اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ حضرت! کیا حال ہے؟ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو دفعہ اور ’’اَللہ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ۔ مہینے سے زیادہ ہوا۔ اور آپ نے فرمایا تھا کہ پانچ منٹ مراقبہ بھی کرلیں۔ مراقبہ تسلسل سے نہیں کرسکا۔ اور آپ سے استفادہ میرے ماموں ڈاکٹر ممتاز صاحب گلگت والے بھی کرتے تھے، انہی کے حکم سے آپ سے میرا تعلق بنا تھا۔ حضرت! ان کا انتقال ہوا ہے، ان کے لئے دعاؤں کی درخواست ہے۔ آگے کا حکم ارشاد فرما دیں۔
جواب:
اللہ جلّ شانہٗ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کے لئے ہم نے دعا کی تھی۔ ہمیں معلوم ہوگیا تھا، کیونکہ ان کے بیٹے سے رابطہ ہوا تھا۔ ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ مراقبہ جو آپ سے تسلسل سے نہیں ہوسکا، اب اس کو تسلسل کے ساتھ کریں اور دس منٹ کریں اور باقی اذکار سب وہی ہیں، جو پہلے تھے۔ بس مراقبہ آپ دس منٹ کرلیں اور ایک مہینے کے لئے تسلسل کے ساتھ کرلیں، تاکہ آپ کو اس کے فوائد حاصل ہوں۔ اللہ جلّ شانہٗ آپ کے ماموں کی مغفرت فرمائے، ان کو وہاں اعلیٰ درجات نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ حضرت جی! آپ نے فون پر پندرہ منٹ فیض کا بتایا تھا، please اس کے بارے میں دوبارہ رہنمائی فرمائیں کہ وہ کیسے کرنا ہے، مجھے اس میں کچھ confusion ہے۔
جواب:
اصل میں مجھے چونکہ یاد نہیں رہتا، اس لئے آپ بتائیں کہ آپ کو کون سا فیض بتایا تھا؟ کیونکہ ایک general فیض ہے اور ایک خصوصی فیض ہے۔ general فیض یہ ہوتا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے فیض آرہا ہے جیسا کہ اس کی شان ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پہ آرہا ہے۔ یہ مراقبہ احدیت کہلاتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد خاص فیض ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16)
ترجمہ1: ’’جو کچھ ارادہ کرتا ہے، کر گزرتا ہے‘‘۔
یعنی تمام کام اللہ پاک کرتے ہیں، اس کے فیض کا مراقبہ بھی ایسے ہی ہوتا ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں نے آپ کو کون سا دیا تھا۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میرے مندرجہ ذیل اذکار کو تقریباً تیس دن ہوگئے۔
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’اِلَّا اللہ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’اَللہُ اَللہ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللہ، اَللہ‘‘ ساڑھے سات ہزار۔ پانچ منٹ کے لئے سوچنا کہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ دل میں محسوس ہورہا ہے۔ حضرت جی! دل کی کیفیت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔ آگے ذکر کی کیا ترتیب ہے؟
جواب:
’’اَللہ، اَللہ‘‘ آٹھ ہزار مرتبہ کرلیں، باقی ساری چیزیں وہی رکھیں۔ اور ’’اَللہ، اَللہ‘‘ پانچ منٹ کے لئے اس طرح سوچیں کہ ساری چیزیں ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کررہی ہیں، تو میرا دل بھی ایک چیز ہے، لہذا وہ بھی ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کررہا ہے۔ بس اس کو دل سے محسوس کرنا ہے۔
سوال نمبر 4:
I hope حضرت is well and the family. Could حضرت please explain the following concepts in نقشبندی سلسلہ?
What is کمالات نبوت and رسالہ and how it is attained? What is meant by مشرب and how does a person recognize his مشرب? What is the difference between حقیقت محمدیہ and کمالات الرسالۃ و النبوۃ?
جواب:
As far as the concept is concerned, I think as نبوت cannot be attained by practice. It is granted so کمالات نبوت are also granted to those whom Allah سبحانہٗ و تعالیٰ reward. And مشرب means just like as وحدت الشہود and وحدت الوجود. These are called مشرب in تصوف. Some people are having وحدت الوجود مشرب and some people are having وحدت الشہود مشرب so حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ was also saying that first, I was having وحدت الوجود مشرب then I was shifted to وحدت الشہود and my father was on وحدت الوجود مشرب. So, مشرب is like many people are getting the فیض through one. You can call it a form of فیض. So, these all are called ہم مشرب. It means they are having the same مشرب.
حقیقت محمدیہ is actually different from کمالِ رسالہ. Actually حقیقت means اصل and you can say that Allah سبحانہٗ و تعالیٰ has created the first thing. It means through Muhammad ﷺ He distributed all. “اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَ اللّٰهُ “یُعْطِیْ. So, it means that ِحقیقت محمدی is actually اصل of many things just like those people were having محمدی مشرب. So, they have اصل of حقیقتِ محمدیہ and those who are having other it means they are not you can say محمدی مشرب so then they will be on قدم of different انبیاء. So, they have اصل in that but it is a difficult task. So, you should not go into this. I think I can’t explain it in a few words and I don’t have much time to explain these things but it is not needed for yoU. You should make your سبق perfect and that will be better for you because in this thing, if you involve yourself you may be confused if the concept is not very clear. As far as your job is concerned you should complete your سلوک and it means مقامات of سلوک. It means مقام توبہ، مقام انابت. You should complete these مقامات and that will be better for you. ان شاء اللہ
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بندہ محمد فلاں، بنگلور ہند سے۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے، سلامت رکھے۔ سوال یہ ہے کہ سالک ذکر و فکر سے شوق و جذب پا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے نیکی کرنا آسان ہوجاتا ہے، مگر گناہ سے بچنا مشکل ہوتا ہے، نفس کو قابو کرنا مجاہدہ ہوتا ہے، تو سالک ذکر اور فکر کے ساتھ نفس کوبی اور نفس کشی کیسے کرے یعنی مجاہدہ کیسے کرے، کیا کیا کرے؟
جواب:
بہت اہم سوال ہے، لیکن تھوڑا سا اس کو سمجھنے کی کوشش فرما لیں۔ اصل میں نقشبندی سلسلہ میں جذب پہلے حاصل کرتے ہیں اور پھر بعد میں سلوک طے کرتے ہیں اور سلوک سے نفس قابو میں آتا ہے اور اصل میں بنیادی چیز نفس کو قابو کرنا ہے۔ آپ ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ عقلمند وہ شخص ہے، جس نے نفس کو قابو کیا۔ اس وجہ سے نفس کو قابو کرنا بنیادی چیز ہے، لیکن نفس کو قابو کرنے کے لئے پہلے دل کو بنا لیتے ہیں، یعنی دل کے اندر جذب پیدا کرلیتے ہیں اور یہ ایک Driving force ہے، جو کہ وقتی طور پر نفس کو قابو کرلیتا ہے۔ وقتی طور پر نفس کو قابو کیا جاسکتا ہے، عقل کے ذریعہ سے بھی قابو کیا جاسکتا ہے اور دل کے ذریعہ سے بھی قابو کیا جاسکتا ہے۔ عقل کے ذریعہ سے اس طرح قابو کیا جاسکتا ہے کہ جیسے غصہ آگیا، تو غصہ کو control کرنا نفس کے ذریعہ سے بنیادی بات ہے۔ نفس کے ذریعہ سے اگر control ہوگیا، تو انسان ہر وقت اس کو control کرسکے گا، کیونکہ نفس کی اصلاح ہوگئی، لیکن اگر اس نفس کی اصلاح ابھی نہیں ہوئی، تو پھر اس کو ہر وقت اپنی عقلی قوت سے اس کے عواقب کے اوپر نظر کر کے اپنے آپ کو control کرنا پڑے گا، جس کے لئے فرمایا گیا ہے کہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔ پانی پیئے، جگہ بدل لے۔ اگر کوئی بڑا ہے تو اس سے خود آگے پیچھے ہوجائے اور اگر چھوٹا ہے تو اس کو آگے پیچھے کردے۔ یعنی اس کے لئے یہ ترتیبِ عقلی ہے۔ تو انسان عقل کے ذریعہ سے بھی نفس کو وقتی طور پر قابو کرسکتا ہے، لیکن اصل قابو کرنا نفس کی اصلاح سے ہوتا ہے۔ اسی طریقہ سے جذب سے جو شوق پیدا ہوتا ہے، یہ بھی وقتی طور پر نفس کو قابو کرسکتا ہے، لیکن پھر بعد میں نفس واپس آجاتا ہے، اس وجہ سے اس کو مستقل طور پر کرنے کے لئے نفس کو قابو کرنا ہے۔ اس کے لئے پھر دس مقامات طے کرنے ہوتے ہیں، دس مقامات بالکل conceptually ہیں۔ اس پر میں بار بار بولا ہوں، اگر آپ نے وہ چیزیں نہیں پڑھی ہیں یا نہیں سنی ہیں، تو پھر کسی وقت میرے خیال میں آپ کو بھیجنی پڑیں گی یا اس کو ویسے ہمارے بیانات سن کر معلوم کرسکتے ہیں۔ پتا نہیں کہ آپ کون سے گروپ میں شامل ہیں، اگر آپ وہ بتا دیں، تو میں نشاندہی کردوں گا، اس طریقہ سے ان شاء اللہ آپ کو اس کے بارے میں علم ہوجائے گا۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! میں پشاور سے آپ کی فلاں مریدہ بات کررہی ہوں۔ حضرت جی! مجھے تین ماہ ہوگئے صفاتِ سلبیہ کا مراقبہ کرتے ہوئے پندرہ منٹ لطیفہ خفی پر، اور اس سے پہلے پانچ پانچ منٹ پانچوں لطائف پر۔ اس مراقبہ میں میں یہ تصور کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک سے صفات سلبیہ کا فیض آرہا ہے حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک پر، وہاں سے میرے شیخ کے قلب پر اور پھر وہاں سے میرے دل پر فیض آرہا ہے۔ مراقبہ میں یہ تصور کہ کچھ صفات ایسی ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے مناسب نہیں، وہ انسانوں کے لئے مناسب ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کھانا نہیں کھاتا، پیتا نہیں ہے، اسے بھوک نہیں لگتی، پیاس نہیں لگتی، نہ اسے نیند آتی ہے، نہ اس کے بیوی بچے ہیں یعنی یہ سب اس کی ذات کے لئے مناسب نہیں ہے، اس تصور کے ساتھ لطیفہ خفی پر مراقبہ کرتی ہوں۔
باقی! ہر وقت مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں نے زندگی میں کبھی بھی کوئی اچھا کام نہیں کیا، زندگی ضائع کردی، میری زندگی کا کچھ مقصد ہی نہیں تھا۔ اپنے اندر صرف غلطیاں نظر آتی ہیں، پھر بہت ندامت و شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنے اوپر اور اپنے ہر عمل پر غور کرنے لگی ہوں، پہلے اگر کوئی تھوڑی سی نیکی کا کام کر بھی لیتی، تو دل میں تکبر آنے لگتا کہ میں تو بہت نیک ہوں، لیکن ابھی یہ خیال آتا ہے کہ میں بہت شرمندہ ہوں اور اپنے آپ کو بہت بری لگتی ہوں۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، لیکن میں خود سے ایسا کچھ نہیں سوچتی، خود ہی میرے دل میں آتا ہے، اپنی ذات بہت چھوٹی اور حقیر محسوس ہوتی ہے۔ رات سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تمام دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتی ہوں اور اپنے تمام گناہوں پر توبہ کرتی ہوں اور صبح اٹھتے ہی نیت کرتی ہوں کہ آج میں اپنا کام اللہ کے لئے کروں گی ثواب کی نیت سے اور اللہ کی عبادت کی نیت سے۔ ہر لمحہ اور ہر پل میرا دل اللہ ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، سوتے ہوئے بھی اور جاگتے ہوئے بھی۔ مثلاً: اگر میں رات میں تلاوت کررہی ہوں، تو پڑھتے پڑھتے میری آنکھ لگ جائے، تو پھر جب میری آنکھ کھلتی ہے، تو میں وہیں سے شروع کرتی ہوں، جہاں سے تلاوت چھوڑی تھی۔ میرا دھیان نیند میں بھی اس کی طرف ہوتا ہے۔ یہی حال دن کے وقت بھی ہوتا ہے، جب میں اپنے کام میں مصروف ہوتی ہوں۔ اب یہ حالت بہت زیادہ ہے۔ اب میں آپ کے حکم کے مطابق یہی مراقبہ جاری رکھوں یا نیا سبق ملے گا؟
جواب:
ما شاء اللہ! اب چاروں لطائف پر آپ نے جو مراقبات کیے ہیں، یعنی مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ، مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ، مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ اور مراقبہ صفاتِ سلبیہ، ان سب کے اکٹھے فیض کو شانِ جامع کہتے ہیں۔ اب یہ مراقبہ کریں کہ شانِ جامع کا فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفہ اخفیٰ پہ آرہا ہے۔ اور پہلے والے لطائف بھی آپ جاری رکھیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ الحمد للہ! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ تین سو مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ سو مرتبہ۔ یہ اذکار پڑھتے ہوئے ایک ماہ ہوگیا ہے، آگے کی کیا بات ہے؟
جواب:
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چار سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ سو مرتبہ۔ اب آپ یہ شروع کرلیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! الحمد للہ! میرا علاجی ذکر پورا ہوا، جو کہ بالترتیب: دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے تین ہزار۔ اور اس کے بعد پانچ منٹ مراقبہ ہے۔ مراقبہ کے دوران ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حضرت جی! میں اس وقت مدینہ منورہ میں ہوں، اس سے پہلے جب مدینہ منورہ میں تھا، تو حرم میں روضہ کے سامنے دورانِ مراقبہ تیز روشنی نے چونکا دیا اور آنکھیں چندیا گئیں، لیکن میں نے مراقبہ جاری رکھا، پھر وہی تیز روشنی نظر آئی، مگر اس بار میں نے ہمت کی، تو کچھ لمحوں کے بعد وہ ختم ہوگئی۔ پھر دوبارہ ایسا نہیں ہوا۔ مزید رہنمائی فرمائیں، اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب:
ما شاء اللہ! اب آپ اس طرح کرلیں کہ پانچ منٹ کا مراقبہ جس میں آپ کو ’’اَللہ، اَللہ‘‘ محسوس ہوتا ہے، اس کو دس منٹ کرلیں۔ باقی سارے اذکار وہی ہیں، یہ ایک مہینے کے لئے ہے۔
سوال نمبر 9:
ایک شخص میں توکل کی کمی اور رزق کی پریشانی کی سوچیں رہتی ہیں، زہد کی کمی ہے اور دنیا کا آرام اور راحت پسند ہے، تسلیم و رضا کی کمی ہے، کیونکہ دنیا کے لئے دل میں تجویزیں رکھتے ہوئے کام کرتا ہے اور تجویزیں بہت ہیں، اس کا کیا علاج ہوگا؟ کیا ذکر ہی سے سب کچھ ہوگا؟
ایک جگہ دیکھا کہ نعمتِ ذکاء (intelligence) جس کو ملی ہے، اس کا مصرف یہ بھی ہے کہ دل پر توجہ رکھے کہ کیا حالت ہے۔ کیا اس میں بھی ان مسائل کا علاج ہوگا؟ حسِ ذکاء اور توجہ کے بارے میں سوال ہے کہ کیا اعمال کو اللہ کی رضا کے لئے کرنے اور نفس کو کاٹنے پہ توجہ رکھی جائے یا specific علاج کیا جائے؟ یعنی تفریط کے ساتھ کہ خوف اور رزق پر بھروسہ دل میں لائے، آرام پسندی پر محنت کا سوچے، اعتراض و تجویز پہ تسلیم و رضا کا سوچے یعنی specific کرے یا کس طرح کرے؟
جواب:
