ربیع الاول کی حقیقت اور سیرت مصطفیﷺ کی پیروی کا درست مفہوم

جمعہ بیان

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، سیرت، اور دین میں سنت کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ ربیع الاول کے مہینے کی فضیلت کے ساتھ، شمسی و قمری حسابات کی مدد سے آپ کی ولادت کی تاریخ 8 یا 9 ربیع الاول ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیان اس بات پر زور دیتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت یا وفات منانے کا کوئی ثبوت صحابہ کرام کے عمل سے نہیں ملتا، اور دین کا اصل مطالبہ پوری زندگی سنت کی اتباع کرنا ہے، نہ کہ جذباتی انداز میں خاص دن منانا۔ قرآنی آیات اور احادیث کے حوالوں سے سنت کی اہمیت، آپ سے محبت کے تقاضے اور دین کی بنیاد کی حفاظت کے لیے آپ سے منسوب باتوں کی چھان بین پر زور دیا گیا ہے۔ آخر میں، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آپ کے بچپن کے معجزاتی واقعات اور کرامات کا ذکر کیا گیا ہے جو آپ کی ذات بابرکات کی برکت اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی نگہداشت کا مظہر ہیں۔ بیان کا مقصد حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾1

وَقَالَ اللہُ تَعَالٰیٰ:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾2

وَقَالَ اللہُ تَعَالٰیٰ:

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾3

''اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ''

معزز خواتین و حضرات! آج کل جو مہینہ گزر رہا ہے ہجری کا، ربیع الاوّل، یہ انتہائی مبارک مہینہ ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر مدینۃ المنورہ، انتہائی مبارک شہر ہے، کیونکہ اس کے ساتھ مکانی نسبت ہے۔ اس طرح یہ مہینہ ربیع الاوّل انتہائی مبارک مہینہ ہے جس کے ساتھ زمانی نسبت ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "نشر الطیب فی ذکر الحبیب" میں ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا مہینہ جو ولادت کا ہے وہ ربیع الاوّل ہے، اس پر سب کا اتفاق ہے، اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ پیر کا دن تھا یعنی دوشنبہ کا دن تھا۔ البتہ جو تاریخ ہے اس پر اختلافی روایتیں موجود ہیں۔ کچھ حضرات آٹھویں یا نویں کہتے ہیں، کچھ حضرات بارہویں کہتے ہیں۔ ان میں کون سا صحیح ہے اور کون سا غلط ہے، چونکہ جب دو روایتوں میں اختلاف پایا جائے نقلی طور پر، تو پھر اس میں درایت کے ذریعے سے فیصلہ ہوتا ہے کہ کون سی بات کیسی ہے۔ اب درایت کے مختلف ذرائع ہوتے ہیں، یعنی عقلی طور پر کیسے اس کو دیکھا جائے۔ تو اللہ جل شانہٗ نے چونکہ یہ کائنات جو ہے انتہائی منظم طریقے سے بنائی ہوئی ہے، اس کے اندر ذرّہ بھر بھی کمی بیشی کا امکان نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہر ایک چیز اپنے اپنے حساب سے چل رہی ہے۔

﴿اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ﴾4 کہ سورج اور چاند جو ہیں، یہ حساب کے ساتھ، لگے بندھے حساب کے ساتھ چل رہے ہیں‘‘۔

اس وجہ سے آج بھی حساب ہو سکتا ہے کہ کون سی تاریخ کو کون سا دن تھا، کون سی تاریخ کو کون سا دن بنتا ہے؟ یہ حساب ہو سکتا ہے۔ آپ شاید حیران ہوں گے کہ میں نے حساب کے ذریعے سے معلوم کیا۔ ظاہر ہے میں نے دوسرے حضرات کی Research جو ہے استعمال کی ہے، کہ آپ ﷺ نے جس سال حج کیا ہے یعنی جمعے کا دن جو تھا، اس دن کا چاند کتنے درجے اونچا تھا۔ یعنی یہ باقاعدہ حساب ہو سکتا ہے۔ تو آپ ﷺ کی جو ولادت کی جو تاریخ ہے، وہ عام الفیل کے لحاظ سے ہے، تو عام الفیل ایک تاریخی واقعہ ہے، اس سے کوئی انکار تو نہیں کر سکتا۔ اور ربیع الاوّل کا مہینہ تھا، یہ بھی اتفاقی ہوگیا۔ پیر کا دن تھا یہ بھی اتفاقی ہوگیا۔ آپؐ کی عمر 63 سال تھی، یہ بھی اتفاقی تھا۔ آپ نے جس سال حج کیا وہ جمعے کا دن تھا، یہ بھی اتفاقی تھا۔ یہ سارے Points اگر آپ لے لیں، یہ Data Points ہیں۔ ان Data Points سے جب آپ Curve گزارتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا جو یومِ ولادت تھا وہ آٹھ یا نو ہو سکتا ہے۔ آٹھ یا نو ربیع الاوّل، یہ بارہ والی بات غلط فہمی ہے۔ اور بعض لوگوں نے اس غلط فہمی کے لیے وجوہات بھی بتائی ہیں، لیکن میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ تاریخی واقعہ ہے، اور تاریخی واقعے کو اگر ہم عقلی بنیادوں پر اس کا Analysis کریں تو جو جواب آتا ہے وہ میں نے عرض کر لیا۔

اور یہ صرف میری بات نہیں ہے۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’سِيرَةُ النَّبِيِّ‘‘ میں ایک ترکی Astronomer ، جس نے Calclation کی تھی، اس نے پہلی دفعہ یہ بات بتائی تھی۔ انہوں نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ کہ یہ آٹھ یا نو ربیع الاوّل کو ہو سکتا ہے۔ آٹھ یا نو کیوں کہتے ہیں؟ کیونکہ چاند کے نظر آنے میں ایک دن کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ بالخصوص سعودی عرب کو اگر ہم اپنے ملک کے حساب سے دیکھیں تو چاند کا اختلاف بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ تقریباً دو گھنٹے کا فرق ہے۔ تو اس میں چاند اتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ وہاں نظر آ سکتا ہے اور یہ اتنا مطلب یہاں پر ممکن ہے نظر نہ آئے۔ تو اس وجہ سے یہ جو فرق ہے اس کو ہم دیکھتے ہیں، آٹھ یا نو ربیع الاول۔

جب یہ والی بات سمجھ میں آگئی تو اس سے ایک عجیب چیز سامنے آ رہی ہے جس کو اگر بیان نہ کیا جائے تو شاید خیانت ہوگی، اور وہ یہ ہے کہ دیکھئے اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے، چھوٹا واقعہ نہیں ہے، پھر ولادت کا تو خیر اس وقت تو آپ ﷺ کے ساتھ جماعت موجود نہیں تھی۔ لیکن وفات کے وقت تو جماعت پوری موجود تھی صحابہ کرام کی۔ تو اس طرح وفات میں بھی اختلاف ہے، اس میں بھی ربیع الاوّل کا مہینہ اتفاقی ہے۔ پیر کا دن اتفاقی ہے۔ 63 سال کی عمر اتفاقی ہے۔ اختلاف کس چیز میں ہے؟ تاریخ میں ہے۔ اس کا اگر مختلف روایات اور درایت کے ذریعے سے حساب لگایا جائے تو یکم یا دو ربیع الاوّل بنتا ہے، یا یکم یا دو ربیع الاوّل بنتا ہے۔ تو جب یہ والی بات سمجھ میں آگئی کہ اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے آپ ﷺ کے یومِ وفات کا، صحابہ موجود ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود ہیں، عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں، عثمان رضی اللہ عنہ موجود ہیں، علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ موجود ہیں۔ کسی نے بھی یہ روایت نہیں کیا کہ آپ کی وفات کون سی تاریخ کو ہوئی۔ بس پتہ چلا کہ اس کو منانا جو ہے، یہ اس حد تک غیر معروف تھا صحابہ کرام کے نزدیک کہ تاریخ تک ہی یاد نہیں رکھی۔ ہاں البتہ آپ کی کوئی سنت بھول جائے یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ ﷺ کے شمائل بھول جائیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ ایسے ایسے سبحان اللہ، یعنی روایتیں موجود ہیں کہ آپ کا پورا حلیہ بیان کیا ہے۔ شمائل ترمذی باقاعدہ مشہور کتاب ہے، پورا حلیہ بیان کیا۔ آپ ﷺ کی ایک ایک سنت پہ تحقیقات موجود ہیں۔ آپ ﷺ کے تمام باتیں جو اختیار کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، وہ ساری کی ساری بالتفصیل موجود ہیں۔ یہ نہیں موجود، اس کا مطلب کیا ہوا؟ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا مذہب ان چیزوں کے منانے کی طرف نہیں جاتا۔ اگر جاتا تو صحابہ کرام کے یہاں پہلے جاتا۔

دن منانے کا مطلب کیا ہے؟ کیا ہم نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَٰلِكَ اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ آپ کو صرف ایک ہی دن یاد کریں؟ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ، کیسے ہو سکتا ہے یہ؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کو ایک دن یاد رکھیں اور پھر بھول جائیں۔ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ اصل میں پوری زندگی:﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدْخُلُواْ فِى ٱلسِّلْمِ كَآفَّةً وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيْطَٰنِ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ﴾5 ’’ اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پہ نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔

اب دین میں داخل ہوجانا تو پورا پورا ہے۔ یعنی کوئی چیز رہ نہ جائے، کسی چیز میں غلطی نہ ہوجائے، شیطان سے Alert رہیں، نفس پہ ہم چوکنے رہیں، نفس کی کوئی خواہش اگر شریعت کے خلاف ہو تو ہم اس کو پورا نہ کریں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ آپ ﷺ کے یوم ولادت کو یاد رکھیں۔ ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے یوم ولادت کو رکھیں، عمر رضی اللہ عنہ کے یوم ولادت کو رکھیں، حضرت عثمان کے یوم ولادت کو یاد رکھیں، یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا، کیا کسی بڑے صحابی کا، یا کسی بڑے ولی کا۔ اس کا مطالبہ نہیں ہے۔ اس کا مطالبہ نہیں ہے۔ تو جب یاد رکھنے کا مطالبہ نہیں تو پھر عید منانے کا مطالبہ کہاں سے آگیا؟ اس دن کو عید منالو۔ بھئی! عید کا تعلق تو اعمال کے ساتھ ہے۔ عید کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے، غیر اختیاری واقعات کے ساتھ نہیں ہے۔ آخر روزے رکھے ہیں، اس کے بعد عید الفطر، روزوں کے ساتھ تعلق ہے۔ پھر آپ نے قربانی کی، عید الاضحیٰ، قربانی کرنے کا دن، اعمال کے لیے آیا۔ تعلق اس کا اعمال کے ساتھ ہے، تو اعمال کے Reference سے تو بات ہوگی۔ اس وجہ سے ہم پورا مہینہ جو ذکر کرتے ہیں اس کے ساتھ آپﷺ کی سنتوں کا ذکر کرتے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ اپنی سنتوں کو لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔ اور اس کا مطالبہ ہے:

﴿قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّوْنَ ٱللّٰهَ فَٱتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾6

’’اے میرے حبیب! اپنی امت سے کہہ دے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کر لو، اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگیں گے‘‘۔

یہاں تک فرمایا اللہ پاک نے۔ اور یہ بھی فرمایا:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾7 ’’البتہ بالتحقیق تمہارے لیے آپ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے پیروی کے لیے‘‘۔

تو آپ ﷺ کی ایک ایک ادا، آپ ﷺ کی ایک ایک سنت، یہ ہمارے لیے بہت بڑی اہم چیز ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ سنت کو یاد رکھیں، سنت پہ عمل کریں، آپ کے ساتھ محبت کریں، آپ ﷺ کے طریقے کے ساتھ محبت کریں، آپ کی ہر نسبت کے ساتھ محبت کریں۔ یہ ہمارے لیے وہ ہے۔ یہ مطلوب ہے۔ باقی یہ باتیں کہ صرف جذباتی انداز میں، بلکہ ذرا اگر میں عرض کروں تو ہلہ گلہ کے انداز میں ایک دن منالیں اور پھر بھول جائیں۔ اُس دن بھی سنتوں کو یاد نہ رکھیں، اُس دن بھی سنتوں کو کیا فرائض کو یاد نہ رکھیں، نماز کو یاد نہ رکھیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟ یہ کس قسم کی محبت ہے؟ دنیا میں ایسی محبت نہیں موجود کہ آپ جس کے ساتھ محبت کر رہے ہوں ان کی ایک ایک چیز کی مخالفت کرتے جائیں اور پھر کہیں ہمیں ان کے ساتھ محبت ہے۔ کتنی جھوٹی بات ہے یہ۔ ایسے جھوٹ سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے۔ بہت خطرناک بات ہے۔

اور پھر اس کے لیے دلیلیں ڈھونڈنا۔ یہ دلیلیں ڈھونڈنا اس حد تک مکروہ فعل ہے اس کے لیے، ایسی چیزوں کے لیے، کہ دیکھیں اس میں دعویٰ ہے کہ صحابہ کرام نہیں جانتے تھے، ہم جانتے ہیں۔ یہ مخفی دعویٰ ہے اس میں۔ کیونکہ جب ہم کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا، اس کا جواب نہیں دیتے۔ کہتے ہیں نہیں نہیں، اِس کا مطلب یہ ہے، اُس کا مطلب یہ ہے، اُس کا مطلب یہ ہے۔ دلیلیں دیتے ہیں، صحابہ کرام کے Reference سے کوئی حوالہ نہیں دیتے۔ بھئی! ہمارا دین سارا حوالوں کے بنیاد پر ہے، References کے بنیاد پر ہے۔ ہمیں ہر چیز کا Reference دینا پڑتا ہے۔ یا قرآن کی آیت یا حدیث شریف، کسی بزرگ کی، کسی عالم کی تحقیق، جو مستند ہو قرآن و سنت سے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہمارے ذہن میں وہ بات نہ آئے لیکن ان کے ذہن میں آ چکی ہو۔ وہ دلیل دیں گے۔ اگر وہ دلیل ہمارے نزدیک ہو تو پھر ہم اس کو مانیں گے۔ ہمارے پاس یہی بات ہے۔ جیسے ابھی میں نے حضرت کی باتیں بتائیں۔ تو یہ بات بہت اہم ہے۔ بہت ساری روایتیں ہیں۔ ان روایتوں کے اندر چھان بین ضروری ہوتی ہے۔ بالخصوص جس چیز کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ ہو، اس کی چھان بین بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کا سب سے بڑا Source ہمارے پاس آپ ﷺ ہیں۔

اب دیکھیں آپ ﷺ تشریف فرما ہیں صحابہ کرام کے ساتھ۔ اتنے میں ایک انتہائی حسین و جمیل شخص آتے ہیں۔ آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اس طرح یعنی زانو کو زانو کے ساتھ ملا کر۔ صحابہ کہتے ہیں، (اور راوی ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کہ ہم حیران ہوگئے کہ آپؐ کے قریب ایسے کوئی کیسے اس طرح جاسکتا ہے؟ یعنی ہم میں تو کوئی جرأت نہیں کر سکتا تھا اس طرح۔ اور پھر آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ جواب میں ایمان کے شعبے بتاتے۔ پھر پوچھتے ہیں اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ اسلام کے ارکان بتاتے ہیں ۔ پھر پوچھتے ہیں احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ فرماتے :

’’أَنْ تَعْبُدَ اللہَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘8

فرمایا کہ عبادت ایسی کرو جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو، گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو، اور اگر ایسا نہیں ہے تو بے شک وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہے ہیں۔ پھر اس کے بعد تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ شخص نہیں ہے۔ پھر آپ نے پوچھا، یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ اب دین سکھانے میں پہلی چیز کیا سکھائی؟ ایمان سکھایا۔ اس کا جواب کس نے دیا؟ آپ ﷺ نے دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی ہم ایمان رکھتے ہیں، اس کا سب سے پہلے حوالہ کون ہے؟ آپ ﷺ ہیں۔ کیونکہ اس میں سارے شعبے ایمان کے بتائے، اللہ پر ایمان ہو اور نبیوں پر ایمان اور فرشتوں پر ایمان، سارے بتا دیے ناں۔ تو ہمارے پاس حوالہ کون ہے؟ آپ ﷺ۔ تو ایمان کا بھی پتہ چلتا ہے کہاں سے؟ آپ ﷺ سے۔ پھر اسلام کا پتہ چلتا ہے کہاں سے؟ آپ ﷺ سے۔ پھر احسان کا پتہ چلتا ہے کہاں سے؟ آپ ﷺ سے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری تمام چیزوں کے حوالے تو آپ کی طرف ہیں۔ لہذا آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کے ساتھ اگر کوئی جھوٹ بولے، کوئی غلط بات منسوب کر لے تو پورے دین کی بنیاد متزلزل ہو سکتی ہے۔ یہ خطرناک بات ہے۔ لہٰذا اس کے لیے بہت خصوصی طور پر زور لگایا جائے۔ صحابہ کرام میں یہ بات تھی، اب سن لو، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بہت بڑے صحابی ہیں، فقیہ صحابی ہیں، فرماتے ہیں: امام نماز کے بعد دائیں طرف سے پھر کر بھی مقتدیوں کی طرف رخ کر سکتا ہے، بائیں طرف سے پھر کر بھی کر سکتا ہے۔ جس نے اپنے پھرنے کے لیے دائیں طرف کو لازمی کردیا، اس نے اپنی نماز میں شیطان کا حصہ بنا دیا، کیونکہ ہم نے آپ کو بائیں طرف بھی پھرتے دیکھا ہے۔ پتہ چلا کہ آپ ﷺ نے جو کیا ہو اپنی عقل کو اس کے خلاف استعمال نہ کرو۔ اپنی فکر کو اس کے خلاف استعمال نہ کرو۔ ذرہ بھر، بھی شبہ بھی ہو تو اس سے بھی نکلو۔ اب دیکھو اس میں ایک شبہ تھا کہ اگر کوئی اپنے۔۔۔۔ دائیں طرف اصل میں کیا ہے؟ کیونکہ ہر نیک کام کے لیے دائیں طرف سے ابتداء کی سنت ہے موجود۔ لہٰذا اگر کوئی اس پر عمل کر رہا ہو اور یہاں پر بھی اسی چیز کو بنیاد بنا لے، سوال آئے گا آپ پھر بائیں طرف کیوں پھرے تھے؟ Direct ٹکراؤ آئے گا، Confusion پیدا ہوگا۔ لہٰذا یہاں پر سنت کیا ہے؟ یہاں پر سنت یہ ہے کہ دائیں طرف بھی پھر سکتے ہو، بائیں طرف سے بھی پھر سکتے ہو۔ بس بات ختم ہوگئی۔ سنت ہی کو Redefine کر لیا، According ٹو حوالہ۔ ہم نے سنت کو اس طرح بیان کردیا، بجائے اس کے کہ ہم پرانے Knowledge کو استعمال کر لیں۔ نہیں، یہاں پر نیا Knowledge مل گیا۔ پتہ چل گیا کہ کسی ایک حدیث شریف سے، کسی ایک قرآنی آیت سے آپ پورے دین کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ یا اس سے متعلق تمام باتیں نہیں آپ وہ ثابت کر سکتے جب تک آپ نے پورے ذخیرے کو نہ دیکھا ہو۔ اس ذخیرے میں کہیں پر بھی اگر اس کو Re-explan کیا گیا ہو تو پھر اس Re-explanation کو ماننا پڑے گا۔ اور یہی غلطی کرتے ہیں بہت سارے ایسے لوگ جو اپنے آپ کو بہت ہوشیار کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اماموں کو بھی نہیں کوئی شے سمجھتے، ایسے لوگ بھی ہیں۔ وہ بھی یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ کسی ایک حدیث کو لیتے ہیں، باقیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے اوپر بہت بڑی عمارت کھڑی کردیتے ہیں۔ حالانکہ دوسری بھی موجود ہوتی ہے۔ ایک عالم تھے اس نے نماز پڑھائی۔ ایک نوجوان آدمی نے اس نے کہا کہ آپ نے سنت کے خلاف نماز پڑھی۔ اس نے کہا کیسے؟ میں نے کیا کیا؟ انہیں غالباً اٹھنے کے بارے میں کچھ اس طرح کہا۔ انہوں نے کہا آپ کی دو قسم کی سنتیں ہیں۔ ایک نوجوانی کی ہے اور ایک بڑھاپے کی ہے۔ آپ کون سی سنت کی بات کر رہے ہیں؟ کیونکہ بڑھاپے میں تو آپ ﷺ، ظاہر ہے اب دیکھو آپ ﷺ اگر ایسا نہ کر چکے ہوتے تو پھر بوڑھوں کو کتنی تکلیف ہوتی؟ تو اگر آپ ﷺ نے اپنے بڑھاپے میں اٹھنے کا مختلف انداز اپنایا ہو یا بیٹھنے کا مختلف انداز اپنایا ہو تو کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ بوڑھوں کو سہولت مل گئی۔ بوڑھوں کو سہولت مل گئی۔ تو اسی طریقے سے مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ یہ نہیں کہتے کہ بھئی آپ غلط کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں ابھی آپ کا علم نامکمل ہے۔ آپ کو دوسری احادیث شریفہ کو بھی جاننا چاہیے۔ یہی اصل میں بنیادی بات ہوتی ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ جو پورا ذخیرہ ہے قرآن کی آیتوں کا اور احادیث شریفہ کا، جب تک وہ سامنے مستحضر نہ ہو، اس وقت تک اس چیز کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔ ہاں البتہ ایک بات عذر ہے۔ جب تک آپ کو پتہ نہیں اور آپ نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کر لیا اور آپ نے پوری کوشش بھی کی، پتہ نہیں چلا، معافی کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر کسی صاحب نے آپ کو دوسری بات بتا دی کہ یہ یہاں پر یہ لکھا ہوا ہے، اور آپ پھر بھی نہ مانیں تو پھر ضد ہے۔ ہاں پھر ضد ہے۔ اور اگر آپ کہتے نہیں بس ٹھیک ہے جی مجھے پتہ نہیں تھا۔ مجھے سمجھ آگئی بات، بس پیچھے بات اپنی بات چھوڑ دی۔ یہ سبحان اللہ، یہ کہا کہ حق ہے، یہ صحیح بات ہے اور اس پر آپ کو ان شاء اللہ اجر ملے گا۔ ہمارے علماء کرام ایک لفظ ساتھ لکھتے ہیں، اگر آپ اندازہ کر لیں جس وقت کوئی تقریر کرتے ہیں یا کوئی تحریر لکھ لیتے ہیں، اس کے پیچھے ایک بات لکھتے ہیں۔ وہ کیا ہے؟ ’’وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ‘‘۔ اللہ کو پتہ ہے کہ اصل بات کیا ہے۔ حقیقت حال کیا ہے۔ اصل بات کا اللہ پاک کو پتہ ہے۔ یہ کیوں لکھتے ہیں؟ کہ میرے محدود علم کے مطابق جو بات میں نے کی وہ تو ایسی ہے۔ لیکن میں اس پر ضد نہیں کر رہا۔ میں اس کو فائنل نہیں سمجھ رہا۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اللہ کو ہی حقیقت حال کا پتہ ہے۔ بس وہ تیار رہتا ہے کہ اگر کسی نے مجھے دوسری بات بتائی اور وہ زیادہ مستند ہو تو میں اس کو مان لوں گا۔ ہمارے اماموں نے اس بات کو بہت زیادہ ماشاء اللہ مانا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تو یہ بہت بڑی بات تھی۔ امام صاحب اپنے بیٹے کو نصیحت فرما رہے ہیں۔ بیٹا! مناظرہ نہ کیا کرو، ہمارے وقتوں میں جو مناظرہ ہوتا تھا تو ہم اس بات کے لیے بات کرتے تھے کہ اگر یہ بات غلط ہو تو کوئی اس کو صحیح کردے۔ ہم اس بنیاد پر اپنی بات کر لیتے تھے کہ جو کوئی بات کسی کو معلوم ہو کہ ہماری بات غلط ہے وہ ہماری تصحیح کر لے تو ہم ماننے کے لیے تیار تھے۔ آج کل اس لیے ہو رہا ہے کہ جو مخاطب ہے، مناظر ہیں، ان سے کوئی غلط بات ہوجائے تاکہ ہم اس پر خوب رد کر لیں۔ یہ نفس کی بات ہے۔ مناظرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے اس واقعے کا حوالہ دے کر فرمایا وہ بھی اچھا دور تھا کہ کم از کم یہ تو چاہتے تھے نا کہ کوئی غلط بات کر لے تو ہم اس کا رد کر لیں۔ اب تو یہ ہے کہ چاہے غلط کہے یا صحیح کہے، ہم نے اس کا رد کرنا ہے۔ تو مناظرے میں آج کل ایسا ہوتا ہے۔ مناظرہ کوئی حل نہیں ہے بات کا۔ مناظرے کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے علماء آپس میں الجھتے ہیں۔ فیصلہ عوام پہ چھوڑتے ہیں۔ یعنی علماء کا فیصلہ عوام کر لے۔ اب یہ کتنی عجیب بات ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ دوبارہ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ ﷺ کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔ ہر چیز کے اندر کہ آپ نے کیسے کیا، اگر وہ ہمارے لیے ہو تب۔ کیونکہ بعض آپ ﷺ کے طریقے صرف جوآپ کے لیے تھے، وہ ہمارے لیے نہیں تھے۔ لہٰذا ہم اس کو عمل میں نہیں لائیں گے۔

آٹھویں فصل، بعض واقعات زمانہ طفولیت میں:

پہلی روایت: ابن الشیخ نے خصائص میں ذکر کیا ہے کہ آپ کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کی جنبش دینے سے حرکت کرتا تھا۔

دوسری روایت: بیہقی اور ابن عساکر نے حضرت عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت حلیمہ کہتی تھیں کہ انہوں نے جب آپ کا دودھ چھڑایا ہے تو آپ نے دودھ چھڑانے کے ساتھ ہی سب سے اوّل جو کلام فرمایا وہ یہ تھا:

’’اَللّٰہُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ كَثِيْرًا، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا‘‘۔

جب آپ ذرا سیانے ہوئے تو باہر تشریف لے جاتے، لڑکوں کو کھیلتے دیکھتے مگر ان سے علیحدہ رہتے یعنی کھیل میں شریک نہ ہوتے۔

تیسری روایت: ابن سعد و ابن نعیم نے اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضرت حلیمہ آپ کو کہیں دور جانے نہ دیا کرتی تھیں۔ ایک بار ان کو کچھ خبر نہ ہوئی، آپ اپنی رضاعی بہن شیما کے ساتھ عین دوپہر کے وقت مواشی کی طرف چلے گئے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا آپ کی تلاش میں نکلیں یہاں تک کہ آپ کی بہن کو ساتھ پایا۔ کہنے لگیں گرمی میں ان کو لائی ہو؟ بہن نے کہا کہ اماں میرے بھائی کو گرمی نہیں لگ رہی۔ میں نے ایک بادل کا ٹکڑا دیکھا جو ان پر سایہ کیے ہوئے تھا۔ جب ٹھہر جاتے تھے وہ بھی ٹھہر جاتا تھا اور جب یہ چلنے لگتے تو وہ بھی چلنے لگتا تھا، یہاں تک کہ اس موقع تک اس طرح پہنچے۔

چوتھی روایت: حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں طائف سے بنی سعد کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی۔ اس قبیلے کا یہی کام تھا اور سال سخت قحط کا تھا۔ میری گود میں میرا ایک بچہ تھا مگر اتنا دودھ نہ تھا کہ اس کو کافی ہوتا۔ رات بھر اس کے چلّانے سے نیند نہ آتی اور نہ ہماری اونٹنی میں دودھ ہوتا۔ میں ایک دراز گوش پر سوار تھی جو غایت لاغری سے سب کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ ہمراہی مجھ سے تنگ آگئے تھے۔ ہم مکہ آئے تو رسول ﷺ کو جو عورت دیکھتی اور سنتی کہ آپ یتیم ہیں، کوئی قبول نہیں کرتی۔ کیونکہ زیادہ انعام و اکرام کی توقع نہ تھی۔ ادھر ان کو دودھ کی کمی کے سبب کوئی بچہ نہیں ملا۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں خالی جاؤں۔ میں تو اس یتیم کو لاتی ہوں۔ شوہر نے کہا کہ بہتر شاید اللہ تعالیٰ برکت کرے۔ غرض میں آپ کو جا کر لے آئی۔ جب اپنی فرود گاہ پر لے آئی تو گود میں لے کر دودھ پلانے بیٹھی تو دودھ اتنا اترا کہ آپ اور آپ کے رضاعی بھائی نے خوب آسودہ ہو کر پیا اور آسودہ ہو کر سو گئے۔ اور میرے شوہر نے جو اونٹنی جا کر دیکھا تو تمام دودھ ہی دودھ بھرا تھا۔ غرض اس نے دودھ نکالا اور ہم سب نے سیر ہو کر پیا اور رات بڑے آرام سے گزری اور اس کے قبل سونا میسر نہ ہوتا۔ شوہر کہنے لگے حلیمہ! تو بڑے برکت والے بچے کو لائی ہے۔ میں نے کہا ہاں مجھ کو بھی یہی امید ہے۔ پھر ہم مکہ سے روانہ ہوئے اور میں آپ کو لے کر اس دراز گوش پر سوار ہوئی۔ پھر تو اس کا یہ حال تھا کہ کوئی سواری اس کو پکڑ نہیں سکتی تھی۔ میری ہمراہی عورتیں تعجب سے کہنے لگیں کہ حلیمہ ذرا آہستہ چلو۔ یہ تو وہی ہے جس پر تم آئی تھی؟ میں نے کہا ہاں وہی ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ بے شک اس میں کوئی بات ہے۔ پھر ہم اپنے گھر پہنچے اور وہاں سخت قحط تھا۔ سو میری بکریاں دودھ سے بھری آتیں اور دوسروں کو اپنے جانوروں میں ایک قطرہ دودھ بھی نہیں ملتا تھا۔ میری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے ارے تم بھی وہیں چراؤ جہاں حلیمہ کے جانور چرتے ہیں۔ مگر جب بھی وہ جانور خالی آتے اور میرے جانور بھرے آتے، کیونکہ چراگاہ میں کیا رکھا تھا وہ تو بات ہی اور تھی۔ غرض ہم برابر خیر و برکت کا مشاہدہ کرتے رہے یہاں تک کہ 2 سال پورے ہوگئے۔ اور میں نے آپ کا دودھ چھڑایا اور آپ کی نشو و نما بچوں سے بہت زیادہ تھی۔ یہاں تک کہ 2 سال کی عمر میں بچے بڑے معلوم ہونے لگے۔ پھر ہم آپ کو آپ کی والدہ کے پاس لائے۔ مگر آپ کی برکت کی وجہ سے ہمارا جی چاہتا تھا کہ آپ اور رہیں۔ اس لیے آپ کی والدہ سے اصرار کر کے وباءِ مکہ کے بہانے سے پھر اپنے گھر لے آئے۔ سو چند ہی مہینے کے بعد ایک بار پھر اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ مواشی پر گئے، بھائی دوڑتا ہوا آیا اور اپنے باپ سے کہا کہ میرے قریشی بھائی کو دو سفید کپڑے والے آدمیوں نے پکڑ کر لٹایا اور شکم چاک کیا۔ میں اس حال میں چھوڑ کر آیا۔ اس سے ہم دونوں گھبرائے ہوئے گئے۔ دیکھا کہ آپ کھڑے ہیں، مگر ہم خوف سے متغیر ہیں۔ میں نے پوچھا بیٹا کیا تھا؟ فرمایا دو شخص سفید کپڑے پہنے ہوئے آئے۔ مجھ کو لٹایا اور پیٹ چاک کر کے اس میں کچھ ڈھونڈ کر نکالا، معلوم نہیں کیا تھا۔ ہم آپ کو اپنے ڈیرے پر لائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ اس لڑکے کو آسیب کا اثر ہوا ہے۔ قبل اس کے کہ اس کا زیادہ ظہور ہو اس کو گھر پہنچائیں۔ میں والدہ کے پاس لے کر گئی کہنے لگیں تو تو اس کو رکھنا چاہتی تھی پھر کیوں لے آئی؟ میں نے کہا خدا کے فضل سے ہوشیار ہوگئے اور میں آپ کی خدمت کر چکی۔ خدا جانے کیا اتفاق ہوتا ہے اس لیے لائی ہوں۔ انہوں نے فرمایا، یہ بات نہیں سچ بتلا۔ میں نے سب قصہ بیان کیا۔ کہنے لگیں کہ ہرگز نہیں۔ واللہ! شیطان کا ان پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے کی خاص شان ہے۔ پھر انہوں نے بعض حالات حمل و ولادت کے بیان کیے جو پانچویں فصل کی دوسری اور تیسری روایت اور چھٹی فصل کی پہلی روایت کے آخر میں مذکور ہوئے۔ اچھا ان کو چھوڑ دو خیریت کے ساتھ جاؤ۔ اس روایت میں متعدد واقعات اور کرامات مذکور ہیں جیسے کہ ظاہر ہے۔ اور حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس لڑکے کا نام عبداللہ ہے اور یہ انیسہ اور جذامہ کے بھائی ہیں۔ اور یہ جذامہ شیما کے نام سے مشہور ہیں۔ اور یہ سب اولاد ہیں حارث بن عبد العزیٰ کی، جو شوہر ہیں حلیمہ کے۔ ( فی زاد المعاد) اور بعض اہل علم نے ان سب کے ایمان لانے کی تصریح کی ہے۔

تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کی جو پرورش تھی، وہ من جانب اللہ اس کا بندوبست تھا۔ اس وجہ سے جو ظاہری اسباب تھے وہ اس کے خلاف تھے۔ جو ظاہری اسباب تھے وہ اس کے خلاف تھے۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اسباب تھے، وہ پورے وافر موجود تھے۔ اس وجہ سے حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ النَّبِيُّ الْخَاتَمُ ‘‘ میں ایک فقرہ کہا ہے۔ اور وہ بڑا جذب کے انداز میں کہا ہے۔ اور فرمایا: کون کہتا ہے حلیمہ نے آپ کو دودھ پلایا، بلکہ حلیمہ کو، حلیمہ کی اولاد کو، حلیمہ کے سارے خاندان کو آپ کے ذریعے سے دودھ پلایا گیا۔ تو بات بالکل صحیح ہے کہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات ان کے کسی طریقے کے ساتھ بھی اگر کوئی تعلق بنالے، وہ بھی بابرکت ہوجاتا ہے۔ کسی بھی نسبت سے اگر آپ ﷺ کے ساتھ تعلق ہوجائے وہ بھی بابرکت ہوجاتا ہے۔ تو آپ ﷺ کے خود بابرکت ہونے کی کیا بات ہو سکتی ہے! وہ تو بہت ہی اونچی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کے ساتھ کردے اور جو صحیح بات ہے وہ ہمارے سمجھ میں بھی آجائے اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا ہوجائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. (الرحمٰن: 5) ترجمہ: ’’سورج اور چاند حساب میں جکڑے ہوئے ہیں۔‘‘

  2. ۔ (البقرة: 208) ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

  3. ۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘

  4. ۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘

  5. ۔ (صحیح البخاری، رقم الحديث: 50)

  6. ۔ (البقرہ: 208) ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

  7. ۔ (الأحزاب: 21) ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘

  8. ۔ (الأحزاب: 56) ترجمہ: ’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

ربیع الاول کی حقیقت اور سیرت مصطفیﷺ کی پیروی کا درست مفہوم - جمعہ بیان