Shahra e muhabbat

تقریظ

نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ۔فَاَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ وَ الَّذِیْن َ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ

اس میں اللہ پاک ایمان والوں کی ایک خاص صفت کا ذکر فرمارہے ہیں کہ ایما ن والوں کی دلوں میں شدید محبت ہوتی ہے اللہ پاک کی اور حق کی اور محبت کااگر ایک ہی لفظ میں خلاصہ بتایا جائے تو وہ عشق ہی بنتا ہےیعنی اللہ تعالی اور اللہ کے رسول کے ساتھ اتنا تعلق ہو جائے کہ اپنی جان سے اولاد سےمال سے اور ہر چیز سے بڑھ کر ہو۔یہی مقصود ہےاسلام کا کہ اتنی شدید محبت ہو جائے اور پھر حج کا سفر تو ہے ہی عشاق کا سفر۔ حج تکمیلی رکن ہے۔ حضورسارے مراحل اپنے صحابہ سے طے کرانے کے بعداس آخری رکن حج کے ذریعے عشق کی کامل منا زل تک پہنچا نے کے بعد پھر اس دنیا سےرخصت ہو گئے ۔ہمارے عزیز دوست جو اپنے سلسلے کی بہت خدمت کر رہے ہیں برادر شبیرسلمہ اللہ ، اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ہمارے اکابرین کی تعلیمات کی اشاعت جو کہ عین عشق کی تعلیمات ہیں کومزید پھیلانےکا ذریعہ بنیں۔انہوں نےخوب محبت کے ساتھ اپنی کتاب شاہراہ محبت میں اس سفر کی داستان کو نثر اور نظم میں قلم بند کیا ۔ بندے نے اس میں سےتقریبا سارے کو دیکھا۔سفر کے شروع سے لے کے مدینہ منورہ کےسفر تک اور ماشاءللہ پڑھتے ہوئے خاص کیفیت بن جاتی ہے ۔نثر کے ساتھ ساتھ شعروشاعری کو عشاق کے ساتھ خاص مناسبت ہوتی ہےایسے عشاق کےلئے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ یہ بہت مفید ہے اور دل سے دعا ہے کہ قبولیت عام بھی عطا فرما ئےاور تام بھی عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۝

عبد المنانعفی عنہ

خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد اشرفصاحب سلیمانی

مقام ابو حنیفہ مسجد حرم مکہ مکرمہ

بمطابق 15 نومبر 2012ء ، ۳۰ ذی الحج ۱۴۳۳ ھ

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ ﷲِِ ِرَبِّ الْعٰلَمِینِِِِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَم َالنَّبِیینَ ۝

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ ِمِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۝

بِسْمِ اﷲ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۝

وَالَّذِين َ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ ۝

ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور اگر نہیں ہے تو ہونی چاہیے۔پس ہر وہ ذریعہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا باعث بنے اسے استعمال کرناضروری ہوگا۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ نے دین پر عمل پیرا نہ ہو سکنے کی دو قسم کی وجوہات بتائی ہیں۔ ایک وہ جو طبیعت کی وجہ سے ہوتی ہیں مثلاً شہوات کی محبت، نماز میں کسل، زکوٰۃ کا نہ دینا وغیرہ۔دوسری وجہ عقل پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہونا ہے۔ پہلی کی تدارک کے لئے نماز، روزہ اور زکوۃ فرض کئے گئے اور دوسری کے لئے حج۔حج کے اعمال پر اگر نظر دوڑا ئی جائے تو ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں وہ اعمال کرائے جاتے ہیں جن میں یا توبے مہارعقل پر انحصار کا توڑ ہے یا اللہ تعالیٰ کے ان محبوبوں کے منتخب اعمال ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں عقل کو حائل نہیں ہونے دیا یعنی دوسرے لفظوں میں عقل کے فیصلہ کن کردار کی نفی کی گئی ہے ۔اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جاسکتا کہ شریعت عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے بلکہ شریعت تو شریعت کے لئے عقل کے استعمال کو بہت مستحسن سمجھتی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے عاری لوگ جب شریعت کے کھلے احکامات کی مزاحمت کرتے ہیں تو ان کی اس حرکت کی اصلاح ضروری ہوجاتی ہے اسے ہی عقل پر غیر ضروری انحصار کہتے ہیں اور اسی کے تدارک کے لئے حج مشروع کیا گیاہے۔

اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے بھی محبت کرنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ آپ نے خود ارشاد فرمایا کہ “ تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک مجھے اپنی اولاد سے، اپنے والدین سے بلکہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے” اور حضرت عمرؓ کو تو فرمایا “ جب تک تم اپنی جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب نہیں سمجھو گے اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا ” ۔ پس ہمیں ایسے طریقوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے جن کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کے محبو بوں کی محبت نصیب ہوجائے۔ان طریقوں میں نعت اور منقبت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔اس کتاب میں اگر ایک طرف حج کے سفر نامے اور حمد باری تعالیٰ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف اس میں مدینہ منورہ کے قیام کے حالات اور نعت شریف کے ذریعے آپ کی محبت کی دلوں میں آبیاری کی کوشش کی گئی ہے ۔جہاں کہیں نفس کی اصلاح کا کوئی پہلو سامنے آتا ہے اس کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی نفس کی اصلاح جو کہ حب الٰہی کاہی ایک سفر ہے۔ اس کو خاص طور پر اس میں شامل کیا گیا ہے۔پس یہ کتاب انشاء اللہ بجا طور پر ایک شاہراہ ہے جس پر چل کرمطلوب محبت کا راستہ طے کیا جاسکتا ہے۔اسی لئے اس کا نام توکلاً علی اللہ شاہراہ محبت رکھا گیاہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اسم با مسمٰی بنادے ۔آمین۔

اس میں چونکہ مثنوی کے طرز پر سفر نامہ لکھا گیا ہے لہٰذا درمیان میں غزل یا نظم کی صورت میں حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی موجود ہے ۔اس کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے دو مختلف طریقے استعمال کئے گئے ہیں۔مثنوی کو صفحات کے دائیں بائیں لکھا گیا ہے اور غزلوں اور نظموں کو صفحات کے درمیان میں ۔پس ہر دو کا فرق واضح ہوگیا ۔پہلے ارادہ تھا کہ ہرایک کے لئے ایک مختلف رنگ استعمال کیا جائے لیکن اس پر خرچ کچھ زیادہ ہی تھا جس سے اس کے شائقین کی جیب پر بوجھ پڑنے کے پیش نظر فی الوقت یہ فیصلہ بدل دیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے اور جس مقصد کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا ہے اس مقصد کو بدرجہ اتم پورا فرمائے آمین ثم آمین۔

اس کی ابتدا میں حج کا "عاشقانہ طریقہ" کےعنوان سے عشاق کے حج کرنے کا طریقہ دیا جارہا ہے ۔

امسال حج پر جانے سے جذبات کو مزید انگیخت ہوئی ۔یوں کلام میں مزید اضافہ ہوا جس کو اس کتاب کے آخر میں یاجہاں مناسب ہوا ، شامل کیا جارہا ہے تاکہ یہ کلام جن کی امانت ہے وہاں تک پہنچ جائے ۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔آمین۔ثم مین۔

سید شبیر احمد کاکاخیل

حج کا عاشقانہ طریقہ

 

دو ترتیبیں یہ ہیں ۔ایک رحمانی اور دوسری شیطانی۔ رحمانی ترتیب میں عقل جذبات کو قابو کرتی ہے اور عقل پر شریعت حاکم ہوتی ہے جبکہ شیطانی ترتیب میں جذبات عقل کو متاثر کرتے ہیں اور آفاقی تعلیمات یعنی شریعت میں تاویلیں کر کے نفس کی غلط خواہشوں کا دفاع کیا جاتا ہے جیسا کہ غیر مسلم مادر پدر آذاد معاشرہ کرتا ہے۔اس میں نفسانی خواہشات عقل پر اتنی غالب ہوجاتی ہیں کہ عقل کا کام ہی صرف ان ہی خواہشات کو پورا کرنا رہ جاتا ہے۔حدیث شریف میں ایسے لوگوں کو بے وقوف کہا گیا ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے ۔

الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللهِ عز وجل ۝

جس کا مفہوم یہ ہے کہ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لیے کام کیا اور بیوقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اپنی خواہشات پورا کرنے میں لگا دیا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ سے بغیر توبہ کئے مغفرت کی امید کرتا رہا۔پس وہ عقل جو جذبات سے مغلوب ہوکر شریعت کی خلاف ورزی کا سبب بنے فی الاصل بے وقوفی ہے ۔لہٰذا عقل کی صورت میں اس بے وقوفی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔شرعی فرائض کی جو حکمتیں ہوتی ہیں ان میں نماز کی روح عبدیت ہے، روزہ کی قوت بہیمیہ کی مخالفت ہے تاکہ تقویٰ حاصل ہوسکے ۔زکوٰۃ کی حکمت مال کی محبت کو کم کرنا ہے ۔اس طرح حج کی روح اس منفی عقل کا توڑ ہے اور عشق الٰہی کا حصول ہے ۔ شاعر نے نفسانی عقل اور ایمانی عقل کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے:

عقل نفسانی بمقابلہ عقل ایمانی

جو عقل نفس سے اثر لےعقل نفسانی ہے

جو ہو ایمان سے منورعقل ایمانی ہے

عقل نفسانی کی محدود نظر کیا سمجھے

عقل ایمانی پہ ہوتی اس کو حیرانی ہے

عقل ایمانی کا دل سے ہے تعلق اس لئے

چاہیے اس کو ہمیشہ قلب نورانی ہے

 

نفس کے جو بھی تقاضے ہوں بے مہار ان کو

دبائیں ، ٹھیک ہوں تو اس میں ہی آسانی ہے

 

اس طرح نفس کا پھر عقل پہ غلبہ نہ رہے

نہ رہے اس پہ ، نفس کی جو حکمرانی ہے

 

نفس مطمئن، قلب سلیم ہو، اور فہم رسا

نصیب میں ان کی پھر زمین کی سلطانی ہے

 

 

عقبیٰ محفوظ ہو راضی ہو رب اور جنت میں

شبیؔر ملے گی انہیں رب کی جو مہمانی ہے

مندرجہ بالا تمہید میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے لیے اور باقی تمام چیزوں کو انسان کیلئے پیدا کیا ہے ۔اور انسان میں چونکہ دل جسم کا بادشاہ ہے ۔اس لیے جب اس بادشاہ کو حقیقی بادشاہ کا خادم بنایا جائے گا تو سارا جسم حقیقی بادشاہ کا تابع ہوجائے گا یعنی شریعت پر حقیقی طور پرعمل پیرا ہوجائے گا - بصورت دیگر سارا جسم فاسد ہوجائے گا اور اس سے جسم کے سارے اعضاء شریعت کے خلاف چل پڑیں گے جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے ۔

أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ رواہ البخاری

اس کا مفہوم یہ ہے کہ آگاہ ہوجاؤ بیشک اس جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگرو ہ ٹھیک ہوگاتو سارا جسم ٹھیک ہوگا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ہوگا۔ آگاہ ہوجاؤ یہ دل ہے۔

قرآن پاک میں ایسے خوش قسمت حضرات کے تذکرے موجود ہیں جن کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبت موجزن تھی اس لیے جب مختلف مواقع پر ان کو آزمایا گیا تو انہوں نے اپنے نفس کی خواہش کے خلاف اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہا اور وہ سرخرو ہوگئے اور ابدی کامیابی حاصل کرلی۔ایسے ہی ان میں سےبعض

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی اللہ تعالیٰ کی محبت میں دی ہوئی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ قبول فرمایا بلکہ رہتی دنیا تک ان کو اپنے بندوں کے لیے ایک نمونہ بنادیا اس طرح کہ ان کے کیے ہوئے اعمال کو حج کے موقع پر کروایا جاتا ہے تاکہ سب کو اس کا پتہ چل جائے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں کس طرح اپنے تن من کو قربان کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ان قربانیوں کو کیسے قبول فرمایا۔آدم علیہ السلام کی عرفات میں حوا بی بی کے ساتھ ملاقات ،ہاجرہ بی بی کا اپنے بیٹے کی محبت میں پانی کے لیے دوڑنا ،منیٰ میں اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے لے جانا ،شیطان کے وسوسے کے جواب میں اس کو کنکریاں مارنا ، یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئیں کہ اب ہر حاجی کے لیے اسی طرح کرنا واجب ٹھہرگیا۔ایک بات یاد رکھنی چاہيے کہ جب کوئی اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اس کی محبت اللہ کی محبت ہوتی ہے مثلاً ہاجرہ بی بی چونکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کی وجہ سے قبول ہوچکی تھیں تو اب وہ دوڑ تو رہی تھیں اپنے بیٹے کی محبت میں لیکن اس کو

اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے طور پر لیا۔

حج میں ایسے ہی محبوبوں کے اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیے ہوئے کارنامے زندہ کئےجاتے ہیں ۔تاکہ ان مثالوں کو دیکھ کر حج کرنے والے اپنےد لوں کا رخ درست کرسکیں۔پس حب الٰہی میں یہ والہانہ پن ، دیوانہ پن اور فدا ئیت حج کی روح ہے ۔جس کسی کے حج میں یہ روح نہ ہو اس کا حج زندہ حج نہیں ہوتا ۔دوسری طرف اگر حج میں یہ روح کارفرما نہ ہو تو پھر حج کا ہر عمل انتہائی مشکل ہوجاتا ہے لیکن اگر اس میں یہ روح کارفرما ہو تو حج کا ہر عمل بے انتہا لذیذ، پر کیف اور آسان ہوجاتاہے۔محبوب کے در کی طرف چلنا مشکل ہے یا آسان کسی عاشق سے پوچھ کر دیکھیں۔حج کے اعمال سیکھتے وقت اگر اس روح کا بھی خیال رکھا جائے تو صحیح حج انشاء اللہ نصیب ہو سکتا ہے۔

 

حج نہیں ہے مگر عشق کی منزلیں

بس خدا کو جو محبوب ہیں حرکتیں

 

اس طرح کرنا حب الٰہی کے ساتھ

اس طرح کرتے کرتے ہم عاشق بنیں

 

وہ عقل کیا جو اس کی مخالف بنے

وہ عقل ہم بھی خود سے علیحدہ رکھیں

 

بات اصل ہے یہی کرنا ہم کو ہے وہ

جس سے خوش ہم سے محبوب ہمارےرہیں

 

کرنا کیا ہے ؟ یہ معلوم کیسے ہو پھر

وہ طریقہ بتایا ہے کس نے ہمیں

 

اس کے محبوب نے جو سکھایا ہے تو

اس طریقے پہ بالکل ہی ہم بھی چلیں

 

یہ طریقہ ہے سیدھا جنت کا شبیؔر

نہ رکیں اور اس پہ ہمیشہ چلیں

 

 

گھر سے روانگی

گھر کے ساری ذمہ داریوں سے شرعی طریقے سے فارغ ہوکر دل سے پھر سب کو اپنے سمیت اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں ۔اس پر بھروسہ رکھیں اوردو رکعت صلوٰۃ حاجت اور مسنون دعا پڑھ کراس مبارک سفر پر روانہ ہوں۔

اب تیرے بھروسے پہ میں ہوتا ہوں روانہ

یا رب تو بنا دینا مجھے اپنا دیوانہ

 

پیوست کرے میرے تو رگ رگ میں محبت

کردے نصیب اپنی معرفت کا خزانہ

 

میں کیا ہوں گناہ گار سیار کار و غلط کار

رستہ مجھے نصیب ہوا ایسا جانانہ

 

اب دل سے میں دنیا سے کروں ہجر کی تدبیر

اب اس کی محبت کو میرے دل میں نہ لانا

 

اب شوق سے میں اللہ کو اپنے دل میں سماؤں

ہو جاؤں خوش نصیب اگر یوں ہو سمانا

شبیؔر تو عاجز ہے ، مگر تو تو ہے قادر

قدرت سے اب رسول کی سنت پہ چلانا

ہو سکے تو ان اشعار کو پڑھ کر اپنے گھر سے چلیں۔آپ کی حج کی جو بھی ترتیب ہے وہ تو آپ کو بتادی گئی ہوگی اور ظاہر ہے کہ آپ کو ایسا ہی کرنا چاہيے لیکن دل تو ہر جگہ آپ کے ساتھ ہوگا اس کو ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رکھیں۔ایک پر کیف دعا کے ساتھ کہ اے اللہ تعالیٰ میں چل تو پڑا ہوں تجھے پانے کے لیے لیکن منزل پر تو تو ہی پہنچائے گا۔ پس ہمیں اپنی ظاہری اور حقیقی منزل دونوں پر اپنے

حبیب پاکﷺ کے طفیل پہنچا دے۔پس آپ اگر حاجی کیمپ جارہے ہیں تو وہاں بھی حج کے مسائل سیکھنے کے ساتھ دل کی فہمائش بھی جاری رکھیں۔

اے دل اسی رستے پہ یوں جایا نہیں کرتے

محبوب کے رستے میں گھبرایا نہیں کرتے

 

کتنی ہوں تکالیف ہیں دشنام محبت

ماتھے پہ اس میں بل کبھی آیا نہیں کرتے

جی ہاں یہ رستہ یوں ہی ہے ۔قدم قدم پر چیکنگ ہورہی ہے اور قدم قدم پر نوازا جارہا ہے۔ہوش بھی قائم رکھنا ہےاور جوش بھی ۔

 

در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق

ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باختن

ہر حاجی کو یہ سمجھنا ہے کہ یہ میرے محبوب کا مہمان ہے ۔اگر اس کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تو کم از کم ا س کے لیے کسی پریشانی کا باعث تو نہ بنوں ۔پس جس طرح مریدین اپنے شیخ کی اولاد اور شاگرد اپنے استاد کی اولاد کی غلطیوں پہ دل برا نہیں کرتے تو ہم اللہ کے ان مہمانوں پہ دل کیوں برا کریں۔سارے کام حوصلے اور ہمت سے کرتے رہیں۔انتظامیہ کو محبوب کا دربان سمجھتے ہوئے۔ان کی درشتی اور سختی کو محبوب کا امتحان سمجھا جائے۔

مرے محبوب کو حق ہےکہ آزمالے مجھے

میں اس پہ مر مٹا جو ہوں اٹھا بٹھا لے مجھے

 

اس کا دربان بھی محبوب کا دربان ہے جب

ٹھیک آداب محبت ذرا سکھا لے مجھے

ہاں میں کمزور ہوں درخواست کروں گا اس سے

مجھ کو کمزور سمجھ کریوں ہی اپنا لے مجھے

میں ہوں جب شوق سے مجبور مری کیا اوقات

خود کرم کرکے رستہ آپ ہی دکھالے مجھے

مرے دشمن ہمہ وقت ساتھ مرے پھرتے ہیں

ان کی دھوکوں کے منجدھار سے بچالے مجھے

دل مرا اس پہ نظر اس پہ سوچ اس کی ہے

پکڑ کے میری انگلی پیار سے چلالے مجھے

رستہ منزل ہی ہے منزل کا کیا پتہ ہے شبیؔر

رحمت کی بانہوں میںاپنی مگر چھپا لے مجھے

ائر پورٹ پر ممکن ہو تو بہتر ہے کہ نہا کر ،نہیں تو وضو کرکے دو رکعت سنت احرام پڑھ کر ایک چادر کو تہہ بند کے طور پر باندھ لیں اوردوسری کو ساتھ رکھ لیں۔جہاز میں قمیص اتار کر دوسری چادر کو اوڑھا جاسکتا ہے۔خدا نخواستہ جہاز اگر لیٹ ہوا تو احرام کی پابندیاں لازم ہو چکی ہوں گی جس کی وجہ سے دم کا خطرہ رہے گا اور دم لازم آجانے کی صورت میں شیطان کے پریشان کرنے کا خطرہ ہوگا۔

شیطاں سے اپنے آپ کو بچانا ہے ضروری

اور نفس کو طریقے سے چلانا ہے ضروری

 

دینے پہ وہ مائل ہوں جب آسانی تو شبیؔر

نعمت سمجھ کے اس کو اپنانا ہے ضروری

اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ جہاز پر چڑھتے وقت بعض نادان ائر ہوسٹسز اور سٹیوارڈز ہاتھوں میں خوشبودار تولئے تھما دیتے ہیں اور حاجی ناواقفیت میں ان کو اپنے چہرے پہ مل لیتے ہیں جس سے ان پر دم آ سکتا ہے پس پہلے احرام باندھنا تو مستحب ہو گا لیکن دم سے اپنے آپ کو بچانا واجب ہےاور واجب کو مستحب پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔

دور میں بیٹھ کے دیدار سے محظوظ رہوں

قرب میں بے ادبی ہو نے سے محفوظ رہوں

 

مستحب نیکی سے گناہ سے ہے بچنا افضل

اپنے محبوب کا میں واقف ِرموز رہوں

جہاز میں احرام کی نیت اس وقت کی جائے جب اس کو روانہ ہوئے تقریباً دو گھنٹے گزرچکے ہوں ۔اس وقت احرام کی دونوں چادریں اوڑھ کر اگر دو رکعت سنت احرام پہلے نہ پڑھی ہو تووضو ہونے کی صورت میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھےہی سنت احرام پڑھ لی جائے کیونکہ یہ نفل نماز ہے اور نفل نماز سیٹ پر بیٹھ کر بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

جس طرح کام پسند ہو اس کو ویسا کر لوں

اس کی بنیاد پہ سوچوں کہ اب میں کیا کرلوں

جب سواری پہ نفل بیٹھ کے پڑھ چکےہیں محبوب

میں نفل سیٹ پہ کیوں نہ اس طرح ادا کرلوں

 

سنت احرام پڑھنے کے بعد عمرہ کی ، صرف حج کی یا حج اور عمرہ دونوں کی یعنی جیسے بھی آپکا ارادہ ہے نیت کر ليجئے۔ا سکے بعد کم از کم ایک دفعہ تلبیہ پڑھیں۔

کس کام کا ارادہ میں کر نے چلا ہوں اب

یہ فضل ہے اس کا ہی میں قابل ہوںاس کا کب

لبیک ہے زباں پر دل میں ہے اس کی یاد

بندہ ہوں گنہگارمیں حاضر ہوں میرے رب

نیت مری قبول ہو اورآسان بھی فرما

آپ میری معافی کا بناليجئے سبب

 

یہ نام بھی عظیم ہےاور کام بھی عظیم

میں اس میں بنا لوں نہ کہیں خود کو بے ادب

 

دل شوق سے پر اور زبان پر ہو ترا نام

مانگے شبیؔر اور بڑھا دے مری طلب

اس کے بعد لبیک کے ذریعے محبوب کے دربار میں زیادہ سے زیادہ حاضری لگاتے رہیں ۔کیا کوچہء یار میں آواز لگانے سے کوئی تھک سکتا ہے۔ہاں ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم اب قبول ہوجائیں اور اس کا ایک ہی دروازہ محبوب نے بتایا ہے۔ اور وہ اس کے محبوب کا طریقہ ہے اس لیے ہر کام اس کے محبوب کے طریقے پر ہی کرنا پڑے گا ۔سنی سنائی نہیں بلکہ محبوب کی بتائی چلے گی اور وہ کیا ہے۔

پانچ وقفوں کے ساتھ تلبیہ کہنا

لبیک ایک وقفہ

اللّٰھم لبیک دوسرا وقفہ

لبیک لا شریک لک لبیک تیسرا وقفہ

ان الحمد و النعمت لک و الملک چوتھا وقفہ

لا شریک لک پانچواں وقفہ

اس ترتیب کو تین مرتبہ دہرا ئیں۔

اس کے بعد ایک دفعہ درود شریف پڑھیں اور اس کے بعد کوئی بھی دعا مانگیں لیکن اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو یہ مسنون دعا ہے

اللّٰھم انی اسئلک رضاک و الجنۃ و نعوذ بک من غضبک و النار ۝

حاجی صاحبان جو کورس کی صورت میں تلبیہ پڑھتے ہیں وہ مسنون نہیں ہے۔ تلبیہ مسنون طریقہ پر انفرادی طور پر پڑھنا ہے۔ہاں تعلیم کے لیے کچھ دیر اکھٹے پڑھا جا سکتا ہے۔

جدہ میں انتظار

جدہ جو کہ سعودی عرب کا بین الاقوامی ائر پورٹ ہے۔اس میں چونکہ کافی کچھ ہوتا ہے اس لئے کافی لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔وہاں ایمیگریشن ،سامان کی چیکنگ،مکتب کے بسوں کا حصول وغیرہ کے تمام کاموں پر وقت صرف ہوتا ہے۔اجنبی ملک، اجنبی زبان اور اس پر رش ۔ان سب صبر آزما حالات سے سے حجاج کو جن میں سے اکثر کا یہ پہلا تجربہ ہوتا ہے ، کو گزرنا پڑتا ہے۔کسی صوفی کیلئے یہ برداشت کرنا تو اتنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ:

ذکر ذاکر کا انتظار آسان کرتا ہے

اسے پتا ہے کہ عقبیٰ میرا سنورتا ہے

مجاہدے کا تصور بھی نفس کی اصلا ح خوب

تو انتظار سے جو صوفی ہے نہیں ڈرتا ہے

لیکن باقی حجاج بھی عشق کے سفر پر ہیں وہ ان سے پیچھے کیوں رہیں وہ تو بزبان حال یوں گویا ہیں:

یار کو مطلوب جب انتظار ہوؤے

یہ انتظار گلے کاہار ہوؤے

 

ہم تو نکلے ہیں یار کو پانے

چاہے کوئی کوچہء یار ہوؤے

بے خانماں خانہ بدوش ہوں بس

مگر نصیب اس کا پیار ہووے

دو چادروں میں کفن پوش ہونے

دل ہمارا بھی پھر تیار ہووے

 

اس سے منسوب گھر کے گرداگرد

پھریں ، دل یوں پروانہ وار ہووے

 

