سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 542

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔

جواب:

آپ کے خط کا پہلا حصہ نہیں پڑھا جارہا۔ آپ مہربانی کرکے اس کی صحیح تصویر لے کر بھیج دیں تاکہ میں پڑھ سکوں۔ اس کے بعد ہی میں آپ کو جواب دے سکوں گا۔ البتہ اس کو ذرا کھلا کھلا لکھوا دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ میں فلاں Rochdale UK سے بات کررہا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ ذکر دو سو، چار سو چھ سو ہزار ہونا تھا۔ میں پانچ تسبیح کرتا تھا، دو سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو ’’اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو ’’حَقْ‘‘ اور ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دو سو، چار سو چھ سو اور پندرہ سو کرلیں۔ میں نے آج سے شروع کرلیا ہے۔ کیا میں ایک تسبیح کو چھوڑ دوں اور چار کرلوں؟

جواب:

جی ہاں! پہلے ایک تسبیح آپ نے غالبًا کسی اور کا جواب سن کے اپنے معمولات میں شامل کرلی تھی، وہ ان چار میں شامل نہیں ہے۔ اب آپ یہی چار تسبیحات یعنی دو سو، چار سو، چھ سو اور پندرہ سو کرلیں۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم شیخ محترم! میرا چھٹا ذکر، مراقبہ احدیت الحمد للّٰه مکمل ہوگیا ہے۔ اس عرصے کے دوران لیٹے ہوئے یا جب بھی دھیان پڑتا لطائف میں بھی ذکر زور و شور سے چلتا رہا۔ شروع شروع میں مراقبہ احدیت کے تصور میں وقت بہت جلدی گزر جاتا تھا، آخری دنوں میں طبیعت میں ناسازی کی وجہ سے ذکر کے دوران ذہن بہت تھک جاتا تھا۔ شیخ محترم ساتویں ذکر کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب آپ باقی لطائف والا ذکر بعینہ برقرار رکھیں اور مراقبہ احدیت کی جگہ پندرہ منٹ تجلیات افعالیہ والا مراقبہ شروع کرلیں۔ مراقبہ احدیت اور تجلیات افعالیہ والے مراقبے میں فرق یہ ہے کہ مراقبہ احدیت میں فیض عام تھا جبکہ اس میں خاص فیض ہوگا۔ یعنی اس بات کا فیض کہ اللّٰه پاک سب کچھ کرسکتے ہیں اور اللّٰه تعالیٰ کی شان فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ہے۔ اس میں آپ یہ تصور کریں گے کہ یہ فیض اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کی قلب سے آپ کے قلب میں آرہا ہے۔

سوال نمبر 4:

آپ نے مجھے ”فہم التصوف“ نامی کتاب کے بارے میں فرمایا تھا کہ عورتوں میں اس کی تعلیم کریں۔ الحمد للہ اس کی مدت پوری ہوگئی ہے۔

جواب:

یہ بتا دیں کہ کتاب پوری ہوئی ہے یا نہیں ہوئی؟

سوال نمبر 5:

السلام علیکم شاہ صاحب! جب میں راولپنڈی سے خانقاہ بیان سننے کے لیے آتی ہوں تو مجھے اپنے آپ میں سے بہت تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ مجھے معمولات وقت پر کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور معمولات میں ناغے ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن چونکہ آج کل میرے لئے ہر مہینے خانقاہ آنا بہت مشکل ہوگیا ہے، اس لئے جب خانقاہ میں غیر حاضری کا وقت مہینے سے زیادہ ہوجاتا ہے تو میرے ناغے شروع ہوجاتے ہیں اور میں دنیا میں زیادہ مصروف ہوجاتی ہوں۔ مجھے خانقاہ کی روحانیت کو برقرار رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ ہم خواتین کے لئے خانقاہ آنا مشکل ہوتا ہے، اور جو میری طرح دور رہتی ہوں وہ اس روحانیت کے اثرات کو کیسے برقرار رکھ سکتی ہیں؟ شاہ صاحب! آج کل میں کافی منفی سوچنے لگی ہوں، ہر ایک سے الجھ جاتی ہوں، کسی کے بارے میں اچھا گمان نہیں کرتی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ گمان حرام ہے پھر بھی دل میں عجیب عجیب خیالات آتے ہیں۔ آپ اس کی اصلاح فرمائیں۔

جواب:

سب سے پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ خانقاہ کے اثرات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن یہ انعکاسی فیض ہے، اس کو آپ القائی فیض میں تبدیل کرنے کے لئے میرے دیے ہوئے معمولات باقاعدگی کے ساتھ کریں گی اور رابطے میں رہیں گی تو ان شاء اللّٰه العزیز اس سے اس کی compensation ہوجائے گی۔ خانقاہ میں یہ بات یقیناً آسانی سے ہوجاتی ہے کیونکہ خانقاہ کی برکات ساتھ ہوتی ہیں۔ اس میں ابتدا میں شاید تھوڑی مشکل ہوگی لیکن جب شروع ہوجائے گا تو پھر مسئلہ نہیں ہوگا۔ آپ یہ نہ سوچیں کہ میں وہاں نہیں کرسکتی، بلکہ یہ سوچیں کہ میں نے وہاں اس کو مکمل کرنا ہے تاکہ یہ بات ہی ختم ہوجائے اور آپ اس کو باقاعدگی کے ساتھ کرنے لگیں۔ چونکہ القائی نسبت کا ذریعہ معمولات ہی ہیں، اس لئے آپ ہمت کرکے معمولات کو مکمل کرتی رہیں۔ اگر آپ معمولات چھوڑ دیں گی تو القائی نسبت حاصل نہیں ہوگی۔ اس نسبت کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو اپنے معمولات وقت پہ پورے کرنے پڑیں گے، جس سے ان شاء اللہ آپ کو القائی فیض نصیب ہوگا اور ان شاء اللّٰه آپ کی روحانیت برقرار رہے گی۔

جہاں تک منفی سوچ کی بات ہے تو اس میں دو باتیں ہیں: ایک یہ کہ خود سے خیال آئے تو اس پر گرفت نہیں ہے، لیکن اگر اس خیال پر آپ یقین کرکے اس کے مطابق عمل کرنے لگیں گی تو اس پر گرفت ہے۔ اس لئے اگر آپ ان خیالات کو صرف وسوسہ سمجھیں اور ان کے تقاضے پر پہ عمل نہ کریں تو ان میں پریشانی کی بات نہیں ہوگی۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ، حضرت! الحمد للّٰه میرے ذکر کو ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔ جب سے آپ نے فرمایا تھا تب سے کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ آپ نے یہ ذکر دیا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ تین سو مرتبہ۔ حضرت آگے کے لیے تلقین فرما دیں۔

جواب:

ما شاء اللّٰه! اللّٰہ کا شکر ہے کہ الحمد للّٰه کہ آپ کا ابھی ناغہ نہیں ہوا۔ آپ کی اس بات سے سب سے پہلے تو یہ پتہ چلا کہ رابطہ کرنے سے واقعی فائدہ ہوتا، اس لئے رابطے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ جب رابطہ کمزور ہوجاتا ہے تو معمولات پہ بھی اثر پڑتا ہے اور القائی فیض منقطع ہونا شروع جاتا ہے جس سے ترقی رک جاتی ہے، اور بعد میں شیطان دوسرے خیالات پکا کر کسی اور طرف لے جاتا ہے۔ لہٰذا اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کسی حال میں بھی رابطہ منقطع نہ کریں اور ساتھ یہ بھی کہ اپنے معمولات استقامت کے ساتھ پورے کریں۔ ابھی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ کرلیا کریں۔

سوال نمبر 7:

آج کل ہمارے کچھ انجینئر ساتھی ایک نام نہاد انجینئر علی مرزا کے بیانات سن کر صحابہ کی شان کے متعلق نعوذ بِاللّٰه شکوک و شبہات کا شکار ہورہے ہیں۔ ان میں سے کچھ میرے ساتھ سہ روزہ میں انفرادی طور پہ بھی یہ باتیں ذکر کرتے ہیں۔ اس صورت میں میرا ردعمل کیا ہونا چاہئے اور میں اپنے اندر خدانخواستہ کوئی اشکال پیدا ہونے سے خود کو کیسے بچاؤں؟

جواب:

یہ آدمی چھپا ہوا شیعہ ہے، اس وجہ سے آپ اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔ یہ اشکالات ایسے ہیں جن کے جوابات بزرگوں نے دیئے ہوئے ہیں۔ اس لئے خواہ مخواہ ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ جب قرآن پاک نے ﴿رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾ کہہ کر ان کی صفائی دے دی، تو اس کے بعد کسی اور کی بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟ اگر اللّٰه تعالیٰ ان سے راضی ہے تو اس کے بعد دوسرے لوگوں کی باتوں کی کیا حیثیت ہے۔ بے شک وہ ان سے راضی نہ ہوں، اس صورت میں وہ خود ہی اپنا کباڑا کریں گے۔ قرآن پاک اور حدیث شریف میں بالکل صاف صاف بات ہے: ’’اَللّٰهَ اَللّٰهَ فِيْ أَصْحَابِيْ لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ‘‘ (ترمذی: 3862)

ترجمہ: ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا‘‘۔

یہ اتنی مشہور حدیث شریف ہے کہ جمعے کے خطبے میں بھی شامل ہے۔

اس لئے انسان کو دوسروں کی طرف دھیان ہی نہیں کرنا چاہیے اور اپنا وقت ان چیزوں میں نہیں لگانا چاہیے۔ اگر کوئی بات کرلے تو آپ ان کو یہ باتیں کرکے side پہ ہوجائیں اور کہہ دیں کہ بھئی میرے لئے حدیث کافی ہے، مجھے علی مرزا کی بات کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ حدیث بالکل واضح ہے، لہٰذا میں کسی اور بات کی طرف کیوں دھیان دوں۔ اپنے آپ کو اس سے بچا کے رکھیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس طریقے سے آپ بچا سکتے ہیں۔ اور ما شاء اللّٰہ رابطہ برقرار رکھیں تاکہ آپ کو کسی قسم کا مسئلہ نہ ہو۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں زوجہ فلاں بہاولپور سے بات کررہی ہوں۔ حضرت جی آپ نے جو اذکار بتائے ہیں وہ الحمد للّٰه باقاعدگی سے کررہی ہوں۔ لطیفہ قلب، روح اور سر پر دس منٹ اور لطیفہ خفی پر پندرہ منٹ مراقبہ کرتی ہوں۔ الحمد للّٰه محسوس ہورہا ہے۔

جواب:

جب وقت پورا ہوجائے تو پھر بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم! حضرت جی میں فلاں ہوں، اللّٰه پاک آپ سے راضی ہوں اور دین و دنیا کی ہر خیر و عافیت نصیب فرمائیں آمین۔ حضرت جی علاجی ذکر ایک ماہ میں ہوگیا تھا، پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ کا ملا ہوا تھا۔ الحمد للّٰہ ذکر بھی ٹھیک محسوس ہوا اور مراقبہ بھی۔ علاجی ذکر میں بعض دفعہ disturbance بھی آجاتی ہے، رک رک کر بھی کرنا پڑ جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ جب کررہی ہوں تو اس وقت اس کے ساتھ تھوڑی بہت یکسوئی رہتی ہے الحمد للّٰه۔ دو دن ناغہ ہوا تھا، پوری کوشش کے بعد بھی نہ کرسکی۔ مجھے اس کی اہمیت کا اندازہ ہے، آئندہ ان شاء اللہ زیادہ محتاط رہوں گی۔ اس کا اثر مجھے اتنا محسوس ہوا کہ اللّٰه کی رضا کی فکر رہتی ہے۔ اعمال میں آنے والی کمزوری اور ذاتی زندگی کی مصروفیات کی بہت زیادہ فکر ہورہی ہے۔ اللّٰہ کی نافرمانی کی بھی فکر ہوتی ہے اور میاں کے حقوق میں کوتاہی کی بھی فکر ہوتی ہے۔ درود پاک بہت زیادہ نہیں پڑھا جارہا، اس کی بھی فکر ہے کہ میرے اعمال کیوں نہیں ہورہے۔ بیانات سننے میں بھی سستی ہورہی ہے۔ شکر ادا کرنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ اللّٰه پاک دین و دنیا میں اس میں اضافہ فرمائیں۔ آگے کے لئے رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ما شاء اللّٰه بہت اچھا ہے۔ بس آپ اپنا علاجی ذکر جاری رکھیں اور جو بیانات آپ سن سکتی ہیں ان کا کوئی timetable بنا لیں اور اس کے لئے ساری چیزیں set کرلیں تاکہ اس میں کمزوری نہ ہو تو ان شاء اللّٰه العزیز کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کم از کم خواتین والے بیان کو باقاعدگی سے سن لیا کریں، تو امید ہے ان شاء اللّٰه العزیز کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم، حضرت جی! میرا ذکر و مراقبات تینتیس دن سے جاری ہیں، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ ساڑھے چار ہزار مرتبہ۔ دس منٹ کے لئے دل پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا مراقبہ، لطیفہ روح پر دس منٹ کا مراقبہ اور لطیفہ سر پر پندر منٹ کا مراقبہ کرتا ہوں۔ کیفیت میں کوئی خاص بہتری محسوس نہیں ہورہی۔

جواب:

ابھی مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے یا نہیں محسوس ہوتا؟

سوال نمبر 11:

السلام علیکم آپ نے جو ذکر بتایا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ۔ اس کے علاوہ دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ لطیفہ روح ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، دس منٹ کے لیے یہ تصور کہ لطیفہ سر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے اور پندرہ منٹ کے لیے یہ تصور کہ لطیفہ خفی بھی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے، اسے ایک ماہ ہوگیا ہے۔ سب لطائف سے اللّٰه کی ہلکی ہلکی آواز بھی محسوس ہوتی ہے۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ۔ اب آپ ایک مہینے کے لیے ان چار لطائف پر دس دس منٹ کا مراقبہ کرلیں اور ان کے ساتھ پانچویں لطیفے یعنی لطیفہ اخفی پہ پندرہ منٹ ذکر محسوس کریں۔ اللّٰه جل شانہ مزید توفیقات سے نوازیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم

Dearest حضرت whenever I try to shorten the time period of my Quran classes or do anything odd I get warning in dreams. Three times, I have been warned so far. Moreover حضرت because of my sins my parents also suffer. I got to know that through dreams. Please correct me if I am wrong. But when I repent after seeing dreams and make compensation the matter gets resolved. حضرت when I just started this Qur'an job four months ago I saw myself climbing up a rope with great difficulty and not even when I make it to the second floor of my house I supplicated that اللّٰہ, look I am trying. Then I saw my supplication being accepted and I started flying with the help of something like a helicopter. After that I thought Allah will give me his معرفت and then I saw some blue sculptures like faces that resemble those in London-like cities. حضرت please guide me about these Quran classes because so far I was taking them very lightly and please tell me about the dreams. جزاک اللّٰهُ

جواب:

First of all, tell me about the Qur'an classes, what you are doing with it and what's the procedure you are following in that? And then ان شاء اللّٰه I shall say something. But as far as other dreams are concerned, OK. You can get guidance from this. If it is clear it means there is no confusion, so you can follow it. It is very clear that when you follow that there are some problems. So then you feel the dreams and then you repent and say استغفار and make توبہ. So اللّٰه سبحانہ و تعالیٰ solves the problem. Anyhow it's not because of the dreams but it's because of the توبہ and استغفار Allah is giving you. In any case this will ان شاء اللّٰه continue. So tell me about the Qur'an classes and what you are doing with it?

سوال نمبر 13:

Procedure is ten minutes قاعدہ قرآن then ten minutes دعا. Then for ten minutes, I teach them basic knowledge about Islam like about Allah and Prophets. Actually, in agreement I didn't commit to teaching for thirty minutes. That was a loophole while making a deal. Maybe they were pretty sure about that because previously I was giving them thirty minutes. Now, I normally give them thirty minutes but whenever I feel lazy I shorten the time period.

جواب:

آپ اس طرح کریں کہ ان کا Time period short نہ کریں، بلکہ آپ اس کو Thirty minutes ہی رکھیں۔ آپ کو جو کام ملا ہے وہ دینی کام ہے، لئے اس کو دل لگا کے کرلیا کریں اور اس میں سستی نہ کریں۔ اس پہ اللّٰہ پاک کا شکر بھی ادا کریں اور اللہ پاک سے دعا بھی کریں کہ اس کام کے لئے آپ کے اندر اخلاص پیدا فرمائے۔ اگر اس پر آپ کو کچھ ملتا ہے تو اس کو صرف ایک گزارہ الاؤنس سمجھیں، یہ اس کی قیمت یا معاوضہ نہیں ہے۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ حضرت! میں فلاں ہوں، اپنی امی کے حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ حضرت آپ نے امی کو تین ہزار مرتبہ زبانی اللّٰه اللّٰه کا ذکر تلقین فرمایا تھا جس کی ایک مہینہ بعد اطلاع دینی تھی۔ بلاناغہ ذکر کا ایک مہینہ چھ اکتوبر کو پورا ہوچکا ہے اور اب تک اس طرح جاری ہے۔ اب انہیں آگے کیا کرنا چاہیے؟ جزاکم اللّٰه

جواب:

ابھی ان کو ساڑھے تین ہزار مرتبہ ذکر بتا دیں۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت! میرا نام فلاں ہے اور میں راول ڈیم کی طرف سے ہوں۔ مراقبہ میں بہت سستی ہوتی ہے جس کی وجہ سے دس منٹ کا ہی کرتی ہوں۔ غصہ بہت آتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زیارت بھی ہوتی ہے، لیکن مجھے یاد نہیں رہتا کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا۔ کچھ تو بچے بہت تنگ کرتے ہیں اور کچھ نیند کی وجہ سے disturb ہوں، آپ دوا اور دعا دیجئے۔

