خلفائے راشدین کے روحانی مقامات اور باہمی اختلافات پر ایک تحقیقی بیان

درس نمبر 109، دفتر اول، مکتوب 251

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مدینہ منورہ - مدینہ منورہ

یہ بیان حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مکتوب کی تشریح ہے، جو خلفائے راشدین کے روحانی مقامات، ان کی افضلیت اور صحابہ کرام کے مابین ہونے والے اختلافات (مشاجرات) کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے معتدل اور تحقیقی موقف کو واضح کرتا ہے۔ حضرت مجددؒ نے کشف کی بنیاد پر فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ "نبوتِ محمدی کا بوجھ" اٹھانے والے ہیں، جبکہ حضرت علیؓ "ولایتِ محمدی کا بوجھ" اٹھانے والے ہیں، اور چونکہ مقامِ نبوت ولایت سے افضل ہے، اسی لیے شیخین (ابوبکرؓ و عمرؓ) کی افضلیت ثابت ہے۔ صحابہ کرام کے مابین ہونے والے اختلافات کے حوالے سے، بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں ذاتی عناد پر نہیں بلکہ اجتہادی غلطی پر مبنی تھیں۔ حضرت علیؓ حق پر تھے جبکہ ان کے مخالفین اجتہادی خطا پر، جس کی وجہ سے انہیں فاسق یا گناہ گار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مسلمانوں کے لیے سب سے محفوظ راستہ یہی ہے کہ وہ ان معاملات میں خاموشی اختیار کریں، تمام صحابہ کرام بشمول اہلِ بیت کی تعظیم کریں اور کسی کی شان میں گستاخی سے اپنی زبان کو محفوظ رکھیں۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج بدھ کا دن ہے، اور بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے۔ چونکہ آج کل ہم الحمد للہ مدینۃ المنورہ میں ہیں، تو وہیں سے الحمدللہ یہ درس چل رہا ہے۔

مکتوب 251

مولانا محمد اشرف کی طرف صادر فرمایا۔

خلفائے راشدین کے فضائل اور حضرات شیخین کی افضلیت، اور حضرت امیر (علیؓ) کے بعض خصائص، اور اصحاب کرام علیہم الرضوان کی تعظیم و توقیر اور ان کے درمیان اور ان کے درمیانی جھگڑوں اور لڑائیوں کے بارے میں صحیح موقف اور اس کے متعلق بیان میں.

حمد و صلوۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد میرے سعادت مند بھائی خواجہ محمد اشرف کو معلوم ہو کہ بعض علومِ غریبہ، اسرار عجبیہ، مواہب لطیفہ اور معارفِ شریفہ کہ جن میں اکثر حضرات شیخین اور ذی النورین اور حیدر کرار (یعنی خلفائے اربعہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے فضائل و کمالات سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی ناقص فہم کے مطابق حوالہ قلم کرتا ہوں، ہوش کے کانوں سے سماعت فرمائیں۔

حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کمالاتِ محمدی کے حاصل ہونے اور ولایتِ مصطفوی علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے درجات پر فائز ہونے کے باوجود گزشتہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے درمیان ولایت کی جانب حضرت ابراہیم صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علی نبینا و علیہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور دعوت کی جانب جو کہ مقامِ نبوت کے مناسب ہے حضرت موسیٰ صلوات اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ و تسلیماتہٗ علی نبینا و علیہ سے مناسبت رکھتے ہیں۔ اور حضرت ذی النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں طرف (ولایت و دعوت) کے لحاظ سے حضرت نوح صلوات اللہ سبحانہ و تعالیٰ و تسلیماتہٗ علی نبینا و علیہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ اور حضرت امیر (علی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں طرف (ولایت و دعوت) میں حضرت عیسیٰ صلوات اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ و تسلیماتہٗ علی نبینا و علیہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ اور چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور اس کے کلمۃ اللہ ہیں، اس لئے لازمی طور پر نبوت کی بہ نسبت ولایت کی جانب ان میں غالب ہے اور حضرت امیرؓ میں بھی اسی مناسبت کی وجہ سے ولایت کی جہت غالب ہے۔ اور چاروں خلفاء کے مبادی تعینات، جہات کے اختلاف کی وجہ سے اجمالی اور تفصیلی طور پر صفت العلم ہیں، اور وہ صفت اجمال کے اعتبار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ہے اور تفصیل کے اعتبار سے حضرت خلیل کا رب ہے اور اجمال و تفصیل کی برزخیت کے اعتبار سے حضرت نوح کا رب ہے، جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رب صفتِ کلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رب صفتِ قدرت اور حضرت آدم علیہ السلام کا رب صفتِ تکوین ہے۔

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں کہ حضرت صدیقؓ اور حضرت فاروقؓ اپنے اپنے مرتبہ کے موافق’’بارِ نبوتِ نبویؐ‘‘ کے حامل ہیں۔ اور حضرت امیر (علیؓ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے ولایت کی جانب غلبہ کے باعث ’’ حامل بارِ ولایتِ محمدی ‘‘ ہیں۔ اور حضرت ذی النورینؓ برزخیت (درمیانی حیثیت) کے اعتبار سے دونوں نسبتوں (یعنی نبوتِ محمدی و ولایتِ محمدی) کے حامل ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اسی اعتبار سے ان کو ذوالنورین کہتے ہیں اور چونکہ حضرات شیخین کو’’حامل بارِ نبوت‘‘ فرمایا گیا ہے اسی لئے ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ مناسبت حاصل ہے کیونکہ مقامِ دعوت جو کہ مرتبہ نبوت سے پیدا ہوا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ باقی تمام انبیاء کے درمیان ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام) میں بدرجہ اتم و اکمل ہے۔ اور ان کی کتاب (توراۃ) قرآن مجید کے بعد نازل شدہ کتابوں میں بہترین ہے، لہٰذا ان کی امت پہلی امتوں کی نسبت زیادہ بہشت میں جائے گی۔ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت اور ان کی ملت تمام شریعتوں اور ملّتوں سے افضل و اکمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ملت کی پیروی کا حکم دیا گیا، چنانچہ آیت کریمہ "ثُمَّ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّةَ اِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌" (سورۃ نحل 16آیت 123) (پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ ملتِ ابراہیم کی پیروی کرو جو ایک طرف کے ہو رہے تھے) اسی مضمون کی شاہد ہے۔ اور حضرت مہدی موعود کہ ان کا رب بھی صفت العلم ہے جو حضرت امیر (علیؓ) کی مانند حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مناسبت رکھتے ہیں، گویا حضرت عیسیٰ کا ایک قدم حضرت امیرؓ کے سر پر ہے اور دوسرا قدم حضرت مہدیؓ کے سر پر۔

جاننا چاہئے کہ ولایتِ موسوی، ولایتِ محمدی کے داہنی جانب واقع ہوئی ہے اور ولایت عیسوی اس ولایت کے بائیں جانب ہے۔ اور چونکہ حضرت امیرؓ ولایتِ محمدی کے حامل ہیں اس لئے اکثر سلاسلِ اولیاء انہی سے منتسب ہوگئے ہیں اور حضرت امیر کے کمالات حضراتِ شیخین کے کمالات کی نسبت اکثر گوشہ نشین اولیاء پر، جو ولایت کے کمالات سے مخصوص ہیں، زیادہ ظاہر ہوئے ہیں۔ اگر حضرات شیخین کی افضلیت پر اہلِ سنت کا اجماع نہ ہوتا اکثر اولیائے گوشہ نشین کا کشف حضرت امیرؓ کی فضیلت کا حکم کر دیتا۔ چونکہ حضراتِ شیخین کے کمالات، انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے کمالات کے مشابہ ہیں اور اربابِ ولایت کی ان کمالات تک دسترس نہیں ہے۔

اور اہلِ کشف کا کشف ان کے کمالاتِ نبوت کے درجات کی بلندی کے باعث راستے ہی میں ہے، ولایت کے کمالات اور ان کے کمالاتِ نبوت کے مقابلے میں "کَالۡمَطۡرُوح فِی الطَّرِیۡق" (راستے میں پھینکے ہوئے کی مانند) ہیں۔ کمالاتِ ولایت، کمالاتِ نبوت کے عروج تک پہنچنے کے لئے زینہ (سیڑھی) ہیں. پس مقدمات کو مقاصد کی کیا خبر ہے اور مبادی کو مطالب کا کیا شعور ہے۔ آج یہ بات عہدِ نبوت کے بُعد کی وجہ سے اکثر لوگوں پر گراں اور قبولیت سے دُور معلوم ہوتی ہے، لیکن کیا کیا جائے ؂

درپسِ آئینہ طوطی صفتم ساختہ اند

ہرچہ استادِ ازل گفت ہماں می گویم

(مثلِ طوطی مجھے آئینہ کے پیچھے ہے رکھا

وہی کہتا ہوں جو اُستادِ ازل سے پڑھا)

لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ میں اس گفتگو میں علمائے اہل سنت شَکَرَ اللہُ تعَاَلیٰ سَعْیُہُم کے موافق ہوں اور ان کے اجماع سے متفق ہوں۔ اور (حق تعالیٰ نے) مجھ پر ان کے استدلالی علم کو کشفی اور اجمالی کو تفصیلی کر دیا۔

اس فقیر کو جب تک کہ اپنے پیغمبر کی متابعت کے باعث مقامِ نبوت کے کمالات تک نہیں پہنچا دیا گیا اور اُن کمالات سے پورا پورا حصہ نہیں دیدیا گیا، اس وقت تک فضائلِ شیخین کو کشف کے طریقے پر اطلاع نہیں بخشی گئی اور تقلید کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں دکھائی گئی ((الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰنَا اللہُ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌)) (اعراف 7 آیت 43) (تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہم کو اس کی ہدایت دی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق (سچائی) کے ساتھ آئے ہیں)۔

ایک دن کسی شخص نے بیان کیا کہ (راویوں نے) لکھا ہے کہ حضرت امیرؓ کا نام بہشت کے دروازے پرثبت کر دیا گیا ہے، اس فقیر کے دل میں گزرا کہ حضراتِ شیخین کے لئے اس مقام پر کیا خصوصیتیں ہوں گی؟ پوری طرح توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس امت کا بہشت میں داخلہ ان دونوں اکابر حضرات کی تجویز اور استصواب پر ہوگا۔ گویا حضرت صدیقؓ بہشت کے دروازے پر کھڑے ہیں اور لوگوں کے داخلے کی تجویز فرماتے ہیں اور حضرت فاروق ان کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے ہیں۔ اور ایسا مشاہدہ میں آتا ہے کہ گویا تمام بہشت حضرت صدیقؓ کے نور سے بھری ہوئی ہے۔

اس حقیر کی نظر میں حضرات شیخین، تمام صحابہ کے درمیان ایک علیحدہ شان اور یگانہ درجہ رکھتے ہیں گویا کہ کوئی بھی اس میں ان کا شریک نہیں ہے۔ حضرت صدیقؓ حضرت پیغمبر علیہ و علیہم الصلوۃ و السلام کے ساتھ گویا ’’ ہم خانہ‘‘ ہیں، اگر فرق ہے تو صرف بلندی اور پستی کا ہے (یعنی سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم بالائی منزل میں ہیں اور حضرت صدیقؓ اسی محل کے نیچے کی منزل میں ہیں) اور حضرت فاروقؓ بھی حضرت صدیقؓ کے طفیل اس دولت سے مشرف ہیں اور باقی تمام صحابہ کرام آں سرور علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات کے ساتھ ہم سرائے یا ہم شہری ہونے کی نسبت رکھتے ہیں پھر امت کے اولیاء کی وہاں کیا رسائی ہوسکتی۔

ایں بس کہ رسد ز دور بانگ جرسم

(دور ہی سے جو سُنوں بانگِ جرس، کافی ہے)

پس یہ لوگ (اولیائے امت) شیخینؓ کے کمالات سے کیا حاصل کر سکتے ہیں (کیونکہ) یہ دونوں بزرگوار اپنی بزرگی اور برتری کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام میں معدود (شمار کئے ہوئے) ہیں اور انبیاء کے فضائل کے ساتھ موصوف ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا : "لَوْ کَانَ بَعْدِی نَبِیّ لَکَانَ عُمَرُ" (اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو البتہ عمر ہوتا)۔۔۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ حضرت فاروق کی ماتم پرسی کے ایام میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے صحابہؓ کی مجلس میں کہا: "مَاتَ تِسْعَۃُ اَعْشَارِ العِلْمِ" (آج نو حصہ علم فوت ہو گیا) جب بعض حضرات نے اس کے معنی سمجھنے میں توقف ظاہر کیا تو فرمایا کہ میری مراد علم سے علم باللہ ہے (یعنی معرفتِ حق جل و علا) نہ کہ حیض و نفاس کا علم (یعنی علمِ احکامِ شرعیہ)۔

اور حضرت صدیقؓ کے متعلق یہ فقیر کیا بیان کرے کہ حضرت عمر کی تمام نیکیاں ان کی ایک نیکی کے برابر ہیں جیسا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو انحطاط اور کمی حضرت عمر کو حضرت صدیقؓ سے ہے وہ اس انحطاط و کمی سے زیادہ ہے جو حضرت صدیقؓ کو حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوات والتسلیمات سے ہے۔ لہٰذا قیاس کرنا چاہئے کہ حضرت صدیقؓ سے دوسروں کا انحطاط و کمی کس درجہ کی ہوگی۔ اور حضرات شیخینؓ وفات کے بعد بھی حضرت پیغمبر سے جدا نہیں ہوئے اوران کا حشر بھی اُنہی (پیغمبر) کے درمیان (دائیں بائیں) ہوگا جیسا کہ (آنحضرت نے) فرمایا۔ پس ان کی افضلیت (آنحضرت سے) اقربیت کی وجہ سے ہوگی۔

یہ (حقیر) قلیل البضاعت (بے سر و سامان) ان حضرات کے کمالات کے بارے میں کیا بیان کرے اور ان کے فضائل میں کیا ظاہر کرے۔ ایک ذرہ کی کیا طاقت کہ آفتاب کی باتیں کرے اور قطرے کی کیا مجال کہ بحرِ عمان (دریائے محیط) کی بات زبان پر لائے۔

وہ اولیائے کرام جودعوتِ خلق کی طرف لوٹا دیئے گئے ہیں اور ولایت و دعوت دونوں طرف سے کامل حصہ رکھتے ہیں اور تابعین و تبع تابعین میں سے علمائے مجتہدین نے اپنے کشفِ صحیح کے نور سے اور فراستِ صادقہ اور متواتر خبروں کی بنیاد پر شیخین کے کمالات کو تھوڑا سا دریافت کیا ہے اور ان کے فضائل میں سے تھوڑی سی معرفت حاصل کر کے ناچار اُن کی افضلیتِ شان کا حکم دیا ہے اور اس پر اجماع کیا ہے اور اس کشف کو جو اس اجماع کے خلاف ظاہر ہو اس کو عدم صحت پر محمول کر کے قابلِ اعتبار نہیں سمجھا ہے۔ اور اس کے علاوہ اور کسی کشف کا کس طرح اعتبار کیا جاسکتا ہے جبکہ صدرِ اول (عہدِ نبوی) میں ان کی افضلیت کی صحت مسلّم ہو چکی ہے، جیسا کہ امام بخاریؒ نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے : "قَالَ کُنَّا فِی زَمَنِ النَّبِی صَلَّے اللہ تَعَالیٰ عَلَیہ وَ اَلِہِ وسَلَّم لَانَعْدِل بِابِی بَکْر اِحَدا ثُمَّ عُمَر ثُمَّ عُثْمَان ثُمَّ نَتْرُکُ اَصْحَابَ اَلنَّبیِ صَلَّے اللہ تعالیٰ عَلیہِ وسَلَّم لَا نُفَاضِلُ بَیْنَھُمْ" (حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ پھر حضرت عثمانؓ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ اصحاب کو چھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کسی کو فضلیت نہ دیتے تھے)۔ اور ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے کہ "قَالَ کُنَّا نَقُولُ و رَسُولُ الَّلہِ صَلَّی اللَّہُ تَعالیٰ عَلَیْہ وَالِہ وَسَلَّمْ حَیُّ اَفْضَل اُمَّتہ النَّبِی صَلی اللّٰہُ تَعالیٰ عَلیْہ وَاِلِہ وَسَّلْم بَعْدَہ اَبُوبَکْر ثُمَّ عُمَر ثُمَّ عُثْمَان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم" (حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تمام امت میں حضرت ابوبکرؓ افضل ہیں پھر حضرت عمرؓ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم)

اور یہ جو کہا گیا ہے کہ’’ولایت نبوت سے افضل ہے‘‘ یہ اربابِ سکر(کی خبر) سے ہے جو اولیاء غیر مرجوع میں سے ہیں اور جن کو مقامِ نبوت کے کمالات سے زیادہ حصہ حاصل نہیں ہے۔ اور آپ کی نظر سے گزرا ہوگا کہ فقیر نے اپنے بعض رسائل میں تحقیق کی ہے کہ’’نبوت ولایت سے افضل ہو۔‘‘ اگرچہ اسی نبی کی ولایت ہو، اور حق (سچی بات) بھی یہی ہے۔ اور جس کسی نے اس کے خلاف کہا ہے وہ مقامِ نبوت کے کمالات کی نادانی کی وجہ سے کہا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔

آپ کو معلوم ہے کہ اولیاء کے تمام سلسلوں کے درمیان صرف سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی نسبت حضرت صدیقؓ سے ہے لہٰذا نسبتِ صحو بھی ان (مشائخ نقشبندیہ) کے درمیان غالب ہے اور ان کی دعوتِ (اسلام) کامل تر ہے، اور حضرت صدیقؓ کے کمالات ان پر زیادہ ظاہر ہوتے ہیں تو لازمی طور پر ان کی نسبت تمام سلسلوں کی نسبت سے بڑھ کر ہوگی۔ لہٰذا دوسرے ان کے کمالات کو کیا پاسکتے ہیں اور ان کی حقیقتِ معاملہ کو کیا سمجھ سکتے ہیں۔۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ تمام مشائخ نقشبندیہ اس معاملہ میں برابر ہیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ اگر ہزاروں میں سے ایک بھی اس صفت میں کامل ہوجائے تو غنیمت ہے۔ میرا خیال ہے کہ حضرت مہدی موعود جو ولایت کی اکملیت کے لئے مقرر ہیں ان کو یہ نسبت حاصل ہوگی، اور وہ اس سلسلہ عالیہ کی تتمیم و تکمیل فرمائیں گے، کیونکہ دوسری تمام ولایتوں کی نسبت اس نسبتِ عالیہ سے کمتر ہے۔ باقی تمام ولایتوں کو مرتبۂ نبوت کے کمالات سے بہت کم حصہ حاصل ہے، اور یہ ولایت حضرت صدیقؓ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ان کمالاتِ (نبوت) سے حظِ وافر رکھتی ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا۔

ببیں تفاوتِ راہ از کجاست تابکجا

(یہ راہ دیکھو کہاں اور وہ راہ دیکھوکہاں)

اے بھائی! چونکہ حضرت امیر (علیؓ) بارِ ولایتِ محمدی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام والتحیہ کے حامل ہیں اس لئے اقطاب، ابدال اور اوتاد کے مقام کی تربیت جو اولیائے عزلت میں سے ہیں اور کمالاتِ ولایت کی جانب ان میں غالب ہے ان کی تربیت حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی اعانت و امداد کے سپرد ہے۔ قطب الاقطاب یعنی قطبِ مدار کا سر حضرت امیرؓ کے زیرِ قدم ہے۔ قطبِ مدار انہی کی حمایت اور رعایت سے اپنی مہم سرانجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔۔۔ حضرت فاطمہؓ اور امامین (حضرات حسنؓ و حسینؓ) بھی اسی مقام میں حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے شریک ہیں۔

جاننا چاہئے کہ پیغمبر علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات کے اصحاب سب بزرگ ہیں لہٰذا تمام (صحابہ) کو بزرگی سے یاد کرنا چاہئے۔ خطیب بغدادیؒ نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اِنَّ اللّٰہَ اخْتَارَنِیْ وَاخْتَارَلِیْ اَصْحَاباً وَاخْتَارَلِیْ مِنْھُمْ اَصْھَارَا واَنْصَارَا فَمَنْ حَفِظَنِیْ فِیْھِمْ حَفِظَہُ اللّٰہُ وَمَنْ اٰذَانِیْ فِیْھِمْ ایذَاہُ اللّٰہُ" (تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لئے اصحاب کو پسند کیا اور ان میں سے بعض کو میرے لئے قرابت دار اور مددگار پسند کیا، پس جس شخص نے ان کے حق میں مجھے محفوظ رکھا اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور جس نے ان کے حق میں مجھے ایذا دی اس کو اللہ تعالیٰ نے ایذا دی)۔ اور طبرانی نے حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "مَنْ سبَّ اَصْحَابِی فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ والمَلئِٰکۃِ والنَّاسِ اَجْمَعِین" (جس نے میرے اصحاب کو گالی دی اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی طرف سے لعنت ہے)۔۔۔ اور ابن عدی نے حضرت عائشہ رضی للہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:" اِنَّ اِشْرَارَ اُمَّتِی اَجْرَأُھُمْ عَلی اَصْحَابِی" (میری امت کے بدترین وہ لوگ ہیں جو میرے اصحاب پر دلیر ہیں)۔ اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو اُن کے درمیان واقع ہوئے ہیں نیک نیتی پر محمول کرنا چاہئے اور ہَوا و تعصب سے دور سمجھنا چاہئے، کیونکہ ان کی مخالفتیں اجتہاد و تاویل پر مبنی تھیں نہ کہ ہَوا و ہوس پر،جیسا کہ جمہور اہل سنت کا موقف ہے۔۔۔ لیکن جاننا چاہئے کہ حضرت امیر کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے خلاف لڑنے والے خطا پر تھے اور’’حق‘‘ حضرت امیرؓ کی جانب تھا لیکن چونکہ یہ خطا خطائے اجتہادی ہے اس لئے ملامت سے دور اور مواخذہ سے بری ہے، جیسا کہ شارح مواقف، آمدی سے نقل کرتے ہیں کہ جمل و صفین کے واقعات اجتہاد کی رُو سے ہوئے ہیں۔۔۔ اور شیخ ابوشکور سلمی نے تمہید میں تصریح کی ہے کہ اہلِ سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ امیر معاویہؓ مع ان کے تمام اصحاب کے جو ان کے ہمراہ تھے سب خطا پر تھے لیکن ان کی خطا خطائے اجتہادی تھی۔ اور شیخ ابنِ حجرؒ نے صواعق میں کہا ہے کہ امیر معاویہؓ اور حضرت امیرؓ کے درمیان جھگڑے اجتہاد کی بنا پر ہوئے ہیں، اور اس قول کو اہلِ سنت کے معتقدات سے فرمایا ہے۔

اور شارح مواقف نے جو یہ بات کہی ہے کہ ہمارے بہت سے اصحاب اس پر متفق ہیں کہ ’’ وہ جھگڑا اجتہاد کی بنا پر نہیں تھا‘‘ معلوم نہیں کہ اصحاب سے ان کی مراد کونسا گروہ ہے۔ جبکہ اہلِ سنت اس کے خلاف حکم دیتے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا اور قوم کی کتابیں’’ خطائے اجتہادی‘‘ (کے حکم) سے بھری ہوئی ہیں، جیسا کہ امام غزالیؒ، قاضی ابوبکرؒ وغیرہ نے صراحت کی ہے۔ لہٰذا حضرت امیرؓ کے ساتھ جنگ کرنے والوں کو فاسق اور گمراہ کہنا جائز نہیں ہوا۔

قاضی (عیاض) نے شفا میں لکھا ہے کہ ’’ حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو یعنی ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ اور عمروبن العاص (وغیرہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو گالی دی اور کہا کہ وہ کفر اور گمراہی پر تھے تو وہ واجب القتل ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور سب و شتم کا لفظ استعمال کیا جس طرح لوگ ایک دوسرے کو کہتے ہیں تو اس کو سخت سزا دی جائے کیونکہ حضرت امیرؓ کے خلاف جنگ کرنے والے کفر پر نہ تھے جیسا کہ بعض غالی رافضیوں کا خیال ہے اور نہ ہی فسق پر تھے، جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے اور شارح مواقف نے اس قول کو بہت اصحاب کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا جبکہ حضرت صدیقہؓ اور طلحہؓ و زبیرؓ اور بہت سے اصحاب کرام انہی میں سے تھے۔ اور طلحہؓ و زبیرؓ جمل کی لڑائی میں امیر معاویہؓ کے خروج سے پیشتر تیرہ ہزار مقتولین کے ساتھ شہید و قتل ہوئے۔ لہٰذا ان کو ضلالت اور فسق کی طرف منسوب کرنے پر، سوائے اس شخص کے جس کے دل میں مرض اور باطن میں خبث (گندگی) ہو، کوئی مسلمان جرات نہیں کر سکتا۔‘‘

اور یہ جو بعض فقہاء نے اپنی عبارات میں امیر معاویہؓ کے حق میں لفظِ ’’جور‘‘ استعمال کیا ہے اور کہا ہے : "کَانَ مَعَاوِیَۃ اِمَاماً جَائِراً" (معاویہ جور کرنے والے امام تھے) تو اس جور سے مراد یہ ہے کہ حضرت امیرؓ کی خلافت کے زمانے میں امیر معاویہ خلافت کے حقدار نہیں تھے، نہ کہ وہ جور جس کا انجام فسق و ضلالت ہے (یہ توجیہ اس لئے ہے) تاکہ اہلِ سنت کے اقوال کے موافق ہو جائے۔ اس کے باوجود استقامت والے حضرات ایسے الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں جس سے مقصود کے خلاف وہم پیدا ہوتا ہو۔ اور ’’خطا‘‘ سے زیادہ کہنا پسند نہیں کرتے اور امیر معاویہؓ جَور کرنے والے کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ صحیح طور پر تحقیق ہو چکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور مسلمانوں کے حقوق میں امام عادل تھے جیسا کہ صواعق میں ہے اور حضرت مولانا عبد الرحمٰن جامیؒ نے جو خطائے منکر کہا ہے کہ انہوں نے زیادتی کی ہے اور لفظِ ’’ خطا‘‘ سے زیادہ جو کچھ بھی کہا جائے خطا ہے اس کے بعد جو انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ مستحق لعنت ہیں الخ یہ بھی نامناسب کہا ہے، اس کی تردید کی کیا حاجت ہے اور اس میں شک و شبہ کا کیا موقع ہے۔ اگر یہ بات یزید کے بارے میں کہی جائے تو گنجائش رکھتی ہے، لیکن حضرت معاویہؓ کے بارے میں ایسا کہنا بہت بُرا ہے۔ احادیث نبویؐ میں معتبر اور ثقات کی اسناد سے مروی ہے کہ حضرت پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام نے امیر معاویہؓ کے حق میں دعا فرمائی اور فرمایا: "اَلَّلھُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ والْحِسَابَ وَقِہُ الْعَذَابَ" (یااللہ! تو اس کو کتاب اور حساب کا علم دے اور اس کو عذاب سے بچا) اور دوسری جگہ دعا میں فرمایا : "اَلَّلھُمَّ اجْعَلْہُ ھَادِیاً وَمَھْدِیاً" (یا اللہ! تو اس کو ہادی اور مہدی بنا) اور آنحضرتؐ کی یہ دعا مقبول ہے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مولانا جامی سے سہو و نسیان کی بنیاد پر سرزد ہوئی ہوگی اور نیز مولانا نے انہی ابیات میں نام کی تصریح کے بغیر کہا ہے کہ ’’ آں صحابی دیگر‘‘ (وہ صحابی دوسرے ہیں) اور یہ عبارت بھی ناخوشی کی خبر دیتی ہے۔ "رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا" (بقرہ 2آیت 286) (اے ہمارے رب! ہماری بھول چوک پر گرفت نہ کیجیو)۔

اور یہ جو (بعض نے) امام شعبیؒ سے امیر معاویہؓ کی مذمت میں نقل کیا ہے اور ان کی برائی کو فسق سے بھی بدتر قرار دیا ہے وہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ (اور اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو) امام اعظم (ابوحنیفہؒ) جوان کے شاگردوں میں سے ہیں اس نقل کو بیان کرنے کے زیادہ مستحق تھے اور امام مالکؒ جو تابعین میں سے ہیں اور ان (امام شعبیؒ) کے ہمعصر اور علمائے مدینہ میں سب سے زیادہ عالم ہیں امیر معاویہؓ اور عمروبن العاصؓ کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم کرتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اگر وہ سبّ و شتم کے مستحق ہوتے تو ان کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم کیوں کرتے۔ پس معلوم ہوا کہ ان کو گالی دینا گناہ کبیرہ سمجھ کر ان کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم کیا ہے، اور اسی طرح ان کو گالی دینا حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ کو گالی دینے کی طرح خیال کیا ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ لہٰذا حضرت معاویہؓ نکوہش (سرزنش و برائی) کے مستحق نہیں ہیں۔

اے برادر! اس معاملے میں امیر معاویہؓ تنہا نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام کی کم و بیش نصف جماعت اس معاملہ میں حضرت معاویہؓ کے شریک ہیں۔ پس محاربانِ امیرؓ اگر کفر یا فسق پر ہوں تو نصف دین سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ان کی تبلیغ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے اور اس طرح کی بات کو سوائے اس زنذیق کے اور کوئی تجویز نہیں کرتا، جس کا مقصود دین کی بربادی اور اس کو جھٹلانا ہے۔

اے بھائی! اس فتنے کے برپا ہونے کا منشا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہے اور ان کے قاتلوں سے ان کا قصاص طلب کرنا ہے۔ حضرت طلحہؓ و زبیرؓ جو اوّل مدینہ منورہ سے باہر نکلے تھے اس کی وجہ بھی تاخیرِ قصاص تھی اور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اس معاملے میں ان کی موافقت کی اور جنگِ جمل جس میں تیرہ ہزار آدمی قتل ہوئے اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ بھی جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں وہ بھی شہید ہوئے۔ وہ بھی حضرت عثمانؓ کے قصاص کی تاخیر کی وجہ سے شہید ہوئے۔ اس کے بعد امیر معاویہؓ نے شام سے آکر ان کے ساتھ شریک ہو کر جنگِ صفین لڑی۔

حضرت امام غزالیؒ نے تصریح کی ہے کہ وہ جھگڑا خلافت پر نہیں ہوا بلکہ حضرت امیرؓ کی خلافت کی ابتدا ہی میں قصاص کے پورا کرنے کے لئے ہوا۔ اور شیخ ابن حجرؒ نے بھی اس بات کو اہل سنت و الجماعت کے معتقدات میں سے بیان کیا ہے اور شیخ ابوشکور سلمی جو کہ حنفیہ علماء کے اکابرین میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہؓ کا حضرت امیر (علیؓ) سے جھگڑا خلافت کے بارے میں تھا کیونکہ پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات نے حضرت معاویہؓ سے فرمایا تھا کہ "اِذَا مَلَکْتَ النَّاسَ فَارْفِقْ بِھِمْ" (جب تو لوگوں کا حاکم بن جائے تو ان کے ساتھ نرمی کرنا)۔ اسی وجہ سے حضرت معاویہؓ کو خلافت کی آرزو پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن وہ اس جہاد میں خطا پر تھے اور حضرت امیرؓ حق پر تھے۔ کیونکہ ان کی خلافت کا زمانہ حضرت امیرؓ کی خلافت کے زمانے کے بعد ہے۔اور ان دونوں اقوال کے درمیان موافقت اس طرح ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس جھگڑے کی وجہ قصاص کی تاخیر ہو۔ اس کے بعد امیر معاویہؓ کو خلافت کی آرزو پیدا ہوگئی ہو۔ بہر تقدیر اجتہاد اپنے محل میں واقع ہوگیا۔ اگر خطا پر ہے تو ایک درجہ اور اگر حق پر ہے تو دو درجہ بلکہ دس درجے (ثواب ہے)۔

اے بھائی! اس معاملہ میں سب سے بہتر اور سلامتی کا طریقہ یہی ہے کہ حضرت پیغمبر علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات کے اصحاب کے جھگڑوں کے ذکر سے خاموشی اختیار کی جائے اور ان کے جھگڑوں کے تذکروں سے منہ پھیر لیا جائے، کیونکہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے-: "اِیَّاکُمْ ومَاشَجَرَ بَیْنَ اَصْحَابِی" (میرے اصحاب کے درمیان جو جھگڑے ہوں ان سے اپنے آپ کو بچاؤ)۔ نیز آنحضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: "اِذَا ذُکِرَ اَصْحَابِی فَامْسِکُوا" (جب میرے صحابہ (کے اختلاف) کا ذکر ہو تو خاموش ہو جاؤ)۔ اور نیز علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:" اَللّٰہ اَللّٰہ فِی اَصْحَابِی لَاتَتْخِذُوھُم غَرَضاََ" (میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ان کو اپنے تیر کا نشانہ نہ بناؤ)۔

حضرت امام شافعیؒ نے فرمایا اور اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیزؒ سے بھی منقول ہے: "تِلْکَ دِمَاء طَھَّرَ اللّٰہُ عَنْھَا اَیْدَیَنَا فَلْنُطَھِّرْ عَنْھَا اَلْسِنَتَنَا"(یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو بچایا ہے لہٰذا ہم کو چاہئے کہ اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھیں)۔ اس عبارت سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ ان کی خطاؤں کو زبان پر نہیں لانا چاہئے اور ان کے ذکرِ خیر کے علاوہ اور کچھ بیان نہ کرنا چاہئے۔ بدنصیب یزید فاسقوں کے زمرے میں سے ہے اس کی لعنت میں توقف کرنا اہلِ سنت و الجماعت کے مقررہ اصول میں سے ہے کیونکہ شخصِ معین کو اگرچہ وہ کافر ہو لعنت تجویز نہیں کی گئی، مگر جب یقیناً معلوم ہو جائے کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے جیسا کہ ابی لہب جہنمی اور اس کی بیوی۔ نہ یہ کہ وہ لعنت کے لائق نہیں (یعنی وہ لعنت کے لائق ہیں)۔ (جیسا کہ قرآن کریم میں ہے) "اِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ ‏" (احزاب 33 آیت 57) (جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے)۔

جاننا چاہئے کہ اس زمانہ میں چونکہ اکثر لوگ امامت کے معاملہ میں بحث کرتے رہتے ہیں، اور اصحابِ کرام علیہم الرضوان کی خلافت و مخالفت کی نسبت گفتگو کرنا اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ اور جاہل تاریخ داں اور سرکش بدعتیوں کی تقلید کرتے ہوئے اکثر اصحاب کرام کو نیکی و بھلائی سے یاد نہیں کرتے اور نامناسب باتیں ان حضرات کی طرف منسوب کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ضروری سمجھتے ہوئے جو کچھ معلوم تھا اس میں سے تھوڑا سا تحریر میں لاکر دوستوں تک پہنچا دیا گیا۔ آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : "اِذَا ظَھَرَتِ الْفِتَنُ اَوْ قَالَ الْبِدَعُ وَ سُبَّتْ اَصْحَابِیْ فَلْیُظْھِرِ الْعَالِمُ عِلْمَتُہ فَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلِٰکَتِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ لَایَقْبَلُ اللّٰہُ لَہٰ صَرْفَا وَلَا عَدْلاً" (جب فتنے یا یہ فرمایا بدعتیں ظاہر ہوجائیں اور میرے اصحاب کو گالیاں دی جائیں تو عالم کو چاہئے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے پس جس نے ایسا نہ کیا اور اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ اس کے نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل)۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ سلطانِ وقت (جہانگیر بادشاہ) اپنے آپ کو حنفی مذہب (کاپیرو) قرار دیتا ہے اور اہلِ سنت و جماعت سے جانتا ہے ورنہ مسلمانوں کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس نعمت عظمیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے۔ پس چاہئے کہ اہلِ سنت و الجماعت کے معتقدات کے مطابق اپنے اعتقاد کا مدار رکھیں اور زیدوعمر کی باتوں پر توجہ نہ دیں۔ جھوٹے افسانوں پر اپنے کام کی بنیاد رکھنا خود کو ضائع کرنا ہے۔ فرقہ ناجیہ (اہلِ سنت) کی تقلید ضروری ہے تاکہ نجات کی امید پیدا ہو۔ "وَبِدُوْنِہٖ خَرْطُ الْقَتَادِ" (ورنہ بے فائدہ تکلیف اٹھانا ہے) وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَعَلیٰ سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی وَالْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَعَلیٰ اٰلِہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ (اور سلام ہو تم پر اور ان سب پر جنہوں نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ علی آلہ الصلوۃ والسلام کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا۔

الحمدللہ! حضرت نے ما شاء اللہ بہت ہی زیادہ گہرا مضمون پیش فرمایا ہے، جو ہمارے معتقدات سے متعلق ہے۔ سب سے پہلے تو حضرت نے صحابہ کرام کے جو مقامات ہیں، اس بارے میں بات کی ہے۔ کہتے ہیں یہ ایک قانون ہے اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھو۔ یہ قانون قرآن پاک نے بتایا ہے کہ اگر تمہیں معلوم نہیں ہے تو پھر جاننے والوں سے پوچھو: ﴿فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43) اب ہم لوگ اپنی طرف سے بات نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ واقعات ہمارے سامنے تو نہیں ہوئے، لیکن جن کے سامنے ہوئے ہیں، ان سے پوچھیں گے، اب وہ بھی ہمارے سامنے نہیں ہیں تو ان کی تحریرات، ان کے بارے میں روایات ہیں، ان سے ہم معلوم کریں گے۔ ہمارے دین کی پوری بنیاد انہیں چیزوں پر ہے، قرآن اور سنت پر ہے۔ تو اب جب ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے کچھ باتیں معلوم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کچھ باتیں معلوم ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے ذریعہ سے کچھ باتیں معلوم ہیں۔ تو اس میں پھر ہم خیال کو درمیان میں نہیں لاسکتے کہ میرے خیال میں ایسا ہے۔ وہاں خیال کی بات ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے قرآن پاک میں صحابہ کرام کے بارے میں جو ارشاد فرمایا ہے وہ انتہائی وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ وہ ایک کونپل کی طرح ہیں جو تنا بن گیا اور پھر مضبوط ہوگیا۔ (الفتح: 29) تو یہ صحابہ کریام کی مثال دی کہ کس طرح ان کی پرورش فرمائی۔ پھر اخیر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں اس لئے تعریفیں بیان کر رہا ہوں کہ ﴿لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ (الفتح: 29) تاکہ کفار کے دل جلیں۔ تو اب جس کو ہم کہتے ہیں کہ اصول متعاکسہ کے مطابق کہ واپس ایک چیز پلٹ آتی ہے۔ جیسے کہ ہم نے یہ قرآن سے معلوم کرلیا کہ اللہ پاک نے یہ اس لئے ارشاد فرمایا ہے کہ کفار کے دل جلیں، تو اگر صحابہ کرام کی تعریف سے کسی کے دل جلتے ہوں، تو پھر وہ کیا ہوں گے؟ یہ سوال ہے۔ یہی فتویٰ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے۔ خیر! اس تفصیل میں تو میں نہیں جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا: "اَللهَ اَللهَ فِيْ أَصْحَابِيْ، اَللهَ اَللهَ فِيْ أَصْحَابِيْ لَاتَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ" (سنن ترمذی: 3862) ترجمہ: ’’میرے صحابہ کے بارے میں تم اللہ سے ڈرتے رہو، ان کو میرے بعد ملامت کا نشانہ نہ بنانا، پس جو ان کے ساتھ محبت کرتا ہے، وہ اصل میں میری محبت کی وجہ سے ان کے ساتھ محبت کرتا ہے، اور جو ان کے ساتھ بغض رکھتے ہیں، وہ اصل میں میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان کے ساتھ بغض رکھتے ہیں‘‘۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی محبت اور بغض کو اپنے اوپر لے لیا اور اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس کا یہ معاملہ ہو، اس کو اپنی ذات کے ساتھ جوڑ لیا۔ اب خود ہی فیصلہ کرلیں کہ وہ کہاں جائیں گے۔ یہ چیزیں منصوص اشارے ہوتے ہیں، اس میں اپنے آپ کو اور اپنے ذہن کو اس کے مطابق بنانا ہوتا ہے اور اس کے مطابق فٹ کرنا ہوتا ہے۔ اب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم صحابہ میں کس کو افضل کہیں۔ تو یہ بھی حدیث شریف ہے کہ "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" (الجامع الصغير وزيادته: 9474)

ترجمہ: ’’جس پر میں چلوں اور میرے صحابہ چلیں۔‘‘

لہٰذا صحابہ نے اس وقت جو کیا وہی ہمارے لئے معمول ہوگا، وہی بہتر ہوگا کیونکہ "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ" (جس پر میں چلوں جس پر میرے صحابہ چلیں) اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت کے لئے تعریف فرمائی تھی، بلکہ یہاں تک ارشاد فرمایا تھا کہ باقی سارے دروازے مسجد کی طرف بند کردیئے جائیں لیکن ابوبکر صدیق کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے۔ ان کو امیر حج بنایا اور اپنے سامنے ان کو نماز کا امام بنایا، حتی کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک خاص وجہ سے کچھ بات بھی کی تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ ایسا نہیں کہنا چاہئے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ کھل کے آگیا اور صحابہ نے اس اشارے کو سمجھ بھی لیا۔ لہٰذا جس وقت خلافت کی بات ہوئی تو پھر درمیان میں کوئی اور بات نہیں آئی، صحابہ کرام سب متفق ہوگئے، علی رضی اللہ تعالی عنہ کا معاملہ کچھ اور تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تکفین میں لگے ہوئے تھے، اور بہت سارے کام حضرت کو کرنے تھے، ان کو شکوہ صرف اتنا تھا کہ میرے آنے تک انتظار کیوں نہیں کیا۔ لیکن امت کا معاملہ اصل میں شخصیتوں سے اوپر کی بات ہوتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازۂ مبارکہ کا بھی خیال نہ کیا گیا۔ کیوں؟ کیا وجہ ہے؟ کہ درمیان میں خلا نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ کسی وقت امت امیر سے خالی نہیں رہنی چاہیے، چنانچہ تمام صحابہ کی حفاظت اسی میں ہی تھی کہ کوئی خلیفہ جلدی مقرر ہو، تو جن صحابہ کرام نے اس چیز کو سمجھ لیا، تو انہوں نے واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ کا بھی انتظار نہیں کیا، اور خلیفہ پہلے مقرر کیا۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ کا شکوہ بھی اپنی طرف سے بجا تھا، کیونکہ ان کا بڑا مقام تھا لیکن یہ کام بھی بہت ضروری تھا۔ لہٰذا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ معاملہ صاف کر دیا کہ یہ اس وجہ سے ہوا، ان کا شکوہ بھی سن لیا۔ یہ ایک معاملہ کی بات تھی، اور صحابہ کرام کا تعامل ثابت ہوا۔ تو صحابہ کرام جس پر متفق ہوگئے تو "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ" کے قاعدہ کے مطابق پھر سب سے افضل وہی ہیں۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا، تو تمام صحابہ نے اس کو مان لیا، لہٰذا وہ بھی خلیفۂ راشد ہیں۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے معاملے میں اختلاف ہوا، اختلاف جو بھی تھا لیکن اختلاف کا طریقہ بھی تو بتانا تھا، اور صحابہ کرام نے اس چیز کو تو طے کرنا تھا۔ لہٰذا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بہترین چھ لوگوں کی کمیٹی بنائی اور کمیٹی میں اصول ایسے بنائے تھے کہ جس طرف اکثریت ہو تو اس کو خلیفہ مقرر کردیا جائے، جو اقلیت ہے اگر وہ بات نہ مانے تو ان کا سر اڑا دینا۔ تو یہ چھ معمولی لوگ نہیں تھے، بلکہ خلیفہ بننے والے تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، بڑے لوگ تھے۔ لیکن ان کے بارے میں فرمایا کہ ایک طرف چار ہوگئے، اور دوسری طرف دو ہوگئے، تو اگر دو نہ مانیں تو ان کا سر اڑا دینا۔ اور اگر برابر ہوں، تو جس طرف حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ ہوں، اس کو فوقیت حاصل ہوگی، یہ اصول طے کر دیا۔ تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سبحان اللہ! اپنا ووٹ اس طریقے سے طے کیا کہ میں تو خلیفہ نہیں بنوں گا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں خود فرمایا کہ یہ ووٹ دے گا، لیکن یہ خلیفہ نہیں بنے گا۔ یعنی شوریٰ میں ہے، لیکن خلیفہ نہیں بنے گا۔ تو عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے خود اپنے آپ کو علیحدہ کیا اور فرمایا کہ میں خلیفہ تو نہیں لیکن میرا جو ووٹ ہے، ان لوگوں کے ساتھ ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر چلیں گے اور شیخین کے طریقہ پہ چلیں گے، یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو فیصلے کیے ہوں گے ان فیصلوں کو بھی endorse کریں گے۔ اب اجتہادی طریقہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ تھا کہ وہ فرماتے تھے کہ نہیں بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے کافی ہیں۔ لہٰذا انہوں نے جو فیصلے حالات کے مطابق کئے وہ ہمارے لئے باقی تھے۔ تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی کہ میں یہ بھی کروں گا، تو اس وجہ سے انہوں نے اپنا ووٹ ان کو دے دیا۔ جب انہوں نے اپنا ووٹ ان کو دے دیا تو وہ خلیفہ ہوگئے۔ تو ایک اجتہادی طریقہ سے سارا مسئلہ حل ہوگیا، اب اس میں کوئی بھی غلط نہیں ہے، ما شاء اللہ سب ٹھیک ہیں۔ تو ایک طریقہ صحابہ کرام کے ذریعہ سے طے ہوگیا۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جس وقت فوت ہوئے، تو وہ مظلوم طریقے سے فوت ہوئے، انتہائی مظلومیت سے فوت ہوئے، لوگ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی بات کرتے ہیں، یقیناً وہ بہت ہی زیادہ اور بہت ہی سخت بات تھی۔ لیکن عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی جو شہادت ہے، وہ تو اور بھی زیادہ سخت بات تھی۔ اس حد تک ظلم تھا کہ وہ خلیفہ تھے، امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ تو طاقت نہیں تھی، طاقت تو یزید کے ساتھ تھی اس وقت، چونکہ اس کی حکومت تھی۔ جب کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس طاقت تھی، اور وہ طاقت استعمال کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے طاقت استعمال نہیں کی۔ کیوں نہیں کی؟ دلائل سے بات کرتے تھے، طاقت استعمال نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے ایک نظیر پیش کرنی تھی۔ تو انہوں نے طاقت اس لئے استعمال نہیں کی کہ فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر تمہیں ایک قمیص پہنائی جائے گی، لوگ تم سے وہ قمیص اتروانا چاہیں گے، تو اس کو نہ اتارنا۔ یعنی خلافت نہ چھوڑنا۔ (سنن ابن ماجہ: 112) یہ بھی نص سے ان کے لئے ثابت تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ یہ بھی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میری امت میں جب تلوار چل پڑے گی، تو پھر وہ رکے گی نہیں، چلتی رہے گی۔ تو میں اس کی ابتدا کرنے والا نہیں ہونا چاہتا۔ کیونکہ یہ قیامت تک چلتی رہے گی۔ اب دونوں باتیں منصوص ہیں، پہلی بات بھی منصوص ہے اور دوسری بات بھی منصوص ہے۔ تو اس سے پتہ چل گیا کہ وہ معذور تھے، خلافت نہیں چھوڑ سکتے تھے، اور تلوار چلانا نہیں چاہتے تھے۔ تو اب نتیجہ یہی ہوگیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے باقاعدہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو bodygaurd کے طور پر چھوڑا تھا، دروازہ پہ وہ کھڑے تھے، اور ان کی موجودگی میں دروازہ سے کوئی آدمی اندر داخل نہیں ہوسکا، تو وہ پیچھے دیوار سے پھلانگ کر آئے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قرآن پاک کی تلاوت کے دوران شہید کر دیا، قرآن پڑھ رہے تھے، وہ قرآن موجود ہے جس حضرت عثمانؓ کا خون گرا ہے۔ بہت ظالمانہ طریقہ سے شہید کیا، حتی کہ پھر بلوائیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو دفن بھی نہیں ہونے دیا، اسی وجہ سے رات کو چھپ چھپا کر دفن کیا گیا، یعنی جنت البقیع میں سب سے دور، دیوار کے بالکل پاس مدفون ہیں۔ اس وقت جنت البقیع یہاں تک تھی، اب تو extend ہوگئی، لیکن اُس وقت یہاں تک تھی۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ معاملہ تھا، تو ان کی شہادت تو انتہائی مظلومیت کی شہادت ہے۔ عجیب و غریب باتیں ہیں، یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا بیٹا محمد بن ابوبکر وہ جب سامنے آئے تو ان سے فرمایا کہ آپ کے والد زندہ ہوتے تو آپ کو ایسا نہ کرنے دیتے۔ گویا کہ اتنی مظلومیت کے ساتھ شہادت ہوئی۔ اب صحابہ کرام میں ہلچل مچ گئی، کیونکہ یہ انتہائی ظلم کی بات تھی، تو سب نے کا کہا قصاص۔ خلافت میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کوئی لڑائی نہیں تھی، قصاص پر تھی کہ قصاص کیوں نہیں لیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ خلافت ایک دفعہ establish کرلوں تو خلیفہ ہی قصاص لے گا۔ جب تک میری خلافت establish نہیں ہوئی میں قصاص کیسے لے سکتا ہوں۔ اور وہ فرما رہے تھے که قصاص لیٹ کیوں ہو رہا ہے؟ یہ اصل میں بنیادی نقطہ ہے، ایک چیز exist نہیں کرتی، تو آپ apply کیسے کرسکتے ہیں۔ اور وہ فرماتے ہیں کہ نہیں apply کر دو، تو اس لئے ایک اجتہادی اور بڑا عجیب و غریب معاملہ تھا۔ اسی وجہ سے نصف صحابہ ایک طرف اور نصف صحابہ دوسری طرف تھے۔ البتہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کا پلڑا دلائل اور فضائل کے لحاظ سے بھاری تھا کہ بدری صحابہ ان کے ساتھ تھے۔ بہر حال جن حضرات نے ان کے ساتھ اختلاف کیا تو اختلاف بھی انہوں نے اجتہادی بنیاد پر کیا، اور جنہوں نے ان کا ساتھ دیا انہوں نے بھی اجتہادی بنیاد پر ان کا ساتھ دیا، اور کچھ حضرات درمیان میں بیٹھے رہے انہوں نے ایک طرف کا بھی ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا کہ بس جب جہاد کا وقت تھا تو اس وقت ہم بیٹھے نہیں تھے، اب وہ وقت نہیں ہے، لہٰذا ہم اس میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ تو یہ اس قسم کی بات ہے کہ یہ صحابہ کرام کے اجتہادی باب میں تھی کہ وہ حق کے معاملہ میں اپنے باپ کی بھی پروا نہیں کرتے تھے، بھائی کی بھی پروا نہیں کرتے تھے، تو یہ ان کے انتہائی اخلاص کی بات تھی۔ تو انہوں نے اس مسئلہ میں بے شک کتنے قریبی کیوں نہ ہوں حق کا ساتھ دیا۔ جیسے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا، علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کی قائل تھیں اور علی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کے قائل تھے، لیکن مسئلہ اصول کا تھا۔ تو یہ ساری باتیں تکوینی طور پر ہوئی ہیں، اور تکوینی طور پر اس لئے ہوئی ہیں کہ فقہ میں ایک باب add ہی نہیں ہوسکتا تھا اگر یہ واقعات نہ ہوتے۔ اور وہ باب یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اگر اختلاف ہو تو اس میں کیا کیا جائے۔ اگر بعد میں یہ واقعات ہوتے یہ کب شامل ہوتا، تو بعد کے لوگ مستند نہ ہوتے اس دور ہی میں یہ ہونا تھا تبھی تو یہ مستند واقعات ہوسکتے تھے۔ یعنی اس سے فقہ بن سکتی تھی، تو اس لئے یہ واقعات صحابہ کرام کے دور میں تکوینی طور پر ہوئے تاکہ صحابہ کرام کا فیصلہ اس پر آجائے اور ایسے عظیم فیصلے ہیں کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ آپس میں لڑائی بھی کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے جنازے بھی پڑھتے ہیں۔ غنیمت بھی نہیں لیتے، غلام بھی نہیں بناتے، اور باندیاں بھی نہیں بناتے۔ یعنی ایسے لوگ بھی ہیں کہ کھانا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ کھا رہے ہیں، اور ساتھ علی رضی اللہ تعالی عنہ کا دے رہے ہیں، ایسی مثالیں بھی ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو ایک باب بننا تھا فقہ کا، یہ باب اس کے بغیر نہیں بن سکتا تھا کہ تکوینی طور پر اس قسم کے اثرات آسکیں۔ اب ان میں نیک بخت اور بد بختوں کا بھی تعین ہونا ہے، تو نیک بخت لوگ وہ ہیں جو اجماعی اصولوں کے پیشِ نظر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاروں کے پیشِ نظر، اللہ تعالی کے منصوص اشاروں کے پیشِ نظر وہ جو حق کا ساتھ دیں وہ نیک بخت لوگ ہیں۔ تو ان میں سب سے بڑی بات یہ کہ اگر آپ صحیح بات نہیں کرسکتے تو غلط بھی نہ کرو، اگر آپ میں صحیح بات کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ایسی بات بھی چھوڑ دو جس کے بارے میں آپ sure نہ ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ چونکہ ان میں بات کرنا بڑا مشکل تھا لہٰذا سکوت افضل قرار دیا گیا۔ لہٰذا مشاجراتِ صحابہ میں سکوت افضل ہے اور جیسے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات سے منقول ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری تلواروں کو اس مبارک خون سے بچایا ہے تو اپنی زبانوں کو بھی اس میں ناپاک نہ کریں۔ تو ظاہر ہے وہ اس سے بچے رہے۔ تو اس وجہ سے اہل سنت و الجماعت کا جو مسلک ہے وہ مسلک محفوظ ہے، جس میں حفاظت ہے، اس کو حاصل کرنا چاہئے، اور جو درمیان کے مفسدین ہیں، جو ایسے واقعات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جیسے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو متشابہات کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خراب کر لیتے ہیں، آیات محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام کے واقعات میں کچھ لوگ ایسے واقعات کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں، صرف یہی ان کا سب سے بڑا topic ہوتا ہے، اور وہ انہی واقعات کے پیچھے لگے ہوتے ہیں کہ کہیں سے کوئی صحابہ کی غلطی نظر آجائے تو اس کو بیان کرلیں، اس سے اپنی مجلس کو چمکائیں۔ تو ٹھیک ہے یہاں پر بے شک کتنے ہی لوگ واہ واہ کیوں نہ کریں، لیکن واہ واہ کسی کی کیا کام آئے گی وہاں پر معاملہ خطرناک ہوجائے گا۔ یہ اصل میں اعتقادی چیز ہے۔ لہٰذا بنیادی طور پر اگر درمیان میں یہ خامی ہو کہ اس عقیدہ کو کوئی نہ اپنا سکے تو پھر عقیدہ direction کی طرح ہوتا ہے، تو ایک دفعہ direction میں تفاوت آگیا تو جتنا جتنا آگے جائے گا، تو یہ تفاوت بڑھتا جائے گا، اور اس کے بعد ایسی ایسی نا گفتنی باتیں لوگوں سے ہوسکتی ہیں، جس کا انسان تصور نہیں کرسکتا، پھر لوگوں کے لئے جھوٹ بھی مذہب بن جائے گا، اور لوگوں کے لئے دھوکہ کرنا بھی مزہ بن جائے گا۔ پھر بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ صرف ایک طرف نہیں ہے، جو صحابہ کرام کے خلاف ہیں وہ بھی غلط ہیں اور جو اہل بیت کے خلاف ہیں وہ بھی غلط ہیں۔ کیونکہ تین گروہوں سے اللہ تعالی نے دین پہنچایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے، ایک صحابہ کرام کا گروہ ہے، دوسرے اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالٰی عنہم اور تیسرے امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ذریعہ سے، تو یہ تینوں بزرگ گروہ ہیں۔ جس نے ان تینوں کا دین لے لیا وہ محفوظ ہوگیا، انہوں نے پورا دین لے لیا، اور جنہوں نے صرف صحابہ سے لیا اور اہل بیت کو چھوڑا وہ بھی ناقص ہیں، اور جنہوں نے اہل بیت کو لیا اور صحابہ کو چھوڑا وہ بھی ناقص ہیں، تو جنہوں نے ان میں سے کسی کی مخالفت کی اس نے سب کچھ ہی خراب کر دیا۔ لہٰذا اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہئے، یہی طریقہ ہے۔ باقی حضرت نے اس کے ابتدا میں جو باتیں فرمائیں، شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کا جو مقام ہے وہ اصل میں ایسا ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے ان کو ان کاموں کے لئے چنا ہے جو امت کے اجتماعی امور کے متعلق چنا ہے، اور ولایت انفرادی امور سے تعلق رکھتی ہے۔ تو چونکہ اجتماعیت ان پر غالب ہے، لہٰذا اس کے متعلق حضرت نے فرمایا کہ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ تھے یعنی دین کی بنیادی حفاظت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے ہوئی ہے، جو اس وقت بڑے فتنہ کا دور تھا، زکوۃ کا مسئلہ تھا، اور ارتداد کا مسئلہ تھا، اور دوسری طرف ان کے ذریعہ سے قرآن کا جو لکھنے کا مسئلہ تھا، تو یہ جو اہم کام اور اصولی باتیں تھیں وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ سے اللہ پاک نے فرما دیں، اور پھر اس کے بعد ان اصولی چیزوں کی روشنی میں پورے دین کا سارا اجتماعی ایک لائحہ عمل بنانا، وہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ سے کیا، وہ جو دور اندیشی ہے وہ ان میں تھی، تو گہرائی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو دی گئی اور دور اندیشی زیادہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو عطا کی گئی. فاروق کا لقب تب پایا جب ہر چیز میں دو ٹوک فیصلہ فرماتے تھے۔ تو اس طریقہ سے اللہ پاک نے یہ بنیادی کام ان سے کروائے جن سے دین کی بنیادی حفاظت ہوگئی۔ باقی افضل چیز کو اختیار کرنا اور اس کو مزید آ گے بڑھانا یہ اپنے طور پر ضروری تھا، اس کا تعلق ولایت کے ساتھ تھا، اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حصہ بہت نمایاں ہے۔ اس لئے اکثر سلسلے ان پہ منتج ہوئے ہیں اور نقشبندیہ سلسلہ کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ جس کا سلسلہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہونے کے لحاظ سے اس میں اجتماعیت کا پہلو ہے، اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ چشتیہ سلسلہ خواص کے لئے زیادہ مفید ہے اور نقشبندی سلسلہ عوام کے لئے زیادہ مفید ہے۔ تو عوام کا اس میں خیال رکھا گیا ہے کہ کچھ چیزیں نہ بھی ہوں تو ان کو کیسےکیا جائے۔ جن کے ساتھ اللہ تعالی نے ان کو دیا ہوتا ہے ان کو تو اس طریقہ سے کیا جائے گا، لیکن جن کے لئے نہ ہو تو ان کے ساتھ کیا کیا جائے۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ صرف نقشبندی سلسلہ کی فضیلت کو لے کر نقشبندیہ کو بالکل چھوڑ دیا جائے اور اپنے ہوائے نفس کو اختیار کیا جائے تو اس وقت تو اس کو آڑ نہیں لینا، اس کو دور کرنے کے لئے حضرت نے باقاعدہ مکتوب نمبر 287 کے اندر وہ تمام خطوط دکھا دئیے جس کی وجہ سے گمراہی ہو سکتی تھی، جس کی وجہ سے غلطی ہو سکتی تھی۔ تو حضرت نے سلسلہ کو اس طریقہ سے بچانے کی کوشش فرمائی۔ اب جو بھی اس پر کام کرے گا اور اس کو بچانے کی کوشش کرے گا تو وہ حضرت کے منشاء کے مطابق کام کر رہا ہے اور جو صرف حضرت کی ان باتوں کو لے کر کہ یہ طریقہ عالیہ سب سے زیادہ افضل ہے اور باقی اپنی مرضی سے کرتے رہیں۔ تو یہ طریقہ حضرت کا نہیں تھا۔ اس کے جو اصول و ضوابط حضرت نے بنائے ہیں، حضرت نے اس کی تفصیلات بتائی ہیں ان تفصیلات کی روشنی میں ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ تو یہ صحیح بات ہے کہ جن کو اللہ پاک نے پہلے سے دی ہے، ان کا تو تھوڑا سا بھی کام ہو جائے گا لہٰذا باقی سلسلوں میں سے وہ لے لیں گے۔ لیکن عوام جن کے پاس کچھ چیزیں missing ہیں ان کو پہلے missing چیزوں کو پورا کرنا پڑتا ہے، تو اس کے لئے نقشبندی سلسلہ یقیناً افضل ہے۔ افضل سے مراد یہی ہے ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غیر افضل کہہ سکتے ہیں؟ یا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو غیر افضل کہہ سکتے ہیں؟ یا حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو غیر افضل کہہ سکتے ہیں؟ تو حضرت کا یہ مطلب ہر گز نہیں، حضرت ان کے فضائل کے قائل ہیں، البتہ یہ بات ہے کہ صرف عوام کے لئے چونکہ زیادہ مناسب ہے، لیکن جو صحیح طریقہ ہے وہی مفید ہے۔ باقی یہ ہے کہ حضرت کا سمجھانے کا اپنا انداز ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے اونچے مقام پر ہیں اور ان کی جو صفات ہیں جیسے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ عیسی علیہ السلام کے قدم پر تھے، اور اس طرح باقیوں کے بارے میں جیسے فرمایا، وہ ساری مزید تفصیلات ہیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ امت جس چیز پر متفق ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ فضیلتِ شیخین ہمارا شعار ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ما شاء اللہ تمام سلسلوں کے فروغ کے لئے اللہ پاک نے ان کی ولایت کو استعمال کیا ہے، تو یقیناً سب امت اس کی قائل ہے اور آپس میں صحابہ کرام کے جو مشاجرات ہوئے ہیں ان میں توقف، ان میں سکوت زیادہ افضل ہے اور حق بات تو یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے، البتہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خطا پر ہونے کے باوجود بھی خطائے اجتہادی کی وجہ سے مورد الزام نہیں ٹھہرتے، اسی طرح دوسرے صحابہ کرام ہیں۔ یہ سب اس مکتوب کا لب لباب ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ۔


خلفائے راشدین کے روحانی مقامات اور باہمی اختلافات پر ایک تحقیقی بیان - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