مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 24


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کے بارے میں ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ (جن کو حلیم گل بابا کہتے ہیں) نے کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ لکھی تھی، اس سے تعلیم جاری ہے۔ اس میں حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے حالات و مقامات کے بارے میں محو کے متعلق بات ہو رہی تھی۔

متن:

"فَمَعْنَی الْمَحْوِ رَفْعُ أَوْصَافِ الْعَادَۃِ وَمَعْنَی الْإِثْبَاتِ إِقَامَۃٌ وَّمَعْنَی الْبَقَاءِ أَحْکَامُ الْعِبَادَۃِ" ”محو کے معنیٰ عادتی صفتوں کا زائل ہونا اور اثبات کے معنیٰ اقامت ہیں، یعنی ثابت رہنا، اور بقا کے معنی عبادت کے احکام ہیں۔‘‘ اور پھر محو تین طرح کا ہوتا ہے: "مَحْوُ الذَّاتِ عَنِ الظَّوَاھِرِ وَمَحْوُ الْغَفْلَۃِ عَنِ الضَّمَائِرِ وَمَحْوُ الْغَیْبَۃِ عَنِ السَّرَائِرِ" یعنی ظاہری اشیاء و احکام سے ذات کا محو ہونا اور

(حاشیہ: 1؎ تلوین۔ گونا گون کرنا۔ رنگا رنگ بنانا۔ اور تصوف میں ایک مقام کا نام ہے)

ضمائر سے غفلت کا محو ہونا اور اسرار و رموز سے غیبت کا محو ہونا۔ اور اسی طرح فنا "وَمَعْنَی الْفَنَاءِ سُقُوْطُ أَوْصَافِ الْمَذْمُوْمَۃِ وَالْغَفْلَۃِ وَثُبُوْتُ أَوْصَافِ الْمَحْمُوْدَۃِ" یعنی فنا کے معنیٰ ہیں؛ بُری اور غفلت کی بد ترین عادتوں کا ساقط ہونا اور اوصافِ محمودہ کا ثابت، قائم اور برقرار ہونا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ "اَلْفَنَاءُ صِفَۃُ الْکَوْنِ وَالْبَقَاءُ صِفَۃُ یَکُوْنُ وَمَا کَانَ لِأَجْلِ الْکَوْنِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ یَعْنِی الْکَوْنَ ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ یَعْنِي الْمُکَوِّنَ فَأَعْمَالُ الْمُخْلِصِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْبَقَاءِ لِأَجْلِ الْکَوْنِ وَأَعْمَالُ الْمُرَائِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْفَنَاءِ لِأَجْلِ أَنْ یَّطْلُبُوْا بِھَا عِزَّۃً وَّقُوَّۃً"

ترجمہ: ”فنا کون کی صفت ہے اور بقا یکون کی صفت ہے (یعنی کُنْ فَیَکُوْنُ) کون کے سبب سے، اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ (الرحمن: 26) یعنی کون (یعنی کائنات اور بنائی ہوئی اشیاء) ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ (الرحمن: 27)یعنی مکوِّن، اور وہ باقی رہے گا۔ یعنی مکوِّن (خالق) کی ذات باقی رہے گی۔ تو مخلصین کے اعمال بقا کے حکم میں داخل ہیں کون کی وجہ سے، اور ریا کاروں کے اعمال فنا کے حکم میں داخل ہیں، اس وجہ سے کہ وہ اس سے عزت اور قوت چاہتے ہیں“۔

اور فانی اُس کو کہتے ہیں کہ "لَا یَبْقٰی لِنَفْسِہٖ حَظٌّ وَّلَا لَہٗ مَعَ نَفْسِہٖ نَصِیْبٌ" یعنی نہ تو اُس کو اپنے نفس سے کچھ لطف اور حَظ حاصل ہو اور نہ نفس کا اس میں سے کچھ حصّہ ہو۔ اور کہتے ہیں کہ "اَلْبَقَاءُ فَنَاءُ الْجَھْلِ بِبَقَاءِ الْعِلْمِ وَفَنَاءُ الْغَفْلَۃِ بِبَقَاءِ الذِّکْرِ وَفَنَاءُ الْمَعْصِیَۃِ بِبَقَاءِ الطَّاعَۃِ وَفَنَاءُ الشَّکِّ بِبَقَاءِ الْیَقِیْنِ وَفَنَاءُ الرَّغْبَۃِ بِبَقَاءِ الزُّھْدِ وَفَنَاءُ الْحِرْصِ بِبَقَاءِ الْقَنَاعَۃِ وَفَنَاءُ الْبُخْلِ بِبَقَاءِ السَّخَاوَۃِ وَفَنَاءُ الْکُفْرِ بِبَقَاءِ الشُّکْرِ وَفَنَاءُ الْجَزَعِ بِبَقَاءِ الصَّبْرِ وَفَنَاءُ السَّخَطِ بِبَقَاءِ الرَّضَاءِ وَفَنَاءُ الشِّبَعِ بِبَقَاءِ الْجُوْعِ وَفَنَاءُ الرِّیَاءِ بِبَقَاءِ الْإِخْلَاصِ وَفَنَاءُ الْکَذِبِ بِبَقَاءِ الصِّدْقِ وَفَنَاءُ التَّکَبُّرِ بِبَقَاءِ التَّوَاضُعِ وَفَنَاءُ الْکُلِّ مَا دُوْنَ الْحَقِّ بِالْبَقَاءِ مَعَ الْحَقِّ"۔

ترجمہ: ”جہالت، غفلت، معصیت، شک، دنیا کی طرف رغبت، حرص، بخل، کفر، جزع (فریاد کرنا) سخط، بھرے پیٹ کھانا، ریاکاری، جھوٹ، تکبر، غیر اللّٰہ کی فنا؛ علی الترتیب علم، ذکر، طاعت، یقین، زہد، قناعت، سخاوت، شکر، صبر، رضا، بھوک، اخلاص، سچائی، تواضع اور مع اللّٰہ کی بقاء سے ہے“۔

(حاشیہ: 1؎ جو کچھ دنیا میں ہے، فانی ہے۔ سورۃ الرحمٰن آیت 26)

(حاشیہ: 2؎ اور تمہارے رب کی ذات باقی رہے گی۔ 27)

اور حقیقت کی بات یہ ہے کہ حضرت صاحب اِن اوصافِ فنا و بقا سے موصوف تھے، اور حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ شکر اور محو میں غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے اور ان کی تمام حقیقتوں کے شناسا تھے، اور آپ اِس سے آ گاہ تھے کہ اِن میں سے کوئی حال آپ سے پوشیدہ اور مخفی نہیں۔ "فَالسُّکْرُ اِسْتِیْلَاءُ سُلْطَانِ الْأَحْوَالِ وَالصَّحْوُ الْعَوْدُ إِلٰی تَرْغِیْبِ الْأَفْعَالِ وَالسُّکْرُ لِأَرْبَابِ الْقُلُوْبِ وَالصَّحْوُ لِلْأَصْحَابِ الْمُکَاشِفِیْنَ حَقَائِقَ الْغُیُوْبِ" ”سکر احوال کی قوت کا غلبہ ہے اور صحو افعال کے کرنے کی ترغیب کی جانب پلٹ آنا ہے۔ سکر اربابِ قلوب اور اہلِ دل کے لیے ہے اور صحو غیب کی حقیقتوں کے مکاشفہ کرنے والوں کے لیے ہے“۔

تشریح:

کچھ باتیں ایسی ہیں، جن کا جاننا ضروری ہوتا ہے دو درجوں میں۔ ایک یہ کہ اس کی صحیح معرفت حاصل ہو جائے، تاکہ اگر اس کو کرنا پڑ جائے، تو جس طریقے سے کرنا ہو اسی طریقے سے کریں اور اس میں جن چیزوں سے بچنا ہو، ان سے بچیں۔ دوسرا یہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے ذرائع کا پتا ہو، چونکہ ذرائع سے چیزیں حاصل ہوتی ہیں، لہذا اس کے لئے آسانی ہو جائے گی۔ صوفیاء کے کلام میں فنا اور بقا کے الفاظ بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ عموماً جو لوگ ان چیزوں سے نا واقف ہوتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید فنا اس طرح ہو گا کہ انسان بالکل ختم ہو جائے گا۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک! کیا حضرت سلیمان علیہ السلام ختم ہو گئے تھے؟ بادشاہ تھے اور ایسے بادشاہ تھے کہ اس طرح کی بادشاہت نہ ان سے پہلے کسی کو ملی تھی اور نہ بعد میں کسی کو ملی ہے۔ عام امتی چاہے کتنا ہی اونچا مقام حاصل کر لے، صحابی تک نہیں پہنچ سکتا، اور صحابی چاہے کتنا ہی اونچا مقام حاصل کر لے، نبی تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ طے شدہ بات ہے۔ نتیجتاً پیغمبروں میں ایسے حضرات کا موجود ہونا کہ ان کو دنیا حاصل ہو، اور وہ دنیاوی وجاہت فنا سے مانع نہیں ہوئی، یہ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ یہ چیزیں فنا و بقا کی تعریف میں نہیں آتیں۔ لہٰذا کوئی اور چیز ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ پتا چلے کہ حاصل کس چیز کو کرنا ہے اور بچنا کس چیز سے ہے۔ اسی کو معرفت کہتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ انسان کا محو ہونا یعنی گم ہونا تین طرح کا ہوتا ہے۔

متن:

"مَحْوُ الذَّاتِ عَنِ الظَّوَاھِرِ وَمَحْوُ الْغَفْلَۃِ عَنِ الضَّمَائِرِ وَمَحْوُ الْغَیْبَۃِ عَنِ السَّرَائِرِ"۔

تشریح:

جیسے آپ نے بلیک بورڈ پر کچھ لکھا ہو اور ٹیچر کوئی عرب ہو گا، تو وہ اس کو کیا کرے گا؟ ظاہر ہے کہ وہ اس کو محو کر دے گا۔

محو الذات عن الظواہر کا مطلب ہے کہ ذات کا ظواہر سے محو ہو جانا اور ظاہری اشیاء اور احکام سے ذات کا محو ہونا، یعنی ظاہری چیزوں سے انسان محو ہو جائے۔ دوسرا محو ضمائر سے غفلت کا ہے۔ اور تیسرا محو اسرار و رموز کی غَیبت کا محو ہونا۔ یعنی ان تین چیزوں سے انسان محو ہو سکتا ہے۔ جب رموز کی غَیبت سے محو ہو گا، تو پھر اس پر چیزیں کھلیں گی، اور اس پر راز کھلیں گے اور انسان غفلت سے بچے گا، اس طرح ظاہر کی اثر کرنے والی چیزوں سے انسان بچے گا۔

متن:

"وَمَعْنَی الْفَنَاءِ سُقُوْطُ أَوْصَافِ الْمَذْمُوْمَۃِ وَالْغَفْلَۃِ وَثُبُوْتُ أَوْصَافِ الْمَحْمُوْدَۃِ" یعنی فنا کے معنیٰ ہیں بُری اور غفلت کی بد ترین عادتوں کا ساقط ہونا اور اوصافِ محمودہ کا ثابت، قائم اور برقرار ہونا۔

تشریح:

اس کے اندر ایک گُر کی بات ہے۔ صفاتِ مذمومہ اور صفاتِ محمودہ کا تعین ہم نہیں کر سکتے، ان کا تعین شریعت کرے گی۔ لیکن شریعت پر آنے کے لئے جو چیز مانع ہے، وہ نفس ہے۔ گویا یہ طے ہو گیا کہ نفس صفاتِ محمودہ سے روکتا ہے اور صفاتِ مذمومہ پہ لاتا ہے۔ محمودہ صفات آ جائیں اور مذمومہ صفات ختم ہو جائیں، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ نفس پیچھے ہو گیا، یعنی اس کا اثر ختم ہو گیا۔

If anything is based on some input and we get that output which is required so it means that input has finished

یعنی input ختم ہو گئی، تبھی تو وہ چیز حاصل ہے۔ ورنہ پھر اگر وہ چیز ہوتی، تو یہ چیز حاصل نہ ہوتی۔ گویا نفس کی فنا کی تعریف لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ نفس کیسے ختم ہو۔ اس کی سمجھ آئے بھی کیسے! کیونکہ نفس ایسی چیز ہے، جس کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ لیکن نفس جو کچھ کر رہا ہے اور جس سے بچنا ہے، اگر وہ سمجھ میں آ جائے، تو مقصد حاصل ہو گیا۔ ہم نفس کے دشمن تو نہیں ہیں، ہم تو نفس کے شر سے بچنا چاہتے ہیں۔ نفس بذاتِ خود ایک ایسی چیز ہے، جس کے ذریعے سے ہمیں سارے کام کرنے پڑ رہے ہیں۔ نفس تین چیزوں سے ناشی ہے: خواہشات، لذات اور ضروریات۔ خواہشات اور لذات تو آپ کنٹرول کر لیں گے، ضروریات کے ساتھ کیا کریں گے؟ وہ بھی تو نفس ہی چلا رہا ہے۔ آپ کو بھوک نہیں لگے گی، تو کھانا نہیں کھاؤ گے۔ کھانا نہیں کھاؤ گے، تو آپ کی صحت نہیں رہے گی۔ صحت نہیں رہے گی، تو زندگی نہیں رہے گی، تو پھر عبادت کیسے کرو گے؟ اب بھوک کا لگنا نفس کے ذریعے سے ہے، اس کو آپ ختم نہیں کر سکتے۔ یرقان کی بیماری میں بھوک ختم ہو جاتی ہے، لوگ بڑے پریشان ہو جاتے ہیں، ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں کہ بھوک کیسے بڑھائیں، ابھی مجھے ایک دوائی کا نام یاد آیا ہے، جو اسی مقصد کے لئے دی جاتی ہے: ’’Metatrum‘‘۔ تاکہ بھوک واپس آ جائے۔ لہٰذا بھوک بھی ایک نعمت ہے۔ درد بھی ایک نعمت ہے، جو آپ کو بتا رہا ہے کہ کہیں کوئی مسئلہ ہے۔ درد نہ ہو، تو کیسے پتا چلے گا۔ جو ہارٹ اٹیک بغیر کے درد ہوتا ہے، وہ کافی خطر ناک ہوتا ہے، کیونکہ اس کا پتا ہی نہیں چلتا۔ لیکن جس چیز کا پتا چل رہا ہو، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ آپ کو خبر دار کر رہا ہے۔ لہٰذا ضرورت کی یہ چیزیں بھی نفس کے ساتھ ہیں، یہ ختم نہیں ہو سکتیں۔ لیکن نفس کی جو چیزیں شر والی ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ ضرورت سے آگے بڑھ کر خواہشات کے دائرے میں جانا اور خواہشات سے آگے لذات کے دائرے میں آ جانا؛ یہ ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ہر خواہش میں لذت کا ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن لذت بذاتِ خود ایک حقیقت ہے۔ پس خواہش ضرورت سے بڑھ کے ہے۔ انسان کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے، خواہشات پوری نہیں ہوتیں۔ ضرورت متناہی ہے، خواہشات لامتناہی ہیں۔ اور لذات ایک ایسی چیز ہیں، جو اپنی صورت تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ جیسے: جو چیز آج آپ کو لذیذ ہے، وہ جب مسلسل آپ کو ملے گی، تو اس کی لذت ختم ہو جائے گی، پھر آپ اس سے زیادہ کا چاہیں گے۔ پھر جب آپ کو اس میں لذت ملتی ہے، تو وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ اس کی ایک آسان ترین مثال دیتا ہوں، جب آپ پہلی بار شاعری سنتے ہیں، تو اس میں کتنا مزہ آتا ہے؟ لیکن ابھی آپ نے دو تین دفعہ سنی ہو گی کہ اس کے بعد آپ نہیں سنیں گے، پھر آپ اس سے آگے کا سوچیں گے کہ یہ چیز مل جائے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ شاعری میں مزہ نہ ڈھونڈو، ورنہ پھنس جاؤ گے، وہ چیز حاصل نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ تذکیر لازم ہے، لہٰذا جو شاعری تذکیر کے لئے ہے، اس کو اگر آپ مزے کے لئے سنیں گے، تو اکتا جائیں گے۔ حالانکہ تذکیر کے لئے تو بار بار سننے کو کہتے ہیں، لیکن آپ بار بار سن نہیں سکیں گے۔ لیکن اگر آپ اس سے نصیحت لیتے ہیں، تو نصیحت کے لئے بار بار آپ سن سکتے ہیں اور آپ کو معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں مجھے فائدہ ہے، لہذا آپ اس کو بار بار سن سکتے ہیں۔

بہر حال! میں عرض کر رہا تھا کہ نفس میں تین چیزیں ہیں: ضروریات کا ادراک، خواہشات کا ادراک اور لذات کا ادراک۔ جو چیزیں خواہشات اور لذات کی وجہ سے مسائل پیدا کر رہی ہیں، کیونکہ خواہشات لا محدود ہیں، اس لئے ان میں ٹکراو (clash) بھی آتا ہے، کیونکہ چیزیں محدود ہیں اور خواہشات لا محدود ہیں۔ چنانچہ اس پہ لڑائی تو ہو گی، کیونکہ دنیا میں وہ چیزیں محدود ہیں۔ مثلاً: زن، زر، زمین، تین چیزیں ہیں۔ انہی پہ لڑائیاں ہوتی ہیں، اور یہ محدود ہیں۔ لیکن خواہشات لا محدود ہیں۔ ہر ایک کہتا ہے کہ میں تمام دولت کا مالک ہو جاؤں۔ اور جب لڑائی ہو گی، تو ظلم بھی ہو گا، دھوکہ بھی ہو گا، فراڈ بھی ہو گا۔ یہ چیزیں نفس کی وجہ سے ہی آتی ہیں۔ حرص آتی ہے، جو اُم الامراض کہلاتی ہے۔ باقی ساری چیزیں اس کی وجہ سے آئیں گی۔ اگر آپ نے نفس سے ان چیزوں کو ہٹا دیا، تو یہ فنا ہے۔ اور اس کی وجہ سے خود بخود صفاتِ محمودہ حاصل ہوں گی۔ کیونکہ جب آپ نے ریا کو ختم کیا، تو اخلاص مل گیا۔ بے صبری کو ختم کیا، تو صبر مل گیا۔ نا شکری کو ختم کیا، تو شکر مل گیا۔ یہی صفاتِ محمودہ ہیں۔ ان کی طرف آنا اور ان پر قائم اور برقرار رہنا؛ یہ بقا ہے۔ یہ بہت اچھی تعریف ہے، اس سے کافی اشکالات دور ہوتے ہیں۔

