سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 344

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی نماز کا چلہ شروع کیا تھا، سفر کے دوران ایک نماز کی جماعت رہ گئی، پھر گھر میں کسی کو ساتھ شامل کر کے با جماعت پڑھ لی۔ اس کے علاوہ ایک مغرب کی نماز کی جماعت بھی رہ گئی۔ سفر کے دوران دیر ہو رہی تھی اس لئے مسجد میں اکیلے ہی پڑھ لی۔ باقی ساری نمازیں الحمد للہ جماعت سے پڑھ رہا ہوں۔ کیا چلہ پھر شروع سے کرنا پڑے گا؟

جواب:

اس کا حساب یوں کر لیں کہ جس آخری دن آپ نے اکیلے نماز پڑھی اس دن آپ کا چلہ ٹوٹ گیا اور اس کے بعد والی نماز سے نیا چلہ شروع ہو گیا۔ اگر آپ اس کے بعد سے اب تک سب نمازیں با جماعت پڑھ رہے ہیں۔ تو حساب لگا لیں کتنی نمازیں با جماعت ہوئی ہیں، انہیں مائنس کر لیں جتنی بچ جائیں جب وہ با جماعت ادا کر لیں گے تو چلہ پورا ہو جائے گا۔ مثلاً آپ بائیسویں دن تک جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے رہے لیکن تئیسویں دن ناغہ ہو گیا اور آپ نے اکیلے نماز پڑھ لی، اس کے بعد 18 دن با جماعت نماز پڑھی ہے تو یوں سمجھیں کہ آپ کے باجماعت نماز کے چلہ کو 18 دن ہوئے ہیں اور 22 دن رہتے ہیں، تو 22 دن مزید با جماعت نماز پڑھیں تاکہ چالیس دن پورے ہو جائیں۔

سوال نمبر2:

الحمد للہ طبیعت ٹھیک ہے مراقبہ کا مکمل طریقہ بتا دیجئے گا۔

جواب:

آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کو کیا مراقبہ دیا گیا ہے۔ جو مراقبہ دیا گیا ہے اسی کے حساب سے اس کا طریقۂ کار ہوگا۔ مثلاً اگر آپ کو دل کا ذکر دیا گیا تھا اور آپ اس کو مراقبہ کہہ رہے ہیں تو اس کو دس منٹ کی ترتیب سے شروع کر لیں۔ روزانہ دس منٹ یہ تصور کیا کریں کہ ہر چیز ”اَللہ اَللہ“ کر رہی ہے اور میرا دل بھی ”اَللہ اَللہ“ کر رہا ہے۔ بس اس کو سننے کی کوشش کریں۔ ارد گرد کی جتنی بھی چیزیں ہیں ان کی طرف توجہ نہ کریں بس دل کے ذکر کو محسوس کرنے کی کوشش کیا کریں۔ یہ معمول روزانہ دس منٹ باقاعدگی کے ساتھ کریں اور ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔

سوال نمبر3:

حضرت جی ہمارے گھر سے کچھ تعویذ نکلے ہیں۔ کافی پریشانی ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہاں سے آئے ہیں۔ کیا یہ کالا جادو ہے؟ اپنی حفاظت کے لئے ہم کیا کریں، کیا آیت الکرسی پڑھنا کافی ہوگا؟ میری بیٹی نے کچھ دن پہلے خواب میں سانپ دیکھا ہے، لوگ اسے مارتے ہیں لیکن وہ پھر زندہ ہو جاتا ہے۔

جواب:

جادو وغیرہ کی باتیں تو عملیات سے تعلق رکھتی ہیں اور عملیات ہمارا شعبہ نہیں ہے اس لئے اس پہ ہم بات نہیں کرتے۔ البتہ یہ جو آپ کی بیٹی نے خواب دیکھا ہے کہ ایک سانپ ہے لوگ اس کو مارتے ہیں لیکن وہ پھر زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ سانپ نفس ہے۔ نفس کا ایک علاج مستقل ہوتا ہے اور ایک عارضی علاج ہوتا ہے۔ عموماً لوگ عارضی طور پر نفس کا علاج کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اب نفس کی اصلاح ہو گئی ہے لیکن بعد میں نفس دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔ جب تک اس کا مستقل علاج نہیں ہوتا یہ بار بار زندہ ہوتا رہے گا۔ نفس کا مستقل علاج تب ہوتا ہے جب تین چیزوں کی اصلاح ہو جائے، نفس قلب اور روح۔ ان تینوں کی اصلاح ہو جائے اور سلوک کے تمام مقامات طے ہو جائیں تب نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔ دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے لئے ایک مستقل طریقہ کار اپنانا ہوتا ہے جس کے بعد نفس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ یہ مستقل علاج شروع کریں اور جب تک مکمل نہ ہو جائے تب تک عارضی علاج سے کام چلاتے رہیں اور عارضی علاج یہ ہے کہ جتنی بار آپ کا نفس آپ کی مخالفت کرے آپ کوشش کریں کہ اس کی بات نہ مانیں۔ اس کے ساتھ سلوک کے راستے پہ مستقل مزاجی کے ساتھ چلتے رہیں، ان شاء اللہ کسی وقت کامیابی ہو جائے گی۔

سوال:4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی آپ نے مجھے قلب اور روح کا جو ذکر دیا تھا، میں اسے کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے نہیں ہو رہا۔ اس کے علاوہ ایسا لگ رہا ہے کہ جو کچھ محنت کے ساتھ حاصل کیا تھا وہ اب کھو دیا ہے۔ الحمد للہ، اللہ کے کرم سے فرائض اور معمولات جاری ہیں لیکن دل کا اطمینان حاصل نہیں ہے۔ پہلے عبادت کے وقت لگتا تھا کہ اللہ رب العزت مجھ سے مخاطب ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوں لیکن اب ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ حضرت جی میری رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ خیراً

جواب:

اگر کوئی اپنے لئے اپنی مرضی کا دین بنانا چاہے تو اس کے ساتھ کیا بات کی جا سکتی ہے۔ ایک ہے اللہ کی مرضی کا دین اور ایک ہے اپنی مرضی کا دین۔ اپنی مرضی کا دین وہ ہے جس میں آدمی یہ سمجھے کہ اگر میری ایک خاص حالت ہو تب دین پہ عمل کروں گا۔ مثلاً مجھے نماز میں مزا آ رہا ہو، میں ہواؤں میں اڑ رہا ہوں، یہ ہو رہا ہو، وہ ہو رہا ہو۔ یہ سارے خیالات ہیں۔ اصل چیز اللہ کی بندگی ہے اور اللہ کی بندگی یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے جائیں تب بھی آپ اشاروں سے نماز پڑھ لیں۔ وضو کا چانس نہ ہو تو تیمم سے پڑھ لیں لیکن پڑھیں ضرور۔ جتنی تکلیف سے پڑھیں گے اتنا اجر زیادہ ہوگا۔ آپ قصداً اپنے آپ کو تکلیف نہ دیں لیکن اگر غیر اختیاری طور پر تکلیف آ جائے تو جتنی زیادہ تکلیف میں آپ نماز پڑھیں گے اتنا زیادہ اجر ملے گا۔

مجھے یاد ہے ایک ہندو فیملی کا بچہ مسلمان ہوا تھا، مجھ سے اس کا اصلاحی تعلق قائم ہوا۔ اس کے گھر والے اس کے مخالف تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ صبح فجر کی نماز کے لئے اٹھا، وضو کر رہا تھا کہ اس کا والد جاگ گیا اور اسے زبردستی دوبارہ سلا دیا کہ یہ کوئی اٹھنے کا وقت ہے؟ اس نے مجھے لکھا کہ میں نے اپنے اوپر لحاف ڈالا اور اس کے اندر ہی اشاروں سے نماز پڑھ لی۔ مجھے اس پہ بڑا پیار آیا کہ دیکھو اس کے لئے اِس وقت یہی ممکن تھا اس نے یہی کیا مگر کیا ضرور، چھوڑا نہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کا کیا حال ہوگا، کشمیر میں کیا حال ہو گا، دوسری جگہوں پر کیا حال ہے۔ ان سب جگہوں پر اپنی مرضی کا ماحول نہیں ملتا، آخر وہ لوگ بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ یہ تو اللہ پاک کی مرضی ہے۔ اس وجہ سے آپ ان چیزوں کے انتظار میں نہ رہیں کہ مجھے ان چیزوں میں اطمینان ہوگا تب اصل چیز حاصل ہوگی۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے لکھا کہ حضرت کچھ بتائیے جس سے اطمینان ہو جائے۔ حضرت نے فرمایا: مجھ سے کفر کی بات کراتے ہو؟ اس دنیا میں تو انسان کو اطمینان کا حاصل ہو جانا کفر ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جب تک ایمان ہے اطمینان نہیں ہو سکتا۔

اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَا“ (سنن الترمذی: 983)

ترجمہ: ”ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے“

اگر خوف غالب ہے امید مغلوب ہے تو امید کی طرف آنا پڑے گا اور اگر رجا غالب ہے خوف مغلوب ہے تو پھر خوف کی طرف آنا پڑے گا۔

یہ تو اللہ پاک کا دین ہے۔ اللہ پاک کے دین کو دل سے قبول کرنا چاہیے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ چاہے مزہ ہو یا نہ ہو۔ بس آپ اس پہ عمل کریں جو شریعت کا حکم ہے۔ جس حکم پہ عمل نہ ہو سکے نفس رکاوٹیں ڈالے وہاں نفس کا علاج کر لیں اور اس کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کیا کریں۔ جو موجود ہے اسے چھوڑیں نہیں اور مزید ترقی کرنے کی کوشش کریں۔

سوال نمبر5:

السلام علیکم۔ حضرت پرسوں فجر کی نماز سے پہلے خواب میں کسی نے کہا: 41 مرتبہ سورہ یسین پڑھو۔ میں نے کہا: نہیں پڑھ سکتا مشکل ہے۔ پھر کہا: اکتیس بار پڑھو سب سیٹ ہو جائے گا۔ آج پھر صبح جاگنے سے پہلے خواب میں کسی نے کہا: اکتالیس بار سورہ یسین پڑھو سب سیٹ ہو جائے گا۔ میں نے کہا: اب ان شاء اللہ شیخ کے دیئے ہوئے وظائف کے علاوہ کوئی وظیفہ نہیں پڑھوں گا۔ آواز آئی کہ شیخ سے یہ پڑھنے کی اجازت لے لو۔

جواب:

بھئی بات یہ ہے کہ جیسے میں نے آپ کو کہا ہے، آپ اسی طریقہ پہ چلیں، خوابوں کے پیچھے نہ جائیں، خوابوں کی دنیا میں نہ رہیں بیداری کی دنیا میں رہیں۔ اللہ جل شانہ عطا فرمائیں گے۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم شاہ صاحب۔ میں نے گذشتہ جمعرات کو فجر کے وقت خواب میں خانہ کعبہ دیکھا ہے۔ وہ منظر اتنا واضح تھا جیسے بالکل میری آنکھوں کے سامنے ہو۔

جواب:

یہ مبارک خواب ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ ان شاء اللہ توحید پہ چلنا نصیب ہوگا۔ لیکن خوابوں کے پیچھے زیادہ نہ جائیں۔ اصل چیزیں بیداری کی حالت والی ہیں۔ مثلاً ایک آدمی سے بیداری میں نماز قضا ہو رہی ہے اور خوابوں میں جنت کی سیر کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا خواب درست نہیں ہے یہ شیطان نے اس کے لئے کوئی چکر بنایا ہوا ہے کہ نماز قضا کرنے کے باوجود جنت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ بہرحال آپ کا خواب اچھا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ شریعت پر عمل ہو۔ اگر شریعت پر عمل نصیب ہے چاہے کوئی خواب نظر نہ بھی آئے تو سب ٹھیک ہے اور اگر شریعت پر عمل نہ ہو تو چاہے بہت اچھے خواب دیکھے، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ شیطان ایسے خواب دکھا سکتا ہے، وہ آپ کے تصور میں یہ چیزیں لا سکتا ہے۔ لہٰذا خوابوں کے پیچھے نہ جائیں البتہ یہ خواب مبارک ہے۔ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ توحید پہ چلنا نصیب فرمائے گا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو توحیدِ کامل عطا فرما دے۔

سوال نمبر7:

حضرت جی اگر کوئی روزہ رکھ کر غیر محرم کی طرف دیکھے، اس سے بات چیت کرے اور روز ارادہ کرے کہ روزہ کی حالت میں ایسا نہیں کرے گا پھر بھی کرتا رہے تو کیا وہ نفلی روزہ رکھنا چھوڑ دے؟

جواب:

نا محرم کو دیکھنا چھوڑ دے، روزہ کیوں چھوڑے۔ روزہ نہ چھوڑے بلکہ نا محرم کو دیکھنا چھوڑ دے کیونکہ نا محرم کو دیکھنا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بچائے۔

ایک بات اور یاد آ گئی کہ شاید اس کو یہ وسوسہ اس لئے آیا ہو کیونکہ میں اکثر بتایا کرتا ہوں کہ جب واجب اور مستحب میں مقابلہ ہو یا فرض اور مستحب میں مقابلہ ہو تو فرض کو ترجیح دینا چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب آپ ایک وقت میں دونوں میں سے ایک کام کر سکیں۔ مثلاً جماعت بھی کھڑی ہے اور اس وقت ذکر بھی کر سکتے ہیں تو ایسے وقت میں ذکر کو چھوڑ دیا جائے گا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے گی کیونکہ جماعت واجب ہے۔ لیکن سوال میں ذکر کردہ مسئلہ الگ ہے، کیونکہ نامحرم کو دیکھنا تو ہر صورت میں حرام ہے۔ چاہے نفلی روزہ رکھا ہوا ہو یا نہ رکھا ہو دونوں صورتوں غیر محرم کو دیکھنا حرام ہے۔ اگر نفلی روزہ نہ رکھا ہو تو کیا غیر محرم کو دیکھنا جائز ہو جائے گا؟ بالکل جائز نہیں ہوگا۔ روزہ تو گناہوں سے بچنے کے لئے ایک ذریعہ ہے کیونکہ روزہ سے نفس پر بوجھ آتا ہے اور بوجھ سے نفس سیدھا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہم روزہ سے نہیں روکیں گے بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ نا محرم کو نہ دیکھو۔

سوال نمبر8:

محترم مولانا صاحب۔ مجھے عرصہ دراز سے ٹینشن ہوتی ہے۔ کبھی ٹھیک ہوتا ہوں کبھی بہت بے چینی ہوتی ہے۔ میرے پاس اللہ کی ہر نعمت موجود ہے مگر اس کے باوجود مجھے سکون نہیں آتا۔ میں نماز بھی پڑھتا ہوں۔ مجھے کوئی وظیفہ ایسا بتا دیں کہ میں بالکل نارمل ہو جاؤں۔ مجھے لگتا ہے مجھ پہ کوئی جادو ہے۔ 

جواب:

اس میں سوال کونسا ہے اور جواب کونسا ہے۔ یہ تو ہمارا شعبہ ہی نہیں ہے۔ ہم یہاں پر عملیات کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے۔ آپ یہاں اپنی اصلاح کے لئے آجائیں، بسر و چشم۔ اگر اصلاح ہو جائے تو آپ پر کروڑوں جادو ہو جائیں، آپ اس سے مر بھی جائیں تب بھی آپ کامیاب ہیں اور اگر اصلاح نہ ہو اور آپ ساری زندگی اطمینان کے ساتھ گزاریں کہ سر میں بالکل درد تک نہ ہو، پھر بھی آپ ناکام ہیں، تباہی ہے آپ کی۔ کن چیزوں میں پڑے ہو؟ کیا ہم یہاں پر اس لئے بیٹھے ہیں کہ جادو اتار دیں، نظر اتاریں یا سکون دے دیا کریں؟ ہم یہاں پر اس لئے نہیں بیٹھے ہوئے۔ ان کاموں کے لئے دکاندار لوگ ہیں جو کافی ساری جگہوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم اس دکانداری کے لئے یہاں پر نہیں بیٹھے ہوئے۔ اپنی اصلاح کرانا چاہتے ہو تو ہم بسر و چشم حاضر ہیں۔ آپ کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں گے کیونکہ ہمارا کام ہی یہی ہے۔ بہرحال آپ کے میسج میں نہ کوئی سوال ہے نہ کوئی جواب ہے۔ کیونکہ یہ ہمارا ڈومین ہی نہیں ہے ہماری فیلڈ ہی نہیں ہے۔ ہمیں منع کیا گیا ہے، خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ خانقاہ میں عملیات نہیں کرنے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں ہم معذور ہیں۔ ہاں! آپ اپنی اصلاح کے لئے آ سکتے ہیں۔ جب اللہ پاک آپ کے ساتھ ہو جائے گا تو پھر کسی کا باپ بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں، اس کے لئے کام کریں۔ یہی اصل بات ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر9:

حضرت! میری ساری دنیا الٹ پلٹ ہو رہی ہے۔ میں جیسے کسی بھنور میں گھس گئی ہوں اور میری سب سے بڑی دشمن میں خود ہوں۔ میں نے اپنے ہر ہر خلیے، ہر لمحے، ہر انداز سے اپنے ساتھ دشمنی کی ہے۔ اپنے آپ سے بالکل اعتبار اٹھ گیا ہے۔ حضرت میرے لئے ہدایت اور ثابت قدمی کی دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ آپ درست راستے پر ہیں۔ آپ کو یہ جو احساس ہے اپنے گناہ گار ہونے کا اور ہدایت کے طالب ہونے کا، یہ بھی بڑی نعمت ہے۔ اللہ پاک کا شکر کریں کہ اللہ پاک نے آپ کو یہ نعمت نصیب فرمائی ہے۔ آپ صحیح راستے پر ہیں۔ طریقہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ گذشتہ سے توبہ کر لیں، ان شاء اللہ سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اس کے بعد پھر نئی زندگی شروع کر لیں۔ نئی زندگی یہی ہے کہ فرائض و واجبات میں کوئی کمی نہ ہو، چاہے وہ فرائض و واجبات عبادات کے رخ سے ہیں، چاہے معاملات کے رخ سے ہیں، چاہے معاشرت کے رخ سے ہیں۔ اصلاح کی لائن کے ساتھ جڑی رہیں جو بتایا جائے اس کو کرتی رہیں۔ ان شاء اللہ العزیز خیر کا معاملہ ہوگا۔ یہ اچھی حالت ہے، بری حالت نہیں ہے۔

سوال نمبر10:

حضرت! حالت عجیب ہے۔ ہر ہر لمحہ بتانے کے قابل ہے لیکن بتانے کی سمجھ نہیں آ رہی۔ جمعرات کے دن سے روزانہ کم سے کم ایک دفعہ صلوۃ التوبہ پڑھے بغیر چین نہیں آتا۔ ہر وقت گناہ نہ کرنے کی فکر رہتی ہے۔ اب تک جو گناہ کئے وہ ہی معاف ہو جائیں تو بڑی نعمت ہے اور کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کرتی ہوں۔ جتنی کتابیں آپ کی ہیں، پڑھ رہی ہوں۔ سارے عیب خود میں دیکھتی ہوں۔ وسوسے زوروں پر ہیں۔ زیادہ تر وقت اکیلی رہتی ہوں اور کتابیں پڑھتی ہوں۔ لطائف کا ذکر چل رہا ہوتا ہے اس کو سن رہی ہوتی ہوں یا درود پڑھتی ہوں یا صبر کی دعا یا توبہ کرتی ہوں۔ عجب کے خوف سے ”سب کچھ اللہ کرتے ہیں“ کی مثالیں سوچتی ہوں۔ یَا ھَادِیُ یَا نُورُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم“ پڑھتی ہوں۔ نماز خوب آہستہ اور توجہ کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ گھر والوں کے ساتھ بہت مجبوری نہ ہو تو نہیں بیٹھتی، بیٹھوں تو گناہ کے ڈر سے زیادہ نہیں بولتی، اپنے لطائف کو سنتی ہوں اور چپ رہوں تو ذکر کرتی ہوں بولتی ہوں تو عجیب ہی انداز میں بات نکلتی ہے۔ ہر بات میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی نشاندہی کے بغیر نہیں بولا جاتا۔ جیسے اگر کوئی پوچھے کہ سالن میں کتنا نمک ڈالوں تو جواب میں کہتی ہوں اتنا ڈال دو اللہ نے چاہا تو مناسب رہے گا، نمک اور اس کی مقدار تو ذریعہ ہے اصل مرضی تو اللہ کی ہے۔ میری ایسی باتوں سے کسی نے تنگ ہو کر پوچھا کیا تم اب ایسے ہی بولا کرو گی؟ تب سے آدھی بات منہ میں ہی کہہ دیتی ہوں۔ پھر ریا کا خوف بھی لگ جاتا ہے کہ مخلوق کی وجہ سے ذکر چھوڑنا بھی تو ریا ہے۔ پہلے اپنا ناقص علم جھاڑنے کی عادت تھی، اب منہ بند رکھتی ہوں۔ گھر سے گناہوں کے ڈر سے نہیں نکلتی، نکلوں تو نظر نہیں اٹھاتی، ذکر کرتی ہوں یا سنتی ہوں، گھر آتی ہوں تو سکون آ جاتا ہے۔ گھر کے اندر شرعی پردہ میں رہتی ہوں، با وضو سوتی ہوں، جاگتی ہوں تو اللہ کا نام ذہن میں آتا ہے۔ حضرت مجھے ان سب میں کوئی دقت نہیں ہوتی بس اللہ کا فضل رک نہ جائے یہ خوف کھا رہا ہے۔ مجھے اللہ نے اپنے لئے پیدا کیا ہے جب تک سب اس کی پسند کے مطابق ہے تب تک ٹھیک ہے۔ اللہ مجھے ہدایت دے اور دے کر واپس نہ لے۔ الحمد للہ روزوں کی قضاء رکھنے کی بھی توفیق ہو گئی ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان روزوں کی اصلاح میں استعمال کرنے کے لئے کچھ بتا دیں۔ اللہ آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راضی ہو اور مجھ سے بھی، آمین۔ حضرت میں نے آپ کی رہنمائی کے مطابق ”زبدۃ التصوف، تصوف کا خلاصہ، طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی جدید ترتیب“ پڑھ لی ہیں اور حقیقت جذب و سلوک پڑھ رہی ہوں۔ اللہ مجھے ہدایت دے اور اپنی بندگی نصیب فرمائے۔

جواب:

اللہ تعالیٰ یہ جتنی نعمتیں نصیب فرما رہا ہے ان پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ یہ ہمارا اپنا کمال نہیں ہوتا، اگر اپنے اوپر نظر جائے تو اس پر استغفار کرنا چاہیے۔ اگر اللہ پاک کا فضل نہ ہو تو ہم ایک لمحے کے لئے بھی صحیح کام نہیں کر سکتے۔ تو یہ اللہ پاک کا فضل ہے، اللہ پاک اس کو مزید بڑھائے (آمین) اور یہ ان شاء اللہ بڑھے گا۔

باقی یہ جو آپ نے بتایا کہ اگر کوئی نمک کا بھی پوچھے تو آپ کہتی ہیں کہ اتنا ڈال دو اللہ نے چاہا تو ٹھیک رہے گا، ہر کام میں اللہ کی منشا کی طرف خیال جاتا ہے۔ یہ ایک حال ہے اور حال کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا پتا صاحب حال ہی کو ہوتا ہے۔ باقی لوگوں کو اس کا پتا نہیں ہوتا اس لئے باقی لوگ باتیں بناتے ہیں۔ لہٰذا آپ نارمل انداز میں گفتگو کریں جیسے باقی لوگ کرتے ہیں۔ بے شک آپ کو چیزیں مختلف انداز میں محسوس ہوتی ہوں لیکن لوگوں کے ساتھ نارمل انداز میں اسی طرح بات کیا کریں جس طرح عام لوگ باتیں کرتے ہیں۔ جیسے کہ اگر آپ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اللہ نے جیسے چاہا ویسے ہو جائے گا، تو یہ بات دل میں کہیں، ہاں اگر اس کی جگہ ”ان شاء اللہ“ کہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان شاء اللہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ اگر اللہ نے چاہا تو یہ کام ہو جائے گا۔ تو آپ کہیں ان شاء اللہ ٹھیک رہے گا۔ اگر آپ ان شاء اللہ کہا کریں گی تو اس پہ کوئی باتیں نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ ایک اصطلاح ہے اور سب لوگوں میں مستعمل ہے۔ اس وجہ سے اس پہ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ جو آپ کہتی ہیں وہ بھی غلط نہیں ہے، اگرچہ اس کا مطلب بھی وہی ہے جو ان شاء اللہ کا ہے، لیکن چونکہ اس طریقے سے بات کرنا لوگوں میں معروف نہیں ہے لہٰذا لوگ اس پر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ چونکہ لوگوں کی اس مسئلے میں ابھی انڈر سٹینڈنگ ڈویلپ نہیں ہوئی اس لئے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔

باقی ساری چیزیں ٹھیک ہیں۔ بس اس بات کا خیال رکھیں کہ نوافل میں اپنے اوپر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا اٹھا سکتی ہوں۔ فرائض و واجبات تو کسی کو معاف نہیں ہوتے لیکن نفلی عبادات اتنی ہی کرنا چاہئیں جتنی انسان میں طاقت ہو۔ اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈال لینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بعد میں بالکل ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ بالکل چھوڑنے سے بچنے کے لئے اور باقی رکھنے کے لئے نوافل اتنے ہی رکھنے چاہئیں جتنے انسان سنبھال سکتا ہو۔

آپ کتابیں پڑھ رہی ہیں، ماشاء اللہ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ ان میں جو ہدایت ہے اللہ جل شانہ وہ سب کو نصیب فرما دے۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم۔ حضرت اگر مراقبہ کے درمیان اذان شروع ہو جائے تو کیا مراقبہ چھوڑ کر اذان کا جواب پہلے دینا ضروری ہے اور پھر مراقبہ نئے سرے سے دوبارہ شروع کریں گے یا جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے شروع کریں گے۔ دعا کی درخواست ہے۔

جواب:

مراقبہ شروع کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا کریں کہ اذان سے پہلے پہلے پورا ہو جائے۔ اگر اس کے باوجود کبھی اتفاقاً ایسا ہو جائے کہ درمیان میں اذان شروع ہو جائے تو پھر جتنا مراقبہ ہو چکا ہے، اذان کے بعد وہیں سے شرع کر کے مکمل کر لیں۔ جب اذان شروع ہو تب اذان کا جواب دینا زیادہ اولیٰ ہے اس لئے مراقبہ روک کر اذان کا جواب دیں، اس کے بعد مراقبہ کو مکمل کر لیں۔

سوال نمبر12:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت اقدس آپ کی خدمت مبارکہ میں ایک سوال عرض ہے۔ پچھلے ہفتہ آپ کی خدمت میں ایک سوال آیا تھا کہ اگر سالک کو معلوم ہو جائے اور احساس ہو جائے کہ اس نے جذب حاصل کیا ہے لیکن سلوک طے نہیں کیا، مجاہدہ نہیں کیا اور مقامات طے نہیں کئے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ حضرت والا نے فرمایا تھا کہ اگر صبح کا بھٹکا شام میں واپس آ جائے تو خیر ہی خیر ہے، ایسے آدمی کو اپنے شیخ کے پاس واپس جا کر تربیت کرانی چاہیے اور اپنی اصلاح کرانی چاہیے۔ سوال خدمت اقدس میں یہ عرض ہے کہ اگر مجذوب متمکن اپنے شیخ کے پاس واپس آ جائے جس شیخ سے اس کا بیعت کا تعلق تھا لیکن اگر وہ شیخ خود مجذوب متمکن ہو، اس نے بھی سلوک طے نہ کیا ہوا ہو تو ایسی صورت میں مرید و سالک کو کیا قدم اٹھانا چاہئیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب:

گذشتہ مجلس میں ایک سوال کیا گیا تھا کہ اگر کسی شخص نے جذب حاصل کر لیا ہو لیکن ابھی سلوک نہ طے کیا ہو، بعد میں کسی وقت اسے احساس ہو جائے تو وہ کیا کرے۔ میں نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ وہ اپنے شیخ کے پاس آ جائے، اپنی تکمیل کرا لے اور مقامات سلوک کو طے کرے۔ اس پر اب یہ سوال آیا ہے کہ اگر وہ مجذوب متمکن کسی ایسے شخص سے بیعت ہو جو خود مجذوب متمکن ہے پھر کیا کرے۔؟

کیا خیال ہے جس نے 3rd year میں میڈیکل چھوڑ دیا ہو، ایم بی بی ایس مکمل نہ کیا ہو اس کے پاس کوئی علاج کے لئے آئے تو اسے اس مریض سے کیا کہنا چاہیے؟ اسے کہنا چاہیے کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، کیونکہ وہ مکمل ڈاکٹر نہیں ہے اس کے لئے علاج کرنا جائز نہیں ہے۔ میڈیکل کالج میں پہلے دو سال میڈیکل کی تیاری ہوتی ہے۔ بائیو کیمسٹری، فزیالوجی اور ہائی جین وغیرہ، اس قسم کے سبجیکٹ ہوتے ہیں۔ پھر 3rd year سے میڈیکل شروع ہو جاتا ہے۔ اب اگر کوئی آدمی پہلے دو سال پڑھ کر اپنے آپ کو کامل سمجھے کہ میں نے اتنا کچھ پڑھ لیا ہے کہ اب میں ڈاکٹر ہو گیا ہوں تو حکومت اس کو ڈاکٹر نہیں مانے گی کیونکہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جو لوگ مکمل میڈیکل پورا کر کے ڈاکٹر بن جاتے ہیں ان کو بھی بغیر ہاؤس جاب کے پریکٹس نہیں کرنے دی جاتی۔ ہاؤس جاب سے مراد یہ ہے کہ پریکٹیکل لائف میں جو اس نے حاصل کیا اس کو بڑوں کے سامنے built کر لے اور اسے پتا چل جائے کہ میں نے واقعتاً کتنا علم حاصل کیا ہے، بڑوں نے اس کو کافی سمجھا ہے یا نہیں سمجھا۔ یہاں تصوف میں بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ جسے ہم جذب کہتے ہیں یہ در اصل سلوک طے کرنے کی تیاری ہے۔ جب جذب حاصل ہو جائے تو سمجھیں تیاری مکمل ہو گئی، اب اس کو سلوک کی طرف جانا چاہیے۔ اگر یہ اب سلوک کی طرف نہیں آیا اور اس نے اپنے آپ کو شیخ ڈکلیئر کر لیا یا کچھ حالات ایسے بن گئے کہ اسے شیخ بنا دیا گیا ہے اور اس کو پتا ہے کہ میں نے سلوک طے نہیں کیا۔ ایسی صورت میں اسے ڈاکٹری نہیں کرنی چاہیے، دوسروں کی اصلاح کا کام نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فرمایا کہ وہ ڈاکو نہ بنے، لوگوں کا راستہ نہ کاٹے بلکہ منتہی مرجوع کی طرف لوگوں کو متوجہ کرے خود کسی کو بیعت نہ کرے۔ جب یہ اپنے پاس آنے والے مریدین کو کسی کامل شیخ کے پاس بھیجے گا تو ان کا ثواب اِس کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ اگر میرے پاس کوئی مجذوب متمکن اصلاح کرانے کے لئے آئے تو میں اسے دوسروں کے پاس بھیجنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ کیونکہ اگر میں کسی صحیح آدمی کے پاس ان کو بھیجوں اور وہ ان کی تربیت کرے جس کے نتیجے میں ان کی اصلاح ہو جائے اور یہ شریعت پر صحیح عمل میں لگ جائیں اس پر مجھے بہت اجر ملے گا۔ اس کی پوری ذمہ داری لینے سے بہتر یہ ہے کہ اس کو کسی شیخ کامل کے پاس بھیج دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ہم پر لازم کر دیا ہے کہ بیعت سے انکار نہ کرو اس لئے ہماری مجبوری ہے۔ ایک دفعہ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ میں اب بیعت نہیں کروں گا کیونکہ اتنے زیادہ لوگوں کی تربیت نہیں کی جا سکتی لیکن بڑوں کی طرف سے حکم آ گیا کہ بیعت کرنا نہ چھوڑو، کم از کم اس سے لوگوں کے ایمان کی حفاظت رہے گی۔ اس وجہ سے ہماری مجبوری ہے۔ بہرحال بہتر تو یہی ہے کہ اگر مجذوب متمکن شیخ کے پاس کوئی مجذوب متمکن مرید آ جائے تو وہ کسی منتہی مرجوع کو تلاش کر لے اور اِسے اُس کے پاس بھیج دے۔ اور اس کا پروپیگنڈا نہ کرے۔ کیونکہ ہمارا مقصد اپنی اصلاح ہے کسی اور کی اصلاح ہمارا مقصد نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم لوگ بس اپنا کام کریں اور کسی ایسے شخص کے پاس جائیں جو واقعی شیخ کامل ہو اور ان راہوں سے گزر چکا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔

آج کل اس طرح کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ میں اس کے بارے میں کھل کے تو بات نہیں کر سکتا کیونکہ یہ معاملہ حالات کے مطابق ہوتا ہے، اس میں کوئی فارمولا ٹائپ بات نہیں ہو سکتی، لیکن ہم صرف حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی تعلمیات بیان کر لیتے ہیں اسی میں سے لوگ اپنے لئے راستہ ڈھونڈ لیں اور سمجھیں کہ حضرت نے جو فرمایا ہے وہ میرے لئے بھی فرمایا ہے اور دوسروں کے لئے بھی فرمایا ہے، سبھی کے لئے فرمایا ہے لہذا مجھے بھی اپنے آپ کو اس کے مطابق کرنا چاہیے دوسروں کو بھی اپنے آپ کو اس کے مطابق کرنا چاہیے۔

ایک کام سب کے لئے لازمی ہے اور وہ یہ کہ سلوک کا طے کرنا ضروری ہے ورنہ تکمیل نہیں ہو گی۔ قرآن پاک میں واضح طور پر بتایا گیا ہے:

﴿يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ  ارْجِعِي إِلٰی رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً  فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: 27 تا 30)

ترجمہ: ”اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہوجا میری جنت میں۔“

راضی“ پہلے ہے ”مرضی“ بعد میں ہے۔ ”عبادی“ میں داخل ہونا پہلے ہے اور ”جنت“ میں داخل ہونا بعد میں ہے۔ لہذا یہاں پر راضی ہونا پڑے گا اس کے لئے مقام رضا حاصل کرنا پڑے گا جو سلوک کا آخری مقام ہے۔ اس کے ذریعے سے اللہ پاک کی رضا حاصل ہو جائے گی۔ دوسری طرف عبدیت کا مقام حاصل کرنا پڑے گا جو وصول کا مظہر ہے۔ اس کے بدلے میں اللہ پاک جنت میں داخل فرما دیں گے۔ قرآن پاک میں بڑی کلیئر بات ہے کہ جب تک نفس کی اصلاح نہ ہو، نفس جب تک مطمئنہ نہ ہو تب تک تکمیل نہیں ہوتی۔ اصل علاج اپنے نفس کا ہے کیونکہ گندگی نفس کی طرف سے آتی ہے۔ اللہ پاک نے فجور کا مادہ اسی کے اندر رکھا ہے اور شیطان اس کو استعمال کر رہا ہے۔ نفس کو دبا کر اس کے فجور سے بچنے کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ دل میں سٹور ہوتا ہے۔ جب تک تقویٰ نہیں ہوتا تب تک نفس سے فجور کی گندگی پیدا ہوتی رہتی ہے اور مسلسل دل میں جاتی رہتی ہے۔ اس لئے دل کو صاف کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ نفس کی طرف سے فجور کا جو گند آ رہا ہے اسے بھی روکنا ضروری ہے۔ اگر صرف دل کو صاف کر لیا مگر نفس کے طرف سے آنے والے فجور کو نہ روکا تو جتنا دل صاف کریں گے اُدھر سے اتنی گندگی مزید آ جائے گی۔ اس لئے دونوں کام ضروری ہیں۔ دل کو بھی پاک کیا جائے اور نفس کی اصلاح بھی کی جائے۔

بالکل واضح بات عرض کرتا ہوں کہ پرانے دور میں بزرگوں کا اصلاح کا طریقہ انتہائی مناسب اور انتہائی موثر طریقہ تھا۔ پہلے وہ نفس کا علاج کراتے تھے پہلے سلوک طے کراتے تھے تاکہ فجور کے راستے بند ہو جائیں پھر دل کا علاج کرتے تھے۔ نفس کے علاج کے بعد دل کا علاج بڑا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ مزید فجور اور گندگی آنے کے راستے بند ہو جاتے ہیں، جب وہ راستے بند ہو گئے اس کے بعد موجودہ گند کو نکالنے کے لئے تھوڑا سا ذکر بھی کافی ہو جائے گا اور دل پاک و صاف ہو جائے گا۔ اُس وقت لوگ اپنے نفس کی اصلاح کے لئے مجاہدات اور سلوک طے کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بگاڑ بڑھ گیا اور ایسا ہوا کہ لوگ نفس کی اصلاح کے لئے سلوک طے کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے، جیسا کہ آج کل بھی یہی حالت ہے۔ اس لئے اب یہ ضروری ہوا کہ پہلے انہیں سلوک کے لئے تیار کیا جائے کسی طرح ان کے دل میں اپنی اصلاح کے لئے سلوک کی مشقتیں برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس کام کے لئے جذب کسبی کو متعارف  کروایا گیا۔ خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے مجبوری کے تحت جذب کسبی کو  متعارف کرایا تاکہ اس کی وجہ سے لوگ سلوک طے کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اصل علاج کے لئے تیار ہو جائیں جب اصل علاج کے لئے تیار ہو جائیں گے تو انہیں اصل چیز بھی مل جائے گی۔ یہ طریقہ نسبتاً  indirect ہے۔ اس کو حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ طریقِ نا مسلوک کہتے ہیں۔ دیکھنا چاہو تو مکتوبات شریفہ میں دیکھ لو، اس کو حضرت نے طریق نا مسلوک کہا ہے۔ یہ طریقہ ہے تو شارٹ کٹ لیکن اس میں کافی چیلنجز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو جذب کسبی حاصل ہوتا ہے تو اس پہ جذب منتہی کا گمان ہوتا ہے، لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ جذب مبتدی الگ چیز ہے جذب منتہی الگ چیز ہے۔ کہاں یہ جذب جو انسان کی اپنی کوشش سے پیدا ہوتا ہے اور کہاں وہ جذب جو اللہ کی طرف سے آتا ہے جو وہبی ہے۔ یہ ابتدا میں حاصل ہوتا ہے اور وقتی طور پر ہوتا ہے، جب کہ دوسرا جذب، جزب وہبی تکمیل کے بعد عطا ہوتا ہے اور ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے۔ جذب کسبی مجبوری کے تحت حاصل کیا جاتا ہے یہ مقصودی نہیں ہے یہ محض ایک ذریعہ ہے سلوک کی تیاری کا۔ حضرات فرماتے ہیں کہ جب یہ جذب کسبی اتنا حاصل ہو جائے کہ آدمی سلوک کے لئے تیار ہو جائے تو بس پھر جذب کسبی کا مزید حصول چھوڑ دو اور اب سلوک کی راہ پر چلاؤ۔

پہلے میں بھی ان چیزوں میں کافی متحیر تھا۔ الحمد للہ، اللہ پاک نے حضرت کی برکت سے یہ چیز مجھ پر کھول دی کہ جذب کسبی مقصود نہیں ہے بلکہ ذریعہ ہے اور اب تو میں یہاں تک کہتا ہوں کہ مراقبات بھی مقصود نہیں ہیں۔ اگر آپ کو ذکر جہری کے ساتھ جذب کسبی حاصل ہو گیا تو بس جذب کا مزید حصول وہیں روک دو اور اب سلوک طے کرنا شروع کر دو۔

ایک خاتون جو ہمارے سلسلے میں چلی رہی تھی، میں نے اس کو ابھی صرف ذکر قلبی ہی دیا تھا کہ اس کے سارے لطائف جاری ہونا شروع ہو گئے۔ بس جذب کسبی پورا ہو گیا اب اس کے بعد مزید جذب کسبی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا مقصد یہ تو نہیں کہ سالک کو بس سیر کراتے رہیں۔ اس سے سالک کا نقصان ہوتا ہے۔ لوگ ان چکروں میں آ جاتے ہیں کہ بس میں تو عرش پہ پہنچ گیا میں تو فلاں جگہ پہ پہنچ گیا۔ جب وہ ایسی ایسی بلندیوں پہ پرواز کرے گا تو کیا نیچے اترے گا؟ اگر وہ نیچے ہی نہیں اترے گا تو اس کے ساتھ آگے معاملہ کیسے چل سکتا ہے؟ ایسے لوگوں کے لئے بڑا پاور فل شیخ چاہیے اور وہ ان لوگوں کے ساتھ اپنا رابطہ یوں منسلک رکھے جیسے پتنگ کے ساتھ ڈور ہوتی ہے، کہ ہوا اور آندھی چاہے کتنی ہی تیز چل رہی ہو ماہر آدمی پتنگ کو بڑے طریقے اور مہارت کے ساتھ نیچے اتار ہی لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے ایسا ہی شیخ چاہیے جو ان لوگوں کو سلوک طے کرنے کے لئے نیچے اتار سکے۔

ایک دفعہ میں نے اپنے شیخ سے پوچھا کہ اگر جذب کسبی حاصل ہو جائے، اس کے بعد سلوک طے ہو جائے، سیر الی اللہ مکمل ہو جائے تو وہ مراقبات جو جذب کسبی کے لئے استعمال ہوتے ہیں کیا وہ ہم سیر فی اللہ میں کر سکتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: یہ مراقبات صرف ذریعہ ہیں، مقصود نہیں ہیں، جو ہمارا مقصود تھا وہ ہمیں حاصل ہو چکا ہے، اس لئے اب ان مراقبات/ذرائع کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اب مستقل مزاجی سے صحابہ کے طریقے پہ چلنا ہے، اسی کو سیر فی اللہ کہتے ہیں۔ اب وہی شریعت کے اعمال کیفیت احسان کے ساتھ کرنے ہیں اور شریعت پر عمل کرنا ہے۔

یہی بات حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صاحب سے فرمائی تھی۔ انہوں نے حضرت سے پوچھا: حضرت میں نے یہ چیز ایک طریقہ سے حاصل کی ہے، کیا میں آپ کے طریقہ پہ دوبارہ اس چیز کو حاصل کر سکتا ہوں؟ فرمایا: بتاؤ کیفیت احسان حاصل ہے یا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاصل ہے۔ فرمایا: پھر کیا خیال ہے ایک بار درس نظامی مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اس کو پڑھنا چاہتے ہو؟ جو اصل مقصد تھا وہ تو اُس طریقہ سے بھی حاصل ہو گیا جو طریقہ آپ نے اختیار کیا، اگر اس طریقہ سے کیفیت احساں حاصل ہے تو پھر بار بار ذرائع میں لگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً آپ نے عربی سیکھنا تھی۔ عربی گرامر آپ کو ”صرف بہائی“ کے ذریعے حاصل ہو گئی، اب اس کے بعد صرف میر کے ذریعہ دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ مقصود حاصل ہو گیا ہے، اور یہ کافی ہے۔

اصل چیز سلوک طے کرنا ہے۔ ﴿یَا اَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃ (الفجر: 27) کا ٹائٹل حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے (آمین)۔ اور ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 9) کو سینے سے لگانا ہے۔ یہ حاصل ہو جائے تو اس کے بعد پھر ذرائع میں دوبارہ نہیں لگنا بس شریعت پر چلنا ہے۔ اگر آپ ذکرِ جہری، مراقبات اور تصوف کا مقصد شریعت پر عمل کے علاوہ کچھ اور سمجھتے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں۔ ہم یہاں پر شریعت پر چلنے کے لئے آئے ہیں۔ صحابہ کرام یہی تو کرتے تھے، انہیں اللہ پاک اسی میں سارا کچھ دیتے تھے۔ حدیث شریف ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ جب نبی پاک ﷺ نے واضح فرما دیا کہ اگر مومن کو معراج حاصل کرنی ہے مقامات پانے ہیں اللہ کی رضا تک پہنچنا ہے تو نماز پڑھے اسی سے اس کو معراج حاصل ہوگی۔ جب آپ کو نماز پڑھنا میسر ہے، آپ نفس پر قابو پا چکے ہیں اب آپ کا نفس اڑی نہیں ڈالتا تو آپ نماز کے ذریعے اپنے رب تک پہنچیں، اب مراقبات کے ذریعے سے کیوں پہنچنا چاہتے ہیں؟ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھو اور معراج حاصل کر لو۔ ؎

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

آپ ایک سجدہ صحیح طریقے سےکر لیں پھر دیکھیں اللہ آپ کو کہاں پہنچاتا ہے۔ بھئی اصل میں یہی چیزیں حاصل کرنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ اگر یہ معرفت حاصل ہو گئی تو میں کہتا ہوں کہ یہ معرفت ساری معرفتوں کی جان ہے، ساری معرفتوں کی ماں ہے۔ بس اس کے بعد سیدھی راہ پہ چلتے جاؤ، سیر فی اللہ نہ ختم ہونے والا راستہ ہے اس کا end کوئی نہیں۔ بس انہی راستوں پہ نفس کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ پاک کے پاس جانا ہے۔

؏ انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ

ہمیں تو اللہ کے پاس جانا ہے، اللہ تعالی سے ملنا ہے اور اس کے لئے یہی طریقہ ہے کہ سلوک طے کر لو، سیر الی اللہ مکمل ہو جائے پھر سیر فی اللہ پہ چلتے رہو، شریعت پہ چلتے رہو، صحابہ کرام کے طریقے پہ چلتے رہو۔

مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (سنن الترمذی: 2641)کو اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ کیا چیز ہے۔ ناجیہ فرقہ کی تعریف آپ ﷺ نے کیا فرمائی ہے؟ فرمایا: نجات پانے والا گروہ وہ ہے جو اس راستے پہ چلے جس پر میں اور میرے صحابہ چلے ہیں۔ یہ حکم قیامت تک کے لئے ہے اور زندگی کے ہر پہلو کے لئے ہے۔ لوگ اس کو صرف عقائد تک محدود سمجھتے ہیں جبکہ یہ زندگی کے ہر ہر شعبہ کے لئے ہے۔ امید ہے بات سمجھ میں آ گئی ہو گی۔ الحمد للہ بہت آسان بات ہو گئی۔ جب مجھے یہ بات سمجھ آئی تو بالکل ایسا لگا جیسے سر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔ ورنہ میں تو کتابوں میں پھنسا ہوا تھا، تحقیق کیے جا رہا تھا مگر سمجھ نہ آتی تھی۔ کتابیں بھی تو ایک ذریعہ ہیں مقصود نہیں ہیں۔ اصل یہی ہے کہ آپ قرآن کی ہدایت کو حاصل کر لیں، آپ ﷺ کے طریقوں کو احادیث شریفہ سے اور صحابہ کرام کے طریقوں کو آثار صحابہ سے حاصل کر لیں۔ اور پھر ان طریقوں پہ تا حیات عمل کرتے رہیں۔ وَ مَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَاغ۔

سوال نمبر13:

حضرت جی۔ کوئی آدمی خواب میں دیکھے کہ سانپ زندہ ہوتا ہے پھر مر جاتا ہے پھر زندہ ہوتا ہے پھر مر جاتا ہے۔ کیا یہ سلوک کا ہی ایک طریقہ ہے؟

جواب:

آپ نے یہ بڑا اچھا اور موقع کا سوال کیا ہے۔ سوال جواب کی ابتدائی مجالس سے میرا معمول ہے کہ جب بھی کوئی مجھ سے حسد کے بارے میں یا دوسری روحانی بیماریوں کے پوچھتا ہے کہ انہیں کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ یا خشوع و خضوع اور اخلاص کے بارے میں پوچھتا ہے کہ اس کو کیسے حاصل کریں تو میں جواب دیتا ہوں کہ ان سب اچھی چیزوں کے حصول اور بری چیزوں سے بچاؤ کے دو طریقے ہیں، ایک فوری طریقہ اور ایک مستقل علاج ہے۔ مستقل علاج تو یہ ہے کہ نفس کی اصلاح ہو جائے مقاماتِ سلوک طے ہو جائیں تو پھر سب اچھائیاں حاصل ہو جائیں گی اور برائیاں نکل جائیں گی۔ جبکہ فوری علاج ہر کیفیت کے حساب سے الگ الگ ہوتا ہے۔ مثلاً غصہ آ گیا تو اس کا فوری علاج یہ ہے کہ اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں، جگہ بدل لیں، پانی پی لیں یا اپنے آپ کو کسی اور کام میں  busy کر لیں۔ یہ فوری علاج ہے لیکن مستقل علاج تب ہو گا جب غصہ کی جڑ ختم ہو گی، جب تک root باقی ہے تب تک مکمل علاج نہیں ہو سکتا اور غصہ دوبارہ آ سکتا ہے۔ غصہ کی جڑ نفس امارہ ہے، اسے نفس مطمئنہ بنانا پڑے گا۔ وقتی طور پر تو آپ نے نفس امارہ کو اپنی Will power کے ذریعے reject کر دیا اور آپ کو تقویٰ حاصل ہو گیا لیکن root ختم نہیں ہوا، root ختم کرنے کے لئے آپ کو اصلاح کی پوری کوشش کرنا پڑے گی۔ نفس مطمئنہ حاصل کرنا ہو گا اور اس کے لئے دس مقامات تفصیل سے طے کرنے ہوں گے۔ اگر یہ دس مقامات تفصیل سے طے ہو جائیں تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ اب یہ دوبارہ واپس نہیں آئے گا، عود نہیں ہو گا۔ عود زیادہ تر جذب کسبی کے دوران ہوتا ہے کیونکہ جذب کسبی دیرپا نہیں ہوتا۔ جذب کسبی میں عارضی طور پر نفس دب جاتا ہے آدمی سمجھتا ہے کہ اب سب ٹھیک ہو گیا اور میں بالکل پاک ہو گیا ہوں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، ایسی صورت میں نفس کی مثال سانپ کی سی ہے جو سردی میں حرکت نہیں کر سکتا اور ایسا ہو جاتا ہے جیسے مرا ہوا ہو۔ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ مر گیا لیکن جب اس کو دوبارہ حرارت ملتی ہے تو وہ پھر زندہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اصل میں مرا ہی نہیں تھا بلکہ صرف مرا ہوا نظر آ رہا تھا۔ نفس امارہ بھی اسی سانپ کی طرح ہے، جذب کسبی کے دوران یہ مرا ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہ تب مرے گا جب نفس مطمئنہ حاصل ہو گا۔ جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کاملین کو حفاظتی نظام دے دیتے ہیں۔ جب ان کا نفس ذرا سا سر اٹھاتا ہے تو وہ اس کا علاج کر لیتے ہیں۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کو مزین و منقش کپڑے پہنا دیئے گئے تو فرمایا: اوہ معاویہ تم نے تو مجھے ہلاک کر دیا۔ اور کپڑے اتار کر واپس کر دیئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے کپڑوں پہ اچھی نظر پڑی تو آستین ہی کاٹ دی۔ یہ حضرات فوراً اس کا علاج کر لیتے تھے کیوں کہ ان کو نفس مطئنہ حاصل تھا۔ جب نفس مطمئنہ حاصل ہو جائے تو پھر اگر کبھی کوئی مسئلہ ہو بھی‘ تو اس کا علاج ہو جاتا ہے۔

بہرحال خواب میں یہ دیکھنا کہ سانپ کو مارنے کے باوجود وہ دوبارہ زندہ ہو رہا ہے، یہ نفس کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر14:

حب مال کیا چیز ہے؟

جواب:

حب مال سے مراد ہے مال کی محبت۔ درجہ ضرورت میں مال اپنے پاس رکھنے پہ کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مال کی ایسی محبت جو آپ کو شریعت پر چلنے سے روک دے، اس پہ پابندی ہے۔ مثلاً آپ کے دل میں مال کی اتنی محبت آ جائے جو زکوۃ دینے سے روک دے یا حج کرنے سے روک دے یا پڑوسیوں کے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے روک دے، قطع رحمی کی طرف لے جائے۔ یہ ساری باتیں چونکہ شریعت میں نا جائز ہیں لہذا مال کی ایسی محبت نا جائز ہو گی جو نا جائز کاموں کی طرف لے جائے اور ایسی محبت ایک روحانی بیماری ہے اس کا علاج کرنا پڑے گا۔ ہاں ضرورت کے درجہ میں حلال مال حاصل کرنے میں کوئی گناہ نہیں جیسے اتنا مال کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے جس سے روٹی کپڑا اور مکان کا بندوبست ہو سکے، آدمی نکاح کر سکے۔

یاد رہے کہ مال چاہے کم ہو یا زیادہ اگر وہ حلال طریقے سے حاصل کیا گیا ہے اور حلال مصارف پہ خرچ ہو رہا ہے تو وہ مال بھی ثواب کا ذریعہ بن جاتا ہے کیونکہ اگر دنیاوی جائز کام دین اور اللہ کی رضا کی نیت سے کئے جائیں تو وہ بھی دین بن جاتے ہیں۔

مثلاً آپ کہیں تنخواہ پر ملازمت کرتے ہیں اور وہ کام جائز ہے نا جائز نہیں ہے تو وہ کام کرنا آپ کی ذمہ داری ہے اگر آپ نہیں کریں گے تو اس کا گناہ آپ پہ ہو گا کیونکہ آپ نے اپنا وقت اس دفتر کو بیچ دیا ہے اب اس وقت کے مالک آپ نہیں ہیں۔ ہاں اگر آپ وہاں کام کرتے ہوئے حلال کمانے کی نیت کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو حرام سے بچانے کی نیت کر لیتے ہیں، سوال سے بچانے کی نیت کر لیتے ہیں تو پھر یہ دنیا کا کام بھی آپ کے لئے دین بن جائے گا۔

جو وقت آپ دفاتر میں ملازمت کرتے ہوئے دیتے ہیں اس وقت میں نفل نماز نہیں پڑھ سکتے۔ دفتر میں عبادات کے لحاظ سے نفلی کام نہیں کر سکتے کیونکہ آپ یہ وقت ان کا کام کرنے کے لئے بیچ چکے ہیں۔ اب یہ وقت کسی اور کا ہے اس لئے آپ اس کو اپنے طور پہ استعمال نہیں کرسکتے۔ ہمارے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میری جو نماز دفتر میں آتی تھی میں اس وقت میں صرف نماز پڑھ لیتا تھا تسبیحات فاطمی بھی نہیں کرتا تھا۔

اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ان چیزوں کو سیکھنا چاہیے یہ بھی شریعت ہے یہ بھی دین ہے کہ آپ ایسی چیزوں کو سیکھ کر شریعت کے مطابق عمل کریں کیونکہ کسی کا حق مارنا تو بے دینی ہے اور بے دینی سے بچنا دین ہے۔

سوال نمبر15:

جو لوگ لڑائی جھگڑے میں مر جاتے ہیں، کیا یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے یا اس میں بندوں کا ہی ہاتھ ہے۔

جواب:

اس سوال کا جواب میں کئی بار دے چکا ہوں، چونکہ آپ کبھی کبھی آتے ہیں اس وجہ سے شاید آپ کو پتا نہ چلا ہو۔ میں اکثر مثال دیتا ہوں کہ دیکھو یہ بٹن ہے۔ جب آپ اس بٹن کو دباتے ہیں تو یہ لائٹ آن ہو جاتی ہے۔ جس نے بھی اس بٹن پہ ہاتھ رکھ کے دبایا لائٹ آن ہو گئی۔ لوگ پوچھیں گے کہ لائٹ کس نے آن کی تو کیا جواب ہوگا؟ سب یہی کہیں گے کہ اس شخص نے آن کی حالانکہ اصل میں لائٹ اس سرکٹ کے مکمل ہونے سے آن ہوئی ہے جو اس بٹن کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اب بنیادی طور پر تو لائٹ سرکٹ نے آن کی لیکن نام اس شخص کا لگ گیا جس نے لائٹ آن کرنے کا ارادہ کیا اور اس ارادے کو عمل میں لانے کے لئے بٹن دبا دیا۔ بعینہ اسی طریقے سے کرتا اللہ ہی ہے لیکن نام اس آدمی کا لگتا ہے جس نے ارادہ کیا اور اس ارادے کو عمل میں لایا۔ مثلاً کوئی کسی کو گولی مار رہا ہے، اگر اللہ نہ چاہے تو کیا وہ گولی انسان کو مار سکتی ہے؟ اب اس کو مارنے کے لئے اس نظام کو آخر تک پہنچانا یہ اللہ کا کام ہے لیکن اس پہ نام اس کا لگے گا جس نے گولی چلائی ہے۔ اگر اس نے جائز طریقے سے چلائی ہے تو اس کو ثواب ملے گا جیسے کافر کو جنگ میں مارنے پر ثواب ملتا ہے اور اگر اس نے نا جائز ماری ہے تو عذاب و عقاب ملے گا۔ یہیں پہ اختیار کی بات آ جاتی ہے کہ بندے کو اچھے اور برے کے درمیان اختیار دیا گیا ہے وہ جس طرف چاہے اس اختیار کو استعمال کر سکتا ہے۔ اس اختیار کو درست کام میں استعمال کرنا چاہیے۔

سوال نمبر 16:

ایک اللہ کا دین ہے اللہ کی مرضی کا، ایک اپنے نفس کی مرضی کا دین ہے۔ پہلی چیز عمل ہے، عمل سے پتا چلتا ہے۔ ایک آدمی کے اندر سلوک کے رستے سے اعمال آنے لگ گئے اور ایک آدمی کی زندگی میں سلوک طے کئے بغیر اعمال نظر آ رہے ہیں، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ سب اعمال وہ کر رہا ہے لیکن اس کا راستہ سلوک نہیں بلکہ تبلیغ ہے۔ اس کے بارے میں کیا کہیں گے، وضاحت فرما دیجیے۔

جواب:

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ایک سٹیٹمنٹ ہے، آج کل میں ہی میں نے کہیں پڑھی ہے۔ پیام سحر میں شئیر کی گئی تھی۔

”قَالَ الْاِمَامُ مَالِکٌ رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی: مَنْ تَصَوَّفَ وَ لَمْ یَتَفَقّہْ فَقَدْ تَزَنْدَقَ، وَ مَنْ تَفَقَّہَ وَ لَمْ یَتَصَوَّفْ فَقَدْ تَفَسَّقَ، وَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَھُمَا فَقَدْ تَحَقَّقَ۔ (حاشية العلامة العدوي على شرح الإمام الزرقاني على متن العزية في الفقه المالكي، ج3 ص195)

ترجمہ: ”امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے جو صوفی ہوا اور فقہ حاصل نہیں کیا پس بلاشبہ وہ زندیق ہوا اور جو فقیہ ہوا اور تصوف حاصل نہیں کیا اس کے فاسق ہونے کا خدشہ ہے اور جس نے دونوں کو جمع کیا پس بلا شبہ وہ محقق ہوا۔“

امید ہے اس سے آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ یہاں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی بات بھی یاد رہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ بھی وہی کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ حضرت نے جواب دیا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تم جو اعمال کرتے ہو وہ تمہارا نفس کھا جاتا ہے۔ اب نفس کو اپنے اعمال کھانے سے روکنا کہ آپ کا نیک عمل نفس کے ہتھے چڑھے بغیر سیدھا اللہ کے پاس چلا جائے، یہ طریقت سے آئے گا، اسی کے لئے سب کچھ کرنا ہے۔

سوال نمبر17:

حضرت۔ ہر چیز کے حصول کا کچھ نہ کچھ وقت بتایا جاتا ہے۔ کیا سلوک طے کرنے اور سیر الی اللہ مکمل ہونے کا بھی کوئی مخصوص وقت ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ کوئی آدمی زیادہ سے زیادہ اتنے وقت میں سیر الی اللہ طے کر لے گا، سلوک طے کر لے گا اور اس کی اصلاح اتنے وقت میں ہو جائے گی؟

جواب:

بات یہ ہے کہ اللہ پاک کا قانون بڑا پکا ہے۔ آپ نے بھی یہ قانون سنا ہوگا: "No risk no gain" جو risk لیتا ہے وہی کچھ gain کرتا ہے۔ جس کا risk کم ہوتا ہے اس کے بگاڑ کے chances بھی کم ہوتے ہیں لیکن اگر وہ بچ جائے تو اس کا فائدہ بھی اس کو کم ہوتا ہے اور جس کے بگاڑ کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں اگر وہ بچ جائے تو اس کا فائدہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے ایسا نظام بنایا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ چیز جلدی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ ان کے لئے کوئی موانع نہیں ہوتے اور بعض لوگوں کو دیر سے ملتی ہے کیونکہ ان کے لئے موانع ہوتے ہیں، پہلے وہ ان موانع کو کلیئر کرتے ہیں تب انہیں منزل حاصل ہوتی ہے۔ اب اس میں کس کے لئے ایگزیکٹ کتنا وقت لگتا ہے اس کی کیلکولیشن تو اللہ کے پاس ہے۔ ہو سکتا ہے کسی کے راستے میں موانع بہت زیادہ ہوں لیکن وہ کوشش و محنت کرکے ان سب کو ختم کر لے اور اللہ تعالیٰ اس کا سلوک جلدی طے کروا دیں اور ہو سکتا ہے کسی کے راستے میں کوئی مشکل نہ ہو وہ پھر بھی محنت کم کرے تو اسے زیادہ وقت لگ جائے۔

اللہ پاک نے قرآن پاک میں ایک عجیب بات فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔ فرمایا:

﴿رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ﴾ (النور: 37)

ترجمہ: ”وہ ایسے آدمی ہیں جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خریدو فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی“۔

یعنی آدمی وہ ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے یاد سے غافل نہ کرے۔ لوگ مسجد میں اللہ کو یاد نہیں کرتے لیکن یہ لوگ بازار میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ آخر کچھ بات تو ہے کہ ایک آدمی مسجد میں بیٹھ کے ذکر نہیں کر رہا وہ اللہ کے پسندیدہ لوگوں میں سے نہیں ہے اور جو بازار میں اللہ سے غافل نہیں ہو رہا اس کی خاص قدر و منزلت ہے۔ ہم لوگوں کو ٹارگٹ پہ نظر کرنی چاہیے، اگر آسان ہو تو اللہ کا شکر کریں تاکہ شکر سے مل جائے اور اگر آسان نہ ہو تو صبر و استقامت کے ساتھ چلتے رہو تاکہ صبر کی برکت سے وہ چیز بھی حاصل ہو جائے اور اجر بھی زیادہ ملے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بس اپنے مشائخ کے سلیبس پہ چلتے رہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب