حقیقی تصوف: کتاب و سنت کی کامل پیروی

انفاسِ عیسیٰ کی کتاب سے تعلیم

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ امدادیہ - نزد مسجد صدیق اکبر، اللہ آباد، راولپنڈی

اس بیان میں تصوف کے راستے کو ایک منظم نقشے کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس میں مقصودی اور غیر مقصودی امور کو واضح طور پر الگ کیا گیا ہے۔ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے، جس کے لیے فرائض کی ادائیگی اور اخلاقِ حسنہ کو اپنانا لازمی ہے۔ ذکر، مراقبہ اور مجاہدہ جیسے اعمال اس مقصد تک پہنچنے کے ذرائع ہیں، خود مقصود نہیں۔ بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ کشف، وجد، کرامات اور دیگر روحانی کیفیات اس راستے کے ضمنی اثرات (side effects) ہیں، جنہیں مقصود سمجھنا گمراہی ہے۔ اس نکتے کو منصور حلاج کی مثال سے بھی واضح کیا گیا، جنہیں ایک مخلص مگر مغلوب الحال سالک قرار دیا گیا ہے۔ آخر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حقیقی تصوف صرف اور صرف کتاب و سنت کی کامل پیروی کا نام ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تصوف کے بارے میں جو امور زیر بحث ہوتے ہیں، اس کے بارے میں اس جوڑ میں بات چل رہی تھی۔ تو اس میں سب سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ اس میں کچھ امور ہیں، جو فی ذاتہٖ مقصود ہیں یعنی ان کو کرنا پڑتا ہے اور وہ ہمارا target ہوتا ہے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ ہم باقاعدہ اس کی نیت کرتے ہیں اور مقصود جو چیز ہوتی ہے، اس کے اندر تبدیلی بھی نہیں ہوسکتی۔ جیسے اللہ پاک نے مقرر کیا ہے، اسی طریقے سے ان کو کرنا پڑتا ہے، مثلاً نماز کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، روزہ کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، جو مقصودی اعمال ہیں، ان کے اندر کوئی فرق نہیں ہوسکتا قیامت تک۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں، جو مقصود تو نہیں، لیکن تصوف کے اندر وہ زیر بحث ہوتی ہیں۔ پھر جو مقصود چیزیں ہیں، ان میں دو قسم ہیں۔ فرمایا تھا کہ کچھ تو اعمال ہیں، جو کرنے پڑتے ہیں، جیسے میں نے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، معاملات وغیرہ کا بتا دیا۔ اور اس طریقے سے اور جیسے مطلب یہ ہے کہ کچھ اچھے اخلاق حاصل کرنا، مثلاً شکر، صبر، اخلاص، تواضع وغیرہ کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اور کچھ ایسی چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہیں، مثلاً ریا، کبر، حسد اور دنیا کی محبت وغیرہ اس کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ تو یہ چیزیں جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ یہ مقصودی اعمال ہیں۔

دوسری طرف مقصود میں ثمرہ بھی آتا ہے، آخر اعمال انسان کسی چیز کے لئے کرتا ہے۔ تو وہ کیا ہیں؟ مطلب انسان اس سے کیا حاصل کرتا ہے؟ ثمرہ۔ ثمرہ کہتے ہیں سود کو، پھل کو۔ تو وہ فرماتے ہیں کہ دو قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ جو انسان خود اپنی طرف سے اس کا یعنی کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضوری کی کیفیت حاصل ہوجائے اور بندگی اللہ تعالیٰ کی حاصل ہوجائے۔ یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ بندہ کی طرف سے یہ چیز ہوتی ہے۔ اور ایک اللہ پاک کی طرف سے جو یعنی وہ ثمرہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ پاک اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور اس کو قرب خاص عطا فرما دیتے ہیں۔ تو یہ ثمرہ ہے یعنی اس کے لئے ہم یہ سارا کچھ کرتے ہیں۔ پھر جو غیر مقصود چیزیں ہیں یعنی جو مقصود تو نہیں، لیکن تصوف میں اس پر بحث کی جاتی ہے، وہ تین قسموں پہ ہیں۔ کچھ تو ذرائع ہیں، کچھ توابع ہیں یعنی جو ان کے ساتھ relevant effects ہیں یعنی جو یعنی متعلق اثرات ہیں، اس کو توابع کہتے ہیں، اور کچھ موانع ہیں یعنی جس سے بچنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر جو ذرائع ہیں، اس میں فرماتے ہیں کہ دو قسموں پہ ہیں، ایک تو یہ بات ہے کہ وہ مجاہدہ ہوتا ہے، مجاہدہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو سیدھا کرنے کے لئے اس کی مخالفت کرتا ہے، اس کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ بغیر اس کے نفس ٹھیک نہیں ہوتا، جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے، تو انسان کا نفس ٹھیک نہیں ہوتا، سیدھا نہیں ہوتا۔ تو اس میں کچھ مجاہدہ تو اللہ پاک کی طرف سے پہلے سے مقرر۔۔۔۔ اس کو شرعی مجاہدہ کہتے ہیں، اور جیسے روزہ ہے، نماز ہے، یہ شرعی مجاہدہ۔۔۔۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کہ شرعی مجاہدہ تو نہیں ہیں، لیکن شرعی مجاہدہ میں اگر کمی ہو، اس کمی کو دور کرنے کے لئے تربیتی مجاہدہ ہوتا ہے۔ شرعی مجاہدہ میں کمی سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ صحیح طور پہ ہم نہیں کر پا رہے، مثلاً نماز ہم صحیح طور پہ نہیں پڑھ رہے، اس میں خشوع نہیں ہے، اس میں اخلاص نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شرعی مجاہدہ میں کمی آگئی، اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے پھر ہم لوگ جو ہیں ناں تربیتی مجاہدہ کرتے ہیں۔ تربیتی مجاہدہ سے مراد یہ ہے ہم نفس کے اوپر کچھ مزید زور ڈالتے ہیں، تاکہ ان چیزوں کے لئے تیار ہوجائے۔ ان مجاہدات میں، جو تربیتی مجاہدے ہیں، ان میں چار قسموں پر ہیں، ایک تو یہ ہے کہ کھانا کم کرلیا جائے، کیونکہ انسان کھانے کا شوقین ہے، تو اس کو اس طریقے سے control کیا جائے، اس کی خوراک کم کردی جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ بات چیت کو کم کروا لیا جائے، قلت کلام کہتے ہیں اس کو۔ اور قلت منام یعنی نیند اس کی کم کروا دی جائے۔ اور قلت اختلاط مع الانام یعنی انسان کا لوگوں سے کھلا ملنا جلنا بند کردیا جائے، اس کے اوپر پابندیاں لگا دی جائیں، تو اس سے نفس کی سرزنش ہوجاتی ہے، نفس جو ہے ناں وہ ماننا شروع کرلیتا ہے۔ تو یہ چیزیں تربیت کے طور پہ ہوتی ہیں، مقصودی نہیں ہیں، لیکن تربیتاً ہوتی ہیں۔ اور پھر جو ہے ناں، وہ یہ بات ہے کہ ذرائع میں وہ چیزیں بھی آتی ہیں کہ انسان کے اندر کچھ مخفی قوتیں ہیں، جن کو اجاگر کرنے کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ان میں جو ہے ناں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کہ مفید ہیں اور اس کے اندر خطرہ نہیں ہے۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ وہ مفید تو ہیں، لیکن اس میں خطرہ بھی ہے۔ تو میں نے آپ کو مثال دی ہے کہ جو مفید ہوتی ہیں، اس میں خطرہ نہ ہو، تو اس کی مثال عام دوائی کی ہے۔ عام دوائی جیسے ہم دیتے ہیں ناں بس اس کے کھانے سے خطرہ نہیں ہے، لیکن مفید بھی ہیں۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو دوائی تو ہوتی ہے، مفید تو ہوتی ہے، لیکن اس کے اندر کچھ خطرات بھی ہوتے، جیسے steriod وغیرہ ہیں، steriod وغیرہ میں ظاہر ہے مطلب خطرات بھی ہوتے ہیں، لیکن بوقت ضرورت کھانا بھی پڑتا ہے۔ تو جو مفید ہیں، لیکن اس کے اندر خطرہ نہیں ہے، وہ تین قسموں پر ہے، ایک اس میں ذکر آتا ہے، یہ جو ہم ذکر کرتے ہیں، جو ذکر بتایا جاتا ہے اصلاحی ذکر، اس میں ذکر آجاتا ہے، شغل آجاتا ہے۔ شغل ایسی چیز ہوتی ہے کہ ذکر سے اگر انسان کی alignment نہیں ہو پارہی، اس کے لئے جسم compatible نہیں ہے، تو پھر اس کو align کرنے کے لئے، compatible بنانے کے لئے شغل کرنا پڑتا ہے، مثلاً شغل ایسی مثال دے دیتا ہوں کہ جیسے آپ کوئی کاغذ کے اوپر ایک تصویر بنا دیں دل کی، خوبصورت نورانی دل بنا دیں، اس کے اوپر اللہ لکھ دیں، پھر آپ کہہ دیں کہ اس کو دیکھتے رہیں، یہ شغل ہے۔ مطلب اس سے جو ہے ناں آہستہ آہستہ آپ کا جو دل ہے، وہ اس کا رخ اللہ پاک کی طرف ہونے لگتا ہے، تو یہ شغل کہلاتا ہے۔ اور اس طریقے سے مراقبہ۔۔۔۔ مراقبہ یہی چیز ہے کہ انسان کی سوچ اللہ کی طرف ہوجائے، یعنی پہلے ذکر کی طرف سوچ ہوتی ہے، پھر ذاکر کی طرف یعنی دل کی طرف سوچ ہوجاتی ہے، پھر مذکور کی طرف سوچ ہوجاتی ہے یعنی اللہ کی طرف، تو یہ مراقبہ کہلاتا ہے۔ ہاں جی! تو یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ جو یہ تین قسمیں ہیں، یہ مفید ہیں اور اس میں خطرہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جو مفید تو ہیں، لیکن اس میں خطرات بھی ہیں، ان میں سے ایک تصور شیخ ہے: تصور شیخ اصل میں وساوس کو دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، وسوسے جب کثرت کے ساتھ آنے لگیں، تو اس کی تصور شیخ کے ساتھ بیخ کنی کی جاتی ہے۔ تو یہ پہلے ہمارے بزرگوں کے ہاں چلتا تھا، اب بھی خال خال ہے، اکثر لوگوں نے اس کو روک لیا ہے، کیونکہ اس کے اندر خطرہ یہ ہے کہ جب انسان زیادہ شیخ کا تصور کرنے لگتا ہے، تو شیخ کا تصور اس کے اوپر اتنا چھا جاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ شیخ میرے ساتھ ہر وقت ہے اور پھر ذرا عقیدے میں بھی بعض دفعہ گڑبڑ ہونے لگتی ہے، وہ حاضر ناظر والی باتیں انسان شروع کرلیتا ہے، اس سے پھر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، تو اس وجہ سے قصداً نہیں کروایا جاتا، ہاں جی! لیکن اگر خود بخود ہوجائے، اس کو روکا نہیں جاتا۔ ہاں جی! عشق مجازی:

عشق مجازی وہ جائز عشق جس کے اندر گم ہوکر انسان باقی تمام چیزوں سے کٹ جائے، باقی جیسے تمام چیزوں سے کٹ جائے، تو اس کو پھر اللہ پاک کی محبت کی طرف بدل لیا جاتا ہے، راستہ بنا لیا جاتا ہے۔ تو وہ عشق مجازی ہے۔ مثلاً ایک دفعہ ایک شیخ، کسی شیخ کے ساتھ کوئی شخص مرید ہوگیا، تو حضرت نے ان سے پوچھا کہ تمھیں دنیا میں کس چیز کے ساتھ محبت ہے زیادی؟ اس نے کہا کہ مجھے اپنی بھینس کے ساتھ زیادہ محبت ہے، انہوں نے کہا اچھا تو پھر تم بیٹھ جاؤ کمرے میں اور صرف کھانا کھانا ہے اور نماز پڑھنی ہے اور سونا ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا، بس یہ تصور کرنا ہے، بھینس کا تصور کرنا ہے، ہاں جی! تو یہ کرتے رہیں۔ بظاہر یہ ایک عجیب چیز لگتی ہے، لیکن بہرحال بزرگوں کو طریقے آتے ہیں، تو وہ یہ ہے کہ وہ بھینس کا تصور کرنے لگا، تو جب کچھ دنوں کے بعد ان کے پاس وہ آیا، تو انہوں نے کہا کہ اب باہر آجاؤ، انہوں نے کہا کیسے باہر آؤں؟ میرے تو سینگ ہیں، میں کیسے باہر آجاؤں؟ تو حضرت نے فرمایا بس کام ہوگیا، اس کے بعد اس کے اوپر ایسا تصرف کرلیا کہ وہ جو اس کا۔۔۔۔ وہ بھینس کا تصور ہے، اللہ کی طرف بدل دیا، تو بس بھینس ختم ہوگئی، اللہ کا تصور ہوگیا، تو کام ہوگیا۔ یہ بالکل اس کی مثال ایسی ہے، جیسے مختلف جگہوں پہ گند پڑا ہوا ہے، اب سارا گند تو اکٹھا نہیں اٹھا سکتے ناں، تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ سارے گند کو ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں، پھر اس کو پلیٹ میں ڈال کے لے جاتے۔۔۔۔ تو یہ جو ہے ناں مطلب سارا گند کو آپ نے ایک جگہ تصور کرلیا، پھر اس کو اٹھا دیا، ٹھیک ہے؟ اور راستہ clear ہوگیا۔ تو یہ عشق مجازی ہوتا ہے۔

