ریا: حقیقت، وسوسے اور علاج

انفاسِ عیسیٰ کی کتاب سے تعلیم

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ امدادیہ - خیابانِ سر سید، راولپنڈی

اس بیان میں ریا کے مختلف پہلوؤں اور اس کے علاج پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ابتدا میں، وسوسۂ ریا اور اصل ریا کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ اگر ابتداءً ریا کا خیال نہ ہو اور عمل کے وقت وسوسے پیدا ہوں تو عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ دل سے ریا کو برا سمجھ کر اسے دفع کرنا کافی ہے۔ ریا کے خوف سے اعمال کو چھوڑنا بھی ایک قسم کی ریا ہے، کیونکہ اس میں لوگوں پر نظر ہوتی ہے۔ بیان میں ریا سے بچنے کے لیے ایک مؤثر طریقہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو چٹائیوں کی مانند سمجھا جائے، کیونکہ وہ نہ فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ نقصان، لہٰذا ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اصل معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صاف رکھنا چاہیے، کیونکہ وہی اچھا سمجھنے یا برا سمجھنے کا حقدار ہے۔ کمالات کے اظہار کو ریا قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ وہ دنیاوی غرض کے لیے ہو، جبکہ اپنے عیوب کو چھپانا ریا نہیں ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ محض کسی کے دیکھنے سے ریا نہیں ہوتی جب تک کہ عامل دکھلانے کا قصد نہ کرے۔ ریا کی حقیقت کو "اِرَادَۃُ الْخَلْقِ لِغَرَضٍ دُنْیَوِیٍّ" یعنی دنیاوی مقصد کے لیے مخلوق کو راضی کرنا قرار دیا گیا ہے۔ عبادت میں کسی کے مطلع ہونے پر طبیعت میں فرحت کا ہونا ریا کی علامت تو ہے لیکن خود ریا نہیں، جب تک کہ اس میں ارادہ شامل نہ ہو۔ آخر میں، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق اور ذکر کی کثرت ہی ریا سے مکمل چھٹکارے کا آسان اور مؤثر ذریعہ ہے۔

ریا:

عمل کے وقت وسوسات ریا کا علاج:

تہذیب: اگر ابتداءً ریا کا خیال نہ ہو اور عمل کے وقت اس قسم کے وساوس پیدا ہو جائیں تو اپنے معمول کو ترک نہ کریں بلکہ ثبات اولیٰ ہے۔ ریا کو دل سے برا سمجھ کر حتی الامکان ان کو دفع کرنا کافی ہے۔

ہمیں اپنے حضرت نے فرمایا تھا کہ ریا جو ہے ناں، یہ اختیاری چیز ہے۔ ریا کیا ہے؟ اختیاری چیز ہے۔ اور وسوسۂ ریا، ریا نہیں ہے۔ لہٰذا اگر تمہیں ریا کا وسوسہ ہوگیا تو یہ اس کو سمجھو وسوسہ۔ اور جتنا آپ اس کو اختیار میں سمجھتے ہو اس کو دور، کیونکہ ارادے سے ہوگا۔ اگر ارادہ سے ہوگا تو ارادے سے ختم بھی ہوگا۔ تو جو ختم نہیں ہو رہا تو وہ وسوسہ ہے۔ پھر فرمایا کہ ریا کی وجہ سے اعمال بھی نہ چھوڑو۔ فرمایا ریا کی وجہ سے اعمال کو چھوڑنا بھی ریا ہے، کیونکہ لوگوں پر نظر ہے۔ پھر مجھے فرمایا کہ کبھی آپ نے چٹائیوں کے بارے میں سوچا ہے کہ یہ مجھے دیکھ رہی ہیں نماز پڑھتے ہوئے؟ میں نے کہا نہیں حضرت کبھی بھی نہیں سوچا۔ فرمایا بس لوگوں کے بارے میں یہی خیال کرو کہ یہ چٹائیوں سے زیادہ نہیں ہیں، کیوں؟ جیسے چٹائیاں مجھے نہ نقصان دے سکتی ہیں نہ فائدہ۔ اس طریقے سے لوگ بھی مجھے حقیقت میں نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ تو میں ان کی کیوں پروا کروں؟ مثال کے طور پر ساری دنیا کے لوگ متفق ہو جائیں کہ شبیر سے بڑا بزرگ کوئی نہیں ہے۔ تو بتا دیں کیا میری حالت پر کوئی فرق پڑے گا اصل میں؟ جو مقام میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوگا اس کو کوئی فرق پڑے گا؟ خدانخواستہ اگر ایسی بات نہیں ہے تو کیا ان کے سمجھنے سے ہو جائے گا؟ اور اگر سارے دنیا کے لوگ جمع ہو جائیں اور مجھے زندیق سمجھیں، تو کیا میرے اس یعنی مقام میں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا کوئی فرق پڑے گا؟ تو اصل بات تو یہی ہے کہ نہ لوگوں کا اچھا سمجھنے سے کوئی اچھا ہو سکتا ہے نہ لوگوں کا برا سمجھنے سے کوئی برا ہو سکتا ہے۔ اصل چیز تو اللہ تعالیٰ کا اچھا سمجھنا اور برا سمجھنا ہے۔ معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صاف رکھنا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ درست ہوگا تو پھر وہ خود ہی لوگوں کے دلوں میں بھی ڈال لے گا۔ اور اس طرف سے بھی مسئلہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اور نہ بھی ہو تو آپ اس کے لیے تھوڑا کر رہے ہیں، اب اس کے لیے تو کرنا بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا معاملہ اللہ کے ساتھ، جس کا معاملہ، جس کی اس پہ نظر ہو کہ میرا معاملہ اللہ کے ساتھ درست ہو، وہ کبھی ریاکار نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک اعمال کی بات ہے تو اعمال میں ایک ذکر ایسی چیز ہے جس کے بارے میں باقاعدہ ارشاد موجود ہے، جس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ تم اتنا ذکر کرو، اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریاکار کہیں۔ اتنا ذکر کرو، اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریاکار کہیں۔ تو اگر ریاکار کہیں گے تو اس سے نہ رکنے کا حکم ہے ناں۔ مطلب ظاہر ہے کوئی ریاکار کہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ بلکہ یہ اس کا علاج بھی ہوا ہے کہ جو آدمی ریاکار کہلائے جانے کے لیے تیار ہوگیا تو ریاکار کہاں ہو سکتا ہے؟ کیونکہ ریاکار کو کوئی اچھا تو نہیں ناں سمجھتا۔ تو جو اس بات کے لیے تیار ہوگیا کہ لوگ مجھے ریاکار کہہ دیں، کوئی بات نہیں۔ تو اس کا مطلب وہ ریاکار نہیں ہے۔ دیکھیں ناں کس طریقہ سے علاج فرما دیا کہ وہی کام کروا دیا جس سے لوگ ریاکار سمجھتے ہیں۔ لیکن چونکہ نیت بدلوا دی لہٰذا وہ اس کا علاج بھی ہوگیا۔ تو اس وجہ سے اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ بھئی تسبیح ہاتھ میں لے کر باقاعدہ وہ تسبیح کر لیا کرو۔ لوگوں کو بھول جاؤ کہ لوگ ہمیں دیکھتے ہیں، کیا، کیا لوگ کر لیں گے؟ ہاں یہ الگ بات ہے کہ دفتر میں یا ادھر ادھر وہ نہ کرو، کیونکہ دفتر میں ہم لوگ اس مقصد کے لیے تو نہیں جاتے، وہ تو ہماری ڈیوٹی ہوتی ہے، تو وہاں جو ہمارا کام ذمے ہوتا ہے وہ ہم کریں۔ وہ ایک یہ وجہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کو خواہ مخواہ بات کرنے کا موقع مل جائے کہ مخالفت کا کہ بھئی یہ تو دفتر اس لیے آتا ہے یا اس طرح کرتا ہے۔ وہ الگ بات ہے، لیکن یہ بات ہے کہ عام حالت میں لوگ اس سے جو ہے ناں وہ نہ رکیں کہ لوگ جو ہے ناں وہ کیا کہیں گے، لوگ بالکل کہتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگ اگر کہتے ہیں کہ ریاکار ہے، تو اچھی بات ہے، یہ تو آپ ﷺ کے حکم پر عمل ہو جائے گا۔ پروا اس کی نہیں کرنی چاہیے۔

وسوسہ تو کفر کا بھی آنا مضر نہیں:

تہذیب: ریا تو قصد سے پیدا ہوتا ہے اور جو بلا قصد ہو وہ ریا نہیں، صرف وسوسۂ ریا ہے اور وسوسہ تو کفر کا بھی مضر نہیں، چہ جائیکہ ریا کا وسوسہ۔

آج کل جوانوں پہ بالخصوص، شیطان کا سب سے بڑا attack یہی ہوتا ہے وسوسے کا، سب سے بڑا attack یہی ہوتا ہے۔ اتنے میرے پاس آتے ہیں ناں اس کے بارے میں کہ میں آپ کو کیا بتاؤں، بیچارے تو بعض دفعہ بالکل جیسے پاگل ہونے کو ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بس یہ تو اس طرح، یہ تو اس طرح، اس طرح۔ وجہ کیا ہے؟ شیطان کے لئے یہی ہتھیار سب سے آسان ہے اور لوگ اس کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ بھئی، بالخصوص جو ذرا اعمال کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو ان کو پھر وسوسے زیادہ ڈالتا ہے۔ تو جب اعمال نہیں کرتا تو پھر وسوسے نہیں ڈالتا، تو اس کا مطلب یہ کہ اعمال چھڑوانے کا پروگرام ہے تاکہ وہ اعمال چھوڑ دے۔ اور یہ جو ناسمجھ لوگ ہوتے ہیں وہ بھی یہی کرتے ہیں کہ جس وقت کوئی اس قسم کے لوگوں کو وسوسے آتے ہیں تو عام لوگ جو ظاہر ہے مشائخ تو نہیں ہوتے، تو ان کو بتاتے ہیں چھوڑ دو، چھوڑ دو، کوئی بات نہیں۔ حتیٰ کہ مجھے ایک واقعے کا کم از کم پتا ہے۔ ہمارے class-fellow تھے، ان کو بھائی نے کہا کہ نماز نہ پڑھو پھر تم مصیبت بن جاتے ہو۔ اس کو جو ہے ناں وہ نیت کا اس کی جو ہے ناں وہ نہیں ہوتی۔ وہ نیت میں اتنے زیادہ وسوسے کرتا کہ بس اس کی رکعت ہوجاتی اور اس کی نیت ہی ابھی نہیں پوری ہوئی ہوتی۔ بس اس طرح ہوتا ہے ناں بالکل۔ تو وہ یہ ہے کہ اس کو بھائی نے کہا کہ بس تم نماز نہیں پڑھو گے۔ حالانکہ یہ اس کا علاج تھوڑا تھا۔ اس کا علاج یہ تو نہیں تھا، اس کو کہتا کہ پروا نہ کرو بس آپ جو ہے ناں اللّٰہ اکبر کہتے جاؤ باقی ٹھیک ہے۔ اس کو سمجھانے کی بات اور اگر بالکل سمجھنے سے معذور تھا تو پھر اس کا میڈیکل علاج کرنا چاہئے۔ باقاعدہ میڈیکل اس کا علاج ہوتا ہے، اس کی میڈیسن ہوتی ہے۔ کیونکہ neuron جس وقت جو ہے ناں وہ transmission میں کوئی مسئلہ ہوجائے تو پھر اس کو اس قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے جو senses وہ abnormal set ہوجاتی ہیں تو ان کو پھر دوبارہ نارمل بنانے کے لئے کسی Chemistry کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی Physical change کی۔ تو اس کے لئے پھر میڈیسن ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹری علاج کروانا پڑے گا۔ لیکن ڈاکٹر بھی مسلمان ڈاکٹر ہو، آج کل psychiatry میں ملحد زیادہ ہیں اور یہ مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ وہ پہلے ذرا دیکھنا چاہئے کہ بھئی کوئی اچھا ڈاکٹر ہو جو کم از کم اسلام کو وہ کرتا ہو، acknowledge کرتا ہو۔ فرمایا کہ:

کمالات کے اظہار کا اہتمام ریا ہے:

تہذیب: بجز مربِّی کے اپنے عیوب کسی دوسرے پر ظاہر ہونے کو پسند نہ کرنا یہ ریا نہیں ہے، بلکہ یہ تو مطابق سنت کے ہے۔ استتارِ عیوب کا خود حکم ہے، ہاں! کمالات کے اظہار کا اہتمام یہ ریا ہے۔ اگر وہ کمالات غیر واقع ہوں تو خداع اور تلبیس ہے۔

یعنی یہ بات حضرت نے یہ بات فرمائی کہ اپنے عیوب کو ظاہر نہ کرنا یہ ریا نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی تو حکم دیا ہے اپنے عیوب کو نہ ظاہر کرو۔ تو باقی یہ ہے کہ اپنے کمالات کا جو اظہار ہے اگر وہ اس پر عمل ہو ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾1 پھر تو ظاہر ہے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر اس کا وہ ہو کہ جو ہے ناں مطلب لوگ مجھے اچھا سمجھیں، تو پھر ریا ہے۔ اور یہ ہے کہ اگر غیر واقع ہوں یعنی وہ کمالات اس میں ہوں ہی نہیں اور پھر بھی یہ کرتا ہو تو پھر یہ تو دھوکہ ہے اور تلبیس ہے، لوگوں کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔

محض دکھلانے کا خیال بلا اختیار آ جانا ریا نہیں جب تک کہ عامل اس کا قصد نہ کرے:

حال: ہر کارِ خیر میں، خصوصاً نماز میں یہ خیال ہوتا ہے (یہ حال ہے کسی کا) کہ تجھے فلاں فلاں دیکھ رہا ہے، اس لیے یہ فعل تیرا ریا اور سُمعہ میں داخل ہے۔ جو اکثر فرض نماز کے سوا باقی افعالِ حسنہ کے ترک پر مجبور کرتا ہے۔

وہی والی بات آگئی ناں۔ فرمایا۔

تہذیب: محض کسی کے دیکھنے سے تو ریا ہوتی نہیں جب تک کہ عامل دکھلانے کا قصد نہ کرے، اور یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ قصد فعلِ اختیاری ہے، محض دکھلانے کا خیال بلا اختیار آجانا یہ قصد نہیں۔ اس علم کی تصحیح بھی اس خیال کا علاج ہے اور اس خیال کے مقتضا پر عمل نہ کرنا، یعنی طاعت کو ترک نہ کرنا اس کا مکمل علاج ہے۔

طاعت سے نہ رکنا یہ اس کا مکمل علاج ہے۔

عمل اور خُلُق کی اصلاح کا طریقہ:

تہذیب: عبادات میں جو ریا ہو عقلاً اس کو دبانا اور روکنا یہ عمل کی اصلاح ہے۔ اور اس عادت سے اس خُلُق (ریا) کا تقاضا نہ ہونا یہ خُلُق کی اصلاح ہے۔

یعنی عقلاً انسان اس کو دیکھے ناں کہ بھئی لوگوں کے دیکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ چلیں دیکھ لیں۔ مجھے کیا، میں کیوں اس کے بارے میں سوچوں؟ کیونکہ نہ اس کا کچھ فائدہ ہوتا ہے نہ دیکھنے سے نقصان ہوتا ہے، لہٰذا میرا اس میں کوئی وہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوتا رہے ہوتا رہے، اس کا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو یہ پھر اس کا عقلاً علاج ہے۔

ریا کی حقیقت:

تہذیب: (1) ریا کی حقیقت ہے "اِرَادَۃُ الْخَلْقِ لِغَرَضٍ دُنْیَوِیٍّ"، "اِرْضَاءُ خَلْقٍ لِلْحَقِّ" ریا نہیں۔

فرمایا کہ ریا کی حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے لئے عمل کرنا کسی دنیاوی مقصد کے لئے۔ بڑی جامع تعریف فرما دی۔ لوگوں کے لئے دکھلانے کی نیت کرنا کسی دنیاوی غرض کے لئے۔ صرف لوگوں کی رضامندی کرنا جو ہے ناں یہ ریا نہیں ہے، کیونکہ یہ تو بعض دفعہ دین میں بھی ضروری ہوتا ہے۔ دین میں بھی یہ چاہیے ہوتا ہے۔ کسی دنیاوی غرض کے لئے۔ دنیاوی غرض سے مراد یہ ہے کہ مجھے بزرگ سمجھے تو بزرگی تو دنیا کی ساری چیزیں ہیں، یہ دنیا کا شعبہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو اس میں یہ بات ہے کہ یا کوئی مجھے بڑا سمجھے، حبِ جاہ جس کو ہم کہتے ہیں کہ یہ بھی دنیا کا شعبہ ہے۔ دنیا کس کو کہتے ہیں؟ ذرا تھوڑا سا اس کو سمجھنا چاہیے۔ دنیا ہر وہ چیز ہے جو موت سے پہلے ہے۔ موت دنیا کی سرحد ہے۔ موت کے اُس طرف آخرت ہے، اِس طرف ساری دنیا ہے۔ تو جس کا عمل اُس چیز سے وابستہ ہے یعنی اس فائدے کے ساتھ وابستہ ہے جو موت سے پہلے ہے، تو یہ دنیا کے لئے ہوا، غرض دنیاوی ہوئی۔ اور جو اس غرض سے وابستہ ہے جو موت کے بعد ہے تو یہ آخرت کے لئے ہے۔ سمجھ میں آگئی؟ ٹھیک ہے ناں؟ یہ ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو پھر اب بتا دو کہ کیا اس میں اشکال رہتا ہے؟

سوال: وہ رضامندی والی بات سمجھ نہیں آئی۔

جواب: وہ کر لیا ناں کہ محض۔۔۔۔ دیکھیں ناں، ایک استاد ہے وہ اس لئے ایک عمل کرتا ہے کہ میرے شاگرد کو اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آ جائے۔ وہ ریا تو نہیں ہے ناں؟ شیخ اگر اس لئے بات کرتا ہے، اپنے اعمال کی، کچھ طریقے بتاتا ہے کہ میرے مریدوں کو اس کا اچھی طرح پتا چل جائے۔ یہ تو ریا نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے میرے خیال میں حضرت کے ملفوظات میں پڑھا ہوگا، سنا ہوگا، فرمایا کہ شیخ کی ریا مرید کے اخلاص سے بہتر ہے۔ شیخ کی ریا جو ہے وہ مرید کے اخلاص سے بہتر ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ شیخ کی ریا کے ساتھ مرید کی اصلاح وابستہ ہے۔ اگر شیخ اپنے سارے اعمال چھپ چھپا کے کرے تو پھر مرید کی اصلاح کیسے ہو؟ ٹھیک ہے ناں۔ تو مطلب ضابطے ہر ایک کے لئے مختلف ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے؟ تو اس وجہ سے فرمایا کہ جس شیخ کا یہ ارادہ کہ مرید کی اصلاح ہو جائے یہ تو دنیا کے لئے نہیں ہوا ناں، یہ تو دین کے لئے ہوا، آخرت کے لئے ہوا۔ لہٰذا غرض دنیاوی نہیں ہے، لہٰذا وہ ریا نہیں ہے۔ اور جس کی نیت دنیاوی غرض کے لئے ہو وہ ریا ہے، اس سے بچنا چاہیے۔

تہذیب: (2) ریا کی حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اظہار کسی دنیاوی غرض سے کیا جائے، یا کسی فعلِ مباح کا اظہار کسی معصیت کی غرض سے کیا جائے۔

کسی مباح۔ مباح وہ ہوتے ہیں جو جائز ہوتے ہیں، اُس سے اگر آپ نے کوئی گناہ کا ارادہ کرلیا، گناہ کا ذریعہ اس کو بنایا، تو یہ بھی مطلب اس میں ریا آجائے گا۔

ریا میں صرف تصحیحِ نیت کافی نہیں بلکہ عمل میں تغیُّر بھی نہ کرے:

حال: بعض مرتبہ کسی اچھے کام میں مصروف ہوتا ہوں اچانک کسی شخص پر نظر پڑ جاتی ہے تو اکثر و بیشتر یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کام کو اور اچھی طرح پر کرو۔ مجھے اتنا تو یہ یقیناً معلوم ہے کہ یہ ریا ہے اور ایسے وقت میں یہ سمجھ کر کہ انسان کیا چیز ہے جو اس کو دکھلا کر کام کریں، اس کام کو کیے جاتا ہوں اور نیت حق تعالیٰ کی طرف پھیر لیتا ہوں، نیت پھیر لینے سے ریا جاتی رہے گی یا نہیں؟

تہذیب: میرا مذاق اس میں یہ ہے کہ صرف تصحیحِ نیت اس میں کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ خطرہ کے بعد عمل میں تغیُّر بھی نہ کرے، کیونکہ تصحیحِ نیت اس کا مقصود بالذات نہیں، بلکہ مقصود بالذات (اس کا) تحسینِ عمل للحق ہے اور تصحیحِ نیت اس تحسین کا آلہ، تاکہ غائلۂ ریا سے بھی بچا رہے اور مقصودِ نفس بھی حاصل ہو جائے۔ تو جس اخلاق سے تحصیلِ ریا مقصود ہو وہ مقدمۂ ریا ہونے کے سببِ ریا ہی ہے۔ اگر دوسرے اطباء کی تحقیق اس کے خلاف بھی ہو تب بھی اپنی رائے پر قائم ہوں، ذوقیات میں ایک کا اجتہاد دوسرے پر حجت نہیں۔

یہ بالکل ذرا مشکل مضمون ہے، یہ اصل میں حال تو آپ کو سمجھ میں آگیا ناں کہ جو انہوں نے کہا تھا، ان کی بات تو سمجھ میں آگئی ہوگی۔ حضرت کی جو تحقیق ہے وہ سمجھ میں نہیں آئی ہوگی۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ جو آپ کہتے ہیں کہ میں نیت حق تعالیٰ کی طرف پھیر لیتا ہوں کہ میں اللہ کے لئے کرتا ہوں، تو فرمایا کہ ٹھیک ہے، نیت پھیر لینے سے آپ کی وہ چیز تو نہیں، لیکن فرمایا کہ میں اس کو کافی نہیں سمجھتا، کیونکہ نیت پھیر لینے کے باوجود آپ اگر اس کی وجہ سے تغیر کریں گے عمل میں یعنی اس کو آپ زیادہ بہتر کریں گے تو یہ مقدمۂ ریا ہو سکتا ہے۔ مقدمۂ ریا ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے ریا آگے بڑھ سکتا ہے۔ آپ عمل میں change ہی نہ کرو، یعنی existing یعنی جو اس کی ہے وہ اس شخص کی، اس کو زیرو سے ضرب دے دو، جیسے وہ ہے ہی نہیں، جیسے کہ وہ ہے ہی نہیں، اس صورت میں جو کچھ ہوتا اتنا کرو بس ویسے ہی کرو۔ لہٰذا کوئی پروا نہ کرو پھر، لیکن اگر آپ نے اس کے لئے کوئی تبدیلی کر لی اور آپ نے کہا چلیں جی میں اس کو اللہ کے لئے اب کرتا ہوں، تو یہ اگرچہ اس وقت تو نہیں لیکن مقدمۂ ریا ہے۔ آئندہ آگے ریا بن جائے گا، یعنی راستہ مل جائے گا اس کو، آپ اس طریقہ سے ریا کر لیا کریں گے۔ اس طریقہ سے، چونکہ وہ اصل نیت تو اس کی مغلوب ہوجائے گی۔ ظاہر میں بظاہر ہم سمجھتے رہیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ اس وجہ سے حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا کہ میں اس کو کافی نہیں سمجھتا اور فرمایا چونکہ مسئلہ اختلافی لگتا ہے تو اگر کسی نے اختلاف بھی کر لیا تو میں اپنی بات پہ قائم ہوں، کیونکہ مجھے اس میں ریا نظر آ رہا ہے۔ ذوقیات میں کسی اور کے اجتہاد کا انسان مکلف نہیں ہے۔ سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ۔

عبادت کو کسی کے دیکھنے پر طبیعت میں فرحت کا ہونا علامت وجود مادۂ ریا کی ہے:

حال: اثناءِ عبادت یا عبادت سے فراغ کے بعد اگر کوئی شخص اس عبادت پر مطلع ہو جائے تو اس عابد کے دل میں ایک قسم کی فرحت و خوشی پیدا ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دل کے اندر ریا اس طرح چھپا ہوا ہے، جس طرح راکھ کے اندر آگ کہ دوسروں کے مطلع ہونے پر اسی لیے تو سرور ہوتا ہے۔

یہ کیا ہے؟ یہ حال ہے۔ فرمایا:

تہذیب: اس عبارت میں اس فرحت کو ریا نہیں کہا، اس کو علامتِ ریا کہا اور علامت بھی مادۂ ریا کی کہا، جس پر مؤاخذہ نہیں۔

یعنی یہ جو ہے ناں حضرت نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی عمل کو کر رہا ہو جیسے مثال کے طور پر تہجد پڑھ رہا ہے اور کوئی اٹھ گیا ہے اس وقت اور اس نے دیکھ لیا اور میرا دل خوش ہو جائے ما شاء اللہ اس نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا، چلیں جی۔ تو اب یہ جو اس کو خوشی حاصل ہوئی ہے، یہ خوشی بھی تو spontaneous ہے۔ اس نے ارادہ تو اس کا نہیں کیا۔ خوشی کا کوئی ارادہ کرتا ہے؟ خوشی کا کوئی ارادہ تو نہیں کرتا، خوش ہو جاتا ہے، خوشی ارادہ سے تو نہیں ہوتی۔ اب میں خوش ہونا چاہتا ہوں اور اب میں خفا ہونا چاہتا ہوں، کوئی اس طرح تو نہیں کرتا۔ بس خوش ہو جاتا ہے اور خفا بھی ہو جاتا ہے۔ تو اس کا اس عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا اس کی پروا نہ کریں۔ مطلب ظاہر ہے اس کو وہ نہیں ہے ناں، یعنی اس کا اس کے عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، بھئی خوشی تو ٹھیک ہے جی بس آپ کو ہوگئی کہ جو ہے ناں اچھا عمل کرتے ہوئے اس نے آپ کو دیکھ لیا، ما شاء اللہ ٹھیک ہے۔ باقی یہ بات یہ ہے کہ جہاں تک بزرگی کی بات ہے وہ آپ کے ریا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، وہ آپ کا دوسرا فعل ہے، عجب، اس کو پہلے سے روک دیا۔ ٹھیک ہے ناں؟ لہٰذا اس کو ہم ریا تو نہیں کہیں گے ناں، کیونکہ اس نے وہ عمل اس کے لئے تھوڑا کیا ہے؟ ٹھیک ہے ناں۔ تو یہ بات ہے کہ اس context سے اس کا علاج کر لو، باقی یہ ہے کہ یہ ریا نہیں ہے۔ سمجھ میں آگئی بات؟ صحیح ہے۔ حدیث شریف میں اس کے بارے میں آیا ہے ناں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی نے ان سے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب میں نیکی کرتا ہوں اتنا خوش ہوتا ہوں وہ جو ہے ناں وہ۔ فرمایا کہ یہ عمل کا فوری اثر ہے، تو اس پر خوش ہونا ہے تو اگر اس کو اللہ کی طرف سے آپ سمجھتے ہیں تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ باقی یہ بات ہے کہ وسوسہ کے طور پر کوئی چیز jump کر کے آ جائے ذہن میں تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس وسوسے سے اگر آپ کو خوشی ہوگئی تو ٹھیک ہے وہ خوش ہوگئے ہیں، اس سے کیا ہوگا۔ اس کا آپ کے عمل کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹھیک ہے؟ ہاں! یہ بات ہے کہ اس میں عجب نہیں آنا چاہیے اور عجب کا علاج بھی وہی ہے کہ اس کو من جانب اللہ سمجھیں، اس کو اپنی طرف سے نہ سمجھو۔ ٹھیک ہے ناں؟ فرمایا

ریا مع اللہ کی صورت:

تہذیب: خلوت میں نماز اس خیال و نیت سے پڑھنا کہ مخلوق کے سامنے بھی طویل نماز پڑھ سکے، اور حق تعالیٰ کا یہ اعتراض لازم نہ آئے کہ مخلوق کے سامنے تو لمبی نماز پڑھتا ہے اور میرے سامنے مختصر پڑھتا ہے، تو یہ لمبی نماز خلوت کی، خدا کے لیے نہیں ہے، بلکہ مخلوق کے سامنے ریا باقی رکھنے کے لیے ہے۔ یہ ریا مع اللہ ہے۔

یعنی اللہ کے ساتھ ریا، اللہ کے ساتھ جو ریا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی خلوت میں اس لئے نماز لمبی پڑھے تاکہ مخلوق کے سامنے بھی اس طرح لمبی نماز پڑھ سکے اور اللہ تعالیٰ کہیں یہ نہ کہہ دے کہ دیکھیں میرے لئے تو اتنا مختصر نماز پڑھتے ہو اور مخلوق کے لئے جو ہے ناں اتنی لمبی نماز پڑھتے ہو، تو یہ چونکہ اس میں وجہ اصل میں تو مخلوق کے لئے ہے، لہٰذا یہ تو اگرچہ اللہ کے لئے پڑھ رہا ہے لیکن ہے ریا، کیونکہ اس میں انہوں نے نیت اس کا یعنی مطلب ہے کہ وہ جو ہے ناں اثر لیا ہے اور مخلوق کا اثر لیا ہے۔ یہ بات آپ سمجھ گئے ہیں۔ باریک بات ہے، سمجھ گئے ہیں آپ بھی؟ سمجھ گئے ہیں آپ بھی؟ اچھا ٹھیک ہے، ما شاء اللہ۔

ترکِ عبادت میں تکبر اور ریا کی صورت:

تہذیب: مخلوق کے لیے عملِ عبادت کو ترک کرنا جس طرح تکبر ہے اسی طرح ریا بھی ہے۔

یعنی آپ ایک کام کر رہے ہیں دین کا اور کہتے ہیں کوئی مخلوق مجھے دیکھ نہ لے تو اس کو چھوڑ دیں، تو یہ پھر ریا ہے، کیونکہ ہم نے اس کا اثر لیا ہے۔ بھئی جب آپ کر رہے تھے اللہ کے لیے تو اس کو کیوں چھوڑ دیا؟ اللہ کے لیے کر رہے تھے ناں؟ تو مخلوق کے آنے سے کیا ہوگیا؟ کرتے رہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، مطلب مخلوق کا اثر نہ لو۔ ریا سے بچنے کا طریقہ کیا ہے کہ مخلوق کا اثر نہ لو۔ مخلوق کو زیرو سے ضرب دے دو۔ ٹھیک ہے ناں؟ مخلوق کو زیرو سے ضرب دو، فلاں صاحب نہ کچھ دے سکتے ہیں نہ فلاں آپ کو دے سکتے ہیں۔ نہ آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اگر اللہ نے نہیں چاہا اور نہ آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ لہٰذا جب مخلوق آپ کو کچھ دے نہیں سکتی، کچھ آپ سے لے نہیں سکتی تو پروا کیوں کرتے ہو؟ بس اللہ کے ساتھ اپنا معاملہ درست رکھو۔ اب یہ ساری باتیں علمی ہیں، یہ ساری باتیں علمی ہیں۔ عمل میں تب آئیں گی جب اللہ کے ساتھ ایسا تعلق لگ جائے گا کہ مخلوق کا تعلق زیرو ہو جائے اس کے سامنے۔ ٹھیک ہے ناں۔ ہمارے ایک Numerical method ہے، numerical۔ اس میں یوں کرتے ہیں کہ equations ہے ناں اس میں coefficients ہوتے ہیں۔ تو ان میں باقی coefficients کو زیرو کرنے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک کو بہت بڑی تعداد کے ساتھ ضرب دے دیں مطلب 10 کی پاور 14 سے ضرب دے دیں۔ باقی اس کے مقابلے میں زیرو ہوجائیں گے، وہ خود بخود اس کے سامنے negligible ہوجائیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو جائے گا تو مخلوق، مخلوق کا asset negligible ہو جائے گا، زیرو ہو جائے گا، اس کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی، تو اللہ کے ساتھ تعلق ہوگا تو پھر یہ ریا نکل سکے گا۔ یہ ریا ویسے نہیں نکلتا۔ یہ ساری باتیں علمی ہیں۔ یہ حالی تب بنیں گی جب وہ چیز حاصل ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ تو بھی حال ہے ناں۔ جب وہ کیفیت حاصل ہو جائے گی پھر یہ ساری باتیں ہو جائیں گی۔ تو علمی لحاظ سے تو یہ تو مفید ہیں، لیکن عملی لحاظ سے جو ہے وہ، مطلب یہ علمی باتیں اس لئے مفید ہوتی ہیں کہ دیکھو کنفیوژ ہو جائے تو کنفیوژن ختم ہو جائے یا کسی اور کو مطمئن کر سکتے ہیں، اس لئے۔ ورنہ اصل چیز تو وہی ہے بس کہ اللہ کے ساتھ اتنا تعلق ہو جائے، اس کے لیے ذکر کی کثرت ہے اور ذکر کے ساتھ تعلق ہے۔ تو وہی چیز جو مشائخ کرواتے ہیں ناں، وہ اصل میں حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پہ فرمایا: بیٹا ذکر کرتے رہو، ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے۔

تو یہ بات ہے کہ اگر ذکر کے ساتھ تعلق ہو تو پھر جو ہے ناں وہ چیز آہستہ آہستہ وہ تجلی اللہ جل شانہٗ کی جو ہے ناں وہ جو اس پہ پڑے گی اس سے پھر یہ سارے مسئلے حل ہوں گے، ورنہ ٹھیک ہے علمی باتیں ہیں اس میں کوئی شک نہیں، علمی لحاظ سے بڑی مفید باتیں ہیں۔ اکثر لوگ ان علمی باتوں کو کافی سمجھ لیتے ہیں، سمجھتے ہیں بس ٹھیک ہے جی ہمیں علمی باتیں معلوم ہوگئیں تو بس یہ کافی ہوگیا، مطلب ہماری اصلاح ہوگئی۔

سوال:

حضرت یہ جو ذکر کرتے ہیں ہم اس میں یہ تجلی آتی جاتی ہے یا کسی خاص موقع پہ؟

جواب:

تجلی کے لیے آپ کو تیار کیا جاتا ہے اصل یہ ہے آپ جیسے جیسے تیاری کرتے جاتے ہیں تو تجلی کے لیے آپ کو تیار کیا جاتا ہے، نورانیت دل میں آ رہی ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔

سوال:

حضرت یہ جو علمی باتیں ہیں، عقلی طور پر بچا جا سکتا ہے؟

جواب:

ٹھیک ہے ناں، عقلی طور پر بچا جاسکتا ہے، میں نے کہا کہ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کہ آپ ریل گاڑی کو، ٹرین کے اوپر دھکا دے دے کر چلائیں۔ ٹھیک ہے ناں؟ ٹرین کے اوپر دھکا دے دے کر چلائیں گے، چل تو جائے گی لیکن کتنا چلائیں گے؟ مطلب ہر چیز میں آپ کو خیال ہوگا کہ میں اب یہ کر لوں، یہ اب کر لوں گا یہ اب کر لوں، پھر وہی نفس کا چکر، کیونکہ نفس تو حال ہے، اس کے ساتھ مقابلہ کرنا وہ تو ہر وقت active ہے۔ ٹھیک ہے ناں، تو وہ تو اپنا کام کرے گا، تو اس کے لیے پھر وہ تجلی چاہیے ناں کہ اس کو رکوا دے۔ یہی حضرت نے فرمایا کہ دو طریقوں میں سے ایک طریقہ بتاتا ہوں۔ دو طریقوں میں سے ایک طریقہ چن لو۔ ایک مشکل طریقہ ہے ایک آسان طریقہ ہے۔ پڑھا ہے کبھی آپ نے؟ مشکل طریقہ یہ ہے کہ خود سیکھ سیکھ کر۔ آپ کی نظر سے گئی ہے یہ بات کبھی نہیں؟ مواعظ میں ہے۔ مطلب فرمایا کہ ہاں مجاہدہ کر کر کے جو ہے ناں آپ کام کرتے رہو، جو کام اس میں سوچو کہ کون سا ٹھیک ہے کون سا غلط ہے بس اچھے سے کام کرو غلط کو چھوڑو، یہ آپ کرتے رہو، فرمایا یہ مشکل کام ہے۔ اور آسان یہ ہے کہ کسی اللہ والے کے ساتھ اپنا تعلق کو جوڑ کر اس کی مان کے چلو اور دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرو، بس وہ پھر ایسا ہے جیسا کہ اسٹیم۔ بالکل وہ جو ہے ناں وہ جو گاڑی چلتی ہے پھر جو ہے ناں رکتی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ اس کا روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تو یہ اصل میں یہ بات ہے۔ واقعتاً اس کا احساس ہو جاتا ہے آدمی کو۔ اللہ تعالیٰ اپنا ہم سب کو نصیب فرمائے، یہ تجلی اس کا علاج ہے، لیکن اس کے لیے وہی تیاری کرنی پڑتی ہے۔ ذکر کرنا روزانہ لگا رہنا۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، یہ رائیگاں نہیں جاتی۔

سوال:

کیا اس ذکر کے لیے کوئی خاص خاص وقت ہوتا ہے؟

جواب:

دوام کا اس کے اوپر اثر پڑتا ہے۔ جو بھی وقت آپ نے طے کیا ہے ناں اس کے اوپر ہی آپ اگر رہیں ناں تو زیادہ مفید ہوتا ہے۔ جو بھی وقت آپ چن لیں، اگرچہ باقی اوقات میں تہجد افضل ہے لیکن اگر کسی کو دوام تہجد پہ نہیں ہوتا، اس کو مغرب کے وقت پہ ہوتا ہے مثال کے طور پر، تو پھر اس کے لیے مغرب افضل ہے۔ مغرب اس کے لیے زیادہ مفید ہے اگر اس کو دوام مغرب پہ ہے۔ اگر کسی کو عشاء کے بعد دوام حاصل ہو سکتا ہے تو پھر اس کے لیے عشاء اچھی ہے۔ یعنی جس وقت پھر دوام ہو وہ زیادہ بہتر ہے، کیونکہ یہ جو ہے ناں یہ دل کی جو حالت ہے اس کی جو تبدیلی ہے اس میں period کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ جو Time period ہوتا ہے ناں، پورا cycle ہوتا ہے ناں، تو خاص وقت پہ وہ دھکا لگنا اس کو۔ ٹھیک ہے ناں؟ تو وہ چیز جو ہے ناں وہ اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے اس کے حساب سے۔ تو آپ نے اگر جس وقت کو بھی لیا ہے اس وقت اگر آپ کرتے ہیں تو زیادہ مفید ہے۔ حدیث شریف میں بھی کہتے ہیں ناں کہ دوام ہونا چاہیے چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو: ’’وَاِنْ قَلَّ‘‘۔

سوال:

حضرت ایک خاص وقت میں بندہ کرتا ہے، خاص یکسوئی کی حالت میں، اس وقت اگر کوئی ویسے انہونی ہوجائے کوئی آجائے، کوئی جانتا ہے کہ جس وقت وہ کوئی یہ خیال آتا ہے کہ یہ ریا نہ ہوجائے۔

جواب:

نہیں! ریا ہو نہ جائے والی بات تو ہمارے chapter میں closed ہے، ریا ہو نہ جائے۔ ریا کر نہ جائے، مطلب ہو نہ جائے پھر تو کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ خود سے تو ریا ہوتی نہیں، ٹھیک ہے ناں؟ ریا کی جاتی ہے ہوتی نہیں، اختیاری ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں فکرمند ہونا نہیں چاہئے۔

سوال:

ذکر کرتے وقت اذان ہوجائے۔

جواب:

ہاں روکنا چاہئے، اذان کا جواب دینا چاہئے۔

سوال:

مثال کے طور پر جس عمل کی نورانیت زیادہ ہوتی ہے تو وہ اذان کے وقت جاری رہتا ہے تو کیا ذکر بھی۔

جواب:

ہاں بالکل صحیح ہے، اصل میں اس میں ایک اصول آپ سمجھ لیں پھر کبھی کنفوژ نہیں ہوں گے۔ اگر آپ کا عمل متعدی عمل نہیں ہے یعنی دوسرے کو استفادہ آپ نہیں دے رہا یا آپ کوئی دوسرا آپ سے مستفید نہیں ہورہا تو پھر افضل یہی ہے چاہے کوئی بھی عمل کررہے ہوں آپ، اس کو مؤخر کرلیں اذان کے جواب کے لئے۔ ٹھیک ہے ناں؟ لیکن اگر جیسے مجلس ہے تو یہ مجلس جو ہے یہ بذات خود اذان کا جواب دینے سے زیادہ اہم ہے، تو اس میں اگر دوران اذان ہوگئی، تو بات جاری رہنی چاہئے وہ continuous ہو، اس وقت اذان کا جواب دینا اس سے دوسرے درجہ کی بات ہے، ٹھیک ہے ناں؟ لیکن آپ کا انفرادی عمل جو ہے اس سے پھر آپ کا اذان کا جواب جو ہے ناں زیادہ اہم ہے۔

سوال:

کئی دفعہ راستے میں جاتے ہوئے اذان ہوجائے تو۔

جواب:

ہاں تو انفرادی عمل ہے ناں وہ، اجتماعی تو نہیں ہے، اگر آپ جہاد کررہے ہوں اجتماعی تو آپ رک جائیں گے اذان کے ساتھ؟ انفرادی اور اجتماعی عمل کا فرق ہوتا ہے، ٹھیک ہے۔

سوال:

حضرت یہ عمر بھائی بتا رہے تھے کہ ذکر جو بندہ روزانہ کرتا ہے روزانہ ایک وقت مقرر کرکے اس وقت کچھ فرشتے آجاتے ہیں۔

جواب:

ہاں یہ فرماتے ہیں، ہاں وہ اس طرح ہے کہ اس وقت کے لئے کچھ فرشتے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہ اسی وقت آتے ہیں، تو جب وہ نہیں دیکھتے کہ ان کو تکلیف ہوتی ہے جب وہ عمل نہیں ہورہا ہوتا۔ اس سے بے برکتی پیدا ہوتی ہے، اس سے بے برکتی پیدا ہوتی ہے۔

سوال:

مطلب دوبارہ پھر نہیں آتے اگر اس دن نہ ہو تو۔

جواب:

ہاں بالکل، وہ بے برکتی ہوجاتی ہے، بے برکتی اسی کو کہتے ہیں ناں۔

سوال:

مثال کے طور پر عرصہ گزر گیا ہے۔

جواب:

نہیں وہ تو آپ جو بھی عمل شروع دوبارہ کریں گے ناں تو پھر ایک نئے سرے سے آپ کا ایک کام شروع ہوجائے گا ناں ابھی میں ان سے راستہ میں پوچھ رہا تھا کہ ناغہ تو نہیں ہوا؟ یعنی گھر والوں کو میں نے ذکر دیا تھا تو میں نے راستہ میں یہی پوچھا کہ ناغہ تو نہیں ہوا؟ کہا نہیں ناغہ نہیں ہوا۔

سوال:

حضرت جس کمرہ میں تصویر ہوتی ہے اس کمرہ میں بھی آتے ہیں؟

جواب:

ہاں! تصویروں والا مسئلہ تو آج کل بہت مسئلہ ہے اللہ بچائے جی ان چیزوں سے۔ آج کل ان چیزوں سے اللہ تعالیٰ ہی بچائے، بہت عجیب بات ہے۔ میں تو جب کہیں مہمان ہوتا ہوں ناں اور دیکھتا ہوں تصویروں کو تو میں کچھ اور تو نہیں کر سکتا تو اگر فریم ہوتا ہے تو اس کو الٹا کرلیتا ہوں، اور اگر کوئی ویسے تصویر ہو تو اس پہ کوئی چیز لٹکا لیتا ہوں، تو کم از کم میری موجودگی میں تو آئیں گے ناں ان شاء اللہ، وہ پابندی تو نہیں ہوگی ناں مطلب جب تک میں وہاں پر ہوں گا تو ان شاء اللہ وہ چیز پابند ہوگی تو ان شاء اللہ میری موجودگی میں آئیں گی باقیوں کی قسمت ہے۔ تو اگر فریم ہوتا ہے تو میں الٹا کرلیتا ہوں۔

سوال:

تو جو اس کے صحن سے آئے گزر کے۔ جواب:

ہاں، اصل میں مکان کو ہم یہی کہتے ہیں کہ سب جو ایک، جیسے یہ ایک مکان ہے، باقی گھر اس سے متعلق نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں؟ تو اب اگر میں یہاں تصویر میں نے لگا دی، یہاں نہیں آئیں گے۔

سوال:

ایک ماچس کی ڈبیہ پر بھی جانور کی تصویر لگی ہوتی ہے۔ فرمایا جب میں رات کو جاتا ہوں تو اس کو الٹا کر دیتا ہوں۔

جواب:

مناسب تو یہی ہے، مناسب تو یہی ہے، البتہ یہ ہے کہ علماء کرام اس میں کچھ فرماتے ہیں کہ اگر ایسی تصویر ہو کہ اس کو آپ کھڑے ہو کر پہچان نہ سکیں، مطلب یہ ہے کہ وہ بہت چھوٹی سی ہو، تو پھر اس کی گنجائش ہے۔ لیکن بہرحال avoid کرنا چاہئے، کیوں ہم اس کی calculation کرتے ہیں کہ کتنی سینٹی میٹر ہوتی ہے، کتنی ملی میٹر کی ہوتی ہے۔

سوال:

(آڈیو میں سوال واضح نہیں۔) جواب:

تربیت جو ہوتی ہے ناں تربیت۔ تربیت، اصل میں میں آپ کو ایک بات بتاؤں، یہ ساری باتیں علمی ہیں، میں نے جیسے آپ سے عرض کیا ناں یہ ساری باتیں علمی ہیں، عملی بات وہ ہے کہ آپ جس سے بات کررہے ہیں اس کی stage کیا ہے؟ بعض دفعہ ایسی حالت بھی آجاتی ہے کہ ہم نماز تک کا لوگوں کو ignore کرلیتے ہیں، ignore کرلیتے ہیں کہ بھئی یہ ان کو نماز کے لئے نہیں کہنا کیونکہ ہمیشہ کے لئے کٹ جائے گا، تو جو اصلاح کی امید ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی، آپ میری بات سمجھ رہے ہیں ناں؟ تو ہر چیز کا اپنا موقع ہوتا ہے، اس کے کہنے کا۔ پھر تربیت جو ہوتی ہے، تربیت اس میں آپ دیکھتے ہیں کہ ہر کام آپ جتنا کرسکتے ہیں، اتنا بتا دیا جائے کیونکہ اگر آپ اپنے threshold سے سے زیادہ کام لے لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیشہ کے لئے اس کام کو ختم کرنا ہے، مطلب وہ بریک لگے گا آپ کو اور آپ پریشان ہوں گے تو پھر چھوڑ دیں گے۔ اس سے جو بے برکتی پیدا ہوگی وہ بہت زیادہ ہوگی، تو وہی حدیث شریف ہے کہ چاہے تھوڑا ہو لیکن دائمی ہو، وہ حدیث شریف پہ عمل ہوجائے گا، حضرت وصی اللہ شاہ صاحب کی بات کی تو مخالفت ہوجائے گی، لیکن حدیث شریف پر عمل ہوجائے گا، آپ میری بات سمجھ رہے ہیں ناں؟ تو یہ ساری باتیں جو ہیں ناں، مطلب اس کو دیکھنا ہوتا ہے کہ تربیت میں جب کسی ایک کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا تو پھر اپنی عقل کو close کرلیتے ہیں کہ اب اس میں میں بات نہیں کروں گا، کیونکہ اگر مثال کے طور پر اپنی عقل اس میں استعمال کرنی ہے تو پھر کبھی بھی آپ کو شرح صدر ان کی بات پہ نہیں ہوسکے گا۔ تو اس کے لئے ایک شعر بھی ہے ناں:

سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید

کہ شراب سے اپنے سجادہ، جس پہ نماز پڑھتے ہو اس کو رنگین کردو اگر پیر آپ کو بتا دے۔ کیونکہ وہ اس کی راہ و رسم کو خوب جانتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کی نظر اتنی باریکات پر ہوتی ہے اس راستہ کے، جو آپ کو بھی بعد میں پتا چل جائے گا لیکن وقت آنے پر، وقت سے پہلے تو پتا نہیں چلے گا، نتیجتاً اس وقت جو آپ کو پتا نہیں ہے اور اس کو پتا ہے وہ جب آپ کو بتا رہا ہے اور آپ نے اس کی قدر نہیں کی، وہ وقت جب گزر جائے گا، وہ جو نقصان ہوجائے گا وہ نقصان کون واپس کرے گا، ٹھیک ہے ناں؟ اس وجہ سے یہ ساری باتیں مشائخ کے لئے انہوں نے لکھی ہیں، مشائخ اس وجہ سے کہتے ہیں جو تصوف کی کتابیں ہیں وہ مشائخ کو دیکھنی چاہئیں یا جن کو بتا دی جائیں، تاکہ وہ اس سے دوسرے لوگوں کا experience اور researches, Research papers وغیرہ سمجھ کر مطلب وہ ان کو پڑھ کے اس کے ذہن میں وہ ساری باتیں آجائیں، exposure ہوجائیں۔ باقی جو صاحب تربیت میں ہے وہ جو ہے ناں وہ اپنے شیخ کو دیکھے کہ وہ مجھے کیا کہہ رہا ہے، اسی سے اس کو فائدہ ہوگا، وہ اگر آپ کو کہہ دے ناں بھئی روزانہ "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" پڑھ لیا کرو، فرض نماز پڑھ لو اور کچھ نہ پڑھنا اچھا۔ بس آپ کے لئے پھر یہی ٹھیک ہے، پھر یہ ٹھیک ہے، پھر وہ شاہ وصی اللہ صاحب کی بات آپ کے لئے نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں؟ وہ جن کے لئے ہے وہ وقت جب آجائے گا پھر بتا دی جائے گی، ٹھیک ہے ناں؟ کیونکہ ساری باتوں کا اپنے طور پہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ہمیں یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص ہوتا ہے انفعالی جذبے والا ہوتا ہے۔ ان کے سامنے جب کوئی بات آتی ہے وہ فوراً اس پہ عمل کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اس کے consequences اس کے کنٹرول میں نہیں ہوتے، اس کا جو محاورہ ہے environment ہے، اس کی فیملی ہے، وہ سب اس کے وہ جو ہے ناں اس کے لئے تیار نہیں ہوتے، اب وہ جو ہے ناں وہ مجذوبانہ انداز میں جب اس پہ عمل شروع کرلے گا پورے میں سے بھی کٹ جائے گا، پھر اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ اس کا جو ہے ناں بہت بڑا مسئلہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا gradually مطلب یہ ہے کہ وہ اتنا کہ ایک طرف ان کے کچھ اعمال میں جن اعمال سے اس کے اندر جان آئے روحانی، روحانیت آئے، ساتھ ساتھ وہ عمل کرے اور اپنے آپ کو فیملی کے ساتھ جوڑے رکھے، کام کرتا رہے، ان کا اعتماد بھی gain کرتا رہے اور خود بھی آگے بڑھتا رہے، جب یہ قابلِ اعتماد ہوجائے گا اور سب کچھ وہ اپنے طور پہ کرسکے گا تو پھر ما شاء اللہ جتنا مرضی کرے، جب تک وہ چیز نہیں ہے اُس وقت تک تو ان کو۔۔۔۔ خود مجھ سے حضرت یہی فرماتے تھے، مجھے بہت روکتے تھے کاموں سے حتیٰ کہ ایک دفعہ مجھے تمام کتابوں سے روکا ہوا تھا، فرمایا صرف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ و ملفوظات پڑھنے ہیں اور کچھ نہیں، کوئی اجازت نہیں ہے، روک دیا تھا، وجہ یہ تھی کہ مجھ میں اہلیت تھی کہ میں اگر دیکھتا تو مصیبت ہوجاتی، میں اپنے لئے کام کرلیتا، تو ایک دفعہ فرما رہے تھے کہ ایک بزرگ باسی روٹی کھاتے تھے، باسی روٹی، تو کسی نے پوچھا کیوں باسی روٹی کھاتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ اس لئے کہ حضور ﷺ کی زندگی کے قریب ہے، یہ فرما کر مجھے دیکھا، تم گرم روٹی کھاؤ گے اچھا! میں نے کہا حضرت ٹھیک ہے میں گرم روٹی کھاؤں گا، تو ساتھ فرمایا اگر تمہیں نہ روکتا تو اس نے کل سے شروع کرنا تھا، اس نے کل سے شروع کرنا، میرے بارے میں بڑے فکرمند ہوتے تھے حضرت، ایک دفعہ اعلان کیا جو اس کو میرے علاوہ مسئلہ بتائے گا ناں، تو بس وہ اچھا نہیں ہوگا اس کے لئے، اس کو کوئی مسئلہ نہیں بتائے گا، اس کو صرف میں مسئلہ بتاؤں گا، کوئی اس کو مسئلہ نہیں بتائے گا، کیونکہ ہر ایک مزاج نہیں جانتا تھا ناں میرا۔

سوال:

حضرت ایک بات یہ پوچھنی تھی، ایک ساتھی نے تحریک شروع کی، حضرت کو شرح صدر ہوا کہ یہ صدر صدام حسین تھے، صدر صدام حسین جو تھے، ان کو جلوس نکالتے رہے صدام حسین کی حمایت میں۔ لیکن اس وقت عمومی حالات کے اندر ہمیں صدام کی حمایت کرنی چاہئے یا وہی حضرت والی بات؟ جواب:

اصل میں بات یہ ہے کہ یہ جو بات ہے ناں کہ ہم تو نہ صدام کی حمایت کی بات کررہے ہیں، ہم تو مسلمانوں کی حمایت کی بات کرتے ہیں۔ اس وقت صدام کے اوپر حملے کی وہ بات نہیں کررہے ہیں امریکہ، وہ تو مسلمانوں کے خلاف جنگ کھیل رہا ہے، تو اس وقت تو بات دوسری ہے، اُس وقت بات دوسری تھی، اِس وقت بات دوسری ہے، ٹھیک ہے ناں؟ وہ Initial stage تھی، اب یہ بہت Forward stage ہے اور اِس وقت کے جو لوگ ہیں، ان کے شرح صدر پہ ہم جائیں گے ان شاء اللہ، جو اِس وقت کے لوگوں کا شرح صدر ہیں ناں؟ تو مولانا صاحب کا دور تو گیا ناں، اب تو مولانا صاحب نہیں ہیں ناں اس وقت موجود، تو جو اِس وقت کے دور کے لوگ ہیں ان کے شرح صدر پہ ہم جائیں گے، ٹھیک ہے ناں؟ کیونکہ حالات بدل گئے ہیں ناں؟ اب حالات وہ نہیں رہے، حالات تو اگر as it is رہے تو پھر تو وہی بات تھی لیکن as it is تو نہیں رہے، تبدیل ہوگئے بہت سارے تبدیلیاں آگئی ہیں، Global changes آگئی، تو اس وجہ سے حالات تبدیل ہونے کی وجہ سے اس وقت کے لوگوں کے شرح صدر پہ ہم چلیں گے۔

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ

ریا کی مختلف صورتیں:

تہذیب: اگر عمل میں دنیائے فاسد یعنی معصیت کی نیت ہو تو وہ یقیناً ریا ہے۔ اور دنیائے مباح کی نیت ہو تو اگر عمل دنیوی میں ہے تو وہ ریا نہیں اور اگر عمل دینی میں ہے تو وہ بھی ریا ہے۔ اگر کسی شخص کو اس لیے راضی کیا جائے تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہیں تو یہ ریا نہیں اور اگر مخلوق کو اس لیے راضی کیا جائے تاکہ وہ ہمارے معتقد رہیں، ہمارے مرید زیادہ ہوں تو یہ ریا ہے، کیونکہ یہ نیتِ معصیت ہے۔ اس واسطے کہ عین عبادت کے وقت اس کی نظر مخلوق پر رہی اور ان کی نظر میں معظم رہنا چاہا۔

ٹھیک ہے ناں؟ یہ تو ایک side کی بات ہے ناں، ذرا دوسری side کی بات بھی ساتھ ساتھ کرتا جاتا ہوں، مجبوری ہے آج کل One side بات ہو ناں تو پھر اس سے مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت نے بار بار لکھا ہے، اس میں بھی ان شاء اللہ آجائے گا کہ جو مشائخ ہیں، مشائخ کی ریا مرید کے اخلاص سے افضل ہوتی ہے۔ حضرت نے بار بار لکھا ہے، اس میں آئیں گے ان شاء اللہ، وہ اصل میں بات یہ ہے کہ وہ اصل میں ہوتی ریا نہیں ہے بصورتِ ریا ہوتی ہے تاکہ لوگ سیکھ جائیں، وہ صورتِ ریا ہوتی ہے، ریا نہیں ہوتی۔ تو یہ جو بات ہے جو بات حضرت نے کی وہ اصل میں یہ خود کو یا اپنے جو خلفاء تھے ان کے لئے یہ بات تھی، ان کو تو یہ سمجھنا چاہئے، لیکن ہم لوگوں کو کیا سمجھنا چاہئے؟ ہم لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر کوئی شیخ اپنے کوئی احوال بتا رہا ہو تو اصل میں وہ ہماری اصلاح کے لئے ہے، ان کے لئے وہ ریا نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں؟ یعنی یہ اسلام کا یہ طریقہ ہے ناں کہ وہ ہر ایک کو اس کے مطابق وہ حکم دیتا ہے، غریب کو حکم دیتا ہے کہ خبردار جو تم نے مالدار کی جیب پہ نظر ڈالی، اشرافِ نفس حرام ہے، سوال کرنا حرام ہے۔ مالدار کو کہا خبردار جو تجھ سے کوئی غریب بغیر کھائے پیئے سویا، ان کو زیادہ دو، یہ کرو وہ کرو، تو مالدار کو کہتا ہے خیرات کرو، غریب کو کہتا ہے مانگو نہیں، یہ طریقہ ہوتا ہے اسلام کا۔ تو مشائخ کو تو یہ کہا جائے گا کہ پروا نہ کرو لوگوں کی، غریبوں کو کہا جائے گا کہ مشائخ کی ریا ریا نہیں ہے، وہ ہماری اصلاح کے لئے ہے۔ تبھی جو ہے ناں فائدہ ہوگا، نقصان سے بچا جائے گا ورنہ اس کتاب کو پڑھ کر اگر کسی پر بد گمان ہم ہوجائیں مثال کے طور پر کسی اللہ والے پر، تو نقصان ہوجائے گا ناں، کیا خیال ہے؟

عبادت کے اخفا کا اہتمام بھی ریا ہے:

تہذیب: محققین کے نزدیک عبادات کے اخفا کا اہتمام کرنا بھی ریا ہے، کیونکہ اخفا عن الخلق کا اہتمام وہی کرے گا جس کی نظر مخلوق پر ہو۔ اور جن کی نظر مخلوق سے اٹھ جائے اور اپنے سے بھی اٹھ جائے کہ عبادت کو اپنا عمل نہ سمجھے بلکہ محض توفیقِ حق سمجھے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کام لے رہے ہیں، میں خود کچھ نہیں کر سکتا تھا، وہ اخفا کا اہتمام نہ کرے گا۔ کیونکہ جب وہ مخلوق کو لا شئ محض سمجھے گا تو اس سے اخفا کیوں کرے گا؟ اور جب اپنے عمل کو اپنا عمل ہی نہیں سمجھتا بلکہ فضلِ حق سمجھتا ہے تو کسی کے دیکھنے سے عجب کا اثر کیوں ہو گا؟

اب سمجھ میں آرہی بات؟ کہ جب کسی کو اس کی پروا ہی نہیں ہوگی تو وہ اس کی ریا کہاں سے ہوگی اور عجب کہاں سے ہوگا، بھئی لوگ مجھے کیا دے سکیں گے اور لوگ مجھ سے کیا لے سکیں گے، لوگ خود محتاج ہیں، مجھے تو وہ دیتا ہے جو سب کو دیتا ہے اور مجھ سے وہ لے سکتا ہے جو سب سے لے سکتا ہے۔ لہٰذا میری نظر تو اس پہ ہونی چاہئے میری نظر کسی اور پر کیوں ہو، تو اگر کسی کا یہ حال ہو تو اس کی کوئی بات ریا نہیں بن سکتی اور نہ اس کو عجب ہوسکتا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟

ریا سے حفاظت کا علاج فنائے کامل ہے:

تہذیب: ریا و رضاءِ خلق سے بچنا چاہتے ہو تو فنا کا طریق اختیار کرو، بدوں فنائے کامل کے ریا سے حفاظت نہیں ہو سکتی۔

فرمایا: ریا سے یا لوگوں کو راضی کرنے سے بچنا چاہتے ہو کہ لوگوں کی نظروں میں عمل کروں، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو فنا کرو۔ فنا سے مراد یہی ہے کہ انسان صرف اور صرف اللہ کا ہوجائے اور کسی کا نہ ہو اپنے آپ سے بھی گم ہوجائے، اپنی نظر میں پھر وہ کچھ نہیں ہوتا جب یہ صورت ہوجاتی ہے تو پھر ریا سے مکمل حفاظت ہوجاتی ہے، ورنہ بصورت دیگر ریا سے مکمل حفاظت ہونا بڑا مشکل ہے۔

معلم کو اپنے عمل کی اطلاع کرنا ریا نہیں:

تہذیب: ریا وہ ہے جو دنیا کی غرض سے کسی کو عمل دکھلایا جائے، سالک جو اپنے عمل کی اطلاع اپنے معلم کو کرتا ہے وہ ریا نہیں ہے کیونکہ عمل تو اللہ ہی کی رضا کے لیے ہوتا ہے، پھر بعد صدورِ عمل کے، اپنے معلم کو اپنے آئندہ کی مصلحتِ دینیہ کے لیے اس عمل کی اطلاع کرتا ہے۔ ریا میں تو خود عمل سے غرض نمائش ہوتی ہے اور یہاں عمل سے غرض رضائے حق اور اطلاع کا قصد مستقل ہے، وہ بھی دین کے لیے، جیسے قرآن کا حفظ کرنے والا قرآن تو ثواب ہی کی نیت سے یاد کرتا ہے لیکن سبق یاد کر کے استاد کو یاد کی اطلاع اس طرح کرتا ہے کہ اس کو سناتا ہے تاکہ یہ آئندہ خوش ہو کر تعلیم کرے۔

ہائے ہائے! یہ جو بتایا ناں، یہ پیری مریدی جس کو ہم کہتے ہیں، شیخ اور مرید کا جو تعلق ہے، اس میں ریا ختم ہوجاتی ہے آپس میں، کیونکہ شیخ جو مریدوں کو دکھاتا ہے، وہ اس لیے دکھاتا ہے تاکہ وہ سیکھ لیں۔ لہٰذا وہ ریا نہیں ہے اور مرید اگر اپنی کسی چیز کی اطلاع کرتے ہیں شیخ کو تو وہ بھی ریا نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنے علاج کے لیے کرتا ہے۔ اور مرید کی بھی شیخ سے ریا نہیں ہوتی اور شیخ کی بھی مرید سے ریا نہیں ہوتی۔ ایسا عجیب بابرکت یعنی تعلق ہے کہ اس میں آپس میں ریا ختم ہوجاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، کسی اور مقصد کے لیے ہے نہیں۔ تو مثال حضرت نے دی کہ جیسے ایک شخص ہے حفظ کررہا ہو، لڑکا ہے کوئی حفظ کررہا ہے تو یاد تو اللہ تعالیٰ کے لیے کررہا ہے لیکن یاد کرنے کا ایک تو نظام ہے جس میں استاد کو سنانا ہوتا ہے اور استاد اس کی تصحیح کرتا ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اس کو بتاتا ہے کہ تو نے ٹھیک سنایا ہے، تو بہرحال یہ ہے کہ سننا سنانا ہے، یہ ہے تو اللہ کے لیے لیکن جو استاد کو سنانا جو ہے، یہ ریا میں نہیں آئے گا کیونکہ یہ تو تعلیم کا حصہ ہے۔

کسی شخص نے لکھا ہے جو کہ منتہی لوگ ہوتے ہیں:

ریا کے خیال سے عمل کو ترک نہ کرنا چاہیے:

سوال: خلاصہ عریضہ یکے از منتہیاں: (1) بیمار تھا، تہجد آخرِ شب میں ناغہ تھی، اسی زمانے میں دو مہمان آئے اور وہ آخر شب میں اٹھے تو خیال ہوا کہ لاؤ میں بھی پڑھ لوں تہجد۔ (2) پھر خیال ہوا کہ نہ پڑھوں، یہ ریا ہے، چنانچہ نہ پڑھی۔ (3) پھر خیال ہوا کہ صبح کو ان سے ظاہر کر دیا جائے کہ فلاں وجہ سے تہجد سے قاصر رہا اور اس وقت تہجد نہ پڑھوں۔

تہذیب: (خلاصہ) (1) یہ احکم تھا۔

نمبر وار بتایا کہ لاؤں میں بھی پڑھ لوں، تو خیال ہوا کہ لاؤں میں بھی پڑھ لوں۔ تو حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ احکم تھا یعنی اچھی بات تھی۔

اور پھر خیال ہوا کہ نہ پڑھوں، کیونکہ یہ ریا ہے، چنانچہ نہیں پڑھی۔

(2)فرمایا یہ اسلم تھا۔

مطلب اس میں حفاظت ہوئی

اور تیسرے کے بارے میں فرمایا کہ جس میں اس نے اطلاع کردی فرمایا:

(3) یہ خالص ریا تھا۔ باقی ناقص کو یہی حکم کیا جاتا ہے کہ پڑھو اور نیت کو درست کرو، ورنہ پھر اس کو ہر موقع پر ریا کا شبہ و بہانہ ہونے لگے گا۔

یعنی اس میں یہی طریقہ صحیح تھا کہ پڑھ لیتا اور پروا نہ کرتا ٹھیک ہے ناں فرمایا:

رضائے حق کے پیدا کرنے کا طریقہ:

تہذیب: اپنے اختیار سے ہر کام میں رضائے حق کا قصد کریں اور اپنے اختیار سے رضائے خلق کا قصد نہ کریں اور بلا قصد کے اگر رضائے خلق کا وسوسہ یا خیال آئے تو اس کی مطلق پروا نہ کریں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ یوں ہی اپنے اختیار و قصد سے رضائے حق کا قصد کرتے رہیں۔ تجربہ ہے کہ چند روز میں رذائل کے خلاف کرنے سے اس عمل کی عادت اور مشق ہو جاتی ہے، پھر رذیلہ کے خلاف کرنے میں کچھ دشواری نہیں ہوتی، بلکہ رذیلہ کمزور ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ رذائل کا ازالہ ضروری نہیں، اس قدر اضمحلال کافی ہے کہ جس سے مقاومت رذیلہ کی آسان ہو جائے۔

یعنی اختیاری باتوں میں اختیار کو کام میں لانا چاہئے اور غیر اختیاری میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے، تو یہاں پر جو اختیاری ریا ہے اس کو ختم کرنا چاہئے، جو غیر اختیاری ریا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے، کیونکہ غیر اختیاری ریا تو ہوتی ہی نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں؟ تو اس میں یہ ہے کہ اختیاری ریا جو ہے اس میں اختیار کو استعمال کرے، مثلاً یہ کہ اپنے اختیار سے کسی شخص کو خوش کرنے کے لئے یا اس کے دل میں وقعت پیدا کرنے کے لئے کوئی عمل نہ کرے، بلاقصد اگر کوئی وسوسہ ریا کا آئے تو اس کی مطلق پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ہمیشہ یوں ہی اپنے اختیار و قصد سے رضائے حق کا قصد کرتے رہیں۔ تو فرماتے ہیں کہ یہ تجربہ ہے چند روز میں، یہ جو رذائل ہیں ان کے خلاف کرنے سے عادت اور مشق بن جائے گی۔ یعنی پھر انسان کے لئے آسان ہوجائے گا، تو رذائل جو ہوتے ہیں ان کا ازالہ نہیں ہوا کرتا یہ کمزور ہوجاتے ہیں یعنی ہوتے تو پھر بھی ہیں لیکن ان کے خلاف کرنے میں پھر مشکل نہیں ہوتی، یہ سمجھ گئے؟

سوال:

حضرت یہ آہستہ آہستہ پریکٹس کرنے سے ختم ہوتی ہیں؟

جواب:

ہاں بس آپ جو ہے ناں اس کی مخالفت کرلیا کریں تو آہستہ آہستہ جو ہے ناں وہ ختم ہوتی جائے گی۔

سوال:

یہ جو ریا ہے آدمی کو پتا چل جائے کہ یہ ریا ہورہی ہے تو اس میں اگر وہ فوراً نیت درست کرلے تو ٹھیک ہوجائے گا۔ جواب:

ہاں، وہ یہی اوپر فرما رہے ہیں کہ نیت درست کرلے، نیت درست کرتے ہوئے اس عمل کو کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام کررہے ہو اس کو چھوڑو نہیں، جو نیک کام کررہے ہو اس کو چھوڑو نہیں، ہاں! ان کے لئے زیادہ بھی نہ کرو، ٹھیک ہے ناں۔

سوال:

حضرت اگر کوئی مسجد میں بیٹھا ہو او روزے سے ہو اور اذان ہوجائے اور چھپا کے کھائے وہ بھی اس میں آئے گا یعنی ریا میں آئے گا؟ جواب:

یہ ریا میں نہیں آئے گا، کیونکہ اس میں اخفا مستحب ہے، بذاتِ خود روزہ رکھنا بھی تو مستحب ہے ناں، یہ روزہ جو نفل روزہ ہوتا ہے، تو اس میں اخفا بھی مستحب ہے کہ چھپا لے، یہاں تک فرمایا کہ کچھ اپنے ہونٹوں کے اوپر تری سی لگا لے تاکہ لوگوں کو پتا نہ چلے، بعض لوگ تو یہ کرتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس موسم میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں کوئی change نہیں آتی انسان کے اوپر۔ وضو کرنے سے جتنی تری آجاتی ہے، اسی سے کام ہوجاتا ہے، ٹھیک ہے ناں؟ کیونکہ خشکی نہیں ہوتی ناں؟ تو بس اس میں یہ ہے کہ بس آدمی اخفا کرے، آدمی جو ہے وہ نہ بتائے لوگوں کو اپنے روزے کے بارے میں۔

سوال:

یعنی نفلی عمل چھپا کر کرنا چاہئے۔

جواب:

نہیں، روزے کے بارے میں ہے یہ۔ روزے کے بارے میں یہ ہے، باقی نفل تو آپ بے شک پڑھ لیا کریں، تہجد میں بھی اخفا بہتر ہے لیکن اخفا نہ ہوسکے تو عمل ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

سوال:

یعنی اگر کسی کے ساتھ شئیر کرنا ہو تو بندہ اس کی پراو نہ کرے؟ جواب:

ہاں شئیر کرے تو پھر پروا نہ کرے، پھر تو پڑھ ہی نہیں سکے گا ناں، کسی طور پہ ظاہر نہ کرے، بعض لوگ باتوں باتوں میں ظاہر کرلیتے ہیں، وہ ٹھیک نہیں ہے، کسی طریقہ سے ظاہر کر ہی لیتے ہیں، تو وہ ریا ہے، یہاں پر یہی فرما رہے ہیں کہ جو ریا کا دل میں خیال آئے تو وہ ریا نہیں ہے، جو لایا گیا تو وہ ریا ہے، یعنی اپنے اختیار سے کوئی لائے ناں، مثال کے طور پر میں اس لئے کرلوں کہ ابھی آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور میں جو ہے ناں اس لئے کہ بھئی دیکھیں کہ بھئی یہ کیسے نمازی پرہیزگار ہے، تو چلیں جی میں نفل جو ہے ناں یہاں دو رکعت پڑھ لوں تاکہ لوگ دیکھیں، میرے دل میں یہ باقاعدہ ارادہ ہو، تو پھر جو ہے ناں یہ ریا ہے۔ لیکن میرا ایک معمول ہے، میں اس وقت معمول پورا کررہا ہوں، میں آپ لوگوں کے لئے نہیں کررہا ہوں، اگر آپ نہ بھی ہوتے تب بھی کرتا اگر ہیں تب بھی کررہا ہوں، لہٰذا پھر یہ ریا نہیں ہے۔

سوال: اب میرا سوال یہ ہے کہ نماز تو آپ پڑھ رہے ہیں، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہماری نظر میں تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔

جواب:

نہیں، آپ کے اوپر اثر نہیں پڑ رہا، آپ کے اوپر اثر نہیں پڑ رہا ناں، کیونکہ آپ ہمارے عمل کے تو ذمہ دار ہی نہیں ہیں، میں تو اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہوں، تو اصل میں یہ ساری باتیں اپنے لئے ہورہی ہیں کہ انسان کا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ درست ہو باقی لوگ بیچاروں کا تو نہیں، وہ تو جیسے بھی کررہے ہیں ٹھیک کررہے ہیں، ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

رضائے حق کے پیدا کرنے کا طریقہ:

تہذیب: اپنے اختیار سے ہر کام میں رضائے حق کا قصد کریں اور اپنے اختیار سے رضائے خلق کا قصد نہ کریں اور بلا قصد کے اگر رضائے خلق کا وسوسہ یا خیال آئے تو اس کی مطلق پروا نہ کریں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ یوں ہی اپنے اختیار و قصد سے رضائے حق کا قصد کرتے رہیں۔ تجربہ ہے کہ چند روز میں رذائل کے خلاف کرنے سے اس عمل کی عادت اور مشق ہو جاتی ہے، پھر رذیلہ کے خلاف کرنے میں کچھ دشواری نہیں ہوتی، بلکہ رذیلہ کمزور ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ رذائل کا ازالہ ضروری نہیں، اس قدر اضمحلال کافی ہے کہ جس سے مقاومت رذیلہ کی آسان ہو جائے۔

پہلے تو ایک قانون حضرت نے بیان فرمایا اور وہ قانون بہت مفید اور اہم ہے کہ ہمیشہ کے لئے اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا قصد کرے، جس کام کو بھی کرنا ہو تو اس میں ارادہ کرو کہ میں اللہ کے لئے کررہا ہوں conceptually، ٹھیک ہے ناں؟ اور اس میں کسی مخلوق کو خوش کرنے کا ہرگز ہرگز قصد نہ ہو اور اگر بغیر کسی قصد کے یعنی ارادہ کے مخلوق کے لئے، مخلوق کی رضا کرنے کا وسوسہ دل میں آجائے تو پھر اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے، یہ ایک قانون بتا دیا۔ اب اس قانون کا ثمرہ کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ اگر ہمیشہ اس طرح رضائے حق کا ارادہ کرتے رہو گے کاموں میں اور نفس کی شرارت کی پروا نہیں کرو گے، اپنے آپ کو اس کا پابند کرو گے تو ابتدا میں تو ہوگی تھوڑی سی کلفت، مسئلہ آئے گا، نفس کی مزاحمت سامنے آئے گی لیکن پھر اس کے بعد جب بار بار اس طرح کریں گے تو یہ ہمیشہ ایک دوسرا قانون ہے کہ جس رذیلہ کی بار بار مخالفت ہوجاتی ہے وہ رذیلہ کمزور ہوجاتا ہے، یعنی ٰیوں سمجھ لیجئے کہ جس صاحب کو ہمیشہ لڑائیوں کے ساتھ اور اس قسم کی تکالیف کے ساتھ واسطہ ہوتا ہے ناں، تو وہ ان تکالیف اور لڑائیوں میں جو ہے ناں وہ عادی ہوجاتا ہے پھر اس کے لئے وہ لڑائیاں مشکل نہیں ہوتیں، کہتے ہیں ناں میدان جنگ میں پہلی گولی جو چلتی ہے ناں اس کی دہشت الگ ہوتی ہے، اس کے بعد پھر پروا بھی نہیں ہوتی، ایک قسم کی habitual ہوجاتی ہے کہ یہ تو Part of the game ہے، چلتی رہتی ہے، اسی میں سب کچھ ہوتا ہے۔ اب دیکھیں ناں وہ بیچارے وہ mines پہ چلتے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے، ہم لوگ تصور سے یعنی وہ کانپ جائیں، لیکن وہ لوگ پھر، ٹھیک ہے اپنے طور پہ باہوش ہوتے ہیں، یعنی خیال بھی رکھتے ہیں جس طرح ان کو ٹریننگ ہوتی ہے، اس ٹریننگ کے مطابق عمل کرتے ہیں، لیکن وہ جس کو کہتے ہیں دہشت، وہ دہشت اس درجے کی نہیں رہ جاتی۔ اسی طریقے سے جو رذائل ہیں ان رذائل کی جب بار بار مخالفت ہوتی ہے تو پھر ایک طرف تو وہ رذیلہ کمزور ہوجاتا ہے، دوسری طرف ہم طاقتور ہوجاتے ہیں، یعنی ہمیں بھی ایک عادت ہوجاتی ہے ناں، رذیلہ کی مخالفت کی عادت ہوجاتی ہے، جب عادت ہوجاتی ہے، لہٰذا ہمارے لئے مشکل نہیں ہوتی، دونوں طرف فائدہ ہی ہوتا ہے اور اگر مان لیا تو دونوں طرف مسئلہ ہوجائے گا، ہم کمزور ہوجائیں گے اور وہ مضبوط ہوجائے گا، ٹھیک ہے ناں؟ دونوں طرف۔

ارضائے خلق بہ نیتِ ارضائے حق، ارضائے حق ہے:

تہذیب: ارضائے خلق بھی اگر بہ نیت ارضائے حق ہو تو وہ ارضائے حق میں داخل ہے، نظیر اس کی شیخ کا ہدیہ ہے۔

یعنی اگر مخلوق کو راضی کی کرنے نیت اللہ کو راضی کرنے کے لئے ہو تو وہ بھی اللہ کو راضی کرنے کی نیت ہے، بصورتِ۔۔۔۔ یعنی صورت تو یہ ہے لیکن ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت، جیسے شیخ کو ہدیہ دیا جاتا ہے یا شیخ کی محبت بذات خود، وہ بھی تو محبت حق ہے ناں، ورنہ شیخ کے ساتھ کوئی رشتہ داری تھوڑی ہوتی ہے، وہ تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کے ساتھ تعلق، شیخ کے ساتھ تو کیا، اپنے پیر بھائیوں کے ساتھ جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے، ورنہ درمیان میں اور کون سا رشتہ ہوتا ہے؟ اور یہ تعلق بعض دفعہ اپنے رشتہ کے تعلق سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے بظاہر بعض دفعہ۔ تو یہ چیز جو ہے ناں، یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے۔ اس وجہ سے جو ہے ناں وہ اگرچہ صورتاً یہ غیر کے لئے ہے لیکن حقیقتاً یہ اللہ کے لئے ہے۔ فرمایا۔

صوفیوں کی وضع ریاءً بنانا بھی قابل قدر ہے:

تہذیب: جو شخص ریا سے بھی صوفیوں کی وضع بناتا ہے، اس کی بھی قدر کرو (سبحان اللہ) کیونکہ اس کے اس فعل سے یہ تو معلوم ہوا کہ اس کے دل میں صوفیہ کی قدر ہے جب ہی تو وہ ان کی وضع داری و صورت سے با قدر ہونا چاہتا ہے۔ پس تم اس کے عیب (ریا) پر نظر نہ کرو بلکہ اس خوبی پر نظر کر کے اس کی قدر کرو۔

یہ حضرت نے ایک درمیان کا لطیفہ بتایا کہ جو لوگ اس قسم کا ریاکارانہ لباس پہنتے ہیں صوفیاء کی طرح جیسے مثال کے طور پر میں کہتا ہوں جو لوگ یورپ والوں کی نقل کرتے ہیں، یورپ والوں سے مرغوب ہیں ناں، تو جو لوگ صوفیوں کی وہ نقل کرتے ہیں تو وہ صوفیاء سے مرغوب ہیں، تو یہ تو خوبی ہے ناں، جو صوفیوں کی نقل کرتے ہیں تو صوفیوں سے مرغوب ہوئے ناں۔ جس طرح دوسرے لوگوں کی نقل جو ہے وہ ٹھیک نہیں ہے اس طرح ان کی نقل میں ٹھیک ہے ریا والی بات ہوگی وہ ان کا اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے، ہم ذرا ان کی اس چیز۔۔۔۔ اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس ریا کی برکت سے بھی یعنی یہ جو کام ان لوگوں نے کیے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے وقت کیا تھا جادوگروں نے، جادوگروں کا جو لباس تھا انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی محبت میں تھوڑا وہ لباس پہنا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کا جب کرم ہوا تو ان کو ہدایت دے دی، تو جب پوچھا کہ یا اللہ! یہ تو میں جن کے لئے آیا تھا ان کو تو ہدایت نہیں ملی اور جو میرے مقابلہ میں آئے ہیں ان کو ہدایت ہوگئی۔ تو فرمایا کہ انہوں نے میرے محبوب کا لباس پہنا ہوا تھا، میں نے نہیں چاہا کہ اس لباس پہننے والوں کے ساتھ میں وہ کرلوں، ان کو میں نے ہدایت دے دی۔ تو یہ بات ہے کہ کسی نہ کسی رخ سے لوگوں کو اگر فائدہ ہوتا ہے۔ پھر حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں نسبتاً کچھ زیادہ وسیع الظرف واقع ہوئے ہیں، میرے پاس ایک کتاب ہے آج کل میں وہ پڑھتا ہوں، حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی رمضان شریف کی مجالس کی، کسی وقت اس کی بھی تعلیم کریں گے ان شاء اللہ، رمضان شریف کی مجالس کی روداد ہیں، مجلسیں ہوتی تھیں جیسے ملفوظات ہیں ناں تو حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ہیں تو حضرت کا جو شرح صدر ہے وہ یہی ہے کہ یہاں تک بعض دفعہ فرمایا کہ میں نے ریا کو اٹھا دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کل کے دور میں چونکہ اس راستے سے مخالفت بہت زیادہ ہورہی ہے تو جو لوگ اس میں ریا سے بھی آرہے ہیں ناں ریا سے، تو ان کی بھی قدر کرو گے تو وہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے، وہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔ تو ان کے بارے میں یہ فرمایا کہ جو لوگ ریا سے بھی ذکر کررہے ہیں کرنے دو، کرنے دو، کچھ کام کرنے دو، راستہ بن جائے گا۔ تو حضرت اس معاملہ میں بڑے وسیع الظرف ہیں حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ۔ لیکن بہرحال ہم دوسرے لوگوں کو چھوٹ دیں گے اپنے طور پہ تو احتیاط کریں گے ناں، دوسرے لوگوں کو اس کی چھوٹ دیں گے ہم، خود اپنے لئے احتیاط کریں گے تو ان شاء اللہ ان کو بھی فائدہ، ہمیں بھی فائدہ ہوجائے گا۔

افراطِ عظمتِ شیخ بھی ارضائے خلق ہے:

تہذیب: حکمِ شیخ کی اتنی عظمت کہ شیخ کا بتلایا ہوا وظیفہ تو کبھی نہ چھوٹے گو نماز و جماعت چھوٹ جائے، ارضائے خلق میں داخل ہے۔

یہ غلط بات ہے کہ شیخ کا دیا ہوا وظیفہ تو نہ چھوٹے اور نماز وغیرہ چھوٹے۔ لیکن اس میں تھوڑا سا میں ذرا کچھ add کرنا چاہوں گا کیونکہ ذرا تفصیل چاہئے اس میں۔ اگر شیخ کا وظیفہ وہ اس لیے برقرار رکھتا ہے کہ یہ جو نماز میری چھوٹ رہی ہے یہ بھی قابو ہوجائے اس کی برکت سے، تو پھر یہ ارضائے خلق میں داخل نہیں ہے، ٹھیک ہے ناں؟ اگر شیخ کا دیا ہوا وظیفہ وہ اس لیے نہ چھوڑے کہ اگر میں اس کو چھوڑ دوں تو پھر سب کچھ چھوٹ جائے گا کیونکہ یہی تو راستہ ہے، یہ بات مجھے حلیمی صاحب نے سمجھائی تھی۔ حلیمی صاحب ملفوظات کے expert ہیں، کیونکہ وہ جو ہے ناں مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ملفوظات پر اس کی تشریح کرتے، حضرت کی خانقاہ میں حضرت کی زندگی میں، حضرت بیٹھے ہوئے تھے، تشریح حضرت حلیمی صاحب کرتے تھے، تو ان کے سامنے سب کچھ کرتے تھے، اس وجہ سے۔ پہلے تو ہمیں قدر نہیں تھی ظاہر ہے ان کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے، لیکن یہ ہے کہ جب مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سب کچھ ان کے حوالے کردیا تو پھر ہمیں قدر ہوئی کہ بھئی بات یہ ہے، ٹھیک ہے رشتہ دار ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جی۔ نہیں ہوتے ذرا رشتہ داروں کا وہ اتنا نہیں ہوتا ناں، اصل میں بہت زیادہ قریبی تعلق ہوتا ہے جس کی وجہ سے کچھ چیزیں جو مسائل ہوتے ہیں وہ سب کے ساتھ ہوتے ہیں باقی لوگوں کو معلوم نہیں ان کو معلوم ہوتے رہتے ہیں، تو وہ ناقدری کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ تو اس طرح یہ بات ہوتی ہے۔ لیکن بہرحال اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم فرمایا، تو اب میں حضرت سے کافی پوچھتا رہتا ہوں مجھے بتاتے رہتے ہیں، تو یہ بات ہے کہ یہ جو ہے وہ انہوں نے مجھے ایک بات بتائی تھی یہ جو کرنل صاحب ہیں ان کے مرید ہیں تو انہوں نے ان کو خط لکھا تھا کہ وہ جیسے ضیا صاحب۔ اب تو حالات کچھ بہتر ہوگئے پہلے تو حالات بہت خراب تھے ناں، وہ تو کافی عرصہ پہلے کی ٹریننگ کررہے تھے، کہتے ہیں یہاں نماز کے لئے نہیں وہ permission ملتی ہے اور ایک صاحب نے تو بڑی قربانی دی ما شاء اللہ اس نے، لیکن اگلے والوں کے لئے بڑی آسانی ہوگئی۔ لیکن یہ ہے کہ اس وقت ان کی یہ صورتحال تھی تو انہوں نے کہا کہ یہ جو انہوں نے خط لکھا تھا تو میں نے ان کو جواب دیا کہ اس کے لئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو لیکن ذکر جو آپ کو میں نے دیا ہے وہ کبھی نہ چھوٹے، جو ذکر میں نے آپ کو دیا ہے وہ کبھی نہ چھوٹے۔ اب ایک شخص ہے صبح کی نماز میں، رہ جاتی ہے نماز، ٹھیک ہے ناں؟ بعض لوگ ہوتے ہیں پریشان ہوتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں یا جس ماحول سے کٹ کے آرہے ہیں اس ماحول کے اثرات ہوتے ہیں، تو اب ان میں جو ترقی آرہی ہے یا نمازوں کی فکر ہورہی ہے وہ اسی ذکر ہی کی تو برکت ہے، اب اگر یہ ذکر آپ اس سے چھڑا دیں کہ بھئی تجھ سے نماز چھوٹ رہی ہے تو، یہ ذکر ایسا ہونا چاہئے کہ اس کی نماز بنا دے نہ کہ نماز ایسا ہو کہ اس کا ذکر چھڑا دے، ٹھیک ہے ناں؟ یہ اصل میں حضرت نے قانونی بات تو فرما دی ہے، قانونی بات ہے یہ، لیکن اس کے سیاق و سباق بڑے یعنی وسیع ہیں، تو اس وجہ سے یہاں پر، حالانکہ حضرت خود اس بارے میں بارہا بات کرچکے ہیں مواعظ میں اور ملفوظات میں جو تفصیلی باتیں ہیں، جو اب میں کررہا ہوں، تو ظاہر ہے حضرت ہی کی برکت ہے جو بھی کررہا ہوں اپنی طرف سے نہیں کررہا ہوں۔ لیکن یہ بات ہے کہ یہاں پر چونکہ قانونی بات فرما دی ہے، یہ اس کو اگر ہم اس کی تشریح یوں کرلیں کہ بعض بگڑے ہوئے صوفیوں کے ہاں جو نماز روزہ کی اہمیت نہیں ہوتی ان چیزوں کی اہمیت ہوتی ہے وہ غلط ہے، ہاں بالکل یہ غلط ہے، تو اس کی بات ہم اس طرف وہ کرلیں کہ وہاں پر correction کرنی پڑے گی، (جیسے گھر میں پڑھ لی نماز) مطلب ہم نے کبھی پڑھ لی نماز اور کبھی نہ بھی پڑھی (قضا کردی) تو ان کو اتنا زیادہ اس کی value کا پتا نہیں ہوتا لیکن جو لوگ progress میں ہیں، ترقی میں ہیں، تو وہاں تو بعض اوقات ہم یہ کرلیتے ہیں کہ وہ نماز کا عادی نہیں ہے تو ہم ان کو کہتے بھی نہیں کہ نماز پڑھو، اس وقت ہم ان کو ذکر بتاتے ہیں، ذکر سے ان کے دل میں روشنی آتی ہے، اس روشنی کی برکت سے آہستہ آہستہ نماز پہ آجاتے ہیں، تو وہ تو تیاری ہوتی ہے، وہ ٰیوں سمجھ لیں hospitalize ہوگیا ہے، تو جو hospitalize ہوگیا تو اس کو تو پہلا injection لگائیں گے ان کو پہلے کھانا تھوڑا کھلائیں گے، مطلب تھوڑا سی ان میں جان تو آجائے، کھانا کھانے کا عزم تو وہ کرلے ورنہ vomiting کرلے۔ تو یہ بات ہے کہ اگر پلاننگ سے ہو یہ تو یہ پھر تربیت کا حصہ ہے اور اگر سستی اور غفلت ہو اس میں، تو وہ ٹھیک نہیں ہے، وہ ٹھیک کرنی پڑے گی۔ تو جن خانقاہوں میں جو غلط صوفیوں کی ہیں انہوں نے ایسا نظام اگر بنایا ہوا ہے کہ اس میں نماز روزے کا تو ذکر نہیں ہے، لیکن اس میں ان مخصوص رسومات کی فکر ہے کہ چاہے ذکر کی صورت میں ہے چاہے کسی اور صورت میں ہے، اسی پہ سب کچھ ہے، تو وہ اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ ہائے ہائے! دیکھیں ناں کیا کریں اب کتابیں اگر ہم ویسے کسی کو دے دیں کہ پڑھ لو تو کیا سے کیا ہوجائے، مشکل بات ہے ناں یہ ہوتی ہے ضرورت۔ فرمایا کہ

توحیدِ مطلوب کے دو درجے مامور بہ ہیں جن کا حصول مُزیلِ ریا ہے اور توحیدِ وجودی کا درجہ مامور بہ نہیں گو معین توحیدِ مطلوب ہے:

تہذیب: شرعاً جو توحید مطلوب اور مامور بہ ہے اس کے دو ہی درجہ ہیں: ایک توحیدِ اعتقادی (یعنی حق تعالیٰ کو ذات و صفات میں واحد و یکتا سمجھنا) دوسرا توحیدِ قصدی (یعنی حق تعالیٰ کو قصد میں بھی واحد و یکتا سمجھنا، غیر حق کو مطلوب و مقصود نہ بنانا) اور توحیدِ وجودی (یعنی حق تعالیٰ کو وجود میں واحد و یکتا سمجھنا، جس کا اثر یہ ہو کہ حق تعالیٰ کے سوا کسی کے وجود کا اثر اس کی طبیعت پر نہ ہو جس سے خوفاً یا رجاءً متاثر ہو جائے، بلکہ یوں سمجھے کہ حق تعالیٰ کے سوا کوئی موجود نہیں جس سے خوف و رجا کو متعلق کیا جائے) یہ توحید مامور بہ نہیں، ہاں توحیدِ مطلوب کی معین ضرور ہے کہ اس سے توحیدِ اعتقادی اور توحیدِ قصدی کا حصول و کمال سہل ہو جاتا ہے، مگر یہ نہیں کہ اس کے بغیر توحید کامل ہی نہ ہو سکے۔

کچھ سمجھ میں نہیں آیا؟ اچھا! آپ کو کچھ؟ یہ دیکھیں ناں، اصل چیز کیا ہے؟ پہلی بات عقلی ہے اور دوسری بات طبعی ہے، ٹھیک ہے ناں؟ اور آپ کو پتا ہے کہ عقلی چیزیں مامور بہ ہوتی ہیں، ٹھیک ہے؟ تو فرمایا کہ جو توحید مطلوب اور مامور بہ ہے، وہ دو درجے میں ہے کہ ایک اعتقادی یعنی اللہ تعالیٰ کو ذات و صفات میں یکتا اور واحد سمجھنا، عقیدے کے لحاظ سے، ٹھیک ہے ناں؟ اور دوسرا توحیدیِ قصدی ہے کہ کام اس کے لئے کرنا، کسی اور کے لئے نہ کرنا، کسی اور کے لئے کام نہ کرنا، صرف اس کے لئے کرنا، یہ مطلوب اور مقصود ہے، اس کو تو حاصل کرنا ہے۔ لیکن جیسے میں عرض کرتا رہتا ہوں دیکھیں ناں ان باتوں کی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تائید ہورہی ہے ناں، آہستہ آہستہ، یہ تجلی والی جو بات ہے، یہ حضرت نے تجلی کی بات درمیان میں فرما دی، کہ اگر کسی پہ ایسی تجلی ہوجائے کہ اس کو اللہ کے سوا کوئی اور نظر ہی نہ آئے، کسی اور سے متاثر ہی نہ ہو، نہ خوفاً نہ رجاءً کسی اور کا اثر ہی نہ ہو تو دونوں چیزیں بہت آسانی سے حاصل ہوجائیں گی یا نہیں؟ یا اس میں کوئی شک ہوگا؟ عقیدہ بھی ہوگا اور ساتھ ساتھ کسبی بھی، کیونکہ جس کو کوئی اور نظر ہی نہیں آتا وہ کسی اور کا قصد کیوں کرے گا؟ تو یہ بہت زیادہ آسان ہوجاتی ہے، لیکن اگر کسی کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے اور وہ دو چیزیں ان کو حاصل ہیں ما شاء اللہ مقصود ان کو حاصل ہے، مقصود ان کو حاصل ہے جب تک اس کو نبھا رہا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب ذرا تھوڑی سی اس کی تشریح کرنا چاہتا ہوں، توحیدِ اعتقادی تو ما شاء اللہ بہت سارے لوگوں کی stable ہوتی ہے کیونکہ minimum required ہے، مطلب اس میں مسئلہ مسئلہ مسئلہ بہت خطرناک ہے اگر ذرا بھر بھی آگے پیچھے ہوجائے تو کفر کا مسئلہ ہے ناں؟ تو وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ بہت سارے لوگ stable ہوتے ہیں اس پر توحیدِ اعتقادی پر۔ توحید قصدی میں گڑبڑ ہوجاتی ہے عملی طور پر، کیونکہ ریا اس کے ساتھ ہے ناں، تو ریاکار کتنے لوگ ہوتے ہیں؟ کافی سارے لوگ ریاکار ہوتے ہیں، مسلمان تو ہوتے ہیں ناں، مسلمان تو ہوتے ہیں لیکن وہ ہوتے ریاکار ہیں۔ درمیان میں آگے پیچھے کوئی بات ہوجاتی ہے تو توحیدِ اعتقادی پہ تو فرق نہیں پڑتا، توحیدِ اعتقادی تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ موجود ہوتی ہے لیکن توحیدِ قصدی اگر بہت خراب ہوجائے ناں مسئلہ گڑبڑ ہوجائے اس کے ساتھ، تو توحیدِ اعتقادی پہ بھی اثر پڑ سکتا ہے پھر، بار بار اگر مسئلہ ہو ناں تو پھر آہستہ آہستہ پھر وہ عقیدہ میں گڑبڑ آجاتی ہے ناں؟ اگر بالکل مطلب ان چیزوں کی طرف ہو تو پھر جو ہے ناں، خیر جب آپ کسی اور سے بھی تعلق رکھیں گے قصد کریں گے تو ممکن ہے کہ پیر فقیر اور اس کو خدائی صفات میں شریک کرنے لگو اور بعض مزاروں کو اور۔۔۔۔ یہ ساری چیزیں پھر اس طرف چلی جاتی ہیں ناں؟ تو یہی اصل میں بنیادی طور پہ توحید قصدی کی گڑبڑ ہے ناں، لیکن وہ توحیدِ اعتقادی میں داخل ہونے لگتا ہے، تو توحیدِ اعتقادی میں کمزوری توحید قصدی میں کمزوری سے توحید اعتقادی میں گڑبڑ ہوسکتی ہے، لہٰذا اس سے آدمی غافل نہیں رہ سکتا، ٹھیک ہے ناں؟ اور توحیدِ قصدی کی حفاظت توحیدِ وجودی سے ہی ہے آسان، توحیدِ قصدی کی حفاظت توحیدِ وجودی سے آسان ہے، اگر یہ حاصل ہو تو یہ آپ کو قابو میں کرلے گی، نتیجتاً آپ کی وہ چیز بھی محفوظ ہوجائے گی۔ تو گویا کہ Reverse order ہے، یعنی ہے تو پہلے مقصود اعتقادی، پھر اس کے بعد قصدی، پھر اس کے بعد وجودی جو ہے اخیر میں آتی ہے، لیکن وجودی آپ کی قصدی کی حفاظت کرتی ہے اور قصدی آپ کی اعتقادی کی حفاظت کرتا ہے ٹھیک ہے ناں تو یہ جو میں کہتا ہوں تجلی جب حاصل ہوجائے تو پھر ساری باتیں آسان ہونے لگتی ہیں پھر کوئی مشکل نہیں ہوتی ورنہ مشکلات ہوتے ہیں لڑتے رہیں گے آپ توحید قصدی تو رکھیں گے ناں آپ لڑتے تو رہیں گے ہر چیز میں آپ بار بار خیال کریں گے میرا دل ادھر ادھر نہ ہوجائے ہاں جی تو چلتا رہے گا معاملہ ان شاء اللہ العزیز لیکن اگر توحید وجودی ایک دفعہ حاصل ہوجائے تو پھر ماشاء اللہ پھر تو مسئلہ ہی نہیں ہوگا تو ہمارے تصوف میں یوں کرتے ہیں کہ پہلے پہلے ہم ذکر میں جو لوگوں کو ذکر کراتے ہیں کراتے ہیں کراتے ہیں اس سے ان کی جو life ہے دل کی اس سے دل روشن ہوتا جاتا ہے ساتھ ساتھ ذکر میں ترقی ہوتی رہتی ہے شیخ اس کے founds میں ترقی ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ اخیر میں ان کو پہنچاتے ہیں کوشش کرتے ہیں جس کو ہم کہتے ہیں تصور ذات بخت تصور ذات بخت میں انسان یہ تصور کرتا ہے کہ اللہ میرے دل میں ہے ہاں جی اللہ میرے دل میں ہے ظاہر ہے وہ تو تو جب دل میں ہوگا ہر وقت تو دل ہی بادشاہ ہے ناں جب دل میں آپ کو خدا ہی نظر آئے گا تو پھر ہر جگہ خدا ہی نظر آئے گا ناں دل بادشاہ ہے ناں دل میں خدا ہے تو ہر جگہ خدا ہے ٹھیک ہے ناں پھر آپ کو کوئی اور چیز نظر ہی نہیں آئے گا

سوال:

جواب: ہاں صحیح فرمایا وہ ادب کو شیخ کہتے ہیں اور ہم لوگ درمیان میں ہیں ناں کہ ادب ادب ہے اور شیخ شیخ ہے ہم لوگ ہاں یہی تو ہوتا ہے افراط تفریط اسی کو کہتے ہیں افراط تفریط سے بچنا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ (الفاتحہ: 5-7) صراط مستقیم ہم مانگتے ہیں یہ اعتدال ہے اور اس سے تفریط ہے پہلے بعد میں تفریط پہلے تفریط آیا ہے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ یہ تحریف ہے تفریط ہے اور الضَّآلِّیْنَ جو ہے افراط ہے

سوال:

جواب: ہاں اس کا جو ہے ناں مطلب یوں سمجھ لیجئے کہ نہیں جو الْمَغْضُوْبِ ہے ناں وہ یوں سمجھ لیجئے کہ ان کے اوپر خواہشات نفس اتنے غالب ہوگئے کہ انہوں نے اپنی خواہشات سے دین کی ضروری چیزوں سے انکار کرلیا خواہشات نفس کی وجہ سے یہ جو خواہشات نفس میں مزاحم ہوتا گیا ناں اس کو کہا یہ نہیں ہے یہ نہیں ہے یہ نہیں ہے

ریا کے لیے قصد شرط ہے:

تہذیب: ریا کوئی خود نہیں لپٹتی پھرتی، جب قصد ہی کرو گے تب ریا ہو گی ورنہ محض وسوسۂ ریا ہو گا جو مضِرّ نہیں۔

اگر خود بخود کسی کے دل میں خیال آیا تو وہ ریا نہیں ہے وہ تو اصل میں قصد اور ارادہ سے ہوتا ہے

معیارِ شناخت وسوسۂ ریا از حقیقتِ ریا:

تہذیب: صورتِ ریا، ریا نہیں ہے، جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم ﷺ کو قرآن سنانے میں تطییبِ قلبِ رسول اور تطییبِ قلبِ رسول سے ارضائے حق کا قصد رکھنا گو صورتاً ریا ہے، لیکن حقیقتاً ریا نہیں۔ اسی طرح وسوسۂ ریا، ریا نہیں۔ بس ریا وہ ہے کہ عملِ دینی سے مقصود ہی غیر حق ہو اور غیرِ حق کو ارضاءِ حق کا واسطہ نہ بنایا گیا ہو۔ اور اگر عمل سے مقصود غیرِ حق نہ ہو تو غیر کا واسطہ آنا مضِرّ نہیں۔ رہا یہ کہ اس کا معیار کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ وسوسۂ ریا تھا یا حقیقت ریا؟ سو معیار یہ ہے کہ ریا یہ ہے کہ اس کے دیکھنے والے چلے جائیں تو یہ ذکر وغیرہ کو قطع کر دے جیسے میں نے ابھی عرض کیا ناں کہ آپ نہ بھی ہوتے تب بھی میں اپنا معمول پورا کرتا اور آپ ہوں گے تب بھی میں اپنا معمول پورا کررہا ہوں تو یہ ریا نہیں ہے کیونکہ میرا معمول ہے ہاں جی اور اگر میں خود ہی اسی وقت اس لئے کروں تاکہ آپ لوگ اس سے آگاہ ہوجائیں تو پھر وہ ریا ہوگا اور اگر ان کے جانے کے بعد ذکر کو قطع نہ کرے تو دیکھنے والوں کے ہوتے ہوئے جو ان کی طرف خیال گیا تھا یہ وسوسۂ ریا تھا، ریا نہ تھا۔

سوال: اس میں حضرت ذکر صحیح کیا ہے ذکر کوئی آدمی تھا معمول تو ہے لیکن دل میں یہ بات آرہی کہ چلیں ریا دیکھے یا

جواب: نہیں چلیں والی بات خطرناک ہے چلیں والی بات نکال لیں باقی ٹھیک ہے

سوال: اس میں اگر درمیان میں اگر شروع ہوگیا ہے تو درمیان میں ریا

جواب: ہاں بالکل درمیان میں نیت صحیح کرلیں درمیان میں نیت صحیح کرلیں اور کہہ دیں کہ کیا مجھے دے سکتا ہے اور مجھ سے کیا لے سکتا ہے میں ان کے لئے کیوں کروں ہاں جی تو پھر ریا نہیں ہوگا

سوال: جیسے ریا میں نماز شروع کی ہے تو اس کو درمیان میں اگر اسی طرح (ہاں تو ٹھیک ہے گھر والوں کو اندر لے جائیں ہاں بالکل ٹھیک ہے) تو وہ نماز جو ہے وہ درمیان سے صحیح ہوجائے گی یا دوبارہ پڑھنا پڑھے گی ریا والی نماز

جواب: نہیں نماز کے اندر ہی اپنی نیت تبدیل کرلے بالکل اگر خود سے آئے تو اس کی پرواہ نہ کرے اور اپنے ارادہ سے اگر کیا ہو تو اس کو ختم کرلے اس ارادہ کو اس ارادہ کو ختم کرے ٹھیک ہے ہاں یہ بات ہے کہ اپنے ارادہ سے کوئی ایسا کام شروع نہیں کرنا چاہئے لوگوں کے سامنے کہ جو ریا کے لئے ہو اپنے ارادہ سے کوئی ایسا کام نہیں کرنا شروع کرنا چاہئے کہ جو ریا کے لئے ہو اس وقت جو ہے ناں نہ کرے لیکن اگر ایسا اپنا معمول ہے یا کوئی اور ہے تو پھر اس کی پرواہ نہ کرے

سوال:

جواب: نہیں نہیں یہ والی بات نہیں ہے وہ اصل میں ارادہ کی طرف بات تھی دیکھیں ناں ریا یہ ہے کہ اس کے دیکھنے والے چلے گئے تو ذکر وغیرہ کو قطع کرے مطلب اس صورت ذکر کرے ہی نہ کیونکہ مقصد فوت ہوگیا ناں مقصد تو لوگوں کو دیکھانے کا تھا اب لوگ چلے گئے تو پھر کیوں کرے ہاں تو اس صورت میں پھر ریا ہے خود سے جو خیال آگیا اس میں تو ریا ہے ہی نہیں وہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک پیر صاحب جو نہیں ہوتے نمبر دو پیر تو وہ گئے تھے وہ کسی کے ہاں دعوت تھی تو دعوت میں کھانا تھوڑا سا ڈال لیا تو وہاں نماز پڑھ لی تو یہ ہے کہ نماز بڑی لمبی پڑھی گھر آیا تو بچوں کے ساتھ تھا ناں تو گھر والوں سے کہا اب کھانا لاؤ بچوں نے کہا آپ کھانا تو کھا چکے ہیں کہتے ہیں لوگ تھے اگر زیادہ کھاؤ گا تو پھر کہیں گے کہ یہ تو بہت کھاتا ہے بچوں نے کہا پھر آپ نماز بھی دوبارہ پڑھ لیجئے گا نماز بھی دوبارہ پڑھ لیں

اخفائے عبادت خلق سے ریا ہے:

تہذیب: عام صوفیوں کا مشہور قول یہ ہے کہ اظہارِ عبادت خلق سے ریا ہے اور محققین حضرات کا ارشاد ہے کہ اخفائے عبادت خلق سے ریا ہے، کیونکہ مخلوق پر نظر ہی کیوں گئی جو اس سے اخفاء کا اہتمام کیا گیا؟ اگر مخلوق کو کالعدم اور لا شئ اور ایسا سمجھتے کہ جیسے مسجد کی صفیں تو ان سے اخفا نہ کرتے۔

دیکھیں ناں حضرت کا ملفوظ ہے حضرت نے مجھ سے یہی فرمایا تھا کہ یہ چٹائیاں ہیں کہ کبھی تصور ہوا کہ چٹائیاں مجھے دیکھ رہی ہیں یعنی ایک دفعہ کہا تھا ناں کہ اپنے بارے میں حضرت سے میں نے عرض کیا تھا مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہ اس طرح جو ہے ناں وہ دل میں ریا کے بارے میں یہ چیزیں آتی ہیں تو پھر وہ عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو فرمایا کہ کبھی یہ سوچا ہے کہ تنہائی میں یہ چٹائیاں مجھے دیکھ رہی ہیں میں نے کہا نہیں فرمایا بس لوگوں کو چٹائیاں سمجھو لوگوں کو چٹائیاں سمجھو یہ چٹائیاں کچھ نہیں دے سکتا ہے کم نہیں کرسکتا اس طریقہ سے لوگ بھی تمھارے ساتھ کچھ نہیں کرسکتے

سوال: حضرت ایک نماز ہے وہ پوری کی پوری ریا میں پڑھی گئی ہو تو اس میں دوبارہ پڑھنا چاہئے یا وہ جو

جواب: اس پہ استغفار کرنا چاہئے اس پہ استغفار کرنا چاہئے اور آئندہ کے لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے اس پہ استغفار کرنا چاہئے کیونکہ برا عمل ہے نماز ہو تو گئی نماز تو ظاہری شرائط پر ہے وہ جو اندر والی بات ہے وہ اس پہ استغفار کرے تاکہ وہ معاف ہوجائے آپ کے دل کا عمل ہے ٹھیک ہے

سوال:

جواب: مطلب اس میں یہ محققین کے بارے میں انہوں نے یہ فرمایا کہ لوگوں سے جو اخفاء ہے قصداً تاکہ ریا نہ ہو یہ بھی ریا ہے کیونکہ لوگوں پہ نظر گئی جیسے مثال کے طور پر کوئی تسبیح کرنا چاہتا لوگ آئے تو اس کو چھپا لیا ریا ہے کیوں چھپاتے ہو کرو ان کے سامنے کرو یہ کیا چیز ہے ہاں جی لوگوں کے سامنے تسبیح کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے اس میں ٹھیک ہے ناں البتہ صدقہ اور روزہ یہ صدقہ اور روزہ صدقہ میں اخفاء مستحب ہے اور روزہ میں بھی اخفاء نفلی روزہ میں اخفاء مستحب ہے لہٰذا مستحب کو پورا کرنے کے لئے اخفاء کرتے ہیں وہ ریا والی بات نہیں ہے

سوال: حضرت ایک آدمی تسبیح کررہا ہے لوگوں کو نہ پتا چلے کہ یہ

جواب: تو یہی رہا ہے ناں آپ لوگوں کا ذہن پھر اثر کیوں آیا لوگ کیا مجھے دے سکتے ہیں اور کیا مجھ سے لے سکتے ہیں جی ہاں بالکل لوگوں کا اثر ہی دل پہ نہیں آنا چاہئے لوگوں سے رابطہ دل کا کٹنا چاہئے


  1. ۔ (الضحیٰ: 11) ترجمہ: ’’اور جو تمہارے پروردگار کی نعمت ہے اس کا تذکرہ کرتے رہنا۔‘‘

ریا: حقیقت، وسوسے اور علاج - انفاسِ عیسیٰ