یہ ساری باتیں جو آپ نے فرمائی ہیں، یہ تو کرنی ہوتی ہیں، لیکن haphazard نہیں کرنی ہوتیں، ان کو ایک procedure سے کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے Technical side کے جو لوگ ہوتے ہیں، ان میں بھی دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ ہوتے ہیں کہ جو haphazard انداز میں کام کرتے ہیں، کبھی ایک کو چھیڑ دیا تو کبھی دوسرے کو چھیڑ دیا۔ یہ بھی چیزوں کو ٹھیک کرتے ہیں، لیکن اگر پھنس جائیں، تو پھر نکل نہیں سکتے۔ اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں، جو باقاعدہ ایک procedure کے ساتھ چلتے ہیں، ایک ایک کو check کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ By process of elimination کرتے ہیں کہ اچھا، یہ نہیں ہے، تو پھر یہ ہوسکتا ہے۔ پھر اس کے بعد وہ جڑ تک پہنچ جاتے ہیں اور معاملہ حل ہوجاتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں بھی procedure کے ذریعہ جانا چاہئے اور وہ سلوک کا طے کرنا ہے۔ سلوک کو طے کرنے میں مقامِ توبہ، مقامِ انابت، مقامِ ریاضت، مقامِ قناعت اور مقامِ تقویٰ؛ یہ بنیادی مقامات ہیں اور باقی پانچ ان کے اوپر dependent ہیں۔ لہٰذا انسان پہلے گزشتہ سے توبہ کرلے اور آئندہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلے اور اس تیاری میں سستی کو مقامِ ریاضت سے دور کرلے اور حرص کو مقامِ قناعت سے دور کرلے اور اپنی بچت کا راستہ تقویٰ کے ذریعہ سے حاصل کرلے۔ یہ بنیادی چیزیں جب طے ہوجاتی ہیں، تو پھر اس کے بعد مقامِ زہد اور مقامِ توکل؛ یہ جو چیزیں آپ نے بتائی ہیں، یہ ساری ان کے لئے آسان ہوجاتی ہیں۔ ان شاء اللہ Step by step چلیں گے۔ آپ اصل میں وہ چیزیں پڑھ لیتے ہیں، جو کہ آگے والوں کے لئے ہوتی ہیں، اس سے پھر سوال پیدا ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے ہم اس کو غلط تو نہیں کہتے، لیکن ہر چیز جو ٹھیک ہوتی ہے، اس کو ٹھیک طریقہ سے کرنا ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں فلاں اسلام آباد سے ہوں۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! میں روح، نفس، سر اور خفی پر دس دس منٹ مراقبہ اور خفی پر پندرہ منٹ مراقبہ نمازِ فجر کے بعد کرتی ہوں، الحمد للہ! مراقبہ کی نیت کرتے ہی ذکر خود بخود شروع ہوجاتا ہے۔ باقی اوقات میں بھی استغفار، درود شریف اور اذکار کی نیت باہر جاتی ہوں تو بھول جاتی ہوں۔ نماز میں مرتکز ہونے کی کوشش کرتی ہوں، مگر جوں ہی کوئی خیال ذہن میں آتا ہے، تو بھول جاتی ہوں کہ کون سی رکعت پڑھ رہی ہوں۔ بہت بار نماز دوبارہ ادا کی، مگر ہر بار ایسا ہی ہوا۔ میں قرآن کی آیتیں اور سورتیں بدل بدل کر نماز میں پڑھتی ہوں، مگر کبھی کبھی اگلی آیت بھی بھول جاتی ہوں اور پھر بعد میں سورۂ اخلاص پڑھ لیتی ہوں۔ 313 مرتبہ میں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شروع میں کرلیتی ہوں، مگر دھیان بھٹک جاتا ہے اور بھول جاتی ہوں، تو پھر یاد آتے ہی دوبارہ شروع کردیتی ہوں۔ میری ہر بار نیت اور ارادہ ہوتا ہے کہ حضرت جی کو اپنا حال بھیجوں گی، مگر بھولنے کی وجہ سے نہیں بھیج پاتی۔ آپ کی شفقت اور دعاؤں کی محتاج ہوں۔ میرے بچوں کے لئے بھی دعا فرمائیں۔ بچوں کو بھی بیعت کروانا چاہتی ہوں۔ اللہ پاک آپ کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے اور آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔
جواب:
ما شاء اللہ! آپ جو کررہی ہیں، یہ بہت اچھا ہے۔ مراقبہ آپ کا آسانی کے ساتھ ہورہا ہے، تو اس کو تو آگے ہی بڑھائیں گے، ان شاء اللہ۔ اگر خفی پر ہے، تو ابھی اخفیٰ پر جانا چاہئے، یعنی قلب، روح، سر، خفی؛ یہ دس دس منٹ اور اخفیٰ پر پندرہ منٹ کا مراقبہ ہوگا۔ آپ اب یہ کرلیں۔ باقی! نماز میں بھول جانا اصل میں مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتا ہے، لیکن اس شخص کے لئے جو بار بار بھولتا ہو، فقہ میں الگ حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ جس چیز پر اس کو زیادہ گمان ہو، اس پر عمل کرلے۔ اگر آپ کا غالب گمان ہے کہ دو رکعت ہیں، تو پھر دو رکعت سمجھئے گا۔ اگر غالب گمان ہے کہ تین رکعت ہیں، تو تین سمجھ لیں، کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے اللہ پاک نے آسانی پیدا کی ہے۔ ہر ایک ایسا نہیں کرسکتا، اگر کسی کو بار بار غلطی نہیں ہوتی، تو وہ پھر خوب سوچے گا، ورنہ پھر دوبارہ پڑھ لے گا۔ لیکن جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کو بار بار اس قسم کی غلطی لگتی ہے، تو ان کو پھر گمان غالب پر عمل کرنا چاہئے۔ باقی 313 کا جو وظیفہ ہے، وہ تو آپ گن کے کریں گی، اس وقت آپ نماز تو نہیں پڑھ رہیں، لہٰذا آپ تسیبح کے ساتھ یا counter کے ساتھ کرلیں، پھر غلطی نہیں ہوگی۔ لہذا management کے ذریعہ آپ ان چیزوں کو کم کرسکتی ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، اصل میں بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ہر وقت سوچتے رہتے ہیں، تو ان کے ساتھ پھر اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔ حضرت جی! عرض یہ ہے کہ میرا ابتدائی ذکر پانچ منٹ دل پر، پانچ منٹ لطیفۂ روح پر، پانچ منٹ لطیفۂ سر پر، پانچ منٹ لطیفۂ خفی پر، پانچ منٹ لطیفۂ اخفیٰ پر اللہ سننے اور مراقبۂ احدیت کا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے، آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ جزاکم اللہ
جواب:
مراقبۂ احدیت سے آپ نے کیا محسوس کیا؟ یہ ذرا بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ فیصل آباد سے بات کررہا ہوں۔ الحمد للہ! اللہ کے فضل و کرم سے آٹھواں ذکر مکمل ہوگیا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ پانچ سو بار۔ قلبی ذکر ’’اَللہ‘‘ دس منٹ۔ روزانہ کی تسبیحات معمول کے مطابق جاری ہیں۔ شیخ محترم! قلبی ذکر سے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اندر سے کوئی ’’اَللّٰہ، اَللہ‘‘ کررہا ہو، آوازیں محسوس ہوتی ہیں اور کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اندر جھول رہا ہو۔ زیادہ تر اوقات میں اسم ’’اَللہ‘‘ کا تصور ہے، لیکن کچھ مشکل آتی ہے اور کبھی کبھی وسوسے بہت آتے ہیں۔
جواب:
وسوسوں کی تو کوئی پروا نہ کریں، ان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ باقی یہ ہے کہ قلبی ذکر آپ کا دس منٹ ہے، تو دس منٹ قلبی ذکر جاری رکھیں اور لطیفۂ روح جو اس کے سامنے دائیں طرف ہے اسی کی محاذات میں اتنے فاصلہ پہ درمیان سے، تو یہاں پر بھی پندرہ منٹ کریں۔ پہلے دل پہ دس منٹ کر کے پھر وہاں پہ پندرہ منٹ سوچیں کہ ’’اَللہ، اَللہ‘‘ ہورہا ہے۔ آپ کا باقی سارا ذکر وہی ہوگا۔ وسوسوں کی طرف بالکل دھیان نہ کریں۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I pray that you are fine. I have a question regarding the social relations as to what extent can we stay alone if we have a lonely character or we are obliged to meet people regularly or should we respect that someone is lonely and love this if he tells us so? بارک اللہ فیکم with all my respect.
جواب:
ماشاء اللہ to be living lonely, it’s not bad, it’s called خلوت. If it is for cleaning the heart it is very good. But there are some حقوق of others, for example, his marital relations. So, he can’t live alone, he has to live with his wife because she has حقوق. One has to fulfil her rights. Otherwise the person will be a sinner. So, in this case, one can’t be living alone but from other people one can protect oneself if he requires loneliness. So, it’s not bad. But as far as حقوق are concerned, one has to live with them.
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مختلف لوگوں کو چالس دن والے بنیادی ذکر کا کہا، جو انہوں نے پابندی سے کیا، لیکن اس کے بعد آپ سے اگلا ذکر لے کر چھوڑ دیا۔ اس حوالے سے ایسا کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی آپ کو بتائے بغیر اگلا ذکر کرتا ہے اور اسے آگے بڑھنے کا شوق ہے، تو وہ آپ سے رابطہ نہیں کرتا، تو کم از کم اس ذکر سے ہی اس کی کسی درجہ میں اصلاح ہوجائے۔
جواب:
اصل میں ہر وقت اور ہر حالت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں کہتے ہیں: ’’کارِ خود کن، کارِ بیگانہ مکن‘‘ یعنی اپنا کام کرو، دوسرے کا کام اپنے سر نہ لو۔ اس وقت یہ بات ہے۔ البتہ اگر آپ کسی کے اندر خود طلب پائیں، تو اس کو آپ address اور ٹیلی فون نمبر دے سکتے ہیں۔ ذکر ان کو بتا دیں کہ یہ ذکر آپ ٹیلی فون کر کے ان سے لے لیں۔ وہ جب خود لیں گے، تو پھر ان کو اس کا احساس بھی ہوگا۔ اور جن کو طلب ہی نہ ہو، تو آپ ان کو کیا دے سکتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔
سب سے پہلے ہماری طرف سے بات ہوتی ہے، پھر اللہ کی طرف سے بات آتی ہے۔ ہماری طرف سے بات یہ ہے کہ ہمارے اندر طلب ہو اور کوشش ہو، اس کے بعد پھر اللہ کی طرف سے رہنمائی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ چاہتے ہی نہیں، تو ان کے لئے آپ اپنے آپ کو ہلکا نہ کریں۔ آپ ﷺ کو بھی یہی تسلی دی جاتی ہے کہ ہم نے آپ کو داروغہ نہیں بنایا۔ اصل میں ہمارا کام صرف اور صرف facilitation ہے، یہ داروغہ والی بات نہیں ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کے لے آئیں، بلکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو اس پر کافی ناراض ہوتے تھے کہ اگر ان کا کوئی خلیفہ مریدوں کا خط اپنے پاس رکھتا یا ان کو لانے کے بارے میں سوچتا۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم کوئی بھیک مانگے والے تو نہیں ہیں اور نہ ہم نے بھیڑ اکٹھا کرنی ہے۔ جو چاہتا ہے، وہ آئے گا تو ہم اس کی خدمت کریں گے۔ اور حضرت کے پاس جو آتا بھی تھا، تو اس کو بھی کافی رگڑے دے دے کر حضرت بیعت کرتے تھے، اس طرح آسانی سے بیعت نہیں کرتے تھے۔ اب چونکہ بہت خطرناک دور آگیا ہے، اس وجہ سے اب ہمیں حکم ہے کہ دیر نہ کرو اور جلدی بیعت کرو، کیونکہ اگر کسی بے ایمان کے پاس چلا گیا، تو ایمان کھو دے گا۔ اس وجہ سے مجبوراً ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی آتا ہے، تو ہم شرطیں نہیں لگاتے، بلکہ فوراً بیعت کرلیتے ہیں۔ ممکن ہے انہی میں پھر کچھ لوگ قبول ہوجاتے ہیں۔ یہ والا معاملہ ہے۔ بہرحال! آپ اپنے دل کو خالی رکھیں، بس صرف اپنی اصلاح پہ توجہ رکھیں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم۔ محترم حضرت جی! زبانی ذکر تین ہزار مرتبہ کرتی ہوں، کچھ دن ناغہ ہوگیا تھا۔ دل اور روح کا ذکر دس دس منٹ کرتی ہوں۔ جب شروع کرتی ہوں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبان سے ہورہا ہے، دل سے محسوس نہیں ہوتا۔ باقی خاموشی ہے۔
جواب:
اب زبانی ذکر ساڑھے تین ہزار کرلیں اور اپنی کوشش جاری رکھیں۔ اگر آپ بالکل دونوں نہیں کر رہیں، تو فی الحال دل پر ہی پندرہ منٹ کریں۔ دل پر ہی محسوس کریں کہ دل میں ’’اَللہ، اَللہ‘‘ ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ بجائے دو لطیفوں کے ایک ہی لطیفہ یعنی لطیفۂ قلب پر پندرہ منٹ آپ یہ تصور کرلیں کہ وہاں پر ’’اَللہ، اَللہ‘‘ ہورہا ہے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، صحت اور تندرستی عطا فرمائے، کاملین اور صدیقین میں شامل فرمائے۔ (آمین) حضرت جی! عطا کیے گئے ذکر کا مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور آٹھ ہزار۔ مراقبۂ قلب اور مراقبۂ روح دس دس منٹ ہے۔ ذکر کے دوران قلب پر پہلے کی طرح ہلکا سا کھچاؤ محسوس ہوتا ہے، جبکہ ذکر اور مراقبہ میں توجہ اکثر کم ہوتی ہے، اعمال میں کوئی دباؤ نہیں، گناہ کے مقابلہ میں ہمت قطعاً نہیں، گناہ میں اللہ کی بنسبت دنیا اور لوگوں کا خوف زیادہ ہے، دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔
جواب:
اب دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے آٹھ ہزار مرتبہ ذکر کریں اور دل کا ذکر اور روح کا ذکر دس دس منٹ جاری رکھیں۔ اصل میں ہمت سے کام لینا ہوتا ہے، اگر انسان کو بالکل بھی محسوس نہ ہو رہا ہو اپنی گناہ کی حالت میں، تو پھر وہ ندامتِ عقلی سے کام لے، یعنی ایک ہوتی ہے ندامتِ طبعی اور ایک ہوتی ہے ندامتِ عقلی، ندامت عقلی مطلوب ہے۔ پس آپ اس سے کام لیا کریں کہ میں نے گناہ کیا ہے اور گناہ پہ تو سزا ہے، تو اس سزا کو میں برداشت نہیں کرسکوں گا، لہذا مجھے گناہ نہیں کرنا چاہئے اور جو کیا ہے، اس پر توبہ کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 17:
حضرت جی! السلام علیکم۔ میں کراچی سے فلاں بات کررہا ہوں۔ حضرت! مراقبہ کے دوران عام طور پہ کوئی ذکر محسوس نہیں ہوتا، کچھ احوال میں تنگی ہے، گمان یہی ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ اس حالت کو تربیت کا ذریعہ بنا رہے ہیں، واللہ اعلم۔ تمام تسبیحات اور معمولات مکمل کرنے کے لئے کوئی رغبت نہیں پارہا ہوں، اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، لیکن دل میں کوئی کیفیت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ نے پہلی دفعہ مراقبہ کی ہدایت کی تھی، اللہ تعالیٰ سے میرے لئے خصوصی دعا کیجئے۔ نیز پچھلی دفعہ دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو کی تسبیح اور پانچ منٹ کے لئے مراقبہ کرتا رہا ہوں، آگے کی رہنمائی بتا دیجئے۔
جواب:
اس میں یہ ہے کہ اب دو سو، چار سو، چھ سو اور ہزار شروع کرلیں یعنی دو سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو دفعہ ’’حَقْ‘‘ اور ہزار مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ اور پانچ منٹ کے لئے مراقبہ کرلیا کریں، ان شاء اللہ خود ہی ساری چیزیں راستہ بنا لیں گی۔ آپ کوئی فکر نہ کریں، آہستہ آہستہ یہ چیزیں نصیب ہوں گی، ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 18:
نمبر 1: حضرت! غضِ بصر کا مجاہدہ کسی کو بھی بتایا جا سکتا ہے یا آپ سے اجازت لیے بغیر نہیں دینا چاہئے یا اس کے لئے بیعت کرنا ضروری ہے؟
نمبر 2: نکاح سے پہلے اگر کسی لڑکی میں یا لڑکے میں دینداری دیکھنی ہو کہ وہ دیندار ہے یا نہیں, تو اس کا کیا معیار ہے؟ کیا جو لڑکی پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو یا پردہ دار ہو، یہی کافی ہے یا دوسری چیزیں بھی ضروری ہیں؟ آج کل پردہ تو کوئی کوئی کرتا ہے، ایسی صورت میں رشتہ ہونا مشکل ہوگیا ہے۔ آپ لوگ باقاعدہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ پردہ وغیرہ اور دوسری چیزیں ماحول ملے گا، تو بعد میں ہوجائیں گی، ابھی ان چیزوں پر زور نہیں دینا، ورنہ نکاح نہیں ہوتا۔ اللہ پاک آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے راضی ہو۔
جواب:
غضِ بصر تو ضروری ہے۔ وہ تو اللہ پاک کا حکم ہے، لہٰذا اس کے لئے کسی پیر کا بتانا یا کسی استاد کا بتانا ضروری نہیں ہے، لیکن اصلاح کے لئے جب کوئی قدم اٹھاتا ہے، تو جس کو استاد بنایا جاتا ہے، جس کو شیخ بنایا، تو پھر اس کی بات ماننی ہوتی ہے۔ اب چونکہ یہ مجاہدہ ہے اور مجاہدہ نفس کے خلاف ہوتا ہے اور نفس آسانی سے مانتا نہیں، اس لئے ایسی صورت میں جب پیر اس کو بتاتا ہے، تو اس پیر کے بتانے کی برکت سے وہ کچھ کرلیتا ہے، اگر کوئی دوسرا آدمی اس کو بتا دے، تو وہ ویسے ہی اس کو علمی طور پہ لے لیتا ہے، جس سے بس اس کے علم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ گویا یوں سمجھ لیجئے کہ نقشبندی حضرات جو کہتے ہیں کہ جذب پہلے ہو، پھر اس کے بعد سلوک ہے، تو وہ جذب کی کیفیت باقی سلاسل میں شیخ کے بتانے سے ہوتی ہے۔ شیخ کے ساتھ چونکہ محبت ہوتی ہے، تو اس کے بتانے میں جذب پیدا ہوتا ہے اور اس جذب کے ذریعہ سے انسان کو کچھ اثر پیدا ہوتا ہے، اس وجہ سے سلوک کے مشکل مراحل آسانی کے ساتھ طے ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ نے کسی کو بتایا اور آپ اس کے پیر نہ ہوں، تو وہ علمی طور پر اس کو سن لے گا، لیکن اس کو کرنا اس کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ ہمیں تو باقاعدہ اس کا تجربہ ہوا تھا کہ حضرت جو وظیفہ دیتے تھے، وہ الحمد للہ! ابھی تک شکر ہے کہ چل رہا ہے، اس کے چھوڑنے کی ہم جرات ہی نہیں کرسکتے، حالانکہ ضروری تو نہیں ہے کہ وہی جاری رکھیں۔ لیکن وہ چل رہا ہے۔ مناجاتِ مقبول بتایا تھا، اور بھی جو چیزیں بتائی تھیں، وہی ہم کررہے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت اور تفسیر سب چیزیں جو بتائی تھیں، وہی الحمد للہ! ہم کررہے ہیں۔ چونکہ شیخ کے ساتھ محبت تھی، ابھی بھی الحمد للہ جب ہمیں شیخ یاد آجاتے ہیں، تو ہمارے دل کی حالت بدل جاتی ہے، حالانکہ حضرت تو دنیا سے فوت ہوگئے ہیں، لیکن اثر تو ہے۔ تو شیخ کی وجہ سے حالات بدل جاتے ہیں، لہذا اس کو Textbook solution نہ لیں، بلکہ اس کو Practical implication سمجھ لیں، جس کے لئے practical طریقے اپنانے ہوتے ہیں۔
باقی! آپ کا جو دوسرا سوال ہے، تو یہ معاشرت کا ایک لمبا topic ہے، اس پر میں مختصر بات نہیں کرسکتا۔ یہ پورا ایک بیان ہے، اس کے بارے میں کیا کہوں۔ لہٰذا اس کو تو میں مؤخر کروں گا، کیونکہ اس پر اس وقت میرے خیال میں بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی بہت شقیں ہیں، لہٰذا ایک ایک شق پر بات کرنی پڑے گی اور اگر درمیان میں کوئی شق رہ گئی، تو پھر تشنگی رہے گی۔ ایک دفعہ مجھ سے کسی نے بیان کے بعد کہا کہ آپ کو یہ بھی کہنا چاہئے تھا، یہ بھی کہنا چاہئے تھا، یہ بھی کہنا چاہئے تھا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے جتنا کہا ہے، ان میں کوئی چیز زائد ہے جس کو remove کیا جاسکتا تھا کہ نہ بھی کہو تو کوئی بات نہیں؟ کہتے ہیں کہ نہیں، سب چیزیں ضروری تھیں۔ میں نے کہا کہ ٹائم میرے پاس ایک گھنٹہ تھا، اس ایک گھنٹہ میں جتنا کہا جاسکتا تھا، وہ میں نے کہہ دیا، اب آپ باقاعدہ سارے بیان سن لیا کریں، ان میں وہ بھی آجائے گا، جو آپ چاہتے ہیں، کیونکہ ایک بیان میں تو ساری چیزیں نہیں آسکتیں۔ اس وجہ سے اب موجودہ حالت میں تو گھنٹہ بھی میرے پاس نہیں ہے، تو میں اس کو کتنا ٹائم دوں۔ کہتے ہیں کہ اگر clear نہیں کروا سکتے، تو پھر نہ کہنا ہی ٹھیک ہے، کیونکہ ابھی میں آپ کے ایک سوال کا جواب دے رہا ہوں گا، تو اس کے ذریعہ سے دوسرا سوال پیدا ہوگا، پھر آپ دوسرا سوال کریں گے، پھر آپ تیسرا کریں گے، یہ پھر No ending والی position ہوجائے گی۔ اس لئے میرے خیال میں اس قسم کے سوالات اس forum پر نہیں کرنے چاہئیں، اس کے لئے علیحدہ فارم ہونا چاہئے یا پھر یہ ہے کہ وہاں کے علماء کرام سے consult کرلو، یعنی جو حضرات وہاں موجود ہیں، ان کے ساتھ consult کرلو، تو وہ بھی رہنمائی کر دیں گے، کیونکہ یہ تو ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ رب العزت آپ کے درجات بلند فرمائے، آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے اور آپ کو لمبی حیات نصیب فرمائے۔ (آمین)
محترم حضرت جی! وظیفہ یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ پانچ سو مرتبہ، مراقبہ پانچ منٹ کے لئے لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ اور پندرہ منٹ کے لئے مراقبہ شیوناتِ ذاتیہ یعنی یہ تصور کرنا کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور وہاں سے شیخ کے قلب پر اور ان سے میرے لطیفۂ سر پر آرہا ہے، مزید تیس دن کے لئے الحمد للہ! مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت جی! اگر مجھ سے کوئی غلط کام ہوجائے، تو فوراً اس کا ادراک ہونے لگتا ہے کہ اللہ سے معافی اور توبہ کرتا ہوں، مگر طبیعت غیر مطمئن رہتی ہے۔ کام کا load بھی کافی ہے، جس کی وجہ سے روز کے معمولات کرنے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ الحمد للہ! معمولات باقاعدگی سے تو ہورہے ہیں، لیکن وقت کی پابندی نہیں ہو پا رہی۔ اکثر اوقات صبح سات بجے جاتا ہوں، رات کو ایک دو بجے واپس آتا ہوں، ایک ماہ سے یہی routine ہے۔ آپ سے ملاقات کا بھی دل کرتا ہے، مگر یہاں نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے پاس نہیں آ پا رہا۔ حضرت جی! میرے لئے آئندہ کے لئے کیا حکم ہے؟ آپ کی دعاؤں کا طلبگار۔
جواب:
فی الحال آپ یہی کرلیں، اس کو بڑھاتے نہیں ہیں، کیونکہ آپ کی condition ایسی ہے کہ آپ اس کو زیادہ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا فی الحال مزید ایک مہینے کے لئے آپ یہی جاری رکھیں، کیونکہ آپ کے لئے اس کو بڑھانا مناسب نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے ابھی آپ اسی کو کرلیں، تاکہ آپ یکسو رہیں اور ان شاء اللہ جب حالات کچھ بہتر ہوجائیں گے، تو پھر اس کو بڑھا دیں گے۔ ایک مہینے کے بعد report ضرور کردیجئے گا۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم۔ تصوف کے بارے میں کچھ رہنمائی مل سکتی ہے؟
جواب:
کیوں نہیں مل سکتی، بالکل مل سکتی ہے۔ آپ ذرا سننا اور پڑھنا شروع کرلیں۔ سب سے پہلے آپ یوں کرلیں کہ ہماری ویب سائٹ tazkia.org کو consult کرلیں، ابتدا میں آپ اس طرح کرلیں کہ اس کا جو اردو ورژن ہے، اس میں جو بنیادی text سامنے آتا ہے، اس کو آپ پورا پڑھ لیں۔ یہ پورا ایک chapter ہے۔ پھر اس کے بعد FAQs یعنی Frequently asked questions میں جو سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں، ان کو بھی آپ پڑھ لیں۔ اس سے ان شاء اللہ آپ کو بنیادی رہنمائی مل جائے گی۔ باقی! اگر بعد میں اس کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو، تو ضرور مجھ سے پوچھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: چار ہزار مرتبہ اسم ذات کا زبانی ذکر ہے، ایک ماہ کرلیا۔
جواب:
اب ساڑھے چار ہزار مرتبہ کرلیں۔
نمبر 2: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ سلبیہ پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
مراقبہ صفاتِ سلبیہ محسوس ہوتا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا محسوس ہوتا ہے؟ یہ بتا دیجئے گا۔
نمبر 3: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ پندرہ منٹ۔ اس خاتون نے اس مراقبہ کو ایک ماہ کرلیا تھا، لیکن پھر بہت بیمار ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ اب دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
دوبارہ شروع کرلیں۔
نمبر 4: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفہ خفی پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! یہ کہہ سکتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ تو اس میں یہ ہے کہ ابھی آپ ان سارے لطائف پر دس دس منٹ ذکر محسوس کرنے کے بعد مراقبہ احدیت اس کو دے دیجئے گا۔ جس میں یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیض جیسا کہ اس کی شان ہے، آپ ﷺ کے قلب مبارک پر، آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر آرہا ہے۔
نمبر 5: اس طالبہ نے لطیفۂ قلب دس منٹ تک ذکر کیا تھا اور محسوس بھی ہوتا تھا، لیکن پھر والد کی بیماری کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ دیا اور ذکر بھی چھوڑ دیا تھا۔ اب والد کی فوتگی کے بعد دوبارہ مدرسہ شروع کرلیا ہے اور ذکر بھی شروع کرنا چاہتی ہے۔
جواب:
جہاں سے چھوڑ دیا تھا، وہاں سے شروع کرلیں۔
نمبر 6: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ پندرہ منٹ۔ اس میں کیا محسوس ہوتا ہے؟ یہ ذرا بتا دیجئے گا۔
نمبر 7: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ احدیت پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے، یعنی عبادت کا شوق بہت بڑھ گیا ہے۔
جواب:
تو ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ مراقبہ احدیت کی جگہ اس کو مراقبہ تجلیات افعالیہ کہ سارے کام اللہ پاک کرتے ہیں، اس کا فیض مراقبہ احدیت کے طریقے سے ان کو سمجھا دیجئے گا۔
نمبر 8: لطیفہ قلب دس منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے۔ لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ بتا دیں۔
نمبر 9: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ۔ تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اب سب پہ دس دس منٹ کر کے مراقبہ احدیت سمجھا دیجئے گا۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ہمارے تربیتی پروگرام کی جو آن لائن کلاسز ہوتی ہیں، ان میں بچوں کی position اور نام بھی بتاتے ہیں، اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، بہت سے بچوں نے مقابلہ میں کافی سنتوں پر عمل شروع کیا اور نمازوں میں پابندی آئی، لیکن ایک ساتھی نے گزشتہ دنوں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ بچوں کے نام کلاس میں نہ بتائیں، ان کی position بتانے سے ان کو نظر لگنے کا اندیشہ ہے اور بچے تو خود سے ہی اپنی حفاظت نہیں کرسکتے۔ حضرت! اس سے متعلق آپ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
پھر تو سکول جانا بھی چھوڑ دیں، کیوں کہ نظر لگے گی۔ بلکہ گھر سے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیں۔ بھائی! اس کے لئے آپ احتیاطی تدابیر ان کو بتا دیں۔ باقی یہ ہے کہ کب تک آپ بچ سکتے۔ جیسے مثال کے طور پر ریا سے بچنا ہے، لہٰذا نوافل گھر میں پڑھنے چاہئیں، لیکن جماعت کی نماز مسجد میں پڑھیں۔ اس میں اگر ریا کا اندیشہ بھی ہو، تو اس کی بھی پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کو ویسے ختم کرنا چاہئے، کیونکہ وہ ایک اجتماعی عمل ہے اور اس کو اجتماعی طور پہ کرنا چاہئے۔ تو یہ سارے معاملات اس طرح ہیں کہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتے، لہذا آپ اس کی فکر نہ کریں، ان شاء اللہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم۔ حضرت اقدس! مزاج بخیر ہوں گے۔ بندہ کی نماز میں خشوع و خضوع نہیں ہے، ہر چند کوشش کی ہے، مگر کامیاب نہیں ہوا۔ حضرت والا! علاج اور دعا فرمائیں۔
جواب:
دعا کرنے سے تو کوئی انکار نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو خشوع و خضوع والی نمازیں نصیب فرما دے۔ لیکن خشوع و خضوع کو بعض لوگ سمجھتے نہیں ہیں، جس کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ جو وسوسے خود سے آئیں، وہ خلافِ خشوع و خضوع نہیں ہیں۔ وسوسے خود لانے سے خشوع و خضوع ختم ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود لاتا نہیں ہے، لیکن جو آئیں، ان کو پالنا شروع کرلتا ہے، ان کے ساتھ involve ہوجاتا ہے، تو وہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ بس آپ پروا نہ کریں، مثبت نہ منفی، نہ ان کو دور بھگائیں اور نہ ان کو قریب لائیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وسوسے بجلی کی تاروں کی طرح ہیں، اگر اس کو دور کرنے کے لئے بھی ہاتھ لگاؤ گے تو وہ پکڑ لے گی۔ لہٰذا نہ مثبت کوشش کرو اور نہ منفی کوشش کرو، بس اپنے کام کے ساتھ کام رکھو، یعنی بس نماز کی طرف دھیان کرو، نماز میں نیت کی طرف دھیان کرو یعنی ہر کام کو نیت کے ساتھ کرو۔ نیت دل میں کرو، زبان سے نہیں۔ اور یہ کہ کچے حافظ کی طرح نماز پڑھو، اس سے ان شاء اللہ العزیز نماز میں مشغولی ہوگی۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت شاہ صاحب! میرا مہینہ الحمد للہ! مکمل ہوا۔ درج ذیل بتایا ہوا ذکر کرتا ہوں:
دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے تین ہزار، پندرہ منٹ مراقبہ اسم ذات۔ اب دل اعمال کی طرف مائل ہوتا ہے اور گناہ سے بچنے کی کوشش بھی اور احساس بھی ہوتا ہے اور استغفار بھی کرتا ہوں۔ صرف ایک دن نہیں ہوا۔ یکسوئی اب بھی کم ہے، لیکن الحمد للہ! ذکر چھوڑنے کی طرف دل نہیں مانتا۔ ذکر شروع کرتے وقت بہت بوجھ محسوس ہوتا ہے، گیس کی شکایت کی وجہ سے وضو بڑی مشکل سے قائم رکھ پاتا ہوں، لیکن ذکر کے وقت اس کا غلبہ رہتا ہے۔ از راہِ کرم آئندہ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ پابندی سے انسان گھبراتا ہے اور جس وقت انسان سے پابندی کسی بھی چیز کے بارے میں ہوجائے۔ میں آپ کو اس کی مثال دوں کہ پیٹ کا مسئلہ تو آج کل اکثر لوگوں کو ہے، کیونکہ خوارک اس قسم کی ہیں، عام طور پر انسان کو یاد نہیں رہتا، آدمی پروا نہیں کرتا، کیونکہ اپنے گھر میں ہوتا ہے یا اپنے دفتر میں ہوتا ہے، تو toilet قریب ہوتا ہے، کوئی پریشانی نہیں ہوتی، normal انداز میں کام کرتا ہے، لیکن اگر سفر پہ جارہے ہوں، تو بس پھر پریشانی لگ جاتی ہے کہ اگر یہ ہوگیا، تو کیا ہوگا اور اگر یہ ہوگیا، تو کیا ہوگا۔ اور اس وقت پھر واقعی ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ tension سے چیز بڑھتی ہے، یہ ایک Species circle بن جاتا ہے، لہٰذا اس کو بھی اگر آپ relax انداز میں چھوڑ دیں، تو پھر اس طرح نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے آپ relax کریں اور ابھی پندرہ منٹ کا اسم ذات کا جو ذکر ہے، وہ اب دس منٹ کرلیں اور پندرہ منٹ لطیفۂ روح پر کرلیا کریں۔
سوال نمبر 25:
حضرت جی! ابتدائی چالیس روز کے معمولات کے بعد اب مجھے کیا کرنا ہے؟
جواب:
ما شاء اللہ! ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ پہلے ابتدائی ذکر کے چالیس دن تو آپ کے ہوگئے ہیں، ابھی تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار پورا پورا؛ یہ سو سو دفعہ پڑھنا ہے اور ذکر جو آپ نے ہمارے ساتھ کیا ہوگا، یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو دفعہ۔ ’’حَقْ‘‘ سو دفعہ، ’’اَللہ‘‘ سو دفعہ۔ اس کو آپ ایک مہینہ کریں گے۔ باقی! تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار؛ یہ عمر بھر کے لئے ہے اور نمازوں کے بعد والا ذکر بھی عمر بھر کے لئے ہے۔
سوال نمبر 26:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: سالک کو کس حد تک اپنے اعمال کی اطلاع شیخ کو دینی چاہئے، جو اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہوتی ہے؟
جواب:
ان اعمال کی اطلاع ضرور دینی چاہئے جو اصلاح کے لئے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ اعمال جو اصلاح کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، وہ اپنے شیخ سے consult کرنے چاہئیں، کیونکہ علمی باتیں اپنے استادوں سے اور عملیات والی باتیں عاملوں سے سیکھنی چاہئیں، شیخ سے صرف اصلاح سے متعلق باتیں کرنی چاہئیں۔ اپنے احوال کہ ذکر کیا ہے اور کیا feel کررہے ہیں اور اس کا کیا اثر ہے، اس قسم کی چیزیں آپ کو شیخ سے بتانی چاہئیں، کیونکہ وہ آپ کی دینی اور روحانی صحت سے متعلق ہیں۔
نمبر 2: اگر سالک کو اپنے شیخ سے اتنی محبت ہوجائے کہ شیخ کی جدائی بالکل برداشت نہ کرسکے اور دوسری طرف شیخ کے حرج کا خوف بھی ہو، تو سالک کو ایسا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ جس سے شیخ کو حرج بھی نہ ہو اور سالک کی تکلیف بھی قابل برداشت ہوجائے۔
جواب:
میں ایک دفعہ کراچی سے غالباً فیصل آباد کے راستے سے آرہا تھا، تو لاہور کے کچھ لوگ میرے انتظار میں تھے۔ ٹائم میرے پاس تھوڑا ہوگیا اور تھکاوٹ بھی کافی تھی، ان میں سے ایک person کو میں نے فون کر کے کہا کہ مجھے لاہور آنا تھا، لیکن تھکاوٹ بھی ہے اور وقت بھی کم ہے، تو آپ کیا فرماتے ہیں کہ میں کیا کروں؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کا آرام اپنے ہاں آنے سے زیادہ عزیز ہے، لہٰذا آپ فی الحال اِدھر نہ آئیں، بلکہ آپ وہاں جا کے rest کریں اور ان شاء اللہ پھر کبھی آپ ہمارے پاس آئیں گے۔ تو یہ اصل محبت ہے۔ ایک سطحی محبت ہوتی ہے اور ایک اصلی محبت ہوتی ہے۔ اصلی محبت میں جن کے ساتھ محبت ہوتی ہے، ان کا خیال رکھا جاتا ہے اور سطحی محبت میں اپنا خیال رکھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں اتنی بات یاد رکھنی چاہئے کہ شیخ کے چوبیس گھنٹے ہی ہوتے ہیں، گھنٹے زیادہ نہیں ہوتے، انہی چوبیس گھنٹوں میں انہوں نے سونا بھی ہوتا ہے، نمازیں بھی پڑھنی ہوتی ہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا ہے اور دوسرے کام دینی اگر ان کے ذمہ ہیں، تو وہ بھی کرنے ہوتے ہیں۔ جیسے کتاب لکھنی کی مصروفیت ہے یا کوئی اور اس طرح کی مصروفیت ہوسکتی ہے، مختلف لوگوں کی مختلف مصروفیات ہوتی ہیں۔ اور پھر صرف ایک مرید ہی نہیں ہوتا، اگر ہر مرید چاہے کہ میری ہر بات کا جواب شیخ دے، تو یہ ممکن ہی نہیں، اس وجہ سے ایک ترتیب کے ساتھ وہ چلتا ہے، اسی ترتیب کے مطابق اپنا تعلق بھی رکھے، اسی سے ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
سوال نمبر 27:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
اگر آپ کا general فیض ہے، تو اس سے آپ نے کیا محسوس کیا، وہ ذرا مجھے بھیج دیجئے گا اور اگر دوسرا فیض تھا، تو اس سے آپ نے کیا محسوس کیا، وہ مجھے بھیج دیں۔
سوال نمبر 28:
سر! میری کچھ باتوں کے بارے میں کسی کو پرانے گزرے ہوئے واقعات دکھائی دے سکتے ہیں؟ کیا یہ روحانیت پہ چلنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے؟ یعنی ماضی میں کوئی واقعہ جو رونما ہوتا ہے یا جو عظیم شخصیات ہوتی ہیں، ان کو دیکھنا جیسے وہ واقعہ ہورہا ہو اور بندہ دیکھ لے، جیسے ویڈیو چل رہی ہوتی ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ یعنی یہ شیطان کی طرف سے تو نہیں ہوتا؟ یہ کیسے پتا چلے گا کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے؟
جواب:
اصل میں خواب یا کشف چاہے کسی کا بھی ہو، ظنی ہوتا ہے۔ پیغمبر کا نہیں، پیغمبر کے علاوہ ہر ایک کا خواب یا کشف ظنی ہوتا ہے اور ظنی چیز کو آپ یقینی اور قطعی نہیں کہہ سکتے۔ البتہ میں ایک بات عرض کرتا ہوں جو بہت آسان ہے، مثلاً: ایک شخص ہے اس کو کشف ہوگیا، وہ ایک عالم ہے، اس کو کسی مسئلہ کی ضرورت ہے، اس کو اس نے معلوم کرنا ہے، اس کو کشف ہوگیا کہ فلاں کتاب کے فلاں صفحہ پر وہ مسئلہ موجود ہے اور وہ کتاب کھول لے اور اسی صفحے پہ وہ مسئلہ حقیقت میں موجود ہو۔ ہمارے حضرت کو ایسا ہوا تھا، ختم نبوت پہ کام کررہے تھے، اس سلسلے میں ایک خاص حدیث شریف تھی، وہ نہیں مل رہی تھی، آج کل کی طرح انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں تھی، تو ان کو کشف ہوا یا خواب آیا کہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شرح ابوداؤد نظر آئی کہ اس میں وہ حدیث موجود ہے، جب اس میں دیکھا، تو واقعی حدیث موجود تھی۔ اب یہ کشف تھا یا خواب تھا، جو بھی تھا ظنی تھا، لیکن جو چیز نظر آئی، وہ تو ظنی نہیں ہے، وہ قطعی ہے، کیوں کہ وہ تو نظر آگئی۔ تو ایسے کشف بڑے مبارک کشف ہوتے ہیں، اس قسم کی باتیں اگر آپ نے دیکھ لی ہوں اور واقعی کتابوں میں وہی ہیں، تو ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ چاہے آپ کو ویسے ہی نظر آیا، لیکن بہرحال چیز تو صحیح ہے اور documented ہے، لہٰذا یہ صحیح ہے۔ اور اگر کتاب میں اور لکھا ہے اور آپ نے اور دیکھا ہے، تو پھر سوال اٹھے گا کہ کون سی لیں اور کون سی نہ لیں۔ پھر ہم ظاہری کتابی باتیں ہیں، اس کی اصطلاحات کو ہی preference دیں گے۔ بہرحال! تفصیلی بات تو اس پہ نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ بڑا لمبا topic ہے۔ میرے خیال میں اتنا کافی ہے۔
سوال نمبر 29:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ حضرت جی! میری بیوی کا ایک پلاٹ تھا، میں خود خریدنا چاہتا تھا، لیکن اس نے اپنے بھائی کو دے دیا اور مجھے بتایا بھی نہیں، جب مجھے پتا چلا، تو میں اس سے کافی ناراض ہوا، حالانکہ اس کا حق تھا کہ جسے چاہے بیچ دے، لیکن میرا نفس اس سے بری طرح پیچ و تاب کھا رہا ہے اور بار بار اپنی توہین کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ دن یہ حالت رہی کہ وساوس آتے تھے۔ تصوف میں آ کے مجھے کیا ملا؟ پہلے ٹھیک تھا، اب تو یہ مسائل بڑھ گئے ہیں۔ اس میں میں اللہ پاک سے دعا بھی کرتا ہوں کہ اے اللہ! مجھے مسائل سے بچا لے۔ حضرت جی کی برکت سے ہی تو بچا ہوں، ورنہ کیا سے کیا بن چکا ہوتا۔ رو رو کے اللہ پاک سے معافی مانگتا ہوں اور آخری سانس تک سلسلہ کے ساتھ جڑے رہنے کی توفیق مانگتا ہوں، لیکن ساتھ ساتھ آسانیوں کے لئے بھی دعائیں کرتا ہوں۔ حضرت جی! میں بہت کمزور ہوں اور ناسمجھ بھی۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اصل میں بات یہ ہے کہ تصوف اس دنیا کے لئے ہے ہی نہیں، یہ تو آخرت میں کامیابی کے لئے ہے۔ البتہ جیسے چنگی میں بچوں کو extra چیز مل جاتی ہے، وہ ان کا حق نہیں ہوتا اور نہ ان کی demand ہوتی ہے، لیکن وہ مل جاتی ہے، اسی طرح چنگی میں دنیا کے کچھ مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں۔ چنگی میں آپ کو پتا ہے کہ اگر وہ بچہ کہہ دے کہ مجھے دو، تو اس کو ڈانٹا بھی جاسکتا ہے کہ جو چیز تیری تھی، وہ میں نے تجھے دے دی، اس کا تو آپ کو حق نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کو ڈانٹا بھی جاسکتا ہے۔ لہٰذا آپ اس کو اپنی دنیا کے لئے سمجھیں ہی نہیں۔
باقی! آپ نے دیکھ لیا کہ بیوی کا پلاٹ تھا اور اس نے خود اپنی مرضی سے بھائی کو فروخت کیا، تو ملکیت اسی کو کہتے ہیں، مالکانہ حقوق اسی کو کہتے ہیں۔ ملکیت میں کوئی کسی کا پابند نہیں ہوتا۔ ہاں! ناز کا معاملہ الگ ہے، لیکن معاملات میں ناز نہیں چلتا۔ ہماری پشتو میں بہت اچھی ضرب الامثال ہیں، اس موقع کے لئے بھی ایک ضرب المثل ہے: ’’روری خوری به کؤ خو حساب کتاب ترمینځه‘‘ یعنی بھائی بہن والی بات ہوگی، لیکن حساب کتاب درمیان میں ہوگا۔ اس میں یہ والی نہیں کہ تم میرے بھائی ہو۔ ٹھیک ہے کہ بھائی ہو، بہن ہو، جو بھی ہو، بیوی ہو، لیکن کرنا حساب کتاب ہے، جو جس کا حق ہے، وہ اس کو ملے گا، اس وجہ سے میاں بیوی کو آپس میں ان چیزوں میں دوسرے کے لئے حائل نہیں ہونا چاہئے، ورنہ زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
اور وساوس کی تو پروا ہی نہیں کرنی چاہئے، وساوس تو وساوس ہوتے ہیں۔ وسوسے کو جتنا چھیڑو گے، تو یہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ بس اس کو نہ چھیڑو، تو یہ بھی تمہیں چھوڑ دے گا۔ بس اس کا آسان طریقہ یہی ہے۔
سوال نمبر 30:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں اہلیۂ فلاں بات کررہی ہوں۔ حضرت جی! الحمد للہ! مراقبہ قلب دس منٹ کے بعد مراقبہ روح پندرہ منٹ کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہونے والا ہے، مراقبہ روح محسوس ہونے لگا ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ دونوں یعنی مراقبۂ قلب اور مراقبۂ روح دس دس منٹ کریں اور مراقبۂ سر پندرہ منٹ کے لئے کرلیں۔ مراقبہ سر کی جگہ یہ ہے کہ دل سے چار انگل اوپر ایک لائن کھینچیں، پھر وہاں سے left کی طرف یعنی سینے کی طرف، اور پھر دو انگل پر نقطہ لگائیں، تو یہ لطیفۂ سر کی جگہ ہے۔ اس پر آپ نے پندرہ منٹ مراقبہ کرنا ہے۔
سوال نمبر 31:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میرے معمولات دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘، دس منٹ مراقبہ۔ حضرت جی! غصہ اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے، لوگوں کی معمولی باتوں پر عزتِ نفس مجروح ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
جواب:
ابھی دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، تین سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، تین سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘ اور مراقبہ دس منٹ کا جاری رکھیں۔ باقی یہ ہے کہ فی الحال آپ ان issues پہ زیادہ زور نہ دیں، بس صرف عقلی طور پر ان چیزوں کو قابو کرلیا کریں، ابھی اس کا stage نہیں آیا، کیونکہ ذکر سے یہ چیزیں ختم نہیں ہوتیں، یہ چیزیں سلوک طے کرنے سے ختم ہوتی ہیں۔ اور اس کی ابھی باری نہیں آئی۔ بس عقلی طور پر اس کو control کرنے کی کوشش کرلیں۔
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ ذہن میں محسوس کرلیں کہ عزت نفس اور یہ ساری چیزیں ہماری سوچ کی وجہ سے ہیں، اگر انسان سوچ کو بہتر کردے، یعنی اپنے آپ کو کچھ سمجھے ہی نہیں، تو پھر ان باتوں پہ غصہ بھی نہیں آئے گا۔ ہم لوگ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں، اس وجہ سے مسئلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہئے۔ پس عقلی طور پر آپ اس کو سوچا کریں، ان شاء اللہ یہ بہتر ہوجائے گا۔
سوال نمبر 32:
ابتدائی معمولات ہوگئے۔
جواب:
ابھی آپ اس طرح کرلیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار سو سو دفعہ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ سو دفعہ، ’’اَللہ‘‘ سو دفعہ۔ یہ ذکر جہری طور پر کریں اور نماز کے بعد والا ذکر بھی آپ جاری رکھیں عمر بھر کے لئے۔ پہلے والا ذکر یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار؛ یہ بھی سو سو دفعہ عمر بھر کے لئے ہے اور نماز کے بعد والا بھی۔ درمیان والا ذکر آپ ایک مہینہ کریں۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