سماع:

سماع جو ہے یہ ایسی چیز ہے، خوبصورت آواز، اچھی آواز کے اندر کچھ ایسی چیز کو دل میں پہنچانا، جو مقصود چیز ہے، جو اچھی چیز ہے، مثلاً اللہ کی محبت، اللہ کی محبت کو پہنچانا سماع کہلاتا ہے۔ اس میں یہ بات ہے کہ چونکہ انسان کا دل اچھی آواز، اچھی صورت سے اثر لیتا ہے، اثر چاہے مثبت لے، چاہے منفی لے، لیکن اثر تو لیتا ہے۔ اب اگر اچھی آواز کے اوپر آپ کوئی اچھی چیز بیٹھا دیں، ہاں جی! تو وہ اگر دل میں جائے گی، تو ساتھ وہ چیز بھی دل میں جائے گی۔ ہاں جی! تو اچھی آواز پر اگر آپ اچھا کلام ڈال لیں، ہاں! وہ جب دل میں وہ اچھا کلام اثر کرے گا، تو ساتھ ساتھ وہ یعنی وہ concept بھی چلا جائے گا۔ ہاں جی! تو یہ سماع ہے، ہمارے بزرگوں کا طریقہ ہے، لیکن اس کے اندر بھی وہی والی بات ہے کہ انسان اگر اس میں بہت زیادہ involve ہوجائے، تو اس میں مسئلہ یہ ہے کہ باقی چیزوں سے انسان کو کاٹ۔۔۔۔ تو اس کے اندر بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں، لہٰذا اس کو بھی بغیر خطرات والی چیز نہیں کہا جاسکتا۔ خطرے والے چیز تو ہے، مثلاً ایک آدمی کو اتنا شوق ہوجائے سماع کا کہ نماز ہورہی ہو اور یہ سماع سنتا رہے، تو پھر تو ظاہر ہے کام تو غلط ہوگیا ناں۔ مطلب دیکھیں! تفریح ایسی چیز ہے، بعض دفعہ تفریح بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن تفریح کو اگر کام بنا دیا جائے، تو وہ تو پھر تفریح نہیں رہی ناں، ہاں جی! وہ تو نقصان ہوگیا۔ جیسے آج کل کرکٹ کو لوگوں نے کام بنایا ہوا ہے، تو وہ تفریح تو نہیں ہوئی ناں، وہ تو صرف ایک کام ہے۔ ٹھیک ہے؟ تو ہر چیز کی اپنی ایک limit ہوتی ہے۔ تو یہ میں عرض کررہا تھا کہ غیر مقصود میں سب سے پہلے میں نے آپ کو کیا بتایا آپ کو؟ ذرائع بتائے، ذرائع کے بارے میں۔ ذرائع کی دو قسمیں بتا دیں، ہاں جی! اور ان کی تھوڑی بہت تفصیل۔

اب آجاتی ہے باری توابع کی، توابع:

توابع اصل میں ایسی چیز ہے کہ یہ مقصود بھی نہیں ہے اور آپ اس کا ارادہ بھی نہیں کرتے، یہ خود بخود ہوتی ہے۔ ہماری پشتو میں اس کے بارے میں جو اچھا لفظ ہے، ہاں جی! وہ یہ ہے ’’ما مه شمیره ددګډ یم‘‘ کہتے مجھے گنو مت، میں تمھارے ساتھ ہوں، یعنی تم مجھے کچھ نہ سمجھو، پھر بھی میں تیرے ساتھ ہوں، تو یہ توابع ایسی چیز ہوتی ہے، مطلب یہ اس کے ساتھ خود بخود آتی ہیں۔ ہاں جی! تو یہ چیزیں جو ہیں ناں مطلب یہ ہے کہ اس سے آپ چھوٹ نہیں سکتے، یہ ہیں، بس ٹھیک ہے۔ تو اس کو اگر اتنا ہی سمجھیں کہ بس یہ by default ہے، خود بخود آتی ہیں، تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر آپ لوگ اس کو مقصود سمجھنے لگیں، پھر تو کام ہی خراب ہوگیا۔ ہاں جی! اب میں آپ کو بتاتا ہوں، اس میں بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں، جس کا ضرر نہیں ہوتا، ہیں، لیکن ضرر نہیں ہوتا، side effect ہیں، لیکن بغیر مضر ہیں اور کچھ side effects ایسے ہیں، جو مضر ہیں یعنی ان کو ضرر بھی ہوسکتا ہے، اس سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، تو جو جن کا ضرر نہیں ہے، ان میں سے ہے وحدت الوجود ہے۔ وحدت الوجود کیا ہے؟ جب آپ اللہ پاک کا ذکر کریں، کریں، کریں اللہ پاک کی یاد آپ کے دل پر ایسی چھا جائے گی کہ آپ سمجھیں گے کہ کچھ بھی نہیں سوائے اللہ کے۔ ہاں جی! تو اس کو وحدت الوجود کہتے ہیں۔ یہ سورج جب چمک رہا ہو، تو ستارے نظر نہیں آتے، تو اس کی مثال بالکل وحدت الوجود کی ہے۔ تو یہ جو ہے ناں مطلب ہم لوگ اس کی نیت نہیں کرتے، لیکن آجاتی ہے۔ ہاں جی! اور فنا اور بقا، فنا اور بقا مطلب انسان فانی ہوجائے اپنے آپ سے یعنی خود اس کو اپنا کچھ بھی نظر نہ آئے، اور اللہ کے ساتھ باقی ہوجائے، ہاں! یعنی مطلب یہ ہے کہ اس کو بس صرف اللہ پاک۔۔۔۔ یہ بھی وحدت الوجود کی ایک قسم ہے۔

اجابت دعا:

دعا کی قبولیت، لیکن تصوف اگر کوئی اس لئے کرلے کہ میری دعائیں قبول ہوں، تو وہ تو مقصود تو نہیں ہے ناں، تصوف تو اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہے ناں جو ہمیں کام دیا ہے، وہ کام ہم کریں۔ ٹھیک ہے ناں! تو اجابت دعا۔

فراست و صادق:

فراست صادقہ، مطلب یہ ہے کہ انسان ہوشیار ہوجائے دینی طور پر، مطلب اچھی اچھی باتیں، حکمت کی باتیں کرنے لگے، ہاں! لوگوں کے مسائل اس کے ساتھ حل ہوں، تو یہ فراست صادقہ ہے، لیکن یہ بھی مقصود نہیں ہے۔ ہاں جی! اگر کوئی کسی کو یہ حاصل نہیں ہوتی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو مقصود حاصل نہیں ہوا، اگر اللہ اس سے راضی ہے بغیر اس کے، تو آپ کو کیا چاہئے؟ ہاں جی! فراست صادقہ۔

رؤیاء صالحہ:

اچھی اچھی خوابیں۔ اس میں تو ایک دنیا پریشان ہے بیچاری، مطلب سمجھتے ہیں کہ بس اگر اچھی اچھی خوابیں ہمیں آرہی ہیں، تو بس پھر ٹھیک ہے، پھر تو ہم صوفی ہیں، اگر وہ نہیں آرہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری لائن بدل گئی ہے، جو مطلب یہ ہے کہ ہم صوفی نہیں ہیں۔ رؤیاء صالحہ ہاں۔

وجد:

وجد یہ بات ہوتی ہے کہ آپ نے کوئی شعر سن لیا اور مزے میں آگئے، کیف میں آگئے، مستی میں آگئے، ہاں! تو یہ وجد یہ بھی مقصودی نہیں ہے۔

کچھ لوگ باقاعدہ اس کو حاصل کرنے کے لئے، باقاعدہ posture بناتے ہیں، ہاں! تو وہ تو گمراہی ہے۔ کچھ لوگ جیسے رقص میں کرلیتے ہیں، رومی رقص اور پتا نہیں کیا کیا رقص، ہاں! تو یہ کیا ہے؟ یہ سارے کا سارا مطلب یوں سمجھ لیجئے کہ وہ یہ چیزیں کرنا چاہتے تھے، تصوف کو اصل میں ایک وہ ذریعہ بنا رہے ہیں کہ چلو جی! مستی تو کرنی ہے، تو مطلب وہ گناہگار بھی نہیں ہوں گے اور یہ چیزیں حاصل ہوجائیں گی، تو اس کو مقصود بنا لیتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ وجد اور چیز ہے صحیح اور یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے تواجد جس کو کہتے ہیں، خواہ مخواہ اپنے اوپر چیز کو طاری کرنا، وہ اور چیز ہے۔

اس طرح تصرف:

تصرف یہ مطلب جو توجہ کرتے ہیں ہم کسی کے اوپر، یہ جو توجہ ہے، یہ بھی مقصود نہیں ہے اور اس میں ضرر بھی ہوسکتا ہے، ضرر جسمانی بھی ہو سکتا ہے، روحانی بھی ہوسکتا ہے۔ ہاں جی! جسمانی ضرر تو یہ ہے کہ انسان جب توجہ کرتا ہے، تو اگر اس میں غلطی کرے تو اس کا اپنا میٹر بھی گھوم سکتا ہے، دماغ پہ اثر پڑ سکتا ہے، دل پہ اثر پڑ سکتا ہے، ہاں جی! تو جو بھی کرے، تو اس کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے کرے، مطلب کوئی آسان بات نہیں ہے یہ، اس میں نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ تو جسمانی ضرر ہے۔ روحانی ضرر یہ ہے کہ اگر انسان سمجھے کہ او ہو میں نے فلاں کے اوپر توجہ کی، اس کے ساتھ ایسا ہوگیا، تو اس کی اپنے اوپر جو نظر پڑنے لگی، تو اللہ سے نظر ہٹ گئی، تو یہ جو ہے ناں مطلب اس کو نقصان ہوگیا، یہ روحانی نقصان ہے۔ تو اس طرح مطلب روحانی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔

کشف کونی:

مختلف چیزیں نظر آجانا یہ کشف کونی ہے۔ ہاں! یہ بھی، اس میں بھی ضرر ہوسکتا ہے۔ اور اس میں ضرر اس طرح ہوسکتا ہے کہ جیسے ایک انسان ہے، جارہا ہو لاہور اور گاڑی میں بیٹھ جائے اور اس کی ساری کھڑکیاں بند ہوں، آرام سے وہ لاہور پہنچ جائے، تو اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی کو کشف نہ ہوتا ہو اور منزل مقصود پہ پہنچ جائے اور دوسرا یہ ہے کہ جس کی ساری کھڑکیاں کھلی ہوں، کبھی اس کھڑکی میں نظارہ کررہا ہے، گجرات کو دیکھ رہا ہے، گوجر خان کو دیکھ رہا ہے، جہلم کی پہاڑیوں کو دیکھ رہا ہے، خوبصورت خوبصورت scene کو دیکھ رہا ہے، تو اس میں کیا ہے؟ اس میں عین ممکن ہے کسی جگہ train کھڑی ہوجائے اور یہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا اچھا منظر ہے، نیچے اتر جائے اور train چلی جائے، تو بس کرلے گا۔ تو اس طرح کشفوں میں انسان بعض دفعہ پیچھے رہ جاتا ہے، وہ کشفوں کی طرف اتنا دھیان ہوتا ہے کہ وہ اصل چیز کی طرف دھیان سے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ جو ہے ناں وہ منزل مقصود سے پیچھے رہ جاتا ہے اور یہ کشف کونی جو ہے، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، اگر کسی کو ہونا شروع ہوجائے۔

کشف الہٰی سے مراد یہ ہے کہ انسان کو مطلب چھپی باتیں جو حقیقی مطلب وہ چیزیں جو اس کو معلوم ہونے لگیں، ہاں! اسرار اور یہ تمام چیزیں۔۔۔۔ ہاں! تو یہ کشف الہٰی کہلاتے ہیں۔

وحدت مع السکر:

ایک ہوتا ہے وحدت الوجود بدون السکر، مطلب بغیر سکر کے یعنی مدهوشی کے بغیر۔ اور وحدت مع السکر سے مراد یہ ہے کہ انسان اتنا مدہوش ہوجائے کہ اس سے ایسے الفاظ زبان سے نکلنے لگیں، جیسے ’’اَنَا الْحَقْ‘‘ اور اس طرح۔۔۔۔ ہاں! تو یہ وحدت مع السکر تو اس میں بھی ضرر تو ہے۔ جسمانی ضرر بھی ہے کہ لوگ اس کو مار دیں، ہاں جی! تو یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ توابع ہیں۔

اس کے بعد آتا ہے موانع:

موانع جو ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں، جو جس کو کہتے ہیں، ہم لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جو کہ medication کو ختم کرتا ہے، مطلب ایک آدمی دوائی کھا رہا ہے، اس میں بدپرہیزی ایسے کرلے، جس سے اس کی ساری medication ختم ہوجائے، خراب ہوجائے، نقصان ہوجائے اس کو، تو یہ وہ ہے بدپرہیزی، علاج کے ساتھ بدپرہیزی۔ ان میں پہلے نمبر پہ آتا ہے حسن پرست۔