متن:

"وَمَعْنَی الْفَنَاءِ سُقُوْطُ أَوْصَافِ الْمَذْمُوْمَۃِ وَالْغَفْلَۃِ وَثُبُوْتُ أَوْصَافِ الْمَحْمُوْدَۃِ" یعنی فنا کے معنیٰ ہیں؛ بُری اور غفلت کی بد ترین عادتوں کا ساقط ہونا اور اوصافِ محمودہ کا ثابت، قائم اور برقرار ہونا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ "اَلْفَنَاءُ صِفَۃُ الْکَوْنِ وَالْبَقَاءُ صِفَۃُ یَکُوْنُ وَمَا کَانَ لِأَجْلِ الْکَوْنِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ یَعْنِی الْکَوْنَ ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ﴾ یَعْنِي الْمُکَوِّنَ فَأَعْمَالُ الْمُخْلِصِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْبَقَاءِ لِأَجْلِ الْکَوْنِ وَأَعْمَالُ الْمُرَائِیْنَ دَاخِلَۃٌ فِيْ حُکْمِ الْفَنَاءِ لِأَجْلِ أَنْ یَّطْلُبُوْا بِھَا عِزّۃً وَّقُوَّۃً"

ترجمہ: ”فنا کون کی صفت ہے اور بقا یکون کی صفت ہے کون کے سبب سے، اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ﴾ (الرحمن: 26) 1؎ یعنی کون (یعنی کائنات اور بنائی ہوئی اشیاء)

تشریح:

یعنی یہ فانی ہونے والی ہیں اور جس نے بنائی ہیں، وہ فانی نہیں ہو گا، وہ باقی ہے۔ یعنی اللّٰہ باقی ہے اور باقی چیزیں فانی ہیں۔ لہٰذا اگر یہ چیزیں فانی کے لئے ہوں گی، تو فانی بن جائیں گی۔ حضرت خواجہ باقی باللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کسی کی زیارت ہو گئی، تو حضرت نے اپنے نام کے لحاظ سے فرمایا کہ جو چیزیں محض اللّٰہ کے لئے کی جائیں، وہ باقی ہیں اور جو چیزیں کسی اور کے لئے کی جائیں، وہ فانی ہیں۔ کتنی زبردست تعریف فرمائی۔ یہاں بھی یہ فرمایا کہ کائنات کی جتنی بھی چیزیں ہیں، وہ اللّٰہ نے بنائی ہیں، لیکن فانی ہیں۔ انسان کو بھی اللّٰہ پاک نے بنایا ہے، یہ بھی فانی ہے۔ آسمان بھی اللّٰہ پاک نے بنایا ہے، فانی ہے۔ اس میں جتنی بھی چیزیں ہیں، وہ فانی ہیں۔ لیکن اللّٰہ جل شانہ جو کہ بنانے والا ہے، وہ باقی ہے۔ اگر کوئی شخص باقی کے لئے کام کرے، تو وہ کام باقی ہو جائے گا، کیونکہ باقی باقی بناتا ہے، یعنی باقی کے لئے جو چیزیں کی جاتی ہیں، وہ باقی بن جاتی ہیں۔ جیسے آپ جو نیکی اللّٰہ کے لئے کریں، وہ ضائع نہیں ہو گی۔ اگر اس نیکی میں کسی اور کو شریک کر لیں، تو وہ ضائع ہو گئی۔ لہٰذا اخلاص یہی ہے کہ خالصتاً لِوجْہِ اللّٰہ نیکیاں کی جائیں۔ اللّٰہ پاک نے قرآن پاک میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہ صفت بتائی ہے: ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ (الکہف: 28) یعنی وہ اللّٰہ جل شانہ کی رضا چاہتے ہیں۔ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے اللّٰہ کی رضا چاہتے ہیں، لیکن یہ عنوان کیسا پیارا بنایا: ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ اگر اس کا ترجمہ کریں، تو یوں ہو گا: ’’اللّٰہ کا چہرہ چاہتے ہیں‘‘۔ اللّٰہ تعالیٰ کا چہرہ تو ہے ہی نہیں۔ لیکن اس کی تشریح یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔

متن:

تو مخلصین کے اعمال بقا کے حکم میں داخل ہیں کون کی وجہ سے، اور ریا کاروں کے اعمال فنا کے حکم میں داخل ہیں، اس وجہ سے کہ وہ اس سے عزت اور قوت چاہتے ہیں“۔

اور فانی اُس کو کہتے ہیں کہ "لَا یَبْقٰی لِنَفْسِہٖ حَظٌّ وَّلَا لَہٗ مَعَ نَفْسِہٖ نَصِیْبٌ" یعنی نہ تو اُس کو اپنے نفس سے کچھ لطف اور حَظ حاصل ہو اور نہ نفس کا اس میں سے کچھ حصّہ ہو۔ اور کہتے ہیں کہ "اَلْبَقَاءُ فَنَاءُ الْجَھْلِ بِبَقَاءِ الْعِلْمِ وَفَنَاءُ الْغَفْلَۃِ بِبَقَاءِ الذِّکْرِ وَفَنَاءُ الْمَعْصِیَۃِ بِبَقَاءِ الطَّاعَۃِ وَفَنَاءُ الشَّکِّ بِبَقَاءِ الْیَقِیْنِ وَفَنَاءُ الرَّغْبَۃِ بِبَقَاءِ الزُّھْدِ وَفَنَاءُ الْحِرْصِ بِبَقَاءِ الْقَنَاعَۃِ وَفَنَاءُ الْبُخْلِ بِبَقَاءِ السَّخَاوَۃِ وَفَنَاءُ الْکُفْرِ بِبَقَاءِ الشُّکْرِ وَفَنَاءُ الْجَزَعِ بِبَقَاءِ الصَّبْرِ وَفَنَاءُ السَّخَطِ بِبَقَاءِ الرَّضَاءِ وَفَنَاءُ الشِّبَعِ بِبَقَاءِ الْجُوْعِ وَفَنَاءُ الرِّیَاءِ بِبَقَاءِ الْإِخْلَاصِ وَفَنَاءُ الْکَذِبِ بِبَقَاءِ الصِّدْقِ وَفَنَاءُ التَّکَبُّرِ بِبَقَاءِ التَّوَاضُعِ وَفَنَاءُ الْکُلِّ مَا دُوْنَ الْحَقِّ بِالْبَقَاءِ مَعَ الْحَقِّ"۔

ترجمہ: ”جہالت، غفلت، معصیت، شک، دنیا کی طرف رغبت، حرص، بخل، کفر، جزع (فریاد کرنا) سخط، بھرے پیٹ کھانا، ریاکاری، جھوٹ، تکبر، غیر اللّٰہ کی فنا؛ علی الترتیب علم، ذکر، طاعت، یقین، زہد، قناعت، سخاوت، شکر، صبر، رضا، بھوک، اخلاص، سچائی، تواضع اور مع اللّٰہ کی بقاء سے ہے“۔

(حاشیہ: 1؎ جو کچھ دنیا میں ہے فانی ہے۔ سورۃ الرحمٰن آیت 26)

(حاشیہ: 2؎ اور تمہارے رب کی ذات باقی رہے گی۔ 27)

اور حقیقت کی بات یہ ہے کہ حضرت صاحب اِن اوصافِ فنا و بقا سے موصوف تھے۔

تشریح:

حضرت یہاں یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ یہ جو چیزیں حاصل کرنی ہوتی ہیں، انہیں سے سارے مراتب حاصل ہوتے ہیں اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ پاک نے یہ ساری چیزیں نصیب فرمائی تھیں۔ میں آپ کو کیا بتاؤں! آج کل کا دور بڑا عجیب ہے کہ جب بزرگوں کے بارے میں کوئی تذکرہ کرتے ہیں، تو جس چیز کا تذکرہ کرنا ہوتا ہے، اس کا تذکرہ نہیں کرتے، اور جس چیز کے تذکرہ سے فائدہ نہیں ہوتا، اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً: اگر میں کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ایک ہزار کرامات بتاؤں، تو سوائے اس کے اور کیا فائدہ ہو گا کہ مجھے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ محبت ہو جائے گی اور کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بزرگی کو میں تسلیم کر لوں گا۔ اس سے زیادہ کیا ہو گا؟ اور اگر میں پہلے سے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بزرگ مانتا ہوں، تو مجھے اس وقت کسی کرامت کے جاننے کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ مجھے پتا ہے کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بزرگ ہیں، میں بغیر اس کے مانتا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مجھے کس چیز کی ضرورت ہے؟ تو مجھے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات کی ضرورت ہے کہ جس طریقے سے وہ کاکا صاحب بنے تھے، اس طریقے کی ضرورت ہے۔ اگر میں وہ سیکھ لوں، تو میرے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ حضرت کے صاحبزادہ حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اول تو ان چیزوں کا تصوف کے اندر مقام بتا دیا کہ تصوف کے اندر ان کا کیا مقام ہے۔ اور پھر فرمایا کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو یہ چیزیں حاصل تھیں۔ اس سے دو فائدے حاصل ہو گئے۔ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تعارف بھی ہو گیا۔ اس سے اچھا تعارف اور کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس تعارف کے ساتھ تعلیم بھی ہو گئی کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جو یہ چیزیں حاصل تھیں، ہم بھی ان چیزوں کو حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں ان چیزوں کو حاصل کرنے کا حکم بھی ہے۔ تو ما شاء اللّٰہ ایک ہی بات سے دونوں کام ہو گئے ہیں۔ اور فرمایا:



متن:

اور حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ شکر اور محو میں غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔

تشریح:

یہ بات بالکل صحیح ہے، حضرت کے واقعات موجود ہیں۔

متن:

اور ان کی تمام حقیقتوں کے شناسا تھے، اور آپ اِس سے آ گاہ تھے کہ اِن میں سے کوئی حال آپ سے پوشیدہ اور مخفی نہیں۔ (یعنی چیزوں کو جانتے تھے، تبہی تو کرتے تھے) "فَالسُّکْرُ اِسْتِیْلَاءُ سُلْطَانِ الْأَحْوَالِ وَالصَّحْوُ الْعَوْدُ إِلٰی تَرْغِیْبِ الْأَفْعَالِ وَالسُّکْرُ لِأَرْبَابِ الْقُلُوْبِ وَالصَّحْوُ لِأَصْحَابِ الْمُکَاشِفِیْنَ حَقَائِقَ الْغُیُوْبِ" ”سکر احوال کی قوت کا غلبہ ہے اور صحو افعال کے کرنے کی ترغیب کی جانب پلٹ آنا ہے۔

تشریح:

یعنی انسان کے اوپر جب حال غالب آتا ہے، تو وہ مغلوب الحال ہو جاتا ہے۔ اس وقت حال کے زور کی وجہ سے اس کے قویٰ جواب دینے لگتے ہیں۔ نتیجتاً جو وہ نہیں چاہتا، وہ کرنے لگتا ہے۔ مثلاً: عام طور پر کوئی شخص بیٹھے بیٹھے چیخنا نہیں چاہتا، لیکن جو صاحبِ حال ہو گا، وہ چیخ بھی لے گا، اچھلے گا بھی، عین ممکن ہے کہ گر جائے، عین ممکن ہے کہ بے ہوش ہو جائے، عین ممکن ہے کہ منہ میں جھاگ آ جائے، عین ممکن ہے کہ رونے لگ جائے۔ یہ ساری باتیں اس کے کنٹرول سے باہر ہوتی ہیں۔ کیوں کہ حال اس پہ غالب آ گیا۔ اب میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اور صحو حال کے اوپر غالب آ گیا۔ اب بتائیے! حال کے اوپر غالب آنا اونچا حال ہے یا حال کا انسان کے اوپر غالب آنا اونچا حال ہے؟ مثلاً: حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ جو صاحبِ صحو تھے، بلکہ صحو کی سب سے بڑے عملاً اور قولاً تشریح کرنے والے ہیں۔ حضرت ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے تھے، ایک شعر پڑھا گیا، اس شعر کے پڑھنے کی وجہ سے محفل کے سارے لوگوں پہ وجد طاری ہو گیا۔ حضرت بالکل سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھے تھے، ان کو کوئی بھی حرکت نہیں ہوئی۔ لوگ حیران ہو گئے کہ سارے لوگ متاثر ہو رہے ہیں، حضرت کے اوپر اس کا اثر ہی نہیں ہے۔ کسی قریبی شخص نے کہا کہ حضرت! آپ کو بھی کچھ اثر ہوتا ہے؟ فرمایا: میرے جسم کے کسی حصہ کو ہاتھ لگا لو، جیسے ہاتھ لگایا، تو وہاں سے خون ابل پڑا۔ لہٰذا اندر تو یہ حال تھا، لیکن باہر نہیں تھا۔ باہر کنٹرول تھا۔ یہ حال کے اوپر غالب آنا ہے۔ پھر فرمایا: سب کچھ ہو، لیکن اندر ہی اندر ہو، باہر نہ ہو۔ حضرت کا مشہور فقرہ ہے: ’’اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ‘‘ ’’استقامت کرامت سے اونچی چیز ہے‘‘۔ کیونکہ کرامت غیر اختیاری ہے اور استقامت اختیاری ہے۔ اختیاری کی پوچھ ہے، غیر اختیاری کی پوچھ نہیں ہے۔ مثلاً: آپ نے بہت اچھا خواب دیکھا، یہ غیر اختیاری ہے۔ آپ نے صرف سبحان اللّٰہ کہا، یہ اختیاری ہے۔ سبحان اللّٰہ کا ثواب ہے، اچھے خواب کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس پر خوشی ہوتی ہے، مگر ثواب نہیں ہے، کیوں کہ یہ اختیاری نہیں ہے، غیر اختیاری ہے۔ اسی طرح سادات میں پیدا ہونے کا کوئی ثواب نہیں ہے، البتہ یہ سعادت ہے، سعادت اس طرح ہے کہ اگر وہ پہچان لے اور اچھے اعمال کر لے، تو ما شاء اللّٰہ بہت آگے جا سکتا ہے، برکت بھی ساتھ ہو گی، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن ویسے سادات میں پیدا ہونے سے کوئی ثواب نہیں ہے۔ اسی طرح غیر اختیاری چیزوں کا کوئی ثواب نہیں ہوتا اور اختیاری چیزوں کا ثواب ہوتا ہے۔ اسی طرح استقامت ایک اختیاری چیز ہے اور کرامت غیر اختیاری ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی ایک دفعہ اس کی تشریح فرمائی تھی۔ وہاں پر بھی ایک حال اس طرح ہو گیا تھا کہ کوئی شعر پڑھا گیا تھا، ایک بزرگ مہمان آئے ہوئے تھے، ان پہ وجد کی کیفیت آ گئی۔ جیسے ہی ان کے اوپر وجد کی کیفیت طاری ہوئی، ساتھ ہی سرہند کی زمین ہلنے لگی۔ بڑے بزرگ ہوں گے۔ حضرت نے اپنے خادم سے کہا: مسواک دو، اس نے مسواک دی، تو حضرت نے مسواک کو زمین کے اوپر گھاڑ دیا، زمین رک گئی۔ پھر فرمایا: دیکھو! آپ کی کرامت سے سرہند کی زمین ہلنے لگی۔ میں اگر چاہوں، تو سرہند کے مردے زندہ ہونے لگیں۔ (یہ بہت بڑی بات ہے، حضرت ہی کہہ سکتے تھے) پھر فرمایا: لیکن یہ آپ کی کرامت اور یہ میری کرامت، دونوں اس مسواک کے برابر نہیں ہیں، کیونکہ یہ سنت ہے۔ اب کبھی کسی مسواک کرنے والے نے سوچا ہے کہ میرے پاس یہ چیز ہے، جو مردہ زندہ کرنے سے بھی اونچی چیز ہے۔ مسواک تو کرتے ہیں، لیکن اس کے اس مقام کو نہیں سوچتے۔ یہی بصیرت اور معرفت ہے۔ یہی معرفت ہے کہ اس کا ادراک ہو۔ اب الحمد للہ یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ عارف کی دو رکعتیں غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہیں۔ کیوں؟ دیکھیں! جو مسواک کر رہا ہے، وہ اس کو اس معنیٰ میں لے رہا ہے، تو اس کا اجر اور ہو گا اور جو مسواک کو محض عادت کے طور پہ کر رہا ہے، اس کا اجر اور ہو گا، دونوں میں فرق ہو گا۔ گویا معرفت سے کچھ فرق پڑ رہا ہے۔ یہی اصل بات ہے۔ لہٰذا اگر معرفت حاصل ہو جائے، تو اعمال کی قیمت بہت اونچی ہو جاتی ہے۔ انہی باتوں کے لئے ہی ہم بزرگوں کے پاس جاتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا:

متن:

سکر احوال کی قوت کا غلبہ ہے اور صحو افعال کے کرنے کی ترغیب کی جانب پلٹ آنا ہے۔

یعنی اب انسان اعمال کرنے کے قابل ہو گیا، حال پر غالب آ گیا، حال سے مغلوب نہیں ہے۔

متن:

سکر اربابِ قلوب اور اہلِ دل کے لیے ہے اور صحو غیب کی حقیقتوں کے مکاشفہ کرنے والوں کے لیے ہے“۔

تشریح:

اس کے بارے میں اگر میں کچھ عرض کروں، تو حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’الطافُ القدس‘‘ جسے میں آج کل پڑھ رہا ہوں۔ اس میں حضرت نے فرمایا کہ قلب (دل) کی ترقی یافتہ صورت روح (لطیفۂ روح) ہے۔ قلب میں نفس بھی شامل ہے، روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، لیکن جب آپ مجاہدہ کر کے روح کو نفس سے علیحدہ کر لیتے ہیں، تو وہ اونچی چلی جاتی ہے، یہ پھر لطیفۂ روح بن جاتا ہے اور لطیفۂ روح آزاد ہو جاتا ہے۔ جب لطیفہ روح آزاد ہو گیا، تو اس سے پھر مکاشفات ہونے لگتے ہیں، چیزوں کے حقائق کھلنے لگتے ہیں، پتا چلنے لگتا ہے، معرفت حاصل ہونے لگتی ہے۔ لہٰذا معرفت کی کنجی یہ ہے کہ نفس سے روح کو آزاد کرا دو۔ پھر چیزوں کے حقائق کھلنے لگ جائیں گے۔ جب تک نفس نے روح کو باندھا ہوا ہے اور کھینچا ہوا ہے اور چھوڑ نہیں رہا، اس وقت تک آپ کے اوپر حقائق نہیں کھلیں گے اور حقائق سمجھ میں نہیں آئیں گے، جو سب کو پتا ہیں، وہ بھی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں، جیسے: شوگر کے مریض کو میٹھا کھانے سے نقصان ہوتا ہے، یہ حقیقت ہے۔ اس کے لئے کسی ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے، سب لوگ مانتے ہیں، سب لوگ جانتے ہیں، لیکن نفس زدہ شخص، جو نفس کی بات کو نہیں ٹھکرا سکتا، اس کے سامنے جب میٹھی چیز آئے گی، تو وہ کھا لے گا اور نقصان اٹھائے گا۔ لہٰذا اٰجلہ اور عاجلہ والی بات نافذ ہو جائے گی۔ ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 0 وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (القیامۃ: 20-21)

ترجمہ: ’’خبر دار (اے کافرو!) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو‘‘۔

نتیجتاً بعد میں آنے والے نقصان کو کم سمجھ کر اور فوری مزے کو زیادہ سمجھ کر، جو کہ بے انتہا درجہ کی حماقت اور غفلت ہے، وہ نافذ ہو جائے گی۔

لہٰذا روح اگر نفس سے آزاد نہیں ہے، تو جو حقیقت معلوم ہے، اس سے بھی استفادہ ممکن نہیں ہے، چہ جائے کہ دوسری حقیقتوں تک پہنچ جائیں۔ لیکن اگر روح نفس سے آزاد ہو گئی، تو یہ روح اللہ کی طرف جائے گی اور اللّٰہ کی طرف سے اس کے اوپر معرفتوں کا جو سیلان ہو گا، وہ اس کو مالا مال کر دے گا، پھر اس کے اوپر مکاشفات ہونے لگیں گے، چیزوں کی حقیقتیں کھلنے لگیں گی، نماز کی حقیقت کھلے گی، خانہ کعبہ کی حقیقت کھلے گی۔

نفس زدہ شخص خانہ کعبہ سے کچھ نہیں لے سکتا۔ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھا ہو گا، لیکن نہیں لے سکے گا۔ موبائل آج کل ایک مصیبت ہے، جو ہر ایک کے پاس ہے۔ میں وہاں (حرم میں) بیٹھا ہوا تھا، تو دیکھا کہ لوگ ٹاور کی تصویریں بنا رہے ہیں۔ ٹاور پاس نظر آتا ہے، حالانکہ خانہ کعبہ بالکل سامنے ہے، اس کو نہیں دیکھ رہے، جس کا ثواب ہے، ٹاور کو دیکھنے کا کیا ثواب ہے؟ ادھر ادھر چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔ خدا کے بندو! اللّٰہ کے گھر کو دیکھو، خانہ کعبہ کو دیکھو، اس پر ثواب ہے۔ لیکن یہ ہو نہیں سکتا۔ اسی لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ اگر انسان کی روح نفس سے آزاد نہ ہو، تو مکاشفات نہیں ہوں گے، حقیقتیں نہیں کھلیں گی۔ جب لطیفۂ روح نفس سے آزاد ہو گیا، تو پھر نفس کے نیچے جانے میں خیر ہے، اسی سے عبدیت پیدا ہوتی ہے۔ اور روح کے اوپر جانے میں خیر ہے، اسی سے روحانیت پیدا ہوتی ہے۔ تو دونوں اپنی اپنی جگہ پہ چلے جائیں گے۔ روحانیت بھی حاصل ہو جائے گی، عبدیت بھی حاصل ہو جائے گی۔ پھر یہی قلب جو خالی ہو گیا ہے، یہ برزخ بن جائے گا۔ ایک طرف اس کا نفس ہو گا، دوسری طرف اس کی روح ہو گی، روح کے ذریعے سے اللّٰہ سے لے گا اور نفس کے ذریعے سے دوسروں کو یعنی مخلوق کو دے گا۔ مخلوقات کے احساسات نفس کے ذریعے سے معلوم کرے گا، ان کا حل اللّٰہ تعالیٰ سے روح کے ذریعے سے لے گا۔ سبحان اللّٰہ! ایک اعلیٰ شخص ہو گیا۔ یہی بات حضرت فرمانا چاہتے ہیں، اور فرمایا کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ان چیزوں کے ما شاء اللّٰہ حاملین میں سے تھے۔ (اور اس علم کی رسومات میں سے ایک جمع و تفرقہ ہے) سبحان اللّٰہ! کیا باتیں ہیں! کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات اگر ہم اس وقت نہ پڑھتے کہ جب ہم نے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پڑھی ہیں، تو یہ باتیں کیسے سمجھ میں آتیں؟ یہ حضرت کی برکت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ یہ باتیں سمجھا رہے ہیں۔

متن:

اور اس علم کی رسومات میں سے ایک جمع و تفرقہ ہے، جمع کی تعریف اہلِ تصوف نے یوں فرمائی ہے: "اَلْجَمْعُ ھُوَ أَنْ یَّکُوْنَ فَانِیًا عَنْ نَفْسِہٖ وَیَرَی الْأَشَیَاءَ کُلَّھَا بِہٖ وَلَہٗ وَإِلَیْہِ وَمِنْہُ" یعنی جمع یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے فانی ہو جائے اور تمام اشیاء ایسی نظر سے دیکھے کہ یہ اُس کے ذریعے سے ہیں، اس کے لیے ہیں، اس کی جانب ہیں اور اس کی جانب سے ہیں۔

تشریح:

یعنی نفس کے لئے کچھ نہ ہو، اللّٰہ کے لئے ہو۔ کسی چیز سے رکنا بھی اللّٰہ کے لئے ہو، کسی چیز کو کرنا بھی اللّٰہ کے لئے ہو۔ ان دونوں کو جمع فرماتے ہیں۔

متن:

اور تفرقہ یہ ہے کہ انسان اپنا عمل و کردار عبودیت سے حاصل کرے، "فَلَا بُدَّ لِلْعَبْدِ مِنَ الْجَمْعِ وَالتَّفْرِقَۃِ فَإِنَّ مَنْ لَّا تَفْرِقَۃَ لَہٗ لَا عُبُوْدِیَّۃَ لَہٗ وَمَنْ لَا جَمْعَ لَہٗ لَا مَعْرِفَۃَ لَہٗ ﴿یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ﴾ إِشَارَۃٌ إِلیَ التَّفْرِقَۃِ" بندہ کے لیے جمع اور تفرقہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کیونکہ جس کو تفرقہ نہ ہو، اس کو عبودیت نصیب نہیں، اور جس کو جمع حاصل نہ ہو، اس کو معرفت ہاتھ نہیں آتی۔

تشریح:

یہ وہی بات نافذ ہو رہی ہے، جو میں ابھی عرض کر رہا تھا کہ تفرقہ (یعنی عبودیت) نفس کی فنا کے ذریعے سے حاصل ہو رہا ہے اور معرفت روح کی آزادی کے ذریعے سے حاصل ہو رہی ہے، یعنی روح آزاد ہو گئی ہے۔ یہی بات حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے مکتوب شریف 287 میں بہت کھول کے بیان فرمائی ہے کہ جب تک انسان مقامِ قلب سے باہر نہیں نکلتا، یعنی نفس اور روح کو علیحدہ نہیں کرتا، اور روح کو نفس سے آزاد نہیں کرتا، اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کو آگے جانے کا راستہ نہیں ملے گا۔ لہٰذا پہلے روح اللّٰہ کے پاس جائے گی، تو یہ جمع ہے۔ پھر اللّٰہ کے حکم سے وہاں سے مخلوق کی طرف واپس آئے گی، تو یہ جمع الجمع ہے۔ حضرت نے اس کی تشریح میں پوری تفصیل بیان فرمائی، وہاں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ فرمایا کہ:

﴿یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ﴾ (البقرۃ: 213) کا اشارہ اہلِ تفرقہ کے لئے ہے۔ ابو الحسن نوری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے: "اَلْجَمْعُ بِالْحَقِّ بِہٖ تَفْرِقَۃٌ مِّنْ غَیْرِہٖ۔

تشریح:

حق کے ساتھ جمع ہونا یعنی حق کی طرف رجوع کرنا، یہ غیر سے جدا ہونا ہے۔ وَالتَّفْرِقَۃُ مِنْ غَیْرِہٖ بِالْجَمْعِ بِہٖ" ’’اور اس کے غیر سے علیحدہ ہونا اس کی جمع کے ساتھ‘‘ یعنی اس کی طرف رجوع کے ساتھ۔

متن:

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب قلبِ سلیم کے مالک تھے اور قلبِ سلیم بغیر انبیاء علیہم السلام اور خاص اولیاء کرام کے اور کسی کا نہیں ہوتا، جو کہ اِن کے ساتھ مخصوص ہے۔

قلبِ سلیم سے مراد وہ دل ہے، جو بیمار نہیں ہے۔ جو دل بیمار نہیں ہے، اس سے مراد کیا ہے؟ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں، جن کا ابھی ذکر ہوا تھا کہ اس کے اندر جو بری صفات ہیں، جب تک ان سے فنا حاصل نہ کرے اور اچھی چیزوں کے ساتھ جب تک بقا حاصل نہ کرے، تو وہ قلبِ سلیم نہیں ہے اور جب یہ چیزیں حاصل ہو جائیں، تو وہ قلبِ سلیم ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بہت صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ دل کے اوپر محنت کے ذریعے جب دل میں یہ چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں، تو اس کے بعد ان کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ نفس کا تزکیہ کرایا جائے۔ کیونکہ جب تک نفس کا تزکیہ نہیں کرایا جائے گا، تو یہ جو دل کی اچھی حالت ہے، یہ عارضی ہے، دل فوراً خراب ہو جائے گا۔ مثلاً: آپ راستے میں جا رہے ہوں اور آپ کی عینک ماحول کی وجہ سے گدلی ہو جائے، آپ اس کو صاف کر لیں اور پھر پہن لیں، تو ماحول تو وہی ہے، اس لئے وہ پھر گندی ہو جائے گی۔ جب تک آپ اپنے ماحول کو درست نہیں کریں گے، تب تک یہ چیز چلتی رہے گی۔ لہٰذا جب تک ہمارے نفس کا تزکیہ نہ ہوا ہو، چاہے ہمارے دل کی اصلاح ہو بھی جائے، وہ عارضی ہو گی، فوراً نفس اس کو پھر دوبارہ آلودہ کر لے گا، پھر اس پہ دوبارہ اس کا اثر آ جائے گا اور وہی چیزیں اس کے اندر دوبارہ آ جائیں گی۔ اس میں ایک خطر ناک چیز ہے، جِسے میں عرض کرنا چاہوں گا، اور وہ اس مکتوب شریف میں بہت وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے دل کی اصلاح نہیں کر چکا، وہ اپنے آپ کو مریض سمجھ رہا ہے اور لوگ بھی اس کو اہل اللّٰہ نہیں سمجھتے، اس کا اس کو تو نقصان ہے، لیکن اس کا نقصان متعدی نہیں ہے، اس کا نقصان دوسروں کو نہیں پہنچ رہا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے دل کی اصلاح کر لے، اور جس چیز سے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے منع فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو اجازت نہیں دینی چاہئے، جس کی صرف دل کی اصلاح ہو چکی ہو، اس کے نفس کا تزکیہ نہ ہوا ہو، اگر کچھ بزرگ انعکاسی فیض کی وجہ سے یا انہیں حاصل شدہ وقتی صفائی کی وجہ سے ان کو اجازت دیتے ہیں، تو دو نقصان ہوں گے۔ ایک نقصان تو خود اس کا اپنا ہے کہ وہ مطمئن ہو جائے گا کہ اب میں کامل ہو گیا ہوں، لہٰذا مزید آگے بڑھنے کی محنت نہیں کرے گا اور نتیجتاً ترقی بھی نہیں کرے گا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ لوگ بھی اس کو بزرگ سمجھیں گے۔ جب لوگ اس کو بزرگ سمجھیں گے اور اس کے ساتھ بزرگوں والا معاملہ کریں گے، تو اس کا نفس مزید موٹا ہوتا جائے گا۔ کیونکہ اس کے نفس کی اصلاح تو ہوئی نہیں ہے، لہٰذا مستقل طور پر مصیبت میں پڑ جائے گا، اور لوگ بھی اس کی وجہ سے خراب ہوں گے۔ اسی لئے حضرت نے یہ مکتوب شریف لکھا تھا۔ آپ حضرات فارسی جانتے نہیں ہیں، ورنہ میں آپ کو حضرت کا فارسی کا کلام سناتا، تو آپ حیران ہو جاتے کہ کس درد سے لکھا ہے۔ آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ ترجمے میں اتنی طاقت کہاں ہوتی ہے! بہت درد سے لکھا ہے۔ حضرت نے اپنے بھائی کو لکھا ہے کہ میں آج کل دیکھ رہا ہوں کہ لوگ جذب اور سلوک کے سمجھنے میں غلطیاں کر رہے ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ حضرت کے الفاظ کے چناؤ کو دیکھیں، فرمایا: میرے خاطر فاطر میں یہ آیا کہ میں اس پر کچھ لکھوں۔ خاطر فاطر کا کیا مطلب ہے؟ فاطر اسے کہتے ہیں جو ویسے ہی ادھر ادھر کی چیزیں لکھتا ہے، کام کی چیزیں نہیں لکھتا، جیسے کہتے ہیں: فلاں فاطر العقل ہو گیا۔ گویا اس میں حضرت نے اپنے آپ کی طرف یہ نسبت کی ہے۔ لیکن اس کو کتنا ضروری سمجھ رہے ہیں کہ میں اس پر کچھ لکھوں۔ اور پھر حضرت نے لکھا ہے۔ اور یہ ایک مکتوب ہے، جو تقریباً انتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اتنی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا بہت کرم ہے کہ ہماری اس مکتوب شریف تک رسائی ہو گئی اور اس میں ہمیں یہ چیزیں حضرت کی طرف سے مل گئیں۔ لہٰذا حضرت نے اس کا رونا رویا ہے کہ اگر ایسے لوگوں کو اجازت مل جائے، تو اس کا نقصان یہ ہو گا کہ خود اس کی ترقی بھی رک جائے گی۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا شیخ زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی یہ لکھا ہے۔ فرمایا: میں بعض لوگوں کو جانتا ہوں، بڑے اچھے چل رہے تھے، پھر کسی نے ان کو اجازت دی اور ان کا گلا کاٹ دیا۔ چنانچہ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ دھوکے میں پڑا رہتا ہے اور دوسرے لوگ بھی دھوکے میں آ جاتے ہیں اور نقصان ہو جاتا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سب سے بڑا دھوکہ کس چیز کا آتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کی اتنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی، آج کل لوگوں کی تربیت کہاں ہے؟ نتیجتاً جن کو لوگ بزرگ سمجھتے ہیں، ان کی ہر چیز کی تاویل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں، اور اس کے مقابلہ میں شریعت کو ہلکا سمجھتے ہیں، یہ خطر ناک بات ہے۔ اب یہ بات کدھر پہنچ گئی؟ مثلاً: وہ عورتوں کے معاملہ میں احتیاط نہیں کرتا، تو لوگ کہتے ہیں: یہ بزرگ ہیں، ان کو کیا فرق پڑتا ہے۔ خدا کے بندے! شریعت تمہاری ملکیت نہیں ہے، اللّٰہ کی ہے۔ اس میں تم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ بزرگوں کو کچھ نہیں ہوتا۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ خود آپ ﷺ نے احتیاط فرمائی ہے، صحابہ کرام کو احتیاط کروائی ہے۔ صحابی سے مراد وہ ذات ہے، جو تمام اولیاء سے اونچی ہو۔ لہٰذا صحابہ تمام اولیاء سے اونچے تھے۔ آپ ﷺ سے ایک خاتون مسئلہ پوچھنے لگی تو ایک صحابی کی نظر ویسے ہی ادھر ہو گئی، بالکل ایسے ہی جیسے بعض دفعہ انسان خالی الذہن ہوتا ہے اور کسی چیز کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے، تو ایسا ممکن ہے۔ آپ ﷺ نے انگلی مبارک سے ان کے چہرے کو موڑ دیا۔ اس لئے موڑ دیا تاکہ ان کی نظر نہ پڑ جائے، اور یہ نظر شیاطین کی طرف سے ہے، جس سے نقصان ہو جائے گا۔ لہٰذا جو حضرات اس معاملہ میں احتیاط نہیں کرتے، وہ مختلف فتنوں میں پڑ سکتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ما شاء اللّٰہ اس بارے میں پورا شرح صدر تھا اور وہ اس پہ کافی زور دیتے تھے۔ چنانچہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ پیر سے کیا پردہ؟ حضرت نے کافی مواعظ میں یہ باتیں کی ہیں کہ پیر سے بھی ایسے ہی پردہ ہے، جیسے ایک عام غیر محرم سے ہے۔ پیر زیادہ خطرہ میں ہوتا ہے، کیونکہ پیر کے پاس جو خواتین آتی ہیں، وہ اپنی حفاظت نہیں کرتیں۔ باقی لوگوں کے پاس جائیں گی، تو اپنی حفاظت کریں گی۔ مثلاً: حجاب میں ہوں گی، خیال رکھیں گی۔ اس وقت ان کے اوپر اس پیر کے تقدس کا حال اتنا غالب ہوتا ہے کہ وہ اتنی حفاظت کے ساتھ نہیں جاتیں، لہٰذا اس سے نقصان ہو جاتا ہے۔ اُس کا بھی نقصان ہو جاتا ہے اور اِدھر بھی نقصان ہو جاتا ہے۔ یہ ساری باتیں اس وقت بہت ضروری ہیں۔ اور اس کی جڑ وہی ہے، جو مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مکتوب شریف میں فرمایا کہ بغیر نفس کے تزکیہ کے صرف دل کی اصلاح پر اجازت دینے سے نقصان ہوتا ہے۔

متن:

﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ﴾ (المائدۃ: 54) ”یہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جس کو مل گیا“۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ علمِ تلوین اور تمکین میں خوب بالغ نظر تھے اور پوری مہارت رکھتے تھے۔ "اَلتَّلْوِیْنُ صِفَۃُ أَرْبَابِ الْأَحْوَالِ وَالتَّمْکِیْنُ صِفَۃُ أَصْحَابِ الْحَقَائِقِ" یعنی تکوین اربابِ احوال کی صفت ہے اور تمکین أصحابِ حقائق کی صفت ہے۔

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ حال تبدیل ہو رہا ہوتا ہے، تو لون بھی تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔ حال کبھی بھی یکساں نہیں رہتا۔ ’’اَلْاَحْوَالُ مَوَاہِبُ‘‘ لہٰذا احوال کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ بلکہ جیسے جیسے اللّٰہ پاک جو جو طاری کر دے، بس وہی ہو گا۔ لہذا وہ کبھی ہنس رہا ہے، کبھی رو رہا ہے، کبھی خوش ہے، کبھی خَفا ہے۔ یہ تلوین غلبۂ حال کی وجہ سے ہے اور تمکین مقامات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کسی ایک مقام پہ قائم (establish) ہو جانے کو تمکین کہتے ہیں۔ میرے خیال میں establish کا لفظ تمکین کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ تمکین میں حقائق کا ادراک ہو جاتا ہے، یعنی اس مقام کے لحاظ سے جو حقائق ہوتے ہیں، ان کا ادراک ہو جاتا ہے، اور وہ اس ادراک کے ساتھ اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں۔ انہی کو اصحابِ تمکین کہتے ہیں۔

متن:

تلوین اربابِ احوال کی صفت ہے اور تمکین أصحابِ حقائق کی صفت ہے۔ سالک جب تک سلوک کے مقامات طے کر رہا ہو، اس کو صاحبِ تلوین کہتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اِس مقام سے وہ شخص فائدہ اور لطف اُٹھا سکتا ہے، جو کہ قلبِ سلیم رکھتا ہو، اور قلبِ سلیم اُس دل کو کہتے ہیں، جو کہ بیس خصلتوں سے معمور ہو اور بیس خصلتوں سے خالی ہو۔ (وہ جو پہلے بیان کی گئیں) اُن اوصاف کی تفصیل جن سے دل خالی ہونا چاہئے، وہ خصائل یہ ہیں: 1۔ شرک، 2۔ نفاق، 3۔ عداوت، 4۔ طمع، 5۔ امل (امیدیں)، 6۔ جزع (یعنی فریاد کرنا)، 7۔ حرص، 8۔ شک، 9۔ جہل، 10۔ گناہ پر اصرار کرنا، 11۔ تکبر، 12۔ بخل، 13۔ قنوطیت، 14۔ احسان جتانا، 15۔ حسد، 16۔ دھوکہ دینا، 7۔ ملاوٹ کرنا، 18۔ بد گمانی کرنا، 19۔ جھٹلانا، 20۔ سُخط (یعنی بے صبری دکھانا، ناراضی کا اظہار کرنا)۔ اور وہ خصلتیں جن سے دل معمور ہونا چاہئے، یہ ہیں:

1۔ توحید، 2۔ اخلاص، 3۔ نصیحت، 4۔ زہد، 5۔ قناعت، 6۔ یقین، 7۔ علم، 8۔ تفویض، 9۔ لوگوں سے کنارہ کشی، 10۔ امیدیں مختصر کرنا، 11۔ صبر کرنا، 12۔ کسی پر احسان نہ جتانا، 13۔ سخاوت، 14۔ توبہ کرنا، 15۔ تواضع کرنا، 16۔ خوف، 17۔ اُمید رکھنا، 18۔ بھوک، 19۔ نیک گمان کرنا، 20۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے محبت کرنا۔ قطعہ:

؎ نخشبی کار کار تمکین است

ایں نصیحت زمن بگوش پذیر

گر تو خواہی بدیں جناب رسی

بست خصلت گزار و بست بگیر

’’اے نخشبی! یہ بات عزت کا کام ہے اور تم مجھ سے یہ نصیحت کان کھول کر سنو، اگر تم چاہتے ہو کہ اس مقام تک تمہاری رسائی ہو جائے، تو بیس خصلتوں کو چھوڑ کر بیس خصلتیں اختیار کر‘‘۔

تشریح:

میں آپ کو ایک بات عرض کروں۔ لوگ سمجھیں گے کہ ان بیس خصلتوں کو اختیار کرنا بڑا مشکل کام ہو گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی بنیاد ایک ہی ہوتی ہے۔ پھر ان سب کی تکمیل اپنی اپنی ہوتی ہے۔ مثلاً: دنیا کی محبت ان تمام بیس چیزوں میں ہو گی، جو منع کی گئی ہیں۔ اور دنیا کی محبت سے خالی ہونا اور اللّٰہ کی محبت سے معمور ہونا بیس خصلتوں کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن تکمیل اپنے اپنے لحاظ سے ہونی چاہئے۔ چنانچہ دنیا کی محبت کو نکالنا اور اللّٰہ کی محبت کو پانا؛ یہ جذب کے ذریعے سے ہے۔ لیکن ان چیزوں کی اپنی اپنی تکمیل سلوک کے ذریعے سے ہے۔ یہ دونوں چیزیں بیک وقت ہونی چاہئیں اور پوری پوری ہونی چاہئیں، تب ہی یہ چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں۔

متن:

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب کو زبانِ حال عطا کی گئی تھی، اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ بلیغ اور بہتر ہوتی ہے۔ وہ گروہ جن کی نظر تمام عبرت ہوا کرتی ہے اور اُن کی باتیں دِل میں اُترتی ہیں، اور ان کی باتیں فکر سے بھری ہوتی ہیں، اکثر زبانِ حال سے باتیں کرتے ہیں۔

تشریح:

میں آپ کو اس حوالے سے ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک بزرگ نے ایک دفعہ اپنے بیٹے کو کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آپ بیان کر دیں۔ بیٹے نے بڑا ہی علمی بیان کیا، زمین آسمان کے قلابے ملا دئیے، پورے علمی دلائل کے ساتھ سب کچھ بیان کیا، مگر لوگ ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے، کوئی تنکوں سے کھیل رہا ہے، کوئی پتھروں کے ساتھ کھیل رہا ہے، کوئی کیا کر رہا ہے، کوئی کیا کر رہا ہے۔ حضرت نے جب یہ حال دیکھا، تو فرمایا: آپ اتر آئیں۔ وہ اتر آئے، حضرت بیٹھ گئے اور بیان میں فرمایا: روزہ رکھنے کا ارادہ تھا، اس کے لئے دودھ رکھا تھا، سحری کے وقت اٹھا، بلی آئی اور اس نے دودھ کو گرادیا۔ سارے لوگ رونے لگے۔ حضرت کا بیٹا بڑا حیران ہوا۔ جب لوگ چلے گئے، تو اس نے حضرت سے پوچھا: حضرت یہ کیا بات ہے؟ میں نے اتنی علمی گفتگو کی، لوگوں کو بالکل پتا ہی نہیں چلا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ آپ نے جو گفتگو کی، وہ نہ کوئی علمی تھی، نہ کوئی حقائق کی بات تھی، ایک معمولی واقعہ ہے کہ بلی آ گئی۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے، اس پر لوگ اتنا دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ یہ کیا بات ہے؟ فرمایا: بیٹا! تو زبان سے بات کرتا ہے، میں دل سے بات کرتا ہوں۔ چنانچہ جو زبانِ حال سے بات کرنے والا ہوتا ہے، اس کا اپنا اثر ہوتا ہے۔ بات جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے۔

متن:

اور وہ باتیں دِل میں اترتی ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اے دل! تو سب اعضا کا سردار ہے اور تمام انداموں کا بادشاہ ہے، اور بادشاہوں سے آبادی اور ملک کی شادابی کی امید کی جاتی ہے، نہ کہ ملک کی خرابی کی۔ اور اسی طرح اپنے نفس کے ساتھ بھی گفت و شنید کرتے ہیں اور اسی طرح دیگر اشیاء کے ساتھ بھی باتیں کرنے لگتے ہیں، ان کے کلام کے درمیان کوئی پردہ نہیں کرتا، اور ان کی باتیں نا قابلِ فہم نہیں ہوتیں۔

تشریح:

ناقابلِ فہم وہ باتیں ہوتی ہیں، جو انسان کے محسوس نظام سے باہر باہر ہوں۔ لیکن جو محسوس نظام میں آ جاتی ہیں، وہ ناقابلِ فہم نہیں ہوتیں۔ جیسے: آپ گاؤں والوں کے اندر بیٹھ کر گاؤں کی باتیں کریں، جیسے دیہاتی اور کسان باتیں کرتے ہیں، تو اس سے وہ خوش ہوتے ہیں اور ان کو سمجھ بھی آتی ہے۔ اسی طرح سے جن کے پاس آپ بیٹھے ہیں، اگر آپ قدرتی انداز (Natural tone) میں باتیں کریں گے، تو وہ ساری باتیں سمجھیں گے۔ ان کو کوئی پروا نہیں ہو گی۔ اور اگر آپ Natural tone سے آگے پیچھے ہٹ کے تصنُّعْ (بناوٹ) میں جائیں گے، تو تصنع والی باتیں مشکل ہوتی ہیں۔ چاہے جتنے لوگ واہ واہ کریں، لیکن واہ واہ سے بات سمجھ تو نہیں آتی، وہ صرف واہ واہ ہوتی ہے۔

متن:

اور زبانِ حال، زبانِ قال سے زیادہ فصیح ہوتی ہے۔ اس بات کو وہ لوگ سمجھ پاتے ہیں، جن کو فہم و فکر کی نعمت ودیعت ہوتی ہے۔

آںحضرت صاحب کے دیگر اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصیت حضرت صاحب کا فقر ہے، ان کے حال کے آغاز و انجام اور باطن و ظاہر میں فقر تھا۔ مسیح صاحب جو کہ فقر کے سمندر کے ملنگ تھے، وہ فرماتے تھے کہ "اَلْفَقْرُ مَشَقَّۃٌ، قَدْ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ وَقَالَ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! مَا الْفَقْرُ؟ قَالَ: "خَزَائِنُ مِنْ خَزَائِنِ اللّٰہِ تَعَالٰی فِي الدُّنْیَا وَمُرٌّ فِي الْآخِرَۃِ وَالْغِنَا مُرٌّ فِي الدُّنْیَا وَمَشَقَّۃٌ فِي الْآخِرَۃِ" (لم أجد ہذا الحدیث)

”ایک شخص نے رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں آ کر پوچھا کہ فقر کیا ہے؟ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا کہ فقر دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانہ ہے اور آخرت میں تلخی اور کڑواہٹ ہے، اور غنا دنیا میں تلخی ہے اور آخرت میں مشقت ہے“۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ کیا درویش کے لئے جائز ہے کہ کسی سے کوئی چیز لے لے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اگر وہ جانتا ہو کہ وہ اسی وقت کسی دوسرے شخص کو دے دے گا، تو وہ لے لے۔ درویش وہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس کوئی چیز نہ ہو۔ اور اگر ہو بھی، تو اُس کی کوئی چیز نہ ہو۔ اور جو کوئی اپنی زندگی میں گوشۂ گمنامی میں رہے، تو وفات کے بعد وہ تمام دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے۔ "فَطُوْبٰی لِمَنْ لَّا یَعْرِفُ النَّاسَ وَلَا یَعْرِفُوْنَہٗ" ”وہ آدمی خوش نصیب ہے جو کہ لوگوں کو نہ پہچانتا ہو اور لوگ بھی اِس کو نہیں پہچانتے“۔ اور جو کوئی اپنے دورِ حیات میں اپنی مشہوری اور شہرت کے لئے کوشش کرے، وہ موت کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس کا نام فرسودہ اور ذکرِ رفتہ ہو جاتا ہے۔

تشریح:

یہ تو واقعی ہم دیکھتے ہیں کہ جب مشاہیر فوت ہو جاتے ہیں، تو اس کے بعد ان کا کوئی نام نہیں ہوتا، ختم ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ سیاسی طور پر لوگ ان کو زندہ رکھنا چاہیں، لیکن اصل میں کوئی ان کے ساتھ نہیں ہوتا۔ لیکن اللّٰہ والے اپنا سب کچھ ختم کر کے فوت ہوتے ہیں، تاہم اس کے بعد ان کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر اللّٰہ جل شانہ ان کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں۔ بہر حال! یہ اللّٰہ جل شانہ کا اپنا ایک نظام ہے کہ جو اللّٰہ کے لئے کام کرتا ہے، وہ باقی ہوتا ہے اور جو فانی کے لئے کام کرتا ہے، وہ فانی ہوتا ہے۔

متن:

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت صاحب کو ہمیشہ بھوکا رہنے کی جانب میلان تھا، اور وہ ہمیشہ اپنے آپ کو بھوکا رکھا کرتے تھے۔ کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ وہ آدمی جو کہ بھوک کے دسترخوان سے صدیقین کا کھانا تناول فرماوے، تو اُس کا دوپہر کا کھانا نہیں ہوتا۔ عقلمند لوگ کہتے ہیں کہ بھوک کی تکلیف ایک پیسے سے دور کی جا سکتی ہے، مگر سیری اور بھرے پیٹ کی تکلیف ایک خزانے سے بھی دفع نہیں ہو سکتی۔

تشریح:

کیا زبردست عقل کی بات کی ہے۔ اس وقت کا ایک پیسہ آج کے لحاظ سے پچاس روپے ہوں گے۔ بھوک پچاس روپے سے دفع ہو سکتی ہے، لیکن بھرے پیٹ کی مشکلات لاکھوں سے بھی ختم نہیں ہوں گی۔

متن:

اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا یہ زر و مال، گھوڑے، خادم وغیرہ نہیں، بلکہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ "بَطْنُکَ دُنْیَاکَ" یعنی تمہارا پیٹ تمہاری دنیا ہے۔ جو لوگ کم کھاتے ہیں، وہ تارکانِ دنیا ہیں اور جو زیادہ کھاتے ہیں، وہ تارکانِ دنیا نہیں ہوتے۔ ایک شخص نے ایک درویش سے عرض کیا کہ مجھے عبادت کرنا سکھا دیجیئے۔ درویش نے پوچھا کہ تُو طعام کس طریقے سے کھاتا ہے؟ خوب سیر ہو کر کھاتا ہے یا کہ آدھے پیٹ کھاتا ہے؟ اُس نے کہا کہ پیٹ بھر کر کھاتا ہوں۔ درویش نے جواب دیا کہ سیر ہو کر کھانا جانوروں کا کام ہے، پہلے جا کر کھانا سیکھ لو، اس کے بعد میرے پاس آ جاؤ، تاکہ تمہیں عبادت کرنا سکھا دوں۔

تشریح:

یہ جو آج کل لوگ dieting کرتے ہیں، یہ کس لئے کرتے ہیں؟ اپنی صحت کو بہتر کرنے کے لئے وزن کم کرتے ہیں۔ یہی عام (general) بات ہے۔ اب نیت اپنی صحت کو بہتر کرنا ہے، جو ایک دنیاوی چیز ہے اور جو اپنی روحانیت کو برقرار رکھنے کے لئے کم کھاتے ہیں، ان کی نیت کیسی ہے؟ ثقل تو ان کو بھی ہوتا ہے جو دنیا کے لئے کرتے ہیں، کیونکہ اس سے وہ ثقل کو دور کرتے ہیں۔ جیسے پیٹ بڑھتا ہے یا اس قسم کی دوسری چیزیں ہوتی ہیں، اسی لئے وہ کم کھاتے ہیں۔ گویا وہ دنیا کی ایک چیز کو کم کر رہے ہیں دنیا کے لئے، لیکن جو لوگ اس دنیا کی چیز کو کم کر رہے ہوں آخرت کے لئے یعنی روحانیت کے لئے، ان کی کیا بات ہے! کیونکہ کم تو دونوں کر رہے ہیں، اور کمال کی بات یہ ہے کہ وہ کس لے لئے کر رہے ہیں، جو اس کے subset کے طور پر یہ بھی ہے۔ اس لئے یہ ساری چیز نہیں ملے گی، وزن تو کم ہو ہی جائے گا۔ جو کم کھاتا ہے، چاہے وہ آخرت کے لئے کم کھا رہا ہے، اس کا بھی وزن کم ہو گا۔ بیماریاں کم لگیں گی، پریشانیاں کم ہوں گی۔ وہ چیز بھی مل جائے گی، لیکن اصل چیز یعنی روحانیت بھی ملے گی۔ نفس سے روح کو آزاد کر دیں گے۔ ایک دفعہ ایک صحابی روشن دان بنا رہے تھے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: یہ کس لئے بنا رہے ہو۔ عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اس میں سے روشنی آئے گی اور ہوا آئے گی۔ فرمایا: اگر اس نیت سے بناتے کہ اس میں آذان کی آواز آئے گی، تو روشنی بھی آ جاتی، ہوا بھی آ جاتی۔ لیکن ثواب بھی ہوتا۔ جیسے حدیث میں آتا ہے: ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1) لہٰذا کسی عمل کی روحانیت کے بڑھانے کے یہ چیز (یعنی کم کھانا) ہے۔

متن:

روایت ہے کہ شیطان کہتا ہے کہ میں بھرے پیٹ والے کے ساتھ نماز میں معانقہ کرتا ہوں، (یعنی اُسے گلے لگاتا ہوں) اور بھوکا آدمی اگر نیند میں بھی ہو، تو میں اُس سے دور جاتا ہوں۔ اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو آدمی پیٹ بھر کر کھائے، تو نماز کے باہر بھی شیطان کا اس پر تسلط اور غلبہ ہو گا۔ اور وہ بھوکا آدمی جو کہ نماز پڑھ رہا ہو، شیطان اُس سے کتنی زیادہ دوری اور نفرت کرتا رہے گا۔ پس درویش سے کم کھانا، کم کہنا اور کم سونا مُراد ہوتا ہے۔ جیسا کہ علم سے مقصود عمل اور شمع سے مطلب روشنی کا حصول ہے، نہ کہ علم سے مُراد حکایت اور روایت کا رٹنا اور تکرار کرنا، کیونکہ جاننا ایک علیحدہ کام ہے اور اس پر عمل کرنا دوسرا کام ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