اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج پیر کا دن ہے۔ پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق سوالوں کے جوابات دیے جاتے ہیں۔
سوال نمبر 1:السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ جب کوئی شخص میری خوشامد کرتا ہے تو اس شخص کی خوشامد سے کیسے بچنا چاہئے؟
جواب:سب سے پہلے اس بات کو سوچنا چاہئے کہ اس کے بولنے سے یہ چیز بدلے گی نہیں۔ اگر میں اچھا ہوں گا، تو اچھا ہی رہوں گا، لیکن اس کے کہنے سے اچھا نہیں ہوں گا، بلکہ پہلے سے اچھا ہوں گا۔ اور اگر برا ہوں گا، تو اس کے کہنے سے اچھا نہیں بنوں گا۔ تو اس وجہ سے میرے بارے، میرے بارے میں جو یہ کہتے ہیں، اس کی کوئی value نہیں ہے۔ اور بات یہ ہے کہ جو دنیا کی چیز ہے، وہ بھی اگر خلافِ واقعہ ہو، تو پھر مجھے اس کے بولنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، بلکہ نقصان ہو گا۔ اور اگر واقعے کے مطابق ہے، تو ویسے بھی ہو گا۔ اور آخرت کے متعلق تو پہلے سے یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ہیں۔ لہٰذا، کسی طریقے سے بھی اس کے میری خوشامد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، تو مجھے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 2:
Assalam o alikum
Question:
"I have completed... I hope you will be fine. I have completed 40 days of initial ذکر. For 3 days, I was late 1 to 2 hours from the designated time. Rest all fine. Regards."
جواب:ٹھیک ہے جی، الحمد للہ۔ آپ نے بالکل صحیح کیا ہے۔ البتہ یہ، اس طرح تھوڑا بہت اگر کمی ہو جائے، آگے پیچھے ہو جائے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اصل صرف عادت نہیں بنانی ہوتی۔ عادت جو ہے ناں، وہ اپنی برقرار رکھنی چاہئے۔ البتہ یہ ہے کہ اگر کسی عارض کی وجہ سے کبھی کبھی ایسا آگے پیچھے ہو جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں، البتہ بات یہ ہے کہ ابھی چونکہ آپ نے forty days والا ذکر مکمل کیا ہے، یہ تو اب، اب اس طرح کر لیں کہ اس کے بعد جو ہے ناں، تیسرا کلمہ پورا 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ، استغفار 100 دفعہ۔ درود شریف اگر بڑا، درودِ ابراہیمی نہیں پڑھ سکتے تو "صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ" پڑھ لیں۔ اور استغفار "اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہ"۔ یہ سو سو (100) دفعہ ہمیشہ کے لئے آپ نے پڑھنے ہیں۔ اس کے علاوہ جو ہے ناں، یہ ذکر: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 100 دفعہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 100 دفعہ، حَق 100 دفعہ، اَللہ 100 دفعہ۔ یہ آپ نے جو ہے ناں، وہ ان شاء اللہ ایک مہینے کرنا ہے، پھر ایک مہینے کے بعد مجھے اطلاع دینی ہے۔
سوال نمبر 3:السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ بعد از سلام، میں خیریت سے بیس دن چھٹی گھر آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، آپ کی دعاؤں کے طفیل، لگ بھگ ایک مہینہ بیس دن مندرجہ ذیل ذکر کر چکا ہوں۔ آپ کے فرمان کے مطابق جب واپس آ جاؤ تو اطلاع دینا۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔ "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَقْ" 600 مرتبہ، اور "اللہ اللہ" 1000 مرتبہ۔
جواب:اب یہ باقی تو ٹھیک ہے، لیکن یہ 1000 مرتبہ جب مکمل ہو جائے، اس کے بعد 5 منٹ کے لئے آپ یہ تصور کریں کہ یہی جو "اللہ اللہ" آپ 1000 مرتبہ کر رہے تھے، یہ 5 منٹ کے لئے آپ کے دل میں "اللہ اللہ" ہو رہا ہے، خود بخود ہو رہا ہے۔ آپ صرف اس کو سننے کی کوشش کر لیں۔
سوال نمبر 4:السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ۔ حضرت جی، میں فلاں ہوں۔ آج دن سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو لکھ بھیجوں گا کہ نفس کی پہچان کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اچھا، معنی یہ ہے کہ پہچان، اس کے متشکل ہونے سے مراد ہے اپنی برائیوں کی آگاہی یا کچھ اور صورت ہے؟ الحمد للہ الحمد للہ آج آپ کی مبارک مجلس میں اس کا جواب مل گیا۔ اللہ پاک آپ کی قدردانی کی توفیق فرمائے۔
جواب: اللہ جل شانہٗ آپ کو مزید سلسلے کی برکات سے نوازے۔ اللہ جل شانہٗ مخلصین کی مرادوں کو پورا فرماتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کے ذہن میں سوالات آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے جوابات جاری فرما دیتے ہیں۔
