اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم حضرت جی، میرا یہ ذکر اور مراقبات دو ماہ سے جاری ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ۔ دس منٹ کے لیے دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا مراقبہ، دس منٹ لطيفہ روح پر اور پندرہ منٹ لطيفہ سر۔ کیفیت میں بہتری کے لئے احساس رہتا ہے، براہ کرم آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ذکر تو ابھی آپ یہی کرلیں لیکن مراقبات میں اگر یہ تینوں صحیح چل رہے ہیں تو دل پر دس منٹ، لطيفہ روح پہ دس منٹ، لطيفہ سر پہ دس منٹ اور لطيفہ خفی پہ پندر منٹ کرلیں۔ اگر نہیں چل رہے تو پھر بات کیجئے گا۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، حضرت میں فلاں کی چھوٹی بہن ہوں۔ میں معمولات شروع کرتی ہوں لیکن ناغے ہوتے ہیں، تو نئے سرے سے پھر شروع کرتی ہوں۔ اس حوالے سے اصلاح فرمائیں کہ آئندہ ناغہ سے بچنے کے لئے کیا planning کرنی چاہیے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ مجھے اکثر غصہ آجاتا ہے، اس کے علاج کے لئے مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
در اصل اس بارے میں تو خود عقل سے کام لینا ہوتا ہے۔ انسان جب بھی کسی سے علاج کرواتا ہے تو معالج صرف تشخیص کرسکتا ہے اور دوائی دے سکتا ہے۔ اس کے بعد دوائی کھانا مریض کا کام ہوتا ہے، اس کے بارے میں معالج مریض پر زبردستی نہیں کرسکتا۔ ہاں! اس کو دوائی وقت پر کھانے کا طریقہ بتا سکتا ہے کہ آپ دوائی کے لئے ایک وقت مقرر کرلیں۔ جیسے مثال کے طور پر بعض گولیاں جو روزانہ کھانی ہوتی ہیں، ان پہ باقاعدہ تاریخیں لکھی ہوتی ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں نے گولی کھائی یا نہیں کھائی۔ آپ یوں بھی کرسکتی ہیں کہ ایک تو اپنے معمولات کا ایک خاص وقت متعین کرلیں، اس طرح آپ کو اس کا خیال رہے گا۔ کیونکہ اکثر لوگ جب معمول آگے پیچھے کرتے ہیں تو ان کو خیال نہیں رہتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ alarm لگا دیا کریں جو آپ کو اطلاع کر دے کہ آپ کے معمول کا ٹائم ہوگیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ وہاں کسی کو اپنے طور پہ نگران بنا دیں جو آپ کو بتا دیا کرے کہ آپ نے معمول کرلیا یا نہیں۔ میرے خیال میں یہ ساری ترتیبیں آپ کو خود بھی شاید سمجھ آرہی ہوں گی۔ آپ ان میں سے کوئی کام کر کے اپنے معمول کو باقاعدہ کرسکتی ہیں۔
باقی جو غصے والی بات ہے، اس کا علاج بعد میں ہوگا۔ سب سے پہلے آپ اپنا معمول باقاعدگی سے شروع کرلیں۔ اگر دوائی صحیح طریقے سے نہ کھائی جائے تو علاج کے بارے نہیں پوچھا جاسکتا کہ یہ کب ٹھیک ہوگا۔ دوائی کھانا شروع کریں گی تو اس کے بعد ہی بات کی جا سکتی ہے کہ فلاں چیز کا کیا ہوگا۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم حضرت جی! اللّٰه پاک آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔ کل کی مجلس سلوک سلیمانی میں ایک سوال آیا تھا جس میں ایک مرید نے اپنا حال بیان کیا تھا کہ مجھ میں قلت جرأتِ حق اور مروت ہے جس کی وجہ سے مجھ سے حق بات بیان نہیں کی جاتی۔ اس پر حضرت والا دامت برکاتہم نے شافی جواب ارشاد فرمایا۔
حضرت جی میں اپنے اندر بھی یہ مرض بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں جس کی وجہ سے میں کافی خلاف طبیعت اور خلاف ارادہ کام کر دیتا ہوں اور بعد میں پچھتاتا ہوں۔ مجھے کل کی مجلس میں لگا کہ یہ میرا ذاتی حال ہے۔ حضرت والا اپنے جواب کی تھوڑی تشریح فرمائیں کہ میرے لئے اس میں کیا ہدایت ہوسکتی ہے تاکہ شفا ہوجائے۔
جواب:
اس میں سے جو چیز آپ کو سمجھ نہیں آئی وہ مجھے بتا دیں، میں دوبارہ مکمل بیان نہیں کرسکتا۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ، حضرت Time management کا کیا طریقہ ہے کہ اپنے روزانہ کے تمام کاموں کو وقت پر کرسکوں۔ کیونکہ میرے ساتھ ہر دفعہ وقت پر کام نہ کرنے کا مسئلہ رہتا ہے۔ ذہن میں ہر وقت بہت ساری چیزیں چل رہی ہوتی ہیں۔ ایک کام شروع کرتا ہوں تو دوسرا کام یاد آجاتا ہے اور پھر پہلے والے کام کو مکمل کیے بغیر دوسرا کام شروع کر دیتا ہوں۔ اسی طرح تیسرا اور پھر چوتھا۔ اس طرح دینی معمولات بھی چُھوٹ جاتے ہیں اور پھر guilt محسوس کرتا ہوں کہ نہ دینی معمولات پورے ہوئے نہ دنیاوی کام پورے ہوئے۔ یہ مسئلہ میرے ساتھ سالوں سے چل رہا ہے۔
اس طرح کوئی ایسا کام جس کا تعلق رزق کے ساتھ ہے وہ بھی کچھ عرصہ کرتا ہوں، پھر مجھے لگتا ہے کہ یہ کام میرے لئے نہیں ہے تو میں کوئی دوسرا کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس کی وجہ سے دوسرے کام کو صفر سے شروع کرنا پڑتا ہے اور وقت لگتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اس کام سے بھی دل اٹھ جاتا ہے کیونکہ ذہن میں کرنے کے لئے اس قدر نئی چیزیں گھوم رہی ہوتی ہیں کہ پہلے والے کام سے دل اکتا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتی کہ کوئی ذہنی مسئلہ ہے یا planning کا فقدان ہے یا استقامت کا مسئلہ ہے۔ براہ مہربانی کچھ حل بتائیں۔
جواب:
اگر میں کہوں کہ یہ تینوں مسئلے ہیں تو میرے خیال میں بات غلط نہیں ہوگی۔ ذہنی مسئلہ بھی ہے، planning کا فقدان بھی ہے اور استقامت کا مسئلہ بھی ہے۔ اور ان تینوں کا reason ایک ہی ہے کہ آپ وقت کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے۔ ایک دن رات میں گھنٹے چوبیس ہی ہوتے ہیں، پچیس نہیں ہوسکتے۔ لہذا اپنے کاموں کی ایسی ترتیب بنائیں جو reasonable ہو۔ اپنے timetable کو reasonable بنایا کریں۔ بعض لوگوں کی اکثر یہ غلطی ہوتی ہے کہ وہ اپنے timetable کو overestimate کر کے بناتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں یہ کام بھی کرسکتا ہوں، یہ کام بھی کرسکتا ہوں اور یہ بھی کرسکتا ہوں۔ نتیجتًا وہ کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔ جیسے مثال کے طور پر کسی ہال میں یا کمرے میں کوئی panic ہوجائے جس کی وجہ سے سارے لوگ باہر نکلنا چاہیں اور دروازے پہ rush ہوجائے تو کوئی بھی نہیں نکل سکے گا، سارے پھنس جائیں گے۔ لیکن اگر وہ لائن بنا لیں گے تو تھوڑی دیر میں سارے نکل جائیں گے۔ اسی طریقے سے اپنے کاموں کی بھی ترتیب وار لائن بنا لیں۔ اس میں سب سے اہم کام کو پہلے رکھیں، اس کے بعد اس سے کم اہم کام کو، اور اس کے بعد سب سے کم اہم کام کو رکھیں۔
