موت اور آخرت کی تیاری

جمعہ بیان

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

موت یقینی ہے اور ہر جاندار کو اس کا مزہ چکھنا ہے، جس کے بعد آخرت میں حساب ہوگا۔ مومن کی موت پر رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور کافر کی موت پر عذاب کے فرشتے، جبکہ قبر میں ایماندار سے رب، دین، اور رسول کے بارے میں سوال ہوتے ہیں، صحیح جواب پر جنت کا دروازہ کھلتا ہے۔ آخرت پر یقین انسان کو فلاح کی طرف لے جاتا ہے، جبکہ نفس کی خواہشات کا پردہ ہٹنے سے حقائق واضح ہوتے ہیں۔ خود کشی جیسے اعمال سے بچنا چاہیے، کیونکہ موت کے بعد کی زندگی کا تصور تیاری کا باعث بنتا ہے۔ پل صراط پر نیک تیزی سے گزرتے ہیں، جبکہ دوزخ کے عذاب بہت شديد ہیں اور جنت کی نعمتیں تصور سے بالاتر ہے۔ اعمال کا حساب شفاف ہوگا، نیکیاں جنت اور گناہ دوزخ کا باعث بنیں گی، اور انسان کو اپنے اعمال کی گواہی خود دینی ہوگی۔ اللہ نے اختیار دیا ہے، نفس کی اصلاح اور کوشش سے رہنمائی ملتی ہے، اس لیے مایوسی چھوڑ کر شریعت پر چلنا ضروری ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (آل عمران: 185)

قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’إِذَا احْتُضِرَ الْمُؤْمِنُ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ بِحَرِيْرَةٍ بَيْضَاءَ، فَيَقُوْلُوْنَ: اخْرُجِيْ رَاضِيَةً مَّرْضِيًّا عَنْكِ إِلٰى رَوْحِ اللّٰهِ وَرَيْحَانٍ وَّرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ۔ وَفِیْہِ: إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا احْتُضِرَ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ بِمِسْحٍ فَيَقُوْلُوْنَ: اخْرُجِيْ سَاخِطَةً مَسْخُوْطًا عَلَيْكِ إِلٰى عَذَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘۔ (المستدرک للحاکم: 1302)

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’فَيَأْتِيْهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهٖ، فَيَقُوْلَانِ لَهٗ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُوْلُ: رَبِّيَ اللهُ، فَيَقُوْلَانِ لَهٗ: مَا دِيْنُكَ؟ فَيَقُوْلُ: دِيْنِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُوْلَانِ لَهٗ: مَا هٰذَا الرَّجُلُ الَّذِيْ بُعِثَ فِيْكُمْ؟ فَيَقُوْلُ: هُوَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ وَفِیْہِ: فَيُنَادِيْ مُنَادٍ فِي السَّمَآءِ: أَنْ صَدَقَ عَبْدِيْ، فَأَفْرِشُوْهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوْهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوْا لَهٗ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ‘‘۔ (مسند احمد، ج 30، ص 500) قَالَ فَیُفْتَحْ۔ وَاَمَّا الْكَافِرُ فَذَكَرَ مَوْتَہٗ وَجَمِیْعَ اَحْوَالِہٖ اَلٰی ذِبْحِ ذَالِکَ۔

وَقَالَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِىَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ‘‘۔ (بخاری: 3072)

قالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا مَنْ لَّهٗ نَعْلَانِ وَشِرَاكَانِ مِنْ نَّارٍ، يَغْلِيْ مِنْهُمَا دِمَاغُهٗ كَمَا يَغْلِي الْمِرْجَلُ، وَمَا يَرىٰ أَنَّ فِي النَّارِ أَشَدَّ عَذَابًا مِنْهُ، وَإِنَّهٗ لَأَهْوَنُهُمْ عَذَابًا‘‘۔ (المستدرک للحاکم: 8730)

معزز خواتین و حضرات! ہر انسان اپنے نفس کے جتنے بھی کرتوت ہیں، ان کے سامنے پتے کی طرح ہلتا ہے اور اس کے روکنے کے لئے جو سب سے زیادہ اہم چیز ہے، وہ ہے موت کا تصور۔ انسان موت کو تسلیم کرلے اور مانے۔ صرف موت کو تسلیم کرنا، وہ تو کافی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کافر بھی موت کو مانتا ہے، وہ بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا، لیکن موت کے بعد کے جو حالات ہیں، جس کو ہم آخرت کہتے ہیں، اس کا تصور اس کو کیسا ہے، اگر اس کا تصور اس کا صحیح ہے، تو پھر واقعی وہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے تیار کر لے گا، اگر اس کا تصور اس کا صحیح نہیں ہے، تو پھر وہ غفلت میں پڑا رہے گا۔ لہٰذا آخرت پر یقین بنیاد ہے انسان کے اعتدال پر آنے کے لئے، اس وجہ سے سورۂ بقرہ کی بالکل ابتدا میں اس بات کا تذکرہ رکھا گیا ہے، جس میں فرمایا:

﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 4)

ترجمہ1: ’’اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں‘‘۔

پہلے ایمان ہے، یعنی غیب پر ایمان، وحی پر ایمان۔ پھر اعمال کا تذکرہ ہے اور پھر اس کے بعد آخرت پر یقین کی بات ہے، پھر اس پر بات ختم کی گئی ہے کہ یہ چیزیں اگر کسی میں ہیں، تو ﴿اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (البقرۃ: 5)

ترجمہ: ’’یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

لہٰذا بات اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔ اب یہ ہے کہ موت تو یقینی ہے، سب لوگ دیکھتے ہیں۔ اور یہ بچے، بوڑھے یا جوان پر نہیں ہے، ابھی ہمارے محلہ میں ایک بچی فوت ہوئی۔ تو ظاہر ہے کہ اس کا انسان کیا کہہ سکتا ہے کہ کون کس وقت جاتا ہے۔ البتہ جو بھی یہاں سے جاتا ہے، تو وہ ویسے ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کی اصل زندگی شروع ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست تھے، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آنکھ بند ہوجائے گی، تو پھر پتا چلے گا۔ فرمایا: میں کہتا ہوں کہ جب آنکھ کھل جائے گی، تو پھر پتا چلے گا، اس وقت بند ہے۔ اس وقت کیسے بند ہے؟ اس وقت نفس کی خواہشات کا پردہ ہماری آنکھوں کے اوپر پڑا ہوا ہے، نفس کی جو چاہتیں ہیں، ان کا ہماری آنکھوں کے اوپر پردہ پڑا ہوا ہے، ہم لوگ اس سے گزر کے نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن جب نفس کی خواہشات کا پردہ چاک ہوجاتا ہے تو پھر اس کے بعد انسان کو ہر چیز نظر آتی ہے جو اس کو نظر آنی چاہئے۔ اور جب تک یہ نفس کی خواہشات کا پردہ چاک نہیں ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی عقلمند کیوں نہ ہو بظاہر، چاہے کتنا ہی صحت مند کیوں نہ ہو، اس کو وہ چیزیں نظر نہیں آتی، وہ ان کو بس سنی سنائی میں اڑا دیتے ہیں۔ حفیظ جالندھری صاحب جو تھے، جنہوں نے پاکستان کا ترانہ لکھا تھا، اس کے کچھ اشعار ہیں، وہ اکثر بتاتے تھے کہ ابھی تو میں جوان ہوں، ابھی تو میں جوان ہوں۔ یعنی ہر انسان سمجھتا ہے کہ ابھی تو میں نے دیکھا ہی کیا ہے، ابھی تو کچھ بھی نہیں، ابھی تو معاملہ چل رہا ہے، ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوگا، بس اسی طرح ’’کچھ بھی نہیں ہوگا، کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘ میں ہوجاتا ہے، پھر جب ہوجاتا ہے تو پھر اس کے بعد واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اس کے ہونے سے پہلے اس کا خیال کرنا؛ یہ اصل بات ہے۔ اللہ جلّ شانہٗ نے ہمیں اس سے مطلع کرنے کے لئے فرمایا کہ ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، پھر تم ہماری طرف لوٹا دیئے جاؤ گے۔ یعنی ہر شخص کو اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ یہ جو ہم مصیبت کے وقت ایک کلمہ کہتے ہیں، تو لوگ سمجھتے ہیں کہ بس شاید یہ کلمہ ہے، کلمہ کے طور پر ہم کہہ دیتے ہیں۔ نہیں، اس کی ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا، پھر اس کے بعد اس کا اثر ہوگا۔ اور وہ کلمہ کیا ہے؟ وہ کلمہ یہ ہے: ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اس میں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی حق نہیں، ہماری ساری چیزیں اللہ کے لئے ہیں، جو اللہ ہمارے ساتھ کرنا چاہے، وہ کرسکتا ہے، ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے ’’اِنَّا لِلّٰهِ‘‘۔ اور ’’وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔ یعنی ہم اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اس میں اس بات کا اقرار ہے کہ معاملہ علیم و خبیر کے پاس ہے، زبردست انصاف کرنے والے کے پاس ہے، لہٰذا ہماری ساری باتیں اسی کی طرف جارہی ہے، تو اُدھر ہی ہمارا فیصلہ ہوگا۔ لہٰذا ہم لوگ اس بات کو سمجھنے کے لئے کوشش کرلیں کہ وہاں پر ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ مصیبت کے وقت جب ہم یہ کلمہ پڑھتے ہیں، تو اصل میں اس کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟ وہ یہی ہے کہ دیکھو! جو مصیبت آئی ہے، اللہ کی طرف سے آئی ہے اور حساب کتاب بھی اللہ کے پاس ہوگا اور اللہ جلّ شانہٗ ہر مصیبت کا اجر دینے والا ہے اگر کوئی اس پر صبر کرے۔ ہر تکلیف پر اجر دینے والا ہے، اس وجہ سے اگر مجھ پہ یہ تکلیف آئی ہے، تو چونکہ اللہ کے پاس جانا ہے اور ہم بھی اللہ کے ہیں، لہٰذا ہمارا کوئی حق تو نہیں ہے، پھر بھی اللہ پاک ہمیں اس پہ اجر دے رہے ہیں، تو اس سے مصیبت کم ہوجاتی ہے، تو مصیبت کے کم ہونے کا مطلب اس وقت یہی ہے کہ انسان اس حقیقت کو پا لے، ورنہ پھر صرف ایک کلمہ ہوگا۔ یعنی ہر شخص کی اپنی اندرونی حالت کی بنیاد پر اس کے کلمہ کا اثر ہوتا ہے۔

