اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فرماتے ہیں:
متن:
شیخ موافق سنت کا اتباع کرے:
ارشاد: جس کے اعمالِ ظاہرہ و باطنہ منہاجِ شریعت پر ہوں، اس کی صحبت سے استفادہ کرے، اصل چیز اعمال ہی ہیں اور حدود و سنت کے اندر رہ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ بعض مرتبہ اتنی لطیف ہوتی ہے کہ خود صاحب کیفیت کو بھی اس کا ادراک نہیں ہوتا۔
تشریح:
حضرت اس میں یہ ارشاد فرمانا چاہتے ہیں کہ وہ شخص جس کے اعمال جو ظاہری اور باطنی ہیں شریعت پر ثابت ہوں، شریعت کے اصولوں پر منطبق ہوں تو اس کی صحبت سے استفادہ کرنا چاہئے اور اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ استفادہ یعنی فائدہ حاصل کرنے کے لئے اصل چیز اعمال ہی ہیں۔ یعنی کیفیات جو ہیں وہ بھی اعمال کے لئے ہوتی ہیں۔ مثلاً کیفیتِ احسان ہے جو سب سے بڑی کیفیت ہے، جس کے لئے انسان کو بہت کچھ کوشش کرنی پڑتی ہے اور حدیث شریف میں اسی کا مطالبہ ہے، ”مَا الْإِحْسَانُ؟“ احسان کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ تو ایسے عبادت کر جیسے کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے، ”فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ“ (بخاری، حدیث نمبر: 50) اور اگر تو اس کو دیکھ نہیں سکتا تو یہ تو تمھیں سمجھ میں ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ بھی ایک کیفیت ہے اور اس کیفیت کو حاصل کرنے کا مطالبہ ہے حدیث شریف میں۔ لیکن یہ بھی اصل میں اعمال کے لئے ہے، کیونکہ جس کو کیفیت احسان ہوگی تو اس کے اعمال کے اندر جان ہوگی۔ کیونکہ جو شخص جس کے ساتھ انسان کو واسطے ہیں سارے یعنی سارا فائدہ اور نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے، اگر اس کو دیکھ رہا ہوگا تو وہ عمل کیسے کررہا ہوگا؟ اور اگر یہ حالت اس کو حاصل نہیں ہوسکتی تو اگر اس کو کم از کم اتنا پتا ہو کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو پھر وہ اعمال کیسے ہوں گے؟
ایک دفعہ میرے ایک ساتھی تھے اس کی فیکٹری تھی، میں اس کے پاس گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ چھوٹا سا ٹی وی اس کے سامنے دیوار پر لگا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی آپ ٹی وی دیکھتے ہیں؟ کہتے ہیں یہ ٹی وی نہیں ہے، میں نے کہا یہ کیا ہے؟ کہتے ہیں کیمرہ ہے، میں نے فیکٹری کی مختلف جگہوں پہ کیمرے نصب کیے ہوئے ہیں، اور یہ ٹی وی مجھے وہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ کیمرے کے اندر کیا آرہا ہے۔ مجھے پوری فیکٹری کا پتا چلتا ہے کہ کون کام کررہا ہے اور کون نہیں کررہا اور ان کو بھی پتا ہے کہ مجھے اس کا پتا چل رہا ہے، لہٰذا وہ لوگ بے شک میں یہاں نہ بھی بیٹھا ہوں تو وہ کام ٹھیک کررہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے ہر وقت ہمیں نوٹ کیا جارہا ہے۔ تو اب دیکھ لیں ایک فیکٹری کے اندر اگر اس کا انتظام کیا جائے تو اس سے نتائج بڑے اچھے سامنے آجاتے ہیں تو اگر کسی کے دل میں خیال ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، علمی لحاظ سے تو ہم سب کو معلوم ہے، علمی لحاظ سے کس کو پتا نہیں ہے کہ اللہ پاک ہمیں دیکھ رہا ہے؟ لیکن یہ حال کے درجہ میں آجائے، انسان کے محسوسات میں آجائے اور انسان باقاعدہ اس کے مطابق فکر پیدا کرلے اور پھر اس کے اعمال کے اندر جان آجاتی ہے۔ تو اصل چیز اعمال ہیں اور اعمال دو قسم کے ہیں: ظاہری اعمال ہیں اور باطنی اعمال ہیں۔ جو ظاہری اعمال ہیں اس کا حکم ظاہر کے درست کرنے کے متعلق ہے اور جو باطنی اعمال ہیں وہ باطن کے درست کرنے کے متعلق ہیں۔ مثلاً ظاہری اعمال نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ، معاملات، معاشرت، اور جو باطنی اعمال ہیں وہ تکبر، ریا، بغض، کینہ، حسد وغیرہ کو دل سے نکالنا، اخلاص پیدا کرنا، تواضع پیدا کرنا، اللہ پاک سے راضی رہنا، اللہ کی محبت کا ہونا؛ یہ سارے باطنی اعمال ہیں۔ تو جن کے باطنی اعمال اور ظاہری اعمال دونوں شریعت کے مطابق ہوں، جیسے کہ اللہ پاک نے چاہا تو اس کے مطابق ہوں، تو پھر ظاہر ہے اصل مقصود یہی ہے۔ اور اگر کوئی شیخ ان دو چیزوں کو حاصل کرچکا ہو تو ان کی مجلس میں بیٹھنے سے، ان کی صحبت میں رہنے سے یہ اعمال اس کی صحبت کی وجہ سے جو اس کے ساتھ بیٹھنے والے مصاحبین ہیں، ان کے اندر بھی آجائیں گے، ان سے فائدہ ہوگا، یہی استفادہ ہے۔
تو جہاں تک کیفیتوں کے محسوس کرنے کی بات ہے تو یہ ہر وقت محسوس نہیں ہوتیں، بعض کیفیات تو محسوس ہوتی ہیں مثلاً کسی کو رونا آرہا ہو اور کسی کے اوپر ہنسی طاری ہے، کسی کو جوش ہے اور کوئی مست ہے، یہ ساری کیفیات، یہ محسوس چیزیں ہیں، یہ محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن وہ کیفیت کہ چپکے چپکے اندر ہی اندر اللہ کے ساتھ تعلق ہو جس کا اور کسی کو پتا نہ ہو، تو شاید اس شخص کو بھی پتا نہ چل رہا ہو جس کو یہ حاصل ہوں۔ یہ لطیف چیزیں ہوتی ہیں، یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص ان کو جان لے۔ ہاں! جو صاحبِ ادراک ہوتا ہے وہ ان کو جانتا ہے کہ یہ کیفیات ہیں، ہر ایک آدمی ان کو نہیں جان سکتا۔ تو اس لئے حضرت نے فرمایا کہ جو شیخ ان چیزوں کا حامل ہے اور مطابقِ سنت زندگی گزار رہا ہے ظاہر اور باطن کا، تو اس کی صحبت میں بیٹھنے سے فائدہ ہوتا ہے اور اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔
متن:
سب کاملین کو اپنے نقص نظر آتے ہیں اور یہی مقتضا ہے عبدیت کا:
ارشاد: پورا کامل بجز انبیاء کے کوئی نہیں اور وہ کاملین بھی اپنے کو کامل نہیں سمجھتے، سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں، خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی۔ اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ہیں اور مغموم بھی ایسے اگر ہم جیسوں پر وہ غم پڑ جائے تو کسی طرح جانبر نہیں ہو سکتے۔ کمال کی تو توقع ہی چھوڑنا واجب ہے۔ ہاں! سعی کمال کی توقع بلکہ عزم واجب ہے، اس کی مثال وہ مریض ہے جس کی تندرستی سے تو مایوسی ہے مگر فکر صحت اور اس کی تدبیر کا ترک جائز نہیں سمجھا جاتا اور نجات بلکہ قرب بھی کمال پر موقوف نہیں فکر تعمیل پر موعود ہے۔ ﴿إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ﴾ (آل عمران: 9)۔ بس اسی طرح عمر ختم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے وَھٰذَا ھُوَ مَعْنٰی مَا قَالَ الرُّوْمِیُّ رحمۃ اللہ علیہ: ؎
اندریں رہ می تراش و می خراش
تا دم آخر دمے فارغ مباش
تا دم آخر دمے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود
سب سے آخر میں خواہ اس کو اظہار حال کہیے یا آپ کی ہمدردی یا رفعِ التباس جو چاہے نام رکھیے، یہ کہتا ہوں کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں۔ مگر اس کو مبارک سمجھتا ہوں، جس سے یہ اثر ہے کہ یہ سمجھ نہیں سکتا کہ خوف کو غالب کہوں یا رجا کو، مگر مُضطرّ ہو کر اس دعا کی پناہ لیتا ہوں جس سے کچھ ڈھارس بندھتی ہے: ’’اللّٰھُمَّ کُنْ لِیْ وَاجْعَلْنِیْ لَکَ‘‘۔
تشریح:
حضرت نے اس میں ایک بڑی ہی اہم لیکن مشکل سے سمجھ میں آنے والی بات بتائی ہے۔ مشکل سے سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ عملی طور پر مشکل ہے نظریاتی طور پر مشکل نہیں ہے عملی طور پر مشکل ہے۔ اور وہ یہ بات کہ حضرت نے فرمایا کہ انبیاء کے بغیر کوئی بھی نقص سے خالی نہیں ہے، ہر شخص کے اندر نقص ہے لیکن کام سب کو کرنا ہے، منزل تک سب کو پہنچنا ہے، منزل تک سب کو پہنچنا ہے۔ فرمایا کہ جو کاملین ہیں وہ بھی اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھتے۔ آپ ﷺ کی ایک حدیث شریف کی دعا ہے: ”اے اللہ! میں نے تیری ثناء کا حق ادا نہیں کیا“۔ یہ کیا ہے؟
فرمایا کہ سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں، خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی۔ اضافی سے مراد یہ ہے کہ اس کی طلب اتنی زیادہ ہو جائے کہ اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کے اندر نقص لازم سمجھ لے حالانکہ وہ نقص موجود نہ ہو۔ اور حقیقی بھی ہوسکتے ہیں ہم جیسے لوگوں میں ہے۔ پھر فرمایا کہ جو نقص ہیں جو ان کو نظر آتے ہیں اس سے وہ مغموم بھی ہوتے ہیں، غم بھی ان کو ہوتا ہے اور غم بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، اتنا کہ ہم لوگ اس کو برداشت ہی نہ کرسکیں۔ اس لئے حضرت نے نصیحت فرمائی ہے کہ یہ تو سوچو ہی نہیں کہ میں کامل ہو جاؤں گا، فرمایا کہ جو کمال کا مدعی ہے وہ ابھی مبتدی بھی نہیں، کیوں؟ اس کو تو اس کی ہوا بھی نہیں لگی، اس کو تو یہ بھی پتا نہیں کہ میں کامل نہیں ہوں، اس کو تو اس بات کا بھی پتا نہیں ہے، اس کو تو اپنے نقص کا بھی پتا نہیں چلا ابھی، اور مبتدی کو کم از کم نقص کا تو پتا چلنا چاہئے۔ تو جو کمال کا دعویٰ رکھتا ہے اس کو تو اپنے نقص ہی نظر نہیں آرہے اس کو تو یہ بھی پتا نہیں چل رہا، اس وجہ سے وہ ابھی مبتدی بھی نہیں، ابھی تو اس کو بہت کوشش کرنی پڑے گی؎
صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے
صوفی اس وقت تک صافی نہیں ہوسکتا جب تک وہ عشق کا جام نہ کھینچے۔ بہت زیادہ سفر طے کرنا پڑے گا اس وقت تک کہ یہ خام پختہ بن جائے۔ فرمایا کہ کمال کی تو توقع ہی چھوڑ دی جائے، کمال تو ہم حاصل نہیں کرسکتے، ہاں یہ کرسکتے ہیں کہ ہم راستہ وہی اپنائیں جس طرف کمال حاصل ہو۔ راستہ وہی اپنانا پڑے گا جس طرف کمال حاصل ہو لیکن کمال کی تو توقع ہی ہمیں نہیں ہوسکتی، ہم کمال حاصل کر نہیں سکتے۔ پھر فرمایا کہ اس بات کی سعی کہ میں اس راہ پہ گامزن رہوں، یہ عزم اس کا واجب ہے۔ توقع کیا، اس کا عزم واجب ہے۔ یعنی کمال کے اوپر اپنے آپ کو فائز نہیں سمجھنا چاہئے اور نہ اس بات کا وہ سمجھ سکتا ہے کہ ہم لوگ بھی باکمال ہوسکتے ہیں، ہاں یہ بات ہے کہ اس راستے پہ گامزن رہنا چاہئے کیونکہ اس کا حکم ہے۔ ہمیں اس راستہ پہ چلنا ہے۔ مثال کے طور پر آسان بات بتاتا ہوں، کیا ہم نبی بن سکتے ہیں؟ کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ نبی بنے؟ نہیں، نبی نہیں بن سکتے، لیکن انبیاء کے راستے پہ چلنا ہے یا نہیں چلنا؟ انبیاء کے راستے پہ تو چلنا ہے لیکن نبی کوئی بن نہیں سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمال تو ہم حاصل نہیں کرسکتے لیکن اہل کمال کے پیچھے چلنا ہے، ان کے راستے پہ چلنا ہے، منزل وہی بنانی ہے، اپنے لئے منزل target وہی بنانی ہے۔ دور ایک روشنی کا مینار نظر آرہا ہے ہماری منزل وہی کہ ہم اس پر جائیں گے لیکن ہر وقت ہمیں اس بات کا احساس ہو کہ اس منزل پہ ہم پہنچے نہیں، ہم لوگ مسلسل اُس طرف جارہے ہیں۔ target ہمارا وہی ہو لیکن ہم اسی کو کبھی بھی یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں وہ target achieve ہوگیا ہے۔ جس شخص نے سمجھا وہ target achieve ہوگیا اس کی ترقی وہیں رک گئی، وہ آگے نہیں جاسکتا۔ لہٰذا اپنی منزل کی طرف بڑھنا چاہئے، عزم رکھنا چاہئے، اپنے سفر کو روکنا نہیں چاہئے، وہ جاری رہنا چاہئے۔ فرمایا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مریض ہو اور اس کی صحت پہ مایوسی ہو جائے کہ یہ اب ٹھیک نہیں ہوسکتا، لیکن پھر بھی ہم لوگ یہ نہیں کرسکتے کہ اس کا علاج چھوڑ دیں۔ آپ کو تو بڑا تجربہ ہوگا، بہت سارے مریض آپ کے پاس ایسے آئے ہوں گے اس کے بعد آپ کو پتا ہوگا کہ یہ reversible نہیں ہے۔ کیا خیال ہے ختم کردیتے ہیں؟ اب اس کے گلے پہ چھری پھیر دو، یہ ٹھیک تو نہیں ہوسکتا۔ تو یہی بات ہے کہ فرمایا کہ اس کی مثال اس مریض کی ہے جس کی تندرستی سے تو مایوسی ہو لیکن اس کی صحت کی فکر مسلسل جاری ہو کیونکہ اس کی صحت کی فکر کو چھوڑنا یہ گناہ ہے، وہ ہم نہیں کرسکتے، وہ ہمیں جاری رکھنا ہوتا ہے، فیصلہ اللہ کا وہ اپنی جگہ پر، ہم لوگ کیا کررہے ہیں ہم سے وہ پوچھا جائے گا۔ ہم لوگ کس بات کے محافظ ہیں وہ ہمیں سوچنا چاہئے۔ جو اللہ کا فیصلہ ہے وہ تو وقت پر ہو جائے گا۔ تو فرمایا کہ اسی طریقہ سے یعنی مسلسل عمل جاری رکھنا چاہئے۔ ؎
اندریں رہ می تراش و می خراش
تا دم آخر دمے فارغ مباش
اندر ہی اندر ادھیڑ بُن میں لگے رہو، پتا نہیں میری کیا حالت ہے، میری کیا حالت ہے، مجھے آگے نہیں جانا چاہئے، مجھے آگے نہیں جانا چاہئے۔ فرمایا آخر دم تک فارغ نہیں بیٹھو۔؎
تا دم آخر دمے فارغ مباش
تا دم آخر دمے آخر بود
یعنی آخر وقت تک بھی جو آخری لمحہ ہے ممکن ہے اسی وقت آپ کے اوپر فضل ہو جائے، ممکن ہے آخری وقت ہی آپ کے اوپر فضل ہو جائے، اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہئے، اپنی ہمت جاری رکھنی چاہئے، کوشش جاری رکھنی چاہئے لیکن کبھی بھی اپنے آپ کو باکمال نہیں سمجھنا چاہئے، اسی ادھیڑ بن میں لگے رہنا چاہئے کہ پتا نہیں میری کیا حالت ہے، پتا نہیں میری کیا حالت ہے۔
یہ دیکھیں! یہ ایک صوفی کی کتاب ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صوفی تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں صوفیانہ باتیں کہاں سے نکالی ہیں، یہ کیا مسئلہ ہے؟ تو چلیں صوفیوں کی باتیں بند کرکے صحابہ کی باتیں کرتے ہیں، صحابہ کی باتیں تو صوفیوں کی باتیں نہیں ہیں ناں؟ وہ تو صحیح بات ہے اس میں تو کوئی ادھر ادھر کی بات نہیں کرسکتا۔ مجھے آپ بتا دیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے عقیدے کے مطابق افضل البشر بعد الانبیاء ہیں یا نہیں ہیں؟ افضل البشر بعد الانبیاء ہمارا عقیدہ یہی ہے اہل سنت و الجماعت کا۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل کیا ہے؟ وہ اپنے آپ کو باکمال سمجھتے تھے؟ باکمال تو کیا وہ فرماتے تھے کاش میں ایک تنکا ہوتا جو کوئی کھا لیتا، کاش میری ماں نے مجھے جنا نہ ہوتا، کاش ایسا ہوتا، کاش ایسا ہوتا۔ میرے ساتھ حساب ہوگا اور ان کے ساتھ حساب نہیں ہوگا۔ اب دیکھیں! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کو آپ ﷺ نے کئی طرح بشارتیں دیں، کئی طرح بشارتیں دیں، ان بشارتوں کو حق سمجھتے ہوئے بھی آپ ﷺ کی بات پر ان سے زیادہ کون اعتبار کرسکتا ہوگا؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتنا زیادہ آپ ﷺ پر اعتماد اور یہ کیفیت اتنی زیادہ strong کہ اس کے ہوتے بھی اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھنا۔ اب یہ صوفیوں کی باتیں تو نہیں ہیں، یہ صحابہ کی باتیں ہیں۔
پھر دوسرے نمبر پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چپکے سے کہتے ہیں حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ مجھے آپ حضور ﷺ کے راز نہ بتائیں میں یہ نہیں پوچھ رہا، اتنا بتا دیں کہ کیا میرا نام منافقوں میں تو نہیں؟ آپ اندازہ کریں کہاں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کہاں منافق، جن کے بارے میں آپ ﷺ فرما رہے ہیں: ”عمر جس راستہ پہ چلتا ہے اس راستہ پہ شیطان نہیں آسکتا“ شیطان اس راستہ پہ نہیں آسکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان کی زبان پہ حق بولتا ہے“۔ اس کے باوجود اتنی زبردست کیفیت، اتنی strong کہ وہ ساری چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی۔ اور دیکھیں! آخر وقت جو انسان کا ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ clear ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان آخر میں تو bluff نہیں کرتا کم از کم، جو انسان اس دنیا سے جارہا ہو اُس وقت تو bluff کم از کم نہیں کرتا، وہ تو صحیح بات کررہا ہوتا ہے اُس وقت۔ اُس وقت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے، حالانکہ شہید ہورہے ہیں، شہید ہورہے ہیں لیکن اپنے ساتھی سے کہتے ہیں میرا سر مٹی پہ رکھ دو۔ پھر اللہ پاک سے مخاطب ہوکے کہتے ہیں: یا اللہ! اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا، میں تو کہیں کا بھی نہیں رہوں گا، اور رونا شروع کردیا۔ روتے رہے، روتے رہے، روتے رہے، اس حالت میں جان دے دی، یہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں، قبر کو دیکھ کے رو پڑتے ہیں، روتے رہتے، روتے رہتے۔ علی کرم اللہ وجہہ، زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عشرہ مبشرہ ہیں، جن کو بشارتیں ملی ہیں، ان سب کا یہ حال ہے۔ یہ صوفیوں کی باتیں نہیں ہیں، یہ باتیں صحابہ کرام کی ہیں۔ یہ جو حضرت نے فرمایا آخر ان کے پاس یہی تو دلائل ہیں کہ باکمال بھی ہیں لیکن اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ اور واقعتاً یہ عملاً سمجھنا بڑا مشکل ہے کیونکہ ان دو چیزوں کو جمع کرنا آسان نہیں ہے۔ جس کے دل میں اللہ پاک اتنی وسعت پیدا فرما دے کہ دو چیزیں جمع ہوسکیں تو پھر ان کو یہ چیز ملتی ہے۔ ؎
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
هر هوسناکے نداند جام وسندان باختن
ایک ہاتھ میں عشق کا جام ہو اور دوسرے میں سندان عشق کا ہو، یہ شریعت کا جام اور دوسرے میں عشق کا سندان ہو، ہر دعویٰ کرنے والے کو یہ دونوں چیزیں نہیں ملا کرتیں۔ حضرت نے بھی فرمایا ہے کہ میں بھی اپنا حال بتاتا ہوں کہ میں بھی اس کشمکش میں ہوں، اُدھیڑ بُن میں ہوں کہ میری کیا حالت ہے۔ فرمایا اس کو میں اپنے لئے مبارک سمجھتا ہوں اور میں نہیں کہہ سکتا ہوں کہ مجھ پر خوف غالب ہے یا رجاء، ہاں! اِسی وجہ سے مضطر ہوکر اللہ پاک کے سامنے کہتا ہوں: ’’اَللّٰھُمَّ کُن لِّیْ وَاجْعَلْنِیْ لَکَ“ یعنی اے اللہ میرے لئے خود ہی اختیار فرما دے، مجھے خود ہی توفیقات سے نواز دے۔ بلکہ ایک دفعہ حضرت نے فرمایا کہ جنت کا تو تصور کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے، ہمیں تو اگر جنتیوں کی جوتیوں میں بھی جگہ مل جائے تو یہ بڑی بات ہے۔ اور یہ بھی اپنے استحقاق کی بنیاد پر نہیں کہتے، اس لئے کہ جہنم کے نام سے خوف آتا ہے، اس طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا، اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تو یہ ہے بڑوں کی بات۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔
متن:
چھوٹوں کو بڑوں کی تعظیم اور بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ شفقت چاہئے:
ارشاد: اگر چھوٹے اپنے کو بڑوں کے برابر سمجھنے لگیں تو وہ اسی دن سے گھٹنا شروع ہو جائیں گے۔ اور بڑے اگر شفقت کا برتاؤ نہ کریں بلکہ بڑائی کے غرور میں تکبر کرنے لگیں تو وہ بھی گھٹ جائیں گے۔ ایسے ہی بے اثر بڑوں کے تابعین کے متعلق کسی نے کہا ہے: ’’سگ باش برادر خورد مباش‘‘ اور جو چھوٹے چھوٹے بن کر نہ رہیں، ان کے متبوعین کے متعلق کسی نے کہا ہے ’’خرد باش، برادر بزرگ مباش‘‘ واقعی اگر چھوٹے بڑوں کا مقابلہ کرنے لگیں تو بڑا آدمی گدھے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کہ سارا بوجھ اسی پر لادا جاتا ہے۔
تشریح:
یہ حضرت نے ایک اصول دیا ہے استفادہ کا، استفادہ جانبین سے ہوتا ہے۔ یعنی چھوٹے جو ہیں وہ اپنی ڈیوٹی پوری کرلیں اور بڑے اپنی ڈیوٹی پوری کرلیں۔ چھوٹے، چھوٹے بن کررہیں اور بڑے شفقت اختیار کرلیں۔ چھوٹے جو ہیں جب تک اپنے آپ کو چھوٹا نہیں سمجھیں گے اس وقت تک ان کو فیض مل نہیں سکتا کیونکہ فیض ملنے کے لئے چھوٹا سمجھنا اپنے آپ کو لازم ہے۔ جیسے پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے، تو اگر ڈھلوان موجود نہیں تو پانی کیسے آئے گا اس میں؟ جو آدمی اپنے آپ کو چھوٹا نہیں سمجھ رہا اُس کی طرف بڑے کا فیض کیسے آسکتا ہے، نہیں آسکتا۔ اسی طریقہ سے جو بڑا ہے وہ بھی شفقت کرے، تکبر نہ کرے کیونکہ تکبر سے تو انسان اپنے مقام سے گر جاتا ہے۔ شفقت: ”مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا“ جو لوگ ہمارے چھوٹوں پہ رحم نہ کریں اور ہمارے بڑوں کا اکرام نہ کریں ”فَلَيْسَ مِنَّا“ (مسند احمد، حدیث نمبر: 6937) وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس وجہ سے چھوٹوں پہ شفقت کرنی چاہئے اور بڑوں کی قدر کرنی چاہئے، بڑوں کا ادب کرنا چاہئے، یہ ادب اور شفقت دونوں موجود ہونی چاہئیں۔ تو ادب اگر نہ ہو تو اس کے لئے پھر فرمایا کہ جو ان کے بزرگ ہوں گے ان کے لئے کسی نے کہا ہے کہ: خرد باش، برادر بزرگ مباش یعنی گدھا بن جاؤ لیکن بڑا بھائی نہ بنو۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض گھرانوں میں بڑے بھائی کی بڑی مشکل آجاتی ہے ساری ذمہ داریاں بڑے بھائی کے اوپر، ہر ایک کو اس سے گلہ، ہر ایک کو اس سے شکوہ، ہر ایک اس پہ اپنا بوجھ ڈالے جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بس اسی کو ساری قربانیاں کرنی ہیں۔ تو ایسی صورت میں بالکل وہی بات کہ وہ گدھا تو بن جائے لیکن بڑا بھائی نہ بنے۔ تو ظاہر ہے ان کے لئے بڑا مشکل کام ہے۔ اور اگر ظلم ہو بڑوں سے چھوٹوں پر تو پھر ایسے لوگوں کے لئے فرماتے ہیں: سگ باش برادر خورد مباش کتا بن جا لیکن چھوٹا بھائی نہ بن۔ تو بعض دفعہ چھوٹے بھائیوں کو دوڑایا جاتا ہے، چھوٹا ہر وقت دوڑ میں رہتا ہے، یہ کام کرلو، یہ کام کرلو، یہ کام کرلو؛ شفقت نہیں ہوتی، اس کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، صرف فرائض ہوتے ہیں، تو ظاہر ہے ایسی صورت میں تو اس کی شامت آجائے گی۔ تو دونوں کو اپنے اپنے کام کرنے چاہئیں، بڑوں کو بڑائی کے لحاظ سے کام کرنا چاہئے، چھوٹوں کو چھوٹے ہونے کے لحاظ سے کام کرنا چاہئے۔ یہ تو Crest and trough والا اصول ہے، جیسے یہ انگلیاں ہیں، میں اگر یہ انگلیاں اس طرح نہیں ڈالوں گا تو کیسے یہ بنے گا۔ اس طریقہ سے کچھ کو بڑا بننا ہوتا ہے، کچھ کو چھوٹا بننا ہوتا ہے پھر اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ ورنہ ایسا نہ ہو تو پھر ٹھیک ہے اس طرح کرلو، اس سے کچھ بنتا ہے؟ اس سے پھر نہیں بن سکتا۔ تو ہم لوگوں کو یہ کرنا ہے کہ جو بڑے ہیں وہ بڑے بن جائیں شفقت کے لحاظ سے، اور چھوٹے، چھوٹے بنیں خدمت اور ادب کے لحاظ سے، تو پھر دونوں کو فائدہ ہوگا، چھوٹوں کو بھی فائدہ ہوگا اور بڑوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
متن:
عوام پر توجہ کا اثر ہونے کی وجہ:
ارشاد: توجہ کا اثر اس پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو محتاجِ اثر سمجھتا ہو، اور اپنے کمال کا مُدَّعِی نہ ہو، عوام پر توجّہ کا اثر ہوتا ہے اور خواص پر نہیں، کیونکہ ان میں احتیاج و طلب ہی نہیں، وہ خود اس کے مدعی ہیں کہ دوسرے ہمارے محتاج ہیں۔
تشریح:
حضرت نے experience کی بات کی ہے، تجربہ کی بات کی ہے۔ فرمایا کہ توجہ کسے کہتے ہیں، توجہ اس کو کہتے ہیں کہ بڑے جب توجہ کی نظر سے چھوٹوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے اندر اس توجہ کی برکت سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک دعائیہ کیفیت ہوتی ہے جب بڑے توجہ سے چھوٹوں کو دیکھتے ہیں تو اس سے ان کے اندر ایک دعائیہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے اللہ پاک وہ کردیتے ہیں۔ یہ اس کو ہم توجہ کہتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ اپنے خلفاء سے کہا تھا: کبھی کبھی چپکے چپکے اپنے مریدوں پہ نظر ڈال دیا کرو، اس سے آپ کے مریدوں کو فائدہ ہوگا۔ مطلب یہ توجہ، محبت کی نظر ڈال دیں، اس سے فائدہ ہوگا۔ تو یہی چیز ہے کہ انسان چپکے چپکے اگر اپنے مریدوں پہ وہ توجہ ڈالتا رہتا ہے، محبت کی نظر ڈالتا رہتا ہے تو اس سے ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ توجہ کا فائدہ اس کو ہوتا ہے جو اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے، جو اپنے آپ کو اس کا محتاج ہی نہ سمجھے، چھوٹا نہ سمجھے تو اس کو توجہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، رکاوٹ آجاتی ہے۔ اس رکاوٹ سے بچنے کے لئے انسان کو اپنے آپ کو محتاج سمجھنا ہوتا ہے۔ جتنے بھی ہمارے اللہ والے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو اپنے بڑوں کا محتاج سمجھا ہے۔ حالانکہ بعد میں ان سے بڑے ہوگئے ہیں، لیکن اُس وقت نہیں۔ آخر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرچکے تھے اور مرید تھے کسی کے۔ اس طرح خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، ان کی بھی یہ صورتحال ہے۔ ان کو اللہ پاک نے کس طرح نوازا، لیکن اپنے وقت میں کوئی چھوٹے تھے؟ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ فرمایا کہ بھائی بڑا بننے کے لئے ایک وقت تک چھوٹا بننا پڑے گا، جو چھوٹا نہیں بن سکتا وہ بڑا نہیں بن سکتا۔ جس میں چھوٹا بننے کی استعداد نہیں اس میں بڑا بننے کی استعداد نہیں ہے۔ کیونکہ استعداد پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے مدد سے، اور اس کے لئے ذریعہ بنتی ہے بڑوں کی محبت کی نظر۔ بڑوں کی محبت کی نظر اس کے لئے ذریعہ بنتی ہے۔
حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ ہیں، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ تھے، ایک دفعہ ان کے مہمان آئے ان کی خانقاہ میں، بے وقت مہمان آئے جیسے چار بجے آج کل مہمان آجائیں، اب چار بجے سارا کھانا وانا ختم ہو، ہوٹل تو ہوتے نہیں، تو سارا کھانے وانے کا انتظام ختم ہوچکا ہوتا ہے اور مہمان بھی زیادہ تھے، سامنے بھٹیارے کی دکان تھی، اس نے دیکھا کہ حضرت کے بے وقت مہمان آئے، اس نے اسی وقت روٹیاں لگانی شروع کردیں بغیر پوچھے، محبت تھی حضرت کے ساتھ، تو جیسے وہ روٹیاں پوری ہوگئیں، مہمانوں کی تعداد تو دیکھ لی تھی، تو روٹیاں لے کے دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت سے کہا کہ حضرت میں روٹیاں لے کے آیا ہوں، آپ کے مہمان بے وقت آئے تھے میں نے دیکھ لیے تھے تو میں نے روٹیاں پکائیں، میں نے کہا کہ مہمانوں کو روٹیوں کی ضرورت ہوگی تو میں لے آیا، قبول فرما لیں۔ حضرت نے بڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمائیں لیکن دل میں اس کے لئے عجیب مقام بن گیا۔ ظاہر ہے ایسے وقت میں بات تو تھی کہ ایسے وقت میں جب ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ اس شخص کے دل میں آجائے تو وہ تو بڑی بات ہے۔ تو حضرت نے اس وقت روٹیاں لے لیں اور مہمانوں کا اکرام کردیا، مہمان رخصت ہوگئے۔ بعد میں اس بھٹیارے کو بلا لیا، اور اس سے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ یہ کلمہ ہر ایک کی زبان سے بھی نہیں نکلتا اور ہر وقت نکلتا بھی نہیں، یہ من جانب اللہ ہوتا ہے جس کے لئے بھی ہوتا ہے، تو جب بھی نکلتا ہے تو نکلتا ہے۔ انہوں نے کہا مانگو کیا مانگتے ہو؟ اب بھٹیارے نے ڈرتے ڈرتے کہہ دیا حضرت مجھے اپنے جیسا بنا لیں۔ اب خواجہ صاحب نے کہا: اوہو! یہ کیا کہہ دیا، یہ کیا کہہ دیا؟ کوئی اور چیز مانگ لو، کام کی چیز مانگو، یہ آپ نے کیا سوچا ہے؟ چھوڑ دو اس بات کو، مجھ جیسا بن کے کیا کرو گے، کچھ اور مانگو۔ انہوں نے کہا حضرت! میں تو یہی مانگ رہا ہوں، اگر آپ یہ کرسکتے ہیں تو دے دیں ورنہ مجھے کوئی اور ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا نہیں نہیں، موقع ضائع کیوں کرتے ہو؟ مانگو جو کچھ مانگنا ہے لیکن یہ چیز نہ مانگو۔ انہوں نے کہا حضرت میں تو صرف یہی چیز مانگتا ہوں، اگر کرسکتے ہو مجھے اپنے جیسا بنا دو۔ فرمایا اچھا چلو، آپ کی مرضی، اب میں کیا کہہ سکتا ہوں، چلیں آجاؤ، اندر لے گئے، کواڑ بند کردیا، کیا کردیا یہ تو اللہ کو پتا ہے کیونکہ وہاں تو صرف اللہ کے علاوہ اور کوئی تھا ہی نہیں، یہ دو ہی تھے۔ لیکن کچھ دیر کے بعد کواڑ کھلے تو وہاں ایک باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بجائے دو باقی باللہ تھے، ایک تو خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ خود تھے اور دوسرے وہ بھٹیارا، وہ بھی خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی شکل میں آگئے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اصل باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ تو ہوش میں تھے لیکن جو دوسرے باقی باللہ تھے وہ ہوش میں نہیں تھے وہ مدہوش تھے۔ ظاہر ہے اس فیض کو اٹھا کیسے سکتے تھے؟ یہ تو بتدریج ہوتا ہے کہ جگہ بنتی ہے، پھر جگہ بنتی ہے، پھر اس طرح بتدریج سب کچھ ہوتا ہے۔ اب یہ تدریج والی بات تو نہیں تھی، آن کے آن والی بات تھی، لہٰذا اس کو برداشت کب کرسکتے تھے اس فیض کو، بیہوش ہوگئے، تین دن تک وہ بیہوش رہے اور اس کے بعد فوت ہوگئے۔ تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے فرمایا: بھٹیارا مر گیا، بھٹیارا مر گیا لیکن خوش قسمت تھا باقی باللہ بن کر مر گیا۔ مطلب آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اس کو کہتے ہیں نسبتِ اتحادی۔ ایک ہوتی ہے نسبتِ انعکاسی، ایک ہوتی ہے نسبتِ اصلاحی اور ایک ہوتی ہے نسبتِ اتحادی، تو نسبتِ اتحادی یہی ہوتی ہے۔ تو وہ بھٹیارے کو حاصل ہوگئی لیکن کیسے حاصل ہوئی، یہ ایک چیز تھی جو کہ بس۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت نکلے تھے، آپ ﷺ پہ حملے کی خبر سن کر نیزہ لے کے نکلے کہ دیکھتا ہوں کہ کون ہے۔ حالانکہ وہ ایک افواہ تھی لیکن بہرحال نکلے، آپ ﷺ نے ان کو آتے ہوئے دیکھا، پوچھا: زبیر کدھر گئے تھے؟ کہا: میں نے اس طرح افواہ سنی تھی۔ تو فرمایا پھر آپ کیا کرتے؟ انہوں نے کہا: بس میں نیزے سے اس کو مار دیتا۔ فرمایا: آپ میرے حواری ہیں۔ حواریٔ رسول کا لقب ہے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔
ایک صحابی رسول ﷺ تھے، آپ ﷺ کے ساتھ ایک یہودی کا قرض کا معاملہ تھا، تو وہ کہتا کہ آپ نے مجھے نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیا ہے، تو وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُدھر آگئے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ دیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا آپ اس وقت تھے نہیں، آپ نے گواہی کیسے دے دی؟ کہا یا رسول اللہ! میں جب آپ کی اِس بات کو مانتا ہوں کہ اللہ ہے اور قرآن ہے، تو میں یہ گواہی نہیں دے سکتا؟ ظاہر ہے جب میں آپ کو ہر چیز میں سچا سمجھتا ہوں تو اس میں بھی تو آپ سچے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: آئندہ اس شخص کی گواہی دو گواہیوں کے برابر ہوگی۔ تو ایسے ہوتے ہیں، مطلب ایسے اوقات آتے ہیں انسان کی زندگی میں کہ جب بے ساختہ انسان کے دل میں جذبہ ابھرتا ہے شیخ کے لئے یا جو بھی ہے، اور پھر انسان کا کام بن جاتا ہے۔ شیخ نہیں بناتا، شیخ تو کچھ بھی نہیں، وہ تو اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتا دوسروں کو کیا سنبھالے گا، لیکن اللہ کرتا ہے، اللہ جل شانہٗ اُس نسبت کی وجہ سے کرتا ہے جو نسبت اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاصل ہوتی ہے، اس نسبت کی وجہ سے وہ اس طرح کرتا ہے۔ تو یہاں پر بھی اس قسم کی بات ہے کہ عوام کو تو اس کا فائدہ ہوتا ہے کیونکہ عوام اپنے آپ کو محتاج سمجھتے ہیں، لیکن جو خواص ہوتے ہیں، وہ خواص جو اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے ان کو تو بہت کچھ مل جاتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ استعداد بھی ہوتی ہے اور احتیاج بھی ہوتی ہے دونوں چیزیں ہوتی ہیں، عوام میں استعداد نہیں ہوتی، تو اس میں بھی ان کو تھوڑا مل جاتا ہے، جیسے ملتا ہے۔ اور خواص کے اندر طلب نہیں ہوتی، تو خواص کے اندر اگر طلب آجائے تو استعداد تو ان کے اندر پہلے سے ہے تو پھر تو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ایسے ہے جیسے اللہ والوں کی اولاد۔ اللہ والوں کی اولاد یا تو آوارہ ہوگی یا پھر بہت بڑی ولی اللہ ہوگی، کیوںکہ اگر ان میں استعداد ہے اور ان میں طلب ہے، پھر تو سمندر موجود ہے، بس فوراً ان کو سب کچھ مل جاتا ہے، لیکن اگر ان میں طلب نہیں ہے تو اتنے قریب ہونے کی وجہ سے اگر وہ بے قدری کرتے ہیں تو آوارہ ہو جائیں گے۔ تو ظاہر ہے محروم ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے اندر استعداد ہے تو پھر بن جائیں گے۔ جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اب ان کی اولاد کو اللہ پاک نے استعداد دی تھی طلب بھی دی تھی، تو کیا بن گئے۔ آج کل دنیا میں ان کا ڈنکا ہے، مولانا تقی عثمانی صاحب کا اور مفتی رفیع عثمانی صاحب کا، یا مولانا اسعد مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، اس طرح مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے جو بیٹے تھے مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا۔ تو ایسے لوگوں کا تو ڈنکا بجتا ہے جو اللہ والوں کی اولاد بھی ہو اور ان میں طلب بھی ہو اور احتیاج بھی ہو تو پھر ان کو بہت نوازا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو بس میدان خالی ہوتا ہے ان کے لئے، وہ سارے دور دور والے لے جاتے ہیں اور قریب والے محروم ہو جاتے ہیں۔ دور دور والے لے جاتے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ انسان کو اپنے رشتہ داری کی زعم میں آکر محروم نہیں ہونا چاہئے، رشتہ داری انسان کو محروم بنا دیتی ہے بعض دفعہ۔ انسان کا جو رشتہ داری کا زعم ہوتا ہے تو کہتے ہیں میں تو رشتہ دار ہوں مجھے تو مفت میں مل جائے گا۔ ایک دفعہ ہمارے دفتر کے ایک ساتھی تھے اس نے خواب دیکھا، عجیب خواب دیکھا اس نے، اس نے کہا کہ آپ آئے ہیں مدینہ منورہ میں، آپ کے پاس زم زم بھی ہے اور کھجور بھی ہے اور آپ تقسیم کررہے ہیں، تو کہتے ہیں میں دل میں کہتا ہوں کہ ہمیں تو مفت میں مل جائے گا کیونکہ ہم تو ساتھ ہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں نہیں دیا، کہتے ہیں جب جاگ گیا تو میں نے کہا یہ کیا ہوگیا سب کو مل گیا ہمیں نہیں ملا، میں نے کہا یہ آپ کو اشارہ مل گیا، اشارہ مل گیا کہ طلب چاہئے، یہ نہیں کہ مفت میں مل جائے گا، ساتھ ہیں تو مفت میں ملے گا، ایسے نہیں ہوتا، ساتھ ہوتا ہے لیکن مفت میں نہیں ملتا، اس کے لئے بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ جو کوشش کرلے تو ان کو واقعی زیادہ مل جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساتھ جو ہوتے ہیں، ساتھ ہونے کی وجہ سے چونکہ ہر وقت کا ساتھ ہوتا ہے ہر وقت موقع ہوتا ہے تو زیادہ مل جاتا ہے۔ لیکن اب جس میں طلب ہی نہ ہو، دیکھیں! تیز بارش برس رہی ہو اور گھڑے کو آپ الٹا رکھ دیں، اس میں کتنے قطرے آئیں گے؟ ایک قطرہ بھی نہیں آئے گا اور اگر آپ کٹورا رکھ لیں اور بوندا باندی ہورہی ہو تو کچھ نہ کچھ تو آجائے گی، کچھ نہ کچھ تو اس میں آجائے گی۔ تو اسی وجہ سے یہ ہے کہ طلب اور احتیاج یہ بہت ضروری ہے، بغیر اس کے کچھ بھی نہیں ملتا۔ فرمایا:
متن:
منہتی کے اس کہنے کی توجیہ کہ میں کچھ نہیں ہوں:
ارشاد: مُنتَہِی کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں ہوں۔ آئندہ کے مراتبِ معرفت پر نظر کرکے کہنا صحیح ہے۔ کیونکہ منتہی جو ہے وہ تو کمالات موجودہ کے اعتبار سے ہے جس پر اس کی نظر نہیں اور سرِ مراتب غیر متناہی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کو باوجود اَعْلَمُ النَّاسِ وَاَعْرَفُ الْخَلْقِ ہونے کے حکم ہے کہ آپ ترقی کی برابر درخواست کرتے رہئے۔ بقولہ تعالیٰ: ﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ (طه: 114)
تشریح:
یہ حضرت نے فرمایا کہ جو منتہی ہوتا ہے، منتہی سے مراد یہ کہ جو سلوک کے منازل طے کرچکا ہو۔ وہ جب کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں، تو لوگ confuse ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ کچھ نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ ہمارے ایک استاد تھے اردو کے، بھٹو کا دور تھا، بھٹو صاحب نے ان دنوں کہا تھا کہ ہم غریب لوگ ہیں، کسی وقت تقریر وغیرہ میں کہا ہوگا، تقریر تو کیا کرتے تھے۔ تو کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں۔ تو اس نے کہا کہ اگر بھٹو صاحب غریب ہیں تو ہم تو غاروں میں رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جن کی زمینوں میں کئی کلومیٹر گاڑیاں چلتی ہیں اگر وہ غریب ہیں تو پھر ہم تو غاروں میں رہتے ہیں۔ تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جو منتہی ہوتے ہیں اگر وہ کہہ دیں کہ ہم کچھ بھی نہیں، تو وہ کہتے ہیں اگر یہ کچھ بھی نہیں تو پھر ہم کیا ہیں۔ لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے، تو کیا وہ کچھ بھی نہیں تھے؟ ان کا کچھ بھی نہیں ایک اور reference سے تھا، reference مختلف تھا، وہ reference یہ تھا کہ ان کی طلب اتنی زیادہ تھی کہ ان کے سامنے اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی اس طلب کے بقدر۔ ایک آدمی کا ہاضمہ بہت اچھا ہو اور وہ چار روٹیاں کھا سکتا ہو اس کو آپ دو روٹیاں دے دیں اور کہہ دیں انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کھایا، تو وہ ٹھیک ہی تو کہتا ہے۔ ظاہر ہے اس نے تو کچھ بھی نہیں کھایا، ابھی تو آدھا بھی نہیں کھایا۔ اور ایک آدمی Hepatitis کا مریض ہے اور اس کا دل کھانے کو نہیں چاہتا، وہ چار نوالے کھاتا ہے اور کہتا ہے اَلْحَمْدُ للہ بہت کھایا۔ تو ٹھیک ہے، وہ ٹھیک ہی تو کہتا ہے، اس نے تو بہت کھایا ہے، چار نوالے اس کے لحاظ سے تو بہت ہیں۔ تو یہ بات ہے کہ جو لوگ صحتمند ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، سلیم الاستعداد جو ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، ان کی اپنی موجودہ حالت پہ نظر ہوتی ہے اور طلب ان کی آگے کی ہوتی ہے، لہٰذا اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے، اور اپنے بڑوں پہ نظر ہوتی ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہماری دستار بندی کا جب فیصلہ ہوگیا کہ دستار بندی کرنی ہے، کہتے ہیں ہم طلباء جمع ہوگئے اور آپس میں مشورہ کیا کہ ہم لوگوں کو تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی، تو یہ اگر ہماری دستار بندی ہوگئی تو ہم کو تو لوگ علماء کہیں گے، اس سے بدنام ہوگا مدرسہ، تو یہ تو مناسب نہیں، چلو چلتے ہیں اور اپنے استادوں کو کہتے ہیں دستار بندی رکوا دو۔ چلے گئے مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جو ان کے خاص تھے، ان کے پاس گئے کہ حضرت مدرسہ کو بہت نقصان ہوگا، اگر آپ لوگ ہماری دستار بندی کرلیں گے تو لوگ ہمیں عالم سمجھیں گے اور ہمیں تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی تو ایسا ہو جائے گا کہ پھر مدرسہ کی بدنامی ہوگی لہٰذا آپ دستار بندی رکوا دیں۔ کہتے ہیں ہماری بات سن کر استاد کو وجد آگیا، فرمایا ہاں! اصل میں یہی کہنا چاہئے، تم ٹھیک ہی کہتے ہو اپنے استادوں کے درمیان میں انسان جب ہو تو ایسا ہی کہنا چاہئے۔ لیکن یاد رکھو! ذرا باہر جاؤ گے تو تم ہی تم ہوگے، آگے میدان صاف ہے۔ اگر باہر جاؤ گے پھر پتا چلے گا، تم ہی تم ہوگے آگے میدان صاف ہے۔ اور یہ بات بالکل صحیح تھی حضرت کی، اب اس دور میں یہی حضرات تھے کہ بس جن کا نام لیا جاتا ہے علم کے لحاظ سے۔ تو کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ان کو باوجود اتنی علمی استعداد ہونے کے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اپنے استادوں، جن کی نظر مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ پہ ہو، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ پہ ہو، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ پر ہو، ایسے ایسے رئیس الاساتذہ پر جن کی نظر ہو وہ اپنے آپ کو کیا سمجھیں گے؟ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھیں گے، لیکن کیا حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوں گے؟ حقیقت میں تو بہت کچھ ہوں گے۔ تو یہاں پر یہی بات ہے کہ جو منتہی حضرات ہیں وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں کہتے اور کہتے ہیں ہم کچھ بھی نہیں، لیکن وہ اصل میں موجودہ حالت کے اعتبار سے کہتے ہیں۔ آگے جاکر تو ما شاء اللہ، اللہ پاک ان کو بہت کچھ دیتے ہیں۔
متن:
مشائخ کا نا اہل کو مجاز بنانے کا راز:
تعلیم: مشائخ بعض دفعہ کسی نا اہل میں شرم و حیا کا مادہ دیکھ کر اس امید پر اسے مجاز کردیتے ہیں کہ جب وہ دوسروں کی تربیت کرے گا تو اس کی لاج اور شرم سے اپنی بھی اصلاح کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک دن کامل ہو جائے گا۔
تشریح:
یہ طریقہ ہے بزرگوں کا، ذمہ دار بناتے ہیں، یہ طریقہ اسی طریقے سے چلتا ہے۔ تو اس مسئلہ میں دونوں حل موجود ہیں۔ ایک تو یہ بات ہے کہ جس کو خلافت دی جائے تو شیطان اس کے دل میں یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ تو کامل ہوگیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کو یہ خبط ہوسکتا ہے کہ وہ سمجھیں کہ بھائی ہم تو کامل ہوگئے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ ضروری نہیں کہ کامل سمجھ کے سب لوگوں کو دے دیا گیا ہو، بلکہ عین اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ واقعتاً جب انسان کسی اور کو بتاتا ہے اور اس کو اس بتانے سے جب وہ عمل کرتا ہے فائدہ ہوتا ہے تو اپنی نظروں میں خجل ہوتا ہے کہ دیکھو میرے بتانے سے اس کو اتنا فائدہ ہوا، اگر میں خود اس کو حاصل کروں تو مجھے کتنا فائدہ ہوگا، اس کو شرم آجاتی ہے اور وہ بھی اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو اس طریقہ سے چلتے چلتے وہ کامل بن سکتا ہے۔ بعض لوگوں کو واقعتاً اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مولانا غلام اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ پیری مریدی ایسی عجیب چیز ہے کہ اس میں پیر، مرید کی اصلاح کرتا ہے اور مرید، پیر کی اصلاح کرتے ہیں۔ پیر مرید کی اصلاح اس لئے کرتے ہیں کہ تلقین کرتے ہیں ان کو، اور ان کو فائدہ ہوتا ہے من جانب اللہ، اللہ پاک ان کی مدد فرماتے ہیں، لیکن مرید جب عمل کرتا ہے، اس سے جو نتائج اور ثمرات مرتب ہوتے ہیں پیر اس کو دیکھتا ہے تو اس سے اس کو فائدہ ہوتا ہے اور ما شاء اللہ وہ بھی ترقی کرتا رہتا ہے۔ تو اس طریقہ سے بعض حضرات کو اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے نوازتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
متن:
سالکین کی لغزش پر جلد تنبیہ ہوتی ہے:
ارشاد: سالکین کو حق تعالیٰ ان کی لغزش پر جلدی سزا دے کر متنبہ فرما دیتے ہیں تاکہ غلطی کی اصلاح کرے۔ اور دوسروں کے واسطے یہ قاعدہ ہے ﴿وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ﴾ (الأعراف: 183، القلم: 45) یعنی حق تعالیٰ ڈھیل دیتے رہتے ہیں تاکہ دفعتاً پکڑ لیں، چنانچہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید نے ایک حسین نصرانی لڑکے کو دیکھ کر سوال کیا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ ایسی ایسی صورتوں کو بھی جہنم میں ڈالیں گے؟ چنانچہ اس بد نظری کی سزا میں قرآن بھول گئے تھے۔
تشریح:
یہ حضرت نے فرمایا کہ جن لوگوں پہ اللہ کے کرم کی نظر ہوتی ہے ان کو اس دنیا میں ہی پکڑتے ہیں اور اس لئے پکڑتے ہیں کہ ان کو فائدہ ہو۔ یعنی اس کو گویا کہ تکوینی طور پہ بتایا جاتا ہے کہ تیرا یہ کام ٹھیک نہیں ہے، یہ مجھے پسند نہیں آیا۔ نتیجتاً اس کی اصلاح ہو جاتی ہے اور وہ توبہ کرلیتا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! میں آپ حضرات سے بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہمارا جو سلسلہ ہے اَلْحَمْدُ للہ زندہ سلسلہ ہے، اللہ کا شکر ہے، بارہا تجربے ہوئے کہ ایک زندہ سلسلہ ہے۔ تو زندہ سلسلہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی شخص گڑبڑ کرتا ہے تو بعض دفعہ اس کو stretcher پر بھی لایا جاتا ہے، واپس stretcher پر بھی لایا جاتا ہے، جو گڑبڑ کرتا ہے تو اس کو ایسے حالات میں ڈال لیتا ہے کہ وہ مجبوراً پھر آتا ہے۔ یہ خاص کرم ہے، اللہ پاک کا کرم ہے کہ جس کو قبول فرما دے، پھر اس کو چھوڑتے نہیں، پھر اس کا باقاعدہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ کہیں ادھر ادھر تو نہیں ہورہا، کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں کررہا ہے، یہ اللہ پاک کا کرم ہے۔ اس دنیا کے اندر اگر کسی کے اوپر کوئی نگران بن جائے، اس سے بڑی بات اور کیا ہے اگر یہاں صحیح نگرانی ہو جائے۔ کیونکہ بعد میں قیامت میں اگر پتا چل جائے تو یہاں تک کہ جنتی بھی افسوس کریں گے کہ ہم جو ذکر کر سکتے تھے اور ہم نے وہ ذکر نہیں کیا، کاش! ہم اس وقت میں ذکر کرلیتے، تو پھر افسوس ہی ہوتا ہے۔ تو یہاں پر اگر کسی کو اللہ پاک توفیق دے دے اور یہاں سمجھ آجائے اور ان کو بتا دیا جائے کہ تو کیا کررہا ہے، تو غفلت میں ہے، تو اس سے فائدہ بہت ہوتا ہے۔ تو حضرت نے بھی یہ فرما دیا کہ جن کو اللہ پاک نوازنا چاہتے ہیں ان کو چھوڑتے نہیں، جب بھی کبھی ان سے غلطی ہوگی اس قسم کی تو ان کو فوراً پکڑتے ہیں۔
ہمارے سامنے یہ واقعہ ہوچکا ہے، ہمارے ساتھی تھے بہت کھلی ڈلی زندگی گزار رہے تھے، ایک دن ہم پروف ریڈنگ کررہے تھے حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مضمون کی، وہ مضمون حضرت نے کچھ ایسے انداز سے لکھا تھا اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پہ لکھا تھا اور حضرت کا دل جلا ہوا تھا، اس دل جلے میں اور قلم بھی حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمولی قلم تو نہیں تھا۔ وہ اس انداز میں لکھا تھا کہ بس وہ جذب ہی جذب تھا۔ تو وہ مضمون ہم پروف ریڈنگ کررہے تھے اور دونوں ہواؤں میں اچھل رہے تھے، یعنی ایسے الفاظ تھے۔ تو جس وقت یہ مضمون ختم ہوگیا تو اس میرے ساتھی نے ہاتھ اٹھائے اور کہہ دیا اے اللہ مجھے ہدایت دے دے اور اسی وقت میرے دل نے کہہ دیا کہ اس کو ہدایت مل گئی ہے، اس کو قبول کرلیا گیا۔ اب وقت گزر رہا ہے نتیجہ سامنے نہیں آرہا، مطلب وہی زندگی گزار رہا ہے، یہ کیا بات ہے، قبولیت کی علامات تو ہیں لیکن ابھی نتیجہ سامنے نہیں آرہا کہ کیا بات ہے۔ تو بعض دفعہ اللہ پاک زبان سے نکال لیتے ہیں، تو میں نے اس کے کسی دوست سے کہا، میں نے کہا یار! اس کو بتاؤ کہ یہ خود آجائے کیونکہ اس کی قبولیت ہوگئی ہے اور اگر یہ خود نہیں آئے گا تو پھر اس کو stretcher پہ لایا جائے گا، تو یہ والا طریقہ مشکل ہے، اس طریقہ سے نہ آئے تو اچھا ہے، خود اپنی مرضی سے آجائے تو آسانی سے آجائے گا، اس کی ہوگئی قبولیت۔ یہ بات میں نے کی، اس دوست نے اس کو پہنچائی نہیں پہنچائی واللہ اعلم میں نے ابھی تک تحقیق نہیں کی۔ تقریباً ایک مہینے کے بعد اس کا accident ہوگیا اور چھ مہینے کے لئے چارپائی پہ وہ پہنچ گیا۔ اس چھ مہینے میں اس نے داڑھی بھی رکھ لی، اس نے تسبیح بھی شروع کرلی، درود شریف بھی پڑھنا شروع کرلیا، نمازیں اس کی شروع ہوگئیں، ساری چیزیں اَلْحَمْدُ للہ چل پڑیں۔ اس کے بعد وہ smoking کرتا تھا، یہ ایک چیز رہ گئی تھی تو میں نے کہا اب میں اس بات کے انتظار میں ہوں کہ یہ smoking کب چھوڑتا ہے۔ ایک دن اس نے smoking بھی چھوڑ دی، میں نے ایک دن بھی اس کو نہیں کہا تھا کہ تم کپڑے تبدیل کرلو، ایسے کپڑے نہ پہنو، یا ایسا کام نہ کرو، ایک دن بھی نہیں کہا تھا۔ جب اس نے smoking چھوڑ دی تو پھر ان سے میں نے پوچھا، میں نے کہا smoking کیوں چھوڑی ہے؟ مجھے کہتے ہیں کہ میں درود شریف پڑھتا تھا تو دل میں آیا کہ گندے منہ سے میں درود شریف پڑھتا ہوں جس سے میں smoking کرتا ہوں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ اب درود شریف کی برکت دیکھ لیں، smoking اللہ تعالیٰ نے چھڑوا دی۔ اب ما شاء اللہ وہ بزرگ ہے، اللہ والا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا فضل کیا۔ تو یہ چیز ہے، یہ چیز ہے کہ جس کو اللہ قبول فرما دیں تو اس کو پھر وہ رکھتے ہیں، اس کا ہاتھ fracture ہوگیا تھا وہ ما شاء اللہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگیا، لیکن بہرحال اس وقت دھچکا تو بہت لگ گیا تھا۔ تو اللہ جل شانہٗ جس پہ بھی فضل فرمانا چاہیں تو ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔
متن:
بعض دفعہ غیر کامل کو مجاز کرنے کا سبب:
ارشاد: بعض دفعہ غیر کامل مشائخ اجازت دے دیتے ہیں کہ شاید کسی طالب مخلص کی برکت سے اس کی بھی اصلاح ہو جائے، کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پیر نا اہل ہے اور اس کا مرید کوئی مخلص ہے تو طالب صادق کو تو حق تعالیٰ اس کے صدق و خلوص کی برکت سے نواز ہی لیتے ہیں جب وہ کامل ہو جاتا ہے تو پھر حق تعالیٰ پیر کو بھی کامل کردیتے ہیں، کیونکہ یہ اس کی تکمیل کا ذریعہ بنا تھا۔
تشریح:
یعنی یہ بات بعض دفعہ ایسی ہو جاتی ہے کہ کوئی پیر نا اہل ہو لیکن نیت تو اس کی ہے، اب کام تو کررہا ہے، جس کو کہتے ہیں گرتے پڑتے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے، اب اللہ پاک فضل فرماتے ہیں۔ خود میں بارہا کہتا ہوں کہ شیخ نہیں کرتا، اللہ ہی کرتے ہیں۔ کوئی اللہ کا مخلص طالب آگیا اور اس کی طلب کی برکت سے اُس کا کام بن گیا، جب بن گیا تو ظاہر ہے جس طرح اللہ پاک کی سنت عادیہ ہے کہ جس کے ذریعہ اس کو کامل کردیا، اس کو کیوں خالی چھوڑے گا۔ تو اس کو بھی ساتھ کامل کردیتا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ڈاکو پیر تھے، تو ان کے کوئی مرید تھے عبدالرحمٰن، وہ مخلص تھے تو بن گئے۔ بن گئے تو اب ان کو بڑے ہی مقامات منکشف ہوتے تھے سب لوگوں گے۔ ایک دن سوچا کہ مرید اپنے پیر کا مقام دیکھے، اس کے تو بہت اونچے مقامات ہوں گے، اب بار بار غور کررہے ہیں کہیں پر نظر نہیں آرہا، سوچا بہت ہی زیادہ ہے اس وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، چلو میں اپنے پیر سے ہی پوچھتا ہوں کہ آپ کا مقام کیا ہے؟ تو پیر کے پاس پہنچ گئے، ڈرتے ڈرتے پوچھا: حضرت مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ کا مقام کیا ہے؟ میں نے بہت غور کیا، کہاں پر ہیں آپ؟ تو اس کو سنتے ہی وہ پیر رو پڑا، ان کے قدموں میں گر گیا اور کہا میں تو ایسا ہوں، میں نے تو اس وجہ سے یہ کام شروع کیا تھا، اب چونکہ آپ آگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نواز دیا ہے اور میرے لئے بھی دعا کرلو کہ اللہ پاک میرے اوپر پر بھی رحم کردے۔ اب اس مخلص مرید نے دعا کرلی اللہ پاک نے اس کو بھی مقام دے دیا، تو یہ اس کی طرف سے تو نہیں ہے۔ وہ جو توبہ اس نے کرلی وہ توبہ ہی اس کا بہت کچھ ہے، جو اس نے توبہ کرلی بعد میں، وہ ذریعہ تو بن گیا۔ اس وجہ سے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے۔
متن:
تربیت میں کیا مقصود ہے اور معرفت مقصودہ کیا ہے؟
ارشاد: مقصود تربیت میں محض حالات کی اطلاع اور معالجہ کا استفسار ہے۔ معلّم جس طریق سے چاہے معالجہ کرے، اور معرفتِ مقصودہ وہی ہے جس کا شارع نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال کا عقیدہ رکھو اور ان کی تصرفات کا استحضار رکھو۔ یہ تصرّفات تمام عالم میں ہیں جن میں انسان کے اندر تصرفات زیادہ عجیب ہیں۔
تشریح:
فرمایا کہ تربیت کا جو طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ جو مرید ہے وہ اپنے شیخ کو اپنے حالات سے آگاہ کرتا رہے، پھر اللہ جل شانہٗ اس کے شیخ کے دل پر جو جیسے القاء فرما دے اس کی تربیت کا نظام، اس کے مطابق اس کی وہ تلقین کرے، تو اللہ جل شانہٗ پھر اس کا علاج فرما دیتے ہیں۔ آگے جاکے فرمایا کہ معرفتِ مقصودہ یہی ہے کہ اللہ جل شانہ نے جو شریعت آپ ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچائی ہے اس کے ذریعہ ہم لوگ اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کرلیں کہ اللہ پاک کی صفات کا ہم کمال کا عقیدہ رکھیں کہ اللہ پاک کی صفات کامل ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تصوف کے اندر جو ہم سلوک طے کرتے ہیں یہ اصل میں صفاتِ الہٰی کا مشاہدہ ہی ہوتا ہے۔ یعنی ہم صفاتِ الہٰی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جیسے ہم کہتے ہیں: ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“۔ ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ سے ہم شروع کرتے ہیں، ”اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“۔ تو ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“ میں جو مبتدی ہوتا ہے وہ کہتا ہے: ”لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ“۔ اور پھر اس کے بعد جو متوسط ہوتا ہے وہ کہتا ہے: ”لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہ“ میرا کوئی اور مقصود ہے ہی نہیں اللہ کے علاوہ۔ اور اس کے بعد جن کو اللہ پاک آگے نواز دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں (سب کے سامنے تو نہیں کہتے لیکن کہتے ہیں) ”لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہ“ ان کو اللہ کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا، ہر چیز کے اندر اللہ۔ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ ان کی پھر یہ حالت ہوتی ہے۔ اب دیکھیں اللہ پاک کی صفات کا مشاہدہ ہے۔ یعنی جو ابتدا میں شروع کرتے ہیں ”لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہ“ سے، پھر اس کے بعد ”لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللہ“ ہے، پھر اس کے بعد ”لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہ“ ہے۔ تو جس کے دل میں اللہ ہی اللہ ہو اس کی کبھی غیر پہ نظر ہوگی؟ اور جس کی غیر پہ نظر ہے اس کے دل میں اللہ ہے؟ دونوں باتیں آپ دیکھ لیں۔ جس کو غیر پہ نظر ہے اس کو اللہ پہ نظر نہیں اور جس کو اللہ پہ نظر ہے اس کو غیر پہ نظر نہیں۔ جس دل میں اللہ آجائے اس دل میں پھر مخلوق کا گزر نہیں ہوتا، مخلوق کو محض آلہ سمجھتے ہیں، یہ آلے ہیں، اللہ پاک ان کو چلا رہے ہیں۔ کسی سے کیا کام لے رہے ہیں، کسی سے کیا کام لے رہے ہیں، کسی سے کیا کام لے رہے ہیں؛ لیکن چلانے والے ہاتھ اس کو نظر آتے ہیں۔ ان کو دونوں ہاتھ نظر آتے ہیں، جو اللہ کا حقیقی ہاتھ ہے وہ بھی نظر آتا ہے اور اس کو انسان جو کاسب ہے اس کا بھی ہاتھ نظر آتا ہے۔ اس کے ہاتھ کی وجہ سے وہ شریعت کے اوپر چلتا ہے اور اس دوسرے ہاتھ کے وجہ سے معرفتِ الہٰی حاصل کرتا ہے۔ تو معرفت وہ ہے۔ یعنی شریعت پر چلنا ہے، تو ظاہر ہے انسان اپنے عمل کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھے گا تو شریعت پہ چلے گا۔ اگر اپنے عمل کا ذمہ دار نہیں سمجھے گا تو شریعت پر کیسے چلے گا۔ تو شریعت پہ چلتا ہے اس ہاتھ کی وجہ سے جو اپنا ہاتھ نظر آتا ہے اور طریقت اور معرفت کے اونچے مقامات کو حاصل کرتا ہے اس اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو دیکھ کے۔ تو یہیں سے پھر وہ آگے بڑھتا ہے۔
متن:
سوال: بزرگوں سے حاصل کرنے کی کیا چیز ہے اور اس کا کیا طریقہ ہے؟
مقصود اور طریق کی تشریح:
ارشاد: کچھ اعمال مامور بہا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی۔ نیز کچھ اعمال منہی عنھا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی۔ ہر دو قسم میں کچھ علمی و عملی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ مشائخِ طریق طالب کے حالات سن کر ان عوارض کو سمجھ کر ان کا علاج بتلا دیتے ہیں۔ ان پر عمل کرنا طالب کا کام ہے۔ اور اعانت طریق کے لئے کچھ ذکر بھی تجویز کردیتے ہیں۔ تقریر سے مقصود اور طریق دونوں معلوم ہوگئے۔
تشریح:
اب دیکھیں! سوال کسی نے کیا ہے کہ بزرگوں سے کیا چیز حاصل کی جاتی ہے؟ بزرگوں کے پاس ہم کس لئے جاتے ہیں؟ فرمایا: کچھ اعمال ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے، کچھ ظاہر کے ہیں، کچھ باطن کے ہیں۔ ظاہر کے کون سے ہیں؟ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ۔ اور باطن کے کون سے ہیں؟ باطن کے ہیں: اخلاص پیدا کرنا چاہئے، تواضع پیدا کرنی چاہئے، رضا کی حالت حاصل کرنی چاہئے، اللہ کی محبت کو حاصل کرنا چاہئے، عاجزی کو حاصل کرنا چاہئے، یہ کیا چیزیں ہیں؟ یہ اپنے دل میں حاصل کرنی چاہئیں۔ دل کی وہ کیفیات ہیں۔ اس طریقہ سے کچھ چیزیں ہیں جن سے روکا گیا ہے مثلاً حرام میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، شراب نہیں پینی چاہئے، جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، غیبت نہیں کرنی چاہئے، اس طرح حسد نہیں کرنا چاہئے، کینہ نہیں کرنا چاہئے، بغض نہیں کرنا چاہئے، تکبر نہیں کرنا چاہئے، عجب نہیں کرنا چاہئے، یہ باطن کی وہ چیزیں ہیں جن کی ممانعت ہے۔ پھر فرمایا: ان ہر دو قسم میں کچھ علمی غلطیاں ہوتی ہیں اور کچھ عملی غلطیاں ہوتی ہیں۔ تو شیخ کا کام یہ ہوتا ہے کہ مرید کی علمی غلطیوں کو بھی دور کرے۔ علمی غلطی مثال کے طور پر دیکھ لیں تکبر اور خود داری، یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اب خود داری کیا ہے، تکبر کیا ہے، یہ شیخ بتاتا ہے، یعنی سمجھاتا ہے کہ یہ تکبر ہے، یہ خود داری ہے۔ اس طریقہ سے تواضع اور تذلل یہ دونوں چیزیں قریب قریب ہیں، احساس کمتری وغیرہ، تو اس کا بھی فرق بتاتا ہے۔ تو اس طریقہ سے کچھ علمی غلطیاں اور کچھ عملی غلطیاں ہوتی ہیں۔ عملی غلطیاں مثال کے طور پر ریا نہیں ہے اس میں اور وہ ریا سمجھ رہا ہے، اور ریا نہیں سمجھ رہا اور ریا اس میں ہے۔ خشوع اس کو حاصل ہے اور وہ سمجھ نہیں رہا اور خشوع اس کو حاصل نہیں ہے اور وہ سمجھ رہا ہے۔ مطلب practically کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب انسان کو بعض دفعہ ایک چیز حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کو نا جاننے کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ مجھے حاصل نہیں ہے، اس کے پیچھے روتا رہتا ہے۔ تو شیخ اس کو بتاتا ہے کہ یہ تو تجھے حاصل ہے، اس کو تسلی دیتا ہے۔ ایک آدمی بے فکر ہو، اس کو پروا ہی نہیں، وہ کہتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں، اس کو شیخ بتاتا ہے کہ بھائی تم ٹھیک نہیں ہو، تمھیں تو یہ مسئلہ ہے، تمھیں تو یہ مسئلہ ہے۔ تو یہ کچھ علمی اور عملی غلطیاں ہوتی ہیں۔ تو شیخ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حالات سن کر ان تمام کیفیات اور احوال کو دیکھ کر فیصلہ کرلے کہ اس کی حالت کیسی ہے، پھر اسی حالت کے مطابق اس کا علاج بتا دیتے ہیں۔ اس پر عمل کرنا پھر سالک کا کام ہے، عمل شیخ نہیں کرے گا۔ عوام کا طریقہ کیا ہے؟ بس ایک نظر سی بنا دو جی۔ اس کا مطلب ہے ہم نے تو کچھ نہیں کرنا، کوئی ایسا تعویذ کردو جس سے ہمارے سارے کام ہو جائیں، بس تعویذ سے سارے کام ہو جائیں گے، نظر سے سارے کام ہو جائیں گے۔ اصل میں لوگ دیکھتے ہیں کہ نظر سے کام ہوگیا لیکن نظر کے پیچھے جو تھا وہ نہیں دیکھتے۔ تو نظر کے پیچھے بہت کچھ ہوا ہے وہ نہیں دیکھتے۔ وہ تو اصل میں بہت کچھ پیچھے ہوچکا ہوتا ہے۔ شاہ بھیک رحمۃ اللہ علیہ کا جو واقعہ ہے کہ اتنی خدمت کے بعد نوالے کے اندر وہ سب کچھ دے دیا، تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں بھی شیخ نوالہ دے دے، بس سب کچھ حاصل ہو۔ بھائی! اس نوالے کو بناؤ تو سہی، وہ بنائیں گے آپ اپنے عمل سے، اس نوالے کے اندر جان آئے گی۔ جب وہ بن جائے گی تو پھر دے دیں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو خود عمل کرنا پڑتا ہے، یہ نہیں کہ اس کے لئے شیخ کام کرے گا۔
جاہل پیر ہوتے ہیں اور جاہل مرید بھی، وہ جاہل پیر مریدوں کو یہ بتا دیتے ہیں کہ ہم تمھارے لئے سب کچھ کریں گے تمھیں پروا نہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے پیر کا واقعہ لکھا تھا کہ وہ گاؤں میں آتے تھے، اب گاؤں کے چودھری ان کے اوپر ڈوریں ڈالے ہوئے ہیں، تو ایک دفعہ چودھریوں نے کہا کہ پیر صاحب آپ بڑے دبلے پتلے ہوگئے ہیں، کیا وجہ ہے؟ کچھ کھایا پیا کریں۔ اس نے کہا کہ کیا کروں آپ لوگوں کے سب کام کرنے پڑتے ہیں، مجھے آپ لوگوں کے لئے نماز پڑھنی ہوتی ہے، مجھے آپ کے لئے روزے رکھنے ہوتے ہیں مجھے آپ کے لئے حتیٰ کہ پل صراط پر بھی چلنا پڑتا ہے، اب میں کیا کروں؟ ظاہر ہے دبلا پتلا نہیں ہوں گا تو کیا ہے؟ چودھری صاحب نے کہا کہ یہ تو بڑا ہمارا مخلص ہے، تو انہوں نے کہا چلو پیر صاحب میں نے آپ کو فلاں کھیت دے دیا۔ وہ خوش ہوگیا، تو پیر صاحب کو تو پتا تھا کہ چودھریوں کا کیا پتا آگے مکر جائے، تو اس نے کہا کہ اچھا قبضہ کرا دو، اس نے کہا آؤ میرے ساتھ۔ جب آئے تو وہ پتلی پتلی راہیں تھیں، اب اس کے اوپر وہ چودھری صاحب تو جارہے تھے، ان کا تو روزمرہ کا کام تھا، پیر صاحب کیسے جاتے۔ اب پیر صاحب لڑھک گئے، ادھر سے لڑھکے تو اس نے پیچھے سے ایک لات ماری، کہتے ہیں یہاں پر تو جا نہیں سکتے پل صراط پہ جاؤ گے، یہ کہاں سے تو نے لازم کرلیا؟ بس وہ سارے کا سارا ختم ہوگیا۔ اب دیکھ لیں پیر بھی ایسا مرید بھی ایسا، جیسی روح ویسے فرشتے۔ تو یہ عوامی غلطی ہے۔ عوام سمجھتے ہیں پیر سارا کچھ کرے گا، ہم کہتے ہیں پیر بھی کچھ نہیں کرتا، پیر خود اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتا دوسروں کو کیا سنبھالے گا۔ کرتا اللہ ہے، کرتا سب کچھ اللہ ہے، ہاں! یہ بات ہے کہ راستہ اللہ پاک نے ایسا بنایا کہ پیر کے سامنے آؤ گے اور ان کو سب کچھ بتاؤ گے، میں اس کے ذریعہ سے تمھاری مدد کروں گا، اس کے دل میں تمھارے لئے ڈالوں گا اور اس طریقہ سے اس سلسلہ کو جاری رکھو گے تمھارا کام کروا دوں گا۔ تو کرتے تو اللہ ہیں لیکن اس کے لئے آپ کو بھی عمل کرنا پڑے گا، اس کے لئے پیر کو بھی مخلص ہونا پڑے گا۔
کہتے ہیں پیر میں سات نشانیاں ڈھونڈو، سات نشانیوں کے بغیر اس کے پاس نہ جاؤ۔ پہلے دیکھو کہ اس کو فرض عین علم حاصل ہے یا نہیں، دوسری بات اس علم پر اس کو عمل حاصل ہے یا نہیں، تیسری بات وہ صاحبِ صحبت ہے یا نہیں، اس کی صحبت کا سلسلہ حضور ﷺ تک پہنچتا ہے یا نہیں، یہ دیکھیں جو شجرہ لگا ہوا ہے اس شجرہ میں جو مشائخ ہیں ان سب کا سلسلہ حضور ﷺ تک پہنچ رہا ہے اور اس کی باقاعدہ تحقیق ضروری ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں، بزرگی کی لائن کی باتیں نہیں ہیں۔ محققین حدیث کی سند ملاتے ہیں کہ ہم نے فلاں سے سنا، فلاں نے فلاں سے سنا، پھر اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور حدیث صحیح اور کمزور اسی وجہ سے بنتی ہے۔ تو اسی طریقہ سے کسی کی جو نسبت ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کی نسبت اس کو حاصل ہے یا نہیں، اس کو دیکھنا چاہئے۔ تو بہرحال یہ اعتماد کا سلسلہ ہے اور اعتماد کا سلسلہ اس طریقہ سے آپ ﷺ سے چلتا آیا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ان کو ان کی طرف سے اجازت حاصل ہو۔ پانچویں بات یہ ہے کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کر (اور یہ practical ہے) لوگوں کو فیض حاصل ہوتا نظر آتا ہے یا نہیں۔ مثلاً وہ پہلے گڑبڑ تھے اب ٹھیک ہونے لگے، بہتر ہونے لگے، معاملات درست ہونے لگے، عبادات درست ہونے لگیں، عقیدے درست ہونے لگے۔ تو ظاہر ہے اس میں فیض ہے۔ چھٹی بات یہ ہے کہ اصلاح کرتا ہو مروت نہ کرتا ہو۔ مروت کس کو کہتے ہیں؟ وہ یہ ہے کہ میں اگر بھیڑ بنانا چاہوں کہ یہاں میرے پاس بہت زیادہ لوگ ہوں، تو پھر کیا کروں گا؟ میں سب کے لئے گنجائشیں نکالوں گا۔ ہر ایک کو کہہ دوں گا بس تجھے تو یہ مل گیا، تجھے تو یہ مل گیا، یہ ہو جائے گا، ان کو بشارتیں سناؤں گا۔ کوئی میرے پاس جیپ لائیں گے، کوئی میرے پاس پلاٹ لائے گا، کوئی میرے پاس کیا چیز لائے گا۔ میرا بھی بھلا، ان کا بھی بھلا۔ حالانکہ دونوں کا نقصان ہوگا، نقصان دونوں کا ہوگا۔ تو یہ مروت ہے۔
ایک دفعہ مجھ سے دفتر میں کسی نے پوچھا کہ سودی قرضہ پہ میں گھر بناؤں؟ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن دیتے ہیں سودی قرضہ۔ میں نے کہا کہ ہرگز نہیں ہرگز نہیں، اچھا اس کے بعد بارہ تیرہ سال کے بعد اس نے کہا کہ مجھے بڑے مسائل ہیں۔ کیا مسائل ہیں؟ کہتے ہیں: سودی قرضہ لیا تھا اس سے بڑے مسائل ہیں۔ میں نے کہا آپ نے مجھ سے پوچھا تھا ناں؟ کہتے ہیں ہاں۔ میں نے کہا: میں نے آپ کو کیا بتایا تھا؟ کہتے ہیں آپ نے بتایا نہ لو۔ میں نے کہا پھر آپ نے کیوں لیا تھا؟ کہتے ہیں ہمارے ایک پیر صاحب ہیں ان سے میں نے پوچھا، اس نے کہا کہ آپ تو مجبوری سے لے رہے ہیں ناں؟ کہتے ہیں میں نے کہا جی مجبوری سے۔ تو کہتے ہیں پھر کیا بات ہے، پھر ٹھیک ہے۔ اب مجبوری سے سارا جائز ہو جائے گا۔ تو اب اس قسم کی جب بات ہو تو ایسے لوگوں کو ایسے پیر پسند ہوتے ہیں جو ان کو جنت کا سرٹیفیکٹ بھی دے دیں، ان کے اوپر کوئی پابندی بھی نہ لگائیں۔؎
رند کے رند رہیں ہاتھ سے جنت نہ گئی
تو یہ بات ہے کہ بس وہ کر بھی رہے ہیں سب کچھ، رنڈی بھی نچا رہے ہیں اور سود بھی کھا رہے ہیں اور لوگوں پہ ظلم بھی ہورہا ہے اور سب کچھ ہورہا ہے اور بس پیر صاحب زندہ باد، جنت بھی مل رہی ہے۔ تو یہ بڑی آسان بات ہے، بہت آسان بات ہے۔ دنیا کی بات نہیں ہے، یہ پیر صاحب کی جاگیر نہیں ہے، جنت اللہ دیتا ہے وہ پیر نہیں دیتا۔ تو بہرحال اس میں اس قسم کی باتیں اگر ہوں تو اس سے بچنا چاہئے اللہ جل شانہ ہم سب کو بچائے۔
متن:
صحبت کے نتائج:
ارشاد: امراضِ باطنیہ میں تعدیہ ضرور ہوتا ہے، صوفیہ نے اس کو مُسَارَقَہ سے تعبیر کیا ہے، صحبتِ صالحہ کا اثر تو یہ ہے کہ مُسَارَقَت کے بعد مُشَارَقَت ہوتی ہے کہ دونوں کے انوار سے منور ہو جاتے ہیں اور صحبتِ بد کا یہ اثر ہوتا ہے کہ مُسَارَقَت کے بعد مُبَارَقَت ہوتی ہے کہ دونوں طرف سے بجلی چمکتی ہے اور سوختن و افروختن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ دونوں کا دین جل کر خاک سیاہ ہو جاتا ہے۔
تشریح:
فرمایا: ؎
صحبتِ طالع ترا طالع کند
صحبتِ صالح ترا صالح کند
یک ساعت صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
تو صحبت کے جو اثرات ہوتے ہیں وہ اس طرح ہوتے ہیں کہ انسان کا ایک دل دوسرے دل سے چوری کرتا ہے۔ مسارقت چوری کو کہتے ہیں۔ مطلب ایک دل دوسرے دل سے چوری کرتا ہے۔ پھر ایک دل کے اندر شر ہے، تو اس کے قریب آپ جائیں گے تو آپ کے دل میں بھی شر پیدا ہو جائے گا۔ مطلب آپ بھی اس کے اندر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اور اگر اس کے اندر خیر ہے تو دوسرے کے دل میں بھی خیر آجاتی ہے۔ بالکل اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ آپ کسی گرم چیز کو، دہکتی ہوئی آگ کو کسی ٹھنڈے کمرے میں رکھ دیں تو تھوڑی دیر کے بعد کیا ہو جائے گا، وہ گرم چیز ٹھنڈی ہو جائے گی، Room temperature پہ آجائے گی اور جو ٹھنڈی چیزیں ہیں وہ کیا ہو جائیں گی؟ تھوڑی سی گرم ہو جائیں گی۔ اب چونکہ وہ ٹھنڈی چیزیں زیادہ ہیں لہٰذا تھوڑی تھوڑی گرم ہو جائیں گی اور گرم چیز تھوڑی سی ہے لہٰذا وہ بہت زیادہ ٹھنڈی ہو جائے گی، Room temperature پہ آجائے گی۔ تو اب یہ مسارقت ہے۔ ٹھنڈی چیز نے گرمی کو catch کرلیا، چوری کرلیا اور گرم چیز نے ٹھنڈک کو catch کرلیا اور وہ ٹھنڈی ہوگئی، تو دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ تو اسی طریقہ سے اگر آپ ایک نیک صحبت میں بیٹھیں جو آپ کی صحبت سے بہتر ہے، تو آپ بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ تو ٹھنڈی چیزیں جو ہیں وہ گرمی catch کرلیتی ہیں اور گرم چیزیں ٹھنڈی کو catch کرلیتی ہیں، اسی طریقہ سے اگر کوئی اچھا آدمی ہے، اللہ والا ہے وہ بیٹھ گیا عوام کے درمیان، تو عوام کی حالت بہتر ہونا شروع ہو جائے گی لیکن خود اس بیچارے کی حالت پتلی ہو جائے گی۔ ظاہر ہے اس کے اوپر دوسروں کا اثر ہوگا، اس کی حالت پتلی ہو جائے گی۔ اب اس کو جنریٹر کے پاس دوبارہ جانا پڑے گا۔ جنریٹر کیا ہے؟ ذکر۔ ذکر کرے، مراقبہ کرے، استغفار کرے، مطلب وہ چلائے اپنا کام رات کو۔ پھر جب دوبارہ اس کیفیت کو حاصل کرے، اس چیز کو حاصل کرلے۔ اب دوبارہ وہ گرم ہو جائے گا پھر صبح آئے گا پھر (وہی کچھ کرے گا) تو گویا کہ energy آہستہ آہستہ ادھر سے transfer ہوتی رہے گی۔ عوام کا بھی فائدہ ہوگا اور ان کا بھی فائدہ ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا ہوگا؟ وہ بیچارہ بالکل خالی کورا ہو جائے گا اور عوام کا فائدہ بھی رک جائے گا۔ تو یہ والی چیز ہے کہ ہم لوگوں کو دیکھنا چاہئے کہ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا تھا کہ میں میوات جاتا ہوں صلحاء کی مجلس میں، صلحاء کے ساتھ جاتا ہوں، پھر بھی عوام کے ساتھ ملنے سے میرے دل کی حالت بدل جاتی ہے۔ پھر میں یوں کرتا ہوں کہ یا سہارنپور شریف جاتا ہوں یا رائے پور شریف جاتا ہوں یا مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ جو کمی آئی ہے عوام سے ملنے کی وجہ سے، اب اس کو پورا کرنے کے لئے تین راستے تھے حضرت کے پاس، دو خانقاہیں تھیں کہ وہاں جاکر ذکر کرتے اور یا پھر اگر وہ نہیں تو پھر مسجد میں اعتکاف کرنا، مسجد میں اعتکاف سے بھی نورانیت آتی ہے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ صحبت کا دونوں کو اثر ہوتا ہے۔ اگر خدا نخواسته بری صحبت ہے تو بس پھر تو تباہی ہے اور اگر اچھی صحبت ہے تو ما شاء اللہ فائدہ ہے۔
متن:
تعلیم و تعلم کا مقصد اصلی یہی ہے کہ آدمی خدا کا ہو جائے:
ارشاد: تعلیم و تعلّم کا مقصود یہی ہے کہ آدمی خدا کا ہو جائے۔ مگر آج کل اہل علم نے صرف تعلیم و تعلّم ہی کو مقصود سمجھ لیا ہے، عمل کا اہتمام نہیں کرتے، محض الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کو قلب تک نہیں پہنچاتے۔ غرض علماء کو تحصیلِ علم کے بعد طریق سلوک یا جذب کو حسبِ تجویزِ شیخ اختیار کرکے اصلاح نفس کرانا چاہئے۔
اَیُّھَا الْقَوْمُ الَّذِیْ فِی الْمَدْرَسَۃِ
کُلُّ مَا حَصَلْتُمُوْہٗ وَسْوَسَۃٌ
علم نبود غیر علم عاشقی
ما بقی تلبیس ابلیس شقی
علم رسمی سر بسر قیل است و قال
نے ازو کیفتے حاصل نه حال
علم چوں بود آنکہ رہ بنمایدت
زنگ گمراہی ز دل بزدایدت
ایں ہوس را از سرت بیروں کند
خوف و خشیت در دلت افزوں کند
تو ندانی جز یجوز و لا یجوز
خود ندانی که تو حوری یا عجوز
علم چوں بر دل زند یارے سے بود
علم چوں بر تن زند مارے بود
تشریح:
یہ علماء کے لئے ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ تعلیم و تعلم کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان خدا کا ہو جائے۔ فرمایا: جن علماء نے اس چیز کو نہیں سمجھا وہ صرف الفاظ کے قیل و قال میں پھنس گئے ہیں ان کو یہ اصل چیز حاصل نہیں ہوتی۔ فرمایا: اس کے لئے انسان کو کسی شیخ کے پاس جانا چاہئے اور حالتِ جذب حاصل کرنی چاہئے۔ حالتِ جذب سے مراد یہ نہیں کہ مجذوب بن جائے، حالت جذب سے مراد یہ ہے کہ catch کرلیں۔ حالت جذب حاصل کرنی چاہئے اور اپنے شیخ سے اصلاح کروانی چاہئے۔ تو فرمایا: اے قوم! جو تم مدرسے میں بیٹھے ہو تمہیں وسوسوں کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ خود مفتی تھے، تو ان کی باتیں ویسے ہی نہیں ہیں۔
علم نبود غیر علم عاشقی
ما بقی تلبیس ابلیس شقی
کہتے ہیں: جو علم عاشقی کے بغیر ہو وہ ابلیس شقی کی میراث ہے۔ مطلب وہ ان کی طرف چلی جاتی ہے۔
علم رسمی سر بسر قیل است و قال
نے ازو کیفتے حاصل نه حال
جو علمِ رسمی حاصل کرلیتا ہے وہ صرف قیل و قال میں پھنس جاتا ہے، اس کو کوئی کیفیت اور کوئی حال نہیں حاصل ہوتا۔
علم چوں بود آنکہ رہ بنمایدت
زنگ گمراہی ز دل بزدایدت
کہتے ہیں: اگر علم سے آپ کو راستہ نظر نہیں آیا تو وہ تو گمراہی کی طرف جارہا ہے۔
ایں ہوس را از سرت بیروں کند
خوف و خشیت در دلت افزوں کند
اس ہوس کو اگر اپنے دل سے نکال دو، اپنے دل کے اندر خوف و خشیت کو بڑھا دو۔
تو ندانی جز یجوز و لا یجوز
’’یَجُوْزُ‘‘ (جائز ہے) اور ’’لَایَجُوْزُ‘‘ (جائز نہیں ہے) اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔
خود ندانی که تو حوری یا عجوز
اور یہ خود نہیں جانتا کہ تو حور ہے یا بڑھیا ہے، یعنی خود تمھاری کیا حالت ہے۔
علم چوں بر دل زند یارے سے بود
علم چوں بر تن زند مارے بود
علم اگر دل کے لئے حاصل کیا جائے تو پھر تو ایک دوست ہے اور اگر یہ نفس کے لئے حاصل کیا جائے تو پھر یہ ایک سانپ ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