دیباچہ

الحمد للہ! اللہ پاک کا شکر ہے کہ شاہرائے معرفت کا ستائیسواں شمارہ مختلف مضامین پر مشتمل آپ حضرات کی خدمت میں پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قارئین کے لئے مفید بنائے۔ آمین!

اس شمارے کی ابتدا حمد اور نعت شریف سے کی گئی ہے اس کے بعد ایک عارفانہ کلام شامل کیا گیا ہے۔

اس شمارے میں جو نثری مضامین شامل کیے گئے ہیں ان میں پہلا "مطالعہ سیرت" کے عنوان سے ہے اس میں اس اہم سوال پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کیا عربوں کا مذاق اڑانا نبی کریم ﷺ کی نسبت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے؟ بیان میں نبی کریم ﷺ کی عربوں سے محبت کی تین بنیادیں بیان کی گئیں اور واضح کیا گیا کہ کسی بھی قوم یا فرد کا تمسخر شریعت میں ممنوع ہے۔ اصل معیار اعمال ہیں، نہ کہ قومیں یا نسلیں۔ سوشل میڈیا کے غیر محتاط استعمال، اور عربوں کے بارے میں غلط فہمیوں پر بھی مدلل گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرا مضمون "حج، قربانی اور خانہ کعبہ کی فضیلت: روحانی سفر اور عبادات کی اہمیت" کے عنوان سے ایک اصلاحی بیان ہے جس میں خانہ کعبہ کی فضیلت اور حج کے روحانی پہلووں کا بیان ہے جو ہمیں اس عظیم عبادت کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

حج کا حقیقت میں روحانی اور ایمانی سفر ہونا، جس میں انسان اپنی توبہ اور عاجزی پیش کرتا ہے، بہت اہم ہے۔ عرفات کا دن واقعی روحانی ترقی اور مغفرت کا دن ہے، اور اس دن کی اہمیت پر زور دینا بہت ضروری ہے تاکہ مسلمان اپنی عبادت کو صحیح طریقے سے ادا کر سکیں۔ قربانی کے بارے میں بتایا گیا ہے جس میں گوشت کے تین حصوں کی تقسیم کا ذکر ہے، اس سے نہ صرف عبادت کی اہمیت بڑھتی ہے بلکہ معاشرتی تعلقات میں محبت اور تعاون کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

اس کے بعد توضیح المعارف جو کہ قسط وار اس رسالے میں چھپ رہی ہے، اس بار اس کا موضوع معرفت الٰہی اور حبِ جبروتی سے متعلق ہے۔ یہاں بات کی جا رہی ہے کہ کائنات کے ظاہری اور باطنی جہانوں کے درمیان ربط حبِ جبروتی کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ اس محبت کا تعلق اللہ کی ذات سے ہے اور یہ ہر قسم کی تغیر پذیر محبت سے پاک ہے۔ اس محبت کو عقل اور جذبے کی مثالوں سے سمجھایا گیا ہے، جیسے کمپیوٹر کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کے درمیان رابطہ۔

اس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنی ذات کی محبت کو ترک کرکے اللہ کی محبت کو اپنانا ہوتا ہے تاکہ وہ لاہوت کی محبت تک پہنچ سکے۔ اس مقصد کے لیے تین مراحل ہیں: اپنی ذات کی محبت کو شیخ کی محبت کے تابع کرنا، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ڈوبنا، اور آخرکار اللہ تعالیٰ کی محبت تک پہنچنا۔ اس شمارے میں حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مختلف مکاتیب سے تعلیمات بیان کی گئی ہیں۔ جس میں عزلت (گوشہ نشینی) کی شرائط، وقت کی قدر، روحانی اثر پذیری کی وجوہات اور اہل اللہ سے نسبت و تبرک کے فوائد کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ تنہائی اختیار کرنے سے پہلے حقوق العباد کی ادائیگی ضروری ہے، وقت کی ناقدری انسان کو ہلاکت میں ڈالتی ہے، بعض سالکین میں دیر سے روحانی اثر آتا ہے جس کا علاج توجہ یا مجاہدہ ہے، اور اہلِ دل کے لباس و تعلقات سے قلبی سکون (سکینہ) حاصل ہوتا ہے۔ یہ نصیحتیں طالبینِ سلوک کے لیے نہایت راهنما اور مفید ہیں۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب "مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ" میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس کتاب میں محو، فنا، بقا اور ان کی تشریحات کی وضاحت کی گئی ہے۔ محو تین قسم کا ہوتا ہے: ذات کا ظواہر سے محو، غفلت کا ضمیر سے محو، اور غیبت کا اسرار سے محو۔ فنا کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ یہ بد عادتوں کا خاتمہ اور اچھے اوصاف کا قائم رہنا ہے۔ صفاتِ مذمومہ کا زوال اور صفاتِ محمودہ کا دوام فنا اور بقا کی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ نفس کی خواہشات، لذات اور ضروریات کے دائرے میں رہنا اور ان سے بچنا ضروری ہے تاکہ بقا کی حالت حاصل کی جاسکے، جو کہ اللہ کے لئے عمل کرنے سے ممکن ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ رسالے کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اپنی کیفیت اور آرا سے مطلع فرمائیں۔ اللہ پاک اس کو ہم سب کے نافع اور اپنی تعلق کا ذریعہ بنائیں۔ آمین! خانقاہ رحکاریہ امدادیہ، راولپنڈی