اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ (ابراھیم: 7) وَقَالَ اللہُ تَعَالیٰ ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! اللہ جل شانہٗ نے بہت ساری چیزیں جوڑی جوڑی میں پیدا کی ہیں، مثلاً قویٰ یا جیسے فرمایا گیا ہے کہ نفس کے اندر دو چیزیں ہیں یا فجور ہوں گے یا تقویٰ ہوگا۔ اسی طرح دن اور رات ہیں، اندھیرا اور روشنی ہیں، اسی طرح اچھے حالات ہوتے ہیں اور مشکل حالات ہوتے ہیں۔ تو انسان کی پوری زندگی ان دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے، کچھ وقت یہ اچھے حالات میں ہوتا ہے، جس کو یہ پسند کرتا ہے اور کچھ وقت یہ مشکل حالات میں ہوتا ہے، جس کو یہ ناپسند کرتا ہے۔ پھر جو چیزیں ہم ناپسند کرتے ہیں، ان میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو واقعی ناپسند کرنا چاہئے کہ وہ بری چیزیں ہوتی ہیں، مثلاً کوئی بھی شخص ظاہری نجاست کو نہیں کھاتا یا نہیں کھانا چاہتا، تو یہ بالکل ٹھیک ہے، کوئی بھی بدبودار چیز کو پسند نہیں کرتا، یہ بالکل ٹھیک ہے، نہیں پسند کرنی چاہئے عام حالات میں۔ تو کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو واقعی ناپسندیدہ ہوتی ہیں، اگر کوئی اس کو ناپسند کرتا ہے تو بالکل ٹھیک ہے، صحیح ہے، فطرت کے مطابق ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پسند نہیں کرتے، ہمارے لئے ناخوشگوار ہوتی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اس میں خیر رکھی ہوتی ہے، اس کے لئے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ایک اصول فرمایا:
﴿وَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـــأً وَّهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ وَعَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــأً وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ: 216)
ترجمہ1: ’’اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے‘‘۔
اس طریقہ سے ایسی چیزوں کو جن کو ہم لوگ پسند نہیں کرتے، لیکن اللہ نے اس میں ہمارے لئے خیر ڈالی ہوتی ہے، ان کو برداشت کرنا اور ایسی بات نہ ہونے دینا، ایسا کام نہ ہونے دینا جو اللہ کو ناپسند ہے، یہ صبر کہلاتا ہے۔ یعنی اپنی پسند پر اللہ کی پسند کو ترجیح دینا، یہ صبر کا موقع ہے۔ دوسری طرف کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کو ہم پسند کرتے ہیں، اللہ پسند نہیں کرتا، تو ان کو تو نہیں پسند کرنا چاہئے، اس میں اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے، کیونکہ وہ نفس کی وجہ سے ہے اور ہمیں ان چیزوں کو پسند نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اللہ پاک نے اس کو ہمارے لئے نقصان دہ بنایا ہے، صرف ہم اپنے نفس کی وجہ سے اس کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں اور ہم بھی پسند کرتے ہیں، مثلاً اللہ پاک نے ہمیں ایک نعمت دی ہوئی ہے اپنے فضل سے اور اس کو ہم بھی پسند کرتے ہیں، مثلاً کسی کو اللہ جل شانہٗ خوبصورتی عطا فرماتے ہیں، تو یہ اللہ پاک نے دی ہے اور ہم بھی اس کو پسند کرتے ہیں۔ کسی کو اچھی آواز دی ہے، کسی کو اچھے خاندان میں پیدا کیا، کسی کو مال دے دیا، کسی کو آرام دے دیا، کسی کو شہرت عطا کی، یہ ساری چیزیں ہمارے نفس کے لئے بھی پسندیدہ ہیں، لیکن اللہ پاک نے اپنے فضل سے جائز طریقہ سے ہمیں میسر فرما دی ہیں۔ ایسی حالت میں پھر شکر کی ضرورت ہے، اِس وقت شکر کرنا چاہئے۔ جو چیز ہمیں نفع پہنچائے، وہ نعمت ہے۔ تو اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَلَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘۔
یعنی ان نعمتوں کا اگر تم شکر کرو گے تو اللہ فرماتے ہیں کہ میں ان کو مزید بڑھادوں گا۔ کیونکہ اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا عذاب سخت ہے۔
ہم ذرا اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ایک بھیک مانگنے والا شخص بھیک مانگتا ہے، اس کو کوئی آج کل کے دور میں ایک روپیہ دیتا ہے، جس کی کوئی زیادہ حیثیت نہیں ہے، لیکن وہ اس کو بہت شکریہ کے ساتھ قبول کرتا ہے، دعا کردیتا ہے آپ کے لئے اور اس کو بڑی چاہت سے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے آپ کے سامنے، تو آپ کا مزید دینے کو جی چاہے گا کہ یہ آدمی واقعی میں محتاج ہے کہ اس نے اس کی قدر کی ہے۔ لیکن اگر وہ آپ کی طرف پھینک دے کہ یہ کیا چیز ہے، اس سے آج کل کیا ہوتا ہے؟ تو چونکہ اس کا آپ کے اوپر حق تھوڑا ہے، اس لئے آپ کہیں گے کہ جاؤ جاؤ اپنا کام کرو، تو واقعی مانگنے والا نہیں ہے، یعنی تجھے ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ جو مل رہا ہے، وہ آخر باہر سے مل رہا ہے، اس نے اس پر کیا محنت کی ہے، تو اس کو تو شکریہ سے لینا چاہئے تھا، لیکن چونکہ اس نے اس کی توہین کرلی اور اس کو تھوڑا سمجھ لیا یا اپنی شان کو اس سے اونچا سمجھ لیا، ظاہر ہے پھر آپ کا بھی جی چاہتا ہے کہ اس کو کچھ نہ دیا جائے، بلکہ اگر آپ کا بس چلے تو ممکن ہے اس کو کچھ سزا بھی دے دیں (حالانکہ ایسا ہونا تو نہیں چاہئے، یہ تو ویسے ہی میں ایک بات کررہا ہوں، یہ صرف جذبات کی بات کررہا ہوں۔) لیکن اللہ تعالیٰ کا تو بس چل ہی رہا ہے، اللہ پاک تو کرسکتا ہے، فرمایا: ﴿اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ تو اس میں نعمتیں چھن جاتی ہیں اور عذاب اس پر مزید ہے۔ جب کوئی شخص کسی نعمت کی قدر کرتا ہے تو اپنے آپ کو اس نعمت کا اللہ کے ہاں مستحق بنا دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو مزید دیتا ہے۔ اور جب کوئی قدر نہیں کرتا تو وہ غیر مستحق ہوجاتا ہے، ناشکرا ہوجاتا ہے اور پھر اس سے وہ چیز چھین لی جاتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہماری خانقاہ میں ایک ملازم تھے، وہ اچھے چل رہے تھے ماشاء اللہ، لیکن اس میں حرص اور طمع کچھ بڑھ گئی، اِدھر اُدھر ساتھیوں سے کچھ باتیں گھم سم لینا شروع کیں کہ مجھے شادی کرنی چاہئے، کوئی دو لاکھ روپے دے دے تو اس کا کیا کم ہوگا۔ چونکہ وہ جانتا تھا کہ یہاں کچھ مالدار لوگ آتے ہیں۔ حالانکہ مالدار لوگ اپنی اصلاح کے لئے آتے ہیں، وہ آپ کے لئے تو نہیں آتے۔ اس نے اپنی اس position سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ میں ان سے کچھ فائدہ دنیا کا حاصل کرلوں، اس وقت تک تو وہ قابل برداشت تھا، لیکن جب وہ آگے مزید بڑھ گیا تو اس کو یہاں سے رخصت کرنا پڑا۔ جاتے وقت اس نے مجھے بہت کہا کہ میرا نقصان ہوجائے گا، مجھے ایسا موقع پھر نہیں ملے گا، لیکن میں نے کہا کہ میں اس میں کیا کرسکتا ہوں، ساتھیوں نے مشورہ کرلیا ہے، اس پہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ آپ کو یہ ساری چیزیں پہلے سمجھ میں آنی چاہئے تھیں، یعنی یہ نہیں کرنا چاہئے تھا، اب آپ نے کرلیا ہے، اور بار بار آپ کو warning بھی دی گئی ہے، لیکن آپ نہیں مان رہے تھے تو اب مجبوری ہے۔ تو بعد میں بہت بڑا پریشانیوں کا شکار ہوگیا تھا، ہمیں اس کی اطلاع ملتی تھی، لیکن جو ہونا تھا وہ ہوگیا، کس نے اس کے ساتھ کیا؟ اپنے ساتھ اس نے خود کرلیا۔ اسی طرح بعض لوگ ہوتے ہیں کہ بھائی مہربان ہوتا ہے تو وہ اس کے مال کو بے تحاشا اڑاتا ہے، اخیر میں وہ مجبور ہوجاتا ہے اور اس کا راستہ بند کرلیتا ہے۔ کبھی باپ کے ساتھ ایسی بات ہوجاتی ہے، کبھی کسی اور دفتر وغیرہ میں ہوجاتا ہے۔ تو یہ آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ شکر سے نعمت بڑھتی ہے اور ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے، چونکہ جیسا کہ یہ دو حالات لازمی ہیں، ان میں سے ایک نہ ایک ہوگا، ہر انسان کے ساتھ ہر وقت ایک نہ ایک بات ہوگی۔ جیسے روشنی ہوگی یا اندھیرا ہوگا، اِس وقت روشنی ہے اندھیرا نہیں ہے، اور رات کے وقت اگر بجلی وغیرہ on نہیں ہو تو اندھیرا ہوگا، روشنی نہیں ہوگی۔ اسی طریقہ سے یا اچھے خوشگوار حالات ہوں گے یا ناخوشگوار حالات ہوں گے یعنی دونوں میں سے کوئی ایک حالت ہوتی ہے، لیکن اللہ جل شانہٗ نے مسلمان کو ایسا عجیب بنایا ہے کہ ان کو ہر دونوں حالتوں میں خیر مل سکتی ہے کہ جو اچھی حالت ہے اس میں شکر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی نعمت کو بڑھا دے گا، اور جو مشکل حالت ہے اس میں صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی معیت کو حاصل کرے۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
تو دونوں صورتوں میں اس کا فائدہ ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
’’عَجِبْتُ مِنْ قَضَآءِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أصَابَهٗ خَيْرٌ حَمِدَ رَبَّهٗ وَشَكَرَ، وَإِنْ أصَابَتْهُ مُصِيْبَةٌ حَمِدَ رَبَّهٗ وَصَبَرَ، الْمُؤْمِنُ يُؤْجَرُ فِيْ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلٰى فِي امْرَأَتِهٖ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999)
ترجمہ: ’’مومن کی عجیب شان ہے، اگر اس کو کوئی خیر پہنچتی ہے تو اللہ کی حمد کرلیتا ہے اور شکر کرلیتا ہے۔ اور اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اللہ کی حمد کرلیتا ہے اور صبر کرلیتا ہے، (دونوں میں فائدہ ہے) پس (جو) مؤمن (ہوتا ہے اس) کو ہر حالت میں اجر ملتا ہے، حتّی کہ وہ جو لقمہ اپنی بیوی کو کھلانے کے لئے اس کے منہ کی طرف لے جاتا ہے، (اس پر بھی اس کو اجر ملتا ہے)‘‘۔
اور یہ بڑی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر حالت میں اپنے لئے خیر کما سکتے ہیں، ہر حالت میں اپنے لئے نقصان بھی کما سکتے ہیں، کیونکہ اگر اچھی حالت ہے اور ہم نے نعمت کا شکریہ ادا کیا تو اللہ پاک نعمت کو بڑھا دے گا، اللہ پاک ہم سے خوش ہوگا، ’’وَاللہُ یُحِبُّ الشَّاکِرِیْنَ‘‘ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے، اس لئے ہم اللہ کے محبوب بھی بن جائیں گے اور ماشاء اللہ! ہماری نعمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔
سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت بہت عظیم بادشاہت تھی، انہوں نے چیونٹی کی بات سنی، سبحان اللہ۔ کہاں سے سنی؟ پھر اس پر شکر ادا کیا کہ اے اللہ! تو نے مجھے یہ نعمت عطا فرمائی ہے، تو شکر سے نعمت مزید بڑھ گئی۔ تو اچھی حالت اگر ہو اور نعمت پر شکر ادا کرے گا تو نعمت مزید بڑھے گی ماشاء اللہ! اور اللہ بھی خوش ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنا محبوب بنا لے گا اور اگر مشکل حالت ہے، ناخوشگوار حالت ہے، اس پر صبر کرے گا تو صبر کی وجہ سے اللہ پاک کو اپنے قریب پائے گا۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
اور بڑی زبردست سرفرازی سے نوازا جائے گا۔
﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156۔157)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔
اب دیکھیں! مصیبت کے وقت اس نے صبر کرلیا تو کتنا زبردست انعام پا لیا کہ اللہ کی طرف سے رحمت کی خلعت عطا ہوگئی، رحمت کی چادر سے ڈھانپ دیا گیا اور پھر اس کے بعد اللہ پاک نے ان کو ہدایت سے سرفراز فرما دیا۔ تو یہ صبر کا انعام ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کرتا یعنی شکر نہیں کرتا اچھی حالت میں ہے، تو نعمت چھن جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا شدید عذاب ہوسکتا ہے۔ اور اگر صبر کی حالت میں صبر نہیں کرتا تو ناصبری سے کیا اس کی مصیبت ٹل جائے گی؟ بلکہ مصیبت بڑھ جائے گی۔ جیسے: ﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ والی بات ہے۔ تو اس میں جو بے صبری کرے گا تو مصیبت بڑھ جاتی ہے۔ وہاں جب شکر کرے گا تو نعمت بڑھ جاتی ہے اور یہاں جو بے صبری کرتا ہے اس کی مصیبت بڑھ جاتی ہے۔ اور وہاں جو نعمت اس کو حاصل ہونی تھی وہ اس کو حاصل نہیں ہوگی۔ اور خدانخواستہ اگر کوئی کلمہ ایسا زبان سے نکل گیا، جس سے انسان کا ایمان جاسکتا ہے، پھر تو دونوں جہاں کا خسارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو اپنے آپ کو قابو رکھنا پڑتا ہے دونوں قسم کے حالات میں، اس لئے یوں کہہ سکتے ہیں ہم کہ ہماری پوری زندگی میں ہمیں ان حالتوں میں اپنے آپ کو قابو رکھنا ہے ہر وقت ہر لمحے۔
اب دیکھیں! رمضان شریف کا مہینہ آجائے، صبر کا مہینہ ہے، تو صبر کرنا پڑے گا، بغیر صبر کے چارہ نہیں ہے، روزے رکھنے پڑیں گے اور صبر کرنا پڑے گا، پھر اللہ پاک خوشی عطا فرماتے ہیں عید الفطر کی اور ماشاء اللہ! اللہ پاک نواز دیتے ہیں اور اس وقت ماشاء اللہ! اللہ پاک سب کو بخشے بخشائے (جنہوں نے روزے رکھے ہوتے ہیں) اپنے گھر بھیج دیتے ہیں، انعام عطا فرما دیتے ہیں۔ اسی طریقہ سے عید الاضحیٰ ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صبر کیا تھا اپنے بیٹے کے ذبح ہونے پر، تو اللہ پاک نے مژدہ سنا دیا کہ تو نے اپنا خواب سچا کرکے دکھا دیا اور ان کو بہت اونچا مقام امامت عطا فرما دیا یعنی امامتِ انبیاء۔ تو اللہ نے بہت اونچا مقام عطا فرمایا اور اللہ پاک نے اس کے بدلہ میں قربانی کو ان کی سنت بنا دیا جو بعد میں سارے انبیاء دیتے رہے ہیں اور قیامت تک امت محمدیہ ﷺ یہ قربانیاں کرتی رہے گی اور سب کا ثواب ان کے پاس جارہا ہے۔ کتنا بڑا انعام اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا اُس صبر کے بدلے میں۔ اور ایسے ہی یہ صبر کا موقع رمضان شریف میں ہوتا ہے، اُس وقت اپنے نفس کو ایسی بات سے روکنا ہوتا ہے، جو اللہ کو ناراض کردے اور عید الفطر شکر کا دن ہوتا ہے، اس وقت ایسا کام نہیں کرنا ہوتا، جس سے ناشکری ہو، کیونکہ اس وقت میں ناشکری اللہ کو ناراض کرے گی۔ عید الفطر میں اپنی خوشی کو اللہ کی خوشی کے مطابق کرنا پڑے گا کہ اللہ جل شانہٗ اس سے خوش ہو، ایسی خوشی ہو، کیونکہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ لہٰذا اللہ کی رضا میں اپنی رضا کو فنا کرنا پڑے گا اور اپنی خوشی کو اللہ کی خوشی میں ماشاء اللہ شامل کرنا پڑے گا کہ ہم اس پر خوش ہوں جس پر اللہ خوش ہو۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم کرتے ہیں، لیکن پتا نہیں ایسے وقت پہ بھول جاتے ہیں، مثلاً گاؤں کے جو لوگ ہوتے ہیں یعنی چودھری، خان، ملک وغیرہ جو بڑے لوگ ہوتے ہیں، کبھی ان کے پاس کوئی اپنے کام کے سلسلہ میں جاتے ہیں تو خوشامدی لہجے میں کہتے ہیں کہ جی آپ ہمارے مائی باپ ہیں، آپ جو کہیں جی، بس ہمارے لئے وہی ٹھیک ہے۔ حالانکہ وہ انسان ہوتے ہیں، ان کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، کمزوریاں ہوتی ہیں، اور ان کو بھی پتا ہوتا ہے، لیکن ان کے سامنے کیسی بات کرتے ہیں کہ آپ ہمارے مائی باپ ہیں، جو آپ کہیں گے ایسے ہی ٹھیک ہے، جیسے آپ کی خوشی ہو۔ لیکن یہ چیزیں اگر ہم حقیقی طور پہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کریں کہ جیسے تیری خوشی۔ کیونکہ اگر ہم لوگ اپنی خوشی کو اپنے نفس کی خوشی کے مطابق کردیں گے تو نفس کے حالات اس پر طاری ہوجائیں گے اور نفس فانی ہے، تو یہ خوشی بھی فانی ہوگی، نفس باغی ہے، تو یہ خوشی بھی باغی ہوگی، نفس خسارے میں ہے (اگر اس کی تربیت نہ ہو) تو یہ خوشی بھی خسارے والی ہوگی یعنی نفس کے حالات اس خوشی پہ طاری ہوجائیں گے۔ اور اگر ہم یہ خوشی اللہ جل شانہٗ کی خوشی کے مطابق کرلیں تو اللہ باقی ہے، تو اس وجہ سے یہ خوشی بھی باقی رہے گی، اس کے اثرات بھی باقی رہیں گے، اس کا فائدہ بھی باقی رہے گا اور دیرپا ہوگا۔ اللہ جل شانہٗ نے بہت clearly بعض چیزیں سمجھائی ہیں، لیکن اصل میں بار بار سمجھانے کے باوجود ہمارے نفس کی وجہ سے وہ بار بار ہم بھول جاتے ہیں، وہ اتنی واضح باتیں ہیں کہ اس سے کوئی بھی انسان انکار نہیں کرسکتا، مثلاً کھانے کی لذت کتنی دیر تک ہے؟ ہم نے لقمہ منہ میں لے لیا، وہ منہ میں داخل ہوگیا اور پھر حلق کے اندر چلا گیا۔ اب لذت کا تعلق کون سی جگہ کے ساتھ ہے؟ پیٹ کے ساتھ ہے؟ پیٹ میں چلا جائے تو لذت ہوتی ہے؟ نہیں، پیٹ میں تو ہر ایک چیز چلی جاتی ہے، اس کا پھر کیا پتا چلتا ہے۔ یہی بس منہ ہی ہے حلق سے پہلے پہلے جو ہے، یہی اس کی لذت ہے، اگر اس کے بعد پیٹ میں چلا گیا تو لذت ختم، فائدہ نقصان کی بات میں نہیں کررہا ہوں، میں لذت کی بات کررہا ہوں، فائدہ تو بعد میں بھی دے سکتا ہے۔ اسی طریقہ سے دیکھنے کی جو لذت ہے، اس وقت ہے جب آپ دیکھ رہے ہیں، بس نظر ہٹ گئی تو بس ختم ہوگئی، آئینہ کی صورت میں ہے۔ سننے کی لذت ہے کہ بس آپ نے سن لیا تو وہ لذت ہے، اس کے بعد ختم۔ ایک دیوانہ تھا وہ نفسیاتی ماہر ڈاکٹر کے پاس آیا اور کہا ڈاکٹر صاحب! خواب یعنی نیند کا مزہ کب ہوتا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا نیند سے پہلے نیند کا مزہ ہوتا ہے، اس نے کہا جو چیز ابھی حاصل نہیں تو کیسے اس کا مزہ ہو؟ ڈاکٹر نے کہا نیند میں، اس نے کہا نیند میں تو انسان کو کچھ پتا نہیں ہے، ڈاکٹر نے کہا نیند کے بعد، اس نے کہا جو چیز ختم ہوگئی، اس کے بعد کیسے اس کو لذت ملے گی؟ تو ڈاکٹر اس کو مارنے کو دوڑا کہ تو مجھے بھی پاگل بنا دے گا۔ یعنی ایسے سوالات اس نے کیے کہ واقعتاً اس کا کیا جواب دیا جائے گا۔ لہٰذا انسان کی جو حسیں ہیں، یہ اگر نفس کے ساتھ connected ہیں تو نفس چونکہ فانی ہے، لہٰذا پھر اس کی تمام حسیں ایک فانی مزے کے ساتھ attach ہوں گی اور باقی چیزیں اس کو حاصل نہیں ہوں گی، لیکن اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے کہ اس کی نسبت اللہ کے ساتھ ہوجائے، تو پھر ہمیشہ کے لئے ہے، یہاں دنیا میں دیرپا اور وہاں ہمیشہ کے لئے اس کا فائدہ ہوگا۔ اس وجہ سے جو ہوشیار لوگ ہوتے ہیں، وہ دیرپا چیز چاہتے ہیں۔
ایک دفعہ میں عرض کررہا تھا کہ اللہ پاک نے فرمایا قرآن پاک میں:
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191) ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے‘‘۔
یہ عقلمند کون لوگ ہیں؟ اللہ پاک خود فرماتے ہیں: ﴿الَّذِیْنَ﴾ وہ لوگ ﴿یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ﴾ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے حالت میں، بیٹھے حالت میں، لیٹے حالت میں، ہر حالت میں، کیونکہ تین حالتیں ہیں۔ ﴿وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ﴾ اور کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں۔ پھر نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے اور نتیجہ ہے: ﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ﴾ اے رب ہمارے! تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا، لیکن مخلوق مخلوق ہے، خالق خالق ہے، ﴿سُبْحٰنَكَ﴾ تو پاک ہے تمام چیزوں سے۔ تمام مخلوقات کے اثر سے تو پاک ہے، مخلوقات تجھے متأثر نہیں کرسکتیں نہ وقت، نہ ان کا برا ہونا، نہ ان کا اچھا ہونا، غرض کچھ بھی تیرے اوپر اثر نہیں کرسکتا، ﴿سُبْحٰنَكَ﴾ تو تمام چیزوں سے پاک ہے۔ ﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ہمیں عذاب جہنم سے نجات عطا فرما۔ یہ عذابِ جہنم والی جو بات کی ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے یا ہوشیار لوگوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ مصیبت سے بچ جائیں، تکلیف سے بچ جائیں، یہ ان کی خواہش ہوتی ہے، کیونکہ قیامت میں آگ کا جو عذاب ہے، بہت سخت عذاب ہے، تو فوراً ان کا رخ اس طرف چلا گیا کہ بس ہمیں بھی عذابِ جہنم سے نجات عطا فرما۔ غفلت کی وجہ سے انسان ایسی چیز کو نظر انداز کرلیتا ہے، ورنہ یہاں دنیا کے لئے نظر انداز نہیں کرتا ہے، کیونکہ یہ عاجلہ ہے، یہاں ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا، مثلاً انسان ہٹا کٹا ہے، تو اس کو کوئی پروا نہیں، کسی کو نہیں بتاتا کہ میں ایسا ہوں، میں ایسا ہوں، بس ٹھیک ہے، غفلت کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی اس کو کوئی تکلیف ہو، چاہے چھوٹی سے چھوٹی جگہ پہ ہو، ناخن کے نیچے پھنسی نکل آئے، تو ڈاکٹر کے پیچھے بھاگے گا، ڈاکٹر صاحب! یہ ہوگیا۔ اُس وقت اُس کو آنکھیں بھول جائیں گی جو بالکل صحیح دیکھ رہی ہیں، کان بھول جائیں گے کہ وہ بالکل صحیح سن رہے ہیں، دل بھول جائے گا کہ وہ بالکل صحیح دھڑک رہا ہے، اس کے تمام نظام ٹھیک ہیں، اس کی ساری چیزیں بالکل بھول جائیں گی، اس کو صرف ایک ہی چیز یاد رہے گی، وہ ناخن کے نیچے جو پھنسی ہے، وہ یاد رہے گی۔ اور جب تک ڈاکٹر کامیاب نہیں ہوتا، اس وقت تک وہ ڈاکٹر کے ساتھ چمٹا رہے گا، کوشش کرے گا کم از کم۔ تو یہ جو عذاب سے بچنا ہے یہ انسان کی ایک فطرت ہے، اس کے لئے انسان سوچتا ہے، کوشش کرتا ہے، یہ اس کی اضطراری حالت ہے، کیونکہ خوشی پہ خوش ہونا اختیاری حالت ہے۔ اور یہ اضطراری کیفیت زبان پر سب سے پہلے آتی ہے: ﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ پس ہمیں عذاب جہنم سے نجات عطا فرما۔ یہ کیوں کہا؟ کہ غافل لوگ اس چیز کو نہیں جانتے کہ کتنی بڑی مصیبت ہے، لیکن جس کا ذکر ہے، وہ غافل نہیں ہے، وہ ذاکر ہے، ﴿الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ﴾ وہ تفکر کرنے والا ہے، ذکر فکر کرنے والا ہے، لہٰذا اس کو ہم غافل نہیں کہہ سکتے اور جو غافل نہیں ہوگا وہ اپنی اصلیت کو جانے گا، اپنی ضرورت کو پہچانے گا اور اپنی تکلیف سے بچنا چاہے گا اور اصل تکلیف سے بچنا چاہے گا اور وہ کیا ہے؟ وہ قیامت کا عذاب ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے جو عارفین ہیں ان کے بارے میں بتا دیا کہ عارفین ایسے ہوتے ہیں۔ یہ میں اس لئے عرض کررہا تھا کہ مصیبت اور تکلیف یہاں بھی ہوتی ہے، لیکن مصیبت اور تکلیف اصل وہاں کی ہے۔ اسی طرح خوشی یہاں بھی ہوتی ہے، لیکن اصل خوشی وہاں کی ہے۔ اگر یہاں پر مجھے کوئی مصیبت آجائے (اللہ بچائے ہم سب کو مصیبت سے) تو اس مصیبت پر صبر کے ذریعہ سے میں وہاں کی مصیبت سے بچ سکتا ہوں، وہاں کی تکلیف سے بچ سکتا ہوں اگر میں نے یہاں صبر کرلیا، یہ میری ضرورت ہے۔ اس کے لئے اللہ پاک نے جو ہمیں کلمہ عطا فرما دیا، سبحان اللہ! اتنا پیارا کلمہ ہے کہ اگرچہ عموماً اس کو لوگ سمجھتے ہیں کہ عام کلمہ ہے، حالانکہ بہت معرفت کا کلمہ ہے۔ وہ کیا ہے؟ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ یعنی بے شک ہم اللہ کے ہیں، اللہ کو ہمارے اندر تصرف کرنے کا پورا اختیار ہے، جیسے چاہے۔ گویا کہ انسان جس مصیبت سے، تکلیف سے کراہ رہا ہوتا ہے، تو بیشک اس تکلیف کی طرف اس کی نظر جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بھی بدگمانی کا ذرہ بھر بھی خیال نہ جائے۔ تو ’’اِنَّا لِلّٰهِ‘‘ (بے شک ہم اللہ کے ہیں) میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک کو ہمارے اندر مکمل تصرف کا حق حاصل ہے، لہٰذا ہم کیسے شکایت کریں، شکایت کو کیسے زبان پر لائیں۔ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ اور یہ بھی اس کو پتا ہوتا ہے (کیونکہ یہ معرفت ہے) کہ اللہ کے پاس ہی جانا ہے، یہاں کی مصیبت صرف نہیں ہے، بلکہ اُدھر بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا حساب کرے گا اور وہاں جو کامیاب ہوگا، وہی کامیاب ہوگا، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کامیابوں میں شامل فرما دے۔ وہاں پر یہ حالت ہوگی، اللہ فرماتے ہیں:
﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ وَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ مُّسْفِرَةٌ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ﴾ (عبس: 34-42)
ترجمہ: ’’یہ اس دن ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔ اور اپنے ماں باپ سے بھی۔ ور اپنے بیوی بچوں سے بھی۔ (کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔ اس روز کتنے چہرے تو چمکتے دمکتے ہوں گے۔ ہنستے، خوشی مناتے ہوئے۔ اور کتنے چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ ان پر خاک پڑی ہوگی۔ سیاہی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہوگا۔ یہ وہی لوگ ہوں گے جو کافر تھے، بدکار تھے‘‘۔
یہ منظر کشیاں کئی جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کی ہیں۔ فرمایا:
﴿یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌۚ﴾ (آل عمران: 106)
ترجمہ: ’’اس دن جب کچھ چہرے چمکتے ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے‘‘۔
اور جو سفید چہرے ہوں گے، وہ خوش حالت میں ہوں گے، خوشحالی میں ہوں گے اور جو سیاہ چہرے ہوں گے، وہ مصیبت میں ہوں گے، پریشانی میں ہوں گے۔ اور پھر اعمال نامے دیئے جائیں گے دائیں ہاتھ میں بھی دیئے جائیں گے، بائیں ہاتھ میں بھی دیئے جائیں گے، اڑ کے آئیں گے ان کے ہاتھ میں اور پھر کہا جائے گا خود ہی پڑھ لو، تمھارا خود پڑھنا ہی تمھارے لئے کافی ہے۔
﴿اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ﴾ (بنی اسرائیل: 13)
ترجمہ: ’’(کہا جائے گا کہ) لو پڑھ لو اپنا اعمال نامہ‘‘۔
یعنی اعمال نامہ کو خود پڑھو، تو خود اس کے لئے کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں تو ہونی ہیں۔ اور ساری باتیں ’’اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ میں آگئی ہیں یعنی جتنا قرآن نے وہاں قیامت کے حالات کا بتایا ہے، وہ ’’اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ میں وہ شامل ہیں، ہمارے تصور میں یہ ساری چیزیں آجائیں کہ کیا کیا ہونا ہے۔ تو اب دو حالتیں ہیں کہ ’’اِنَّا لِلّٰهِ‘‘ یہاں کے لئے ہے کہ بے شک ہم اللہ کے ہیں، جو تصرف بھی ہمارے ساتھ کرلے، وہ اس کا حق ہے۔ اور ’’اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ حساب کتاب ہوگا، ہم اس کے پاس ہی جانے والے ہیں۔ یہ دو حالتیں جن کی پکی ہوں مصیبت کے وقت، تو اس وقت پھر کیا ہوگا؟
﴿اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ﴾ (البقرۃ: 157)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے‘‘۔
یعنی ان لوگوں پر خصوصی رحمت چھا رہی ہوگی اللہ کی طرف سے اور ان لوگوں کو ہدایت ملتی ہوگی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صبر کی باتیں ہیں۔ اور صبر سے کیا ہوتا ہے؟ موجودہ مصیبت کے ذریعہ سے وہاں کی مصیبت سے بچنا اور یہاں کی نعمتوں پر شکر کے ذریعہ سے وہاں کی نعمتوں کو ماشاء اللہ! حاصل کرنا یعنی نعمتیں یہاں بھی ملی ہیں، لیکن سبحان اللہ! اللہ اس کو بڑھا دیتے ہیں اور وہاں تک پہنچا دیتا ہے، پھر یہ نعمتیں یہاں کی نہیں ہوں گی صرف، بلکہ پھر وہاں بھی وہ نعمتیں ہوں گی۔ یہ بات آج دل میں آگئی الحمد للہ کہ ’’لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ میں یہ شامل ہے کہ یہ جو نعمتیں یہاں پر ہمیں ملی ہیں، اس میں جو اضافہ ہے، وہ نہ صرف یہاں پر ہے، بلکہ اصل اضافہ تو وہاں ہے کہ یہ نعمتیں پھر اُدھر ملیں گی۔ بس ہمارے پاس یہ دو چیزیں ہیں، اب اگر عید کے دنوں میں ہم اپنے آپ کو control کرلیں، اپنی خوشی کو اللہ کی خوشی کے مطابق بنا دیں گے تو جو خوشی ہمیں ملے گی، وہ روحانی خوشی ملے گی، جو ہماری روح کو تروتازہ رکھے گی، دیرپا ہوگی، کیونکہ روح فانی نہیں ہے، نفس فانی ہے، اس لئے روحانی خوشی ہمیں حاصل ہوگی، جس کو ہم ساتھ لے جائیں گے ان شاء اللہ۔ لیکن جو نفس کی ہے تو نفس یہاں ختم ہوجائے گا، یہاں کی خوشیاں تو زیادہ سے زیادہ موت تک ہی ہیں، اس کے بعد تو نہیں ہیں۔ اس لئے میں نے آپ کو بتا دیا کہ خوشی جو ہوتی ہے، وہ کتنی تھوڑی دیر کے لئے ہوتی ہے۔ اسی لئے اللہ فرماتے ہیں:
﴿كَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ وَتَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَةَ﴾ (القیامه: 20-21)
ترجمہ: ’’خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرت ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو‘‘۔
لہٰذا یہ جو عاجلہ ہے اس میں ہم پھنس نہ جائیں، بلکہ عاجلہ کو ہم اپنی آجلہ کے لئے استعمال کردیں، بس یہی ہماری کامیابی ہے کہ جو بعد میں آنے والی ہے، مستقل ہے، اس کے لئے ہم اس عاجلہ کو استعمال کرلیں۔ لیکن آپ کو بات بتاؤں، سب سے آسان مثال اس کی وقت ہے، وقت ایک ایسی چیز ہے، جس کی definition سائنسدانوں کو چکرا دیتی ہے کہ وہ کیسے define کریں اس کو۔ لہٰذا اس کی Definition as reference ہوتی ہے، reference کے طور پہ definition ہوتی ہے، اس میں Absolute definition exist ہی نہیں کرتا وقت کی۔ تو وقت flow کررہا ہے، اس کو روک نہیں سکتے آپ، پانی کو آپ روک سکتے ہیں، مگر وقت کو آپ روک نہیں سکتے، بس جارہا ہے مسلسل، آپ اس سے فیض یاب ہوگئے تو ہوگئے، نہیں ہوئے تو گیا، بس وہ چلا گیا۔ ابھی میں بات کررہا ہوں، یہ حال ہے، ماضی ہوگیا بس، اور جو مستقبل پانچ منٹ کے بعد ہے، وہ پانچ منٹ کے بعد حال بن جائے گا اور پانچ منٹ کے بعد پھر ماضی بن چکا ہوگا۔ اب آپ کیا کرسکتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اب اتنی فانی چیز کو اس باقی کے لئے استعمال کرلیں تو کتنی بڑی ہوشیاری ہے۔ یہ جو فانی وقت ہے، یہ بالکل جارہا ہے، یہ آپ کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں، اگر آپ نے اس وقت اللہ کے امر کے مطابق اس کو استعمال کردیا، مثلاً اللہ پاک کی طرف سے بلاوا آگیا: ’’اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ آذان شروع ہوگئی، وقت داخل ہوگیا، اب اس وقت فوراً آپ نے اس پہ لبیک کہا اور اپنے تمام کاموں کو آگے پیچھے کرکے سمیٹ کر آپ مسجد کی طرف دوڑ پڑے اور آپ نے وہاں نماز پڑھ لی، تو بس وہ جو نماز آپ نے پڑھ لی، یہ ایک مستقل چیز ہوگئی، وہ ماشاء اللہ! آپ کا عمل جمع ہوگیا۔ لیکن اگر ہم نہ پڑھتے، تو وقت تو گیا تھا، اس کے ساتھ کیا کرسکتے تھے، اس کو روک تو نہیں سکتے، وقت کی نماز چلی گئی، اب تمھاری قضا نماز ہے، قضا نماز تم پڑھ سکتے ہو، اس کا گناہ معاف ہوسکتا ہے توبہ کے ساتھ، لیکن اس کا جو اجر مل رہا تھا، وہ کہاں گیا، وہ تو گیا، اب تو نہیں آسکتا۔ میں اس کی ایک بات عرض کرتا ہوں، بعض لوگوں کو شیطان وسوسے ڈالتا ہے مثلاً گناہ کے وسوسے، دینداروں کو جو گناہ کے وسوسے ڈالتا ہے، وہ کیسے ڈالتا ہے؟ کہ پھر بعد میں توبہ کرلینا۔ یعنی اب یہ گناہ کرلیں، پھر بعد میں توبہ کرلینا۔ یہ بہت ہی زیادہ جامع قسم کا وسوسہ ہے، یہ دینداروں کے ساتھ ہوتا ہے، مگر آپ نے توبہ تو کرلی اور توبہ کرنے سے کیا ہوا؟ گناہ معاف ہوگیا، اس سے انکار نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمایا:
﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے‘‘۔
گناہ سارے معاف ہوسکتے ہیں توبہ کے ساتھ، لیکن اس وقت جو آپ اچھے کام کرسکتے تھے، ان کا کیا ہوا، وہ تو نہیں آسکتے توبہ سے، توبہ سے تو گناہ معاف ہوتا ہے، تو آپ صرف گناہ کے اوپر کیوں نظر کرتے ہیں؟ آپ اس پر کریں کہ اس سے میں کما کیا سکتا ہوں۔ سب سے آسان چیز جو انسان کما سکتا ہے اور ہر وقت کما سکتا ہے، وہ ہے اللہ کا ذکر، جس پر اللہ نے کوئی پابندی نہیں لگائی، الّا کہ آپ لیٹرین میں نہیں کرسکتے، لیکن دل والا وہاں بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے پاس ایک زبردست قسم کی مشینری موجود ہے۔ ایک دفعہ میں سوچ رہا تھا، میں نے کہا کہ اف ہو! کاش میں حافظ ہوتا، تو میں چلتے چلتے قرآن کی تلاوت کرتا، کتنا مزہ آتا۔ اب یہ اچھی سوچ ہے، بری سوچ نہیں ہے، لیکن اس اچھی سوچ کو بے عملی کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے، عمل کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ اب بے عملی کی سوچ کیا ہے کہ میں صرف حسرت کروں کہ میں حافظ نہیں ہوں، اس وجہ سے میں کچھ نہیں کرسکتا، یہ بے عملی کی سوچ ہے اور عمل کی سوچ کیا ہے کہ میں اللہ کا ذکر تو کرسکتا ہوں، ذکر تو مجھے آتا ہے، ذکر سے تو مجھے کسی نے نہیں روکا، تو میں اس وقت اللہ کا ذکر کرسکتا ہوں، میں درود شریف پڑھ سکتا ہوں، میں استغفار کرسکتا ہوں، میں کلمۂ سوم پڑھ سکتا ہوں، میں کلمۂ چہارم پڑھ سکتا ہوں، میں نیک بات کرسکتا ہوں، تو یہ سارے کام میرے لئے کھلے ہیں، تو میں محروم تو نہیں ہوا۔ تو میں عملی سوچ اگر کر لانا چاہتا ہوں، اس میں میں اپنے لئے کچھ پسند کرلوں کہ جس چیز کے ساتھ میرا ذوق ہے، اس کو میں اختیار کرلوں۔ تو یہ جو عید کے دن ہوتے ہیں، اس میں اللہ کی بڑائی بیان کرنا ہے، اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرنا ہے۔ دیکھو! اللہ پاک نے قربانی کا گوشت دے دیا، یہ پسندیدہ گوشت ہے اور اتنا پسندیدہ ہے کہ آپ ﷺ عید قربان کے دن عیدگاہ جاتے ہوئے کچھ بھی نہیں کھاتے تھے، جبکہ عیدالفطر کے وقت میٹھا کھاتے تھے، لیکن عید قربان کے دن کچھ بھی نہیں کھاتے تھے اس وقت تک جب تک آپ ﷺ کی قربانی نہ ہوجاتی، قربانی کے بعد قربانی کے گوشت سے اپنا کھانا شروع کرلیتے، تو یہ گوشت اتنا پسندیدہ ہے۔ آپ ﷺ نے پوری امت کی طرف سے قربانی کی تھی، پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے تمام اونٹوں سے (یعنی سو اونٹ قربان کیے تھے تو جتنے بھی قربان کیے تھے، ان سے) تھوڑا تھوڑا گوشت لے کر اس سے شوربا بنایا اور اکٹھا اس کو پی لیا یعنی سب سے حصہ لے لیا، کیونکہ یہ پسندیدہ ہے۔ اب اگر آپ بھی قربانی کا گوشت کھاتے ہیں تو ذرا اس منظر کو یاد کرلیں آپ ﷺ والے، اور پھر اپنی اس خوشی کو حاصل کرلیں کہ دیکھیں! مجھے بھی اللہ نے قربانی کا گوشت عطا فرما دیا ہے، میں بھی آپ ﷺ کی سنت کو پورا کرتے ہوئے اس کو کھاتا ہوں اور شکریہ کے ساتھ، تو ماشاء اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو یہاں کی بھی خوشی دے دے گا اور وہاں کی بھی خوشی دے دے گا۔ پھر آپ ماشاء اللہ! لوگوں پہ خیرات کرتے ہیں، لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں، اس پہ مزید فائدہ ہے، پھر اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجتے ہیں، یہ صلہ رحمی کا تقاضا ہے، تو گویا کہ ایک عمل میں کتنے عمل ہمارے زندہ ہوجاتے ہیں۔
دیکھیں! جو دنیادار ہوتا ہے، وہ دین کی چیزوں سے بھی دنیا حاصل کرتا ہے، مثلاً ہم حریمین شریفین میں دیکھتے ہیں کہ لوگ سلام پڑھ رہے ہوتے ہیں آپ ﷺ پر، تو اس وقت کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بہت یکسو ہوکر سلام پڑھ رہے ہوتے ہیں، تو ان کے پاس جاکر اس کو ہلاتے ہیں کہ مجھےکچھ دو، حالانکہ وہ بھی ادھر ہی ہے، کہیں اور نہیں ہے، وہ مقام اس کو بھی حاصل ہے کہ وہ بھی اُدھر متوجہ ہوکر اللہ تعالیٰ سے مانگ لیتا، تو اللہ تعالیٰ کے پاس دینے کی کیا کمی ہے۔ ایک سید کا واقعہ لکھا ہے، شاید پیسے گم ہوچکے ہوں گے یا زاد راہ ختم ہوگیا تھا، کسی سے مانگ تو سکتے نہیں تھے، لہٰذا روضۂ اقدس کے پاس خاموش بیٹھ گئے، اب چونکہ ایک انسان ہے اور انسان کے ساتھ پیٹ لگا ہوا ہے، اس لئے وہ پریشان ہوگئے، تو مراقبہ میں آپ ﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ! اب مزید برداشت نہیں ہوتی یعنی جو بھوک ہے، وہ برداشت نہیں ہوتی، لیکن لوگوں سے نہیں مانگا، تو ابھی ادھر ہی بیٹھے تھے کہ تھوڑی دیر میں ایک شخص آئے، ان کو اپنی طرف متوجہ کیا، آیئے میرے ساتھ، کیوں؟ کہا آپ میرے مہمان ہیں، تو ان کو لے گئے اپنے گھر اور ایک پورا خوان نعمت ان کے سامنے رکھ دیا، جس پر طرح طرح کے کھانے تھے، اور کہا اس میں آپ کھایئے۔ ظاہر ہے مہمانی تو مہمانی ہوتی ہے۔ ہدیہ ہوتا ہے، اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لہٰذا انہوں نے کھا لیا، انہوں نے مانگا تو نہیں تھا۔ جب اچھی طرح کھا لیا تو میزبان نے کہا جی حضرت! میری جگہ دیکھ لی؟ فرمایا جی ہاں۔ کہا اب یہ آپ کا گھر ہے، جب تک آپ اِدھر ہیں، آپ یہاں کھائیں گے، آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے، بس ایک گزارش ہے، اور بڑی رونی صورت بنا کر ایک گزارش ہے کہ خدا کے لئے ہماری شکایت آپ ﷺ سے نہ کریں، ہم آپ ﷺ کی اولاد میں ہیں اور پھر آپ ﷺ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیوں ان کو یہ حالت پیش آئی؟ آپ لوگوں نے خود کیوں نہیں ڈھونڈا؟ اس وجہ سے بس آپ مہربانی کرکے ہماری شکایت نہ کیجئے گا۔ حالانکہ انہوں نے کوئی شکایت تو نہیں کی تھی، لیکن اندرون کچھ پتا نہیں کہ سلسلے ہیں، جو operate ہوتے ہیں۔ اب دیکھیں! اونچے در پہ سبحان اللہ! اپنا عذر پیش کیا تو اونچے در سے کیا نظام عطا ہوا، اس لئے اب چھوٹے چھوٹے دروں پہ کیوں پیش کرتے ہو؟ مانگو تو اللہ سے مانگو، اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے، بس وہاں مانگو، چونکہ دینے والا وہی ہے، راستہ بنا لیتا ہے، جس طرح بھی بنا دے۔
یہ میں اس لئے عرض کررہا ہوں کہ ہمیں خوشی جو ہے، یہ بھی آپ ﷺ کے طریقہ پہ (جو اللہ کی مرضی کے عین مطابق ہیں) گزارنی چاہئے، غم بھی آپ ﷺ کے طریقہ پر اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق چیز ہے، وہ اس کے مطابق گزارنی چاہئے۔ دونوں میں ہی خیر ہے، صبر کی حالت میں بھی خیر ہے، شکر کی حالت میں بھی خیر ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو مصیبت میں بھی مصیبت اور نعمت میں بھی مصیبت، یہ نعمت آپ کے لئے زہر بن جائے گی جب آپ نعمت کا شکر ادا نہیں کریں گے، اگر نعمت کا شکر ادا نہیں کیا تو آپ کے لئے یہی نعمت مسئلہ بن جائے گا، پوچھا جائے گا اس کے بارے میں، پھر کیا کرو گے، پھر کیسے جواب دو گے۔ لہٰذا نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہو اور مصائب کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ دل سے پڑھنا، دل سے سمجھنا اور اس کیفیت کے ساتھ کہ اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کا سمجھ کر اور پھر اللہ کی طرف لوٹنے کا جو concept ہے، وہ ذہن میں رکھ کر انسان کو صبر کرنا چاہئے۔ بس یہ دونوں حالتیں انسان کی کامیابی والی ہیں یعنی صبر اور شکر۔ جیسے یہاں پر آیا ہے کہ عجیب بات ہے مومن کے لئے کہ جب اس پہ کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کی حمد کرلیتا ہے اور صبر کرلیتا ہے اور جب کوئی اس پہ خوشی آتی ہے یعنی نعمت اس کو دی جاتی ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کرلیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر حالت میں اس کو خیر نصیب فرماتا ہے، حتیٰ کہ وہ جو بیوی کو لقمہ کھلاتا ہے، اس پر بھی اللہ پاک اجر عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا تعلق نصیب فرما دے اور ان توفیقات سے نواز دے اور ہماری تربیت صحیح اور بہترین تربیت فرما دے اور ہمیں ہمارے نفسوں کے حوالے نہ فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