سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 445

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ متن تصوف کے موضوع پر منعقد ہونے والی ایک سوال و جواب کی مجلس کی تحریری شکل ہے۔ اس میں  روح، روحانی قلب اور نفس کی حقیقت سے متعلق مختلف سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں۔
اللہ پر حقیقی ایمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ مجلس میں سالکین (روحانی مسافروں) کو حسد، غصہ، سستی اور دیگر ذاتی خامیوں پر قابو پانے کے لیے عملی رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ صوفیانہ ذکر (مثلاً "ھو" کا ذکر) کے جواز پر بھی بات کی گئی ہے اور انہیں دین میں بدعت کے بجائے دین کے لیے ایک ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ شیطان کی تخلیق اور آخرت سے متعلق پیچیدہ مذہبی مسائل پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ فلسفیانہ بحثوں میں الجھنے کے بجائے قائم شدہ تعلیمات پر بھروسہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ نشست نظریاتی صوفی تصورات کو ذاتی روحانی ترقی کے عملی حل کے ساتھ جوڑتی ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج پیر کا دن ہے۔ پیر کے دن ہمارے ہاں تصوف سے متعلق جو سوالات لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں، ان کے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دفعہ چونکہ ہمارا سفر تھا فیصل آباد اور جوڑ تھا اُدھر، پھر اس کے بعد لاہور گئے تھے۔ لاہور میں کافی، ظاہر ہے پڑھے لکھے لوگ جمع ہو جاتے ہیں بیان کے لئے۔ تو اس دن بھی پیر کا دن تھا، یعنی گزشتہ ہفتے، اس وجہ سے پہلے سوال وجواب ہوئے، پھر اس کے بعد بیان ہوا، پھر اس کے بعد سوال وجواب کا session ہوگیا۔ تو وہ بھی چونکہ اہم سوالات تھے اور اس میں جو ہے ناں مطلب جوابات جو اس کے دئیے گئے، تو چونکہ وہ record تو ہو چکے تھے لیکن live نہیں تھے۔ live اس کا پہلا session تھا۔ تو اس وجہ سے اس کو بھی live کرنا چاہتے ہیں۔ تو تقریباً 23 منٹ کے سوال و جوابات ہیں۔ تو پہلے ان کو چلایا جائے گا، پھر اس کے بعد، ان شاء اللہ، جو اِس وقت جو سوالات اٹھے ہیں لوگوں کے ذہنوں میں، پھر ان کے جوابات دئیے جائیں گے۔ تو آپ شروع فرما لیں، ان شاء اللہ اس کے بعد پھر میں جو دوسرے سوالات ہیں، ان کے جوابات دینے کی کوشش کروں گا۔

سوال نمبر 1:

روح تو نظر نہیں آ سکتی۔ (روح تو کہا جاتا ہے یہ صرف pumping device ہے)۔ ہاں یہ بہت زبردست question ہے۔ (مطلب اس کو relate کس طرح کیا جاتا ہے؟) جواب:

اصل میں دیکھیں ناں، روح ہر جگہ ہے یا نہیں جسم میں؟ ہمیں تو صرف گوشت نظر آ رہا ہے، ہڈی نظر آ رہی ہے، رگیں نظر آ رہی ہیں، لیکن روح تو نظر نہیں آ سکتی۔ روح تو ہر جگہ ہے ناں۔ تو جو روح، جس طرح جسم کا پورا حصہ ہے، مطلب اس کا دل ہے، اس کی تمام۔۔۔۔ اس طرح روح کی بھی کچھ ہوں گی ناں چیزیں۔ تو وہ جو روح یہاں پر، مطلب جو دل کی جگہ پر جو روح ہے، کیونکہ وہ ظاہر ہے روح کی shape بھی وہی ہے جو جسم کی shape ہے، کیونکہ مطلب، وہ اس کے اندر enclosed ہے ناں۔ تو یہ جو جگہ ہے یہ spiritual heart ہے۔ تو یہ جو بات کی جاتی ہے وہ spiritual heart کی کی جاتی ہے۔ وہ spiritual، کیونکہ جیسے مثال کے طور پر آپ fridge کی جو machinery ہے وہ اس سے نکال لیں تو کسی اور میں رکھ دیں تو وہی fridge بن جائے گی۔ تو اسی طریقے سے مطلب یہ ہے کہ یہ جو spirit ہے وہ جسم کے اندر ہے، تو اصل تو چلانے والا یہ ہے ناں۔ تو وہ جو القاء اور الہام والا تعلق ہے وہ اس روح کے ساتھ ہے اور pumping کا تعلق اِس دل کے ساتھ ہے۔ میں اس کی بہت آسان مثال دیتا ہوں کہ محبت اور نفرت، یہ دل میں ہوتے ہیں۔ یہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے وہ کہاں محسوس ہوتی ہے، کسی کو اِدھر محسوس ہوئی ہے؟ ظاہر ہے وہ یہاں محسوس ہوتی ہے۔ نفرت بھی ادھر ہی محسوس ہوتی ہے۔ باقاعدہ دل repel کرتا ہے۔ یعنی، مطلب اگر کسی کے ساتھ آپ نہیں ملنا چاہتے ہوں ناں، تو آپ ان کے ساتھ بے شک گلے مل لیں ناں، لیکن آپ کا دل وہ repel کرے گا، آپ نہیں مل سکیں گے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیزیں اِدھر ہیں۔ اسی طرح ایمان اور کفر، یہ بھی اِدھر ہوتے ہیں۔ یعنی اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت دی ہو تو وہ کسی کافر، مسلمان میں فرق اس طرح کر سکتا ہے کہ وہ اس کے دل کی طرف دیکھے گا۔ یہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ جو تھے، یہ لاہور کے، تو ان کے ساتھ ایک ایران سے کوئی آیا تھا مناظرہ کرنے کے لئے، وہ آیا تھا، وہ مناظرہ کرنے کے لئے آیا تھا، تو جیسے جیسے مطلب وہ آ رہے تھے ان کے پیچھے، میاں میر رحمۃ اللہ علیہ وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ میاں میر بیٹھے ہوئے تھے، وہ دھوپ تاپ رہے تھے۔ تو حضرت نے فرمایا: "یہ جو آگے آگے آ رہا ہے ناں، یہ اس کا دل کالا ہے۔" یہ جو آگے آگے آ رہا ہے، اس کا دل کالا ہے۔ تو وہ جب قریب آگیا تو یہ وہی تھا۔ اب انہوں نے دل کی بات بتائی، انہوں نے دماغ کی بات نہیں بتائی۔ کفر اور ایمان، یہ بھی دل میں ہوتے ہیں اور محبت و نفرت، یہ بھی دل میں ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 2:

Atheist نے سوال کیا تھا کہ آپ کیا اللہ پر یقین رکھتے ہیں؟

جواب:

انہوں نے کہا، "میں مسلمان ہوں، کیوں نہیں رکھتا؟" انہوں نے کہا، "آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ اللہ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔" تو انہوں نے کہا: "کیا ایک گواہی پر آپ اتنی بڑی حقیقت مان سکتے ہیں؟" تو پٹھانوں کا علاقہ تھا، وہ تو کھڑے ہوکر مارنے لگے۔ تو حضرت نے اشاروں اشاروں میں بٹھایا کہ بھئی میں جواب دیتا ہوں، آپ لوگ کیوں بات کرتے ہیں؟ پھر لوگ بیٹھ گئے۔ حضرت نے پھر ان کو ذرا باتوں میں involve کر کے بہت دور لے گئے، کہ جیسے وہ بات بھول گئے اور پھر اس سے پر بات کرنے لگے کہ ما شاء اللہ! آپ کے والد صاحب کیسے ہیں؟ کہتے ہیں وہ تو فوت ہوگئے۔ تو والدہ کیا صحیح ہے؟ کہتا ہے، "بوڑھی ہے۔" وہ تو بڑی سچی ہوگی کیونکہ پرانی عمر کی ہے۔ تو اس نے کہا کہ "نہیں، کبھی کبھی اپنے مقصد کے لئے جھوٹ بھی بول لیتی ہے۔" broad-minded تو بنتے ہیں ناں لوگ۔ وہ اپنے مقصد کے لئے جھوٹ بھی بول لیتی ہے۔ انہوں نے کہا، "اچھا! تو کیا خیال ہے، آپ واقعی اس کے بیٹے ہیں جس کا آپ نام لے رہے ہیں؟ بس وہ غصہ ہوگیا، "مولانا گالی تو نہ دو۔" انہوں نے کہا، "دیکھو، تونے اتنی بڑی بات کی، میں نے کچھ نہیں کہا۔ اب میں بات کر رہا ہوں تو آپ غصہ ہو رہے ہیں، تو غصے کا حق تو آپ کو بھی نہیں ہے۔ logic پہ بات کریں گے ناں، تو logic یہ کہتی ہے کہ تو بقول آپ کے خود، وہ کبھی کبھی جھوٹ بولتی ہے اپنے مقصد کے لئے، اور واقعہ یہ ہے کہ عینی گواہی صرف ایک ہے، کوئی اور ہے نہیں۔ تو اس سے بڑا مقصد اس کا اور کیا کون ہوگا اپنی عزت کو بچانے کے لئے؟ تو اگر وہ جھوٹ بول رہی ہو تو پھر؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ابو آپ کا باپ ہے؟ میں logic کی بنیاد پہ کہتا ہوں، تو آپ logic کی بنیاد پر مجھے جواب دیں۔" اب وہ بالکل ہوگیا، جو ہے ناں، ظاہر ہے وہ fail ہوگیا۔ answer اس کے پاس نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ شان تھی کہ ان کے دشمن بھی ان کو صادق و امین کہتے تھے، تو ان کی بات تو میں نہ مانوں اور آپ ایک ایسی عورت کی جو کہ بقول آپ کے خود بھی جھوٹ بولتی ہے، آپ اس کے اوپر اتنا یقین کرتے ہیں؟ تو یہ بتاؤ۔" بس اس سے وہ لاجواب ہوگیا۔ تو اصل میں بنیادی بات تو یہی ہے ناں آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس لئے میں اکثر میں نے بیانوں میں کہا تھا ناں کہ اصل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایمان ہے، اس لئے خدا تعالیٰ کا، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسی طرح ہم اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی اللہ پاک کی صفات کس نے بتائیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائیں۔ کتابوں پر ایمان اس کی وجہ سے ہے، قرآن پر ایمان اس وجہ سے ہے، رسولوں پر ایمان اس کی وجہ سے ہے۔ ہر ایمان جو ہے ناں، مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہے، ذریعے سے ہے۔ بنیادی بات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مقام اللہ پاک نے دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ یعنی مطلب یہ ہے کہ وہ ساری چیزوں کا وہ ہے، تکوینی فیض بھی وہی ہے، تشریعی فیض بھی وہی ہے، سب جو ہے ناں مطلب۔۔۔۔ اور یہاں تک فرمایا کہ ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾1 یہ معمولی بات نہیں ہے ذرا اس کے weight کو اندازہ کر لیں تو پھر پتہ چلے گا کہ ﴿فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ2 کوئی معمولی بات ہے؟ یہ یہ چیز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ سوال نمبر 03:

حضرت اس میں ایک اور suggestion ہے۔ یہ جو ہمارے سوال و جواب کا ہے، اور کچھ نہیں، facebook پہ ایک page بنا دیا جائے، اس پہ relay کیا جائے۔ ہم بہت زیادہ اپنی جو thought process ہیں اور یہ سوال و جواب، یہ۔ ہر جگہ پہ اور وہ جتنے بھی ہم community میں بیٹھے ہیں، ہم اس کو like کر رہے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ نہ کوئی تصویر ہو، نہ کچھ دوسرے۔۔۔۔

جواب:

دیکھیں، وہ تو، دیکھیں، میں آپ کو بات بتاؤں، میں خود تو نہیں آتا لیکن آپ جو پہلے سے facebook پر ہیں، جو پہلے سے facebook پر ہیں، تو اس کو چلائیں۔

(نہیں حضرت، جیسے تزکیہ کی ہماری website ہے ناں، ایسے ہی اس کا page بنا لیا جائے۔)

(Page بنا ہوا ہے۔ (page بنا ہوا ہے؟) خواتین چلا رہی ہیں کوئی میرے خیال میں۔ page بنا ہوا ہے، حضرت کے بیانات اس پہ آتے ہیں اور clips چھوٹے چھوٹے حضرت کے آتے ہیں page پہ۔)