میں آپ کو ایک اپنا واقعہ سناتا ہوں، ایک دفعہ مجھے اپنا ایک ٹیسٹ دینا تھا، لیکن اس کے لئے میں پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لیٹ ہوگیا، دو گھنٹے کا پیپر تھا۔ دو گھنٹے میں سے آدھا گھنٹہ گزر گیا تو باقی ڈیڑھ گھنٹہ رہ گیا۔ اب مجھے ڈیڑھ گھنٹہ میں دو گھنٹے کا پیپر solve کرنا تھا۔ جب میں پہنچا تو وہاں کے invigilator جو بعد میں ہمارے دوست اور colleague بنے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ آدھا گھنٹہ late آئے ہیں، میں نے کہا نقصان کس کا ہوا؟ کہنے لگے آپ مزید ٹائم تو نہیں مانگیں گے؟ میں نے کہا کہ میں نہیں مانگوں گا، انہوں نے کہا کہ آؤ بیٹھ جاؤ۔ مجھے انہوں نے پیپر دے کر بٹھا دیا۔ وہ objective پیپر تھا یعنی M C Q تھے جن میں A B C D میں سے کسی کو ٹک کرنا تھا۔ میرے پاس چونکہ ٹائم تھوڑا تھا اس لئے میں نے جلدی سے ایک فیصلہ کیا کہ جس سوال کے لئے سوچنے کی ضرورت نہ پڑے اور وہ فورا ہوسکے، سب سے پہلے ان کو کروں، مثال کے طور پر بغیر ترتیب کے پہلا نمبر بھی ہوسکتا ہے، پانچواں نمبر بھی ہوسکتا ہے، نواں بھی ہوسکتا ہے، دسواں بھی ہوسکتا ہے، بارہواں بھی ہوسکتا ہے اور سترواں بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جو سوال سوچے بغیر فوری طور پہ ہوسکتے تھے میں نے پہلے وہ حل کر لئے، اس کے بعد وہ سوال حل کر لئے جن میں تھوڑا سا سوچنے کی ضرورت تھی۔ پھر سب سے اخیر میں وہ سوال حل کئے جن میں زیادہ سوچنے اور calculator کی ضرورت تھی۔ اس طرح آخر میں ساٹھ سوالوں میں سے الحمد للہ چھپن سوال ہوگئے اور چار سوال مجھ سے رہ گئے۔ چونکہ یہ میرا اس type کا پہلا امتحان تھا اس لئے پیپر ہوجانے کے بعد مجھے پتا چلا کہ اس کو کوئی بھی پورا حل نہیں کرتا کیونکہ اس میں Negative marking ہوتی تھی یعنی غلط جواب کا ایک نمبر کٹتا تھا اور ٹھیک جواب کے تین نمبر ملتے تھے۔ خیر الحمد للّٰه، اللّٰہ کا شکر ہے کہ میں اس میں پاس ہوگیا۔ مجھے interview کے لئے بلایا گیا تو وہاں وہی صاحب بیٹھے ہوئے تھے جو invigilator تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی تعارف میں پہلی بات یہ کی کہ یہ وہ لڑکا ہے جو آدھا گھنٹہ late آیا لیکن پھر بھی اس نے پیپر اچھا کیا۔ اس بات کا interview والوں پہ اچھا اثر پڑ گیا اور ماشاء اللّٰه میرا interview بھی اچھا ہوگیا۔
یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ planning کی بات تھی، اگر میں یہ planning نہ کرتا تو میں پیپر نہیں کرسکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر دوسرے نمبر پہ calculation والے سوال حل کرتا تو میرا آدھا گھنٹہ وہ لے لیتے، اس کے بعد میرے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں تھا کہ کوئی اور سوال حل کر پاتا۔ اس لئے آپ اپنی ان چیزوں کو manage priority wise کریں۔
میرے خیال میں یہ جو دو مثالیں میں نے آپ کو دی ہیں سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ اگر آپ اس پہ بھی نہیں سمجھے تو میں ہاتھ کھڑے کر دوں گا کہ میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔ بعض اوقات ہاتھ بھی کھڑا کرنا پڑتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس لئے بس آپ سمجھنے کی کوشش فرما لیں۔
سوال نمبر 5:
حضرت جی دوسروں کو درود شریف کی دعوت دے سکتی ہوں؟
جواب:
جی بالکل دے سکتی ہیں لیکن اچھے طریقے کے ساتھ۔ جب آپ ﷺ کا نام آئے تو ایک مرتبہ درود شریف پڑھنا واجب ہے اس کے بعد مستحب ہے۔ مستحب چیز کی دعوت جس طرح دی جا سکتی ہے اس طرح آپ بھی دے سکتی ہیں۔ مستحب میں ترغیب ہوتی ہے، ملامت نہیں ہوتی۔ آپ دعوت دیں کہ یہ بہت مفید کام ہے اور اس کا یہ یہ فائدہ ہے۔ مستحب کی دعوت کا یہی طریقہ ہوتا ہے، اس سے زیادہ آپ زور نہ دیا کریں کیونکہ اس طرح اس کا مطلب یہ ہوجائے گا کہ آپ نے گویا کہ اس کو واجب سمجھ لیا ہے۔ مستحب کو مستحب سمجھ کے دعوت دینی چاہیے، جو آپ دے سکتی ہیں۔ ان شاء اللّٰه اگر کسی نے آپ کی دعوت پہ عمل کیا تو اس میں آپ کے لئے بڑا فائدہ ہے۔ اللّٰه جل شانہ ہم سب کو اس کی صحیح طریقے سے دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم حضرت! مجھے اپنے آگے پہاڑ نظر آتا ہے اور پیچھے کھائی نظر آتی ہے۔ نہ اوپر جانے کی ہمت ہے نہ نیچے جا سکتی ہوں۔ پتا نہیں میں یہاں کیسے آگئی۔ میں ان ناشکریوں سے کیسے بچوں؟ ایسا لگتا ہے کہ اللّٰه کی دی ہوئی condition پوری کرنے میں میری زندگی لگ جائے گی۔ کچھ دن پہلے بھی میں نے خواب دیکھا کہ میری بھابھی نہا کے نماز پڑھ رہی ہیں، میں سوچتی ہوں کہ یہ طریقہ بھی صحیح ہے، پھر میں جب نہا کے نماز پڑھ کر استغفار کر کے سب set کرلیتی ہوں تو غیب سے آواز آتی کہ شیطان نے عبادت پر غرور کیا تھا تو دیکھو وہ کہاں پہنچ گیا، ہم انجانے خوف سے آزمائیں گے۔ اور کچھ زہریلے demo بھی مجھے ڈراتے ہیں۔ میری والدہ کہتی ہیں کہ میں نے باہر نکلنے سے منع کیا تھا۔ ہم زیادہ تر سردیوں میں مغرب کے بعد ہی باہر نکلتے ہیں اور یہ میری والدہ کا ہی مشورہ ہوتا ہے۔ کیونکہ صبح فارغ نہیں ہوتے اور دوپہر کو نماز وغیرہ کی مصروفیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مزید ایک شیطانی قوت نے مجھے تنگ کر رکھا ہے۔ جب تک تعویذ استعمال کرتی رہوں تو خواب میں تعوذ پڑھ کر بھگا دیتی ہوں، ورنہ یہ مجھے ڈرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ آخر میں کب تک تعویذ دھاگے کروں؟ مجھے لگتا ہے کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو میرا بچنا تو بہت مشکل ہے۔ میں تو دین اور دنیا میں سے کہیں کی بھی نہیں رہوں گی۔
جواب:
حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ جو ہمارے بڑے تھے اور اللّٰه والے تھے۔ ان کا تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں یا اس سے کچھ پہلے ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ وہ تانگے سے گرے اور ان کے کولہے کی ہڈی میں fracture ہوگیا۔ وہ پہلے سے مفلوج بھی تھے۔ ظاہر ہے یہ اس عمر میں بہت بڑی تکلیف کی بات ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ چارپائی سے لگ گئے۔ مجھے جب پتا چلا تو میں جلدی جلدی عیادت کے لئے پہنچ گیا۔ جیسے ہی میں حضرت کے کمرے میں گیا اور حضرت سے علیک سلیک ہوئی تو حضرت نے فرمایا الحمد للّٰه! اللّٰه پاک نے بیماری سے پہلے تیمار دار بھیج دیے تھے۔ اور دیکھو! لوگ رزق کے پیچھے اتنی بھاگ دوڑ اور کوششیں کرتے ہیں، مجھے اللہ پاک چارپائی پر لیٹے لیٹے کھلا دیتے ہیں۔ یہ concept ٹھیک ہے، اس طرح کے لوگوں کو شاکرین کہا جاتا ہے۔ اور اللہ پاک شکر کرنے والوں کو نوازتا ہے۔ کیسے نوازتا ہے، اس کا جواب قرآن پاک میں ہے:
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابرہیم: 07)
ترجمہ:1 "اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا"
اس لئے اگر اللّٰه تعالیٰ نے جب آپ کو کسی پریشانی کا علاج بھی دیا ہے تو آپ کیوں tension میں ہیں کہ میں کب تک یہ کرتی رہوں گی؟ اللّٰه پاک نے سورۂ بلد میں فرمایا ہے:
﴿لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡ كَبَدٍؕ﴾ (البلد: 4)
ترجمہ: "کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے"
اس وجہ سے کسی کے لئے بھی یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ آپ ایوب علیہ السلام کو دیکھیں، اس طرح آپ ان صحابہ کرام کی زندگیاں دیکھیں جو بیمار تھے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کو اتنی زیادہ بیماریاں تھیں کہ لوگ گن نہیں سکتے۔ بڑی بڑی بیماریاں تھیں۔ مفلوج تھے، Heart problem تھا، asthma تھا، السر تھا، بلڈ پریشر کا مسئلہ تھا، اور شوگر بھی تھی۔ یہ میں نے صرف بڑی بڑی بیماریاں بتائی ہیں۔ لیکن حضرت نے ان چیزوں کے ہوتے ہوئے کتنے ہی لوگوں کی تربیت فرمائی۔ حضرت پروفیسر بھی تھے چنانچہ اپنی duty بھی کرتے تھے۔ چونکہ وہ لوگ مخالف تھے اس لئے حضرت کے ساتھ شفقت اور نرمی کی بجائے وہ حضرت کو tough ٹائم دیتے تھے اور زیادہ کام دیتے تھے۔ حضرت یہ سب برداشت کرتے تھے۔ میں نے یہ سب اس لئے کہا کیونکہ آپ کے لہجے میں جو شکایت نظر آرہی ہے وہ مجھے اچھی نہیں لگی۔ آپ فورًا استغفار کریں اور دو رکعات صلوۃ التوبہ پڑھیں اور آئندہ کے لئے اس سے بچیں۔ اللہ پاک نے جو نعمتیں آپ کو دی ہیں ان کو گن کر لکھ لیں اور کبھی کبھی ان کو دیکھ لیا کریں تاکہ آپ کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے اور شکر کے ساتھ اللہ پاک آپ کو مزید نعمتیں عطا فرمائے۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم، حضرت جی! میں فلاں کی بہن ہوں۔ حضرت جی! آپ کو پچھلے ماہ اصلاحی ذکر کے بارے میں بتایا تھا، جس کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا کہ ذکر کا کوئی بہتر ٹائم suggest کرلیں تو یہ بہتر ہوجائے گا۔ میں نے کوشش کی کہ کالج سے واپس آ کر میں تھوڑی دیر سو کر جب اٹھ جاؤں گی تو چائے پینے کے بعد کرلیا کروں، لیکن ابھی تک ایک ٹائم fix نہیں ہو پا رہا۔ موجودہ ذکر دس منٹ قلب، پندرہ منٹ روح اور دس منٹ سر پر ہے۔ ان تینوں جگہ پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کرنے کا ذکر ملا ہے۔ ذکر میں الحمد للّٰہ ناغہ نہیں ہوا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ذکر کرتے ہو دھیان ہٹ جاتا ہے اور ذکر پوری توجہ سے نہیں ہو پاتا۔
جواب:
جیسا ہوسکتا ہے اس میں کمی نہ کریں اور آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھیں اور اللّٰه پاک سے مانگتی رہیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم! مجھے تجدید بیعت کا مسئلہ ہے۔ میں دوبارہ توبہ اور بیعت دہرانا چاہتا ہوں۔
جواب:
ٹھیک ہے، آپ مجھے پاکستانی وقت کے مطابق بارہ بجے سے ایک بجے تک ٹیلی فون کرلیں تاکہ میں آپ سے کھل کے بات کرسکوں کہ کیا مسئلہ ہے۔ اس پر پھر بات ہوجائے گی ان شاء اللّٰه۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه! دعا کی درخواست ہے، اللّٰه تعالیٰ مجھے کوئی چھت دے دیں جس میں مجھے کوئی ذلیل نہ کرے۔
جواب:
آمین۔ اللّٰه جل شانہٗ آپ کو چھت دے جس میں آپ کو کوئی ذلیل نہ کرسکے۔ ہم بھی دعا کرتے ہیں اور آپ بھی دعا جاری رکھیں۔ tension نہ لیں، اللّٰه پاک کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے، لہٰذا اللّٰه پاک کی حکمتوں پہ نظر ڈالیں اور مایوسی کی طرف نہ جائیں۔ اللّٰہ جل شانہٗ آپ کو مایوسی سے بچائے اور آپ کی دعا پوری فرمائے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم، حضرت جی! مجھے بسوں کا سفر زیادہ کرنا پڑتا ہے، ایسے میں نماز سفر قصر پڑھنے کے بعد میں سنتیں بھی پوری پڑھتا ہوں۔ اگر بس کھڑی ہو تو نیچے کھڑے ہو کر پڑھ لیتا ہوں ورنہ سیٹ پر اشاروں سے پڑھتا ہوں۔ اوابین، اشراق اور چاشت وغیرہ کے نوافل بھی ایسے ہی پڑھتا ہوں۔ دوران سفر میرے ان معمولات کا کرنا افضل ہے یا نہ کرنا؟
جواب:
سفر میں سنت مؤکدہ نوافل بن جاتی ہیں، اس لئے سفر میں آپ کے ذمے صرف فرض ہی ہوں گی اور وہ بھی قصر کی صورت میں۔ وہ آپ نیچے کھڑے ہو کر پڑھ لیا کریں کیونکہ بس میں بیٹھے بیٹھے وہ ادا نہیں ہوتے۔ اس کے لئے آپ کو manage کرنا پڑے گا۔ البتہ نوافل اس طرح بیٹھ کر پڑھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ سفر میں عمومًا ٹائم ہوتا ہے اس لئے اگر آپ کا وضو ہو تو آپ بھلے سارے نوافل ہی پڑھ لیا کریں کیونکہ یہ اس ٹائم کا اچھا استعمال ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ میں راولپنڈی سے فلاں بات کررہا ہوں۔ حضرت والا! میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللّٰه آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللّٰه تعالیٰ مجھے صحیح معنوں میں آپ کی اتباع نصیب فرمائے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ حضرت والا! میرا ذکر دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ ھُوْ اللّٰہْ‘‘، پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ اور دو ہزار مرتبہ جہری طور پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرنا ہے۔ الحمد للّٰہ ایک ماہ کے مکمل احوال یہ ہیں کہ ذکر میں فکر نصیب ہورہی ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں، جزاک اللّٰہُ خیراً۔ گھر والوں کا ذکر بھی ایک ماہ کے لئے مکمل ہوچکا ہے، وہ ذکر یہ تھا: لطيفہ قلب پر دس منٹ، یہ محسوس ہورہا ہے۔ لطيفہ روح دس منٹ، یہ بھی محسوس ہورہا ہے۔ لطيفہ سر پندرہ منٹ، یہ محسوس نہیں ہورہا۔ اس دوران تین دفعہ ناغہ کرچکی ہیں۔ حضرت والا آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت کے ساتھ صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائیں۔ حضرت والا معمولات کے بارے میں مختصر عرض ہے کہ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کررہا ہوں اور تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین کی نماز پڑھنے کی بھی توفیق مل رہی ہے۔ اور الحمدللّٰه، اللّٰه کا شکر ہے سنتوں پر عمل کی بھی توفیق ہورہی ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے، ما شاء اللّٰہ! آپ فی الحال باقی ذکر ایسے ہی رکھیں، البتہ دو ہزار مرتبہ کی جگہ ڈھائی ہزار مرتبہ کرلیں۔ اور گھر والوں کا لطيفہ سر پہ پندرہ منٹ چونکہ محسوس نہیں ہورہا تو وہ فی الحال اس کو ہی جاری رکھیں۔ یعنی دس منٹ لطیفہ قلب، دس منٹ لطيفہ روح اور پندرہ منٹ لطيفہ سر۔
سوال نمبر 12:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
آپ مجھے بارہ بجے سے ایک بجے کے درمیان فون کر لیجئے گا تاکہ میں آپ سے کچھ سوالات پوچھ سکوں۔ اس کے بعد ان شاء اللّٰه آپ کو جواب دوں گا۔ کیونکہ یہ میراث کا مسئلہ اتنا simple نہیں ہوتا، اس میں پہلے clear کرنا ہوتا ہے اور اس کے بعد جواب دینا ہوتا ہے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ! نماز میں تمام باتوں سے ہٹ کر صرف اللّٰه تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا حکم ہے۔ میں نماز میں نیت باندھتی ہوں تو طرح طرح کی سوچیں آتی ہیں۔ میں سوچ کا رخ اللّٰه کی طرف کرلیتی ہوں۔ مثلاً اگر نماز کے دوران کوئی مسئلہ یاد آگیا تو ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4) کہتے ہوئے اس کا حل تلاش کرتی ہوں۔ کیا نماز میں دوسرے خیالات کا آنا اور اردو میں اللّٰه سے بات کرنا خشوع و خضوع کے خلاف ہے؟ رہنمائی کیجئے۔ جواب:
آپ کی تحریر پوری طرح سمجھ نہیں آرہی، البتہ جتنی بات مجھے سمجھ آئی اس کے بارے میں عرض کرسکتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ نماز اللّٰه تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا وقت ہے، اس میں آپ مزید باتیں نہ کیا کریں۔ ہم حضرت عمر رضی اللّٰه عنہ جیسے لوگ نہیں ہیں جو نماز کے دوران لشکر کی تشکیل کرتے تھے۔ ان کی بات الگ تھی، ان کو آپ ﷺ نے کچھ خاص بشارتیں بھی دی تھیں۔ ؎
نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند
ہم لوگوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ نماز میں اللّٰه کی طرف متوجہ رہیں اور اس توجہ کی برکت سے اللّٰه پاک نماز کے بعد ہمارے دل میں صحیح بات لائے جس کو شرحِ صدر کہتے ہیں۔ آپ یوں کرسکتی ہیں کہ آپ نے کسی مسئلے کو حل کرنا ہو تو دو رکعات صلوۃ الحاجت پڑھ کر اللّٰه کی طرف متوجہ ہو کر دعا مانگیں اور پھر نماز کے بعد اللّٰه پاک کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ پھر جو بات دل میں آئے اس کو شرح صدر کہتے ہیں۔ اس طریقے سے دونوں کام ہوجائیں گے، یعنی نماز بھی ٹھیک ہوجائے گی اور اس مسئلے کا حل بھی ہوجائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ آپ نماز میں یہ سوچتی رہیں۔ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے، البتہ اپنی طرف سے توجہ کے بغیر خود بخود اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیال آجائے اور وہ ہمارے لئے کوئی کام کی بات ہو تو نماز کے بعد اس پر غور کرسکتے ہیں۔ کیونکہ نماز کے دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے جو بات آتی ہے اس کے بارے میں ہم فورًا معلوم نہیں کرسکتے کہ اللّٰه پاک کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ہے۔ کیونکہ نماز کے دوران بعض اوقات شیطان کی طرف سے نورانی حجاب کے طور پہ ایک چیز آتی ہے۔ یعنی وہ دین کی کوئی بات آپ کے سامنے لے آتا ہے تاکہ آپ نماز میں اسی طرف مشغول ہوجائیں۔ چونکہ ہمیں پتا نہیں ہوتا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ہے۔ لہٰذا فوری طور پر آپ اس میں بالکل مشغول نہ ہوں، البتہ بعد میں اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کہ میرے دل میں جو بات آئی تھی، وہ واقعی شریعت کے مطابق ہے اور اس میں میرے لئے کوئی خیر کی بات ہے یا نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اس سلسلے میں شیخ سے مشورہ کرلیا کریں کہ ایسی بات آئی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ ایسا ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا اور ہر وقت بھی نہیں ہوتا، بلکہ عین خاص وقت میں ہوتا ہے۔ اس لئے جن کے لئے ہوتا ہے ان کو وہی کرنا چاہیے جو بتا دیا۔ نماز میں اپنی طرف سے بالکل کسی اور چیز کی طرف توجہ نہ لے جائیں چاہے وہ دین کا کام ہی کیوں نہ ہو۔ نماز میں صرف نماز کی طرف ہی توجہ رکھیں، کسی اور چیز کی طرف توجہ نہ رکھیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم شیخ صاحب! یہ تصویر میں نے فیض کا تصور کرنے کے لئے دیکھی ہے۔ بس Facebook پر نظر آئی تھی، اس کے علاوہ اس کا میرے مراقبے میں کوئی دخل نہیں ہے۔ مراقبہ میں میں اپنے شیخ محترم کے علاوہ کسی کی بات سنتی یا پڑھتی تک نہیں ہوں۔ اب آپ نے آئینے کی مثال دی تو میرا مراقبہ الحمد للّٰه بہت آسان ہوگیا ہے۔
آج میں نے دو خواب دیکھے ہیں، ایک یہ دیکھا کہ میں اپنے صحن میں پرندوں کی طرح گھومتے ہوئے بہت خوبصورت انداز میں کلمہ اور درود پڑھتی ہوں۔ لڑکیاں بھی میرے ساتھ پڑھتی ہیں اور پرندے بھی چہچہا رہے ہوتے ہیں جیسے تسبیح کررہے ہوں۔ دوسرا خواب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو ایک رہنما کے طور پر اپنے کاموں میں معاون پاتی ہوں۔ خواب صحیح طور پہ یاد نہیں ہے، البتہ ایسے ہی لگتا ہے جیسے وہ خود آتے ہیں۔ شیخ محترم مجھے معاف فرما دیجئے۔ آئندہ کچھ سمجھنے کے لئے بھی کچھ نہیں دیکھوں گی۔ مراقبہ آپ کے بتائے ہوئے طریقے سے ہی کیا، صرف نور کا تصور اس تصویر سے قائم کیا جو کہ آپ نے آئینے کی مثال سے واضح کر دیا۔ آپ رہنمائی فرما دیجئے۔
جواب:
ما شاء اللّٰہ! یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے بات سمجھ لی۔ چونکہ یہ تربیت کی باتیں ہیں اس لئے اس معاملے میں شیخ کے علاوہ کسی اور کی کسی چیز کی طرف دھیان نہیں ہونا چاہیے، بھلے وہ کوئی اہل حق شیخ ہی کیوں نا ہو۔ جیسے بہت سارے ڈاکٹر ہوتے ہیں اور ان میں اچھے اور قابل ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں لیکن آپ نے جس سے علاج شروع کیا تو علاج کے معاملے میں صرف آپ اس کی سنیں گے اور مانیں گے۔ کسی اور کی بات نہیں سنیں گے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب بیمار ہوتے تھے تو ایک ہی حکیم صاحب سے علاج کرواتے تھے۔ حضرت چونکہ بہت مشہور تھے تو بہت سارے اور حضرات بھی کہتے کہ حضرت! اس کے لئے تو یہ دوا بھی ہے۔ حضرت فرماتے کہ مجھے نہ کہیں میرے حکیم صاحب سے کہہ دیں۔ اس لئے اگر کوئی آپ کو کچھ بتائے تو اسے کہہ دیں کہ میری بجائے میرے شیخ سے کہہ دیں، وہ جس چیز کو لینا چاہیں گے لے لیں گے اور جس چیز کو نہیں لینا چاہیں گے تو نہیں لیں گے۔ اس وجہ سے آپ نے بہت اچھا کیا کہ یہ بات سمجھ لی۔
باقی یہ الحمدللّٰه اچھے خواب ہیں، لیکن ہمارے یہاں خوابوں کی طرف دھیان کم ہے۔ ہم خوابوں کی طرف زیادہ دھیان نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر مجھے ایک ہزار اچھے اچھے خواب آئے اور میں انہی میں مشغول ہوگیا اور جو اصل کام تھا وہ مجھ سے رہ گیا، تو کیا وہ اچھے خواب باقی رہیں گے؟ اول تو وہ وہیں ختم ہوجائیں گے اور اگر نہ بھی ختم ہوئے تو اصل چیز کے نا ہونے کی صورت میں مجھے محض خواب سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ اس وجہ سے ہمارے یہاں خوابوں کی طرف دھیان نہیں ہے، عمل کی طرف دھیان ہے۔ جب عمل کی طرف دھیان ہو تو اگر خوابوں کی طرف دھیان نہ کیا جائے تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ لیکن خوابوں کی طرف دھیان کیا جائے اور عمل کی طرف سے دھیان کٹ جائے تو یہ نقصان کی بات ہے۔ لہٰذا اپنا رخ خوابوں سے ہٹا دیجئے اور صرف ایک ہی کام کریں۔ جو آپ کو بتایا جائے اس کو کرتی رہیں اور شریعت پر سنتوں کے مطابق عمل کرتی رہیں۔ یہی کافی ہے، اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ، حضرت شاہ صاحب! اللّٰه تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آپ کی برکت سے الحمد للہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مکتوبات سے استفادہ کی توفیق ہوئی۔ اللّٰہ تعالیٰ اس میں روز وشب اضافہ فرمائے۔ دروس مبارک میں آپ نے قلب و جگر اور دل و دماغ کے بارے میں رہنمائی عطا کی کہ نفس کا مقام جگر میں ہے اور قلب کا مقام دل میں ہے اور یہ پورے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ پر اترنے والے اس عظیم علم کے چند چھینٹے مجھ ناچیز پر بھی پڑے تو آپ کی برکت سے یہ بات دل میں آئی کہ جگر جو خون بناتا ہے وہ تو پورے جسم کو دل ہی supply کرتا ہے اور جسم کا ہر عضو خون کا محتاج ہے سوائےدل کے کہ جو اس کو استعمال نہیں کرتا صرف آگے پہنچاتا ہے اور واپس کھینچتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ سے ذاتی رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
یہ بات چونکہ میڈیکل لائن کی ہے تو اس پہ ہم ڈاکٹروں کی بات سنیں گے۔ ڈاکٹر میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ دل کو خون کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ دل بھی ٹشو ہے اور ٹشوز میں بھی خون کی supply ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دل کو خون کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جگر، دل اور دماغ؛ تینوں آزاد ہیں۔ ان تینوں کے اپنے اپنے کام ہیں جو ان کے اپنے لئے بھی ضروری ہیں اور باقی اعضا کے لئے بھی ضروری ہیں۔ مثلا انسان جب اپنے دماغ کا خیال رکھے گا کہ میں اس کو نہ تھکاؤں اور اس کو نقصان نہ پہنچے تو اس کے لئے اچھی اچھی دوائی سوچے گا۔ تو یہ دماغ کا استعمال دماغ ہی کے لئے ہوگا۔ اس طرح دل کا معاملہ ہے۔ مثلًا میں محبت کروں تو میں اس بات کا خیال رکھوں گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دل extreme پہ چلا جائے، کیونکہ اس سے دل کو ہی نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح نفرت میں بھی یہی کروں گا۔ یعنی ان سب چیزوں میں balance رکھنے کی کوشش کروں گا جس سے دل کا ہی فائدہ ہوگا۔ اس طریقے سے ہم نفس کو ’’لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا‘‘ کے مطابق آرام دیتے ہیں یہ نفس کے فائدے کا ہی کا کام ہے۔ معلوم ہوا کہ ان تینوں کے کاموں میں اگر balance ہو تو ان تینوں کے لئے بھی فوائد ہیں اور دوسروں کے لیے بھی فوائد ہیں۔ اللّٰه تعالیٰ ہمیں balance نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 16:
حضرت آپ کی اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جو شخص مغرب کی اذان دیتا ہے، پہلے وہ روزہ افطار کرتا ہے پھر اس کی اذان سے دوسروں کو افطاری کا موقع ملتا ہے۔
جواب:
بالکل ایسا ہی ہے۔ جو شخص مغرب کے لئے اذان دیتا ہے پہلے وہ روزہ افطار کرتا ہے پھر اس کے بعد دوسروں کو روزہ افطار کرواتا ہے۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ، سعودی عرب سے فلاں عرض کررہا ہوں۔ ایک مہینے سے روزانہ بیس منٹ صفات ثبوتیہ کا مراقبہ کررہا ہوں۔ فیض آتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور صفات کا استحضار پہلے سے زیادہ ہے، لیکن مسلسل نہیں ہے۔
جواب:
ما شاء اللّٰه! آپ جس طریقے سے یہ مراقبہ کررہے ہیں، اب اسی طریقے سے شیونات ذاتیہ کا مراقبہ شروع کرلیں۔
سوال نمبر 18:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
جی یہ مراقبہ لطيفہ سر پہ ہوگا۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم حضرت جی میرا ذکر: دو سو، چار سو، چھ سو اور سات ہزار ہے۔ اس کے علاوہ دس منٹ لطيفہ قلب، دس منٹ لطيفہ روح، دس منٹ لطيفہ سر، دس منٹ لطيفہ خفی، دس منٹ لطيفہ اخفی اور پندرہ منٹ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد کا مراقبہ ہے۔ حضرت جی! فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد کے مراقبے میں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ مراقبہ شروع کرتا ہوں جب فَعَّالٌ لِمَا یُرِیْد والے مراقبہ تک پہنچتا ہوں تو تھکاوٹ ہوجاتی ہے اور نیند بھی آجاتی ہے۔ باقی لطائف پر بھی اس پورے مہینے میں ذکر محسوس نہیں ہوا۔ تقریبًا مہینہ ہوا کہ صرف معمول کے مطابق معمولات کررہا ہوں۔ طبیعت ایسی ہوگئی ہے کہ اپنے آپ کو بے ایمان سمجھنے لگا ہوں۔
حضرت جی میری والدہ کا ذکر کافی عرصہ تک چھوٹ گیا تھا، اب دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔ مراقبہ احدیت دس منٹ اور باقی لطائف پر پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ تھا۔
جواب:
فی الحال یہ ایک مہینہ مزید کرلیں، اس کے بعد پھر بتا دیں گے تو میں آپ کو ان شاء اللّٰه اپنے طور پہ بتا دوں گا۔
سوال نمبر 20:
السلام علیکم محترم شیخ صاحب! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم! مجھے پانچ پانچ منٹ کا دل، روح اور سر کا مراقبہ دیا گیا تھا اور پندرہ منٹ لطيفہ خفی کا مراقبہ دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ چار ہزار مرتبہ اللّٰه کا ذکر بھی دیا گیا تھا۔ تقریبا دو ماہ ہوگئے ہیں، الحمد للّٰه سب جگہ ذکر محسوس ہوتا ہے۔ محترم! کچھ غلطیاں ہوجائیں جیسا کہ کسی کی غیبت ہوجائے یا نماز رہ جائے تو فوراً توبہ کرلیتی ہوں۔ کچھ دن سے ایسا ہوا کہ کوئی بھی ذکر محسوس نہیں ہورہا لیکن کوشش پوری کرتی ہوں کہ ایسا نہ ہو۔ اس وجہ سے شرمندگی و پریشانی میں دو ماہ بتایا بھی نہیں اور مراقبہ کا ٹائم بھی جتنا آپ نے بتایا تھا اتنا نہیں ہے۔ آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
میں کہتا ہوں یہی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سارے عیبوں سے بڑھ کر بڑا عیب یہ ہے کہ آپ اس بات کی انتظار میں رہیں کہ جب اچھی ہوجاؤں گی تو اس کے بعد بتاؤں گی۔ ڈاکٹر کے ساتھ کبھی بھی کوئی یہ معاملہ نہیں کرتا کہ میں جب صحت مند ہوجاؤں گا تو ڈاکٹر سے ملوں گا کہ ڈاکٹر صاحب میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں۔ جس وقت انسان محسوس کرے کہ اس وقت میں ٹھیک نہیں ہوں تو اس وقت سب کچھ بتانا ہوتا ہے اور اپنے حالات میں سے کچھ بھی نہیں چھپانا ہوتا۔
ایک دفعہ مجھے ایک ڈاکٹر صاحب نے بڑی عجیب بات بتائی۔ ایک بڑے آدمی تھے، یہ ڈاکٹر صاحب ان کا علاج کررہے تھے۔ وہ چرس بھی پیتے تھے، ان کو جو بیماری تھی اس سے ڈاکٹر صاحب کو کچھ اندازہ ہوگیا کہ اس میں اس طرح کے کچھ مسائل ہیں تو انہوں نے کہا کہ سر! معاف کیجئے گا، آپ سے ایک بات پوچھنی ہے، ڈاکٹر سے کچھ بھی چھپانا مناسب نہیں ہوتا۔ کہیں آپ چرس تو نہیں پیتے؟ انہوں نے جب تسلیم کیا کہ میں چرس پیتا ہوں تو ان کو بتایا کہ اس کو کسی طرح چھوڑنے کی کوشش کریں ورنہ آپ کی صحت خطرہ میں ہے۔ لہذا ڈاکٹر، حکیم اور شیخ سے اس قسم کی کوئی چیز نہیں چھپانی چاہیے ورنہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔
آپ ایک تو آئندہ کے لئے اس پر توبہ کریں کہ ایسا نہیں کروں گی اور وقت پہ بتایا کروں گی۔ اور دوسرا یہ کہ ان چیزوں کو اپنی Will power کے ساتھ قابو کرنا ہوتا ہے۔ ایک Short term اصلاح ہوتی ہے اور ایک Long term اصلاح ہوتی ہے۔ Short term اصلاح یہ ہے کہ اس وقت اس چیز کا اپنی Will power سے علاج کیا جائے، اس کو ہم اخیار کی بات کہتے ہیں، جیسے غصے کو Will power سے کنٹرول کرنا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر آپ مثال کے طور پر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں۔ اگر بیٹھے ہوں تو جگہ تبدیل کرلیں یا پانی پی لیں یا اپنے آپ کو کسی اور کام میں مصروف کر دیں۔ یہ Short term علاج ہے۔ چونکہ اتنے کم وقت یعنی پانچ منٹ میں آپ کی اصلاح نہیں ہوسکتی اس لئے اس وقت تو آپ Short term اصلاح والی routine استعمال کریں لیکن اس پر مطمئن ہو کر مت بیٹھیں بلکہ اپنی اصلاح جاری رکھیں تاکہ اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور وہ مرض ہی ختم ہوجائے۔ یعنی ناحق غصہ آنا ہی بند ہوجائے۔ اس حالت کے حصول کے لئے نفس کی پوری اصلاح ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ نفس کی شرارت کی وجہ سے جو چیز آرہی ہوگی وہ نفس کی اصلاح کے بعد نہیں آئے گی۔ مثلًا تکبر کی وجہ سے غصہ آتا ہے، یہ سب علاقوں کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے علاقے میں اس بات پر ایک بندے کو گولیاں ماری گئی ہیں کہ تو نے مجھے سلام کیوں نہیں کیا؟ تو نے مجھ سے بڑی مونچھ کیوں رکھی ہے؟ یہ سب تکبر کا شاخسانہ ہے۔ تکبر کی وجہ سے اگر غصہ آرہا ہے تو جب تکبر ختم ہوجائے گا تو غصہ نہیں آئے گا۔
ایک صاحب تھے جن کی الحمد للّٰه اصلاح ہوگئی تھی، انہوں نے مجھے اپنا واقعہ سنایا کہ سب سے پہلے میں نے اپنی بیوی سے معافی مانگی تھی کہ میں نے آپ کو بہت تنگ کیا ہے، مجھے معاف کر دیں۔ یعنی جب تکبر دور ہوجاتا ہے تو اس کے بعد یہ حالت ہوجاتی ہے۔ یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ آپ کو اس بات سے توبہ کرنی چاہیے اور اپنی routine درست کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا Short term علاج بھی آپ کو کرنا چاہیے اور اپنی اصل اصلاح کے سلسلے کو بھی جاری رکھنا چاہئے۔ آپ بڑی اصلاح کے لیے Short term علاج کو miss نہ کریں، یہ بھی اہم ہے۔ الحمد للہ یہ بہت بڑے علم کی بات بیان ہوئی ہے، اس کو اپنے پاس نوٹ کرلیں۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ حضرت شاہ صاحب!
May Allah preserve you بارک اللّٰه فیکم. I am contacting you to update my ورد. I have been practicing for so long. I wasn't regular so I started for some time and then became more regular.
Old ورد: Five hundred time ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ thousand times ‘‘حَقْ اَللّٰہ’’ thousand times ‘‘حَقْ’’ thousand times ‘‘اَللّٰہ’’ thousand times‘‘اَللّٰہ حَقْ ھُوْ’’ and two thousand ‘‘ھُوْ’’.
Regarding the احوال I am still regular in daily religious practice. Also, I am still very close to ‘‘ھُوْ’’ in my ورد and ‘‘حَقْ’’ as well. May Allah preserve you.
جواب:
ما شاء اللّٰه!
Very good. You are with yourself الحمد للّٰه therefore, you should continue to be with yourself. It means that the نسبت you have should be continued. So, I think you should do this ذکر continuously for one month without any break. Then tell me and then we can change it. Otherwise there is no need of changing. First of all, regularity is required in this. So you should do it and ماشاء اللّٰه the ذکر of ‘‘حَقْ’’ and ‘‘ھُوْ’’ is very good for you ان شاء اللّٰه. It will be used.
سوال نمبر 22:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
I think it is not good practice to have voice calls on WhatsApp. I think you can have a short call from some phone. It means from a cellular phone or landline. It will be good for me because I use this at that time. I do not use a smartphone at this time because I cannot use both the phones at the same time.
میں ایک وقت میں صرف ایک فون استعمال کرسکتا ہوں۔ اور چونکہ میرے پاس سارے فون landline پر آتے ہیں اس لئے اس وقت میں smartphone اپنے ساتھ نہیں رکھتا کیونکہ اگر دو فون رکھوں گا تو کچھ بھی نہیں ہوسکے گا، نہ ایک کا کام مکمل ہوگا نہ دوسرے کا۔ اس وجہ سے میں اس معاملے میں معذور ہوں۔ آپ کو جب بھی فون کرنا ہو تو landline پر فون کریں چاہے آپ اپنے cell phone سے کریں یا landline سے کریں۔ اگر آپ مہربانی کر کے اس طرح فون کریں گے تو میں ان شاء اللّٰه receive کرلوں گا۔ آپ خود دیکھیں کہ آج آپ نے مجھے کئی فون کئے تھے، لیکن چونکہ وہ smartphone پہ کیے تھے جو میرے پاس تھا ہی نہیں، لہٰذا وہ miss ہوگئے۔ چونکہ میں smartphone اس مقصد کے لئے رکھتا ہی نہیں ہوں اس لئے آپ فی الحال landline پر ہی فون کرلیا کریں۔ میں اپنا landline کا نمبر میں آپ کو لکھ دیتا ہوں۔
ہدایت: یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب بیک وقت دو فون آتے ہیں تو اس وقت اچھی خاص tension ہوجاتی ہے۔ چونکہ میں دونوں receive نہیں کرسکتا اس لئے کسی ایک کو قربان کرنا پڑتا ہے اور چونکہ landline سے کال receive کرنے کا اصول بنایا ہوا ہے، اس لئے اس کو تو نہیں قربان کرسکتا تو قربان smartphone ہی ہورہا ہے۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، شاہ صاحب! مراقبہ کی فکر ہوتی ہے لیکن ذہنی کمزوری کی وجہ سے مراقبہ رہ جاتا ہے۔ دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور تہجد میں کمی آئی ہے۔
جواب:
آپ مجھے بارہ بجے سے لے کے ایک بجے کے درمیان فون کرلیں تاکہ میں آپ سے فون پہ بات کر لوں۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ!
نمبر 1:
تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ۔ نیک اعمال کی توفیق بڑھ گئی ہے۔
جواب:
چونکہ تجلیات افعالیہ پہ مراقبہ ہوگیا ہے اس لئے اب ان کو صفات ثبوتیہ والا مراقبہ دے دیجئے گا۔ اس کے ساتھ لطائف والا ذکر بھی جاری رکھیں۔
نمبر 2:
لطیفہ قلب دس منٹ
جواب:
اگر دس منٹ لطيفہ قلب میں محسوس ہوتا ہے تو اب ان کو دس منٹ قلب اور پندرہ منٹ روح کا بتا دیں۔
نمبر 3:
لطيفہ قلب دس منٹ۔ ستائیس دن کیا تھا اور محسوس بھی ہورہا تھا لیکن پھر شک پڑ گیا تھا کہ لطيفہ قلب پر کرنا ہے یا لطيفہ روح پر۔ پھر کزن نے اس کو بتایا کہ یہ تو روح پر ہے تو تین دن روح پر کیا ہے۔
جواب:
اگر ان کو لطيفہ قلب کا مراقبہ دیا گیا تو لطيفہ قلب پر کرنا چاہیے تھا۔ اگر نہیں کیا ہے تو پہلے روزانہ لطيفہ قلب پر پندرہ منٹ کرلیں۔ ورنہ پھر ایسا ہوتا ہے کہ لطيفہ قلب پہ دس منٹ کا ہوتا ہے اور پندرہ منٹ لطيفہ روح پہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر 25:
السلام علیکم حضرت! جیسے ذکر کی نعمت پوری طرح پاک نہ ہونے کی وجہ سے ذاکر عجب یا تکبر میں مبتلا ہوسکتا ہے اس طرح اگر کوئی صحابہ کرام کی کہانیاں سن کر ان کے کسی عمل کو اپنے کسی برے عمل کے لئے دلیل کے طور پر پیش کرے، مثلًا اپنے غصے کے لئے حضرت عمر رضی اللّٰه عنہ کے غصے کو دلیل بنا کر پیش کرے یا ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰه علیہ کی بدنی و نفسیاتی مجاہدات کو دلیل بنا پیش کرے یا بزدلی کو صبر کہے؟ کیونکہ بعض لوگ اپنے ہر عمل کو justify کرلیتے ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں۔ ان غلط سوچوں اور نفس اور دل کی گندگی سے کیسے بچا سکتا ہے؟
جواب:
اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے بارے میں خود فیصلہ نہ کریں، اپنے شیخ کے فیصلے پہ راضی ہوں۔
سوال نمبر 26:
السلام علیکم حضرت ذہنی مریض ہونے کے وجہ سے میں اپنے بہت سارے حالات آپ کو نہیں بتاتا کیونکہ سمجھتا ہوں کہ یہ شاید سائیکاٹری سے متعلق ہیں، لیکن پوری طرح فرق نہیں کرسکتا۔ مثلاً آپ ﷺ یا کئی حضرات کا ذکر سن کر محبت کی وجہ سے درد محسوس کرنا، رونا یا کھڑے نہ رہ سکنا وغیرہ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ اخلاص نہیں ہے بلکہ اپنے نفس کے لئے ہے۔
جواب:
ما شاء اللّٰه، یہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کے علامت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اتنا کرنا چاہئے جس سے تکلیف نہ ہو۔ اس کو کنٹرول کرنا اس لئے ہی ہوتا ہے کہ تکلیف سے بچا جا سکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شاید وہ چیز ٹھیک نہیں ہے اس لئے کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ جیسے ایک دعا ہے کہ یا اللّٰه! میرا شوق اتنا رکھیں جو گناہ کے زمرے میں نہ آئے۔ کیونکہ اصل بات یہی ہے کہ انسان گناہ سے بچ جائے۔ یہ بالکل بنیادی بات ہے۔ باقی یہ سب جذبات اور کیفیات اگرچہ اچھے ہیں، لیکن controllable ہیں۔
سوال نمبر 27:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰه و برکاتہ، محترم حضرت جی! الحمد للّٰہ آپ کی ہدایت کے مطابق درج ذیل ذکر جاری ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر تین ہزار مکمل ہوگیا۔ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘، دس ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور پانچ منٹ کے لئے یہ تصور کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ احوال یہ ہیں کہ ابھی بھی دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ براہ مہربانی اس کی کوئی کیفیت بیان فرمائیں تاکہ میں اس پر دھیان کرسکوں کیونکہ مجھے اس کی سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے کہ اس کے دوران کیا کرنا ہے۔ مہربانی فرما کر اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ما شاء اللّٰه! میں یہ پہلے بھی بتا چکا ہوں لیکن دوبارہ بھی بتا دیتا ہوں کہ دل سے کوئی کروا نہیں سکتا، البتہ اگر کررہا ہو تو محسوس کرسکتا ہے۔ بس آپ نے متوجہ رہ کر محسوس کرنا ہے۔ میں نے اس کی مثال دی تھی کہ بلی جب شکار کرتی ہے تو اس کی تمام حسیں شکار کی طرف ہوتی ہیں۔ وہ کچھ بھی نہیں کررہی ہوتی، صرف یہ دھیان رکھتی ہے کہ اگر شکار اس کے سامنے آجائے تو وہ اس سے miss نہ ہو۔ چوکیدار بھی یہی کررہا ہوتا ہے۔ میں نے ایک دن چوکیدار سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں بس ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہوں کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو اس وقت میں سنبھال لوں۔ عین ممکن ہے کہ چوکیدار آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں سات گھنٹے اور پچاس منٹ alert ہو اور صرف تین منٹ نہ ہو اور اسی وقت ڈاکہ پڑ جائے، تو وہ کامیاب چوکیدار نہیں کہلائے گا۔ مراقبے میں بالکل یہی بات ہوتی ہے۔ آپ کا مراقبہ بھلے پندرہ منٹ ہو یا دس منٹ ہو، آپ نے اس پہ alert رہنا ہے کہ کچھ miss نہ ہوجائے اور اگر ادھر اللّٰه اللّٰه ہورہا ہو تو آپ محسوس کرسکیں۔ اس سے زیادہ آپ نے کچھ نہیں کرنا۔
سوال نمبر 28:
السلام علیکم حضرت
My question is about سلسلہ نقشبندیہ and we know that بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰه علیہ was born thirty eight years after the death of امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰه علیہ and ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللّٰه علیہ was born hundred years after the death of بایزید بسطامی. How can we define the spiritual lineage is true میں محمد شاہ کاکا خیل کاکا صاحب.
And second question is about سلسلہ چشتیہ قادریہ سہروردیہ the students of حضرت علی رضی اللّٰه عنہ حسن بصری and hadees has not met of any بدری صحابہ۔
جواب:
اذان شروع ہوجانے کی وجہ سے اس سوال کا جواب حضرت نے نہیں دیا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