اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج بدھ کا دن ہے بدھ کے دن ہمارے ہاں، یعنی ہماری خانقاہ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کی تشریح ہوتی ہے۔ آج مکتوب نمبر 252 سے شروع کیا جا رہا ہے۔
مکتوب نمبر 252
یہ مکتوب شریف جناب شیخ بدیع الدین1 کی طرف صادر فرمایا۔ بعض سوالات کے جواب میں اور اس کے مناسب بیان ہیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)
سعادت مند بھائی کا مکتوب موصول ہو کر بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوا۔۔۔ آپ نے جو سوالات کئے تھے ان کے جواب میں آپ کو معلوم ہو کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ سبحانہ علی نبینا و علیہما کا مبدأ تعین (سرچشمه) ’’صفت العلم‘‘ ہے۔ جیسا کہ تعین محمدی علیہ الصلوۃ و السلام کا مبدأ یہی صفت (صفت العلم) ہے، فرق صرف جہات اور اعتبارات کا ہے، کیونکہ اس صفت کی ایک جانب عالِم کی طرف ہے اور دوسری معلوم کی طرف۔ پہلی وجہ (جانب) وحدت کے مناسب ہے اور دوسری وجہ کثرت کے موافق۔ اور اس صفت کے لیے بھی اجمال و تفصیل ہے کہ ہر ایک اعتبار کسی ایک بزرگ کے مبدأ تعین سے ہے۔
دوسرے وہ معارف جو نبوت و ولایت کا بار اُٹھانے سے تعلق رکھتے ہیں وہ خواجہ محمد اشرف کے نام والے مکتوب 251 میں تفصیل کے ساتھ درج ہو چکے ہیں دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے وہاں سے معلوم کرلیں۔ دوسرے یہ کہ (فقیر) چاہتا تھا کہ اس استفسار کے جواب میں کہ قطب اور غوث اور خلیفہ کے درمیان کیا فرق ہے، کچھ لکھے، لیکن اذن نہ ہوا۔ ان کو دوسرے وقت کیلئے موقوف رکھیں۔ والسلام
تشریح:
سبحان اللہ! پہلے بھی چونکہ اس پہ کافی بات ہو چکی ہے، لہٰذا اس میں بہت زیادہ بات کرنا مناسب تو نہیں ہوگا کہ مبدأ تعین، یعنی جس کو ہم سر چشمہ کہتے ہیں جہاں سے کوئی چیز شروع ہوتی ہے وہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے وہ ہوتی ہے اور جن لوگوں کا کوئی مبدأ تعین ہو وہی ان کا مربّی بھی ہوتا ہے، یعنی اس کے ذریعے سے ان کی ترقّی ہوتی ہے۔ نوح علیہ السلام کے بارے میں اور ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں حضرت فرماتے ہیں کہ ان کا سر چشمہ صفت العلم ہے یعنی علم۔ اور آپﷺ کا بھی مبدأ یہی صفت العلم ہے۔ صرف یہ ہے کہ جو جہتیں ہیں اور اعتبارات ہیں ان کی وجہ سے کچھ فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ جو یہ صفت ہے چونکہ یہ صفت العلم ہے تو اس کی ایک جانب عالم ہے یعنی جو علم رکھتا ہے اور دوسری جانب معلوم ہے یعنی جس کو معلوم کرنا ہے۔ تو پہلی جو جانب ہے یہ وحدت کے مناسب ہے یعنی یہاں پر وحدت پائی جاتی ہے، یہاں پر ساری چیزیں اکٹھی ہیں۔ اور دوسری طرف اس کے پھر مختلف طرق اور صفات کثرت کے لحاظ سے ہیں، لہٰذا یہ ہر صفت کے لیے بھی اجمال و تفصیل ہے یعنی اجمال میں کوئی چیز مانی جائے تو پھر تفصیل سے ماننی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اجمال میں تو جیسے بتایا گیا کہ صفت العلم ہے، لیکن تفصیل میں پھر جہتیں اور اعتبارات اور تمام چیزیں آ جاتی ہیں۔ تو جو بھی اس کا مبدأ تعین ہوتا ہے اس کے حساب سے وہ تفصیلات ہوتی ہیں۔ دوسرے فرمایا کہ وہ معارف جو نبوت و ولایت کا بار اُٹھانے سے تعلق رکھتے ہیں، فرمایا کہ میں نے ایک اور مکتوب میں لکھے ہیں اور وہ مکتوب 251 گزر چکا ہے، تو 251 میں جو تفصیل بتائی گئی ہے فرمایا کہ اسی کو لے لیں اور وہ کافی لمبا مکتوب ہے جو پہلے ہمارا بیان ہو چکا ہے 20 تاریخ کو، یہ مدینہ منورہ سے نشر ہوا تھا۔
مکتوب نمبر 253
متن: مشیخت مآب شیخ ادریس سامانی2 کی طرف صادر فرمایا۔ ان کے سوالات کے جواب میں اور اس راہ کی بے نہایتی اور رمز و اجمال کے طور پر بعض مقامات و منازل کی تفصیل کے بیان میں۔
حمد و صلوۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد عرض ہے کہ اس طرف کے فقراء کے اوضاع و احوال حمد کے لائق ہیں، اور اللہ سبحانہٗ کے حضور میں آپ کے لیے آنحضرت علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے پسندیدہ طریقے پر سلامتی، عافیت، ثابت قدمی اور استقامت کا سوال کرتا ہوں۔ اُن احوال و مواجید کا بیان (آپ نے) مولانا عبد المؤمن کی زبانی حوالے کیا تھا، اور ان کا جواب چاہا تھا، مولانا نے مفصل طور پر اس کو بیان کر کے کہا کہ آپ نے فرمایا ہے: ”اگر میں زمین کی طرف نظر کرتا ہوں تو زمین کو نہیں پاتا اور اگر آسمان کی جانب دیکھتا ہوں تو اس کو بھی نہیں پاتا اور اسی طرح عرش و کرسی، بہشت و دوزخ کا وجود بھی نہیں پاتا، اور اگر کسی شخص کے پاس جاتا ہوں تو اس کا وجود بھی نہیں پاتا اور خود کو بھی موجود نہیں جانتا۔ حق جل شانہٗ کا وجود بے پایاں ہے اس کی نہایت کو کسی نے نہیں پایا۔ بزرگان (مشائخِ طریقت) اسی مقام تک کی گفتگو کرتے ہیں اور یہاں تک پہنچ کر وہ (مزید) سیر سے عاجز ہو گئے ہیں اور اس معنی سے زیادہ (سلوک) اختیار نہیں کر سکے۔ اگر آپ بھی اسی کو کمال سمجھتے ہیں اور اسی مقام میں ہیں تو پھر میں آپ کے پاس کس لئے آؤں اور کیوں تکلیف برداشت کروں، اور اگر اس کمال کے علاوہ کوئی اور امر ہے تو اس کی اطلاع دیں تاکہ میں ایک دوست کے ساتھ جو بہت زیادہ درد و طلب رکھتا ہے، آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اس تردد کے حصول کی وجہ سے حاضر ہونے میں چند سال توقف رہا“۔
میرے مخدوم! یہ احوال اور انہی احوال کے مثل (واقعات) قلب کی تلوینات3 کی وجہ سے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان احوال والے شخص نے مقاماتِ قلب سے ابھی چوتھے حصے سے زیادہ طے نہیں کیا، مقاماتِ قلب کے تین حصے اور طے کرنے چاہئیں تاکہ قلب کا معاملہ پورے طور پر طے ہو جائے۔ قلب کے بعد روح کا معاملہ اور روح کے بعد سِر ہے، سِر کے بعد خفی، پھر اس کے بعد اخفی ہے۔ ان باقی ماندہ چاروں (مقامات) میں سے ہر ایک کے احوال و مواجید علیحدہ ہیں لہٰذا ہر ایک کو جدا جدا طے کرنا چاہیے اور ہر ایک کے کمالات سے مزین ہونا چاہیے۔ عالمِ امر کے ان پنج گانہ (پانچوں لطائف) سے گزرنے کے بعد اور ان کی اصول کی منازل کو درجہ بدرجہ طے کرنے کے بعد، اور اسماء وصفات کے مدارجِ ظلال طے کرنے کے بعد جو کہ درجہ بدرجہ ان اصولوں کے اصول ہیں، اسماء و صفات کی تجلیات اور شیون و اعتبارات کے ظہورات ہیں، ان تجلیات سے گزرنے کے بعد تجلیاتِ ذات تعالیٰ و تقدس ہے۔
اس وقت یہ معاملہ نفس کے اطمینان پر آ جاتا ہے اور پرور دگار جل سلطانہٗ کی رضا کا حصول میسر ہو جاتا ہے، اور وہ کمالات جو اس مقام (رضا و اطمینان کے مقام) پر حاصل ہوتے ہیں، ان کے مقابلے میں سابقہ کمالات دریائے محیط کے مقابلے میں قطرے کا حکم رکھتے ہیں۔ اس جگہ شرحِ صدر میسر ہوتا ہے اور (انسان) اسلامِ حقیقی سے مشرف ہو جاتا ہے۔
کار ایں است و غیر ایں ہمہ ہیچ
ترجمہ:
کام اصلی ہے یہی اور باقی سب کچھ ہیچ ہے
اسماء و صفات کی وہ تجلیات جو عالمِ امر کے ان پنج گانہ منازل کو مع ان کے اصولوں اور اصولِ اصول کے قطع کرنے سے پہلے متوہم معلوم ہوتی ہیں، وہ عالمِ امر کے بعض خواص کے ظہورات ہیں جو بے چونی اور لا مکانیت سے کچھ حصہ رکھتے ہیں نہ کہ اسماء و صفات کی تجلیات سے۔ کسی سالک نے اسی مقام پر کہا ہے کہ میں تیس 30 سال تک روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتا رہا۔ لہٰذا وصول کہاں اور سیری کس کے لیے؟ شعر:
کَیْفَ الْوُصُوْلُ إِلٰی سُعَادَ وَ دُوْنَھَا
قَلَلُ الْجِبَالِ وَدُوْنَھُنَّ خُیُوْفٌ
ترجمہ:
کس طرح پہنچوں درِ محبوب تک
درمیاں ہیں پُر خطر کوہ اور غار
چونکہ آپ نے خصوصیت کے ساتھ اس راہ کی حقیقت کی طلب ظاہر کی تھی لہٰذا مختصر طور پر اس کا کچھ بیان تحریر کیا گیا ہے۔ وَالْأَمْرُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ (اور اصل معاملہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے)
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَعَلٰی مَنْ لَّدَیْکُمْ (آپ پر اور آپ کے احباب پر سلام ہو)
تشریح:
اصل میں حضرت کا جو ذوق ہے وہ یہی ہے کہ کسی جگہ رکا نہ جائے اور اس راستے میں ہوتا یہی ہے کہ جو جس منزل پر ہوتا ہے اس منزل کو ہی اصل منزل سمجھ لیتا ہے۔ مثال کے طور پر سیڑھیاں کوئی چڑھ رہا ہے تو پہلی سیڑھی پر چڑھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تو منزل پہ پہنچ گیا۔ اب وہیں کھڑا رہ جائے تو منزل کیسے پائے۔ پھر دوسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو کہہ دے کہ میں بس منزل پر پہنچ گیا۔ تو اس میں چونکہ اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، لہٰذا شیخِ کامل کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہیں سے انسان کو ملتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ میں نے تو ابھی کچھ بھی نہیں کیا۔ تو یہی بات حضرت نے بھی فرمائی ہے کہ انھوں نے تو اپنے خیال میں بہت کچھ پایا، کہ فنا تک پہنچ گئے اور ہر چیز کی فنا حاصل کی، لیکن یہاں پہ بات ہے کہ جو اپنے آپ کو فانی سمجھتا ہے وہ فانی کدھر ہے، وہ تو فانی نہیں ہوا۔ فنا تو اس وقت ہے جس وقت انسان اس فنا کو بھی فنا نہ جانے۔ تو ایسی صورت میں بغیر شیخ کامل کے کون دستگیری کر سکتا ہے۔ اس وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ یہ تلوین اور تمکین، تلوین اس کو کہتے ہیں جس میں رنگ بدلتے ہیں اور تمکین میں یہ ہوتا ہے کہ کسی خاص مقام پہ، جس کو establish ہونا کہتے ہیں، establish ہو جائے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ یہ اصل میں راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ مجھے بھی حضرت نے ارشاد فرمایا تھا اس طرح کہ دور کرو، دور کرو یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، تو راستے کے کھیل تماشوں میں انسان رہ جاتا ہے، اور اپنے آپ کو کامل سمجھنے لگتا ہے، یہ بہت زیادہ غلط فہمیاں ہوتی ہیں اس مسئلے میں، انہی غلط فہمیوں سے انسان کو نکلنا ہوتا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے بھی ذرا اس پر دوسرے انداز میں کلام کیا ہے۔ حضرت نے اس کو ایک واقعے کے ساتھ relate کیا ہے۔ ایک صاحب تھے جو کہتے تھے کہ میں جاہل کی بزرگی نہیں مانتا، اس کا قول تھا کہ میں جاہل کی بزرگی نہیں مانتا، خیر! لوگ اس کو کہتے کہ آپ سختی کر رہے ہیں، یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔ اُس علاقے میں ایک نیک آدمی رہتے تھے، بزرگ تھے لیکن زیادہ عالم نہیں تھے جاہل تھے، یہ صاحب چونکہ کافی۔۔۔۔ تو اس نے رات کے وقت اس کی چھت کے اوپر چڑھ کر، جب وہ تہجد کے لئے باہر نکل آیا تو اس نے ایک پیاری سریلی سی سیٹی بجائی تو اس شخص نے کہا کون ہے؟ آپ کون؟ تو اس نے اوپر سے بہت میٹھی زبان میں کہا میں جبرائیل۔ اس نے کہا جبرائیل یہاں پہ کیسے؟ کہتے ہیں: بس آپ نے بہت ترقی کی، تو میں آپ کو خبر دینے کے لیے آیا ہوں کہ بس جتنی ترقیاں مقصود تھیں وہ تو آپ کر چکے، اس کے بعد چاہے آپ عمل کریں نہ کریں آپ کی مرضی ہے، شوق سے کریں تو ضرور کریں، لیکن آپ سے کوئی مطالبہ نہیں ہے مزید۔ اگر آپ نماز پڑھیں نہ پڑھیں، قرآن پڑھیں نہ پڑھیں، روزہ رکھیں نہ رکھیں، یہ سب آپ کی اپنی خوشی کے لیے ہوگا، ویسے مطالبہ نہیں ہے۔ بس میں صرف آپ کو یہ بشارت دینے آیا تھا۔ تو اس کے بعد وہ غائب ہو گیا۔ تو یہ صاحب لوٹا رکھ کر جا کر بستر پہ لیٹ گیا کہ ٹھیک ہے جب مطالبہ نہیں ہے تو میں کیا کروں، صبح فجر کی نماز میں بھی نہیں گیا۔ اب چونکہ نمازی تو پکے تھے تو لوگوں کو حیرانی ہوئی کہ کہاں پہ گیا ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ چلو عیادت کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں ممکن ہے بیمار ہو۔ اب دروازے پہ آئے تو دروازہ بھی انہی نے کھولا۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ گھر پر ہیں؟ انہوں نے کہا جی۔ تو آپ نماز کے لیے کیوں نہیں آئے؟ ہم تو آپ کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔ تو یہ ذرا بڑا گردن اکڑا کے بیٹھ گیا اور کہا کہ بس ٹھیک ہے کبھی کبھی آیا کروں گا آپ لوگوں کی خبر رکھنے کے لیے، ویسے مجھے اطلاع دے دی گئی ہے کہ اب مجھے ضرورت نہیں ہے کچھ کرنے کی، بس وہ میری عبادتیں قبول ہوگئی ہیں۔ تو پیچھے وہ آدمی جو شرارتی تھا وہ لوگوں میں کھڑا تھا، تو اس نے اسی طرح سیٹی بجائی جس طرح رات کو بجائی تھی، تو اس کے کان کھڑے ہو گئے اور پیچھے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا کہ میں نہیں کہتا تھا کہ میں جاہل کی بزرگی نہیں مانتا۔ اب دیکھ لیا آپ نے؟ اس کو میں اگر دھوکا دے سکتا ہوں تو شیطان کیسے دھوکا نہیں دے سکتا۔ تو یہ بات ہے کہ واقعتاً بنیادی باتیں پکی باتیں ہونی چاہئیں۔ اور وہ کیا ہیں؟ وہ قرآن اور سنت ہیں۔ قرآن اور سنت کی پکی بات ہے، باقی باتیں ظنی باتیں ہیں۔ ظنی باتیں پکی باتوں اور قطعی باتوں کے مطابق ہوں تو ٹھیک ہے، بہت اچھی بات ہے، تفصیلات ہیں۔ لیکن اگر اس کے مخالف ہوں تو ایک قدم بھی اس کے ساتھ نہیں چلنا۔ یہی بات شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے ساتھ بھی کی گئی تھی، باقاعدہ شیطان نے کی تھی۔ اور اس نے کہا کہ بس آپ کی عبادت قبول کی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ حضرت شیخؒ نے مراقبہ کیا، فوراً سر اٹھایا، فرمایا: خبیث میں تجھے جان گیا ہوں، تو شیطان ہے۔ تو مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے، وہ جو روشنی سی تھی وہ تاریکی میں بدل گئی اور بھاگنے لگی اور کہا کہ اے عبد القادر! تو مجھ سے اپنے علم کی وجہ سے بچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ کمینے جاتے جاتے بھی وار کر جاتا ہے، میں اللہ کے فضل سے بچ گیا ہوں۔ مطلب یہ وار بھی اس کا کارگر نہیں ہوا۔ تو اب ظاہر اس طرح کے وار تو کرتے ہیں کہ انسان کو بزرگی کا ڈھونگ رچوا دیتا ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔ حالانکہ اس کو کچھ بھی نہیں ملا، تو اس کے لیے پھر ضروری ہوتا ہے کہ کسی شیخ کامل کے پاس ہونا، ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے گڑھا خود ہی کھود لیتا ہے۔ تو یہاں پر بھی حضرت نے ان کو فرمایا کہ ابھی تو آپ قلب میں چکر لگا رہے ہیں ابھی تو بہت ساری منازل ہیں، ابھی تو آپ مقامِ قلب ہی میں ہیں، کیونکہ مقامِ قلب میں ابھی نفس کے ساتھ مقابلہ روح کا جاری ہے، تو ابھی تو نفس کے شکار ہیں آپ، پہلے تو ریاضت کے یا سلوک کے ذریعے سے اپنے نفس سے چھٹکارا حاصل کر لو، روح کو علیحدہ کرلو، پھر اس کے بعد جو روح علیحدہ ہو جائے گی پھر آپ روح میں پہنچیں گے، پھر روح سے آپ نے سِر میں جانا ہے۔ سِر کے اپنے مکاشفات ہیں اور اپنے مقامات ہیں۔ پھر آپ نے سِر سے خفی میں جانا ہے، پھر خفی سے اخفٰی میں جانا ہے۔ تو یہ تو کوئی اس طرح بات نہیں ہے کہ پہلے انہوں نے حضرت نے بالکل بے پرواہی کے ساتھ فرمایا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں اب کمال حاصل کر چکا ہوں تو پھر میں کس لیے آؤں آپ کے پاس، مجھے تو کچھ چاہیے ہی نہیں تو میں خواہ مخواہ تکلیف کیوں اٹھاؤں آپ کے لیے۔ اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ نہیں! کوئی اور بات ہے جس کو آپ سمجھنا چاہتے ہیں، تو پھر ٹھیک ہے میں کسی اور ساتھی کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا۔ پھر فرمایا کہ یہ احوال جو ہیں یہ تلوینات کی طرح ہیں قلب کی تلوینات ہیں۔ گوناگوں مقامات اس کے اندر ہیں، ان کی سیر ہو رہا ہے۔ تو ابھی تو جو آپ کی حالت ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھے حصے سے زیادہ آپ نے طے نہیں کیا، یعنی جو آپ کے احوال ہیں، جو نظر آتا ہے، تو چوتھے حصے سے بھی زیادہ آپ نے طے نہیں کیا۔ تو ابھی تو آپ نے قلب کے تین حصے پورے کرنے ہیں۔ پھر اس کے بعد روح کا معاملہ آئے گا، روح کے بعد پھر سِر ہے، سِر کے بعد پھر خفی ہے اس کے بعد اخفٰی ہے۔ پھر اس کے پانچ عالمِ امر ہیں، کیونکہ لطائف سارے عالم امر میں سے ہیں، تو یہ جو عالمِ امر کے پانچ لطائف ہیں ان کو درجہ بدرجہ گزرنے کے بعد پھر اسماء و صفات کے جو مدارج ظلال ہیں، ان کو طے کرنے کے بعد جو ان اصولوں کے اصول ہیں، کیونکہ یہ لطائف جو ہیں یہ بھی تو اصل ہیں۔ اصل میں ایک ہوتا ہے اِدھر جو محسوس ہو رہا ہے یہ تو اس کا سرا ہے، اس کی اصل جڑ جو ہے وہ تو عرشِ بالا سے اوپر ہے۔ پھر وہاں سے جو اُس کے اصول ہیں، اسماء و صفات، جیسے مبدأ تعین ابھی تھوڑی دیر پہلے گزرا ہے، جو اِن کے اصول ہیں اُن اصول تک پھر آپ کی رسائی ہوگی۔ اور پھر اصول سے آگے جا کر تجلیات اور شیون و اعتبارات کے جو ظہورات ہیں ان سے گزرنے کے بعد پھر اللہ جل شانہٗ کی تجلیات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ تو اس کے بعد پھر اگر آپ وہاں تک پہنچیں گے، اور اللہ پاک نے فضل فرما دیا تو اس پہ آپ کا قلب قلبِ سلیم اور نفس نفسِ مطمئنہ اور عقل عقلِ فہیم جب ہو جائے گا تو پھر آپ کو جو حقیقی صورتحال نظر آئے گی تو پھر پتہ چلے گا کہ گزشتہ جو چیزیں تھیں وہ تو اس کے مقابلے میں سمندر کے مقابلے میں قطرہ کی طرح تھیں۔ وہی والی بات ہے کہ جتنا انسان آگے بڑھتا ہے علم مزید بڑھتا ہے تو جہل کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ آدمی کو پتا چلتا ہے کہ مجھے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ جو سمجھتا ہے کہ کچھ حاصل ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور جو کہتا ہے کہ مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس کو حاصل ہونے کی امید ہے۔ میں نے حضرت سید تسنیم الحق صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا، (حضرت اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، تو ہر چیز کی نفی کرتے تھے کہ نہیں میرے پاس یہ نہیں ہے) میں نے ایک دن کہا کہ آپ حضرات سے سنا ہے کہ جو کہتا ہے کہ میرے پاس کچھ ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا اور جو کہتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے تو اس کے پاس کچھ ہو سکتا ہے۔ تو آپ کہتے ہیں کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ کے پاس کچھ تو ہو سکتا ہے۔ تو ہنس پڑے، کہتے ہیں کہ آپ نے تو میرے ساتھ وہ حرکت کی ہے جو قومِ زط والوں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا تھا کہ علی رضی اللہ سے کہا تھا کہ تو خدا ہے، تو انھوں نے کہا کہ ظالموں یہ کیا کہتے ہو؟ تو انہوں نے ان کے لیے گڑھے بنائے اور ان میں آگ جلائی، اور کہا کہ ان کو پھینکو یہ مجھے خدا کہتے ہیں۔ تو جب ان کو گرایا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ اب تو یقین ہو گیا کہ آپ خدا ہیں، کیونکہ آگ کی سزا اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں دیتا۔ تو فرمایا کہ آپ نے میرے ساتھ بالکل وہی حرکت کی کہ جس چیز کا میں انکار کر رہا ہوں اسی کو اس چیز کی بنیاد بنایا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ جس کو اللہ جل شانہٗ کا، گویا کہ مقام تو تصور ہی نہیں ہو سکتا کہ معلوم ہو جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہو جائے تو اپنے آپ کو بھول جائے گا، کچھ بھی نہیں کہے گا اپنے آپ کو اور کچھ بھی نہیں سمجھے گا اپنے آپ کو۔ جو اپنے آپ کو کچھ سمجھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی مسئلہ ہے۔ تو ابھی اسی موضوع پہ میرے خیال میں شاید میں نے کچھ وہاں منٰی میں کہا تھا، وہ میں سنا دیتا ہوں امید ہے ان شاء اللہ کہ فائدہ ہو گا۔
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
یہاں پر یہ بات بتائی کہ فکرِ آگہی یعنی گویا کہ جاننے کی جو فکر ہے، جو حاصل ہو گیا اس سے کیا حاصل ہوا اور کیا حاصل نہیں ہوا، پتا چلا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اپنی نظروں سے جو میں گر گیا تو میں نے حقیقی عزت پا لی۔
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
پھنسے ہوئے تھے جال میں اپنی شان کے ہر دم
اس کا بھرم کھلا اُس کی عظمت کو پا گئے
جب تک اپنی ذات کا بھرم نہیں کھلتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک نہیں ہوتا۔ یعنی سٹوڈنٹس جس وقت امتحان آ جاتے ہیں تو داڑھی بھی رکھ لیتے ہیں، نمازیں بھی پڑھنا شروع کر لیتے ہیں، سب کچھ کرنا شروع کر لیتے ہیں اور جیسے ہی امتحان گزر جائے پھر داڑھی بھی کاٹ لیتے ہیں اور پھر نمازیں بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ تو یہ کیا چیز ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ کے لیے رکھتے تو ایسا ہوتا پھر؟ اللہ تعالیٰ کے لیے تو نہیں رکھے، اللہ تعالی کے لیے تو یہ کام نہیں کیا، اپنی ذات کے لیے کیا، اپنی دنیا کے لیے کیا۔ جب دنیا کے لیے کیا تو اللہ کی عظمت کا ادراک نہیں ہوا اور محسوس ہی نہیں کیا۔ اس طرح بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے کاروبار میں پھنسے ہوتے ہیں یا کسی اور چیز میں، جب ان کے معاملات اوپر آ جاتے ہیں تو پھر وہاں سے ادھر ادھر کی باتیں نکلنے لگتی ہیں، تو پتا چلا کہ ابھی اللہ کے ساتھ تعلق حاصل نہیں ہوا۔ دنیا کے لیے اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور دنیا پہ ذرا تھوڑا سا سخت وقت آ گیا تو سارا کچھ آگے پیچھے ہوگیا۔ تو اصل میں یہ بات ہے کہ جب تک انسان اپنے آپ سے نہیں نکلا ہوتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک نہیں ہو سکتا۔
اس کا بھرم کھلا اُس کی عظمت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
خوش فہمیوں کے جال سے نکلے تو اس کے بعد
دیکھا جو اس کو شانِ عبدیت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
خوش فہمیوں کے جال سے۔ انسان خوش فہمیوں کے جال میں ہوتا ہے، یہ ہو جائے گا یہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا یہ ہو جائے گا۔ بہت ساری خوش فہمیاں ہوتی ہیں۔ تو اُس وقت تک وہ بندگی اختیار نہیں کرسکتا جب تک وہ خوش فہمیوں کے جال سے نہیں نکلا ہوتا۔ دیکھو! عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی، لیکن وہ اپنے بارے میں کیا سوچ رہے تھے؟ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت آپ کو تو زندگی میں بشارت ملی، تو پھر آپ اس طرح کیوں سوچتے ہیں؟ فرمایا جو کام ہم نے آپ ﷺ کے سامنے کئے ان پہ تو اطمینان ہے لیکن اب وحی کا سلسلہ تو بند ہے، تو اِس کے بعد جو ہم نے کام کئے ان کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ دیکھو! کس طرح نظر ہے۔ چونکہ اُس وقت تک جو بات تھی تو وہ تو ٹھیک ہے، لیکن اب چونکہ اللہ نے زندگی زیادہ دی اب اس کے بعد ہمیں کیا اطمینان کہ کس طرف کیا بات ہو جائے۔ ﴿اَللهُ الصَّمَدُ﴾ اللہ تعالیٰ صمد ہیں۔ تو اصل میں یہ بات ہوتی ہے۔
قرآن ایک کتاب تھی رکھی تھی جو پڑھی
دل سے تو اس پیغامِ محبت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
یعنی قرآن کو لوگ اگر صرف ایک کتاب سمجھ لیں اور بس کبھی کبھی اس کو اٹھا کر دیکھ لیا کریں تو اس کا الگ اثر ہے، لیکن جس وقت اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کا پیغام سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ کتنی محبت کرتے ہیں، کیسے اللہ پاک نے اپنی شان کے مطابق بات نہیں کی، ہماری سمجھ کے مطابق بات کی ہے، یہ پیغامِ محبت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق بات کرتا تو ہمیں قرآن سمجھ میں آتا؟ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ تو یہ تو پیغامِ محبت ہے۔
حج گو کہ چند کاموں کے کرنے کا تھا اک نام
دیکھا اسے تو شاہراہ محبت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
کسی بھی حج کی کتاب کو لے لو تو اس میں آپ کو کیا ملے گا؟ حج کے اتنے فرائض ہیں، اتنے واجبات ہیں، اتنی سنتیں ہیں، اتنے مستحبات ہیں، یہ ہو جائے گا تو یہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا تو یہ ہو جائے گا۔ حج کے بارے میں یہی لکھا ہوتا ہے۔ تو چند کاموں کے کرنے کا ایک نام تھا کہ بس ایک Set of actions کہ یہ کرو گے یہ کرو گے یہ کرو گے، یہی کچھ تھا، تو بات تو صحیح ہے، لیکن اس کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟ یہ کام ایسے کیوں ہوئے ہیں؟ اس طرح کیوں بتایا جا رہا ہے؟ جب اس پر آپ غور کریں گے تو شاہراہِ محبت ہی نظر آئے گی۔ ابراھیمؑ کی محبت، اسماعیلؑ کی محبت، ھاجرہ بی بی کی محبت، آدمؑ اور حوا بی بی کی محبت، یہ سب محبتوں کے واقعات ہیں۔ اُن محبت کے واقعات کو اللہ نے قبول فرما کر ہمارے لیے مشعلِ راہ بنا دیئے۔ ظاہر ہے ہمارے لیے تو شاہراہ ہے، تو ہم لوگ یہ کام کر کے ان کاموں کی نقل کرتے ہیں، گویا کہ ان چیزوں کو حاصل کرنے کی طلب پیدا کرتے ہیں، ہم ان چیزوں کو جان کر اسی طرح اُس راستے پر جانا چاہتے ہیں اور اصل حج کا تو فائدہ یہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ نماز پڑھ لیں بالکل اس کے اندر آپ کچھ بھی صحیح طریقے سے۔۔۔۔ جس کو کہتے ہیں قرآن تو پڑھ لیں لیکن خشوع و خضوع نہ ہو اور آپ جلدی جلدی نماز پڑھ لیں، اگرچہ قومہ اور جلسہ سب میں جلدی ہو، لیکن واجب ترک نہ ہوچکا ہو تو وہ نماز تو ہو جائے گی، آپ کو دوبارہ تو نہیں پڑھنی پڑے گی۔ لیکن اس نماز کی وہ برکات حاصل ہوں گی؟ جب نماز کے سارے سلسلے ہی ٹیڑھے ہیں۔ ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45) یہ چیزیں حاصل ہوگی؟ یہ تو اس کی کیفیت کے ساتھ حاصل ہوں گی، جب آپ نماز کی اُن چیزوں کو اُسی طریقے سے کریں گے، اس کے اندر جو احوال و کیفیات ہیں آپ کو اس طرح حاصل ہوں گی، پھر آپ کو نماز کی وہ برکات بھی حاصل ہوں گی۔ اس طرح حج کے ساتھ بھی ہے۔ تو یہ جو حج ہے یہ اصل میں شاہراہِ محبت ہے۔
ٹوٹے ہوئے الفاظ میں شاعری جو کی شبیرؔ
اس کے فضل سے خوب اس کی نصرت کو پا گئے
ہم فکرِ آگہی سے جہالت کو پا گئے
نظروں سے اپنی گر کے ہی عزت کو پا گئے
مکتوب نمبر 254
ملا احمد برکی4 کی طرف صادر فرمایا۔ بعض سوالات کے جواب میں جو انہوں نے دریافت کئے تھے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے بر گزیدہ بندوں پر سلام ہو)
آپ نے لکھا تھا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آدمی جو کچھ کرے وہ صاحبِ زماں کے حکم سے کرے تاکہ اس کا نتیجہ بر آمد ہو، اگرچہ وہ مشروع کام ہو۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو بندہ تمام مشروعات میں حکم کا امید وار ہے؟
میرے مخدوم! بزرگوں کا قول صحیح ہے، اور آپ کے بارے میں اذن (اجازت) حاصل کر کے ماذون (صاحبِ اجازت) کیا ہے لیکن جاننا چاہیے کہ نتیجہ سے مراد ایک محدود نتیجہ ہے نہ کہ مطلقًا۔
نیز آپ نے لکھا تھا کہ ایک رسالے میں یہ تحریر دیکھی ہے کہ حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ ’’قرآن بحقیقت از مرتبۂ عَین جمع است‘‘ (قرآن مجید حقیقت میں مرتبۂ عین سے جمع ہے) یعنی ذات تعالیٰ و تقدس کی احدیت سے ہے۔ لہٰذا جو کچھ رسالہ "مبدأ و معاد" میں تحریر کیا گیا کہ ”حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآنی سے بلند و بالا ہے“ اس کے کیا معنی ہوں گے؟
میرے مخدوم! احدیتِ ذات سے مراد، احدیتِ مجردہ نہیں ہے کہ جس میں کوئی صفت و شان ملحوظ نہ ہو، کیونکہ حقیقتِ قرآن کا منشا صفتِ کلام سے ہے، جو صفاتِ ثمانیہ (آٹھ صفات) میں سے ایک صفت ہے، اور حقیقتِ کعبہ کا مبدأ و منشا وہ مرتبہ ہے جو شیونات و صفات کی تلوینات سے بر تر ہے، اس لیے اس کی فوقیت کی گنجائش ہو گئی۔
نیز آپ نے لکھا تھا کہ بعض تفاسیر میں درج ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں کعبہ کو سجدہ کرتا ہوں تو وہ کافر ہو جاتا ہے کیونکہ سجدہ کعبہ کی جانب ہے نہ کہ کعبہ کو، اور دوسری جگہ لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں سجدہ میں ”لَکَ سَجَدْتُّ“ (میں نے تیرے لئے سجدہ کیا) کہتے تھے۔ ضمیروں کا مدلول نفسِ ذات تعالیٰ و تقدس ہے، لہٰذا رسالہ "مبدأ و معاد" میں جو کچھ تحریر کیا گیا کہ کعبہ کی صورت جس طرح اشیاء کی صورتوں کی مسجود ہے اسی طرح کعبہ کی حقیقت بھی اشیاء کے حقائق کی مسجود ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
میرے مخدوم! یہ عبارتوں کے مسامحات (فرو گزاشت اور آسانی کرنا) سے ہے، جیسے کہ کہتے ہیں کہ ”آدم مسجودِ ملائکہ ہے“ حالانکہ سجدہ صرف خالق جل سلطانہٗ کے لئے ہے نہ کہ اس کی مخلوق اور اس کی مصنوع کے لئے، خواہ وہ کوئی مخلوق ہو۔
آپ کو، آپ کے ساتھیوں اور دوستوں بالخصوص ملا پایندہ و شیخ حسن کو سلام ہو۔
تشریح:
حقائق کی باتیں حضرت فرماتے ہیں، تو اس میں پہلی بات یہ ہے کہ بعض بزرگوں نے جو فرمایا ہے کہ آدمی جو کچھ کرے وہ صاحبِ زمان کے حکم سے کرے تاکہ اس کا نتیجہ برآمد ہو اگرچہ وہ مشروع کام ہو۔ فرمایا اگر یہ بات صحیح ہے تو بندہ تمام مشروعات میں حکم کا امیدوار ہے۔ فرمایا کہ میرے مخدوم بزرگوں کا قول صحیح ہے اور آپ کے بارے میں اجازت حاصل کر کے صاحبِ اجازت کیا ہے۔ یعنی آپ کو جو اجازت دی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اجازت دے دی گئی ہے، تو آپ صاحبِ اجازت ہیں۔ لیکن جاننا چاہئے کہ نتیجہ سے مراد ایک محدود نتیجہ ہے نہ کہ مطلقاً۔ یعنی محدود نتیجہ سے مراد جیسے ایک step آپ نے حاصل کر لیا اور پھر دوسرا step حاصل کیا، تو محدود نتیجہ ہوا، کلی بات نہیں ہوئی کہ اس میں ساری چیزیں شامل ہوں۔ پھر فرمایا کہ آپ نے لکھا تھا:
ایک رسالے میں یہ تحریر دیکھی ہے کہ حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ ’’قرآن بحقیقت از مرتبۂ عَین جمع است‘‘ (قرآن مجید حقیقت میں مرتبۂ عین سے جمع ہے) یعنی ذات تعالیٰ و تقدس کی احدیت سے ہے۔ لہٰذا جو کچھ رسالہ "مبدأ و معاد" میں تحریر کیا گیا کہ ”حقیقتِ کعبۂ ربانی، حقیقتِ قرآنی سے بلند و بالا ہے“ اس کے کیا معنی ہوں گے؟
(یعنی حقیقتِ قرآن اور حقیقتِ کعبہ، تو حضرت نے فرمایا کہ) میرے مخدوم! احدیتِ ذات سے مراد، احدیتِ مجردہ نہیں ہے کہ جس میں کوئی صفت و شان ملحوظ نہ ہو، کیونکہ حقیقتِ قرآن کا منشا صفتِ کلام سے ہے۔
مطلب کہ جو صفات آٹھ بنیادی صفات ہیں، ان میں سے ایک صفت ہے۔ اب اللہ کی جو آٹھ بنیادی صفات ہیں ان میں سے ایک صفتِ کلام ہے، اللہ متکلم ہے، جیسے قدیر ہے اسی طرح متکلم ہے۔ تو یہ آٹھ صفات میں سے ایک صفت ہے، لہٰذا اس کے لئے تو حقیقتِ قرآن آگیا، یعنی اس کی جو حقیقت ہے وہ حقیقتِ قرآن ہے اور حقیقتِ کعبہ، اس کی جو تجلی ہے وہ شیونات و صفات کی تلوینات سے برتر ہے۔ تو اس وجہ سے اس کے اندر باقی چیزیں شامل ہو گئیں۔ تو فرمایا کہ:
بعض تفاسیر میں درج ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں کعبہ کو سجدہ کرتا ہوں تو وہ کافر ہو جاتا ہے کیونکہ سجدہ کعبہ کی جانب ہے نہ کہ کعبہ کو، اور دوسری جگہ لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں سجدہ میں ”لَکَ سَجَدْتُّ“ (میں نے تیرے لئے سجدہ کیا) کہتے تھے۔ ضمیروں کا مدلول نفسِ ذات تعالیٰ و تقدس ہے،
یعنی اس میں "لَکَ سَجَدْتُّ" اللہ تعالیٰ کو کہہ رہے تھے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو سجدہ نہیں کیا جاتا، خانہ کعبہ میں جو تجلی مسجودیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف سے آ رہی ہے، وہ اصل میں اُس کی طرف سے ہے، تو وہ تو اللہ کو سجدہ ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کی ذات برتر ہے تمام دنیاوی چیزوں سے، جس میں سمتیں بھی ہیں، اس سے بھی برتر ہے۔ لیکن لوگوں کے عمل کے لئے کوئی سمت مقرر کرنا تھا تاکہ لوگ اُس طرف اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کریں، تو ان کے لئے خانہ کعبہ کو جگہ بنا دیا گیا اور اس پہ تجلی مسجودیت ڈالی گئی۔ اصل میں تجلی مسجودیت کی بنیاد ہے ورنہ صحیح بات میں عرض کرتا ہوں کہ یہی خانہ کعبہ کے جو پتھر ہیں، آپ خانہ کعبہ کے پتھر سارے کے سارے اسی طرح اٹھا لیں اگر کر سکیں، جس طریقے سے ہیں، ان کو کسی اور جگہ رکھ دیں تو آپ اس کو سجدہ کریں گے؟ نہیں۔ اور اُس جگہ جہاں کوئی پتھر بھی نہیں ہے وہاں اُس طرف سجدہ ہو سکے گا یا نہیں؟ ظاہر ہے۔۔۔ تو پھر آپ ان پتھروں کو تو سجدہ نہیں کر رہے۔ یہی بات ہے۔ اگر پتھروں کو سجدہ کر رہے ہیں تو پتھر تو آپ نے اٹھا دیئے۔ تو اس کو جس طرف لے جائیں گے آپ اس طرف کرتے رہیں گے؟ نہیں۔ وہ والی بات نہیں ہے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے حقیقتِ کعبہ۔ تو حقیقتِ کعبہ اصل میں اس کا جو مبدا تعین ہے وہ تو اللہ جل شانہ مطلب ہے اس کے، اس کے ذریعے سے ذات کے ساتھ ہے تو اس میں ساری شانیں آجاتی ہیں۔ تو جیسے حقیقتِ کعبہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے تو اسی طریقے سے جو باقی تمام اشیاء ہیں، ان کے جو حقائق ہیں، ان سب کے لئے کعبہ حقیقتِ کعبہ مسجود ہوگئی۔ یعنی ہر چیز کی جو شان ہے، آپ ﷺ نے بھی تو سجدہ کیا ہے ناں خانہ کعبہ کو، آپ ﷺ نے بھی خانہ کعبہ کو سجدہ کیا ہے۔ تو جتنی بھی مخلوقات ہیں ان سب کی حقیقتوں کا بھی مسجود ہے۔ تو یہ حضرت نے فرمایا ہے۔ فرمایا کہ:
اسی طرح کعبہ کی حقیقت بھی اشیاء کے حقائق کی مسجود ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو یہ عبارتوں کے مسامحات (فروگذاشت اور آسانی کرنا) سے ہے،
یعنی جیسے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ جیسے فقہ کے اندر بعض آسانیاں اور رخصتیں رکھی جاتی ہیں کہ چونکہ عوام ان چیزوں کو نہیں جانتے تو رخصت کے طور پر اجازت دے دی جاتی ہے، تاکہ کر سکیں۔ اسی طریقے سے جو کلامی موضوعات ہیں ان میں بھی رخصتوں کی گنجائش ہے۔ ان میں رخصتوں کی گنجائش ہے کہ الفاظ ایسے مقرر کیے گئے ہیں ورنہ حقیقت تو ان الفاظ کی وہی ہے جیسے آدمؑ کو مسجودِ ملائکہ کہا گیا: ﴿وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِکَۃِ اُسْجُدُوْا لِآدَمَ فَسَجَدُوْا إِلَّا إِبْلِيْسَ﴾ اب یہ الفاظ کی بات ہے، ورنہ اصل میں آدمؑ کو سجدہ تو اللہ تعالی کے حکم کی وجہ سے تھا، تو اصل سجدہ تو اللہ تعالیٰ کو تھا۔ اگر یہ حکم کسی اور چیز کے لئے ثابت ہو جاتا تو اس کو بھی سجدہ کیا جاتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ذریعے سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان ابھی بھی اگر توبہ کرنا چاہے تو اس کے لئے راستہ یہی ہے کہ وہ آدمؑ کی قبر کو سجدہ کرے۔ کیونکہ راندۂ درگاہ اسی وجہ سے ہوا ہے۔ تو قبر کو کوئی سجدہ کرتا ہے؟ حکم ہے اس کا؟ نہیں۔ لیکن اس کے لئے یہی ہے کیونکہ اس نے حکم سے انکار کیا تھا تو اب اسی حکم پر اس کو لایا جائے گا اور اسی سے وہ چڑتا ہے، لہٰذا وہ راندۂ درگاہ ہے۔ میری باتیں اس وقت سن رہا ہو گا یا نہیں سن رہا ہو گا؟ لیکن بہرحال نہیں! وہ ضد میں آ کر ان تمام باتوں کو وہ پی سکتا ہے ہضم کر سکتا ہے لیکن وہ نہیں کر سکتا۔ ایک پیغمبر کے پاس وہ آ کے بڑا رویا کہ دیکھیں میں اتنا بد قسمت ہوں ایک چھوٹا سا کام، غلطی کی تو اس پر میرا سارا کچھ ضائع ہو گیا، کیا میرے لئے کوئی توبہ کی صورت نہیں ہے؟ میں کہتا ہوں شیطان سے زیادہ احمق اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردے، کہیں بڑے بول میں نہ لائے ہم تو کمزور لوگ ہیں لیکن بہرحال سمجھانے کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ شیطان سے زیادہ احمق کوئی نہیں ہے۔ کیسے؟ دیکھو باقی لوگ جو ہیں وہ تو شیطان کے اغواء سے یہ باتیں کر رہے ہیں لیکن شیطان کو تو پتا ہے کہ اللہ اللہ ہے، یہ ساری چیزیں وہ جانتا ہے، وہ جس وقت مخاطب تھا اللہ تعالیٰ اس سے براہِ راست مخاطب تھا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ سے بات کر رہا تھا۔ تو اس کے سامنے کوئی ڈھکی چھپی بات تو تھی نہیں، اس کے باوجود یہ دیکھیں کیسے اس نے اندازہ لگایا کہ میں کس سے کہہ رہا ہوں، اللہ تعالیٰ تو دلوں کی حالت سے بھی خبردار ہے، تو یہ کیسے اللہ تعالیٰ سے بات چھپا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے تو بات نہیں چھپا سکتا تھا۔ تو اللہ پاک نے وہی کیا کہ اس کو فوراً نکال دیا۔ اب بھی یہ بیوقوفی اور جو حرکت اس نے کی اس پیغمبر سے جو کہا تو کیا اللہ تعالیٰ کو اس کی خباثت کا پتا نہیں ہے کہ کس طریقے سے کر رہا ہے۔ تو پیغمبر نے اللہ تعالیٰ سے اس کی سفارش کی، تو اللہ پاک نے فرمایا بالکل میرے دروازے کھلے ہیں، یہ آدمؑ کی قبر کو سجدہ کر لے تو میں اس کو ابھی معاف کرتا ہوں۔ اس نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا بس ٹھیک ہے۔ اصل میں یہی بات ہے کہ انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ حکم کس کا ہے۔ شیطان نے آدمؑ کو سجدے سے انکار کیا اللہ کا حکم دیکھ کر کہ اللہ کا حکم ہے۔ تو اس نے تو اللہ کے حکم سے انکار کیا سجدہ کی بات نہیں تھی۔ تو یہ بات کہ خانہ کعبہ کو سجدہ کرنے سے انکار کرے گا تو یہ بھی بات اس طرح ہو جائے گی۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے قصداً کوئی بھی انکار کرے گا تو کافر تو ہو جائے گا۔ عمل نہیں کرے گا تو گناہگار ہو جائے گا، انکار کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ مثلاً نماز پڑھنے سے کوئی انکار کرے، یا چلیں جی! چار رکعتوں کی جگہ تین رکعتیں پڑھے ایک سے انکار کر دے، تو مسلمان رہ جائے گا؟ ہاں تین رکعتیں پڑھے اور چوتھی رکعت نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہو گی اور کافر نہیں ہوگا۔ لیکن اگر انکار کر کے تین پڑھ لے تو کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ اس نے حکم سے انکار کر دیا۔ تو اصل میں بنیاد حکم ہے۔ تو حقیقتِ کعبہ اللہ کا حکم ہے۔ حقیقتِ کعبہ کیا ہے؟ اللہ کا حکم ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ اس بات کو اگر کوئی سمجھے تو پھر اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ فرمایا کہ الفاظ کے مسامحات ہیں عبارات کی باتیں ہیں، اس وجہ سے اس میں نہیں پڑنا چاہئے، بس اللہ تعالی کے حکم کو دیکھنا چاہئے۔ آسان بات ہے۔
مکتوب نمبر 255
ملا طاہر لاہوری5 کی طرف صادر فرمایا۔ روشن سنت کے زندہ کرنے اور نا پسندیدہ بدعت کے دُور کرنے کی ترغیب میں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔ گرامی نامہ جو حافظ بہاءُ الدین کے ہمراہ روانہ کیا تھا، پہنچ کر بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوا۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ محبان اور مخلصان اپنی تمام توجہ اور ہمت کے ساتھ سنتِ مصطفویہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ میں سے کسی سنت کے زندہ کرنے میں متوجہ ہوں، اور (ساتھ ہی ساتھ) اپنی پوری تن دہی کے ساتھ منکر و نا پسندیدہ بدعتوں میں سے کسی بدعت کے دفع کرنے میں مستعد ہوں۔ سنت اور بدعت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ایک کے وجود سے دوسرے کی نفی لازم آتی ہے، لہٰذا ایک کے زندہ کرنے سے دوسرے کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یعنی سنت کا زندہ کرنا بدعت کو مردہ کرنا ہے اور (اسی طرح) اس کے بر عکس بھی (قیاس کر لیجئے)۔ پس بدعت، خواہ اس کو حسنہ (نیک) کہیں یا سیّۂ (بری) (ہر حال میں اس سے) سنّت کا دُور کرنا لازم آتا ہے۔ شاید (حسنہ کہہ کر) حُسنِ نسبی کی وجہ سے اعتبار کر لیا ہو (یعنی اس سے اضافی حسن مراد لیتے ہوں) ورنہ حسنِ مطلق کو وہاں گنجائش نہیں ہے کیونکہ تمام سنتیں حق جل سلطانہٗ کی مرضیات (پسندیدہ) ہیں اور ان کی اضداد (بدعتیں) مرضیاتِ شیطان ہیں۔ آج یہ بات بدعت کی اشاعت کی وجہ سے اگرچہ بہت سے لوگوں پر گراں ہے لیکن کل (قیامت کے دن) ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم ہدایت پر ہیں یا وہ لوگ۔
منقول ہے کہ حضرت مہدی اپنی سلطنت کے زمانے میں جب دین کی ترویج کریں گے اور احیائے سنت کا حکم دیں گے تو مدینہ کا عالم جس نے بدعت پر عمل کرنا اپنی عادت بنا لی ہو گی اور اس (بدعت) کو اچھا سمجھ کر دین کے ساتھ ملا لیا ہو گا، وہ تعجب سے کہے گا کہ اس شخص (امام مہدی) نے ہمارے دین کو ختم کر کے ہماری ملت کو مار ڈالا ہے۔ حضرت مہدی اس عالم کے قتل کا حکم فرمائیں گے اور اس کے حسنہ (اچھائی) کو سیۂ (برائی) خیال کریں گے: ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهِ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَعَلٰی سَائِرِ مَنْ لَدَیْکُمْ (آپ پر اور جو آپ کے ساتھ ہیں ان سب پر سلام ہو) فقیر پر نسیان (بھول) کا غلبہ ہے، معلوم نہیں کہ آپ کے خط کو کسی کے سپرد کیا تھا تاکہ سوالات کے موافق جواب لکھتا، لہٰذا معذور خیال فرمائیں۔ میاں شیخ احمد فرملی دوستوں میں سے ہیں چونکہ وہ آپ کے قرب و جوار میں رہتے ہیں لہٰذا امید ہے کہ ان کے حق میں التفات و توجہ کو مد نظر رکھیں گے۔
تشریح:
یہ اصل میں جیسا کہ حضرت شرک سے بچنے پہ زور دے رہے ہیں، توحید پر بڑا زور دے رہے ہیں، اس طرح حضرت سنت کی اشاعت پر بھی بڑا زور دیتے تھے اور بدعت کی مخالفت کرتے تھے۔ ایک بات یاد رکھئے کہ terminology جو ہوتی ہے وہ اصل میں وقت کے حالات سے بدلتی رہتی ہے۔ بدعتِ حسنہ کی جو اصطلاح ہے وہ ایک خاص وجہ سے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ جیسے تراویح کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا فرمایا تھا کہ کیسی اچھی بدعت ہے۔ تو اس کی بنیاد پر بعض لوگوں نے باقی بدعت کو بھی بدعتِ حسنہ کہنا شروع کر لیا کہ اس میں تو دین کا فائدہ ہے۔ حضرت نے اس کا رد کیا ہے۔ لیکن لوگوں نے اس کو بنیاد بنا کر وہ جو چیزیں۔۔۔۔ لیکن وہ جو بدعت حسنہ اصل ہے، اصل میں وہ بدعت ہوتی ہی نہیں ہے۔ اس کو بدعت لغوی معنوں میں کہا گیا ہے، وہ بدعت ہوتی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ ذریعہ ہوتا ہے اور جو ذریعہ ہوتا ہے وہ تو بدعت نہیں ہوتا۔ مقصد بدعت بن سکتا ہے ذریعہ بدعت نہیں بن سکتا۔ مثلاً میں آپ کو بہت موٹی مثال دیتا ہوں، مساجد کے مینار کی، مساجد کا جو مینار ہے کیا آپ ﷺ کے وقت میں کسی مسجد کا مینار تھا؟ حرم شریف میں نہیں تھا، مسجدِ نبویؐ میں نہیں تھا اور آج کل کون سی بڑی مسجد ہے جو مینار سے فارغ ہے؟ حتیٰ کہ حرم شریف میں بھی ہیں، مسجدِ نبوی ﷺ میں بھی ہیں، مسجدِ اقصیٰ کا تو پتا نہیں ہے اس میں بھی شاید ہوں۔ میرے خیال میں ہو گا۔ دمشق کے مینار کا تو ذکر ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو چیزیں ہیں یہ بعد میں وجود میں آئی ہیں، لیکن ذریعہ کے طور پر آئی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اِس مسجد امیر حمزہ کا مینار نہ ہو اور یہ باہر گیٹ نمبر 4 کے باہر کھڑے ہو جائیں اور جن کو نماز کے لئے جگہ تلاش کرنی ہو یعنی مسجد، ان کو کہہ دیں کہ مسجد اس طرف ہے، تو کیا خیال ہے اس کو ثواب ملے گا ناں جو وہاں ہے؟ ثواب ملے گا کیونکہ وہ راستہ بتا رہا ہے مسجد کا۔ مجھے خود اس کی ضرورت پڑ گئی تھی میں ایک دفعہ رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جا رہا تھا، راستے میں مغرب کی نماز بھی پڑھنی تھی اور رمضان شریف بھی تھا، روزہ بھی تھا، تو روزہ افطار کیا اور میں نے فوراً اجلاس میں پہنچنا تھا تو یہ ہوا کہ مجھے مینار کی تلاش تھی مینار کہیں سے نظر آ جائے، یہ جو مسجد فیصل روڈ ہے، اس پہ میں جارہا تھا دائیں بائیں دیکھ رہا تھا بے چینی سی تھی کوئی مسجد اور کوئی مینار نظر آ جائے۔ تو بس وہ جو مینار نظر آیا غالباً G-7-2 کے اندر، تو اس وقت میں فوراً اس طرف مڑ گیا اور میں نے نماز پڑھ لی بڑا خوش ہوگیا الحمد للہ۔ تو مینار نے فائدہ کیا ناں۔ ورنہ مجھے کیسے گاڑی میں چلتے ہوئے مسجد نظر آتی، پتہ تو چل گیا۔ تو جس کو کہتے ہیں کہ بدعت حسنہ، وہ بدعت ہے ہی نہیں۔ وہ صرف لغوی معنوں میں اگر کوئی اس کو بدعت کہے تو وہ ہوگی، جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تراویح کے بارے میں کہ کیسی اچھی بدعت ہے۔ لیکن وہ بدعت ہے ہی نہیں، اس کو بدعت کی تعریف میں لایا ہی نہیں جا سکتا بلکہ وہ صرف ذریعہ ہے۔ تو اس طریقے سے مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں ہوتی ہیں۔۔۔۔ لیکن حضرت نے کیوں رد کیا؟ حضرت نے اس لئے رد کیا اس وقت رد کرنا ضروری تھا، کیونکہ لوگوں نے ان الفاظ کو بدعت حسنہ کے الفاظ کو بدعتِ سیئہ کو بدعت حسنہ قرار دینا، اس سے تو نکالنا تھا نا۔ تو اس وجہ سے حضرت نے یہ بات فرمائی کہ چاہے بدعتِ حسنہ ہو چاہے بدعتِ سیئہ ہو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات فرمائی۔ اس طریقے سے ماشاء اللہ ان چیزوں سے حفاظت ہو گئی۔
مکتوب نمبر 256
میاں شیخ بدیع الدین6 کی طرف صادر فرمایا۔ ان سوالوں کے جواب میں جو (انہوں نے) دریافت کئے تھے کہ قطب و قطب الاقطاب اور غوث و خلیفہ کے کیا معنی ہیں؟ اور دریافت کیا تھا کہ اس حدیث "لَوِ اتُّزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ…الخ" کی کیا تحقیق ہے؟ اور اس کے مناسب بیان میں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) گرامی نامہ جو آپ ایک درویش کے ہمراہ ارسال کیا تھا موصول ہو کر بہت زیادہ مسرت کا باعث ہوا۔
آپ نے دریافت کیا تھا کہ قطب و قطب الاقطاب، غوث اور خلیفہ کے کیا معنی ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کس خدمت پر مامور ہے، اور وہ اپنی خدمت سے مطلع ہیں یا نہیں؟ اور قطب الاقطاب کو جو بشارت (احکام) عالمِ غیب سے پہنچتی ہے اس کی کوئی اصل ہے یا وہم و خیال کی اختراع ہے؟
جاننا چاہیے کہ نبی علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل تابع دار، مکمل طور پر تابع داری کرنے کی وجہ سے جب مقامِ نبوت کے کمالات کو تمام کر لیتے ہیں تو ان میں سے بعض کو منصبِ امامت پر سر فراز کرتے ہیں اور بعض کو محض اس کمال کے حصول پر ہی اکتفا فرماتے ہیں۔ یہ دونوں بزرگ اس کمال کے نفسِ حصول میں برابر ہیں، فرق صرف مرتبہ و عدم مرتبہ کا ہے اور ان امور کا بھی جو اس منصب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو حضرات ولایتِ نبوت کے کمالات کی پوری طرح تکمیل کر لیتے ہیں (تو ان میں سے) بعض کو منصبِ خلافت پر مشرف فرماتے ہیں اور بعض کو محض ان ہی کمالات کے حصول پر اکتفا کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ یہ دونوں منصب (خلافت و امامت) کمالاتِ اصلیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کمالاتِ ظلیہ میں منصبِ امامت کے مناسب قطبِ ارشاد کا منصب ہے، اور منصبِ خلافت کے مناسب منصبِ قطبِ مدار ہے۔ گویا یہ دونوں مقام اُن دونوں مقاموں کے ظلال کے تحت ہیں۔ (یعنی منصبِ امامت و منصب خلافت کا مقام ان کے اوپر ہے)
شیخ محیی الدین العربی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غوث ہی قطبِ مدار ہے۔ ان کے نزدیک غوثیت کا مرتبہ، منصبِ قطبیت سے علیحدہ کوئی منصب نہیں ہے۔ جو کچھ اس فقیر کا عقیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ غوث، قطبِ مدار کے علاوہ ہے بلکہ اس (قطبِ مدار) کا ممد و معاون ہے۔ قطبِ مدار بعض امور میں اس سے مدد لیتا ہے اور ابدال کے منصب مقرر کرنے میں بھی اس کو دخل ہے۔ قطب کو باعتبار اس کے اعوان و انصار کے، قطب الاقطاب بھی کہتے ہیں، کیونکہ قطب الاقطاب کے اعوان و انصار اقطابِ حکمی ہیں، یہی وجہ ہے صاحبِ فتوحاتِ مکیہ لکھتے ہیں: "مَا مِنْ قَریَۃٍ مُّؤْمِنَۃً کَانَت اَوْ کَافِرَۃً إِلَّا وَ فِیْھَا قُطْبٌ" ترجمہ: ”مؤمنوں یا کافروں کا کوئی قریہ ایسا نہیں ہے جس میں قطب نہ ہو“۔
جاننا چاہیے کہ صاحبِ منصب کو یقینًا اپنے منصب کا علم ہوتا ہے اور وہ جو اس منصب کا کمال رکھتا ہے لیکن منصب نہیں رکھتا اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اربابِ علم ہو اور اپنی خدمت سے مطلع بھی ہو۔ وہ بشارت جو اس کو عالم غیب سے پہنچتی ہے اس مقام کے کمالات حاصل ہونے کی بشارت ہے نہ کہ اس مقام کے منصب کی بشارت جس کا تعلق علم سے ہے۔
نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ اس ایمان سے کیا مراد ہے جو اس حدیث میں ہے: "لَوِ اتُّزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ مَعَ إِیْمَانِ أُمَّتِیْ لَرَجَحَ"7 ترجمہ: ”اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان میری ساری امت کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو یقینًا وہ غالب رہے گا“۔ اس سے کیا مراد ہے اور اس کی ترجیح کا کیا سبب ہے؟
جاننا چاہیے کہ ایمان کی ترجیح مُؤْمَنْ بِہٖ (جس پر ایمان لایا جاتا ہے) کے رحجان کے باعث ہے۔ چونکہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا متعلَّقِ ایمان (جن کا ایمان سے تعلق ہے) تمام امت کے متعلقاتِ ایمان سے فوق و بر تر ہے اس لئے یقینًا راجح و غالب ہو گا۔
میرے مخددم! عروجات و ترقیات میں (عارف و طالب کا ) معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر ایک نقطہ زیادہ اوپر ہو جائے تو اس نقطۂ عروج کے سبب جو کمال حاصل ہوا ہے وہ تمام سابقہ کمالات سے زیادہ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ نقطہ جو کچھ اس کے ما تحت ہے، ان سب سے بالا تر ہے۔
یہ چونکہ لمبا موضوع ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس کو آج ختم نہیں کر سکیں گے اور ختم نہ کر کے اس کو بیان کرنے میں بہت سارے شکوک و شبہات رہ جائیں گے لوگوں کے ذہنوں میں اور مناسب نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ جس بات کو پوری طرح بیان نہ کیا جا سکے تو اس بات کو بیان نہ کرنا بہتر ہے یعنی جس کی تشریح بیان نہ ہو سکے تو اس کو بیان نہ کرنا بہتر ہے۔ تو اس وجہ سے میرا تو خیال ہے کہ یہ بعد میں ہو سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اگر کوئی چھوٹا ہو تو اس کو کرلیں۔
مکتوب نمبر 258
شریف خاں8 کی طرف حق تعالیٰ کی اقربیت کے بیان میں صادر فرمایا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔
گرامی نامہ جو آپ نے مہربانی فرما کر اس طرف کے فقرا کے نام تحریر کیا تھا موصول ہو کر خوشی اور مسرت کا باعث ہوا۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ خَیْرَ الْجَزَاءِ (اللہ سبحانہٗ آپ کو اس کی جزا اور عمدہ قسم کی جزا عطا فرمائے)۔
میرے مخدوم! اگرچہ حق تعالیٰ کی اقربیت ہم سے زیادہ ہمارے ساتھ ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حق تعالیٰ ہماری عقلوں، فہموں اور ہمارے علوم و ادراکات سے وراء الوراء ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ورائیت (بلندی شان) قرب کی جانب ہے نہ کہ بُعد کی۔ کیونکہ وہ سبحانہٗ ہر نزدیک سے زیادہ نزدیک ہے حتیٰ کہ اس سبحانہٗ کی ذاتِ احدیت ان صفات کی نسبت جن کے افعال و آثار ہم ہیں، اپنے سے زیادہ نزدیک پاتے ہیں۔
یہ معرفت عقل کی نظر کے طریقے سے ما وراء ہے، کیونکہ عقل اپنے سے زیادہ نزدیک ہونے کا تصور نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسی مثال جو اس بحث کی وضاحت کر سکے ممکن کوشش کے با وجود نہ مل سکی۔ اس معرفت کی دلیل نص قطعی اور کشفِ صحیح سے ہے۔ مشائخِ طریقت نے توحید اور اتحاد کے بارے میں بہت گفتگو کی ہے اور قرب و معیت کو بیان فرمایا ہے لیکن حق تعالیٰ کی اقربیت کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے اور کوئی تسلی بخش بیان اس بارے میں نہیں دیا ہے۔ عجیب معاملات ہیں کہ اس سبحانہٗ کی اقربیت (قریب سے قریب تر ہونا) ہمارے لئے اَبعدیت (دور سے دور ہونے) کا سبب ہوئی ہے۔ ھٰذَا إِلٰی أَنْ یَّبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہٗ (یہی کافی ہے، یہاں تک کہ کتاب اپنے مقررہ وقت کو پہنچے) فَافۡھَمۡ فَإِنَّ کَلَامَنَا إِشَارَۃٌ وِّ بَشَارَۃٌ (پس سمجھ لو کہ ہمارے کلام اشارت اور بشارت آمیز ہے) اور سلام ہو آپ پر اور ان سب پر جنہوں نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا۔
تشریح
اس میں حضرت نے جو ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اقرب ہے تمام چیزوں سے زیادہ، "اقربیت"۔ فرمایا: عقل کو سمجھ نہیں آئے گا کیونکہ عقل اپنے سے زیادہ کسی چیز کو قریب نہیں سمجھ سکتی۔ لیکن اللہ پاک واقعی اپنی جان سے بھی قریب ہے۔ وجہ کیا ہے کہ ہماری جان کے اندر جو جان ہے وہ اللہ کی وجہ سے ہے۔ تو جو وجہ موجود نہیں تو وہ کیسے ہوگا پھر؟ تو جان سے تو زیادہ قریب ہو گیا ناں۔ جان سے تو زیادہ قریب ہوگیا۔ لیکن یہ عقل میں تو نہیں آ سکتا۔ تو اس وجہ سے عقل کی رو سے تو یہ نہیں سمجھ آ سکے گا، لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ذوق یہاں چل سکتا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جس پر کلام کیا ہے، ذوق کا مقام اس سے اونچا ہے۔ تو ذوق یہ بات کر سکتا ہے۔ میں نے آپ سے عرض کیا ناں کہ ذوق کیا چیز ہے؟ جیسے گڑ کا چکھنا ہے اور شہد کا چکھنا ہے، تو ذائقہ ہی ناں، لیکن ان دو ذائقوں کو اگر کسی نے نہیں چکھا ہو تو کیا ان کو آپ عقلاً اور نقلاً سمجھا سکتے ہیں کہ ان میں کیا فرق ہے؟ تو اب جس نے چکھا ہو تو اس کو ذوق حاصل ہے اس کا، اور جس کو علم حاصل ہے عقل کی رو سے، اس کو یہ حاصل نہیں ہے۔ تو عقل سے اور علم سے ذوق اعلیٰ ہو گیا یا نہیں ہوا؟ عقل سے ذوق اعلیٰ ہو گیا۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بیان کر رہا ہوں۔ تو جب ذوق اعلیٰ ہو گیا، تو اس وجہ سے جو بات ذوقی ہو وہ عقلی طور پر۔۔۔۔ عقل بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ عقل اس مسئلے میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ تو فلسفہ پھر اس کو بیان نہیں کر سکے گا، سائنس اس کو بیان نہیں کر سکے گی، کیونکہ یہ چیزیں عقلی ہیں۔ ذوقیات کی باتوں کو وہ نہیں بیان کر سکیں گے۔ لیکن ہے تو سہی۔ اب ذوقیات کی بات بتاتا ہوں۔ ذوق میں یہ بات ہے کہ جس کو محبت ہوتی ہے تو محبت کا تعلق کس اور سے نہیں ہو سکتا، تو اس کو اللہ بہت قریب محسوس کرتا ہے، بہت قریب محسوس کرتا ہے۔ لیکن جس کو معرفت حاصل ہوتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہو گا، تو اس کو بہت دور اپنا آپ نظر آئے گا اللہ تعالیٰ سے، کہ کہاں میں اور کہاں اللہ، کہاں میں اور کہاں اللہ۔ تو اس کو بہت زیادہ۔۔۔۔ تو یہ اب ذوق کی بات ہے کہ معرفت کے لحاظ سے دیکھو تو دور اور محبت کے لحاظ سے دیکھو تو قریب۔ تو ان دونوں کا نتیجہ کیا ہے؟ مقام حیرت۔ کہ یہ دو چیزیں بیک وقت اگر ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میں کدھر ہوں، میں کیا کہوں، کیا نہ کہوں۔ کچھ کہوں تو کیسے کہوں۔ وہ بیچوں بیچ کھڑا رہ جاتا ہے۔ یہ مقامِ محویت اور مقامِ حیرت ہے۔ تو یہ اصل میں حضرت نے فرمایا کہ اس میں لوگوں نے کلام نہیں کیا کیونکہ کلام کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیا کہے گا، کیا کرے گا کلام اس میں۔ یہ تو مقامِ حیرت ہے۔ مقامِ حیرت میں تو کلام نہیں کیا جا سکتا۔ تو یہ حضرت کاکا صاحب کے جو صاحبزادے ہیں حضرت حلیم گل بابا، انہوں نے بھی یہ بات فرمائی۔ تو یہ بات ہے۔ تو یہ اصل میں کہ اس کے بارے میں یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات وراء الوراء ہے لہٰذا عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی، اللہ تعالیٰ کی ذات۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ تو ذوقیات سے بھی وراء الوراء ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے لئے کوئی مثال نہیں ہے۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ اور جب تک کوئی مثال موجود نہ ہو تو ادراک میں آ نہیں سکتا۔ یا خود دیکھو اس کو۔ ﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ ہے۔ یا مثال ہو دیکھو۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ ہے۔ تو اب بتاؤ کس طرح کوئی سمجھے۔ خود دیکھ نہیں سکتے: ﴿لَنْ تَرَانِی﴾ نص صریح ہے۔ اس لئے فرمایا معرفت قطعی ہے، ظنی نہیں ہے۔ آپ دیکھ نہیں سکتے ﴿لَنْ تَرَانِی﴾۔ مثال نہیں دیکھ سکتے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ اب بتاؤ کس طریقے سے آپ ادراک کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اللہ جل شانہ کی ذات تو وراء الوراء ہے۔ لیکن اللہ کے ساتھ تعلق لازم ہے۔ اب دیکھو! وراء الوراء ہستی کے ساتھ اور بے مثال بے چگوں ہستی کے ساتھ تعلق کیسے ہو؟ یہ والی بات ہے۔ تو حضرت نے مکتوب شریف میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے الحمد للہ، فرمایا کہ یہ جو چیز ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ نسبت دی ہے کہ انسان جو چیز دیکھ نہیں سکتا، جس کا ادراک نہیں کر سکتا، اس کو بیان کرنے کا کچھ نہ کچھ نظام بنا لیتا ہے۔ یہ اُس مکتوب شریف میں آیا ہے۔ تو یہ والی بات ہے کہ انسان کو اس طرح ہوا ہے، لیکن بہرحال یہ بات ہے کہ وہ جو بھی باتیں ہیں، ان کو ہم بس سمجھ لیں کہ راستے پر گامزن ہونے کے لئے ہیں۔ وہی والی بات ہے کہ الفاظ میں تسامحات تو آتے ہیں، تو اس وجہ سے انسان کو پھونک پھونک کے قدم رکھنا ہوتا ان باتوں میں کہ یہ صرف اُس راستے پر گامزن ہونے کے لئے ہے۔ باقی یہ ہے کہ پہنچنے کی جہاں تک بات ہے تو ﴿لَنْ تَرَانِی﴾ نے قطع کر لیا ہے اور ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ نے قطع کر لیا۔ پہنچنا تو ممکن ہی نہیں ہے، پہنچنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ بلکہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی جو تحقیق ہے اس میں تو یہ بات ہے کہ جتنی ساری کوششیں سب نے کی ہیں، جتنی بھی کی ہیں، وہ تو وہاں سے آگے نہیں ہیں۔ جو ملاءِ اعلی میں ہے تجلی اعظم، وہ اس سے آگے نہیں ہیں۔ تو باقی اوپر کیا ہے؟ واللہ اعلم بالصواب، وہ تو اللہ کو پتا ہے۔ اس لئے اس کے لئے الفاظ بھی ایسے استعمال ہوتے ہیں جو اس شان کے لائق ہیں جیسے لا مکان، لا ھوت۔ یعنی چونکہ ﴿لَنْ تَرَانِی﴾ میں بھی نفی ہے، ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ میں بھی نفی ہے۔ تو آپ اثبات کے ساتھ تو صرف وجود کی بات کر سکتے ہیں، لیکن کیسے ہیں؟ یہ تو نہیں کر سکتے۔ یہ والی باتیں نہیں چلیں گی۔ اس کے لئے ہمیں ان الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے لا ہوت، لا مکان، اس قسم کی باتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے پھر بھی تسلی نہیں ہوتی۔ تو یہ جو تسلی نہ ہونا ہے یہ اصل میں معرفت ہی ہے، یہ مقامِ حیرت ہے، جو جس مقام پہ رک گیا اور اس کو تسلی ہو گئی کہ یہی وہ ہے، تو بس وہیں وہ پھنس گیا، وہیں وہ پھنس گیا۔ کیونکہ اب وہ ہے نہیں، وہ ہے نہیں، اور اس نے اس کو سمجھ لیا۔ انسان کی جو پرواز ہے وہ مثال تک ہی یہ ہے بس۔ وہ ایک ان دیکھی چیز کو مثال کے بغیر نہیں سمجھ سکتا۔ تو ﴿لَنْ تَرَانِی﴾ نے جو راستہ بند کیا تھا وہ مثال سے کھل سکتا تھا، لیکن وہ مثال بھی بند کر دی گئی۔ جیسے ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾۔ تو پھر کیا کرو گے؟ جس چیز کو کسی نے دیکھا نہیں ہے تو آپ مثال سے ہی بیان کرتے ہیں کہ اچھا اس طرح ہو، اس طرح، اس طرح، اس طرح۔ لیکن مثال اس طرح، اس طرح تو اس میں ہے نہیں۔ تو اس وجہ سے یہاں پر معاملہ ادراکات کے ختم ہونے کا ہے، ادراکات ختم ہو جاتے ہیں۔ تو یہ جو ادراک ختم ہیں یہ بے علمی کی وجہ سے نہیں یہ علم کی وجہ سے ہیں، اپنی جہالت کے علم کی وجہ سے ہے، یہ ادھر ختم ہے اس لئے مقبول ہے۔ یعنی اپنے علم کی وجہ سے بے علمی کا انکشاف ہے۔ وہ کوشش جس میں ناکامی ہو لیکن کوشش صحیح ہو وہ قابلِ قبول ہے۔ جیسے ابراھیم علیہ السلام کا ذبح کرنے کا عمل۔ ابراھیم علیہ السلام نے پوری کوشش کی اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کی، لیکن اللہ پاک کو منظور نہیں تھا، تو اس کی جگہ مینڈھا لایا گیا اور وہ ذبح ہو گیا اور اللہ پاک نے فرمایا کہ آپ نے اپنا خواب سچا کر کے دکھایا۔ لہٰذا یہ جو بے ادراکی ہے یہ ادراک کے طور پر مان لی جاتی ہے۔ جس نے اپنی بے ادراکی کا ادراک کر لیا، جس نے اپنی بے ادراکی کا ادراک کر لیا۔ تو یہ اصل میں ہمارا طریقِ کار ہے۔ حضرت بھی اسی چیز کو ہی مختلف پیرائیوں میں بیان فرماتے رہتے ہیں، سمجھاتے رہتے ہیں تا کہ لوگ اپنے اس پہ چڑھیں نہیں، دیکھیں نہیں۔
غالباً یہی مفہوم ہمارے اس کلام میں ہے۔
عشق میرا تیرے قریب کر دے تیری پہچان تجھے دور کرے
علم میرا مجھے جاہل کر دے عشق تیرا دل میرا پُر نور کرے
آنکھیں میری تیری طرف ہی لگیں گو مجھے کچھ نظر نہیں آتا
کام میرا اس سے بن جائے لیکن دیکھنا میرا اگر وہ منظور کرے
تشریح:
ظاہر ہے اگر اس نے منظور کر لیا تو کام تو بن گیا۔
میں نادیدہ ہوں دیدہ ور کہاں ہوں پر دیدہ ور ہوں حقیقت کا میں
تشریح: یعنی اس حقیقت کو میں دیکھ رہا ہوں، تمہیں نہیں دیکھ رہا۔
کان ہیں مرکوز اپنے دل پر یوں شاید اس دل کو کوہِ طور کرے
تشریح:
شاید اس دل پر ہی اللہ اس چیز کو اتار دیں۔
اپنے ادراک کی بے ادراکی کو پیچھے دیکھا اس کا ادراک نہ رہا
ہاں! مگر در پہ اس کے ہوں براجماں یہی باعث ہو کہ معمور کرے
دید اس کا کہاں ممکن ہے شبیرؔ ﴿لَنْ تَرَانِي﴾ کا جواب موجود ہے
گو بظاہر ہے مگر الباطن حسنِ اجل اس کا مستور کرے
عشق میرا تیرے قریب کر دے تیری پہچان تجھے دور کرے
علم میرا مجھے جاہل کر دے عشق تیرا دل میرا پُر نور کرے
اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ آپ کے نام دس مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 172 پر گزر چکا ہے۔
۔ آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، اور حالات معلوم نہ ہو سکے۔
۔ تلوین، گونا گوں کرنا۔ اہلِ تصوف کی اصطلاح میں مقامات فقر میں سے ایک مقام کا نام ہے۔
۔ آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب نمبر 239 پر گزر چکا ہے۔
۔ آپ کے نام تین مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 225 پر گزر چکا ہے۔
۔ آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے۔ آپ خواجہ عبد الصمد شیریں قلم کے صاحب زادے اور جہانگیر کے ہم مکتب، رفیق و جلیس تھے۔ جہانگیر نے اپنے دور میں آپ کو پنج ہزاری کا منصب اور امیر الامراء کا خطاب دیا۔ آخر عمر میں دکن بھیج دیا تھا، وہیں انتقال ہوا۔ (مآثر الأمراء)
۔ آپ کے نام دس مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 172 پر گزر چکا ہے۔
۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الدرر المنتثره میں اور ابن عدی نے کامل میں بروایت حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما مرفوعًا روایت کیا ہے۔