طریقہ نقشبندیہ میں لطائف خمسہ اور سیر الی اللہ کا اجمالی بیان

درس 112، مکتوب 257، 259

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ متن بزرگان دین کے روحانی سفر اور عقائد سے متعلق گہرے نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں سب سے پہلے میر محمد نعمان کو مخاطب کرتے ہوئے طریقہ نقشبندیہ کی اجمالی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ اس میں لطائف خمسہ (قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ) کی سیر، عالم صغیر اور عالم کبیر میں ان لطائف کے اصول کی منازل طے کرنے، اور پھر اسماء و صفاتِ الٰہی کے ظلال میں سیر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد نفس مطمئنہ کے حصول اور مقامِ رضا کی انتہا کو بیان کیا گیا ہے، جہاں حقیقی اسلام اور شرح صدر حاصل ہوتا ہے۔ اس میں اسمِ ظاہر اور اسمِ باطن کے کمالات کے حصول کے بعد سالک کے لیے عالم قدس میں پرواز کے دو بازو میسر آنے کا بھی تذکرہ ہے۔

اس کے بعد مکتوب نمبر 259 میں خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کو مخاطب کرتے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کے فوائد، اور معرفتِ الٰہی میں عقل کی محدودیت پر بحث کی گئی ہے۔ اس میں یونانی فلسفیوں کے نظریات کا ذکر کرتے ہوئے نبوت کے انوار کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ متن میں ماتریدیہ کے اس موقف پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والے بُت پرست کو صرف عقل کی بنا پر معرفتِ الٰہی کے لیے مکلف ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ آخر میں اس سوال کا حل پیش کیا گیا ہے کہ انبیاء کی دعوت نہ پہنچنے والے مشرکین کا کیا حکم ہوگا؛ انہیں نہ تو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رکھا جائے گا اور نہ ہی جنت میں بھیجا جائے گا، بلکہ حساب کے بعد غیر مکلف حیوانوں کی طرح معدوم کر دیا جائے گا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مکتوب نمبر 257

میر محمد نعمان کی طرف اختصار کے طور پر طریقہ کے بیان میں صادر فرمایا۔

حمد و صلوٰۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ جو مکتوب شریف آپ نے شیخ احمد فرملی کے ہمراہ بھیجا تھا وصول ہو کر بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوا۔ آپ نے وہ رسالہ جس میں طریقے کا بیان ہے طلب فرمایا تھا، اس کے مسودے (ابھی ویسے ہی) پڑے ہوئے ہیں، اگر توفیق نصیب ہوئی تو بیاض میں لکھ کر بھیج دیا جائے گا۔ فی الحال مختصر طور پر چند فقرے اس طریقے کے بیان میں تحریر کئے جاتے ہیں، گوشِ ہوش سے سماعت فرمائیں۔

میرے سیادت پناہ! وہ طریقہ جو ہم نے اختیار کیا ہے اس کی سیر کی ابتدا ’’قلب‘‘ سے ہے جو کہ ’’عالمِ امر‘‘ سے ہے، اور قلب کی سیر سے گزر کر مراتبِ روح ہیں جو اس سے اوپر ہیں اور روح سے گزرنے کے بعد معاملہ سِرّ کے ساتھ ہے جو اس سے اوپر ہے اور اسی طرح خفی و اخفیٰ کا حال ہے۔ ان لطائفِ پنج گانہ (پانچوں لطائف) کی منزلوں کو طے کرنے کے بعد اور ان میں سے ہر ایک کے متعلق علیحدہ علیحدہ علوم و معارف حاصل کرنے کے بعد اور ان احوال و مواجید کے ساتھ جو ان پنج گانہ لطائف میں سے ہر ایک کے ساتھ مخصوص (احوال) ہیں، ان کے متحقق ہونے کے بعد ان پنج گانہ (لطائف) کے اصول میں جو عالمِ کبیر میں ہیں، سیر واقع ہوتی ہے۔ کیونکہ جو کچھ بھی عالمِ صغیر میں ہے اس کی اصل عالمِ کبیر میں موجود ہے۔ عالمِ صغیر سے مراد انسان ہے اور عالمِ کبیر سے پوری کائنات کا مجموعہ مراد ہے۔ ان اصول پنج گانہ میں سیر کا آغاز عرشِ مجید سے ہوتا ہے جو انسان کے قلب کی اصل ہے۔ اس کے اوپر روحِ انسانی کی اصل ہے اور اس کے اوپر سرِّ انسانی کی اصل ہے اور سرِّ اصل کے اوپر خفی کی اصل ہے اور اصلِ خفی کے اوپر اخفیٰ کی اصل ہے۔ جب عالمِ کبیر کے ان پنج گانہ لطائف کو تفصیل کے ساتھ طے کر کے آخری نقطے پر پہنچتے ہیں تو دائرہ امکان پورا ہو جاتا ہے اور فنا کی منزلوں میں سے اوّل منزل میں قدم رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر ترقی واقع ہو تو اسماء و صفاتِ واجبی جل سلطانہٗ کے ظلال میں سیر واقع ہوگی۔ یہ ظلال وجوب و امکان کے درمیان برزخ کی طرح ہیں اور عالم کبیر کے ان پنج گانہ مراتب کے لئے اصول کی مانند ہیں، نیز ان ظلال میں بھی اسی ترتیب سے سیر واقع ہوگی جس طرح ان کے فروع میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ اگر فضل ایزدی جل شانہٗ سے ان ظلال کے بکثرت منازل طے کر کے ان کے آخری نقطے پرپہنچ جائیں تو پھر اسماء و صفاتِ واجبی جل سلطانہٗ میں سیر شروع ہوگی اور اسماء و صفات کی تجلیات ظاہر ہوں گی اور شیون و اعتبارات کے ظہورات جلوہ فرما ہوں گے۔ اس وقت عالمِ امر کے پنج گانہ لطائف کا معاملہ طے ہو کر ان کا حق ادا ہو جائے گا۔

اس کے بعد اگر فضلِ خداوندی جل شانہٗ شاملِ حال ہو جائے تو اس مقام سے بھی ترقی کر کے نفس کے اطمینان کا معاملہ حاصل ہوگا اور مقامِ رضا کا حصول جو مقاماتِ سلوک کی انتہا ہے، میسر ہوگا۔ اسی مقام پر شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور اسلامِ حقیقی کے شرف سے بھی مشرف ہو جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ کمالات جو اس مقام پر حاصل ہوتے ہیں، عالمِ امر سے متعلق ہیں اور دریائے محیط کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہیں۔ یہ سب کمالات جن کا ذکر کیا گیا، اسم ''ظاہر'' سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کمالات جن کا تعلق اسم ''باطن'' سے ہے، وہ دوسرے ہیں جن کا استتار (پوشیدہ ہونا) اور تبطن (باطن میں ہونا ہے) ہی مناسب ہے۔ جب ان دو مبارک اسموں کے کمالات پورے طور پر حاصل ہو جائیں تو سالک کی پرواز کے لئے دو بازو میسر ہو جاتے ہیں کہ ان دو بازوؤں کی قوت سے عالم قدس میں پرواز کرتا ہے اور بے اندازہ ترقیاں حاصل کرتا ہے۔ اس معاملے کی تفصیل بعض مسودات میں تحریر ہو چکی ہے، میرے فرزند ارشد ان کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اگر ممکن ہو تو آپ ایک مرتبہ یہاں تشریف لائیں۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس مقام کو خالی نہ چھوڑیں اور اس انتظام کو درہم برہم نہ کریں اور خود تنہا یہاں آ جائیں اور دوستوں میں سے جس کسی کو پیش قدم (آگے بڑھا ہوا) اور مناسب سمجھیں اس جماعت کا پیشوا بنا کر اس علاقے کی طرف متوجہ ہوں (یعنی تشریف لے آئیں) و اللہ سبحانہٗ اعلم (اللہ سبحانہٗ بہتر جانتا ہے) کہ دوسرے وقت فرصت ملے یا نہ ملے۔ و السلام

"یہ اصل میں نقشبندی سلوک کا اجمالی بیان ہے۔ بار بار اس پر بات ہو چکی ہے اور حضرت نے بھی اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ لیکن چونکہ مکتوبات شریف میں تو ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا تعلق ہوتا ہے، تو اس وقت جتنے کی ضرورت ہوتی ہے حضرت فرما دیتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہماری جو سیر ہے نقشبندی طریقے کی، اس کی ابتدا قلب سے ہوتی ہے، دل سے۔ اور دل کا معاملہ عالم امر سے ہے۔ ایک عالمِ خلق ہے یعنی جو مخلوقات ہیں اور ایک عالمِ امر ہے جو اللہ جل شانہٗ کے حکم سے متعلق ہے۔ تو پھر قلب کی سیر سے گزر کر پھر مراتب روح طے کرنے ہوتے ہیں جو قلب سے اوپر ہیں۔ اور روح سے گزرنے کے بعد معاملہ سر کے ساتھ ہے جو اس سے بھی اوپر ہے۔ اور پھر اس کے اوپر خفی ہے اور اس کے بعد اخفیٰ کا حال ہے۔ یہ پانچ لطائف، ان کا دور ہر نقشبندی سالک کو کرایا جاتا ہے۔ فرمایا جو پانچوں لطائف ہیں، ان کی منزلیں طے کرنے کے بعد اور ان میں سے ہر ایک کے متعلق جو علیحدہ علیحدہ علوم و معارف ہیں، ان کے حاصل ہونے کے بعد اور ان احوال و مواجید جو ان کے ساتھ متعلق ہیں، یہ اس کے بعد ان پانچ لطائف کے اصول میں، ایک ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ تو یہاں پر ہے ناں ہمارے جسم کے اندر ہے۔ خیر عالمِ امر کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے لیکن ہے جسم کے ساتھ، چونکہ روح ہے۔ تو پھر اس کے بعد عالمِ کبیر کی سیر آتی ہے۔ یہ عالمِ صغیر ہے، عالمِ صغیر ہمارا جسم ہے اور عالمِ کبیر پوری کائنات کا جسم ہے۔ تو عالمِ صغیر کے جو پانچ لطائف ہیں، ان کو طے کرنے کے بعد پھر عالمِ کبیر میں جو ان کے اصول ہیں، اصل جڑ کو کہتے ہیں یعنی یہاں سرے ہیں ہمارے جسم کے اندر اس کے سرے ہیں اور اصول اس کی جڑیں ہیں۔ تو ان کی جڑوں کے ساتھ پھر رابطہ ہوتا ہے، ان سروں کے ذریعے سے پھر جڑوں کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔

اور چونکہ یہ جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت تفصیل کے ساتھ فرمایا ہے کہ جیسے کہ ہمارا جسم ہے، نفس ہے، اسی طرح پوری کائنات کا نفس ہے۔ اس کو نفسِ کلیہ حضرت نے فرمایا ہے، تو جیسے ہم لوگ، یہاں ہمارا قلب ہے تو وہاں عرش ہے یعنی قلب جو یہاں جس کا سرا ہے اس کا جو اصل ہے وہ عرش ہے۔ اس لیے قلب کو عرشِ اصغر کہتے ہیں۔ ویسے ہمارا قلب ادھر ہے لیکن اگر عالمِ کبیر کے ساتھ رابطہ ہو جائے تو پھر عرش کے اوپر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس کا اثر قلب کے اوپر پڑتا ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ جب ہمیں ذکر سکھاتے تھے ’’اَللہُ اَللہْ‘‘ کا، تو فرماتے تھے کہ عرشِ الہی سے ایک نور ہمارے دل پر آ رہا ہے، ساتھ مطلب اس کا مراقبہ کراتے تھے۔ عرشِ الہٰی سے ایک نور ہمارے دل پر آ رہا ہے۔ تو گویا کہ اس ذریعے سے رابطہ عالمِ کبیر کے ساتھ کرایا جاتا تھا، عالمِ کبیر کے ساتھ۔ تو فرمایا کہ جو عالمِ کبیر ہے وہاں پر بھی اس کے اصول ہیں، اصول سے مراد کیا ہے؟ یعنی جو اس کی جڑیں ہیں، پس قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ، ان سب کے اصول وہاں پر موجود ہیں یعنی جڑیں اُدھر موجود ہیں۔ لہٰذا جن کے یہاں پر جو لطائف ہیں وہ بیدار ہو جاتے ہیں، تو اس کے بعد اللہ پاک مزید اگر ان پر فضل فرمائیں تو ان کا پھر عالمِ کبیر کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے اور وہاں پر وہ جو اصول ہیں، وہاں تک رسائی ہو جاتی ہے۔ پھر اس کو عالمِ کبیر کی سیر کہتے ہیں۔

کیونکہ جو کچھ عالمِ صغیر میں ہے اس کی اصل عالمِ کبیر میں موجود ہے۔ عالمِ صغیر سے مراد انسان ہے اور عالمِ کبیر سے پوری کائنات کا مجموعہ مراد ہے۔ ان اصول پنجگانہ میں سیر کا آغاز عرش مجید سے ہوتا ہے جو قلب کا اصل ہے اور ان کے اوپر روح انسانی کا اصل ہے اور اس سے اوپر سر انسانی کا اصل ہے، پھر اس کے اصل سے اوپر خفی کا اصل ہے اور پھر اصلِ خفی کے اوپر اخفٰی کا اصل ہے۔ جب عالمِ کبیر کے ان پنجگانہ لطائف کی سیر تفصیل کے ساتھ طے کر کے اس کے آخری نقطے پر پہنچتے ہیں تو ظاہر ہے چونکہ پوری کائنات کے اصول طے ہو جاتے ہیں تو دائرۂ امکان یعنی کائنات اس کا دائرۂ امکان پورا ہو جاتا ہے اور دائرۂ امکان طے کرنے کے بعد پھر اس کی فنائیت کی منزل آ جاتی ہے یعنی پھر فنائیت کی طرف جاتے ہیں۔ تو فنا کی جو اول منزل ہے اس میں پھر قدم رکھنا ہوتا ہے اور اگر اس کے بعد ترقی واقع ہو تو پھر جو اللہ پاک کے نام ہیں اور جو صفاتِ واجبی ہیں اللہ جل شانہٗ کی، ان کے ظلال میں سیر ہوگی۔ ظل سائے کو کہتے ہیں اور عکس کو بھی کہتے ہیں۔ لہٰذا جس اسم کے ساتھ جس کا رابطہ ہوگا اس کے ظلال میں اس کی سیر ہوگی۔ ہمارے قادری سلسلے میں باقاعدہ اسماء کے ذریعے سے بھی سلوک طے کرایا جاتا تھا۔ جیسے مطلب ’’یَا کَرِیْمُ، یَا رَحِیْمُ، یَا سُبْحَانُ، یَا عَظِیْمُ‘‘۔ مطلب اس ذریعے سے بھی سلوک کو طے کرایا جاتا تھا، یہ اسماء کے ذریعے سے ہے۔ اور اسمِ مربی کی باقاعدہ ہمارے نقشبندی سلسلے میں ایک ترتیب موجود ہے، اسمِ مربی تک اگر کسی کی رسائی ہو جائے تو اسمِ مربی اس کے لیے گویا دروازہ ہوتا ہے یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ اگر یہ سارے اسماء مطلب اگر اپنا جو مقصود ہے منزل، اس تک رسائی کا ذریعہ ہیں تو اس کا جو دروازہ ہوگا وہ وہی اسم مربی ہوگا۔ اسم مربی تک اگر پہنچ جائے گا تو وہاں سے بہت آسانی کے ساتھ اندر داخل ہو جائے گا۔ تو یہ جو ہے ناں اسماء اور صفات، اصل میں شان سے صفت نکلتی ہیں اور صفت سے پھر اسم نکلتا ہے۔ شان سے صفت نکلتی ہے اور صفت سے پھر جو ہے ناں وہ اسم نکلتا ہے۔ تو اسماء اور صفاتِ واجبی جو ہیں وہ مطلب جو ہے ناں کہ ان کے ظلال میں سیر ہوگی۔ اور فرمایا کہ یہ ظلال جو ہے وجوب و امکان کے درمیان برزخ ہے کیونکہ امکان تو پورا ہوگیا ناں، امکان کا سلسلہ تو پورا ہوگیا ہے۔ آگے وجوب کا سلسلہ شروع ہوگیا تو یہ جو نقطہ ہے یہاں سے جو سیر شروع ہوگی، یہ اصل میں اس کے برزخ میں واقع ہوگی یعنی frontier جس کو ہم کہتے ہیں سرحد، یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہاں سے پھر شروع ہوتا ہے۔

اور یہ ظلال وجوب امکان کے درمیان برزخ کی طرح ہے اور عالم کبیر کے ان پنجگانہ مراتب کے لئے اصول کی مانند ہے۔

یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ چونکہ پنجگانہ مراتب سے مراد، پہلے ہم نے پنجگانہ مراتب یعنی رؤوس کے لئے ہیں، یعنی جو یہاں پر ہیں، ہمارے جسم کے اندر، پھر عالم کبیر میں، جیسے پہلی منزل اس کی عرش ہے، ان کے ساتھ مطلب وہاں پر سیر ہوتی ہے تو ان اصول تک ہماری رسائی ہوتی ہے۔ تو چونکہ یہ اصول بھی عالمِ امکان میں ہیں، کائنات میں ہیں، کیونکہ عرش بھی تو کائنات میں ہے ناں، وہ کائنات میں ہیں، لہٰذا جب کائنات کے آخری سرے پر پہنچ جاتے ہیں، عالمِ امکان کے آخری سرے پر پہنچ جاتے ہیں، پھر اس کے بعد جو صفاتِ اور اسماء مطلب اسماء و صفاتِ وجوبی، گویا کہ دائرۂ وجوبی میں جو ہے ناں وہ انسان، لیکن وجوب میں نہیں بلکہ ان کے ظلال میں سیر واقع ہوتی ہے۔ تو ان کے جو ظلال میں سیر واقع ہوتی ہے یہ اصل میں ان کے لئے اصول کی مانند ہے، یعنی اصل کا اصل، اصل کا اصل، مطلب یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس سے ہے، اس کا تعلق اس کے ساتھ ہے، اُس کا تعلق پھر اِس کے ساتھ ہے۔ تو اصل کا جو اصل ہے جہاں سے وہ، جیسے مثال کے طور پر میرا جسم دماغ سے کنٹرول ہوتا ہے اور دماغ کے اوپر ایک سپر مائنڈ ہے، اس کے ساتھ مطلب جو ہے ناں وہ ساری چیزیں Attach ہیں، اس سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ تو یہ چیز جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اصول کے جو اصل ہیں وہ اسی وجوبی دائرے میں ہیں۔

یہ ظلال وجوب امکان کے درمیان برزخ کی طرح ہے اور عالم کبیر کے ان پنجگانہ مراتب کے لئے اصول کی مانند ہے، نیز ان ظلال میں بھی اس ترتیب سے سیر واقع ہوگی جس ترتیب سے پہلے وہ ہے جس طرح سے فروع میں آ چکا ہے اور اگر فضل ایزدی جل شانہ سے ظلال کی بکثرت منازل طے کرنے کے بعد اس کے آخری نقطہ پر بھی کوئی پہنچ جائے تو پھر اسماء و صفات واجبی (یعنی ظلال کے بجائے پھر) اصل اسماء و صفات واجبی میں اس کی سیر ہوگی۔