سوال نمبر 5: السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ سیدی و مرشدی، حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ۔ میری والدہ صاحبہ نے چالیس دن والا وظیفہ شروع کیا تھا، لیکن انہوں نے غلطی سے جو 300 مرتبہ پڑھنا تھا وہ 200 مرتبہ پڑھا، اور 200 والا 300 مرتبہ پڑھا۔ بائیس دن پڑھا ہے۔ کیا وہ شروع سے دوبارہ پڑھیں؟
جواب: جی ہاں، وہ شروع سے دوبارہ پڑھ لیں اور اس کو 300 مرتبہ "سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ" اور 200 دفعہ "لاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ" پڑھیں۔ تو ان شاء اللہ العزیز، چالیس دن بعد مجھے بتا دیں۔
سوال نمبر 6: السلام علیکم شاہ صاحب۔ ہمارے اسکول میں مینا بازار ہے۔ میں نے کوئی اسٹال نہیں لیا کیونکہ میرا تو اس دن جانے کا ارادہ ہی نہیں ہے۔ اب پرنسپل صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ اس میں موسیقی نہیں ہو گی اور تم آؤ گی، کیونکہ وہ مجھے اسٹال دے رہی ہیں کہ چھوٹے بچوں کے لئے کھلونے والا اسٹال تمہارا ہے اور بڑے لڑکے وہاں نہیں آئیں گے۔ لیکن وہ جگہ جہاں میرا اسٹال ہوگا، اس جگہ سے جہاں باقی اسٹالز ہوں گی، تھوڑا سا فاصلے پر ہے۔ نویں دسویں جماعت کے لڑکے تو آئیں گے باقی کے اسٹالز پر۔ اب میں کیا کروں؟ میں نے تو کہا تھا کہ موسیقی اور لڑکے ہوں گے تو نہیں آؤں گی، اب انہوں نے یہ حل نکال لیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے ضرور آنا ہے۔ اب میں کیا کروں؟
جواب: آپ جو ہے، وہ اپنے ساتھ حجاب لے جائیں اور خدانخواستہ اگر کوئی بڑا لڑکا اس طرف آئے تو فوراً حجاب پہن لیں اور یا music وغیرہ ہو تو پھر اس کی شکایت کر کے پھر آپ گھر آ جائیں، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ انہوں نے آپ کی بات پر عمل نہیں کیا ہے کہ آپ نے ان کی بات پہ عمل نہیں کیا ہے۔
سوال نمبر 7: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی، میرا درج ذیل ذکر ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلَّا اللہ 400 مرتبہ، اَللہُ اَللہ 600 مرتبہ، اللہ 300 مرتبہ۔ آگے؟
جواب: اب لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، اِلَّا اللہ 400 مرتبہ، اَللہُ اَللہ 600 مرتبہ، اور اللہ، یہ صرف اللہ جو ہے، یہ 500 مرتبہ۔ یہ آپ شروع کر لیں۔
سوال نمبر 8: السلام علیکم حضرت جی محترم۔ جو وظیفہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ 200 مرتبہ، لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو 400 مرتبہ، حَقْ 600 مرتبہ، اور اَللہ 200 مرتبہ آپ نے دیا تھا تیس دن کے لئے، وہ الحمد للہ مکمل ہوگیا۔ الحمد للہ نماز میں بھی پابندی اور نماز کے ساتھ قضا نماز بھی ادا کر رہا ہوں، سوائے عصر کی قضا نماز کے، وہ نہیں کر پاتا۔ قرآن مجید کی بھی ایک پاؤ تلاوت اور سورۂ یس باقاعدگی سے، اللہ کا شکر ہے، کر رہا ہوں۔ البتہ تہجد کی نماز میں پابندی نہیں ہو پا رہی۔ الحمد للہ اشراق کی نماز بھی پڑھ رہا ہوں اور اس پر کبھی کبھار یہ رہ بھی جاتی ہے، پر کم، زیادہ تر ادا ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے مواعظ میں نظرِ بد کے بارے میں پڑھا تو آپ کے بیانات سے بھی کافی معلومات حاصل کیں اور الحمد للہ اللہ پاک نے توفیق دی، اس پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ حضرت جی، میرے لئے آئندہ کیا حکم ہے؟
جواب: ماشاء اللہ! ابھی آپ اس طرح کر لیں کہ 200 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ، 400 مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو، 600 مرتبہ حق اور "اللہ اللہ" 300 مرتبہ آپ کرلیا کریں۔ مزید تیس دن کے لئے۔ اور قضا نمازیں اس طرح آپ پڑھ لیا کریں، البتہ جو عصر والی نماز ہے، وہ جو عصر کی سنتیں ہیں، یعنی جو چار رکعت پہلے ہوتی ہیں، وہ ذرا پہلے پہنچ کے ان سنتوں کی جگہ وہ قضا نماز پڑھ لیا کریں، تو پھر کچھ پتا نہیں چلے گا ان شاء اللہ۔ لیکن ظاہر ہے، اس کی بھی قضا تو یعنی ہونی چاہئے۔
سوال نمبر 9: السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
"May اللہ bless you with all the best of his blessings. Kindly check my معمولات chart of November. جزاک اللہ. I am فلاں from اسلام آباد. Now I am in Westridge-2 due to in-laws' house."