(اب وہ یہ ہے کہ جیسے ہم لوگ یہاں بیٹھے ہیں، سو سے سو، ہزار، دس ہزار، تو وہ میسج across، اور خصوصاً ان countries میں، بھائی ہے، میرا ایک کزن ہے، دو اور چار پانچ جاننے والے ہیں، تو وہ یہ جو سوال و جواب کا سلسلہ ہے ناں، یہ اس سے بہت زیادہ clarity آتی ہے۔) (ہاں بالکل) بہت زیادہ clarity آتی ہے۔

الحمد للہ ہم نے جو کام شروع کیا ہے ناں اپنی web، وہ جو سوال و جواب، ابھی تک ہمارے جتنے تقریباً 400 سے زیادہ session ہوئے ہیں ناں، یہ ان شاء اللہ ایک بہت بڑا ذخیرہ بننے والا ہے۔ اس کا میں نے ان کو بتایا، میں نے کہا اس طرح کر لو کہ اس کے جوابات تو بے شک audio ہوں کیونکہ اس کو text میں convert کرنے میں بڑا ٹائم لگے گا، لیکن اس کے جو questions ہیں وہ text form میں کرو۔ questions اگر text میں ہوں گے تو searchable ہو جائیں گے۔ جب وہ searchable ہو جائیں گے تو جس کو جو ضرورت ہوگی تو وہ ادھر سے catch کرکے مطلب اس کو سن لے گا، download کر لے گا۔

(subject base بھی اس میں دئیے جاسکتے ہیں کہ جی۔) (مزید بھی categorize۔) (کہ جتنے سوال ہیں۔)

(اس کا design بنایا ہے (design بنایا جاتا ہے) اور اس کی app کے اوپر بھی کام شروع کر رہے ہیں، ان شاء اللہ۔)

بالکل، ہاں کیونکہ واقعی یہ ایک بہت، ہمارے پاس ایک انمول خزانہ ہے۔ یہ میں نے آپ کو بتایا، تصوف کا خلاصہ چھوٹی سی کتاب ہے لیکن اس کا جتنا فائدہ ہوا ہے ناں، کسی اور کتاب کا اتنا نہیں ہوا۔

(عمر بھائی، you take the lead. آپ ایک پیج design کریں۔) (design ہوگیا ہوا ہے، اس کے اوپر بھی کام ہو رہا ہے۔)

اس کا جتنا فائدہ ہوا ہے، کسی اور کتاب کا نہیں ہوا۔ چھوٹی سی کتاب ہے لیکن وہ یہ نہیں، تصوف کے بالکل مخالفین ہیں، ان کو ہم نے دی، بس ان کا منہ بالکل بند ہوگیا۔

سوال نمبر 04:

خالق کہے کہ میں نے تمہیں یہ کہا ہے اور تم یہ کام کر رہے ہو۔ جواب:

اصل میں خالق جو ہوتا ہے ناں، وہ اس کا تو ہم ہمارے تصور سے بھی beyond ہے۔ ہم لوگ نہیں۔۔۔۔ جس کو کہتے ہیں وراء الوراء ہے، البتہ وہ communicate کرتا ہے پیغمبروں کے ذریعہ سے، ٹھیک ہے ناں

(جن کو communicate کر رہا ہے، ان کو بھی پیدا کرنے والی وہی ذات ہے۔) (جی بے شک۔)

(اس میں شیطان شامل ہے، اس کو بھی پیدا کرنے والی وہی ذات ہے۔)

بے شک، اس کو بھی وہی پیدا، اسی نے پیدا کیا ہے۔ تو دیکھیں، اللہ پاک خود قرآن میں نفس کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا۪ۙ ۝ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾3 اللہ پاک فرماتا ہے اس نفس کو میں نے دو چیزیں الہام کیں، ایک اس کے فجور یعنی جو برائیوں کے تقاضے ہیں اور ایک اس کا تقویٰ، پھر اجازت دی کہ جو کوئی follow کرنا

چاہے، جو کوئی کرنا چاہے کر لے، لیکن نتیجہ سن لے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾4 یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔ یعنی اس کی برائیوں سے بچ گیا۔ ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾5 (تو دوسری طرف جو ذات ہے، وہ شیطان جو ہے، وہ بھی اسی کی پیدا کردہ ہے۔ ہم نے کوئی امریکہ، اسرائیل یا کسی سے نہیں لیا، تو یہ آپس میں competitionہے)

نہیں، کوئی competition نہیں ہے۔ صرف بات یہ ہے کہ شیطان جو ہے، اس کو اپنے نفس نے خراب کر لیا۔ یعنی اس کو جب اللہ تعالیٰ نے کہا۔۔۔ مطلب وہ تو بڑی اچھی پوزیشن پہ تھا۔

(تھوڑی سی اپنی back story پہ چلیں تو حضرت آدم علیہ السلام کے آنے کی ایک وجہ ہو، اور وہ نہ situation بنتی تو یہ ساری کائنات ایسے نہ ہوتی۔)

لیکن میں عرض کرتا ہوں ناں۔ شیطان جو تھا ناں، شیطان، وہ تو بڑی اچھی پوزیشن پہ تھا، معلم الملکوت، ان کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ جیسے اللہ پاک نے فرمایا کہ ﴿وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾6 وہ جو ہے ناں اس کے بعد فرمایا کہ فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان نے نہیں کیا، تو اللہ پاک نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیوں نہیں کیا؟ جب کہ میں نے اس کو اپنے ایک خاص طریقہ سے پیدا کیا۔ تو اس نے کہا ﴿خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ﴾7 تونے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے پیدا کیا، اس وجہ سے میں نے نہیں کیا۔ تو پھر اس پر جو ہے ناں اللہ پاک نے اس کو نکال دیا کہ "اچھا، مطلب یہ میری بات کو نہیں مانتا اور اپنی طبیعت کی بات کو مانتا ہے۔"

(آپ کی بات بالکل صحیح ہے۔ لیکن پیدا کرنے والی ذات تو وہی ہے۔)

نہیں، تو پیدا تو کسی کو بھی کر سکتا ہے۔

(اب اللہ نہ کرے ہم جہنم میں جائیں یا کہیں جائیں، وہاں کے بھی خالق تو وہی ہی ہیں۔)

اس میں جو ہے ناں، اس میں بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ اللہ پاک ہدایت کے مطلب بھی پیدا کرنے والے ہیں، گمراہی کو بھی پیدا کرنے والے ہیں، لیکن ہدایت کے بارے میں فرماتے ہیں، "اس کو لو، اس کو نہ لو۔" یہی تو امتحان ہے۔

(مثلاً ایک چھوٹی سی بات ہے، میں نے ایک میزائل بنایا، اس میں میں نے کچھ artificial intelligence بھی ڈال دی، اس کو میں نے فائر کر لیا، وہ اپنے ٹارگٹ پہ hit نہیں کیا، تو وہ میزائل کا قصور ہے یا creator کا fault ہے؟)

اصل میں دیکھیں ناں، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جس کو آپ وہاں مثال دے سکتے ہیں اس کی، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جیسے کھانے پینے کی مثال ہم اللہ تعالیٰ کی نہیں دے سکتے، وہ ان چیزوں سے پاک ہے، اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جس کا مثال ہم دے سکتے ہیں، جس طرح اللہ بھی رحیم ہے، انسان بھی رحیم ہے، اللہ بھی کریم ہے، انسان بھی کریم ہے۔ تو یہ میزائل کی مثال ادھر نہیں دی جاسکتی۔ مطلب اللہ پاک نے۔۔۔۔ جی عرض کرتا ہوں ناں۔

(اس کو کوئی سمجھنے کا آسان طریقہ؟)

سمجھنے کا آسان طریقہ تو مجھے۔ ایک دفعہ میں نے حضرت سے پوچھا، مولانا اشرف صاحب، ہمارے شیخ سے، "حضرت مجھے اپنی اصلاح کا آسان طریقہ بتا دیں۔" چونکہ میں atomic energy commission میں تھا، تو انہوں نے فرمایا، "مجھے ایٹم بنانے کا آسان طریقہ بتا دو تو آپ کو یہ بتا دوں گا۔" ظاہر ہے، بم بنانے کا آسان طریقہ تو نہیں ہوتا۔

(کیوں نہیں ہے؟ وقت کے ساتھ چیزیں change ہوتی جا رہی ہیں۔)

نہیں نہیں، ایٹم بم بنانے کا آسان طریقہ آپ مجھے بتا دیں۔

(دیکھیں، یہ وقت کے ساتھ change ہوتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم ایٹم بم بنا ہی نہیں سکتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ stages کم ہوتی جا رہی ہیں۔)

نہیں نہیں، نہیں، میں آپ سے عرض کرتا ہوں۔ there are 25 steps۔ پچیس steps ہیں اور اس کے اوپر کتنا وقت لگتا ہے۔

(first time. first time)

نہیں نہیں، first time نہیں۔ وہ بات صحیح ہے۔ لیکن ایٹم بم بنانے کا جو طریقہ ہے، اس میں جو پھر enrichment ہے اور وہ تمام چیزیں، اس procedure تک جانا، یہ مطلب practically gain کرنا، وہ آسان نہیں ہوتا۔ (بالکل صحیح ہے) اصل بات یہ ہے، لیکن وہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تو حضرت نے مثال دی ہے ناں۔ حضرت نے مثال دی۔ اب بات یہ ہے کہ کسی چیز کو بھی حاصل کرنے کے لئے effort کرنی پڑتی ہے۔ میں آپ کو بتاؤں، یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ میرے پاس ایک کتاب ہے عبقات، جس کا ہم نے درس دیا ہے دو دفعہ، اس میں ان questions کے جوابات موجود ہیں، لیکن اس کے لئے base بنانی پڑتی ہے۔ پوری ایک base بنانی پڑتی ہے، مطلب جس کو کہتے ہیں ناں، وہ ایک step سمجھو، دوسرا سمجھو، تیسرا سمجھو، چوتھا سمجھو، پھر اس کے بعد انسان کی understanding develop ہوتی ہے۔

(میرا صرف اتنا point ہے، کیا یہ چیزیں آنکھیں بند ہونے سے پہلے سمجھ آ سکتی ہیں یا آنکھیں بند ہونے کے بعد ہی ساری picture clear ہوتی ہے؟)

آنکھیں بند ہونے کے بعد تو پھر نتیجہ سامنے آئے گا۔ اس وقت تو پھر کچھ اور نہیں ہو سکے گا، صرف نتیجہ سامنے آئے گا کہ آیا میں حق پر ہوں، حق پر نہیں تھا، حق پہ تھا۔ اس وقت نتیجہ سمجھ میں آجائے گا۔ اِس وقت سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اور بہترین شخصیت کون ہے؟ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ناں، تو جو اس نے بتایا بس ہم اس کو مان لیں۔ سب سے آسان طریقہ یہی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ آسان نہیں ہے، باقی مشکلات ہیں۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، صحابہ کرام کچھ تقدیر کے بارے میں discussion کر رہے تھے۔ تقدیر ایک ایسا topic ہے ناں جس میں انسان out ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جیسے کہ آپ کمپیوٹر کے اوپر ایسا problem solve کرنا چاہیں جو اس کی حیثیت سے باہر ہے، تو ظاہر ہے کمپیوٹر hang ہو جائے گا۔ تو اس پر وقت لگانے میں انسان اپنا وقت ہی ضائع کرتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کو اس چیز میں discussion کرتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں آپ کو ایک چیز بتانے والا تھا لیکن آپ کی اس discussion کی وجہ سے اللہ پاک نے مجھ سے وہ چیز اٹھا لی۔ وہ لیلۃ القدر کے بارے میں، وہ اب مجھے یاد نہیں رہا، ہاں البتہ اب اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو۔" یہ فرمایا۔ اس کا مطلب ہے کہ اب تقدیر پہ اجمالی ایمان تو ہے، اجمالی ایمان سے مراد یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں اللہ پاک ہر چیز کرتا ہے، لیکن اس کی details میں جانے میں، واقعتاً اس کی گتھیاں سلجھانے میں اتنی complication ہو جاتی ہے کہ پھر اس کے بعد۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ایک چیز کو رکھیں گے، جیسے مثال کے طور پر، تو دوسرا آپ کے ہاتھ سے جاتا ہے، دوسرا رکھیں گے تو تیسرا آپ کے ہاتھ سے۔ یہ مسائل ہیں۔

(میں وہی پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اس کا کوئی solution ہے؟)

بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پہ آجائیں، بس سب سے آسان طریقہ یہ ہے۔

الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے، میں کہتا ہوں اللہ پاک کا اس شخص کے اوپر بہت فضل ہے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت نصیب فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر چلنے کا اس کا ارادہ ہو جائے، بے شک نہ چل سکے لیکن ارادہ ہو جائے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پہ چلنا ہے۔ یہ بہت، بہت اس کی خوش قسمتی ہے۔ اس کے بعد کم از کم وہ راستے پہ پڑ گیا۔ اب کتنا قدم اٹھاتا ہے وہ علیحدہ بات ہے، وہ اس کی اپنی اپنی effort ہے، لیکن کم از کم راستے پہ پڑ تو گیا۔

سوال نمبر 05:

اچھا آج کے دور میں کہیں practical اسلام نظر آتا ہے یا صرف؟ جواب:

اصل میں دیکھیں، میں آپ کو بتاؤں۔ یہ question بڑا اچھا question ہے۔ یہ ہمارے ایک صاحب تھے، اس نے بڑے اچھے طریقے سے explain کیا تھا۔ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، مولانا احمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ، وہ جنوبی افریقہ گئے تھے۔ وہاں کے حضرات نے ان سے کہا کہ "حضرت آپ تشریف لائے، آپ تھکے ہوئے بھی ہیں، آپ کو آرام کرنے کی بھی ضرورت ہے، آپ کو کھانے کی بھی ضرورت ہے، آپ کو نماز پڑھنے کی بھی ضرورت ہے، ہمیں پتہ ہے، لیکن ایک شخص ایسے ہوا تھا جو انگلینڈ میں مسلمان ہوا، پھر اس نے کہا کہ میں مسلمانوں کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ تو میں ذرا مسلمانوں کے۔۔۔۔ تو یہاں پر آ کر صومالیہ آگیا۔ تو صومالیہ میں اس نے جو کرپشن وغیرہ، جو لوگوں کے برے اعمال دیکھے ناں، تو وہ بہت disheartened ہوگیا اور واپس جانا چاہ رہا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ یہ مرتد نہ ہو جائے۔ تو اب ایسی صورت میں آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیا آپ ان سے ملنا چاہتے ہیں؟ یا آپ، مطلب ہمیں پتہ ہے کہ آپ کی ضرورت ہے۔" حضرت نے فرمایا، "بھئی کھانا بھی بعد میں کھایا جاسکتا ہے، نماز راستے میں پڑھی جاسکتی ہے اور تھکاوٹ کی کوئی پروا نہیں، چلو پہلے اس سے ملتے ہیں۔" چلے گئے، جیسے وہ پہنچ گئے تو وہ سامان ہی باندھ رہا تھا۔ سامان باندھ رہا تھا تو اس کو۔۔۔۔ "جی حضرت، یہ فلاں صاحب ہیں انڈیا سے تشریف لائے ہیں۔" تو انہوں نے اپنی رام کہانی سنانی شروع کی۔

( میں قہوہ ٹھنڈا کر رہا رہا ہوں، معذرت۔)

(کوئی بات نہیں، اچھی بات ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔)

تو انہوں نے کہانی شروع کی، انہوں نے کہا، "بھئی آپ کی کہانی کا مجھے پتہ ہے۔ اب صرف میں آپ کو ایک بات سنانے کے لئے آیا ہوں، باقی آپ کی مرضی۔" کہتے ہیں، "بالکل ٹھیک ہے، بتائیے۔" انہوں نے کہا، "کم از کم اسلام کے بارے میں آپ کو پتہ ہے کہ صحیح مذہب ہے؟" کہتا ہے، "بالکل، اسی وجہ سے میں مسلمان ہوا ہوں۔" انہوں نے کہا، "آپ کو گلہ ہے کہ مسلمان اس کو follow نہیں کر رہے ہیں۔" کہتا ہے، "ہاں۔" انہوں نے کہا، "آپ وہ first person ہو جائیں کہ آپ follow کرنا شروع کر لیں تاکہ اور لوگ آپ کو follow کریں۔" Why do you wait for the other? Let's start with yourself. بس وہ کہتے ہیں، اس کو ہوش آگیا، کہتا ہے، "بس میں نہیں جا رہا۔" وہ رک گیا۔

(کہ دوسری سائیڈ پہ اگر دیکھیں ناں تو بہت زیادہ ہم بدنام ہیں being a Pakistani, being a Muslim۔ وہ Qualities جو ہم میں موجود ہیں۔)

اس کا جواب موجود ہے، لیکن اصل میں بات یہ ہے کہ اگر کوئی confuse ہونا چاہتا ہے تو confuse ہونے کے دلائل بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اس کا جواب موجود ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان جو ہے ناں، مسلمان، یہ ایمان رکھتا ہے اور ایمان کی یہ حالت ہے کہ بے شک گناہ گار کیوں نہ ہو، بالآخر یہ جنت جائے گا، بالآخر جنت جائے گا۔ (ان شاء اللہ) اس وجہ سے شیطان کو چونکہ اس کا پتہ ہے تو کبھی آرام سے نہیں بیٹھتا، نیک کام نہیں کرنے دیتا، کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اگر یہ کسی کو مسکرا کر بھی دیکھے گا ناں تو اس کو بھی ثواب ملے گا، لہٰذا وہ ہر چیز میں اس کو خراب کرتا ہے۔ جب کہ کافر کے بارے میں وہ مطمئن ہوتا ہے کہ جب تک یہ کلمہ نہ پڑھ لے، اُس وقت تک یہ میرا ہے، چاہے کتنے اچھے کام کر لے، تو ادھر ہی دنیا میں ہی ملے گا ناں، وہاں تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ لہٰذا کافر پہ اتنی محنت کرتا ہے صرف کہ بس یہ کافر رہے، باقی اس پہ مزید محنت نہیں کرتا، جب کہ مسلمان کی ہر چیز پہ محنت کرتا ہے۔ اس وجہ سے مسلمان میں۔۔۔۔ علماء نے اس کی نشانی بتائی ہے کہ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ شیطان کون سے کام کرتا ہے اور نفس کون سے کام کرتا ہے غلط، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کافر مسلمان میں مشترک برائیاں ہیں، وہ نفس کی وجہ سے ہیں، کیوںکہ کافر کے ساتھ بھی نفس ہے، مسلمان کے ساتھ بھی نفس ہے۔ اور جو برائیاں کافر میں تو نہ ہوں اور مسلمان میں ہوں تو وہ شیطان کی وجہ سے ہیں، وہ شیطان کی وجہ سے ہیں، کیونکہ ظاہر ہے شیطان مسلمانوں سے وہ برائی کروائے گا اور کافروں سے نہیں کروائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اگر یہاں پر پاکستان میں، انڈیا پاکستان میں اگر کوئی قادیانی ہو جاتا ہے تو پہلے وہ 2.5٪ زکوۃ نہیں دے سکتا تھا، اب پھر قادیانی جماعت کو 10٪ دیتا ہے۔ پھر جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ اس کو جو ہے ناں وہ یعنی اپنے گھر والوں کو بھی استعمال کرنا اس کے لئے شروع کر لیتا ہے، تحمل بھی ان میں آ جاتا ہے، برداشت بھی ان میں آ جاتی ہے۔ یہ کونسی چیز ہے؟ کیونکہ اب شیطان نے اس سے وہ چیز نکال لی، بس وہ بس اب صرف اس کو اپنا وہ وکیل بنانا چاہتا ہے۔ جب کہ مسلمان کو صحیح نہیں ہونے دینا چاہتا۔

اچھا دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم باہر کے ملکوں میں دیکھیں، یورپ میں دیکھیں، امریکہ میں دیکھیں کئی بار، تو لوگ کہتے ہیں، "یار یہ ان کا کلچر بہت اچھا ہے، یہ اس لئے اچھے ہیں۔" یہی بات ہے ناں؟ اب کمال کی بات یہ ہے کہ یہاں کے ہمارے حکمران خراب لوگ ہوتے ہیں، ہمیں پتہ ہے، ہمیں نظر آتا ہے۔ وہاں کے حکمران ان کے اچھے لوگ ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے آپ کے لئے تو غلطی برداشت کر لیتے ہیں، حکمران کے لئے غلطی نہیں برداشت کرتے۔ وہ ذرہ بھر بھی ان کی ہوتی ہے تو ان کے اوپر چڑھ دوڑتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے ان کے حکمران ان کے اچھے لوگ ہیں، لیکن ان کے حکمران مسلمانوں کے ساتھ کبھی اچھا سلوک کرتے ہیں؟ نہیں۔ جتنے دھوکے وہ مسلمانوں کو دے سکتے ہیں، چاہے کسی بھی صورت میں ہوں، وہ دے دیں گے۔ اب اپنے ساتھ ٹھیک ہوں گے، جب مسلمانوں کے ساتھ deal آئے گی تو وہاں پر ساری چیزیں بدل جائیں گی۔ مطلب، تو کیا بات ہے؟ شیطان کا پتہ چل گیا کہ شیطان نے جب مسلمان کے ساتھ معاملہ آگیا، ان کو اب استعمال کرنا شروع کر لیا، اور جب ان کی آپس کی بات ہوتی ہے تو ان کو دوسری طرح استعمال ہونے دیتے ہیں۔ اگر اس context میں دیکھیں تو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ البتہ میں کہتا ہوں کہ یہ تو آج کل کے دور کی بات ہے ناں، صحابہ کرام بھی تو انسان تھے ناں اور مسلمان بھی تھے، ان کو شیطان کیوں ورغلا نہیں سکتا تھا؟ ان سے کیوں مطلب جو ہے ناں، اتنے اچھے اچھے کام ہو سکتے تھے، شیطان ان سے نہیں چھڑا سکتا تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ایمانوں پہ جو محنت کی تھی، وہ اس level کی تھی کہ شیطان کی رسائی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ہمارے سامنے target یہ ہے کہ ہم صحابہ کے طریقہ پہ چلیں۔

(لیکن ان کا جب ہم end دیکھتے ہیں تو ان کو شہادت اور وہ مطلب جو نظر آ رہی ہے، وہ یہی چیز ہے۔ (کیا چیز؟) چار جو مطلب ہمارے خلفاء راشدین ہیں، ان کے جو end آ رہا ہے، تو ان کو مطلب شہید کردیا گیا۔)

نہیں، تو شہادت تو بڑا رتبہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا۔

(لیکن مطلب اس کا ہوا کہ لوگوں میں یا کم از کم بیچ میں ایسے میر جعفر موجود تھے جو کہ۔)

نہیں، دیکھیں میں آپ کو بتاؤں، ہر اچھائی کے ساتھ قریب کسی طرح برائی تو ہو سکتی ہے، لیکن وہ میں آپ کو بتاؤں، جب میں سائے کو دیکھتا ہوں تو مجھے سورج بھی نظر آنا چاہیے۔ میں تو سورج کی بات کر رہا ہوں اِس وقت۔ تو جو حضرات تھے، مطلب وہ تو موجود تھے ناں، تو ان کے جو character کی جو بلندی ہے، وہ ان کے مقابلے کے پھر لوگوں میں وہ سمجھ آتی ہے ناں۔ اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ ہمیں صحابہ کے طریقہ پہ چلنا چاہیے اور اُس وقت جو چیزیں، مثال کے طور پر صحابہ کے مقابلہ میں ہوئی تھیں، وہ ہمارے لئے علم کی بنیادیں ہیں کہ ہم ان چیزوں سے بچ جائیں۔ جہاں جہاں پر اس قسم کا مسئلہ ہو تو ہم ان چیزوں سے بچ جائیں، تو ہمارے سامنے پورا chapter کھل جائے گا۔

اب جو گذشتہ ہفتے میں جو سوالات آئے ہیں، ان کو ان شاء اللہ، مطلب touch کرتے ہیں۔ سوال نمبر 06:

جی، ہماری وظیفہ کی مدت پوری ہوئی ہے۔ جی، آپ نے ہم دونوں کو اسم ذات 1500 مرتبہ دیا تھا۔ میرا مجاہدہ تو تین مہینے تک ہے اور میری سہیلی کو آپ نے جو دیا تھا کہ جو کام میں پہلے نہیں کر سکتی، اب کروں گی۔ جواب:

تو ٹھیک ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر آپ، مطلب یہی ہے، تو آپ کا تو تین مہینے تک جاری رہے گا، اور وہ جو سہیلی ہے، وہ اپنے مجاہدے کے بارے میں بتا دے کہ وہ کیا feel کر رہی اور کیا ہو رہا ہے۔

سوال نمبر 07:

حضرت، آپ نے رذائل کی list بھیجنے کی ہدایت فرمائی تھی، ذیل میں انہیں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ 1۔ سستی۔ 2۔ دیر سے اٹھتی ہوں۔ 3۔ زیادہ کھانا کھاتی ہوں۔ 4۔ کچھ نہ کچھ چکھتی رہتی ہوں۔ 5۔ میٹھا بہت اچھا لگتا ہے۔ 6۔ چائے بہت اچھی لگتی ہے۔ بچوں کی طرف سے لاپروائی ہے۔ ان کو میں خود نہیں پڑھاتی۔ نندوں سے بغض ہے۔ ساس گھر میں نہ ہو تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ دماغ میں دیور وغیرہ سے پردہ ہے لیکن عمل میں نہیں ہے۔ جو عمل شروع کرتی ہوں مستقل نہیں ہوتا۔ ورزش نہیں کرتی۔ مہمانوں سے چڑچڑاہٹ ہوتی ہے۔ اکیلا پن اچھا لگتا ہے۔ اعتراضات بہت کرتی ہوں، خاص کر چھوٹی نند کی ہر بات پر۔ اپنی بات سے اگر دوسروں کی بات کو یا خیال کو کچھ نہ سمجھنا، چاہے وہ ٹھیک بھی ہو۔ فارغ رہنا اچھا لگتا ہے۔ اونچا بولتی ہوں، چیختی رہتی ہوں۔ شوہر سے گلے کرتی ہوں۔ گھر کے کام بوجھ سمجھ کر مجبوراً کرتی ہوں۔ کام پہلے کرنا اور نماز بعد میں پڑھنا۔ undisciplined routine۔ فارغ رہنا اچھا لگتا ہے۔ احساس کمتری پاتی ہوں۔ جسم میں سستی اور چڑچڑاہٹ ہے۔ ماحول و حالات کا اثر لینا اور متاثر ہونا۔ ذکر کی جگہ فضول لا یعنی باتوں کو سوچنا، video وغیرہ دیکھ لینا۔ معمولات کا وقت پر نہ کرنا، رات کو سونے سے پہلے کرتی ہوں، اس وقت بھی تھکاوٹ اور نیند کا غلبہ ہوتا ہے، کبھی پورا کر پاتی ہوں کبھی نہیں۔ یہ چیزیں میں نہ خود چاہتی ہوں نہ اپنے بچوں میں۔ یقیناً اور بھی بہت کمیاں ہیں مجھ میں۔ اللہ پاک انہیں درست کرنے کے قابل بنائے، اور ایک بات لکھنا بھول گئی ہوں کہ اپنے شیخ سے رابطہ میں انتہائی سستی کرتی ہوں۔ تین چار مہینوں میں جب حالت انتہائی خراب ہو جائے تو صرف اس غرض کے لئے رابطہ کرتی ہوں۔

جواب:

اچھا، ٹھیک ہے جی اصل بات۔ یہی اصل میں بنیادی اصلاح ہے، یعنی انسان جب کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ اپنی برائیاں بیان کرتا ہے، اپنی کمزوریاں، اپنی بیماریاں بیان کرتے ہیں، یہ نہیں کہ مطلب میں تو فلاں میں ٹھیک ہوں، فلاں بھی ٹھیک ہے، فلاں بھی ٹھیک ہے، وہ تو علاج نہیں ہے، وہ تو صرف information ہے۔ تو یہ الحمد للہ یہ ذکر اذکار کی برکات ہیں، یہ جو اتنی information اس نے دی ہے، its only because of ذکر and فکر، یہی چیز ہم چاہتے ہیں۔ تو اب الحمد للہ علاج بھی شروع ہو جائے گا اور علاج کرنے والا تو اصل اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن بہرحال انسان اپنی طرف سے شروع کرتا ہے اور اللہ پاک پھر مدد فرماتے ہیں۔ تو میں ان سے عرض کر رہا ہوں کہ فی الحال یہ چار کام کر لیں کہ شیخ سے رابطہ باقاعدہ کر لیں، یہ top priority پہ ہے، کیونکہ یہ اس کا مطلب key point ہے، دوسرا key point، شوہر سے گلے شکوے بند کریں اور جو ہوں وہ اللہ سے مانگیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دے، کیونکہ شوہر کے گلے شکووں پر حدیث شریف میں وعید آئی ہے کہ بہت ساری عورتیں دوزخ میں جائیں گی۔ تو پوچھا کہ کیوں؟ تو فرمایا کہ شوہر کی ناشکری اور دوسرا یہ کہ لعنت ملامت، یہ دو باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں۔ تو خواتین کے لئے یہ target points ہیں، اور video دیکھنا بند کر لیں کیونکہ تمام، بہت سارے امراض کی یہ مطلب وجہ ہے آج کل کے دور میں، اور نماز کا وقت جیسے داخل ہو، سب کام چھوڑ کر پہلے نماز پڑھیں۔ یہ اصل میں چار کام ہیں جو کہ ما شاء اللہ آسانی کے ساتھ کر سکتی ہیں کہ شیخ سے رابطہ باقاعدہ کر لیں، شوہر سے گلے شکوے بند کر لیں، اور video وغیرہ نہ دیکھیں، اور نماز جیسے ہی وقت داخل ہو جائے، فوراً وہ پڑھ لیں۔ ان شاء اللہ اس سے باقی بہت ساری خوبیاں نکل آئیں گی، بہت سارے امراض دب جائیں گے ان شاء اللہ، اور بہت ساری خوبیاں اس سے نکل آئیں گی، ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 08:

حضرت جی،

As this is in your information that I suffered anxiety two months before but الحمد للہ I recovered well with your prayers. But nowadays, I am suffering again حضرت جی I did ذکر: ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘ ,two hundred times۔ ’’اِلَّا اللہ‘‘ ,four hundred times۔ ’’اَللہُ اَللہ‘‘ ,four hundred times۔

And اللہ, hundred times in the last 1.5 months. حضرت جی، my family is looking for رشتہ for me but I resist going for that. Although I stopped but still I feel lack of confidence and because of my sickness maybe, it will be difficult for me۔ حضرت جی، I want to know, should I continue this ذکر with the same number or delay my marriage due to health issues?

جواب:

جہاں تک ذکر کا تعلق ہے، وہ تو آپ یہ کر لیں کہ: 200 times ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘ 400 times ’’اِلَّا اللہ‘‘ and 600 times ’’اَللہُ اَللہ‘‘ اور 100 دفعہ ’’اَللہ‘‘۔ یہ آپ شروع کر لیں ابھی نیا، اور دوسرا یہ ہے کہ اپنی شادی کو لیٹ نہ کریں، یہ سنت ہے۔ سنت کی برکت سے بہت سارے مسائل آپ کے حل ہو جائیں گے، ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 09:

السلام علیکم حضرت والا،

How should I get rid of this رذیلہ? I asked which one? تو He told me, "not having اخلاص and telling friends to not call me حضرت. And No. 2, My نفس seeking honor in the eyes of people." It seems like the root disease is حب جاہ but you are the doctor and I am patient.

جواب:

میرے خیال میں کچھ چیزیں mix ہو رہی ہیں، اس وجہ سے ذرا تھوڑا سا خیال رکھنا پڑے گا۔ بعض دفعہ انسان over conscious ہو جاتا ہے تو کچھ چیزیں وسوسہ کی صورت میں وجود میں آتی ہیں جو کہ انسان کو اصلی لگتی ہیں۔ وہ یہی بات میں نے حضرت سے عرض کی تھی تو حضرت نے فرمایا تھا کہ ریا جو ہے، یہ کوئی خود بخود انسان کو نہیں لگتی بلکہ اس کی باقاعدہ نیت کرنی پڑتی ہے، اختیاری فعل ہے، اور ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘8 تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ تو اگر آپ کی نیت ریا کی نہیں ہے تو پھر پروا نہ کریں، پھر وہ وسوسہ ہوگا۔ چونکہ اختیار میں جب تک ہے تو آپ نہ کریں، اور جب اختیار میں نہیں تو وسوسہ ہوگیا۔ two way solution, no problem۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اختیار میں ہے تو نہ کریں، اور اختیار میں نہیں ہے تو وسوسہ ہے۔ وسوسہ کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ لہٰذا میرے خیال میں اتنا زیادہ disturb نہیں ہونا چاہیے۔

The solution is very simple.

سوال نمبر 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ غصہ کی حالت پہلے سے بہتر ہے اور الحمد للہ اب دل کے اندر اتنی چڑ بھی نہیں ہوتی اور غصے کو بھی کافی حد تک کنٹرول بھی خاموشی کے ذریعہ کر لیتا ہوں۔ ایک بات جو میں نے اب محسوس کی ہے کہ میرے اندر حسد کا مادہ آ جاتا ہے اور ادارے میں کوئی ایسا کام جو میں کر سکتا ہوں، دوسرے کو دیا جائے، کوئی شخص اگر اس کو اچھے طریقہ سے کر لے تو مجھے خواہ مخواہ تکلیف ہوتی ہے۔ میں اس کو آخرت کا تصور کر کے، دنیا کی بے ثباتی کر کے، اس کے حق میں دعا کر کے دبا لیتا ہوں، مگر آپ سے گزارش ہے کہ دعا کریں کہ مجھے اس سے نجات مل جائے۔ کوشش کرتا ہوں کہ کِبر طبیعت میں نہ آئے مگر اس کے باوجود عہدہ کی وجہ سے کہیں نہ کہیں میرے دل میں اس کی موجودگی ضرور ہوگی۔ meetings میں میری رائے نہ ماننے کی صورت میں طبیعت میں الجھن ضرور پیدا ہوتی ہے، لیکن میں اس کا احساس کر کے اس کو بھی دبا لیتا ہوں، لیکن بہرحال لغزش ہو ہی جاتی ہے۔ اس بارے میں بھی اگر ہدایت مل جائے تو مہربانی ہوگی۔ پچھلے دو ڈھائی سالوں سے شہوانی خیالات کا جو زیادہ غلبہ رہا ہے اور کئی دفعہ مشکل بھی، لیکن دو تین ہفتے سے اس میں کافی واضح کمی ہوگئی ہے، لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں عارضی نہ ہو۔ اس سلسلے میں بھی آپ سے بہت دعا کی درخواست ہے۔ نمازوں کا chart اور پابندی گزشتہ دو تین سال سے ایک ہی صورت میں ہے جس میں بہتری نہیں ہو رہی، آپ سے اس بارے میں بھی ہدایت اور رہنمائی کی درخواست ہے۔ ازدواجی زندگی میں بھی گزشتہ دو تین سال سے کچھ مسائل آ رہے ہیں، اس بارے میں آپ سے رہنمائی اور ہدایت لینا چاہتا ہوں، لیکن بات تھوڑی تفصیل کی ہے، اس لئے اگر آپ وقت دیں تو میں حاضر ہو کے اس کے بارے میں discuss کر لوں گا۔

جواب:

ما شاء اللہ رو بہ ترقی ہیں حالات، الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ مزید بہتر فرما دے۔ یہ جو حسد کا مادہ ہے تو یہ انسان کو اپنے آپ کو یہ satisfy کرنا چاہیے کہ نعمتیں چونکہ اللہ تعالیٰ تقسیم فرماتے ہیں یا صلاحیتیں بھی اللہ تعالیٰ تقسیم فرماتے ہیں، اور الله جل شانهٗ چونکہ تمام چیزوں کو جانتا ہے، لہٰذا وہ بہترین تقسیم ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چیز اگر کسی کو مل جائے تو وہی اس کے لئے گلے کا پھندا بن سکتا ہے اگر وہ اس کے لئے وہ اہل نہ ہو۔ تو اس وجہ سے جو چیز نہیں دی گئی تو اس پر satisfy ہونا چاہیے کہ شکر ہے کہ میں اس کے پھندے سے بچ گیا ہوں۔ تو مطلب ظاہر ہے، کیونکہ دنیا میں کسی چیز میں کم ہونا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی آخرت کا نقصان ہو جائے تو وہ تو بہت بڑی بات ہے۔ لہٰذا ایسا اپنے آپ کو disturb نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اس طرح کر لیں کہ جو بھی کوئی اچھا کام کر لے، اس کو دل کھول کے داد دے دیا کریں۔ دل کھول کے داد دے دیا کریں، تو اس سے اس کا بھی علاج ہو جائے گا، نفس کا علاج ہو جائے گا۔ ایک بات یاد رکھیں، نفس جو ہے یہ مجاہدہ سے ٹھیک ہوتا ہے اور مجاہدہ نفس کی مخالفت کا نام ہے۔ تو نفس جو چاہتا ہے اس کے مقابلہ پہ جو چیز ہو بس وہی کر لو، تو حسد چاہتا ہے کہ اس کی برائی بیان کرو، تو آپ اس کی خوب اچھائی بیان کریں۔ اس کو دل کھول کے داد دے دیا کریں، تو یہ کیا ہوتا ہے کہ جیسے نفس کے اوپر آرے چلیں گے اور اس سے اُس کی اصلاح بھی ہوگی، ان شاء اللہ۔ تو باقی یہ ہے کہ رائے کی جہاں تک بات ہے تو ہمیں تو یہ بتایا جاتا تھا کہ اگر کسی کی رائے مانی جا رہی ہو تو اس کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں میں نے غلط رائے دے کر کہیں کام خراب تو نہیں کیا، جس کی نہ مانی جائے اسے تو شکر کرنا چاہیے کہ اچھا ہوا کہ مطلب میں امتحان سے بچ گیا ہوں۔ وہ ایک بی بی تھی ناں تو مجھ سے پوچھا کہ وہ ضیاء الحق کے دور میں ذرا قانون شہادت پاس ہو رہا تھا، تو اس نے کہا کہ عورتوں کی شہادت آدھی کیوں ہے؟ میں نے کہا بی بی جن کی پوری ہے وہ شہادت دینے کے لئے تیار ہیں؟ کہ آپ کو بڑی فکر ہے کہ آپ شہادت نہیں دے رہیں۔ میں نے کہا جہاں آپ کی شہادت کی ضرورت ہے وہاں پوری ہے۔ اور جہاں آپ کی ضرورت نہیں ہے تو شکر کرو کہ تمہیں درمیان میں involve نہیں کیا جا رہا۔ اللہ پاک نے آپ کو بچایا ہے، اپنے گھر آرام سے بیٹھی رہو۔ تو اسی طریقہ سے، مطلب یہ ہے کہ جو مطلب ظاہر ہے اگر کسی کی رائے نہ مانی جائے تو well and good، ہاں بالکل، مطلب کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ فیصلہ کرنے والا دوسرا ہے، باقی یہ ہے کہ اختیاری میں سستی نہیں کریں اور غیر اختیاری کے درپے نہ ہوں، یہ بنیادی اصول ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ تو اس وجہ سے جو chart والا مسئلہ ہے، یہ اختیاری ہے، اس میں آپ کمی نہ کریں، اس کو تو آپ ready رکھیں جیسے بھی ہو، کیونکہ یہ اختیاری بات ہے، یہاں چونکہ غیر اختیاری بات کوئی نہیں ہے، لہٰذا آپ اس کو تو مکمل کر لیا کریں، باقی جو بات آپ فرما رہے ہیں، ان شاء اللہ اس پہ بھی discussion ہو جائے گی۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم حضرت جی، میں فلاں ہوں۔ اللہ آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ حضرت جی، میں نے غضِ بصر کا مجاہدہ کیا تھا، اس کے بعد خاموشی کا مجاہدہ آپ نے دیا تھا 10 منٹ کا، لیکن پانچ ماہ کیا باقاعدہ، الحمد للہ۔ آپ کو ساتھ ساتھ بتاتی بھی رہی لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی کہ ٹھیک کیا ہے، یا پھر دوسری پریشانی میں چھوٹ گیا مجھ سے۔ اکثر favorite discussion سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کون سی ہے۔ alarm لگا کر جب دل کرتا تھا، مجاہدہ کر لیتی تھی۔ کبھی فائدہ ہو جاتا اور کبھی بس ایک duty پوری کرنے والی بات ہوتی۔

جواب:

سب سے پہلے تو اس کی بات کر لوں، favorite discussion کس کو کہتے ہیں۔ favorite discussion اُس چیز میں discuss کرنے کو آپ کا جی چاہے، تو اسی وقت ہی فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی discussion ہو رہی ہے تو آپ کا جی نہیں چاہتا، تو آرام سے بیٹھ جائیں، پھر تو بڑی اچھی بات ہے، وہ تو آپ کا favorite ہے ہی نہیں۔ اور اگر آپ کا جی چاہتا ہے تو وہی آپ کا favorite ہے، تو پھر 10 منٹ کے لئے آپ خاموش رہیں۔ تو یہی مطلب جو ہے ناں وہ اس کی جو ہے ناں، وہ بات ہو جائے گی۔

اچھا، گناہوں سے بچ پاتی ہوں اکثر، لیکن فضول بولنے پر سمجھ نہیں آتی قابو پانے کی۔ تو خاموشی کا مجاہدہ میں نے کیوں دیا تھا؟ خاموشی کا مجاہدہ اسی لئے تھا ناں کہ مطلب یہ ہے کہ فضول بات، اب ظاہر ہے، مطلب یہ ہے کہ جب آپ کا بات کرنے کو جی چاہتا ہے تو دیکھو کہ یہ بات مجھے کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے۔ تو جو خاموشی کا مجاہدہ آپ نے کیا، تو اتنی دیر خاموش رہ کر آپ سوچیں کہ مجھے یہ بات کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔ تو اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ کرنا چاہیے تو پھر کر لو، اور اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ نہیں کرنا چاہیے تو رک جاؤ، اس میں کون سا مشکل کام ہے۔

اچھا، ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ کبھی کسی کو بغیر مانگے مشورہ نہ دیا کریں۔ میرے خیال میں آپ کی بہت ساری چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے یہ قانون ہمیں بتایا ہے کہ بغیر مانگے کسی کو مشورہ نہیں نہ دیا کریں۔ مشورہ کوئی اتنا سستا ہے کہ لوگ مفت میں دے دیا کریں؟ لوگ تو اس کے بڑے پیسے لیتے ہیں۔ تو آپ مفت میں اپنے مشورے ٹھونک دیا کرتے ہیں، تو یہ تو غلط بات ہے، تو آپ اطمینان سے بیٹھیں، اگر کوئی آپ سے مشورہ مانگے تو پھر تسلی کے ساتھ اس کو مشورہ دیں، وہ خدمت ہوگی، پھر وہ غلط نہیں ہوگا۔ اور اگر نہ مانگے تو بس آپ بری الذمہ ہیں، پھر کوئی بات نہیں۔ تو اس طریقے سے ان شاء اللہ آپ کا معاملہ آسان ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم حضرت جی۔ ذکر آخری دفعہ اگست کے شروع میں لیا تھا، اس کے بعد بلا ناغہ 30 دن مکمل نہیں کر سکا۔ کئی دفعہ ارادہ کیا کہ اب ناغہ نہیں ہوگا لیکن غفلت کا شکار ہوتا رہا۔ کچھ دفعہ تو بیس دن سے زیادہ بلا ناغہ ذکر ہوا لیکن پھر کئی دفعہ ناغہ ہوگیا۔ ڈاکٹر کی دی ہوئی medicines لے رہا ہوں، اور اب روز مرہ کی routine میں کچھ بہتری محسوس ہوتی ہے اور پہلے کی طرح کئی کئی دن زندگی سے کٹ جانے کی علت میں افاقہ ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق علاج slowly ہوگا۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو آج سوموار کے دن سے توبہ کر کے دوبارہ سے ذکر و نماز کی پابندی کروں؟ اصلاح کے عمل میں اپنی غفلت سے جو نقصان ہو چکا ہے، اس پر افسوس ہے اور آپ سے مکمل commitment کا ارادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ استقامت دے، دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

نیکی اور پوچھ پوچھ۔ اب آپ توبہ کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو روکوں گا؟ آپ فوراً توبہ کر لیں اور بس کام شروع کر لیں۔

سوال نمبر 13:

ایک صاحب نے مجھے ایک جو ہے ناں مطلب سوال بھیجا کہ جو ’’ھُو‘‘ ہے، یہ کیا ہے؟ یہ اللہ کا نام ہے؟ تو میں نے اسے بتایا کہ نہیں، یہ اسم ضمیر ہے، اللہ کا نام نہیں، اسم ضمیر ہے جس میں اللہ کی طرف اشارہ ہے۔ تو اس نے کہا کہ اللہ کے 99 نام میں تو یہ نہیں ہے۔ میں نے کہا، یہ نام ہے ہی نہیں، اسم ضمیر ہے۔ میں نے کہا کہ بھئی یہ کیا وجہ ہے؟ آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ کسی نے ذہن میں زہر بھرا ہے کہ یعنی آپ اس پہ اعتراض کر رہے ہیں؟ میں نے کہا قرآن پاک میں آتا ہے ﴿ھُوَ اللہُ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ﴾9 اس میں آخری ’’ھُوْ‘‘ کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ زہر، کسی بڑے عالم کا نام بتا دیا، اس نے بھرا ہے۔ مطلب کوئی انہوں نے تحقیق پیش کی ہوگی۔ تو میں نے کہا، مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ان سے بڑے عالم تھے، تو وہ یہ ذکر کراتے تھے، قادری سلسلہ کا ذکر ہے ’’ھُوْ‘‘ کا۔ تو اس وجہ سے احساس کمتری میں آپ کیوں مبتلا ہیں؟ اگر ایک طرف ایک عالم کہہ رہا ہے، دوسری طرف دوسرا عالم دوسری بات کر رہا ہے ناں، تو آپ کیوں پریشان ہیں؟ پھر میں نے قرآن سے دلیل دی ہے۔ باقی مسئلہ تصوف کا ہے جس میں کیفیات پر بحث ہوتی ہے، یعنی کسی لفظ سے قاری کیا مطلب لیتا ہے، اس کے اوپر زور ہوتا ہے، یہ نہیں کہ وہ لفظ کیا لیتا ہے عام زبان سے۔ بلکہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی concept کیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کی کیفیت کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ سوال کرنا اور کسی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ احساس کمتری ہے؟ میں نے کہا جی، بعض سوال احساسِ کمتری کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔ مجھ سے اگر کوئی ایسا کہیں تو میں تو بالکل اس کا اثر نہ لوں، کیونکہ الحمد للہ مجھے احساس کمتری نہیں ہے۔ تو انہوں نے کہا، شیعہ، بریلوی اور اہل حدیث بھی ایسے ہی باتیں کرتے ہیں، آپ point سے ہٹ رہے ہیں، بات کو گول مول کر رہے ہیں۔ میں نے کہا، مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی، جو کہنا تھا کہہ دیا، نہیں ماننا تو نہ مانیں۔ آپ کو پتہ ہے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا، اپنے شیخ سے پوچھ لیں۔ تو کہتے ہیں کہ یہ دلیل نہیں ہے، یہاں sentence میں ’’ھُوْ‘‘ آیا ہے اور ہم لوگ اس کو علیحدہ سے ’’ھُوْ ھُوْ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ تو فلاں عالم نے اس کی تردید کی ہے۔ میں نے کہا، یہ بات شیخ سے پوچھ لیں۔ تو کہتے ہیں، شیخ نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا، جب خانقاہ آئیں گے تو پھر بات ہوگی۔ اس وقت تو میں مصروف ہوں، کیونکہ میں بیان کے لئے گیا تھا ناں، تو بیان کا وقت تھا، پھر میں نے اسی پر ہی بیان کیا تو میں نے پھر وہ send کردیا، تو اس کے بعد پھر میں نے کہا کہ یہ میں بھیج رہا ہوں، اس کو سن لیں، ان شاء اللہ سمجھ آجائے گا، باقی اپنے شیخ کے ساتھ اور اپنے سلسلے کے ساتھ تعلق خراب نہ کریں، یہ تعلقات بہت مشکل سے بنتے ہیں اور شیطان اس کے پیچھے پڑا ہوتا ہے۔ تو کہتے ہیں جی، میں تعلق سب کے ساتھ رکھتا ہوں، لیکن جہاں کمی نظر آئی تو سوال کرتا ہوں، سمجھنے اور سمجھانے کی نیت سے۔ اگر میں غلط سمجھتا ہوں تو اپنی رائے تبدیل کرتا ہوں، اور اگر مناسب جواب نہ ملے تو کسی اور عالم کی یا صوفی سے پوچھتا ہوں، اس طریقہ سے بہت ساری باتیں clear ہو جاتی ہیں۔ آپ کا بیان میں ان شاء اللہ سونے سے پہلے سن لوں گا۔

پھر ایک اور عالم کی انہوں نے ما شاء اللہ مجھے cutting بھیجی، تو اس cutting میں، اس میں ماشاء اللہ اس نے کہا ہے کہ یہ جو ذکر لوگ کرتے ہیں مسجدوں میں زور زور سے کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں اور گا گا کے درود و سلام پڑھتے ہیں، تو یہ بدعت ہے اور اس سے مساجد کو پاک کرنا لازم ہے۔ یا مثلاً، شریعت نے نماز جنازہ کا ایک خاص طریقہ تجویز فرمایا، اگر نماز جنازہ کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرنے کی تعلیم نہیں دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اس موقع پر مجموعی اجتماعی دعا کیا کرتے، اس لئے جنازہ کے بعد اجتماعی کرنا، اس کو ایک سنت سمجھنا بدعت ہوگا۔ جنازہ کے بعد دعا کرنی ہے تو نماز جنازہ کے بعد فوراً کسی تاخیر کے بغیر جنازہ اٹھا لیں اور لے جاتے ہوئے ہر شخص اپنے طور پر دعا کرے۔ دعا مانگنا ہو تو قبر پر خوب مانگی جائے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازہ کی جو کیفیت منقول ہے، اس میں رد و بدل کی اجازت نہیں ہے۔ مجھے توقع ہے کہ موٹی موٹی بدعات انہی اصول کے ذیل میں آ جاتی ہیں اور ان سب کا اصل اصول وہی ہے جو پہلے عرض کر چکا ہوں، یعنی جو فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے منقول نہ ہو، دین کی حیثیت سے کرنا بدعت ہے۔ اس لئے اس پر اکتفا کرتے ہوئے یہاں چند ضروری فوائد لکھتا ہوں۔ یہ مجھے بھیجی، اس کے بعد پھر میں نے ان سے کہا کہ:

جواب:

حضرت، انہوں نے تو ظاہر ہے بات صحیح کی ہے۔ حضرت نے جو فرمایا، دین کی حیثیت سے کوئی نئی بات ہو۔ تو یہاں جو ہم ’’ھُوْ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، وہ دین کی حیثیت سے نہیں، بلکہ دین پر آنے کی حیثیت کے لئے کر رہے ہیں، یہ بطورِ ذریعہ ہے، بطورِ مقصد نہیں ہے۔ تو یہ دین نہیں ہے، دین پر آنے کا ذریعہ ہے، اور اس کا باقاعدہ علماء نے ما شاء اللہ اس کو نام دیا ہے، وہ کہتے ہیں: اِحداث لِلدین اور اِحداث فی الدین۔ اِحداث کہتے ہیں نئی چیز کو۔ تو اِحداث فی الدین منع ہے، یعنی دین کے اندر کوئی نئی بات آپ نہیں لا سکتے۔ لیکن اِحداث للدین، یہ ما شاء اللہ مفید ہے۔ کیونکہ آپ دین کے لئے ایک نیا وسیلہ پیدا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ تو اب علم حاصل مختلف طریقوں سے کیا جاسکتا ہے، پہلے صرف کتاب سے لوگ پڑھتے تھے یا کسی براہِ راست یعنی استاذ سے پڑھتے تھے، اب CDs سے بھی سیکھ لیتے ہیں، اب جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ وہ ریڈیو سے بھی سیکھ لیتے ہیں، اب پتہ نہیں کن کن ذرائع سے سیکھ لیتے ہیں۔ جیسے اب ہم مطلب کر رہے ہیں بات، تو یہ کہاں کہاں جا رہی ہے۔ اب یہ سب sources ہیں علم سیکھنے کے۔ تو کیا میں اس کو بدعت کہوں؟ اس کو بدعت کہنے کی اجازت ہے؟ وہ تو اصل میں دین نہیں ہے، دین کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر تو سبحان اللہ جہاد جو ہے ناں، وہ اس دور میں تلوار کے ذریعہ سے ہوتا تھا، اس تیر کے ذریعہ سے ہوتا تھا، اور مطلب جو ہے ناں، وہ نیزہ کے ذریعہ سے ہوتا تھا، آج کوئی کر کے دکھائے ناں، آج کوئی کرے گا تو امیر ہی ان کو سب سے پہلے منع کرے گا کہ آپ جائیں واپس، آپ ہمیں بھی خراب کرنا چاہتے ہیں۔ تو جس طریقہ سے مطلب جہاد فرض ہے، لیکن اس کے ذرائع۔۔۔۔ جمود فرض نہیں ہے، ان کے ذرائع پر جمود فرض نہیں ہے، بلکہ وہ تبدیل ہوتے رہیں گے اور یہ تبدیلی مستحسن ہے، تو اسی طریقہ سے تصوف کے جو طریقے ہیں، تصوف اصل میں بذات خود ذریعہ ہے دین پر آنے کا، اور یہ سارے ذریعہ ہیں۔ تو اگر مطلب یہ ہے کہ کوئی نیا طریقہ آتا ہے جس سے آسانی کے ساتھ انسان دین پر آ سکتا ہے، تو وہ مستحسن ہے۔ تو باقی ’’ھُوْ ھُوْ‘‘ کا ذکر جو ہے، اگر آپ اس کو ثواب سمجھ کر کریں گے تو میں منع کروں گا کیونکہ ’’ھُوْ‘‘ جو ہے ناں، اسم ضمیر ہے، آپ اَللہ اَللہ کریں، وہ منع نہیں کروں گا، آپ رَحِیْم رَحِیْم کریں تو میں منع نہیں کروں گا، لیکن ’’ھُوْ ھُوْ‘‘ کریں گے تو میں آپ کو منع کردوں گا، کیونکہ اگر آپ ثواب کی نیت سے کریں گے، کیونکہ وہ جو ہے ناں، وہ نام نہیں ہے۔ ہاں، لیکن اگر آپ ’’ھُوْ‘‘ سے تصور میں لاتے ہیں اس کی طرف، تو یہ براہ راست سبحان اللہ بات اللہ پہ جاتی ہے۔ اَللہ اَللہ کرتے ہیں تو براہ راست نہیں جاتی، پہلے نام پہ جاتی ہے، پھر اس کے بعد ذات پہ جائے گی۔ یہ twist وہ ہے theory ہے، جب کہ یہاں single step theory ہے۔ کیونکہ اسم ضمیر کوئی۔۔۔۔ اسم ضمیر کی مثال ایسی ہے جیسے عینک، اسم ضمیر کی مثال ایسی ہے جیسے عینک، اب عینک سے میں دیکھ رہا ہوں تو کبھی عینک مجھے محسوس ہوتی ہے ویسے؟ مجھے وہ چیز نظر آتی ہے جو عینک سے میں دیکھ رہا ہوں، عینک تو درمیان میں ختم ہو جاتی ہے، تو اسم ضمیر جو ہے ناں، بذات خود اس کا کوئی وہ نہیں ہوتا role نہیں ہوتا، وہ صرف اس ذات کی طرف اشارہ ہوتا ہے، تو اس وجہ سے direct ذکر ہے یہ، اور اس وجہ سے قادری سلسلہ کے ما شاء اللہ، یعنی جس کو کہتے ہیں ناں، سب سے اہم ذکر یہی ہے، ھُوْ پاس انفاس کے ساتھ کرنا قادری سلسلہ میں۔ تو ما شاء اللہ ہم تو مانتے ہیں، اگرچہ میں خود نہیں کرتا کیونکہ میں جو ہے ناں، دوسرے طریقے استعمال کرتا ہوں، لیکن اگر کسی کو دینے کی ضرورت پڑ گئی تو دوں گا، کیونکہ منع تو نہیں ہے اور اچھا ہے، مستحسن ہے، بعض لوگوں کے لئے بہت مفید ہے۔ تو اس وجہ سے یہ والی جو بات ہے، ہاں البتہ ہمارے ذکر میں جو ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ‘‘ ہے، وہ پورے کا پورا قرآن میں ہے، لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ‘‘ جو ہے، یہ تو ﴿اَللہُ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ﴾10 یہ تو باقاعدہ قرآن میں ہے، اور کئی جگہ پر ہے، تو لہٰذا جو ہمارا ذکر ہے، یہ تو ہے ہی قرآنی ذکر، لہٰذا اس کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن بہرحال اگر مجھے ’’ھُوْ ھُوْ‘‘ کا ذکر بھی کرنا پڑا تو مجھے کوئی اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے زیادہ نہیں جانتا اور میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے بھی زیادہ نہیں جانتا، ان حضرات کے experience، ان کو میں salute کرتا ہوں، الله جل شانهٗ ان کے فیوض و برکات مجھے نصیب فرما دے۔ اور جو لوگ کسی کی بات نہ سمجھتے ہوئے، کیونکہ علماء کی جو بات ہے وہ بعض دفعہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں، جیسے میں نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب کی بات تو نہیں سمجھی ناں اس نے، حضرت نے تو یہ نہیں فرمایا، حضرت نے تو فرمایا جو ذکر ہے ذکر، جس کو مطلب ثواب کی نیت سے کیا جائے، اس کے بارے میں فرما رہے ہیں۔ باقی جو لوگ مسجدوں میں زور زور سے ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں یا درود پاک پڑھتے ہیں، تو وہ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اصلاح کی نیت سے کرتے ہیں؟ ذرا ان سے پوچھو تو سہی کہ آپ اس کو اصلاح کی نیت سے کرتے ہیں یا ثواب کی نیت سے کرتے ہیں؟ سب کہیں گے ثواب کی نیت سے کرتے ہیں۔ تو جو ثواب کی نیت سے کرتے ہیں، اس کے لئے منصوص ہونا ضروری ہے، اس کے لئے مطلب جو ہے ناں، آپ یہ بات نہیں کر سکتے کہ نئی بات آپ نکالیں گے، کیونکہ دین میں کوئی نئی بات نہیں آ سکتی: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾11 اس نے بات ختم کردی ہے، لہٰذا بدعت نام کی کوئی گنجائش نہیں ہے اسلام میں۔ لیکن یہ بدعت ہے ہی نہیں، یہ اِحداث للدین ہے، اِحداث فی الدین نہیں ہے۔ تو بہرحال میں تو یہی مطلب سمجھتا ہوں، باقی اللہ پاک نہ کرے کہ کسی کو اپنے سلسلے سے کدورت ہو جائے، اپنے مشائخ سے کدورت ہو جائے، اور بیڑا غرق ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ بچائے ہر ایک کو، یہ تو بہت ہی خطرناک بات ہے، کسی کی باتوں میں مطلب نہیں آنا چاہیے، بہت سارے لوگ ہیں ہمارے تصوف کے خلاف ہیں تو کیا ہم ان کی وجہ سے اپنے آپ کو خراب کریں گے؟ پھر میں تو یہاں تک کہتا ہوں، یہاں تک کہتا ہوں ما شاء اللہ کہ مجھے پتہ ہے فاتحہ خلف الامام، اس کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرض کہتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حرام ہے۔ تو مجھے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولایت میں کوئی شک نہیں ہے، میں ان کو ایسے ہی ولی اللہ سمجھتا ہوں جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو سمجھتا ہوں، لیکن بات میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مانوں گا، کیونکہ اجتہادی بات ہے اور اجتہادی باتوں میں اگر دو مختلف باتیں ہوں تو کوئی ایک ہی مانی جاسکتی ہے، تو جب ایک مانی جاسکتی ہے تو پھر اپنے امام کی مانو۔ تو دوسرے امام کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کرو، ہمارے لئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اتنے ہی بڑے امام ہیں جتنے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اور الحمد للہ ایک فلسطینی کو میں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ آپ شافعی مسلک اختیار کر لیں، اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کون سا مسلک اختیار کر لوں، میں ابھی تک کسی امام کے پیچھے نہیں ہوں، لیکن آپ کی تقریر سے متاثر ہوا ہوں تو آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کونسے امام۔۔۔۔ تو میں نے کہا آپ کے لئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک زیادہ بہتر ہے کیونکہ آپ کے ہاں شوافع علماء بھی ہیں اور شوافع کی کتابیں بھی ہیں، لہٰذا آپ کو سہولت ملے گی۔ تو اس سے پتہ چلا کہ میں متعصب نہیں ہوں، مطلب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو اتنا ہی بڑا امام سمجھتا ہوں جیسے امام۔۔۔۔ لیکن جب اختلاف ہوگا میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مانوں گا، یہی ہے تقلید۔ اسی کو تقلید کہتے ہیں، اور عوام کے اوپر تقلید واجب ہے۔

واٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

سوال نمبر 14:

السلام علیکم، میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ کافی سوالات ذہن میں آتے رہتے ہیں، میں لکھ لیتا ہوں، جب کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں تو آپ کو بھیج دیتا ہوں۔ کچھ سوالات جمع ہوگئے تھے، سوچا بھیج دوں۔ ہو سکتا ہے میری کم علمی کی وجہ سے آپ کو سوالات کچھ بے تکے سے لگیں۔ براہ کرم درگزر فرما دیں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے مثنوی مبارک میں آپ کا بیان سنا جس میں نفس اور روح کے بارے میں آپ نے کچھ ارشاد فرمایا تھا، کچھ سوال ذہن میں آئے۔ 1۔ جب روح پیدا کی گئی تو کیا نفس بھی ساتھ پیدا ہوا تھا؟

جواب:

نہیں، اس وقت روح ہی تھی۔ عالم ارواح، عالم ارواح، یہ عالم ارواح کی بات تھی: ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾12 وہ جو اس وقت ہوا تھا، تو عالم ارواح سے یہ سوال ہوا تھا۔

2۔ تو کیا نفی یا پھر نفس کو اس وقت روح میں شامل کیا گیا۔ جواب:

نہیں، یہ اصل میں جو ہے ناں، وہ بعد میں جس وقت انسان آتا ہے تو یہاں نفس کے ذریعہ سے چلتا ہے سسٹم، جیسے آنکھیں ہیں، کان ہیں، سارے نفس کے ذریعہ سے ہی چلتے ہیں، لہٰذا نفس میں یہاں پر روح آگئی، شامل ہوگئی، ان کی combination سے ما شاء اللہ یہ انسان بن گیا، تو اب یہ جو نفس کے جو desires ہیں، ان کی وجہ سے روح غلام بن گئی، کیونکہ چلانا تو روح نے ہے ناں، چلانا تو روح نے ہے، تو اس وجہ سے مطلب یہ ہے کہ وہ ان کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ تو ایسی صورت میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ عاشق تھی لیکن یہاں نفس کے اندر trap ہوکر بھول گئی اپنے عشق کو، تو اس کو دوبارہ یاد دلانا ہے۔ تو دوبارہ یاد دلانے کے لئے جو ذکر اللہ کرتے ہیں، مراقبہ کرتے ہیں، شغل کرتے ہیں، اس سے دوبارہ اللہ اس کو یاد آ جاتا ہے اور یہ اللہ کا عاشق بن جاتی ہے۔ اس وجہ سے پھر نفس سے اپنا چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن نفس کے پنجے بڑے گڑے ہوتے ہیں، وہ اس طرح آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ تو اس کے لئے پھر آپ کو فرماتے ہیں، مقامِ قلب میں یہ دونوں جڑے ہوئے ہیں، نفس اور روح، تو اس وجہ سے پھر یہ ہے کہ آپ کو جو مقام قلب میں آجائیں، یعنی جذبِ کسبی جو حاصل کر لیں، تو اس کے بعد پھر اس کو یعنی محنت کرنی پڑے گی نفس کے اوپر مجاہدہ کے ذریعہ سے، جیسے ہاتھ پیر باندھنا، تو مطلب یہ ہے کہ جیسے آنکھیں انسان مطلب جو ہے ناں، وہ غض بصر کر لے، کان پر کنٹرول کر لے، غلط باتیں نہ سنے، زبان سے غلط باتیں نہیں۔ یہ سب مجاہدات ہیں اس کے، ان مجاہدات کے ذریعہ سے اس کے ہاتھ پیر باندھ لو، تو جب اس کے ہاتھ پیر باندھ لیں گے تو بہت آسانی کے ساتھ روح کو اپنا راستہ مل جائے گا۔ تو یہی اب بنیادی مسئلہ ہے۔ روح کا پھر ملاء اعلی کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے اور چونکہ دل کا روح کے ساتھ رابطہ ہے اور روح کا ملاء اعلی کے ساتھ رابطہ ہے، لہٰذا دل کا ملاء اعلیٰ کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے، اور پھر کہتے ہیں کہ یہ لطیفۂ روح بیدار ہوگیا، یعنی اس سے بیدار ہوگیا، اس کی وجہ سے عقل جو ہے وہ بھی ان الہامات سے متاثر ہو جاتی ہے، تو عقل کی promotion ہو جاتی ہے، وہ سر بن جاتا ہے۔ تو گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ مطلب جو ہے ناں، procedure یہی ہے کہ یہاں پر اس کی جو ہے ناں، اس کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔

نفس کے مختلف اقسام ہیں، جیسے کہ نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس ملہمہ، نفس مطمئنہ، نفس راضیہ، نفس مرضیہ وغیرہ۔ سالک کو کیسے پتہ چلے کہ اس کا نفس کس قسم کا ہے یا صرف اللہ ہی کو معلوم ہے؟

جواب:

بھئی بات ذرا آسان بات ہے کہ جو mechanic ہوتا ہے، وہ تو گاڑی کی آواز سے سمجھ لیتا ہے کہاں پر problem ہے، ہوتا ہے ناں، مطلب کردیتے ہیں ناں۔ تو یہ جو اب ڈاکٹر لوگ stethoscope رکھتے ہیں تو یہ کیا کرتے ہیں؟ کیا دل کو چیر کر دیکھتے ہیں؟ تو ان کو sound سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کہاں پر مسئلہ ہے۔ یہی ہے ناں، echo کیا چیز ہے، ECG کیا چیز ہے، یہ ساری مطلب sensings ہیں، sensors کے ذریعے سے آپ وہی چیزیں دیکھ لیتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طریقہ سے آپ output سے معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ کا نفس نفس امارہ ہے یا نفس مطمئنہ ہے۔ اگر وہ نفس آپ کا، نفس شریعت پہ چل رہا ہے آرام کے ساتھ، کوئی resist نہیں کرتا، تو یہ نفس مطمئنہ ہے۔ اور اگر اڑی کر رہا ہے کہیں پر بھی، تو یہ نفس امارہ ہے۔ اگر اپنی اَڑی پر پشیمان ہے تو یہ نفس لوامہ ہے۔ سمجھ میں آگئی ناں بات؟ تو ان تینوں کا ذکر ہے ناں قرآن میں، تو نفس مطمئنہ اس حالت میں ہوتا ہے جب نفس راضی ہوتا ہے ناں، تو یہ نفس راضیہ بن جائے گا، وہ جو ہے ناں: ﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُۗۖ ۝ ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ ۝ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ ۝ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾13 تو اب یہ جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ میرے خیال میں بلا وجہ مزید اپنے آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔

4۔ غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے نفس کے تزکیہ کے دو طریقے ہیں۔ ایک خواہشات کو کنٹرول کرنا، جو کہ سمجھ میں آتا ہے، لیکن دوسرے طریق میں جسم کو تکلیف دی جاتی ہے، جیسے کہ کم سونا، کم کھانا وغیرہ۔

جواب:

ایک ڈاکٹر بن کر یہ سوال کرنا مجھے سمجھ نہیں آتا۔ آپ مطلب جو sugar کو کنٹرول کرتے ہیں اور blood pressure کو کنٹرول کرنے کے لئے آپ جو dieting کرواتے ہیں، تو جسم کو کیوں تکلیف دیتے ہو؟ ہم ہر ڈاکٹر کا ویسے علاج کرو جس سے اس کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اگر آپ کے لئے اجازت ہے تو مشائخ کے لئے کیوں اجازت نہیں ہے؟ تھوڑا سا سمجھنے کی کوشش بھی کر لیا کریں، یہ تکلیف دینا نہیں ہے، اس کو مجاہدہ کہتے ہیں، اور مجاہدہ کیا چیز ہوتی ہے؟ وہ نفس کو اپنے مطلوبہ مقام پہ لانے کے لئے ہوتی ہے، مطلوبہ مقام پہ لانے کے لئے ہوتی ہے، کہ مثال کے طور پر، کوئی جانور اڑی کرتا ہے تو اس کو مطلوبہ مقام پر اس کو لانے کے لئے سدھاتے ہیں یا نہیں سدھاتے؟ کبھی مارتے ہیں، کبھی بھوکا رکھتے ہیں، کبھی باندھتے ہیں۔ تو یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ تو یہ اس کو ٹھیک کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اور اگر آپ کے پاس کوئی ایسا طریقہ ہے کہ بغیر ان چیزوں کے آپ کر سکیں تو میرے خیال میں میں آپ کے ہاتھ پہ بیعت کر لوں گا، کیونکہ ظاہر ہے، مطلب ہے کہ مقصد تو ہمیں آپ سے سیکھنا ہے پھر، اگر آپ اس کے بغیر کر سکتے ہو تو کر کے دکھاؤ۔

5۔ میرا دوسرا سوال یقین اور وسوسہ کے بارے میں ہے۔ آپ نے درس مثنوی میں فرمایا تھا کہ زندگی خواب کی طرح ہے، جب ہم اس سے بیدار ہوں گے تو ہمیں حقیقت کی دنیا کا پتہ چلے گا۔ میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا جس میں ایک نبی نے اللہ تعالیٰ سے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن مردوں کو کیسے زندہ کریں گے؟ جب اللہ تعالیٰ نے ایک پرندہ ذبح کرنے کا بولا اور پھر اسے دوبارہ زندہ فرمایا۔

جواب:

میرے خیال میں آپ فضولیات میں پڑ گئے ہیں۔ یہ تو اس کے لئے قرآن پاک ہی میں موجود ہے: ﴿لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ﴾14 تاکہ میرے دل کو اطمینان ہو جائے۔ اطمینان اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے۔ مثلاً میں ایک چیز مانتا ہوں لیکن مجھے اس process کا پتہ نہیں ہے، تو میں تقلیدی ایمان رکھتا ہوں، لیکن جس وقت مجھے پتہ چل جائے تو میں تحقیقی ایمان رکھوں گا۔ تو انہوں نے تحقیقی ایمان کے بارے میں بتایا تھا۔ تو مطلب جو ہے ناں، کیونکہ نبی کا کام دوسروں کو سمجھانا ہوتا ہے، تو یہ ایک superlative degree ہوتی ہے، تو اس تک پہنچنے کے لئے اس کو کچھ کرنا پڑتا ہے اور اللہ پاک نے تبھی تو اس کو بتایا، تو اگر اللہ پاک نے اس پر ان سے کچھ باز پرس نہیں فرمائی ہے تو میرے خیال میں ہمیں بھی نہیں کرنا چاہیے۔

6۔ کہا جاتا ہے کہ جو اللہ کو تلاش کرتا ہے، اللہ اس کو راستہ دکھاتا ہے، ایسے ہی تو ملحد جو کہ اللہ کی ذات میں، خدا کی تلاش میں بہت غور و فکر، تو وہ بھٹک کیوں جاتا ہے؟

جواب:

ملحد بھی اگر اللہ کو واقعی تلاش کرے، اس کو بھی ہدایت مل جائے گی۔ زیغ نہ ہو، رب جہاں قرآن پاک میں باقاعدہ اس سے پناہ مانگی گئی: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾15 زیغ سے انسان خراب ہوتا ہے، ٹیڑھا پن، جس میں ہر چیز کو وہ ٹیڑھی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے اندر وہ جو ہے ناں وہ نکالتا ہے، جیسے شیطان نے کیا تھا، شیطان نے کیا کہا تھا: ﴿خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ﴾16 یہ کیا چیز ہے؟ اس کو ایسے شخص کو ہدایت نہیں دی ملتی، ایسے شخص کو ہدایت نہیں ملتی، اس نے ٹیڑھا پن کا وہ کیا تھا اسی کا جو ہے ناں اس کو نقصان ہوا۔ باقی: ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا﴾17 وہ معاملہ تو بہت آسان ہے اس سے تو ہدایت ملا کرتی ہے۔

7۔ ایسے خیال کا آنا کہ ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے، تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟

جواب:

اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی یہ سوال آجائے تو پھر تم کہو کہ جو مجھے بتایا گیا میں اس پر ایمان رکھتا ہوں، ایمان بالغیب ہے ناں، ایمان بالمشاہدہ تو نہیں ہے، ایمان بالغیب ہے۔

8۔ فطرتاً انسان یہ سوچتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا اور خاص طور پر مسلمانوں کو تو فکر لگی رہتی ہے کہ مرنے کے بعد میری روح و جسم کے ساتھ کیا ہوگا؟ لیکن اسلام اس کے بارے میں کوئی خاص رہنمائی نہیں کرتا، یہ subject بہت مبہم رکھا گیا ہے، کچھ لوگ خواب میں ثواب اور عذاب۔۔۔۔

جواب:

8۔ نہیں، مبہم رکھا گیا۔ تمام چیزیں بتائی گئی ہیں، details کے ساتھ بتائی گئی ہیں۔ آپ نے پڑھی نہیں ہیں، details کے ساتھ بتائی گئی ہیں کہ مطلب جو ہے ناں، وہ مرنے کے بعد قبر کی زندگی ہے، قبر کے بارے میں کہا، حدیث شریف میں بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد اٹھنے کے بارے میں، کیا یہ ساری احادیث شریف میں نہیں ہے کہ سارے کھڑے اکٹھے ہوں گے اور اس طریقے سے مطلب جو ہے ناں، پریشان ہوں گے اور اس کی پھر پہلی شفاعت یہی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ یہ ساری باتیں نہیں ہیں؟ آپ ذرا تھوڑا سا مشکوۃ شریف پڑھ لیں تو بہت ساری باتیں آپ کو مل جائیں گی، ان شاء اللہ۔

9۔ کشفِ قبور کیسے کرتے ہیں۔

جواب:

مجھے خود کشف قبور نہیں ہوتا تو میں آپ کو کیسے بتاؤں۔ اور نہ اس کی ضرورت ہے، مجھے حدیث شریف پر اطمینان ہے، الحمد للہ، جو حدیث شریف میں بتایا گیا ہے قبروں کے بارے میں، بس میرے لئے وہ کافی ہے، میں اس کے اندر جھانکنا نہیں چاہتا، ہاں! اگر اللہ پاک خود ہی دکھا دے، پھر اس کا کام ہے، پھر میرا کام نہیں ہے۔ لیکن اگر مجھے نہ دکھانا چاہے تو میں اس کے لئے کہوں گا بھی نہیں، میرے لئے یہ بات کافی ہے۔ کہ آپ ﷺ نے جو اس کے بارے میں فرمایا ہے۔ آپ کو پتہ ہے؟ جانوروں کو بھی کشف قبور ہوتا ہے، تو کیا جانور بننا چاہیے؟ مطلب یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی، کشف قبور کی طرف نہ کرو، کشف حقائق کی طرف چلے جاؤ، یہ اچھی بات ہے۔ آپ کو حقائق کا پتہ چل جائے، اس کے لئے اللہ پاک سے مانگو: ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ ۝ وَیَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ ۝ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ ۝ یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ﴾18 یہ اللہ پاک سے مانگا کرو، کشف قبور کبھی نہیں مانگا کرو۔

10۔ پل صراط کے بارے میں ہمارا ایمان کیا ہونا چاہیے؟

جواب:

10۔ جیسے بتایا گیا ہے، وہی ایمان ہونا چاہیے۔

11۔ جزا اور سزا کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہو تو پھر پل صراط سے گزارنے کا کیا مقصد ہے؟

جواب:

جس نے کہا ہے، وہی اس کا مقصد جانتا ہے، ایسا ہوگا جیسا بتایا گیا ہے۔ یہ آپ کے لئے جواب ہے، ورنہ تحقیقی جواب بھی ہے، لیکن آپ کے لئے اتنا کافی ہے۔ جیسا بتایا گیا ہے، وہی اس کا مقصد جانتا ہے، اور چونکہ بتایا گیا ہے، ہمیں ماننا ہے، لہٰذا ایسا ہوگا۔ باقی ساری باتیں، حساب کتاب کئی طریقوں سے ہوگا، کیوں؟ آپ کی چیزیں مختلف طریقوں سے ریکارڈنگ نہیں ہو رہیں؟ ہم یہاں بیٹھ کر تین تین recorders استعمال کرتے ہیں، اُدھر بھی ریکارڈنگ اور اِدھر بھی ریکارڈنگ، ایک کیوں نہیں کرتے؟ اس میں کچھ حکمتیں ہیں ناں، تو یہاں پر یہ حکمت ہے کہ کوئی ایک اگر کام نہ کرے تو دوسرا موجود ہوگا۔ یہاں تو یہ حکمت ہے، وہاں یہ بات ہے کہ ہر ایک پر حجت تمام کی جائے گی، حجت تمام کی جائے گی، یعنی مطلب فرشتے بھی نوٹ کر رہے ہیں، اللہ پاک خود براہِ راست دیکھ رہے ہیں، جسم کے تمام حصے نوٹ کر رہے ہیں، اور پوری دنیا نوٹ کر رہی ہے، آسمان نوٹ کر رہا ہے، زمین نوٹ کر رہی ہے، ساری چیزیں کر رہی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی طریقے سے ریکارڈنگ ہو رہی ہے اس کی۔ تو ظاہر ہے، مطلب ہے کہ یہ اللہ پاک کا نظام ہے، اللہ پاک نے مختلف طریقوں سے۔۔۔۔ تو حساب کتاب بھی مختلف طریقوں سے لیا جائے گا۔ تو اس وجہ سے مطلب ایسی چیزوں میں بالکل نہیں پڑنا چاہیے، اصل بنیادی چیزیں جب clear ہو جائیں تو پھر اس کے بعد یہ، یہ باتیں پھر پوچھنے کی ہے ہی نہیں، صرف یہ تحقیق کر لو کہ ایسا آیا ہوا ہے یا نہیں آیا ہوا، یعنی قرآن و حدیث میں یہ بات ہے یا نہیں ہے، اگر ہے تو پھر اس کی مانیں۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ پر یقین، فرشتوں پر یقین، رسولوں پر یقین، اس کے بارے میں اگر کسی کا ایمان نہیں ہے تو اس کو غور کرنا پڑے گا، پھر اس کے بعد جب ایمان ہو جائے گا، پھر اس پہ بھی نہیں غور کرے گا۔ تو جب اللہ پہ یقین آگیا، رسول پر یقین ہے، تو رسول کا role کیا ہے؟ وہ اللہ سے لیتا ہے اور آپ کو دیتا ہے، تو جو اس نے دیا، آپ رسول کو سچا مانیں گے ناں۔ تو جب رسول کو سچا مان لیا تو جو کچھ اس نے بتایا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے ناں۔ پھر اس میں دوسری بات کدھر رہ گئی؟ وہ جیسے اس نے فرمایا، بس بالکل ٹھیک ہے، وہی بات ہے، اس میں کوئی دوسری بات ہے ہی نہیں۔ تو میرے خیال میں یہ کافی ہے، الله جل شانهٗ۔۔۔۔

12۔ کیا تہجد کے لئے سونا ضروری ہے۔

جواب:

ہاں یہ فتویٰ کی بات ہے یا جس کو کہتے ہیں یعنی فقہ کا سوال ہے، تو ٹھیک ہے، تہجد کے لئے سونا ضروری نہیں ہے۔ تہجد کے لئے سونا ضروری نہیں ہے، البتہ اس کا بہتر وقت رات کا آخری حصہ ہے۔ بہتر وقت، لیکن اگر کسی کے پاس ٹائم نہ ہو اٹھنے کا اور مسائل ہوں تو پہلے حصے میں بھی پڑھ سکتے ہیں، اگرچہ ثواب میں کچھ کمی ہو جائے گی، لیکن نہ ہونے سے پھر بھی بہتر ہوگا۔ تو اس وجہ سے جو ہے ناں، مطلب فجر سے آدھا گھنٹے پہلے اٹھ کے تہجد پڑھنا بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں، یہ رات کا آخری حصہ ہے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم۔ سوال: حضرت، ایک دوست کا میسج آیا ہے جو England میں رہتا ہے۔ آپ نے مجھے کہا کہ وہ ایک کسی international wise ایک group میں شامل ہے جس میں تقریباً 90 فیصد غیر عقیدے کے ہیں اور ان کی اصلاح کے لئے ان کو میسج share کرتا رہتا ہے۔ مجھے اس نے کہا کہ میں تمہیں بھی اس group میں شامل کرتا ہوں تاکہ تم بھی ان کی اصلاح کے لئے چیزیں share کیا کرو۔ ابھی تک میں نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا۔

جواب:

ایسے group میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مبتدی کے لئے بہت خطرناک ہے، کیونکہ بعض دفعہ ان کی باتوں سے انسان خود متاثر ہو جاتا ہے۔ جب انسان کے پاس علم ناکافی ہو تو اپنے آپ کو جو ہے ناں بچانا دوسرے کے مطلب جو ہے ناں، اس سے بہتر ہے، ضروری ہے، کیونکہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت اہم ہے، یہ بات ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو مطلب یہ ہے کہ نہیں perfection کا پتہ ہو کہ اس سے کیسے اپنے آپ کو بچایا جائے، مثال کے طور پر کوئی آدمی ڈاکٹر نہیں ہے اور علاج کرتا ہے متعدی بیماریوں کا، تو اس کو اگر متعدی بیماری لگ گئی تو پھر کیا ہوگا؟ تو جو جانتا ہوگا تو اپنے آپ کو بچا بھی لے گا، تو ہر چیز ہر ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوا ہے، الحمد للہ، سوالوں کے جوابات میں بار بار۔ تو ہمارے ایک دوست نے ایک کلام پڑھا ہے، نعت شریف ہے، تو اسی کے ساتھ میں ختم کرتا ہوں کیونکہ اذان ہوگئی ہے۔

کلام:

الٰہی پہنچے رسول اللہ کو درود اپنا، سلام اپنا محبت آپ کی ہو دل میں، تب ہو تکمیل ایماں کا کام اپنا

الحمد للہ، یہ discussion وغیرہ جو ہوئی ہے، اسی کا یہ شعر جواب ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دل میں ہو تو یہ ہمارے ایمان کی تکمیل کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ یہ ساری باتیں بس dead clear ہو جائیں گی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں ہو، پھر اس کے بعد بہت سارے سوالات کے جوابات خود ہی مل جائیں گے۔

حبیب اللہ ہیں، رسول اللہ ہیں، خدا کے محبوب نبی ہمارے طریقہ ان کا ہے کامیابی، نظام ان کا نظام اپنا

الٰہی پہنچے رسول اللہ کو درود اپنا، سلام اپنا

ہم اپنے آپ سے بھی چاہیں زیادہ انہیں، ہے ایماں کا یہ تقاضا درود ان پر، سلام ان پر، وظیفہ صبح و شام اپنا

الٰہی پہنچے رسول اللہ کو درود اپنا، سلام اپنا

جو پیاری نسبت ہے ان کی ہر اک، قدر کریں ہم ان نسبتوں کی صحابہ، مائیں اور اہل بیت بھی، ہے سب کا اعلی مقام اپنا

الٰہی پہنچے رسول اللہ کو درود اپنا، سلام اپنا

کہاں ہو تعریف کسی سے ان کی، یہ ایک کوشش شبیرؔ کی ہے ہے چاہتا لکھنا مدح خوانوں میں اسی طریقے سے نام اپنا

الٰہی پہنچے رسول اللہ کو درود اپنا، سلام اپنا

محبت آپ کی ہو دل میں، تب ہو تکمیل ایماں کا کام اپنا آمین۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔

سوال نمبر 16:

ابھی ابھی سنگاپور سے ایک میسج آیا ہے۔ شاید وہ سن رہے ہوں گے۔

I did مراقبہ احدیت on fourth point. It’s completed and my wife did مراقبہ احدیت on the third point. The man did اللہ۔

(نہیں نہیں sorry، ان کی نہیں ہے یہ، ان کی ہے, sorry, یہ China سے ہے۔)

The man did اللہ four thousand times.

+60 China کا ہے ناں، میرے خیال میں؟ 60؟ ان کا تو 65 ہے غالباً جو سنگا پور کا جو ہے۔ میرے خیال میں China کا ہے۔

I did مراقبہ احدیت on fourth point. It was completed and ladies did مراقبہ احدیت on the third point. The man did اللہ four thousand times. I have the same feeling as last month, الحمد للہ. The ladies are having almost the same good feelings. The man is always the same. Please شیخ، guide me what should we do for next month, جزاک اللہ?

(+60 ہے؟ +60 ہے، پتہ نہیں یہ سوال تو ان کا لگتا ہے، خیر whatever the case may be۔) جواب:

Now you should do مراقبہ احدیت at fifth point and the lady should do it at fourth point and the man should say اللہ اللہ, 4500 times ان شاء اللہ۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘

  2. ۔ (آل عمران: 31)

  3. ۔ (الشمس: 7-8) ترجمہ: ’’اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے۔‘‘

  4. ۔ (الشمس: 9) ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔‘‘

  5. ۔ (الشمس: 10) ترجمہ: ’’اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘

  6. ۔ (البقرۃ: 41) ترجمہ: ’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘

  7. ۔ (ص: 76) ترجمہ: ’’تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘

  8. ۔ (المائدۃ: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔ اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔‘‘

  9. ۔ (الأعراف: 172) ترجمہ: ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘

  10. ۔ (الفجر: 26-30) ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں۔‘‘

  11. ۔ (البقرۃ: 260) ترجمہ: ’’تاکہ میرے دل کو پورا اطمینان حاصل ہوجائے۔‘‘

  12. ۔ (اٰل عمران: 8) ترجمہ: ’’(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہا بخشش کی خوگر ہے۔‘‘

  13. ۔ (الأعراف: 23) ترجمہ: ’’اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا‘‘

  14. ۔ (طٰہ: 25-28) ترجمہ: ’’پروردگار! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجیے۔ اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے۔ اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے دور کردیجیے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔‘‘

  15. ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1) ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے‘‘۔

  16. ۔ (الحشر: 23) ترجمہ: ’’وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘

  17. ۔( الحشر: 23)

  18. ۔ (ص: 76) ترجمہ: ’’تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب