توحید اور فطرت کے مطابق اسلام کا نظامِ عبادت

درس نمبر 9

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

سیرت النبی کے حصہ پنجم سے حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ نبوت محمدی نے توحید کی دعوت دی، باطل معبودوں کی پرستش ختم کی، اور صرف ایک خدا کی عبادت قائم کی۔ اسلام نے خارجی رسومات، جیسے بتوں، مجسموں، یا خاص ظروف کی ضرورت کو مسترد کیا، اور عبادت کے لیے صرف پاکیزگی اور خلوص کو ضروری قرار دیا۔ خدا اور بندے کے درمیان کسی واسطے کی ضرورت نہیں، ہر مسلمان براہ راست اللہ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ عبادت میں خارجی کشش (موسیقی، ناقوس) سے گریز کیا گیا، صرف دل کی آواز کو اہمیت دی گئی۔ اسلام نے عبادت کو کسی مخصوص مقام تک محدود نہیں کیا، بلکہ پوری زمین کو سجدہ گاہ بنایا۔ انسانی قربانی کی ممانعت کی گئی، جبکہ حیوانی قربانی کو اصلاح کے ساتھ حج سے جوڑا گیا، جس کا مقصد تقویٰ اور غریبوں کی مدد ہے۔ مشرکانہ قربانیوں (جیسے بتوں پر چڑھانا) کو ختم کیا گیا، اور قربانی کو اللہ کی رضا کے لیے خالص کیا گیا۔ اسلام دین فطرت ہے، جو تکلفات سے پاک اور سب کے لیے قابل عمل ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


توحید اور فطرت کے مطابق اسلام کا نظامِ عبادت


آج کل ہم ’’سیرت النبی‘‘ جو حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ہے، اس کے حصۂ پنجم سے کچھ اہم باتیں الحمد للہ! بیان کرتے رہتے ہیں۔

صرف ایک خدا کی عبادت:

مذہب کی تکمیل اور اصلاح کے سلسلہ میں نبوت محمدی کا پہلا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے دنیا کے معبدوں سے تمام باطل معبودوں کو باہر نکال کر پھینک دیا۔ باطل معبودوں کی عبادت اور پرستش یک قلم محو کردی اور صرف ایک خدا کے سامنے خدا کی تمام مخلوقات کی گردنیں جھکا دی اور صاف اعلان کردیا کہ:

﴿اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا (المریم: 93)

’’آسمان و زمین کی تمام مخلوق اس مہربان خدا کے سامنے غلام ہی بن کر آنے والی ہے‘‘۔

خدا کے سوا نہ تو آسمان میں، نہ زمین میں، نہ آسمان کے اوپر اور نہ زمین کے نیچے کوئی ایسی چیز ہے، جو انسان کے سجدہ اور رکوع و قیام کی مستحق ہے اور نہ ہی اس کے سوا کسی اور کے نام پر کسی جاندار کا خون بہایا جاسکتا ہے اور نہ اس کی پرستش کے لئے گھر کی کوئی دیوار اٹھائی جاسکتی ہے اور نہ اس کی نذر مانی جاسکتی ہے اور نہ اس سے دعا مانگی جاسکتی ہے، ہر عبادت صرف اسی کے لئے اور ہر پرستش صرف اسی کی خاطر ہے۔

﴿اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُكِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام: 162)

’’بے شبہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اسی ایک عالم کے پروردگار اللہ کے لئے ہے‘‘۔

کفار کو بتوں، دیوتاؤں، ستاروں اور دوسری مخلوقات کی پرستش سے ہر طرح منع کیا گیا اور انہیں ہر دلیل سے سمجھایا گیا کہ خدائے برحق کے سوا کسی اور کی پرستش نہیں، لیکن جب ان پر اس سمجھانے بجھانے کا کوئی اثر نہ ہوا تو اسلام کے پیغمبر کو اس انقطاع کے اعلان کا حکم ہوا۔

﴿قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ۝ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ۝ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ ۝ وَلَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ ۝ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ ۝ لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَلِیَ دِیْنِ (الکافرون: 1-6)

’’اے کافرو! جس کو تم پوجتے ہو اس کو میں نہیں پوجتا اور نہ تم اس کو پوجنے والے ہو جس کو میں پوجتا ہوں اور نہ میں اس کو پوجنے والا ہوں جس کو تم نے پوجا اور نہ تم اس کو پوجنے والے ہو جس کو میں پوجتا ہوں۔ تمھارے لئے تمھارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔

اصل میں اسلام ہی اصل دین چلا آرہا ہے آدم علیہ السلام سے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا نفس اور شیطان نئے نئے معبود تراشتا رہتا ہے۔ شیطان کا تو کام ہے، اس نے تو کہا ہے کہ میں صراط مستقیم پر بیٹھ جاؤں گا، دائیں طرف سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا اور تجھ تک بہت کم لوگ پہنچ سکیں گے، مگر تیرے چنے ہوئے بندے۔ لہٰذا شیطان کا تو کام ہی یہی ہے کہ وہ اللہ کے مقابلہ میں لوگوں کو لاتا ہے اور جو ہمارا نفس ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں، وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے اور ان خواہشات کو پھر use شیطان کرتا ہے۔ لہٰذا یہ سلسلہ چلا آرہا ہوتا ہے۔ آدم علیہ السلام کے بعد کچھ لوگوں نے مختلف باتیں کی۔ نوح علیہ السلام کو اللہ پاک نے ہدایت پر مامور فرما دیا، تو نوح علیہ السلام نے ان کو سمجھایا، وہ نہیں سمجھے، جو سمجھے، وہ بہت تھوڑے تھے، لہٰذا اخیر میں طوفان نے ان کو گھیر لیا اور سارے ہلاک ہوگئے۔ پھر اس کے بعد یہ سلسلہ آتا رہا آتا رہا ابراہیم علیہ السلام تک۔ پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والا نمرود بت پرست تھا، ابراہیم علیہ السلام کا والد بتوں کو بیچنے والے تھا، بت پرستی کا دور دوراں تھا، ستارہ پرستی تھی، ابراہیم علیہ السلام نے دعوت دی، لوگوں نے نہیں مانا، حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا، اللہ پاک نے بچا لیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر موسیٰ علیہ السلام کا دور بھی آگیا، جس میں بتوں کی پوجا کے بجائے فرعون نے اپنی پوجا کروا دی، اپنے آپ کو بڑا خدا کہہ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ذلیل کردیا اور غرق کردیا۔ اس کے بعد پھر یہ سلسلہ چلتا رہا کہ عیسیٰ علیہ السلام دعوت لے کے آئے، بالکل ٹھیک دعوت تھی، لیکن بعد میں عیسیٰ علیہ السلام کو ہی اس کے ماننے والوں نے خدا کا بیٹا بنا لیا اور گرجا گھروں میں ان کی تصویریں رکھ دیں، ان کے بت رکھ دیئے، ان کی والدہ کی تصویریں رکھ دیں۔ الغرض یہ سلسلہ مختلف طریقوں سے چلتا رہا، لیکن اللہ پاک کی دعوت وہی تھی، اس میں کوئی فرق نہیں تھا اور وہ توحید اور توحید کو پہنچانے والی رسالت اور آخرت پر یقین، یہ تین بنیادی عقائد یہ چلے آرہے ہیں، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے بھی بالکل اس توحید کی دعوت دی، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ ﷺ کا تعارف کرایا اور آخرت پر یقین کو لازمی قرار دیا گیا۔