چوں میگوئم مسلمانم بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘

کہ جس وقت میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں، تو میں لرز جاتا ہوں، کیونکہ مجھے پتا ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کیا چیز ہے، اس کے ساتھ کیا چیزیں ہیں۔

اصل میں یہی بات ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کو دل سے مان لے، دل سے تسلیم کرلے، تو پھر اس کے بعد ان کا اثر ہوتا ہے۔ لوگ اس کو وظیفہ کے طور پہ پڑھتے ہیں۔ بھائی! وظیفہ اور چیز ہے اور اس کے اندر جو پیغام ہے، وہ اور چیز ہے۔ پہلے اس کا پیغام لے لو، پھر اس کے بعد وظیفہ کارگر ہوجائے گا۔ مثلاً: ہم کہتے ہیں کہ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ یہ ایک کلمہ ہے: اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، جو رحمٰن ہے، جو رحیم ہے۔ یہ اس کا سادہ ترجمہ ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں ہے، سب لوگ اس کو جانتے ہیں، سب لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ لیکن ہر شخص کا ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ الگ ہے، وہ اس کی اندرونی حالت پر منحصر ہے کہ اس کا دل اللہ کے ساتھ کتنا لگا ہوا ہے۔ جب وہ کہتا ہے: ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ میں اللہ کے نام سے، تو اللہ کا جو تصور اس کے ذہن میں ہے، اللہ کے ساتھ جو اس کی attachment ہے، چونکہ با attachment کے لئے آتی ہے، ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، تو اللہ کے نام کی جو recognition انسان کے دل میں ہوتی ہے، اس کے حساب سے کلمہ کی تاثیر بڑھتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کسی ایسے علاقہ میں جہاں رزق کی فراوانی نہیں تھی، طالب علم پانی کے ساتھ خشک روٹی کھا رہے تھے۔ ایک بزرگ نے دیکھا، تو اس کا دل بڑا پسیجا، اس نے کہا کہ بھائی! تمھارے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ بس یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے۔ گھڑے میں پانی بھرا ہوا تھا، انہوں نے اس کو دم کردیا، تو سارا کا سارا شہد بن گیا۔ اس پہ انہوں نے ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھ دیا، تو وہ شہد بن گیا۔ پھر کہا کہ اچھا بھائی! میں جارہا ہوں، یہ ایک ہفتے تک آپ لوگوں کے لئے کافی ہے، پھر ایک ہفتے کے بعد میں آؤں گا، تو آپ کے لئے اور دم کردوں گا۔ مدرسوں کے بچے بچے ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ کون سا مشکل ہے، ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ تو ہمیں بھی آتی ہے، چلو جی! ہمیں طریقہ مل گیا۔ پھر وہ سارا کا سارا ایک دن میں چٹ کرگئے۔ اگلے دن پانی کا گھڑا رکھ دیا اور اس پہ ایک نے کہہ دیا: ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘، تو پانی کا پانی تھا۔ پھر ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘، تو پانی کا پانی۔ پھر ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘، تو پانی کا پانی۔ سارے لڑکے جتنے بھی تھے، سب نے کہا، لیکن اخیر میں پھر پانی کے ساتھ گزارا کرنا پڑا۔ ایک ہفتے کے بعد پھر وہ بزرگ آئے اور ان سے کہا کہ بھائی! میں نے تو تمھارے لئے پانی دم کیا تھا، جو شہد بن گیا تھا، تو کیا وہ ختم ہوگیا؟ انہوں نے کہا کہ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ تو بہت آسان ہے، ہم نے کہا کہ یہ تو ہم بھی کرسکتے ہیں، لیکن ہم سے تو ہوا نہیں۔ انہوں نے پھر دم کردیا اور فرمایا کہ بھائی! ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ ایک ہے، لیکن زبان مختلف ہے۔ تو بات بالکل صحیح ہے۔ دیکھیں! موت، یہ حقیقت ہے، اس میں کوئی شک نہیں، کافر بھی اس میں شک نہیں کرسکتا، چاہے کتنا ہی بڑے سے بڑا کافر کیوں نہیں ہو، کیا وہ موت کو نہیں مانے گا؟ موت کو سب مانتے ہیں، لیکن اس ماننے کے پیچھے حقیقت کیا ہے، وہ ہر شخص کا اپنا اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھو! جو کفار مشرکین تھے، قرآن پاک اس سے بھرا ہوا ہے، وہ بار بار کہتے تھے کہ کیا ہم جب ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، پھر بھی ہمیں زندہ کیا جائے گا؟ ان کے لئے سب سے بڑے عجوبے کے بات یہی تھی۔ ان کو اللہ پاک یہی بات بار بار سمجھا رہے تھے کہ جس طرح تمھیں پہلے پیدا کیا گیا، اس طرح تمھیں بعد میں بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پہلے تو تم بالکل نہیں تھے، اللہ نے تمھیں پیدا کرلیا، اب جب تم کچھ ہو اور تمھارے کچھ آثار ہوں گے، تو اب پیدا کرنا مشکل ہوگا؟ اس طریقہ سے اللہ پاک ان کو سمجھاتے تھے۔ اب جن کا نظریہ یہ ہو کہ اس کے بعد کچھ بھی نہیں، تو ان کو موت کا کیا خیال؟ وہ تو خود کشی کرلیتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بھائی! یہ تو بڑی مصیبت کی زندگی ہے۔ ہمارے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بچہ آیا، کلاس میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا، پرچے میں فیل ہوگیا تھا، اب اپنی غیرت کی وجہ سے پریشان تھا۔ اس نے خود کشی کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن چونکہ مولانا صاحب کے پاس کبھی کبھی آتا جاتا تھا، تو اس نے کہا کہ چلو! پہلے مولانا صاحب کی زیارت کرلوں۔ مولانا صاحب کے پاس پہنچ گیا اور مولانا صاحب کو اپنے دل کی بات بتا دی کہ اس طرح بات ہے۔ اب خود کشی کرنے والا جو ہوتا ہے، اس کو سمجھانا بڑا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ جو اپنی زندگی ختم کرسکتا ہے، اس کو آپ کیا سمجھائیں گے، اس سے زیادہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، موت سے زیادہ تو کوئی چیز نہیں ہے، تو آپ اس کو کیسے سمجھائیں گے۔ مولانا صاحب نے اس کو بڑے ہی technical انداز میں سمجھایا، فرمایا کہ دیکھو، بیٹا! جو تم نے کرنا ہے، میں تمہیں اس سے نہیں بچا سکتا، جو کرنا ہے تم کرلو، میں نے صرف تمہیں ایک بات بتانی ہے کہ تم کس لئے خود کشی کر رہے ہو؟ اس لئے کہ ایک مصیبت ہے، ایک ذہنی تکلیف ہے، حالانکہ ضروری نہیں ہے کہ میڈیکل میں ہی تمھاری روزی ہو، ممکن ہے کہ کسی اور چیز میں اللہ نے روزی رکھی ہو، ممکن ہے کہ تم پھر پاس ہوجاؤ، یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے انسان زندگی دے دے، کیونکہ اس کے لئے تو انسان پیدا نہیں ہوا۔ بہت سارے لوگ ہیں جو بالکل ان پڑھ ہیں، لیکن بڑی اچھی زندگی گزار رہے ہیں، تو اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے انسان زندگی ختم کرے، لیکن بیٹا! سنو، اگر تم خود کشی کر کے وہاں پر بھی مصیبت میں ہو اور اس سے زیادہ مصیبت میں پھنس جائے، تو پھر کیا ہوگا؟ پھر کہاں جاؤ گے؟ پھر کیا کرو گے؟ پھر تو کچھ بھی نہیں کرسکو گے۔ اب آپ آزاد ہیں، جو کچھ کرنا ہے، کرلو، لیکن نتیجہ میں نے تمھارے سامنے رکھ دیا کہ وہاں پر بھی اگر مصیبت ہوگئی، تو پھر کیا کرو گے۔ بس پھر وہ خود کشی سے رک گیا اور اس کو سمجھ آگئی۔ واقعی بات تو صحیح ہے۔ اس وجہ سے جس انسان کو موت کے بعد کی زندگی کا تصور ہوتا ہے، وہ موت کے لئے تیاری کرتا ہے۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ موت کے بعد کی جو زندگی ہے، اس کا اگر کسی کو یقین ہو، تو اس وقت اس پہ فرق پڑے گا، اس کو اثر ہوگا اور وہ موت کی تیاری کرے گا۔ اس وجہ سے میں نے عرض کیا کہ سورۂ بقرہ کی بالکل ابتدا میں جو فرمایا گیا:

﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرۃ:4)

