اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُولُہُ النَّبِيُّ الْکَرِیْمُ
تمہید:
معزز خواتین و حضرات! آج جمعرات ہے اور جمعرات کے دن ہمارے ہاں حضرت محمد ﷺ جو اللہ جل شانہٗ کے محبوب ہیں، ان کی سیرت پر بات ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہمیں آپ ﷺ کی سیرت کو پڑھنے کی، اس کو سمجھنے کی اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ سیرت کے جو اسباق ہیں ہم سیرت النبی جو حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی اور ان کی، وہاں سے ہم اَلْحَمْدُ للہ اس کا درس دیتے ہیں۔ آج ان شاء اللہ (عزلت نشینی اور قطعِ علائق کے بارے میں درس ہوگا)
متن:
عزلت نشینی اور قطع علائق عبادت نہیں:
تشریح:
عزلت نشینی یعنی جس کو ہم کہتے ہیں گوشہ نشینی، اور قطع علائق کا مطلب یہ ہے کہ جو علائق یعنی علاقے ہیں لوگوں کے ساتھ تعلقات کے، ان کو قطع کرنا۔ یعنی ان سے تعلق کو توڑ دینا یہ عبادت نہیں ہے۔ یہ اس میں ہے۔
متن:
اکثر مذاہب نے دینداری اور خداپرستی کا کمال یہ سمجھا تھا کہ انسان کسی غار، کھوہ یا جنگل میں بیٹھ جائے اور تمام دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ اسلام نے اس کو عبادت کا صحیح طریقہ نہیں قرار دیا۔ عبادت درحقیقت خدا اور اس کے بندوں کے حقوق کے ادا کرنے کا نام ہے جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ اس بنا پر وہ شخص جو اپنے تمام ہم جنسوں سے الگ ہوکر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا ہے وہ درحقیقت ابنائے جنس کے حقوق سے قاصر رہتا ہے۔ اس لئے وہ کسی تعریف کا مستحق نہیں۔ اسلام کا صحیح تخیل یہ ہے کہ انسان تعلقات کے اژدحام اور علائق کے ہجوم میں گرفتار ہوکر ان میں سے ہر ایک کے متعلق جو اس کا فرض ہے اس کو بخوبی ادا کرے۔ جو شخص ان تعلقات و علائق اور حقوق و فرائض کے ہجوم سے گھبرا کر کسی گوشۂ عافیت کو تلاش کرتا ہے وہ دنیا کے کارزار کا نامرد اور بزدل سپاہی ہے۔ اسلام اپنے پیروؤں کو جوانمرد سپاہی دیکھنا چاہتا ہے جو ان سب جھمیلوں کو اٹھا کر بھی خدا کو نہ بھولیں۔ غرض اسلام کے نزدیک عبادت کا مفہوم ترکِ فرض نہیں بلکہ ادائے فرض ہے۔ ترکِ عمل نہیں بلکہ عمل، کچھ نہ کرنا نہیں بلکہ کرنا ہے۔
تشریح:
یہ اصل میں بہت اہم بات حضرت نے جاری فرمائی ہے، اصل میں ہوتا کیا ہے، یہ جو اختلاف ہوا ہے کس وجہ سے ہوا ہے، ذرا اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ہے کہ ایک طرف اللہ کا حکم ہوتا ہے اور ایک طرف نفس کی خواہش ہوتی ہے، نفس اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اللہ جل شانہٗ اپنی طرف بلاتا ہے اور یہ کشمکش ہر لمحے ہوتی ہے۔ پس جو لوگ نفس کے شکار ہوکر نفس کی بات پر اس کی خواہش کو پورا کرنے میں لگ جاتے ہیں تو ایسا ہے جیسے کہ انہوں نے اس کو خدا بنا لیا۔ جیسے انہوں نے اس کو خدا بنا لیا۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ کیا تو نے نہیں دیکھا لوگوں نے اپنے خواہشات نفس کو خدا بنا لیا، معبود بنا لیا۔1 تو اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کے مقابلہ میں اللہ کی بات ماننی ہے۔ اب اختلاف کیوں آیا ہے؟ کیسے آیا؟ عام لوگ جو ہوتے ہیں جن کی تربیت نہیں ہوتی وہ جب لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو نفس کی مانتے ہیں، نفس کے پیچھے چلتے ہیں۔ مثلاً والدین کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے، بہن بھائیوں کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے، اولاد کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے، بیوی کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے، پڑوسیوں کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے، دفتر میں جو معاملہ ہوتا ہے، بازار میں جو معاملہ ہوتا ہے؛ سارے نفس کے حوالے ہوتے ہیں۔ اگر اس کے نفس کی خواہش پوری ہورہی ہے تو سب اچھے ہیں، نفس کی خواہش پوری نہیں ہورہی تو سب برے۔ بنیاد کیا ہے؟ نفس کی خواہش کا پورا ہونا۔ اب ان چیزوں کو دیکھ کر لوگوں نے کہا یہ تو غلط بات ہے، یہ تو غلط بات ہے۔ تو اس کا حل انہوں نے کیا سوچا؟ ان لوگوں سے بھاگ جاؤ جو تمہارے نفس کو اپنی طرف متوجہ کرلیں اور نفس کی وجہ سے تم گناہوں میں مبتلا ہوجاؤ۔ یہ دینداروں کی بات میں کررہا ہوں یعنی ہر مذہب کے دینداروں کی بات کررہا ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ تو بہت خطرناک بات ہے، نفس کی بات نہیں ماننی چاہئے لہٰذا بھاگ جاؤ، کسی پہاڑ میں بیٹھ جاؤ، کسی غار میں چلے جاؤ، کسی جنگل میں چلے جاؤ۔ یہ گویا کہ ان کے لئے خلاصی کی ایک صورت ہے نفس سے۔ اب اللہ جل شانہٗ کا حکم جو ہے وہ صرف ایک نہیں ہے، اللہ جل شانہٗ کا حکم اگر نماز پڑھنے کا ہے تو اللہ پاک کا حکم پڑوسی کے حقوق ادا کرنے کا بھی ہے، اللہ کا حکم والدین کے حقوق ادا کرنے کا بھی ہے، اللہ پاک کا حکم بیوی کے حقوق ادا کرنے کا بھی ہے، اولاد کے حقوق ادا کرنے کا بھی ہے، استاذ کے حق ادا کرنے کا بھی ہے، گویا کہ اللہ پاک نے یہ حقوق ہمارے درمیان رکھیں اور ان حقوق کے ذریعہ سے پورا معاشرہ چل رہا ہوتا ہے۔ حقوق و فرائض کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ اب اگر نفس کی وجہ سے یہ ساری چیزیں ہورہی ہیں تو بگاڑ ہی بگاڑ ہے اور اگر اللہ جل شانہٗ کے لئے ہورہا ہے تو بناؤ ہی بناؤ ہے۔ تو اب کیا کیا جائے پھر؟ اگر بھاگ جاتا ہے کوئی ان تمام چیزوں سے، تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے یہ تعطل ہے، توکل نہیں، تعطل ہے۔ یعنی جو کام کرنے چاہئیں تھے نہیں کررہے، فرار کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کی مثال دیتا ہوں جیسے کوئی بیمار ہے ٹی بی کا، اس کو لوگ کہتے ہیں بھئی ٹی بی کا علاج کرو، ٹیسٹ کرو، تو وہ ٹیسٹ نہیں کرتا کہ پتا نہیں کہیں ٹی بی نہ نکل آئے۔ تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ مزید بیمار ہوگا، مزید بیمار ہوگا۔ تو اس طریقہ سے گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ جو بات ہے کہ اپنے آپ کو مثبت سمت میں چلانا اور منفی سے بچانا اس کے لئے اپنے نفس کو tame کرنا پڑتا ہے، اپنے نفس کو قابو کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کے درمیان رہ کر اللہ کا بننا ہے تب جب ہمارا نفس ہمارے قابو میں ہوگا۔ جب ہمارا نفس ہمارے قابو میں ہوگا تب ان لوگوں کے درمیان رہ کر ہم اللہ کے بنیں گے اور مخلوق کے نہیں بنیں گے، یعنی نفس کے نہیں بنیں گے۔ مخلوق کے حقوق ادا کریں گے، مخلوق کے حقوق ادا کریں گے لیکن نفس کی بات نہیں مانیں گے۔ یہ گویا کہ اصل بات ہے اس کے لئے ہے یہ ترتیب۔ اب اس کے لئے اگر کوئی عارضی طور پر ان لوگوں سے کٹ جائے تاکہ مجھے ٹائم مل جائے کہ میں اپنے نفس کو قابو کر سکوں تو یہ تعطل نہیں ہے، یہ عزلت نشینی نہیں ہے، یہ ترک علائق نہیں ہے۔ یہ جس کو ہم لوگ رہبانیت کہتے ہیں جو عیسائیوں کے درمیان ہوتی ہے، یہ وہ رہبانیت نہیں ہے۔ ”لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ“ یہ وہ رہبانیت نہیں ہے۔ کیوں؟ یہ عارضی ہے۔ ایسے مثال کے طور پر جیسے آپ ڈیوٹی کررہے ہیں اور بیمار ہوجائیں اور وقتی طور پر آپ ہسپتال چلے جائیں تو ہسپتال میں تو آپ ڈیوٹی نہیں کررہے، اور کوئی آپ کو کہتا ہے بھئی آپ ہسپتال میں آپ ڈیوٹی کیوں نہیں کررہے؟ بھئی میں بیمار ہوں، میں علاج کررہا ہوں، بلکہ آفس والے خود ہی اس کی چھٹی دیتے ہیں، آفس والے خود ہی اس کو چھٹی دیتے ہیں کہ جاؤ علاج کرواؤ۔ کیونکہ ظاہر ہے وہ بیمار آدمی سے آپ اپنا کام نہیں کروا سکتے۔ تو اب یہ جو وقتی طور پر ہسپتال میں داخلہ ہوتا ہے، یہ ڈیوٹی سے بھاگنا نہیں ہے بلکہ ڈیوٹی کے لئے تیاری ہے۔ تو اسی طریقہ سے نفس کو قابو کرنے کے لئے جو خانقاہ کے اندر یا ایسی تربیت گاہوں کے اندر وقتی طور پر کٹ کے جو آنا ہے اور ذرا اپنے آپ کو بنانا ہے یہ وہ چیز نہیں ہے۔ بس ان چیزوں میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے یہ کیا کہ ان لوگوں کی طرف چلے گئے، عزلت نشینی اختیار کی، جنگلوں میں چلے گئے، اور کچھ لوگوں نے ان کے reaction کی وجہ سے خانقاہوں کو بھی کہا کہ یہ بھی وہ رہبانیت والے ہیں۔ حالانکہ دونوں باتیں غلط ہیں، نہ وہ ٹھیک ہیں نہ یہ ٹھیک ہیں، دونوں باتیں غلط ہیں۔ اصل بات یہ ہے وقتی طور پر تربیت کے لئے اپنے آپ کو تمام لوگوں سے کاٹنا، یہ بالکل ہسپتال کی طرح ہے۔ اور پھر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ کے لئے آپ ایسے رہو گے، بلکہ پھر اس کے بعد عملاً زندگی میں حصہ لو گے، زندگی میں حصہ لو گے، ایک مفید شخصیت بنو گے پوری سوسائٹی کی، اگر باپ بنو گے تو اچھے باپ بنو گے، بیٹا بنو گے تو اچھے بیٹے بنو گے، اگر پڑوسی بنو گے تو اچھے پڑوسی بنو گے، اگر ملازم بنو گے تو اچھے ملازم بنو گے۔ یہ اس کے لئے ہے، بس یہ اصل میں اگر سمجھ میں آگئی تو میرے خیال میں ساری بات سمجھ آجائے گی۔
متن:
ابھی تم اوپر پڑھ چکے ہو کہ آنحضرت ﷺ نے بعض ان صحابہ کو جو اہل و عیال اور دوست و احباب سب کو چھوڑ کر دن بھر روزہ رکھتے تھے اور راتوں کو عبادت کرتے تھے فرمایا "اے فلاں تم ایسا نہ کرو کہ تم پر تمھاری بیوی بچوں کا بھی حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے، تمھاری جان کا بھی حق ہے، تمھاری آنکھ کا بھی حق ہے"۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اسلام کی نظر میں عبادت ان حقوق کو بجا لانا ہے، ان حقوق کو ترک کردینا نہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ کسی غزوہ میں ایک صحابی کا گذر ایک ایسے مقام پر ہوا جس میں موقع سے ایک غار تھا۔ قریب ہی پانی کا چشمہ بھی تھا۔ آس پاس کچھ جنگل کی بوٹیاں بھی تھیں۔ ان کو اپنی عزلت نشینی کے لئے یہ جگہ بہت پسند آئی۔ (پہلے سے ظاہر ہے تصور ہوگا) خدمت بابرکت میں آکر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھ کو ایک غار ہاتھ آگیا ہے جہاں ضرورت کی سب چیزیں ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ وہاں گوشہ گیر ہوکر ترک دنیا کرلوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا "میں یہودیت اور عیسائیت لے کر دنیا میں نہیں آیا ہوں، میں آسان اور سہل اور روشن ابراہیمی مذہب لے کر آیا ہوں"۔
اسلام سے پہلے آنحضرت ﷺ غار حرا میں کئی کئی دن جا کررہا کرتے تھے اور عبادت الہٰی میں مصروف رہتے تھے لیکن جب سے وحی کا پہلا پیام آپ ﷺ کے پاس آیا اور دعوت و تبلیغ کا بار آپ ﷺ کے مبارک کندھوں پر رکھا گیا، شب و روز میں رات کی چند ساعتیں اور سال میں رمضان کے چند اخیر دن، گوشۂ عزلت اور زاویۂ تنہائی میں بسر ہوتے تھے ورنہ تمام دن پوری جماعت کے ساتھ مل کر خالق کی عبادت اور پھر مخلوق کی خدمت میں صرف ہوتے تھے اور یہی تمام خلفاء اور عام صحابہ کا طرزِ عمل رہا اور یہی اسلام کی عملی اور سیدھی عبادت تھی۔
تشریح:
یعنی غار حرا سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ غار حرا والی عزلت نشینی تیاری تھی، وہ تیاری جب ہوگئی اور پیغام آگیا کہ اب کام کرو، تو بس پھر کام شروع ہوگیا، پھر اس کے بعد عزلت نشینی اختیار نہیں کی۔ ہاں! البتہ اس چیز کو تازہ کرنے کے لئے کچھ لمحات ہر دن رات کو ایسے ہوتے تھے اور پورے سال میں رمضان شریف کا جو مہینہ ہے اس کی رات کی جو عبادت تھی اس کے لئے آپ ﷺ اپنی کمر کس لیتے بالخصوص آخری عشرہ میں۔ تو گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ تو تھا، لیکن باقی سب وقت کام ہی کام یعنی اگر طعام تھا تو کام کے لئے تھا، اور اگر آرام تھا تو کام کے لئے تھا۔ اتنا آرام کرلو کہ کام کر سکو، اتنا کھاؤ کہ کام کر سکو، یہ والی بات ہے۔ اب ہمارے ہاں مسئلہ کیا ہے؟ کچھ لوگ آرام ہی چاہتے ہیں، کچھ لوگ طعام ہی چاہتے ہیں، کچھ لوگ بس ان چیزوں میں پڑے ہوتے ہیں۔ بھائی! نہیں، یہ بات نہیں، کام مجبوراً کرتے ہیں؟ نہیں بھئی! کام ہمارا اصل ہے باقی اس کے لئے supporting ہے۔ اصل کام ہے اور کام یہاں کا نہیں آخرت کا ہے، لیکن آخرت کے کام کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں سے کٹ جاؤ بلکہ یہاں رہ کر آخرت کی تیاری کرنی ہے۔ تو آخرت کی تیاری کیسے ہوگی؟ والد کا حق ادا کرو گے تو آخرت بن رہی ہے، ماں کا حق ادا کرو گے تو آخرت بن رہی ہے، پڑوسی کا حق ادا کرو گے تو آخرت بن رہی ہے، میدان جہاد میں لڑ رہے ہو تو آخرت بن رہی ہے، نماز پڑھ رہے ہو تو آخرت بن رہی ہے، روزہ رکھ رہے ہو تو آخرت بن رہی ہے۔ یہ سارے کام اس دنیا ہی میں کرنے ہیں قبر میں تو نہیں کرنے، ادھر ہی کرنے ہیں تو یہ ہمارے لئے صحیح ماڈل ہے، اس کو ہم نے لینا ہے۔
متن:
اسلام میں عبادت کا مفہوم:
اوپر کی تفصیلات سے یہ واضح ہوا ہوگا کہ اسلام میں عبادت کا وہ تنگ مفہوم نہیں جو دوسرے مذہبوں میں پایا جاتا ہے۔ عبادت کے لفظی معنی اپنی عاجزی اور درماندگی کا اظہار ہے اور اصطلاح شریعت میں خدائے عزوجل کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت کے نذرانہ کو پیش کرنا اور اس کے احکام کو بجا لانا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں عبادت کا مقابل اور بالضد لفظ استکبار اور غرور استعمال ہوا ہے۔ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ﴾ (المومن: 60) جو میری عبادت سے غرور کرتے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے۔
تشریح:
یعنی دیکھ لیں تھوڑا سا کہ جو ہماری عبادت ہے وہ ہمارے غرور کو نکالنے کے لئے ہے، ہماری اکڑ کو نکالنے کے لئے ہے، ہماری نفس کی جو خواہشات کی پیروی ہے اس کو ختم کرنے کے لئے ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیں نماز میں اپنی مرضی کے مطابق نہیں پڑھ سکتا، میں نماز میں قیام بھی کروں گا اور جب قیام کا وقت پورا ہوجائے گا تو ایک رکن کے برابر اس میں مزید تاخیر نہیں کر سکتا، کر سکتا ہوں؟ ہوگئی تو کیا ہوگا؟ سجدہ سہو کرنا پڑے گا۔ رکوع میں بھی جاؤں گا پھر بھی یہی حالت ہے بس رکوع پورا ہوجائے گا پھر جانا ہے قومہ میں، قومہ سے پھر سجدہ میں، سجدہ سے پھر جلسہ میں، پھر اس کے بعد سجدہ میں پھر اس کے بعد قیام میں، یعنی جس ترتیب سے آپ ﷺ نے نماز پڑھی اس ترتیب سے ہم نے نماز پڑھنی ہے۔ ”صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِي أُصَلِّيْ“2 اب ہماری پوری زندگی اس نماز کی طرح ہو، یعنی پوری زندگی میں بھی آپ نے اپنی مرضی کے مطابق کچھ کام نہ کریں۔ نماز میں ہم نے کہا: ”اللہ اکبر“ نکل گئے ہم دنیا سے، اللہ کے پاس چلے گئے، نفس کے نہیں ہیں اللہ کے ہیں، تو جیسے بالغ ہوگئے ہیں تو ہم اللہ کے ہیں، بس اس کے بعد ہم نے اپنی مرضی نہیں کرنی، اپنی بات نہیں ماننی اب اللہ پاک نے جس وقت جو حکم دیا اس کو پورا کرنا ہے۔ نماز کا حکم دیا ہے نماز پڑھنی ہے، روزے کا حکم دیا ہے روزہ رکھنا ہے، زکوٰۃ کا حکم دیا ہے زکوٰۃ ادا کرنی ہے، حج کا حکم دیا ہے حج کرنا ہے، معاملات صاف رکھنے کا حکم دیا ہے معاملات صاف رکھنے ہیں، معاشرت اچھی کرنی ہے، اخلاق درست کرنے ہیں، مطلب جو جو ارشادات مبارکہ ہیں وہ سب کے سب ہم نے اسی طریقہ سے کرنے ہیں جیسے آپ ﷺ نے کیے۔ نماز کی طرز پر پوری زندگی کو لانا ہے۔ گویا یوں سمجھ لیجئے کہ نماز میں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ہم نے اللہ کی بندگی کیسے کرنی ہے۔ لہٰذا ایک ہوتی ہے عبادت اور ایک ہوتی ہے عبدیت، یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ عبادت نماز میں ہے، روزے میں ہے، زکوٰۃ میں ہے، حج میں ہے اور عبدیت ہر چیز میں ہے۔ بندگی، یہ ہر چیز میں ہے۔ تو ظاہر ہے کہ ہم نے گویا کہ نماز سے یہ سیکھنا ہے۔ اب صرف نماز کو اگر ہم کہہ دیں کہ یہ دین ہے اور باقی چیزیں دنیا ہیں، نہیں بھائی! یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہیں سے گڑبڑ شروع ہوگئی ہے کہ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم دیندار ہیں۔ بے شک اس کے بعد جتنی بھی بے دینی کرنا چاہتے ہیں، وہ کریں۔ نہیں ایسی بات نہیں ہے، نماز صرف نہیں پڑھنی، بالکل نماز ہی کی بنیاد پر تمام چیزیں ٹھیک کرنی ہیں۔
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ﴾3 اب یہ نماز ہمیں ان تمام برائیوں سے روکتی ہے، اگر نہیں روک رہی تو نماز نماز نہیں ہے، نماز میں گڑبڑ ہے، تو اپنی نماز کو درست کرنا ہے۔ نماز کو درست کرنے کا مطلب کیا ہے؟ وہ (چیز پوری درست کرنی ہے) نماز جس کا حصہ ہے جیسے عبدیت، اگر عبدیت آپ کی درست نہیں تو آپ کی نماز درست نہیں، لہٰذا نماز کو درست کرنے کا مطلب اپنی عبدیت کو درست کرلو تو آپ کی نماز بھی درست ہوگی، آپ کی باقی تمام چیزیں بھی درست ہوجائیں گی۔ اگر یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آئی تو کہتے ہیں میں نماز تو بہت اچھی طرح پڑھتا ہوں پھر ٹھیک کیوں نہیں ہوتے؟ کیسے ٹھیک کروں؟ بھئی سب سے پہلے تو یہ چیز ٹھیک کرو ناں۔ آپ نے نماز کو سمجھا کیا ہے؟ نماز کیا ہے؟ وہ تو اللہ کی بندگی ہے۔ تو اللہ کی بندگی آپ نے صحیح شروع نہیں کی تو آپ کی نماز بھی ٹھیک نہیں ہے، آپ اپنے نفس کے لئے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ اللہ کے لئے نماز تھوڑی پڑھ رہے ہیں۔ اللہ کے لئے نماز آپ کی تب ہوگی جب آپ میں بندگی آئے گی، جب آپ اپنے نفس کو قابو کرو گے۔ ورنہ پھر نماز پڑھ کر اپنے آپ کو نمازی سمجھو گے، دوسروں کو حقیر سمجھو گے۔ تو یہ نفس کے لئے پڑھنا ہوا یا اللہ کے لئے پڑھنا ہوا؟ کس کے لئے پڑھنا ہوا؟ نفس کے لئے پڑھنا ہوا۔ تو اس نفس کے لئے پڑھنے سے کیسے بچو گے؟ وہ بندگی اختیار کرنی پڑے گی۔ بندگی کیسے ہوگی؟ جب نفس کو قابو کرو گے۔ نفس کو کیسے قابو کرو گے؟ اسی کے لئے تو اپنی تربیت کروانی ہے۔ یہ وہ کلیہ ہے جو سمجھ میں لوگوں کو نہیں آتا اور بہت سارے لوگ اس پر confuse ہوتے ہیں کہ بھئی نماز کے اوپر ہم محنت کررہے ہیں پھر ہماری چیزیں ساری درست کیوں نہیں ہورہی ہیں؟ تو انہوں نے نہ نماز کو سمجھا ہے نہ بندگی کو سمجھا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک استاد A بورڈ پہ لکھ رہا تھا، لکھنا اس کو چاہئے تھا B، سٹوڈنٹس اس کو C سمجھ رہے تھے، اصل میں وہ D تھا۔ اتنے سارے variations۔ تو ان تمام چیزوں کو سمجھا نہیں ہے، نہیں سمجھے تو پھر مسئلہ ہے۔ پھر نہ نماز درست ہوگی، نہ بندگی درست ہوگی، نہ اعمال درست ہوں گے، نہ دین پر چلنا درست ہوگا، نہ آخرت درست ہوگی، نہ اللہ کے ساتھ معاملہ درست ہوگا، نہ لوگوں کے ساتھ معاملہ درست ہوگا۔ اب ساری چیزیں خراب ہوگئیں ناں؟ اسی ایک چیز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے۔ تو جب تک نماز میں بندگی نہیں آتی اللہ تعالیٰ کی، اس وقت تک نماز درست نہیں ہے، بے شک آپ کا رکوع بھی درست ہے، آپ کا قیام بھی درست ہے، آپ کی قرأت بھی درست ہے؛ ساری چیزیں ہیں لیکن بندگی درست نہیں ہے جو اس کی روح ہے۔ آخر آپ ﷺ نے جو فرمایا:
’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَانْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘4
تو اس میں گویا کہ ہمیں بتا دیا گیا کہ عبادت کیسے کرنی چاہئے۔ اس حالت میں اگر اللہ پاک کو ہم دیکھ رہے ہوتے پھر کیسی عبادت کرتے۔ اس طرح عبادت کرنا۔ اب اللہ پاک مطلوبہ صورت میں جیسے آپ ﷺ نے فرمایا ہے، اس کا جو اصل مقصد ہے وہ کب نظر آئے گا؟ جب ہماری نظر اپنے نفس سے ہٹے گی تب اللہ نظر آئے گا۔ جب تک نفس درمیان میں حائل ہے تو اللہ نظر نہیں آئے گا اپنے نفس کی خواہشات نظر آئیں گی، کبھی ایک کبھی دوسری کبھی تیسری کبھی چوتھی، وہ نظر آئیں گی۔ نتیجتاً نماز ان خواہشات کی نذر ہوگی۔ نماز کو اللہ کے لئے بنانے کے لئے ہم نے اپنے نفس سے نظر ہٹانی ہے، اپنے نفس کو قابو کرنا ہے جب تک وہ قابو نہیں ہوا اس وقت تک ہماری وہ کیفیت نہیں بنی جس کو کیفیتِ احسان کہتے ہیں۔ کیونکہ کیفیت احسان نفس مطمئنہ کی advance stage ہے، اس کے بعد آتی ہے، وہ نفس مطمئنہ کی advance stage ہے، اس سے پہلے نہیں آتی، اس کے بعد آتی ہے۔ اس کی وجہ میں آپ کو بتاؤں کہ نفس مطمئنہ by parts بھی ہوتا ہے، کبھی سنا ہے اس طرح؟ لوگ امتحان by parts pass کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ تو نفس مطمئنہ by parts بھی ہوتا ہے۔ کیسے؟ کسی کو نماز میں نفس مطمئنہ مل گیا لیکن معاملات میں نہیں ملا، معاملات میں ملا ہے معاشرت میں نہیں ملا، معاشرت میں ملا ہے اخلاق میں نہیں ملا۔ اخلاق میں سب سے اخیر میں ملتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں جن کا اخلاق اچھا ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ تو اخلاق میں سب سے اخیر میں ملتا ہے۔ اب جن کو نفس مطمئنہ ان تمام چیزوں میں ملا تو اب ان تمام چیزوں کی کوئی چیز آپ کو اللہ پاک سے نہیں روک سکتی۔ گویا کہ اللہ پاک پہ آپ کی نظر پڑے گی، پھر معرفت حاصل ہوگی۔ کیونکہ اگر دشمن پر ایک دروازہ آپ نے بند کرلیا اس کے لئے، دوسرا اگر کھلا ہے تو وہ اس سے آسکتا ہے۔ اگر وہ کھلا نہیں ہے، یہ کھلا ہے تو وہ اس سے آسکتا ہے۔ تو جب یہ سارے دروازے بند ہوجائیں تو تب حقیقی معنوں میں نفس مطمئنہ حاصل ہوتا ہے۔ کیفیت احسان اس کے بعد حاصل ہوتی ہے ان تمام چیزوں کے بعد۔ نفس مطمئنہ by parts ہو سکتا ہے لیکن کیفیت احسان by parts نہیں ہو سکتی، وہ ان سب کے بعد حاصل ہوتی ہے، اس لئے وہ اس کی advance stage ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ نماز پڑھنے میں بڑے ہی regular ہوتے ہیں، تسبیحات میں بھی، تہجد میں بھی، سب چیزوں میں لیکن معاملات میں دیکھو تو بڑے ہی کھوٹے ہوتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے یا اللہ! یہ کیسا عجیب آدمی ہے، یہ تو ابھی مسجد سے باہر آرہا ہے اور دیکھو میرے ساتھ دھوکہ کررہا ہے۔ تو کیا مسئلہ ہے؟ اس کا نفس مطمئنہ اُدھر نہیں بنا، اس وقت اس کی نظر اللہ پہ نہیں ہے، نتیجتاً نفس کے ہاتھوں مار کھا رہا ہے۔ تو کیفیت احسان ان تمام چیزوں کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جب وہ حاصل ہوجائے پھر آپ کی ساری چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں، پھر آپ کی ساری چیزیں عبادت بن جاتی ہیں، پھر آپ جو غصہ کرتے ہیں وہ بھی عبادت بن جاتا ہے اور جب ہنستے ہیں تو وہ بھی عبادت بن جاتا ہے، جب روٹھتے ہیں وہ بھی عبادت بن جاتا ہے، جب دوستی کرتے ہیں تو وہ بھی عبادت بن جاتا ہے۔ ”اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ“، یہ ساری باتیں حاصل ہوجاتی ہیں۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ کیا صرف میٹھا بول بولنا اخلاق ہے؟ اس نے سوال کیا تھا، تو اصل میں بات یہ ہے کہ ان چیزوں کو نہ جاننے کی وجہ سے پھر لوگ confuse ہوتے ہیں۔ تو اصل میں یہی میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے نفس کو قابو کرنا ہے، جب تک ہم نے اپنے نفس کو قابو نہیں کیا اس وقت تک ہماری کوئی چیز بھی ٹھیک نہیں ہوگی۔
یہاں پر ایک نوٹ لکھا ہوا ہے:
’’اسلام میں گوشہ گیری اور عزلت نشینی کی اجازت صرف دو موقعوں پر ہے ایک اس شخص کے لئے جس میں فطرتاً بدی ہے جس کی سرشت دوسروں کو نفع پہنچانا نہیں بلکہ تکلیف دینا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو برائی سے بچنے کی تدبیر بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے قطع تعلق کرلے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک بدو نے آکر آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بہتر شخص کون ہے؟ فرمایا "ایک تو وہ جو اپنی جان و مال کو خدا کی راہ میں قربان کرتا ہے دوسرے وہ جو کسی گھاٹی میں بیٹھ کر اپنے رب کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رہنے دے"۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب العزلۃ راحۃ من خلاط السوء) اس تعلیم نبوی نے انسانوں کی دو قسمیں کردیں ایک وہ جن کو خلق اللہ کی ہدایت اور خدمت کی فطری توفیق ملی ہے تو ان پر یہ فرض ہے کہ وہ مجمع اور ہجوم میں رہ کر ان کی بھلائی کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ اس راہ میں ان کی دولت بھی خرچ ہوجائے اور ان کی جان بھی کام آجائے، دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی طبعًا مردم آزاری اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا مادہ ہے۔ ان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح اسی میں ہے کہ وہ اپنے کو مجمع سے الگ رکھ کر خدا کی عبادت میں اپنا وقت صرف کریں تاکہ وہ گناہ کے بار سے اور لوگ ان کے آزار سے محفوظ رہیں۔
تشریح:
یہاں پر ایک فقہ کا بھی مشہور قانون (ہے جو) شاید اسی سے نکلا ہو اور وہ یہ ہے کہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت زیادہ اہم ہے۔ یعنی اگر آپ فائدہ کے لئے کام کرنا چاہیں لیکن اس میں نقصان کا احتمال ہو تو پھر اس فائدے کو چھوڑیں اور نقصان سے بچیں۔ مثال میں دیتا ہوں لیکن مثال ذرا کوری سی ہے، مثلاً نوجوانوں کی class fellows ہوتی ہیں کلاس میں اور ویسے یونیورسٹیوں میں اکھٹے پڑھنے والی ہوتی ہیں تو ان کے دل میں (شیطان یہ بات) ڈال دیتا ہے کہ ان کو تبلیغ کرو۔ اب بظاہر تو یہ بڑی اچھی بات ہے، گویا کہ دین کی بات ہے لیکن حقیقت میں وہ شیطان کی planning ہوتی ہے، یہ ان کو تبلیغ کرنے کے لئے جائے گا اور ان کی تبلیغ میں آجائے گا۔ ؎
شکار کرنے کو آئے شکار ہوکر چل دیئے
اب ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے؟ ان کو کہا جائے ان کو تبلیغی نہیں کرنی بس۔ اب وہ کہے یہ تو تبلیغ سے روکتے ہیں۔ بھائی! تبلیغ سے نہیں روکتے، شکار ہونے سے روکتے ہیں۔ 66 KW کی بجلی ہو تو ڈیڑھ فٹ کے فاصلے سے بھی آپ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے۔ تو آپ کو کوئی کہے کہ اوہ اس کے قریب نہ جاؤ، (آپ کہیں کہ) یہ تو کچھ نہیں کہتا، تو چلو پھر جاؤ، دیکھنا پھر بچنا بھی چاہے گا تو نہیں بچ سکتا، پھر وہ گیا۔ تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ دجال کے بارے میں بھی کہتے ہیں عام لوگوں کو بھی حکم ہوگا کہ بھاگو ادھر سے، اس کو تبلیغ نہیں کرنا۔ ہمارے ایک teacher تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، فوت ہوگئے، ہمیں reactor analysis پڑھا رہے تھے تو ایک دن سوال کیا:
There is hundred curie source what you will do that
Hundred curie source ہے radiation کا، آپ کیا کریں گے اس کے ساتھ؟ تو ہم نئے نئے سٹوڈنٹس تھے لہٰذا ہم نے تو اپنے ذہنی گھوڑے دوڑائے تو کوئی کہتا تھا reshielding کریں گے، یہ کریں گے وہ کریں گے وہ مسکرا رہے تھے، تو جب سب نے کہا تو کہتے ہیں:
Gentleman you will run away from there
آپ کی بہادری یہی ہے کہ ادھر سے بھاگو، وہاں پر یہ والا معاملہ نہیں ہے کہ آپ اس کی shielding کرلیں، shielding کرتے کرتے آپ کا ہوجائے گا سب کچھ۔ تو یہ میں اس لئے عرض کررہا ہوں کہ کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں۔ بھائی! میں آپ کو بات بتاؤں چلو بھر پانی میں تنکا بہہ جاتا ہے لیکن آبشار میں ہاتھی بھی چلا جاتا ہے، ہاتھ بھی نہیں رک سکتا۔ تو اگر intensity زیادہ ہو کھینچنے کی نفس کی خواہش کی، تو اس کے سامنے آپ کی ساری روحانیت بیٹھ جائے گی۔ وہ جو آپ نے سوچا ہے وہ ساری سوچ آگے پیچھے ہوجائے گی، پھر وقت پہ آپ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ لیکن ایک شخص ہے جس کو وہ روحانیت حاصل ہے صحیح معنوں میں نفس پر control ہے وہ کرلے گا۔ آپ اس کو دیکھ کر سوچیں کہ میں بھی کرتا ہوں۔ ہر ایک ہر کام نہیں کر سکتا۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت اہم ہے۔ یہ میں نے ساری مثالیں اس کی دی ہیں۔ تو یہاں پر بھی یہ بات شاید آئی ہے۔
اس تعلیم نبوی نے انسانوں کی دو قسمیں کردیں ایک وہ جن کی خلق اللہ کی ہدایت اور خدمت کی فطری توفیق ملی ہے تو ان پر یہ فرض ہے کہ وہ مجمع اور ہجوم میں رہ کر ان کی بھلائی کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ اس راہ میں ان کی دولت بھی خرچ ہوجائے اور ان کی جان بھی کام آجائے دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی طبعاً مردم آزاری اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا مادہ ہے۔ ان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح اسی میں ہے کہ وہ اپنے کو مجمع سے الگ رکھ کر خدا کی عبادت میں اپنا وقت صرف کریں تاکہ وہ گناہ کے بار سے اور لوگ ان کے آزار سے محفوظ رہیں۔ دوسرا موقع جس میں آنحضرت ﷺ نے عزلت نشینی کی اجازت دی ہے وہ ہے جب مجمع و آبادی یا قوم و ملک میں فتنہ و فساد کا بازار اس طرح گرم ہو کہ وہ اس کی روک تھام سے عاجز اور اس کی اصلاح سے قاصر ہو تو ایسے موقع پر اس کے لئے پسندیدہ یہی ہے کہ وہ جماعت سے ہٹ کر گوشہ گیر ہوجائے۔
تشریح:
آسان سی بات بتاتا ہوں، corona آگیا تو مفتیوں نے بھی فتویٰ دیا کہ مسجد جانا چھوڑ دیں اپنی اپنی جگہوں پہ جماعت کرلیں کیونکہ بیماری کا اندیشہ ہے۔ اب کیا وجہ ہے بھائی؟ وہ چیز ایسی عجیب چیز ہے کہ نظر نہیں آتی لیکن سب لوگ اس سے ڈرے ہوئے ہیں۔ تو اسی طریقہ سے جب گناہوں کی وبائی کیفیت ہوجائے تو پھر اس وقت تیس مار خان نہ بنو پھر اپنے آپ کو علیحدہ کرلو اسی میں خیر ہوگی۔ اگر کوئی اس قسم کی حالت میں آجائے کہ گناہوں کا ایک سمندر ہو جیسے سونامی ہوتا ہے، تو سونامی کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں؟ اس کے سامنے تو جہاز بھی نہیں ٹھہرتے، تنکوں کی طرح اڑتے ہیں، تو ایسی صورت میں جب اس قسم کے حالات ہوں تو پھر تو بھاگنا ہی ہے، پھر تو اس کے سامنے ٹھہرنا اپنے آپ کو (ہلاک کرنا ہے) ہماری پشتو میں کہتے ہیں: ”خر غیرت وکړو نو ګاډی ووښلو“ ترجمہ یہ ہے کہ گدھے نے غیرت دکھائی تو گاڑی نے اس کو مار دیا۔ تو ظاہر ہے کہ اگر اس قسم کے حالات ہوں تو پھر غیرت والی بات نہیں کرنی، پھر تو بھاگنا ہے کیونکہ ایمان کا بچانا سب سے زیادہ لازم ہے۔ وہ جو ہمارے پاس جمع پونجی ہے، وہ تو یہی ہے اگر یہی ہماری ختم ہوجائے تو پھر کیا ہوگا ہمارے پاس؟ ؎
جس کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے کیوں
مطلب اپنے آپ کو بچانا لازم ہے۔
چنانچہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ "ایک ایسا زمانہ لوگوں پر آئے گا جس میں ایک مسلمان کی بہترین دولت بکری ہوگی جس کو لے کر وہ بارش کی جگہوں اور پہاڑوں کی گھاٹیوں کو تلاش کرے گا تاکہ وہ اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا سکے" (صحیح بخاری کتاب الادب باب العزلت راحۃ من خلاط السوء) گوشہ گیری اور عزلت کے یہ دو موقع بھی در حقیقت نہایت صحیح اصول پر مبنی ہیں۔ پہلے موقع میں ایسے فرد کا جس سے جماعت اور مخلوق کو فائدہ کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہو الگ رہنا جماعت اور فرد دونوں کے لئے فائدہ مند ہے اور دوسرے موقع پر جب کہ جماعت کا نظام ابتر ہوگیا ہے اور کوئی فرد جو بجائے خود نیک اور سعید ہو لیکن اپنی کمزوری کے باعث وہ اس جماعت کی اصلاح پر قادر نہ ہو تو اس کے لئے جماعت کے دائرہ اثر سے اپنے کو باہر رکھ کر ہی اپنی نیکی اور سعادت کی تکمیل مناسب ہے۔‘‘
فرشتوں کے متعلق فرمایا: ﴿وَمَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ﴾ (الانبیاء: 19)
جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے غرور نہیں کرتے۔
سعادت مند اور با ایمان مسلمانوں کے متعلق فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ﴾ (السجدہ: 15)
میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیتوں سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی پاکی بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے۔
اس قسم کی اور آیتیں بھی قرآن پاک میں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت اور غرور و استکبار باہم مقابل کے متضاد معنی ہیں۔
تشریح:
یعنی تکبر کو دور کرنے کے لئے عبادت بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ تکبر اپنے اوپر نظر ہے کہ میں کچھ ہوں اور نماز اور عبادت اللہ پر نظر ہے کہ میں کچھ نہیں، اللہ ہی ہے، میں اس کے سامنے ماتھا ٹیک رہا ہوں۔ تو یہ تکبر کا علاج ہے بنیادی۔ اصل میں جتنی بھی ہماری عبادات ہیں وہ کسی نہ کسی رذیلے کا علاج ہیں۔ تکبر کا علاج نماز میں ہے بڑا، ویسے تو بہت ساری بیماریوں کا علاج ہے لیکن بڑی چیز یہی ہے، قرآن نے بتا دیا ہے۔ اور روزے کا تقویٰ ہے یعنی فسق و فجور سے بچنا۔ یعنی حب باہ سے بچنے کا جو سلسلہ ہے وہ روزے میں ہے اور حب جاہ سے بچنے کا جو حل ہے وہ نماز میں ہے اور حب مال سے بچنے کا حل زکوٰۃ میں ہے۔ دیکھو! تین عبادتیں ہماری ہیں اور تین بڑے جذبے ہیں نفس کے، حب جاہ کا توڑ نماز میں ہے، حب باہ کا توڑ روزے میں ہے اور حب مال کا توڑ زکوٰۃ میں ہے اور ان سب کا مل کے توڑ حج میں ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے زیادہ اخیر میں نکلتا ہے انسان کے دماغ سے خناث تکبر کا، لہٰذا سب سے اخیر میں انسان کی نماز بنتی ہے۔ لوگوں نے اس کو سب سے آسان سمجھا ہوا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اخیر میں بنتی کون سی چیز ہے؟ جب انسان صدیقین کی range میں چلا جائے پھر اس کے بعد نماز نماز ہوگی اس کی۔ ورنہ اس سے پہلے خام ہوگی۔ یہ نہیں کہ آپ اس وقت پڑھنا ہی بند کرلیں کہ یہ کامل نہیں ہے تو میں پڑھتا نہیں۔ نہیں بھائی، وہ غیر کامل بھی نہ پڑھنے والے سے اچھا ہے، لیکن اس کو کامل آپ نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ جب تک غرور ہمارے اندر ہے، تکبر ہمارے اندر ہے تو ہماری نماز پوری نہیں بنی کیونکہ وہ اس کے توڑ کے لئے تو ہے، اگر وہ ہمارے اندر ہے تو اس کا مطلب ہے ابھی ہماری نماز نے کام شروع نہیں کیا پورا، مکمل نہیں ہوا۔ اور فسق و فجور کا مادہ جب تک ہم میں ہے تو ابھی تک روزہ ہمارا ٹھیک نہیں ہوا اگر فسق و فجور کا مادہ ہم میں ہے یعنی حب باہ، تو اس کا مطلب ہے روزہ ہمارا ٹھیک نہیں ہوا، ویسے ٹھیک ہے نہ ہونے سے یقیناً بہت اچھا ہے لیکن ابھی ٹھیک نہیں ہوا۔ اور جب تک ہم میں مال کی محبت ہے تو اس کا مطلب ہے زکوٰۃ کا معاملہ فی الحال درست نہیں ہوا۔ ابھی اس پر مزید محنت کی ضرورت ہے۔
اب یوں کہہ سکتے ہیں ایک طرف تو یہ ہمارے اخلاق کو سنوارنے کے tools ہیں تو دوسری طرف ہمارے اخلاق کے سنوارنے کے meters ہیں۔ یعنی ہم اس سے check کر سکتے ہیں کہ ہم کدھر ہیں، where do we stand ان چیزوں میں۔ ہماری حب جاہ کیا ختم ہوئی ہے یا نہیں؟ تو نماز کو دیکھو۔ ہمارا روزہ ٹھیک ہوا ہے یا نہیں؟ تو پھر اس طرح فسق و فجور کو دیکھو، اگر فسق و فجور کا مادہ ہے تو اس کا مطلب ہے روزہ ٹھیک نہیں ہوا، ابھی روزے میں کمی ہے۔ تو یہ ہمارے گویا کہ bilateral ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہماری آنکھیں اور دل آپس میں interact کرتے ہیں، بیمار دل کی وجہ سے آنکھیں غلط استعمال ہوتی ہیں اور صحیح دل آنکھوں کے غلط استعمال سے بیمار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کان بھی ہیں، اس طرح زبان بھی ہے، اس طرح دماغ بھی ہے؛ یہ تمام چیزیں دل کے ساتھ connected ہیں۔ تو دل ان کو دے بھی رہا ہے، دل ان سے لے بھی رہا ہے، IOs ہیں، مطلب یہ ہے کہ input output systems ہیں ان کے، یعنی آدمی اس کی وجہ سے ان چیزوں کا صحیح استعمال کر سکتا ہے اگر دل کو ٹھیک کرلیا۔ اور اگر یہ غلط استعمال ہوا تو دل خراب بھی ہوجائے گا۔ تو ان عبادات کا ہمارے نفس کی اصلاح کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور ہمارے نفس کی اصلاح کا ان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے، bilateral ہے۔ تو اللہ پاک نے جو فرمایا: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ﴾5 بالکل صحیح ہے، ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾6 بالکل صحیح ہے، اس طرح زکوٰۃ کا، اس طرح حج کا، یہ ساری چیزیں بالکل صحیح ہیں لیکن اس کے لئے جس محنت کی ضرورت ہے وہ محنت اپنی جگہ پہ ہوگی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(الجاثیۃ: 23)
(بخاری، حدیث نمبر: 631)
(العنکبوت: 45)
ترجمہ: "بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے"۔
(بخاری، حدیث نمبر: 50)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔
(العنکبوت: 45)
(البقرۃ: 183)