رہبانیت اور مجاہدہ: سیرتِ نبوی کی روشنی میں ایک اہم فرق

درس نمبر 10

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اس بیان میں سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں عبادت کے حقیقی مفہوم کو واضح کیا گیا ہے۔ بیان کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسلام خود ساختہ مشقت، ترکِ لذات اور رہبانیت کو عبادت قرار نہیں دیتا، بلکہ یہ آسانی کا دین ہے۔ قرآن و حدیث سے متعدد دلائل پیش کیے گئے جہاں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو دین میں غلو کرنے اور اپنی جانوں پر سختی کرنے سے منع فرمایا۔ تاہم، اس کی تشریح میں ایک اہم فرق واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ مشقت کو دین سمجھنا غلط ہے، لیکن اگر نفسانی سستی کی وجہ سے شریعت پر عمل کرنا مشکل ہو تو بطورِ علاج عارضی اور اختیاری مجاہدہ جائز ہے۔ یہ مجاہدہ، جو خانقاہوں میں کرایا جاتا ہے، خود مقصود نہیں بلکہ نفس کو دین پر استقامت کے ساتھ چلنے کے قابل بنانے کا ایک ذریعہ ہے، بالکل فوجی تربیت کی طرح جس کا مقصد جنگ کے لیے تیاری ہوتا ہے۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تمہید:

معزز خواتین و حضرات! آج جمعرات ہے اور جمعرات کے دن ہمارے ہاں سیرت النبی کے موضوع پر بات ہوتی ہے اور یہ ہم سیرت النبی حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی جو شہرہ آفاق کتاب ہے، اس سے کرتے ہیں۔

متن:

تجرد، ترک لذائذ ریاضات اور تکالیف شاقہ عبادت نہیں

عام خیال یہ تھا کہ بندہ جس قدر اپنے اوپر تکلیف اٹھاتا ہے اسی قدر خدا خوش ہوتا ہے اور وہ اس کی بڑی عبادت شمار ہوتی ہے۔ اسی لئے لوگ اپنے جسم کو بڑی بڑی تکلیفیں دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جس قدر جسم کو آزار زیادہ دیا جائے گا اسی قدر روح میں زیادہ صفائی اور پاکیزگی آئے گی۔ چنانچہ یونانی فلسفیوں میں اشراقیت، عیسائیوں میں رہبانیت اور ہندوں میں جوگ، اس اعتقاد کا نتیجہ تھا۔ کوئی گوشت نہ کھانے کا عہد کرلیتا، کوئی ہفتہ میں یا چالیس دن میں ایک دفعہ غذا کرتا تھا، کوئی سر تا پا برہنہ رہتا اور ہر قسم کے لباس کو تقدس کا ننگ سمجھتا تھا، کوئی چلہ کی سردی میں اپنے بدن کو ننگا رکھتا تھا، کوئی عمر بھر یا سالہا سال تک اپنے کو کھڑا رکھتا تھا یا بیٹھا رہتا تھا اور سونے اور لیٹنے سے قطعاً پرہیز کرتا تھا، کوئی اپنا ایک ہاتھ کھڑا رکھتا کہ سوکھ جائے، کوئی عمر بھر تاریک تہہ خانوں اور غاروں میں چھپ کر خدا کی روشنی تلاش کرتا تھا، کوئی تجرد اور ترکِ دنیا کرکے اہل و عیال اور زن و فرزند کے تعلق سے نفرت رکھ کر خدا کی محبت کا غلط مدعی بنتا تھا۔ لیکن نبوت محمدی نے راز آشکار کیا کہ ان میں سے کوئی چیز عبادت نہیں، نہ ترک لذائذ سے حق کی لذت ملتی ہے نہ ہماری غمگینی خدا کی خوشنودی کا باعث ہے اور نہ بندوں کی اس غیر معمولی تکلیف سے خدا کو آرام ملتا ہے، نہ زن و فرزند کی نفرت سے خدا کی محبت نصیب ہوتی ہے، نہ ترک دنیا سے دین کی دولت ملتی ہے۔ خدا کا دین اتنا ہی ہے جو بندہ کی استطاعت کے اندر ہے۔ اس نے کہا:

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرۃ: 286)

"خدا کسی کو اس کی گنجائش سے زیادہ کی تکلیف (حکم) نہیں دیتا۔"

اسلام میں روزہ ایک ایسی چیز تھی جس کو بعضوں کے لئے غیر معمولی تکلیف کہہ سکتے ہیں۔ اسلام نے اس میں متعدد آسانیاں پیدا کرکے کہا:

﴿یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ: 185)

"خدا تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے سختی نہیں"

حج بھی سب لوگوں پر مشکل تھا تو ساتھ ہی فرما دیا:

﴿مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ﴾ (آل عمران: 97)

"جس کو (زاد راہ اور چلنے کی) استطاعت ہو اسی پر حج فرض ہے"

﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ﴾ (الحج: 78)

"تمھارے لئے دین میں اس نے (خدا نے) تنگی نہیں کی"

آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”إِنَّ ھَذَا الدِّیْنَ یُسْرٌ وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ“ (سنن نسائی، حدیث نمبر: 5034)

یہ دین آسان ہے جو کوئی شخص دین سے سختی میں مقابلہ کرے گا تو دین اس کو مغلوب کردے گا۔“

اور فرمایا: ”اِنَّمَا اَنَا بُعِثْتُ بِالْمِلَّۃِ السَّمْحَۃِ اَوِ السَّھْلَۃِ الْحَنِیْفِیَّۃِ الْبَیْضَاءِ“ (مسند امام احمد بن حنبل، حدیث نمبر: 22291)

”میں تو سہل اور آسان روشن حنیفی دین دے کر بھیجا گیا ہوں۔“

مذہب میں رہبانیت اور جوگ کا جو طریقہ ایجاد کیا گیا خواہ وہ کتنی ہی خوش نیتی سے کیا گیا ہو تاہم وہ دین حق کی اصلی تعلیم نہ تھی اسی لئے اسلام کے صحیفہ نے اس کو بدعت سے تعبیر کیا اور کہا:

﴿وَرَهْبَانِیَّةَنِ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَاۚ﴾ (الحدید: 27)

”اور عیسائیوں نے ایک رہبانیت کی بدعت نکالی اور ہم نے ان کو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا اس کا حکم نہیں دیا تھا تو جیسا چاہئے اس رہبانیت کا حق ادا نہ کیا“

ان لوگوں سے جنہوں نے اچھے کھانوں اور زیب و زینت کی جائز چیزوں کو بھی اس لئے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا کہ اس سے خدا خوش ہوگا، یہ سوال کیا:

﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ﴾ (الأعراف: 32)

”پوچھ اے پیغمبر کہ اس زیب و زینت اور رزق کی اچھی چیزوں کو جن کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے بنایا کس نے حرام کیا۔“

اسلام نے اس مسئلہ میں یہاں تک سختی کی کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے بعض بیبیوں کو خوشنودی مزاج کے لئے شہد نہ کھانے کی قسم کھا لی تھی، اس پر عتاب آیا خدا نے فرمایا:

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَؕ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (تحریم: 1)

”اے پیغمبر! خدا نے جس چیز کو تیرے لئے حلال کیا تو اس کو اپنی بیبیوں کی خوشی کی خاطر اپنے اوپر حرام کیوں کرتا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے

صحابہ میں بعض ایسے لوگ تھے جو عیسائی راہبوں کے اثر یا ذاتی میلان طبع کے سبب سے تجرد و ترک لذائذ اور ریاضات شاقہ کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو اس سے باز رکھا اور فرمایا کہ میں یہ شریعت لے کر نہیں آیا۔ قدامہ بن مظعون اور ان کے ایک رفیق نے دربار رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ یارسول اللہ ہم میں سے ایک نے عمر بھر مجرد رہنے اور شادی نہ کرنے کا اور دوسرے نے گوشت نہ کھانے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "میں تو دونوں باتیں کرتا ہوں" یہ سن کر دونوں صاحب اپنے ارادہ سے باز رہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ایک نہایت عابد و زاہد صحابی تھے یہ عہد کرلیا تھا کہ وہ ہمیشہ دن کو روزے رکھیں گے اور رات بھر عبادت کریں گے۔ آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ "اے عبداللہ تم پر تمھارے جسم کا بھی حق ہے، تمھاری آنکھ کا بھی حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی حق ہے، مہینہ میں تین دن روزے رکھ لینا کافی ہے۔ اسی قسم کی نصیحت آپ ﷺ نے ایک دوسرے تقشف پسند صحابی حضرت عثمان بن مظعون کو فرمائی۔ آپ کو ان کی نسبت معلوم ہوا کہ وہ شب و روز عبادت میں مصروف رہتے ہیں، بیوی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، دن کو روزے رکھتے ہیں، رات کو سوتے نہیں، آپ ﷺ نے ان کو بلا کر پوچھا کہ "کیوں عثمان تم میرے طریقہ سے ہٹ گئے" عرض کی "خدا کی قسم میں نہیں ہٹا ہوں۔ میں آپ ہی کے طریقہ کا طلبگار ہوں" فرمایا میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، اے عثمان خدا سے ڈرو کہ تمھارے اہل و عیال کا بھی تم پر حق ہے، تمھارے مہمان کا بھی حق ہے، تمھاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تو روزے بھی رکھو، افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور سوؤ بھی۔

قبیلہ باہلہ کے ایک صحابی جب اسلام لا کر اپنے قبیلہ میں واپس گئے تو انہوں نے دن کا کھانا چھوڑ دیا اور مسلسل روزے رکھنے لگے۔ ایک سال کے بعد جب وہ پھر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان کی صورت اتنی بدل گئی تھی کہ آپ ان کو پہچان نہ سکے۔ انہوں نے اپنا نام بتایا تو فرمایا "تم خوش رو تھے تمھاری صورت کیوں ایسی ہوگئی" عرض کی "یارسول اللہ ﷺ جب سے آپ سے مل کرگیا ہوں متصل روزے رکھتا ہوں" فرمایا "تم نے اپنی جان کو کیوں عذاب میں ڈالا رمضان کے علاوہ ہر مہینہ میں ایک روزہ کافی ہے" انہوں نے اس سے زیادہ کی طاقت ظاہر کی تو آپ نے مہینہ میں دو روزوں کی اجازت دی۔ انہوں نے اس سے زیادہ کی اجازت چاہی تو آپ نے مہینہ میں تین روزے کردیئے۔ انہوں نے اس سے بھی زیادہ اضافہ کی درخواست کی تو آپ نے ماہ حرام کے روزوں کی اجازت دی۔ ایک دفعہ چند صحابہ نے ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ ﷺ کی دن رات کی عبادت و ریاضت کا حال دریافت کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ رسول خدا ﷺ کو دن رات سوا عبادت کے اور کوئی کام نہیں ہوگا۔ انہوں نے آپ ﷺ کی عبادت کا حال سنا تو بولے ہم کو رسول اللہ ﷺ سے کیا نسبت؟ آپ تو معصوم ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا میں تو رات بھر نمازیں پڑھوں گا۔ دوسرے صاحب بولے میں عمر بھر روزے رکھوں گا۔ تیسرے صاحب نے اپنا ارادہ یہ ظاہر کیا کہ میں عمر بھر مجرد رہوں گا، کبھی نکاح نہ کروں گا۔ آنحضرت ﷺ ان کی یہ گفتگو سن رہے تھے۔ ان کو خطاب کرکے فرمایا "خدا کی قسم میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں تاہم میں روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ جو میرے طریقہ پر نہیں چلتا وہ میری جماعت میں نہیں۔

بعض صحابہ نے جو افلاس اور غربت کی وجہ سے شادی نہیں کر سکتے تھے اور ضبط نفس پر بھی قادر نہ تھے چاہا کہ اپنا عضو قطع کرا دیں۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس رہبانیت کی اجازت چاہی تو آپ نے سخت برہمی ظاہر فرمائی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ صحابہ کہتے ہیں اگر حضور ﷺ اس کی اجازت دیتے تو بہت سے لوگ اس پر عمل کرنے کے لئے تیار تھے۔

ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ آپ نے کس اہتمام بلیغ کے ساتھ لوگوں کو عبادت کا صحیح مفہوم و مقصود تعلیم فرمایا۔ آپ نے کبھی کبھی بذات خاص کئی کئی دن تک متصل روزے رکھے۔ صحابہ نے بھی آپ کی پیروی میں اس قسم کے روزے رکھنے چاہے۔ آپ نے منع فرمایا۔ لیکن وہ یہ سمجھے کہ آپ صرف اپنی شفقت کی بنا پر منع فرماتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے افطار نہ کیا۔ آپ نے دو دن روزہ رکھے تھے کہ اتفاق سے چاند نکل آیا۔ آپ نے افطار کرلیا اور فرمایا کہ اگر مہینہ بڑھ سکتا تو میں اتنے روزہ رکھتا کہ ان مذہب میں غلو کرنے والوں کا سارا غلو رہ جاتا۔ صحابہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ پھر آپ کیوں کئی کئی دن روزے رکھتے ہیں۔ فرمایا "تم میں سے کون میری طرح ہے؟ مجھے تو میرا رب کھلاتا پلاتا رہتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں عام امت کے لے یہ روزے نہیں ہیں۔

ایک دفعہ ایک مسجد میں آپ کا گذر ہوا دیکھا تو ایک ستون میں ایک رسی لٹک رہی ہے۔ دریافت کیا تو لوگوں نے کہا یہ زینت نے باندھی ہے۔ رات کو نماز میں جب کھڑی کھڑی تھک جاتی ہیں تو اسی کے سہارا کھڑی رہتی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا "یہ رسی کھول دو، لوگو! تم اسی وقت تک نماز پڑھو جب تک تم میں نشاط باقی رہے۔ جب کوئی تھک جائے تو بیٹھ جائے"۔

ایک دفعہ ایک عورت سامنے سے گزری۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا یہ خولاء ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھر نہیں سوتی اور عبادت میں مصروف رہتی ہے۔ فرمایا کہ "یہ رات بھر نہیں سوتی! لوگو! اسی قدر کرو جتنی طاقت ہے"۔

جو لوگ اپنی قوت اور استطاعت سے زیادہ رات بھر نمازوں میں مشغول رہتے تھے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: ”اِکْفَلُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَإِنَّ اللہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا فَإِنَّ أَحَبَ الْعَمَلِ إِلَی اللہِ أَدْوَمُہٗ وَإِنْ قَلَّ“ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 1368)

”اتنے ہی کام کی تکلیف اٹھاؤ جس کو کر سکو۔ کیونکہ جب تک تم نہ اکتا جاؤ خدا نہیں اکتاتا۔ خدا کے نزدیک سب سے پسندیدہ وہی کام ہے جس کو تم ہمیشہ کر سکو اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔“

حج میں رہبانیت کی بہت سی باتیں عرب میں جاری تھیں۔ بعض حاجی یہ عہد کرلیتے تھے کہ وہ اس سفر میں زبان سے کچھ نہ بولیں گے یا سواری کی استطاعت کے باوجود پیادہ سفر کریں گے اور کسی سواری پر نہ چڑھیں گے یا اس سفر میں کسی سایہ کے بغیر دھوپ ہی میں چلیں گے۔ بعض لوگ اپنی گنہگاری کے اظہار کے لئے اپنی ناک میں نکیل ڈال کر طواف کرتے تھے اور اس کو ثواب جانتے تھے۔ اسلام نے ان تمام طریقوں کو منسوخ کردیا کہ خواہ مخواہ کی تکلیف خدا کی خوشنودی کا باعث نہیں۔ حضرت عقبہ بن عامر کی بہن نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ پیدل حج کریں گی۔ عقبہ نے آکر آنحضرت ﷺ سے فتویٰ پوچھا۔ آپ نے جواب دیا خدا کو تمھاری بہن کی اس نذر کی حاجت نہیں۔ ان سے کہو کہ وہ سوار ہوکر حج کریں۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ایک اور شخص کو دیکھا کہ قربانی کے اونٹ ساتھ ہونے کے باوجود پیدل چل رہا ہے۔ آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا۔ اس نے معذرت کی کہ یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "میں یہ جانتا ہوں کہ یہ قربانی کا جانور ہے لیکن تم اس پر سوار ہولو" ایک دفعہ حج کے سفر میں آپ نے دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ اس نے پیدل حج کی نیت کی ہے۔ فرمایا "خدا کو اس کی حاجت نہیں کہ یہ اپنی جان کو اس طرح عذاب میں ڈالے، اس کو سوار کردو"۔

ایک دفعہ آپ خطبہ دے رہے تھے، دیکھا کہ ایک شخص چلچلاتی ہوئی دھوپ میں ننگے سر کھڑا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے اور اس کی کیا حالت ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام ابو اسرائیل ہے۔ اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں اور نہ سایہ میں آرام کرے گا اور نہ بات کرے گا اور برابر روزے رکھے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا "اس سے کہو کہ باتیں کرے، بیٹھے، سایہ میں آرام لے اور اپنا روزہ پورا کرے"۔

حج میں دیکھا کہ ایک شخص اپنی ناک میں نکیل ڈالے ہوئے ہے اور دوسرا اس کو جانور کی طرح اس کی نکیل پکڑ کر کھینچ رہا ہے۔ آپ ﷺ نے جاکر نکیل کاٹ دی اور فرمایا کہ "اگر ضرورت ہو تو ہاتھ پکڑ کر اس کو طواف کراؤ"۔

اس قسم کی غیر ضروری ریاضتوں کے متعلق عیسائی راہبوں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھا کر آپ ﷺ نے فرمایا: ”لَا تُشَدِّدُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِتَشْدِیْدِھِمْ عَلٰی أَنْفُسِھِمْ وَسَتَجِدُوْنَ بَقَایَاھُمْ فِی الصَّوَامِعِ وَالدِّیَارَاتِ“ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 4904)

”اپنی جانوں پر سختی نہ کرو کہ تم سے پہلے قومیں اپنی جانوں پر سختی کرنے سے تباہ ہوئیں اور ان کی بقیہ نسلیں آج بھی گرجوں اور دیروں میں تم کو ملیں گی۔“

خاتم الانبیاء ﷺ نے عبادت کے ان تمام غلط راہبانہ طریقوں کا اپنے ایک مختصر فقرہ سے ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لَا صَرُوْرَۃَ فِی الْإِسْلَامِ“ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 1729)

”اسلام میں رہبانیت نہیں۔“

تشریح:

یہ اصل میں بہت خوبصورت تبصرہ ہے، جس میں ہمیں بہت ساری چیزوں کے بارے میں ہدایت ملتی ہے۔ اصل میں ہم نے یہ سیرت کے ذریعہ سے تعلیم اس لئے شروع کی ہے کہ آپ ﷺ ہمارے لئے نمونہ ہیں اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمارے لئے معیار ہیں۔ چونکہ آپ ﷺ کا طریقہ جو تھا، صحابہ رضوان اللہ اجعمین نے صحیح طور پر اس پر عمل فرمایا تھا، لہٰذا ہمارے لئے یہ نمونہ ہے کہ صحابہ کرام نے کیسے عمل کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے صحابہ آپ ﷺ کے سامنے تھے اور اگر کوئی بات ایسی تھی جو افراط و تفریط کی بات ہوتی تو آپ ﷺ ان کو منع فرماتے، جیسے کہ ابھی آپ نے سن لیا۔ اس لئے احادیث شریفہ کی تینوں قسمیں دین کی بنیاد ہیں یعنی قولی، فعلی اور تقریری۔ قولی میں آپ ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں، فعلی میں آپ ﷺ کا عمل ہوتا ہے اور تقریری میں صحابہ کا عمل ہوتا ہے، لیکن اس پر آپ ﷺ کا فیصلہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کو باقی رکھا یا آپ ﷺ نے اس کو منع فرما دیا۔ تو اس طریقہ سے گویا کہ ہم لوگوں کو ہدایت ملتی ہے سیرت کے واقعات سے۔

یہ جو ابھی بات ہوئی ہے یہ اس لئے بہت اہم بات ہے کہ واقعتاً لوگ اس چیز کو نہ جاننے کی وجہ سے تصوف کو بھی غلط طور پہ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ دو قسم کے ہیں، کچھ لوگ اپنے خیال میں جو ان کو نظر آتا ہے بہتر طریقہ اپنی تربیت کا اس کو لازم سمجھ کر کرتے ہیں اور جو اس کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو غلط سمجھتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان لوگوں کی وجہ سے جو کہ پروا نہیں کرتے قرآن و سنت کی اور اپنی مرضی کی بات کرتے ہیں اور اس کو تصوف کہتے ہیں تو وہ تصوف ہی کے منکر ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کی باتیں ہیں۔ اب ظاہر ہے چونکہ یہ طریقہ نہیں ہے اسلام کا، جیسے کہ اپنی طرف سے میں کرلوں تو اس کو میں اسلام کا طریقہ نہیں کہہ سکتا، میرے پاس واضح دلیل ہونی چاہئے کہ آیا قرآن سے یا احادیث شریفہ سے اس کی اجازت ہے یا نہیں ہے۔ اگر ہو تو پھر کوئی منع نہیں کر سکتا اور اگر نہ ہو تو پھر کوئی شامل نہیں کر سکتا، یہ بنیادی بات ہے۔ اب اس میں یہ جو بات ہے کہ اپنے آپ کو تکلیف دینے کی نیت سے اس کو عبادت سمجھنا، یہ دین نہیں ہے۔ اس پورے بیان میں کیا ہے؟ اس میں یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس نیت سے تکلیف دینا کہ یہ عبادت ہے، یہ عبادت نہیں ہے۔ اس بات کو لکھ لو اپنے ساتھ اچھی طرح۔ پہلی بات کیا ہے کہ اپنے آپ کو اس نیت سے تکلیف دینا یہ عبادت ہے، یہ عبادت نہیں ہے، نمبر ایک۔ نمبر دو: جس بات کا حکم اللہ نے دیا ہے اس میں اگر آپ کو تکلیف ہو تو وہ تکلیف نہیں ہے وہ تمہاری سستی ہے۔ بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں؟ جس عبادت کا، جس کام کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس میں آپ کے نفس کو تکلیف ہو اور آپ اس پر عمل نہیں کررہے تو یہ آپ کی سستی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ مطلوب نہیں ہے، کیونکہ ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرۃ: 286) دونوں طرف عمل کرتا ہے، پہلی بات کی طرف بھی عمل کرتا ہے کہ میں اپنے اوپر اگر کوئی سختی لانا چاہوں اور اللہ نے نہیں لائی تو میں نہیں لا سکتا ہوں کیونکہ ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرۃ: 286)۔ دوسری طرف جو حکم دیا ہے اگر میں سستی کی وجہ سے نہیں کر سکتا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو میں نہیں کر سکتا، کیوں؟ کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں دیکھ کر ہی حکم دیا ہے۔ اور جس وقت وہ ہم نہیں کر سکتے تو اس کے لئے اللہ پاک نے شریعت میں کوئی صورت بھی بتائی ہوتی ہے۔ مثلاً آدمی بیمار ہے، وضو نہیں کر سکتا، تیمم کرلے۔ کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا، بیٹھ کر پڑھے، بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا اشارے سے پڑھ لے۔ الغرض یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی صورت ہے۔ جیسے ابھی دیکھیں کہ جس کے پاس استطاعت نہیں اس پر حج فرض ہی نہیں، اگر بیمار ہے یا مسافر ہے وہ روزہ مؤخر کر سکتا ہے، لیکن یہ فرما دیا اگر کرلو تو اچھا ہے۔ حکم موجود ہے ساتھ، کرلے تو اچھا ہے۔ تو اب اس میں یہ الگ بات ہوگئی کہ اگر اللہ پاک نے حکم دیا ہے لیکن تم اس کو نہیں کررہے ہو تو یہ سستی ہے، لیکن اللہ پاک نے اگر حکم نہیں دیا ہے اور تم اپنے اوپر سختی کررہے تو یہ دین نہیں ہے۔ دو باتیں ہوگئی۔ اب تمہارے اندر سستی ہے، (اس کو اچھی طرح یاد رکھو، میں نے آپ کو بتایا کہ دو باتیں ہیں، اب تیسری بات بھی لکھو) اگر تمھارے اندر سستی ہے اور اس سستی کی وجہ سے تم دین پر نہیں چل سکتے ہو مثلاً فجر کی نماز آپ کے لئے مشکل ہے آج کل کے دنوں میں، یا آپ روزے نہیں رکھ سکتے، آپ کوئی اور دین کا کام نہیں کر سکتے، جہاد نہیں کر سکتے اگر فرض ہوجائے، تو ایسی صورت میں اپنے آپ کو اس کے لئے عارضی طور پر مشقت کے ذریعہ سے تیار کرنا، یہ مجاہدہ اختیاری بصورت علاج جائز ہے، بصورت دین نہیں، بصورت علاج جائز ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پہ لوگ فرق نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے اس بات کو ہم لوگوں کو اچھی طرح جاننا چاہئے کہ بصورت علاج اس کی اجازت ہے لیکن اتنی جتنی کہ ضرورت ہے، جب ضرورت پوری ہوجائے تو بس ختم، بصورت دین نہیں ہے۔

تو یہ تین باتوں کو اگر آپ نوٹ کرلیں اور پھر تین باتوں کا آپس میں تقابلی جائزہ لے لیں تو میرے خیال میں دین کی ساری بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں خانقاہوں میں لوگ مشقت کرتے ہیں، تو وہ عارضی مشقت ہوتی ہے، وہ مستقل مشقت تھوڑی ہوتی ہے۔ اب شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ گرم گرم پتھروں پر گرمیوں میں چلا کرتے تھے اور سردیوں میں دریا کے اندر تیرتے تھے یخ پانی میں۔ لوگوں نے کہا حضرت اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشقت میں نہیں ڈالا، ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرۃ: 286) فرمایا:چونکہ کر سکتا ہوں تو تبھی تو کررہا ہوں۔ کیونکہ میں نے جہاد پہ جانا ہے اور جہاد میں میری مرضی کے حالات نہیں ہوں گے تو میں ان حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار کررہا ہوں۔ آخر دیکھو! ہماری فوج میں جو لوگ بھرتی ہوتے ہیں دو سال کی training ان کو دیتے ہیں، بڑی Tough training دیتے ہیں، تو یہ بڑی Tough training جو دیتے ہیں وہ وقتی ہوتی ہے، مستقل طور پہ تو نہیں ہوتی۔ ہاں یہ بھی ہے کہ سال میں پھر ان کے rehearsal ہوتے ہیں۔ وہ recharge کرتے ہیں ان کو۔ وہ Long running اور Short running اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ان سے کرواتے ہیں تاکہ وہ fit رہیں۔ یہ نہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بھئی یہ کوئی مقصودی بات ہے۔ صرف اس کو اپنے کام کے لئے fit رکھنے کے لئے کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر۔ تو اگر دنیا کے لئے آپ کر سکتے ہیں تو دین کے لئے کیوں نہیں کر سکتے؟ صرف یہ مجاہدہ اختیاری ضروری اس وقت ہوجاتا ہے جب آپ کا دین کے ایک ضروری کام سے اپنی اس سستی کی وجہ سے رہ جانے کا امکان ہو۔ یہ اس کی بنیادی بات ہوتی ہے۔ اور اس کا فیصلہ مشائخ پہ چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ وہ بہتر جانتے ہیں کہ کس کے لئے کتنا مجاہدہ ضروری ہے۔ جیسے کہ ہمارے آرمی کے بڑے لوگ ہوتے ہیں، وہی فیصلہ کرلیتے ہیں کہ دو سال کی training ضروری ہے، ڈھائی سال کی training ضروری ہے، ڈیڑھ سال کی training ضروری ہے اور کس قسم کی training ضروری ہے۔ وہ جیسے یہ فیصلہ کرتے ہیں اس طرح مشائخ بھی اپنے طور پہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ان چیزوں کی experience ان کو ہوتی ہے۔ تو یہ صرف اور صرف عارضی طور پر ایک مشقت ہے اور وہ صرف اس سستی کو دور کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ جیسے دس مقامات سلوک کے بتائے ہیں مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اس میں ایک مقام ریاضت بھی ہے، ایک مقام قناعت بھی ہے۔ تو مقام ریاضت میں سستی دور کرنے کے لئے ریاضت کروائی جاتی ہے وقتی طور پر، اور مقام قناعت میں چیزوں کو کم کروایا جاتا ہے وقتی طور پر کہ کم سے کم چیزوں میں آپ گزارا کر سکیں، اپنی زندگی کو کم سے کم ضرورتوں کی بنیاد پر چلائیں۔ یہ وقتی طور پر چیزیں ہوتی ہیں، یہ مستقل نہیں ہوتیں، ہاں البتہ اگر اللہ جل شانہٗ پھر تربیت فرما دیں اور وہ چیز حاصل ہوجائے جس کے حاصل کرنے کے لئے یہ چیز کی جاتی ہے تو پھر سبحان اللہ۔ جو اللہ نعمت دے اس کو استعمال کرکے شکر ادا کیا کرو۔ پھر انسان شکر بھی کر سکتا ہے، صبر بھی کر سکتا ہے، اور جو صبر نہیں کر سکتا وہ شکر نہیں کر سکتا، تو صبر اس سے پہلے کی بات ہے، اس لئے اس کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بڑھیا آئی، اس بڑھیا نے اپنے بچے کو ان کے حوالے کیا کہ حضرت اس کی تربیت فرما دیں۔ تو حضرت نے اپنی خانقاہ میں داخل کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد ملنے کے لئے آئی تو دیکھا کہ اس کا بیٹا خشک روٹی کھا رہا ہے اور حضرت کے سامنے مرغ مسلم پڑا ہوا ہے۔ بڑھیا کی طبیعت بڑی خراب ہوگئی۔ اس نے کہا کہ حضرت میں نے تو تربیت کے لئے آپ کے بچہ حوالے کیا تھا، آپ خود مرغ کھا رہے ہیں اور اس کو خشک روٹی کھلا رہے ہیں۔ فرمایا: اسی مرغ مسلم کھانے کے لئے تو اس کو بنا رہا ہوں، تیار کررہا ہوں کہ یہ کھا سکے بعد میں، اسی کے لئے تو یہ سارا کروا رہا ہوں۔ لوگ عام طور پر اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ یہ کیا فرمایا۔ اصل بات یہ ہے کہ جس کا معدہ خراب ہو تو پہلے اس کو نرم غذا دیتے ہیں کہ وہ ہضم کر سکے، پھر بعد میں جب معدہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو پھر وہ سخت غذا بھی کھا سکتا ہے، تو اسی طریقہ سے پہلے یہ مجاہدہ کروایا جاتا ہے، اس مجاہدہ کے ذریعہ سے ان کے اندر ظرف پیدا کیا جاتا ہے، جب ظرف پیدا ہوجاتا ہے نعمت کا تو ان نعمتوں کا شکریہ وہ کر سکتا ہے۔ ناز و نعم میں پلے ہوئے لوگ شکر نہیں کرتے۔ کرتے ہیں؟ ناز و نعم میں پلے ہوئے لوگ کیا شکر نہیں کرتے، بلکہ تھوڑی سی کمی آجائے تو ناشکری کرتے ہیں۔ اور ایسے ہزاروں لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک وقت کا کھانا ہے اور دوسرے وقت کا نہیں ہے، وہ شکر کرتے ہیں۔ کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے کھانا عطا فرما دیا۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ کیونکہ ان کو شکر سمجھ میں آگیا ہے کہ اللہ کی نعمت ہے یہ، اللہ کی نعمت کی قدر ان کو نصیب ہوئی ہے، نتیجتاً وہ شکر کرتے ہیں۔ اور جن کو فراوانی ہے، اور جن کو پروا ہی نہیں ہے اور تربیت نہیں ہوئی ہے تو وہ ناشکری پہ ناشکری کیے جاتے ہیں۔ تو شکر کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے خانقاہوں میں۔ اصل میں خانقاہوں کا بنیادی کام یہ ہے۔ لوگوں نے پتا نہیں خانقاہوں کو کیا سمجھا ہوا ہے۔

حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں جب اپنی خانقاہ میں گیا جو حضرت رائے پوری کی خانقاہ تھی، تو پیٹ میرا خراب رہتا تھا۔ روٹی کچھ جلی کچھ کچی، ظاہر ہے بہت ساری روٹی جب پکتی ہے تو اس میں ایسا ہوجاتا ہے۔ تقسیم ہوتی تھی، یہ تو نہیں ہوتا تھا کہ ڈھونڈ لیں۔ اب جس کے حصے میں جو آئی۔ اب میں نے اس روٹی کو کھایا تو بیمار ہوگیا تو میں نے باورچی سے کہا کہ حضرت تھوڑا سا اس کو ٹھیک کرلیں، میرا پیٹ خراب ہے۔ کہا اچھا اچھا، خیال رکھیں گے۔ اگلے دن پھر وہی والی صورتحال، اس کو یاد نہیں رہا یا مسئلہ کیا ہوا، جو بھی تھا، بہرحال اس کو وہی روٹی مل گئی۔ اس نے پھر کہا تو انہوں نے کہا کہ آپ روٹیاں توڑنے کے لئے آئے ہیں یا اپنی تربیت کرنے کے لئے آئے ہیں؟ اب اس کو ڈر ہوگیا کہ حضرت کو اگر اس نے بتا دیا تو حضرت مجھے خانقاہ سے نکال دیں گے۔ تو اس پر وہ چپ ہوگیا اور بس وہ کہتا کہ ایسی روٹی میں کھاتا رہا، پیٹ بھی خراب ہوتا تھا۔ کہتے ہیں پیٹ خراب رہا تکلیف بہت ہوئی لیکن اَلْحَمْدُ للہ فائدہ ہوگیا۔ طبیعت ٹھیک ہوگئی، فائدہ ہوگیا۔ یہ تھی اس وقت کی بات۔ اب آج کل ہم خانقاہوں میں بھی ایسی چیزیں ڈھونڈتے ہیں۔ اصل میں بات ایسی نہیں ہے، خانقاہ ہوتی ہی تربیت گاہ ہے، وہاں پر وہاں پر بعض دفعہ تو مشکلات قصداً لائی جاتی ہیں۔ اب چونکہ وہ دور نہیں رہا کہ قصداً لائی جائیں تو کم از کم جو خود بخود آتی ہیں تو ان کے ساتھ گزارا کرنا ہوتا ہے اور وہی مجاہدہ ہوتا ہے آج کل کے دور کا۔ کبھی پانی بند ہوگیا، کبھی بجلی چلی گئی، کبھی UPS خراب ہوگیا، کبھی کیا ہوگیا کبھی کیا ہوگیا؛ یہ ساری جو غیر اختیاری چیزیں ہیں، یہی اختیاری مجاہدات بن جاتے ہیں، یہی ہمارے لئے مجاہدات بن جاتے ہیں۔ تو اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ والی بات کہ ہم لوگوں کو صبر اختیار کرنا چاہئے۔ ابھی دیکھیں سب نے mask چڑھایا ہوا ہے، یہ بھی میرا حکم نہیں ہے، میں تو اس مسئلہ میں کافی relax رہنا چاہتا تھا، لیکن جو فرمایا گیا تو بس اس پر میں عمل کررہا ہوں، میری بات فائنل تو نہیں ہے۔ تو یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ مجبوریاں ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشکلات بھی آتی ہیں اور ان کا علاج بھی ہوتا ہے، لیکن اصل میں بات یہ ہے کہ لوگ اس کو مختلف رنگوں میں لیتے ہیں۔ دیکھیں میں آپ کو بات بتاؤں، حکم تو اللہ ہی کا چلتا ہے، ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا، چاہے ہم ہنسیں، چاہے ہم روئیں، چاہے ہم خوش ہوجائیں، چاہے ہم ناخوش ہوں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ احتیاطوں کے ہم انبار لگا دیں پھر بھی جو ہوگا تو وہی ہوگا جو اللہ چاہے گا، اس میں ذرہ بالکل بھی تبدیل نہیں آ سکتی۔ لیکن حکم ہمیں کس چیز کا ہے؟ احتیاط کرنے کا ہے یا نہیں ہے؟ حکم احتیاط کرنے کا ہے۔ کوئی زہر کو ہاتھ لگاتا ہے؟ نہیں لگاتا، کیوں نہیں لگاتا؟ اللہ تعالیٰ نہ مارنا چاہے تو زہر کھا کر بھی نہ مارے۔ کوئی بھی زہر کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ مجھے اگر پتا ہو کہ یہاں پر کہیں زہر ہے تو اس سے بچوں گا یا نہیں بچوں گا؟ مجھے اگر پتا ہو کہ جھاڑیوں میں سانپ ہے، تو میں اس وقت چلتے ہوئے کچھ احتیاط کروں گا یا نہیں کروں گا؟ بوٹ بڑے اونچے والے پہنوں گا، stick بھی اپنے ساتھ رکھوں گا۔ یہ مجبوریاں ہیں، اب کیا کریں، unseen دشمن ہے، آپ کو نظر نہیں آرہا لیکن آپ نے اپنے آپ کو جس حد تک بھی بچا سکتے ہو تو بچاؤ۔ تو یہ بات ہے کہ یہ جو احتیاط ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ توکل نہیں ہے۔ ؎

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

توکل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بے احتیاط ہوجاؤ اور پھر کہو کہ بس نقصان ہوگیا۔ اس توکل کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کرتا تو توکل ہے لیکن جب نقصان ہوجاتا ہے تو پھر عقیدہ میں فساد آجاتا ہے۔ ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بچانے کے لئے کہ اس سے بچ جائیں لوگ اس بات کی اجازت نہیں دی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ایسی جگہ جہاں وبا تھی، وہاں داخل نہیں ہوئے، تو بہت بڑے صحابی نے ان سے فرمایا کہ عمر تقدیر سے کیسے آپ بھاگ رہے ہیں؟ فرمایا: ”تقدیر سے تقدیر کی طرف جارہا ہوں“۔ یہی اصل میں بنیاد ہے علماء کرام کے ساتھ، جس پر ان حضرات نے اس قسم کی باتیں فرمائی ہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس احتیاط کو صرف مجبوری سمجھنا چاہئے، عذر سمجھنا چاہئے، اس کو عام حالت نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ عذر ہے اور عذر میں جیسے تیمم کی گنجائش ہوتی ہے اس طرح ان چیزوں کی بھی گنجائش ہوجاتی ہے۔ تو یہ بات ہے ورنہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں کہ حکم تو ایسا ہے کہ جیسے قرآن پاک میں ہے کہ ﴿لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍؕ﴾ (النساء: 78) اگر تم چٹانوں کے اندر ہو پھر بھی اگر موت آنی ہو تو وہاں تک پہنچ جائے گی، بھاگ تو نہیں سکتے ہو اس سے، لیکن جنگ کے اندر ڈھال بھی لینی ہوتی ہے، زرہ بھی لینی ہوتی ہے اور اپنے آپ کو بچانا بھی ہوتا ہے۔ ایک جنگ میں آپ ﷺ نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ تو یہ ساری باتیں اَلْحَمْدُ للہ ایک ہمارے لئے ایک پیام ہیں کہ ہم دین پر کیسے چلیں۔ ایک تو یہ بات ہے کہ جو مجاہدہ اور جو مشقت دین نے لازم نہیں کی اس کو دین سمجھ کے نہیں کرنا، پہلی بات۔ دوسری بات: جو حکم اللہ نے دیا ہے اس میں نفس کو چاہے کتنی ہی تکلیف ہو، اگر وسعت اللہ نے اس میں دی ہو تو اس کو چھوڑنا نہیں ہے سستی کی وجہ سے دو باتیں۔ تیسری بات: اگر سستی کی وجہ سے دین پر عمل نہیں ہوا جارہا اور دین کے کچھ کاموں پر استقامت کے ساتھ عمل نہیں ہورہا تو اپنے اندر اس صلاحیت کو پیدا کرنے کے لئے عارضی طور پر اختیاری طور پر تربیتی مجاہدے کے ذریعہ سے اپنے اندر اس قوت کو پیدا کرنا، اس سستی کو دور کرنا جائز ہے اور ضروری ہوجاتا ہے، لیکن اس کو دین نہیں سمجھنا ہوتا، دین پہ آنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یہ وقتی طور پر ہوتا ہے۔ کیونکہ نفس کی اللہ تعالیٰ نے شکل ایسی بنا دی، shape ایسی بن گئی نفس کی کہ اس کو جتنا دباؤ تو یہ دبتا جائے گا اور جتنا اس کو سر پہ چڑھاؤ تو یہ چڑھتا جائے گا۔ نفس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ایسا ہے۔ تو ایسی صورت میں اگر آپ اس کو دبائیں گے عارضی مجاہدہ کے ذریعہ سے تو اس کے ذریعہ سے دبے گا تو اس position پہ آجائے گا جس پہ شریعت لانا چاہتی ہے۔ جب آجائے پھر اس کے بعد نہ دباؤ، پھر اس کے بعد شریعت پر عمل کراؤ اس سے اور کچھ نہیں کرانا پھر صرف شریعت پہ عمل ہے۔

اب نقشبندی سلسلہ کا اور عام سلسلوں کا یہ فرق بنیادی آگیا، نقشبندی سلسلہ میں کہتے ہیں ہمت کے ذریعے سے موجودہ حالت میں بھی عزیمت پر عمل کرلو یہ مسنون مجاہدہ ہے، اسی سے آپ کو سب مل جائے گا، آپ کو کوئی اختیاری مجاہدہ extra کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو کون اس سے انکار کرتا ہے، مقصد پورا کرنا ہے، مقصد اس سے پورا ہورہا ہے تو کون انکار کرتا ہے؟ لیکن اگر آپ وہ نہیں کر سکتے تو آپ صرف اس کے الفاظ کو چمٹ کر اس کی حقیقت کو چھوڑ بیٹھیں تو آپ سے پھر وہ لوگ اچھے ہیں جو عارضی مجاہدہ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو بنا کر بعد میں دین پر عمل کر سکتے ہیں۔ آپ صرف الفاظ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں؟ الفاظ کے ساتھ تو نہیں چمٹنا، حقیقت اپنانی ہے چاہے اس طریقہ سے اپناؤ چاہے اس طریقہ سے اپناؤ دونوں میں سے جس طریقہ سے بھی اپناؤ، آپ کو اختیار ہے۔ ہاں! البتہ یہ بات ہے کہ اگر آپ نقشبندی سلسلے میں چل رہے ہیں تو نقشبندی طریقے کے مطابق اپنے اندر عزیمت پیدا کرو، اب وہاں رخصتوں میں سب سے پہلے آگے جاتے ہو تو وہاں نقشبندی کیوں نہیں ہو؟ وہاں بھی نقشبندی بن جاؤ ناں۔ پھر رخصت نہ اختیار کرو ناں، پھر عزیمت اختیار کرو۔ تو یہ والی بات ہے یا تو ان کی بات پوری مانو۔

آج کل کے دور میں سلسلے mix ہوگئے ہیں، کوئی سلسلہ pure نہیں رہا، نہ چشتی pure رہا نہ نقشبندی pure رہا، لہٰذا اس وقت جو صورتحال مشائخِ حق نے بنائی ہے اس کے مطابق چلو۔ اور وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ حصوں میں مجاہدہ کر کرکے اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کرنا۔ وہ مجاہدے میں پھر ہر ایک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، ہمارے شیخ کے ہاں اپنا طریقہ تھا کسی اور کے ہاں اپنا طریقہ ہوگا، حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اپنا طریقہ تھا، تو ہر ایک کے ہاں اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال اصولی بات تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو شریعت پر چلنے کے لئے تیار تو کرنا ہے، اس سے تو آپ بھاگ نہیں سکتے، اس سے اپنے آپ کو معذور نہیں قرار دے سکتے، کیونکہ دین پر قیامت تک عمل ہو سکے گا اور یہ دین قیامت تک اس پر عمل کرنے کے لئے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

رہبانیت اور مجاہدہ: سیرتِ نبوی کی روشنی میں ایک اہم فرق - درسِ سیرۃ النبی ﷺ