اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بزرگو اور دوستو! آج جمعرات ہے اور جمعرات کے دن ہمارے ہاں سیرت النبی ﷺ اس کے بارے میں بات ہوتی ہے اور آج کل ہمارے زیرِ مطالعہ ’’سیرت النبی‘‘ مرتبہ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ یہ ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں مستند روایت کو لیا جاتا ہے، تو عموماً جن کے ساتھ محبت ہوتی ہے، تو اس کے بارے میں اگر کوئی فرضی واقعہ بھی کوئی بیان کرلیتا ہے، ویسے سنی سنائی بات بھی کوئی بیان کرلیتا ہے، تو اس پہ کوئی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور یہی جڑ ہوجاتی ہے مطلب ظاہر ہے غیر مستند روایت کی، جس کی وجہ سے پھر جو مستند روایت ہے، ان پہ بھی لوگ یقین نہیں کرتے، نقصان ہوجاتا ہے۔ اب آپ ﷺ کے مقام میں کوئی کمی ہے کہ ہم غیر مستند روایت بیان کرلیں؟ مستند روایت کتنی ہیں، تو ہمیں غیر مستند روایت کی ضرورت ہی نہیں ہے، ویسے بھی آپ ﷺ پر جھوٹ بولنا یہ تو بذات خود بہت بڑا جرم ہے، اس وجہ سے کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی بھی کوئی بھی غیر مستند روایت آگے نہ بڑھائی جائے، جب تک کہ اس کی تحقیق نہ ہو۔ تو یہ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سیرت نگار تھے، ان کا specialization جو تھا، وہ یہی تھا کہ سیرت کے موضوع پہ انہوں نے کافی کام کیا ہے۔ اب ان کا بیٹا بھی یہی کام کررہا ہے۔ تو ظاہر ہے جن کا specialization جو چیز ہوتی ہے، تو ان سے زیادہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ تو اس میں آج جو چل رہا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں عبادت کا مفہوم کیا ہے۔ اگرچہ کچھ ہم آگے بڑھے تھے اس پہ، لیکن چونکہ آگے بھی سمجھنا ہے، اس وجہ سے ذرا تھوڑا سا دوبارہ وہ حصہ پڑھتے ہیں، تاکہ گزشتہ سے پیوستہ بات سمجھ میں آجائے۔
اسلام میں عبادت کا مفہوم:
اوپر کی تفصیلات یہ واضح ہوا ہوگا کہ اسلام میں عبادت کا وہ تنگ مفہوم نہیں جو دوسرے مذہبوں میں پایا جاتا ہے۔ عبادت کے لفظی معنی اپنی عاجزی اور درماندگی کا اظہار ہے اور اصطلاح شریعت میں خدائے عزوجل کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت کے نذرانہ کو پیش کرنا اور اس کے احکام کو بجا لانا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں عبادت کا مقابل اور بالضد لفظ استکبار اور غرور استعمال ہوا ہے۔
کہتے ہیں چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ تو ظاہر ہے اگر اس کی ضد استکبار ہے، تو یہ عبادت عاجزی ہے۔ عبادت کے اندر پسماندگی، درماندگی، سر جھکانا اور انکسار، یہ ہے پائی جاتیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے ساتھ کسی کو محبت ہوتی ہے، کسی کا تعلق ہوتا ہے، اُس کی عظمت کا ادراک ہوتا ہے، تو ان کے سامنے انسان سیدھا کھڑا نہیں ہو پاتا، تھوڑی سی گردن جھکی ہوتی ہے، یہ گردن کا جھکنا جو ہے، یہ کیا چیز ہے؟ وہ یہی عاجزی، اپنے آپ کو کسی کے سامنے کچھ نہ سمجھنا، یہ مطلب ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی حدود ہیں، کیونکہ انسان کے لئے اس حد تک انسان نہیں جاسکتا، لیکن بہرحال پھر بھی یہ علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ انسان اُس کے سامنے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا۔ تو تکبر جو ہے، یہ اس کو دور کرنے کے لئے عبادت اللہ پاک نے مقرر کی ہوتی ہے، ہاں جی یہ مطلب وہ ہے۔ اور چونکہ اللہ جل شانہٗ بہت بڑے ہیں، تو لہٰذا جب بہت بڑے پہ نظر ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں باقی بڑی چیزیں چھوٹی ہوتی ہیں، لہٰذا اُن سے پھر انسان خوف بھی نہیں کرتا، اُن سے ڈرتا بھی نہیں ہے، ان کی پروا بھی نہیں کرتے، مطلب یہ اس کا ایک Side effect ہے، اس کا مطلب خواہ مخواہ یہی ہوگا کہ جن کو بڑا سمجھتے ہیں، تو ان کے مقابلہ میں جو دوسرے ہوں گے، ان کو پھر چھوٹا سمجھا جاتا ہے۔ تو اس میں یہی والی بات ہے کہ چونکہ اللہ جل شانہٗ کی بڑائی کی کوئی حد نہیں، لہٰذا اس کے مقابلہ میں کوئی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو باقی لحاظ سے، لیکن وہ ہوتے تو چھوٹے ہی ہیں، مطلب ظاہر ہے اللہ جل شانہٗ کے سامنے تو کوئی بھی نہیں۔ تو اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ﴾ (المومن: 60)
’’جو میری عبادت سے غرور کرتے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے‘‘۔
فرشتوں کے متعلق فرمایا:
﴿وَمَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ﴾ (الانبیاء: 19)
’’جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے غرور نہیں کرتے‘‘۔
سعادت مند اور با ایمان مسلمانوں کے متعلق فرمایا:
﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ﴾ (السجدہ: 15)
’’میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیتوں سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے‘‘۔
اس قسم کی اور آیتیں بھی قرآن پاک میں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت اور غرور و استکبار باہم مقابل کے متضاد معنی ہیں۔ اس بنا پر اگر غرور و استکبار کے معنی خدا کے مقابلہ میں اپنے کو بڑا سمجھنا، اپنی ہستی کو بھی کوئی چیز جاننا اور خدا کے سامنے اپنی گردن جھکانے سے عار کرنا ہے، تو عبادت کے معنی خدا کے آگے اپنی عاجزی و بندگی کا اظہار اور اس کے احکام کے سامنے اپنی گردنِ اطاعت کو خم کرنا ہے۔ اس بنا پر صحیفۂ محمدی کی زبان میں عبادت بندہ کا ہر ایک وہ کام ہے، جس سے مقصود خدا کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار اور اس کے احکام کی اطاعت ہو۔ اگر کوئی انسان بظاہر کیسا ہی اچھے سے اچھا کام کرے، لیکن اس سے اس کا مقصود اپنی بندگی کا اظہار اور خدا کے حکم کی اطاعت نہ ہو تو وہ عبادت نہ ہوگا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کسی اچھے کام کو عبادت میں داخل کرنے کے لئے پاک اور خالص نیت کا ہونا شرط ہے اور یہی چیز عبادت اور غیر عبادت کے درمیان امرِ فارق ہے۔ قرآن پاک میں یہ نکتہ جابجا ادا ہوا ہے۔
﴿وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰى وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤى اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى وَلَسَوْفَ یَرْضٰى﴾ (لیل: 17-21)
’’دوزخ سے وہ پرہیزگار بچا لیا جائے گا جو اپنا مال دل کی پاکی حاصل کرنے کو دیتا ہے، اس پر کسی کا احسان باقی نہیں جس کا بدلہ اس کو دینا ہو۔ بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اس کا مقصود ہے، وہ خوش ہوگا‘‘
﴿وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِؕ﴾ (البقرۃ: 272)
’’صرف خدا کی ذات کی طلب کے لئے جو تم خرچ کرو‘‘
﴿اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ﴾ (الدھر: 10)
’’ہم تو صرف خدا کے لئے تم کو کھلاتے ہیں‘‘
﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَ﴾ (ماعون: 4-6)
’’پھٹکار ہو ان نمازیوں پر جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوے کے لئے کام کرتے ہیں‘‘۔
قرآن کی ان آیتوں کی جامع و مانع تفسیر آنحضرت ﷺ نے ان مختصر لیکن بلیغ فقروں میں فرما دی ہے کہ ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)
تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے۔
اسی کی تشریح آپ ﷺ نے ان لوگوں سے کی جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرکے مدینہ منورہ آرہے تھے۔ ’’وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوٰى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ إِلٰى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ، فَهِجْرَتُهٗ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهٗ إِلٰى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ‘‘۔ (بخاری باب اول)
’’ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ اگر ہجرت سے مقصود خدا اور رسول تک پہنچنا ہے، تو اس کا ثواب خدا دے گا۔ اگر کسی دنیاوی غرض کے لئے ہے یا کسی عورت کے لئے ہے، تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے جس کی نیت سے اس نے ہجرت کی‘‘۔
اس تشریح سے یہ ثابت ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔ اس میں کسی خاص کام اور طرز و طریقہ کی تخصیص نہیں ہے۔ بلکہ انسان کا ہر وہ کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے عبادت ہے۔ اگر تم اپنی شہرت کے لئے کسی کو لاکھوں روپے دے ڈالو تو وہ عبادت نہیں، لیکن خدا کی رضاجوئی اور اس کے حکم کی بجا آوری کے لئے چند کوڑیاں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔
تعلیم محمدی کی اس نکتۂ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض و غایت بنا دیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 21)
’’اے لوگو! اپنے اُس پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا، تاکہ تم کو تقویٰ حاصل ہو‘‘۔
اس آیت سے ظاہر ہوا کہ عبادت کی غرض و غایت محض حصول تقویٰ ہے۔
تقویٰ انسان کے قلب کی وہ کیفیت ہے جس سے دل میں تمام نیک کاموں کی تحریک اور برے کاموں سے نفرت ہوتی ہے۔
دیکھیں! اللہ جل شانہٗ نے جہاں تقویٰ کا ذکر کیا ہے، اس کے مقابل کا لفظ فجور بیان کیا ہے فجور۔
﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8)
ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے‘‘۔
پس تقویٰ کی definition فجور سے ہی نکلے گی یعنی فجور کی ضد ہوگی۔ تو فجور میں کیا ہے؟ فجور میں یہ ہے کہ ہر شر کے کام کو کرنا اور ہر خیر سے رک جانا، یہ فجور ہے، نماز نہ پڑھنا فجور ہے، زنا کرنا فجور ہے، ظلم کرنا فجور ہے، عدل کرنا تقویٰ ہے، مطلب یہ ذرا گویا کہ یوں سمجھ لیجئے فجور جن کو کہا جائے، اس کی ضد تقویٰ ہوگا۔ تو تقویٰ میں اصل میں یہی والی بات ہے کہ ہر خیر کو حاصل کرنے کی تحریک Driving force of doing anything good and driving force of resisting anything bad یہ مطلب تقویٰ کی definition یعنی زیادہ بہتر محسوس ہورہی ہے۔
آپ (ﷺ) نے ایک دفعہ سینہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ "تقویٰ کی جگہ یہ ہے" اور قرآن نے بھی تقوی القلوب "دلوں کا تقویٰ" کہہ کر اسی نکتہ کو کھولا ہے۔ اسی کیفیت کا پیدا کرنا اسلام میں عبادت کی اصلی غرض ہے۔ نماز روزہ اور تمام عبادتیں سب اسی کے حصول کی خاطر ہیں۔ اس بنا پر انسان کے وہ تمام مشروع افعال و اعمال جن سے شریعت کی نظر میں یہ غرض حاصل ہو سب عبادت ہیں۔
دیکھیں! تقویٰ کا اور فجور کا ذکر نفس کے ساتھ بھی ہوا، تقویٰ کا اور حب الدنیا کا ذکر مطلب دل کے ساتھ بھی ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ دونوں جگہ اس کا وہ (ذکر) ہے، فرق صرف یہ ہے کہ نفس میں یہ پیدا ہوتا ہے اور دل میں قرار پکڑتا ہے، دل میں جگہ پکڑتا ہے۔ لہٰذا نفس جس وقت خیر کا معاملہ کرتا ہے، تو اس کا اثر دل پہ پڑتا ہے اور نفس جس وقت شر کا کام کرتا ہے، تو اس کا اثر بھی دل پہ پڑتا ہے، پس دل یا تو اچھا ہوتا جاتا ہے نیک کاموں سے یا برا ہوتا جاتا ہے برے کاموں سے، تو اس وجہ سے تقویٰ جو ہے، اس کی جگہ بھی دل ہے اور جو اخلاق ذمیمہ ہے، وہ بھی دل ہے، بس فرق صرف یہ ہے کہ جس کو قلب سلیم کہتے ہیں، وہ تقویٰ والا دل ہے اور جس کو قلب سقیم کہتے ہیں، یہ گناہوں والا دل ہے، فجور والا دل ہے۔
اسی مفہوم کو ہم دوسری عبارت میں یوں ادا کرسکتے ہیں کہ پہلے عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ عبادت صرف چند ان مخصوص اعمال کا نام ہے، جن کو انسان خدا کے لئے کرتا ہے مثلاً نماز، دعا، قربانی، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم نے اس تنگ دائرہ کو بے حد وسیع کردیا۔ اس تعلیم کی رو سے ہر ایک وہ نیک کام جو خاص خدا کے لئے اور اس کی مخلوقات کے فائدہ کے لئے ہو اور جس کو صرف خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کیا جائے عبادت ہے۔ اسلام میں خدا کے لئے کسی کام کے کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کام خواہ خدا کی بڑائی اور پاکی کے لئے ہو یا کسی انسان یا حیوان کے فائدے کے لئے ہو لیکن اس کام کرنے سے اس کام کے کرنے والے کا مقصود نمائش، دکھاوا، حصول شہرت یا دوسروں کو احسان مند بنانا وغیرہ کوئی دنیاوی اور مادی غرض نہ ہو بلکہ محض خدا کی محبت خوشنودی اور رضامندی ہو۔
یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں کے لئے بھی وہ کام کرتے ہو، کیونکہ آخر لوگوں کے لئے بھی تو اچھے کام کیے جاسکتے ہیں ناں یعنی لوگوں کے فائدے کے لئے ﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران: 110) تو لوگوں کے فائدے کے لئے بھی کام کیے جاتے ہیں۔ تو جو لوگوں کے فائدے کے لئے کام کیے جاتے ہیں، یہ اصل میں اگر اللہ کی رضا کے لئے ہیں تو پھر تقویٰ ہے اور اللہ کی رضا کے لئے نہیں، تو پھر کیا ہے؟ پھر وہ تقویٰ نہیں ہے، پھر وہ عبادت نہیں ہے۔ عبادت کے مفہوم کے اندر اللہ کے لئے ہونا ضروری ہے، کیونکہ وہ عمل ہے اور ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (مسلم: 4927)
ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
اس تشریح کی رو سے وہ عظیم الشان تفرقہ جو دین اور دنیا کے نام سے مذاہب نے قائم کر رکھا تھا محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم نے اس کو دفعتاً مٹا دیا۔ دین اور دنیا کی حیثیت اسلام میں دو حریف کی نہیں رہتی، بلکہ دو دوست کی ہوجاتی ہے۔ دنیا کے وہ تمام کام جن کو دوسرے مذاہب دنیا کے کام کہتے ہیں اسلام کی نظر میں اگر وہ کام اسی طرح کیے جائیں، لیکن ان کی غرض و غایت کوئی مادی خود غرضی و نمائش نہ ہو، بلکہ خدا کی رضا اور اس کے احکام کی اطاعت ہو تو وہ دنیا کے نہیں دین کے کام ہیں، اس لئے دین اور دنیا کے کاموں میں کام کا تفرقہ نہیں، بلکہ غرض و غایت اور نیت کا تفرقہ ہے۔ تم نے اوپر پڑھا کہ آنحضرت ﷺ نے ان صحابہ کو جو دن رات خدا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے فرمایا کہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے کہ اس کو آرام دو، تمھاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے کہ اس کو کچھ دیر سونے دو، تمھاری بیوی کا بھی حق ہے کہ اس کو تسلی کرو اور تمھارے مہمان کا بھی حق ہے کہ اس کی خدمت کے لئے کچھ وقت نکالو۔ غرض ان حقوق کو بھی ادا کرنا خدا کے احکام کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے۔ چنانچہ پاک روزی کھانا اور اس کا شکر ادا کرنا بھی عبادت ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 172)
’’اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاک اور ستھری چیزیں روزی کی دی ہیں، ان کو کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پاک روزی ڈھونڈنا اور کھانا اور اس پر خدا کا شکر ادا کرنا عبادت ہے۔ ایک اور آیت میں توکل یعنی کاموں کے لئے کوشش کرکے نتیجہ کو خدا کے سپرد کردینا بھی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا:
﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَیْهِؕ﴾ (ھود: 123)
’’اس کی عبادت کرو اور اس پر بھروسہ رکھو‘‘۔
اسی طرح مشکلات میں صبر و استقلال بھی عبادت ہے۔ فرمایا:
﴿فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ﴾ (مریم: 65)
’’اس کی عبادت کر اور صبر کر‘‘۔
کسی شکستہ دل سے اس کی تسکین و تشفی کی بات کرنا اور کسی گناہگار کو معاف کرنا بھی عبادت ہے۔ ارشاد ہے:
﴿قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ﴾ (البقرۃ: 263)
’’اچھی بات کہنا اور معاف کرنا اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے ستانا ہو‘‘۔
اسی آیت پاک کی تشریح محمد رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے
’’کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ‘‘ (بخاری کتاب الادب)
’’ہر نیکی کا کام خیرات ہے‘‘۔
’’تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ اَخِیْکَ صَدَقَۃٌ‘‘
’’تمھارا کسی بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی خیرات ہے‘‘۔
’’وَاِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ‘‘
’’راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی خیرات ہے‘‘۔
غریب اور بیوہ کی مدد بھی عبادت، بلکہ بہت سی عبادتوں سے بڑھ کر ہے، فرمایا:
’’السَّاعِيْ عَلَى الأرْمَلَةِ وَالْمِسْكِيْنِ كَالْمُجَاهِدِ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ، وَكَالَّذِيْ يَصُوْمُ النَّهَارَ، وَيَقُوْمُ اللَّيْلَ‘‘ (بخاری، کتاب ادب)
’’بیوہ اور غریب کے لئے کوشش کرنے والے کا مرتبہ خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے اور اس کے برابر ہے جو دن بھر روزہ اور رات بھر نماز پڑھتا ہو‘‘۔
باہم لوگوں کے درمیان سے بغض و فساد کے اسباب کو دور کرنا، اور محبت پھیلانا ایسی عبادت ہے جس کا درجہ نماز روزہ اور زکوٰۃ سے بھی بڑھ کر ہے۔ آپ نے ایک دن صحابہ سے فرمایا:
’’أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلِ مِنْ دَرَجَةِ الصِّیَامِ وَالصَّلٰوةِ وَالصَّدَقَةِ؟‘‘
’’کیا میں تم کو روزہ نماز اور زکوٰہ سے بھی بڑھ کر درجہ کی چیز نہ بتاؤں‘‘
صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ! ارشاد فرمایئے، فرمایا:
’’اِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ‘‘
’’وہ آپس کے تعلقات کا درست کرنا ہے‘‘۔
یعنی دو بھائیوں میں مسئلہ ہے، آپ درمیان میں ایسی بات کرلیں، جس میں جڑ جائیں۔ ایک بڑے مفتی ہیں، ہمارے ہاں تشریف لائے تھے، ان کے بارے میں کچھ بدگمانی کسی اور عالم کو ہوگئی تھی، انہوں نے ان کے بارے میں کچھ بات کرلی، وہ بات ان تک پہنچ گئی، مجھ سے وہ تحقیق کرنا چاہتے تھے کہ یہ کیا ماجرہ ہے؟ تو میں نے ان کی وہ پہلی باتیں جو ان کے حق میں کیا کرتے تھے ناں، میں نے ان کا حوالہ دیا، میں نے کہا کہ وہ تو آپ کے بارے میں یہ یہ باتیں کرتے ہیں، تو بات تو صحیح تھی، ظاہر ہے وہ باتیں بھی انہوں نے کی تھیں، تو اتنے خوش ہوئے، کہتے ہیں جزاک اللہ، جزاک اللہ آپ نے میرا دل بہت خوش کردیا، میرا دل ان کے لئے صاف کردیا، اب اگر آپ ان کی باتیں، یہ ان کے حق میں بات کرے گا آگے جاکر، جب ان کو پتا چلے گا، تو وہ ان کے حق میں بات کرے، بات ختم ہوجائے گی۔ یہی اصل میں بنیادی نکتہ ہے لوگوں کے درمیان خیر کو لانے کا، ورنہ یہ ہوتا ہے کہ آپ نے ایک سے سن لی، دو اپنے ساتھ ملا دیں اور اس کو بتا دیا، تو بس آگ تو لگ گئی، اب جتنا آپ نے سنا تھا، تو اس کو دس سے ضرب دے کر وہ بتائے گا، پھر کوئی ادھر لے جائے گا، اس کے ساتھ اور ملا کر پھر وہ ادھر لے جائے گا، اس طرح معاملہ طوفانی ہوجاتا ہے اور پتا نہیں کہاں سے کہاں بات پہنچ جاتی ہے۔ تو یہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ یہ ہمارے حضرت مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، دوسرے امیر تھے تبلیغی جماعت کے) انہوں نے جو آخری بیان کیا تھا، جس کے بعد حضرت فوت ہوئے ہیں۔ حضرت نے ابتدا اس سے کی تھی بیان کی، افسوس امت سے امت پنا چلا گیا، افسوس امت سے امت پنا چلا گیا اور پھر فرمایا کوئی شخص بہت نیکیاں کرلے، لیکن اس کی زبان سے کوئی ایسا گفت نکلے، جس سے امت میں تفرقہ آجائے، وہ جہنم میں جائے گا۔ اور کوئی آدمی عام آدمی ہے، اتنے اعمال اس کے نہیں ہیں، لیکن اس کی زبان سے ایسی بات نکلے، جس سے لوگوں میں جوڑ آجائے، تو سبحان اللہ! وہ اس کو جنت میں لے جائے گا۔ اب دیکھیں! یعنی اس پہ اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہوتے ہیں، مؤمنین کے درمیان صلح کرنا اور خیر پھیلانا ’’اَلدِّیْنُ نَصِیْحَۃٌ‘‘ (دین خیرخواہی ہے) تو یہ ما شاء اللہ! بہت اہم کام ہے، لیکن ہم لوگ اس کی طرف جاتے نہیں ہیں۔
حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دوسرے صحابی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے گئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی نہایت معمولی اور میلے کپڑے پہنے ہیں۔ حضرت سلمان نے وجہ دریافت کی تو بولیں کہ تمھارے بھائی کو دنیا کی خواہش نہیں ہے۔ اس کے بعد مہمان کے لئے کھانا آیا تو ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تو تمھارے بغیر نہیں کھاؤں گا۔ آخر انہوں نے افطار کیا۔ رات ہوئی تو ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کو کھڑے ہونے لگے۔ حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ابھی سو رہو پچھلی پہر کو حضرت سلمان نے ان کو جگایا اور کہا اب نماز پڑھو۔ چنانچہ دونوں نے تہجد کی نماز ادا کی، پھر حضرت سلمان نے ان سے کہا "اے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھارے رب کا بھی تم پر حق ہے اور تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے تو جس جس کا حق تم پر ہے سب کو ادا کرو" حضرت ابوذر نے حضرت ﷺ کی خدمت میں آکر حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تقریر نقل کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا"۔
لوگوں نے آںحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ "یارسول اللہ تمام کاموں میں سب سے بہتر کونسا کام ہے؟" فرمایا خدا پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ لوگوں نے پوچھا کس غلام کے آزاد کرنے کا زیادہ ثواب ہے؟ ارشاد ہوا جس کی قیمت زیادہ ہو اور جو اپنے مالک کو زیادہ پسند ہو۔ انہوں نے کہا اگر یہ کام ہم سے نہ ہوسکے تو فرمایا: "پھر ثواب کا کام یہ ہے کہ کام کرنے والے کی مدد کرو یا جس سے کوئی کام بن نہ آتا ہو اس کا کام کردو" پھر سوال ہوا کہ اگر یہ بھی نہ ہوسکے۔ فرمایا: "تو پھر یہ کہ لوگوں کے ساتھ کوئی برائی نہ کرو۔ یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے جو خود تم اپنے اوپر کرسکتے ہو"۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا خدا اپنے بندوں سے کہے گا کہ "میں نے تم سے کھانا مانگا تم نے نہ کھلایا، وہ عرض کریں گے خداوند! تو نے کیسے کھانا مانگا؟ تو تو خود تمام جہان کا پروردگار ہے، فرمائے گا کیا تم کو معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا، تم نے کھانا اس کو نہ کھلایا۔ اگر تم اس کو کھلاتے تو اس کو تم میرے پاس پاتے۔ "اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی نہ پلایا" وہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں تجھ کو کیسے پانی پلاؤں؟ تو تو خود تمام جہان کا پروردگار ہے۔ وہ فرمائے گا تم کو معلوم نہ تھا کہ میرے فلاں بندہ نے پیاس میں تجھ سے پانی مانگا، تو نے اس کو پانی نہ پلایا۔ اگر پلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا"۔ "اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پرسی نہ کی" وہ کہے گا "اے پرودگار! میں کیونکر تیری بیمار پرسی کروں؟ تو تو خود تمام جہان کا پروردگار ہے" فرمائے گا "تجھ کو خبر نہ ہوئی کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ اگر کرتا تو تو اس کو میرے پاس پاتا یا مجھے اس کے پاس پاتا"۔
اس مؤثر طریقۂ ادا نے خدا شناسی اور خدا آگاہی کے کتنے تو بر تو پردے چاک کردیئے اور دکھا دیا کہ خدا کی عبادت اور اس کی خوشنودی کے حصول کے کیا کیا طریقے ہیں؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو چاہتے تھے کہ اپنی کل دولت خدا کی راہ میں دے دیں آپ نے انہیں بتایا کہ اے سعد! جو کچھ اس نیت سے خرچ کرو کہ اس سے خداوند تعالیٰ کی ذات مطلوب ہے اس کا تم کو ثواب ملے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں بھی دو اس کا بھی ثواب ہے۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا "مسلمان اگر ثواب کی نیت سے اپنی بیوی کا نفقہ پورا کرے تو وہ بھی صدقہ ہے"۔ غریب و نادار صحابہ نے دربارِ رسالت میں ایک دن شکایت کی کہ یارسول اللہ دولت مند لوگ ثواب میں بڑھ گئے۔ ہماری طرح وہ بھی نماز پڑھتے ہیں، وہ بھی روزے رکھتے ہیں، ان کے علاوہ وہ مالی عبادت بھی بجا لاتے ہیں، جو ہم نہیں بجا لاسکتے۔ فرمایا: کیا تم کو اللہ نے وہ دولت نہیں دی جس کو صدقہ کرسکو، تمھارا ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ اور ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ کہنا بھی صدقہ ہے۔ یہاں تک کہ جو کوئی اپنی نفسانی خواہش کو جائز طریقہ سے پوری کرتا ہے، وہ بھی ثواب کا کام کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ! وہ تو اپنی نفسانی غرض کے لئے یہ کرتا ہے "فرمایا کہ اگر وہ ناجائز طریقہ سے اپنی ہوس پوری کرتا تو کیا اس کو گناہ نہ ہوتا؟ پھر اس کو جائز طریقہ سے پورا کرنے کا ثواب کیوں نہ ملے گا"۔ مطلب یہ ہے کہ گناہ سے اپنے آپ کو بچانا بھی تو ثواب ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات سے اندازہ ہوگا کہ حسن عمل، ثواب اور عبادت کے مفہوم میں اسلام نے کتنی وسعت پیدا کی ہے اور کتنی تو بر تو انسانی غلطیوں کا ازالہ کیا ہے۔ اس تشریح کے بعد روشن ہوجائے گا کہ وحی محمدی نے بالکل صحیح طور پر خلقت انسانی کی غرض و غایب عبادت الہٰی قرار دی ہے۔
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذّٰریٰت: 56)
’’میں نے انسانوں کو اور جنوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
اس آیت پاک میں عبادت کا وہ تنگ مفہوم نہیں ہے جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے، بلکہ وہ تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں تک وسیع ہے، جن کے کرنے کا مقصد خدا کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار، اس کی اطاعت اور اس کی خوشنودی کی طلب ہو۔ اس وسعت کے اندر انسان کی پوری زندگی کے کام داخل ہیں، جن کے بحسن و خوبی انجام دینے کے لئے اس کی خلقت ہوئی ہے۔ یہ روحانیت کا وہ راز ہے جو صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے دنیا کو معلوم ہوا۔
اصل میں اس مسئلہ میں اگر کوئی غور کرنا چاہے تو اس کا route یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرے کہ آپ ﷺ نے زندگی کیسے گزاری، کیا آپ ﷺ نے ہمیشہ نماز پڑھی ہے؟ کیا آپ ﷺ نے ہمیشہ روزے رکھے؟ کیا آپ ﷺ نے ہمیشہ مطلب جو ہے ناں وہ جس کو کہتے ہیں یعنی اور عبادات جن کو لوگ عبادات سمجھتے ہیں، وہ کی ہیں؟ نہیں۔ آپ ﷺ نے جو جو بھی خیر کے کام تھے، جو اُس وقت ہوسکتے تھے، ان میں کچھ کرکے، اس کی نمائندگی کی ہے۔ یہ اصل میں ایک صحیح منہج ہے یعنی زندگی گزارنے کا کہ آپ ﷺ کی زندگی کو اپنایا جائے، اللہ پاک نے ہم سے یہ فرمایا:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذّٰریٰت: 56)
ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
یہ فرمایا ہے۔ لیکن اس کے لئے یہ فرمایا:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب: 21)
ترجمہ1: ’’البتہ بالتحقیق تمہارے لئے آپ ﷺ کے اسوہ میں، زندگی بہترین نمونہ ہے۔‘‘
یعنی گویا کہ ہم عبادت بھی کریں گے، تو آپ ﷺ کے طریقہ پہ کریں گے، زندگی گزاریں گے، تو آپ ﷺ کے طریقہ پہ گزاریں گے، ہمارے پاس یہ والی بات ہے۔ البتہ ایک بات اس میں ہمیں اچھی طرح یاد رہنا چاہئے کہ ایک ہے آپ ﷺ کا ظاہر اور ایک ہے آپ ﷺ کا باطن، تو پیروی ہم نے دونوں کی کرنی ہے، کیونکہ شریعت دونوں پہ ہے، شریعت دونوں کا مجموعہ ہے، ظاہر اور باطن کا مجموعہ ہے، مثلاً میں نماز تو پڑھوں، لیکن اس میں خشوع نہ ہو یا اخلاص نہ ہو، تو نماز کا ظاہر تو قائم ہوجائے گا، لیکن نماز کا باطن نہیں ہوگا، اس کے اندر قوت نہیں ہوگی، ممکن ہے اس کی وجہ سے رد بھی ہوجائے، تو اس کے لئے بھی آپ ﷺ کی زندگی ہمارے پاس نمونہ ہے، تو اس وجہ سے آپ ﷺ کی زندگی کا جو ظاہر ہے، وہ جو ہے ناں، مطلب یوں کہہ سکتے ہیں، وہ دین کی صورت ہے اور سنت ہے، دین کی صورت ہے اور سنت ہے اور جو آپ ﷺ کا باطن ہے، وہ سیرت ہے اور حقیقت ہے دین کی۔ ’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ جو فرمایا تو نیت کہاں ہوتی ہے؟ ہاں جی، دل میں ہوتی ہے۔ تو اب دیکھو! دل کے ایک عمل کا پورے اعمال پر اثر ہے، تقویٰ کے بھی آپ نے سن لیا کہ دل میں ہوتا ہے ’’اَلتَّقْویٰ ھٰھُنَا‘‘ اور جتنا کسی کا تقویٰ ہو، اس کے حساب سے اس کا مقام ہے ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ﴾ (الحجرات: 13)
ترجمہ: ’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔
ہاں جی۔ تو یہ اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کی صورت اور آپ ﷺ کی سیرت ان دونوں کو اپنانا ہے یعنی سنت پہ چلنا ہے اور اس چلنے کی حقیقت کو پانا ہے، اس چلنے کی حقیقت کو پانا ہے، یہ دونوں باتیں لازم اور ملزوم ہیں یعنی ہم لوگ یہ نہیں کرسکتے کہ صرف صورت ہی لے لیں، اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا:
’’صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 6008)
ترجمہ: ’’نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو‘‘۔
تو اس میں بھی نماز کا ظاہر بھی ہے، نماز کا باطن بھی ہے، جو نماز کا ظاہر ہے وہ بھی حضور ﷺ کی طرح پڑھنا ہے اور جو نماز کا باطن ہے وہ بھی آپ ﷺ کی طرح پڑھنا ہے۔ تو یہ اصل میں بنیادی ہمارا وہ (مسئلہ) ہے کہ ہم نے پختگی بھی آپ ﷺ کے طریقہ پہ لانی ہے اور ہم نے وہ ایک چیز کا جو ظہور ہے اور یعنی اس کا سامنے آنا ہے، وہ بھی آپ ﷺ کے طریقہ پہ کرنا ہے یعنی دونوں کام جو ہیں ناں اس میں ہمیں آپ ﷺ سے رہنمائی لینی ہے۔ اب بتائیں کہ آپ ﷺ کی رہنمائی ہمیں کیسے ملے گی؟ آپ ﷺ کی رہنمائی ہمیں ملے گی صحابہ کرام کے ذریعہ سے، صحابہ کرام کے جو تین گروہ ہیں، ان تینوں گروہ کے ذریعے سے ہمیں آپ ﷺ کی زندگی ملے گی، اس کا ظاہر بھی، اس کا باطن بھی۔ ہاں جی، تو آپ ﷺ کی جو زندگی کا ظاہر ہے، وہ عام صحابہ کرام کے ذریعہ سے ملے گا، جو آپ ﷺ کا مطلب جو ہے ناں جو ظاہر ہے، وہ ہمیں عام صحابہ کرام کے ذریعہ سے ملا ہے اور جو باطن ہے، وہ اہل بیت کے ذریعہ سے ملا ہے یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اللہ جل شانہٗ نے اس کے لئے خاص کردیا اور اس کے ذریعہ سے وہ باتیں جو آپ ﷺ کے یعنی گویا کہ باطن سے تعلق رکھتی تھیں، ان کا اہتمام لوگوں تک پہنچانے کا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا ہے، ہاں جی، وہ کیا۔ اس طرح فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین، پھر اس کے بعد وہ سلسلہ چلتا رہا، وہ جو امام ہیں سارے ہمارے، امام زین العابدین، امام باقر، امام جعفر صادق، امام موسیٰ کاظم اس طرح مطلب وہ چلے آرہے ہیں، جب وہ ختم ہوجائیں، تو پھر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ۔ اب ذرا غور فرمائیں ’’مَا اَنا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ یہ حدیث شریف ہے، جس پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں، یہ ظاہر کی طرف مکمل اشارہ ہوگیا کہ گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ جس پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں، تو آپ کے لئے راستہ متعیّن ہوگیا، ان کے طریقہ پہ، طریق صحابہ پہ گویا کہ چلنا ہے آپ نے، لیکن ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میرے اہل بیت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہیں، مطلب گویا کہ جو اس میں بیٹھ گیا، تو فلاح پا گیا۔ تو وہاں اہل بیت کے مقام کا پتا چل گیا۔ ہاں جی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’عَتْرَتِیْ‘‘ قرآن اور میری عترت جو ہے ناں یعنی اولاد، یہ مطلب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگی، مطلب جو ہے ناں ساتھ ساتھ چلے گی، یہاں تک کہ حوض کوثر پر ملاپ ہوجائے گا۔ تو گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ اولاد کے بارے میں جو آپ ﷺ نے فرمایا، تو ذرا تھوڑا سا غور کرلیں، جیسے اس دن میں نے درود شریف کے بارے میں بتایا کہ درود شریف میں جو اکثر صیغے ہیں، جو ہماری ’’چہل حدیث شریف‘‘ میں ہیں، پائے جاتے ہیں، اس میں آل آتا ہے، ’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّد‘‘ یعنی جتنے بھی صیغے ہیں، زیادہ تر میں آل آتا ہے، ہاں جی۔ تو اس طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ جیسے درود شریف میں یہ مسلسل ہے تو اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ اس روایت کی کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے دیتا ہوں، ایک قرآن اور دوسری میری اولاد، میری عترت، تو ذریعہ دیکھ لیں، غور فرمائیں کہ ائمہ نے اس کے اوپر کیسا عمل کیا، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یہ دونوں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہیں اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے۔ تو دیکھو ناں! اماموں نے اس پر کیسے عمل کیا، امام بالکل ان کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ تو اس سے پتا چلا کہ ان کو اس چیز کا احساس تھا کہ واقعی اگر ہم ان سے جدا ہوگئے، تو یہ معاملہ پھر کمزور ہوجائے گا، تو انہوں نے اس پر عمل کر دکھایا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ساری عمر (ابھی ہم نے عقیدہ کا جو باب پڑھا ہے) اس میں صحابہ کرام کا کتنا زبردست دفاع فرمایا ہے اور شیعوں کا کتنا سخت رد کیا ہے۔ تو پوری عمر ان کے خلاف لڑا ہے، لیکن ان کا مکتوب شریف میں صاف باتیں ہیں (جو میں نے بتائی ہیں، یہ ان کے مکتوب سے میں نے لی ہیں) یہ اہلِ بیت کی جو بات ہے، یہ ان کے مکتوب سے میں نے لی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ دیکھیں ناں یہ جو چیزیں ہوتی ہیں، آج کل بیان نہیں ہوتیں، آج کل ان چیزوں کا لوگوں کو علم بھی نہیں اور نہ کوئی اس کے بارے میں بات کرتا ہے، نتیجتاً وہ جو اپنے آپ کو قابو رکھنے کی جگہیں ہیں ناں، وہ ہل جاتی ہیں اور یہ میں آج کل اس لئے بتا رہا ہوں زیادہ کہ چونکہ فتنے بہت زیادہ ہیں، تو فتنوں سے بچنے کے لئے مضبوط کھونٹی سے اپنے آپ کو باندھنا ضروری ہے، ورنہ پھر نقصان ہوسکتا ہے۔ آخر دجال جو ہوگا وہ بڑا فریبی ہوگا، تو اس کے مقابلہ کے لئے کس کو چن لیا گیا ہے؟ حضرت امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ تو امام مہدی علیہ السلام بھی اہل بیت میں سے ہوں گے، ہاں جی۔ تو گویا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے، تو اس کو ذہن میں رکھنا ہے کہ اہل بیت کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل clear ہو اور صحابہ کرام کے ساتھ۔ صحابہ کرام ظاہر کے ہمارے لئے رہنما ہیں اور اہل بیت ہمارے لئے باطن کے رہنما ہیں اور ان دونوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہے، دونوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہے، پھر ہم بچ سکتے ہیں، ورنہ ہمارا بچنا پھر بڑا ہی مشکل ہوگا، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اس وقت اگر ایک طرف اس بات پر پوری کوشش اور محنت ہے کہ ہمیں آپ ﷺ سے کاٹا جائے، مطلب پوری دنیا میں جو ہمارے اوپر محنت ہے، آپ ﷺ سے کاٹنے کی ہے۔ تو اسی طریقہ سے مختلف فرقہ واریت کے لحاظ سے ہمارے اوپر یہ محنت ہے کہ ہمیں اہل بیت سے کاٹا جائے، باقاعدہ پوری محنت ہے۔ اس میں جو صحابہ کا نام لیتے ہیں، تو اہل حق ہیں، لیکن صحابہ تو وہ تین گروہ ہیں، تینوں گروہ ہیں ناں، ان میں عام صحابہ بھی ہیں، اہل بیت بھی ہیں اور امھات المؤمنین بھی ہیں، تینوں حق ہیں اور تینوں کو ساتھ لینا ہے اور تینوں کے ساتھ ہونا ہے، پھر ہم حق پر ہوں گے یعنی شیطان کا یہ کام ہے۔ مطلب یہ کام ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کرکے دوسرے کا مخالف بنا دے گا، تو اس سے نقصان ہوتا ہے۔ اللہ بچائے۔
عام طور سے مشہور ہے کہ شریعت میں چار عبادتیں فرض ہیں یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس سے یہ شبہ نہ ہو کہ ان فرائض کی تخصیص نے عبادت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیا ہے۔ درحقیقت یہ چاروں فریضے عبادت کے سینکڑوں وسیع معنوں اور ان کے جزئیات کے بے پایاں دفتر کو چار مختلف بابوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک فریضہ عبادت اپنے افراد اور جزئیات پر مشتمل اور ان سب کے بیان کا مختصر عنوان باب ہے۔ جس طرح کسی وسیع مضمون کو کسی ایک مختصر سے لفظ یا فقروں میں ادا کرکے اس وسیع مضمون کے سرے پر لکھ دیتے ہیں، اسی طرح یہ چاروں فرائض درحقیقت انسان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو چار مختلف عنوانوں میں الگ الگ تقسیم کردیتے ہیں، اس لئے ان چاروں فرضوں کو بجا طور سے انسان کے اچھے اعمال اور کاموں کے چار اصول ہم کہہ سکتے ہیں۔
1۔ بندوں کے وہ تمام اچھے کام اور نیک اعمال جن کا تعلق تنہا خالق اور مخلوق سے ہے، ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان نماز ہے۔
یعنی اس میں انسان کوئی کسی اور کے ساتھ تعلق رکھ ہی نہیں سکتا نماز میں، صرف اللہ کے ساتھ ہی ہے۔
2۔ وہ تمام اچھے اور نیک کام جو ہر انسان دوسرے کے فائدہ اور آرام کے لئے کرتا ہے۔ صدقہ اور زکوٰۃ ہے۔
یعنی اس میں اپنے لئے کچھ نہیں کرنا، مطلب گویا کہ یوں سمجھ لیں، سب دوسرے کے لئے کررہا، اس کے نتیجہ میں پھر ملے گا، اس کا اجر ملے گا۔
3۔ خدا کی راہ میں ہر قسم کی جسمانی اور جانی قربانی کرنا، کسی اچھے مقصد کے حصول کے لئے تکلیف اور مشقت جھیلنا اور نفس کو اس تن پروری اور مادی خواہشوں کو نجاست اور آلودگی سے پاک رکھنا جو کسی اعلیٰ مقصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں، روزہ ہے یا یوں کہو کہ ایثار و قربانی کے تمام جزئیات کی سرخی روزہ ہے۔
یعنی نفس کے اوپر پیر رکھنا آپ کہہ سکتے ہیں، نفس کی خواہش کو دبانا۔
دنیائے اسلام میں ملت ابراہیمی کی برادری اور اخوت کی مجسم تشکیل و تنظیم مرکزی رشتۂ اتحاد کا قیام اور اس مرکز کی آبادی اور کسبِ روزی کے لئے ذاتی کوشش اور محنت کے باب کا سرِ عنوان حج ہے۔
غور کرکے دیکھو انسان کے تمام اعمال اور اچھے کام انہی اصول چہارگانہ کے تحت میں داخل ہیں اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے (1) توحید و رسالت کا اقرار کرنا (2) نماز پڑھنا (3) روزہ رکھنا (4) زکوٰۃ دینا (5) اور حج کرنا۔ پہلی چیز میں عقائد کا تمام دفتر سمٹ جاتا ہے اور بقیہ چار چیزیں ایک مسلمان کے تمام نیک اعمال اور اچھے کاموں کو محیط ہیں۔ انہی ستونوں پر اسلام کی وسیع اور عظیم الشان عمارت قائم ہے۔
اس تقریر کا مفہوم یہ نہیں کہ یہ چاروں فرض عبادتیں نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج اصل مطلوب بالذات نہیں ہیں، بلکہ یہ مقصد ہے کہ یہ چاروں عبادتیں اپنے تمام جزئیات باب اور محتویات کے ساتھ فرض ہیں۔ جو شخص صرف ان چاروں فرائض کو جو عنوان باب ہیں ادا کرتا ہے اور اس باب کے نیچے کے مندرجہ جزئیات سے پہلو تہی کرتا ہے اس کی عبادت ناقص اور اس کا اطاعت نامکمل ہے اور اس کے لئے دین و دنیا کی وہ فلاح و کامیابی جس کا خدائے تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے مشکوک ہے۔ یہیں سے یہ شبہ زائل ہوتا ہے کہ ہماری نمازیں ہم کو برائیوں سے کیوں باز نہیں رکھتیں، ہمارے روزے ہم کو تقویٰ کی دولت کیوں نہیں بخشتے، ہماری زکوٰۃ ہمارے دلوں کو پاک و صاف کیوں نہیں کرتی، ہمارا حج ہمارے گناہوں کی مغفرت کا باعث کیوں نہیں بنتا اور قرنِ اوّل کی طرح ہماری نمازیں، ملکوں کو فتح اور ہماری زکوٰتیں، ہمارے قومی افلاس کو دور کیوں نہیں کرتیں؟ اور ہمارے سامنے دین و دنیا کے موعودہ برکات کا انبار کیوں نہیں لگ جاتا، لیکن خدا کا وعدہ یہ ہے۔
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ﴾ (نور: 55)
’’اللہ نے ان سے جو ایمان رکھتے ہیں اور تمام نیک کام کرتے ہیں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا لے گا‘‘۔
ایمان کامل اور اعمال نیک کے بغیر اس وعدہ کی ایفاء کی توقع رکھنا حماقت ہے۔
اسی طرح ان چاروں جلی عنوانات کے احکام سے قطع نظر کرکے صرف مندرجہ تحت جزئیات کی تعمیل ممکن ہے کہ دنیائے فانی کی بادشاہی کا اہل بنا دے۔ مگر آسمان کی بادشاہت میں اس کو کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اسلام اس لئے آیا ہے کہ اپنے پیروؤں کے پاؤں کے نیچے دونوں جہانوں کی بادشاہیاں رکھ دے اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب عبادات کے مفہوم کو اس وسعت کے ساتھ سمجھا جائے جو اسلام کی منشا ہے اور اسی وسعت کے ساتھ اس کو ادا کیا جائے جو اسلام کا مطالبہ ہے۔
اَلْحَمْدُ للہ۔ اب ذرا تھوڑا سا اس کی اور انداز میں بھی تشریح کی ضرورت ہے۔ یہ جو عبادات ہیں ہماری، اگرچہ یہ زندگی کے ہر شعبہ کو cover کرلیتی ہیں، لیکن ان کی اپنی حفاظت کیسے ہوگی، ان عبادات کی؟ ان عبادات کی حفاظت ہوگی معاملات کے ذریعہ سے، جب ہمارے معاملات صحیح ہوں گے تو عبادات کی حفاظت ہوگی، کیونکہ معاملات کی گڑبڑ عبادات کو ضائع کروا دیتی ہے، اگر آپ کے پیچھے کسی کے چار آنے ہوں (چار آنے پہلے بتاتے تھے، اب تو چار آنے نہیں ہوں گے، اب تو ممکن ہے پانچ چھ روپے ہوں، ہاں جی، کیونکہ چاندی کے لحاظ سے بات ہوگی) تو آپ کی کتنی نمازیں ان کو ملیں گی، آپ کے پاس کیا رہ جائے گا؟ آپ کماتے جائیں، گنواتے جائیں، کماتے جائیں، گنواتے جائیں، کماتے جائیں، گنواتے جائیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی بوری میں آپ نے چینی ڈالی ہوئی ہے اور اپنے store سے جو ہے ناں وہ گھر لے جارہے ہیں، اس میں شگاف ہو اور آپ نے موٹر سائیکل پہ اس کو رکھ دیا اور اس کا آپ کو پتا نہ ہو، تو آپ گھر تک پہنچیں تو کتنی چینی لے جاسکو گے؟ سارے کا ساری تو نیچے گئی ہوگی بوری، خالی بوری، تو معاملات کا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے، مفلس کون ہے، آپ ﷺ نے باقاعدہ پوچھا صحابہ کرام سے مفلس کون ہے؟ تو صحابہ کرام نے وہی مفہوم بتایا جو عام ہے کہ وہ ہے جو مال والا نہیں ہے۔ فرمایا: اصل مفلس وہ ہے، جو پہاڑوں جتنی نیکیاں لے کے آئے گا قیامت کے دن، لیکن کسی کو مارا ہوگا، کسی کا مال غصب کیا ہوگا، کسی کی غیبت کی ہوگی، کوئی اور نقصان کیا، یہ سب چیزیں مل کے وہ نیکیاں ساری کی ساری ان کو دلوا دے گا حتیٰ کہ پھر بھی ان کے وہ حقوق پورے نہیں ہوں گے، پھر ان کی برائیاں اٹھا کر ان کو دی جائیں گی، حتیٰ کہ فرمایا کہ یہ پہاڑوں جتنی نیکیاں لایا ہوگا، لیکن دوسروں کے گناہوں کی پاداش میں جہنم چلا جائے گا، ان کے گناہوں کی پاداش میں۔ معاملات کا کتنا اہم role ہے۔ پھر معاملات کی حفاظت معاشرت سے ہوتی ہے، کیونکہ خراب معاشرت میں صحیح معاملات رکھنا آسان نہیں ہے، جیسے آج کل کوئی سنت طریقہ سے شادی کرنا چاہے، تو آسان ہے؟ خود اپنے گھر کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے، تو معاشرت اگر صحیح نہ ہو، تو معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے، نکاح معاملہ ہے ناں، تو معاملات صحیح نہیں ہوسکتے اگر معاشرت درست نہ ہو۔ اور معاشرت کی حفاظت پھر اخلاق کے ذریعہ سے ہے، کیسے؟ چلو جی! آپ دلیل دیں، معاشرت کی جو ہے، وہ حفاظت اخلاق کے ذریعہ سے ہے، بڑا زبردست سوال ہے۔ دیکھیں! بنیاد بتاتا ہوں، آسان سی بات بتاتا ہوں، جس کو سب لوگ سمجھ لیں۔ دو متکبروں میں دوستی ہوسکتی ہے؟ اتفاق؟ اور دو متواضع لوگوں میں؟ سو متواضع لوگوں میں بھی ہوسکتی ہے، اگر جماعت بنائیں تو متواضعین کی جماعت بن سکتی ہے، متکبروں کی نہیں بن سکتی، جو ہر ایک اپنے آپ کو شیر کہے، اس کے ساتھ آپ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے سب برابر ہیں، اور معاشرت کی تشکیل اتفاق پر ہے، اتفاق اور اتحاد پر ہے۔ قوانین کیسے مرتب ہوں گے معاشرت کے؟ متفقہ ہوں گے ناں؟ تو جس چیز پر اتفاق نہیں ہوگا تو کیسے قوانین مرتب ہوں گے؟ تو اس کا مطلب ہے کہ اخلاق جو ہے، یہ کیا ہے؟ یہ معاشرت کو control کررہا ہے، معاشرت معاملات کو control کررہی ہے، معاملات عبادات کو control کررہے ہیں۔ اس لئے جو حدیث شریف میں آتا ہے کہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں، کیونکہ اخلاق کے اچھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سارے اچھے ہوں، نیچے جتنے بھی ہیں، وہ سارے کے سارے اچھے ہیں، تبھی بن سکتا ہے۔ تو اس طریقہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو عبادات ہیں، یہ جو چار بتائے ہوئے ہیں، یہ واقعتاً بہت اہم ہیں، لیکن ان کی حفاظت کا نظام پھر معاملات کے ذریعہ سے ہے اور معاملات کی حفاظت کا نظام معاشرت کے ذریعہ سے ہے اور معاشرت کی حفاظت کا نظام اخلاق کے ذریعہ سے ہے۔ پھر ہم کامل دین کے اوپر چل سکیں گے، یہ بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن۔ از مفتی تقی عثمانی صاحب)