں کہ آپ نے پندرہ دفعہ اٹھنا بیٹھنا کرنا ہے، پھر اس کے بعد ہاتھ اس طرح سیدھے کرنے ہیں، پھر اس طرح یہ کرنا ہے، پھر دو دفعہ یہ اس طرح کرنا ہے، تو یہ سب آپ علیحدہ علیحدہ کریں گے؟ اگر ایسا کیا تو اس کا وہ فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی طریقہ سے ہر ذکر دوسرے پہ dependent ہے کہ اس کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس کو کسی ایسے وقت میں کرلیا کریں جس میں آپ یہ سارے ایک ساتھ کرسکیں، کیونکہ اس کا فائدہ maximum اسی وقت حاصل کرسکتے ہیں، ورنہ پھر آپ کو اتنا فائدہ حاصل نہیں ہوگا، جتنا کہ آپ کو اس سے حاصل کرنا چاہئے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