جواب:ٹھیک ہے جی، دیکھ لیا۔
سوال نمبر 10: حضرت جی، "سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ" 313 مرتبہ روزانہ پڑھنے سے بڑا فائدہ ہوا۔ کچھ دنوں سے میں بہت پریشان تھی، کچھ مسئلہ تھا۔ اللہ پاک سے دعا مانگی تو الحمد للہ اللہ پاک کا کرم ہوا۔ پھر مجھے ایک دن خیال آیا کہ میں اللہ پاک کا شکر کیسے ادا کروں؟ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک تسبیح روزانہ "اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ" کی پڑھ لیا کروں۔ اس بارے میں آپ رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب: تو ٹھیک ہے، الحمد للہ۔ آپ جو ہے ناں، دو رکعت صلوٰۃِ شکرانہ ایک ہفتے تک روزانہ پڑھ لیں۔ ان شاء اللہ، دو رکعت صلوٰۃِ شکرانہ جو ہے، یہ ایک ہفتہ پڑھ لیں۔ ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 11: السلام علیکم حضرت جی۔
"I am the wife of Mr. فلاں, U.K. دعا, you are the best of health, ان شاء اللہ. I am writing to inform you that الحمد للہ, with your دعا, my baby is doing well and he is gradually increasing in weight. I am exclusively missed for fasting and I am not using formula as yet. My daily routine with the baby keeps me very occupied day and night and I just about pray my five times صلوٰۃ. I want to restart my معمولات again, but I don’t feel I will be able to complete the تسبیحات I was given initially. My تسبیحات were the following:100 time استغفار100 time درود شریف100 time 3rd کلمہ and 10 minutes مراقبہ"
جواب:
Answer:"You can easily do all these things. It is not difficult. Keeping in your mind that for 100 times Istigfaar, 100 times درود شریف, and for 100 times 3rd کلمہ, for a person like you, وضو is not required, so you can recite this without وضو as well. So if you have a counter in your hand, you can complete this anyway. It's not a problem. And the remaining thing is only 10 minutes مراقبہ. So, 10 minutes مراقبہ, you can use 10 minutes anytime when your baby is sleeping. You can do 10 minutes مراقبہ at that time, ان شاء اللہ. But don’t miss it because اللہ سبحانہ و تعالیٰ grants many blessings with the help of these اوراد and اذکار."
سوال نمبر 12: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اللہ آپ کے علم و عمل، صحت اور زندگی میں خیر و برکت عطا فرمائے۔ آپ کا سایہ ہم پر قائم رکھے اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت جی! پچھلے ایک مہینے سے آپ کے بتائے ہوئے ذکر کررہا ہوں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ 300 مرتبہ۔ ایک مہینے کے بعد آپ کو دوبارہ بتانے کا فرمایا تھا۔ آج ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہر نماز کے بعد سارے اذکار بھی شروع کر دیے ہیں۔ اور روزانہ کی۔۔۔۔ 100 مرتبہ تیسرا کلمہ، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ استغفار۔ پچھلے نقشبندی سلسلہ کے مطابق فجر کے بعد سورۂ یس، ظہر کے بعد سورۂ فتح، عصر کے بعد سورۂ نبا، مغرب کے بعد سورۂ واقعہ اور عشاء کے بعد سورۂ ملک باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں۔ اور مزید آپ کی رہنمائی بھی چاہئے۔ اللہ جل شانہٗ توفیق عطا فرمائے۔
جواب: اب آپ یوں کریں کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، اور ’’اَللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ۔ یہ اس کو جو ہے ناں، یعنی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللّٰہ‘‘ 200 مرتبہ آپ ایک مہینہ یہ مطلب کرلیں۔ اور ماشاء اللہ! آپ نے جو باقی اوراد بھی شروع کر لئے ہیں، الحمد للہ! بہت اچھا ہے، اللہ تعالیٰ توفیقات سے نوازے اور جو نقشبندی سلسلے کے وہ ہیں، وہ ہمارے بھی ہیں، تو آپ وہ نمازوں کے بعد وہی سورتیں پڑھ سکتے ہیں، ان شاء اللہ العزیز! ہمارے معمولات میں پہلے سے موجود ہیں، اگر کوئی دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے اس میں۔
سوال نمبر 13: السلام علیکم حضرت! میں فلاں کویت سے بول رہا ہوں۔ اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے۔ حضرت! الحمد للہ! میرا وظیفہ پورا ہوگیا ہے۔ وظیفہ تھا 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور 10 منٹ ذکرِ قلبی تھا، لیکن حضرت! ذکرِ قلبی میں دل ساتھ نہیں دیتا۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: دل ساتھ نہیں دے گا، لیکن آپ نے پھر بھی کرنا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے، آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ اور ’’حَقْ‘‘ یہ مکمل کرنے کے بعد 500 مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ تیز تیز پڑھیں۔ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘۔ اور پھر اس کے بعد 5 منٹ کے لئے آپ یہ تصور کریں کہ یہی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ میرے دل میں بھی ہورہا ہے۔ ان شاء اللہ! 10 منٹ کے لئے۔ تو امید ہے کہ ان شاء اللہ! یہ چل پڑے گا۔ آپ جو ہے ناں، مطلب ہے کہ 200، 400، 600 کے بعد 500 مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ جلدی جلدی پڑھیں اور اس کے بعد یہ تصور کریں کہ 10 منٹ آپ کے دل میں وہی ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہورہا ہے، ان شاء اللہ! اس سے مدد مل جائے گی۔
نماز صلوٰۃِ شکرانہ، آپ جو ہے ناں، وہ ایک ہفتہ دو دو رکعت پڑھ لیا کریں۔ میں نے کہا ہے۔ مجھے تو یہ آواز سمجھ میں آرہی ہے، پتا نہیں آپ کو کیوں نہیں آرہی۔
سوال نمبر 14: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اگر کوئی شخص بیعت ایک شخص سے ہو اور تربیت و اصلاح کسی دوسرے شیخ سے کرائے، تو کیا یہ درست ہے؟نمبر دو، اگر کوئی شخص اپنے شیخِ بیعت کے علاوہ کسی دوسرے سے تربیت و اصلاح کرائے تو اس کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟کیا سالک شیخِ طریقت کے ساتھ کی ہوئی تمام خط و کتابت کی ہدایات سے اپنے شیخِ بیعت کو بھی مطلع رکھے گا؟
جواب: سب سے پہلے مجھے یہ بتائیں کہ ایسا آپ کر کیوں رہے ہیں؟ کیا اپنے گزشتہ شیخ کے ساتھ آپ کا رابطہ نہیں ہورہا؟ اگر رابطہ نہ ہو تو اس کی تفصیل بھی بتا دیں، پھر میں جواب دوں گا، کیونکہ معاملہ بڑا نازک ہے۔ اس میں انسان آزادی کے ساتھ نہیں بول سکتا۔ تو پہلے آپ مجھے تفصیلات بتائیں، پھر اس کے بارے مں میں کچھ عرض کروں گا، ان شاء اللہ!
سوال نمبر 15:السلام علیکم یا حضرت شاہ صاحب!"My wife felt something when she recited اللہ in silence, like if her heart was beating hard without being too hard, a very sensitive feeling."
جواب: وعلیکم السلام۔"Brother, ask her if she was understanding it as if her heart was saying ’’اللہ اللہ‘‘. Please tell me, asking your wife, she has a feeling like this that her heart was, as if like saying ’’اللہ اللہ‘‘ by that beating? Or either it was something else?"
سوال نمبر 16: حضرت! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ پوچھنا یہ تھا کہ نفسِ مطمئنہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا جس شخص کو نفسِ مطمئنہ حاصل ہوجاتا ہے یا وہ کامل ہوجاتا ہے، تو کیا اس سے گناہ مکمل چھوٹ جاتے ہیں؟ وہ شریعت کی خلاف ورزی بالکل نہیں کرتا؟ اگر یہی صورت ہے تو پھر کیا وہ معصوم نہیں کہلائے گا؟ تو اگر اس سے کچھ گناہ ہوتے رہتے ہیں، تو نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
جواب: نفسِ مطمئنہ اصل میں اس نفس کو کہتے ہیں جو شریعت میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ یعنی اس پہ جو ہے ناں، مطلب اس شریعت پر چلنا اس شخص کے لئے معمول کی بات ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے، گناہ کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے، کیونکہ دو چیزیں ہیں انسان کے نفس میں، ایک ہے فجور کے تقاضے اور ایک دوسرا تقویٰ ہے۔ اگر فجور کا تقاضا نہ رہے یا فجور نہ ہونے پائے، گناہ نہ ہونے پائے، تو پھر ظاہر ہے، وہ تقویٰ ہی ہوگا۔ تو ایسا شخص متقی کہلاتا ہے۔ متقین کی تعریف چونکہ قرآن پاک میں ہو چکی ہے کہ وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں اور اعمال کرتے ہیں اور وحی پر جو آپ ﷺ پر اتری ہے اور آپ ﷺ پر جو پہلی وحی آئی تھی، اور آخرت پہ یقین رکھتے ہیں، تو یہ لوگ متقین کہلاتے ہیں۔ اور یقیناً قرآن میں ان کے لئے ہدایت ہے اور قرآن سے وہ ہدایت حاصل کرتے رہتے ہیں اور صحبتِ صالحین کے فوائد ان کو ملتے رہتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو معصوم نہیں کہتے، ایسے لوگوں کو محفوظ کہتے ہیں۔ یعنی ان کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے اس کو جو ہے ناں، مطلب تلافی کرنا جانتے ہیں، اپنے نقصان کی تلافی کرنا جانتے ہیں، ان کو فکر بھی ہوتی ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیت المال میں مزدوری کرنی شروع کرلی، مزدوروں کا کام کرنا شروع کرلیا، تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں اس طرح کررہے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں چونکہ دوسرے وفود کے ساتھ بحیثیتِ امیر المومنین میں ملا ہوں، تو نفس کو کچھ مطلب جو ہے ناں، وہ چڑھا ہوا ہے بخار، تو اس وجہ سے میں اس کو دور کرنے کے لئے میں یعنی یہ کررہا ہوں، تاکہ نفس اپنی جگہ پہ آجائے، عبدیت اختیار کرلے۔ اب دیکھیں! ایک تو ان کو فکر تھی کہ اس کو پتا چل گیا کہ یہ کام، مطلب ظاہر ہے میرا نفس جو ہے ناں، صحیح جگہ پہ نہیں رہا۔ اور دوسرا جو ہے ناں، وہ اس نے فوراً اس کے مطابق کام کرلیا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ محفوظ ہے۔
نفسِ لوامہ میں اور نفسِ مطمئنہ میں یہ فرق ہے، نفسِ لوامہ میں اس سے غلطی ہوتی ہے، بعد میں وہ توبہ کرتا ہے، کرتا ہے، کڑھتا ہے، اور اپنی اس چیز پر جو ہے ناں، اس کو control نہیں ہوتا، لیکن یہ بات ہے کہ کم از کم اس کو یہ پتا ہوتا ہے کہ میں غلط کررہا ہوں، جب کہ نفسِ مطمئنہ میں اپنے اوپر control بھی ہوتا ہے اور وقتی طور پر اگر نفس کچھ، مطلب جو ہے ناں، بہک جائے تو اس کو فوراً control کرنے، جیسے کہ کوئی جانور سدھا لیا جائے تو اگر کچھ مطلب آگے پیچھے اڑی کر بھی لے، تو اس کو control کرنا آسان ہوتا ہے، اگر اس کی تربیت ہو چکی ہو، ورنہ ویسے بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ تو اس طریقے سے یہ حضرات محفوظ ہوتے ہیں، معصوم نہیں ہوتے۔
سوال نمبر 17: صالحین کی definition کیا ہے؟ آج بے شمار groups دین کا پیغام لے کر چل رہے ہیں، ان میں سے کون کون صالح ہے؟ بچوں کو کس طرف چھوڑیں؟
جواب: ماشاء اللہ! بڑا اچھا سوال ہے۔ میرے خیال میں ان کا جواب مجھے نہیں دینا چاہئے، حدیث شریف سے ہی اس کا جواب لینا چاہئے، کیونکہ اس میں موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا، گزشتہ امتوں میں یہود میں 71 فرقے تھے، نصاریٰ میں 72 ہوگئے تھے، اور میری امت میں عنقریب 73 ہوجائیں گے، لیکن صرف ایک ہی نجات پائے گا۔ تو آپ ﷺ سے پوچھا گیا، وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘1 (جس پر میں چل رہا ہوں اور جس پر میرے اصحاب یعنی صحابہ چل رہے ہیں) اب ذرا اسی definition کو اگر دیکھ لیں تو یہی definition ساری ایک ہی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے کے لئے حضور ﷺ کے طریقوں کو follow کرتے ہوں اور آپ ﷺ کے طریقے کو سمجھنے کے لئے صحابہ کرام کے طریقوں کو سمجھتے ہوں، یعنی سیکھتے ہوں کہ صحابہ کرام نے کیسے زندگی گزاری ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بالکل ایک مسلسل ایک کڑی ہے۔ یعنی صحابہ کرام کے طریقوں۔۔۔۔ آپ ﷺ کے طریقہ کو سمجھنے کے لئے، کیونکہ آپ ﷺ فردِ واحد تھے، عورت نہیں تھے، مرد تھے، شہری تھے، دیہاتی نہیں تھے، بڑے خاندان والے تھے، چھوٹے خاندان کے نہیں تھے، تو یہ ساری صفات سب میں تو نہیں ہوتیں۔ تو اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے پھر صحابہ کرام میں چونکہ سارے قسم کے حضرات رکھے تھے، شہری بھی تھے، دیہاتی بھی تھے، سادہ بھی تھے، ذہین بھی تھے، اور بڑے خاندان کے بھی تھے اور غلام بھی تھے، تو ہر قسم کے حضرات کے لئے اللہ پاک نے صحابہ کرام کو نمونہ بنا دیا۔ تو صحابہ کرام کی زندگی کا سمجھنا اس لئے ضروری ہے، تاکہ ہمیں آپ ﷺ کی سنت سمجھ میں آسکے اور آپ ﷺ کی سنت کو اس لئے جاننا ضروری ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوجائے۔ اب اگر اس definition کو سمجھ لیا تو اس کے بعد پھر ایک بات رہ جاتی ہے کہ ہم دیکھیں کہ جتنے بھی groups دعویٰ کرتے ہیں، ان میں یہ چیزیں maximum کس میں پائی جاتی ہیں۔ اب ذرا کم از کم دو گروپوں کو تو بالکل نکال دیں۔ ایک وہ جو کسی قسم کی بدعت میں مبتلا ہو، اہل سنت کے مقابلے میں۔ ظاہر ہے وہ صالحین میں سے نہیں ہوسکتے۔ دوسرا، جو صحابہ کے خلاف ہو، کسی درجہ میں بھی خلاف ہو، کسی بھی مطلب جو ہے ناں، وہ صحابی کے خلاف ہو۔ تو وہ صالحین نہیں ہوسکتے۔ وہ ٹھیک ہے، مطلب ان میں خوبیاں ہوسکتی ہیں، خوبیاں تو کافروں میں بھی ہوسکتی ہیں، لیکن وہ صالحین کی اس definition پر پورا نہیں اترتے۔ لہٰذا اب میں کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ان لوگوں کی طرح تو نہ ہوں، مطلب ایسے لوگوں کے ساتھ تو بالکل نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ‘‘2 (میری سنت کا اتباع لازم ہے اور خلفائے راشدین کی سنت کا اتباع لازم ہے) تو جو خلفاء کی سنت کا اتباع نہیں کرتے، وہ بھی نکل گئے۔ اس طریقے سے یہ بات بھی ہے کہ جو ہے ناں، مطلب یعنی صحابہ کرام کے جو طریقے ہیں، ان کے مقابلے میں اگر کوئی، مطلب جو ہے ناں، تو اس وجہ سے مطلب ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام کے طریقے کو حاصل کرنے والے اور جو سنت طریقہ ہے، اس کو فروغ دینے والے، وہ یہی مطلب صالحین ہیں، جن کی طرح ہم ہوسکتے ہیں۔
باقی اس definition کو cover کرنے کے لئے بہت ساری قسمیں بن سکتیں ہیں، جس کا ظاہر ہے اس وقت، مختصر وقت کافی نہیں ہوسکتا۔ اس پر کسی اور وقت تفصیل سے بات ہوسکتی ہے۔
سوال نمبر 18: بچوں کو internet اور تفریح کیا دیں؟ video games یا Islamic music کے بغیر کارٹون وغیرہ؟
جواب: میں جرمنی میں تھا، میرے ساتھ اپنی بچی تھی، تقریباً ساڑھے تین سال کی۔ تو چھوٹا سا گھر تھا، کیونکہ وہاں بڑے گھر کا ملنا تو بڑا مشکل ہوتا ہے۔ چھوٹا سا گھر تھا، ایک کمرہ اور ایک ڈرائنگ روم آپ کہہ سکتے ہیں، اور ایک کچن، بس۔ یہ کل کمرہ تھا۔ تو ظاہر ہے میں یونیورسٹی جاتا تھا، بچی والدہ کے ساتھ ہوتی تھی۔ مجھ سے اپنے office کی secretary نے پوچھا کہ آپ نے بچی کے لئے کونسے کھلونے لئے ہیں؟ تو میں نے اسے کہا کہ وہ natural کھیل کھیلتی ہے۔ وہ بڑی حیران ہوگئی کہ natural کھیل کھیلنا کیسا ہوتا ہے؟ پھر میں نے اس کو explain کیا کہ اصل میں وہ اپنی والدہ کو دیکھتی ہے کہ والدہ کپڑے دھوتی ہے تو کس طرح وہ دھوتی ہے، تو چھوٹے چھوٹے کپڑوں کے ٹکڑے یا چھوٹے چھوٹے، وہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ اسی طریقے سے دھونے کے طور پر کرکے پھر نچوڑتی ہے، پھر اس کو لٹکاتی ہے، پھر اس کے نیچے جو ہے ناں، مطلب چھوٹے چھوٹے برتن رکھ دیتی ہے جیسے مطلب جو ہے کہ وہ قالین کو بچانے کے لئے اور ٹپکنے کے لئے، مطلب کوئی چیز نیچے رکھ دیتی ہے کہ پانی قالین میں نہ جائے۔ تو یہ بھی اس طرح arrange کرتی تھی۔ جیسے والدہ نماز پڑھتی ہے، اس طریقے سے یہ بھی ایک چھوٹا سا جائے نماز وہ لے کے فوراً کہہ دیتی ہے کہ وقت داخل ہوگیا ہے، نماز پڑھتی ہوں۔ اس طریقے سے والدہ کو دیکھ دیکھ کر وہ اپنے لئے وہ کھیل بنا لیتی تھی۔ تو وہ بہت حیران ہوئی، کہتی ہے میں تو اس بچی کے ساتھ ملنا چاہتی ہوں، یہ تو بڑی عجیب بچی ہے۔ تو ماشاء اللہ! اگر انسان تھوڑی سی ہمت کرے تو بہت کچھ ہمارے اندر ہے۔ ہم ان کو بچوں کے لئے، مطلب جو ہے ناں، وہ کھیل بنا سکتے ہیں، بچوں کے ذہن کے مطابق اس کو کرکے، جس میں constructive وہ چیزیں بھی ہوں، اپنے culture کو، اپنے دین کو محفوظ کرنے والی باتیں بھی ہوں۔ ایک بات رکھ لینا چاہئے کہ بچے جو ہوتے ہیں، یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سمجھتے نہیں ہیں، یہ تو ابھی بچے ہیں، لیکن نہیں، ان کا جاننا بڑوں کے مقابلے میں بہت تیز ہوتا ہے، کیونکہ بڑوں کا دماغ occupied ہوتا ہے، جب کہ بچوں کا دماغ بالکل خالی سلیٹ کی طرح ہوتا ہے، تو یہ بہت جلدی جلدی سیکھتے ہیں۔ اس وجہ سے اپنے بچوں کے سامنے ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں جس سے بچوں کے اخلاق خراب ہوجائیں اور ایسے games بھی ان کو نہ دی جائیں جس سے ان کے اخلاق خراب ہوں یا ان کی تربیت میں مشکلات پیش آئیں۔ یہ ہم اپنے ساتھ ہی ظاہر ہے، فائدے کی بات کریں گے، ورنہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں، بعد میں بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ ابتدائی جو سال ہے، اس میں جتنی تربیت ہوسکتی ہے، وہ آئندہ تین سالوں میں نہیں ہوسکتی۔ جو تین سالوں میں ہوسکتی ہے، وہ آئندہ دس سالوں میں نہیں ہوسکتی۔ اور جو دس سالوں میں ہوسکتی ہے، وہ آئندہ پچیس سالوں میں نہیں ہوسکتی۔ تو اس وجہ سے میں نے اصول کی بات بتا دی، باقی تو اللہ پاک نے عقل سب کو دی ہوئی ہے، اس عقل کو استعمال کرکے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
سوال نمبر 19: شروع سے بچوں کے لباس کی کیا حدود ہونی چاہئیں؟ انگریزی لباس، زنانہ ہو یا مردانہ، شریعت میں کیا ہے وہ؟
جواب: لباس جو ہے ناں، اصل میں بات یہ ہے کہ لباس کے بارے میں جاننا چاہئے، لباس ہے کیا؟ قرآن پاک میں لباس کا جو ذکر ہے، فرمایا کہ بہتر لباس تقویٰ کا ہے۔ تو یہ اصل میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ دو۔۔۔۔ ذومعنی لفظ ہوگیا۔ ایک تو یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنا یہ بہترین لباس ہے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ وہ لباس بہترین ہے، جس میں تقویٰ ہو۔ تو اس میں یہ بات ہے کہ لباس کی ضرورت کیا ہے؟ نمبر ایک، گرمی سردی سے بچانا، ستر، ہاں جی، اس کے ستر کا خیال رکھنا اور زینت۔ تو اب یہ ہے کہ زینت جائز درجے کی۔ زینت سے مراد یہ ہے کہ چیز صاف ہو، اچھی طرح سلی ہوئی ہو اور مطلب یہ ہے کہ اس پہ کوئی عیب نہ ہو۔ باقی یہ ہے کہ زینت اس کو نہیں کہتے کہ fashion کے مطابق کوئی چیز کرنا، کیونکہ یہ تو جہالت ہے، کیونکہ fashion کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں خود بالکل نہیں سمجھتا، جو لوگ کررہے ہیں، میں ان کی طرح کروں گا یا کروں گی، میرا اپنا دماغ کچھ بھی نہیں ہے، fashion کا مطلب یہ ہے۔ تو وہ جہالت ہے، وہ جو ہے ناں، وہ نہیں ہے۔ صرف یہ ہے کہ مطلب زینت سے مراد یہ ہے کہ وہ بری نظر نہ آئے۔ دوسری بات کہ اس میں ستر پورا ہو۔ اب بچوں کی بھی یہ بات ہے کہ بچوں کا لوگ ستر کا خیال نہیں رکھتے، تو اس میں اور تو کچھ مسئلہ نہیں، تو اس وقت تو وہ مکلف نہیں ہوتے، لیکن ایک تو یہ ہے کہ ان کے والدین تو مکلف ہوتے ہیں ان کی تربیت کے لئے، جیسے عمر، سات سال کی عمر میں پڑھانے کا بتاتے ہیں کہ نماز شروع کرنی چاہئے اور دس سال کے بعد پھر اگر نہ پڑھیں تو پھر مار کے بھی پڑھائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح، حالانکہ دس سال بھی ضروری نہیں ہے کہ بلوغت ہو۔ ہاں، تو مطلب یہ ہے کہ یہ گویا کہ پیش بندی ہے۔ تو اسی طریقے سے ستر کے معاملے میں بھی پیش بندی کرنا چاہئے اور پہلے سے اس کی عادت ڈلوانی چاہئے۔ یہ ذرا تھوڑا سے تکوینی طور پر اگر میں دیکھوں تو سمجھانے کے لئے عرض کروں گا کہ جو مادر زاد ولی ہوتے ہیں، تو ان کو بچپن سے الحمد للہ! یعنی اس کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جو ہے مطلب ہے کہ ننگے نہیں پھرتے۔ تو اس طریقے سے مطلب یہ ہے کہ جو بچے ہیں، تو ان کو بھی ننگا کرنے کی عادت سے بچانا چاہئے اور حیا اور ستر کا جو پیغام ہے، اس کو اپنے عمل سے ان کو دینا چاہئے۔ ورنہ پھر یہ ہے کہ پھر بعد میں اس عادت کو نکالنا۔۔۔۔ آج کل یہ والی بات ہے کہ بازار میں جو کپڑے ملتے ہیں، وہ انگریزی کپڑے ہوتے ہیں، انگریزی لباس ہوتا ہے، تو اس پر جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیا کریں؟ ظاہر ہے، مطلب ہے کہ بازار میں یہی کپڑے ملتے ہیں۔ تو میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ خدا کی بندیو! یہ کپڑے سینا پرونا، یہ سیکھنا کس لئے ہوتا ہے؟ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم دوسروں پہ dependent نہ ہوں۔ تو کم از کم اتنا سینا، پرونا عورتوں کو جاننا چاہئے کہ اپنے بچوں کے لئے تو کپڑے بنا سکیں ناں، تاکہ وہ جو ہے ناں، مطلب شریعت کے مطابق ان کو سی سکیں اور مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے اوپر dependent نہ ہوں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2641
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 42