جواب:

جہاں تک آپ کی مراقبہ میں سستی کا تعلق ہے تو یہ دور کرنا تو آپ کا اپنا کام ہے، مجھے اس میں کچھ نہیں کرنا۔ جہاں تک غصے کی بات ہے تو صحیح معنوں میں اس کا علاج کرنے کے لئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ یہ غصہ کسی رزیلے کے سبب ہے یا واقعی کسی حق بات ہر غصہ ہے۔ غلط غصہ ایک رزیلے کی وجہ سے آتا ہے اور وہ تکبر ہوتا ہے۔ اس صورت میں جب تک انسان کی مکمل اصلاح نہیں ہوجاتی اس وقت تک یہ چیز کسی نے کسی form میں ہوتی رہے گی۔ اس لئے مکمل اصلاح ہونے تک اس کا فوری علاج کرنا پڑتا ہے۔ فوری علاج یہ ہے کہ اگر کسی چھوٹے پہ غصہ آجائے تو اس کو خود سے علیحدہ کرلیں اور اگر بڑے پہ آجائے تو خود اس سے علیحدہ ہوجائیں۔ اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں، یعنی اپنی position چینج کرلیں، پانی پی لیں یا خود کو مصروف کرلیں۔ یہ اس کے فوری علاج ہیں جو آپ کرسکتی ہیں۔ آپ ﷺ کی زیارت بہت بڑی دولت ہے۔ آپ کو کچھ یاد رہے یا نہ رہے، آپ ﷺ کی زیارت بذات خود ہی بہت بڑی دولت ہے۔ اس کے شکر کے طور پر إن شاء اللہ کثرت سے درود شریف پڑھتی رہیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم حضرت جی! اللّٰه تعالیٰ آپ کو عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ ایک سوال بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن مجھے اس کا جواب دینا نہیں آرہا۔ وہ یہ کہ اللّٰه سے وابستہ لوگ یہاں پاکستان میں خاص طور پر شلوار قمیض پہننے کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ سعودی عرب میں الگ لباس ہے۔ براہ مہربانی سنت لباس کی اہمیت کے بارے میں کچھ رہنمائی فرمائیں، جَزَاکُمُ اللّٰهُ خَیْراً۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ دیکھیں، لباس کا خلاف سنت ہونا الگ بات ہے اور لباس کا مسنون ہونا الگ بات ہے۔ دونوں میں فرق کو ایک مثال سے سمجھ لیں۔ مثلًا شلوار قمیض کو ہم مسنون لباس نہیں کہہ سکتے، لیکن یہ خلاف سنت بھی نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اگرچہ خود شلوار کبھی زیب تن نہیں کی، البتہ اس کو پسند فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے ایک بار پاجامہ بنوایا مگر آپ ﷺ کا طریقہ دھوتی باندھنے کا تھا اور اس وقت عرب کا لباس وہی ہوتا تھا۔ ہمارے جنوبی پنجاب، میانوالی اور اس قسم کے علاقوں میں اس طرح کا لباس زیادہ پایا جاتا ہے جو کھلے گلے کی قمیص اور دھوتی کے ساتھ simple قسم کی پگڑی پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ لباس مسنون لباس کے قریب ہے۔ باقی جگہوں پر بھی اپنے اپنے رواج کے مطابق اس طرح کا لباس رائج ہے، لیکن وہ خلاف سنت نہیں ہے۔ ہم لباس کو خلاف سنت اس وقت کہیں گے جب اس میں شریعت کا کوئی حکم ٹوٹتا ہو۔ شریعت کا حکم دراصل ایسے لباس سے ٹوٹتا ہے جس میں وہ جگہیں، جنہیں شرعاً چھپانا ضروری ہے، ظاہر ہونے کا یا ظاہر محسوس ہونے کا امکان ہو۔ کیونکہ لباس صرف زینت کے لیے نہیں ہوتا، یہ ساتر بھی ہوتا ہے، یہ انسان کو گرمی سردی سے بھی بچاتا ہے اور زینت کا باعث بھی بنتا ہے۔ ان میں سب سے اہم بات ستر کو ڈھانپنا ہے۔ یہ اس کے تین بنیادی فائدے ہیں۔

بعض لوگ صرف زینت کو لباس کا مقصد سمجھتے ہیں، جبکہ ساتر ہونا بہت اہم ہے۔ اور ساتر بھی دو قسم کا ہوتا ہے: ایک وہ جو مکمل طور پر کسی عضو کو چھپا دے کہ وہ بالکل نظر نہ آئے۔ دوسرا وہ جس سے عضو اگرچہ نظر تو نہ آئے، لیکن محسوس ہورہا ہو۔ آج کل جو پینٹ وغیرہ عام ہیں، وہ عموماً اسی دوسرے زمرے میں آتی ہیں، یعنی ستر کے وہ اعضاء اگرچہ نظر نہیں آتے، لیکن نمایاں اور محسوس ہوتے ہیں۔ تو ایسے لباس اگر کوئی پہنتا ہے، تو اس کے حال کے مطابق بات کی جائے گی۔

اگر کوئی ایسا شخص ہے جو ایسے ماحول سے آیا ہے جہاں اس سے بھی زیادہ خرابیاں ہوں، تو اس کی اس حالت کو فی الحال چھیڑنا نہیں چاہیے، کیونکہ اس سے مزید خرابی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اور یہ چیز دوسری باتوں کے مقابلے میں بعد میں آتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا ہے جو نیک ماحول میں ہے، یا نیک بننے کی طرف بڑھ رہا ہے، تو پھر اسے نرمی سے سمجھایا جائے گا کہ اپنے آپ کو بچائے۔ جیسا کہ آپ نے خود فرمایا کہ نیک لوگ، جو اللہ سے وابستہ ہوتے ہیں، وہ عام طور پر شلوار قمیض ہی پہنتے ہیں۔ تو ظاہر ہے اس میں ایک حکمت اور فائدہ ہے، اور انسان کو واقعی اس سے بہتری نصیب ہوتی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایسے لباس میں عبادات آسانی سے ادا ہوتی ہیں، انسان کا پردہ بھی قائم رہتا ہے، اور یہ ساتر بھی ہوتا ہے۔ نقل و حمل میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ تو یہی ماشاء اللّٰه، ایسے لباس کی برکات ہوتی ہیں، آسانی، ستر، عبادت میں سہولت، سب کچھ۔ البتہ یہ بات ہے کہ کچھ لباس جیسے پگڑی ہے، تو پگڑی سنت مستحبہ ہے، سنت مؤکدہ نہیں ہے۔ بعض لوگ تو اسے واجب کے درجہ تک لے گئے، لیکن اصل میں یہ مستحب ہے۔ یعنی اگر کوئی پہن لے، خصوصاً سنت سمجھ کے پہنے، تو ثواب ہے۔ لیکن اگر کوئی نہیں پہنتا، تو اس پر اعتراض کرنا درست نہیں۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ اس بنیاد پر الجھتا ہے کہ اس نے پگڑی نہیں پہنی، تو پھر یہ مسئلہ بن جاتا ہے، اور اس کی تصحیح کرنی پڑتی ہے۔

ایک مرتبہ حضرت مولانا بنوری رحمۃ اللّٰه علیہ جو بہت بڑے عالم تھے، ان پر بھی کسی نے ناسمجھی کی بنا پر اعتراض کردیا کہ آپ پگڑی نہیں پہنتے، جبکہ آپ نماز پڑھاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو باقاعدہ پگڑیاں بنی ہوئی رکھی جاتی ہیں، جیسے ٹوپیاں مسجد میں رکھی ہوتی ہیں۔ لوگ جو بغیر ٹوپی کے آتے ہیں، وہ بے شک میلی کیوں نہ ہو، وہ ٹوپی پہن لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض اماموں کے لیے پگڑیاں بھی رکھی ہوتی ہیں، جو کہ عموماً میلی ہوتی ہیں، کیونکہ انہیں دھونے کا اہتمام کم ہی ہوتا ہے۔ تو لوگ آکر وہ پہن لیتے ہیں، اور اس کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس کو لازمی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ سنت مستحبہ ہے، واجب نہیں۔ اس میں اعتدال ضروری ہے۔

جب کسی مستحب چیز کو واجب کے طور پر handle کیا جائے، تو فقہ کا قاعدہ یہ ہے کہ پھر اس کا ترک واجب ہوجاتا ہے۔ اسی لیے حضرت بنوری رحمۃ اللّٰه علیہ نے ایک موقع پر اپنی ٹوپی اتار دی اور فرمایا کہ میں بغیر ٹوپی کے بھی نماز پڑھا سکتا ہوں۔ تو یہ علماء کی شان ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اعتدال کے ساتھ سمجھاتے ہیں، یعنی plus, minus دونوں باتیں۔

