اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿وَلَهُ الْكِبْرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ-وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾ (الجاثیہ: 37) وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ﴾ (النحل: 23) وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا﴾ (التوبہ: 25) وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ”مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰهِ رَفَعَهُ اللهُ، فَهُوَ فِيْ نَفْسِهٖ صَغِيْرٌ، وَفِيْ أَعْيُنِ النَّاسِ عَظِيْمٌ، وَمَنْ تَكَبَّرَ وَضَعَهُ اللهُ، فَهُوَ فِيْ أَعْيُنِ النَّاسِ صَغِيْرٌ، وَفِيْ نَفْسِهٖ كَبِيْرٌ، حَتّٰى لَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِمْ مِنْ كَلْبٍ أَوْ خِنْزِيْرٍ“۔ (شعب الایمان للبیھقی، حدیث نمبر: 7790)
وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ: ”وَأَمَّا الْمُهْلِكَاتِ: فَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهٖ، وَهِيَ أَشَدُّهَا“ (شعب الایمان للبیھقی، حدیث نمبر: 6865)
وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ ”لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهٖ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَّكُوْنَ ثَوْبُهٗ حَسَنًا وَنَعْلُهٗ حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ“ (مسلم، حدیث نمبر: 147)
وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ ”حَتّٰى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا، وَهَوًى مُتَّبَعًا، وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً، وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِيْ رَأْيٍ بِرَأْيِهٖ“ (ترمذی، حدیث نمبر: 3058)
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! کچھ حقائق ایسے ہوتے ہیں جن سے انکار کوئی نہیں کرسکتا لیکن نفس کی اپنی خواہشات جو ہوتی ہیں اس کی وجہ سے وہ چیزیں نظر سے چھپ جاتی ہیں اور اس کا کوئی بھی مشاہدہ کرسکتا ہے، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ بعض دفعہ ایک چیز بہت چھوٹی ہوتی ہے لیکن آدمی کو پسند ہوتی ہے تو اس کو بہت بڑی نظر آتی ہے جیسے موت و زندگی کا سوال ہے۔ اور بعض دفعہ کوئی چیز بہت بڑی ہوتی ہے لیکن نفس کی پسند نہ ہونے کی وجہ سے ایسے ہوتا ہے جیسے بس کچھ بھی نہیں۔ اور یہ تماشے ہم روزمرہ دیکھتے ہیں۔ مثلاً اگر میں عرض کروں کہ ہماری جو زندگی ہے، یہ مومن کی بات کررہا ہوں جو مومن نہیں ان کی تو بات ہی نہیں اس وقت، کیونکہ مومن ان تمام چیزوں پر پہلے سے ایمان رکھتا ہے تو مومن کو کم از کم یہ پتا ہے کہ یہ زندگی بہت عارضی ہے۔ یعنی اگر کسی کی سو سال عمر بھی ہوجائے تو سو سال کی زندگی بھی اس کی قیامت کے پہلے دن جتنا عرصہ ہے، پچاس ہزار سال، اس کو اگر چوبیس گھنٹے قرار دیا جائے تو یہ سو سال کی زندگی اس کے سامنے تین منٹ کی زندگی بن جاتی ہے۔ اب اندازہ کرلیں کہ تین منٹ کے لئے لوگ کتنی مشقت کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، تمام تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، سارا کچھ کرتے ہیں کیونکہ یہ بہت بڑی نظر آرہی ہے۔
دوسری طرف آخرت کے پہلے دن جس کی مدت کتنی زیادہ ہے، اور اصل میں تو نہ ختم ہونے زندگی ہے، یعنی ایک دفعہ وہ شروع ہوگئی تو پھر اس کے بعد ختم ہی نہیں ہوگی۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایسی چیز کو جو بہت باریک ہوتی ہے اس کو دیکھنے کے لئے بڑا کردیا جاتا ہے تاکہ نظر آجائے اور محسوس ہوسکے کم از کم۔ اور بعض دفعہ بہت بڑی چیز ہوتی ہے جو کہ ویسے انسان کی سمجھ میں نہیں آتی تو اس کو چھوٹا کرکے دکھاتے ہیں تاکہ اس کو کم از کم سمجھ میں آجائے۔ دیکھیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ مثال کے طور پر زمین اور آسمان کے درمیان جتنا خلا ہے اگر اس کو رائی کے دانوں سے بھر دیا جائے اور ایک پرندہ ہزار سال کے بعد آئے اور اس سے ایک دانہ اٹھائے تو ایک دن وہ سارے دانے ختم ہوجائیں گے لیکن آخرت کی زندگی ختم نہیں ہوگی۔ یعنی صرف نہ ختم ہونے والی زندگی کو سمجھانے کے لئے یہ فرمایا ہے، ظاہر ہے اس کا اس کے ساتھ کوئی حساب کتاب نہیں بنتا، لیکن لوگوں کی سمجھ میں بات آسکتی ہے کہ کم از کم اتنا عرصہ ہے۔
پھر اگر دیکھا جائے تو یہاں پر جو صاحب اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ بھی اس کو کچھ سمجھیں اور اس کی وجہ سے بعض دفعہ حقارت کی نظر سے ان کو دیکھتا ہے، بعض دفعہ ان پہ ظلم کا ارتکاب ہوجاتا ہے۔ مثلًا ایک شخص افسر ہے، یا کوئی چوہدری ہے، یا کوئی خان ہے، جو بھی ہے؛ وہ جارہا ہے راستہ میں اس نے اپنے گھر کوئی چیز بھیجنی ہو اور اس محلے کا کوئی آدمی ہے، یہ نہ اس کو پیسے دے رہا ہے، نہ وہ اس کا نوکر ہے، اس کو وہ کہے کہ او فلانے! ادھر آجا، یہ میرے گھر لے جاؤ۔ تو یہ کوئی طریقہ تو نہیں ہے۔ مطلب بغیر کسی اجرت کے زبردستی ان کے سر پر کھڑے ہوجائیں۔ تو یہ بات ہے کہ یہ ظلم ہوجاتا ہے۔ آپ حضرات نے شاید سنا ہوگا کہ بعض دفعہ صرف اس پہ لڑائی ہوتی ہے کہ تو نے مجھے سلام کیوں نہیں کیا؟ بعض دفعہ اس پہ لڑائی ہوجاتی ہے کہ تو نے مجھ سے بڑی مونچھ کیوں رکھی ہے؟ بعض دفعہ لوگ آتے ہیں اور وہ الٹی چارپائیوں پہ بیٹھتے ہیں، ان کے سامنے سیدھی چارپائیوں پہ نہیں بیٹھ سکتے۔ یہ ساری چیزیں ہمیں نظر آرہی ہیں یا نظر نہیں آرہی ہیں؟ تو یہ کیا چیزیں ہیں؟ یہ سارا تکبر ہے اور اس کا انجام بہت برا ہے۔
آپ ﷺ سے اس کائنات میں کوئی بھی بڑا نہیں تھا، مخلوقات میں کوئی بھی بڑا نہیں تھا آپ ﷺ سے، لیکن آپ ﷺ کا حال یہ تھا کہ جب لوگوں میں بیٹھے ہوتے تو لوگوں کو پتا نہیں چلتا کہ آپ ﷺ کون ہیں۔ باہر سے اجنبی کوئی آتا اس کو نہیں پتا چلتا تھا، پوچھنا پڑتا تھا کہ آپ ﷺ کون ہیں، تو صحابہ کرام اس کو بتاتے کہ وہ ہیں۔ بلکہ جس وقت ہجرت کے موقع پہ تشریف لے جارہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر میں دو سال چھوٹے تھے آپ ﷺ سے لیکن چہرے سے بڑے نظر آتے تھے، عمر کے لحاظ سے ذرا بوڑھے نظر آتے تھے، تو مدینہ منورہ کے لوگ جس وقت استقبال کے لئے آئے تو سمجھے کہ شاید حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ ہیں تو وہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہاتھ ملا رہے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اتنے مزاج شناس تھے کہ سوچ رہے تھے کہ اگر میں نے آپ ﷺ کا اشارہ کردیا تو لوگ حضرت کو تکلیف دیں گے۔ یہ صرف اور صرف وہی کرسکتے تھے جو بالکل فدا ہوں، کوئی اور نہیں کرسکتا۔ تو وہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ پھر ایک جگہ پر پڑاؤ ہوگیا، اس وقت دھوپ جب آگئی تو حضرت ابوبکر صدیق اٹھے اور آپ ﷺ کے اوپر چادر تان لی، اس وقت سب کو پتا چل گیا کہ خادم کون ہے، مخدوم کون ہے۔ تو یہ حال تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس زندگی کو کیا سمجھتے ہیں؟ اگر ہم اس زندگی کو ہی مقصود سمجھتے ہیں تو پھر یہ لوگ جو کررہے ہیں ٹھیک کررہے ہیں اور اگر ہم یہ زندگی صرف ایک عارضی جیسے کہ آپ ﷺ نے مثال دی ہے کہ میری اور میرے لئے دنیا کی کیا حیثیت ہے، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جیسے سایہ دار درخت کے نیچے کوئی سوار آئے، تھوڑی دیر سستانے کے لئے کھڑا ہوجائے پھر آگے چل پڑے۔ بس یہی ہے، سارا اس دنیا کا حساب اس طرح ہے۔ تو اپنے آپ کو پہچاننا، اپنے احوال کو پہچاننا، اپنے مقام کو پہچاننا بہت ضروری ہے ورنہ پھر انسان کا وقت گزر جاتا ہے، پتا بھی نہیں چلتا اور وہ جو کرنا ہوتا ہے وہ نہیں کرسکتا اور جو نہیں کرنا ہوتا وہ اس سے ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کو پھر افسوس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
تو آپ ﷺ نے جو ارشادات اس کے لئے ارشاد فرمائے ہیں وہ بھی میں عرض کرنا چاہتا ہوں اور جو آیات مبارکہ اس سلسلہ میں آئی ہیں وہ بھی میں عرض کرتا ہوں۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ تکبر والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ارشاد فرمایا کہ جب تم کو جنگ حنین میں اپنی کثرت پر ناز ہوا تو وہ کثرت تمھارے کچھ کام نہیں آئی۔ یعنی اس وقت صحابہ کرام کے ذہن میں فطری طور پر یہ بات آئی کہ جب ہم تھوڑے تھے تب بھی کافروں پہ غالب آئے تھے تو آج تو ہم تعداد میں ان سے زیادہ ہیں، پھر آج تو ضروری ہے کہ ان پر غالب آجائیں گے۔ گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ انسان کو اپنے اوپر نظر ہوگئی، جب اپنے اوپر نظر ہوگئی تو بس معاملہ اُدھر سے مختلف ہوگیا۔ ایسی صورت میں اللہ پاک نے فتح دلا دی پھر بعد میں، لیکن صرف سمجھانے کے لئے یہ ہوا کہ انہوں نے وہاں پہاڑ تھا، اس پر پتھر باندھے ہوئے تھے، اور یہ اس وقت کی جنگی technique تھی کہ جس وقت وہ صحابہ کرام اس پہاڑ کے قریب دامن میں آگئے تو انہوں نے پتھر لڑھکا دیئے، پتھر تو پھر کسی کو نہیں دیکھتا، تو بچنے کے لئے لوگ اِدھر اُدھر ہوگئے اور میدان خالی ہوگیا۔ آپ ﷺ اکیلے شجاعت سے کھڑے تھے۔ جب آپ ﷺ پہاڑ کی طرف جارہے ہیں، پتھروں کی طرف یہ کہتے ہوئے جارہے ہیں: ”أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ“ (بخاری، حدیث نمبر: 2864) میں نبی ہوں، میں جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں یعنی پوتا ہوں۔ اور پھر عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز دی صحابہ کرام کو تو چونکہ ان کی آواز بلند تھی تو سب پھر جمع ہوگئے۔ پھر یکبارگی حملہ کرلیا تو بس پھر ظاہر ہے وہ فتح ہوگیا، لیکن تھوڑی دیر کے لئے وہ میدان جو چھٹ گیا تھا اس سے پتا چل گیا کہ اگر اللہ کی مدد نہ ہو تو کسی وقت کچھ بھی حالات ہوسکتے ہیں اور انسان سے مدد ہٹ جاتی ہے۔
میں آپ کو مثال دیتا ہوں آج کل کی، corona کے معاملہ میں ہمارے جو جاننے والے حضرات تھے یعنی جن کو اللہ پاک نے بیدار دل دیا ہوتا ہے، وہ فرما رہے تھے کہ پاکستان بہت محفوظ جگہوں میں ہے، پاکستان کے اوپر وہ چیز نہیں ہوگی جو باقی ملکوں پہ ہوگی اور وہ اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا کہ انڈیا پاس ہے، ایران پاس ہے، وہاں حالت کیسی ہے اور پاکستان میں حالت کیسی ہے۔ پھر یہ ہوا کہ یہاں کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے جو انہوں نے دعوے کیے کہ ہماری وجہ سے ایسا ہوا، ایسا ہوا، ایسا ہوا، پھر مصیبت آگئی۔ یہ ان کی وجہ سے ہوا ہے۔ ابھی بھی ان کا جو ٹیلی فون پر اعلان ہوتا ہے، کیا اس میں خدا تعالیٰ کا نام ہوتا ہے؟ کیا کہتے ہیں؟ کہ SOPs پر عمل کرنے کی وجہ سے، لوگوں کے تعاون کی وجہ سے ایسا ہوگیا۔ اور اگر تم نے اب یہ نہیں کیا تو پھر نقصان ہوسکتا ہے۔ یعنی اللہ کا نام بھولے سے بھی نہیں لیتے، ایسے ظالم لوگ ہیں۔ تو پھر نتیجہ صاف ظاہر ہے، وہی حنین والی بات کہ اگر ہم لوگ اپنے اوپر نظر ڈالیں گے پھر تو یہی ہوگا۔ تو یہ مسئلہ تھا اور ہے۔ ہمیں اللہ پاک بس عقل و ہوش عطا فرمائے، یہ بہت ضروری ہے۔
میں آپ کو بتاؤں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم لوگ زندہ کیسے ہیں اس پر حیرت ہونی چاہئے، مر جائیں گے اس پر حیرت نہیں ہے۔ یعنی ان ڈاکٹروں سے پوچھو جو ڈاکٹر ہیں کہ ہمارے اردگرد کتنے جراثیم ہیں، کتنے virus ہیں اور کتنے possibilities ہیں خرابی کی طرف جانے کی؟ ہم جو نوالہ لیتے ہیں وہ صحیح طور پہ معدے میں پہنچ جائے یہ بھی اللہ پاک کے فضل سے ہوتا ہے ورنہ راستے میں بڑی مشکلات ہیں۔ اب اگر کسی کو واقعی صحیح نظر اللہ تعالیٰ نے دی ہو تو اس کو اس پر حیرت ہوتی ہے کہ میں زندہ کیسے ہوں؟ اس پر حیرت نہیں ہوتی کہ میں مر جاؤں گا۔ مرنے کے اسباب تو بہت زیادہ ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سے بچا کے رکھے۔ لیکن جس وقت مقررہ وقت آجاتا ہے تو جو بچانے والا پردہ ہوتا ہے اس کو ہٹا دیتے ہیں اور ہم کسی بھی چیز کے شکار ہوجاتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی چیز ہو۔ پھر انسان مر جاتا ہے۔ اسباب کے ذریعہ سے ہی مرتا ہے۔ یہ نہیں کہ بغیر اسباب کے، اسباب اللہ تعالیٰ بنا دیتے ہیں، اسباب پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔ اب دیکھیں اسلام آباد میں جو سیلاب آگیا، کسی کو تصور بھی نہیں تھا، نہ کوئی اتنی بارش، نہ کوئی اور اتنا مسئلہ لیکن وہ ایسا چکر چلا کہ گاڑیاں بالکل تنکے کی طرح بہہ رہی تھیں۔ اس میں اب ظاہر ہے انسان کیا کرسکتا ہے؟ کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اردگرد اسباب سارے موجود ہیں تباہی کے، بس اللہ تعالیٰ نے اس میں ابھی ہمارے لئے حکم نہیں رکھا اور جب حکم ہوجائے تو بس اس کے بعد تباہی ہے۔ تو اس وجہ سے ہم لوگ کہتے ہیں کہ ہر وقت انسان کو اللہ پر نظر رکھنی چاہئے۔ اب دیکھیں آپ ﷺ کا طریقہ، سب سے زیادہ عارف تو آپ ﷺ تھے ناں۔ آندھی آتی تو آپ ﷺ مسجد کی طرف دوڑتے، تیز بارش ہوتی تب بھی، ہر قسم کے حالات میں، سورج گرہن ہو، چاند گرہن سب میں مسجد کی طرف رخ کرتے۔ اس وقت سائنس کی دنیا سے لوگ اتنے مرعوب ہیں کہ سمجھتے ہیں جیسے سائنس قرآن ہے اور قرآن سائنس ہے، مطلب قرآن کو سائنس سے ثابت کررہے ہیں۔ خدا کے بندے کیا کررہے ہو؟ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہے اور سائنس ہم لوگ develop کررہے ہیں یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ جو چیز develop ہورہی ہوتی ہے بالکل زیرو سے، آپ کے پاس دو information آئیں، اس سے تین اور آجائیں گی تو پانچ ہوجائیں گی، پانچ آپ کے پاس ہیں آٹھ اور آجائیں گی تو تیرہ ہوجائیں گی، تیرہ آپ کے پاس ہیں بیس اور آجائیں گی تو تنتیس ہوجائیں گی، اس طرح یہ بڑھتا جائے گا، آپ کی ترقی ہوتی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نے یہ نظام بنایا ہے لیکن وہ جو فائنل بات ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے کہ کیا ہوگا اور اصل میں کیا ہے۔ وہ جب اللہ اتار دے تو اس میں کوئی تبدیلی پھر نہیں ہوتی کیونکہ وہ اللہ نے اتارا ہے اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ ﴿لَا تَبْدِیْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِؕ﴾ (یونس: 64) اس وجہ سے ہم لوگ اگر دیکھنا چاہیں تو سائنس کو ہم پرکھ سکتے ہیں قرآن پر کہ کہیں قرآن سے باغی تو نہیں ہورہی، ہماری information غلط تو نہیں ہے؟ کہیں ایسی بات تو نہیں ہے جس میں ہم بھول میں پھنسے ہوں؟ کیونکہ سائنس آج ایک بات کررہی ہے، کل دوسری بات کررہی ہے، اس کے بعد پھر تیسری بات ہورہی ہے۔ یعنی جو زمین کو کہتے ہیں کہ چپٹی ہے وہ بھی تو سائنسدان تھے ناں؟ اس وقت کے سائنسدان وہی تھے۔ پھر بعد میں کہا کہ نہیں! زمین گول ہے اور یہ بھی سائنسدان ہیں۔ پہلے کہتے تھے کہ زمین اپنی جگہ ساکن ہے وہ بھی سائنسدان تھے، پھر کہتے ہیں نہیں زمین حرکت کررہی ہے، وہ بھی سائنسدان تھے۔ پھر کہتے ہیں زمین دو حرکتیں کررہی ہے، وہ بھی سائنسدان تھے، اب کہتے ہیں پانچ حرکتیں کررہی ہے۔ تو جتنی جتنی information بڑھتی جاتی ہے، ہے تو سائنس ہی۔ اب اگر یہ پانچ والی بات ہم آج سے پانچ سو سال یا ہزار سال پہلے کرتے تو لوگ کہتے یہ کون سی باتیں کررہے ہیں؟ اس وقت یہ غلط بات نظر آتی، لیکن اب اس کے خلاف بات غلط نظر آتی ہے، تو جو اس کے بعد آنے والی ہے اس کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں، اس کے بعد پھر کیا آئے گا، وہ تو ایک development اور research ہے اور چل رہی ہے بات، لیکن یہ ضرور ہے کہ قرآن فائنل بات ہے۔ بلکہ قرآن کے بارے میں تو عجیب بات ہے، ہم کل ہی ما شاء اللہ قرآن کے بارے میں بات عرض کررہے تھے کہ لوح محفوظ میں پورا قرآن موجود تھا، ابھی اترا نہیں تھا لیکن پورا قرآن لوح محفوظ میں موجود تھا۔ پھر شان نزول کے مطابق اترا ہے۔ یعنی واقعہ ہوتا اور واقعہ کو سمجھانے کے لئے اس میں جو حکم اللہ کا ہوتا تھا کہ اب یہ کرو، یہ نہ کرو یہ حکم آجاتا قرآن میں۔ اب قرآن میں حکم آجاتا، واقعہ پہلے ہوا ہے قرآن کا حکم بعد میں آتا ہے یعنی اترتا ہے، لیکن قرآن پہلے سے موجود تھا، یہ نہیں کہ اس وقت قرآن بنایا گیا ہے، قرآن پہلے سے موجود تھا۔ ﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (القدر: 1) وہ تو پہلے سے موجود تھا بلکہ پورے کا پورا لیلۃ القدر میں اترا، اس کے بعد پھر وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑا تھوڑا آتا گیا۔ اب یہ جو بات میں عرض کرتا ہوں یہ ایک تقدیر کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ جیسے لوح محفوظ میں موجود تھا اس طرح سارے احوال بھی لوح محفوظ میں موجود تھے، اب بھی موجود ہیں، اب اس سے وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں ہمارے سامنے آرہی ہیں، تو اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جو قرآن میں بات آئی ہے اس کو ہم کسی اور چیز سے نہیں پرکھ سکتے۔ بے شک ہماری سمجھ میں بات نہ آئی ہو تو وقت کے لحاظ سے سمجھ میں ہماری بات آجائے یہ علیحدہ بات ہے، لیکن قرآن کی بات بدل نہیں سکتی وہ اپنے طور پہ فائنل ہے۔
تو یہاں پر میں عرض کررہا ہوں کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور یہ ارشاد فرمایا کہ جب تم کو جنگ حنین میں اپنی کثرت پر ناز ہوا تو وہ کثرت تمھارے کچھ کام نہیں آئی۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ”جس نے اللہ کے واسطے تواضع کی پس وہ اپنے نزدیک چھوٹا ہے اور لوگوں کی نظر میں بڑا ہے اور جس نے تکبر کیا خدا تعالیٰ اس کو گرا دیتا ہے پس وہ لوگوں کی نظر میں حقیر ہوتا ہے اور صرف اپنے دل میں بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور سور سے بھی زیادہ ذلیل ہوتا ہے۔“ بالکل perfect بات ہے، آپ متکبرین کے احوال دیکھیں، کیا متکبرین سے کوئی محبت کرتا ہے؟ متکبر لوگوں کے ساتھ کوئی محبت نہیں کرتا بلکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ویسے power میں اگر وہ ہوتے ہیں تو ان کے سامنے کچھ نہیں کہتے یا ان سے کچھ اغراض ہوتی ہیں تو اس کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے چپ ہوتے ہیں لیکن جب ذرا علیحدہ ہوجاتے ہیں، اپنوں میں آجاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کے چہرے کو دیکھو منحوس آدمی ہے وغیرہ اس قسم کی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں پیچھے۔ تو یہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کی نظروں میں کتوں کی طرح، سوروں کی طرح ہوتے ہیں۔ متکبر آدمی کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب بات فرمائی فرمایا کہ اگر اتفاق چاہتے ہو آپس میں، تو تواضع پیدا کرو۔ متواضع لوگ آپس میں اتفاق کرسکتے ہیں، متکبرین نہیں کرسکتے۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں: ھر یو خپل ځان سیر ګڼی۔ تو پھر ظاہر ہے اتفاق کیسے ہوگا، پھر تو اتفاق نہیں ہوگا۔ لیکن جو لوگ اپنے آپ کو کم سمجھتے ہیں وہ ما شاء اللہ بات پر آجاتے ہیں۔ ہم تبلیغی جماعت میں جاتے تھے تو ہمیں مشورے کا طریقہ جو سکھایا جاتا تھا اس میں یہ ہوتا تھا کہ بھائی بات یہ ہے کہ جو شرح صدر ہو وہ آپ ضرور بیان کریں، لیکن اس پر ڈر کر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے مشورے پہ عمل ہوجائے اور اس میں خیر نہ ہو تو اس کے لئے میں ذمہ دار ہوجاؤں گا۔ تو دوسرے کے مشورے پہ عمل ہوجائے تو یہ زیادہ اچھی بات ہے۔ اور یہ fact ہے، اگر ایک انسان ہوش مند ہو اور سمجھدار ہو وہ مشورہ ضرور دے گا، لیکن اس پر اصرار نہیں کرے گا، کیوں اس کو پتا نہیں کہ میرا مشورہ صحیح ہے یا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مشورہ ہورہا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل چیز سامنے نہیں ہے، اس کو تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر اصل چیز سامنے ہو تو پھر بات کیا ہے، پھر تو فیصلہ ہوجاتا ہے۔ مشورہ اس چیز کے لئے ہوتا ہے جس میں تردد ہو، تو تردد ہر جانب ہوسکتا ہے۔ تو اب اگر میں بات کررہا ہوں تو عین ممکن ہے کہ میرے مشورہ میں خیر ہو اور عین ممکن ہے کہ اسی میں شر ہو تو جو اہل خیر ہوتے ہیں وہ اپنی نظروں میں کم ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا اپنا مشورہ بھی ان کی نظروں میں کم ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ امت میں انبیاء کے بعد سب سے افضل ہیں، یہ بات طے شدہ ہے۔ لیکن ایک تو حدیث شریف ان سے بہت کم مروی ہے حالانکہ آپ ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ قریب وہی رہے ہیں لیکن حدیث شریف بہت کم مروی ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، اس ڈر سے کہ کہیں آپ ﷺ پر جھوٹ نہ ہوجائے بلکہ بعض دفعہ کچھ جمع کیں اور بعد میں ان کو پیش نہیں کیا۔ خیر ایسا ہے کہ ایک دفعہ مشورہ بہت اہم بات کے سلسلہ میں ہورہا تھا وہ ایک فقہی جزئیہ کلالہ کا لفظ ہے قرآن پاک میں، اس کے بارے میں مشورہ کہ کلالہ کا مطلب کیا ہے اب صحابہ کرام موجود ہیں اور اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میری بھی ایک رائے ہے، اگر ٹھیک ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ یہ اس statement کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا اور صحیح بات یہ ہے کہ بعد میں وہی چیز سب سے زیادہ اعلیٰ ثابت ہوئی۔ مقصد میرا یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نہیں دیکھا، کس کو دیکھا؟ اللہ تعالیٰ کو۔ اللہ کی طرف نظر گئی کہ اگر صحیح بات ہے تو کس کی ہے؟ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور غلط ہے تو میری طرف سے ہے۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر علاج کرتا ہے اگر بیمار درست ہوجائے تو ڈاکٹر نے ٹھیک کیا، اور اگر مر گیا تو کس نے مارا؟ اللہ نے۔ ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ یہ بات ہے یا نہیں ہے؟ یعنی نسبت خرابی کی نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ اللہ کی طرف ہے۔
اگر دیکھیں تو قرآن پاک میں یہ باقاعدہ دکھایا گیا ہے خضر علیہ السلام کے واقعہ میں کہ جو واقعات ہورہے تھے موسیٰ علیہ السلام اس پہ پوچھتے کہ یہ کیا تو نے کیا؟ تو نے کیوں کیا؟ تو کہتے میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ نہیں چل سکتے، میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے؟ تو فرماتے ہیں اچھا ٹھیک ہے، مجھے مہلت دو ان شاء اللہ میں صبر کروں گا۔ پھر دوسرا واقعہ ہوا، اس میں بھی یہی بات ہوئی۔ پھر تیسرا واقعہ ہوا تو اس پہ فرمایا اب ٹھیک ہے، میں تمھیں بتا دیتا ہوں لیکن ہمارا معاملہ بس فائنل ہوگیا، اب ہمارے راستے الگ ہیں۔ تو اس میں یہ بات ہے کہ جس میں بالکل شر نظر آرہا تھا اس کی نسبت اپنی طرف کی، جس میں بالکل خیر نظر آرہی تھی اس کی نسبت اللہ کی طرف کی کہ اللہ نے چاہا، اور جس میں دونوں طرف برابر برابر معاملہ تھا اس میں نسبت دونوں کی طرف کی۔ کیسے سبحان اللہ ادب اللہ پاک نے سکھایا ہے قرآن پاک میں کہ جو انسان سمجھدار ہو وہ یہ کرے گا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہلاک کرنے والی یہ چیزیں ہیں: وہ خواہشِ نفسانی جس کا اتباع کیا جائے، اور حرص جس کی پیروی کی جائے اور آدمی کا اپنے نفس پر اترانا، یہ ان سب میں سخت ہے۔ یہ ذرا دیکھ لیں تینوں باتیں اس میں آگئیں۔ حبِ جاہ، حبِ باہ، حبِ مال تینوں اس میں آگئیں۔ حرص، جو مال کا حرص ہے وہ زیادہ تر اس کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ خواہشِ نفسانی وہ جو لذات کی طلب ہوتی ہے، اور نفس پر اترانا یہ عجب اور تکبر ہے، تو یہ تینوں چیزیں آگئیں اور یہ فرمایا کہ یہ ان سب میں سخت ہے جو تکبر والی بات ہے۔
ہمارے مشائخ، اللہ تعالیٰ ان حضرات کے درجات بلند فرمائے، فرماتے ہیں سب سے زیادہ مشکل چیز تکبر کا اپنے نفس سے دور کرنا ہوتا ہے۔ صدیقین کے دل میں سے بھی سب سے اخیر میں یہ نکلتا ہے۔ اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو ایک عجیب بات فرمائی ہے، فرمایا جو نماز نہیں پڑھتا کوئی شخص، مجھے اس کی اتنی فکر نہیں ہوتی کیونکہ اگر یہ ابھی نماز کی نیت کرلے تو پانچ منٹ میں یہ نمازی ہوسکتا ہے۔ بعض لوگ نماز نہیں پڑھتے اور اچانک نماز شروع کرلیتے ہیں پھر ایسے شروع کرتے ہیں کہ تہجد بھی نہیں چھوڑتے، ہوتے ہیں ایسے لوگ، ہم نے دیکھا ہے لوگوں کو، ایسے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اپنے ارادہ کی بات ہے، آپ نے ارادہ کیا اور بس شروع ہوگیا۔ بھائی زیادہ سے زیادہ نہانا ہے، کپڑے پہننے ہیں اور بس اس کے بعد پھر نماز شروع کرنی ہے، اس میں تو کچھ زیادہ نہیں ہے۔ لیکن فرمایا کہ جس میں میں تکبر کو دیکھتا ہوں تو میرے پیروں سے زمین نکل جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ یا اللہ! اب اگر یہ نیت بھی کرلے گا اپنی اصلاح کی تو پتا نہیں کتنے برس لگیں گے اس چیز کو نکلتے نکلتے، کتنے برس گزریں گے اس کو نکلتے نکلتے۔ میں اس چیز سے گھبراتا ہوں۔
اب ذرا تھوڑا سا میں آپ کو ایک بات عرض کروں۔ مشائخ کے بارے میں بعض لوگ misunderstand کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک نمازی ہے اور داڑھی بھی رکھی ہوتی ہے اور تسبیح بھی اس کے پاس ہے اور پگڑی بھی باندھی ہوئی ہے اس کا اتنا زیادہ regard نہیں کرتے، اور ایک فاسق فاجر آدمی آتا ہے اور اس کا بڑا اکرام کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟ اس پہ لوگ بڑے حیران ہوتے ہیں۔ اصل میں وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جو داڑھی والا ہے، نمازی ہے یہ جو کررہا ہے یہ اچھے کام ہیں لیکن اس میں تکبر ہوتا ہے۔ دوسرا آدمی جو فاسق فاجر ہے اس میں تکبر نہیں ہے۔ اب جس میں تکبر ہے اس کا نکالنا تو بڑا مشکل ہے، اس میں تو ٹائم لگے گا اور جو ہے فاسق و فاجر لیکن اس میں تکبر نہیں ہے تو مشکل چیز اس سے ہٹی ہوئی ہے۔ اب وہ یہ چیزیں بہت آسانی کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے۔ بس ذرا تھوڑا سا صحبت میں آجائے، قریب ہوجائے تو یہ شروع کرلے گا اور تکبر چونکہ پہلے سے نہیں ہے لہٰذا بہت آسانی کے ساتھ آگے چلا جائے گا۔ تو مشائخ جو ہوتے ہیں وہ ان چیزوں پہ نظر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو کینسر ہے تو کینسر کا بعض دفعہ پتا بھی نہیں چلتا، بعض دفعہ آخری stage میں پتا چلتا ہے۔ اور کسی کو نزلہ زکام ہے، وہ بالکل سامنے ہے، اس کے ساتھ کوئی قریب بیٹھ نہیں سکتا، corona کے دور میں تو ویسے بھی بھاگتا ہے ان سے۔ تو اب یہ میں ذرا عرض کرتا ہوں کہ نزلہ زکام سب کو تنگ بھی کررہا ہے اور سارا کچھ موجود ہے، لیکن آدمی کہتا ہے بھائی زکام ہے ناں۔ دوسرا کینسر ہے وہ بالکل سامنے نظر ہی نہیں آرہا لیکن جس کو پتا چل گیا تو وہ کتنا حسرت کرے گا اس پر۔ بعض دفعہ diagnose ہوجاتا ہے لیکن مریض کو نہیں بتاتے، رشتہ داروں کو بتاتے ہیں لیکن مریض کو نہیں بتاتے۔ اب وہ مریض مطمئن ہوتا ہے لیکن رشتہ دار پریشان ہوتے ہیں کہ یہ تو بڑا مسئلہ ہے، اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ تو یہ مولانا تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا کہ جب جس کسی میں تکبر کو میں دیکھتا ہوں تو اس وقت میرے پیروں سے زمین نکل جاتی ہے کہ اگر یہ اصلاح کرنے کی کوشش شروع بھی کرلے تو پتا نہیں کتنا عرصہ لگے گا اس کو اس سے نکلتے نکلتے، یہ بہت خطرناک چیز ہے۔
اب ذرا میں عرض کرتا ہوں کہ جس چیز سے تکبر دور ہوتا ہے وہ کتنی اہم بن جائے گی۔ جو اتنی خطرناک بیماری ہے، اس سے بچنے کے لئے جو اسباب ہوں گے اور اس سے صحت حاصل کرنے کے لئے جو طریقے ہیں وہ کتنے زیادہ اہم ہوجائیں گے۔ بظاہر بے شک وہ کتنے ہی عام ہوں۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں، شبلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں گورنر تھے۔ خلیفہ کے ساتھ کچھ اختلاف ہوگیا تو استعفیٰ دے دیا اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چلے گئے کہ مجھے اپنے جیسا بنا لیں، یعنی میں یہ راستہ اپنانا چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا: دیکھو آپ کے پاس اس وقت مال تو نہیں ہے، میں اگر آپ کو مال کے مجاہدہ میں ڈالوں تو وہ آپ کر ہی نہیں سکتے، کیونکہ آپ کے پاس مال تو اس وقت ہے نہیں، تو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تم یوں کرو کہ جہاں تم گورنر رہے ہو وہاں آپ نے ایک سال سبزی بیچنی ہے۔ اب حضرت کا حکم تھا اور مخلص تھے، تو بالکل چل پڑے اور ایک سال وہاں پر سبزی بیچی۔ اس کے بعد پھر آئے، حضرت نے ان کا امتحان لیا، پتا چلا ابھی کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے۔ تو پھر فرمایا نہیں! ابھی ایک سال اور۔ اس طرح تین سال ان سے سبزی بکوائی۔ اس کے بعد حضرت نے امتحان لیا تو پوچھا کہ بھائی تم اپنے بارے میں کیا سمجھتے ہو؟ آپ تو بڑے آدمی ہو، گورنر بھی رہے ہو۔ کہتے ہیں مجھ جیسا ذلیل اور حقیر آدمی دنیا میں شاید کوئی نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا اب کام ہوگیا۔ پھر اس کے بعد کچھ ذکر اذکار ان کو دے دیئے اور خلافت بھی دے دی۔ آج یہ حالت ہے شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی کہ جنید و شبلی ایک لفظ کے طور پہ سمجھے جاتے ہیں۔ جب کبھی لوگ ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں جنید و شبلی۔ یعنی ایسا رنگ ان کے اوپر اپنے شیخ کا چڑھا کہ بالکل شیخ کے قائم مقام ہوگئے۔ لیکن کون سی چیز نکالی جارہی تھی؟ یہ تکبر نکالا جارہا تھا۔
شاہ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ ہمارے جو بزرگ گزرے ہیں چشتی سلسلہ کے، حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، چشتی سلسلہ کے بڑے سرخیل بزرگوں میں سے ہیں۔ ان کی خانقاہ پہ بڑے بڑے لوگوں کی اصلاح ہوتی تھی۔ ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پردادا حضرت سید نادر رحمۃ اللہ علیہ جو مست بابا کے نام سے مشہور ہیں وہ حضرت کے داماد بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے، تو ظاہر ہے کہ ان کا بہت مقام تھا۔ جس وقت حضرت فوت ہوئے تو ان کے خلفاء نے اپنی اپنی جگہ پہ کام شروع کرلیے۔ اللہ پاک نے ان سے بہت کام لے لیا، اب پوتا جو تھا شاہ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس لوگ آتے تھے کیونکہ صاحبزادے تھے۔ ہاتھ چومنا، ہدایا وغیرہ یہ ساری چیزیں تو وہی چل رہی تھیں۔ لیکن حضرت مخلص تھے اور ڈر رہے تھے کہ جو ہورہا ہے ٹھیک نہیں ہورہا۔ میری اپنی اصلاح نہیں ہوئی تو میں کسی کی کیا اصلاح کروں گا۔ وہ سجادہ نشینی والی بات ان میں سرایت نہیں کررہی، تو خیر پوچھا لوگوں سے کہ حضرت کے خلفاء میں اس وقت آج کل کس کا زیادہ فیض جاری ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ حضرت جلال بخاری رحمۃ اللہ علیہ، تو حضرت ان کے پاس چلے گئے۔ ان کے پاس جب چلے گئے تو جلال بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو پتا چل گیا کہ صاحبزادہ آئے ہوئے ہیں، تو وہ اپنے مریدوں کے لشکر کے ساتھ استقبال کے لئے باہر آئے اور پھر دعوتیں شروع ہوئیں اور ماشاء اللہ کیا کیا مجلسیں ہوئیں۔ تیسرا دن تھا کہ حضرت نے ان سے کہا کہ حضرت! میں تو ان چیزوں کے لئے نہیں آیا ہوں یہ جو ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر کس چیز کے لئے آئے ہو؟ حکم کرو۔ انہوں نے کہا کہ حکم کے لئے تو نہیں آیا، درخواست ہے کہ میں اپنی اصلاح کے لئے آیا ہوں جو آپ کا کام ہے میں اس کے لئے آیا ہوں کہ میں اللہ والا بن جاؤں میں، یہ ساری چیزوں کے لئے نہیں آیا ہوں۔ انہوں نے کہا اچھا، یہ تو آپ کا بہت اچھا ارادہ ہے لیکن یہ اس طرح اس لباس میں نہیں ہوسکتا جو آپ نے پہنا ہوا ہے، جو آپ کے طریقے ہیں ان میں نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا پھر جیسے ہوسکتا ہے وہی کرلو، تو صاحبزادہ صاحب کے لئے اپنے خادموں کا لباس منگوا لیا۔ اس کی بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسے شہزادہ بھی بیمار ہوجائے اور سرجن کے پاس چلا جائے، تو سرجن تو ظاہر ہے شہزادے کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتا، لیکن وہ کیا کرتا ہے، اس کو کپڑے پہناتا ہے آپریشن والے اور ساری چیزیں جو ہوتی ہیں وہ تو بالکل مریضوں والی ہوتی ہیں۔ تو اس وجہ سے انہوں نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ تو خیر ان کو خادموں والے کپڑے پہنائے اور کہا کہ یہ حمام ہے، اس حمام میں آپ نے آگ جھونکنی ہے، بس یہ تمھاری یہ ڈیوٹی ہے دن بھر اور کھانا وقت پہ ملے گا اور آرام بھی وقت پہ کرلیا کرو اور نماز پڑھ لیا کرو، اور تمھارا اور کوئی کام نہیں۔ جب تک میں نہ بلاؤں میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اصل چشتیہ سلسلہ ہے کہ جس میں شروع سے ہی نفس کا علاج شروع ہوجاتا ہے۔
تو خیر ایسا ہوا کہ حضرت نے مان لیا کہ ٹھیک ہے۔ اب حمام میں آگ جھونک رہے ہیں، سارا کچھ چل رہا ہے، چھ مہینے ہوگئے، حضرت نے ان کو ایک دن کے لئے بھی نہیں بلایا اپنے پاس، اپنی مجلس میں نہیں بلایا۔ بس وہ جی حمام جھونک رہے ہیں، یہ کافی ہے۔ خیر ایسا ہوا کہ چھ مہینے کے بعد بھنگن کو کہا کہ جا، ان کے قریب جاکر اپنی تغاری میں جو چیزیں آپ کا گند وغیرہ ہو وہ کسی حرکت سے گرا دے جیسے غلطی سے آپ سے گر گیا ہو، اور پھر دیکھو کہ یہ کیا کرتا ہے مجھے بتانا ہے۔ وہ بھگن گئی اس نے اس طرح acting کی تو اس نے ذرا گھور کے دیکھا کہ نہ ہوا گنگوہ۔ یعنی گنگوہ ہوتا تو پھر میں تمھیں دیکھ لیتا۔ وہ گئی اور کہا کہ صاحبزادہ صاحب تو یہ کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ابھی صاحبزادگی کی خو بو باقی ہے۔ پھر چھے مہینے کے لئے مزید سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ذرا اس کے اور قریب جاکے گند ڈال دینا۔ تو خیر اس دفعہ انہوں نے گھور کے دیکھا لیکن کچھ بولا نہیں۔ جاکے بتایا کہ صاحبزادہ اس دفعہ بولے نہیں ہیں البتہ گھور کے مجھے دیکھا ہے۔ فرمایا: کوئی بات نہیں، ان شاء اللہ فائدہ ہورہا ہے۔
پھر کچھ مدت تک خبر نہیں لی۔ پھر یہ ہوا کہ اس کو کہا کہ جاکر ایسی جگہ گرانا کہ اس پر بھی کچھ گرے اور پھر بتانا کہ کیا کررہا ہے۔ تو خیر وہ گئی اور اس نے وہی حرکت کی، کچھ ان پہ بھی گند گرا۔ اس وقت یہ بن چکے تھے تو انہوں نے کہا کہ اوہو، میں غلط جگہ پہ بیٹھا معافی چاہتا ہوں آپ کو تکلیف ہوگئی اور وہ سارا اٹھا اٹھا کے اپنے ہاتھوں سے اس میں ڈالنے لگے اور معافی بھی مانگتے رہے۔ وہ گئی، اس نے کہا کہ اس دفعہ تو صاحبزادہ کا رنگ ہی بدلا ہوا ہے، ایسے اس نے کیا۔ انہوں نے کہا: اچھا! سبحان اللہ سبحان اللہ یہ تو بڑا اچھا ہوا، بڑا فائدہ ہوا۔ خیر، اب آخری بات آگئی کہ اب ذرا آخری آپریشن ہے۔ ان سے کہا کہ شکار کے لئے جانا ہے، شکاری کتے تیار تھے خرگوش کے شکار کے لئے، اور ان کو دو کتے دے دیئے۔ ان سے کہا کہ کسی حالت میں بھی تم نے ان کو چھوڑنا نہیں۔ تو اس نے اس ڈر سے کہ کہیں شیخ کی نافرمانی ہوجائے تو اپنی کمر کے ساتھ ان کی رسیاں باندھ لیں۔ اب شکاری کتے بڑے توانا تھے، انہوں نے جب شکار دیکھا تو انہوں نے چھلانگ لگائی، چھلانگ لگائی تو یہ گرگئے۔ اب یہ گرگئے تو ان کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے رہے۔ کبھی جھاڑیوں میں جارہے ہیں، کبھی پتھر پہ سر لگ رہا ہے، کبھی کیا ہورہا ہے کبھی کیا، لہولہان ہوگئے۔ اور اتنے میں شیخ جلال رحمۃ اللہ علیہ کو اونگھ آگئی اور اپنے شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی کہ میں نے تو تجھ سے اتنی خدمت نہیں لی تھی جتنا تم نے میرے پوتے سے لے لی۔ یعنی اللہ کا فضل ہوگیا۔ فوراً گھبرا کے اٹھے کہ کدھر ہے وہ باولا، تلاش کرو کدھر ہے؟ دیکھتے ہیں کہ وہ کسی جھاڑی میں پڑے ہوئے تھے۔ اب لہولہان ہیں، لیکن چہرہ پہ اتنی بشارت اور نور ہے کہ جیسے کوئی بڑی خوشی کی بات ان کو حاصل ہوئی ہے۔ اخیر میں ان سے پوچھا کہ کیا ہوا، کیا حال ہے؟ کہتے ہیں اللہ پاک کی طرف سے خاص تجلی آگئی۔ تو پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ پھر اس تجلی کی دوبارہ خواہش کی کہ دوبارہ ہوجائے، وہ دوبارہ ہو نہیں رہی تھی، تو انہوں نے اس کے لئے وسیلہ کے طور پہ سانس روک دیا کہ میں اس وقت تک سانس نہیں لوں گا جب تک یہ تجلی نہیں ہوگی، یہ جذب والی بات تھی۔ دیکھو! پہلے سلوک طے کرایا، اب جذب ہورہا ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ تو چشتی سلسلے کا، قادری سلسلے کا اور سہروردی سلسلے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلوک طے ہوتا ہے پھر اس کے بعد جذب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اس کو جذب وہبی کہتے ہیں۔ جب وہ ہوگیا تو اس کے بعد پھر یہ ہوا کہ اللہ کی طرف سے پھر دوبارہ جب تجلی آئی تو ان کو اتنی خوشی ہوئی کہ یکدم اس نے سانس کھول لیا تو دو پسلیاں اس کی ٹوٹ گئی اور ساتھ ہی چمچ میں ایک دوا آئی غیب سے، اس کو منہ میں ڈال دیا اور کہا کہ اپنے شیخ کو کہو کہ چوزوں کا شوربا تمھیں تین دن پلائیں۔ تو شیخ کو یہ بتا دیا تو شیخ نے ان کو چوزوں کا شوربا پلایا اور ویسے بھی علاج معالجہ کیا۔ جب تندرست ہوگئے تو ان کو خلعت پہنا دی۔ کہتے ہیں کہ وہ نعمت جو میں تمھارے گھر سے لے کر آیا تھا اب تم اس کو لے کے جارہے ہو۔ یہ ہیں شاہ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ ہمارے سلسلہ میں ہیں۔ اب دیکھو ناں کہ ان دونوں سے کون سی چیز دور کی جارہی تھی؟ شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے کون سی چیز دور کی جارہی تھی اور حضرت شاہ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ سے کون سی چیز؟ دونوں سے، ایک سے گورنری کا جو خیال بنا ہوا تھا وہ نکالا جارہا تھا اور حضرت شاہ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ سے صاحبزادگی کا نکالا جارہا تھا۔
میں اکثر کاکاخیلوں سے کہتا ہوں جو ہمارے خاندان کے لوگ ہیں کہ بھائی ہمارا معاملہ بڑا آسان ہے۔ لیکن بس یہ ہمارے درمیان میں جو گڑبڑ ہے کہ جو ہم اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں، بس اس کو نکالو۔ اس کو نکالو گے تو پھر اور کچھ ہے ہی نہیں۔ راستہ بالکل پھر clear ہے اَلْحَمْدُ للہ۔ تو ہمیشہ جو اللہ والوں کی اولاد ہوتی ہے ان کے ساتھ صرف یہ مسئلہ باقی رہتا ہے کہ وہ ذرا اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اس نسبت کی وجہ سے۔ آخر یہودی کیوں گڑبڑ ہوگئے؟ اسی نسبت سے ہوئے کہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ ہمارے اندر نبوت آئے گی، نبوت آئی بنو اسماعیل کے اندر اور یہ اس حد تک تیار تھے اس کے لئے کہ آخری نبی جب آئے گا تو ہم ان کے ساتھ ہوجائیں گے اور تمھارے ساتھ یہ کریں گے اور یہ کریں گے، اوس و خزرج والوں سے کہہ رہے تھے۔ لیکن جس وقت آخری نبی آیا تو اوس و خزرج والے ان پہ ایمان لے آئے اور یہ مخالف بن گئے، تو جو انہوں نے اُن کے ساتھ کرنا تھا اِن کے ساتھ ہوگیا۔ وہ بھی یہ صاحبزادگی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ اس طریقہ سے جو بھی ہے، چاہے دولت کے نشے میں ہے وہاں پر بھی معاملہ ہے، چاہے خوبصورتی کے نشے میں ہے وہاں پر بھی یہی معاملہ ہے، چاہے طاقت کے نشے میں ہے وہاں پر بھی یہ معاملہ ہے، چاہے صاحبزادگی یا کسی اور چیز کے نشے میں ہے، بات تو ایک ہی ہے، اس چیز کو نکالنا بہت ضروری ہے۔ بغیر اس کے نکالے انسان اللہ کے دربار میں جگہ نہیں پا سکتا الّا کہ اللہ پاک اس پہ فضل فرمائیں اور یہ ساری چیزیں اس کی نکل جائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نکالے ورنہ اللہ پاک فرماتے ہیں: ”اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ“ (ابو داؤد، حدیث نمبر: 4090) کہ بڑائی میری چادر ہے اور جو اس کو مجھ سے چھیننا چاہے گا میں اس کو ریزہ ریزہ اور تہس نہس کردوں گا۔ یعنی بڑائی صرف اور صرف اللہ کی شان ہے، اللہ اکبر! میں آپ حضرات سے بات عرض کرتا رہتا ہوں کہ الفاظ ہمیں آتے ہیں، الفاظ ہمارے پاس ہیں، ہم الفاظ کہتے ہیں: ”اَللہُ اَکْبَرُ، سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ“، یہ سب ہم کہتے ہیں، لیکن اس کے پیچھے وہ حال نہیں ہے اَللہُ اَکْبَرُ کہنے کے ساتھ جو حال ہونا چاہئے وہ نہیں ہے، سُبْحَانَ اللہِ کے ساتھ جو حال ہونا چاہئے وہ نہیں ہے، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ جو حال ہونا چاہئے وہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ناں کہ:
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لَا اِلٰہَ را
جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو میں لرز جاتا ہوں کہ میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی مشکلات کو جانتا ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اگر ان چیزوں کو حال کے درجہ میں لے بس یہی کمال ہے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی بات کی تھی، حضرت نے فرمایا کہ:
قال را بگذار مردِ حال شو
پیشِ مردے کاملے پامال شو
یہ جو تمھاری قال ہے یعنی جو الفاظ ہیں ان کو ایک طرف رکھ دو، ابھی فی الحال اس کی بات کا موقع نہیں۔ پہلے حال کو حاصل کرو، اس کی حقیقت کو حاصل کرلو، جب تمھیں حقیقت مل جائے گی پھر اس کے بعد سبحان اللہ سب کچھ تمھیں مل جائے گا۔ اس کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟ کسی کامل شخص کے سامنے اپنے آپ کو پامال کردو پھر یہ چیز آپ کو حاصل ہوگی۔ تو اگر ہم دیکھیں تو بات بالکل simple ہے کہ ہم جیسے اَللہُ اَکْبَرُ کہتے ہیں تو اَللہُ اَکْبَرُ کے ساتھ ہمارا اللہ کے بڑے ہونے کا خیال اور تصور اتنا مضبوط ہو کہ ہمیں سارا کچھ ہیچ نظر آئے کہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ مطلب یہ سارے بالکل نقشے ہیں۔ ایسے ہوتا ہے جیسے مثال کے طور پر ایک پھول ہو، اور ایک ہو پھول کی تصویر تو پھول پھول ہوتا ہے، پھول کی تصویر تصویر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے تصویر تو وہ چیز نہیں بن سکتی، وہ تو صرف ایک خاکہ ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو میرے خیال میں مجھے تو گھر بنانا ہی نہیں چاہئے، ظاہر ہے میں کمپیوٹر پہ ایسی بہترین خوبصورت بنا سکتا ہوں، اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہوں۔ بلکہ اور تو چھوڑیں، ہمارے ہاں ایک زیور ہے، اس کا نام ہے پشتو میں: ”دَ ناوې مور خفه دَ هلک مور خوشاله“ اس کا مطلب ہے کہ جو دلہن کی ماں ہے وہ خفا اور جو دولہے کی ماں ہے وہ خوش ہے۔ وہ زیور کا نام کیا ہے، وہ اصل میں سونا نہیں ہوتا، وہ اصل میں کچھ اور دھات ہے، اس کو انہوں نے ایسا بنایا ہوتا ہے کہ وہ بالکل سونے سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے تو بعض لوگ سونا نہیں بنا سکتے، اور وہ سستا ہے تو وہ اس کا سیٹ بنا کر شادی کے موقع پہ پیش کرتے ہیں۔ اگر اس کو پتا نہیں ہے تو خوش ہوجائے گی لیکن اس کو ذرا پتا چل گیا تو بے شک وہ سونے سے خوبصورت ہے لیکن وہ دل میں خفا ہوگی کہ یہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا، مجھے صحیح چیز نہیں ملی۔ بعینہٖ یہی بات ہے کہ ہم لوگ یہ اَللہُ اَکْبَرُ زبان سے جو کہتے ہیں، جس کے پیچھے حقیقت نہ ہو تو بالکل یہی چیز ہے اور جس وقت ہم اللہ اکبر حقیقی معنوں میں کہتے ہیں تو اس کے اندر جو طاقت ہوتی ہے اس سے دشمن بھی لزرتا ہے۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے، وہ دشمن باقاعدہ لزرتا ہے، کیونکہ وہ اَللہُ اَکْبَرُ جو دل سے آتا ہے اس کا اپنا ایک بڑا رعب ہوتا ہے۔ صحابہ کرام بھی اَللہُ اَکْبَرُ کہتے تھے، وہ بھی اَلْحَمْدُ للہِ کہتے تھے، وہ بھی سُبْحَانَ اللہِ کہتے تھے؛ یہی الفاظ تھے، الفاظ کوئی اور نہیں تھے۔
میں کل بات کررہا تھا کہ نماز نبی بھی یہی پڑھ رہے ہیں، صحابی بھی یہی پڑھ رہے ہیں، بڑے سے بڑا ولی بھی یہی پڑھ رہا ہے اور فاسق اور فاجر بھی یہی نماز پڑھ رہا ہے، نماز میں کوئی تبدیلی نہیں، نماز بالکل یہی ہے۔ لیکن نبی کی نماز نبی کی نماز ہے، صحابی کی نماز صحابی کی نماز ہے، ولی کی نماز ولی کی نماز ہے اور ہماری نماز ہماری نماز ہے۔ تو یہ بات ہے کہ ہم لوگ اگر اپنے اعمال کے اندر جان لانا چاہیں تو اس کے اوپر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
ارشاد فرمایا کہ جس دل میں رائی بھر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، پس ایک شخص نے عرض کیا کہ آدمی اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو، آپ نے فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے۔ یہ بات کہ جس کے دل میں رائی بھر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا قانون تو یہی ہے، لیکن جب اللہ پاک کسی عمل وجہ سے بچانا چاہتا ہے جو بعض دفعہ پسند آجاتا ہے، اخیر میں یہ چیز نکال لیتا ہے، ایسی بیماری لے آتے ہیں، کوئی ایسی تکلیف لے آتے ہیں، کوئی ایسی ذلت لے آتے ہیں کہ اس آدمی کا سارا کروفر رفو چکر ہوجاتا ہے اور آدمی صحیح ڈگر پہ آجاتا ہے، نیچے level پہ آجاتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ حال کے درجہ میں بھی سمجھ لیتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ یہ اس کے ساتھ اللہ کا معاملہ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ جی بڑی تکلیف میں ہے، بھائی خدا کے بندو! اللہ پاک کی حکمتوں کو اس کے علاوہ کون جانتا ہے؟ پتا نہیں اس کے ساتھ یہ کتنا کرم کا معاملہ ہے کہ اس کو تکلیف میں لا کر اس سے یہ چیز نکال دی جس کی وجہ سے اس کے لئے مغفرت کا راستہ بن گیا۔ تو ایسا ہوتا ہے۔ تو فرمایا: ”اللہ جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے“ یعنی یہ تکبر نہیں ہے بلکہ تکبر یہ ہے کہ حق بات سے اکڑے یعنی اس کو قبول نہ کرے اور لوگوں کو اپنے سے حقیر سمجھے۔ یہ حق بات سے اکڑنا آج کل بہت زیادہ ہے اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ سوشل میڈیا پر یہ چیزیں آج کل چونکہ آرہی ہیں تو اگر آپ کی کسی کے ساتھ interaction ہوجائے یعنی بات چیت ہوجائے اور آپ اس کو جواب دیں تو اس کے جوابات میں جو تکبر ہوتا ہے آپ کو اندازہ ہوگا، خود محسوس ہوگا کہ یہ اپنے آپ کو کیا سمجھ رہا ہے۔ حالانکہ آپ اس کے فائدے کے لئے بات کررہے ہوں گے، لیکن وہ جس تکبر کے لہجے میں بات کررہا ہے تو آدمی حیران ہوجاتا ہے۔ تو یہ اکڑ والی بات ہے، حق بات سے آدمی اکڑ جاتا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ تو کون ہوتا ہے مجھے سمجھانے والا؟ میں تو ایسا ہوں، میں تو ایسا ہوں، میں تو ایسا ہوں۔ تو یہ بات ہوتی ہے۔
اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تو دیکھے کہ حرص کی پیروی کی جاتی ہے، اور خواہش نفسانی کا اتباع کیا جاتا ہے اور دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر صاحبِ رائے اپنی رائے کو پسند کرتا ہے، پس تیرے ذمہ فقط تیرا نفس یعنی اس کی اصلاح ہے اور دوسرے کے کام کی فکر چھوڑ دے۔ یہ ترمذی، ابن ماجہ کی روایت ہے۔ مطلب جب اس قسم کے احوال آجائیں لوگوں کے اندر غالب طور پر تو پھر ان کی اصلاح کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کا ان کے ساتھ بیٹھنا آپ کے لئے نقصان دہ بات ہوجاتی ہے، آپ کو نقصان ہونا شروع ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اپنے آپ کو بچانا لازم ہوجاتا ہے۔ بس کسی اور کو بچانے کی بجائے اپنے آپ کو بچاؤ۔ میں ابھی آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں یہ خود میرے ساتھ ہوا ہے، ایک جلسہ میں شریک تھا اور اس جلسہ میں پتا نہیں کیا ہوا ابھی تک مجھے پتا نہیں چلا کوئی بھگدڑ سی مچ گئی اور سارے لوگ کھڑے ہوگئے، پورا جلسہ کھڑا ہوگیا۔ واللہ اعلم! کیا بات تھی، میں تو سٹیج سے خیر بہت دور تھا تو مجھے تو پتا بھی نہیں چل سکتا تھا۔ تو سٹیج سے ایک آواز آرہی تھی لاؤڈ سپیکر پر کہ بزرگو اور دوستو! اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ بزرگو اور دوستو! اپنے آپ کو بٹھاؤ کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ بزرگو اور دوستو! اپنے آپ کو بٹھاؤ کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ یہ آواز مسلسل آرہی ہے اور پانچ منٹ میں سارا مجمع بیٹھ گیا۔ میں نے کہا یہ کرامت اس اعلان کی تھی۔ اگر سارے لوگوں کو یہ کہتے کہ دوسروں کو بٹھاؤ تو دوسروں کو بٹھاتے خود نہ بیٹھتے تو سارے کھڑے ہوتے۔ اس سے پتا چلا کہ اپنی انفرادی اصلاح کتنی ضروری ہے۔ انسان اگر اپنی انفرادی اصلاح کی نیت کرلے تو دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور خود اپنے آپ کو بھی فائدہ ہوتا ہے، اور اگر اپنی انفرادی اصلاح نہیں کرتا تو دوسروں کو بھی نقصان ہوتا ہے اور خود اپنے آپ کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ اور کوئی بات نہیں، یقین جانئے دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ اگر میں کسی کو کم سمجھوں اور اس کو نصیحت کروں تو میری نصیحت اس پر الٹا اثر کرے گی اور اس کے اندر اکڑ پیدا ہوگا کہ تو کون ہے مجھے بتانے والا؟ تو کوئی مجھ سے زیادہ جانتا ہے؟ اور اگر میں اس کو اپنے سے بڑا سمجھتا ہوں اور اس بات میں صرف اس کے ساتھ اختلاف کی حد تک بات کرتا ہوں ہے کہ ہے تو مجھ سے بڑا، مجموعی طور پر تو مجھ سے اچھا ہے، لیکن یہ بات اس کی ٹھیک نہیں ہے دین کی بات ہے، لہٰذا میں یہ بات عرض کرتا ہوں، باقی یہ ہے کہ ہے تو مجھ سے اچھا۔ ایسی صورت میں پھر اَلْحَمْدُ للہ اس کو فائدہ ہوجاتا ہے اور فوراً سمجھ جاتا ہے اور پھر اس پر غور کرنے لگتا ہے کہ اس نے جو مجھے بات کی ہے اس میں کوئی جان ہے، کوئی بات ہے۔ تو اگر انسان اپنے مخاطب کو اپنے سے افضل سمجھے تو اس کی بات میں اثر خود بخود آجاتا ہے۔ ایک بزرگ تھے، ان کے وعظ میں بڑی تاثیر ہوا کرتی تھی، تو کسی ہم عصر دوست نے اس سے پوچھا حضرت یہ کون سی بات ہے؟ میاں حسین صاحب تھے شاید واللہ اعلم، مجھے اس وقت یاد نہیں ہے، لیکن بزرگوں میں تھے۔ حضرت نے فرمایا: میں جب بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں: یا اللہ! اس پورے مجمع کو مجھ سے افضل بنا دے، میں یہ دعا کرتا ہوں، تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تاثیر پیدا ہوجاتی ہے۔ بس یہی بات ہوتی ہے۔
اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے کبریائی زمین میں اور آسمان میں اور وہی غالب ہے، حکمت والا ہے۔ اور ارشاد فرمایا آپ ﷺ نے کہ وہ آدمی برا ہے جو کہ اپنے آپ کو اچھا سمجھے اور اتراوے اور خدائے کبیر و متعال کو بھول جائے۔ اپنے آپ کو کچھ سمجھنا ہی اللہ کو بھول جانا ہے۔ برا ہے وہ آدمی جو ظلم کرے اور زیادتی کرے اور بھول جائے خدائے جبار و اعلٰی کو۔ برا ہے وہ آدمی جو غافل ہو حق سے، لہو لعب میں مبتلا ہو اور بھول جائے قبروں کو اور بوسیدہ ہڈیاں ہونے کو۔ برا آدمی وہ ہے جو حد سے گزرا اور سرکش ہوا اور اپنے اول اور آخر کو بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے انجام سے بچائے ایسی چیزوں سے بچائے جس کے یہ نتیجے ہیں اور اللہ جل شانہ ہمیں ان تعلیمات پر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ ہمارے پاس لے کے آئے ہیں، صحابہ کرام کے اعمال کے ذریعہ سے ہم تک پہنچے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر مکمل یقین نصیب فرما دے اور عمل کی توفیق عطا فرما دے اور ساتھ جیسے صحابہ کرام کا طریقہ تھا: ”اٰمَنّا وصَدَّقْنَا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا“، اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