اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
انفاس عیسیٰ کی تعلیم پچھلی دفعہ بھی ہوئی تھی۔ اصل میں بزرگوں کے جو تجربات ہیں، یہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
بلوغ کے وقت عقل کامل ہوجاتی ہے، پھر تجربہ بڑھتا ہے:
ارشاد: بلوغ کے وقت عقل تو کامل ہوجاتی ہے، لیکن تجربہ کم ہوتا ہے، اور تیس و چالیس سال کی عمر میں تجربہ بھی کافی ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں کچھ عقل نہیں بڑھتی، بلکہ تجربہ بڑھ جاتا ہے، لیکن تجربہ کی وجہ سے اس کی باتوں میں اور اعمال میں پختگی اور استواری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سبب سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ تیس و چالیس سال کی عمر میں عقل زیادہ ہوجاتی ہے۔
عقل جو ہے، یہ جتنی بھی کسی کو ملتی ہے، اس میں اضافہ نہیں ہوتا، لیکن تجربہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور لوگ تجربہ اور عقل کو آپس میں ملا دیتے ہیں، ان کا جو مجموعہ ہوتا ہے، وہ نظر آتا ہے، تو بڑی عمر کے لوگ زیادہ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ تو عقل جس کی جتنی ہے، وہ عقل تو اس کی وہی ہوگی، اس میں وہ بڑھتا نہیں ہے، لیکن تجربہ جو ہے ناں وہ بڑھتا ہے۔ اب یہ اللہ والے جیسے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اب ان کی جیسی عقل تھی، تو حضرت نے اس کو استعمال کرلیا دین کے کام کے لئے، ہاں جی! تو اللہ پاک نے ان سے فقہ کا کام لے لیا فقہ کی تدوین کا۔ فقہاء اصل سمجھدار لوگ ہیں۔ تو اسی طریقہ سے صوفیاء کرام میں اللہ پاک نے جن سے کام لیا، تو وہ اس کے ظاہر ہے شارح بن گئے۔ تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس صدی کے مجدد تھے، مجدد کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اس صدی کے احوال اس پر کھول لیتے ہیں، اس صدی کے اندر جو گڑبڑ آچکی ہوتی ہے، دین کی جو تشریحات ہیں، وہ اس میں گڑبڑ آچکی ہوتی ہے، تو مجدد اور کچھ بھی نہیں کرتا، صرف اس کو صاف کرکے جو گرد و غبار ہوتا ہے، وہ دین کو اصلی صورت میں لوگوں کے سامنے کردیتے ہیں اور یہ بہت بڑا کام ہوتا ہے، کیونکہ دین سے جو لوگ برگشتہ ہوتے ہیں، ان میں لوگوں کی غلطیاں ہوتی ہیں، لیکن جب اصل سامنے آتا ہے، تو پھر لوگ کہتے ہیں اوہو! یہ تو بالکل ٹھیک چیز ہے۔ اسی طریقہ سے حضرت نے تصوف کے بارے میں جو تشریحات فرمائی ہیں، اس سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا، اگر حضرت کا نام درمیان میں نہ لیا جائے، کیونکہ اگر نام لیا جائے تو ممکن ہے تعصب کی وجہ سے انکار کرلے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو تعصب سے بچائے۔ تو اس وقت تو بات ہوسکتی ہے، لیکن اگر یہ والی بات نہ ہو، نام نہ بتایا جائے، تو سب اتفاق کریں گے، سب کہیں گے بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ وہ دل کو لگنے والی بات ہوتی ہے، پتا چلتا ہے کہ واقعی یہ بات ہے۔ اب دیکھ لیں، حضرت نے تصوف کا ایک نقشہ یہاں پر بنایا ہے، آپ اس وقت ان شاء اللہ! جب میں اس کو پڑھ لوں گا، تو آپ خود اپنے دل سے گواہی دیں گے کہ دین کی اتنی مختصر اور جامع تشریح شاید ہی کوئی کرسکے۔ ہاں جی! ایک صفحہ میں سارا آیا ہوا ہے، سارا ایک صفحہ میں آیا ہوا ہے اور یہ جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ دین کی انتہائی جامع تشریح جس میں تمام چیزوں کے بارے میں اَلْحَمْدُ للہ! اشارے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اُمُوْر مَبْحُوْث عَنْھَا فِی التَّصَوُّفِ‘‘ یعنی وہ کام تصوف میں بحث کی جاتی ہے، تصوف میں ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ فرمایا: اس کی دو شاخیں ہیں، ایک مقصود ہے اور دوسرا غیر مقصود ہے، مقصود وہ ہوتا ہے جو کہ اصل مطلوب ہوتا ہے جس کا قصد کیا جاسکتا ہے اور اس کو حاصل کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اللہ جل شانہٗ اس پر فیصلہ فرماتے ہیں۔ ہاں جی! تو وہ مقصود ہے اور دوسرا غیر مقصود ہے، اس میں اصل مطلب وہ اصلیت نہیں ہوتی، تابعیت ہوتی ہے، وہ اس مقصود کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوسکتا ہے یا کوئی اور چیز ہوسکتی ہے، لیکن وہ مقصود تو نہیں ہوگی، لیکن کام کی چیز ہوتی ہے۔ تو فرمایا کہ دو چیزیں ہیں، ایک مقصود ہے اور دوسرا غیر مقصود۔ پھر فرمایا کہ مقصود میں پھر دو چیزیں ہیں، ایک ہے عمل ’’وَھُوَ الطَّرِیْقَۃ‘‘ یعنی انسان کو عمل کرنا پڑتا ہے اور وہ کسی طریقے سے کرنا پڑتا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ ایک طریقہ ہوتا ہے، جو مقصود ہوتا ہے۔ اور دوسرا ثمرہ ’’وَھُوَ الْمَعِیَّۃ‘‘ مطلب یہ ہے کہ وہ جو ہم چاہتے ہیں کوئی چیز اس سے، وہ ثمرہ ہوتا ہے، مطلب ثمرہ بذات خود مقصود ہوتا ہے۔ اب دیکھ لیں! اللہ جل شانہٗ کا تعلق حاصل کرنا یہ ثمرہ ہے، مقصود ہے، لیکن اس کے لئے اللہ جل شانہٗ نے جو اعمال ہمیں دیئے ہیں، ان اعمال کو کرنا پڑے گا، ان اعمال کو کرنا پڑے گا۔ تو فرمایا کہ دو قسم کی چیزیں ہیں، ایک عمل ہے اور دوسرا ثمرہ ہے۔ فرمایا کہ پھر عمل جو ہے، اس کی دو قسمیں ہیں، ایک اخلاقِ حمیدہ کا حصول اور دوسرا اخلاقِ رذیله کا دور کرنا، اخلاقِ حمیدہ کیا ہیں؟ اس کے بارے میں مثال دیتے ہیں جیسے شکر، صبر، اخلاص، تواضع، وغیرہ، یہ وہ چیزیں ہیں جو قرآن اور حدیث میں مطلوب بتائی گئی ہیں۔ ’’وَاللہُ یُحِبُّ الشَّاکِرِیْنَ‘‘ اللہ پاک شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔
ہاں جی!
﴿وَمَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ﴾
ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لئے شکر کرتا ہے‘‘۔
مطلب جو شکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا تو اپنے لئے کرتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ شکر کے بارے میں احکامات آئے ہیں قرآن و حدیث میں اور اسی طریقہ سے صبر کے بارے میں بھی آئے ہیں۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
﴿اِصْبِرُوْا﴾ (آل عمران: 200)
ترجمہ: ’’صبر اختیار کرو‘‘۔
ہاں جی! اس طریقہ سے اس کے بارے میں احکامات آئے ہیں، حکم آئے ہیں۔ اس طرح اخلاص ہے، اس پہ ساری چیزوں کا دار و مدار ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے سارے لوگ ہلاک ہوگئے مگر وہ جو علماء ہیں، پھر فرمایا سارے علماء ہلاک ہوگئے مگر وہ جو عمل کرنے والے ہیں، پھر فرمایا سارے عمل کرنے والے ہلاک ہوگئے مگر وہ جو اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے ہیں اور پھر فرمایا کہ اخلاص والے بھی خطرہ میں ہیں، اخلاص والے بھی خطرہ میں ہیں۔ اب دیکھ لیں! اخلاص کتنا مطلوب ہے، انسان عمل بے شک کتنا ہی اچھا کیوں نہ کرے، لیکن اگر اس کے اندر اخلاص نہیں ہوگا، سارا عمل ضائع ہوجائے گا۔ ایک شخص ہے نماز سے اس کا مطلوب یہ ہے کہ لوگ مجھے نمازی کہہ دیں، میری عزت کریں، مجھے اچھا آدمی سمجھیں، یہ اس کی نماز کے ساتھ اچھا معاملہ نہیں ہوا، ہاں جی! اس کو اسے دور کرنا پڑے گا۔ اس طریقہ سے حج کے ساتھ کوئی اس قسم کا معاملہ ہے، دین کے کاموں کے ساتھ اس کا کوئی ایسے معاملہ ہے، تو یہ ساری چیزیں خطرناک ہیں۔ تو شکر، صبر اور اخلاص، اس طریقہ سے تواضع۔ ہاں جی! تواضع کے بارے میں آتا ہے کہ جو تواضع کرتا ہے اللہ پاک اس کے مقام کو بڑھاتا ہے۔ ہاں جی! جس کے دل میں رائی بھر تکبر ہوگا، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ تکبر کی ضد کیا ہے؟ تواضع ہے، تواضع کا حاصل کرنا ضروری ہوا۔ تو اس طرح کچھ اعمال ہیں کہ وہ حاصل کرنے ہیں، (قلبی اعمال) کچھ تو ظاہری اعمال ہیں ناں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج یہ ظاہری اعمال ہیں، کچھ قلبی اعمال ہیں، قلبی اعمال جیسے صبر ہے، شکر ہے، تواضع ہے، اخلاص ہے، اس طرح اور بہت سارے اعمال ہیں، جن کا کتابوں میں ذکر ہے اور ہم بتاتے رہتے ہیں مختلف مواقع پہ۔ اور کچھ اخلاق رذیلہ ہیں جن کا دور کرنا مقصود ہے، وہ کیا ہیں؟ مثلاً ریا کو دور کرنا چاہئے، کبر کو دور کرنا چاہئے، حسد کو دور کرنا چاہئے، دنیا کی محبت کو دور کرنا چاہئے، یہ زہریلی چیزیں ہیں، اتنی زہریلی ہیں کہ ساری محنت اکارت ہوسکتی ہے اس کی وجہ سے۔ مثلاً تکبر اگر کسی کے اندر ہے، میں نے ابھی بتا دیا کہ وہ جنت میں نہیں جائے گا یعنی رائی بھر تکبر کسی میں ہوگا۔ اس طریقہ سے حسد ہے، یہ نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے مطلب جیسے لکڑی آگ کو کھاتی ہے۔ اس طریقہ سے جو دنیا کی محبت ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ ہاں جی! تو یہ ساری باتیں جو ہیں ناں آپ ﷺ نے بھی فرمائی ہیں، قرآن پاک میں بھی ہے۔ ہاں جی! جیسے شیطان کے بارے میں ہے:
﴿وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ: 34)
ترجمہ: ’’اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہوگیا‘‘۔
ہاں جی! اس کو سزا اسی وجہ سے ملی تکبر کرلیا ناں۔ اس طریقہ سے جو ہے ناں مطلب جو تکبر ہے، وہ تو بہت خطرناک بات ہے، مختلف مواقع پہ اس کو روکا گیا ہے۔ اچھا! پھر اس کے بعد ثمرہ ہے، ثمرہ سے مراد کیا ہے؟ ثمرہ جو ہے، وہ کیا ہے کہ جو ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں حاصل ہو، روحانیت میں جو ثمرہ ہے، وہ ہمیں حاصل ہوجائے، وہ کیا چیز ہے؟ یہ دو قسموں پر ہے، ایک وہ جو بندہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایک وہ جو اللہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، بندہ کے ساتھ جو تعلق رکھتا ہے ثمرہ، وہ حضور اور عبدیت ہے یعنی کیفیتِ حضوری حاصل ہوجائے، انسان ہر وقت یہ جانے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور ہر وقت یہ جانے کہ میں اللہ کے پاس ہوں۔ ٹھیک ہے ناں؟ اور واقعتاً ہم اللہ کے پاس ہوتے ہیں، مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں ناں کہ اگر ایک ہوگا تو دوسرا وہ ہوگا، اگر دو ہوں گے تو تیسرا وہ، تین ہوں گے تو چوتھا وہ۔ ہاں جی! اس طریقہ سے مطلب یہ ہے کہ انسان کو اللہ پاک کے سامنے جو اپنی حضوری وہ مستحضر رکھنی ہوتی ہے، تو کیفیت حضوری اس کو کہتے ہیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جب سوتے تھے، تو اپنے پیروں کو اس طرح نہیں پھیلاتے تھے، تو کسی نے کہا حضرت! آپ پیر پھیلاتے کیوں نہیں ہیں؟ فرمایا کہ اللہ پاک سے حیا آتی ہے، اللہ کے سامنے پیر کیسے پھیلاؤں۔ جیسے بڑے کے سامنے انسان نہیں پھیلا سکتا۔ ہاں جی! تو اللہ پاک کے سامنے پھر کیسے پھیلاؤں۔ اور اس طریقہ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے پاس گئے اور کہا یارسول اللہ! ہم حمام میں کیسے ننگے ہوجائیں، اللہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ہاں جی! یہ اصل میں اللہ جل شانہٗ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر سمجھنا، یہ بہت بڑی بات ہے، کیفیتِ احسان اسی کو کہتے ہیں۔ تو عبادت ایسے کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت تمھیں حاصل نہیں، تو یہ تو سمجھ لو کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ حضوری اور عبدیت یہ ثمرہ ہے عبد کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں کا۔ اور دوسرا کیا ہے، وہ جو حق یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق رکھتا ہے، وہ کیا ہے، کہ اللہ پاک راضی ہوجائے اور اپنے قربِ خاص میں جگہ عطا فرمائے۔ اب دیکھ لیں! ہم سب چاہتے ہیں ناں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قریب فرمائیں، ہمیں اپنا قرب نصیب فرمائیں، ہاں جی! اس سے ہم لوگ مستغنی نہیں ہیں۔ میں آپ کو اس کا چھوٹا سا لطیفہ سنا دوں، لطیفہ باریک بات کو کہتے ہیں، ہنسنے کے لئے نہیں ہوتا، اکثر لوگ جو ہیں ناں وہ لطیفہ اس کو کہتے ہیں جس پہ لوگ ہنسیں۔ ہاں جی! تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے کسی کو کہہ دیا کہ جزاک اللہ! تو جیسے لوگ شکریہ ادا کرتے ہیں ناں شکریہ، تو کہتے ہیں کوئی بات نہیں، تو میں نے کہا جزاک اللہ! تو کہتے کوئی بات نہیں، (میں نے کہا) خدا کے بندے! کیا کہہ رہے ہو؟ جزاک اللہ کو اس طرح نہیں کہنا چاہئے، وہ تو دعا دے رہا ہے آپ کو کہ اللہ پاک آپ کو جزا دے، آپ کہتے ہیں کوئی بات نہیں۔ ہاں جی! تو انسان اپنے (انداز میں) ذرا بات کرلیتا ہے، سمجھ نہیں ہوتی اس کو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اسی طریقہ سے اللہ جل شانہٗ کو راضی کرنا یہ ہمارا مقصد ہے، مقصدِ اصلی ہے، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تمام چیزوں کا نچوڑ اگر ایک لاسکتے ہیں آپ، تو وہ کیا ہے؟ اللہ راضی ہوجائے، اللہ راضی ہوجائے، یہ چیز اگر ذہن میں آجائے کہ اللہ کا راضی ہونا کتنا ضروری ہے، تو انسان کے دماغ میں ہر وقت یہی گھومنے لگے کہ اللہ پاک مجھ سے راضی ہوجائے۔ ہاں! تو یہ جو ہے ناں ما شاء اللہ طریق کا جس کو ہم کہہ سکتے ہیں highway ہے، مطلب یہ highway ہے، مطلب اس کے اوپر جو ہے ناں سب کو دوڑنا ہے اور وہ کیا ہے کہ اللہ پاک راضی ہوجائے، اللہ پاک راضی ہوجائے، تو ثمرہ جو ہے وہ کیا ہے؟ کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائے اور ہمیں اپنے قرب خاص میں جگہ عطا فرما دے۔ اور دوسری بات یہ کہ بندے سے یہ حاصل ہونا چاہئے کہ اللہ پاک کے سامنے اپنے آپ کو ہر وقت حاضر پائے اور اللہ پاک کی بندگی میں ہر وقت مطلب مشغول رہے، بندگی اصل میں صرف یہ جو عبادت ہم کرتے ہیں، یہ نہیں ہے، بلکہ اس میں ساری چیزیں آجاتی ہیں یعنی اللہ پاک کی منشا کو اپنی منشا پر فوقیت دینا، یہ عبدیت ہے کہ جو منشاءِ الہٰی ہے اس کے سامنے اپنی منشا کو فنا کردینا۔ ہاں جی! جدھر مولا ادھر شاہ دولا، ہے ناں! مطلب حضرت شاہ دولا رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ تھے، تو ان کے گاؤں کی طرف دریا کا رخ بدلنے لگا، وہ کٹائی ہوتی رہی، تو لوگ گئے حضرت کے پاس کہ حضرت! دعا فرمائیں دریا کا رخ ہمارے گاؤں کی طرف ہورہا ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کوئی پھاوڑا وغیرہ لے آؤ، تو لوگ سمجھے کہ شاید کوئی ٹونا ٹوٹکا کررہے ہوں گے، مطلب کوئی دعا کا طریقہ ہوتا ہے ناں بعض لوگوں کا، بھائی! یہ چیز لے آؤ، یہ چیز لے آؤ، یہ چیز لے آؤ، ہاں جی! تو اس طرح وہ کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ شاید کوئی ٹونا ٹوٹکا کررہے ہوں گے، تو حضرت نے جو پھاوڑا ہے، وہ اپنے کندھے پہ رکھ کر آگے آگے جارہے ہیں، اب لوگ پیچھے پیچھے جارہے ہیں کہ حضرت کچھ کریں گے ابھی، وہاں گئے تو دریا کے لئے رخ گاؤں کی طرف بنانے لگے، کٹائی کرکے ناں وہ دریا کے لئے راستہ بنانے لگے، لوگوں نے کہا حضرت! یہ کیا کررہے ہیں؟ فرمایا جدھر مولا ادھر شاہ دولا، اگر اللہ پاک میرے گاؤں کو غرق کرنا چاہتا ہے، میں سب سے پہلے غرق کرنے والا ہوں۔
﴿اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام: 163)
ترجمہ : ’’اور میں اس کے آگے سب سے پہلے سرجھکانے والا ہوں‘‘۔
تو وہ یہی بات ہے۔ اصل میں یہ والی بات ہے کہ اصل میں کہ حضرت نے گویا لوگوں کو بتایا بھئی! تم جو ہے ناں اللہ پاک کی رضا کو اپنا لو، پھر اللہ جل شانہٗ تمھارے سارے کام اپنی طرف سے کردے گا۔ میں آپ سے عرض کروں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے، بہت اچھی اچھی باتیں ہمارے گاؤں وغیرہ میں ہوتی ہیں، گاؤں وغیرہ میں ہوتی ہیں، لیکن وہ کیا ہوتا ہے؟ ہم اس کا اصل مفہوم نہیں جانتے، کررہے ہوتے ہیں ہم، ہاں جی! تو ہم لوگ مطلب جب گاؤں وغیرہ میں پریشان ہوجاتے ہیں تو گاؤں کا جو بڑا وڈیرہ ہوتا ہے یا چوہدری ہے یا خان ہے یا جو بھی ہیں اچھے لوگ، جن کے سامنے لوگ فیصلے کرتے تھے، تو وہ جاکے سب کہتے ہیں آپ ہمارے مائی باپ جو فیصلہ آپ کریں ہمارا فیصلہ وہی ہے۔ یہ کرتے تھے ناں لوگ؟ اگر یہ اللہ پاک کے ساتھ ہم کرلیں اے اللہ! جو فیصلہ تیرا ہے، وہ ہمارا ہے، اس سے بڑی بات اور کیا ہے؟ اچھا! ان کے تو اپنے مفادات ہوتے ہیں، یہ خوانین کے، چوہدریوں کے، ان تمام لوگوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، سیاسی لوگ ہوتے ہیں زیادہ تر، تو اب ان کو سیاست میں جو فائدہ ہوتا ہے، اسی طرف وہ جاتے ہیں، ان بیچاروں کی کمزوری ہے، کیونکہ آخر محتاج لوگ ہیں، لیکن اللہ پاک تو محتاج نہیں ہے، تو اگر ہم نے اللہ پاک پر اپنا فیصلہ چھوڑ دیا، تو مجھے بتائیں ہمارے فیصلے کی اللہ پاک کے فیصلے کے سامنے کیا حیثیت ہوگی؟ اللہ پاک کا فیصلہ تو ہمیشہ ہی اچھا ہوگا، ہاں جی! تو ہم لوگ بھی ظاہر ہے راحت میں ہوں گے اور اللہ پاک بھی خوش ہوجائیں گے، تو یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، اسی کو کہتے ہیں:
﴿وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)
ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
یہی اصل میں اس کا مفہوم یہی ہے کہ ہم اپنی بات کو اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ بہرحال یہ ہے عمل اور پھر ثمرہ، ہاں جی! اس میں پھر ہر ایک کے اپنے اپنے حصے ہوگئے، دو دو حصے ہوگئے ہیں، اب جو مقصود والا باب ہے، یہ ہمارا ختم ہوگیا، مقصود یہاں تک ہے۔ اس کے بعد جو غیر مقصود ہیں، اس میں پھر تین قسمیں ہیں، ایک ہیں ذرائع، دوسرے ہیں توابع اور تیسرے ہیں موانع۔ عربی کے نام ہیں، یاد رکھنا ضروری نہیں ہیں، سمجھ میں آجائیں تو اچھی بات ہے، کبھی کتاب میں دیکھ لینا، پھر آپ کو معلوم ہو کہ مقصود مطلب اس کا یہی ہے۔ ٹھیک ہے ناں! تو ذرائع کیا چیز ہیں، ہم لوگ جانتے ہیں، انگریزی میں اس کو means کہتے ہیں۔ ٹھیک ہے ناں! تو ذرائع کیا ہیں، یہ ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا جو ذریعہ ہوتا ہے، وہ کیا ہے، اس کا جمع کرنا، مثال کے طور پر میں یہاں آنا چاہتا ہوں، میں کئی طریقوں سے آسکتا ہوں، کئی طریقوں سے آسکتا ہوں، میں گاڑی پہ بھی بیٹھ کے آسکتا ہوں، میں پیدل بھی آسکتا ہوں، میں پبلک ٹرانسپورٹ پہ بھی آسکتا ہوں، ہاں! یہ سب ذرائع ہیں۔ تو ذرائع کے اوپر زور نہیں اتنا دیا جاتا کہ مقصد فوت ہوجائے، مقصد کو ذریعہ کے تابع نہیں کیا جاتا ہے، ذریعہ کو مقصد کے تابع کیا جاتا ہے، ذریعہ کو اگر ذریعہ سمجھا جائے، تو یہ ظاہر ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کا یہی تو طریقہ ہے، اسی ذریعہ سے تو وہ حاصل ہوگا مقصد، لیکن اگر ذریعہ کو مقصد بنایا جائے، تو پھر کیا ہے، یہ ہماری علمی کمزوری ہوگی یا جس کو ہم کہہ سکتے ہیں سمجھ کی کمزوری ہوگی، جس کے پھر اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں، بڑے مسائل اس کے ساتھ بنتے ہیں، عموماً لوگ اسی میں پریشان ہوتے ہیں کہ وہ جو ذرائع ہوتے ہیں ان کو مقصود سمجھ لیتے ہیں، جو ذرائع ہوتے ہیں اس کو مقصود سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی کام ہیں ناں، مثال کے طور پر بزرگوں سے اچھے اچھے کام منقول ہیں، ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ کرتے تھے، لیکن بعد میں اگر اس کی ضرورت نہ رہے اور کسی اور طریقہ سے وہ کام ہوسکتا ہو، تو کیا اس سے چمٹیں گے؟ بھئی! مقصود کو حاصل کرنا ہے، ذریعہ کو تو حاصل کرنا نہیں ہے، ذریعہ تو اس کا صرف حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے، تو اگر کسی اور طریقہ سے وہ حاصل ہوسکتا ہو، تو ہم اس کے ساتھ نہیں چمٹیں گے۔ ڈاکٹر لوگ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوائیاں جو ہوتی ہیں، صحت کو حاصل کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اب ایک وقت میں ایک دوائی سے علاج ہوتا ہے، کسی وقت میں augmentin 375 mg اس سے کام ہوتا تھا، کیا خیال ہے ڈاکٹر صاحب ایسے ہی ہوتا تھا ناں؟ اب ہوسکتا ہے 375mg؟ ہاں جی! اب ہزار سے کم نہیں دیتے، بلکہ بعض لوگوں ںے augmentin چھوڑ دیا، کہتے ہیں اب یہ کام کی نہیں رہی۔ ہاں جی! اب اور چیزیں مطلب ان کی ہیں، جس سے وہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ تو اب یہ ہے کہ ایک آدمی کو augmentin کے ساتھ محبت ہوگئی کہ مجھے augmentin کے ساتھ محبت ہے، ہاں جی! اب وہ بیماری اس کی ٹھیک ہو یا نہ ہو، لیکن augmentin کھانا چاہئے، تو یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ غلط بات ہے، یہ ذریعہ کو مقصود بنانے والی بات ہے، عموماً لوگ یہی غلطی کرتے ہیں، جس سے جو ہے ناں پھر بڑی مشکلات پیدا ہوتی ہیں، سمجھ کے اندر قصور آجاتا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ بلاوجہ اختلافات ہوجاتے ہیں بلاوجہ۔ اب چشتیہ طریقہ ہے، نقشبندی طریقہ ہے، سہروردی طریقہ ہے اور اس طرح جو ہے ناں قادری طریقہ ہے۔ اب یہ سارے طریقے ہمارے بزرگوں کے ہیں، لیکن یہ سارے ذریعے ہیں، طریقہ جو کہہ دیا، یہ سارے ذریعے ہیں، اچھا! اب دیکھ لیں کہ اب اگر کسی کو چشتی طریقہ سے اپنا مقصود حاصل ہوگیا، تو کیا خیال ہے؟ ہاں جی! اب اس کو کسی اور طریقہ کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے، بس کام ہوگیا اور کام چاہئے۔ وہ کہتے ہیں آم چاہئے یا پیڑ گننے چاہئیں؟ ہاں جی! مقصود حاصل ہوگیا۔ کہتے ہیں، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا، انہوں نے اپنا نقشبندی سلوک کو طے کیا تھا اور اپنی کارگزاری سنائی کہ حضرت! میرے لطائف جو ہیں ناں، اس طرح ہوجاتے ہیں اور کبھی یہ کرتا ہوں، یہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح، تو اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟ شیخ تو ان کے فوت ہوگئے تھے، حضرت نے فرمایا بھئی کیفیت احسان حاصل ہے یا نہیں؟ فرمایا حاصل ہے، فرمایا اور کیا کرنا چاہتے ہو؟ یہ ساری چیزیں کیفیتِ احسان کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں، بس کیفیتِ احسان حاصل ہوگئی بس اب کام کرو، خواہ مخواہ جو ہے ناں ان کے پیچھے پھرتے رہو گے نہیں جی اب میرا نقشبندی طریقے سے تو ہوگیا ہے اب میں چشتی طریقہ سے بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ کیا خیال ہے آپ لاہور پہنچ گئے by train اور آپ دوبارہ واپس آجاؤ راولپنڈی، پھر جو ہے ناں by road چلے جاؤ، کیا خیال ہے ہوشیاری ہوگی؟ لوگ کہیں گے بھئی! کیا بیوقوف آدمی ہے، بھئی لاہور تو پہنچ گیا ناں، اب اس کے بعد اور کیا کرنا چاہئے، ہاں جی! تو اصل میں یہی والی بات ہے کہ چیزوں کو سمجھنا چاہئے، ورنہ پھر کیا ہوتا ہے؟ ورنہ پھر بڑی مشکلات ہوتی ہیں، اشکالات ہوتے ہیں، ٹھیک ہے ناں! ان کو دور کرنا پڑتا ہے۔ تو ذرائع میں پھر دو قسم کے ہیں، ایک ہے مجاہدہ اور دوسرا ہے فاعلہ، یہ ذرائع کیا ہیں؟ یہ نفس کی اصلاح کے ذرائع ہیں، ایک کیا ہے؟ مجاہدہ اور دوسرا کیا ہے؟ فاعلہ، مجاہدہ کیا چیز ہے، مجاہدہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ اپنے نفس کی خواہشات کو control کرنے کے لئے نفس کی خواہشات کی پروا نہ کی جائے۔ کیا کہا میں نے؟ نفس کی خواہشات کو control کرنے کے لئے نفس کی خواہشات کی پروا نہ کیا جائے، نفس چاہتا ہے سو جاؤ، یہ کہتے ہیں نہیں بھئی میں نے کام کرنا ہے، میں نے سونا نہیں ہے، میں نے ذکر کرنا ہے، ہاں جی! اب نفس کو بڑی تکلیف ہوگی، لیکن یہ تکلیف اس کو دینا ہے، کیونکہ یہ آرام پسند نفس، ہاں! یہ دین پر آنے کے لئے تیار نہیں ہے، جب اس کی بات اس طرح روکی جائے گی، نہیں مانی جائے گی، یہ خود تیار ہوجائے گا کام کرنے کے لئے، ہاں جی! یہ جو کمینے لوگ جو ہوتے ہیں کمینے، کہتے ہیں اچھے لوگ جو ہوتے ہیں، ان سے اس وقت ڈرو جب وہ مظلوم ہوں، اس وقت ڈرو، شریف لوگ جو ہوتے ہیں، (ان سے) ہاں جی۔ اور جو کمینے لوگ ہیں، ان سے اس وقت ڈرو جب وہ in power ہوں، ہاں جی! ان کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ جب یہ in power ہوتے ہیں، انتہائی درجے کا ظلم، فساد، ساری چیزوں کو تہس نہس کرنا، اپنی باتوں کو من مانی کے لئے، فضول فضول حرکتیں کرنا، کسی کی پروا نہ کرنا کہ اس کو نقصان ہوجائے گا، کمینے لوگ ایسے ہوتے ہیں اور جس وقت اس پہ کوئی آجائے حکمران، پھر خوشامدی، خوشامدی بن جاتے ہیں اوہ جی صاحب! آپ ہمارے مائی باپ، یہ جی بالکل yes man بن جاتے ہیں، یہ کمینے لوگوں کی خصلت ہوتی ہے، ہے ناں یہ بات؟ ہمارا نفس بھی بالکل یہی ہے، اگر اس کو دبا دیا تو دب جائے گا، اگر اس کو دبا دیا تو دب جائے گا اور اگر اس کو سر پہ چڑھا دیا، تو سر چڑھ جائے گا، اچھی طرح چڑھ جائے گا، ایسا چڑھ جائے گا کہ پتا چل جائے گا کہ تمھارے ساتھ کیا کرتا ہے، اس وجہ سے اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے، اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نفس کی بات نہ مانی جائے۔ اب یہ دو قسم کا نہ ماننا ہے، ایک تو وہ ہے جو حکم ہے شریعت کا، مثلاً نماز پڑھنے کا حکم ہے، روزہ رکھنے کا حکم ہے، زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے، حج کرنے کا حکم ہے، اب اس میں نفس کے ساتھ مناقشہ ہوتا ہے، نفس کے ساتھ جو ہے ناں وہ مقابلہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں نفس کی بات نہ مانی جائے، یہ ہے شرعی مجاہدہ، مثلاً نماز پڑھ لی جائے، نفس کے نہ ماننے سے رکا نہ جائے، فجر کی نماز میں بڑا مشکل ہے اٹھنا، لیکن پروا نہ کی جائے، اٹھا جائے، یہ بذات خود ایک مجاہدہ ہے، لیکن یہ مجاہدہ شرعی مجاہدہ ہے، مطلوب مجاہدہ ہے، مقصود مجاہدہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کام اس کے بغیر نہیں ہوسکتا، یہ تو ضروری ہے، وہ عمل تو کرنا پڑے گا۔ یہ جو مجاہدہ ہوتا ہے، یہ اس وقت کرنا ہوتا ہے یعنی instant ہوتا ہے، instant ہوتا ہے، فوراً کرنا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ (فوراً عمل کرنا ہوتا ہے) یعنی نماز تو اپنے وقت پہ پڑھنی ہوتی ہے ناں، اب اگر بعد میں آپ پڑھ بھی لیں، تو وہ وقت پہ تو نہیں رہے گی، وہ قضا ہوجائے گی، لہٰذا اس نماز کی وہ value تو نہیں رہے گی۔ اب اُس وقت اپنے نفس کو ٹھیک کرنا، سیدھا کرنا اور اسی وقت پڑھ لینا۔ اب حج سال میں ایک دفعہ ہی اس کا موقع آتا ہے، اسی وقت اپنے آپ کو control کرنا اور اپنے آپ کو حج کروانا یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح زکوٰۃ کے ساتھ بھی مسئلہ ہے، روزہ کے ساتھ بھی یہ بات ہے، تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ اُس وقت کرنا پڑتا ہے، چاہے نفس مانے، نہ مانے، کرنا پڑتا ہے، یہ مجاہدہ کیا ہے؟ شرعی مجاہدہ ہے۔ دوسرا مجاہدہ یہ ہے کہ شرعی مجاہدہ کے اندر اگر مسائل ہوں، شرعی مجاہدہ کے لئے اگر نفس تیار نہ ہو اور اس کی وجہ سے اعمال فوت ہورہے ہوں مسلسل، اعمال اگر مسلسل فوت ہورہے ہوں تو سمجھ لو کہ بیماری کچھ زیادہ ہے، ہاں جی! اب کیا کرنا پڑے گا؟ اب اس کو سیدھا کرنا پڑے گا، یہ نفس ٹیڑھا ہے اس کو سیدھا کرنا پڑے گا، اس کو سیدھا کرنے کے لئے تربیتی مجاہدہ سے اس کو گزارنا ہوگا۔ تربیتی مجاہدہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر بوجھ شرعی مجاہدہ سے زیادہ ڈالو، تو ہماری پشتو میں ضرب المثل ہے کہ جب موت آجاتی ہے، تو بخار کے لئے آدمی تیار ہوجاتا ہے۔ ’’چې مرګ راشی نو تبې ته غاړه کیږدی‘‘ ہاں جی! اسی طریقہ سے جب موت آجائے تو بخار کے لئے انسان تیار ہوجاتا ہے۔ اب جب اس کو تربیتی مجاہدہ سے گزار لیں گے ناں، شرعی مجاہدہ پہ بڑے خوشی سے کام کرے گا، کہتا ہے بھئی یہ تو ٹھیک ہے، یہ تو ٹھیک ہے، مانتے ہیں جی مانتے ہیں بالکل ٹھیک ہے۔ ہاں! بس یہی اصل میں اس میں بڑی بات ہوتی ہے کہ انسان جو ہے ناں اس کو شرعی مجاہدہ پہ لانے کے لئے تربیتی مجاہدہ سے گزار لے، کیا خیال ہے! اب شرعی مجاہدہ تو یہ ہے کہ زبان کو control کرلو، جھوٹ نہ بولو، غیبت نہ کرو، کوئی بکواس نہ کرو، کوئی غلط بات نہ کرو، یہ کیا ہے؟ یہ ہماری زبان کا مجاہدہ ہے شرعی، یہ کرنا پڑے گا، چاہے آپ صوفی ہیں یا نہیں ہیں، اس کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ تو آپ کو کرنا پڑے گا، ہاں جی! لیکن اگر یہ بار بار ہونے لگے، کہتے ہیں جی میں کیا کروں، زبان سے اب جھوٹ نکل ہی جاتا ہے، کیا کروں میں کیا کروں جی غیبت ہو ہی جاتی ہے، میں کیا کروں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ یہ سمجھ لو کے درمیان میں بیماری کچھ زیادہ ہوچکی ہے، تو اس صورت کو دور کرنے کے لئے پھر ہمیں کیا کرنا پڑتا ہے؟ تربیتی مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ اب تربیتی مجاہدہ کیا ہے؟ کہ شیخ اس کو کہے کہ ایک گھنٹہ خاموش رہنا ہے اور مجلس کے اندر بیٹھنا ہے، لوگوں کے درمیان اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھ کے ایک گھنٹہ خاموش رہنا ہے۔ سبحان اللہ! خاموش رہنا بڑا مشکل ہے اور وہ بھی دوستوں کے درمیان، کافی مشکل کام ہے ناں! اب آپ نے دوستوں کے درمیان اس کو ایک گھنٹہ خاموش رہنے کی عادت ڈلوا دی اگر، ہاں جی! تو کیا خیال ہے، جھوٹ سے رکنا اس کے لئے مشکل ہوگا پھر؟ غیبت سے رکنا اس کے لئے مشکل ہوگا؟ جیسے جھوٹ کو بولنا چاہے گا، خاموشی کا مجاہدہ، بس ختم، اس کے لئے اس وقت آسان ہوگا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلسل خاموشی تو نہیں رہے گی، ضرورت کی بات تو کرسکے گا، تو شرعی مجاہدہ اس کے لئے بہت آسان ہوجائے گا، اس کو کہتے ہیں قلتِ کلام۔ قلتِ کلام تھوڑا بولنا، زیادہ نہ بولنا، ہاں جی! تھوڑا بولنا۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ سبحان اللہ! کسی وقت اس مجاہدہ سے کمال پر تھے، صحیح بات ہے لوگ پڑھتے نہیں ہیں ناں اپنے بزرگوں کے واقعات، ورنہ ساری باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔ حضرت کا یہ مجاہدہ اس حد تک تھا کہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں آپ بیتی میں کہ ہم جب حضرت سے سبق پڑھتے تھے تو حضرت بات نہیں کرتے تھے، سبق سنتے تھے، اگر سبق ٹھیک ہوا تو کتاب بند کرکے بس، اس کا مطلب سبق آپ لوگوں نے ٹھیک سنایا ہے، اگلا سبق یاد کرو، ٹھیک ہے ناں! اور اگر درمیان میں کوئی مسئلہ آگیا ہے تو کتاب کے اندر انگلی رکھ کر ناں، جس جگہ پہ ہورہا ہے، اس کے اندر انگلی رکھ کر، اس طرح بند کرکے انگلی درمیان میں، مطلب یہ ہے کہ ابھی آپ لوگوں کا سبق صحیح نہیں ہوا ہے، اس کو مزید تیار کرنا ہے۔ کیا خیال ہے استاد اور وہ خاموش رہے، کیسی مشکل بات ہے؟ لیکن بہرحال حضرت نے یہ کر دکھایا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ قلتِ کلام یہ ایک مجاہدہ ہے بضرورت، دائمی نہیں، بضرورت۔ پھر مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ ایسا بولنا شروع ہوگئے کہ بولتے ہی رہے، موت تک بولتے رہے، لیکن وہ بولنا ضروری بولنا تھا، اس بولنے کا پھر فائدہ تھا، کیونکہ جو نہیں بولنا تھا، اس سے رکنا آگیا تھا، ٹھیک ہے ناں، تو قلتِ کلام کیا ہے، یہ کیا ہے؟ ذریعہ ہے، کس چیز کا؟ اپنی زبان کے گناہوں سے بچنے کا، اپنی زبان کے گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ مجھے بھی نصیب فرما دے۔
اس کے بعد انسان کھاتا ہے اور کھا کر ہی انسان زندہ رہتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، لیکن چٹخارہ ایک مرض ہے، کیا ہے؟ چٹخارہ ایک مرض ہے، جس کے لئے انسان کبھی کبھی ظلم بھی کرلیتا ہے۔ ظلم کیا ہے؟ مثال دیتا ہوں، ایک شخص کا کوئی کام ہوگیا، اب سارے یار دوست اس کے پیچھے پڑ گئے اور کہہ دیا، ہمیں treat دے دو، اب اس کے وہ احوال ہیں ہی نہیں کہ وہ treat دے سکے، شرعاً جو طیب خاطر سے انسان کو نہ ملے، تو اس کے بغیر جو ہے ناں لینا وہ جائز نہیں ہے، ہاں جی! تو اب یہ اس کو کہتے ہیں معاشرتی pressure، معاشرتی pressure، یہ جو میراث تقسیم ہوتی ہے ناں تو بہنوں کو لوگ نہیں میراث دیتے ہیں، یہ مطلب بیماری ہے، اللہ پاک اس سے ہم سب کو بچائے۔ تو اس کا یہ ہوتا ہے کہ اکثر ان لوگوں سے پوچھا جائے، تو وہ کہتے ہیں، وہ جی ہماری بہنیں لینا ہی نہیں چاہتیں، وہ کہتی ہیں ہم بھائیوں سے نہیں لینا چاہتیں اور وہ ٹھیک ہی کہتی ہیں، کیونکہ بہنوں سے اگر پوچھا جائے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں، وہ جو ہے ناں وہ ہم نہیں لینا چاہتیں، لیکن وہ نہیں لینا چاہتیں معاشرتی pressure کی وجہ سے ہوتا ہے، معاشرتی pressure کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ pressure آپ release کرلیں، پھر دیکھیں وہ لینا چاہتی ہیں یا نہیں لینا چاہتیں۔ اب معاشرتی pressure کیسے release کیا جائے، تو ایسے release کیا جاتا ہے کہ علماء کرام موجودہ وقت کے علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ وہ اپنی بہنوں کو ایک سال کے لئے دے دیں جو ان کا حق بنتا ہے، ایک سال کے بعد اگر وہ اپنی مرضی سے واپس کردیں تو پھر اس کو روکا نہ جائے، ٹھیک ہے بہنوں نے دے دیا، ہدیہ کرکے دے دیا بس ٹھیک ہے، اس کے اوپر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ان سے جب تک انہوں نے استفادہ کا مزہ نہیں چکھا، مطلب ان کو استعمال کرنا ابھی نہیں شروع کیا، تو بعض عورتیں جو ہیں ناں، عورتوں کو صحیح بات ہے، اپنی جائیداد کا مزہ ہی نہیں معلوم ہوتا بہت ساری عوتوں کو، کیونکہ جائیداد سے ان کو کچھ ملتا ہی نہیں، تو ان کو پتا چلتا ہو کہ جائیداد کیا چیز ہے۔ تو ان کو ایک سال دینے تک اس میں پھر یہ ہوتا ہے کہ پھر ان میں یہ آجاتا ہے، پھر اگر اپنی محبت میں اپنے بھائیوں کو دے دیں، بے شک سارا مال دے دیں، جو میراث میں نہیں ہے وہ بھی دے دیں، کوئی مسئلہ نہیں، پھر خاطر سے دے دیں، کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ میں آپ سے اس لئے عرض کررہا تھا کہ انسان جب کھاؤ ہوجاتا ہے، کھاؤ، کھاؤ ہاں جی! تو وہ پھر کھاؤ رہتا ہے، کھاتا رہتا ہے، یہ نہیں دیکھتا کہ کھانا میرا جائز ہے یا ناجائز ہے، ٹھیک ہے ناں! تو ایسی صورت میں شرعی مجاہدہ تو یہ ہے کہ روزہ رکھا جائے، رمضان شریف کے روزے اللہ پاک نے اس کے لئے رکھے ہیں، لیکن اگر پھر بھی غلطی ہوتی ہے اور اس قسم کے مسائل میں احتیاط نہیں رہتی تو بیماری بڑھی ہوئی ہے، اب اس کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ باقاعدہ تربیتی مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ اور وہ کیا ہے؟ کھانے کی مقدار کو کم کردو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا کہ حضرت! یہ دور روٹیاں روز کھاتا ہے، یہ دو روٹیاں کھاتا ہے، تو آپ قلت طعام کا مجاہدہ کرواتے ہیں، تو یہ تو دو روٹیاں کھا رہا ہے، شکایت کی مطلب ان سے، حضرت نے ان کو بلایا، پوچھا تم گھر میں کتنی روٹی کھاتے تھے؟ انہوں نے کہا چار کھاتا تھا، فرمایا ٹھیک ہے، آپ نے صحیح کیا ہے، دو روٹیاں آپ کے لئے قلت طعام ہے، بھئی! چار وہ روٹیاں کھا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ایک شخص نے بہت زیادہ کھا لیا، ہاں جی! اور اس کے بعد پانی پی لیا، پانی پی لیا، تو اس نے کہا کہ ہم نے تو سنا ہے کہ پانی درمیان میں پینا چاہئے، انہوں نے کہا بھئی! ایک روٹی لاؤ، تاکہ مطلب اس کو درمیان میں کرلیں، اس نے کہا کیا ایک روٹی مزید کھا سکتے ہو؟ کہتے ہاں، بس ٹھیک ہے، پھر آپ کے لئے ٹھیک ہے، پھر آپ تکلف نہ کریں، آپ کے لئے صحیح ہے۔ مقصود یہ ہے کہ کھانا control میں کرنا چاہئے، جتنا چاہئے۔ اب ڈاکٹر صاحبان موجود ہیں، ظاہر ہے یہ حضرات آپ کو تفصیل سے بتا سکتے ہیں، یہ حضرات بتاتے ہیں کہ ہم لوگوں کی ضرورت کا جو کھانا ہوتا ہے، وہ مقدار بہت کم ہے، کیا خیال ہے ڈاکٹر صاحب! کتنی ہوتی ہے؟ آپ کبھی بتائیں ناں ان کو، پورے دن کے لئے ڈھائی روٹی ہے، ہاں جی! اس طریقہ سے بسکٹ جو انسان کھا لیتا ہے، اس کی کتنی وہ ہے؟ تین میٹھے اور چار نمکین بسکٹ ایک روٹی کے برابر ہوتے ہیں، جس کو لوگ کھانا ہی نہیں سمجھتے، ٹھیک ہے ناں! تو ہماری جو energy کی ضروریات ہیں، وہ تو اس سے پوری ہوجاتی ہیں۔ اب اگر کسی کو آپ نے کھانا کم کروا دیا، وہ کہے جی! میرے اوپر بڑا ظلم ہوگیا، اب میں طاقت کہاں سے لاؤں گا؟ بھئی ان کو ڈاکٹر کہے گا ما شاء اللہ! ابھی آپ کی صحت اچھی ہوجائے گی، ہاں جی! جتنا آپ کو کھانا چاہئے، اتنا ہی آپ کھائیں گے، آپ کی صحت اچھی ہوجائے گی۔ تو اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگوں نے اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دیا ہے، کھلا چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ایک پروفیسر صاحب آرہے تھے، پروفیسر صاحب، تو ایک محترمہ کے ساتھ ٹکر لگ گئی، پروفیسر پروفیسر ہوتے ہیں، ہاں جی! تو بہرحال یہ ہے کہ اس نے جب کچھ غصے سے دیکھا اوہ! محترمہ معاف کیجئے گا، جو ہے ناں مطلب غلطی ہوگئی، چلو اس نے چھوڑ دیا، آگے جاکر، نہیں sorry میں نے غلط کیا، بلکہ بھینس کے ساتھ ٹکر ہوگئی، تو اس نے سمجھا کہ شاید عورت کے ساتھ ٹکر ہوئی ہے، تو اس نے کہا کہ محترمہ معاف کیجئے گا۔ آگے جاکر عورت کے ساتھ واقعی ٹکر ہوگئی، تو انہوں نے کہا کھلی چھوڑ دیتے ہیں۔ تو اصل میں ہم لوگوں نے اپنے نفس کو کھلا چھوڑ دیا ہے، ہم لوگ کیا کرتے ہیں، ہم پروا ہی نہیں کرتے کہ کیا کرتے ہیں، ہمارا کیا نفس کھا رہا ہے اور کیا چیز کررہا ہے، یہ ساری چیزیں ہمیں control کرنی چاہئیں۔ تو اس کو ہم کہتے ہیں قلتِ طعام، قلتِ طعام۔ میرے خیال میں حضرت مفتی صاحب اس میں اگر آج کل کے حالات کے لحاظ سے تھوڑی بہت تجدید ہوجائے، تو شاید یہ مفید ہو، اور وہ کیا؟ وہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے قلتِ طعام کا مجاہدہ اٹھا دیا تھا، ہاں جی! ان حضرات نے اپنے اجتہاد سے، کیونکہ سارے امور اجتہادی ہیں، یہ منصوص نہیں ہیں، یہ اجتہادی امور ہیں، تو اپنے اجتہاد سے انہوں نے اس مجاہدہ کو اٹھا دیا تھا کہ آج کل لوگ کمزور ہیں، اس مجاہدہ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق میرے اردگرد دو ڈاکٹر موجود ہیں، یہ تائید فرمائیں گے، ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق ہم لوگ کھاتے زیادہ ہیں ضرورت سے، اگر ان کو ڈاکٹروں کی requirement پر لایا جائے، تو جتنا ڈاکٹر بتاتے ہیں اتنا ہی ان کو کھانے دیا جائے اور اس سے زیادہ نہ کھانے دیا جائے، میرے خیال میں یہ کافی مجاہدہ ہے، ان کا ہوجائے گا مجاہدہ اور نقصان بھی ان کو نہیں ہوگا، ہاں جی! مطلب یہ ہے کہ وہ چیز نہیں ہوگی کہ جو کمزوری اس سے آئے گی۔ تو اس وجہ سے جو ہے ناں مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے، قلتِ طعام کا مجاہدہ بدستور ہوسکتا ہے، تو ہم کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرکے قلت طعام کا جو ہے وہ مجاہدہ نافذ کرسکتے ہیں، تیار رہیں آپ حضرات، ٹھیک ہے جی کسی وقت ہوسکتا ہے۔ اچھا! قلت طعام۔ اس طرح قلتِ منام، یہ اصل میں بات یہ ہے کہ دیکھیں! فجر کی نماز کیوں چھوٹ جاتی ہے؟ کیونکہ ہماری نیندیں پوری نہیں ہوتیں، ڈاکٹر حضرات فرماتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے نیند کا ضروری حصہ، جو سب کے لئے ضروری ہے، مطلب یہ اتنا جتنا اس کے لئے ضروری ہے، وہ نیند تو لینی چاہئے، ورنہ پھر اس کے ساتھ جو metabolism ہے اور تمام چیزیں وہ متأثر ہوجاتی ہیں، اس وجہ سے وہ نیند تو ضروری ہے، لیکن کچھ حصہ ہماری سستی کی وجہ سے مزید شامل ہوچکا ہوتا ہے اور ہم لوگ اس کو بھی ضروری سمجھ کر، ہاں! ہم لازم سمجھتے ہیں، تو اگر وہ معلوم کیا جائے اور صرف ان سے اتنا ہی کاٹ دیا جائے، تو ضرورت کی نیند پر اگر ان کو لایا جائے، تو قلت منام کا مجاہدہ اب بھی جاری رہ سکتا ہے، ٹھیک ہے ناں؟ تو یہ جو ہے ناں مطلب اس سے کیا ہوگا؟ مجاہدہ سے بذات خود تو مقصود اپنے نفس کو control کرنا ہوتا ہے اور تو کچھ نہیں کرنا ہوتا۔ اب اگر اس کے ذریعہ سے بھی نفس control ہوجائے اور انسان کا نفس ماننا سیکھ لے تو کام ہوگیا اور کیا کرنا چاہئے، تو آج کل اگر ہم کہیں کہ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق جتنی نیند کی ضرورت ہے، اس کے اوپر لوگوں کو لایا جائے تربیت کے دوران، تربیت کے دوران اور اس سے زیادہ کی نیند اس کو نہ کرنے دی جائے تو ان کا مجاہدہ بھی ہوجائے گا اور اس کو نقصان بھی نہیں ہوگا۔ ٹھیک ہے ناں؟ کیونکہ اگر زیادہ مجاہدہ کرایا جائے، مطلب یہ ہے کہ نیند بالکل ختم کردی یا بہت تھوڑی کی جائے، تو اس سے پھر خشکی آتی ہے۔ پرانے زمانہ میں لوگ اس کو خشکی کہتے تھے، آپ کیا کہتے ہیں آج کل؟ ڈاکٹری تحقیق کے مطابق یہ کیا ہوجاتا ہے؟ اگر انسان جو ہے ناں مطلب کم سوئے یا مطلب یہ ہے کہ وہ کم کھانا کھائے، اتنا زیادہ کہ جتنی کی ضرورت ہے، اتنا نہ کھائے، تو پھر ہم لوگ اس کو کہتے ہیں کہ ان کو خشکی ہوجاتی ہے، دماغی خشکی ہوجاتی ہے، پھر ان کو کچھ شکلیں نظر آنی شروع ہوجاتی ہیں، کچھ روشنیاں نظر آنی شروع ہوجاتی ہیں، ہاں جی! پھر لوگ اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگتے ہیں، ہاں جی! اور پھر بزرگی کا مرض ان کو لگ جاتا ہے، ہاں جی! یہ چیزیں چونکہ نہیں لگنی چاہئیں، تو لہٰذا وہ مجاہدے اتنے زیادہ نہیں کرنے ہوتے۔ وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید تھے، تو اس نے مجاہدے زیادہ کیے، وہ پکا صوفی بننا چاہتا تھا، جو کتابی صوفی ہوتا ہے، ہاں جی! کتابوں میں جیسے، کیونکہ کتابیں تو پانچ سو سال پہلے جو کتاب لکھی گئی ہے، وہ اس دور کے لئے لکھی گئی تھی ناں، کیونکہ تصوف تو medical کی طرح ہے، تو آٹھ سو سال پہلے کا نسخہ آج کل استعمال کرتا ہے کوئی؟ ہاں جی! آٹھ سو سال پہلے کا نسخہ کوئی استعمال نہیں کرتا، اس طرح آٹھ سو سال پہلے کی تصوف کی کوئی چیز اس کو آج کل استعمال کرسکتے ہیں ہم؟ اس لئے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی جو ’’کیمیاء سعادت‘‘ اور ’’احیاء العلوم‘‘ کے جو بعض ابواب ہیں، وہ پڑھنا روک دیا تھا کہ نہ پڑھیں، کیونکہ اس سے آپ لوگوں کو یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے۔ تو یہ جو ہے ناں مطلب حضرت کے پاس وہ آیا، اس نے کہا حضرت! مجھے تو آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں، کچھ انوارات بھی نظر آتے ہیں، حضرت نے فرمایا کہ ذرا آپ دودھ بھی پی لیا کریں، تھوڑی سی تفریح بھی کرلیا کریں اور صرف فرض نماز پڑھ لیا کریں اور سنت مؤکدہ جو ہیں، باقی چیزیں چھوڑ دیں۔ اب خشکی تو شروع ہوگئی تھی، اب جس کا system ہی disturb ہوجائے، تو پھر اس کی قوتِ فیصلہ بھی متأثر ہوجاتی ہے، اس شخص کے دل میں آیا کہ شیخ کو میرے ساتھ حسد ہوگیا یعنی اب میں بزرگ بننے والا ہوں تو اب یہ مجھے بزرگ نہیں بننے دے رہے، اب ان کو خود تو انوارات نظر نہیں آتے، ہاں جی! اور مجھے تو نظر آنے لگ گئے ہیں اور آوازیں بھی آنے لگی ہیں۔ تو اب کیا ہے مطلب یہ، انہوں نے اس کی بات نہیں مانی، تو حضرت نے ان کے بارے میں بتایا کہ ان کو یہ بتاؤ کہ اس کو لازم کرلو جو میں نے کہا ہے، ورنہ ہفتے دو ہفتے کے بعد یہ پاگل ہوجائے گا، ہاں جی! اس نے وہ بات نہیں مانی، نتیجتاً وہ جیسے حضرت نے فرمایا تھا، وہ پاگل ہوگیا، کپڑے پھاڑ ڈالے، لوگوں کو گالیاں دیتا تھا۔ یہ ہوتا ہے، یہ خشکی ہے، تو خشکی آجاتی ہے، تو خشکی سے بھی تو بچنا ہے ناں، اس لئے کہتے ہیں شیخ کی بات ماننی چاہئے، اگر شیخ کہتا ہے پراٹھا کھاؤ۔ بے شک وہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاکٹروں سے پوچھ کے، ایسا نہ ہو کہ وہ دل کا مریض ہو اور اس کو پہنچا دے۔ لیکن بہرحال اگر اس کو ضرورت ہے، تو پھر اس کو کھانا چاہئے اور اگر شیخ کہہ دے کہ نہیں، روک دو، تو پھر اس کو رکنا چاہئے۔ مقصود یہ ہے کہ وہ تو اس کی تربیت کررہا ہے، اس کی ذمہ داری وہ لے رہا ہے، تو شیخ کی بات پر بدگمانی نہیں کرنی چاہئے۔ ہاں! شیخ کے اوپر بدگمانی تو اپنے آپ کو کاٹنے والی بات ہے، تو ایک تو یہ بات ہے کہ قلت منام ہوگیا۔ اس کے بعد قلت اختلاط مع الانام، یہ اصل میں بہت ضروری چیز ہے، ہم لوگ یعنی ہمارا جو نفس ہے، یہ کھلا (ابھی جو میں نے عرض کیا کھلا) رہنا چاہتا ہے، لہٰذا اس پہ کوئی پابندی نہیں کہ میں کس سے ملوں، کس سے نہ ملوں، صحبتِ ناجنس سے تو ہر آدمی کو بچنا چاہئے، یہ تو لازم ہے، کیونکہ اس سے روحانی نقصان ہوتا ہے، ٹھیک ہے ناں! اس سے روحانی نقصان ہوتا ہے، لیکن عام لوگوں کے ساتھ بھی کثرت سے ملنے سے نقصانات ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں جب میوات گشت کے لئے جاتا ہوں، تو اپنے ساتھ صالحین کی جماعت کو رکھتا ہوں، اس کے باوجود لوگوں سے ملنے کے ساتھ میرا قلب متأثر ہوجاتا ہے، اس کو ٹھیک کرنے کے لئے یا میں حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں جاتا ہوں یا سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں جاتا ہوں اور اگر یہ دو میسر نہ ہوں تو پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ کیا چیز ہے یہ؟ اب وہ ملنا کس چیز کے لئے تھا؟ دین کے لئے تھا ناں، اس کے باوجود حضرت نے یہ فرما دیا، تو جب عام چیزوں کے لئے ملنا ہوگا، تو پھر اس کا کیا ہوگا؟ نقصان ہوگا ناں، اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک نالے کے اندر جو گندا نالہ ہے، اس کے اندر لعل پڑا ہے، موتی پڑا ہوا ہے، آپ کو نظر آگیا کہ موتی پڑا ہوا ہے، اب آپ اس کو اٹھانا چاہتے ہیں، اس کے اٹھانے کے لئے آپ کو اس کے اندر جانا پڑے گا، ہاتھ سے بھی اٹھانا پڑے گا، پیر بھی اس کے اندر جائیں گے، تو کیا ہوجائے گا؟ اگر کوئی آپ کو کہے جی بھئی! آپ کے پیر گندے ہورہے ہیں، آپ کہتے ہیں بھئی! پیر تو گندے ہورہے ہیں، لیکن مجھے تو جانا چاہئے، اب جانا تو چاہئے لیکن اس کے ساتھ طریقہ کیا ہوگا؟ اس کے لئے پانی کی بھی ضرورت ہے اس وقت کہ پھر اس کے بعد اپنے وہ جو متأثر حصہ ہے اس کو دھو بھی لے، صابن سے اس کو صاف بھی کرلے، تولیے ساتھ اس کو خشک بھی کرلے، تاکہ اس کو کوئی بیماری نہ لگے، ہاں جی! یہ چیز پھر ضروری ہے۔ اب لوگ ضرورت تو سمجھتے ہیں، اوہ ہو یہ تو بڑے قیمتی لوگ ہیں، مجھے تو جانا پڑے گا، چاہے پھر مجھے ہیرا منڈی جانا پڑے، ہاں جی! بھئی چلے تو گئے، لیکن جو بیماری لگ گئی، اس کے دھونے کی حفاظت بھی کی ہے یا نہیں؟ اس کے دھونے کا انتظام بھی کیا ہے یا نہیں؟ ہاں جی! یہ والی بات ہے۔ تو یہ چیزیں ہوتی ہیں بزرگ سمجھاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے جب اپنے شیخ سے بیعت کی، اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے بزرگوں کی خدمت میں جانا، یہ بہت بڑی سعادت ہوتی ہے، اللہ پاک ہمیں نصیب فرمائے، تو حالت یہ ہوگئی میری کہ میں لوگوں کے ساتھ گلے نہیں مل سکتا تھا، چند دن تک یہ بات تھی کہ لوگوں کے ساتھ میں گلے نہیں لگ سکتا تھا، مجھے باقاعدہ محسوس ہوتا کہ اس سے نقصان ہوگیا۔ اچھا! چلو ٹھیک ہے، اب اللہ کی طرف سے من جانب اللہ ایک تحفہ تھا۔ مجھے عقل نہیں تھی، عقل والی کمزوری تھی، کیا ہوا؟ میں نے کہیں کتاب میں پڑھا تھا کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا تھا کہ حضرت! میں نے جو ہے ناں اپنے کمرے کے لئے دربان کا بندوبست کیا ہے، اس کے ساتھ مطلب میں رکھتا ہوں، کیونکہ اس سے قلب کا نور متأثر ہوتا ہے، تو حضرت نے فرمایا کس نار کو نور سمجھے ہوئے ہو؟ کس نار کو نور سمجھے ہوئے ہو؟ وہ ان کے حال کے مطابق تھا، میں سمجھا کہ میرے حال کے مطابق ہے، میں نے کہا میں نے قصداً لوگوں کے ساتھ ملنا شروع کردیا، میں نے کہا کہ یہ تو مجھ میں تکبر آگیا ہے، اس سے وہ چیز ختم ہوگئی۔ اب جب وہ چیز ختم ہوگئی، پھر بعد میں میں نے مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا (ہمارے پیر بھائی تھے) حضرت نے مجھے ڈانٹا، فرمایا یہ شیخ کس لئے ہوتا ہے، بھئی! آپ کو شیخ سے تو پوچھنا چاہئے تھا ناں، اگر اللہ پاک نے آپ کو ایک چیز دی تھی، تمھاری سستی کی وجہ سے، تمھاری بیوقوفی کی وجہ سے زائل ہوگئی، تمھیں کیا حق تھا اپنا اجتہاد کرنے کا، شیخ کس لئے ہوتا ہے، آپ شیخ سے پوچھ لیتے، دیکھ لیں موٹی سی مثال ہے۔ مقصود یہ ہے کہ ہم لوگ اس مسئلہ میں اپنے مشائخ کے ساتھ رابطہ رکھیں، خود اپنی طرف سے کتابیں دیکھ دیکھ کر فیصلے نہ کیا کریں، اس کا پھر نقصان ہوجاتا ہے۔ تو یہ میں عرض کررہا تھا کہ لوگوں کے ساتھ ملنے سے نقصان ہوتا ہے، ہاں! لوگوں سے ملنا کتنا ضروری ہے؟ اس کو دیکھا جائے، اگر ضروری ہے تو ملا جائے احتیاط کے ساتھ، ملا جائے احتیاط کے ساتھ اور پھر اس کے بعد صفائی کا انتظام بھی ہو، صفائی کا انتظام بھی ہو، ورنہ پھر کیا ہے، وہ جو گند ہم ادھر سے لے لیں گے وہ گند ہمیں نقصان پہنچائے گا، اس چیز کو مطلب اچھی طرح جاننا چاہئے۔ بہرحال یہ چار مجاہدات ہیں، قلت طعام، قلت کلام، قلت منام، قلت خلط مع الانام۔ اس کے بعد توابع ہیں، توابع کیا چیز ہوتی ہیں؟ یہ وہ ہوتی ہیں کہ مقصود تو نہیں ہیں، لیکن یہ ہوتی ہیں، جب ایک کام آپ کرتے ہیں تو اس کے ساتھ خود بخود by default attach ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اس سے مطلب گزرنا ہوتا ہے۔ لاہور آپ جائیں گے، آپ کا لاہور جانا مقصود ہے، گوجرانوالہ دیکھنا مقصود نہیں ہے، گجرات دیکھنا مقصود نہیں ہے، ہاں جی! لیکن اب گجرات بھی راستے میں آئے گا، گوجرانوالہ بھی راستہ میں آئے گا، لالہ موسیٰ بھی آئے گا، کامونکے بھی آئے گا، یہ توابع ہیں، مطلب یہ چیزیں ہوں گی۔ ٹھیک ہے ناں! اب اگر کسی نے گجرات جانا ہی لازم سمجھا کہ یہ بھی ہے، یہاں پر بھی اترنا چاہئے، تو اپنی منزل پر لیٹ پہنچے گا اور ممکن ہے کہ نہ ہی پہنچے، تو توابع کو توابع سمجھنے سے انسان کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اس کو آج کل کے عرف عام میں side effects کہتے ہیں، دوائی کے کچھ ہوتے ہیں main effects، جس کے لئے دوائی کھائی جاتی ہے اور کچھ اس کے side effects ہوتے ہیں۔ اب corex کا شربت تھا، وہ کھانسی کا شربت تھا، اس کے اندر codeine یہ medicine شامل تھی، codeine کا یہ side effects ہے کہ انسان جو ہے ناں، وہ آدمی کو سکون محسوس ہوتا ہے یعنی نشہ کی کیفیت، وہ سکون محسوس ہوتا ہے۔ اب یار لوگوں نے (جو نشئی تھے) ان کو اگر اپنا نشہ نہیں ملتا تھا، تو وہ corex لے لیتے اور پورے کا پورا پی جاتے۔ اب corex کے نشے کی وجہ سے تو ان کو نشہ والی کیفیت تو حاصل ہوگئی، لیکن corex میں صرف وہ codeine تو نہیں تھا، اس کے اندر تو کچھ اور چیزیں بھی تھیں ناں، وہ anti-allergic جو چیزیں تھیں، وہ اس کی ایک بوتل ڈاکٹر صاحب! چڑھائیں تو کیا ہوگا؟ یعنی جتنی anti-allergic ایک چمچ میں انسان کے لئے ضروری ہے اور وہ بھی بیمار کے لئے جس کو الرجی ہو، ہاں! وہ اگر بیمار نہیں ہے اور اس کو آپ نے ایک چمچ نہیں، پوری بوتل پلا دی، تو اس کے ساتھ کیا ہوگا؟ تو یہی والی بات ہے کہ وہ جو side effect تھا، وہ side effect کو انہوں نے main effect سمجھا، نتیجتاً نقصان ہوگیا۔ یہ جو diazepamکی گولیاں ہیں، اس کا main effect سکونِ دماغ ہے، ہاں جی! سکونِ دماغ ہے، نیند اس کا side effect ہے، جیسے الرجی کی گولی کوئی کھاتا ہے، تو side effects میں انسان کی drowziness ہوتی ہے ناں، ذرا تھوڑی سی نیند آتی ہے، اب الرجی کی گولی کوئی نیند کے لئے تو نہیں کھا سکتا، تو اس وجہ سے جو diazepam ہے، اس کو لوگوں نے عام طور پر نیند کی گولی سمجھ لیا، ٹھیک ہے ناں! تو یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ تو یہ توابع ہیں، توابع کیا چیزیں ہیں، مثلاً کچھ ان میں مفید ہیں، میرے خیال میں وہ چیز آدھی چھوڑی ہے، ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ فاعلہ کا تو بتایا نہیں میں نے، صرف مجاہدہ کا بتایا تھا ناں، فاعلہ کا نہیں بتایا، ہاں! پہلے فاعلہ کا بتا دوں، side effects بتا رہا ہوں، جو ذرائع ہیں، وہ میں نے چھوڑ دیئے ہیں، تو خود ہی مجھ سے وہ غلطی ہوئی، جس سے میں منع کررہا ہوں، ہاں جی! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ تو بہرحال یہ ہے کہ فاعلہ جو ہے، یہ اصل میں انسان کے اندر کچھ قوتیں موجود ہیں، ان قوتوں کو انگیخت کرنے سے ان قوتوں کے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور ان کو انگیخت کرنے کے لئے مختلف طریقے ہوتے ہیں، میں آپ کو مثال دوں ذرا دنیا کی مثال ہے، یہ hypnotism جو ہے، hypnotism کیا چیز ہے؟ یہ ہر انسان کے اندر ایک مقناطیسی قوت ہوتی ہے، ہاں جی! بلکہ یہ سمجھ لیجئے مقناطیس کو ہی ہم دیکھ لیں، مقناطیس کیسے بنتا ہے، بھئی! جو لوہا ہوتا ہے، اس کے اندر جو poles ہوتے ہیں، وہ disorder میں ہوتے ہیں، ہاں جی! تو وہ کھینچتا نہیں کسی اور لوہے کو، لیکن اگر اس کو مقناطیس کے ساتھ رگڑا جائے بار بار ایک طریقہ سے، تو کیا ہوتا ہے، اس کے جو poles ہوتے ہیں، وہ سارے کے سارے align ہوجاتے ہیں یعنی جو north pole ہے، وہ north pole کی طرف ہوجاتا ہے اور جو south pole ہے، وہ ساے south pole کی طرف ہوجاتے ہیں، ٹھیک ہے ناں! نتیجتاً اب دیکھیں! اگر کسی کا north pole، اور ایک ذرہ کا north pole اس طرف ہے اور دوسرے کا اس طرف ہے، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ صفر ہوگا ناں، حالانکہ ایک مثبت ہے اور دوسرا منفی ہے، تو نتیجہ صفر ہوگا، اس طرح probability کے قاعدہ کے مطابق عالم امکان کی صورت میں وہ کیا ہوگا، یہ سارے کے سارے fifty fifty ہوں گے یعنی پچاس فیصد اس طرف، پچاس فیصد اس طرف، نتیجتاً نتیجہ صفر ہوگا، وہ مقناطیس نہیں بنے گا، لیکن اگر ان کو ہم align کردیں، north کو سارے north کی طرف کرلیں اور سارے south کو south کی طرف کردیں، تو پھر کیا ہوگا، سارے north کی طاقت مل جائے گی آپس میں اور south کی طاقت آپس میں مل جائے گی، لہٰذا اب کیا ہوگا؟ اب یہ لوہے کو کھینچے گا، قوت اس میں آجائے گی، ٹھیک ہے ناں! تو اب یہ جو مقناطیس ہے، وہ اسی طریقہ سے بنتا ہے، تو ہمارے اندر بھی مقناطیسی قوت ہے، ہمارے جسم کے اندر بھی مقناطیسی قوت ہے، وہ concentration کے قاعدہ سے align کردیا جاتا ہے، جو مقناطیس جیسے ہم بناتے ہیں، اس طریقہ سے اس کے اپنے طریقے ہوتے ہیں کہ concentration کے طریقے سے جیسے شمع کو بھی دیکھتے ہیں اور پتا نہیں کیا کیا کرتے ہیں، کچھ اس میں طریقۂ کار ہیں، اب اس کا یہ ہوتا ہے کہ وہ جب align ہوجاتا ہے، تو اب وہ شخص کیا ہے، وہ شخص اگر کسی کو گھور کے دیکھے اور اس کے ساتھ کچھ message بھی پاس کرلے، مثلاً اس کے دل میں یہ ہو کہ آدمی بیٹھ جائے اور اس کو گھور کے دیکھے، اس کو بیٹھنا پڑے گا، اس کو بیٹھنا پڑے گا، ہاں! وہ معمول بن جاتا ہے۔ تو یہ خان عبدالغفار خان جو ہے ناں، یہ اس کی اپنی وہ بات ہے کہ جلسوں میں ساتھ ہوتے تھے، تو یہ جارہے تھے ایک ہندو کی طرف، تو جو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ غالباً تھے، ان کو پتا چل گیا کہ اس کو کھینچ رہا ہے، تو اس نے فوراً آواز دی، تم کدھر جارہے ہو؟ اس سے وہ ٹوٹ گیا، وہ جو ان کا زور تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ مطلب دیکھ لیں! یہ چیزیں ہیں، کیونکہ وہ چیزیں وہ جانتے تھے، لہٰذا اب یہ دنیاوی چیزیں ہیں۔ لیکن ہم مانتے ہیں یہ اس حد تک powerful ہے کہ لوگ اس کے ذریعہ سے چمچوں کو موڑ لیتے ہیں، metallic چیزوں کو موڑ لیتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں یہ کیا ہے، یہ تو بڑی عجیب چیزیں ہیں، یہ تو بزرگ ہوگیا، یہ ہوگیا، حالانکہ یہ دنیاوی چیزیں ہیں۔ اب اگر دنیاوی چیزوں میں ہم اس طرح کرسکتے ہیں، تو دین کے لئے اگر ہم اس کو کریں، تو یہی چیزیں ہماری tools بن جائیں گی، یہ چیزیں ہماری tools بن جائیں گی، کیونکہ کوئی بھی اوزار نہ کافر ہوتا ہے، نہ مسلمان، یہ سیکولر ہوتا ہے، کوئی اوزار نہ کافر ہوتا ہے، نہ مسلمان، مسلمان اس کو استعمال کرے گا تو مسلمان بن جائے گا اور کافر اس کو استعمال کردے گا تو کافر بن جائے گا، ٹھیک ہے ناں۔ تو اسی طریقہ سے جو طریقے جوگیوں کے تھے مثلاً، جوگیوں کے طریقے تھے وہ اس سے اپنے مقاصد حل کرتے تھے دنیاوی، بعض صوفیاء نے ان کے ان طریقوں کو لے کر ان کو ان چیزوں کے لئے استعمال کیا، مثلاً یہ حبس دم جو ہے یہ اسی قبیل سے ہے، یہ جوگیوں سے لیا گیا ہے، لیکن اس سے فائدہ ہوتا ہے، مثلاً ایک شخص ہے، قلب اس کا نہیں چلتا، ہاں! مراقبہ اس کا نہیں ہورہا، تو حضرات فرماتے ہیں اچھا! ٹھیک ہے جی وہ گیارہ مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اس طرح کرو، جلدی جلدی کہہ دو، پھر اس کے بعد مطلب جو ہے ناں آپ وہ ایک سانس میں گیارہ مرتبہ کہو، پھر اس کے بعد اگلی دفعہ تیرہ کرلو، پھر اگلی پندرہ کرلو، پھر اگلی دفعہ سترہ کرلو، اس طرح بڑھاتے جاؤ جتنا بڑھا سکتے ہو، اس سے ما شاء اللہ! وہ چل پڑتا ہے۔ یہ حبس دم جو ہے، یہ ہماری مقصودی چیز نہیں ہے، لیکن ان سے ہم نے لیا ہے اور ہم نے اپنے مقصد کے لئے استعمال کردیا۔ تو یہ میں آپ سے عرض کررہا ہوں کہ یہ جو فاعلہ ہے، یہ اصل میں انسان کے اندر خود یہ چیزیں موجود ہوتی ہیں، ہم لوگ صرف ان کو حرکت دے دیتے ہیں کسی خاص طریقہ سے کہ اس سے وہ فوائد حاصل ہوجائیں۔ پھر یہ کیا ہے؟ ذکر ہے، شغل ہے اور مراقبہ ہے۔ یہاں ذکر سے مراد اصلاحی ذکر ہے، یہاں ذکر سے مراد کیا ہے؟ اصلاحی ذکر، یہ جو ہم بارہ تسبیح کا ذکر کرتے ہیں، دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ خاص طریقہ سے اور پھر چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کرتے ہیں، چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرتے ہیں اور سو دفعہ جو ہے ناں ساتھ ’’اَللّٰہ‘‘ کرتے ہیں۔ یہ خدا کی شان ہے کوئی observe کرنا سیکھ لے، باقاعدہ انسان کے اندر change آتی ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے، ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے اور ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے، پھر ’’اَللّٰہ‘‘ کے ساتھ ایک change آتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے کچھ اس قسم کی بات کی تو حضرت نے مجھے ڈانٹا، حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے، فرمایا یہاں آپ کا اجتہاد نہیں چلے گا، یہاں آپ کا اجتہاد نہیں چلے گا، یہ بزرگوں کے برسوں کے تجربات ہیں، یہاں پر آپ کو ماننا پڑے گا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ یہ کیا ہیں، یہ بزرگوں نے تجربے سے معلوم کردیا کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے اندر کیا ہے؟ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ کے اندر کیا ہے؟ اصل میں بات یہ ہے تفصیل کا موقع ہے نہیں، وقت بہت کم رہ گیا ہے، لیکن ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ یہ ناسوتی ذکر ہے، جس میں انسان کو نفس سے کاٹ کر اللہ کی طرف لایا جاتا ہے، چونکہ نفس اس میں involve ہے، لہٰذا اس کو ناسوتی ذکر کہا جاتا ہے۔ ہاں جی! ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ ملکوتی ذکر ہے، چونکہ ملائکہ کے ساتھ نفس نہیں ہے، لہٰذا ان کو ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کا ان کی طرف دھیان ہی نہیں ہوسکتا، وہ کیوں دوسرے ’’اِلٰہَ‘‘ کی طرف جائیں گے، ہاں! تو ان کا صرف ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہے، مطلب یہ ہے کہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ والا concept ہے کہ صرف اللہ کے لئے، تو یہ ملکوتی ذکر کہلاتا ہے اور ’’اَللّٰہُ اَللّٰہ‘‘ کا جو ذکر ہے، یہ جبروتی ذکر ہے، انسان کے اوپر تسلط کرلیتا ہے، تسلط کرلیتا ہے، انسان کو بالکل جیسے مطلب اپنے control میں کرتا ہے، یہ جبروتی ذکر ہے۔ ہاں جی! اور پھر جو ہے ناں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا جو ذکر ہے، یہ لاہوتی ذکر ہے، ہاں جی! یعنی اس میں انسان کسی بھی دوسرے واسطے سے غیر سے منقطع ہوجاتا ہے اور صرف اَللّٰہ کے ساتھ۔ ہاں جی! تو اب یہ چیز دیکھیں ناں! یہ stages ہیں تصوف کے کہ پہلے ناسوتی، پھر ملکوتی، پھر اس کے بعد جبروتی، پھر اس کے بعد لاہوتی میں جانا پڑتا ہے۔ یہ روزانہ اَلْحَمْدُ للہ! اس ذکر کی برکت سے یہ چاروں stages سے انسان گزرتا ہے، جتنا جتنا کسی کا ذکر پکا ہوتا جائے گا، ان کو ان سٹیجوں کے ساتھ مناسبت بڑھتی جائے گی، نتیجتاً اس کے جو ثمرات ہیں، وہ سامنے آتے جائیں گے اور ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ یہی ذکر کرتے کرتے کچھ عرصہ کے بعد ان کی سوچ ہی بدل جاتی ہے، سوچ ہی بدل جاتی ہے۔ راجا اشرف صاحب ہمارے ساتھی ہیں بہت پرانے، ابھی ان کی عمر تو میرے خیال میں پچاسی چھیاسی سال تو ہوگی، تو انہوں نے مجھے یہی کہا تھا، جب ذکر میں نے ان کو دیا تھا، تو تین مہینے کے بعد انہوں نے کہا شاہ صاحب! میرا تو خیال ہے کہ ذکر سے انسان کی طبیعت ہی بدل جاتی ہے، میں نے کہا نہیں حضرت! طبیعت نہیں بدلتی، طبیعت نکھر آتی ہے، طبیعت نکھر آتی ہے، جو جیسی طبیعت ہونی چاہئے، اس طرح ہوجاتا ہے، کیونکہ اللہ پاک نے سب کے لئے ایسا بنایا ہوا ہے، ہم لوگ اپنی نفسانی خواہشات کی بنیاد پر ان کو change کرلیتے ہیں، تو ان چیزوں کو وہ دور کرلیتا ہے، تو اصل طبیعت نکھر کے آجاتی ہے۔ میں نے کہا کیونکہ اس حدیث شریف کے ساتھ ٹکراؤ ہوجائے گا ناں کہ اگر کوئی کہہ دے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا تو مان لو، لیکن کوئی کہہ دے کہ کسی کی جبلت بدل گئی، تو یہ نہیں ہوسکتا۔ تو طبیعت تبدیل نہیں ہوتی۔ ہاں! یہ بات ہے کہ طبیعت نکھر کے آجاتی ہے۔ تو اس کے اثرات راجا اشرف صاحب نے اتنے محسوس کیے کہ تین مہینے اور مجھے فرمایا شاہ صاحب! میں دوسروں کو تو سمجھانے کے قابل نہیں ہوں، خود سمجھ گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی طاقت ہے، خود سمجھ گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی طاقت ہے۔ یہ دیکھیں! اللہ پاک نے ان کو مشاہدہ کروایا، پھر مجھ سے فرمایا شاہ صاحب! میرا مطالعہ ہی نہیں چھوٹتا تھا، اب میں کہتا ہوں کہ تنہائی ہو اور یادِ الہٰی ہو، اب پرنسپل ریٹائرڈ اور عمر ساری مطالعہ میں گزاری ہے، اس کی یہ کیفیت ہوجائے، تو یہ کمال ہے یا نہیں ہے؟ اور تین مہینے میں، ہاں جی! اور پھر اس کے بعد آخری بات اس نے اور بھی عجیب کردی، فرمایا شاہ صاحب! میں پہلے اِدھر تھا، اب میں اِدھر آگیا ہوں، سبحان اللہ! کیسی زبردست بات ہے۔ تو یہ میں عرض کرتا ہوں ذکر کے اثرات بڑے زبردست ہوتے ہیں، لیکن ذکر طریقہ سے کیا جائے، پوچھ پوچھ کے کیا جائے، اپنے اجتہادات کو دور کیا جائے اور شیخ کی بات مانتا جائے، تو پھر ما شاء اللہ! ذکر کے جو اثرات ہیں، کیا ہیں؟ وہ بہت زیادہ ہوتے ہیں اور دیرپا اثرات ہوتے ہیں۔ ہاں جی! تو یہ میں آپ سے عرض کررہا تھا کہ یہ تین چیزیں ہیں، ذکر ہے، شغل ہے، مراقبہ ہے، ٹھیک ہے ناں! شغل میں کیا کہتا ہوں، یہ ڈاکٹروں کی زبان آج کل بہت استعمال کررہا ہوں، ہاں جی! یہ steroid ،steroid جو ہوتا ہے، یہ بھی ایک چیز ہے، جب عام دوائیاں ناکام ہوجاتی ہیں، تو پھر کیا دیتے ہیں، پھر steroid دیتے ہیں، steroid ایک جھٹکا ہوتا ہے، جیسے گاڑی پھنس جائے اور کسی طریقہ سے نہیں نکلے، تو اس کو جو ہے ناں اس طریقہ سے۔ تو وہ شغل جو ہوتا ہے، وہ یہی ہوتا ہے کہ اگر عام ذکر سے اور مراقبہ سے کسی کا کام نہ چلے، تو پھر ان کو شغل کراتے ہیں اور شغل اتنا کرا دیتے ہیں جتنا کہ مفید ہوتا ہے، جتنا کہ مفید ہوتا ہے، اس کے بعد روک دیتے ہیں۔ ہاں جی! تو یہ جو ہمارا شغل ہے، ذکر ہے اور مراقبہ یہ مفید بلاخطر ہیں اور مفید مع الخطر، مع الخطر یعنی خطرہ بھی اس میں ہے، لیکن کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے اور وہ کیا ہے؟ تصورِ شیخ، red zone medicine، کیا کہیں گے ڈاکٹر صاحب اس کو؟ یہ medicine لینی تو ہے، لیکن وہ کیا ہوتے ہیں، اس کو کیا کہتے ہیں؟ life saving drugs life saving drugs یہ ہوتے ہیں، تو یہ کبھی کبھی استعمال کرنے کی نوبت آتی ہے، یہ ہر وقت نہیں، جہاں اس کے استعمال کی ضرورت ہو، تو وہ شیخ کے اجتہاد پر ہوتا ہے، وہ اس کو بتا دیتے ہیں۔ تو اس میں ہے تصور شیخ۔ ٹھیک ہے ناں! دوسرا ہے عشق مجازی، لوگ خوش ہوجائیں گے، سبحان اللہ! کیا بات ہے! نہیں، عشق مجازی سے مراد یہ نہیں ہے کہ ناجائز عشق مجازی، جائز عشق مجازی بھی ہوتا ہے ناں کہ نہیں ہوتا؟ ایک بزرگ کے پاس کوئی آیا، اس سے حضرت نے کہا تمھیں کس چیز سے محبت ہے زیادہ؟ اس نے کہا کہ مجھے بھینس کے ساتھ محبت ہے، انہوں نے کہا جاؤ چالیس دن کے لئے گھر میں بیٹھنا ہے، صرف فرض نماز پڑھنی ہے، کھانا کھانا ہے، سونا ہے اور تصور کرنا ہے بھینس کا، بھینس کا تصور کرنا ہے۔ اب بتاؤ! یہ کیا چیز ہے؟ یہ عشق مجازی ہے، ہاں جی! تو بھینس کا تصور ان کو چالیس دن کرایا اور اس کے بعد حضرت اس کے کمرے میں گئے، ان سے کہا باہر آجاؤ، انہوں نے کہا کیسے آجاؤں؟ میرے سینگ ہیں، اٹک جاتے ہیں، وہ مراقبہ اتنا طاری ہوگیا تھا کہ وہ اپنا خود بخود فنا فی البھینس ہوگیا تھا، ہاں جی! تو اب دیکھیں! حضرت نے کہا اب کام ہوگیا، تو حضرت نے اس کے اوپر توجہ کی، تصرف یہ بھی ایک طریقہ ہے، ابھی آگے آئے گا کہ تصرف کرکے اس کا بھینس کے تصور کو ہٹا کے اللہ پاک کے تصور پہ لایا، گویا کہ یوں سمجھ لیجئے کہ جو بھینس کی طرف متوجہ تھا، اب دیکھیں! وہ کہتے ہیں وہ ’’دِل ہَمَہ داغ داغ شُد پُن٘بَہ کُجا کُجا نِہُم‘‘ کہ مطلب میرا دل جو ہے، داغ داغ ہوگیا ہے، میں پنبہ کہاں کہاں پر رکھوں؟ اتنے سارے زخموں کو آدمی کیا کرسکتا ہے، پریشان ہوجاتا ہے ناں، لیکن اگر آپ سارے گند کو ایک جگہ جمع کردیں اور پھر اس کو ہٹا کے اصل چیزیں ادھر رکھ لیں تو سارا کام ہوجاتا ہے ناں۔ تو یہاں پر بھی وہی والی چیزیں ہیں کہ عشق مجازی جو ہے مطلب وہ ایک ایسی جائز محبت جو طبعی محبت ہے، جس میں انسان کو کسی چیز کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ اس حد تک انگیخت کی جائے کہ وہ باقی تمام محبتوں کو ختم کردے، باقی تمام محبتوں کو ختم کرلے، تو پھر کیا ہوگا، پھر یہ ہے کہ اسی ایک محبت کو ہٹا کر اصل محبت اُدھر ڈال لو۔ لیکن کسی کے اندر یہ طاقت ہو ناں، تو یہ ہم لوگ نہیں کرسکتے، مطلب جو لوگ اس کو کرسکتے تھے وہ پھر کرسکتے تھے، اب ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ بھی شروع کرلیں کہ لوگوں کو عشق مجازی شروع کروا دیں، ہاں جی! نہیں بھئی! یہ بہت مشکل کام ہے، وہ جو لوگ اس کے اہل ہوتے ہیں، وہی کرسکتے ہیں۔ تیسری چیز کیا ہے؟ سماع ہے سماع، اس پر بھی لوگ بڑے خوش ہوجائیں گے، بھئی! یہ تو بڑی مزیدار ہے، یقیناً مزیدار چیز ہے، لیکن مزے کے لئے نہیں ہے، سبحان اللہ! کیا بات ہے، مزیدار چیز ہے، لیکن مزے کے لئے نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں! مقصود یہ ہے کہ سماع جو ہے، یہ کیا چیز ہے؟ آپ کہہ سکتے ہیں دل کے اندر اللہ کی محبت کو پہنچانا ہے، کیا کرنا ہے؟ دل کے اندر اللہ کی محبت کو پہنچانا ہے۔ اب اللہ کی محبت کو پہنچانے کے لئے آپ کوئی carrier لیتے ہیں جس کے اوپر رکھ کر آپ اس کو پہنچاتے ہیں، ٹھیک ہے ناں! اب عام طور پر نہیں پہنچا سکتے ہیں، اب carrier ایسی چیز ہو کہ جو خود بخود دل کے اندر آنے کو تیار ہو، جس کے لئے دل کے اندر کوئی رکاوٹ نہ ہو، ہاں جی! تو اب دیکھ لیں! اچھی آواز کے ساتھ شعر و شاعری جو ہے، اس کے لئے دل کے دروازے کھلے ہوتے ہیں ناں، سب کے تو نہیں لیکن کچھ لوگوں کے کھلے ہوتے ہیں، جن میں ہم بھی شامل ہیں، ہاں جی! مطلب ان کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، اب جب دروازے کھلے ہوتے ہیں، اب اس پہ یوں کرلیں کہ وہ جو شعر و شاعری ہے، جس کے لئے دل میں جذب ہے، اب اس کے اوپر اللہ کی محبت طاری کردو، ہاں جی! اور وہ اس ذریعہ سے آپ اس کو دل میں پہنچا دیں، مقصود شاعری پہنچانا نہیں ہے، مقصود اللہ کی محبت پہنچانا ہے، اس وجہ سے سماع سے مقصود مزہ نہیں ہے، لیکن اس مزیدار چیز کو اس مقصود چیز تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو سماع جو ہے، یہ بھی ایسا ہوتا ہے، پھر اس کے بعد میرے خیال میں شاید۔ دیکھیں! حضرت کا ایک صفحہ بھی پورا نہیں کرسکے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو یہ تمام فیوض و برکات بزرگوں کی نصیب فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