اسی طرح حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ کا بھی ایک واقعہ ہے، حضرت نے پوری زندگی پگڑی پہنی، لیکن آخری عمر میں سر کی گرمی کی وجہ سے معذور ہوگئے تو پگڑی کی بجائے ٹوپی پہنتے تھے، وہ بھی ہندوستانی ٹوپی نہیں تھی۔ ایک صاحب نے آکر اعتراض کیا کہ آپ سنت پگڑی کیوں نہیں پہنتے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ میرے سر میں گرمی کی وجہ سے مسئلہ ہے، اس لیے نہیں پہن سکتا۔ اس پر اُس نے کہہ دیا کہ یہ تو بہانے ہیں! تو حضرت نے نرمی سے فرمایا: اچھا، پگڑی تو سنت مستحبہ ہے، لیکن دھوتی بھی سنت ہے، تو آپ نے دھوتی کیوں نہیں پہنی؟ اس نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہوں، کمزور ہوں، پہن کر چلتا ہوں تو وہ slip ہوجاتی ہے۔ تو حضرت نے مسکرا کر فرمایا: بس، آپ کو ایک عذر ہے اور مجھے دوسرا عذر ہے تو بات ختم۔

اصل نکتہ یہی ہے کہ دین میں تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں، البتہ جو اس کی ranges ہیں، ان کے مطابق اگر کوئی وقار کے ساتھ، اور سنت کی نیت سے پگڑی پہنتا ہے، تو اس میں یقینًا برکت ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے بھی پگڑی زیادہ پہنی ہے۔ تو نیت اور اعتدال کے ساتھ جب کوئی عمل کیا جاتا ہے، تو وہی دین کا اصل مزاج ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ ہم کدو کو سنت سمجھ کے کھاتے ہیں۔ حضرت نے پوچھا کیا ہمیشہ کدو کھاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں حضرت، ہمیشہ تو نہیں کھاتے، لیکن جب موسم ہوتا ہے تو ہم سنت سمجھ کے پکا لیتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: پھر ٹھیک ہے، ما شاء اللّٰه، ہاں پھر ٹھیک ہے۔

لہٰذا ان ساری چیزوں کو جاننا چاہئے۔ تو واقعی کپڑے سنت کے مطابق ہونے چاہئیں، اگر کسی سے بالکل exact ہوجائے یعنی دھوتی بھی پہنی ہو، پگڑی بھی ہو، اور پورا حلیہ ویسا ہو تو یقیناً best ہے، ماشاء اللّٰه۔ لیکن شریعت نے جو گنجائشیں دی ہیں، وہ بھی سیکھنی چاہئیں، تاکہ انسان کو تنگی نہ ہو، دین آسان ہو، اور انسان پر بار نہ ہو۔ تو گنجائش کے تحت جو شلوار قمیض ہے میرے خیال میں اس پر سب لوگ متفق ہوسکتے ہیں، کیونکہ یہ بھی ستر کو ڈھانپتا ہے، سادہ ہے، باوقار ہے، اور مشرقی لباس ہے۔ تو اگر کوئی زیادہ اتباعِ سنت کے جذبے سے آگے بڑھنا چاہے تو بہت اچھی بات ہے، لیکن دوسروں پر لازم نہ کرے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ حضرت جی! میرا وظیفہ ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے، جو دو سو، چار سو، چھ سو، پندرہ سو اور پانچ منٹ لطیفہ قلب پر ذکر محسوس کرنے کا تھا۔ الحمد للّٰه اب ذکر محسوس ہوتا ہے۔ جیسے آپ نے نصیحت فرمائی کہ دورانِ ذکر اللّٰه کی یاد باقی رہے، تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ذکر تمام لطائف پر محسوس ہوتا ہے۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ دل سے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کی آواز سنائی دے گی، لیکن اللّٰه تعالیٰ کی یاد تو جب بھی کسی لطیفہ پر دھیان دیتا ہوں یا باقی اعمال کرتا ہوں، محسوس ہوتی ہے۔ آئندہ کے لیے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

ان شاء اللّٰه العزیز، اب لطیفہ قلب کے ساتھ لطیفہ روح کو بھی شامل کرلیں۔ مطلب یہ کہ دونوں پر پانچ، پانچ منٹ کا مراقبہ کریں گے۔ باقی دو سو، چار سو، چھ سو اور پندرہ سو کی تعداد اپنے مقام پر جاری رکھیں گے، ان شاء اللّٰه۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم حضرت! میرا پندرہ سو مرتبہ زبان سے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، مراقبہ سے پہلے تین مرتبہ آیت الکرسی، اور تیس منٹ دل میں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کے مراقبہ کا مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔ میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ مراقبہ کے دوران اِدھر اُدھر کے خیالات نہ آئیں، لیکن پھر بھی آجاتے ہیں۔ دل کی کیفیت میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہورہی، وہی پہلے کی طرح دنیاوی کاموں میں مشغول رہتا ہے۔ میں خود کو زبردستی بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ کوتاہیوں پر معافی کا طلبگار ہوں۔

جواب:

ایک بات یاد رکھیں کہ اگر آپ یہ کہتی ہیں کہ مجھے کوئی خیال ہی نہ آئے، تو یہ بات آسان نہیں ہے۔ جتنا آپ یہ خیال کریں گی کہ خیال نہ آئے، اتنا ہی خیال آئے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ خود خیال نہ لائیں، بس یہی کافی ہے۔ یہ بات بہت آسان ہے، لیکن لوگوں نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔

خیال اگر خود سے آئے تو اس کی طرف توجہ نہ دیں، پروا نہ کریں۔ مثال کے طور پر اگر میں راستے پر جارہا ہوں اور اردگرد عورتیں بھی ہوں، مرد بھی، تو میں عورتوں کو نہ دیکھوں، یہ میرے اختیار میں ہے۔ باقی اردگرد بھلے ساری عورتیں ہوں، ان کو روکنا میرے بس میں نہیں ہے۔ میں اپنی نظریں نیچے رکھتا ہوں اور اس کی پروا کئے بغیر چلتا ہوں، تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، چاہے ارد گرد کچھ بھی ہورہا ہو۔ اسی طرح، اگر خیالات خود آئیں، تو ان کی پروا نہ کریں۔ اپنی توجہ مراقبہ پر رکھیں۔ نہ خیال لانے کی فکر کریں، نہ ہٹانے کی۔ کیونکہ ہٹانے کی کوشش بھی وسوسے کو بڑھا سکتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا ہے: یہ وسوسے بجلی کی ننگی تار کی طرح ہوتے ہیں، اگر ہٹانے کی نیت سے بھی ہاتھ لگایا تو پکڑ لیتے ہیں۔ لہٰذا، نہ خیال لانے کا سوچیں، نہ ہٹانے کا، بس ان کی طرف دھیان نہ دیں۔ دھیان صرف اللّٰه تعالیٰ کی طرف رکھیں۔ بس یہی کافی ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر دنیاوی کاموں میں دل لگا ہوا ہے، تو یہ دیکھیں کہ وہ کام جائز ہیں یا ناجائز؟ اگر ناجائز دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں، تو میں یہی عرض کروں گا کہ فوراً ان سے بچیں۔ اس میں آپ کو ہمت کرنی ہے اور اپنے آپ کو ناجائز کاموں سے بچانا ہے۔ اور اگر وہ دنیاوی کام جائز ہیں تو ان سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مثلًا کھانا کھانا ایک دنیاوی کام ہے، اب اگر میں آپ سے کہوں کہ کھانا نہ کھائیں، تو یہ تو درست نہیں ہوگا۔ آپ ضرور کھائیں، لیکن سنت کے مطابق کھائیں، تو یہی عمل دین بن جائے گا۔ اسی طرح دنیاوی جائز کاموں کو شریعت کے مطابق انجام دیں، اور بلاوجہ اپنے آپ کو وسوسوں میں نہ ڈالیں۔ یہ وسوسے مسائل پیدا کرتے ہیں، اس لیے ان سے بچنا ضروری ہے۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم حضرت جی! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ۔ یہ ذکر تقریباً دوسرے ماہ بھی کیا مگر دل پر انگوٹھا رکھ کر۔ ’’اَللّٰہ‘‘ صرف تھوڑے دن ہی محسوس ہوا۔ باقی سارے دن کے معمولات اور دعائیں باقاعدگی سے جاری ہیں۔

جواب:

ما شاء اللّٰه، بالکل درست ہے۔ آپ یہ معمولات جاری رکھیں۔ اب ’’اَللّٰہ‘‘ پانچ سو مرتبہ کی بجائے اس کو ہزار مرتبہ کرلیں۔ یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ ہزار مرتبہ۔ اور پھر دل پر جس طرح میں نے بتایا تھا، انگوٹھا رکھ کر اسم اللّٰه کا ذکر اسی طرح جاری رکھیں۔ ان شاء اللّٰه العزیز، ضرور فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 20:

نمبر 1:

السلام علیکم! کیا قناعت کرنی چاہے یا رزق کو کمانے کی اور بڑھانے کی مستقل جستجو کرنی چاہیے؟

جواب:

قناعت کے موقع پر قناعت کرنی چاہیے اور رزق کمانے کے موقع پر جائز طریقے سے رزق کمانا چاہیے۔

نمبر 2:

اگر انسان خود قناعت اختیار کرے کہ ایک نوکری ہے اور آمدن کے ذرائع ہیں، لیکن بیوی بچے قناعت نہ کریں اور زیادہ رزق کی باتیں کریں، تو ایسے میں کیا کرے؟

جواب:

ان سے کہیں کہ سونے کے انڈے والی باتیں نہ کریں۔ ایک مرغی تھی جو سونے کا انڈا دیتی تھی، مالک کو اس سے فائدہ ہوتا تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید اس کے اندر بہت سے انڈے ہوں، اس لیے اس نے مرغی کو ذبح کردیا، مگر اندر سے ایک بھی انڈا نہ نکلا۔ اس لیے انہیں سمجھائیں کہ ایسا نہ کریں کہ یہ چیزیں بھی چلی جائیں۔ اس پر اتنی قناعت ضروری ہے کہ کم از کم آپ کی صحت محفوظ رہے، یہی سب سے اہم ہے۔

نمبر 3:

اگر فی الحال رزق ہو اور مثال کے طور پر اگلے چھے مہینے کا بھی ہو تو اور آگے کی کتنی فکر کرنی چاہیے؟

جواب:

میرے خیال میں اگلے دو ہزار سال کے برابر تو ہونی چاہیے۔ ؎

فکر ہر کس بقدر ہمت اوست

آپ کی ہمت زیادہ ہے تو زیادہ کریں، ورنہ کم کریں

نمبر 4:

ہماری private نوکری کی انڈسٹری میں بے روزگاری اور اخیر عمر میں بغیر pension کے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب:

میرے خیال میں سب مل کر رونا شروع کردیں، تاکہ طبیعت ہلکی ہوجائے۔ ایسی باتوں کو زیادہ نہ دیکھیں، میرے خیال میں آپ جواب جانتے ہیں، بس اسی جواب پر اکتفا کریں۔

سوال نمبر 21:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ!

What can a سالک do to complete his or her سلوک quickly yet perfectly?

جواب:


؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلمے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

جو practical بات ہے، وہی کرنی چاہیے، اور practical بات یہ ہے کہ سستی نہ کی جائے۔ اگر سستی نہ ہو، تو یہی کافی ہے، باقی سب اللّٰه پاک کا فضل ہے، جتنا عطا فرمائے۔ تعجیل (جلدی بازی) بھی ایک ابتلاء ہے، اور یہ موانع میں سے ہے۔ موانع یعنی وہ پانچ رکاوٹیں جن کی وجہ سے رہا سہا کام بھی خراب ہوجاتا ہے یا ختم ہوجاتا ہے، ان میں ایک تعجیل بھی ہے۔ چونکہ خاتون سے بات کررہا ہوں اس لئے مثال کے طور پر روٹی پکانے کو لے لیں۔ اگر روٹی پانچ منٹ میں پکتی ہے اور آپ اسے دو منٹ میں پکانے کی کوشش کریں، تو یا تو وہ جل جائے گی یا اندر سے کچی رہ جائے گی، اور یوں دونوں طرح سے قابلِ استعمال نہیں رہے گی۔ لہٰذا ہمت قائم رکھیں، کام کا تسلسل جاری رکھیں، ان شاء اللّٰه العزیز، اللّٰه پاک کی مدد ضرور شامل حال ہوگی۔

سوال نمبر 22:

How can the سالک know that he has completed her سلوک اور اصلاح of نفس?

جواب:

This is a question a سالک can ask but there is a clear answer for this. A سالک cannot know because as much as he gets روحانیت he will feel himself more guilty as if he is going down. So this is the case.

میرا خیال ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ جن خلفاء کو اجازت دیتے تھے، وہ خلفاء بعض اوقات پریشان ہوجاتے تھے اور سوچتے کہ پتہ نہیں کیا ہوگیا، یہ کیسے ہوگیا؟ مثال کے طور پر، اُس وقت ان کی ایسی کیفیت ہوتی کہ وہ خود کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھتے تھے، اور اسی حال میں حضرت نے انہیں اجازت دے دی۔ اگر اجازت صرف سالک کے خود کو سمجھنے پر ہوتی، تو وہ تو خود کو اس لائق ہی نہ سمجھ رہے ہوتے۔ لہٰذا یہ بات سالک کے سمجھنے کی نہیں، بلکہ شیخ کے سمجھنے کی ہے۔ سالک کا کام ہے کہ ہمت نہ ہارے، جو کام بتایا گیا ہے اُسے جاری رکھے، اس پر عمل کرتا رہے اور وقتاً فوقتاً اطلاع دیتا رہے۔ ؎

چار حق مرشد کے ہیں رکھیں ان کو یاد

اتباع و اطلاع و اعتقاد و انقیاد

اپنے احوال کی اطلاع کرنا، جو بتایا ہے اس کی اتباع کرنا اور اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ میرا شیخ میرے لئے اصلاح کے لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ مفید ہے۔ اور پھر اسی کے ساتھ ہی لگی رہیں۔ بس یہ چار حق ہیں اگر ان چار حقوق کو پورا کرتی رہیں تو ان شاء اللّٰه العزیز جلدی اصلاح ہوسکتی ہے۔

سوال نمبر 23:

And if he knows but is not proud of it?

جواب:

This question is not clear.

جو میں سمجھ رہا ہوں وہ ٹھیک نہیں ہے، لہٰذا اس سوال کو ٹھیک کرکے مجھے بھیج دیجئے تاکہ میری confusion دور ہوجائے۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ حضرت جی! آپ نے مجھے جو دس منٹ کا مراقبہ دیا تھا کہ دل کی طرف غور کرنا ہے کہ وہ اللّٰه اللّٰه کررہا ہے، اس کے دن پورے ہوگئے ہیں، لیکن چار یا پانچ دفعہ سے زیادہ مجھے یہ کیفیت محسوس نہیں ہوئی۔ بس دس منٹ بیٹھ کر کوشش کرتی ہوں اور کرکے دھیان لگاتی ہوں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا جیسے میں اندر سے میں دائیں بائیں بہت تیزی کے ساتھ ہل رہی ہوں یا جھوم رہی ہوں اور آواز آرہی ہے۔ میں نے چوبیس گھنٹے کا ٹائم رکھا ہوا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر ایک مرتبہ مراقبہ کرنا ہے۔ کیونکہ اس مہینے شادی ہے اور مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے ٹائم کی کوئی خاص پابندی نہیں کرسکی، لیکن چوبیس گھنٹے کے حساب سے میں نے چالیس دن پورے کیے ہیں۔ کیا اس طرح درست کیا؟ الحمد للّٰہ تہجد کی توفیق بھی مل رہی ہے، جو ذکر آپ نے بتایا تھا وہ بھی کررہی ہوں اور باقی تسبیحات بھی جاری ہیں۔

جواب:

میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ جتنی کوشش کریں گی ان شاء اللّٰه، اللّٰه پاک کی طرف سے اتنی مدد ہوگی۔ قرآن پاک میں ہے:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

اگر آپ یہ عمل وقت بدل بدل کر کریں گی تو کچھ حد تک گنجائش تو ہوگی، لیکن اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ڈاکٹر نے آپ کو دوا دی ہے کہ صبح، دوپہر، شام لینی ہے، اور آپ مصروفیت کی وجہ سے وقت پر نہ لے سکیں، جیسے صبح کی دوا آپ نے دس بجے لی، دوپہر کی پانچ بجے، اور شام کی مغرب کے فوراً بعد کھالیں۔ تو کیا بیماری کو یہ پتہ لگ جائے گا کہ آپ مصروف تھیں، اس لیے اثر کم نہ ہو؟ اثر تو اپنی جگہ fact ہے، وہ تو ہوگا۔ اس لیے میرے خیال میں آپ میری بات سمجھ گئی ہوں گی۔ اس کا خیال ضرور رکھیں، کیونکہ مصروفیت تو سب کو ہوتی ہے، لیکن لیکن اپنی مصروفیت کو manage کرنا ایک فن ہے، اور انسان کو یہ آنا چاہیے کہ اپنی مصروفیت کو کس طرح ترتیب دے۔

ایک جنرل صاحب سلسلے میں آئے، انہوں نے اپنے احوال سنائے تو میں حیران رہ گیا۔ انہوں نے جو وقت مقرر کیا تھا، اُس میں اگر کوئی بھی آجاتا تو وہ صاف کہتے: Sorry, sorry, sorry، میرا وقت ہے، میں اس میں کچھ اور کام نہیں کرسکتا، Let me do that job. اسی نظم و ضبط کی وجہ سے انہیں فائدہ بھی جلدی ہوا۔ مسئلہ دراصل delegation کا ہے کہ جتنا کوئی اپنے کاموں کو صحیح طریقے سے delegate کرے گا، اتنا ہی اس کو فائدہ ہوگا، اور اس کے لیے قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔

بعض اوقات صرف ذکر ہوتا ہے، اور بعض اوقات ذکر کے ساتھ مجاہدہ بھی ہوتا ہے، اور مجاہدے کا الگ فائدہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب ذکر کے حالات favorable نہ ہوں اور انسان پھر بھی ذکر کرے، تو وہ مجاہدہ کہلاتا ہے، اور اس کا اثر نفس پر پڑتا ہے، یعنی نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں، جس وقت ذکر کرنے کو دل نہ چاہے، اگر انسان پھر بھی کرے تو اُسے دو فائدے ہوتے ہیں: ایک ذکر کا جو دل کو فائدہ دیتا ہے، اور دوسرا مجاہدے کا فائدہ جو نفس کے علاج کا ذریعہ بنتا ہے۔ لہٰذا آپ اسے اپنے طریقے پر دوبارہ شروع کریں، جیسے میں نے بتایا ہے، ان شاء اللّٰه ضرور فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم و رحمة اللّٰه و بركاتہ

I pray you are well and dear respected شیخ. This is فلاں from the UK. I had some questions I was hoping to ask. Some people only care and worry about themselves to an extreme and they use the Ayat ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْۚ﴾ (المائدہ: 7). At the same time, others worry too much about others and less about themselves and think they are acting on Ayat ﴿تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ (آل عمران: 7). How can a سالک achieve balance between the two in order to work on himself but also fulfill the duty of worrying about others and the امت especially an عالم امام استاد? What should he do as there is in آیت which warns them from hiding their knowledge?

جواب:

اصل میں ما شاء اللّٰه دونوں اپنی جگہ درست ہیں اور دونوں کی الگ الگ اہمیت ہے۔ جہاں تک عالم کی بات ہے تو علم کے لحاظ سے اس کی یہ duty ہے کہ وہ علم پہنچائے، لیکن "وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ" یعنی صرف بات پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، یہ نہیں کہ اپنے اوپر سوار کرلے کہ سارے لوگ ٹھیک ہوجائیں۔ یہ تو پیغمبر ﷺ کے بارے میں بھی نہیں فرمایا گیا، تو انسان کے جتنا ذمہ ہے اُتنا ہی کرے۔ علماء کا کام ہے علم پہنچانا، اور مشائخ کا کام ہے تربیت کرنا۔ تو جب تک انسان شیخ نہیں ہے اور صرف عالم ہے، تو اپنے علمی کام جاری رکھے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علمی کام جیسے خطبہ ہے، اس میں اگر صحیح طور پر pinpoint کرکے لوگوں کو بات پہنچائی جائے تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ اور میں آپ کو ایک بات بتاؤں، اللّٰه تعالیٰ نے علماء کو ایک بہت بڑا platform دیا ہے، اگر اس کو استعمال کرلیا جائے تو ان کا ماشاء اللّٰہ بہت بڑا contribution ہے۔ ان کے پاس منبر ہے۔ اگر علماء اس منبر پر بیٹھ کر اپنی علمی استعداد کو بہتر کرتے ہوئے وقت کے مطابق لوگوں کو ضروری علم پہنچائیں تو ان شاء اللّٰه بہت فائدہ ہوگا۔ آج کل جیسے فرض عین علم ہے، جس سے تقریباً All round غفلت ہورہی ہے، حالانکہ یہ وہ علم ہے جو ہر فرد پر فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک عالم سارے کام نہیں کرسکتا، اس کی بھی limitations ہیں، لیکن جو کام اُس کے domain میں آتا ہے، وہ اسے ضرور کرے۔ اور فرض عین علم تو تمام علماء پہنچا سکتے ہیں۔ ایک عالم یہ کہے کہ میں بخاری شریف بھی پڑھاؤں، مسلم شریف بھی پڑھاؤں، ترمذی شریف بھی پڑھاؤں تو وہ یہ نہیں کرسکتا لیکن فرض عین علم سارے علماء کرسکتے ہیں اور اس کے لئے کسی مدرسے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ جس کے نزدیک مسجد ہے وہ مسجد میں کرسکتا ہے، جس کے پاس بیٹھک ہے وہ بیٹھک میں کرسکتا ہے اور جس کے کوئی بھی بیٹھنے کی جگہ ہے وہ وہاں پر کرسکتا ہے۔ اس کے لئے زیادہ لمبے چوڑے انتظام کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ پھر لوگوں میں جتنی طلب ہوگی ان کو ان شاء اللّٰه فائدہ پہنچتا رہے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی منبر پر بیٹھ کر جمعہ یا کسی اور موقع پر علمی اور اصلاحی بیان کرے، تو اس میں یہ کام کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں میں اپنی اصلاح کی طلب پیدا کی جائے۔ اس طرح علمی خدمت کے ساتھ ساتھ اصلاحی میدان میں بھی ما شاء اللّٰه contribution ہوجائے گی، کیونکہ جب لوگوں میں اصلاح کی طلب بڑھے گی اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں گے، تو ان شاء اللّٰه اس کا ثواب اس شخص کو بھی ملے گا۔ اگر خود براہِ راست اصلاح کا کام نہ کرسکے، مثلاً اس کے لیے ابھی مطلوبہ قابلیت حاصل نہ ہو، تو جو کچھ معلوم ہے، اس کی بنیاد پر دوسروں کو guide کیا جاسکتا ہے، جیسے یہ کہنا کہ فلاں کے پاس جاؤ یا فلاں سے رابطہ کرو۔ یہ بھی ایک اہم خدمت ہوگی، اور وہ ان شاء اللّٰه یہ ایک کام کرسکتے ہیں۔ باقی جہاں تک خود تدریس کا تعلق ہے، تو وہ ہر شخص کے حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ کوئی مدرسے میں پڑھاتا ہے، کوئی کسی اور جگہ، یا آن لائن تعلیم دیتا ہے، ہر ایک کا اپنا نظام ہے۔ لیکن جو بات میں نے پہلے عرض کی، وہ سب کے لیے مشترک ہے، اور وہ ہے اپنی اصلاح۔ یہ ہر فرد پر فرض عین ہے، اور سب سے پہلے اسی کی طرف توجہ دینا ضروری ہے اس لئے یہ Priority number one ہوگی۔ دیگر دینی خدمات جیسے تدریس وغیرہ فرض کفایہ کے درجے میں آتے ہیں، جو یقیناً اہم ہیں، مگر فرض عین کے مقابلے میں یہ Priority number two ہے۔

اس کے علاوہ بھی کوئی بات ہو تو آپ پوچھ سکتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ جو باتیں عرض کی گئی ہیں، ان میں ان شاء اللّٰه اکثر سوالات کے جوابات موجود ہیں۔

سوال نمبر 26:

No. 02. What's the ruling regarding sending pictures and videos on WhatsApp? الحمد للّٰہ I have always had a natural hatred for taking pictures and videos since I was young. But now that I'm married sometimes, my wife asks about it. If I can send her a picture or videos of me. If it was anyone else I would not do so, but since I do not see her for long periods of time I am not sure if it is her حق or if it is a good deed to accept her request?

جواب:

میں اس مسئلے میں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ علمی باتیں ہیں اور علمی باتیں ان شاء اللّٰه علماء اور مفتیان کرام ہی کریں گے۔ صرف ایک بات عرض کرتا ہوں کہ اس میں دو opinions ہیں اور دونوں طرف کے علماء، علمائے حق ہیں۔ digital تصویر کو بعض لوگ جائز سمجھتے ہیں اور بعض لوگ ناجائز۔ زیادہ تر علماء راسخین ناجائز سمجھتے ہیں، جائز سمجھنے والے تھوڑے ہیں البتہ سوشل میڈیا پر وہ لوگ زیادہ active ہیں لہٰذا لوگوں کو زیادہ نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں جب علماء حق میں اختلاف ہو تو پھر کون سا کام بہتر ہے؟ تو حدیث شریف ہے جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَ الْحَرَامُ بَیِّنٌ‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 52) یعنی حلال بھی بالکل واضح ہے حرام بھی بالکل واضح ہے، ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں اور جس نے اپنے آپ کو ان امور سے بچا لیا تو اس نے اپنا دین بچا لیا۔ یہ میرا اپنا خیال ہے کہ اس میں جواب موجود ہے، باقی ما شاء اللّٰه علماء بہتر جانتے ہیں۔

سوال نمبر 27:

When someone reads التحیات in تشہد, should he make the intention of حکایت اور انشاء when reading the درود اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّھَا ?النَّبِی Kindly remember me in your دعا.

