اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾ (الاعلیٰ: 14-15) وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ﴾ (الفجر: 1-4) صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات! عموماً خطبہ کا ہمارا بیان موقوف ہوگیا تھا lockdown کی وجہ سے، اگرچہ خطبہ دیا جاتا تھا، لیکن آج دو بہت بڑی نسبتیں آپس میں جمع ہورہی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ یوم العرفہ ہے اور دوسرا یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہے۔ یوم العرفہ کی بھی بڑی اونچی نسبت ہے اور اس میں اللہ پاک کی طرف متوجہ ہونا، اللہ جل شانہٗ کے احکامات پر عمل کرنا، جن میں سب سے پہلا کام فجر کی نماز کے بعد سے تکبیرات کا شروع ہونا ہوتا ہے اور وہ شروع ہوچکی ہیں اور ہر نماز کے بعد ایک دفعہ اب یہ تکبیرات ہوں گی: ’’اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘۔ یہ ایک دفعہ کہنا واجب ہے مرد کے لئے بھی اور عورت کے لئے بھی۔ یہ تکبیرات ان شاء اللہ العزیز عید کے چوتھے دن تک جاری رہیں گی۔ اور اس کے بعد یہ ہے کہ الحمد للہ عرفہ کے دن کی برکات شروع ہوگئی ہیں۔ یوم عرفہ کے بارے میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ فِیْھَا: ’’صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّيْ أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهٗ وَالَّتِيْ بَعْدَهٗ‘‘ (سنن ابن ماجہ: 1730)
ترجمہ1: ’’میں اللہ پاک سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ ایک سال قبل کے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے‘‘۔
ما شاء اللہ! کافی سارے لوگوں نے روزہ رکھا ہوا ہوگا، سوائے حاجیوں کے۔ حاجیوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔ لیکن باقی سب کے لئے یہ مستحب ہے۔ ایک بات اور بھی یاد آگئی، بعض لوگ اس میں confuse ہوتے ہیں کہ حج تو کل ہوگیا، یوم عرفہ ہوگیا، آج ادھر عید ہے، تو ہمارا عرفہ کیسے آج ہے؟ اصل میں بات یہ ہے کہ ایک ہے حج، حج اصل میں دو چیزوں کا مجموعہ ہے، یعنی دو چیزوں کی وجہ سے آتا ہے، ایک یوم حج کا ہونا یعنی 09 ذی الحج کا ہونا اور دوسرا اس وقت عرفات میں ہونا۔ حج ان دو چیزوں کو مجموعہ ہے، یعنی اگر کوئی عرفات میں نہیں ہے اور 9 ذوالحج گزر گئی اور 10 ذوالحج کا صبح صادق کا وقت بھی ہوگیا تو وہ حاجی نہیں بن سکتا، وہ حاجی نہیں ہوگا۔ حاجی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ زوال کے بعد بے شک ایک لمحہ کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ کم از کم عرفات کے میدان میں موجود ہو۔ اور اگر دن سے رہ جائے، تو پھر رات میں صبح صادق تک کم از کم عرفات میں اگر یہ پہنچ جائے، تو بھی حج ہوسکتا ہے، وہ حاجی ہوجائے گا، البتہ دم اس پہ لازم ہوگا، وہ دم دے گا، لیکن یہ ہے کہ وہ حاجی ہوجائے گا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ‘‘ (سنن ترمذی: 889) یعنی حج اصل میں عرفہ ہے۔ پس عرفات کی حاضری اس کے اندر compulsory ہے۔ اس کے اندر کئی چیزیں ہیں، جو لازمی ہیں، جن میں سے ایک حج کی نیت بھی ہے۔ مثال کے طور پر وہ لوگ جو حج کی نیت کے بغیر وہاں کام کرتے ہیں، مثلا: ملازمین، تو وہ حاجی تھوڑے ہوجاتے ہیں، وہ حاجی نہیں ہوتے، کیونکہ انہوں نے حج کی نیت ہی نہیں کی۔ تو جنہوں نے حج کی نیت کی ہوتی ہے اور حج کی نیت سے وہ عرفات میں زوال کے بعد داخل ہوتے ہیں، وہ حاجی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا تعلق وہاں کے ساتھ ہے، کیونکہ وہیں پر حج ہے۔ لیکن جو یوم العرفہ ہے، یہ رمضان شریف کی طرح ہے۔ رمضان شریف جیسا کہ مہینہ جہاں پر بھی آگیا، جس وقت شروع ہوگیا، تو وہاں پر روزہ وہی ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر سعودیہ عرب میں روزہ آج شروع ہوگیا ہے اور ہمارے ہاں کل شروع ہوگا، تو ہمارا روزہ کل سے ہوگا اور ان کا روزہ آج سے ہوگا۔ یہ اس پر منحصر نہیں ہے کہ ہم ان کے ساتھ اکٹھا کرلیں، یہ چاند دیکھنے کے بعد سے ہے۔ ہمارا جو چاند دیکھا گیا ہے، اس کے حساب سے ہمارا عرفہ آج ہے اور ان کا جو چاند دیکھا گیا ہے، اس کے لحاظ سے ان کا عرفہ کل تھا، لہٰذا اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو تکبیرات ہیں، مثال کے طور پر ہم کل شروع نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ ہمارا عرفہ نہیں تھا۔ اب یہ تو کسی نے نہیں پوچھا کہ ہم نے تکبیرات کیوں نہیں شروع کیں؟ کیوں کہ ظاہر ہے کہ اس کا اس کے ساتھ تعلق ہے، یہ واجب ہیں۔ لہذا سعودیہ عرب والوں کی تکبیرات کل شروع ہوگئی تھیں اور ہماری آج شروع ہوچکی ہیں۔
انگلینڈ والے حضرات سے میرا رابطہ ہوگیا۔ اصل میں چونکہ میں نے اپنے گروپ میں پیغام دے دیا تھا کہ ان شاء اللہ آج درود شریف پڑھا جائے گا اور grand درود شریف کی مجلس ان شاء اللہ آج ہوگی۔ grand درود شریف کی مجلس میں اس کو اس لئے کہتا ہوں کہ درود شریف کی مجلس تو ہمارے ہاں ہر جمعہ کو ہوتی ہے اور جمعرات کو بھی ہوتی ہے، لیکن وہ صرف یہاں ہوتی ہے، لوگ اپنی اپنی جگہ پہ ہوتے ہیں، لیکن ان کا ہمارے ساتھ کوئی direct combination نہیں ہوتا، لیکن آج کی درود شریف کی مجلس میں سلسلہ کے جتنے بھی ہماری خواتین و حضرات ہیں، الحمد للہ! کثیر تعداد میں وہ شامل ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جگہوں پہ شامل ہوتے ہیں۔ بلکہ خواتین نے تو درود شریف پڑھنا شروع کردیا ہے، وہ درود شریف پڑھ رہی ہیں اور ان کو ٹائم دیا ہے کہ آٹھ بجے تک وہ اپنے درود شریف کی تعداد ہم تک پہنچا دیں۔ جتنا درود شریف انہوں نے پڑھا ہے، وہ تعداد ہم تک پہنچائیں، ان شاء اللہ عید الاضحیٰ کی اس مبارک رات میں آپ ﷺ کے روضہ پر پیش کیا جائے گا۔ خوش نصیب لوگ جتنا بھی اس میں حصہ پائیں، وہ اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ہم مرد لوگ یہاں پر جمع ہوں گے، ان شاء اللہ۔ آج چھ بجے سے لے کے سات بجے تک ہماری درود شریف کی مجلس ہے، اس کے بعد ان شاء اللہ اجتماعی دعا ہوگی اور یہ اجتماعی دعا آن لائن ہوگی، لہٰذا دور دور کے لوگ بھی جو درود شریف کی مجلس میں ہمارے ساتھ شامل ہیں، وہ بھی ان شاء اللہ اس دعا میں شامل ہوسکیں گے۔ یہ بہت اچھے مواقع ہوتے ہیں۔ اصل میں اس دور کے اپنے مسائل اور مشکلات ہیں، لیکن اس دور کے اپنے فوائد بھی ہیں، یہ چیزیں پہلے کب ہوسکتی تھیں۔ یہ چیزیں پہلے تو نہیں ہوسکتی تھیں، اب ما شاء اللہ یہ ہوسکتی ہیں۔ اب ما شاء اللہ ہم یہاں پہ بیٹھے ہوئے ہیں، انگلینڈ والے ہمارے ساتھ ہیں، امریکہ والے ہمارے ساتھ ہیں اور یورپ والے ہمارے ساتھ ہیں، سعودی عرب والے ہمارے ساتھ ہیں، ہندوستان والے ہمارے ساتھ ہیں، ملائیشیا والے ساتھ ہیں، یعنی جتنے بھی لوگوں کو اطلاع ہے، وہ ہمارے ساتھ ان پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں، لہٰذا یہ آج کل کے دور کے فوائد ہیں الحمد للہ۔ global village والا جو concept ہے، اس کے ذریعہ سے ما شاء اللہ! اب سارے آپس میں inter-connected ہیں اور ایک دوسرے سے مستفید ہوتے ہیں۔ بہرحال! یہ بات میں عرض کررہا تھا کہ آج ان شاء اللہ grand درود شریف کی مجلس ہوگی، اس میں اپنے اپنے بس کے مطابق مرد بھی شامل ہوں گے، عورتیں بھی شامل ہوں گی اور پھر ان شاء اللہ اجتماعی دعا بھی ہوگی۔ یہ راتیں اور یہ دن بہت زیادہ قیمتی ہیں، ہم لوگ اس کو تصور میں بھی نہیں لا سکتے۔ اس کو سمجھانے کے لئے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهٗ فِيْهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ‘‘۔ (سنن ترمذی: 758)
ترجمہ: ’’ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے‘‘۔
کیسا عظیم انداز ہے! فرمایا کہ ان دنوں کے علاوہ باقی دنوں میں جو نیک اعمال ہیں، وہ اتنے زیادہ قابلِ قبول نہیں ہیں، جتنے یہ ہیں۔ اور فرمایا کہ اس میں ہر دن کا روزہ یعنی ایک سے لے کر آٹھ تک ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور عرفہ کے بارے میں فرمایا کہ اس کے بارے میں میں امید کرتا ہوں کہ یہ ایک پچھلے سال اور ایک اگلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے جو کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، کہ یومِ عرفہ میں ہزار روزوں کا اجر ہے اور خوش نصیب لوگ وہ ہیں، (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل رکھے) جنہوں نے یہ روزہ رکھا ہے۔ اصل میں یہ دین کی بات ہے، دنیا کے معاملہ میں ہم لوگ آپس میں پوسٹوں کے لئے کرتے ہیں، تو اچانک اخبار میں پوسٹیں نکل چکی ہوتی ہیں اور بعض لوگ اخبار پڑھتے ہیں، بعض نہیں پڑھتے، پھر جب تاریخ گزرنے کے بعد پتا چلتا ہے، تو پھر وہ کہتے ہیں کہ اوہ! ہمیں بھی بتایا ہوتا، ہمیں بھی پتا ہوتا، ہم بھی apply کرلیتے۔ یا کبھی بازار میں کوئی ایسی چیز آجائے، جو نایاب ہو یا کمیاب ہو، تو جب وہ غائب ہوجائے اور پھر پتا چل جائے، تو کہتے ہیں کہ اوہ، یار! وہ چیز آئی تھی، ہمیں بھی بتا دیتے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان حریص ہے، وہ زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کا حریص ہونا اپنے اپنے لحاظ سے ہے، کوئی پیسے کا حریص ہے، کوئی عزت کا حریص ہے، کوئی لذات کا حریص ہے، کوئی ثواب کا حریص ہے۔ ثواب کا حریص ہونا تو بتایا گیا ہے، قرآن میں ہے:
﴿وَفِیْ ذٰلِكَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ﴾ (المطففين: 26)
ترجمہ: ’’اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہیے۔‘‘
تو اس پہ حریص ہونا بتایا گیا ہے، مقابلوں کی بات ہے، صحابہ کرام کے درمیان مقابلے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان کا آپس میں باقاعدہ مقابلہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے چندے کے لئے فرمایا، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت خوشحالی کی حالت میں تھے، تو جتنا مال تھا اس کا آدھا کر کے لے آئے اور دل میں بڑے خوش تھے کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آگے نکل جاؤں گا۔ خیر! آپ ﷺ نے قبول فرما لیا اور پوچھا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آدھا ان کے لئے چھوڑ آیا ہوں، آدھا ادھر لے آیا ہوں۔ فرمایا: ٹھیک ہے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، ان کے پاس جتنا کچھ تھا، وہ سب وہ جمع کر کے لے کے آئے تھے۔ وہ پیش کیا، آپ ﷺ نے وہی سوال فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے؟ فرمایا: گھر والوں کے لئے اللہ اور اللہ کے رسول کا نام کافی ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اوہ ہو! ان کے ساتھ مقابلہ بڑا ہی مشکل ہے۔ یہ آپس میں مقابلے ہوتے تھے۔ الحمد للہ! ابھی بھی بعض خواتین آپس میں مقابلہ کرتی ہیں، درود شریف میں مقابلہ کرتی ہیں اور اسی طرح دوسرے اعمال میں کرتی ہیں۔ اور بعض قرآن شریف کی تلاوت میں مقابلے کرتی ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے آپ بیتی میں فرمایا ہے کہ ہمارے گھر کی خواتین رمضان شریف میں ایک دوسرے کے ساتھ تلاوت میں مقابلے کرتی ہیں، تلاوت میں وہ مقابلہ کرتی تھیں۔ اگر کسی نے دو پارے تلاوت کی، تو کسی دوسرے نے تین پارے پڑھے ہوں گے، تین ہیں تو چار پڑھے ہوں گے۔ یعنی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گھر کے کام کاج بھی کرتی تھیں۔ تو یہ مقابلے کے دن ہیں، یہ خوشی کے دن ہیں۔
اور ان شاء اللہ کل ہماری عید ہے اور عید سے پہلے والی رات لیلۃ القدر کی رات کی طرح ہے یعنی بہت قیمتی رات ہے۔ عید کی رات بھی عشرے کی دس راتوں میں شامل ہے، اس میں اللہ جل شانہٗ بہت زیادہ نوازتے ہیں، اس وجہ سے اس میں بھی عبادت کرنی چاہئے۔ اور اگر کسی سے کچھ نہیں ہوسکتا، تو کم از کم ہزار آیتیں پڑھ لے، اس کا ایک قنطار اجر بتایا گیا ہے۔ لہٰذا انسان کم از کم یہ اجر اس رات کو لے لیں، باقی راتوں میں اگر نہیں ہوسکتا، تو اس آخری رات میں تقریباً دو پارے پڑھ لیں، اس میں ایک ہزار آیتیں پوری ہوجاتی ہیں۔ آخری دو پارے اگر کوئی پڑھ لے، تو اس میں کتنی دیر لگے گی؟ تقریباً آدھا پونا گھنٹہ لگے گا۔ لہٰذا اس کو انسان پڑھ لے۔ ان ہزار آیتوں سے ان شاء اللہ وہ ایک قنطار کا اجر لے لے گا، اور یہ قنطار اس رات کا قنطار ہے، لہٰذا اس کی بڑی اہمیت ہے۔
اور پھر کل ان شاء اللہ قربانی کا دن ہے، بارہ تاریخ تک ان شاء اللہ قربانی کا وقت ہوگا۔ تقریباً اشراق کے وقت ہم عید الاضحیٰ کی نماز پڑھیں گے اور اس کے بعد ان شاء اللہ قربان گاہ پہنچ جائیں گے اور جلد سے جلد ہم اپنی قربانی کرنا چاہیں گے، کیونکہ اس کے لئے مستحب ہے کہ اس دن قربانی کے گوشت سے پہلے کوئی اور چیز نہ کھائے، صرف اپنی قربانی کے گوشت سے کھانا شروع کرے۔ میں آپ کو بتاؤں، یہ کوئی روزہ نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ روزہ کھلا ہے۔ نہیں، روزہ نہیں ہے۔ روزہ اس صورت میں کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ اس میں پانی پی سکتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ کھانے پینے کا جو سلسلہ ہے، اس میں آپ جو ناشتہ کرتے ہیں، تو وہ نہ کریں، اس کو postpone کرلیں۔ اور یہ کتنا زیادہ ہوگا؟ دو تین گھنٹے ہوں گے۔ اور آپ کو ما شاء اللہ! ایک سنت کا ثواب مل جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ بھی اس سے اپنا کھانا شروع فرماتے تھے، لہٰذا یہ ایک عمل ہے۔ اور دوسرا عمل جو چل پڑا ہے ناخن نہ کاٹنے کا اور بالوں کے نہ لینے کا، تو وہ ما شاء اللہ! چونکہ کل قربانی کے ساتھ پورا ہوجائے گا، تو اس میں بھی ایسا ہونا چاہئے کہ چونکہ یہ دیر سنت کے لئے ہورہی تھی، اس لئے اگر اپنا haircutter وغیرہ یا کینچی اگر ساتھ ہو، تو ادھر ہی پہ فوراً کر لے، کیوں کہ اس سنت پر عمل صرف postpone تھا، وہ ختم نہیں ہوا تھا، تو جیسے وہ ختم ہوگیا، تو اب اس کے بعد اس کو شروع کرلیں۔
اور ایک بات یہ ہے کہ اس دن میں یعنی عید کے دن میں ’’اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ یہ تکبیرات ہم ما شاء اللہ! چلتے چلتے پڑھتے رہیں، مرد حضرات بلند آواز سے پڑھیں، اتنا بلند بھی نہیں کہ بیل کی طرح چیخنا شروع کرلیں۔ نہیں، اس طرح نہیں، بلکہ ایک باوقار انداز میں ’’اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ اس طریقے سے پڑھتے ہوئے ما شاء اللہ! جائیں۔ اور یہ انفرادی ہے، اجتماعی نہیں ہے۔ جیسے ’’لَبَّیْک‘‘ والی آواز لوگ اجتماعی کرتے ہیں، حالانکہ وہاں پر بھی انفرادی ہے۔ یعنی لوگوں نے اس کو رسم بنا لیا ہے کہ وہ اس کو اجتماعی کرتے ہیں، ورنہ یہ بھی انفرادًا اپنے اپنے طور پر ہے۔
اور بہتر یہ ہے کہ ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے آئیں۔ ہمارے لئے الحمد للہ! یہ بہت آسانی ہے۔ اس وجہ سے کہ قریب ہی ہے۔ ہم لوگ اپنے گھر سے ادھر آئیں، تو ادھر سے آئیں گے اور دوسرے راستے سے چلے جائیں گے، ان شاء اللہ، تو ہماری یہ بات بھی پوری ہوجائے گی۔
بہرحال یہ ہے کہ الحمد للہ، الحمد للہ ثم الحمد للہ! جن لوگوں نے روزے رکھے، ان کو بہت مبارک ہو۔ اور جو عید کے دن ہیں، وہ بہت مبارک دن ہیں، ان کے جو اعمال ہیں، ان اعمال کے اوپر جذب کرنا اور ان کو پورا کرنا؛ یہ بہت بڑا عمل ہے۔ باقی! قربانی، سبحان اللہ یہ بہت بڑی نسبت ہے، اس پر میں پہلے بھی بات کرچکا ہوں اور کل صبح بھی ان شاء اللہ بات ہوگی۔ اس میں قربانی کے بارے میں تفصیلی بات ہوگی، ان شاء اللہ۔ جیسے ابھی آن لائن بیان ہورہا ہے، تو ان شاء اللہ کل فجر کی نماز کے بعد سے ان شاء اللہ آن لائن ہمارا بیان شروع ہوجائے گا، اشراق کے وقت تک یہ بیان ہوگا، یہ قربانی اور عید کے بارے میں تفصیلی بیان ہوگا، ان شاء اللہ۔ اس کو بھی اگر کوئی سننا چاہے، تو سن لے۔ ویسے ہمارا ایک پروگرام تو چل ہی رہا ہے اور وہ ہے آج کی بات والا پروگرام یعنی سنت طریقہ کے متعلق ہے۔ اور سیرت پاک کے بارے میں سوال کے ذریعہ سیرت پاک کا مطالعہ بھی الحمد للہ! ہمارا شروع ہے، اس کے ساتھ ہمارا ما شاء اللہ! یہ سلسلہ بھی چل پڑے گا۔ آج بھی الحمد للہ! اس کے بارے میں کچھ باتیں کی گئی تھیں، کل بھی ان شاء اللہ اشراق کے وقت تک یہی بات ہوگی اور پھر اس کے بعد اشراق کا وقت داخل ہوجائے گا، تو اس کے فوراً بعد ہم لوگ نماز ادا کریں گے۔ جو حضرات شامل ہونا چاہیں، تو SOPs کے ساتھ آئیں، مطلب یہ ہے کہ اس کے تقاضے پورے کرلیں تو وہ آسکتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ پہلے ہمیں اطلاع کردیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ دو ہزار آدمی آجائیں، تو ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں ہے اور SOPs پہ بھی عمل نہیں ہوسکے گا، لہٰذا پہلے سے ہمیں اطلاع کریں جو آنا چاہیں، تاکہ ہم بتا سکیں کہ جگہ ہے یا نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو ان راتوں اور دنوں کی بہت زیادہ برکات نصیب فرما دے اور بالخصوص جو آج grand مجلس ہے درود شریف کی، اس میں اور اس کے بعد اجتماعی دعا میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