خارجی رسوم کا وجود نہیں:

خدا کی عبادت اور پرستش کے وقت جسم و جان سے باہر کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، نہ سورج کے نکلنے اور اس کی طرف دیکھنے کی حاجت، نہ دریا میں جاکر اس کا پانی اچھالنے سے مطلب، نہ سامنے آگ کا الاؤ جلانے کی ضرورت، نہ دیوتاؤں، دیویوں، بزرگوں، ولیوں کے مجسموں کو پیش نظر رکھنے کی اجازت، نہ سامنے موم بتیوں کے روشن کرنے کا حکم، نہ گھنٹوں اور ناقوسوں کی ضرورت، نہ لوبان اور دوسرے بخورات جلانے کی رسم، نہ سونے چاندی کے خاص خاص ظروف اور برتوں کے رکھنے کا طریقہ، نہ کسی خاص قسم کے کپڑوں کی قید، ان تمام بیرونی رسوم اور قیود سے اسلام کی عبادت پاک اور آزاد ہے، اس کے لئے صرف ایک پاک ستر پوش لباس، پاک جسم اور پاک دل کی ضرورت ہے اور اگر جسم و لباس کی پاکی سے کبھی مجبوری ہوجائے، تو یہ بھی معاف ہے۔

یہ چونکہ قدرتی بات ہے، اللہ پاک نے ہمیں اس چیز میں اغیار کا محتاج نہیں بنایا، اس وجہ سے جو لوگوں نے اپنی چیزیں بنائی تھیں، اپنی طرف سے بنائی تھیں، کیونکہ انسان شوشا چاہتا ہے، اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے، اب بھی دیکھتے ہیں کہ جو اسلام سے گمراہ لوگ ہوتے ہیں یعنی اسلامی بس مسلمان ہوتے ہیں، لیکن وہ گمراہ ہوجاتے ہیں، تو ان کو دیکھیں کہ وہ اپنے اوپر رسومات کو لازم کرتے ہیں، کوئی کسی خاص طریقہ کو لازم کرتا ہے، کوئی کسی خاص انداز کو لازم کرتا ہے، اپنے اوپر پابندیاں لگاتا ہے، جبکہ شریعت نے یہ پابندیاں نہیں لگائی ہوتیں۔ لہٰذا ہمارا جو مذہب ہے، یہ قدرتی مذہب ہے اور اس میں پابندیاں کم سے کم ہیں اور جو پابندیاں ہیں، وہ بھی اس چیز کو بہتر کرنے کے لئے ہوتی ہیں، جس کا حکم ہے۔ جیسے عبادت ہے، تو عبادت کے لئے لباس کا پاک ہونا، جگہ کا پاک ہونا، جسم کا پاک ہونا یہ جو شرائط ہیں، یہ اس عبادت کو زیادہ پاکی کی حالت میں کرنے کے لئے ہیں، گویا آپ یوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح کا بھی کپڑا آپ کے پاس ہو، بس وہ پاک ہو، ستر پوشی کرسکتا ہو، جس قسم کی جگہ پر نماز پڑھ رہے ہو، تو وہ پاک ہو بس۔ اور یہ کہ جسم آپ کا پاک ہو۔ اور رخ اللہ جل شانہٗ کا ہر طرف ہے، لیکن ہم لوگوں کو ایک خاص سمت میں رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی سمت کو لازم قرار دیا، کیونکہ اگر اس طرح نہ ہوتا تو پتا نہیں کس طرح کھڑے ہوتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو لازم قرار دیا، باقی کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔

درمیانی آدمی کی ضرورت نہیں:

اسلام میں عبادت کے لئے خدا اور بندہ کے درمیان کسی خاص خاندان اور کسی خاص شخصیت کی وساطت اور درمیانگی کی حاجت نہیں ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے دین میں ہندوؤں کی طرح نہ برہمن ہیں، نہ پروت ہیں، نہ پجاری ہیں، نہ یہودیوں کی طرح کاہن ہیں، نہ ربی ہیں، نہ حاخام ہیں، نہ حضرت ہارون علیہ السلام کے خان کی وساطت کی قید ہے، نہ عیسائیوں کی طرح عبادتوں کی بجا آوری کے لئے پادریوں اور مختلف مذہبی عہدہ داروں کی ضرورت ہے اور نہ پارسیوں کی طرح دستوروں اور موبدوں کی حاجت، یہاں ہر بندہ اپنے خدا سے آپ مخاطب ہوتا ہے، آپ باتیں کرتا ہے، آپ عرض حال کرتا ہے، ہر مسلمان اپنا آپ برہمن، اپنا آپ کاہن، اپنا آپ پادری اور اپنا آپ دستور ہے۔ یہاں یہ حکم ہے کہ تم مجھے براہ راست پکارو میں جواب دوں گا۔

﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ (المومن: 60)

’’تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا‘‘۔

خارجی کشش کی کوئی چیز نہیں:

اکثر مذاہب نے اپنی عبادتوں کو دلکش، دلفریب، مؤثر اور بارعب بنانے کے لئے خارجی تاثیرات سے کام لیا تھا، کہیں ناقوس اور قرنا کی پر رعب آوازیں تھیں، کہیں ساز و ترنم اور نغمہ و بربط کی دلکش صدائیں تھیں، کہیں جرس اور گھنٹے کا غلغلہ انداز شور، لیکن دین محمدی کی سادگی نے ان میں سے ہر ایک سے احتراز کیا اور انسانی قلوب کو متأثر کرنے کے لئے دل کے ساز اور روح کی صدا کے سوا کسی اور خارجی اور بناوٹی تدبیر کا سہارا نہیں لیا، تاکہ خدا اور بندہ کا راز و نیاز اپنی اصلی اور فطری سادگی کے ساتھ خلوص و اثر کے مناظر پیدا کرے۔

یہ چیز اتنی زیادہ ہماری طبیعتوں پر حاوی ہے کہ اب بھی مستقل لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی قسم کی اس کے اندر خارجی چیز کو شامل کیا جائے، مثلاً: نعت شریف کو گانوں کے طرز پہ پڑھنا ہمارے ہاں بھی عام ہو رہا ہے، اسی طریقہ سے قرآن کا طرز بھی لوگوں نے ایسے بنایا ہوا ہے، جیسے گویوں کے طرز پہ پڑھنا ہوتا ہے۔ اور بھی بہت ساری چیزیں لوگوں میں اب آچکی ہیں، حالانکہ ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ شین نہیں کہہ سکتے تھے، سین کہتے تھے، ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی جگہ ’’اَسْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پڑھتے،1 لیکن آپ ﷺ نے ان کو اذان کے لئے مقرر فرمایا۔ عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نابینا ہیں، لیکن صبح کی نماز کے لیے اذان دے رہے ہیں، یعنی ان چیزوں کی بالکل پابندی نہیں ہے، بس دل کی آواز ہے، بس دل کا تعلق ہے، چاہے وہ کسی بھی زبان میں دعا ہو، اللہ پاک کو پسند ہے۔ پس یہ فطری بات ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر زبان جانتا ہے، اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے۔ تو ان خارجی چیزوں پہ لوگوں کی نظر ہوتی ہے، لوگوں کے ہاں رعب، وقار اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں۔ اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں للٰہیت ہے، وہاں یہ چیزیں نہیں ہیں، اور جہاں پر رسوماتی چکر ہیں، وہاں ایک سے ایک بڑھ کر یہ سلسلے بڑھ رہے ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس حقیقت کی چیز ہے ہی نہیں، تو انہوں نے خارجی چیزوں کے ذریعہ سے لوگوں کو متأثر کرنا ہے، کیونکہ حقیقی چیز ہو، تو متأثر کریں۔ مثلاً: ایک قاری ہے، صحیح قاری ہے، وہ قاری تجوید کے ذریعہ سے اپنے قرآن کو ما شاء اللہ! بہت زبردست بنا لیتا ہے، دل لبھانے والی تلاوت کرتا ہے، کیوںکہ قرآن کے اندر جو اپنی جاذبیت ہے، وہ تب ظاہر ہوگی، جب بیرونی چیزیں کم سے کم ہوں گی، اس لحاظ سے جب قرآن کو صحیح تجوید کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، تو اس کے اندر ایک قدرتی حسن پیدا ہوجاتا ہے۔ چناچہ ہمارے حضرت تسنیم الحق کاکاخیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیوبند کے علماء میں تھے، اپنے دوران طالب علمی کا واقعہ بتاتے ہیں، حالانکہ آواز بھی جیسی میری آواز ہے یعنی اتنی زیادہ حسین آواز نہیں تھی، عام آوازوں میں سے تھی اور باقاعدہ قاری بھی نہیں تھے، یعنی باقاعدہ قاری جس کو ہم کہتے ہیں کہ جو قاری قرأت کی مشقیں کرتے ہیں اور سانس بڑا لمبا رکھتے ہیں اور ساری چیزیں، یہ ان میں نہیں تھیں، بس ایسا قرآن پڑھتے، جیسے اگر کوئی عالم تجوید جانتا ہو اور وہ تجوید کے ساتھ قرآن پڑھ سکتا ہو، بس اتنی بات تھی۔ ایک مرتبہ قرآن کی تلاوت کررہے تھے، بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جہری تلاوت کرتے ہیں، ان کو تب توجہ ہوتی ہے جب وہ جہر کے ساتھ تلاوت کریں، بس یہ مزاج کی بات ہوتی ہے، جبکہ بعض خاموش زیادہ بہتر کرتے ہیں۔ ان کا انداز بھی جہری تلاوت کا تھا۔ وہ جہری تلاوت کررہے تھے اور جب تلاوت پوری ہوگئی، تو وہ رک گئے۔ پس ایک پنڈت اچانک نکل آیا اور کہا کہ کیوں روک دیا؟ انہوں نے کہا: بس میں نے قرآن پڑھنا تھا، پورا کرلیا۔ وہ کہنے لگا کہ آپ کون سی بحر میں گا رہے تھے؟ (بہرو گانے کے طرز کو کہتے ہیں، بالفاظ دیگر ہم اس کو سُر کہتے ہیں، تو اس نے کہا کہ کون سی سُر گا رہے تھے؟) انہوں نے کہا کہ بہروی کیا ہوتی ہے؟ یعنی ان کو بہروی کا تو پتا ہی نہیں تھا، اس لئے انہوں نے کہا کہ بہروی کیا ہوتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اچھا، اتنی زبردست بہروی گائے جارہے ہو اور کہتے ہوں کہ بہروی کیا ہوتی ہے۔ در اصل ان کو تلاوت مزہ دے رہی تھی۔ آپ یقین جانئے کہ کفار کے بڑے سے بڑے سرکردہ لوگ چھپ کے آپ ﷺ کا قرآن سنا کرتے تھے یعنی چھپ کے آکر کھڑے ہوتے تھے اور قرآن سنتے تھے اور اس طرح کھڑے ہوتے کہ لوگ اس کو دیکھیں نہیں، جب کبھی کبھی ان کا آمنا سامنا ہوجاتا تو بڑے کچے ہوجاتے کہ یہ تو قرآن سن رہا ہے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سننے کے لئے بہت دور دور سے لوگ آتے تھے، ان میں نہرو بھی شامل ہوتے تھے (نہرو جوال لال نہرو) اور جب شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ قرآن جتنا پڑھنا ہوتا تھا تو وہ خطبے میں جب پڑھ لیتے تو وہ چل پڑتے، لوگ کہتے بیٹھو، کہتے میں تو شاہ جی کا قرآن سننے کے لئے آیا تھا۔ لہٰذا ایک قدرتی اس کے اندر کشش ہے، یہ وہ کشش ہے، جس نے عتبہ کو لاجواب کردیا تھا۔ پس یہ بات ہے کہ ایک انتہائی حسین صورت ہو اور وہ makeup کرلے، تو برا لگتا ہے، کیونکہ قدرتی حسن کے مقابلہ میں مصنوعی حسن کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جیسے شاعروں نے حسن کو بیان کرنے کے لئے اپنے استعارے اور کنائے بنائے ہوتے ہیں، اگر وہ جمع کر کے اس قسم کی شکل بنا دیں تو بڑی بدصورت قسم کی شکل بنے گی کہ لوگ ڈر جائیں گے یعنی بڑی بڑی آنکھیں بناؤ، پتلی سی درمیان میں ایک ناک بناؤ اور گلاب کے جیسے ہونٹ بنا دو، تو اس سے کیا شکل بنے گی؟ ایک فضول قسم کی چیز بنے گی۔ لہٰذا اصل میں وہ خارجی چیزیں ہیں، جن کے ذریعہ سے لوگ اپنے محفلوں کو سجاتے ہیں، لیکن اس کا یہ حال ہے کہ اگر ان کو ہی پیش کیا جائے اور اصل درمیان میں سے ہٹا دی جائے، تو پھر کیسے نظر آئے گی؟ پھر پتا چلے گا کہ اوہ ہو! یہ تو بڑی فضول قسم کی بات ہے۔ پس ہمارے اسلام کے اندر جو جاذبیت ہے، وہ تب کھلتی ہے، جب خارجی چیزوں کو دور کیا جائے۔ خارجی چیزیں اس کے لئے حجاب ہیں اور جب خارجی چیزیں دور ہوجاتی ہیں، تو پھر کیا ہے؟ پھر سبحان اللہ! اس کی اصل نکھر آتی ہے، جس کے اندر بڑی جاذبیت ہے، پھر سادہ سادہ باتوں میں جو للٰہیت سے بھرپور ہوتی ہیں، جو اثر ہوتا ہے، وہ بڑی لمبی چوڑی تقریروں میں نہیں ہوتا۔

مکان کی قید نہیں:

ہر مذہب نے اپنی عبادت کو اینٹ اور چونے کی چہار دیواری میں محدود کیا ہے۔ بت خانوں سے باہر پوجا نہیں، آتش خانوں سے الگ کوئی نماز نہیں، گرجوں کے سوا کہیں دعا نہیں اور صومعوں سے نکل کر کوئی پرستش نہیں، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقہ میں نہ کسی در و دیوار کی ضرورت، نہ محراب و منبر کی حاجت، وہ دیر و حرم معبد و صومعہ اور مسجد و کنیسہ سب سے بے نیاز ہے، زمین کا ہر گوشہ بلکہ پہنائے کائنات کا ہر حصہ اس کا معبد اور عبادت خانہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا "مجھے اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی خصوصیتیں عنایت کیں جو مجھ سے پہلے پیغمبروں کو نہیں دی گئیں, من جملہ ان کے ایک یہ ہے:

’وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا‘‘۔ (صحیح بخاری: 335)

’’اور میرے لئے تمام روئے زمین سجدہ گاہ بنا دی گئی‘‘۔

تم سوار ہو کہ پیادہ، گلگشت چمن میں ہو کہ ہنگامہ کارزار میں، خشکی میں ہو کہ تری میں، ہوا میں ہو کہ زمین پر، جہاز میں ہو کہ ریل پر، ہر جگہ خدا کی عبادت کرسکتے ہو اور اس کے سامنے سجدہ نیاز بجا لا سکتے ہو، یہاں تک کہ اگر تم کسی غیر مذہب کے ایسے معبد میں ہو جس میں سامنے اور مجسمے نہ ہوں تو وہاں بھی اپنا فریضہ عبادت ادا کرسکتے ہو۔

خاص خاص عبادتوں کے وقت مختلف سمتوں اور چیزوں کی طرف رخ کرنا بھی ہر مذہب میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ تمام مسلمانوں کو ایک واحد رخ پر مجتمع کرنے کے لئے تاکہ ان میں وحدت کی شان نمایاں ہو مسلمانوں کے لئے بھی کسی ایک سمتِ خاص کی حاجت تھی اور اس کے لئے اسلام میں مسجد ابراہیمی کی تخصیص کی گئی ہے کہ وہ دنیا میں خدائے واحد کی پرستش کا پہلا مقام ہے، لیکن اس کی حیثیت وہ نہیں قائم کی گئی، جو دوسرے مذاہب کے قبلوں کی ہے۔ اسلام کا قبلہ شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کی حدود سے پاک ہے، وہ ستاروں کے رخ یا چاند اور سورج کے مواجہ کا قائل نہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان ہر سمت اور ہر جہت سے اس کی طرف رخ کرتے ہیں، مغرب سے بھی، مشرق سے بھی، شمال سے بھی اور جنوب سے بھی۔ کسی ایک سمت کی تخصیص نہیں اور خود خانہ کعبہ کے صحن میں بیک وقت ہر جہت اور ہر سمت سے اس کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی سبب سے اس رخ کا بھی پتا نہ لگ سکے تو جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی خدا ہے۔ چنانچہ کسی چلتی ہوئی سواری پر سفر کرنے کی حالت میں اور عام نفل نمازوں کی درستی کے لئے قبلہ کی بھی تخصیص نہیں، جدھر سواری کا رخ ہو، ادھر ہی سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ لڑائیوں میں ہر رخ پر نماز برابر ادا کی جاسکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ کعبہ کی عمارت باقی نہ رہے، تب بھی اس رخ کھڑا ہوجانا کافی ہے۔ کعبہ کے اندر کھڑے ہوکر جدھر چاہو سر جھکا دو۔

خانہ کعبہ وہ جگہ ہے، جس کو اللہ جل شانہٗ نے ہمارا قبلہ قرار دیا ہے اور اس کی جدید تعمیر کے لئے اللہ جل شانہٗ نے جس پیغمبر کو چن لیا، وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ نماز میں ہم جو نیت کرتے ہیں، اس کے جو الفاظ ہیں، وہ انہیں تمام چیزوں کے لئے ہیں، جن پر ابھی بات ہو رہی ہے۔

﴿اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُكِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام: 162)

ترجمہ: ’’بیشک میری نماز، میری عبادت اور میرا جینا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔

یعنی گویا کہ اس کے اندر بھی جو پیغام ہے، وہ یہی ہے۔ حج کے اندر بھی اگر دیکھیں تو سارے کے سارے جو احکامات ہیں، وہ یہی ہیں کہ وہ ان لوگوں کی نشانیاں ہیں، جنہوں نے سب کچھ اللہ پہ لوٹا دیا ہے۔ ہمارا جو مذہب ہے، وہ رسومات سے، تکلفات سے پاک بلکہ تکلفات کو دور کرتا ہے۔ جیسے احرام ہے، یہ تکلف کو دور کرنے کی علامت ہے کہ کم سے کم آپ کو ستر ڈھانپنے کے لئے دو چادریں چاہئیں تو وہ آپ کے لئے کافی ہیں، اس کے علاوہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پہ آپ کو کم از کم چند دن کے لئے لایا جاتا ہے کہ آپ یہ قدرتی زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ لیں کہ قدرتی زندگی یعنی جتنا انسان کے لئے ضروری ہے، بس وہ کافی ہے، اس پر آپ کو لایا جاتا ہے۔ اب واقعی بڑے ناز و نعم میں پلے ہوئے لوگ، بڑے نازک انداز میں چلنے والے لوگ، بڑے سلیقے سے اپنے لباس کو استعمال کرنے والے لوگ، وہاں جب جاتے ہیں، تو وہاں ان کی یہ چیز گویا کہ crush کی جاتی ہے (ویسے crush کہنا میرے خیال میں زیادہ اس کے لئے مناسب ہوگا) کہ وہاں پر جتنا میل کچیل ہوتا ہے حاجی کا، تو اتنا ہی زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے۔ میری بیٹی فوت ہوئی تھی بچپن یعنی چار سال کی عمر میں، تو میری بھانجی نے خواب دیکھا کہ وہ مٹی میں کھیلتے کھیلتے ابراہیم علیہ السلام کی گود میں چڑھ گئی۔ ویسے بھی ہمارا نظریہ یہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس بچوں کی ارواح جاتی ہیں، ان کے ہاں جمع ہوتی ہیں۔ تو میری بھانجی کہتی ہے کہ میں نے کہا: اے ابراہیم علیہ السلام! یہ تو ابھی ابھی کھیل کے آئی ہے، اس سے تو آپ کے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ نہیں، مجھے ایسے بچے اچھے لگتے ہیں۔ تو گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ وہاں پر احرام کی حالت کا جو میلا کچیلا ہونا ہے، اس کو آپ پاک کرنے کے لئے تو دھو سکتے ہیں، میل کچیل دور کرنے کے لئے نہیں۔ خود نہا سکتے ہیں یعنی اگر ضرورت ہو نہانے کی یا ٹھنڈک کے لئے نہانا ہو، تو نہا سکتے ہیں، لیکن میل کچیل دور کرنے کے لئے نہیں۔ کیوں کہ وہ میل کچیل اللہ کو پسند ہے اور جب پسند ہے تو پھر حاجی وہی کرے گا جو اللہ کو پسند ہے۔ چونکہ اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے تو گیا ہے۔ اور تکلف کو بھی دور کیا گیا ہے کہ زور زور سے ’’لَبَّيْكَ، اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ‘‘ کہے اور خون بہانا لوگ ظلم سمجھتے ہیں، چیخنا چلانا بد تہذیبی سمجھتے ہیں اور میل کچیل کو پسند نہیں کیا جاتا، لیکن تینوں چیزیں یعنی تین directions ہیں کہ باقاعدہ ان چیزوں کو crush کیا جاتا ہے کہ وہ میلا کچیلا رہے (اگرچہ یہ بات ٹھیک ہے کہ نفاست پسند ہے، اچھی بات ہے، لیکن یہاں نہیں) آپ کو اس سے للٰہیت کا انتہائی اعلیٰ درجہ حاصل ہوتا ہے کہ میری طبیعت بھی اللہ پہ قربان ہے کہ میں طبیعت کا خیال نہیں رکھوں گا، اللہ تعالیٰ جس چیز سے راضی ہو، بس وہی ٹھیک ہے۔ پس طبیعت کو قربان کرنے والا یہ جو عمل ہے، یہ صرف حج میں ایک نمونہ دکھایا جاتا ہے، کسی اور جگہ نہیں۔ اس وجہ سے حج جس نے نہیں کیا ہو، اور اس کے اوپر فرض ہو، تو اس کے اندر ایک کمی پائی جائے گی، وہ کمی کسی اور چیز سے دور نہیں ہوسکتی، وہ صرف حج کے ذریعہ سے ہی دور ہوسکتی ہے۔ اس وجہ سے اس کے بغیر اگر یہ دنیا سے چلا گیا، تو اس کے لئے بڑی ہی خطرناک وعید ہے کہ اللہ کو کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرتا ہے یا عیسائی ہوکر مرتا ہے۔ گویا کہ اس نے وہ چیز نکالی نہیں، جو چیز حج سے نکلتی ہے، وہ اپنی طبیعت کا ابھی پابند ہے، طبیعت میں وہ گھرا ہوا ہے۔ وہ جو والہانہ پن ہے اللہ کی محبت میں، تو (وہ اس کا اس نے اظہار نہیں کیا)۔ ایک بات بار بار دل میں آرہی ہے، میں کر ہی لوں تو اچھا ہے۔ یہ میں تنقیص کے طور پہ نہیں کررہا ہوں، لیکن میں کہتا ہوں جو ان کی تنقیص کرتا ہے، اس کا جواب کم از کم میں دے سکتا ہوں۔ نقشبندی حضرات میں وقار ہے اور یہ بھی بہت زبردست ہے، اگر اللہ کے لئے ہو۔ اور چشتیوں میں والہانہ پن ہے یعنی وہ جو بالکل مٹنے والا اور اپنی چیز کی پروا نہ کرنے والا انداز،

سوختن افروختن و جامہ دریدن

پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموختن

تو حج کیا بہت زیادہ ان چیزوں کے قریب قریب نہیں ہے؟ یعنی حج کے جو اعمال ہیں، وہ زیادہ چشتیت کے قریب ہیں کہ چشتی بزرگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، کیونکہ پہلے سے وہ اسی لائن پر ہیں۔ جیسے مفتی مختار الدین شاہ صاحب، کسی وقت کسی نے ان کے خلاف باتیں کی تھیں، تو انہوں نے کہا کہ عزت کیا ہے؟ ہم نے عزت کے کپڑوں کو پہلے سے جلایا ہوا ہے، ہماری کون عزت کرتا ہے، کون نہیں کرتا، اس کی تو ہمیں پروا ہی نہیں۔ تو یہ انداز ہے، اس لحاظ سے میں عرض کرتا ہوں کہ ہر سلسلے کے اندر ایک خاص چیز ہے، لہٰذا اس کی قدر تو کرنی چاہئے۔ باقی! میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ نقشبندی سلسلہ ان چیزوں سے خالی ہے۔ یہ جو شعر پڑھا ہے میں نے ابھی، یہ ایک نقشبندی بزرگ کا ہے یعنی مولانا عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

سوختن افروختن و جامہ دریدن

پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموختن

لہٰذا اب اگر کوئی نقشبندی اس کے خلاف بات کرے گا، تو اپنے بزرگ کے خلاف بات کرے گا یعنی اپنے جو بڑے اونچے بزرگ ہیں عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ، ان کے خلاف بات کرے گا۔ لہذا اس وجہ سے ہم لوگوں کو ہر سلسلہ کی خوبی کو لینا چاہئے، ہر سلسلہ کے اپنے اپنے انداز کو لینا چاہئے، یہ بہت اہم ہے۔ تھوڑی سی میں آپ کو ذرا اس کی ایک اور خوبی بتا دوں (واللہ عالم بالصواب) کہ دل میں یہ باتیں آرہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے کام لیتا ہے، ہر خوبی استعمال فرماتا ہے، اگر کوئی تیار ہو اس کے لئے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیر رحمۃ اللہ علیہ کے اندر یہ رنگ تھا، تو ان سے Low level پہ کام لیا گیا ہندوستان میں، لہٰذا نوے لاکھ لوگ ان کے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے، کیونکہ ہندوؤں میں چھوت چھات، رسمی چیزیں یہ بہت زیادہ تھیں، وہ اسی میں پھنسے ہوئے تھے، تو جب انہوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں کو دیکھا کہ ان کو ان چیزوں کی پروا ہی نہیں، تو لازماً ان کا جو lower طبقہ ہے، وہ اس سے متأثر ہو رہا تھا۔ جب ہم KW-2 میں ایک project کے لئے گئے تھے، تو میرے ساتھ میرا attendent بھی تھا یعنی technician بھی تھا، تو ہمارے technician کو ان کا ایک انجینئر کہہ رہا تھا کہ کمال ہے، آپ تو technician ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کا جو boss ہے، وہ ایسا ملتا ہے جیسے آپ بالکل دوست ہوں، لیکن ہم تو آپس میں بات نہیں کرسکتے اپنے boss کے ساتھ، تو کیا وجہ ہے؟ یعنی مجھ سے اس نے پوچھا کہ اس نے یہ کہا ہے تو میں نے کہا کہ اس کو بتاؤ کہ یہی فرق ہے project میں اور ایک Teaching institute میں۔ لہٰذا لوگ ان چیزوں سے متأثر ہوتے ہیں۔ تو lower طبقہ اس سے متأثر ہو رہا تھا، اور اوپر والا طبقہ اس کو اچھا نہیں سمجھتا ہوگا کہ بھائی! یہ کیوں اس طرح کررہا ہے؟ ہمارے لوگوں پہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لیکن نیچے والا طبقہ اس سے متأثر ہو رہا تھا یا نہیں ہو رہا تھا؟ تو نیچے والا طبقہ زیادہ متأثر ہوتا ہے یا اوپر والا زیادہ ہوتا ہے؟ نیچے والا زیادہ ہوتا ہے، تو نوے لاکھ لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت کے ذریعہ سے مسلمان کردیئے۔ دوسری طرف جب مسلمانوں پہ اوپر والوں کی طرف سے یعنی اکبر کی وجہ سے بہت مشکل وقت آیا تو اللہ تعالیٰ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خاص رنگ جو دیا تھا کہ اوپر والے طبقوں کے لئے باوقار حالت کہ اوپر والے جس سے متأثر ہوتے ہیں، تو مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وہ وقار والا طریقہ استعمال کر لیا اور بڑے بڑے لوگوں کو خطوط لکھے اور ان کی شان کے مطابق خطوط لکھے۔ آپ دیکھیں! حضرت کے خطوط کا انداز دیکھیں، محبت کے نشان والے، سردار اور پتا نہیں اس قسم کے انداز میں ان کے مخاطبات ہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے، ہم لوگوں کو ماننا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ اپنے موتی بکھیرے ہوئے ہیں۔ لہٰذا مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے بڑے لوگوں کو متأثر کیا، خوانین کو متأثر کیا، بڑے علماء کو متأثر کیا، اکبر کے درباریوں کو متأثر کر لیا، تو اوپر سے ایک انقلاب لے آئے اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نیچے سے انقلاب لائے، تو پتا چل گیا کہ دونوں کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں کو ہر جگہ سے اس کی خیر لینی چاہئے۔ ہمارے پاس choice ہے، ہم ہر جگہ سے خیر لے سکتے ہیں۔ کیا خوبی ہے! سبحان اللہ۔ اب اگر میں تنگ وادی میں پھنس جاؤں کہ صرف اپنے سلسلے کو میں کہوں کہ بس یہ ٹھیک ہے اور باقی ٹھیک نہیں ہے، تو کتنا میں پھیلوں گا؟ کتنا میں پھلوں گا؟ کتنا میں بولوں گا؟ ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو restrict کرلوں گا۔ لیکن جب میرے اندر وسعت ظرفی آئے گی، وسعت قلبی آئے گی، تو سبحان اللہ! پھر میں ہر ایک سے لے سکوں گا، ان شاء اللہ! اور یہی الحمد للہ! ہمارا نظام ہے۔ الحمد للہ! ہم نے جو ذکر شروع کیا، تو چاروں سلسلوں کا ذکر شروع کیا ہے۔ پتا نہیں کتنے عرصہ کے بعد چاروں سلسلوں کا ذکر شروع ہوا ہوگا، پہلے تو کبھی ایسا نہیں سنا۔ جب چاروں سلسلوں کا ذکر شروع ہوا، تو اس کے اتنے زبردست اثرات پڑ گئے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی نسبت مل گئی، سہروردی نسبت غالباً ہمارے چاروں سلسلوں کے ذکر کے ذریعہ سے دوبارہ زندہ ہوگئی کہ بہت سارے سہروردی نسبت کے لوگ تھے اور ہمیں پتا نہیں تھا۔ اور قادری نسبت کے لوگ ہیں، الحمد للہ! ان کو اپنا فائدہ مل گیا۔ نقشبندی نسبت تو خیر! ہمارے ہاں مکتوبات کا درس ہی ہو رہا تھا اور چشتی نسبت کی پہلے سے بات چل رہی تھی۔ گویا کہ ہر ایک کو اپنا اپنا food مل گیا، لہٰذا فائدہ ہوا۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں، ان کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، تو انہوں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! ہم تو وہ ذکر اب نہیں کررہے جو آپ والا ہے۔ وہ چار ذکر ہیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، اِلَّا اللہ، اَللہُ اَللہ اور اَللہ‘‘۔ حضرت نے فرمایا کہ جو آپ لوگ کررہے ہیں، وہ بھی ہمارا ہی ہے، اس میں چاروں ہیں۔ ماشاء اللہ! اس میں ہر ایک کو اپنی نسبت بھی مل جاتی ہے اور باقیوں سے بھی حصہ مل جاتا ہے، تو وہ بھی ہمارا ہی ہے۔ گویا کہ Green signal مل گیا کہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اس پر ناراض نہیں ہیں۔ اور کیوں ناراض ہوں؟ اصل میں بات یہ ہے کہ بزرگوں میں بڑی ہی وسعت قلبی ہوتی ہے، اور دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد تو پھر بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا براہ راست اللہ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے، تو ان کی زبان سے جو بات نکلتی ہے، وہ تو پھر وہی بات ہوتی ہے، ان کے درمیان میں اور کوئی چیز ہوتی ہی نہیں ہے، تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،

گفت گفت اللہ بود

گرچہ حلقوم عبد اللہ بود

اس لئے وہ پھر کوئی دوسری بات کرتے ہی نہیں، وہ جو کریں گے، وہ من جانب اللہ ہی ہوگا، کیونکہ وہ بات پہنچانے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ ہے، اور تو کوئی نہیں ہے۔

انسانی قربانی کی ممانعت:

بعض مذاہب میں خدا کی سب سے مرغوب عبادت یہ سمجھی جاتی تھی کہ انسان اپنی یا اپنی اولاد کی جان کو خواہ گلا کاٹ کر، یا دریا میں ڈوبا کر، یا آگ میں جلا کر، یا کسی اور طرح بھینٹ چڑھا دے۔ اسلام نے اس عبادت کا قطعی استحصال کردیا اور بتایا کہ خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنا اصل میں یہ ہے کہ کسی سچائی کی حمایت میں یا کمزوروں کی مدد کی خاطر اپنی جان کی پروا نہ کرے اور اگر مارا جائے، تو کوئی بات نہیں۔ یہ نہیں کہ اپنے ہاتھ سے اپنا گلا کاٹ لیا جائے یا دریا میں ڈوب کر مرا جائے یا آگ میں اپنے کو جلا دیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جس چیز سے اپنے آپ کو قتل کرے گا اس کو جہنم میں اسی چیز سے سزا دی جائے گی۔

اصل میں یہ ساری باتیں ایک ہی نقطہ کے گرد گھوم رہی ہیں اور وہ نقطہ یہ ہے کہ اپنی مرضی نہ کرو، دین آپ کو اپنی مرضی سے کاٹتا ہے، لہٰذا اپنی مرضی نہ کرو۔ جب آپ نے اللہ تعالیٰ کا کلمہ پڑھ لیا تو پھر اللہ کی بات مانو، تم اپنی جان کو بھی اگر تکلیف دو گے تو اگر اس میں اللہ کی مرضی نہیں ہے، تو جائز نہیں ہوگا، اور اگر تم اپنے رشتہ دار کو تکلیف دو گے، تو بھی اگر اللہ کی مرضی نہیں ہوگی، تو اس سے نقصان ہوگا۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے پیمانے بنا لئے، محبت کے بنا لئے، قربانی کے بنا لئے، تو قربانی کے اور محبت کے جو پیمانے تھے کہ لوگ سمجھیں کہ شاید میں اپنے آپ کو کسی کے لئے تکلیف دوں گا، تو یہ سمجھا جائے گا کہ مجھے اس کے ساتھ بہت محبت ہے، تو لوگوں نے یہ پیمانہ بنا لیا۔ اسی طرح اپنے بچوں کو تکلیف دینا؛ یہ شیطانی نظاموں میں ہے، کیونکہ شیطان ان چیزوں سے خوش ہوتا ہے۔ اب بھی ظالم یہ satanic لوگ جو ہیں، یہ دنیا بھر میں ہیں، (بہت سارے لوگ satanic ہیں)، یہ یہی کرتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو بڑے ہی بے رحمانہ طریقوں سے مارتے ہیں اور بعض لوگوں کو بے رحمی سے ذبح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیطان کے لئے ہم اس کی قربانی دیتے ہیں۔ لہٰذا پہلے بھی وہی چیز تھی کہ جن جن مذاہب میں یہ بات تھی تو وہ شیطان کی طرف سے آئی ہوئی تھی اور جو قربانیاں یہ لوگ کرتے تھے، وہ اس کی طرف سے تھیں۔

حیوانی قربانی میں اصلاح:

کسی حیوان کی قربانی کرکے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ اکثر مذاہب میں رائج تھا۔ عرب میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ لوگ جانور ذبح کرکے بتوں پر چڑھا دیتے تھے، کبھی یہ کرتے تھے کہ مردہ کی قبر پر کوئی جانور لا کر باندھ دیتے تھے اور اس کو چارہ گھاس نہیں دیتے تھے، وہ اسی طرح بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جاتا تھا۔ اہل عرب یہ سمجھتے تھے کہ خدا خون کے نذرانہ سے خوش ہوتا ہے۔ چنانچہ قربانی ذبح کرکے معبد کی دیوار پر اس کے خون کا چھاپ دیتے تھے۔ یہودیوں میں یہ طریقہ تھا کہ جانور قربانی کرکے اس کا گوشت جلا دیتے تھے اور اس کے متعلق وہ جو رسوم ادا کرتے تھے ان کی تفصیل صفحوں میں بھی نہیں سما سکتی۔ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ یہ قربانی کی غذا ہے۔ (احبار 61-2) (اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ)۔ بعض مذاہب میں یہ تھا کہ اس کا گوشت چیل اور کوؤں کو کھلا دیتے تھے۔ پیغام محمدی نے ان سب طریقوں کو مٹا دیا۔ اس نے سب سے پہلے یہ بتایا کہ اس قربانی سے مقصود خون اور گوشت کی نہیں، بلکہ تمھارے دلوں کی غذا مطلوب ہے۔ فرمایا:

﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج: 37)

’’اللہ کے پاس قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، بلکہ تمھارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے‘‘۔

اسلام نے تمام عبادات میں صرف ایک حج کے موقع پر قربانی واجب کی ہے اور اہل استطاعت کے لئے جو موقع پر حج پر نہ گیا ہو، مقام حج کی یاد کے لئے قربانی مسنون2 کی گئی ہے، تاکہ اس واقعہ کی یاد تازہ ہو جب ملت حنیفی کے ہی سب سے پہلے داعی نے اپنے خواب کی تعبیر میں اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا کے سامنے قربان کرنا چاہا تھا اور خدا نے اس کو آزمائش میں پورا ہوتا دیکھ کر اس کی چھری کے نیچے بیٹے کی بجائے دنبے کی گردن رکھوا دی اور اس کے پیروؤں میں اس عظیم الشان واقعہ کی سالانہ یادگار قائم کردی۔

اسی کے ساتھ پیامِ محمدی نے یہ تعلیم دی کہ اس قربانی کا منشا ارواح کو خوش کرنا، مصیبتوں کو دور کرنا، جان کا فدیہ دینا یا صرف خون کا بہانا اور گردن کا کاٹنا نہیں، بلکہ اس سے مقصد دو ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کیا جائے کہ اس نے جانوروں کو ہماری ضرورتوں میں لگایا اور ان کو ہماری غذا کے لئے مہیا کیا اور دوسرا یہ کہ ان کا گوشت غریبوں مسکینوں اور فقیروں کو کھلا کر خدا کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ چنانچہ فرمایا:

﴿وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْاؕ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ (الحج: 34)

’’ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ ان جانوروں پر خدا کے نام کی یاد کریں جو ہم نے ان کو روزی کی تو تمھارا خدا ایک خدا ہے، اسی کے آگے سر جھکاؤ اور عاجزی کرنے والے بندوں کو خوشخبری سنا دے‘‘۔

﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (حج: 36)

’’اور قربانی کے جانور کو خدا کی نشانیاں بنایا ہے۔ تمھارے لئے ان میں بہت فائدے ہیں۔ ان کو قطار میں کھڑا کرکے تم ان پر خدا کا نام لو تو جب وہ پہلو کے بل جھکیں (یعنی ذبح ہوچکیں) تو ان میں سے کچھ خود کھاؤ اور باقی قناعت پسند فقیروں اور محتاجوں کو کھلا دو۔ اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمھارے کام میں لگایا ہے کہ خدا کا شکر ادا کرو‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ خدا کے نام کے سوا کسی اور کے نام پر اگر جانور کو ذبح کیا جائے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت میں یہ فعل شرک اور ایسے جانور کا گوشت کھانا حرام ہے۔ ﴿وَمَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ (البقرہ: 173)

عرب میں دستور تھا کہ خاص رجب کے مہینہ میں قربانی کرتے تھے۔ اسلام کے بعد لوگوں نے اس کے متعلق آپ ﷺ سے پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا "خدا کے نام سے جس مہینہ میں چاہو ذبح کرو، نیک کام خدا کے لئے کرو اور (غریبوں کو) کھلاؤ۔ غرض قربانی کی یہی دو حقیقتیں ہیں۔ صرف خون بہانا قربانی کی حقیقت نہیں اور نہ یہ خون بہانا مشرکوں کی دیویوں اور دیوتاؤں کی طرح اسلام کے خدا کو خوش آتا ہے۔

مشرکانہ قربانیوں کی ممانعت:

اسی لئے وہ تمام مشرکانہ قربانیاں جو عرب میں جاری تھیں بند کردی گئیں۔ عرب میں جانوروں کے قربانی کرنے اور ان کو بتوں پر چڑھانے کے مختلف طریقے تھے۔ اونٹنی کا پہلا بچہ جو پیدا ہوتا، بتوں کے نام پر عموماً اس کی قربانی کردیتے تھے اور اس کی کھال کو درخت پر لٹکا دیتے تھے۔ اس قسم کے بچے کو فرع کہتے تھے۔ رجب کے پہلے عشرہ میں ایک قسم کی قربانی کی جاتی تھی، جس کا نام عتیرہ تھا۔ اسلام نے ان دونوں قربانیوں کو ناجائز قرار دیا اور رجب کی تخصیص باطل کردی۔

قال علیہ السلام: ’’لَافَرَعَ وَلَا عَتِیْرَۃَ‘‘۔ (صحیح بخاری: 5473)

آپ ﷺ نے فرمایا: کہ ’’فرع اور عتیرہ جائز نہیں ہے‘‘۔

بتوں کے نام پر مختلف ناموں سے زندہ جانور چھوڑے جاتے تھے اور ان کو کوئی شخص کسی دوسرے کام میں استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے متعلق خاص طور پر ایک آیت نازل ہوئی۔

﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّلَا سَآىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِیْلَةٍ وَّلَا حَامٍ (المائدۃ: 103)

’’نہ تو خدا نے بحیرہ، نہ سائبہ، نہ وصیلہ اور نہ حام بنایا‘‘

مردوں کی قبر کے پاس گائے یا بکری ذبح کرتے تھے، لیکن اسلام نے مراسم کی جو اصلاحیں کیں، اس کے سلسلہ میں اس کو بھی ناجائز قرار دیا۔ فرمایا:

’’لَا عَقَرَ فِی الْاِسْلَامِ‘‘۔ (سنن ابی داؤد: 3222)

’’اسلام میں قبر کے پاس جانوروں کا ذبح کرنا جائز نہیں‘‘۔

جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ لوگ اپنی فیاضی و سخاوت کی نمائش اس طرح کرتے تھے کہ دو آدمی مقابل ہوکر جانوروں کے ذبح کی بازی لگاتے تھے، اپنا ایک اونٹ یہ ذبح کرتا، پھر اس کے مقابل میں دوسرا ذبح کرتا، اسی طرح یہ مقابلہ قائم رہتا، جس کے اونٹ ختم ہوجاتے یا ذبح کرنے سے انکار کردیتا وہ ہار جاتا، اسلام نے اس جان و مال کے اتلاف کو روک دیا۔

الغرض ان تمام باتوں سے صرف ایک نقطہ پہ جمع کرنے والی بات ہے اور وہ ہے للٰہیت کہ وہ اس میں آجائے کہ سب کچھ اللہ کے لئے ہوجائے، تو یہ اسلام نے قائم کردیا اور اس میں جن جن اصلاحات کی ضرورت تھی، وہ اصلاحات کردی ہیں، اس وجہ سے اسلام کے اندر جو قربانی کا نظام ہے، وہ بہت ساری رسومات اور زوائد سے پاک ہے، جو کہ گزشتہ لوگوں نے اپنی طرف سے پیدا کرلی تھیں، اس وجہ سے اسلام کا دین فطرت ہے، فطرت کے قوانین کے مطابق زیادہ سہولت کے ساتھ یہ ساری چیزیں ہوجاتی ہیں، تکلفات سے عاری ہے اور اس لحاظ سے سب کے لئے یکساں طور پر آسانی کے ساتھ قابل عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام کی ان تمام نعمتوں کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے اور جو اسلام کا صحیح منشاء ہے اور جو طریقہ جس چیز میں بھی ہے، چاہے نماز میں ہے، چاہے روزہ میں ہے، چاہے زکوٰۃ میں ہے، چاہے حج میں ہے، چاہے قربانی میں ہے، چاہے ذکر میں ہے اور چاہے فکر میں ہے، بس ان تمام چیزوں میں اس بات کو سامنے رکھنے کی توفیق عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ



  1. جو بھی صاحب نصاب ہوگا اس پر قربانی واجب ہے چاہے وہ حج پر گیا ہو یا نہ گیا ہو۔

  2. محدثین کی رائے میں یہ روایت بے اصل ہے۔

توحید اور فطرت کے مطابق اسلام کا نظامِ عبادت - درسِ سیرۃ النبی ﷺ