جواب:

دراصل جس کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ وہ واقعہ معراج شریف کا ہے۔ معراج شریف میں یہ بات ہوئی تھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: ’’السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهٗ‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلٰى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ‘‘۔ پھر فرشتوں نے کہا: ’’أَشْهَدُ أَنْ لَّآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘۔ اگر کوئی اس نیت سے یہ الفاظ کہے کہ یہ واقعہ معراج میں پیش آیا تھا، تو بالکل درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس نیت سے یہ الفاظ کہنا جائز ہے۔

سوال نمبر 28:

السلام علیکم حضرت جی! آپ نے مراقبہ شیونات ذاتیہ کے اثر کا پوچھا تھا، حضرت جی! کچھ دنوں میں آخرت کی فکر لگی ہوئی ہے کہ میرے اتنے اعمال ہوں گے کہ بخش ہوسکے۔ گو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے، مگر یہ فکر مسلسل لگی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری حیثیت سے بڑھ کر عطا فرمایا ہے، الحمدللہ۔ لیکن دل میں یہ سوال بھی رہتا ہے کہ اللہ و رسول ﷺ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ کیسے پیش ہوں گی۔ کوشش تو کرتی ہوں کہ کوئی غلط کام نہ ہو، مگر ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق بھی دے دیتا ہے، لیکن پھر بھی دل میں ایک ڈر سا رہتا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے، ان شاء اللّٰه العزیز۔ شیونات ذاتیہ کا اثر یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہونے کا اثر ہونا چاہئے۔ تو اب آپ یوں کریں کہ چوتھا مراقبہ، یعنی مراقبہ تنزیہ یا صفات سلبیہ والا، شروع کرلیں۔ اس میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اللّٰه جل شانہٗ کی کوئی مثال نہیں اور انسانوں کی بعض صفات، اللّٰه پاک کے لیے نہیں ہیں۔ اس مراقبے میں سورہٗ اخلاص کو تصور میں لایا جاسکتا ہے۔ ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۝ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۝ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ۝ وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (الاخلاص: 1-4)

اس مراقبے میں فیض آنے کا تصور ویسے ہی کریں جیسے شیونات ذاتیہ والے مراقبے میں ہوتا ہے۔

سوال نمبر 29:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ حضرت جی! حضرت مزاج بخیر ہوں گے۔ بندہ ہر وقت کسی نہ کسی فضول فکر میں الجھا رہتا ہے، اس کے بغیر رہنا بہت مشکل محسوس ہوتا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ انہی فکروں نے بہت پریشان کر رکھا ہے۔ حضرت اقدس! کوئی علاج تجویز فرمائیں۔

جواب:

اپنے آپ کو ذکر میں مشغول رکھیں۔

سوال نمبر 30:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ!

نمبر 1:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر، مراقبہ احدیت پندرہ منٹ۔ ایک مہینے سے زیادہ دن ہوگئے لیکن صحت کی خرابی کی وجہ سے ناغے زیادہ ہوئے ہیں۔ اس مراقبے سے دل پر ہر وقت یہ خواہش رہتی ہے کہ ہر وقت اللّٰه تعالیٰ کی طرف توجہ رہے کسی اور طرف توجہ نہ ہو۔ گناہ ہوجائے یا مراقبہ رہ جائے تو سخت دکھ ہوتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ بہت اچھی بات ہے۔ سب سے پہلے تمام لطائف پر دس منٹ کا ذکر جاری رکھیں۔ اور مراقبہ احدیت کی جگہ ان شاء اللّٰه مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ کریں، یعنی ایک خاص فیض کا تصور کریں کہ اللّٰه تعالیٰ ہی سب کچھ کرنے والا ہے۔ یہ فیض اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے حضور ﷺ کے قلبِ مبارک پر، پھر حضور ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب میں، اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب میں منتقل ہورہا ہے۔

نمبر 2:

چالیس دن کا ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کرلیا۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ! اب اس کو دس منٹ والا اگلا ذکر دے دیں۔

نمبر 3:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ معیت پندرہ منٹ۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ، اب آپ اس کے مراقبہ معیت کو پندرہ منٹ کی جگہ بیس منٹ کرلیں اور باقی وہی رکھیں۔

نمبر 4:

لطیفہ قلب دس منٹ اور لطیفہ روح پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

الحمد للّٰہ، اب ان کو ان دو لطائف کا دس منٹ کا مراقبہ اور اگلا مراقبہ پندرہ منٹ تک دے دیں۔

نمبر 5:

ان کا مراقبہ عبدیت ہے۔ نماز میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ تمام اعضاء سجدہ کررہے ہیں۔ انہوں نے پورے مہینہ غلط فہمی کی وجہ سے صرف مراقبہ کیا اور لطائف پر ذکر نہیں کیا۔

جواب:

اب اس کو پوا مہینہ دوبارہ کروا دیجئے گا۔

نمبر 6:

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ معیت پندرہ منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

آپ اس کو بیس منٹ کے لیے دوبارہ کروا دیجئے گا۔

نمبر 7:

لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر دس منٹ، لطیفہ خفی پندرہ منٹ۔ یہاں تک ذکر کیا تھا لیکن پھر ذکر چھوڑ دیا تھا لیکن دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔ میں یہ پوچھا تھا کہ کیوں چھوڑا؟ تو کہتی ہے کہ چھوٹ گیا تھا روزانہ ارادہ کرتی ہوں کہ شروع کرتی ہوں لیکن پھر رہ جاتا ہے۔

جواب:

ٹھیک ہے اس کو دوبارہ شروع کرلیں۔ آپ ان کو بتائیں کہ اب ہمت کرلیں اور اس کو نہ چھوڑیں کیونکہ جتنی مرتبہ آپ چھوڑیں گی اس سے آپ کی ہمت جواب دیتی جائے گی اور عین ممکن ہے کہ پھر آپ کر ہی نہ سکیں، لہٰذا آپ ہمت کریں اور اب اس کو شروع کرلیں تو پھر مت چھوڑیں۔

سوال نمبر 31:

السلام علیکم حضرت! آپ نے جو اذکار دیئے تھے ان کا الحمد للّٰه ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے۔ وہ اذکار یہ تھے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ تین ہزار مرتبہ اور اس کے ساتھ پانچ منٹ یہ تصور کرنا کہ دل ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہے۔ حضرت ابھی تک محسوس نہیں ہوتا مزید رہنمائی کی درخواست ہے

جواب:

ما شاء اللّٰہ، اب آپ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ساڑھے تین ہزار مرتبہ کرلیں اور باقی سب کچھ ان شاء اللّٰه وہی ہوگا۔

سوال نمبر 32:

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه حضرت جی! میرا مسئلہ ہے کہ آج کل موت اور قبر کا خیال تو اکثر غالب رہتا ہے لیکن اعمال و اخلاق پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور اہل وعیال سے بدستور لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔ اگرچہ بعد میں اس پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت یا بیماری ہو تو رجوع اللّٰہ خوب ہوتا ہے لیکن جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں پھر سے غفلت طاری ہونے لگتی ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔ پریشانی بہت ہے، صحت کے لیے دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔ اللّٰه پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور آسانیاں پیدا فرمائے۔

جواب:

ماشاءاللّٰه، ٹھیک ہے۔ آپ اپنی فکروں سے ہمت کے ساتھ فائدہ اٹھائیں۔ اگر خود سے ممکن نہ ہو، تو اپنے آپ سے کہیں کہ موت یقینی ہے، قبر میں جانا ہے، اور اس طرح کے حالات پیش آئیں گے، تو پھر سوچیں کہ مجھے کس قسم کی تیاری کرنی چاہیے۔ اسی سوچ کو سامنے رکھ کر اپنے اعمال میں تبدیلی لائیں، اور جس ہمت کی ضرورت ہے، اسے پیدا کرتے رہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللّٰه جل شانہٗ آپ کو استقامت نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 33:

حضرت جی جیسے آپ نے فرمایا تھا کہ باقی سلاسل میں سلوک کا آغاز ابتدا سے ہوتا ہے اور جذب بعد میں ہوتا ہے۔ تو جذب کے بغیر سلوک کس طرح آجاتا ہے؟

جواب:

دراصل جذب کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک جذب یہ ہوتا ہے کہ کسی کو اپنے شیخ سے محبت ہو، یہ بھی جذب کی ایک صورت ہے۔ اس کی نفی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ یہی محبت اس کے لیے صحبتِ شیخ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ محبت اس کے دل میں نرمی پیدا کردیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اصلاح کا عمل شروع کردیتا ہے۔

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی کی طبیعت ایسی ہو کہ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کام کے بغیر مجھے فائدہ نہیں ہوگا، تو وہ ہمت کرتا ہے۔ اگرچہ اسے جذب حاصل نہیں ہوتا، پھر بھی وہ محنت کرتا ہے، جو کہ ایک مجاہدہ بن جاتا ہے۔ اور مجاہدے کے ذریعے اصلاح ممکن ہوتی ہے، اس لیے اس کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ بس اس سب میں اہم بات یہ ہے کہ اسے continue رکھنا ضروری ہوتا ہے، تو نتیجہ حاصل ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 34:

قرآن مجید میں آتا ہے کہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرو۔ اس کے علاوہ جتنا بھی ذکر کیا جائے، جتنا بھی ہو، اسے "ذکرِ کثیر" کہا جاتا ہے۔

جواب:

محققین حضرات کا کہنا ہے کہ جب ذکر تین سو مرتبہ کیا جائے تو یہ کثرت کے حکم میں آجاتا ہے، کیونکہ یہ تثنیہ یعنی دو سو سے بڑھ جاتا ہے، اور اس طرح کثرت میں داخل ہوجاتا ہے۔ لیکن جو شخص حقیقتاً متلاشی ہوتا ہے، وہ اس پر کب مطمئن ہوتا ہے؟ وہ تو اور زیادہ ذکر کرتا ہے۔

اسی لیے میں نے اپنے ساتھیوں سے عرض کیا تھا کہ فجر سے دوپہر تک ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘، دوپہر سے مغرب تک درود شریف، اور مغرب کے بعد استغفار کیا کریں۔ اگر غور کیا جائے تو یہ ہماری پوری زندگی کا ایک خاکہ بن جاتا ہے: عقیدہ کی بنیاد ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ پر ہے، پھر سنتِ رسول ﷺ پر درود شریف کے ذریعے عمل، اور آخر میں جو کمی کوتاہی رہ جائے، اس پر استغفار۔ اور ویسے بھی آخر میں استغفار ہی بہتر ہوتا ہے۔

میں یہ ذکر لوگوں کو generally بتاتا ہوں، جیسے سڑک پہ چلتے ہوئے وغیرہ۔ جن ساتھیوں کے پاس ٹائم ہوتا ہے وہ چلتے پھرتے اس طرح ذکر کرلیا کریں۔

سوال نمبر 35:

کیا قرآن شریف کی تلاوت بھی ذکر میں شامل ہے؟

جواب:

قرآن مجید کی تلاوت بہترین ذکر ہے۔ حضرت مولانا فتح محمد صاحب رحمہ اللہ اسے "شاہی ذکر" فرمایا کرتے تھے، اور واقعی یہ بہترین ذکر ہے۔ اسے ذکر کہا بھی گیا ہے، کیونکہ اصل بات اللہ تعالیٰ کی یاد ہے۔ اللّٰه پاک کی یاد جس ذریعے سے بھی حاصل ہوجائے، وہ ذکر کے حکم میں آجاتی ہے۔

سوال نمبر 36:

حضرت جی، احوال کے بارے میں پوچھنا ہے کہ صرف خانقاہی معاملات احوال میں آتے ہیں یا اس کے علاوہ جیسے دفتری معاملات یا دیگر معاملات بھی احوال میں بیان کیے جانے چاہییں؟

جواب:

بس اس میں بات یہ ہے کہ اگر آپ مجھ سے اپنے دفتر کے بارے میں یہ پوچھیں کہ میں یہ کروں یا وہ، تو وہ معاملہ آپ کی job کے حساب سے ہوگا۔ وہ تو مجھے نہ معلوم ہوگا، نہ میں اس بارے میں کچھ کہہ سکوں گا۔ لیکن جب اس میں شریعت کا کوئی حکم آتا ہے، تو اگر وہ فتویٰ کی نوعیت کا ہو تو اسے مفتی سے پوچھنا پڑے گا۔ اور اگر وہ معاملہ آپ کی شخصیت پر اثر انداز ہورہا ہو یعنی اس سے گناہ یا ثواب متعلق ہو، یا وہ آپ کے باطنی حال کو بدل رہا ہو تو وہ حال کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

ایسا ہوتا ہے، ہم بھی حضرت سے اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک بار مجھے جرمنی بھیجا جارہا تھا، تو میں نے حضرت سے عرض کیا: "حضرت، مجھے جرمنی جانا ہے، لیکن میں بیمار آدمی ہوں، اور اتنا لمبا سفر کبھی کیا نہیں، تو کیسے جاؤں؟" حضرت نے فرمایا: "بھئی جرمنی ضرور جانا، کیونکہ اقبال بھی تب ہی اقبال بنا تھا جب جرمنی سے ہوکر آیا تھا!" میں نے عرض کیا: "حضرت، میں اکیلا ہوں وہاں۔" فرمایا: "کیسے اکیلے ہو؟ اللہ رحیم جو ہے، وہ ساتھ ہے۔"

تو واقعتًا اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا کہ اَلْحَمْد للّٰہ، اُس وقت مراقبہ معیّت تو میں نے نہیں کیا تھا، لیکن حضرت کے فرمانے سے یہ حال نصیب ہوا کہ اللہ میرے ساتھ ہے۔ گفت ہے، گفت ہے، آداب بہت ہیں، الحمد للّٰہ۔ بعض دفعہ ایسی بات بھی ہوجاتی ہے، انسان ہے آخر۔

سوال نمبر 37:

حضرت جو آپ سانس کے درمیان دل سے اللہ کا ذکر کرنے کا کہہ رہے ہیں وہ کیسے ہوگا؟

جواب:

اصل میں پاس انفاس کا جو ذکر ہے، وہ دل کا نہیں بلکہ سانس کا ذکر ہے،

یعنی سانس کے ساتھ کیا جانے والا ذکر۔ اسی کو پاس انفاس کہتے ہیں، اور یہ بھی ماشاء اللّٰه ایک طریقہ ہے ذکر کا۔ بعض اوقات اس میں بندہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتا، بلکہ صرف سانس کے ذریعے ذکر جاری رہتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ پاس انفاس کا ذکر بعض لوگوں کے لیے recommended نہیں ہوتا، خاص طور پر جنہیں سانس کا مسئلہ ہو، جیسے استھما وغیرہ۔ ان کے لیے پھر دوسرے طریقے ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنی طرف سے، یا سن سنی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ایسا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ جب آپ کو خود بتایا جائے، جیسا کہ آپ کو جو مخصوص ذکر بتایا گیا ہے، وہ کرتے رہیں۔ اور جب پاس انفاس کا وقت آئے گا، تو اِن شاء اللّٰه وہ بھی بتا دیا جائے گا۔

ابھی آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ دو سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہ‘‘ سو مرتبہ شروع کرلیں تاکہ پہلے ہی بنیاد بن جائے۔ جیسے مثال کے طور پر ایک سیڑھیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں، اور ایک وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ادھر اُدھر راستہ ہوتا ہے بغیر سیڑھیوں کے۔ تو جب تک سیڑھیاں نہ بنی ہوں، ویسے چڑھنے میں خطرہ ہوتا ہے۔نہ مزہ آتا ہے، اور نہ سہولت ہوتی ہے۔ اور ویسے بھی، ہم نے مزے کے لیے تو ذکر نہیں کرنا۔ ہم نے تو اپنے علاج کے لیے ذکر کرنا ہے، اصلاح کے لیے کرنا ہے۔ ٹھیک ہے۔ صحیح بات ہے۔

سوال نمبر 38:

حضرت! کیا ذکر کے لیے وقت متعین کرنا ضروری ہے؟

جواب:

وقت متعین کرنا لازمی ہے۔ یہ تو میں پہلے سے کہتا ہوں کہ ذکر کے لیے وقت مقرر کرنا چاہیے۔ ابھی میں نے ایک خاتون کو کہا تھا کہ آپ نے وقت متعین نہیں کیا، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ اس لئے وقت مقرر کریں، اور پھر اسی وقت پر ذکر کرتے رہیں۔ اسی سے استقامت آتی ہے۔ جو لوگ وقت مقرر نہیں کرتے، ان کی استقامت ڈانواں ڈول رہتی ہے۔ اور علم کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ اگر آپ علم کو سب کچھ دیں گے، تو وہ آپ کو کچھ دے گا۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آپ علم کو اپنا سب کچھ دیں گے، تو یہ آپ کو اپنا کچھ دے گا۔ اصلاح کے لئے بھی کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑتی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر واقعی کچھ حاصل کرنا ہے، تو کچھ پیش بھی کرنا ہوگا۔

سوال نمبر 39:

اگر مقرر کردہ وقت میں مہمان آجائیں تو کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

تو اس میں پھر یہی ہوتا ہے کہ آپ کو manage کرنا پڑتا ہے۔ مثلًا جب آپ کسی کے گھر چلے جائیں، تو وہاں کے حالات کو دیکھ کر جو وقت مناسب لگے، اُسے پہلے ہی fix کرلیں کہ میں نے اسی وقت پر ذکر کرنا ہے۔ کیونکہ اگر آپ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہی ذکر کرنے لگیں، تو پھر جو اہتمام کی کیفیت ہوتی ہے، وہ نہیں رہتی۔

اصل بات یہی ہے کہ اہتمام ہونا چاہیے، جیسے یہ طے کر لیا کہ نو بجے کرنا ہے۔ اور اگر کبھی اس طرح کا وقت مشکل ہوجائے تو پھر متبادل وقت بھی ہوسکتا ہے، لیکن وہ بھی باقاعدہ calculate کرکے ہو تاکہ اہتمام باقی رہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب