معرفت، متابعت اور روحانی ترقی

درس نمبر 108، دفتر اول، مکتوب 247 تا 250

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مکہ مکرمہ - مکہ مکرمہ

مکتوب نمبر 247:

اس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو سب سے ظاہر و آشکار دلیل قرار دیا۔ ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ کی معرفت کو سمجھایا گیا، اور عرفان کے لیے اللہ کے قرب کو ضروری بتایا۔ عارفین کی نظر سے اشیاء کی حقیقت کھلنے اور سائنسدانوں سے فرق کو اجاگر کیا گیا۔

مکتوب نمبر 248:

حضرت نے انبیاء کی تابعداری سے اولیا کو کمالات حاصل ہونے کی بات کی، لیکن انبیاء کے مرتبہ سے فوقیت کو مسترد کیا۔ تجلی ذات کے خاص ہونے کو آپ ﷺ کے طفیل قرار دیا گیا، اور انبیاء کو ہم نشین، اولیا کو خادم بتایا گیا۔ امت محمدیہ کی فضیلت اور درجات کی وضاحت کی گئی۔

مکتوب نمبر 249:

یہ مکتوب آپ ﷺ کی متابعت کو آخرت کی نجات اور دائمی فلاح کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ انبیاء حتیٰ کہ موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی آپ ﷺ سے متابعت کی آرزو، اور امت کی خیرالامم ہونے کی برکت بیان کی گئی۔ سنت کی پابندی پر زور دیا گیا۔

مکتوب نمبر 250:

حضرت نے ملا احمد برکی کے سوالات کا جواب دیا۔ ذوق و فرحت کا کم ہونا روحانی ترقی کو ظاہر کیا گیا، جسمی اثرات سے روحی ارتقا کی طرف اشارہ کیا گیا۔ حج کے فرض ہونے کی شرائط اور عجز کو معرفت سے تعبیر کیا گیا، ساتھ ہی علم عرفان کی اہمیت بتائی گئی۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج بدھ کا دن ہے، بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات شریف کا درس ہوتا ہے۔ مکتوب نمبر 247 کا درس شروع ہوتا ہے۔


مکتوب نمبر 247


متن: عرفان پناہ میرزا حسّام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا۔۔۔ اس بیان میں کہ حق تعالیٰ و تقدس کے وجودِ مقدس پر اس کا اپنا وجودِ حق جل سلطانہ ہی دلیل ہو نہ کہ اس کے علاوہ، اور اس کے مناسب بیان میں۔

عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ لَا بِلْ عَرَفْتُ فَسْخَ الْعَزَائِمِ بِرَبِّیْ (میں نے اپنے پروردگار کو اپنے مستحکم ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا نہیں، بلکہ ارادوں کے ٹوٹنے کو اپنے پروردگار جل و علا کے ساتھ پہچان لیا ہے) کیونکہ وہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے ماسویٰ پر دلیل ہے نہ کہ غیر اللہ اس سبحانہ پر دلیل ہو اس لئے کہ دلیل اپنے مدلول سے اظہر ہوتی ہے اور اس سبحانہ و تعالیٰ سے زیادہ اور کونسی چیز اظہر ہے کیونکہ تمام اشیاء اس کے ساتھ اور اسی سے ظاہر ہوئی ہیں لہٰذا وہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات پر اور اپنے ماسویٰ پر دلیل ہے۔ پس لازماً عَرَفْتُ رَبِّیْ بِرَبِّیْ وَ عَرَفْتُ الْاَشْیَاءَ بِہٖ تَعَالٰی (میں نے اپنے رب کو اپنے رب ہی کے ذریعہ پہچانا اور اشیاء کو اس سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ پہچانا)۔۔۔ لہٰذا برہان اس جگہ ’’لمیّ‘‘ ہے (معلوم پر علت کے اثر کے ساتھ) اور اکثر کے گمان میں ’’اِنیِ‘‘ ہے اور تفاوت نظر کے تفاوت سے ہے اور اختلاف بلحاظ منظر کے اختلاف کے ہے، بلکہ وہاں استدلال و برہان کی مجال نہیں ہے کیونکہ اس سبحانہ و تعالیٰ کے وجود میں کوئی پوشیدگی نہیں ہے اور اس ظہور میں کوئی شک و تردد نہیں ہے اور تمام بدیہیات (جانی بوجھی پیش نظر چیزوں) سے زیادہ ظاہر اور روشن ہے۔ اور یہ بات سوائے اس شخص کے کسی پر پوشیدہ نہیں جس کے دل میں مرض اور آنکھوں پر پردہ ہو۔ حالانکہ تمام اشیاء ظاہری حواس سے محسوس ہیں اور وضاحت کے ساتھ معلوم ہیں کہ ان سب کا وجود حق تعالیٰ و تقدس کی طرف سے ہے لیکن بعض لوگوں کو اس کا علم حاصل نہ ہونا کسی بیماری کے عارض ہونے کی وجہ سے ہے جواصل مطلوب میں مضر نہیں ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفےٰ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ الصَّلَوَاتِ وَالتَّسْلِيْمَاتِ اَتَمُّھَا وَ اَکْمَلُھَا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی الہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و ا کملہا (اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی الہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم جانا) 

تشریح:

یہ مکتوب بھی بہت اہم ہے، اللہ جل شانہٗ کے دو نام ہیں ایک ظاہر ہے اور دوسرا باطن ہے۔ ظاہر نام کی وجہ سے اللہ جل شانہٗ ظاہر ہے ہر چیز کے اندر ظاہر ہے۔ یہ جو بعض شعراء، عارفین، صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ میں نے اللہ جل شانہٗ کو ہر جگہ پایا، ہر چیز میں اللہ کو پایا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اپنی قدرتوں کے ذریعے ہر چیز کے اندر ظاہر ہے، ہر چیز میں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سائنسدان حضرات سسٹم کو study کرتے ہیں اور شروع کرتے ہیں قریبی سسٹموں سے، مثلاََ وہ جب دیکھتے ہیں کہ چائے کی پیالی تھوڑی دیر میں گرم چائے ٹھنڈی ہوجاتی ہے، تو اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ وہ کیوں ٹھنڈی ہوئی ہے۔ نیوٹن کے بارے میں مشہور ہے کہ نیچے سیب گرا تو وہ اس کے پیچھے پڑ گیا کہ سیب نیچے کیوں گرا، اس نے کششِ ثقل کو ایجاد کیا۔ اگرچہ اس میں بہت ساری تفصیلات ہیں، بہرحال فی الحال اتنی بات تو کہتے ہیں۔ جس کو ہم کہتے ہیں lim یعنی وجہ، تو وجہ جو ہوتی ہے وہ سائنسدان دریافت کرتے ہیں اور وجہ دریافت کرنے سے ان پر کچھ نظام منکشف ہوتے ہیں۔ تو جو نظام چائے کے ٹھنڈا ہونے کیساتھ منکشف ہوتا ہے ان کے اوپر، وہ یہ ہے Fluid Mechanics یا heat transfer ہیں جس میں convection کہلاتا ہے وہ ان پر منکشف ہوا، ان کو پتا چل گیا کہ ہوا بھی چلتی ہے، ہوا اگر چائے سے ٹھنڈی ہو تو وہ جب ٹکرائے گی تو وہ لے گی اس کی حرارت اور ساتھ لے جائے گی، آگے جا کر مزید تفصیلات انہوں نے معلوم کیں، انہوں نے کہا Molecules ہوتے ہیں، جو بہت Energetic Molecules ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ پر ٹکتے نہیں، شرارتی بچوں کی طرح اچھلتے ہیں، تو وہ جو اچھلنے والے Molecules ہیں، وہ جو air کرنٹ چل رہی ہے تازہ ہوا ان پر سوار ہو کر آگے چلی جاتی ہے، لہٰذا وہ پیچھے جو Molecules رہ جاتے ہیں وہ کم Energy والے ہوتے ہیں، لہٰذا چیز ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس طرح Surface of contact کو کم کرنے سے چیز کو زیادہ دیر گرم رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں دریافت ہوتی رہیں اور اس سے ماشاء اللہ علم حاصل ہوتا ہے، جس کو پہلے وقتوں میں مطالعہ کہا جاتا تھا آج کل اس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ تو یہ چیزیں develop ہوئیں۔ اگر شیطان خبیث نہ ہوتا تو یہ خود ہی اس تک پہنچ جاتے کیونکہ ہر نظام دوسرے نظام کا ایک ذریعہ ہے، دوسرا تیسرے کا ذریعہ ہے، تیسرا چوتھے کا، چوتھا پانچویں کا ذریعہ ہے، اخیر میں تو اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ لیکن یہ روک دیتے ہیں اور جو سسٹم خود کار نظر آتے ہیں تو وہ خود کار ہمیں نظر آتے ہیں، جس نے بنایا اس کے لئے تو خود کار نہیں ہیں، اس نے تو اس کو بنایا ہے وہ اس کو چلا رہا ہے۔ ہماری Blood circulation خود کار ہے، لیکن اس کے اندر جو heart چلتا ہے وہ اس کا ذریعہ ہے، کیا heart خود بخود چلتا ہے؟ یہ سائنسدان کیسے مان سکتا ہے؟ اس کو بھی چلانے والا کوئی ہے، کون سی چیز اس کو چلاتی ہے اگر ان چیزوں پر غور کر لے تو پہنچ جاتا ہے۔ لیکن نہیں! کیونکہ شیطان روک دیتا ہے اور کہتا ہے بس اس سے آگے تیری ذمہ داری نہیں ہے، یہ خود کار ہے خود ہی چلتا ہے، Self-sustained system بس ختم۔ تو یہ ساری باتیں میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ ہم ان چیزوں سے گزرتے ہیں اور ہم اپنے آپ کو دھوکا دیتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایک نظام میں نہیں ہر نظام میں اپنے آپ کو دکھایا ہے۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:

برگِ درختانِ سبز در نظرِ ہوشیار

ہر ورقش دفترے است معرفت کِردگار

جو سبز پتے ہیں وہ ہوشیار کی نظر میں (ہوشیار سے مراد ہوش مند)، اس کی نظر میں اس کا ہر ورق جو ہے وہ معرفت کردگار کا پورا ایک دفتر ہے اس کو سمجھنے کیلئے۔ ہم دریاؤں کو چلتے ہوئے دیکھتے ہیں اس میں اللہ ہے، پہاڑوں کو دیکھتے ہیں اس میں اللہ ہے، ہم برف کو گرتے دیکھتے ہیں اس میں اللہ ہے، ہر ہر نظام کے پیچھے اگر غور کیا جائے تو خود بخود ہوتے ہوئے نظر نہیں آ سکتا کہ خود بخود ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک چلانے والا ہے۔ وہ اصل میں اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لئے فرمایا: ﴿إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ1

ترجمہ2: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔

لیکن عقلمند کون لوگ ہیں؟ سائنسدان حضرات؟ ہاں! ہو سکتا ہے اگر ایک چیز ان میں add کر لی جائے، وہ ہے ایمان اور اللہ کا ذکر، اللہ کا جو ذکر ہے وہ انسان کو اللہ کی یاد دلاتا ہے، پھر اس کے سامنے خود بخود یہ ساری چیزیں کھلتی جاتی ہیں، پرت کھلتے جاتے ہیں کہ اس کے بعد تو یہ ہے، اس کے بعد تو یہ ہے، اس کے بعد تو یہ ہے، وہ ساری چیزیں کھلتی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ خان، ان کے پاس ایک musician آیا اور اس musician نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میں نے قرآن ہارمونیم میں سارا بجا لیا، بس ایک سورت رہ گئی وہ نہیں بج رہی۔ انہوں نے کہا کون سی سورت ہے؟ اس نے کہا وہ ہے: ﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُۙ ۝ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ ۝ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠﴾3 فرمایا: اس کی تلاوت کا ایک طریقہ یہ ہے: ﴿اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُۙ ۝ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ﴾ جیسے ہی یہ کہہ دیا، اس نے کہا کہ میں بچ گیا اور مسلمان ہوگیا۔ اس کو اس میں نظر آگیا، وہ rhythm جو ہے یہ سارے کا سارا قرآن rhythm میں کہاں بنایا جاسکتا ہے، یہ ممکن ہے؟ اور جو musician ہوتا ہے وہ اس چیز کو جانتا ہے، mathematician جو ہے وہ mathematic کے رخ سے جانتا ہے، جو physist ہے وہ physics کے رخ سے جانتا ہے، ڈاکٹر ڈاکٹری کے رخ سے جانتا ہے، انجینئر engineering کے رخ سے جانتا ہے، ہر چیز کا یہ معاملہ ہے، جو اس کے اندر عجائبات ہیں وہ ہر رخ سے دیکھے جائیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے: ﴿إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ اب نقطۂ نظر کی بات ہے۔ حضرت فرماتے ہیں نقطۂ نظر کی بات ہے، آپ کو پہلے یہ چیزیں نظر آئیں پھر اللہ تعالیٰ ان میں نظر آیا تو میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ کو پہچانا، اس سے یہ statement بن جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ چیزیں پہلے واقع ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ پھر بعد میں نظر آتے ہیں، لیکن تمام چیزوں کے اندر ایک ہی چیز بار بار repeat ہو رہی ہے، ایک ہی چیز ہے، ہر جگہ پر اللہ ہی ہے۔ گویا کہ تمام کڑیاں جو باہم مربوط ہیں اس وجہ سے مربوط ہیں۔ لہٰذا اس کو دیکھ کر حق تعالیٰ نظر آتے ہیں۔ کتنی چیزیں سمجھ میں آگئیں، یعنی پہلے اللہ جل شانہٗ کی اس سے ہمہ جہتی قدرت سامنے نظر آئی کہ ہر جگہ پر ایک ہی چیز ہے، پھر اس کے ذریعے تمام چیزوں کو آپس میں آپ connect کرتے ہیں اور یہ چیزیں سمجھ میں آ رہی ہیں۔ پھر اس کو آپ اس انداز میں دیکھتے ہیں کہ یہ تو اصل میں اللہ ہے، چونکہ جو ہمہ جہتی ہونا ہے وہ تمام چیزوں سے زیادہ بنیادی ہے، تو جو بنیادی ہے وہ ذریعہ بنتا ہے معرفت کا، یہ اس angle سے دیکھیں تو یہ بھی ٹھیک ہے، مطلب اگر اس angle سے دیکھیں تو۔ میں اگر کہوں کہ مبتدی کے لئے تو پہلے والی بات ہے اور منتہی کے لئے بعد والی بات ہے حضرت نے منتہی والی بات فرمائی ہے منتہی جو ہوتا ہے وہ root پر نظر رکھتا ہے اور سامنے کو نہیں دیکھتا۔ جبکہ مبتدی سامنے کو دیکھتا ہے اس کے ذریعے سے دیکھتا ہے۔ تو اس لئے حضرت نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ نقطۂ نظر کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔

متن: لہٰذا برہان اس جگہ ’’لمیّ‘‘ ہے۔

تشریح: (لِمَ یعنی لِمَا جس کو کہتے ہیں، وجہ یا علت جس کو ہم کہتے ہے۔)

متن: (معلوم پر علت کے اثر کے ساتھ) اور اکثر کے گمان میں ’’اِنّیِ‘‘ ہے۔

تشریح: یعنی مطلب یہ کہ برہان جو دلیل ہے وہ اگر ہم دیکھیں کہ ہر چیز کی وجہ کیا ہے، تو اس کا علم بھی ہوگیا، اور وہ جو اصل root ہے وہ ہر جگہ موجود ہے، یہ root جس وقت discover ہوگیا، منتہی کو تو discover ہو جاتا ہے، پھر اس کو ہر جگہ وہ نظر آتا ہے۔ تو گویا کہ اشیاء کا تعارف جو ہوتا ہے وہ اس طرح ہوتا ہے۔ اب ذرا تھوڑی سی میں آگے کی بات کرتا ہوں الحمد للہ جو ابھی علم نصیب ہوا۔ کائنات کے مظاہر وہ تو ’لمّی‘‘ ہیں، وہ اس کے ذریعے سے دریافت ہوتے ہیں اور اس سے اللہ کی طرف دھیان جاتا ہے، لیکن جس کو کائنات کی حقیقت کہتے ہیں، جس کو معرفت کہتے ہیں، وہ تو ’’لمّی‘‘ کے بعد ہے، وہ پھر منتہی کو معلوم ہوتا ہے، کیونکہ منتہی اللہ کیساتھ متعارف ہوچکا ہوتا ہے، اللہ کو پہچان چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب وہ اللہ کو پہچان لیتا ہے تو باقی چیزوں کو اللہ کی معرفت سے پہچانتا ہے۔ لہٰذا جتنا جتنا کوئی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے، اتنی اتنی اس پر حقیقتیں کھلتی جاتی ہیں، انکشافات ہوتے جاتے ہیں۔ یہ وہ انکشافات ہیں جو سائنسدانوں پر نہیں ہوتے، چونکہ وہ سطحی نظر والے ہیں، تو یہ انکشافات سائنسدانوں پر نہیں ہوتے، یہ انکشافات عارفین پر ہوتے ہیں، جس میں سائنسدان صرف دور سے مشاہدہ ہی کر سکتے ہیں ان کا کچھ کر نہیں سکتے۔ جبکہ عارفین کو بعض دفعہ چابی بھی ہاتھ میں دے دی جاتی ہے، تو وہ پھر اللہ پاک کی مرضی کو دیکھ کر جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال وہی بات ہے کہ عارفین جو ہوتے ہیں وہ چونکہ کرنے والے کے قریب ہوتے ہیں، خالقِ حقیقی کے قریب ہوتے ہیں، نتیجتاً یہ چیزیں جو ہوتی ہیں، وہ دور ہوتی ہیں اور وہ قریب ہوتے ہیں، لہٰذا وہ چیزوں کے اوپر موثر ہوتے ہیں اور جو سطحی نظر والے ہوتے ہیں ان پر چیزیں موثر ہوتی ہیں، وہ چیزوں سے اثر لیتے ہیں۔ تو عارفین سے چیزیں اثر لیتی ہیں، اور باقی جو سطحی نظر والے لوگ ہوتے ہیں وہ ان چیزوں سے اثر لیتے ہیں۔ یہی والی بات ہے کہ اختلافِ نظر ہوگیا، کچھ لوگوں کی نظر اِس طرف سے جاتی ہے، کچھ لوگوں کی نظر اندر سے جاتی ہے اور اسی کے ذریعے سے ان پر وہ چیزیں کھلتی جاتی ہیں جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ تھے کہ نفسِ کلیّہ اور یہ سب چیزیں، یہ کہاں سائنسدان کو پتا ہیں؟ سائنسدان تو اس کو جان ہی نہیں سکتے، یہ چیزیں تو سائنسدنوں کے لحاظ سے نہیں ہیں۔ لیکن ان کے اوپر اللہ یہ کھولتے جاتے ہیں۔ اب بھی ماشاء اللہ رستے موجود ہیں، یہاں خانہ کعبہ پر اللہ تعالیٰ کیا کیا کچھ دے رہا ہے، اس کی جو حقیقت ہے، وہ عارفین کو ہی پتا ہوگی، حقیقتِ کعبہ جس کو کہتے ہیں۔ اس طرح ہر ہر event کیساتھ جو چیزیں ہیں، عرفات کے ساتھ ہیں، منٰی کے ساتھ ہیں، تمام چیزیں، تو یہ جو حقائق ہیں یہ حقائق اللہ جل شانہٗ کی وساطت سے ہیں، مطلب چیزوں کو پہچانا اللہ کے ذریعے سے ہے، اللہ جل شانہٗ کا قرب، اللہ کا ذکر اور اس کے ساتھ فکر، اس کے ذریعے سے آہستہ آہستہ وسعت آتی گئی، وسعت آتی گئی، وسعت آتی گئی، حتیٰ کہ ما شا ء اللہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ تو یہ اگر علمی لحاظ سے چلے جائیں تو فقاہت میں چلی جاتی ہیں یہ چیزیں اور اگر حقائق کی طرف سے چلے جائیں تو معرف کی طرف چلی جائیں گی، اور ایک لا متناہی میدان ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جس کو جتنا دے دے، جتنا آگے لے جائے، یہ اس کا کرم ہے۔ وہ جو فرمایا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہ دو قسم کے فیوض ہیں، وہ آپ ﷺ سے سب کو ملتے ہیں، تکوینی فیض اور تشریعی فیض، تو ظاہر ہے کہ یہ چیزیں کھلتی ہیں۔

مکتوب نمبر 248

متن: یہ مکتوب بھی عالی جناب مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا۔۔۔ اس بیان میں کہ انبیاء علیہم والتسلیمات کی مکمل تابعداری کرنے والوں کی ان کے تمام کمالات سے بطریقِ تابعداری کچھ نہ کچھ حصہ ملتا ہے۔ اور اس بیان میں کہ کوئی ولی کسی نبی کے مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس بات کی تحقیق میں کہ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے جو تجلی ذاتی مخصوص ہے اس کے کیا معنی ہیں اور اس کے مناسب بیان میں۔


اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌ (اعراف 7 آیت 43) (اللہ تعالیٰ کا شکرہے جس نے ہم کو اس طرف ہدایت کی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ کرتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے بیشک ہمارے رب کے رسول حق بات لے کر آئے ہیں) صَلَوَاتُ اللّٰہِ تَعَالیٰ و تَسْلِیْمَاتُہٗ سُبْحَانَہٗ عَلَیْھِمْ وَ عَلیٰ اِتِّبَاعِھِمْ و اَنْصَارِھِمْ و اَعْوَانِھِمْ و خَزَنَتِہٖ اَسْرَارِھِمْ (ان پر اور ان کے تابعداروں پر اور ان کے انصار اور ان کے مددگاروں اور ان کے اسرار کے محافظوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ و سلام ہو)۔۔۔

انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل متبعین کمال متابعت و فرطِ محبت کے باعث بلکہ محض (اللہ تعالیٰ کی) عنایت و بخشش کی وجہ سے اپنے متبوعہ (اتباع کردہ) انبیاء کے تمام کمالات کوجذب کر لیتے ہیں بلکہ ان کے رنگ میں پورے طور پر رنگے جاتے ہیں، یہانتک کہ متبوعان (جن انبیاء کی پیروی کی گئی) اور متابعان (اتباع کرنے والے اولیا) کے درمیان اصالت و تبعیت اور اولیت و آخریت کے علاوہ کچھ فرق نہیں رہتا۔ باوجود اس امر کے کوئی تابع (اتباع کرنے والا) خواہ وہ افضل الرسل (صلی اللہ علیہ و سلم) کے تابعداروں ہی میں سے ہو کسی نبی کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا اگرچہ وہ نبیوں میں سب سے کم درجہ کا نبی ہو۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیقؓ جو کہ انبیاء کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہیں اُن کا سر ہمیشہ اس پیغمبر کے زیر قدم ہوگا جو تمام پیغمبروں سے کم درجہ ہے۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تمام انبیاء اور ان کے ارباب کے تعینات کے مبادی مقامِ اصل سے ہیں اور تمام اعلیٰ و اسفل امتوں اور ان کے ارباب کے مبادی تعینات اس اصل کے ظلال کے مقامات سے اپنے اپنے درجے کے موافق ہیں۔ پس اصل اور ظل کے درمیان مساوات کس طرح ہوسکتی ہے۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے وَلَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡن، اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ، وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ (صافات 37 آیت 171 تا 173) (اور بیشک ہمارے مرسلین بندوں کے لئے ہمارا قول پہلے ہی سے طے شدہ ہے کہ یقیناً وہی غالب رہیں گے اور یقیناً ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا)


تشریح: تھوڑا سا آج کل کے حالات کے لحاظ سے یہ بات سمجھنا آسان ہو جائے گا، وہ یہ ہے کہ یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے Ground floor ہے مطاف اور جو بیسمنٹ کے ارد گرد جگہ ہے جو اب مل گئے ہیں، یہ سب Ground floor میں آگئے ہیں، پھر اس کے بعد mezzanine ہے، پھر اس کے بعد First floor ہے، پھر اس کے بعد Top floor ہے۔ اب اصولی بات یہ ہے کہ جو mezzanine والے ہیں سب سے پہلی صف جو اس کی ہے، وہ گراونڈ فلور کی سب سے آخری صف کے پیچھے ہے اجر کے لحاظ سے، جو mezzanine والے ہیں ان کی جو پہلی صف ہے وہ اصل میں نیچے Ground floor کی آخری صف کے بعد شمار ہوگا اور اس کی جو آخری صف ہوگی اس کے بعد First floor کی جو پہلی صف ہوگی وہ شمار ہوگی، اور اس کی جو آخری ہے اس کے بعد Top floor کی پہلی صف شمار ہوگی۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبروں کا سارا نظام چونکہ ground پر ہے، جو امتی ہیں وہ mezzanine سے start ہوں گے، پھر اس کے بعد First floor ہے۔ اس وجہ سے ان تک پہنچنا نا ممکن ہے، mezzanine میں تو صحابہ کرامؓ ہوں گے، پھر اس کے بعد تابعین ہوں گے، پھر اس کے بعد سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔ تو یہ چیز اگر آپ دیکھیں تو اس طریقے سے ہے۔ الحمد اللہ بہت اچھی explanation سمجھ میں آگئی۔

متن: پس اصل اور ظل کے درمیان مساوات کس طرح ہوسکتی ہے۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے وَلَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡنَ، اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ، وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ4 (اور بیشک ہمارے مرسلین بندوں کے لئے ہمارا قول پہلے ہی سے طے شدہ ہے کہ یقیناً وہی غالب رہیں گے اور یقیناً ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا) اور یہ جو کہتے ہیں کہ تجلیٔ ذات تعالیٰ و تقدس انبیاء کے درمیان حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات والتحیات کے لئے مخصوص ہے اور آں سرور صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل تابعداروں کو بھی اس تجلی سے حصہ حاصل ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دوسرے انبیاء کو تجلی ذات کا حصہ حاصل نہیں ہے اور تابعداری کی وجہ سے ان کے کاملوں کو نصیب ہے۔

تشریح: محمدی مشرب کا حضرت نے introduction دیا تھا، تو امتیوں میں جو محمدی مشرب کے لوگ ہیں، فرماتے ہیں کہ ان کے لئے بھی اس کی جزا ہے، تو یہ بات ہے۔ تو یہ ما شاء اللہ بہت اہم تشریح ہو رہی ہے کہ اس میں جو Questions raise ہو سکتے تھے ان کے ذریعے سے چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ متن: حاشا و کلا (ہرگز ایسا نہیں ہے) کہ کوئی اس سے یہ مطلب تصور کرے کیونکہ اس میں اولیا کی انبیاء پر فوقیت ہوتی ہے۔۔۔ بلکہ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوات و التسلیمات پر اس تجلی کے مخصوص ہونے کے یہ معنی ہیں کہ دوسروں کو اس تجلی کا حاصل ہونا آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اور تبعیت (اتباع) کی وجہ سے ہے، اور انبیا علیہم الصلوٰۃ و السلام کو بھی اس تجلی کا حصول آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل سے ہے، اور اس امت کے کامل اولیا کو بھی آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیروی کی وجہ سے حاصل ہے۔ انبیاء اس نعمتِ عظمیٰ کے دستر خوان پر آپ علیہ الصلوات و التحیات کے طفیلی و ہمنشین ہیں اور اولیا (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے) خادم، پس خوردہ کھانے والے اور ہمنشین و طفیلی اور خادم پس خوردہ کھانے والے کے درمیان بہت فرق ہے۔ اس مقام میں قدم کو لغزش ہو جاتی ہے۔ 

تشریح: مطلب یہ ہے کہ آسمانِ ہدایت کے تارے ہیں انبیاء اور ہر تارے کی اپنی روشنی ہے یعنی ہر ایک ساتھ اپنی امت ہے۔ تو جو جو ان سے روشن ہے، جو ان کا چاند ہے یعنی ستاروں کا، وہ تو ظاہر ہے کہ ان تاروں کی طرح تو نہیں ہے، روشن تو ہے لیکن تاروں کی طرح نہیں ہے، یعنی ظلال والی جو بات ہے۔ تو یہ اصل میں بنیادی بات ہے کہ فرمایا کہ چونکہ آپ ﷺ کے ذریعے سے سب کو ملتا ہے، انبیاء کو بھی ملتا ہے اور امتیوں کو بھی ملتا ہے۔ انبیاء آپ ﷺ کے ہم نشین ہیں، ساتھ بیٹھے والے ہیں، اور باقی خدام ہیں، ان کو بھی ملتا ہے۔ اب جن کی دعوت کی جاتی ہے، اُن کے لئے جو تیار کیا جاتا ہے تو ان کے ساتھ آنے والے بھی وہ کھا لیتے ہیں۔ لیکن جو کھانے والے ہیں ان کو بھی پتا ہوتا ہے اور کھلانے والے کو بھی پتا ہوتا ہے کہ کھانا تھا کس کے لئے۔


متن: اس تحقیق میں اور اس شبہ کے دُور کرنے کے سلسلہ میں اس فقیر نے اپنے مکتوبات و رسائل میں متعدد توجیہات کا ذکر کیا ہے اور حق وہی ہے جو میں نے اللہ سبحانہ، و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان مسودوں (مکتوبات) میں تحقیق کی ہے۔

آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ اگرچہ تمام انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کو آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل اس تجلی سے حصۂ وافر نصیب ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ولایتِ خاصہ نے ان کی امتوں کے اولیا میں سرایت نہیں کی اور نہ اس تجلی سے ان کو کوئی حصہ ملا کیونکہ جب ان کے اصول میں یہ دولت طفیلی اور عکسی طور پر ہو تو فروع میں عکس کے عکس کو کیا حاصل ہو سکتی ہے چنانچہ اس معنی کا مصداق کشفِ صریح ہے، استدلالِ عقلی پر مبنی نہیں۔۔۔

اور جو کچھ اس سے پیشتر ذکر کیا گیا کہ کامل پیروی کرنے والے کمال متابعت کے سبب اپنے متبوعوں کے پورے پورے کمالات جذب کر لیتے ہیں۔ ان کمالات سے مراد متبوعوں کے اصلی کمالات ہیں نہ کہ مطلقاً، تاکہ تعارض پیدا نہ ہو۔ بلکہ یہ لوگ اپنے انبیا میں سے ہر ایک نبی کی ولایتِ مخصوصہ سے بہرہ ور ہوئے ہیں، اور چونکہ سب امتوں کے درمیان یہی امت پیروی کے باعث اس تجلی (ذاتی) سے مخصوص ہے اور اس دولتِ عظمیٰ سے مشرف ہے لہٰذا (یہ امت) خیر الامم ہوگئی، اور اس امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے رنگ میں ہوگئے۔ ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ‏  (جمعہ 62 آیت4) (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے)۔

تشریح: مطلب ان کی بات یہ ہے کہ یہ انبیاء تو نہیں ہیں، لیکن انبیاء کی طرح ہیں۔

متن: (یہ فقیر) چاہتا تھا کہ اس ولایتِ خاصہ کی خصوصیات اورفضائل میں سے کچھ تحریر کرے لیکن وقت کی تنگی نے موافقت نہ کی اور کاغذ بھی کوتاہ ہوگیا۔۔۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عنایت سے علوم و معارف ’’بارانِ نیساں‘‘ کی طرح برس رہے ہیں اور عجیب و غریب اسرار پر اطلاع بخش رہے ہیں اس راز کے محرم اپنی اپنی استعداد کے موافق میرے فرزندانِ گرامی ہیں، کیونکہ دوسرے دوست چند روز حضور میں ہیں اور چند روز غیبت میں۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ہر چند ولی، ولیِ کامل ہو لیکن صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔۔۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق حد سے بڑھ گیا ہے۔ جو صحیفہ گرامی اس فقیر کے نام تحریر فرمایا تھا اس کے پہنچنے سے مشرف ہوا۔۔۔ دیدِ قصور (اعمال کی کوتاہی کو نظر میں رکھنا) بہت بڑی نعمت ہے، لیکن تمام احوال میں میانہ روی بہت بہتر ہے۔ افراط، تفریط کی طرح حدِ اعتدال سے باہر ہے۔۔۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائّرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفےٰ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ الصَّلَوَاتِ وَالتَّسْلِيْمَاتِ (اور سلام ہو آپ پر اور ان سب پر جو ہدایت کی پیروی کریں اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت اپنے اوپر لازم کرلے)۔...... تشریح: اس میں حضرت نے جو بات فرمائی ہے کہ جو انبیاء ہیں وہ تو آپ ﷺ کے ساتھی ہونے، ہم نشین ہونے کے ذریعے سے لے رہے ہیں اور جو خدام ہیں چونکہ بعد میں ان کو ملتا ہے تو ان کے اہلِ خدمت ہونے کی وجہ سے لے رہے ہیں۔ لہٰذا درجہ کے لحاظ سے تو آپ ﷺ سب سے اونچے ہیں، پھر اس کے بعد انبیاء کرام ہیں، پھر اس کے بعد آپ ﷺ کے خدام ہیں۔ اور خدام میں پھر دو قسم کے ہیں، ایک خدام جو ہر وقت حاضر رہے ہیں یعنی موجود رہے، ان کا مقام سب سے اونچا ہے اور وہ خدام جو بعد میں آئے تھے، جنہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا نہیں ہے، ظاہر ہے ان کو بھی ملا ہے، لیکن ان کو بھی اپنے Floor پر ملا ہے۔ تو جن کا جو Floor ہے اگر یہ سمجھ میں آگیا ہے تو پھر کافی آسانی ہو جاتی ہے۔

مکتوب نمبر 249

متن: حضرت سید الاولین و الآخرین کی متابعت کے فضائل اور اس پر مترتبہ کمالات اور اس کے ساتھ مخصوص مراتب کے بیان میں مرزا داراب کی طرف صادر فرمایا۔


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔۔۔

آخرت کی نجات اور دائمی فلاح حضرت سید الاولین و الآخرین علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت پر وابستہ ہے لہٰذا آنحضرت کی متابعت کی وجہ سے (آپ کی امت کے برگزیدہ) حق جل سلطانہ کی محبوبیت کے مقام پرپہنچتے ہیں، اورآپ ہی کی متابعت سے تجلی ذات تعالیٰ و تقدس سے مشرف ہوتے ہیں، اور آپ ہی کی متابعت کی وجہ سے عبدیت کے مرتبہ پر جو تمام کمالات کے مراتب میں فوق ہے اور محبوبیت کے مقام حاصل ہونے کے بعد ہے سرفراز ہوتے ہیں، اور آپ ہی کی کامل پیروی کو بنی اسرائیل کے انبیا کے مانند فرمایا ہے۔۔۔ اور پیغمبرانِ اولوالعزم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی آزرو رکھتے تھے۔ اور اگر حضرت موسی علیہ الصلوۃ و السلام، حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانے میں زندہ ہوتے تو ان کو بھی آپ کی متابعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔۔۔ اور حضرت عیسیٰ روح اللہ کے نزول اور حضرت حبیب اللہ علیہ الصلوۃ و السلام کی متابعت کا قصہ معلوم اور مشہور ہے۔۔۔ اور آپ کی امت آپ ہی کی متابعت کی برکت سے ’’خیرالامم‘‘ قرار دی گئی، اور ان میں سے اکثر ابلِ جنت میں سے ہیں اور کل بروز قیامت آپ ہی کی متابعت کی بدولت تمام امتوں سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے اور وہاں کی نعمتیں حاصل کریں گے۔ اسی طرح اور اسی طرح ہوگا۔ (یہ فضائل و خصائص صرف اسی امت کے لئے مخصوص ہیں)۔۔۔ پس آپ کے اوپر لازم ہے کہ آنحضرت علیہ و عَلیٰ جَمِیْعِ اَخْوَانِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ اَفْضَلُہَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ اَکْمَلُہَا کی متابعت اور سنت کو لازم جان کر شریعتِ حقہ کے احکام بجا لائیں۔

دوسرے یہ کہ (یہ فقیر) شیخ اسمٰعیل کی سفارش کرتا ہے جو کہ معارف آگاہ حاجی عبد الحق کے دوستوں میں سے ہیں۔ والسلام 

تشریح: یہ بھی حضرت نے بالکل وہی بات چلائی ہے لیکن ذرا اور بھی مزید گہرائی کے ساتھ کہ آخرت کی جو نجات ہے وہ دائمی فلاح ہے اور یہ آپ ﷺ کی پیروی میں ہے۔ لہٰذا جو بھی آپ ﷺ کی پیروی کرے گا وہ اللہ جل شانہٗ کا محبوب بنے گا: ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللهُ5

ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔

اور آپ ﷺ کی متابعت سے یعنی اتباع کرنے سے تجلی ذات تعالیٰ و تقدس سے مشرف ہوتے ہیں۔

متن: اور آپ ہی کی متابعت سے تجلی ذات تعالیٰ و تقدس سے مشرف ہوتے ہیں، اور آپ ہی کی متابعت کی وجہ سے عبدیت کے مرتبہ پر جو تمام کمالات کے مراتب میں فوق ہے اور محبوبیت کے مقام حاصل ہونے کے بعد ہے سرفراز ہوتے ہیں،

تشریح: مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پیروی کرنے سے سارے مراتب حاصل ہوتے ہیں یعنی گویا کہ عبدیت بھی آپ ﷺ کی متابعت کی پیروی کی وجہ سے ہے، کیونکہ آپ ﷺ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ کہتے تھے: "اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبُدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ تو جب آپ ﷺ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ کہتے تھے تو ظاہر ہے دوسرے جو ان کے پیروکار ہوں گے، وہ بھی اللہ کے بندے ہوں گے۔ تو بندگی میں جو جتنا قریب پہنچ گیا اتنی ہی عبدیت اس کو حاصل ہوگی اور پھر آپ ﷺ کی کامل پیروی کرنے والوں کو بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند فرمایا، یعنی اُن کے اوپر تو وحی آتی تھی، اِن کے اوپر وحی نہیں آتی، لیکن اِن پر اللہ تعالیٰ علم العرفان القاء فرماتے ہیں۔ علم العرفان کی وجہ سے وہ ان کی طرح ہوتے ہیں۔ اور پیغمبرانِ اولوالعزم بھی آپ ﷺ کی متابعت کی آرزو رکھتے تھے، یعنی آپ ﷺ کا جو مقام ہے چونکہ آپ ﷺ ہی کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، ہر چیز حاصل ہوتی ہے، لہٰذا پیغمبر چونکہ عارفین تھے، لہٰذا ان کو تو یہ چیزیں سب سے زیادہ معلوم تھیں۔ لہٰذا وہ بھی اس کی آرزو کرتے کہ ہم بھی کاش آپ ﷺ کی امت میں سے ہوتے اور اگر موسیٰ علیہ السلام حضور ﷺ کے زمانے میں ہوتے تو وہ بھی آپ ﷺ کی متابعت کے بغیر کچھ نہ کرتے۔ اور عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو پھر وہ سارا واقعہ مشہور ہے کہ کیا کریں گے۔ اور آپ ﷺ کی امت بھی آپ ﷺ ہی کی متابعت کی برکت سے خیر الامم قرار دی گئی۔ ان میں سے اکثر اہلِ جنت ہوں گے اور سب سے پہلے باقی امتوں میں سے جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں کی نعمتیں حاصل کریں گے۔ تو اس وجہ سے ہم کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ آپ ﷺ کی پیروی کریں اور آپ ﷺ کی سنتوں کا اتباع کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔

مکتوب نمبر 250


متن: ملا احمد برکی کی طرف بعض سوالات کے حل میں صادر فرمایا۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم حمد و صلوۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد واضح ہو کہ اس طرف کے فقراء کے احوال و اوضاع شکر کے لائق ہیں اور آپ کی عافیت اللہ سبحانہ سے مطلوب ہے۔۔۔ مکتوب گرامی موصول ہوا۔

آپ نے تحریر کیا ہے کہ وہ ذوق و فرحت جو پہلے حاصل تھی اب اپنے اندر نہیں پاتا اور اس کو اپنا تنزل جانتا ہے۔۔۔

میرے بھائی کو معلوم ہو کہ پہلی حالت کا تعلق اہل و جد و سماع سے تھا جس میں جسد کو کامل دخل تھا، اور جو حالت اب میسر ہوئی ہے اس میں جسم کو بہت تھوڑا حصہ نصیب ہے، اس کا زیادہ تعلق روح و قلب کے ساتھ ہے، اس معاملہ کا بیان تفصیل چاہتا ہے۔۔۔ مختصر یہ کہ دوسریِ حالت پہلی حالت سے کئی درجہ بہتر ہے، اور ذوق و وجدان کا نہ پانا اور خوشی کا دور ہونا ذوق و خوشی کے وجدان سے بالاتر ہے، کیونکہ نسبت جس قدر جہالت اور حیرت کی طرف ترقی کرے اور جسد سے دُور ہو اسی قدر اصیل ہے اور مطلوب کے حصول میں نزدیک تر ہے۔ کیونکہ اس مقام میں عجز اور نادانی کے علاوہ کسی اور چیز کی گنجائش نہیں ہے (اسی لئے) جہل کو معرفت سے تعبیر کرتے ہیں اور عجز کو ادراک کا نام دیتے ہیں۔

آپ نے تحریر کیا تھا کہ اس نسبت کو وہ تاثیر جو پہلے تھی اب نہیں رہی۔۔۔ ہاں ہاں جسدی تاثیر نہیں رہی لیکن تاثیر روحی میں اضافہ ہوگیا ہے، اگرچہ ہر شخص اس کا ادراک نہیں کر سکتا لیکن کیا کیا جائے کہ آپ کو اس فقیر کے ساتھ صحبت بہت کم حاصل ہوئی ہے اور علوم و معارفِ خاصہ بہت کم ذکر ہوئے ہیں۔ شاید حق تعالیٰ کو منظور ہو اور دوسری صحبت میسر ہو جائے اور چند روز مل بیٹھیں۔

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ آیا زادِ راہ اور سواری ہونے کے باوجود اس پُرفتن زمانے میں مکہ مکرمہ کا سفر فرض ہے یا نہیں۔۔۔ میرے مخدوم! اس بارے میں فقہ کی روایات میں بہت اختلافات ہے اور فقیہ ابواللّیث کا فتویٰ اس مسئلہ میں مختارہے، انہوں نے کہا ہے کہ’’اگر راستہ میں امن اور عدم ہلاکت کا گمان غالب ہے تو اس سفر کی فرضیت ثابت ہے ورنہ نہیں‘‘۔۔۔ لیکن و جوبِ ادا کی شرط ہے نفسِ وجوب کی شرط نہیں، یہی صحیح ہے لہٰذا ایسی صورت میں حج کی وصیت واجب ہوگی۔

چونکہ وقت نے موافقت نہیں کی اس لئے آپ کے دوسرے سوالات کو کسی دوسرے مکتوب پر موقوف کردیا۔ والسلام

تشریح: مطلب یہ کہ حضرت نے اس کے بارے میں بات فرمائی ہے کہ بعض لوگوں کو جو وجدی کیفیات حاصل ہوتی ہیں، ذوق و شوق ہوتا ہے اس کا تعلق جسم کے ساتھ ہوتا ہے اور جسم جب متاثر ہوتا ہے تو چیخنے لگتا ہے، اچھلنے لگتا ہے، جسم پر اثرات آتے ہیں، تو جب اثرات جسم سے آگے چلے جاتے ہیں روح پر چلے جاتے ہیں تو روح تو اس طرح نہیں برداشت کرسکتی، تو اس کا پتا نہیں چلتا، اس کا پتا دوسرے ذرائع سے چلتا ہے۔ تو فرمایا آپ اس کی فکر نہ کریں، آپ نقصان میں نہیں بلکہ فائدے میں جا رہے ہیں۔ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک طالب آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مجھے ہر چیز سے خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا ان شاء اللہ اب نہیں ہوگی۔ اس کے بعد خوشبو نہیں آئی۔ بڑے پریشان ہوئے کہ یہ تو اچھی حالت تھی، وہ چلی گئی۔ حضرت کے پاس بڑی پریشانی کے عالم میں آئے کہ حضرت وہ چیز تو اب نہیں ہے۔ فرمایا: فکر نہ کرو میں نے آپ کو اس سے اگلے سٹیج میں ترقی دے دی ہے، جس میں کسی چیز سے خوشبو نہیں آتی۔ یہ صاف بات ہے کہ خوشبو کو آپ اچھا سمجھتے ہیں، ہر چیز سے خوشبو آرہی تھی تو اپنے آپ کو بہتر سمجھ رہے ہوں گے، اور جب نہیں آ رہی تو اپنے آپ کو کم سمجھنے لگے، تو اپنے آپ کو کم سمجھنا اچھا ہے یا اپنے آپ کو اچھا سمجھنا اچھا ہے؟ تو وہاں پر ترقی زیادہ ہے۔ یہاں حضرت نے بھی یہ فرمایا ہے کہ اس کا end تو جہالت ہی ہے اور عجز اس کا ادراک ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں تو عجز ہی عجز اور جہالت ہی جہالت ہے۔ تو آپ کا رخ چونکہ اُس طرف ہے، لہٰذا میں کہتا ہوں کہ آپ کو ترقی ہوئی ہے۔ کیونکہ عموماََ تو لوگ اکثر بتاتے ہی نہیں کہ مجھے فلاں چیز حاصل نہیں ہے، پردہ ہی ڈالتے ہیں۔ تو ظاہر ہے وہ کم از کم مخلص تو تھے، اس لئے انہوں نے بتا دیا کہ مجھے یہ چیز حاصل نہیں ہے۔ حضرت نے ان کو تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ہے، یہ اچھی حالت ہے۔ فرمایا کہ چونکہ آپ کو علم العرفان کا زیادہ حصہ نہیں ملا، لہٰذا آپ کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ تو اگر کبھی موقع مل جائے گا تو ان شاء اللہ ادراک ہو جائے گا۔ یہ اصل میں بات ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ




  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

  2. (صافات: 171 تا 173)

  3. ۔ (آل عمران: 190)

  4. ۔ (النصر: 1-3)

  5. ۔ (آل عمران: 31)

معرفت، متابعت اور روحانی ترقی - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