سیر سپاٹے والی بات نہیں ہے، مطلب جس طرح کا وہ سیر سپاٹا ہوتا ہے، سیر ہم اس کو کہتے ہیں کہ ترقی۔ اب جیسے میں لاہور جا رہا ہوں تو لاہور کے لئے میں ایک بامقصد طریقے سے جا رہا ہوں، ایک میں ویسے سیر کے لئے جا رہا ہوں۔ تو جب سیر کا لفظ ہم سنتے ہیں تو ہمارا خیال یہ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مری جا رہا ہوتا ہے، کوئی مطلب ایبٹ آباد جا رہا ہوتا ہے، یہ وہ سیر نہیں ہے۔ اصل میں مقصد کی طرف ہم جا رہے ہیں لیکن چونکہ طے ہو رہا ہے تو جو چیز طے ہو رہی ہے اس کو ہم سیر کہتے ہیں۔ جیسے میں لاہور جا رہا ہوں تو منزل طے ہو رہی ہوتی ہے، تو اس طے ہونے کو سیر ہونا کہتے ہیں، یعنی سلوک کو طے کرنا ہوتا ہے۔ تو سلوک کو طے کرنے کا مطلب سیر الی اللہ تک جانا ہوتا ہے۔ سیر الی اللہ تک جانا ہوتا ہے۔ سیر الی اللہ کا مطلب کیا ہے؟ اللہ جل شانہٗ نے جو شریعت مقرر کی ہے اوامر و نواہی کی، اس کے لئے جتنی رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنے کو سیر الی اللہ کہتے ہیں۔ یہ Definition ذرا آسان ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ سیر الی اللہ جو ہے کیا ہے؟ مطلب یہ جو اوامر و نواہی، جو شریعت کے احکامات ہیں، اس کے لئے کچھ رکاوٹیں ہیں ہمارے اندر، کچھ قلب کی رکاوٹیں ہیں، کچھ عقل کی رکاوٹیں ہیں، کچھ نفس کی رکاوٹیں ہیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ ان تمام رکاوٹوں کو جب دور کیا جاتا ہے تو یہ سیر الی اللہ ہے، اور اس پر جب انسان مسلح ہو جاتا ہے، پھر اس کے بعد جو ترقی کرتا ہے وہ سیر فی اللہ ہے۔ وہ سیر فی اللہ ہے۔ گویا کہ سیر الی اللہ کے ذریعے سے پھر اس کے بعد اس کے جو اعمال ہوتے ہیں وہ اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں ناں، تو جب اللہ کے لئے ہو جاتے ہیں تو جتنے اعمال انسان کر رہا ہوتا ہے وہ سیر الی اللہ کی طرف ترقی کر رہا ہوتا ہے، ٹھیک ہے ناں جو جو کام جس کے حوالے ہوتا ہے، اس کے مطابق کام۔ تو وہ سیر فی اللہ ہے۔ تو اب یہاں پر مطلب جو ہے ناں یہ والی بات ہے کہ جو سیر والا لفظ میں بار بار کہہ رہا ہوں، تو اس سے سیر سپاٹا مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے جو ہے ناں مراد منزل طے ہونے والی بات ہے کہ منزل طے ہو رہی ہے۔

بکثرت منازل طے کر کے ان کے آخری نقطہ پر پہنچ جائیں تو پھر اسماء و صفات واجبی جل سلطانہٗ میں سیر شروع ہوگی اور اسماء و صفات کی تجلیات ظاہر ہوں گی۔

ہر اسم کی اپنی تجلی ہے، ہر صفت کی اپنی تجلی ہے، ہر شان کی اپنی تجلی ہے۔ تو یہ ظہور ہوں گی منکشف ہوں گی۔

اس وقت عالمِ امر کے پنجگانہ لطائف کا معاملہ طے ہو کر ان کاحق ادا ہو جائے گا۔

سیر الی اللہ پہلے طے ہوئی تھی، اب جو ہے ناں مطلب ہے کہ لطائف کا معاملہ مطلب ان کا حق ادا ہوگا۔

اس کے بعد اگر فضل خداوندی جل شانہٗ شامل حال ہو تو اس مقام سے بھی ترقی کر کے نفس کے اطمینان کا معاملہ حاصل ہوگا۔

یعنی گویا کہ نفس مطمئنه، نفس مطمئنه ہم اس کو تب کہہ سکتے ہیں جب جو حجابات ہیں وہ سارے دور ہو جائیں، حجابات دور ہو جائیں، تو حجابات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک حجابات ظلماتی ہوتے ہیں، ایک حجابات نورانی ہوتے ہیں۔ تو یہاں پر حجابات نورانی بھی ختم ہو جائیں گے تو لہٰذا یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ پھر ان کا حق ادا ہوگا۔

اور مقامِ رضا کا حصول جو مقام سلوک کی انتہا ہے میسر ہوگا اور اس مقام پر شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے۔

چونکہ شرحِ صدر کا مطلب کیا ہے کہ جیسے میرے دل کا آئینہ ہے، اس پر حق کا انکشاف تب ہوگا جب آلائشیں دور ہو جائیں گی، جب آلائشیں دور ہو جائیں گی۔ جب آلائشیں دور ہو جائیں گی تو مطلب مجھے وہ چیز ویسے ہی نظر آئے گی جس طرح ہے۔ اسی کو شرحِ صدر کہتے ہیں۔ وہ چیز جیسی ہے ویسے ہی نظر آئے۔ اور جو زیغ والی بات ہے وہ درمیان سے دور ہو جائے گی۔ اسی کے لئے ہم کہتے ہیں: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾1 اور ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ ۝ وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ ۝ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ ۝ یَفْقَهُوْا قَوْلِیْ﴾2

یہ مطلب یہ ہے کہ یہ شرحِ صدر انسان کو حاصل ہو جاتا ہے اور اسلامِ حقیقی کے شرف سے بھی مشرف ہو جاتا ہے۔ اسلام اعمال کا نام ہے ناں، ایمان تو پہلے سے ہے ایمان تو غائب نہیں ہوتا۔ تو اسلام اعمال ہے۔ تو اعمال بھی دو قسم کے ہیں: ایک جسم کے اعمال اور ایک قلب کے اعمال ہیں۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو یہاں پر جب دونوں قسم کے ادا ہو جائیں گے جب حجابات دور ہو جائیں گے، جب شرحِ صدر ہوجائے گا۔ تو پھر کیا ہوگا؟ پھر ظاہر ہے حقیقی اسلام کا شرف حاصل ہوجائے گا۔ حقیقی اسلام کا شرف حاصل ہوجائے گا۔

ان کے مقابلے میں وہ کمالات جو اس مقام پر حاصل ہوتے ہیں عالمِ امر سے متعلق ہیں اور دریائے محیط کے مقابلے میں قطرہ کے مانند ہیں۔ اور یہ سب کمالات جن کاذکر کیا گیا اسم ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں۔

یعنی ابھی تک صرف ظاہر کا معاملہ ہی طے ہوا ہے، پھر اس کے بعد باطن کا معاملہ آجاتا ہے اور باطن کا معاملہ تو بس۔

میانِ عاشق و معشوق رمزیست

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

اس کے بعد پھر ایسا معاملہ ہوتا ہے جو ہر ایک سالک کا رب کے ساتھ اپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔ وہ جو باطنی مطلب ہے مقامات ہیں۔

وہ دوسرے ہیں جن کا استتار (پوشیدہ ہونا) اور تبطن (باطن میں ہونا ہے) ہی مناسب ہے۔ جب ان مبارک دو اسموں کے کمالات پورے طور پر حاصل ہو جائیں تو سالک کی پرواز کے لئے دو بازو میسر ہو جاتے ہیں

جیسے اصول تک پہنچنے کے لئے فروع کے پر ہوتے ہیں، اصول تک پہنچنے کے لئے فروع کے پر ہوتے ہیں، پس یہ جو ہم لطائف کا دور کراتے ہیں، یہ اصل میں پروں کو وجود میں لانا ہوتا ہے تاکہ اصول تک پہنچ سکیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ اس کے بغیر انسان مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کی جو روحانیت ہے وہ اپنے اصول تک نہیں پہنچ سکتی۔ تو جس وقت یہ پر پیدا ہو جائیں تو وہاں تک پہنچ جاتا ہے اس کے ذریعے سے اصول تک، پھر اصول کے پروں سے اصل الاصول تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہاں سے اسماء و صفاتِ واجبی تک پہنچ جاتا ہے ان پروں کے ذریعے سے۔ پھر وہاں سے جس وقت اسمِ ظاہر طے ہو جاتا ہے اور پھر اسمِ باطن، تو ان کے ذریعے سے بالائی جتنی بھی منازل ہیں وہاں تک انسان جاسکتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں تو ہمیں Theoretical لگتی ہیں، Theoretical لگتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک انسان ان چیزوں سے گزرا نہ ہو تو ظاہر ہے Theoretical ہی ہیں۔ لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نصیب فرما دیں تو پھر وہ اسے Theoretical تو نہیں سمجھے گا، لیکن بیان پھر بھی نہیں کر سکے گا مطلب ظاہر ہے وہ چونکہ کیفیات ہیں اور کیفیات کو تو بیان کرنا بڑا مشکل ہے۔

کہ ان دو بازوؤں کی قوت سے عالم قدس میں پرواز کرتا ہے اور بے اندازہ ترقیاں حاصل کرتا ہے۔ اس معاملے کی تفصیل بعض مسودات میں تحریر ہو چکی ہے، میرے فرزند ارشد ان کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پھر بعد میں حضرت نے اپنی بات فرمائی کہ اگر آپ آنا چاہیں تو یہ انتظامی امور ہیں، اُس کا اِس کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ تو بہر حال اس میں ہمیں اجمالی طور پر جو طریقہ نقشبندی ہے اس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟

مکتوب نمبر 259

مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید3 رحمۃ اللہ علیہ کی طرف صادر فرمایا، جو جامع علومِ عقلیہ و نقلیہ اور صاحب نسبتِ عالیہ ہیں۔ رسولوں کے بھیجنے کے فوائد اور واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی معرفت میں عقل کا استقلال نہ ہونے اور شاہقِ جبل اور پیغمبروں کے زمانۂ فترت کے مشرکوں اور دار الحرب کے مشرکوں کے اطفال کے بارے میں حکمِ خاص فرمایا، اور ہندوستان کی اممِ سابقہ میں انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے میں اور ان کے مناسب بیان میں۔

﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ‌﴾4 ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پرور دگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔

انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے بھیجنے کا شکر کس زبان سے ادا کیا جائے اور اس نعمت کے دینے والے یعنی حق تعالیٰ کا اعتقاد کس دل سے ظاہر کیا جائے اور وہ اعضاء کہاں ہیں جو اس نعمتِ عظمیٰ کا بدلہ اعمالِ حسنہ کے ذریعے سے ادا کر سکیں، اگر ان بزرگوں کا وجود شریف نہ ہوتا تو ہم کم فہموں کو صانع تعالیٰ جل سلطانہٗ کے وجود، اور اس کی وحدت کی طرف کون ہدایت کرتا؟

اللہ جل شانہٗ اپنی تعریف خود ہی کر سکتے ہیں، اللہ جل شانہٗ اپنی تعریف خود ہی کر سکتے ہیں۔ اللہ جل شانہٗ کی تعریف کوئی نہیں کر سکتا۔ ہاں، جتنا سکھایا جائے، جتنا بتایا جائے، اور اللہ جل شانہٗ کے بتانے کا جو نظام ہے وہ وحی کے ذریعے سے ہے، کیونکہ اس کے بغیر جو بھی طریقہ ہوگا وہ غیر مستند ہوگا، ظنی ہوگا۔ تو جو وحی کے ذریعے سے ہے، وہ وحی جن پر اترتی ہے ان کے ذریعے سے ہوگا اور وہ انبیاء علیہم السلام ہیں۔ لہٰذا انبیاء علیہم السلام ہمارے لئے واحد ذریعہ ہیں اللہ تعالیٰ سے لینے کا، ہمارے پاس اللہ تعالیٰ سے لینے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اب اصل کو اللہ جانتا ہے اور ہم کچھ نہیں جانتے۔ فرشتوں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی تو ان کو بھی کہنا پڑا تھا: ﴿لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ﴾5 حالانکہ فرشتے ہیں، پاک مخلوق ہیں، لیکن ان کو بھی یہی کہنا پڑا: ﴿لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ﴾6

تو اللہ جل شانہٗ نے جو انبیاء کرام علیہم السلام کو وحی کے ذریعے سے سمجھایا، بتایا، سکھایا، اس کی مثال مل نہیں سکتی۔ لہٰذا مخلوق، خالق سے لینے کے لئے انبیاء کرام کی محتاج ہے، کیونکہ انبیاء کرام کو اللہ پاک نے اس کا وسیلہ بنایا ہے۔ تو حضرت یہی فرمانا چاہتے ہیں کہ اگر یہ حضرات نہ ہوتے تو پھر ہمیں کون ہدایت کرتا۔

یونان کے قدیم فلسفیوں نے اس قدر عقل مند ہونے کے باوجود صانع جل شانہٗ کے وجود کی طرف ہدایت نہیں پائی اور کائنات کے وجود کو زمانے کی طرف منسوب کیا (space and time آج کل سائنس کا دور ہے) اور جب انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی دعوت کے انوار روز بروز بلند ہوتے گئے تو متاخرین فلسفیوں نے ان انوار کی برکت سے اپنے متقدمین کے مذہب کا ردّ کیا اور صانع جل شانہٗ کے وجود کے قائل ہوگئے اور انہوں نے حق تعالیٰ کی وحدت کو ثابت کیا۔ پس ہماری عقلیں انوارِ نبوت کی تائید کے بغیر معزول و بے کار ہیں، اور ہماری فہم انبیائے کرام علیہم الصلوات و التحیات کے وجود کے توسط کے بغیر اس معاملے سے دُور ہے۔ پھر ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے اصحابِ ماتریدیہ نے بعض اُمور مثلًا صانع تعالیٰ سبحانہٗ کے وجود کے اثبات اور اس کی وحدت کے بارے میں عقل کے استقلال و کافی ہونے سے کیا مراد لی ہے کہ انہوں نے شاہقِ جبل (پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والے) بُت پرست کو ان دونوں امور (یعنی وجودِ صانع کے اثبات اور اس کی وحدت) کے لئے مکلّف ٹھہرایا ہے۔

یہ میں نے خود بھی پڑھا ہے۔ مطلب یہ مسئلہ پڑھا ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات والی ہے ماتریدی حضرات کہ اگر وہ اپنی عقل استعمال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہو جاتے ہیں تو بس ٹھیک ہے، بس ان کے لئے اتنا کافی ہے کیونکہ باقی تو اس کو نہیں ملا۔

اگرچہ اس کو پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی اور دنوں امور میں اس کے نظر و فکر کو ترک کرنے پر اس کے کفر اور خلود فی النار کا حکم دیا ہے حالانکہ ہم ظاہری تبلیغ اور حجتِ بالغہ کے بغیر جو کہ رسولوں کے بھیجنے پر وابستہ ہے، کفر اور خلود فی النار کا حکم دینا صحیح نہیں سمجھتے۔

بہت بڑا جو ہے ناں، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، کلامی موضوع ہے، اس لیے میں نے کہا بہت عمیق مکتوب ہے۔

بے شک عقل اللہ تعالیٰ کی حجتوں میں سے ایک حجت ہے لیکن یہ حجت ہونے میں اتنی کامل حجت نہیں ہے جس پر شدید ترین عذاب مرتب ہو سکے۔

خلود فی النار، ہمیشہ کے لئے۔ اب سوال خود قائم کیا۔ فرمایا:

سوال:

اگر شاہقِ جبل (پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والا شخص) جو کہ بت پرست ہے، دوزخ میں ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا تو پھر وہ بہشت میں جائے گا، اور یہ جائز نہیں ہے کیونکہ بہشت میں داخل ہونا مشرک پر حرام ہے اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف سے حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ﴾7 ترجمہ: ”یقین جانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے“ اور جنت اور دوزخ کے درمیان کوئی واسطہ (یعنی ہمیشہ رہنے کی جگہ) ثابت نہیں ہوا ہے (کیونکہ) اصحابِ اعراف بھی چند روز کے بعد بہشت میں داخل ہو جائیں گے، پس ہمیشہ کا ٹھکانا جنت میں یا دوزخ میں۔

جواب:

یہ سوال بہت مشکل ہے۔ میرے اس فرزند ارشد کو معلوم ہے کہ آپ مدت تک اس فقیر سے بار بار یہ سوال دریافت کرتے رہتے تھے اور تسلی بخش جواب نہیں پاتے تھے، اور صاحبِ فتوحاتِ مکیہ نے اس سوال کے حل میں جو کچھ کہا ہے اور قیامت کے دن ان لوگوں کو (حق تعالیٰ کی طرف) دعوت کے لئے پیغمبر کا مبعوث ہونا ثابت کیا ہے اور ان کی اس دعوت کے ردّ و قبول کے بموجب دوزخ و بہشت کا حکم کیا ہے، وہ اس فقیر کے نزدیک مستحسن نہیں ہے کیونکہ آخرت دارِ جزا (بدلہ ملنے کا گھر) ہے نہ کہ دارِ تکلیف کہ جس کے لئے پیغمبر مبعوث کیا جائے۔ بہت مدت کے بعد اللہ تعالیٰ جل سلطانہٗ کی عنایت نے رہنمائی فرمائی اور اس معما کو حل کر دیا اور منکشف فرمایا کہ یہ لوگ نہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے نہ دوزخ میں، بلکہ آخرت میں اٹھائے جانے اور زندہ کئے جانے کے بعد ان کو حساب کے مقام میں کھڑا کر کے ان کے گناہوں کے اندازے کے موافق عتاب و عذاب دیں گے اور (بندوں کے) حقوق پورے کرنے کے بعد غیر مکلّف حیوانوں کی طرح ان کو بھی معدوم مطلق اور لا شی محض کر دیں گے۔ لہٰذا ان میں سے خلود کس کے لئے اور مُخلّد کون۔

حضرت نے جو ارشاد فرمایا، اس کو اچھی طرح سن لیں۔ حضرت نے فرمایا: یہ جو لوگ ہیں جن تک پیغمبر کی بات نہیں پہنچی اور یہ مشرک ہوں تو یہ گویا ایسا ہے جیسا کہ جانور۔ اب یہ جانور جو ہے اس کے اعمال ہیں۔ تو دیکھو، ایک ہے ایمان جس پر ہمیشہ کا خلود ہے، یعنی گویا کہ یا جنت ہے یا جہنم۔ اگر ایمان نہیں ہے تو ہمیشہ کی جہنم ہے، اور اگر ایمان ہے اور گناہگار ہے تو گناہ بھگتنے کے بعد پھر ہمیشہ کی جنت ہے۔ بات سمجھ آگئی ناں؟

ایمان کا جو فیصلہ ہے وہ تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اس کو دعوت نہیں پہنچی، اس کو دعوت نہیں پہنچی، اور عقل کی پرواز اتنی نہیں کہ اس کو محکم ٹھہرایا جائے اتنے بڑے عذاب کے لئے۔ لہٰذا یہ شخص جو ہوگا یہ جانوروں کے حکم میں آجائے گا اور ان کو جو ان کے اعمالِ بد ہیں ان کی سزا وہاں دے دی جائے گی، جو ایمان سے تعلق نہیں رکھتے۔ مثلاً اس نے کسی کو قتل کیا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا، اس نے کسی کو مارا ہے تو اس کو مارا جائے گا۔ اس طرح جھوٹ بولا تو جھوٹ کی جو سزا ہے وہ دے دی جائے گی۔ یعنی گویا کہ مسلمانوں کو جیسے سزا دی جاتی ہے اعمال کے نہ کرنے کی وجہ سے، اعمال صحیح کے نہ کرنے کی وجہ سے، وہ سزا ان کفار کو بھی ہوگی، وہ ان کو دے دی جائے گی۔

ایمان کا معاملہ ان کا علیحدہ ہے، چونکہ ایمان کے معاملے کا فیصلہ ان کا نہیں ہے، تو پھر کیا ہوگا؟ ان کو جانوروں کے حکم میں لا کر ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دیں گے۔ یعنی یہ اب غیر مکلف مخلوق کے زمرے میں آ کر، ان کو نہ ہمیشہ کی جہنم میں رکھیں گے اور نہ ہمیشہ کی جنت کی طرف یہ جائیں گے، اور اعراف بھی نہیں۔ یہ مطلب جو ہے ناں بہت بڑا علم ہے۔ میں نے کبھی پڑھا بھی نہیں تھا۔ مفتی صاحب، آپ نے کبھی پڑھا ہے؟ حضرت نے فرمایا۔ تو کلامی موضوع ہے۔

اس عجیب و غریب معرفت کو جب (واقعہ میں) انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے حضور پیش کیا گیا (ظاہر ہے کشفی بات ہے) تو سب نے اس کی تصدیق فرمائی اور قبولیت عطا کی۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ (اور حقیقی علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے)

اس فقیر پر یہ بات بہت گراں گزرتی ہے کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنی کمال شفقت و رحمت کے باوجود انبیاء علیہم الصلوات و التحیات کے واسطے سے ظاہری طور پر ابلاغ مبین (احکام دین پہنچائے بغیر) صرف عقل کے اعتبار پر جس میں خطا اور غلطی کی بہت گنجائش ہے، اپنے بندے کو ہمیشہ کی آگ میں ڈال دے اور دائمی عذاب میں گرفتار کرے جس طرح کہ (اُس مشرک بندہ کے لئے) شرک کے با وجود جنت میں ہمیشہ رہنے کا حکم کرنا گراں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ جنت و دوزخ کے درمیان واسطے کا قائل نہ ہونے کے باعث اشعری کے مذہب سے لازم آتا ہے۔ پس حق وہی ہے جو مجھے الہام ہوا کہ قیامت کے دن محاسبے کی تکمیل کے بعد اس کو معدوم کر دیا جائے گا جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا۔

اور فقیر کے نزدیک دارِ حرب کے مشرکوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کیونکہ بہشت میں داخل ہونا ایمان پر موقوف ہے، ایمان خواہ اصالت کے طور پر ہو یا تبعیت کے طور پر، (یعنی ماں باپ وغیرہ کے اتباع سے حاصل ہو) اگرچہ تبعیت دار الاسلام ہی سے ہو، جیسا کہ ذمی کافروں کی نا بالغ اولاد کو ہے۔ ان (مشرکینِ دار الحرب کی نا بالغ اولاد) کے حق میں ایمان مطلق طور پر مفقود ہے پس ان کا بہشت میں داخل ہونا متصور نہیں ہے اور دوزخ میں داخل ہونا اور اس میں ہمیشہ رہنا تکلیف (مکلّف ہونا) کے ثابت ہونے کے بعد شرک پر منحصر ہے، اور یہ بھی ان کے حق میں مفقود ہے پس ان کا حکم بھی حیوانوں کے حکم کی مانند ہے، ان کو بعث و نشور کے بعد حساب کے لئے کھڑا کریں گے اور حقوق پورے کرنے کے بعد ان کو معدوم (نیست و نابود) کر دیں گے۔

اور ان مشرکوں کے حق میں جو پیغمبروں کی فترت (انقطاع) کے زمانے (دو پیغمبروں کے درمیان زمانہ) میں ہوئے ہیں جن کو کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی (ان کے لئے بھی) یہی حکم ہے۔

اے فرزند! یہ فقیر جس قدر ملاحظہ کرتا ہے اور نظر دوڑاتا ہے تو کوئی ایسی جگہ (خطۂ زمین میں) نہیں پاتا۔

اب یہ تو حکم بتا دیا ناں، لیکن اب اصل بتا رہا ہے۔

یہ الحمد للہ میرے دل میں یہ بات چلی آ رہی تھی، کسی سے ذکر میں نے ابھی تک نہیں کیا، لیکن یہی جو حضرت ابھی بات فرما رہے ہیں، وہ بات تھی۔

اے فرزند! یہ فقیر جس قدر ملاحظہ کرتا ہے اور نظر دوڑاتا ہے تو کوئی ایسی جگہ (خطۂ زمین میں) نہیں پاتا جہاں ہمارے پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کی دعوت نہ پہنچی ہو، بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ آنحضرت علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کی دعوت کا نور آفتاب کی طرح سب جگہ پہنچا ہے حتیٰ کہ یاجوج ماجوج بھی جن کے درمیان دیوار حائل ہے (وہاں بھی) پہنچا ہوا ہے۔ گزشتہ امتوں میں بھی ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی جگہ بہت کم ہی ہے جہاں پیغمبر مبعوث نہ ہوئے ہوں یہاں تک کہ زمینِ ہند میں بھی جو کہ اس معاملے سے دور دکھائی دیتی ہے معلوم و محسوس ہوتا ہے کہ اہلِ ہند سے بھی پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں اور صانع جل شانہٗ کی طرف دعوت فرمائی ہے، اور ہندوستان کے بعض شہروں میں محسوس ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے انوار شرک کے اندھیروں میں مشعلوں کی طرح روشن ہیں۔

یہ دیوبند کی سرزمین کے بارے میں بھی فرمایا تھا کسی اور نے۔

اگر (یہ فقیر) ان شہروں کو متعین کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اور دیکھتا ہے کہ کوئی پیغمبر ایسا ہے جس پر کوئی بھی ایمان نہیں لایا اور اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا، اور کوئی پیغمبر ایسا ہے جس پر صرف ایک آدمی ایمان لایا ہے، اور کسی پیغمبر کے تابع صرف دو شخص ہوئے ہیں اور بعض پر صرف تین آدمی ایمان لائے ہیں۔ تین آدمیوں سے زیادہ نظر نہیں آتے جو ہندوستان میں کسی ایک پیغمبر پر ایمان لائے ہوں تاکہ چار آدمی ایک پیغمبر کی امت ہوتے۔ ہند کے سردارانِ کفار نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس سبحانہٗ کی صفات سے اس تعالیٰ کی تنزیہات و تقدیسات کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ سب قندیلِ نبوت کے انوار سے لیا گیا ہے (یعنی ان کی جو کتابوں میں لیا گیا ہے) کیونکہ گزشتہ امتوں میں ہر زمانے میں ایک نہ ایک پیغمبر ضرور گزرا ہے جس نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس جل شانہٗ کی صفاتِ ثبوتیہ سے اور اس سبحانہٗ و تعالیٰ کی تنزیہات و تقدیسات کی نسبت خبر دی ہے۔ اگر ان بزرگ پیغمبروں کا وجود مبارک نہ ہوتا تو ان بد بختوں (کافروں) کی لنگڑی اور اندھی عقل جو کہ کفر و معاصی کی ظلمتوں سے آلودہ ہے اس دولت کی طرف کب ہدایت پاتی؟ ان بد نصیبوں کی ناقص عقلیں اپنی ذات کی حد تک اپنی الوہیت کا حکم کرتی ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو معبود نہیں مانتیں جیسا کہ فرعونِ مصر نے کہا: ﴿مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ﴾8 ترجمہ: ”میں تو اپنے سوا تمہارے کسی اور خدا سے واقف نہیں ہوں“۔ اور یہ بھی کہا: ﴿لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ﴾9 ترجمہ: ”یاد رکھو، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو میں تمہیں ضرور ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو جیل خانے میں پڑے ہوئے ہیں“۔

چونکہ ان کو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تعلیمات سے معلوم ہوگیا کہ (کائنات) عالم کا بنانے والا واجب الوجود تعالیٰ و تقدس ہے تو ان بد نصیبوں میں سے بعض نے اس دعوے کی برائی پر اطلاع پا کر تقلید اور پوشیدگی کے طور پر صانع حقیقی کا اثبات کیا اور اپنے اندر جاری و ساری (حلول) سمجھا (یعنی گویا کہ حلول ہوگیا) اور اس حیلے سے لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دی: تَعَالٰی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُ الظَّالِمُوْن عُلُوًّا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ اس بات سے جو یہ ظالم کہتے ہیں بہت بڑا ہے)

اس مقام پر کوئی کوتاہ اندیش (کم عقل) یہ سوال نہ کرے کہ اگر زمینِ ہند میں انبیاء مبعوث ہوتے تو یقینی طور پر اُن کی بعثت کی خبر ہم تک پہنچتی بلکہ وہ خبر بکثرت دعوتوں کے سبب تواتر کے ساتھ منقول ہوتی، جب ایسا نہیں ہے تو ویسا بھی نہیں ہے (یعنی پیغمبر نہیں آئے)۔

حالانکہ ایسی بات نہیں پیغمبر تو بہت زیادہ آئے لیکن ہمیں کتنوں کا معلوم ہے۔ لیکن وہ ظاہر ہے جو آئے ہیں تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ آئے ہیں۔ یعنی مطلب ہے کہ۔

اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ان مبعوث پیغمبروں کی دعوت عام نہیں تھی بلکہ بعض کی دعوت تو کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص تھی اور بعض کی دعوت کسی ایک گاؤں یا شہر پر تھی۔ بہت ممکن ہے حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس قوم یا قریہ میں کسی ایک شخص کو اس دولت سے مشرف فرمایا ہو، اور اس شخص نے اس قوم یا قریہ کے لوگوں کو صانع جل شانہٗ کی معرفت کی دعوت دی ہو اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا ہو، اور اس قوم یا قریہ نے اس کا انکار کیا ہو اور اس کو گمراہ و جاہل سمجھا ہو، اور جب ان کا انکار و تکذیب انتہا کو پہنچ گیا ہو تو حق جل و علا کی مدد نے آ کر ان کو ہلاک کر دیا ہو۔ اسی طرح کچھ مدت کے بعد دوسرا پیغمبر کسی قوم یا قریہ میں مبعوث ہوا ہو، اور اس پیغمبر نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ہو جیسا پہلے پیغمبر نے کیا تھا اور اس قوم نے اس پیغمبر کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا ہو جیسا پہلے والے کے ساتھ کیا تھا۔ اور اسی طرح ہوتا رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔

اصل میں ہوا کیا ہے، ذرا تھوڑی سی تاریخ پر نظر دوڑائیں۔ آدم علیہ السلام تو نبی تھے، تو لہٰذا آدم علیہ السلام ان چیزوں سے پاک تھے کفر و شرک سے، اور ان کی اولاد بھی جب تک ان چیزوں کے ساتھ رہی تو وہ بھی، پھر انہوں نے اپنے نفس کی سرکشی کی وجہ سے اور شیطان کے اغوا کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ کجی کی طرف مائل ہوئے۔ اب جب کجی کی طرف مائل ہوئے تو پہلے جو لوگ مائل ہوئے وہ آگے لوگوں کے لئے ذریعہ بن گئے۔ ﴿مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾10 والی بات ہے، وہ کہتے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اسی پر پایا ہے، حالانکہ یہ دلیل بہت کمزور دلیل ہے لیکن ان لوگوں کے نزدیک بہت قوی دلیل ہے۔ اب بھی اگر دیکھا جائے تو ہماری جتنی بھی رسومات اور رواج ہیں تو اس میں دلیل کیا ہوتی ہے؟ سوائے اس کے کہ ہمارے بڑوں نے ایسے کیا ہے؟ کوئی اور مطلب ڈھنگ کی کوئی دلیل ہوتی ہے؟ کوئی دلیل نہیں ہوتی، لیکن اتنی مضبوط دلیل ہوتی ہے کہ دین کے، شریعت کے جو اصول ہیں وہ اس کے سامنے کچھ نہیں سمجھتے، ان کو چھوڑ دیتے ہیں اور اِن چیزوں کو وہ پکڑ لیتے ہیں۔ اب یہ جو کجی ہے یہ تو علم کے باوجود ہے ناں۔ مثال کے طور پر ابھی ہم دیکھتے ہیں اس وقت جو مسلمان ہیں، وہ مسلمانوں کے پاس اس کا علم موجود ہے یا نہیں ہے؟ شریعت کی کتابیں موجود ہیں، علماء باتیں کرتے ہیں اس پر، سارا کچھ موجود ہونے کے باوجود جو اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کو آپ سمجھا سکتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں: ﴿مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾11 بالکل وہ زبان سے نہیں کہتے تو زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ ہمارے بڑوں نے ایسا کیا ہے۔ تو اس کو کیسے مطلب ہم روکیں؟ تو یہ گویا کہ نبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، جیسا ابھی موجود ہے۔ الحمدللہ دعوت تو سب کو پہنچی ہے، ہم مانتے ہیں، تو جب جزو ثابت ہوگیا تو کُل بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ ظاہر ہے یہ جو مطلب اجزاء ہیں مطلب جو رسوم و رواج ہیں، اس کے معاملے میں لوگوں کا رویہ یہ ہے، تو باقی جو چیزیں ہیں جیسے شرک چل پڑتا ہے کچھ لوگوں میں، یہ قبروں کو جو سجدہ کرتے ہیں اور باقاعدہ طواف کرتے ہیں، اب یہ جو چیزیں ہیں یہ بھی نسل در نسل چلی آرہی ہوتی ہیں۔ اب سمجھانے والے بھی ہوتے ہیں، ہوتے نہیں ہیں؟ ہوتے ہیں، لیکن کیا لوگ مانتے ہیں؟ آپ جو فرماتے تھے کہ وہ جو بزرگ تشریف لائے تھے مری، کیا نام تھا؟ مولانا غلام محمد صاحب، وہ تشریف لائے تو ہر طرف کیا معاملہ تھا؟ ان کو کتنی محنت کرنی پڑی؟ بہت زیادہ محنت کرنی پڑی ناں، اور لوگوں نے ان کی مخالفت بھی کی ظاہر ہے۔ لیکن ان کی محنت کام آئی اور کچھ لوگ ساتھ ہوگئے۔ حالانکہ مسلمانوں کا علاقہ تھا، کافروں کا علاقہ تو نہیں تھا۔ تو اب یہ چیز ہے مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی جو چیزیں ہوتی ہیں ہر علاقے میں، اب ہم جب پنجاب کے گاؤں میں جاتے ہیں تو اکثریت کس کی ہوتی ہے؟ ایسے لوگوں کی ہوتی ہے ﴿مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾ ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوتی ہے اس کے علاوہ؟ ہم نے اپنے بڑوں کو اس طرح کرتے دیکھا ہے، ہم اس کو کیوں چھوڑیں، تم کون ہو؟ یہی انبیاء سے بھی کہتے تھے ناں، انبیاء کی تکذیب کیسے ہوتی تھی؟ اسی طرح ہوتی تھی۔ بس یہ چھوٹے پیمانے پر ہے، وہ بڑے پیمانے پر تھی، یہ علماء کے ساتھ بات ہے، وہ پیغمبروں کے ساتھ بات تھی۔ بنیادی بات تو یہی تھی ناں۔ تو جب ہم اپنے اس دور میں دیکھتے ہیں کہ لوگوں کا رویہ اہلِ حق کے ساتھ کیا ہے اور باطل پر لوگ کیسے ڈٹے ہوئے ہوتے ہیں اور کیسے بودے بودے دلائل دیتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیا ہے۔ یہ جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اصلاح الرسوم‘‘ کتاب لکھی، تو ایسے لوگوں کی زبان سے جو حضرت نے ذکر کیا ہے کہ ایسی بات نکلی کہ اچھا ہوا کہ ہمیں رسومات کا پتا چل گیا اس سے، پہلے ہم عورتوں سے معلوم کرتے تھے، اب انہوں نے اپنی کتاب میں لکھ دیا یہ رسومات اب ہم اس طریقے سے کریں گے۔ اب بتاؤ؟ کیا بات کر سکتے ہیں آپ؟ آج بھی میرے پاس ایک صاحب آئے تھے، بڑے نیک آدمی ہیں، دیندار ہیں، تو وہ بارات کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ چلو مفتی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو وہ کہتے ہیں کہ کیا بارات کی گنجائش ہے؟ میں نے کہا اس کی گنجائش تھی مقصدی طور پر، لیکن وہ مقصد اب نہیں ہے، اور وہ اس طرح تھا کہ جب لوگ شادی کرتے تو ظاہر ڈولی میں جب لے جاتے، تو ظاہر ہے اس وقت حفاظت کے انتظامات تو نہیں تھے۔ اب بھی میں نے بعض جگہوں پر دیکھا ہے، یہ حویلیاں کے پاس ایک گاؤں میں ہم گئے تھے، خالی علاقہ تھا، اس خالی علاقے میں رات کے وقت ڈولیاں لے کر جاتے تھے تو اس کے ساتھ پچاس ساٹھ مطلب افراد ہوتے تھے حفاظت کے لئے، کیونکہ ظاہر ہے چار پانچ لوگوں کو تو کوئی بھی لوٹ سکتا ہے۔ اگر دس آدمی چار پانچ کے مقابلے میں آجائیں تو کیا؟ وہ تو جتھا آگیا تو مقابلہ تو ہوسکتا ہے۔ تو وہ باقاعدہ پچاس ساٹھ کی ضرورت ہوتی تھی، مسلح بھی ہوتے تھے اور وہ لوگ لے جاتے تھے۔ تو یہ ایک شکل تھی اُس وقت، لیکن اب جو شہروں کی شادیاں ہیں اس میں تو اس کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ ظاہر ہے وہ چیز تو ہے نہیں۔ شادی میں تو ایک نکاح والا مسئلہ ہے اور دوسرا ولیمہ ہے، تو یہ بارات کہاں سے آگئی؟ تو اس کا جو ہے ناں مطلب کوئی اور مطلب نہیں ہے۔ تو کہتے ہیں اچھا پھر ہم یوں کرلیں کہ اُس وقت پھر جو ہے ناں مطلب ہم یہ کر لیتے ہیں نکاح ظہر کے وقت اور پھر رات کو ہم کھانا دے دیں گے۔ تو میں نے کہا پھر چیز تو وہی ہوگئی ناں، یہ تو نام جیسے لوگوں نے رسمِ قل کو نام دے دیا ہے دعائے خیر اور دعا کرنا، یہ نام دے دیئے، لیکن چیز تو وہی ہے، کرنی تو رسم ہوتی ہے، صرف اس کا نام بدل دیتے ہیں، تو چیز تو اس میں یہی ہے۔ تو میں نے کہا بس ولیمہ کرلیں اور نکاح پر بیشک جتنے بھی لوگ آئیں آپ ان کو کھلا سکتے ہیں، کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، لیکن یہ کہ وہ والی بات ہے کہ جو ہے ناں یہ اس کو بارات کی شکل نہ دیں کیونکہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، تو اگر آپ نے اس کو کرلیا تو ایک رسم والی بات بن جائے گی۔ تو یہ اس قسم کی باتوں میں دینداروں کو مسائل ہیں، بے دینوں کی تو بات ہی الگ ہے ناں، وہ تو سنتے ہی نہیں، دینداروں کو یہ مسئلہ ہے کہ وہ جب پوچھتے ہیں تو ان کو سمجھانا بڑا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ باتیں تو ہیں۔ تو بہرحال یہ کہ یہاں پر میں نے یہ ساری باتیں کیوں کیں؟ میں نے ساری باتیں اس لئے کیں کہ حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ دعوت پہنچ چکی تھی، پیغمبر تواتر کے ساتھ آرہے تھے، پیغمبر کی باتیں، دیکھو! آپ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے ہیں چودہ سو سال پہلے لیکن آپ ﷺ کی دعوت موجود ہے، تو بات تو موجود ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ لوگ مانتے نہیں، وہ علیحدہ بات ہے لیکن بات تو موجود ہے۔ تو وہ جو باتیں ان کی کتابوں میں موجود ہیں وہ پیغمبروں کی باتیں جو ہے ناں آگئی ہیں، اگرچہ ماننے والے نہیں، تو انہوں نے بگاڑ کر لکھا ہے لیکن بہرحال وہ جتنی لائٹ ہے وہ لائٹ پیغمبروں کی وجہ سے ہے، وہ مطلب ان کے ذریعے سے پہنچی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر یہ جو ہندو ہیں، ان کی جو مذہبی کتابیں ہیں، ان کے اندر بہت اعلیٰ درجے کی توحید بھی لکھی ہوتی ہے، اعلیٰ درجے کی توحید، توحید افعالی مطلب ہوتی ہے، لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ لوگوں کے لئے ہے، عام لوگ جو ہیں ناں یہ کیا ہیں، جانوروں کے حکم میں ہیں، یہ کچھ بھی نہیں جانتے، چھوڑو ان کو، یہ عوام ہیں، عوام ان چیزوں کو نہیں جانتے، ان کو نہ بتاؤ۔ یہ شیطان نے چکر ڈالا ہوا ہے کہ وہ اتنا جو توحید ہے، وہ توحید افعالی جو Practical form میں، مطلب وہ کر لیتے ہیں۔ اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ، اب ان کے جو ہے ناں جیسے فلاسفہ کو اپنے علم پر بڑا غرہ ہوتا ہے کہ میں اتنا جانتا ہوں، اس وجہ سے جو اس توحید کو مانتا ہے ناں، اس کو بڑا غرہ ہوتا ہے کہ کسی اور کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ لوگ نہیں جانتے، یہ جانوروں کی طرح ہیں۔ تو یہ ایک barrier create کردیا۔ تو یہ اصل میں وہ والی بات ہے کہ جو ان کی کتابوں میں ہے موجود، وہ اصل میں پیغمبروں کے ذریعے سے پہنچا ہے، لیکن اس کو کتابوں میں تو محفوظ کردیا اور عملی طور پر وہ سامنے نہیں آ سکیں، Theoretical بات ہوگئی۔

ہند کے سردارانِ کفار نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس سبحانہٗ کی صفات سے اس تعالیٰ کی تنزیہات و تقدیسات کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ سب قندیلِ نبوت کے انوار سے لیا گیا ہے کیونکہ گزشتہ امتوں میں ہر زمانے میں ایک نہ ایک پیغمبر ضرور گزرا ہے جس نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس جل شانہٗ کی صفاتِ ثبوتیہ سے اور اس سبحانہٗ و تعالیٰ کی تنزیہات و تقدیسات کی نسبت خبر دی ہے۔ اگر ان بزرگ پیغمبروں کا وجود مبارک نہ ہوتا تو ان بد بختوں (کافروں) کی لنگڑی اور اندھی عقل جو کہ کفر و معاصی کی ظلمتوں سے آلودہ ہے اس دولت کی طرف کب ہدایت پاتی؟ ان بد نصیبوں کی ناقص عقلیں اپنی ذات کی حد تک اپنی الوہیت کا حکم کرتی ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو معبود نہیں مانتیں جیسا کہ فرعون۔

فرعون کے بارے میں ہے ناں کہ مانتا تو تھا اللہ تعالیٰ کو، صرف یہ والی بات ہے کہ لوگوں کے سامنے نہیں مانتا تھا، راتوں کو مانگا کرتا تھا کہ میری لاج رکھ لینا، تو کرتا تھا۔ اکبر کا واقعہ موجود ہے کہ اس کا ایک دوست اس سے ملنے آیا، بڑا جگری دوست تھا، تو ان کے جو گارڈز تھے انہوں نے ان کو روک لیا کہ ابھی بادشاہ سلامت عبادت کر رہے ہیں، آپ یہاں تشریف رکھیں، انتظار فرمائیں، پھر آپ کو ملا دیتے ہیں۔ تو جب وہ فارغ ہوگئے، دعا کر رہے تھے، فارغ ہوگئے تو ان کو اطلاع کی گئی کہ آپ کے فلاں دوست آئے ہیں، کہتے ہیں ہاں بلا لو۔ تو بلایا تو انہوں نے آتے ہی کہا کہ آپ کیا کر رہے تھے؟ انہوں نے کہا میں عبادت کر رہا تھا، اللہ پاک سے مانگ رہا تھا۔ اس نے کہا اللہ پاک سے کیا مانگ رہے تھے؟ اس نے کہا کہ میں اللہ پاک سے سلطنت کا امن مانگ رہا تھا اور انتشار سے پناہ مانگ رہا تھا، اور جو بادشاہوں کی ضروریات ہوتی ہیں وہ مانگ رہا تھا۔ تو انہوں نے کہا آپ کیسے آئے؟ انہوں نے کہا کہ آیا تو میں ایک کام سے تھا لیکن وہ کام میرا ہوگیا۔ انہوں وہ کیسے ہوگیا، کون سا کام تھا؟ تو انہوں نے کہا بس، جس سے آپ مانگ رہے تھے میں بھی اس سے مانگوں گا، یعنی بادشاہ جو ہے ناں وہ اُس سے مانگ رہا ہے تو میں بھی اس سے مانگ لوں گا۔ بس ٹھیک ہے۔ تو اب یہ والی بات ہے کہ وہ مانگتا تو تھا، لیکن مانتا نہیں تھا، مسئلہ یہ تھا۔

اس نے باقاعدہ ایک نیا دین پیدا کیا ہوا تھا جس کو ست دھرم کہتے تھے، ست دھرم۔ اور ان لوگوں کی کج فہمیوں کی وجہ سے انہوں نے یہ سمجھا کہ کچھ باتیں اسلام کی اچھی ہیں، کچھ باتیں عیسائیت کی اچھی ہیں، کچھ باتیں یہودیت کی اچھی ہیں، اور کچھ ہندوؤں کی اچھی ہیں، اور کچھ پارسیوں کی اچھی ہیں، کچھ یہ، کچھ یہ۔ اور اس طرح ان سب کو ملا کر ایک دین بنایا تھا، اس کو بنایا تھا ست دھرم۔ ان کا سلام جو تھا وہ یہ تھا: ”سلام علیکم علیکم نمستے“، ”سلام علیکم علیکم نمستے“۔ چلو جی سب جمع ہوگئے۔ بھئی، ایسی بات کیسے ہوئی؟ دین تو ایک ہی ہے۔

یہ بات اگر کسی کو سمجھ نہیں آتی تو ظاہر ہے مطلب یہ ہے کہ اس کو دین کی آفاقیت ہی سمجھ نہیں آتی۔ فرمایا: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾12 یہ بالکل صاف واضح طور پر بتایا گیا ہے اور یہ آخری احکامات میں سے ہے۔ اس کے بعد کوئی چیز نازل ہوئی ہے؟ بالکل ایسے فائنل: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾13

اب اس کے بعد جس کو یہ چیز معلوم نہیں کہ اسلام کی آفاقیت اور اسلام ہی واقعی ایسا دین ہے جو حق پر ہے اور باقی اس کے علاوہ کوئی چیز حق پر نہیں ہے، کوئی چیز حق پر نہیں ہے، جیسے ایک پل ہے یا دریا کے اوپر، تو دریا کو پار کرنے کے لئے وہی ایک راستہ ہو بس۔ تو ارد گرد سارا دریا تو ہے لیکن پل تو نہیں ہے۔ اب جانا تو ہے، پار کرو گے تو گر جاؤ گے، راستہ ایک ہے۔ چاہے اس طرف سے آؤ یا اس طرف سے آؤ لیکن آنا ایک طرف ہے، مطلب جاؤ گے تو اسی راستے سے جاؤ گے۔ تو یہ جو، یہ جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا، اللہ تعالیٰ کی مرضی کو حاصل کرنے کے لئے جو ہے، وہ ایک ہی چیز ہے، وہ ہے اسلام۔

﴿اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ﴾14 بے شک جو دین ہے وہ اصل میں اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ تو ان لوگوں کو یہ پتا ہے۔ اب ظاہر ہے اکبر نسبتاً ان سے کئی گنا بہتر تھا، بہت ساری چیزیں کرتا تھا، مانتا تھا، نماز پڑھتا تھا۔ تو یہ لوگ اس سے پہلے والے جو تھے، فرعون اور دوسرے، وہ تو ان چیزوں کو بھی نہیں کرتے تھے، وہ تو صرف رات کو ہی۔۔۔۔ لیکن بہرحال مانتے تو تھے۔

چونکہ ان کو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تعلیمات سے معلوم ہوگیا کہ (کائنات) عالم کا بنانے والا واجب الوجود تعالیٰ و تقدس ہے تو ان بد نصیبوں میں سے بعض نے اس دعوے کی برائی پر اطلاع پا کر تقلید اور پوشیدگی کے طور پر صانع حقیقی کا اثبات کیا اور اپنے اندر جاری و ساری (حلول) سمجھا اور اس حیلے سے لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دی: تَعَالٰی اللّٰہُ عَمَّا یَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ اس بات سے جو یہ ظالم کہتے ہیں بہت بڑا ہے)

اصل میں بنیادی بات کیا ہے؟ میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ جس نے اپنی دنیا کو اچھا کرنا ہے اور دنیاوی مفادات کو حاصل کرنا ہے، چاہے وہ پیری کی ذریعے سے کوئی حاصل کر لے، چاہے بادشاہی کے ذریعے سے کوئی حاصل کر لے، چاہے استادی کے ذریعے سے کوئی حاصل کر لے، چاہے کسی بھی ذریعے سے کوئی حاصل کر لے، تو مقصود تو وہی ایک ہی ہے ناں، مقصود تو وہی ایک ہی ہے دنیا کو حاصل کرنا مقصود ہے۔ تو پیری کے ذریعے سے اگر کوئی حاصل کرے گا تو ظاہر ہے مط لب یہ ہے کہ پیری کو اس فارم میں لائے گا کہ دنیاوی مقاصد پورے ہو جائیں، یعنی پیری کا نقشہ اس قسم کا بنائے گا جس سے مطلب لوگوں کی ساری چیزیں اس کے پاس آ جائیں، یہی کرے گا ناں۔ اور استادی کا جو ہوگا تو پھر استادی کا وہی نقشہ بنائے گا، وہ فضیلتیں بتائے گا ناں کہ جو استاد کی خدمت کرے گا تو کیا ملے گا، اور ساری چیزیں اس ترتیب پر لائے گا۔ اور اگر کوئی بادشاہ ہوگا تو بادشاہ اپنے طور پر مطلب اس کو لائے گا کہ بھئی یہ اس طرح ہے، یہ اس طرح ہے، میرا تو یہ حق ہے، میری تو یہ priority ہے، میری privillage ہے۔ کوئی افسر ہوگا تو افسری کے طور پر لائے گا۔ یعنی الغرض یہ کہ مقصود چونکہ دنیا ہے، تو لہٰذا دنیا کو حاصل کرنے کے لئے جو بھی ترتیب بنے گی، وہ ترتیب وہ بنائیں گے۔ تو یہی جو آغا خان ہے، اس نے حلول کا نظریہ قائم کیا ناں، یعنی مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ من ذالک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اندر حلول کر گئے، اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو ہے ناں وہ آگے پھر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر اس کے بعد، پھر اس کے بعد، یہاں تک یہ چلا آ رہا ہے۔ اب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح نعوذ باللہ من ذالک آغا خان کے اندر ہے، تو اب اس کے بعد ظاہر ہے ان کے نزدیک اس کو سجدہ بھی کیا جاسکتا۔ تو انہوں نے اس طریقے سے اپنی پرستش شروع کرا دی، تو کوئی دلیل اس کے لئے مطلب جو ہے ناں گھڑ لی، تو یہ ساری باتیں وہ باقاعدہ یہاں تک کہ میں آپ کو کیا بتاؤں، مطلب اتنے خطرناک مسائل ہیں کہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔ لیکن بہرحال چیزیں موجود ہیں۔ تو جن لوگوں کا مقصود اصلی دنیا بن جاتی ہے، ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیئْةِ‘‘15 دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے، تو جب اصلی دنیا بن جاتا ہے تو پھر اس کے لئے باقی ساری تدبیریں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں، یہ مزاروں کے اوپر جو بیٹھے ہوتے ہیں، انہوں نے نمک وغیرہ بھی رکھا ہوتا ہے اور پانی وغیرہ بھی رکھا ہوتا ہے، اور پھر جو ہے وہ باقاعدہ ہر قبر کے فضائل بتاتے ہیں، مطلب یہ اس کے لئے ہوتا ہے، یہ اس کے لئے ہوتا ہے، باقاعدہ وہ جو مجاور ہوتے ہیں سکھاتے ہیں، نہیں سکھاتے؟ ہم گئے تھے وہاں پر اُوچ شریف، ہمارے بڑے ہیں، ظاہر ہے ہمیں تو جانا ہوتا ہے، ایسی کوئی بات نہیں، تو مطلب ہم گئے تھے۔ تو جیسے وہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر گئے تو ان کے مجاور کچھ الرٹ ہوگئے کہ بھئی کچھ سپیشل لوگ ہیں، خاص لوگ ہیں، آ کر ہماری خدمت کرنے لگے، ہمیں سکھانے لگے کہ یہ اس طرح ہے، یہ اس طرح ہے۔ اور ہم بھی اپنے کو بس، مطلب کہ ہمیں کوئی سمجھ نہیں آرہی، بس ہم اپنے طور پر جو کرنا چاہتے تھے وہ کرتے رہے، ان کی طرف بالکل توجہ مطلب نہیں دے رہے تھے کہ بس کسی طریقے سے ان سے الجھیں ہی ناں، بس ہم اپنا کام کئے جائیں اور ان سے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ تو پھر اس کے بعد جب ہم گئے حضرت جلال سرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر تو وہاں پر بھی یہی مسئلہ ہوا کہ مطلب یہ ہے وہ مجاور آگیا اور انہوں نے کہا کہ عرس ہمارا ہوگا اور اس کے لئے یہ ہوگا۔ میں نے کہا بس۔ کسی نے کہا کہ یہ خود بھی سید ہیں، مطلب ظاہر ہے کہ مطلب ان کو آپ یہ نہ کہیں کہ بھئی کچھ دیں یا اس طرح کریں۔ تو مطلب میرا یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس قسم کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں نقشے، نقشے بنائے ہوتے ہیں، اور وہ نقشے اس طرح خوبصورتی سے بنائے ہوتے ہیں کہ بعض لوگ مجبوراً اور بعض لوگ اعتقاداً پیش کرتے ہیں کچھ نہ کچھ۔ وہ ہم گئے ملتان حضرت بابا زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، تو جس وقت میں باہر آیا تو باہر ایک شخص اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی قوالی گا رہا تھا۔ میں حیران ہوا کہ اس کو کیسے پتا چلا؟ فوراً دل میں آیا کہ کسی نے کہا ہے ان کو، میرے خیال میں کسی سے پوچھا ہوگا کہ کس کے خلیفہ ہیں یا کس سے مطلب تعلق ہے تو انہوں نے بتایا ہوگا، کسی نادان آدمی نے۔ تو پتا چلا کہ واقعی ایک صاحب نے ان سے پوچھا تھا تو انہوں نے بتایا تھا، تو بس قوالی بنا لی تھی اور بعد میں ان کے ساتھ لگے ہوئے تھے اشرف سلیمانی۔ تو بہرحال ہم تو بس آنکھیں نیچے کئے ہوئے اندر گئے، آنکھیں نیچے اور باہر آئے۔ کوئی مطلب کس طرف۔ وہ یوسف صاحب ہمارے وہ بھی گئے تھے، تو وہ خیر ذرا زندہ دل بزرگ ہیں، تو انہوں نے اپنے آپ کو اس طرح چھڑایا کہ بھئی میں تو اردو کی قوالی سے متاثر نہیں ہوتا، اگر فارسی میں کر سکتے ہو تو پھر ٹھیک ہے، پھر میں سنتا ہوں۔ فارسی ان کو آتی نہیں ہوگی، لہٰذا تو وہ خاموش ہوگئے۔ ہمیں تو یہ Technique نہیں آتی تھی، ہم تو بس آنکھیں نیچے کئے۔ سب سے بڑی Technique ہے آنکھیں نیچے کر کے آؤ، آنکھیں نیچی کرکے جاؤ۔

اسی طرح کچھ مدت کے بعد دوسرا پیغمبر کسی قوم یا قریہ میں مبعوث ہوا ہو، اور اس پیغمبر نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ہو جیسا پہلے پیغمبر نے کیا تھا اور اس قوم نے اس پیغمبر کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا ہو جیسا پہلے والے کے ساتھ کیا تھا۔ اور اسی طرح ہوتا رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔

زمینِ ہند میں بھی قریوں اور شہروں کی بربادی و ہلاکت کے آثار بہت پائے جاتے ہیں۔ یہ قوم اگرچہ ہلاک ہوگئی لیکن وہ ’’کلمۂ دعوت‘‘ ان کے ہم عصروں کے درمیان باقی رہ گیا: ﴿وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾16 ترجمہ: ”اور ابراہیم نے اس (عقیدے) کو ایسی بات بنا دیا جو ان کی اولاد میں باقی رہی، تاکہ لوگ (شرک سے) باز آئیں“۔

مبعوث شدہ پیغمبروں کی خبر ہمیں اس وقت ملتی جب کہ بکثرت لوگ ان کے پیرو ہوتے اور قوت و شوکت پیدا کرتے (لیکن جب) ایک آدمی (پیغمبر) آیا اور چند روز دعوت کا کام کر کے چلا گیا، کسی شخص نے اس بات کو قبول نہیں کیا، پھر دوسرا آیا اس نے بھی یہی کام کیا اور اس کا ایک شخص پیرو ہوگیا اسی طرح دوسرا آیا اور اس کے دو یا تین پیرو بن گئے، تو پھر ان کی خبر کس طرح اشاعت پذیر ہوتی؟ چونکہ تمام کفار نے ان (پیغمبروں)کا انکار کیا اور اپنے باپ دادا کے دین کے مخالفوں کی تردید کرتے رہے تو پھر نقل کون کرتا اور کس سے نقل کی جاتی؟

دوسرا جواب یہ ہے کہ رسالت، نبوت اور پیغمبری کے الفاظ ان پیغمبروں اور ہمارے پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ و علی جمیع الانبیاء الصلوات و التسلیمات کی اتحادِ دعوت کے وسیلے سے عربی اور فارسی زبان میں آئے ہیں، ہندی لغت میں یہ الفاظ نہیں ہیں تاکہ ہند کے مبعوث شدہ انبیاء کو نبی، رسول یا پیغمبر کہتے اور ان ناموں سے ان کو موسوم کرتے۔

ممکن ہے کسی اور نام سے وہ اس کو موسوم کر رہے ہوں۔

اسی طرح اس سوال کے جواب میں بطریقِ معارضہ (بطریقِ الزام) ہم کہتے ہیں کہ اگر ہند میں پیغمبر مبعوث نہیں ہوئے اور ان کی زبان میں ان کو دعوتِ حق نہیں دی گئی تو یقینی طور پر ان کا حکم شاہقِ جبل والوں کی طرح ہوگا کہ سر کشی اور الوہیت کے دعوے کے با وجود دوزخ میں نہ جائیں اور ان کو دائمی عذاب نہ ہو۔ اس بات کو نہ تو عقلِ سلیم ہی تسلیم کرتی ہے اور نہ کشفِ صحیح اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ ہم ان میں سے بعض سر کشوں کو دوزخ کے وسط میں دیکھتے ہیں۔

یعنی کشفی طور پر حضرت فرماتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو دوزخ کے وسط میں دیکھتے ہیں، لہٰذا پتا چل گیا کہ دعوت ان تک پہنچی تھی۔

وَاللہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ

(اور اللہ سبحانہٗ اصل حقیقت کو خوب جانتا ہے)

اللہ جل شانہٗ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ واقعتا بہت اہم مضمون تھا۔ اس میں کئی باتیں، اہم باتیں کھل گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معرفت عطا فرما دیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (الأعراف: 43)

  2. ۔ آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادۂ دوم ہیں، شوال سنہ 1005ھ میں ولادت ہوئی۔ بچپن ہی سے آثار ولایت و کرامت آپ کی پیشانی سے ہویدا تھے۔ شیخ محمد طاہر لاہوری اور اپنے بڑے بھائی سے بعض کتابیں پڑھیں اور اپنے والد ماجد اور شیخ عبد الرحمن رمزی سے حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ تحصیل علم کے زمانے ہی میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ سے نسبت نقشبندیہ سے مشرف ہو کر "خازن رحمت" کا لقب پایا۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ فقہ میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے اور دقیق سے دقیق مسائل معمولی توجہ سے حل فرما دیتے تھے۔ عالمگیر کی درخواست پر دہلی تشریف لے گئے، واپسی میں سنبھالکہ کے مقام پر 27 جمادی الاخریٰ سنہ 1070ھ کو آپ کا انتقال ہوا اور سرہند میں دفن کئے گئے۔ (از حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ) آپ کے نام 24 مکتوبات ہیں۔ دفتر اول 259، 296، 311۔ دفتر دوم مکتوب 3، 71، 91۔ دفتر سوم مکتوب 46، 48، 61، 73، 77، 88، 93۔ دونوں بھائیوں کے نام دفتر دوم مکتوب 55، 98، سوم 2، 43، 64، 78، 82، 85، 104۔ صاحب زادوں کے نام دفتر سوم 83، 106۔

  3. ۔ (القصص: 38)

  4. ۔ (الشعراء: 29)

  5. ۔ (الزخرف 28)

  6. ۔ (المائدہ: 73)

  7. ۔ (اٰل عمران: 8) ترجمہ: ’’(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بےانتہا بخشش کی خوگر ہے۔‘‘

  8. ۔ (طٰہ: 25-28) ترجمہ: ’’پروردگار! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجیے۔ اور میرے لیے میرا کام آسان بنا دیجیے۔ اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے دور کردیجیے۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔‘‘

  9. ۔ (البقرہ: 32) ترجمہ: ’’آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں‘‘

  10. ۔ (البقرہ: 32)

  11. ۔ (المائدۃ: 104) ترجمہ: ’’ہم نے جس (دین پر) اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔‘‘

  12. ۔ (المائدۃ: 104)

  13. ۔ (المائدۃ: 3) ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا‘‘

  14. ۔ (المائدۃ: 3)

  15. ۔ (المائدۃ: 3)

  16. ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5213)

طریقہ نقشبندیہ میں لطائف خمسہ اور سیر الی اللہ کا اجمالی بیان - درسِ مکتوباتِ امام ربانیؒ