اصل میں تصوف میں جذبات ذرا نازک ہوجاتے ہیں ناں، مطلب چیزوں سے اثر لینا زیادہ شروع ہوجاتا ہے، تو اب اگر خدانخواستہ اس کا اس طرف رخ چلا گیا، تو بس گیا، خراب ہوگیا۔ ہاں جی! تو یہ حسن پرستی جو ہے، مطلب اگر کسی میں شروع ہوجائے۔۔۔۔۔

تعجیل:

جلدی مچانا، جلدی مچانا۔ آدمی کہتا ہے بس جی میں تو بس ایک مہینے میں میرا تمام ہوجائے، میرے چودہ طبق روشن ہوں۔ ہاں جی! یہ جو جلدی مچانا ہے، اس میں سب سے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ شیخ کے اوپر بد اعتماد ہوجاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ شاید شیخ میرے ساتھ کچھ امتیازی سلوک کررہا ہے، دیکھو فلاں کے اوپر کیا توجہ ہے فلاں کے اوپر میرے اوپر توجہ نہیں ہے، مجھے جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ نظر انداز کررہا ہے، تو یہ شیخ کے اوپر وہ شروع ہوجاتا ہے بدگمانی۔۔۔۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی بدگمانی تک پہنچ جاتا ہے، ہاں جی! تو ظاہر ہے انسان بعض دفعہ یہ بالکل ہی لائن سے ہٹ جاتا ہے۔ تو یہ تعجیل، تعجیل جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اس سے اپنے آپ کو بچانا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے میں ایک شعر فرمایا کرتے تھے اکثر، ہاں! وہ فرمایا کرتے،

ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر

تجھ سے کیا بیر تھا اگر تو کسی قابل ہوتا

مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک تو سب کو دینا چاہتا ہے، کچھ گڑبڑ تجھ میں ہوگی ناں کہ درمیان میں آئی ہے۔ تو اپنے اوپر کیوں غور نہیں کرتے، شیخ کے بارے میں کیوں سوچتے ہو کہ مطلب وہ مجھے کم وہ کررہا ہے، تو دوسری چیزوں کے بارے میں کیوں۔۔۔۔ آخر کچھ گڑبڑ ہوگی، اس گڑبڑ کو تلاش کرو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ کسی بزرگ کے پاس ایک آئے مرید، بظاہر بڑے مخلص مرید لگتے تھے، لیکن اس کو فائدہ نہیں ہورہا تھا، تو جو حضرت صاحب تھے، وہ پریشان ہوگئے کہ یا اللہ! یہ کیا مسئلہ ہے، میں پوری کوشش کررہا ہوں، لیکن اس کو کچھ نہیں ہورہا، کوئی درمیان میں چکر ہے، لیکن وہ کیا ہے؟ تو دعا کی اللہ تعالیٰ سے کہ یا اللہ! ان کی حالت میرے اوپر کھول دے، اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تو حضرت کو پتا چل گیا، الہام ہوگیا کہ اس کے اندر بڑا بننے کا شوق ہے، روحانی بڑا، بزرگ بننے کا شوق ہے، ہاں جی! تو اس کو بلا لیا، اس کو بلا لیا ان سے کہا بھئی! یہ بتاؤ آپ آخر میرے پاس جو آئیں ہیں، تو نیت کیا ہے آپ کی؟ کس لئے آئے ہیں آپ؟ مقصود کیا ہے؟ اس نے کہا کہ حضرت! جو آپ سے لوگ فیض پاتے ہیں، تو اگر مجھے کچھ مل گیا، تو لوگوں کو میں بھی اس طرح فیض دے دیا کروں۔ انہوں نے کہا اچھا! تو تو پیر بننا چاہتا ہے، مطلب کتا پڑا ہوا ہے درمیان میں، پانی سے ڈول نکال رہے ہیں ہم، اور کتا درمیان میں پڑا ہو، پانی تو پاک نہیں ہوگا، انہوں نے کہا پہلے اس سے توبہ کرو کہ میں نے کسی کو فیض نہیں دینا، مجھے کیا، ہاں جی! بھئی کوئی جو میرے ذمہ اگر کوئی کام نہیں لگایا گیا، تو میں اس کو کیوں کروں؟

احمد تو عاشقے بمشیخت ترا چہ کار

دیوانہ باش، سلسلہ شد شد نشد نشد

(اے احمد! تو تو عاشق ہے، تجھے شیخ بننے سے کیا کام ہے؟ دیوانہ بن جاؤ اللہ تعالیٰ کا، سلسلہ بنے یا نہ بنے، ہمیں اس سے کیا غرض؟)

جس کا کام ہے، اس کو ساجھے، ہاں جی! تو یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو یہ بتا دیا کہ اس سے توبہ کرو، جب اس سے توبہ کروائی، بس راستہ کھل گیا اور ماشاء اللہ! چل پڑا، وہ رکاوٹ دور ہوگئی، بنیادی مسئلہ یہاں تھا، clotting یہاں تھی، آگے blood pass نہیں ہورہا تھا، ہاں جی! تو اس سے جو ہے ناں پھر نقصان مطلب ہونا شروع ہوگیا۔ تو یہ جو ہے ناں مطلب دیکھیں ناں بزرگوں کے کیا کیا مطلب ہوتے ہیں انسان کے اوپر احسانات کہ انہوں نے اس کے لئے کتنا یعنی pain لے لیا، کتنا سوچا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! ان کی حالت میرے اوپر کھول دے۔ تو اس طرح یہ ہوتا ہے کہ

ان کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر

تجھ سے کیا بیر تھا اگر تو کسی قابل ہوتا

تو یہ اصل میں اپنے اوپر اگر کبھی کسی کو خیال آجائے، تو اپنے اوپر آنا چاہئے کہ میرے اندر کوئی گڑبڑ ہے۔ ٹھیک ہے، جس طرح اس پیر صاحب نے دعا کی تھی، تم بھی دعا کرو یا اللہ! میرے اندر جو عیب ہے، تو اس کو دور فرما دے، کوئی اگر رکاوٹ ہے، تو اس کو دور فرما دے۔ ہاں! جس طرح دعا اس نے کی اس کے لئے، تم اپنے لئے دعا کرو، ہاں جی! بجائے اس کے کہ آپ دوسروں کے اوپر بدگمان ہوجائیں۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس دو جوان بچے تھے، تو وہ جو ہے ناں مطلب کسی وقت ان دونوں نے دعا کے لئے کہا اپنے اپنے کام کے لئے، اول تو یہ بات ہے کہ دنیاوی کاموں کے لئے کہنا اپنے شیخ کو بذات۔۔۔۔ یہ ایک موانع میں آسکتا ہے، اس سے انسان کو نقصان ہوسکتا ہے، ہاں جی! لیکن چلو آج کل دور ایسا ہے تو اب بغیر اس کے کوئی ٹھہرتا نہیں ہے، تو لہٰذا لوگ کہہ دیتے ہیں، تو حضرت سے کہہ دیا اپنے دنیاوی کام تھے دونوں کے، حضرت نے دونوں کے لئے دعا فرمائی۔ اب اللہ پاک کی مشیت ایک کے لئے دعا قبول فرمائی، ایک کے لئے نہیں ہوئی، ایک کا کام ہوگیا، دوسرے کا نہیں ہوا۔ جس کا نہیں ہوا وہ آیا اور اس نے کہا حضرت! آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی، بیٹا! میں نے تو آپ کے سامنے آپ کے لئے دعا کی تھی، نہیں، حضرت! آپ نے میرے لئے دل سے دعا نہیں کی، دیکھیں ناں ان کے لئے دل سے دعا کی تھی، ان کا کام ہوگیا، میرے لئے دعا نہیں کی، میرا کام نہیں ہوا۔ بھئی! کام تو اللہ کرتا ہے، کام تو میں نہیں کرتا، ہم تو دعا کرتے ہیں، اس کی مرضی ہے جس کی درخواست قبول فرمائے، جس کی درخواست نہ قبول فرمائے، اس کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بہرحال تین چار دفعہ جب اس نے پھر زور دیا کہ حضرت! آپ نے میرے لئے دعا نہیں فرمائی، حضرت نے بات کا جواب دینا بند کردیا، مطلب یہ ہے کہ اب یہ جواب نہیں دے رہا تھا، تھوڑی دیر کے بعد اس لڑکے کو احساس ہوا کہ میں نے کچھ غلطی کرلی، اس نے کہا حضرت! مجھے معاف فرمائیں، میں نے غلطی کی، میں نے آپ کو بار بار تنگ کردیا، حضرت نے اس پر بھی کچھ نہیں کہا، اچھا ٹھیک ہے اس طرح نہیں، خاموش، اس طرح خاموش، پھر اس لڑکے۔۔۔ بار بار کہنے، حضرت اس پر خاموش، اب اس کا ماتھا کھٹکا، او ہو یہ تو کوئی مسئلہ ہوگیا، مطلب فکر ہوگئی، تو انہوں نے رونا شروع کردیا کہ حضرت! مجھے معاف کردیں، مجھ سے غلطی ہوگئی، حضرت اس پر بھی خاموش، جب بہت زیادہ رویا، تو حضرت نے فرمایا، بیٹا! اب کچھ نہیں ہوسکتا، جو ہونا تھا ہوچکا، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔

اب دیکھ لیں، کتنا پتا ہی کٹ گیا، کتنا نقصان ہوگیا، کس چیز کی وجہ سے؟ ایک دنیاوی کام کے لئے کہنے کی وجہ سے اور تعجیل کی وجہ سے، جلدی بازی مچانے کی وجہ سے نقصان ہوگیا، اللہ پاک نے ایک channel دیا تھا، وہ channel اپنے اوپر بند کردیا۔ اب بظاہر لگتا ہے کہ حضرت مولانا نے سختی کی، لیکن غور فرمائیں کہ دیکھو! یہ مرید ہے اور اپنے پیر پر بدگمانی کررہا ہے، ابتدا ہی سے کہ آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی، ابتدا ہی بدگمانی سے کی ہے، حضرت نے چار پانچ دفعہ اس کو چھوڑا ہے، معاف کیا ہے، اب جب چار پانچ دفعہ جب اس نے بدگمانی بار بار کی، تو اللہ تو بڑا غیرتی ہے، ایک انسان چاہے کتنا ہی نرم مزاج ہو، اللہ پاک اس کا دل سخت کرسکتا ہے، اللہ کے لئے کون سا مشکل ہے؟ اللہ تعالیٰ تو غیرتی ہے، جب اس نے دیکھا کہ میرے ایک بندے کے اوپر بار بار بدگمانی کررہا ہے، تو بس اللہ تعالیٰ تو مقلب القلوب ہے، دل ہی کو بدل دیا مولانا کا، حالانکہ مولانا تو بہت نرم تھے۔ مطلب میرا یہ ہے کہ اس میں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے، بزرگوں کے ساتھ تعلق میں اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا کہ بزرگ خود کچھ بھی نہیں، لیکن وہ اللہ کے ساتھ چونکہ ان کا رابطہ ہے اور ہمارا رابطہ ان کے ساتھ اللہ کے لئے ہے، تو اللہ براہ راست watch کررہے ہوتے کہ ان کے ساتھ کیسے dealing کررہا ہے یہ؟ وہ براہ راست watch ہورہا ہوتا ہے، تو اللہ جل شانہٗ کے فیصلے اس پہ آجاتے ہیں اور بعض دفعہ وہ فیصلے بڑے ہی critical ہوتے ہیں، لہٰذا جو ہے ناں مطلب انسان کو اس مسئلہ میں۔۔۔ تعجیل کا میں نے آپ کو بتایا کہ بہت خطرناک چیز ہے، اس میں پہلا وار شیخ پہ ہوتا ہے، آخری جو ہے ناں وہ خطرناک ترین حد تک جا سکتا ہے۔

تصنع:

تصنع یہ چیز ہے کہ انسان کو ایک چیز حاصل نہ ہو، ایک حال، ایک کیفیت اور وہ خود سے pose کرلے، مثلاً ایسے بیٹھے ہوئے دھیان دھیان جیسے پورا جو ہے ناں مستغرق ہے اور ہو ویسے ایسا نہیں، تو یہ تصنع ہے ناں۔ ذکر ایسے کررہا ہے کہ جیسے بس وہ تو بڑا ہی مست ہے، لیکن اندر کچھ بھی نہیں، تو یہ تصنع ہے۔ یہ بھی گویا کہ ریا۔۔۔۔ کم بزرگی کا ایک شعبہ ہے، ریا کے ساتھ بزرگی مطلب اس کا ایک شعبہ ہے۔ ایک انسان اپنے آپ کو بزرگ show کررہا ہے، ہے نہیں، show کررہا ہے۔ ہاں جی! تو تصنع، تصنع۔۔۔۔ اب یہ کام ہے بے تکلفی کا، خلوص نیت کا، آزادی کا، آپ اس کو ایک تکلف کا پابند کررہے ہیں، ایک مصنوعی چیز اس کو بنا رہے ہیں، مطلب تصوف کس چیز کے لئے ہے؟ تصوف تو اس لئے کہ آپ دنیا کی محبت سے کٹ جائیں، تو اگر تصوف ہی کے ذریعہ سے آپ دنیا حاصل کرنا چاہیں، کتنا برا ہے؟ ہاں جی! تو یہ بات ہے، مطلب یہ تصنع، یہ بھی موانع ہے، مطلب اس میں بھی ایسا پھنس سکتا ہے آدمی۔

اور چوتھا ہے مخالفت سنت:

سنت کی مخالفت۔ مخلوق کے اوپر سارے راستے بند ہیں اب، جو مکلف مخلوق ہے، صرف ایک آپ ﷺ کا راستہ کھلا ہے۔ ہاں جی! اب اگر کوئی سنت کی مخالفت کرتا ہے، تو یہ بھی بدپرہیزی ہے، طریق سے دوری ہے۔ ہاں! لہٰذا اس کا بھی نقصان ہوسکتا ہے، مطلب مسنون راستہ کو چھوڑ کر غیر مسنون راستہ کو لینا، یہ خطرناک ہے۔

پانچواں جو ہے ناں وہ مخالفت شیخ، شیخ کی مخالفت۔ اب شیخ کی مخالفت اس لئے بدپرہیزی ہے کہ آپ جیسے ڈاکٹر کی کوئی مخالفت کرے، بیماری۔۔۔۔ بیمار ہے اور علاج کررہا ہے ڈاکٹر سے، تو ڈاکٹر کی مخالفت کرے گا تو کیا فائدہ؟ کیا ہوگا؟ نقصان اپنے ہی کو ہوگا ناں، ڈاکٹر کو تو نقصان نہیں ہوگا۔ تو مخالفت شیخ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پشتو میں بڑے اچھے اچھے ضرب الامثال ہیں، پتا نہیں اس کے لئے آپ کے پاس equivalent ہیں یا نہیں ہیں۔ ہاں جی! لیکن وہ ایک یہ ہے کہ ’’خپل بد دَ ولو مينځ وي‘‘ کیا کہتے ہیں اس کو؟ ہاں جی! جو اپنا عیب ہوتا ہے ناں، وہ یہ پیچھے دو ہڈیاں نہیں ہیں، اس کے درمیان ہوتے ہیں یعنی وہ نظر نہیں آتے، آپ try بھی کریں، نظر نہیں آتے، اپنی برائی نظر نہیں آتی۔ تو شیخ کے پاس اس لئے تو آدمی جاتا ہے ناں کہ بھئی! چونکہ ایک میرا خیرخواہ ہے third person ہے، ہاں! تو اس کے اوپر میری حقیقت کھلے گی، تو مجھے فائدہ ہوگا۔ اب اگر آپ اس کی مخالفت کرلیں کہ ایک تو وہ third person ہیں، دوسرا خیرخواہ ہے، تیسرا صاحب تجربہ ہے، experience ہے، باعث برکت۔۔۔۔ اب اتنی چیزیں جمع ہوکر آپ اس کی مخالفت کررہے ہیں، تو پھر کدھر جاؤ گے؟ ہاں جی! پھر کدھر جاؤ گے، ظاہر ہے نقصان اپنے ہی کو ہوگا ناں۔ ہاں جی! تو اس میں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے، بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید شیخ نے مجھے سمجھا نہیں، اب مجھے کچھ حاصل ہوا ہے، لیکن شیخ کو پتا نہیں چلا، ہاں جی! تو یہ اس طرح ظاہر ہے، اس کے بارے میں پھر تھوڑی تھوڑی بہت اجتہاد انسان شروع کرلیتا ہے کہ چلو یہ تو میں خود کرلیتا ہوں، اتنا تو میں خود کرسکتا ہوں، اتنا تو میں خود کرسکتا ہوں۔ شیطان جو انتہائی درجہ بظاہر ایک غیر مضر قسم کا وسوسہ جو ڈالتا ہے، جس کا بہت بڑا نقصان ہے، وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ تم شیخ کو بتاؤ گے، تو شیخ کے کہنے سے کام کرو، خود اپنی مرضی سے کیوں نہیں کرتے ہو، اگر تجھے یہ پتا ہے کہ یہ غلط ہے، تو اس کو کیوں کہنا؟ کتنا غیر مضر ہے، بظاہر غیر مضر ہے، کوئی اس میں ضرر نہیں، کہتا ہے بھئی میں خود ٹھیک کرلوں گا ناں اس کو۔ ہاں جی! اس میں چال کیا ہے شیطان کی؟ اس میں چال شیطان کی یہ ہے کہ اگر یہ شیخ کو بتاتا رہا، تو شیخ اس کے لئے کچھ planning کرلے گا، اس کو ٹھیک کرنے کے لئے کچھ planning کرلے گا، جیسے وہی والی بات دعائیں شروع کیں، ہاں! تو اس سے کاٹنا چاہتا ہے۔ اب یہ بظاہر مخالفت شیخ نہیں ہے، لیکن حقیقت میں یہ بھی مخالفت شیخ ہے۔ ہاں جی! اپنے آپ کو شیخ سے مستغنی سمجھنا، یہ بھی مخالفت شیخ ہی ہے، کیونکہ آپ جیسے ڈاکٹر سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھ لیتے ہیں، تو جس طرح آپ کو بیماری میں نقصان ہوسکتا ہے، اس طرح روحانیات میں آپ شیخ سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھے گیں تو اس کا ادھر اس طرح نقصان ہوگا۔ تو یہ جو چیزیں ہیں، یہ مطلب یہ ہے کہ انسان کو خیال رکھنا چاہئے کہ اب اگر کسی کو یہ چیزیں clear ہوں، یہ conceptual چیزیں ہیں، تو ٹھیک ہے، پھر اپنی اپنی ہمت ہے، اپنی اپنی کوشش ہے، جتنا انسان حاصل کرسکتا ہے، لیکن concept تو صحیح ہوں گے ناں، لیکن اگر concept ہی غلط ہوں، تو پھر تو بڑا نقصان ہوسکتا ہے، ٹھیک ہے ناں؟ تو اس وجہ سے یہ چیزیں حضرت نے بہت مختصر انداز میں یہ بیان فرمائی ہیں۔ ہماری کتاب جو ’’ذبدۃ التصوف‘‘ ہے، یہ اصل میں اسی کی تشریح ہے، اس صفحے کی تشریح ہے۔ ہاں جی!

(15) ’’اَلصُّوْفِيُّ لَامَذْھَبَ لَہٗ‘‘ کا مطلب:

چونکہ صوفیائے کرام اخلاقِ الٰہیہ سے متخلّق ہوتے ہیں، ان میں رحم و کرم زیادہ ہوتا ہے، وہ مسلمانوں کے تمام مختلف فرقوں سے ہمدردی کا معاملہ کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا چاہتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر فرقہ ان کو اپنی جماعت میں داخل سمجھتا ہے اور اپنے سے الگ بھی۔ اپنے ساتھ ان کی ہمدردی و بے تعصّبی دیکھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے گویا الگ ہیں۔ اس لئے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا، ’’اَلصُّوْفِيُّ لَا مَذْھَبَ لَہٗ‘‘ یعنی صوفی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مگر تصوّف میں ایسا نہیں ہے۔ صوفیائے کرام کامل متّبعِ کتاب و سنّت ہوتے ہیں، مگر ان کی دعوت و تبلیغ کا وہ طریقہ نہیں ہوتا جو دوسروں کا ہوتا ہے۔ اس لئے صوفیاء کا فیض مسلمانوں تک محدود نہیں رہتا، کفّار بھی ان کے معتقد ہوجاتے ہیں، ان سے محبّت کرتے ہیں، جس سے بعض دفعہ ان کو اسلام کی طرف ہدایت ہوجاتی ہے۔ صوفیاء اطبّاءِ روحانی ہیں، پس جس طرح اطبّائے جسمانی کی طرف ہر فرقے اور جماعت کو میلان ہوتا ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، اسی طرح صوفیاء سے ہر فرقہ اور ہر جماعت کو میلان ہوتا ہے، اس پر بھی کسی کو اعتراض کا حق نہیں، بشرطیکہ وہ کتاب و سنّت پر پوری طرح عامل ہوں۔ اگر میلان کا منشا مداہنت فی الدین ہو تو ایسا شخص صوفیاء میں شمار نہیں ہوسکتا۔ مدارات اور شئ ہے، مداہنت اور۔ ان دونوں میں فرق نہ کرنا جہلِ عظیم ہے۔

سبحان اللہ! بہت بڑا علم ہے اس ملفوظ میں حضرت کے۔ ایک ملفوظ میں بہت بڑا علم ہے اور یہ conceptual چیز ہے، اس کو بھی سمجھنا چاہئے۔ صوفیاء کرام جو ہوتے ہیں، یہ اللہ جل شانہٗ کے اخلاق کو حاصل کرتے ہیں، تخلق باخلاق اللہ پر مطلب ان کا عمل ہوتا ہے۔ اب اللہ جل شانہٗ بھی سب کو یکساں طریقے سے دیکھتا ہے، ہاں! سب کو یکساں طریقے سے دیکھتا ہے، لہٰذا ان کے اندر بھی وسعت نظر آجاتی ہے، وسعت نظر آجاتی ہے، ان کی انانیت نہیں ہوتی، مطلب اس میں نفسانیت نہیں ہوتی، انانیت نہیں ہوتی، لہٰذا ہر شخص کے لئے خیر ہی کا سوچتے ہیں۔ اب اگر کوئی اس کے مخالف بھی ہے، تو اس کی مخالفت میں بھی وہ سمجھتا ہے کہ اچھا، یہ تو کوئی اچھی وجہ سے میرا مخالف ہوگا، کوئی اچھی بات کی وجہ سے میرا مخالف ہوگا، تو یہاں تک مطلب وہ وسعت دے دیتے ہیں۔ تو اب یہ جو بات ہوتی ہے کہ جب یہ ہر ایک کی رعایت کرنے لگتے ہیں، تو یہ رعایت گو کہ اللہ کے لئے ہوتی ہے، لیکن ہر ایک کو اپنے اپنے لئے نظر آتی ہے۔ تو اس وجہ سے ہر ایک۔۔۔۔ اس پہ یہ دھوکہ ہوجاتا ہے، سمجھتے ہیں کہ شاید یہ میرے ساتھ ہے۔ یہی بات مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھی، تو میں بہتر کے بہتر فرقوں کے ساتھ ہوں۔ تو اس پر لوگوں نے کہا کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی بھی جو ہے ناں مطلب مذہب پہ یقین نہیں رکھتا۔ حضرت کا جواب یہی تھا، جو حضرت نے ادھر دیا کہ اصل میں ہر فرقے کے ساتھ کوئی نہ کوئی سچ ہوتا ہے، وہ فرقہ exist ہی نہیں کرسکتا، جس کے پاس بالکل سچ نہ ہو، مثلاً دیکھو! وہ شیعوں کے ساتھ اہل بیت کی محبت، یہ بالکل ایک سچی چیز ہے۔ ہاں جی! اچھا، جو خوارج ہیں، ان کے ساتھ قرآن کی بات بالکل سچی ہے، مطلب ظاہر ہے اگر وہ کہتے ہیں، قرآن ہی ہدایت کی کتاب ہے، تو قرآن تو ہدایت کی کتاب ہے، یہ بات ان کی سچی ہے۔ ہاں جی! اس طریقے سے جو ناصبی ہیں، وہ اگر عام صحابہ کی کہتے ہیں، صحابہ کی محبت تو وہ صحابہ کی محبت تو ان کی سچی ہے۔ ہاں! اس طریقے سے وہ جو ہے ناں وہ جو دوسرے حضرات ہیں، کچھ اپنے اپنے رخ کے، وہ جو باتیں بتاتے ہیں، تو اصل میں ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ سچ تو ہوتا ہے۔ اہلحدیث حضرات کے ساتھ بھی حدیث شریف کی بات کرتے ہیں، تو یہ بات تو سچی ہے، ان سے تو کوئی اختلاف نہیں کرسکتا۔ اب یہ والی بات ہے کہ اگر ہر آدمی ان کی اس چیز کو دیکھے کہ بھئی! یہ ان میں ٹھیک ہے، یہ ان میں ٹھیک ہے، اور اس کی قدر کرے، تو وہ سب کی اچھائیوں کو جمع کرلے گا اپنے اندر، کیونکہ جس چیز کو آپ اچھا سمجھتے ہیں، وہ آپ کے اندر آجاتا ہے، ٹھیک ہے ناں، تو وہ سب کی اچھائیوں کو جمع کردے گا۔ دوسری طرف سارے لوگ کہیں گے کہ یہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہاں جی! تو حقیقت میں جامع ہے سب کا، لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے ساتھ ہے، ہر ایک سمجھتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہے، تو اس سے پھر بعض لوگوں نے کہا کہ صوفی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ بس آزاد لوگ۔۔۔۔ نہیں آزاد۔۔۔۔ سب سے زیادہ پابند یہی لوگ ہوتے ہیں، یہ آزاد ہوتے ہیں اپنے نفس سے، اللہ سے آزاد نہیں ہوتے۔ ایک ہوتا ہے اللہ سے آزاد ہونا اور ایک ہوتا ہے اپنے نفس سے آزاد ہونا، ان میں انانیت نہیں ہوتی، اپنے نفس سے آزاد ہوتے ہیں، اپنے نفس کی ان کے اوپر کوئی وہ نہیں ہوتا، لہٰذا ہم لوگ جو نفسانی طور پہ لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں، اوہ اس نے یہ کہا، اس نے میرے بارے میں یہ کہا۔ یہ جو ہمارے درمیان میں عناد اور کینہ آجاتا ہے، یہ اپنے نفس کے لئے آرہا ہے، اب اگر یہ ختم ہوگیا، تو مجھے، پھر میں ان کی کیوں مخالفت کروں؟ پھر تو اگر میں مخالفت کروں گا تو صرف اللہ کے لئے کروں گا۔ ہاں جی! تو یہی والی بات ہے، ورنہ صوفیاء کرام نے تو ماشاء اللہ! بڑے بڑے جہاد جو کیے ہیں، صوفیاء کرام نے کیے ہیں۔ اس وقت جہاد جو کررہے تھے اس کا مطلب کیا تھا؟ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا، میں کسی جگہ بیان کررہا تھا، ایک صاحب صوفیاء کا بڑا مخالف تھا، بیٹھا ہوا تھا، مجھے کہتا ہے کہ دیکھو! تاتاری جب مسلمانوں کے سروں کو کاٹ رہے تھے، اس وقت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کیا کررہے تھے! اعتراض کردیا، ہاں جی! میرا جب بیان پورا ہوگیا، میں نے کہا تجھے history کے ساتھ کچھ مناسبت بھی ہے آپ کو؟ آپ نے کچھ history پڑھی بھی ہے یا ویسے ہی کسی کے کہنے سننے سے آپ نے بات کردی؟ میں نے کہا چلو مجھے بتاؤ کہ تاتاری کس دور میں آئے تھے اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کس دور میں تھا؟ اب آپ کو یہ بھی پتا نہیں، درمیان میں اتنی بڑی موٹی بات کردی آپ نے، میں نے کہا چلو پھر میں ذرا آپ کو بتاتا ہوں، میں نے کہا آپ کے ہندوستان کو جو فتح کیا ہے، جن صوفیاء نے، مجھے بتاؤ تمہیں کیسے پتا چلا؟ میں نے کہا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء ان کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ کتنے خلفاء مغربی پاکستان میں مختلف جگہوں پہ شہید مدفون ہیں، تو آپ ویسے ہی شہید ہوگئے؟ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں ناں۔ ہاں جی! تو میں تو آپ کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خود شاہ رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی ظاہر ہے اس علاقے میں آئے تھے، وہ بھی جہاد کرتے ہوئے، جہاد کرتے تھے۔ تو اب یہ جو بات ہے، یہ جو لوگ بغیر کسی چیز کے جانے لوگوں کے پروپیگنڈے میں آکر ان کی مخالفت شروع کرلیتا ہے، صوفیاء کرام ہی نے آکر جہاد کیا ہے، کیونکہ انہوں نے صرف اللہ کے لئے کیا ہے، کسی اور کے لئے نہیں کیا، انہوں نے جب بھی جہاد کیا تو صرف اللہ کے لئے کیا، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ صوفی نہیں تھے، تو دوسری دفعہ جہاد کو زندہ ہی انہوں نے کیا، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ صوفی نہیں تھے، ہاں! تو ظاہر ہے مطلب انہوں نے تو اپنی جان بھی کٹوا دی۔ اس طریقے سے آپ اگر دیکھیں، تو یہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ، اب دیکھیں کیسے مرنجاں مرنج صوفی، وہ بھی انگریزوں کے خلاف لڑا ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ یہ تینوں انگریزوں کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے، پہلا گولہ جو چلا تو چونکہ ان چیزوں کے عادی نہیں تھے، تو حاجی صاحب بیہوش ہوگئے، ہاں جی! پھر اس کے بعد ماشاء اللہ! عادی ہوگئے اس کے ساتھ، پھر جس وقت حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ شہید ہوگئے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جو ہے ناں وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ کسی اور جگہ چلے گئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ تین دن تک قلعہ روپوش ہوئے تھے، پھر اس کے بعد باہر آئے، حالانکہ ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری تھا، ہاں جی! تو کسی نے کہا حضرت! وارنٹ گرفتاری واپس تو نہیں لیا گیا، انہوں نے کہا وہ تو میں صرف آپ ﷺ کی سنت پوری کرنے کے لئے تین دن روپوش تھا، غار ثور کی سنت پوری کرنے کے لئے، باقی مجھے وہ گرفتار نہیں کرسکتے۔ تو وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ مسجد میں ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے، تو انگریزوں کا آدمی آیا اور انہی سے پوچھا کہ مولانا قاسم (کیونکہ ہوتے عام لباس میں تھے، کوئی ان کو لباس سے نہیں پہچان سکتا کہ یہ مولوی ہے تو انہی سے پوچھا کہ مولانا قاسم) کدھر ہے؟ تو دو قدم پیچھے ہوگئے اور اپنی جگہ کی طرف اشارہ کیا ابھی تو ادھر ہی تھے، وہ سمجھے کہ چلے گئے، ایک دروازے سے وہ گئے، دوسرے دروازے سے حضرت چلے گئے۔ ہاں جی! حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے کہ حاجی صاحب بھی روپوش تھے، تو ایک نواب صاحب تھے، وہ ان کے مرید تھے، ان کے ہاں چلے گئے، وہ نواب صاحب کے انگریزوں کے ساتھ تعلقات بھی تھے، مطلب وہ لوگ تعلقات رکھتے تھے ناں نوابوں کے ساتھ، تو وہ جو ہے ناں وہ ادھر وہ آگئے، پہنچ گئے، ان کو CID ہوگئی تھی کہ وہ اصطبل میں ہیں، حضرت کو ٹھہرایا ہوا ہے، تاکہ اور لوگ نہ دیکھ سکیں ان کو، تو انہوں نے کہا کہ حضرت! سنا ہے آپ کے پاس بڑے اچھے گھوڑے ہیں اور ہم گھوڑوں کی تلاش میں ہیں اور بڑی زیادہ قیمت آپ کو دے دیں گے، اگر وہ گھوڑے ہمیں پسند آگئے، تو آپ ہمیں اپنے اصطبل کی جو ہے ناں وہ visit کرائیں، مقصود یہ تھا کہ کوئی درمیان میں۔۔۔۔ تو حضرت کی تو جان پہ ہوگئی، وہ نواب صاحب کی سوچ یہ تو میرے شیخ میرے گھر سے گرفتار ہوجائے گا، تو بہت مسئلہ ہوجائے گا، لیکن اب مرتا کیا نہ کرتا، انہوں نے کہا اگر میں کچھ کہتا ہوں تو پھر تو فوراً ہی مسئلہ ہوجانا تھا، بالکل ٹھیک ہے آپ visit کرلیں، حضرت کا مصلیٰ بچھا ہوا تھا، پانی وضو کا پڑا ہوا تھا، حضرت نہیں تھے، اصطبل کا پورا visit کیا، لیکن وہ نہیں، مطلب وہ نہیں تھے، تو انہوں نے پوچھا انگریز نے کہ یہ پانی کیوں پڑا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وضو کا پانی۔ تو انہوں نے کہا اصطبل میں لوگ نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے کہا بھئی! بات یہ ہے کہ نفل کے لئے بہتر جگہ تنہائی والی ہوتی ہے، آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے اگر کوئی یہاں نماز پڑھے؟ اتنی جگہ تو پاک ہے ناں، ہاں جی! تو انگریز لاجواب ہوگیا۔ ہاں جی! بہرحال اس نے شکریہ ادا کیا کہ آپ کو ہم نے تکلیف دی، لیکن آپ نے ہمارے ساتھ بڑی مہربانی کی ہے، ہمیں افسوس ہے کہ آپ کے گھوڑے ہمیں پسند نہیں آئے، بہرحال پھر کبھی visit کریں گے اور پھر معذرت کرتے ہوئے چلے گئے۔ جیسے وہ چلے گئے، تو دیکھا حاجی صاحب اپنے مصلیٰ پہ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ ان کو نظر ہی نہیں آئے، اللہ پاک نے ان کی آنکھوں پہ پردہ ڈال لیا، وہ اس کو نظر ہی نہیں آئے۔ تو ایسی باتیں تو ان حضرات کے ساتھ ہوتی رہتی تھی، کوئی مشکل بات نہیں تھی، لیکن ان پر یہ الزام لگانا کہ۔۔۔۔ وہ باقاعدہ ماشاء اللہ! وہ جہاد وہ جو ہے ناں وہ کرتے رہے ہیں۔ تو یہ میں آپ سے اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ صوفیاء کرام جو ہوتے ہیں، یہ اپنے نفس سے آزاد ہوتے ہیں، اللہ سے آزاد نہیں ہوتے، اللہ پاک کے تو سب سے زیادہ پابند ہوتے ہیں، لہٰذ زیادہ متبع سنت ہوتے ہیں اور متبع کتاب ہوتے ہیں، لیکن یہ بات ہوتی ہے کہ ان کے اندر نفسانیت نہیں ہوتی، لہٰذا خواہ مخواہ بلاوجہ تعصب نہیں رکھتے، صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رکھتے ہیں۔

(16) ابنِ منصور کی تواضع:

یہ ابن منصور وہی حلاج رحمۃ اللہ علیہ جو، جس نے ’’اَنَا الْحَقْ‘‘ کہا تھا، اس کے بارے میں بات ہورہی ہے۔

ابنِ منصور کا قول ہے کہ میں جو بڑے بڑے شدائد کا تحمّل کر لیتا ہوں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں، کیونکہ طبیعتِ انسانیہ ہر حالت میں عادی ہوجاتی ہے اور عادت کے بعد تحمّل آسان ہوجاتا ہے۔ مقصود تواضع ہے کہ میرا کوئی کمال نہیں، یہ تحمّلِ شدائد ہے۔

یعنی اپنے آپ کو گویا کہ پھر اس میں بھی چھپانے کی کوشش کی کہ اس میں میرا کمال نہیں ہے۔

(17) اللہ تعالیٰ کی محبّت کا طریقہ:

ابنِ منصور نے فرمایا کہ واجبات اور فرائض کو ادا کرتے رہو، اسی سے اللہ تعالیٰ کی محبّت تم کو حاصل ہوجائے گی۔

واجبات اور فرائض مطلب ان کو نہ چھوڑو۔

(18) نفس کی نگہداشت کا طریقہ:

ابنِ منصور نے فرمایا کہ اپنے نفس کی نگہداشت رکھو۔ اگر تم اسے حق کی یاد اور اطاعت میں نہ لگاؤ تو وہ اپنے شغل میں لگا دے گا یعنی شہوت میں پھنسا دے گا۔

یعنی اس کو busy رکھو۔ وہ جیسے کوئی بڑا ہی شریر بچہ ہوتا ہے ناں، تو اس کا ایک ہی حل ہوتا ہے کہ اس کو busy رکھا جائے، ذرا بھر میں آپ نے اس کو relax کردیا، تو اس نے کوئی نہ کوئی شرارت کردی، ہاں جی! تو اسی طریقے سے جو ہمارا نفس ہے، یہ بھی بہت شرارتی ہے، تو اس کو busy رکھو گے، تو یہ چھوٹیں گی، ورنہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی مصیبت میں پھنسا دے گا۔

(19) حسین ابنِ منصور نے فرمایا کہ اولین و آخرین کے علوم کا خلاصہ چار باتیں ہیں:

(1) ربِّ جلیل کی محبّت۔ سبحان اللہ! ربِّ جلیل کی محبّت۔ (2) متاعِ قلیل، یعنی دنیا سے نفرت۔ نمبر (3) کتابِ منزّل کا اتّباع، یعنی قرآن پاک کا اتباع، (4) تغیّراتِ حال کا خوف، یعنی کہیں میری حالت negative side پہ نہ چلنے لگے، مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی محبت، دنیا سے نفرت، کتاب اللہ کا اتباع اور اپنی جو اچھی حالت ہے، اس کے زائل ہونے کا اندیشہ، ہاں جی! اس کا جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اس سے انسان کو ساری چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں۔

(20) حضرت مولانا رشید احمد صاحب قدّس سرّہٗ کا منصور کے بارے میں فتوٰی:

منصور معذور تھے، بے ہوش ہوگئے تھے، اس پر کفر کا فتوٰی دینا بے جا ہے، ان کے بارے میں سکوت افضل ہے، اس وقت رفعِ فتنہ کی غرض سے اس کا قتل کرنا ضروری تھا۔

کیونکہ لوگ ان تمام details کو نہیں جانتے۔ یہ جو ہوتا ہے ناں، یہ ایک سرمد رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں، تو اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو سمجھایا، لیکن وہ اب مدہوش تھے، وہ سمجھ نہیں سکے ان کی بات، تو اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو قتل کروا دیا، تو اس کے بعد ان کے وزیراعظم نے کہا کہ حضرت قتل کے لائق تو نہیں تھے، چلو فہمائش کرلیتے، لیکن قتل کے لائق تو نہیں تھے، فرمایا: خفتہ بِہ، سویا ہوا اچھا ہے یعنی ان کا جاگنا مناسب نہیں تھا، اس سے جو ہے ناں مسئلہ پڑ رہا تھا شریعت کے متعلق۔ مطلب وہ اصل میں بات یہ ہے کہ بہت ساری باتیں شریعت کی عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوتی، لہٰذا وہ confuse ہوجاتے ہیں، تو اب اتنے سارے لوگوں کو بچانے کے لئے اگر ایک شخص چلا جائے، تو ٹھیک ہے وہ شہید ہوجائے گا، باقی بچ جائیں گے، ہاں جی! تو ایسی صورت میں پھر یہ کرنا پڑتا ہے اور یہ وقت کے علماء کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ تھے حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، ان کو سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کہتے، یہ سماع سنتے تھے اور قاضی صاحب سلام الدین رحمۃ اللہ علیہ وہ اس کے سخت مخالف تھے، تو وہ حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی بدعتی کہتے تھے، یہ بدعتی ہے، تو ہوا یہ کہ ایک دفعہ جو تھے سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ یہ سماع سن رہے تھے اور جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ خیمے کی جو طنابیں تھیں، وہ آکر جو ہے ناں، چونکہ یہ محتسب تھے، محتسب اعلیٰ تھے، تو اپنے ساتھ وہ فورس کو لے آئے تھے اور ان سے کہا کہ خیمے کی طنابیں کاٹو، مطلب یہ ہے کہ کاٹو تو شامیانے ان کے گر جائیں گے، تو انہوں نے خیمے کی طنابیں کاٹیں، خیمہ ہوا میں معلق ہوگیا، وہ نہیں گرا، تو جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ یہ حضرت قاضی صاحب نے فرمایا یہ بدعتی کا استدراج ہے، چلو اب چلتے ہیں بعد میں دیکھیں گے، یعنی اس بات کے لئے کہ کہیں لوگوں کا غلط concept۔۔۔۔ تو کہا کہ یہ بدعتی کا استدراج ہے، چلو چلتے ہیں بعد میں دیکھیں گے، وہ چلے گئے۔ ایک دفعہ وہاں مجلس میں بیٹھے ہوئے، حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کو وجد آیا کسی بات سے، تو اس پر جو ہے ناں وہ حضرت قاضی صاحب اٹھے اور ان کو بٹھا دیا، پھر دوبارہ ان کو وجد آیا، پھر دوبارہ ان کو بٹھایا، بیٹھیں، تیسری دفعہ جب حضرت اٹھے، تو ان کے سامنے دو زانو کھڑے ہوگئے بہت ادب کے ساتھ، بعد میں جو ہے ناں مطلب ساتھیوں نے ان سے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ پہلی دفعہ بھی آپ نے بٹھایا، دوسری دفعہ بھی آپ نے بٹھایا، تیسری دفعہ آپ ان کے سامنے باادب کھڑے ہوگئے، یہ کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا اصل میں پہلے وجد میں جب آیا تھا، تو سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ وہ تو چلے گئے آسمان پہ، اتنی پرواز میری بھی تھی تو وہاں سے واپس لے آیا، ٹھیک ہے، کہتے ہیں کہ اس کے بعد جو ہے ناں وہ دوسری دفعہ جو گئے، تو عرش کے نیچے پہنچے، تو اتنی پرواز میری بھی تھی، تو میں اس کو واپس لے آیا، تیسری دفعہ عرش کے اوپر چلے گئے، یہاں میری پرواز نہیں تھی، مجھے فرشتوں نے روک دیا، تو جب روک دیا، تو میں نے ان کے سامنے عرش کے انوارات مجھے نظر آگئے، تو میں ان کے سامنے باادب کھڑا ہوگیا۔ میں ان کے سامنے باادب تو نہیں کھڑا تھا، میں تو عرش کے انوارات کے سامنے۔۔۔۔ اب دیکھیں! اپنی بات پھر بھی نہیں چھوڑ رہا۔ آخر وقت ایسا ہوا کہ ان کا جو ہے حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، یہ قاضی صاحب کا آخری وقت قریب تھا، مطلب بیمار تھے، آخری وقت گویا کہ نزع شروع ہونے والا تھا، سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، دروازہ کھٹکھٹایا، خادم سے کہلوایا کون؟ انہوں نے کہا جی وہ سلطان جی، ان سے کہو بھئی! اس وقت میں نہیں ملنا چاہتا، کسی بدعتی کا چہرہ میں نہیں دیکھنا چاہتا، میرا آخری وقت ہے، میں کسی بدعتی کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا، تو سلطان جی نے کہا کہ ان سے کہہ دو کہ توبہ کرکے آیا ہے، ہاں جی! تو انہوں نے کہا کہ اچھا، پھر ٹھیک ہے، پھر تو ضرور آجائے، پھر ضرور آجائے، تو پھر اپنی پگڑی جو ہے، وہ کھلوا کر اس طرح راستے میں رکھ دی کہ ان کے اوپر پیر رکھتے ہوئے آجائے۔ ہاں جی! تو وہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ انہوں نے وہ پگڑی ساری اٹھا کے اپنے سر پہ رکھ دی، یہ تو دستار شریعت ہے، میں اس پہ پیر کیسے رکھ سکتا ہوں، ہاں جی! پھر جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ وہ سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس چلے گئے، تو انہوں نے کہا کہ میرا آخری وقت ہے، کچھ توجہ فرمائیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کا تعلق مجھے نصیب ہوجائے، اس وقت حضرت نے ان پہ توجہ فرمائی اور ماشاء اللہ! ہشاش بشاش دنیا سے چلے گئے۔

اب ان کی محبت کیسی، مخالفت کیسی اللہ کے لئے تھی، نظر آتا ہے ناں کہ اس میں نفسانیت تو نہیں تھی، دونوں طرف للّٰہیت تھی، ان کی طرف احتساب کے لئے للّٰہیت تھی، ان کی طرف محبت کی للّٰہیت تھی، دونوں طرف للّٰہیت تھی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ان کی باتیں سمجھنا بڑا مشکل ہوتا ہے، اگر کوئی ان کو سمجھنا چاہے، تو آسان نہیں ہوتا، اس وجہ سے بعض دفعہ resection جو ہے ناں وہ کرنا پڑتا ہے، ہاں! یہ نہیں کہ مطلب یہ ہے کہ ان کو غلط سمجھا جاتا ہے۔

(21) حضرت اقدس حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ کا فتوٰی:

میری رائے ابنِ منصور کے متعلّق یہ ہے کہ وہ اہلِ باطل میں تو نہیں اور ایسے اقوال، احوال جن سے ان کے صاحب باطل ہونے کا وہم ہوتا ہے، وہ میرے نزدیک مؤوَّل ہیں یا قبلِ دخول فی الطریق حالات ہوں، مگر اس کے ساتھ ہی کاملین میں سے نہیں تھے، مغلوب الحال تھے، اس لئے معذور ہیں۔

مطلب کمال تو یہ ہے کہ حال کے اوپر غالب ہوجائے، لیکن چونکہ حال کے اوپر غالب نہیں ہوسکے، لہٰذا معذور تو تھے، لیکن کامل بھی نہیں تھے۔

(22) وحدةُ الوجود کی اجمالی حقیقت کیا ہے:

یہ کہ ممکنات کا وجود نظر سے غائب ہوجائے، یہ نہیں کہ ممکنات کو خدا مان لیا جائے۔

ہاں جی! یہ بعض لوگ کہتے ہیں ناں کہ وحدت الوجود میں سے تو لوگ ہر ایک چیز کو خدا مانتے ہیں، مطلب ہر چیز کو گویا کہ خدا سمجھ لیتے ہیں، نہیں، کثرت الوجود وہ چیز تو نہیں، وحدت الوجود ہے۔ علامہ اقبال نے جو ہے ناں ایک شعر میں اس کو بہت آسانی کے ساتھ بیان کیا ہے، اور وہ ہے کہ؎

اک آن میں مٹ جائیں گی کثرت نمایاں

جب آئینے کے سامنے ہم آکے ھو کریں


جب آئینے کے سامنے ہم آکے ھو کریں

اک آن میں مٹ جائیں گی کثرت نمایاں

جب آئینے کے سامنے ہم آکے ھو کریں

اس میں حضرت نے بہت مشکل مضمون کو انتہائی آسان لفظوں میں وہ بیان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز سے ہمیں ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ناں، تو یہ چیز ختم ہوجائے گی اور سب کچھ ایک سے ہوتا ہوا نظر آنے لگے گا، جس وقت ہم کسی شیخ کے سامنے آکر اللہ کی طرف توجہ کریں ’’ھو‘‘ کریں، ’’ھو‘‘ کا مطلب کیا، اللہ کی طرف اشارہ ہے، جب آئینے، آئینے سے مراد شیخ ہے، جب شیخ کے سامنے آکر ہم اللہ کی طرف توجہ کریں گے تو ساری چیزیں جو ہیں ناں، مطلب ہماری بدل جائیں گی، ہمیں مختلف چیزوں سے ہوتا ہوا جو نظر آرہا ہے، یہ ایک سے ہوتا ہوا نظر آنا شروع ہوجائے، یہ وحدت الوجود ہے۔ ہاں جی!

(23) احوال و کیفیات کے آثار:

ابنِ منصور نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السّلام احوال و کیفیات پر غالب ہوتے ہیں اور ان کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ احوال و کیفیات کو پلٹ دیتے ہیں، احوال ان کو پلٹ نہیں سکتے۔ انبیاء کے سوا دوسروں کی شان ہے کہ ان پر احوال و کیفیات کی سلطنت ہوتی ہے، احوال ان کو پلٹ دیتے ہیں اور وہ احوال کو نہیں پلٹ سکتے۔ اسی طرح اولیاء میں جو کامل متّبعِ سنّت ہوتے ہیں، وہ بھی انبیاء علیہم السّلام کی طرح احوال پر غالب ہوتے ہیں، مگر درجۂ کمال تک پہنچنے سے پہلے احوال و کیفیات ہی غالب رہتی ہیں۔

یہ اختلاف تھا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو ابن منصور کے ساتھ۔ حضرت فرماتے تم یہ کرسکتے ہو اور یہ اپنے آپ کو معذور سمجھتے، یہ میں نہیں کرسکتا، وہ ان کو کہتے کہ نہیں، تم یہ احوال کے اوپر غالب ہوسکتے ہو، لیکن وہ اپنے آپ کو معذور سمجھتے۔۔۔۔ ہاں جی! تو بس یہی جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، پھر تمھیں سولی پہ چڑھنا ہوگا، اگر تم غالب نہیں ہوسکتے، تو تمھیں سولی پہ چڑھنا ہوگا۔

(24) ابنِ منصور سے غلبۂ حال کے وقت یہ کلمہ ’’أَنَا الْحَقُّ‘‘ بے ساختہ نکل جاتا تھا، انہوں نے تو معنٰی بھی بتا دیا کہ اپنی ہستی کا دعوٰی نہیں، بلکہ فنا کا اظہار ہے کہ ایک کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں، خود اپنی ہستی بھی کچھ نہیں۔

ہاں جی! یعنی میں بھی حق کا مظہر ہوں، میں بھی کچھ نہیں، ’’اَنَا الْحَقْ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ میں خدا ہوں۔ ٹھیک ہے ناں۔

دل ہو وہ جس میں کچھ نہ ہو جلوۂ یار کے سوا

میری نظر میں خار بھی جامِ جہاں سے کم نہیں

(25) فرمایا کہ اولیاء فانی صفت ہوتے ہیں یعنی ان میں نہ رنج اثر کرتا ہے، نہ راحت، مطلب یہ کہ وصول کے بعد مجاہدہ مجاہدہ نہیں رہتا، بلکہ غذا بن جاتا ہے۔ تمہارے نزدیک ہزار رکعت پڑھنا مجاہدہ ہے اور میرے نزدیک یہ نہیں ہے، کیونکہ یادِ محبوب میری غذا بن گئی ہے، میرے نزدیک جیل خانے اور خَس خانہ برابر ہے، کیونکہ اپنی صفات کا فنا اور صفاتِ محبوب کا مشاہدہ مجھے ہر جگہ حاصل ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جس کو ہم مجاہدہ کہتے ہیں، یہ اس وقت تک ہے، جب تک نفس مزاحمت کرتا ہے، جب نفس مزاحمت کرنا چھوڑ دے اور اس کے ساتھ ہوجائے، تو پھر تو مجاہدہ نہیں رہا ناں، پھر تو مجاہدہ نہیں رہا، ہاں! پھر تو مشاہدہ بن گیا، ہاں جی! تو یہی چیز ہوتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں جو یہ کرتا ہوں، تو میری تو یہ غذا بن گئی ہے، لہٰذا اس پر جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد پھر اثر نہیں کرتا انسان۔

(26) ترکِ تقلید:

حسین ابن منصور کی عمر جب پچاس برس کی ہوئی، فرمایا کہ اب تک میں نے مذاہبِ مجتہدین میں سے کوئی مذہب اختیار نہیں کیا، بلکہ جملہ مذاہب میں سے دشوار تر کو اختیار کیا ہے کہ ’’خُرُوْج مِنَ الْاخِتلَافِ‘‘ احوط ہے، اور ایسی ترکِ تقلید بالاتّفاق مذموم نہیں۔ ترکِ تقلید وہ مذموم ہے، جس کا منشا اتّباعِ رُخص ہے۔ اور اب کہ میری عمر پچاس سال کی ہے، ایک ہزار سال کی نمازیں پڑھ چکا ہوں اور ہر نماز غسل کرکے پڑھی ہے، وضو پر اکتفاء نہیں کیا۔

اب تھوڑا سا آپ غور فرمائیں، اس کے اندر جو سب سے بڑا باریک نقطہ ہے، وہ یہ ہے، ان کے بارے میں آپ حضرات نے یہ باتیں سنی، اس سے پتا چلا کہ ان کے احوال بڑے اونچے تھے، بڑا مجاہدہ کیا، بہت اعمال کیے، لیکن کامل نہیں تھے، سب یہی کہہ رہے ہیں ناں کامل نہیں تھے، معذور تھے۔ تو اب یہ بتائیں کہ کامل نہ ہوسکے، اس کی وجہ کیا تھی؟ مطلب یہ یعنی بظاہر اتنے تمام مجاہدات کے ساتھ بھی کامل نہ ہوسکے، تو آخر کیا وجہ تھی؟ تو اس کے اندر ایک ہی نقطہ سامنے آتا۔۔۔۔ اور وہ یہ ہے کہ اپنے شیخ میں فنا نہیں ہوسکے، ہاں جی! اگر اپنے شیخ میں فنا ہوجاتے، انہوں نے ایک step cross کرلیا، جلدی اللہ میں فانی ہونا شروع کیا، اس step کو چھوڑ دیا تھا، بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں آرہی؟ تو جب اپنی مرضی سے ایک step bypass کرلیا، تو نقصان کتنا ہوا، بہت بڑا نقصان ہوا ناں۔ یہ جو چیز ہے، اس کو سمجھنا چاہئے کہ شیخ کو bypass کرنا یہ آسان بات نہیں ہوتی، اس سے انسان کو بہت زیادہ نقصان ہوجاتا ہے۔ اب دیکھیں باوجود تمام مجاہدات کے، تمام جتنے یعنی آپ دیکھیں کہ پچاس برس کے بعد وہ بتا رہا ہے کہ میں نے ہزار سال کی نمازیں پڑھی ہیں، اب کتنی نمازیں پڑھی ہیں، پھر ہر نماز کے لئے وضو نہیں، بلکہ غسل کیا ہے، تو مجاہدہ تو بہت کیا ہے، لیکن شیخ کا اتباع نہیں کرسکے، شیخ کا اتباع نہیں کرسکے، اس کا نقصان یہ ہوگیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بہت گُر کی بات ہے، اس کو پلے باندھنا چاہئے، ہاں! کہ شیخ اگر کہہ دے کہ بالکل سارے نوافل چھوڑ دو، تو اسی میں فائدہ ہوگا، وہ کچھ دیکھ کے کہہ رہا ہوگا، ہاں! وہ کچھ دیکھ کے کہہ رہا۔ اب اس وقت ایک آدمی کہتا ہے شیخ مجھے سارے نوافل چھڑوانے کے لئے کہہ رہا ہے، یہ کیا بات ہوگئی، یہ تو مجھے degrade کررہا ہے، بس یہ جو خیال آگیا، یہ شیطانی خیال ہے، اب مسئلہ دوبارہ نئے سرے کے اوپر ہوجائے گا۔ ہاں جی! یہ جو چیز ہے، آپ نے شیخ کے اوپر جب اتنا اعتماد کرلیا کہ یہ میرا شیخ ہے، اب جو ہے ناں اپنے آپ کو ان کے حوالے کرلو، فرائض، واجبات میں ان کی بات نہ مانو، کیونکہ وہ اللہ کا براہ راست حکم ہے، فرائض و واجبات تو نہ آپ سے وہ چھڑا سکتے ہیں، نہ جو ہے ناں مطلب آپ چھوڑ سکتے ہیں، لیکن نوافل سارے کے سارے چھڑا سکتے ہیں۔ آخر بیوی جو ہے یہ اس کے لئے یہ حکم نہیں ہے کہ اگر میاں اس کو نفلی روزے سے منع کردے، تو نہ رکھے، تو آخر شوہر بھی تو ایک انسان ہی ہے ناں، تو اس کے لئے اگر شرعی اجازت ہے، ہاں! تو ظاہر ہے مطلب شیخ کے لئے بھی یہ بات ہے کہ وہ جو ہے ناں دیکھتا ہے کہ اس سے، اس کو کہیں بزرگی نہ چڑھے، اب بزرگی سے بچانے کے لئے جس سے اس کا روحانی نقصان بہت ہورہا ہے، اب اس کی چند نفلوں کا ثواب ان سے رہ جائے اور ثواب اس کو مل بھی جائے، کیونکہ پڑھنا تو چاہتے ہیں، شیخ نے رکوا دیا ہے، تو ثواب تو اس کو نیت سے مل جائے گا، لیکن یہ والی بات ہے کہ شیخ کو بھی نقصان نہیں، بلکہ اس کو فائدہ ہے، کیونکہ اس کا علاج کررہا ہے۔ ہاں! تو یہ بنیادی بات ہوگئی کہ بعض دفعہ شیخ کہتا ہے کہ بھئی! یہ کام نہ کرو، وہ سمجھتا ہے کہ بھئی یہ تو بہت اونچا کام ہے۔ میں اکثر ایک بات کرتا ہوں کہ دیکھو! مشائخ کے پاس لوگ جاتے ہیں، تو جیسے ٹینک، ٹینک کے ساتھ نل ہے، نل کے ساتھ ٹب ہے، اب ٹینک میں پانی نہیں ہوگا، تو نل میں کہاں سے آئے گا اور نل سے پانی نہیں آئے گا، تو ٹب میں کہاں سے آئے گا، لیکن آپ کو ملے گا تو بے شک ٹینک میں سارا full ہے، ملے گا تو ٹب سے ہی، ملے گا تو ٹب سے ہی ناں، آپ تو ٹب ہی ساتھ attach ہیں ناں، اب یہ جو ٹب ہے، جتنا زیادہ کھولیں گے، اتنا زیادہ پانی ملے گا، جتنا کم کھولیں گے، آپ کو کم ملے گا، یہی بات ہے ناں۔ تو اب یہ جو بات ہے یہ جو نل ہے، یہ سلسلہ ہے اور ٹینک اللہ پاک کی معرفت کا خزانہ ہے اور ٹب جو ہے ناں یہ کیا ہے؟ یہ شیخ ہے۔ اب بے شک زیادہ کھولو، کم کھولو۔ اگر شیخ کے اوپر انسان کا زیادہ اعتقاد ہو، اس کو زیادہ ملے گا، کم اعتقاد ہوگا، تو کم ملے گا۔ اس لئے مشائخ فرماتے ہیں، علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے شیخ کو قطب وقت سمجھتا ہو اور وہ ہو نہیں، اس شخص کو جو اس کو قطب وقت سمجھ رہا ہے، اس کو قطب وقت کا فیض ملے گا، کیونکہ دینے والا خدا ہے، وہ نہیں ہے، اس کے لئے تو فقط ایک ذریعہ ہے۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں۔ یہ بات جتنا آپ اپنا imagination ان کے بارے میں بڑھائیں گے، اتنا آپ کو زیادہ مل جائے گا۔ تو یہ والی بات جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ شیخ کے اندر فانی ہونے سے انسان کی بڑی بچت ہوجاتی ہے، ورنہ میں کہتا ہوں ابن منصور رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہمارے لئے بہت بڑی جو ہے ناں عبرت موجود ہے، بہت بڑی عبرت موجود ہے۔ ہاں جی! فرماتے ہیں

(27) توکّلِ متعارف کا حال عدمِ اہتمامِ غذا ہے کہ اس چیز کی حرص نہ کرے، اللہ پر نظر رکھے، جو وہاں سے عطا ہو جائے لے لے۔

اب ان ساری باتوں پہ عمل ہم کرسکتے ہیں، بس صرف ان کی ایک بات پہ عمل نہیں کرسکتے، اس سے اپنے آپ کو بچائیں، پھر ساری باتوں پہ عمل کرلیں، تو ماشاء اللہ! نورٌ علیٰ نور سب کچھ مل جائے گا۔

(28) فرمایا کہ فانی فی التّوحید ہوجاؤ، مشاہدۂ حق سے توکّل بھی کامل ہوجائے گا۔

(29) اپنے اعمال پر نظر نہ کرو:

فرمایا کہ اپنے اعمال پر نظر نہ کرو، اعمال کو مُوصِل نہ سمجھو، کیونکہ وصول وہبی ہے کسبی نہیں ہے، گو عادتاً کسبی ہی پر مرتّب ہوتا ہے، مگر ترتیب یہ ہے کہ اپنے اعمال کو کامل نہ سمجھے، جب تک اعمال پر نظر رہے گی، وصول میسّر نہیں ہوگا۔

ہاں جی! جب تک اعمال پر نظر رہے گی کہ میرے اعمال اس قابل ہیں، بلکہ میں کہتا ہوں جس نے کہا میرے اعمال اس قابل ہیں، اس نے اپنے اعمال کو ناقابل بنا دیا، یہی چیز اس کے ناقابل ہونے کے لئے کافی ہے۔ جس نے کہہ دیا کہ میرے اعمال اس قابل ہیں۔ کیوں وجہ کیا ہے؟ بھئی! بات یہ ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قبولیت سے ہی ہوتا ہے، ورنہ ہمارے اعمال کے اندر تو اتنے سوراخ ہیں کہ سارا کچھ نکل جاتا ہے، کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ ہاں جی! وہ کیا کہتے ہیں؟ چھلنی، چھلنی سے پانی بھرنا، کیسے آئے گا، ہاں جی! کوئی چھلنی سے پانی بھرنا شروع کرلے، بھر سکتا ہے؟ بس ہمارے اعمال تو چھلنی ہیں، ہاں جی! ہم ایک طرف سے کما رہے ہیں، دوسری طرف سے ضائع کررہے ہوتے ہیں، ایک طرف سے کما رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف سے ضائع کررہے ہوتے ہیں، تو ہمارے اعمال کی قیمت کیسے لگے گی؟ کچھ بچے گا ہی نہیں، وہ اس صورت میں کچھ ملے گا، جب اللہ چاہے گا، تو ہوگیا اللہ پاک کے فضل پر ہی ہوگیا ناں، اللہ کے فضل پر ہوگیا۔ اب اگر کوئی کہتا ہے اپنے اعمال کو کامل، تو اس کی ایک تو ہوگئی علمی غلطی کہ وہ اپنے اعمال کے نقص کو نہیں جانتا، ہاں جی! اپنے اعمال کے نقص کو نہیں جانتا اور دوسری یہ بات ہے کہ اس کی حالی غلطی ہے کہ اس کا رخ اللہ کی طرف نہیں ہے، ورنہ اللہ کی عظمت کے سامنے اپنے آپ کو شرمندہ پاتا، ہاں جی! کہ جس شخص کا رخ اللہ کی طرف ہو، اس کو اپنے اعمال نظر ہی نہیں آسکتے، اپنا آپ نظر نہیں آئے گا تو اعمال کدھر نظر آئیں گے؟ بالکل ظاہر ہے، مطلب اس کو ہر چیز اس کی نظر آئے گی اور حقیقتاً میں ہے بھی اس کی۔ وہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میرے جتنے بال ہیں، اتنے منہ ہوجائیں اور ہر منہ میں ستر زبانیں ہوجائیں اور ہر زبان پہ میں اللہ پاک کی حمد بیان کروں، تو میں اس کا شکر کیسے ادا کروں گا کہ اللہ پاک نے اتنی زبانیں دی ہیں، اس کا شکر کیسے ادا کروں گا؟ آپ جو بھی کررہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے کررہے ہیں ناں، اللہ پاک ہی۔۔۔۔ ورنہ اللہ پاک آپ کو نہ کرنے دے، تو تم کرکے دکھاؤ، ہاں جی! اس وقت شکر اَلْحَمْدُ للہ! کہ ہم مسلمان ہے، اللہ کا شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کی مدد نہ ہوتی، تو ایمان پہ قائم رہنا مشکل، ممکن نہیں، ایمان بچانا مشکل ہے، اعمال تو بڑے دور کی بات ہے۔ ہاں جی! اعمال تو بڑے دور کی بات ہے، ایمان بچانا مشکل ہے۔ تو یہ چیز ہے کہ وہ شیخ عبداللہ اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایسا ہوا تھا ناں کہ اس نے کسی کافر کو ظاہر ہے مطلب استہزاءً دیکھا تھا کہ بھئی یہ کیا عجیب حرکت کررہے ہیں؟ تو اندر سے آواز آئی اچھا تو سمجھتا ہے کہ یہ تو کررہا ہے، چلو اب کرکے دکھاؤ ہاں جی! کرکے دکھاؤ، تو اس کو محسوس ہوا جیسے اس کے سینے سے منہ کے راستے سے کوئی چیز نکل گئی، ہاں جی! بس اس کے بعد تھوڑی دور گیا تھا کہ ایک لڑکی نظر آئی عیسائی، اس پہ عاشق ہوگئے، اب جو ہے ناں باقی حضرات نے کہا کہ حضرت! چلتے ہیں، انہوں نے کہا بس اب میں آپ کے کام کا نہیں رہا، مجھے یہیں چھوڑ دو، انہوں نے کہا کیا کہتے ہو؟ بس مجھے یہیں چھوڑ دو، اب میں تمھارے کام کا نہیں رہا، ہاں جی! پھر اس کے بعد اس لڑکی کے گھر پیغام دے دیا، انہوں نے کہا کہ بھئی! اس صورت میں ہے کہ تم عیسائی ہوجاؤ اور دوسری بات ہے کہ دس سال تک سور چراؤ ہمارے، اس کے بعد پھر ہم آپ کی شادی کروا دیں گے، یہ عیسائی ہوگیا اور ان کے سور چرانے لگا، ہاں جی! شبلی رحمۃ اللہ علیہ کو جب پتا چل گیا ادھر جا کے، بڑے غصے ہوئے اور انہوں نے جلدی جلدی آئے اور جو ہے ناں مطلب وہاں پہنچ گئے، ان سے ملاقات ہوئی، ان کے ہم عصر تھے، انہوں نے کہا کہ حضرت آپ کو قرآن یاد تھا، اس میں سے کچھ حصہ یاد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اتنا یاد ہے کہ جو دین سے نکل جائے تو ﴿فَاقْتُلُوْا ہاں جی! تو اس کو قتل کردو، ہاں جی! تو انہوں نے کہا آپ کو حدیث شریف یاد تھیں، انہوں نے کہا کہ ایک حدیث یاد ہے کہ مرتد کو قتل کردو۔ بس صرف یہ مطلب selected یاد رہتا تھا، ہاں جی! ہر چیز جو اس کے خلاف ہوتی تھی، تو انہوں نے کہا حضرت! یہ بات کیسے ہوگئی؟ آپ کس طرح یہ حالت کیسے ہوگئی؟ اس سے اس کو ایک جھٹکا سا لگا، تو یہ جھٹکا لگا، انہوں نے کہا کہ بس میری شامت اور پھر آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا یا اللہ! میں تیرے بارے میں ایسا نہیں سوچتا تھا۔ تو ساتھ جو سور تھے وہ بھی رونے لگ گئے، چیخ و پکار شروع ہوگئی، پھر دیکھیں! کہ شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ تو مایوس ہوکے چلے گئے، تو راستے میں نہر آرہی ہے، دیکھا کہ وہ حضرت جو ہے ناں وہ اس نہر سے نہا کے نکل رہے ہیں اور

’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُهٗ‘‘ یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ پڑھ رہے ہیں کلمہ، اللہ پاک نے پھر ایمان نصیب فرما دیا، پھر اللہ پاک نے دوبارہ وہ سارا مقام بھی نصیب فرما دیا جو اللہ پاک نے اس کو پہلے دیا تھا، پھر یہ بعد میں شیخ بن گئے، پھر وہ لڑکی جو تھی بڑی بے تاب ہوگئی، اب اللہ پاک کی طرف سے وہ تھا امتحان تھا ناں، تو تھے تو اللہ کے محبوب، وہ لڑکی بڑی بے تاب ہوگئی، وہ جو ہے ناں، وہ اپنے گھر سے بھاگ کے جو ہے ناں وہاں پہنچ گئی، وہاں پہنچ گئی، تو حضرت کے ہاں پہنچ گئی، پھر اس نے مطلب یہ ہے کہ پردہ میں اس سے بات کی، اس کو مسلمان کردیا، اس کو ایک علیحدہ کمرہ دے دیا، علیحدہ کمرہ دے دیا کہ وہاں پر رہو، پھر اللہ پاک نے مطلب وہ بیمار ہوگئی، بہت زیادہ بیمار ہوگئی، کیوںکہ مجاہدات اور ریاضتیں بہت کررہی تھی اور پھر تھوڑے دنوں میں فوت ہوگئی، بس یہ فوت ہوگئی، کچھ دنوں کے بعد پھر حضرت فوت ہوگئے، تو پھر کسی نے خواب میں دیکھا کہ ماشاء اللہ! دونوں جنت میں اکٹھے۔۔۔۔ اللہ پاک نے ان کو اکٹھا کردیا۔ تو یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کی بات کرتا ہے، ایمان، کہتے ہیں اپنے ایمان کی خیر مناؤ، اعمال تو دور کی بات ہے۔

(30) عارف ہر وقت مشاہدۂ حق میں رہتا ہے:

فرمایا کہ عارف کی شان یہ ہے کہ عارف ہر وقت مشاہدۂ حق میں رہتا ہے، واردات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، بلکہ تفویضِ کُلّی کردیتا ہے۔ اگر کسی وارِد کا حق ادا کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے، تو کروا دیتا ہے، ورنہ نہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ پہ بھروسہ ہر وقت کرتا رہتا ہے، اسی میں مستغرق رہتا ہے۔

(31) فرمایا کہ محبوب کے عتاب سے بھاگنا محبّت و عشق کے خلاف ہے ؎

نہ شود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت

سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

(فرمایا کہ دشمن کو یہ نصیب نہ ہو کہ تیری تلوار سے ہلاک ہوجائے، دوستوں کا سر سلامت رہے کہ تو اس پر خنجر آزماتا رہے)

چنانچہ جس شخص نے حسین بن منصور کے تازیانے مارے تھے، اس نے بیان کیا کہ ہر تازیانے پر غیب سے فصیح اور صاف آواز میں سنتا تھا کہ کوئی کہتا ہے کہ ’’یَا ابْنَ مَنْصُوْرٍ! لَا تَخَفْ، ھٰذَا مِعْرَاجُ الصَّادِقِیْنَ‘‘۔

(اس پہ مطلب گھبراؤ نہیں، یہ تو صادقین کی معراج ہے)

(32) ابنِ منصور جب سولی پر چڑھا دیئے گئے، تو ان کے مریدوں نے پوچھا ہمارے بارے میں کہ آپ کے ماننے والے ہیں، اور منکرین کے بارے میں، جو آپ پر پتھر پھینکیں گے، آپ کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: ان کو دو ثواب ملیں گے اور تم کو ایک ثواب، کیونکہ تم کو مجھ سے حسنِ ظن ہے اور وہ توحید کی قوّت اور شریعت پر مضبوط رہنے کی وجہ سے یہ حرکت کریں گے، اور شریعت میں توحید اصل ہے اور حسنِ ظن فرع۔

یعنی انہوں نے کہا کہ آپ کو تو ایک ثواب ملے گا، چونکہ آپ میرے ساتھ محبت کرتے ہیں اور جو مطلب یہ ہے کہ وہ چونکہ شریعت کے ساتھ محبت کررہے ہیں، وہ شریعت کی وجہ سے کررہے، تو اس وجہ سے چونکہ وہ توحید کی وجہ سے کررہے، تو اس کی قوت زیادہ ہے۔

ف: سُبْحَانَ اللہِ! یہ جواب ہزار کرامات سے بڑھ کر ہے، جو مخلصِ صادق ہی کی زبان سے نکل سکتا ہے۔ یہاں سے ان صوفیوں کو سبق لینا چاہئے، جو شریعت کی عظمت نہیں کرتے۔

(33) مشہور ہے کہ ابنِ منصور شیر پر سوار ہوجاتے اور سانپ کا تازیانہ بنا لیتے۔

(34) تصوّف کی حقیقت:

تصوّف کی حقیقت کتاب و سنت کی معرفت اور ظاہر و باطن کا ان سے رنگین ہونا ہے اور ورع و تقویٰ میں کمال حاصل کرنا ہے۔ احوال و کیفیات و کشفیات و الہامات نہ تصوّفِ اسلامی کا جزء ہیں، نہ اس طریق میں مطلوب۔ ہر شخص کو اس کی تعداد کے موافق مجاہدات و ریاضات و کثرتِ ذکر و فکر و مراقبات سے حاصل ہوتے ہیں، پھر ان احوال و کیفیات میں بھی جو حالت اور کیفیت موافقِ سنّت ہو، وہ افضل ہے اور جو سنّت کے موافق نہ ہو، وہ مستحسن نہیں، گو صاحبِ حال پر ملامت بھی نہیں کہ اس میں معذور ہے۔ اسی طرح جو کشف و الہام نصوصِ شریعت کے خلاف نہ ہو، مقبول ہے، ورنہ قابلِ ردّ ہے۔

یہ پورا خلاصہ نکال لیا کہ اصل میں تصوف اصل میں کیا ہے؟ کتاب و سنت کی معرفت ہے۔ یہ کتاب و سنت کی معرفت ہے۔ وہ جو میں نے عرض کیا تھا ناں کہ طریقت سے انسان ریاضت و مجاہدہ کرکے اپنے دل کو صاف کرلیتا ہے، جب دل صاف ہوجاتا ہے، قرآن کے اندر جو حقیقت ہے، اس کے اوپر کھل جاتی ہے، جو حدیث کے اندر حقیقت ہے، وہ اس کے اوپر کھل جاتی ہے، جیسے آئینہ صاف ہوجاتا ہے، تو اصل چیز نظر آنے لگتی ہے اور ورع و تقویٰ میں کمال حاصل کرنا ہے، یعنی انسان تقویٰ کے اندر کمال حاصل کرلے، احوال و کیفیات و کشفیات و الہامات نہ تصوف اسلامی کا جزء ہیں، نہ اس طریق میں مطلوب ہیں۔ مطلب یہ جو احوال مختلف قسم کے انسان کو محسوس ہوتے ہیں، کیفیات ہیں یا کشفیات ہیں، الہامات ہیں، یہ جزء نہیں، یہ تصوف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، ہاں! آسکتی ہیں کسی کو بھی آسکتی ہیں۔

ہر شخص کو اس کی تعداد کے موافق مجاہدات و ریاضات و کثرتِ ذکر و فکر و مراقبات سے یہ چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں۔

یہ side effects ہیں۔ ہاں جی! وہ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جیسے medical treatment ہم کرتے ہیں، جو گولیاں ہوں، ایک اس کا main effect ہوتا ہے اور ایک اس کا side effect ہوتا ہے، تو main effect جو ہے وہ مطلوب ہوتا ہے، side effect سے مجبور ہوتا ہے آدمی، side effect سے انسان مجبور ہوتا ہے۔ اور میں corex کی مثال دیتا ہوں کہ corex جو ہے، وہ medicine رہی ہے، جس میں نشہ تھا، codine اس میں تھا، تو جو نشئی ہوتے تھے، ان کو جب اپنا نشہ نہیں ملتا تھا heroine وغیرہ، تو وہ corex کو چڑھا دیتے، بوتل کی بوتل، ہاں جی! تو اب وہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے اندر وہ جو side effect تھا، صرف اس کا جو drowzy effect وہ اس کو main effect سمجھ کر جو ہے ناں مطلب اس کو پی جاتے تھے اور اس کے ساتھ جو مسائل اور سارے کے سارے وہ حاصل کرلیتے تھے۔ تو یہ چیزیں جو ہے ناں، مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں جزء اسلامی نہیں ہیں کہ ان کو حاصل کیا جائے، یہ مجاہدات کے side effect ہیں، ریاضتوں کے side effects ہیں یا ذکر کے side effects ہیں، تو ٹھیک ہے، side effects کے طور پر لے لو۔

اور پھر ان احوال و کیفیات میں بھی جو حالت اور کیفیت موافقِ سنّت ہو وہ افضل ہے۔

سنت کے موافق، مثلاً ہر چیز میں اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوجانا، دعا کرنا، یہ کیا ہے، یہ اچھا ہے، مطلب متبع سنت۔ ہاں! انسان جب اللہ پاک کے سامنے اپنے آپ کو مجبور محض سمجھتا ہے اور انسان جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو ہر چیز میں اللہ پاک سے مانگنے لگتا ہے، تو یہ ایک متبع سنت والی بات ہے۔ ہاں جی! تو

اور جو سنّت کے موافق نہ ہو، وہ کیا ہے؟ وہ مستحسن نہیں، مگر صاحبِ حال پر ملامت بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں وہ معذور ہے۔ اسی طرح جو کشف و الہام نصوصِ شریعت کے خلاف نہ ہو، وہ مقبول ہے، ورنہ قابلِ ردّ ہے۔

باقاعدہ ہمارے بعض مشائخ نے تو دعائیں کی کہ اے اللہ! ہم سے یہ کشف واپس لے لے۔ یہ باقاعدہ دعائیں کرتے تھے۔ مولانا زرگل صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب آئے، ان کو لوگوں کا ضمیر منکشف ہوجاتا تھا، بڑی خطرناک بات ہے، ہاں جی! تو حضرت نے اس کے لئے دعا کی اے اللہ! میں تحمل نہیں کر پا رہا، اس کو دور فرما دے۔ ہاں جی! اس طرح جو ہے ناں مطلب یہ جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ان کو وضو کے پانی میں لوگوں کے گناہ نظر آتے تھے، کیونکہ اس سے گناہ دھلتے ہیں ناں، تو پتا چل جاتا، وضو کا پانی جب ان کے سامنے گزر جاتا، تو پتا چل جائے کہ اس میں تو بدنظری کے گناہ بھی ہیں اور فلاں چیز کے گناہ بھی وہ آرہے ہیں، تو باقاعدہ انہوں نے پھر دعا کی کہ اے اللہ! اس کو روک دے، کیونکہ اس سے دوسرے مسلمانوں کے اوپر بدگمانی آجاتی ہے۔ ہاں جی! تو اس کو ہٹا دیا گیا۔ تو باقاعدہ ہمارے بعض حضرات نے تو اس کے لئے باقاعدہ دعائیں کی ہیں کہ ہمیں یہ چیز حاصل نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علیحدہ علیحدہ رہے۔ اور حضرت نے مجھ سے بھی فرمایا تھا دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، راستے کے کھیل تماشوں میں انسان لگ گیا، تو کھیل تماشا میں تو لگ گیا ناں، کھیل تماشا تو ہے، اس میں لگ گیا بیچارہ۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ ان شاء اللہ العزیز! اب امید تو ہے کہ شاید ایک سبق اور باقی ہے اور ایک جو درمیان درمیان میں رہتا ہے، تھوڑا تھوڑا جہاں missing ہے، وہ جمع ہوکر ایک سبق وہ بن جاتا ہے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ! دو تین سبقوں میں کتاب ختم ہوجائے گی۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

حقیقی تصوف: کتاب و سنت کی کامل پیروی - انفاسِ عیسیٰ