اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
معزز خواتین و حضرات! آج جمعہ کی رات ہے اور جمعہ کی رات ہمارے ہاں سیرت کے موضوع پر بات ہوتی ہے اور اس کے لئے ہم نے ’’سیرت النبی‘‘ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب، وہ انتخاب کی ہے۔ حضرت کا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ ’’سیرت النبیﷺ‘‘ اس میں پورا دین آجاتا ہے، کیونکہ دین آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلنے کا نام ہے، تو اس وجہ سے دین کے سارے شعبے سیرت سے متعلق ہیں اور ہمیں آپ ﷺ کی سیرت پاک سے پوری زندگی استفادہ کرنے کا حکم ہے اور جتنا جتنا ہمارے طریقے آپ ﷺ کے طریقوں کے مطابق ہوتے جائیں گے، اتنی اتنی ہمیں کامیابی ہوتی جائے گی اور ہم لوگ حقیقی اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے۔ تو آج نماز کے بارے میں بات ہے۔
نماز
﴿اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾1
اسلام کی عبادت کا یہ پہلا رکن ہے جو امیر و غریب، بوڑھے جوان، عورت مرد، بیمار و تندرست، سب پر یکساں فرض ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جو کسی شخص سے کسی حال میں بھی ساقط نہیں ہوتی۔ اگر اس فرض کو کھڑے ہوکر نہیں ادا کرسکتے تو بیٹھ کر ادا کرو اور اگر اس کی بھی قدرت نہیں ہے تو لیٹ کر کرسکتے ہو۔ اگر منہ سے نہیں بول سکتے تو اشاروں سے ادا کرو۔ اگر رک کر نہیں پڑھ سکتے تو چلتے ہوئے پڑھو۔ اگر کسی سواری پر ہو تو جس طرف وہ چلے اسی رخ پڑھو۔
نماز کیا ہے؟ مخلوق کا اپنے دل، زبان اور ہاتھ سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار، اس رحمان و رحیم کی یاد اور اس کے بے انتہا احسانات کا شکریہ، حسن ازل کی حمد و ثنا اور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار، یہ اپنے محبوب سے مہجور روح کا خطاب ہے، یہ اپنے آقا کے حضور میں جسم و جان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرض نیاز ہے، یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے، یہ خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی گرہ اور وابستگی کا شیرازہ ہے، یہ بے قرار روح کی تسکین، مضطرب قلب کی تشفی اور مایوس دل کی دوا ہے، یہ فطرت کی آواز ہے، یہ حساس و اثر پذیر طبیعت کی اندرونی پکار ہے، یہ زندگی کا حاصل اور ہستی کا خلاصہ ہے۔
اور میں اخیر میں عرض کروں کہ یہ کوئی شاعری نہیں ہے، حقیقی بات ہے۔ کیسے؟ اصل میں ہمارا جسم دو چیزوں کا مرکب ہے، جسم اور روح۔ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اس کو کہتے ہیں "نفسانیت"۔ اور روح کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اس کو کہتے ہیں "روحانیت"۔ عام زندگی میں ہر وقت ہم نفسانیت کی ضد میں ہوتے ہیں۔ عام طور پر عام زندگی میں ہم نفسانیت کی ضد میں ہوتے ہیں، ہمارا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ملنا جلنا، بات کرنا، دیکھنا، سونا، سننا، الغرض ہر چیز نفسانیت کی ضد میں ہے، نفس کی خواہشات میں گھرے ہوئے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، سن رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، بول رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، سوچ رہے ہیں، بھی نفس کی دعوت ہے، چل رہے ہیں، پکڑ رہے ہیں، سب کچھ نفس کی دعوت ہی دعوت ہے، اس میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب اس نفسانیت سے روحانیت کی طرف کیسے آجائیں؟ تو ایک ایسی چیز ہونی چاہئے، جس میں ہر چیز روحانیت ہو، جس میں نفسانیت نہ ہو، جس میں ہر چیز روحانیت ہو۔ جب اس قسم کی بات ہو تو کیسے ممکن ہے، جبکہ ہم لوگ اس طرح نفسانیت کے بھنور میں گھرے ہوئے ہیں۔ کیسے ہم باہر جائیں؟ کیسے ہم چلے جائیں ادھر سے؟ تو اللہ جل شانہٗ نے اسی تقاضے کی بنیاد پر تاکہ ہم لوگ یہ کرسکیں، اللہ جل شانہٗ نے ایک ایسی عبادت ہمیں عطا فرما دی، جو ہر شخص کو دن میں پانچ وقت یعنی کرنی پڑتی ہے پانچ وقت، صبح اس سے شروع اور رات سونے سے پہلے یہ مطلب وہاں تک۔ یہ مطلب گویا کہ ہماری پوری ایک دن کی، چوبیس گھنٹے کی ایک روٹین ہے، عین جس وقت سورج سر پہ کھڑا ہو، اس وقت بھی نماز ہے، جب شروع ہو رہا ہو یعنی جس کو کہتے ہیں روشنی شروع ہو رہی ہو، اس وقت بھی نماز ہے اور جس وقت روشنی کی آخری کرن بھی غائب ہو جائے، آسمانی روشنی کی، اس وقت بھی نماز ہے اور درمیان میں مزید دو نمازیں۔ پھر balance سبحان اللہ! یعنی آپ دیکھیں! ظہر کی نماز ہے، وہ تو وسط میں ہے۔ تو ایک عصر اور ایک مغرب کی نماز درمیان میں آگئی، تو اس طرف سے اشراق اور چاشت اگرچہ نفل ہے، لیکن یہ نماز بھی اگر ہم پڑھیں، تو ماشاء اللہ! وہ ایک balance آجاتا ہے۔ تو یہ جو نماز ہے، وہ کیا ہے؟ یہ اصل میں ہجرت ہے۔ نفس سے اللہ کی طرف ہجرت ہے، نفس سے اللہ کی طرف ہجرت ہے۔ آپ ﷺ کو معراج ہوئی تھی دنیا سے لامکان کی طرف، اس کو معراج شریف کہتے ہیں۔ تو یہ جو نماز ہے، یہ بھی اصل میں معراج ہے۔ ’’اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (نماز مومنین کی معراج ہے) یعنی گویا کہ اس میں ہم یہاں نہیں رہتے۔ جس وقت ہم نے تکبیر تحریمہ کہا، لوگ اصل میں ناموں پہ غور نہیں کرتے۔ تحریم کا مطلب کیا ہے؟ یعنی حرام کرنے والی۔ تکبیر تحریمہ یعنی ساری نفسانیت، تمام چیزیں، تقاضے حرام، اب نہیں کچھ کرسکتے۔ اب یہاں سے ہجرت کرلی، یہاں سے چلے گئے آپ، اب یہاں نہیں ہیں۔ باقی لوگوں کو بھی assume کرنا چاہئے کہ وہ یہاں نہیں ہیں اور خود کو بھی اپنے آپ کو assume کرنا کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ کوئی آپ سے بات نہیں کرسکتا، کوئی آپ سے مشورہ نہیں کرسکتا، سلام کرے، آپ جواب نہیں دے سکتے، کیونکہ آپ یہاں نہیں ہیں۔ تو جس وقت آپ کو یہ پتا ہے کہ میں یہاں نہیں ہوں اور جب آئیں گے، تو پھر "السلام علیکم ورحمۃ" اللہ، دوبارہ دنیا میں آپ آرہے ہیں، سلام کے ساتھ آپ آرہے ہیں۔ تو گویا یہ جو وقت تمھارا تھا، یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا روحانی طور پر، آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دے دیا کہ تم میرے ساتھ ہو جاؤ۔ آپ اگر اس کو ضائع کرلیں، یہ آپ کی اپنی بات ہے۔ کوئی بادشاہ اگر کسی کو وقت دے دے اور وہ ادھر ادھر وہ دیکھتا رہے۔ اس بادشاہی محفل کا فائدہ نہ اٹھا دے۔ تو ظاہر ہے قصور اس کا ہے، اگرچہ بادشاہ نے تو اس کو موقع دیا ہے۔ تو اس طرح ہر نماز کے اندر اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے کہ تم میرے پاس آجاؤ، تمام دنیا سے کٹ کٹا کے آجاؤ۔ یہ سورۃ مزمل میں اس کا اشارہ موجود ہے،
﴿وَتَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا﴾2 (یعنی کٹ کٹا کے اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ)
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ نماز کو روحانیت کا ایک وقت سمجھیں کہ روحانیت میں ہے، اسی وجہ سے روحانیت کے جتنے تقاضے ہیں، وہ سارے کے سارے اس میں رکھے گئے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ سب سے پہلے ثناء ہے یعنی اللہ پاک کی ثناء، پھر اس کے بعد دنیا سے روحانیت کی طرف لے جانے کے لئے جو اسباب ہیں، وہ سورۃ فاتحہ میں سارے موجود ہیں، پورے موجود ہیں۔ یعنی اگر آپ دیکھیں! تو یہ اصل میں عالم ناسوت سے عالم لاهوت تک کے لئے ایک سفر ہے اور اس میں جو موانع ہیں، اس سے بھی اپنے بچنے کے لئے دعا ہے۔ کیسے؟ سب سے پہلے آپ اپنا ایک مطلب اقرار کرتے ہیں، ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾3 یعنی سب سے پہلے یہ والی بات کہ تمام چیزوں سے کٹ کٹا کے آپ جتنی چیزوں کی تعریفیں کررہے ہوں، تعریفوں سے کٹ کٹا کے اصل تعریف کرنے والے کی طرف چلے جاتے ہیں یعنی جس کی تعریف ہوسکتی ہے، وہ ہے ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ پھر وہ دو نام ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾4 جس میں اس دنیا میں، اس دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، سارا اس کے تابع ہے، پھر ﴿مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾5 جن کے ساتھ ہمارا آخری زندگی کا سارا وابستہ ہے کچھ، پھر ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾6 یہ گویا کہ ہم لوگ اللہ کی عبادت کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اور اللہ ہی سے مانگنے کے لئے گویا اپنے آپ کو تیار کرلیتے ہیں۔ اس کے لئے سیدھے راستے پہ چلنے کا وہ ہے کہ اس پہ سیدھے راستے پہ چلیں، تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگیں، ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾7 پھر راستہ ان لوگوں کا یعنی صراط مستقیم پہ چلنا کیسے ہے؟ ان لوگوں کا راستہ جن پر انعام ہوا ہے، ان لوگوں کے راستہ پہ چلنا ہے، صراط مستقیم ہے، پھر by process of elimination معلوم کرنا ہے کہ کون سا نہیں ہے صراط مستقیم، ان لوگوں کا راستہ صراط مستقیم نہیں ہے، جو ﴿الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ﴾8 جن پہ اللہ کا غصہ ہے، وہ لوگ بھی صراط مستقیم پر نہیں، جو لوگ گمراہ ہوچکے ہیں۔ گویا کہ یوں سمجھ لیں پورے کا پورا دین کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں آگیا۔ پھر اس کے بعد۔۔۔ سورۃ فاتحہ تو فاتحہ ہے نا، اس کے بعد تو پورا قرآن ہے، تو اگرچہ قرآن پاک کے کچھ حصہ کی قرأت کرلیتے، لیکن آگے گویا کہ آپ کہتے میرے لئے قرآن کے اندر رہنمائی موجود ہے، اس سے میں رہنمائی لوں گا۔ پھر اس کے بعد اتنی عظیم ہستی جن کا تذکرہ ہوا۔ تو اب یہ بات ہے کہ اس کے سامنے جھک جائیں، اس کی عظمت کا احساس کرتے ہوئے ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘۔ پھر جس وقت ہم دوبارہ اٹھیں، تو ہم اس بات کا اقرار کرلیں کہ واقعتاً ہم نے جو حمد کی ہے اللہ تعالیٰ کی وہ اللہ پاک نے سن لی ہے ’’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ اور جب سن لی تو اپنی طرف سے بھی حاضری لگائیں ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘، پھر اس کے بعد تکبیر تو ہے ہر ہر لمحے میں۔ تو پھر جب انسان اعلیٰ کے سامنے جاتا ہے، تو اپنے آپ کو پستی میں پاتا ہے۔ جتنا انسان کسی اعلیٰ کے سامنے ہوتا ہے، اتنا ہی اپنے آپ کو پستی میں پاتا ہے، لہٰذا ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعَلیٰ‘‘ اس کے لئے ہم لوگ تمام کے تمام جھک جاتے ہیں یعنی سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس طریقے سے پوری رکعتیں ہم لوگ repeat کرلیتے ہیں۔ اخیر میں ہم لوگ معراج شریف کا ایک پورا rehearsal کرلیتے ہیں التحیات کی شکل میں، پھر درود شریف۔ پھر دعا۔
الغرض یہ ہے کہ یہ ساری باتیں مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ما شاء اللہ! یعنی نماز کی صورت میں مل رہی ہیں، نماز کی صورت میں مل رہی ہیں۔ تو جیسے میں عرض کررہا تھا کہ یہ کوئی شاعری نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے نماز، اس کو ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے۔
کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا، اس کے حضور میں دعا فریاد کرنا، اور اس سے مشکلوں میں تسلی پانا انسان کی فطرت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل کی گہرائیوں میں کوئی ساز ہے، جو نامعلوم انگلیوں کے چھونے سے بجتا رہتا ہے، یہی ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ﴾9 کا فطری جواب ہے۔ قرآن نے جابجا انسانوں کی اس فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تم پر مصیبتیں آتی ہیں، جب سمندر میں طوفان اٹھتا ہے اور تمھارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے، تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو؟
ابھی بھی کرونا کے جو مسائل ہوئے ہیں، یورپ میں اس گندے ماحول میں بھی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ کے جلوس نکلے ہیں، جلوس نکلے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ صرف اس کو دنیا کے لئے کرتے ہیں، مطلب آخرت کا concept ان کا نہیں ہے۔ جب دنیا کی کوئی مصیبت آتی ہے، تو اس وقت وہ اللہ پاک کا نام لیتے ہیں، محض نام لیتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ اللہ پاک نے یہ یاد دلایا ہے کہ تم جب پھنستے ہو تو کیا کرتے ہو۔
غرض انسان کی پیشانی کو خود بخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے جس کے سامنے وہ جھکے، اندرون دل کی عرضِ نیاز کرے اور اپنی دلی تمناؤں کو اس کے سامنے پیش کرے، غرض عبادتِ روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسانی روح کے جوش جنون کا علاج ممکن نہیں۔ وحشی سے وحشی مذہب میں بھی عبادت کے کچھ رسوم ان ندائے فطرت کی تسلی کے لئے موجود ہیں، پھر آسمانی مذاہب اس سے کیوں کر خالی ہوسکتے ہیں؟
اصل میں یہ واقعتاً میں نے جیسے عرض کیا ناں کہ روح انسان کے جسم میں موجود تو ہے اور اس کے اپنے تقاضے تو ہیں، لہٰذا جب اس کے تقاضے پورے نہیں کیے، تو پریشان ہوتی ہے روح، جب روح پریشان ہوتی ہے، بے اطمینانی ہوتی ہے اور یہی بے اطمینانی کے لئے جو علاج ہے، روحانیت ہے۔ اور وہ ظاہر ہے اللہ پاک کا ذکر ہے۔
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾10 تو کسی نہ کسی رنگ میں اس کو وہ کرتے ہیں انسان۔
چنانچہ دنیا کے ہر آسمانی مذہب میں خدا کی یاد کا حکم اور اس یاد کے کچھ مراسم موجود ہیں۔ اسلام میں اگر حمد و تسبیح ہے تو یہودیوں میں مزمور، عیسائیوں میں دعا، پارسیوں میں زمزمہ اور ہندوؤں میں بھجن ہیں۔ اور دن رات میں اس فریضہ کے ادا کرنے کے لئے ہر ایک میں بعض اوقات کا تعین بھی ہے۔ اس بنا پر یہ یقین کرنا چاہئے کہ نماز مذہب کے ان اصول میں سے ہے جن پر تمام دنیا کے مذہب متفق ہیں۔ قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا، جس نے اپنی امت کو نماز کی تعلیم نہ دی ہو اور اس کی تاکید نہ کی ہو۔ خصوصاً ملت ابراہیمی میں اس کی حیثیت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی ویران سرزمین میں آباد کرتے ہیں تو اس کی غرض یہ بتاتے ہیں کہ ﴿رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ (ابراہیم: 37) ’’اے ہمارے پروردگار تاکہ وہ نماز کھڑی کریں‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اور اپنی نسل کے لئے دعا کرتے ہیں کہ ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾11 ’’اے میرے پروردگار مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو نماز کھڑی کرنے والا بنا‘‘۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسبت قرآن پاک کی شہادت ہے۔ ﴿وَكَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ﴾ (مریم: 55) ’’اور وہ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیتے تھے‘‘۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کے ہم قوم طعنہ دیتے ہیں ﴿اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ﴾ (ھود: 87) ’’کیا تمھاری نماز تم کو یہ حکم دیتی ہے کہ ہمارے باپ دادا جس کو پوجتے آئے ہیں اس کو چھوڑ دیں‘‘؟ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی نسل کے پیغمبروں کے متعلق قرآن کا بیان ہے ﴿وَاَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ﴾ (الانبیاء: 87) ’’اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور نماز کھڑی کرنے کی وحی کی‘‘۔
یہی اس کتاب کا بہت بڑی ماشاء اللہ! خوبی ہے اس کتاب کی کہ اس میں ہر چیز کی سند موجود ہے۔ اب دیکھیں یہ بات جو کررہے ہیں کتنی مستند کررہے ہیں کہ قرآن سے اس کی دلیل دے رہے ہیں، ہر ہر چیز کی قرآن سے دلیل دے رہے ہیں۔
حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں ﴿یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ﴾ (لقمان: 17) ’’اے میرے بیٹے نماز کھڑی کر‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طہ: 14) ’’اور میری یاد کے لئے نماز کھڑی کر‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو حکم ہوتا ہے ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ (یونس: 87) ’’اور نماز کھڑی کیا کرو‘‘۔ بنی اسرائیل سے وعدہ تھا ﴿اِنِّیْ مَعَكُمْؕ لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ﴾ (المائدہ: 12) ’’میں تمھارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کھڑی کیا کرو‘‘۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی نسبت ہے ﴿وَهُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ﴾ (آل عمران: 39) ’’وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے‘‘۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں ﴿وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ﴾ (مریم: 31) ’’اور خدا نے مجھ کو نماز کا حکم دیا ہے‘‘۔
آیات بالا کے علاوہ قرآن سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے زمانہ میں بھی عرب میں بعض یہود اور عیسائی نماز پڑھا کرتے تھے۔
ابھی بھی پڑھتے ہیں ان میں بعض فرقے ہیں، تقریباً تقریباً ہماری جیسی نماز پڑھتے ہیں یہود میں، تقریباً مطلب کچھ فرق کے ساتھ۔
﴿مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآىٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُوْنَ﴾ (آل عمران: 113)
اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راتوں کو کھڑے ہوکر خدا کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ کرتے ہیں۔
قرآن کی تائید تورات اور زبور سے بھی ہوتی ہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے پرانے صحیفوں میں نماز کے لئے اصطلاحی لفظ خدا کا نام لینا تھا۔ چنانچہ تورات اور زبور میں نماز کا ذکر اسی نام سے آیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت ایل (بیت اللہ) کے پاس ایک قربان گاہ بنائی اور خدا کا نام لیا (پیدائش 12، 4) حضرت اسحق علیہ السلام نے خدا کا نام لیا (پیدائش 26-25) حضرت داؤد نے خدا کا نام لیا (زبور 177، 116) اور یہ اصطلاح قرآن میں بھی مستعمل ہوئی ہے ﴿وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾ (الاعلیٰ: 43) ’’اور اپنے رب کا نام لیا‘‘۔ پس نماز پڑھی، اس معنی کی اور بھی آیتیں قرآن پاک میں مذکور ہیں، یہودیوں کے پچھلے صحیفوں سفر دانیال وغیرہ اور عیسائیوں کے تمام صحیفوں میں نماز کے لئے دعا کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عربی لفظ صلوٰۃ کے ہم معنی ہے۔ اس لیے انجیل کے اردو مترجموں نے اس کا ترجمہ نماز کیا ہے (متی 17-21 اور متی 23-41)
حدیث میں بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی نماز کے تذکرے ہیں۔ مثلاً آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جب نماز پڑھو تو تہہ بند باندھ لو، چادر اوڑھ لو، یہودیوں کی طرح (ننگے) نہ پڑھو (ص72) تم یہودیوں کی طرح صرف اوپر سے نماز میں چادر مت ڈال لو، بلکہ اس کو باندھ لیا کرو (ص73) نماز میں یہودیوں کی طرح مت جھومو (ص112)
یہ یہودی جو ہیں ناں ابھی بھی جو۔ ان کی دو چیزیں بالکل وہ ہیں یعنی ابھی بھی قائم ہیں کہ ایک تو یہ جو جتنے بھی ان کے اذکار ہیں، اس میں وہ ہوتا ہے گنگنانا یعنی گانے کی طرز پہ، یہ ان کا ہوتا ہے۔ یہ ابھی بھی ہے۔ اور دوسرا جھومنا یعنی جس وقت یہ تلاوت کرتے ہیں، اس طرح، بالکل اس طرح کرتے ہیں یعنی یہ ابھی بھی اگر کوئی ان کو دیکھے، تو ان کو نظر آجائے کہ یہ جب تلاوت کرتے ہیں تورات کی، تو پھر اس طرح، اس طرح کرتے ہیں اور جب زور سے پڑھتے ہیں، تو بالکل گنگنانے کے انداز میں یہ پڑھا کرتے ہیں۔ یہ ابھی بھی ہے۔
تم یہودیوں کے برخلاف نماز میں موزے اور جوتے پہنے رہو (ص114) میری امت میں اس وقت تک دین کا کچھ نہ کچھ اثر رہے گا، جب تک لوگ یہودیوں کی تقلید میں مغرب کی نماز میں ستاروں کے نکلنے کا اور عیسائیوں کی تقلید میں صبح کی نماز میں ستاروں کے ڈوبنے کا انتظار نہ کریں گے (ص84) ان حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے یہود و نصاریٰ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو نماز ادا کرتے تھے۔
عرب میں جو لوگ اپنے کو دین ابراہیمی کا پیرو کہتے تھے ان میں بعض تو ایسے تھے کہ وہ کسی خاص طریقہ عبادت سے واقف نہ تھے۔ چنانچہ زید بن عمرو کا واقعہ گزر چکا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اے خدا! مجھے معلوم نہیں کہ میں تجھ کو کیسے پوجوں؟ یہ کہہ کر ہتھیلی اٹھاتے اور اسی پر سجدہ کرلیتے تھے۔ لیکن ایک دو ایسے بھی تھے جو کسی نہ کسی صورت سے نماز پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت ﷺ کی ملاقات اور اپنے اسلام لانے کے تین برس پہلے سے رات کو نماز پڑھ لیتے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس وقت آپ کس رخ نماز پڑھتے تھے؟ کہنے لگے جدھر رخ کرلیا۔ عرب کا ایک جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے
وَأُوْدِرَ كَنْ إِعْجَازًا مِّنَ اللَّيْلِ بَعْدَمَا
أَقَامَ الصَّلَاةَ الْعَابِدُ الْمُنْحَنِفُ
(اور ان سواریوں نے رات کے پچھلے حصہ میں اس وقت کے بعد جب کہ عبادت گزار حنیفی نماز پڑھ چکا تھا)
اس شعر سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں مذہب حنیفی کے پیرو پچھلی رات میں نماز ادا کرتے تھے۔
یہود کی بڑی جماعت نے نماز کو بھلا دیا تھا اور ان کی نماز صرف چند رسوم کا مجموعہ بن کر رہ گئی تھی اور نماز سے زیادہ انہوں نے قربانی اور نذرانوں پر زور دیا تھا، جن میں خلوص اور خدا پرستی کا شائبہ تک نہ تھا۔
عیسائیوں نے خدا کی نماز کے ساتھ ساتھ انسانوں کی نمازیں بھی شروع کردی تھیں، وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیھا السلام کے علاوہ اور بھی سینکڑوں ولیوں اور شہیدوں کی عبادت میں مصروف ہوگئے تھے۔
دین ابراہیمی کی پیروی کے مدعی صرف اپنے قیاس سے کچھ ارکان ادا کرلیتے تھے۔ الغرض آپ کی بعثت سے پہلے نماز کی خالص اور موحّدانہ حقیقت دنیا سے عموماً کم ہوچکی تھی۔ اس کی شکل و صورت اس قدر مسخ ہوگئی تھی کہ آج بھی ان کے صحیفوں میں اس کی شکل نظر نہیں آتی، نہ اس کے ارکان کا پتا لگتا ہے، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان الہامی صحیفوں کے حامل اور امانت دار اس فرض کو کس طرح ادا کرتے تھے، کن مؤثر دعاؤں کو پڑھتے تھے اور اس کی ادائیگی کے کیا اوقات تھے۔ جو کچھ ان میں رہ گیا تھا، وہ صرف عملی رسم و رواج اور بعد کے مذہبی مقتداؤں کی کچھ تجویزیں جن پر مذہبی فریضہ سمجھ کر عمل کیا جارہا تھا۔ سجدہ جو نماز کی روح اور نیاز الہیٰ کی انتہائی منزل ہے، اس کو یہود و نصاریٰ دونوں نے مشکل اور باعث تکلیف سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور اس طرح نماز کی ظاہری شکل و صورت بھی انہوں نے بگاڑ دی تھی۔ قرآن مجید میں ان کی اس صورت حال کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔
﴿فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَاۚ وَاِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُؕ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوْا مَا فِیْهِؕ وَالدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ وَالَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَؕ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ﴾ (الاعراف: 169-170)
’’ان کے بعد ان کے وہ جانشین ہوئے جن کو خدا کی کتاب باپ دادوں سے وراثت میں ملی، وہ صرف اس دنیاوی زندگی کا فائدہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو معاف کردیا جائے گا اور اگر ایسا ہی فائدہ اب بھی ان کے سامنے آئے تو لے لیں (اور مذہب کی پروا نہ کریں) کیا ان سے کتاب کا معاہدہ نہیں لیا گیا کہ وہ خدا کے متعلق سچ کے سوا کچھ اور نہ کہیں گے اور ان لوگوں نے جو کچھ اس (کتاب) میں ہے، اس کو پڑھا اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے ہے جو پرہیزگار ہیں، کیا تم نہیں سمجھتے؟ اور وہ لوگ جو کتاب کو مضبوطی سے پکڑیں اور انہوں نے نماز کو قائم کیا تو ہم اپنی حالت درست کرنے والوں کی مزدوری کو برباد نہیں کرتے‘‘۔
سورۃ مریم میں تمام انبیاء صادقین کے ذکر کے بعد خدا فرماتا ہے۔
﴿فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ﴾ (مریم: 59)
’’ان کے بعد ان کے جانشین ایسے ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کردیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی‘‘۔
نماز کے ضائع اور برباد کرنے سے مقصود نماز کو صرف چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ زیادہ تر اس کی حقیقت اور اس کی روح کو گم کردینا ہے۔ مسلمان جب اپنی نماز کے لئے ’’حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ‘‘ (نماز کے لئے آؤ) کا ترانہ بلند کرتے ہیں تو یہود و نصاریٰ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس پر قرآن نے ان کی نسبت یہ شہادت دی کہ ان کی خداپرستی کی روح اتنی مردہ ہوچکی ہے کہ جب دوسرے لوگ خدا پرستی کے جذبہ میں سرشار ہوتے ہیں تو وہ اس کو ہنسی کھیل بنا لیتے ہیں۔
﴿وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّلَعِبًاؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ﴾ (المائدۃ: 58)
’’اور جب تم نماز کے لئے آواز دیتے ہو تو وہ اس کو ہنسی کھیل بنا لیتے ہیں، یہ اس لئے کہ وہ عقل سے خالی ہوچکے ہیں‘‘۔
لیکن اب بھی جن کے اندر کچھ طلب باقی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں اتنے لتھڑے ہوئے نہیں ہیں کہ حق بالکل ہی ان کو نظر نہ آسکے، تو وہ انہی چیزوں سے متأثر ہوتے ہیں یعنی اذان سے متأثر ہوتے ہیں، باقاعدہ اذان کا اثر ہے۔ یعنی دوبئی میں ایک بڑی مسجد سے اذان ہورہی تھی تو کئی جو وہاں غیر ملکی آئے ہوئے تھے، تو وہ بہت زیادہ اس سے رو رہے تھے اس کے ساتھ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بہت مؤثر کن آواز ہے۔ یہ جو دعوت الی اللہ ہے، دعوت الی اللہ کی عظیم الشان صورت ہے اور اس کا ایک اثر یہ ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے۔ تو یہ جن کو بالکل یعنی صورتیں ان کی مسخ ہوچکی ہیں، تو پھر ان کی بات اور ہے۔
اہل عرب اور قریش جو اپنے آبائی مذہب پر تھے وہ گو نماز کی صورت سے کسی حد تک واقف تھے، مگر بھولے سے بھی اس فرض کو ادا نہیں کرتے تھے، بتوں کی پوجا، جنات کی دہائی، فرشتوں کی خوشامد، یہ ان کی عبادت کا خلاصہ تھا۔ حج و طواف یا دوسرے موقعوں پر وہ خدا سے دعائیں مانگتے تو ان میں بھی بتوں کے نام لے لیتے اور شرک کے فقرے ملا دیتے تھے۔ موحّدانہ خضوع و خشوع کا ان کی دعاؤں میں شائبہ تک نہ تھا۔ مسلمانوں کو جب کبھی نماز پڑھتے دیکھ لیتے تو ان کا منہ چڑھاتے تھے، دق کرتے تھے، دھکیل دیتے تھے، شور کرتے تھے، سیٹی اور تالی بجاتے تھے، چنانچہ ان کے متعلق قرآن نے کہا:
﴿وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصْدِیَةًؕ﴾ (الانفال: 35)
’’اور ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹی اور تالی بجانا ہے‘‘۔
اگلے مفسروں نے اس آیت پاک کے دو مطلب لئے ہیں، ایک یہ کہ واقعتاً وہ جو نماز پڑھتے تھے، اس میں سیٹی اور تالی بجایا کرتے تھے، دوسرے یہ کہ مسلمان جب نماز پڑھتے تھے، تو وہ سیٹی اور تالی بجا کر ان کی نماز خراب کرنی چاہتے تھے اور گویا یہی ان کی نماز تھی۔ پہلے معنی کی بنا پر تو ان کی نماز محض ایک قسم کا کھیل، کود اور لہو و لہب تھا اور دوسرے معنیٰ کی رو سے سرے سے ان کے ہاں نماز ہی نہ تھی، بلکہ دوسروں کو نماز سے روکنا یہی ان کی نماز تھی۔
ایک اور آیت میں ہے۔
﴿اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰى عَبْدًا اِذَا صَلّٰى﴾ (علق:9، 10)
’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو ایک بندہ کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے‘‘۔
ایک بندہ سے مراد خود آنحضرت ﷺ کی ذات ہے۔ آپ جب صحن حرم میں نماز پڑھتے تو قریش جو بے فکری کے ساتھ ادھر ادھر بیٹھے رہتے، کبھی آپ کی ہنسی اڑاتے اور کبھی دق کرتے، کبھی آپ کی گردن میں پھندا ڈال دیتے اور کبھی جب آپ سجدہ میں جاتے، پشت مبارک پر نجاست لاکر ڈال دیتے تھے۔ اور جب آنحضرت ﷺ کو اس بار نجاست سے اٹھنے میں تکلیف ہوتی تو ہنستے اور قہقہ لگاتے تھے، اسی لئے آنحضرت ﷺ اسلام کے آغاز میں تو اخفاء کے خیال سے اور اس کے بعد ان کے ان حرکات کی وجہ سے عموماً رات کو اور دن کو کسی غار یا درہ میں چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے اور مسلمان بھی عموماً ادھر ادھر چھپ کر ہی نماز پڑھتے تھے یا پھر رات کے سناٹے میں اس فرض کو ادا کرتے تھے۔ مشرکین اگر کبھی اس حالت میں ان کو دیکھ پاتے تو مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے تھے۔ ابن اسحٰق میں ہے کہ صحابہ جب نماز پڑھنا چاہتے تو گھاٹیوں میں چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت آگئی اس نے اس نماز کو بدعت (نیا کام) سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔
الغرض جب محمد رسول اللہ ﷺ نے انسانوں کو خدا کے آگے سربسجود ہونے کی دعوت دی تو اس وقت تین قسم کے لوگ تھے۔ ایک وہ (یعنی یہود) جو نماز تو پڑھتے تھے، لیکن عموماً اس کی حقیقت سے بیگانہ تھے۔ ان کی نمازیں بالعموم اخلاص و اثر سکون و دلجمعی، خشوع و خضوع اور خوف و خشیت سے بالکل خالی تھیں۔ دوسرے وہ (یعنی عیسائی) جو خدا کی نماز کے ساتھ انسانوں کو بھی اپنے سجدہ کے قابل سمجھتے تھے اور ان کی عبادتیں کرتے تھے اور وہ چیز جو توحید کا آئینہ تھی، ان کے ہاں شرک کا مظہر بن گئی تھی۔ تیسرے وہ (یعنی عرب بت پرست) جنہوں نے نہ کبھی خدا کا نام لیا اور نہ کبھی خدا کے آگے سر جھکایا، وہ اس روحانی لذت سے آشنا ہی نہ تھے۔
مطلب یہ ہے کہ جو روحانیت ہے، وہ ایک چیز ایسی ہے، جو انسان کی ضرورت ہے، لیکن جب انسان اپنی نفسانیت کے اس میں چکر میں اتنا پھنس جائے کہ وہ بالکل روحانیت کا سوچ بھی نہ سکے، تو جو دوسرا سوچتا ہے، اس کو وہ برا نظر آتا ہے، وہ برا نظر آتا ہے اس کو۔ یہی اصل میں وہ ہے کہ آج کل بھی جو لوگ اپنی نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں لگے ہوتے ہیں اور وہ اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرنا چاہتے، تو جو لوگ للّٰہیت کے ساتھ کام کررہے ہوتے تھے، وہ ان کے مخالف ہوجاتے، ان کے پیچھے باتیں کرتے، ان سے لوگوں کو نفرت دلاتے ہیں۔ ابھی آپ دیکھیں! مسلمانوں کے خلاف جو پوری دنیا کے اندر جو غلغلہ ہے، وہ کس وجہ سے ہے؟ وہ یہی ہے کہ وہ اس چیز سے آشنا بھی نہیں ہیں اور وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان ان کو ورغلاتا ہے کہ یہ کیوں اس طرح کرتے ہیں؟ یہ کیوں اس طرح کرتے ہیں؟ تو ان کے خلاف وہ ذہن سازی کرتے ہیں، ان کے خلاف جو ہے ناں وہ پروپیگنڈے کرتے ہیں۔
توحید کے بعد اسلام کا پہلا حکم:
آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے تو توحید کے بعد سب سے پہلا حکم جو آپ کو ملا وہ نماز کا تھا۔ ﴿یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ﴾ (المدثر: 1-3) ’’اے لحاف میں لپٹے ہوئے اٹھ، اور ہوشیار کر اور اپنے رب کی بڑائی بول‘‘
رب کی بڑائی بولنا یہی نماز کی بنیاد ہے، اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ نماز تکمیل کے مدارج طے کرتے ہوئی اس لفظ پر پہنچ گئی جو روحانی معراج کی آخری سرحد ہے۔ آپ نے سونے والوں کو جگایا، بھولے ہوؤں کو بتایا، انجانوں کو سکھایا، اور خدا اور بندے کے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑا، گوشت پوست کے، سونے چاندی کے اور اینٹ اور پتھر کے ان بتوں کو جو خدا کی جگہ کھڑے تھے، دھکیل کر نیچے گرا دیا۔ صرف ایک خدا کی نماز دنیا میں باقی رکھی اور خدا کے سوا ہر ایک کے سجدہ کو حرام قرار دیا۔ اس طرح آپ کی تعلیم کے ذریعہ سے نماز کی اصل حقیقت دنیا میں ظاہر ہوئی۔ آپ نے اہل عرب اور دنیا کی بت پرست قوموں کو نماز کا طریقہ بتایا، اس کے ارکان و آداب سکھائے، مؤثر دعائیں تعلیم کیں، عیسائیوں کو مخلصانہ عبادت اور ایک خدا کی پرستش کا سبق دیا۔ یہودیوں کو نماز کے خضوع و خشوع، راز و نیاز اور اخلاص و اثر سے باخبر کیا اور انبیائے عالم کی نماز کو اپنے عمل کے ذریعہ سے شکل و صورت اور روح و حقیقت دونوں کے ساتھ ناقابل تحریف اور غیر متغیر وجود بخش دیا حکم ہوتا ہے کہ:
﴿حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ﴾ (بقرہ: 238)
’’نمازوں کی نگہداشت کرو‘‘۔
یہ نماز کی ظاہری اور معنوی دونوں حیثیتوں سے نگہداشت کا حکم ہے اور مسلمان کی پہچان یہ مقرر ہوئی کہ
﴿وَهُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ﴾ (الانعام: 92)
’’اور وہ اپنی نماز کی نگہداشت کرتے ہیں‘‘۔
﴿الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَ﴾ (المعارج: 23)
’’جو اپنی نماز ہمیشہ ادا کرتے ہیں‘‘۔
﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ﴾ (المومنون: 9)
’’اور (کامیاب ہیں) وہ جو اپنی نمازوں کی نگہداشت کرتے ہیں‘‘۔
خود آنحضرت ﷺ کو حکم ہوتا ہے کہ خود بھی نماز پڑھو اور اپنے اہل عیال کو بھی اس کا حکم دو اور اس نماز پر جس کا مکہ کے قیام کے زمانہ میں ادا کرنا بہت مشکل ہے، پوری پابندی اور مضبوطی کے ساتھ جمے رہو، فرمایا
﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ﴾ (طہ: 132)
’’اور اپنے گھر والوں پر نماز کی تاکید رکھو اور خود بھی اس کے اوپر جمے (پابند) رہو‘‘۔
نماز کیسی ہونی چاہیے؟ فرمایا۔
﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ﴾ (البقرۃ: 238)
’’اور خدا کے سامنے ادب سے کھڑے رہو‘‘۔
یہ ادب جو ہے ناں، یہ بہت بہت بہت اہم بات ہے۔ جس طرح شرک سے بچنا بہت اہم بات ہے، کیونکہ اس میں للّٰہیت کی نفی ہے، اللہ جل شانہٗ سے روگردانی ہے، تو اسی طرح ادب یعنی ان چیزوں کا جو اللہ پاک نے مقام رکھا ہوا ہے ان چیزوں کا، اس سے روگردانی ہے، اب دیکھیں! قرآن پڑھا جارہا ہے، حکم ہوتا ہے خاموش ہوجاؤ، تاکہ تمھیں فائدہ ہو اس سے، اللہ تمھیں معاف کرے، رحم کرے تم پر۔ تو اس طریقہ سے ایک دینی مجلس ہے، وہاں پر اپنی دنیاوی چیزوں کا تذکرہ نہ ہو، مطلب ظاہر ہے دینی مجلس ہے، اگر آپ دنیاوی چیزوں کا تذکرہ ادھر بھی کریں گے، تو ظاہر ہے اس کی بے ادبی ہے یہ، مطلب اس طرح نہیں کرنا چاہئے۔ ٹھیک ہے، وہ دنیا کے تقاضے ہمارے ساتھ ہیں، لیکن اس کا ادب کا تقاضا ہے کہ وہاں پر ہم لوگ باادب رہیں اور باقی چیزوں کو اس وقت کم از کم بھول جائیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ورنہ پھر یہ ہوگا کہ ٹھیک ہے صرف اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا، جیسے نماز کی حالت ہے کہ نماز اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا، اگر کوئی ادب نہیں کرے سجدے کا یا رکوع کا یا تمام چیزوں کا، تو اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا۔ اس طرح یہ چلنا پھرنا بھی اٹھنا بیٹھنا رہ جائے گا، تو اس وجہ سے ادب کا بہت زیادہ زور ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ مجھے اللہ نے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا۔ ’’فَاَحْسَنَ تَأْدِیْبِیْ‘‘12 یعنی یہ والی بات ہے کہ جب بھی اذان ہو، تو ادب ہو، خاموشی کے ساتھ اس کو سنیں، اس کا جواب دیں۔ آج کل نہیں ہے، اس قسم کی چیزوں کے آداب نہیں ہیں، تو پھر نتیجہ سامنے ہے کہ ہمیں ان چیزوں سے وہ فائدے حاصل نہیں ہوتے۔ تو یہ جیسے ہمیں شرک سے بچنے کی اہمیت بتائی گئی ہے، اس طرح ادب کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اب شیطان کا کام کیا ہے؟ یہ ہے کہ وہ شرک سے بچنا اگر کوئی چاہتا ہے، تو بالکل بچو، بالکل بچو، یہ سب سے اعلیٰ۔۔۔۔ لیکن اس کو اس میں بے ادب بنا لیتا ہے۔ اور ادب کی جو بات کرتا ہے، تو کہتا ہے، بالکل ادب کرو، ادب بہت اچھی چیز ہے اور وہ ادب میں شرک کی طرف لے جاتے ہیں۔ تو ہمارا طریقہ کیا ہے کہ نہ تو شرک ہو اور نہ بے ادبی ہو۔ اور اس کا بہترین مظاہرہ جو ہے، وہ قرآن پاک میں ایک جگہ پر ہے، دو آیتیں بالکل پاس پاس ہیں، ایک آیت ہے جس میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جس نے شرک کیا، وہ ایسا ہے جیسے وہ آسمان سے گرا یا پھر اسے کسی پرندے نے نوچ لیا یا کسی گہری کھائی کے اندر گر کے پاش پاش ہوگیا یعنی شرک کی بے انتہا خطرناک صورت بیان فرما دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بالکل فوراً جو آیت شروع ہے، ﴿ذٰلِكَ﴾ اور اسی طرح ﴿وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾13 ’’اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتے ہیں، وہ ان کے دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے‘‘
تو اس پر کسی نے کمنٹ کیا ہے کہ شاید یہ اس وجہ سے ہو کہ بعض دفعہ شرک کی رد میں لوگ بے ادبی کے مرتکب ہوجاتے ہیں، تو ان کو بے ادبی سے بچانا مقصود ہوتا ہے۔ تو یہاں پر جو ہے ناں مطلب ﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ﴾ کا کیا ترجمہ کیا ہے؟ ’’خدا کے سامنے ادب سے کھڑے رہو‘‘۔
تعریف کی گئی کہ
﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ﴾ (المومنون: 2)
’’کامیاب ہیں وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں‘‘۔
حکم ہوا کہ
﴿اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ﴾ (الاعراف: 55)
’’تم اپنے پروردگار کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارو‘‘۔
﴿وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا﴾ (الاعراف: 56)
’’اور اس (خدا) کو ڈر اور امید کے ساتھ پکارو‘‘۔
﴿فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَؕ﴾ (المومن: 65)
’’اور خدا کو پکارو اس حال میں کہ تم دین کو اسی کے لئے خالص کرنے والے ہو‘‘۔
اس اجمال کے بعد نماز کے تمام مباحث پر ایک تفصیلی نگاہ کی ضرورت ہے۔
تو یہ میرے خیال میں، اس کو پھر بعد میں کرلیں گے، لیکن یہ ہے کہ جیسے کہ حضرت نے بالکل بنیاد سے یہ باتیں کی ہیں، بنیاد سے کہ اول تو یہ بات ہمیں سکھائی ہے کہ عبادت کا مفہوم کیا ہے؟ بنیادی چیز کیا ہے؟ عبادت۔ پھر اس کے بعد عبادات کا سلسلہ شروع کیا ہے، نماز کا سلسلہ شروع کیا ہے، اور پھر اس کے بعد جو باقی امور ہیں، جو روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، حج ہے، ان تمام چیزوں کا تذکرہ۔۔۔ پھر اس کے بعد ان شاء اللہ! تو گویا کہ پورے دین کا احاطہ ان شاء اللہ العزیز! حضرت اس میں کرنا چاہتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ آپ ﷺ کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے۔
’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ‘‘
اور ڈرتا بھی ہے، لیکن پھر بھی میٹھے سے بچ نہیں سکتا، نتیجتاً بیماری اس کی بڑھتی جاتی ہے اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوجاتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے کہا، جو اس کا سپیشلسٹ ہے، تو اس نے کہا کہ ایک صاحب تھے، جس کو ہم نے روکا تھا کہ میٹھا نہیں کھانا، تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں، ہمارے سامنے وہ حلوہ کھاتا تھا اور ہماری طرف گویا کہ حقارت سے دیکھتا تھا، کہتے کہ میری زبان سے بڑے سخت الفاظ اس کے لئے نکلے اور میں نے اس سے کہا کہ تم اگرچہ اس بات پر فخر کرتے ہو، یاد رکھنا تمھاری موت بڑی عبرتناک ہوگی۔ ہاں جی! کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ایسا ہی ہوا، ظاہر ہے مطلب بڑی خطرناک بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں، جو شوگر کے بیمار ہوتے ہیں، اخیر میں یعنی جوڑ بیٹھ جاتے ہیں، دل کا مسئلہ ہوجاتا ہے، گردوں کا مسئلہ ہوجاتا ہے اور اس طریقہ سے مطلب دماغ پہ اثر ہوجاتا ہے، پتا نہیں کیا کیا چیزیں متأثر ہوجاتی ہیں، پورا جسم مریض ہوجاتا ہے۔ آنکھیں، آنکھوں میں پھر وہ انجیکشن لگانے ہوتے ہیں۔ تو یہ ساری باتیں جو ہیں ناں مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو پتا ہوتا ہے، لیکن، لیکن نفس غالب ہوتا ہے، نفس غالب ہوتا ہے، لہٰذا وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے رک نہیں سکتا۔ اب یہ ہے کہ جو نبی کی اتباع پہ یعنی اپنے آپ کو تیار کرے، اپنے نفس کو تیار کرلے اور نفس اس کی مان لے یعنی اس کی تربیت ہوجائے، تو اس نبی کی اتباع جو ہے، وہ اس کو دنیا میں بھی خیر پہنچائے گی یعنی دنیا میں بھی مطلب اس کا کھانا، پینا، چلنا، پھرنا ایسا ہوجائے گا کہ وہ خیر کی طرف جائے گا، شر کی طرف نہیں جائے۔۔۔۔ کیونکہ بے اعتدالی سے بیماریاں بڑھتی ہیں اور سنت میں بے اعتدالی نہیں ہے، سنت میں بے اعتدالی نہیں ہے، سنت میں ہمیشہ اعتدال پایا جاتا ہے۔
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
یہی تو بات ہے ایسی کہ جو سب کو سکھانی ہے
صحابہ نے جو سیکھا آپ سے کرکے وہ دکھلایا
تبھی تو مشعلِ راہ اُن کی ساری زندگانی ہے
نبی کی اِتباع میں کامیابی دو جہاں کی ہے
صحابہ کرام۔ صحابہ کرام نے تین نعرے اپنائے تھے۔ بالکل واضح، ’’اٰمَنَّا وصَدَّقْنَا‘‘ کہ ہم ایمان لائے اور ہم تصدیق کرتے ہیں، ذرہ بھر بھی درمیان میں کوئی اور چیز نہیں ہوتی تھی۔ ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا٘‘‘ ہم نے سن لیا اور ہم نے مان لیا، اس میں درمیان میں کوئی اور چیز نہیں ہوتی تھی۔ اور ’’بِاَبِیْ وَاُمِّیْ یَارَسُوْلَ اللہِ‘‘ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ یہ تین باتیں ان کی ایسی تھیں، جنہوں نے ان کو اس مقام پہ پہنچا دیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘14 جس پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں، تو جو بھی اس طریقہ کو اختیار کرے گا، تو وہی جس کو کہتے ہیں ناں وہ لوگ ہیں، جو ناجی ہیں، جو نجات پائیں گے۔
جو پیکر تھے سراپا صِدق کے صِدیق کہلائے
جو عشق و سوز سے پُر ہے یہی ان کی کہانی ہے
حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی سب سے بڑی بات یہی تھی کہ ان کا قلب ہر وقت آپ ﷺ کی محبت میں سرشار رہتا تھا اور ہر وقت جو آپ ﷺ کا تقاضا ہوتا تھا، اسی کے لئے ہی اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا حتیٰ کہ یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کی نماز میں سہو ہوگیا، تو کہتے تھے کہ کاش مجھے بھی اس وقت سہو ہوجاتا یعنی اس حد تک مطلب جو ہے ناں وہ۔۔۔۔ تو ان کی اس چیز نے ان کو اس مقام پہ پہنچایا کہ وہ سراپا صدق بن گئے اور صدیق کہلائے۔ ہاں جی! تو آپ ﷺ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا کہ وہ آپ سے اعمال میں آگے نہیں ہیں یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ میں، بلکہ ان کے دل کے اندر ایک چیز ہے، جس کی وجہ سے وہ آگے ہیں۔ ان کے دل کے اندر ایک چیز ہے جس کی وجہ سے وہ آگے ہیں۔ تو اصل بات یہ ہے کہ وہ یہی عشق و سوز جو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں تھا انہوں نے اس کو وہ مقام دلوایا تھا۔
فراست سے کہ جن کا کام ہر اک پُر تھا، تھے عمر
تھی دور اندیشی ان کی جو وہ دشمن نے بھی مانی ہے
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہر کام جو تھا، وہ فراست سے پُر تھا۔ اتنی گہری اور اتنی دور کی سوچ ہوتی تھی حضرت کی کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ اس وقت ان باتوں کا sense کرنا، جیسے چھاؤنیاں بنانا اور فوج کی ترتیب دینا اور ماشاء اللہ! وظیفے مقرر کرنا، یہ جو welfare soceity کا concept ہے، یہ، یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ اس وجہ سے ابھی تک Sweden میں، Norway وغیرہ میں جو وہ laws ہیں، welfare laws ان کو Umar Laws کہتے ہیں، Umar Laws کہتے ہیں، ابھی تک۔ ہاں جی! تو یہ ماشاء اللہ! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو بصیرت تھی، دور اندیشی تھی، وہ اتنی زیادہ۔۔۔۔ یہ بھی آپ ﷺ کی برکت سے۔
حیا اور جود کے پیکر مجھے عثمان یاد آئے
وفا کے سامنے اُن کی جھکی جو حکمرانی ہے
اس کا جو آخری شعر کا مصرعہ ہے، اس کو بہت کم لوگ اس تک پہنچتے ہوں گے کہ اس میں کیا کہا ہے؟ کہ وفا کے سامنے ان کی حکمرانی جھکی ہوئی ہے۔ کیا مطلب ہے اس کا؟ ہاں جی! دو باتیں فرمائی تھیں، دو حدیثیں تھیں، ان دو حدیثوں کے balance پر رہتے ہوئے انہوں نے اپنی حکمرانی کو قربان کردیا۔ دو حدیثیں تھیں، ایک حدیث یہ تھی کہ تمھیں ایک قمیض دی جائے گی اور لوگ تجھ سے وہ اتروانا چاہیں گے، تو اتارنا نہیں ہے۔ تو آپ فرماتے ہیں وہ قمیض جو ہے ناں خلافت ہے، لہٰذا جو مجھ سے مجھے، خلافت آپ ﷺ نے مجھے چونکہ حکم دیا کہ نہیں چھوڑنا، لہٰذا میں تو نہیں چھوڑوں گا۔ دوسری بات کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر اس امت میں ایک دفعہ تلوار چل پڑی، تو پھر یہ رکے گی نہیں، تو اپنے حق کے لئے تلوار نہیں چلائی۔ کیونکہ جو ہے ناں تلوار چلانے سے وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس کا start نہیں لینا چاہتا کہ میں اس کا مطلب وہ شروع کرنے والا بنوں۔ ہاں جی! تو یہ چیز جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ دو حدیثیں تھیں، جس کے ساتھ وفاداری جو ہے، مطلب اس نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ماشاء اللہ! یعنی حکمرانی کو یعنی گویا کہ گنوانے کے لئے تیار کرلیا۔
شُجاعت، علِم میں آگے علی کا نام رہتا ہے
قلم ہے ہاتھ میں دُشمن پہ تلوار بھی چلانی ہے
صحابہ ؓ اہل بیت و امہات المؤمنین سب کی
محبت دل میں ہو نِسبت رسول کی جس نے پانی ہے
یہ بھی ایک عجیب بات ہے اور سمجھ میں آ بھی سکتی ہے، لیکن پتا نہیں کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ جل شانہٗ راضی ہوتے ہیں آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلنے سے، یعنی اگر کوئی آپ ﷺ کے طریقوں کو ignore کرلے اور اللہ کو راضی کرنا چاہے، تو ممکن ہی نہیں۔ اور آپ ﷺ راضی ہوتے ہیں صحابہ کرام کے پیچھے چلنے سے، یعنی صحابہ کرام، اہل بیت اور امھات المؤمنین جو ان نسبتوں کی قدر کرتا ہے، تو وہ آپ ﷺ کی نسبت پا سکتا ہے، ہاں جی! ورنہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ تو یہ ایسی چیزیں ہیں، جو کہ ہمیں نہیں معلوم یا معلوم نہیں کرنا چاہتے، تو اپنے آپ کو اس ہدایت کے نظام سے کاٹنے والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ دَر وہ ہے کہ جس دَر کی، کی جبرائیل نے دربانی
شبیر بِن اِک خدا کے آپ (ﷺ) کی عظمت کِس نے جانی ہے
درود شریف
آج چونکہ جمعہ کی رات ہے اور جمعہ کی رات میں اور جمعہ کے دن آپ ﷺ نے کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے کا یعنی مطلب فرمایا۔۔۔ فرمائش فرمائی ہے۔ اس وجہ سے ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ درود شریف کی مجلس یا جمعہ کی رات کو ہو یا جمعہ کے دن کو ہو، ہمارا یہ طریقہ ہے اور ہم مختلف طریقوں سے درود شریف پڑھتے ہیں۔ ایک طریقہ تو آپ حضرات نے دیکھ لیا کہ درود تنجینا ہے، دوسرا عام درود شریف ہے، اور تیسرا ’’چہل حدیث شریف‘‘ ہے درود و سلام کی۔ یہ بھی ہم پڑھتے ہیں، پھر اس کے بعد ہم دعا کرتے ہیں۔
ترجمہ: ’’نماز قائم کرو‘‘۔(البقرۃ: 43)
(المزمل: 8)
ترجمہ: ’’تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔
ترجمہ:’’جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’جو روز جزاء کا مالک ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔
ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما‘‘۔
ترجمہ: ’’جن پر غضب نازل ہوا ہے‘‘۔
ترجمہ: ’’ (اور پوچھا تھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں‘‘۔ (الاعراف:172)
(ابراہیم: 40)
ترجمہ: ’’یا درکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔ (الرعد: 28)
حوالہ نہیں ملا، البتہ حدیث کا موضوع ہونا بتایا گیا ہے۔
(الحج: 32)
(سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2641)