ترجمہ: ’’اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں‘‘۔

پھر موت کے بعد جو مرحلے ہیں، اس کے بارے میں یہاں پر بتایا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اس پر کافی تفصیل ہے اور احادیث شریفہ میں تو اس سے بھی زیادہ تفصیل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جہنم پر پل صراط رکھی جائے گی اور اسی روایت میں ہے کہ بعض آدمی یعنی کافر تو اپنے اعمالِ بد کے سبب بالکل ہی ہلاک ہوجائیں گے اور ان میں سے بعض آدمی یعنی گناہگار مسلمانوں کو عذاب ہوگا، مگر پھر وہ نجات پائیں گے۔ یہ متفقٌ علیہ حدیث شریف ہے۔ اور ارشاد فرمایا کہ سب لوگ جہنم پر آویں گے، پھر نیک لوگ اپنے اعمالِ حسنہ کی وجہ سے وہاں سے عبور کرجائیں گے یعنی اس پر سے گزر جائیں گے، اول ان میں سے گزرنے والے اس سے بجلی کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی طرح، پھر تیز گھوڑے کی طرح، پھر اونٹ سوار کی طرح، پھر آدمی کے دوڑنے کی طرح، پھر آدمی کے چلنے کی طرح۔ اصل میں قرآن عام زبان میں نازل ہوا ہے یعنی عام لوگوں کی زبان میں، تاکہ اس میں کوئی complication کی وجہ سے رہ نہ جائے، کیوں کہ نصیحت کرنے کے لئے اس میں بڑی آسانی ہے۔ تو یہاں پر جو حدیث شریف میں بھی فرمایا گیا ہے، یہ بہت عام فہم الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ جو پل صراط ہے، اس پر کچھ لوگ تیزی کے ساتھ گزریں گے، ایسے جیسے بجلی تیزی کے ساتھ گزرتی ہے۔ لائٹ کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے، پھر اس کے بعد تیزی ہوا کی طرح ہوتی ہے، پھر اس کے بعد تیز گھوڑے کی طرح، پھر اونٹ سوار کی طرح، اور پھر اس کے بعد جو آہستہ رفتار چلنے والے ہیں، ان کی طرح۔ یعنی تیز گھوڑے کی طرح، پھر آدمی کے دوڑنے کی طرح اور پھر آدمی کے چلنے کی طرح، مطلب یہ ہے کہ اس طرح لوگ چلیں گے۔

بہرحال میں عرض کروں گا کہ یہ احوال تو سب کو پیش آنے ہیں، لہٰذا تیاری کرنے کی ضرورت ہے، ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کسی اور کے لئے کہا جارہا ہے، بلکہ ہمارے لئے کہا جارہا ہے۔ ایک دفعہ ایک جنازہ آرہا تھا، جس کا بھی جنازہ تھا، ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے، ان کے ساتھ کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے کہا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ تو ان بزرگ نے کہا کہ تیرا جنازہ ہے، اور اگر تو برا مانتا ہے تو میرا جنازہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس بات کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ کس کا جنازہ ہے، اصل میں جنازہ ہے اور جنازہ سے عبرت حاصل کرلو کہ میں نے بھی اس طرح جانا ہے اور ہر ایک کو اس دن سے گزرنا ہے۔

﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ﴾ (آل عمران: 185)

ترجمہ: ’’ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے‘‘۔

بس موت کی تیاری بنیادی چیز ہے۔ ایک آدمی موت موت کہتا ہے، لیکن اس کی تیاری نہیں کررہا، تو وہ صرف الفاظ کہہ رہا ہے۔ دوسرا آدمی موت موت کے الفاظ نہیں کہہ رہا، لیکن تیاری کررہا ہے۔ تو پتا چلا کہ ہم لوگوں کو اس کا اندازہ ہونا چاہئے کہ موت کے بعد کی تیاری بہت اہم بات ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہاں پر دو چیزیں ہیں، یہ تو پل صراط کا بتایا گیا، یہ اس وقت ہے جب نہ جنت میں کوئی گیا، نہ دوزخ میں گیا ہے، لیکن اس صورت میں جو جنت میں جانے والے لوگ ہیں، ان کا کیا حال ہوگا اور جو دوزخ میں جانے والے ہیں، ان کا کیا حال ہوگا، تو یہ بھی قرآن میں بتایا گیا ہے۔ جو دوزخ میں جانے والے لوگ ہیں، (اللہ بچائے، اللہ بچائے، اللہ بچائے) وہاں کی جو حولناکیاں ہیں، اندازہ نہیں کرسکتا آدمی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دیکھو! یہاں کا قانون کیا ہے، یہاں کا قانون یہ ہے کہ جو جگہ جل گئی، تو تباہ ہوگئی اور ختم ہوگئی، انسان مرجاتا ہے تکلیف سے۔ وہاں دوزخ میں یہ قانون نہیں ہے، دوزخ میں جلد جلے گی اور جتنی جلے گی اس کے پیچھے سے مزید جلد بنتی جائے گی۔ اِدھر جلد جلے گی اور اِدھر پیچھے سے جلد بنتی جائے گی۔ اب اگر کوئی سائنسدان کہہ دے کہ یہ نہیں ہوسکتا، او بھائی! تمھاری سائنس اِدھر کی ہے، وہاں کی بات الگ ہے، وہاں تمھاری سائنس نہیں چلے گی۔ اور یہ اس میں کہا گیا ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کو تو ایمان بالغیب کہا گیا ہے۔ ایک تو یہ بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں (اللہ تعالیٰ بچائے) کیا کیا مسائل ہیں؟ وہاں جو کھانا دیا جائے گا، وہ پیپ اور زقوم ہوگا اور پتا نہیں کیا کیا چیز دی جائیں گی۔ اور پھر پانی گرم بالکل کھولتا ہوا پلایا جائے گا، جس سے ان کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور پھر بھی پیاس پیاس کرتے ہوئے اس کو پینے پہ مجبور ہوگا۔ یہ خطرناک باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ پھر یہ ہے کہ مثال دینے کے لئے فرمایا کہ ایک شخص ہوگا، جس کو صرف دو تسمے دوزخ کے پہنائے جائیں گے، اور اس کو کوئی عذاب نہیں ہوگا، ان دو تسموں کی آگ سے اس کا دماغ اس طرح کھول رہا ہوگا، جیسے دیگ کھول رہی ہو اور وہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ تکلیف مجھے ہورہی ہے، حالانکہ اس کو سب سے کم تکلیف ہورہی ہوگی۔ یہ حالت ہے۔ تو وہاں کے حالات بہت خطرناک ہیں، ہم لوگوں کو اندازہ نہیں ہے۔ جیسے جنت کے بارے میں ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا، نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ کسی دل پہ اس کا خیال ہوا ہوگا، تو دوزخ میں بھی عذابات اس طرح ہیں کہ ان عذابات کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کیسے عذابات ہوں گے۔ بلکہ میں تو ایک بات عرض کرتا ہوں یہاں کے حال کے لحاظ سے کہ یہاں اگر کسی کو قیدِ تنہائی میں بڑے اچھے مکان میں رکھا جائے، اس کو وقت پہ اچھا کھانا بھی ملتا ہو، سارا کچھ اس کے پاس ہو، لیکن کوئی اس کے ساتھ ملنے والا نہ ہو، تو اس کی کیا حالت ہوگی؟ قیدِ تنہائی جو ہے یعنی صرف تنہا رہنا؛ یہ بذاتِ خود بہت بڑا عذاب ہے۔ تو وہاں پر بھی یہی حالت ہے کہ تنہا بھی ہوں گے اور ساتھ ساتھ یہ کہ عذابات بھی ہوں گے۔ اور دوسری طرف جنت کے جو مزے ہوں گے، سبحان اللہ! ان کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں یہ حالت ہوگی کہ سبحان اللہ! باغات تو ہوں گے ہی، کیوں کہ جنت باغ کو ہی کہتے ہیں۔ باغات ہوں گے، ان میں ما شاء اللہ! پانی شیریں مزیدار بہتا ہوگا، دودھ کی نہریں ہوں گی، شہد کی نہریں ہوں گی، حوریں ہوں گی، ساتھ غلمان ہوں گے، بڑی زبردست مسندیں بچھی ہوں گی، آپس میں گپ شپ لگا رہے ہوں گے۔ سبحان اللہ! گپ شپ لگا رہے ہوں گے۔ آج کل جو دوست وغیرہ آپس میں ملتے ہیں، تو گپ شپ لگاتے ہیں، تو یہاں تو انسان اپنی گپ شپ سے وقت خراب کرتے ہیں، کیونکہ یہاں تو انسان ڈیوٹی کے لئے آیا ہے، کام کے لئے آیا ہے، یہاں گپ شپ کے لئے تو نہیں آیا، تو یہاں جو گپ شپ لگا رہے ہیں، یہ اصل میں اپنا وقت kill کررہے ہیں، لیکن وہاں جو وقت ہے، وہ بے حساب ہوگا، وقت کا حساب ہوگا ہی نہیں، وہاں پر اعمال بھی نہیں ہوں گے، تو وہاں گپ شپ بھی لگا رہے ہوں گے، ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں ہوں گی، ایک دوسرے کی دعوتیں ہوں گی۔ اب دیکھو! یہاں پر فارم ہاؤس ہوتا ہے پانچ چھ کنال کا، تو وہ کہتا ہے کہ جی زبردست چیز ہے، پھر اس میں دعوتیں ہوتی ہیں، لوگ اس کی دعوتوں پہ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یار! یہ بڑا زبردست رئیس آدمی ہے۔ دیکھو! پانچ چھ کنال کی اس کی کوٹھی ہے، یہ ہے، وہ ہے۔ وہاں تو پانچ چھ کنال کا کوئی نام ہی نہیں ہوگا، وہاں تو بعض لوگوں کی جنت تاحدِ نظر ہوگی۔ اور وہاں پر جانا بھی کوئی مشکل نہیں ہوگا، اِدھر آپ نے اُدھر جانے کا ارادہ کیا اور وہاں پر پہنچ گئے۔ جس چیز کے کھانے کا ارادہ کیا، وہ سامنے پہنچ گئی۔ قرآن میں ہے:

﴿وَلَكُمْ مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حٰم السجدہ: 32)

ترجمہ: ’’ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے، جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے جو تم منگوانا چاہو‘‘۔

بس اس میں سب کچھ آگیا۔ اس وجہ سے وہاں جنت کی جو خوشیاں ہیں، ان کا بھی کوئی حساب نہیں ہے۔ پھر درمیان میں ایک جگہ ہوگی، جس کو اعراف کہتے ہیں، یعنی نہ وہ جنت ہوگی نہ دوزخ ہوگی۔ وہاں بھی کچھ لوگ ہوں گے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ ایسی زبردست transparency ہوگی کہ جنت میں رہنے والے دوزخ والوں کو نظر آئیں گے اور پہچان بھی لیں گے کہ فلاں ہے، ان کے ساتھ communication بھی کرلیں گے اور ان سے کہیں گے کہ خدا کے لئے تھوڑا سا ہم کو بھی بھیج دو، جو آپ کے پاس ہے۔ وہ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں پر یہ حرام کردیا ہے۔ کافروں کو نہیں ملے گا۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ جو چیزیں ہیں، وہاں پر انسان اپنی چیز کو لے جائے گا، جب حساب کتاب ہوگا، تو وہاں اگر کسی کے ساتھ ایک نیکی کم ہوگئی، تو پھر دوڑتا رہے، نہ باپ دینے کے لئے تیار ہوگا، نہ ماں دینے کے لئے تیار ہوگی، نہ دوست دینے کے لئے تیار ہوگا، نہ بیٹا دینے کے لئے تیار ہوگا اور نہ بیٹی۔ وہ سارے اپنے اپنے اعمال میں پھنسے ہوں گے، کوئی بھی کسی کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ تو یہاں سے سب کچھ اپنا لے جانا ہے۔ اور کیسے لے جانا ہے؟ یہ معاملہ بالکل clear ہے، اس میں کوئی درمیان میں ambiguity نہیں ہے۔ آپ جو بھی عمل کررہے ہیں، اس کے دو نتیجے ہوتے ہیں اچھا یا برا۔ اچھائی بھی ہے، برائی بھی ہے، آپ اگر نیکی کا کام کرتے ہیں، تو نیکیاں آپ کے لئے جمع ہورہی ہیں، اگر گناہ کررہے ہیں، تو گناہ آپ کے لئے جمع ہورہے ہیں، پھر وہاں حساب ہوگا۔

﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍ ۝ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌ﴾ (القارعۃ: 6-9)

ترجمہ: ’’اب جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے، تو وہ من پسند زندگی میں ہوگا۔ اور وہ جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے، تو اس کا ٹھکانا ایک گہرا گڑھا ہوگا‘‘۔

یعنی جن کے نیک اعمال بھاری ہوجائیں گے، تو ان کے لئے جنت ہوگی اور جن کے نیک اعمال ہلکے ہوجائیں گے برے اعمال کے مقابلہ میں، تو ان کے لئے دوزخ ہے۔ تو وہاں بالکل کھرا کھرا حساب ہے اور سریع الحساب اللہ پاک کے لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ سریع الحساب ہے۔ یعنی بہت جلدی حساب لینے والا ہے۔ ہم تو کمپیوٹر وغیرہ کو کہتے ہیں کہ یہ بہت تیز حساب کررہا ہے، بھائی! کمپیوٹر حساب تیز کررہا ہے، لیکن کمپیوٹر کا جو خالق ہے، اس کی کیا بات ہوگی۔ دیکھیں! ابھی بھی ہماری جو genes ہیں اور اس قسم کی جو دوسری چیزیں ہیں، اس کے اندر storage ہیں، وہ کمپیوٹر سے بہت زیادہ تیز ہیں، تو اللہ جلّ شانہٗ کے پاس تو بہت کچھ ہے، اس وجہ سے بہت تیزی سے حساب ہوگا، کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہوگی، بلکہ انسان خود گواہی دے گا، اس سے کہا جائے گا کہ تم خود یہ پڑھ لو، یہی تمھارے لئے کافی ہے۔ اور وہ کیا ہے؟ ان کو ہوتا ہوا نظر آئے گا یعنی نظر آئے گا کہ فلاں کام کررہے ہیں۔ جیسے ابھی ویڈیوز وغیرہ آتی ہیں، تو کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اگر کسی نے کسی کی ویڈیو بنائی ہے پیچھے سے، تو اس کو پتا بھی نہیں ہوگا، اس کو جب بتایا جائے گا، تو کوئی انکار نہیں کرسکتا، بس ٹھیک ہے جی، نظر آتا ہے۔ البتہ یہ بات ہے کہ یہاں پر تو فوٹوشاپ اور اس قسم کی چیزیں ہیں، جن کی وجہ سے اس میں سارا کچھ change ہوسکتا ہے، وہاں پر یہ چیز ناممکن ہے۔ وہاں پر سب کچھ وہی ہوگا جو ہوچکا ہوگا، اس وجہ سے اگر پھر بھی کسی کو شک وغیرہ ہوگا، تو پھر کیا ہوگا؟ پھر یہ ہوگا کہ ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور پھر اس کے بعد اعضاء خود بولنا شروع ہوجائیں گے، آنکھیں بولنا شروع ہوجائیں گی کہ میں نے یہ دیکھا، میں نے یہ دیکھا۔ کان بولنا شروع ہوجائیں گے کہ میں نے یہ سنا، میں نے یہ سنا۔ زبان، خیر! وہ تو بند ہوگی۔ ہاتھ پاؤں غرض ہر چیز اپنی اپنی کارگزاری بیان کرے گی۔ تو یہ چیخ کر کہے گا کہ تمھیں کس نے کہا ہے کہ یہ باتیں کرو۔ وہ کہیں گے کہ اللہ پاک نے جس نے سب کو گویائی دی ہے، اس نے ہمیں بھی گویائی دی ہے، جس کی وجہ سے ہم یہ کہہ رہے ہیں۔ اب جب انسان کے اوپر ساری چیزیں خود گواہ ہوجائیں، تو پھر آدمی کیا کہہ سکتا ہے۔ پھر تو surrender کرنا پڑے گا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ حجت تمام کرنے کے لئے کررہا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کون حساب کرسکتا ہے۔

لیکن بہرحال یہ ہے کہ یہاں پر سب کچھ اختیار ہمیں دیا گیا ہے، یہاں پر اچھائی کا بھی اختیار ہے، برائی کا بھی اختیار ہے، مشکل سے مشکل حالات میں بھی آپ اللہ کا قرب حاصل کرسکتے ہیں، آسان سے آسان حالات میں بھی کرسکتے ہیں، مشکل سے مشکل حالات میں بھی برائی ہوسکتی ہے، آسان سے آسان حالات میں بھی برائی ہوسکتی ہے، مطلب یہ کہ انسان کے پاس زبردست degrees of freedom ہے، انسان کچھ بھی کرسکتا ہے، اللہ پاک نے اس کو مکمل اختیار دے دیا ہے۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ کچھ چیزیں انسان کی restricted ہیں۔ مثال کے طور پر جیسے دیکھیں! ایک نہر ہے، تو نہر کی دیواریں ہیں دو، اور نیچے base ہے، یہ تین چیزیں fixed ہیں، باقی درمیان میں پانی flow کررہا ہے، تو پانی اس طرح کرے، اس طرح کرے، یہ اس کی اپنی بات ہے، لیکن یہ نہ ادھر سے نکل رہا ہے، نہ ادھر سے اور نہ نہر نیچے جاسکتی ہے۔ یہ restricted ہے۔ پس اسی طریقہ سے ہماری کچھ conditions fixed ہیں، مثلاً: ہم لوگ موسم کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے، ہم لوگ اپنی موت کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے، ہم لوگ اپنے جسم کے اندر جو کچھ ہورہا ہے، اس کے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے، وہ چیزیں fixed ہیں۔ پانچ چیزوں کے بارے میں ہے کہ اللہ پاک کو پتا ہے کہ کہاں مرو گے، کل کیا کرو گے اور اس طرح دوسری چیزیں، یعنی پانچ چیزوں کا فرمایا، تو یہ جو چیزیں ہیں، یہ fixed ہیں، لیکن باقی اللہ پاک نے اختیار دیا ہوا ہے۔ اب اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ اچھائی بھی کرسکتے ہیں، برائی بھی کرسکتے ہیں۔ اب اس میں شر کہاں سے آتا ہے؟ شر آتا ہے نفس کے ذریعہ سے۔ اس نفس کو اگر آپ دبا سکتے ہوں، تو پھر آپ اللہ کی بات مان سکتے ہو۔ کیونکہ یہی شر والی بات ہے، اس کو ہی اگر آپ دبا لیں گے تو:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: "فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔

اور اس میں کوشش بھی آتی ہے۔ یہ بھی بتا دوں کہ آپ کو راستہ بند نظر آئے گا، لیکن راستہ بند نہیں ہوگا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: "اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے"۔

پس جب آپ کام شروع کرلیں گے، تو آپ کو خود پتا چل جائے گا کہ دیکھو! یہ اللہ کی مدد آگئی، دیکھو! یہ اللہ کی مدد آگئی، دیکھو! یہ اللہ کی مدد آئی۔ اللہ کی مدد آپ کے سامنے آتی جائے گی، جو کام آپ پہلے بہت مشکل سمجھتے تھے کہ یہ کیسے ہوگا، وہ بھی اللہ تعالیٰ آپ کو کر کے دکھا دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کام بھی ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ انسان مایوس نہ ہو، کوشش کو اپنے لئے لازم کرلے، اللہ کے ساتھ اچھی امید رکھے، شریعت پر چلنے کا قصد کرلے، اس کے لئے عقیدے کو صحیح رکھے اور جو کمی ہے، کوتاہی ہے نفس کی اصلاح میں، اس کو دور کرلے، اپنے نفس کی اصلاح کروا لے، تو بس ان شاء اللہ سارے کام ٹھیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے اور آپ کو بھی۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

موت اور آخرت کی تیاری - جمعہ بیان