نفس کو مغلوب کرنا اب ہے شبیؔر

ورنہ یہ شتر بے مہار ہوؤے

مکہ مکرمہ میں داخلہ

مکہ مکرمہ عظمتوں کا شہر، شعائر اللہ کا شہر۔بیت اللہ کا شہر جہاں آپ کا بچپن گزرا ، جہاں اسمٰعیل علیہ السلام کو شیر خواری میں ان کی ماں کے ساتھ فقط اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر چھوڑا گیا ، جہاں ہاجرہ بی بی بیٹے کو پیاسا دیکھ کر کسی قافلےکی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں اور یہ دوڑ اللہ تعالیٰ کو اتنی پیاری ہوئی کہ اس کو رہتی دنیا تک اپنےمحبوبوں کے لیے حج اور عمرہ میں واجب کردیا۔اس شہر میں داخلہ کے وقت دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہونا چاہيے۔

محبوب کے دربار میں ہے حاضری نصیب

شہر ِ عظیم میں ہے حاضری مری عجیب

 

یا رب مجھے توفیق ادب کی بھی عطا کر

میں دور نہ ہوجاؤں ، کرلے اور بھی قریب

جی ہاں! یہ عجیب شہر ہے۔ یہاں ہر نیکی ایک لاکھ کی اور گناہ بھی ایک لاکھ کا ہے۔نادان اسکی ایک لاکھ کی نیکی پر تو نازاں ہوتے ہیں اور سمجھ دار اس میں گناہ کا ایک لاکھ گنا ہونے سے لرزاں ترساں رہتے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمریہی تو کرتے تھے کہ نماز حدود حرم میں پڑھتے تھےلیکن رہائش حدود حرم سے باہر رکھتے تھے۔اسی کو سمجھداری کہتے ہیں۔

پہلی نظر

آہ! اب بیت اللہ شریف پر نظر پڑنے والی ہے۔دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی قریب ہے ۔ ہوشیار خبردار نہ وقت ضائع کرنا ہے نہ ہی موقع۔کسی مناسب جگہ پر کھڑے ہوکر کہ کوئی سامنے نہ آئے نہ دل بٹے تاکہ زیادہ سے زیادہ دعائیں اس وقت نصیب ہوجائیں۔

کم ازکم یہ تو کہہ لیں کہ: اے اللہ حسنِ خاتمہ نصیب فرما۔ اے اللہ ایمانِ کامل نصیب فرما ۔

اے اللہ مجھے اور آپ ﷺکی پوری امت کو ہدایت عطا فرما ۔

اے اللہ مجھے مستجاب الدعوات بنادے۔

اگر یہ فقیر آپ کو یاد آئے تو زہے نصیب ۔اس کے لئے تو یہ دعا فرمادیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا بنادے، کسی غیر کا نہیں۔

گناہ گار ہوں معافی تو مگر دے

میں کعبہ دیکھ لوں دل کی نظردے

 

کرم فرما کرم فرما دے مجھ پر

محبت میرے دل میں بھی تو بھر دے

 

میں تیرے غیر کو دیکھوں نہیں اب

بنوں تیرا مجھے آہ سحر دے

زبان پر ذکر تیرا دل میں قرآں

فضل سے اس کا حافظ مجھ کو کردے

نہ بھولوں اس کو اور تجھ کو نہ بھولوں

مری دعوت میں خود سے تو اثر دے

 

الٰہی اب شبیؔر کو کردے واصل

نظر کر پاک اور دل باخبر دے

اللہ کے گھر کا طواف

اگر آپ عمرہ کی یا حج قران کی نیت کرچکے ہیں تو اب آپ کو عمرے کا طواف کرنا ہے۔اور اگر حج افراد کی نیت ہے تو طوافِ قدوم کرنا ہے ۔ بہر حال آپ کی خوش قسمتی کہ اللہ کے گھر کا طواف آپ کو نصیب ہورہا ہےجومقام شکر ہے ۔کعبہ کی عظمت کا ادراک کرتے ہوئے حجر اسود کی جانب قدم بڑھائیے۔ چادر کو دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پہ ڈال دیں ۔یہ اضطباع کی حالت ہے اور حالت ِطواف میں یہی کیفیت رہےگی۔

حجر اسود کےمقابل آنے سے پہلے طواف کی نیت کرلیں۔

میں طواف کی سات چکروں کی نیت کرتا ہوں ۔اے اللہ اس کو قبول فرما اور آسان فرما ۔اور ہاتھ کانوں تک اٹھاکر

اللہُ اَکْبَرْ وَ لِلہِ الْحَمْدْ ۝

کہہ کر گرادیجئے ۔یہ گویا طواف کاتکبیر تحریمہ ہوگیا ۔اب حجر اسود کا ا ستلام کرنا ہے۔چاہيے تو یہ تھا کہ حجر اسود کو بوسہ دیا جاتا لیکن حجر اسود پہ خوشبو ہے جو احرام کی حالت میں استعمال کرنا منع ہے ۔کیوں نہیں؟

آدابِ عشق اور ہیں آدابِ ہوش اور

دیوانگی کی بات تو لاتی ہے جوش اور

خوشبو کی دلفریبی تو سنت سے ہے ثابت

ہاں عشق کا جب جام ہو کیجئے نوش اور

تیرے لیے عشاق کا نظام دلفریب

سنت سے بھی ثابت ہے یہ جوش و خروش اور

 

دو چادریں جو تیرے زیب تن ہوئی یہاں

تیرا یہی کفن ہے محبت کا پوش اور

 

محبوب کے محبوب کے محبوب طریقے

لے ان پہ چلو چاہیے کیا تجھ کو دوش اور

استلام کے لیے اشارہ کی اجازت ہے ۔اپنے دونوں ہاتھ اس طرح سامنے کریں کہ یوں محسوس ہوکہ یہ جیسے حجر اسود پررکھے ہوئے ہیں ۔اب ان کو چوم کر دائیں جانب گھوم کر طواف شروع کر لیں لیکن یاد رہےاگر یہ آپ کے عمرہ کا طواف ہے تو اس میں رمل بھی کرنا ہے کیونکہ اس کے بعد سعی ہے اور اگر طواف قدوم کے بعد سعی کا بھی ارادہ ہو تو پھر بھی رمل کرنا پڑے گا۔رمل طواف میں قوت کا اظہار ہے ہاتھوں کی جھٹک اور پیروں کی لپک سے قوت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔یہ صرف پہلے تین چکروں میں کیا جاتا ہے۔

ایک اہم نکتہ ۔بالائی منزل پر طواف کرتے وقت جو ابتدائے طواف کی جگہ کی نشانی بنی ہوتی ہے۔لوگ اس کا استلام کرتے ہیں حا لانکہ وہ حجراسود نہیں ہوتا ہے۔اس لیے استلام کرتے وقت ہاتھوں کا اشارہ اصلی حجرِاسود کی طرف کیا جائے یعنی ہتھیلیوں کو تھوڑا سا نیچے کی طرف موڑ کر استلام کیا جائے۔

دل مرا عشق سے بھرپور ہو اور صاف رہے

یا الٰہی مری قسمت میں یہ طواف رہے

جس طرح شمع کے گرد گھومتے پروانے ہیں

اس طرح میرا نہ اس گھر سے انحراف رہے

طواف کے دوران بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا منع ہے- کیوں؟

الٰہی تیری عظمت دل میں ہےاور ۔۔کعبہ ساتھ

تو چاہے دل ، لگاؤں مڑ کے میں اس کو ذرا ہاتھ

 

طواف اس کا کروں جس وقت اس کودیکھنا مکروہ

عقل میں کیسے آئے یہ جو ہیں سنت کی تعلیمات

 

انہی سے سیکھنے ہیں جو کہ انداز ِ محبت ہیں

اگر وہ دن کہے تو دن اگر وہ رات کہے تو رات

 

صحابہ کا رمل معمول تھا ہم بھی رمل کرلیں

یہ مسجد اور یوں چلنا ؟ کیا سمجھے عقل یہ بات

 

ہم عقل خام کو اصلی عقل کے واسطے توڑیں

کہے شبیؔر گر سمجھو اصل حج کی ہے یہ سوغات

اضطباع کو ساتوں چکروں میں جاری رکھتے ہوئے ہر چکر کی ابتدا میں استلام کے ساتھ سات چکر پورے کرلیں۔یہ کل آٹھ استلام ہو جائیں گے۔اس کے بعد دو رکعت واجب الطواف پڑھ لىجئے۔چونکہ آپ کا احرام جاری ہے اس لیے یہ نماز ننگے سر پڑھنی پڑے گی۔بڑوں کے سامنے ننگے سر ہونا بے ادبی ہے اور یہاں سب سے بڑے کے سامنے ننگے سر میں نماز ضروری ہے کیونکہ یہی انداز عاشقانہ انداز ہے ۔جب اس وقت یہی انداز محبوب حقیقی کو پیارا ہے تو ہمیں بھی یہی طریقہ اپنانا ہے کیوں؟

کیا ٹھیک کیا غلط ہے کیا اس میں میں سمجھوں؟

محبوب اس میں جو بھی کہے میں وہی کہوں

 

عاشق کی اپنی سوچ کہاں وہ تو ہے فانی

محبوب ہی دل میں ہے اس کی بات میں مانوں

 

میری تو یہ سمجھ ہے کہ جو سامنے دیکھوں

محبوب سے پوچھوں میں کہ میں اس کو کیا کہوں

 

شیطان اپنی سوچ سے کیسا ہوا مردود

مردود کے اغوا سے میں مردود کیوں بنوں

میخانہ دل میں مرے تصویرِ یار ہے

جب چاہوں ذرا سر جھکا کے میں اسے دیکھوں

کثرت سے سفر جانب وحدت ہے اب شبیؔر

بس ایک ہی نظر میں ہے تو کیوں نہ ھُو کروں

واجب الطواف

طواف پورا ہوجائے تو اس کا شکر ادا کرنے کے لیے دو رکعت نماز واجب الطواف پڑھنا واجب ہے۔یہ مقام ابراہیم کے قریب ادا کرنا سنت ہے لیکن اگر اژدہام ہو اور وہاں نماز پڑھنے میں طواف کرنے والوں کو تکلیف ہو یا اپنی جان کو خطرہ ہو تو حرم میں کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

کوشش یوں ہو کوئی بھی مستحب نہیں چھوٹے

اعمال کی اہمیت کی بھی ترتیب ہو سامنے

 

واجب کے مقابل ہو تو پھر ترک ہو مستحب

یہ قول ہے اہم کہ فقہ کا اصول ہے

اس کے بعد اللہ کا شکر کریں کہ اس نے عمرے کی اہم رکن کی تکمیل کرادی۔مزید ارکان میں آسانی اور قبولیت کی دعا کے ساتھ اپنی مطلوبہ دعائیں کرلیں۔

زمزم کا پانی پینا

اگر روزہ نہ ہو تو زمزم کا پانی پینے اور ملتزَم شریف پر حاضری میں اختیار ہے جو بھی پہلے کرنا چاہیں ، کرلیں۔اب چونکہ چاہ زمزم پر جانا ممکن نہیں اس لیے جو بھی قریب زمزم کا پانی مل جائے نوش فرمالیں ۔اس معجزاتی پانی سے لطف اندوز ہوں کیوں نہیں ؟آپ بھی اللہ تعالیٰ کے مہمان اور جنتی بھی ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنتی بنادے۔

زمزم پانی پینے کی دعا ہے۔

اللّٰھمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ عِلمًا نَافِعًا، وَ رِزقًا وَاسِعًا، وَ شِفَاءًمِن´ کُلِّ داء ۝

یہ دعا پڑھ کر خوب ڈٹ کر پانی پیئں۔

بجھا دے پیاس آج موقع ہے آپ زمزم کے پانی سے

پیئے اس کو جو جی بھر کے یہ ایماں کی علامت ہے

 

یہ واسطے جس بھی مقصد کے پیا جائے یقیں ہو گر

خدا کے فضل سے اس سے وہ مقصد پورا ہوجائے

دعا کرعلم نافع کر عطا مجھ کو خداوندا

عطا کر رزق واسع مجھ کو وافر اور شفاہووے

 

مجھے جو بھی مرض ہو اس سے یا رب میں شفا ء پاؤں

اسے پی کر خدایا حشر میں بھی ہوں نہ ہم پیاسے

 

ہمارے کام سب ہوں ٹھیک تو ہو مہرباں ہم پر

کریموں کا تو خالق ہے شبیؔر تیرا کرم چاہے

ملتزَم شریف پر حاضری اور دُعا

زمزم کا پانی پی کر اگر ممکن ہو تو ملتزَم شریف پر جائیں۔حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کی درمیان کی جگہ کو ملتزَم شریف کہتے ہیں ۔ اگر ملتزَم شریف سےچمٹنےکا موقع نہ مل سکےتو حرم میں کہیں سےبھی ملتزَم کی جانب منہ کرکےاسپر نظریں جما کر دُعا کرلیجئے۔یہ دعاؤں کی قبولیت کی خصوصی جگہ ہے۔اس لیے دل لگا کر دعا کیجئے۔ اس عاجز کو بھی گر یاد کرلیں تو بڑا احسان ہوگا۔

 

جو مانگیں ملتزَم پہ دعا وہ قبول ہو

جو دل کا ہو مراد تو اس کا حصول ہو

 

رحمت کے خزانے سے جس نے دل لگادیا

اس دل پہ رحمتوں کا پھر نہ کیوں نزول ہو

صفا مروہ کی سعی

صفا اور مروہ کےدرمیان مخصوص طریقہ پر سات چکر لگانےکوسعی کہتےہیں، حج اور عمرہ کرنےوالےپر سعی کرنا واجب ہے۔جس طرح طواف حجر اسود کےاستلام سےشروع ہوتا ہےاسی طرح سعی بھی حجر اسود کےاستلام سےشروع کرنا آپ کی سنت ہے۔ اسلئےحجر اسود کا استلام کر لیں۔ یا دور سےاسکی جانب ہتھیلیاں اٹھا کرہتھیلیوں کو چوم کر باب الصفا کی جانب بڑھیں۔یہ حجر اسو د کا نواں استِلام ہوگا۔

حجر اسود کی کی مخالف سمت میں بالکل سیدھ میں چلیں، اسی جانب صفا پہاڑی کا مقام ہےاور وہاں عربی و انگلش میںالصفاکا بورڈ لگا ہوا ہے۔ وہاں سےتھوڑا آگےبڑھنے کے بعد پہاڑ کی علامت شروع ہو جاتی ہے۔اب دل میں سعی کی نیت کریں اور زبان سےاِس طرح پڑھیں۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ السَّعیَ بَینَ الصَّفَا وَ المَروۃَ سَبعۃ اَشوَاطٍ لِوَجھِکَ الکَرِیمِ ، فَیَسِّرہ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی ۝

پھر دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائیں جیسےدعا میں اٹھائےجاتےہیں۔ اور خوب دعائیں مانگیں،تقریبا پچیس آیات پڑھنےکی مقدار کھڑےرہ کر اپنی رفتار سےذکر کرتےہوئے، دعا مانگتےہوئےمروہ پہاڑی کی طرف چلیں۔

صفا مروہ نشانی ہے خدا کی

یہ برکت ہے مگر اک باخدا کی

 

ترا محدود اس کا ہو گیا جب

رسی پکڑو گے اس کی انتہا کی

 

یہ پانچوں حس تمہاری پاک ہوویں

میسر تجھ کو ہے گر دل کی پاکی

 

قیامت تک یہاں دوڑیں گے سارے

قبول کتنی ہے دوڑ وہ ہاجرہ کی

 

نقل کرنا ہے یاں مطلوب شبیؔر

یہی سنت ہے سارے اولیاء کی

صفا مروہ کےدرمیان جب وہ جگہ آنےلگےجہاں دیوار میں سبز رنگ کےستون لگائےہوئےہیں اور وہ جب بقدر چھ ہاتھ کےدوری پرہو تو درمیانی چال سےدوڑنا شروع کریں اور دوسرے سبز ستونوں کےبعد بھی چھ ہاتھ تک دوڑیں، اس دوران دل کی گہرائیوں سےدعائیں مانگےاور یہ دعا پڑھتےرہیں ۔

رَبِّ اغفِر ،وَ ارحَمْ ط اَنتَ الاعزُّ الاکرَم ۝

پھر اپنی چال چلنےلگیں۔ آگےمروہ پہاڑی آئیگی ، اس پر چڑھیں اور بیت اللہ کی جانب رخ کرکےکھڑےہو کر جسطرح صفا پہاڑی پر ذکر و شکر اور دعائیں کی تھیں اسی طرح یہاں بھی کریں، اب آپکا ایک چکر مکمل ہوگیا، اسکےبعد مروہ سےصفا یہ آپکا دوسرا چکر ختم ہوا، بس اسی طرح آپکو سات چکر مکمل کرنےہیں۔ ساتواں چکر مروہ پہاڑی پر ختم ہوگا۔ اب آپ مطاف میں آکر کسی بھی جگہ دو رکعت نماز پڑھیں ، شرط یہ ہےکہ مکروہ وقت نہ ہو۔

 

حلق کرنا

اگر آپ کی عمرہ کی نیت تھی تو اس کے بعد شوق سے حلق کرا کے یعنی سر کو منڈوا کر احرام کھول دیجئے ۔آپ قصر بھی کرسکتے ہیں یعنی ایک چوتھا ئی سر کے بال اگر ایک پور سے زیادہ ہیں تو ایک پور کے برابر تراش کر احرام کھول سکتے ہیں لیکن اگر آپ عشق کے مسافر ہیں تو سر کو ہی منڈوا لیجئے کیونکہ آپ نے اس موقع پرسر کو منڈوایا ہے نیز آپ نے سر منڈوانے والوں کے لیے تین دفعہ اور قصر کرنے والوں کے لیے ایک دفعہ دعا فرمائی ہے۔فرق صاف ظاہر ہے ۔خیر کسی نے صحیح قصر کرلیا تو بھی ٹھیک ہے لیکن حنفی ہوکر چند بالوں کو تراش کر قصر پر مطمئن ہونے والو! کیا محبوب کو پانے سے اپنی محبوب زلفیں زیادہ عزیز ہیں ذرا سوچو تو سہی!

آپ نے پیاری زلفیں منڈوا کر اپنی امت کو کچھ سکھایا ہے

عشق کی اس منفرد عبادت میں اپنے مٹنے کو یوں بتایا ہے

 

ایسے موقعہ پہ زلفیں پیاری ہوں ایسا ہو ذوق تو عجیب ہے وہ

چاہئیے خود کو مٹائیں یوں ہم اس کا یہ راستہ دکھایا ہے

 

ٹھیک ہے قصر کرنا بھی ہے ٹھیک اپنے مسلک کے مطابق ہو گر

چند بالوں کے بچانے کے لیے اپنے مَسلک کو کس نے ڈھایا ہے

 

خواہش نفس اتنی غالب ہو اپنے مسلک کو چھوڑنا ہو آسان

حب دنیا کے سامنے ڈھیر ہے وہ شوق جس نے بھی یوں رچایا ہے

نفس کو عقل سے اور عقل عشق سے کرنا مغلوب حج کی روح ٹھہری

اس سے محروم خود کو کرکے شبیؔر ذوق کیسا کسی نے پایا ہے

حج تمتع والے اب عام کپڑوں میں جبکہ حجِ افراد اور حجِ قِران والے احرام ہی میں حج کا انتظار کریں گے۔

حج کی تیاری اور انتظار

آٹھ ذی الحجہ سےحج کےارکان شروع ہوجاتےہیں، آٹھویں ذی الحجہ کا سورج طلوع ہونے کےبعد احرام کی حالت میں مکہ مکرمہ سے منیٰ کےلئےروانہ ہونا ہے۔ حج کا احرام حدود حرم میں کسی بھی جگہ سےباندھا جا سکتا ہے۔یہ اپنی قیام گاہ پر بھی باندھ سکتےہیں۔نفل طواف کرکےسر ڈھانک کر دو رکعت واجب الطواف پڑھیں۔ اسکےبعد سر کھول کےاحرام کی نیت اسطرح کریں۔

 

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ الحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی لَبیکَ اَللّٰھُمَّ لبّیک لبَّیک لا شَرِیکَ لَکَ لبَّّیک، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمۃ لَکَ وَ المُلکَ، لا شَرِیکَ لَکَ ۝

 

نیت کرکے اور تلبیہ پڑھ کےآپ محرم ہوگئےاور احرام کی وہ ساری

پابندیاں آپ پر عائد ہوگئیں جو عمرہ کےاحرام کےوقت تھیں۔حج ایک مشکل عبادت ہے لیکن عشق اس منزل کو آسان کرتا ہے ۔اس کی ہر دعا کے ساتھ یہ کہنا لازم ہے کہ اے اللہ اس کو آسان فرما ۔بہر حال عشاق کے لئے تو :

 

حج کے مزے مزے تو ہیں پر کلفتیں بھی کم نہیں

عاشق مزے اس کے نہ لے یہ غم تو ایسا غم نہیں

 

محبوب کی ادائیں ہیں اور چھیڑ ہے سمجھو اگر

کعبے کے گردگھوم جا کعبہ ہے یہ صنم نہیں

 

عشاق کی اداؤں کو لازم کیا عشاق پر

عاشق نہ ہو کوئی تو پھرسمجھے یہ زیر و بم نہیں

 

جب فاصلے زیادہ تھے رش کی بلا نہیں تھی پھر

اب رش کا زور خوب ہے سفر کا گو الم نہیں

 

اللہ کے بھروسے نے کیا ہاجرہ بنادیا

ضائع جو اس کی دوڑ کا کوئی یہاں قدم نہیں

 

وہ باپ جو حلیم ہے بیٹے پہ مہرباں بھی ہے

بیٹے کو ذبح کرنے میں اس کو کوئی شرم نہیں

 

دھکے پہ دھکے کھائے جا گر گر کے بھی سنبھل شبیؔر

عاشق ہو کیونکر آنکھیںبھی گر اس خوشی میں نم نہیں

 

منیٰ کےلئےروانگی

آٹھویں تاریخ کو آپ نےحج کا احرام باندھ لیا، اب آج ہی آپکو منیٰ جانا ہے، منیٰ میں کوئی خاص عمل آپ کو نہیں کرنا، بس ظہر، عصر، مغرب، عشاءاور ٩، ذی الحجہ کی فجر کی نماز منیٰ میں اد ا کرنی ہیں۔آج سے نفسانی عقل اور عشق حقیقی کا معرکہ شروع ہورہا ہے۔اس میں ثابت قدم رہنا پڑے گا۔جو دشمن اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنے عظیم باپ کے خلاف اُ کسا رہا تھا جس پر اسمٰعیل علیہ السلام نے اس کنکریاںرسید کی تھیں وہ موجودہ ہے اور اس کے دل میں زبردست کینہ ہے وہ آپ کے دل میں بھی قدم قدم پر وسوسے ڈالے گا لیکن اس کا جواب تو ایک عاشق ہی دے سکتا ہے دیکھتے ہیں کہ عاشق اپنے دل سے کیا کہہ رہا ہے؟

اے دل کوچہ ء عشق میں جانے کے لیے چل

محبوب کو منیٰ میں منانے کے لیے چل


سب کچھ مرا قُربان ہو محبوب پہ ابھی

دیوانگی سر ننگے دکھانے کے لیے چل

 

بیٹے کو ذبح کرنا تھا خلیلؑ نے جہاں

تو بھی قدم وہاں کچھ اٹھانے کے لیے چل

 

ڈیرہ جمانا آج کہاں تجھ کو ہے نصیب

راہ فنا پہ قدم جمانے کے لیے چل

 

عشاق کا لباس زیب تن کئے شبیؔر

انگوٹھا عقلِ نفس کو دکھانے کے لیے چل

 

نویں ذی الحجہ کو عرفات کےلئےروانگی

نویں ذی الحجہ کی صبح سورج نکلنےکےبعد منیٰ سےعرفات جانا ہے، آج مغفرت کا دن ہے، آج یوم عرفہ ہے، مسئلہ کی رُو سےمیدان عرفات میں 9، ذی الحجہ کی دو پہر سے 10، ذی الحجہ کی صبح صادق تک کچھ دیر کا قیام حج کا رکن اعظم ہے، جس کےبغیر حج ادا نہیں ہوتا۔
9
، ذی الحجہ کو فجر کی نماز کےبعد تکبیرات تشریق شروع ہو جاتی ہیں، منیٰ اور عرفات دونوں جگہ فرض نمازوں کےبعد ایک بار بلند آواز سےتکبیر تشریق پڑھیں۔

اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہُ اَکْبَر ، لَااِلٰہَ الاّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَر ، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدْ

9، ذی الحجہ کی فجرسے10، ذی الحجہ تک فرض نماز کےبعدپہلےتکبیر تشریق اور پھر تلبیہ پڑھیں، چونکہ تلبیہ دسویں تاریخ کی رمی کےساتھ ختم ہو جاتا ہےاس لئےباقی ایام میں (یعنی 13، ذی الحجہ کی عصر تک) صرف تکبیرتشریق پڑھیں۔

 

تجھے پتہ ہے کہاں ہے جانا قدم بڑھانا قدم بڑھانا

ملے گا تجھ کو وہاں پہ رحمت کا آج کتنا بڑا خزانہ

 

قدم قدم پر ملے گاتجھ کوکیا ؟ یہ سمجھو ذرا اے حاجی

اصل میں یہ تو ہے رب کی جانب سے مغفرت کا بس اک بہانہ

 

یہ وہ جگہ ہے جہاں پہ شیطان کو آج ملتی ہے کتنی ذلت

معاف کروا کے خود کو روکر ،لے اس کے دل کا ذرا نشانہ

 

یہی تو دن ہے کہ اس کی خا طریہ لوگ آئے ہیںکہاں کہاں سے

قبول تیری یہ حاضری ہے ،تو منہ پہ لبیک خوب سجانا

 

اگرچہ کچھ بھی نہیں ہیں رکھتے کہ پیش کردیں ہم اسکے آگے

پسند اس کو مگر بہت ہے تری ادا آج یہ عاشقانہ

یہاں پہ محشر کا ایک سماں ہےتری نہ لوگوں پہ کچھ نظر ہو

شبیؔر یکسو تو خود کو کرلے کہیں نہ رہ جائے اس کو پانا

فی زمانہ بہتر یہی ہےکہ اپنےاپنےخیمےمیں روزانہ کی طرح ظہر اور عصر کی نماز اپنےاپنےوقت میں پڑھی جائے۔ وقوفِ عرفات کا وقت زوالِ آفتاب سےشروع ہو جاتا ہے۔اس لئےظہر کی نماز سےفارغ ہو کر وقوف میں مصروف ہو جائیں۔ سایہ کےبجائےدھوپ میں وقوف کرنا بہتر ہے، ہاں اگر کسی ضرر یا بیماری کا اندیشہ ہو تو سایہ میں اور خیمہ میں بھی وقوف کیا جا سکتا ہے۔ ہوسکےتو قبلہ رُخ کھڑے ہوکر پورا وقت یعنی مغرب تک وقوف کیجئے۔ اگر پورا وقت کھڑے رہنا مشکل ہو تو جتنی دیر کھڑے رہنےکی طاقت ہو، کھڑے رہیے۔ ضرورت ہو تو وقوف کےوقت بیٹھنا بلکہ لیٹنا بھی جائز ہے۔

مغرب کا وقت داخل ہوتے ہی کوچ کا وقت آگیا ۔کیا نماز نہیں پڑھنی؟ ابھی نہیں ۔کیوں؟ کیونکہ عاشقوں کو پہلے عشق کی ایک اور منزل پر پہنچنا ہے۔نمازوہاں پہنچ کر پڑھیں گے۔وہ منزل کیا ہے ؟ وہ ہے مزدلفہ ۔اور مزدلفہ جانے کو قافلے چل پڑے ۔کچھ سواریوں پر کچھ پیدل ۔ ہر کوئی مےِعشق کا جام پئے ہوئے ہے۔ روحانیت کے عروج کا مزہ چکھ کر عشق کی اگلی منزل کے لیے اب گویا تیار ہیں ۔ہجوم بیشک بہت ہے مگر دل کیفیت سے پر اور اگلی منزل کے لئے بے چین ہوا جارہا ہے۔

محبوب کے مہمان تھے جانے اس نے کیا دیا

دریائے مغفرت میں ہی غوطہ لگوادیا

 

 

نکلے یہاں پہ تیرے جو آنکھوں سے ہیں آنسو

ان کو بھی مغفرت کا ذریعہ بنا دیا

 

اس تیری مغفرت سے تو شیطان ہوا ذلیل

کچھ کر نہیں سکا تواپنا منہ چھپا دیا

 

کیا آج اس عرفات کو آنے کا تھا مقام

جواد نے دریائے مغفرت بہادیا

 

ہے مزدلفہ عشق کی منزل ترے آگے

وہ دن کی اِس کو رات کی منزل بنادیا

 

مغرب پڑھیں گے کب کتاب عشق میں ڈھونڈو

مزدلفہ پہنچ کر ہی ،کسی نے سنا دیا

 

سمجھا کہ سمجھنا کتاب عشق میں یوں ہے

شبیؔر وہی ٹھیک جو اس نے بتا دیا

اب لاکھوں انسانوں کی یہ بستی یہاں سےتین میل دورمنتقل ہو جائیگی۔ اور لیجئےاب مزدلفہ پہنچ گئے۔

ہم کو ملی نصیب سے مزدلفہ کی یہ رات

پرکیف و مزیدار ہے محبوب کی ہر بات

 

مغرب ہے پڑھنی پہلے بعد اس کے پھر عشاء

عاشق کی مختلف ہے آج ترتیب عبادات

 

آرام کچھ تو نیت سنت سے ہے کرنا

یہ شب شب قدر ہے ،لیل لیلِ مناجات

 

رخ دل کا اس طرف ہو زبان ذکر پہ اس کے

عاشق کے دل سے پوچھ کہ آج اور ہیں حالات

 

اب خود کو کردے پیش رضا اس کی مانگ لے

خوب لوٹ لے شبیؔر آج اس کےبرکات

 

بتلایا گیا ہےکہ مزدلفہ میں رات ٹھہرنےوالےحجاج کےحق میں شب قدر سےبھی افضل ہےاس لئے اس رات کی عظمت اور قدرو قیمت کو یاد رکھیئے۔ یہ رات جاگ کر گزاری جائے۔ عبادت، ذکر، استغفار، توبہ اور درود شریف میں مشغول رہیں، نوافل پڑھیں۔ لیٹنا یا سونا منع نہیں ہے، فجر کی نماز صبح صادق ہو تے ہی اندھیرےمیں پڑھیں۔تاکہ صبح صادق کےبعد تھوڑی دیرمزدلفہ میں وقوف جو کہ واجب ہے،اس پر بھی عمل ہو جائے۔ مزدلفہ کےوقوف کا وقت صبح صادق کےبعد سے شروع ہوکر سورج نکلنےتک رہتا ہے، مزدلفہ سے منٰی روانگی سےپہلےیاد رکھنا چاہیےکہ آپکو منٰی جا کر شیطان کو کنکریاں بھی مارنی ہیں اوراس کا انتظام یہیں مزدلفہ سےہی کریں، کم از کم ستر کنکریاں ایک تھیلی میں رکھ لیں، جب 10 ذی الحجہ کی صبح کا اجالا آسمان پر پھیلنےلگتا ہےتو انسانوں کا یہ سمندر ایک بار پھر منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے۔

منٰی میں قیام اور رمی جمار

دسویں تاریخ کو صرف جمرہ عقبہ کی رمی کرنی ہےاس پر پہلی کنکری پھینکتےہی تلبیہ پڑھنا موقوف ہو جاتا ہےلہذا اسکےبعد تلبیہ نہ پڑھیں۔جمرہ عقبہ کی رمی کا مسنون وقت طلوعِ آفتا ب سے زوال تک ہے۔ مباح وقت بلا کراہت مغرب تک ہےاور کراہت کےساتھ مغرب سے شروع ہو کرصبح صادق سےپہلےتک رہتا ہے۔ رمی کےساتھ تکبیر کہنا مسنون ہے۔ جب کنکریاں ماریں تو یہ دعاپڑھیں۔

بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر، رَغماً لِلشَّیطَانِ وَ رِضًی لِلرَّحمَان ۝

 

کھلا ہے دشمن ہمارا شیطاں تو ہم بھی دشمن ہی اس کو جانیں

یہ وسوسے ہی تو ڈالتا ہے تو بات اس کی کبھی نہ مانیں

 

رہ سنت پہ ہی چل کے اس کو ذلیل کرنا ہے اس کا ممکن
طریق سنت پہ آگے بڑھ کے طریق مسنوں سے اس کو ماریں

جو گالی دیتے ہیں اس کو،یہ بھی طریقہ اس نے ہی ہےبتایا

وہاں چپل بھی جو اس پہ پھینکیں یہ بھی ہیں اس کی ہی کچھ ادائیں

دعائے مسنون پڑھ کے شبیؔر طریق مسنوںسے ماریں کنکر

اسی میں ذلت ہے اس کی پنہاں اسی میں ہمت ذرا دکھائی

قربانی

اگر آپ حج تمتع کررہے ہیں تو اللہ تعالی نے چونکہ آپکو اس نعمت سےسرفراز فرمایا لہذااسکےشکرانےکےطور پر قربانی کرنا واجب ہے۔ رمی کےبعد پہلےقربانی کیجئے پھر حلق یا قصر کرواکر احرام کھول دیجئے۔ اب آپ سِلےہوئےکپڑے پہن سکتےہیں، خوشبو لگا سکتےہیں اور احرام کی حالت میں ممنوع جملہ امور انجام دے سکتےہیں مگر ابھی بھی آپکی بیوی آپ پر حلال نہیں ہوئی ۔جب آپ طوافِ زیارت ادا کرلیں گےتو احرام کی باقی یہ ایک پابندی بھی ختم ہو جا ئے گی یعنی آپکی بیوی بھی آپ پر حلال ہوجائیگی۔

دیکھو ذرا یہ کام ہے کس چیز کی دلیل

بیٹے کو ذبح کرتا ہے اللہ کا خلیل

بیٹے کو گرایا ہےاور ہے ہاتھ میں چھری

اللہ کی محبت میں بہت زور سے پھیری

یہ سوچ کے ہوتی ہے عقلمند کو جھرجھری

یہ عشق کا میداں ہے یہاں سوچ کہاں ہے

یہ عقل کا نہیں ہے کوئی اور جہاں ہے

اللہ نے جب عشق کا دیکھا یہ نظارہ

اس نے بھی جبریئل کو بہت جلدی سے بھیجا

اور ساتھ ہی جنت سے اس کے ساتھ وہ مینڈھا

جلدی چھری کے سامنے ہی پھر رکھ دیا اس کو

خلیل نہیں جانتے کہ ذبح کیا کس کو

دیکھا تو سامنے ذبح شدہ مینڈھا پڑا ہے

بیٹا قریب اس کے ہی محفوظ کھڑا ہے

اللہ نے قبول یہ کام کتنا کیا ہے

فرمایا تو نے خواب سچا کرکے دکھایا

اور اس عمل کو آگے بھی کس طرح بڑھایا

کرتے ہیں مسلمان جو قربانیاں ہر سال

تو سامنےہوتی ہے یہی عشق کی مثال

اور اس سے مزین ہوئے حج کے ہیں یہ اعمال

چلتا رہے ہمیشہ یہی عشق کا سفر

ہوجائےاب شبیؔر کے دل پر بھی کچھ اثر

طواف زیارت

یہ طواف حج کا رکن اور فرض ہے۔یہ طواف عام طور پر قربانی اور سر منڈانے کےبعد سِلےہوئےکپڑوں میں کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ سوچ میں پڑ جاتےہیں کہ سلےہوئےکپڑوں میں طواف اور سعی کیسےکی جائے؟ تو خیال رہےکہ اسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں، آپ طواف زیارت اور سعی سلےہوئےکپڑوں میں بھی کر سکتے ہیں، طواف کے پہلےتین چکروں میں رمل بھی ہوگا، ہاں اب اضطباع نہیں ہوگاکہ اس کا اب موقع ختم ہو گیا۔

الحمد للہ دسویں ذی الحجہ کےسارے کام انجام پا گئے۔ اب آپ مکمل طور پر احرام کی پابندیوں سےفارغ ہو گئے۔ بیوی بھی اب آپ پر حلال ہو گئی۔ فارغ ہو کر آپ پھر واپس منیٰ چلےجائیں۔ طواف ِزیار ت کےبعد دو رات اور دو دن مزید منیٰ میں قیام کرنا ہے۔

سیاہ غلاف میں کعبہ ہے مرکز تنویر

یہ گھر خدا کا ہے دنیا میں نہیں اس کی نظیر

 

یہ حج کے بعد اس کے گرد کیا نظارہ ہے

ہر ایک حاجی نظر آئے اس کی زلف کا اسیر

 

حج میں حجاج نے عشاق کے احوال دیکھے

تب ان کے سامنے آیا یہ عشق کا بد رمنیر

 

لباس عشق میں حاجی گرد اس کے گھوم پھرے

لباس عام میں لیتے ہیں اب اس کی تاثیر

 

کہاں یہ عشق کی دنیا کہاں غرقِ دنیا

خدایا اپنے لیے کیجیے قبول شبیؔر

11 اور 12 ذی الحجہ کو تینوں جمروں کی رمی کرنی ہےاور آج رمی کا وقت زوالِ آفتاب کےبعد ہے۔ اپنےخیمےیا مسجد خیف میں ظہر کی نماز ادا کریں اور پھر رمی کےلئے چل پڑیں۔راستہ میں سب سےپہلےجمرہ اولیٰ “ چھوٹا شیطانآئےگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کل جمرہ عقبہ کی رمی کی تھی، اس پر سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکر ی پر

بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَرْ، رَغمَاً لِلشَّیطَانِ وَ رِضًی لِلرَّحمَانِ- پڑھیں

رمی کےبعد ذرا ہٹ کر قبلہ رخ کھڑےہو کر دعا کریں۔ توبہ، استغفار اور تسبیح و ذکر کےبعد درود شریف پڑھیں، اپنےلئےدعا مانگیں، اپنےدوست و احباب کےلئےبھی دعا مانگیں۔ اس کےبعد آگےچلیںجمرہ وسطیٰ” “درمیانی شیطانپر آئیں اور اسی طرح سات کنکریاں ماریں، جس طرحجمرہ اولیٰ” پر ماری تھیں اور ذرا ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دعا مانگیں اور اتنی دیر ہی ٹھہریں جتنی دیر جمرہ اولیٰ” پر ٹھہرےتھے۔ اس کےبعدجمرہ عقبیٰ” بڑےشیطان پر آئیں۔ اسی طرح سات کنکریاں اس کو بھی ماریں، جس طرح پہلےماری تھیں، مگر اس جمرہ پر نہ ٹھہریں نہ ہی دعا مانگیں ۔

11 اور 21 کو منیٰ میں رہنا احناف کے نزدیک سنت اور بعض آئمہ کے نزدیک واجب ،آخر کیوں مکہ مکرمہ کو چھڑوا کر اس واد ی میں ٹھہرنے کا حکم ہے ۔اس کا سوال کوئی فلسفی کرے تو کرےعاشق کے لئے تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے کیا ہے اور بس۔ وہ تو بزبان حال کہتے ہوں گے:

آپ بیٹھے ہوئے ہونگے اور صحابہ بھی یہاں

ہم جو بیٹھے دو چادروں میں ہیں منیٰ میں یہاں

 

ایک تقدس کے ساتھ اتنی آزادی کے ساتھ

ہم کہ بیٹھے ہیں یہ حالت ملے گی اور کہاں

 

یہ مناسک اپنی تاریخ ہے اور اپنا مقام

کیا برکات اور کیا حکمتیں ہیں ان میں نہاں

 

یہ بندگی کے نظارے اور عشق کے انداز

ملے گا کیسے بغیر اس کے ہمیں ایسا سماں

روح آزاد کو باندھا ہے نفس نے بنددربند

نفس نے کچھ چھوڑ دیا شبیؔر ہمیں یاں بے مکاں

12ذی الحج کو اختیار ہے کہ غروبِ آفتاب سے پہلے حدود منیٰ سے نکل جائیں۔ایسا کرنے والوں کے سوائے طوافِ وداع کےباقی سارے مناسک مکمل ہوگئے۔البتہ وہ عشاق جو اللہ تعالیٰٰ کی خاص مہمانی سے ایک دن اور لطف اندوز ہونا چاہیں تو ان کو ابھی کہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔ان کو عشاق کی سر زمین میں ایک اور دن ٹھہرنے کی اجازت ہے۔بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ کسی کو فلایئٹ وغیرہ کی پریشانی بھی نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ جلد از جلد حدود منیٰ سے نکلنے کے لئے بیتاب ہیں اور سامان اٹھائے خطرات مول لے کر حرم جارہے ہوتےہیں۔کاش سمجھ ہوتی تو آسانی بھی ہے مہمانی بھی ۔

دیکھئے اس سلسلے میں عشق کی زبان پر کیا آرہا ہے:

محبت سے ٹھہرنا تیرھویں ذی الحج کو حاجی کا

اشارے سے بتائے ذوق والوں کو نہ جانے کیا

 

خدا کی راہ میں ایک دن مزید منیٰ میں رہنا ہو

یہ لازم تو نہیں ہاں ہے مگر یہ دل کا اک سودا

 

مکہ شہر مبارک ہے وہاں جانا مبارک ہے

اجازت اس میںہے تاخیر کی توسوچنا کیسا

یہ جانے کے لئے جلدی مچانا کوئی کیا سمجھے

یہاں تو ہو رمی ایک اور دن پھر ہو ثواب زیادہ

 

نفل حج کے لئے آئے ہیں جو ان کے لئے توبس

بہت زیادہ اجرلینے کا ہے شبیؔر اک موقع

تیرھویں ذی الحج کی رمی کی زوال سے پہلے بھی اجازت ہے لیکن زوال کے بعد رمی کرنا مستحب ہے ۔جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

تھوڑی محنت سے گر سنت پر عمل ہووے نصیب

خوش قسمتی ہے اس سے اور ہوں جنت کے قریب

 

تیرھویں کی رمی زوال کے بعد ہم کرلیں

برکات اس کے ملیں ہم کو پھر عجیب و غریب

 

کچھ مشکلات انتظامی تو نظر آتے ہیں

اگر ہمت ہو یہ سب اجر عظیم کے ہیں نقیب

 

عقل جو رب نے عطا کی ہے استعمال کرلیں

جو محبت بھی ہو اس کی بنے کیا خوب ترکیب

ہر ایک مشکل میں وہ آسان کرے ہے رستہ

ہم اگر سامنے رکھیں شبیؔر اس کی ترتیب

مستحب کیا ہے ۔پسندیدہ ۔کس کا پسندیدہ ۔اللہ کا پسندیدہ۔کس طرح ؟ مکہ مکرمہ اس وقت جانے سے بھی پسندیدہ ۔عاشق صرف محبوب کی رضا چاہتا ہے ۔اس کو کوئی اور زبان آتی ہی نہیں وہ یوں کہے:

 

کمال عشق ہے اس میں کہ دیکھتے ہی رہو

جو وہ ٹھہرائے خوشی سے تو ٹھہرتے ہی رہو

 

جو وہ چپ رہنے کو کہہ دیں تو پھر توہونٹ سی لو

اور اگر کہنے کو کہہ دیں وہ تو کہتے ہی رہو

 

اگر وقار پہ خوش ہوں تو پر وقار بن جاؤ

جب مچلنے کا اشارہ ہو مچلتے ہی رہو

 

جب تجھ سے پیار وہ چاہے تو پھر پیارے بن جاؤ

اور اگر ڈرنے پہ خوش تو پھر ڈرتے ہی رہو

 

جان اس کی ہے تو اس کے لیے جینا ہو شبیؔر

اور اس کے ساتھ ہی بس اس پہ ہی مرتے ہی رہو

ایسے حجاج 13 ذی الحج کو زوال کے بعد رمی سے فارغ ہوکر حرم تشریف لے جائیںاور حرم کے قرب سے اس وقت تک مستفید ہوتے رہیں جب تک

اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھا ہے۔ایک بات یاد رکھیں ۔ مسجدِحرام میں تین حصے ہیں۔ ایک حصّہ طواف کرنے والوں کے لیے ، ایک حصّہ نماز پڑھنے والوں کے لیے

اور ایک حصّہ صرف خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں کے لئے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو وقت کی قدر کریں اور فضول پھرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں ۔فضول پھرنے سے آرام بہتر اور آرام ہو چکا ہو تو کام بہتر ۔

ذرا باہر قافلوں کو حرم جاتے دیکھیں کیا آپ کے دل کے کیفیت تبدیل نہیں ہورہی ہے:

 

ہیں حرم کے واسطے قافلے رواں دواں

رحمت الہی ہے سامنے جو بيکراں

 

بوڑھے بھی جوان بھی عورتيں اور مرد بھی

بخششوں کے واسطے آرہے ہيں جو يہاں

 

راستے حرم کے ہيں کيسے اب بھرے بھرے

بوڑھے بوڑھے لوگوں کی ہمتيں جواں جواں

 

قوم و ملک ہيں مختلف مختلف زبانيں ہيں

سب کا رخ ہے اک طرف اور کعبہ درمياں

نور کی شعاءوں ميں سب نہا رہے ہيں جو

نور لے رہے ہيں سب جائیں گے کہاں کہاں

 

فلسفہ نہيں ہے يہ عشق کی يہ باتيں ہيں

اب سجاؤ دم بدم دل ميں عشق کا سماں

 

دل جسم کا بادشاہ دل بناؤ دل يہاں

دل بنانے کے ليے خوب ديکھو يہ مکاں

 

دل خدا کا گھر بنا گھر خدا کا ديکھ کر

شايد لوٹ آئے نہ پھر کبھی يہی زماں

 

کيا سے کيا ہوا يہاں کيا سے کيا بنا يہاں

کيا قدر خدا نے کی يہ ہيں سب نشانياں

 

ياالٰہی اب شبير کا يہ دل قبول کر

شاں تيری اور ترے حبيب کی کرے بیاں

خانہ کعبہ کو دیکھئے اور نظروں سے محبت کے جام پر جام پیتے رہیے ۔یہی موقع ہے ،ضائع نہ ہو ۔

ذرا دیکھئے شاعر خانہ کعبہ کو کیسے دیکھ رہا ہے۔

میں نوری کعبہ کو دل میں سماؤں

جب اس کے سامنے میں بیٹھ جاؤں

یہ رحمت کا سمندر موجزن ہے

میں کچھ حصہ الٰہی اس سے پاؤں

 

مرے ہے سامنے تیری کریمی

تہی دست میں یہاں سے کیسے جاؤں

 

جو اب ہے سامنے میزاب رحمت

الٰہی تر بتر اس سے نہاؤں

 

دیوانے اس کے گرد اس کے ہیں گھومتے

میں ان کے ساتھ کچھ چکر لگاؤں

 

مقام عشق مجھے کردے نصیب اب

کہ میں ہر وقت ترے گن گاتا جاؤں

 

ترے در پر پڑا ناچیز شبیؔر

کرو ایسا قبول بار بار آؤں

اگر آپ حج سے پہلے مدینہ منورہ نہیں گئے تو وہاں جانے کا وقت جب آجائے تو انتہائی سوز اور کیفیتِ ہجر کے ساتھ طوافِ وداع کرلیں ۔

خدا کے گھر سے جدائی کا وقت طواف وداع

بس اک کیفیت ہجری کا وقت طواف وداع

 

دوبارہ ملنے کی درخواست کا یہی ہے وقت

غلطیوں کی بھی تلافی کا وقت طواف وداع

 

ملن کا جوش جو امڈا تھا بن گئی حسرت

اس پہ اندر سے تسلی کا وقت طواف وداع

 

دل کو خوب اس کی طرف کٹ کٹا کے کر مرکوز

دل سے بھرپور عاجزی کا وقت طواف وداع

 

وہ جو ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہے اے شبیؔر

دعا رضائے دائمی کا وقت طواف وداع

مدینہ منورہ کو روانگی

آپ کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جو حج کو آئے اور میرے پاس نہ آئے اس نے میرے ساتھ بے وفائی کی۔اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں ۔ایک شخص انگلینڈ سے لاہور کسی کام کے سلسلے میں آتا ہے اور فیصل آباد میں اس کے والد رہتے ہیں ۔وہ شخص لاہور میں اپنا کام کرکے فیصل آباد میں اپنے والد سے ملے بغیر واپس انگلینڈ چلا جائے تو اس کے والد کیا کہیں گے؟ وہی نا جو آپ کے ارشاد کا مفہوم ہے۔اس لئے مدینہ منورہ جانے کے لئے دوسری تیاریوں کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تیار کریں۔ یعنی آپ کے ساتھ ملاقات کی تیاری ۔بعض لوگ خوا مخواہ فضیلتوں کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں۔وہ لوگ اپنے دل میں باور کئے ہوتے ہیں کہ مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور مدینہ منورہ رسول اللہ کا ۔ان نادانوں کو کوئی سمجھائے کہ خدا کے بندو اللہ تعالیٰ تو ہرجگہ موجود ہیں جبکہ آپ مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہیں۔مکہ مکرمہ بھی اللہ تعالیٰ کا اور مدینہ منورہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہے۔مدینہ منورہ جانے کے لئے توآپ کا ارشاد ہی کافی ہے اس لئے جہاں تک عقیدہ کی بات ہے تو وہ تو مدینہ منورہ جانے میں زیادہ محفوظ ہے۔اب رہی فضیلت کی بات تو اس کے لئے قرآن پاک کی وہ آیت پڑھ لیں" قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللٰهَ۔الخ" اس میں آپ کی اتباع میں بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے۔ذرا سوچئے تو سہی کہ آپ حج کے بعد مکہ مکرمہ میں رہے یا مدینہ منورہ تشریف لے گئے ؟اتباع کس میں زیادہ ہے؟ تو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کس میں زیادہ ہوگی؟العیاذ باللہ میں خانہ کعبہ کی فضیلت کم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا صرف اس بات کو واضع کرنا چاہتا ہوں کہ جو مدینہ منورہ کے بارے میں کمزور ذہن رکھتے ہیں ان کی اصلاح ہوجائے ورنہ ہمارے لئے تو دونوں جگہیں بڑی ہیں۔ہمارا تو مسلک ہے ۔

 

نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا ہے

مدینے کو جانے کو بھی چاہتا ہے

ہاں جنت ابقیع میں دفن ہونے کی فضیلت کی بات اور ہے ۔

اس لیے بقول شاعر۔

شبیر جب بھی نکلے تو جان مدینے میں

ایک نور برستا ہے ہر آن مدینے میں

رہتا ہوں میں ہر وقت فرحان مدینے میں

اﷲ کا کرم ہے بس اس کی عنایت ہے

میں خوش نصیب آیا مہمان مدینے میں

 

میں گنبد خضراکے سائے میں یہاں بیٹھا

بھیجوں سلام ان پر ہر آن مدینے میں

دنیا تو بہت کھینچے فطرت کے مطابق تو

اصلی تو ہمارا ہے جانان مدینے میں

دنیا میں جہاں بھی ہوں ہوں ان کے طریقے پر

شبیؔر جب بھی نکلے تو نکلے جان مدینے میں

 

 

مدینہ منورہ کا سفر

اے دل ذرا خیال مدینے کا سفر ہے

اس شہر کو جانا ہے جہاں خیر البشر ہے

اے دل زہے نصیب غم فرقت ختم ہوئی

محبوب جہاں ہے تجھے جانا بھی ادھر ہے

دل میں خیال ان کا زباں پر درود ہو

رخ دل کا اس طرف رہےمحبوب جدھر ہے

محبوب ہمارا تو ہے محبوب الٰہی

تب اس کی طرف سے بھی درودوں کا امر ہے

پہنچیں سلام کے لیے قبر شریف پر

اس کے لیے میں نے بھی کیا کتنا صبر ہے

 

لبریز دل مرا ہو وہاں عشق نبی سے

بر حکم شریعت رہوں خیال اس کا مگر ہے

 

اللہ کو محبوب کا محب بھی ہے محبوب

شرک اس کی محبت نہیں یہ تجھ کو اگر ہے

 

 

خشک اتباع قبول نہیں بدون محبت

اس سے جو محبت نہ ہو ایماں کو خطر ہے

 

ہو اتباع سنت کی نتیجہ ء محبت

شبیؔر اتباع ہی محبت کا اثر ہے

 

مدینہ منورہ پہنچ کر انتہائی ادب کے ساتھ آپ کی محبت کو دل میں رکھ کر رہنا چاہيے۔مدینہ منورہ کا ذرہ ذرہ ایک تاریخ رکھتا ہے۔یہاں کے چپے چپے کے ساتھ محبت ہونا فطرت کا تقاضا ہے ۔مسجد نبوی میں تو یہ ادب مزید بڑھ جاتا ہے اور روضہء اقدس کی حاضری کی تو بات ہی اور ہے۔معاملہ چونکہ دل کا ہے اس لیے اگر دل میں آپ کی محبت ہو تو دل وہاں کے ادب کا خیال خود کروا دے گا البتہ بعض دفعہ غلط فہمی ہوسکتی ہے انسان محبت کے فوری تقاضے کے سامنے شریعت کے آفاقی اصولوں کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کسی رہنما کی۔اس لیے وہاں ادب بھی سیکھ کر کرنا چاہيے اور محبت کے تقاضے پر عمل بھی سیکھ کر کرنا چاہيے۔

(1) ایک بات یاد رکھنی چاہيے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے دل اور ہر حال کا پتہ ہے۔

(2)دوسری بات وہاں عشاق لاکھوں کی تعداد میں آئےہیں۔ان سب کے دل میں بھی کچھ ارمان ہیں۔

(3)تیسری بات مستحب اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل ہے لیکن اس کے چھوٹنے پر اللہ تعالیٰ ناراض نہیں ہوتے جبکہ واجب پسندیدہ بھی ہے اور اس کے ترک پر اللہ میاں ناراض بھی ہوتے ہیں ۔اس لیے اگر کبھی واجب اور مستحب میں کو ئی ایک عمل لینا ممکن ہو تو واجب کو ترجیح دینی چاہيے ۔

(4)چوتھی بات آپ کو اپنی امت سے محبت ہے اس لیے ہر ایک کو یہ خیال کرنا چاہيے کہ میں آپ کی امت کے لیے رحمت کا باعث بن رہا ہوں یا زحمت کا۔

(5)پانچویں بات یہ بہت اونچی جگہ ہے اگر یہاں بھی ہم اپنے مفاد کے لیے دوسروں کا حق غصب کرنے لگے تو اس کی بہت سخت سزا بھی ہوسکتی ہے۔ان پانچ باتوں پر دل سے غور کریں ۔پھر اپنا محاسبہ کریں اور اپنے دل سے یہ سوال کریں۔

کیا ریاض الجنت میں جگہ پکڑنے کے لیے مسجد نبوی میں دوڑ لگانا جائز ہے؟کیا ریاض الجنت میں جب جگہ ملے اور اس میں آپ نے دو رکعت نماز بھی پڑھ لی ہو اور بہت سارے لوگ اب اپنی باری کے منتظر ہوں تو کیا اس صورت میں وہاں بیٹھے رہنا جائز ہے؟

کیا مواجہ شریف کے سامنے سےگزرتے ہوئے موبائل فون سننا ٹھیک ہے؟کیا ریاض الجنت میں جگہ پکڑنے کے لیے نمازیوں کے سامنے سے گزرنا جائز ہے۔کیا مسجد نبوی میں کسی راستے میں کھڑے ہوکر نفل پڑھنا جائز ہے؟

بس ذرا دل کا مفتی جگا ليجئے تو بہت سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

ذرا دل کا مفتی جگا لیجئے

غلط اور صحیح کا پتا کیجئے

 

کہاں پر ہو تم اور ہو کیا کر رہے

حساب اس کا دل کو دکھا دیجئے

 

ریاض الجنت میں پڑھی جب نماز

اٹھو اوروں کو بھی موقع دیجئے

 

یہ مسجد میں دوڑنا کہاں ٹھیک ہے

یاں خود کو ذرا حوصلہ دیجئے

 

غلط جو کیا ہے یہاں پر شبیرؔ

تو آنسو اب اس پر بہا لیجئے

یاد رکھنا چاہيے کہ مسجد نبوی میں ہر جگہ سے سلام حاضری جائز ہے۔اس لیے مسجد نبوی میں ہر وقت درود اور سلام میں مشغول رہیں۔کچھ وقت تلاوت کو بھی دیں ۔بہتر یہ ہے کہ جو تلاوت بھی یہاں پر ہو اس کا ایصال ثواب آپﷺ کو کیجئے۔

بقول شاعر:

درِ کریم پہ جھکا جھکا مرا سر ہے

 

آنکھ پر نم ہے دل میں غم ہے اور ان کا در ہے

ذکر جن کا زباں زباں پہ ہے اور گھر گھر ہے

 

مجھے نصیب پھر آنا ،زہے نصیب ہوا

شکر خدا کا کہ اس کا کرم یہ مجھ پر ہے

 

عشق تو عشق ہے کیا حسن کا مقام ہے دیکھ

کہ جن کے صدقے کائنات کا یہ منظر ہے

 

کچھ نہیں ملتا کبھی ان کی اتباع کے بغیر

نبی کا حب گنج مقصود کا وہ گوہر ہے

 

میں گناہ گار و سیاہ کار و خطا کار بہت

یہاں پہ آیا ، یہاں پر شفیع محشر ہے

 

میں ہوں شبیؔر پر تقصیر در کریم پہ کھڑا

در کریم پہ جھکا جھکا مرا سر ہے

اور اسی طرح مزید

 

حاضر ترے قدموں میں سدا یہ غلام ہو

حاضر ترے قدموں میں سدا یہ غلام ہو

لاکھوں درود آپ پہ لاکھوں سلام ہو

 

قسمت جو مری چمکی تو حاضر ہوا یہاں

محشر میں بھی قدموں میں یوں میرا مقام ہو

 

میری توسئیات ہی جھولی میں پڑی ہیں

اﷲ کی معافی کا میسر انعام ہو

 

ہوجائے مرا ختم گناہوں کا سلسلہ

ہوجائے گر کرم یہ سلسلہ تمام ہو

 

ہو تیری محبت سے تری اتباع نصیب

بدعات سے خالی مرا ہر ایک کام ہو

 

شبیؔر ترے در پہ ہے حاضر زہے نصیب

اے کاش اسے نعمت یہ میسر مدام ہو

دیکھئے شاعر مدینہ منورہ کے بارے میں کیا کہتا ہے۔

چھا یا ہوا فضائے مد ینہ میں ادب ہے

دَب دَب کے بولنے کا یہ منظر بھی عجب ہے

 

دل میں خیال اسکا و رُخ سُوئے مدینہ

کھچ کھچ کے یوں آتاہے، عجم ہے کہ عرب ہے

 

دل ہدیہ کیا اسکو تو اَجروں کا کیا سودا؟

میرے لئے کافی ہے، کہ ملنے کا سبب ہے

 

بیٹھا ہوا مسجد میں ہوں دل اس کی طرف ہے

سنتے ہیں میر ے نالوں کو ، موقع ملا اب ہے

 

کیوں مانگ نہ لوں میں یہاں دیدار الٰہی

آقا مرے قاسم ہیں تومُعْطِی مرا رب ہے

 

اے زائر بیت نبوی ہوش میں رہنا

جو حُسنِ ادب ہے وہ یہاں حسن طلب ہے

 

بس اب سلام بھیج درودوں کا ہو معمول

شبیؔر کیا اچھا تیرا یہ روز و شب ہے

 

 

ریاض الجنت میں حاضری

ریاض الجنت میں نفل پڑھنے اور بیٹھنے میں جو بے اعتدالیاں ہوتی ہیں ،ان کے بارے میں۔

کچھ انتظار کچھ آرام کے ساتھ

قدم رکھنا خدا کے نام کے ساتھ

 

وہاں داخل ہوں جنت کا جو ہے باغ

مگر سکون و احترام کےساتھ

 

موقع مل جائے دو رکعت پڑھنا

نماز یوں کے ہو اکرام کے ساتھ

 

سامنے نمازیوں کے نہ گزرنا

کام رکھنا ہے اپنے کام کے ساتھ

 

نماز بہت ہی مختصر پڑھنا

خیال رکھنا ہے اہتمام کے ساتھ

 

ساری اُمت کا دل ہے وابستہ

یاد رکھنا ہے اس مقام کے ساتھ

 

ظلم کرنا نہیں ہے خود پہ شبیؔر

کام کرنا ہے انتظام کے ساتھ

زیارتوں پہ حاضری

 

مدینہ منورہ میں جیسا کہ عرض کیا گیا ہے بڑے بڑے اکابر کے مزارات ہیں اور بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔شاعر ان سب کو دل سے سلام کرنا چاہتا ہے ۔لیجئے آپ بھی اس کے ساتھ شریک ہوجائیں۔اگر کچھ لوگ کہہ دیں کہ دوسری قبور کے لیے سلام ثابت نہیں تو بتا دیجئے ہر مسلمان کی قبر پر حاضری کی دعا میں یہ ہے ۔السلام علیکم یا اہل القبور۔۔۔۔

آپ ہر ہفتے کو قبا شریف تشریف لے جاتے تھے اور ہر بدھ کو احد شریف۔قبا شریف مسجد ہے اور احد شریف مزار ہے پس آپ سے زیارتوں پر جانا ثابت ہوا ۔لیکن اس میں غلو نہیں کرنا چاہيے اس لیے مزارات پر حاضری کے دوران کوئی شرکیہ کام نہیں کرنا چاہيے ۔ان پہ سلام کہنا چاہيے۔ان کے لیے ایصال ثواب کرنا چاہيے ۔اور ان کے ساتھ محبت کرنی چاہيے ۔

 

L

احد شریف کے بارے میں

(زیارات کو جاتے وقت)

احد کے پاس محبت کے نظارے موجود

وفا و عزیمت و ایثار کے اشارے موجود

 

احد سے ہم اور وہ ہم سے محبت کرتا ہے

احد کے بارے میں الفاظ یہ پیارے موجود

 

احد میں آپ کے دندان جب شہید ہوئے

اس میں اویسکی محبت کے منارے موجود

 

احد کے ساتھ قبرستان شہدا میں یہاں

میر حمزہ جیسے درخشندہ ستارے موجود

 

ہر قسم حال کے تاریخ کی کتابوں میں

کرشمے دیکھو بزرگوں کے ہمارے موجود

 

ان بزرگوں کی برکات کو قائم رکھنے

شیبرؔ چاہیے اب ایسے ادارے موجود

 

قباء کی شان

(زیارات کو جاتے وقت)

اے قباء تیری شان میں کروں کیا بیاں

جس پہ شاہد رسول جس پہ شاہد قران

 

تیری نسبت کو تقویٰ سے جوڑا گیا

جو مقابل تھا تیرا وہ توڑا گیا

 

کیا کہوں تجھ پہ رب کتنا ہے مہربان

اے قباء تیری شان میں کروں کیا بیان

 

ہاں وہ پاکوں کے پاک تھے نمازی تیرے

کاش ہو جائے اب یہ نصیب میرے

 

کیونکہ پاکی میں اس کی پسند ہے نہاں

اے قباء تیری شان میں کروں کیا بیاں

 

یا الٰہی مجھے تقویٰ کردے نصیب

کہ مجھے دیکھ کر خوش ہوں تیرے حبیب

 

 

فسق سے دے شبیؔر کو اب تو امان

اے قباء تیری شان میں کروں کیا بیاں

 

جنت البقیع میں حاضری تو آپ سے بارہا ثابت ہے۔اس میں اہل بیت طہار امہات المؤمنین اور بڑے صحابہ ؓ دفن ہیں ۔ان کو سلام کرنا چاہيے۔

آنسوؤں کی لڑیوں، شرمندہ نگاہوں کو سلام

﴿مدینہ منورہ میں حاضری کے وقت

سایہء جنت مدینے کی فضاؤں کو سلام

ٹھنڈی پر انوار و یخ بستہ ہواؤں کو سلام

 

گنبد خضرا کے نظارے میں محو ہوگئے

آنسوؤں کی لڑیوں، شرمندہ نگاہوں کو سلام

 

مسجد نبوی میں جو چند ساعتیں ہم کو ملیں

نور میں ڈوبی ہوئی ، ان اپنی یادوں کو سلام

 

یہ بقیع کی زیارتیں کیا جانیں، ہیں کتنی عظیم

عظمتوں قربانیوں کی یادگاروں کو سلام

 

مومنوں کی ماؤں کی قبروں پہ بھی ہو السلام

اور نبی کے کل بقیع میں سارے پیاروں کو سلام

 

اور نبی کی بیٹیاں بھی تو یہاں مدفون ہیں

ان کے عالی مرتبوں، اونچے مقاموں کو سلام

 

سید ہ جنت کی عورتوں کی ہے زہرائے نبی

وقت مرگ ان کی وصیت اور حیاؤں کو سلام

 

اور اک کونے میں ہیں سوئی ہوئی عمات بھی

مختصر سارے نبی کے رشتہ داروں کو سلام

 

مسجدیں جو سات ہیں خیمے تھے پیاروں کے وہاں

ان مقدس ہستیوں کے ان نشانوں کو سلام

 

وجد میں جبل احد آیا نبی کے سامنے

ایسی تکوینی محبت کے پہاڑوں کو سلام

 

جعفر و با قر، حسن، عباس و زین العابدین

اہل سنت کے بقیع میں ان اماموں کو سلام

 

گنبد خضرا کے بالکل سیدھ میں مدفن جو ہے

ہے وہ ذو النورین کا اس کی شعاؤں کو سلام

 

آدم و بدر و خلیل و زکریا بھی ہیں یہاں

پاس اہل بیت کے ان کے غلاموں کو سلام

 

اور امیر حمزہ شہیدوں کے جو ہیں سردارپر

ہو سلام اور ساتھ ان سارے شہیدوں کو سلام

 

پاک لوگوں کا نشاں ہے مسجدِ قبا یہاں

جن کی تعریف رب نے کی ہے ایسے پاکوں کو سلام

 

ایک نشان اتباع ہے وہ ہے مسجد قبلتین

یہ بشارت خلد کی ان اتباعوں کو سلام

 

جو سلام عشق بھی یاں پر کوئی مؤمن پڑھے

حسن کی بارگاہ میں پیش ان سلاموں کو سلام

 

اف کہاں شبیؔر ان کی بارگاہ میں حاضری

نسبت خواجہ کی ان سارے اشاروں کو سلام

 

 

جب مدینہ منورہ سے رخصت ہونے کا وقت آجائے تو الوداعی سلام کے لیے حاضری میں خوب اپنی محبت کا جائز اظہار ہونا چاہیے۔دوبارہ حاضری کی دعا بھی اللہ تعالیٰ سے کیجئے۔اور مدینہ منورہ سے رخصتی کےوقت دل سوز سے پر اور زبان پر درود جاری رہنا چاہيے ۔

دم فرقت بالآخر آگیا ہے

مرے دل پر بھی غم پھر چھا گیا ہے

 

ادب سے میں یہاں سے ہوؤں رخصت

امر کا دل اشارہ پاگیا ہے

 

یہاں سے دل ہمیشہ جوڑے رکھوں

کوئی دل کو مرے سمجھا گیا ہے

 

دعا ہے یہ کہ میں باربار آؤں

یہی ارماں مجھے تڑپا گیا ہے

 

شبیؔر اس کی رضا پہ دل سے راضی

وطیرہ اب یہ اپنایا گیا ہے

 

حج کے دوران تصویر کشی کی لعنت

یہ بری عادت آج کل بہت عام ہے کہ عین جمعہ کے خطبہ کے دوران بھی اٹھ کر حاجیوں کی تصویریں بناتے ہیں ۔اس دفعہ امام مسجد نبوی نے بھی اس پر نکیر فرمائی کہ یہ حرام ہےلیکن لوگ جذبہ ء خود نمائی سے مجبور ہوکر اس کے مرتکب نظر آتے ہیں ۔اس کی فقہی ممانعت کہ تصویر جانداروں کی حرام ہے اگر ایک طرف ہے تو دوسری طرف ایسے مواقع جس میں دل صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو ،دل کا اس لہو لعب کی طرف متوجہ ہونا دل کی بربادی کی دلیل ہے۔

بقول شاعر:

دل میں جو گند ہو ہر وقت نظر آتا ہے

نفس کی شر میں ہمہ وقت وہ پھنساتا ہے

 

قرب کعبہ میں اور طواف میں مناسک میں

پوز بنوا کر تصویریں وہ اترواتا ہے

 

حج تو تکمیلی عبادت ہے اور عشق کا مظہر

اس میں دنیا کو کوئی کیسے دل میں لاتا ہے

 

اپنے دشمن سے رہیں ہم بھی خبردار ہر وقت

کیسے اوقات ہمارے ضائع کرواتا ہے

 

کاش حاجی کو معلوم ہو وقت کی قیمت

اپنے نقصان کو کیوں خاطر میں نہیں لاتا ہے

 

جسم طواف میں اور دل ہو کہیں اور کیسے

کیسے یہ دل کو موبائل سے بھی بہلاتا ہے

 

کیونکہ طواف تو ہے اظہار تعلق اس سے

اس کے ہوتے کسی اور سے کیوں سکون پاتا ہے

 

دل کی دنیا کو اس کے نام سے آباد کرو

یہی تو ہے کہ اس کے ساتھ تجھے ملاتا ہے

 

دل اس کا کیسے ہو یہ بھی کسی سے سیکھنا ہے

شبیؔر ڈھونڈ لے اس کو جو یہ سکھاتا ہے

 

نماز کے مسائل سے غفلت

بعض حاجی حج تو کرلیتے ہیں لیکن حج کے مسائل سے بہت غفلت کے شکار ہوجاتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں چونکہ ہر طبقے کے لوگ آتے ہیں۔ان میں سے بعض کو مسائل معلوم نہیں ہوتے اور بعض بے پرواہ ہوتے ہیں ۔ان کو دیکھ دیکھ کر اچھے بھلے اپنے ملک میں احتیاط کرنے والے بھی بے احتیاطی برتنے لگتے ہیں ۔

بقول شاعر:

سستی نے دین کا حلیہ کتنا بگاڑ دیا

اپنی مرضی سے دین زندہ زمین میں گاڑ دیا

 

نہ جائے نماز کی ضرورت نہ ہی پاکی کی طلب

جو طہارت کا صفحہ تھا فقہ کا پھاڑ دیا

 

نہ ہی اتصال صفوں کی ہے ضرورت ان کی

جس نے پوچھا یہ کیا؟ الٹا اسی کو جھاڑ دیا

 

خشوع نماز میں غائب ، عملِ کثیر بہت

اور یہ مزید کہ موبائل نے دل اجاڑ دیا

 

علاج سستی کا چستی ہے سنا ہے یہ شبیؔر

وہ پہلوان ہے جس نے نفس اپنا پچھاڑ دیا

وادی جن کا مغالطہ

مدینہ منورہ سے تقریباً 35 کلومیٹردور ایک وادی وادی بیضا ء کے نام سے ہے اس کو آجکل لوگوں نے وادی جن مشہور کردیا ہے۔ہو ا یوں کہ اس جگہ مشہور ہوگیا کہ چڑھائی پر گاڑی بغیر انجن کے سٹارٹ ہوئے 100کلو میٹر کی رفتار سے چلتی ہے۔گاڑی والوں نے اس کو خوب استعمال کرنا شروع کیا اور دیکھا جاتا ہے کہ مدینہ منورہ سے گاڑیاں ایک ویران روڈ پر جارہی ہوتی ہیں۔بات عجیب تو یقیناً ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لیکن حدیث شریف یہ بتاتی ہے کہ تحقیق کے بغیر محض سنی سنائی بات کو دوسروں کو بتانا جھوٹ ہے اس لئے دل میں خواہش تھی کہ اس کی تحقیق کی جائے اس لئے جنید صاحب جو ہمارے ساتھی ہیں اور مدینہ منورہ میں ملازمت کرتے ہیں سے کہا کہ وہ گاڑی لے آئيں تاکہ وہاں خود جاکر اس کی تحقیق کریں۔میں اپنے دو ساتھیوں ڈاکٹر مدثر جو کہ PIMS سے ENTمیں سپیشلائزیشن کر رہے ہیں اور جناب زین العابدین جو کہ PTCLمیں GMہیں کے ہمراہ جنید صاحب کی گاڑی میں وادی بیضا ء روانہ ہوئے۔اپنے ساتھ ہم نے ایک پانی کا گلاس ،ایک فٹ پیمانہ اور قطب نما لیا تھا اور مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔وہاں چھوٹی سی پہاڑی ہے مدینہ منورہ جو سڑک وہاں سے جاتی ہے وہاں پہلے تیز اترائی ہے پھر اس کے بعد چڑھائی سی نظر آتی ہے۔اس کے بعد اترائی ہے۔جو چڑھائی سی نظر آتی ہے یہ تقریباً 30میٹر لمبی سڑک ہے۔اس پر گاڑی کو انجن سٹارٹ کئے بغیر نیوٹرل میں چھوڑ دیا تو گاڑی آہستہ سرکنے لگی ۔بات عجیب لگی لیکن ابھی تجربہ کرنا تھا ۔تجربہ میں گلاس کو آدھا پانی سے بھر لیا ۔سڑک کے دونوں طرف گلاس میں پانی کی گہرائی نوٹ کی ۔مدینہ منورہ کی طرف گہرائی 0.2سنٹی میٹر زیادہ نکلی۔پس پتا چلا کہ مدینہ منورہ کی طرف چڑھائی نہیں بلکہ اترائی ہے لیکن چڑھائی نظر آرہی ہے۔گلاس کا قطر 5.4سنٹی میٹر تھا ۔حساب کیا تو پتا چلا کہ مدینہ منورہ کی طرف تقریباً سوا دو ڈگری کا اترائی کا سلوپ ہے۔تقریباً دو سو میٹر مدینہ منورہ کی طرف چلنے کے بعد پھر سلوپ اسی طریقے سے معلوم کیا تو یہ تقریبا سوا چھ درجے اترائی بجانب مدینہ منورہ معلوم ہوا۔اب تمام نظام کا جائزہ لیا کہ تقریبا 30میٹر لمبی سڑک پر سوا دو ڈگری کے اترائی پر گاڑی آہستہ آہستہ سرکتی ہے اور جب اس حد کو عبور کرلیتی ہے تو اس کے بعد اترائی کا سلوپ سوا چھ درجے ہوجاتا ہے جو کافی تیز ہے تو گاڑی کی رفتار بڑھ جاتی ہے ۔چونکہ یہ تیز سلوپ کئی کلومیٹر تک پایا جاتا ہے اس لئے گاڑی کی رفتار نیوٹرل میں 100کلومیٹر سے تجاوز کرجاتی ہے۔اس میں جو گاڑی زیادہ بھاری ہو اس کا اس حد کو عبور کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ اس کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ کشش ثقل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دفعہ چل پڑےتو پھر اس کا رکنا مشکل ہوتا ہے۔

مغالطے کا نقصان؟

تکنیکی بنیادوں پر تو بات واضح ہوگئی لیکن اس کا جواب دینا ابھی باقی کہ لوگوں کو یہ مغالطہ کیوں لگا کہ اچھے بھلے سمجھدار لوگ جن میں بعض مفتی ہیں اترائی کو چڑھائی سمجھنے لگے۔اس کو سمجھنے سے پہلے ذرا سامنے کی شکل کو بغور دیکھیں۔اس میں جو

خطوط ہیں ان کو بغور دیکھیں ۔ یہ آپکو گو کہ ٹیڑھے نظر آتے ہیں لیکن آپ غور کریں گے تو ان کا سیدھا ہونا آپ ثابت کرسکتے ہیں۔اس کو Optical illusion یعنی نظر کا دھوکہ کہتے ہیں۔ جن وجوہات سے نظر کو دھوکہ لگ سکتا ہے ان میں حقیقی افق کا نظر نہ آنا ۔ماحول کی بے قاعدگی اور نظر کا فوری تبدیلی کو نظر انداز کرنے کی عادت ۔یہ تینوں وجوہات اس مقام پر پائی گئیں ۔پہاڑی کی وجہ سے اصل افق منقطع ہوگیا ۔دو تیز اترائیوں کے درمیان کم اترائی ماحول کی بے قاعدگی ہے اور نظر کی عادت تو ہر جگہ ہوتی ہے پس وہاں بھی دھوکہ لگ گیا ۔

مغالطے کا نقصان۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ لوگ مدینہ منورہ چھوڑ کر ایک غیر متعلق چیز میں مشغول ہو گئے ۔شیطان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اورگاڑی والوں نے تجربے کر کرکے ان جگہوں کا انتخاب کیا جہاں خوب دھوکہ لگ سکتا ہے۔اس سے ایک طرف گاڑی والوں کا روحانی نقصان ،دوسری طرف باقی لوگ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ان کا سنجیدہ لوگوں پر اس کا اثر برا پڑتا ہے۔

سفرنامہ حج 1432ھ

شروع کرتا ہوں میں بنام الٰہی

خدایا بنادے محبت کا راہی

مجھے ہو نصیب شاہراہ محبت

ملے مجھ کو اب درسگاہ محبت

یہ رستہ محبت کا ہے مختصر

تو ہوجائے میرا بھی اس پر گزر

مجھے اس کے پھل پھول چن لینا ہے

جو آواز دل ہے وہ سن لینا ہے

مجھے ہے سمجھنا محبت کی راہیں

تڑپتے ہوئے صبح گاہی کی آہیں

مری عقل خادم ہے جس بادشاہ کی

بنے وہ جو دشمن کبھی اس کی راہ کی

محبت ہو جب تو وہ کب اس کو چھوڑے

نہ مانے وہ جب تو سر اس کا مروڑے

جو اعمال مشروع ہوئے اس کے واسطے

تو ان میں بتائے ہوئے عشق کے راستے

ہے عاقل حقیقت میں جو اس کو پائے

ہے ذات اس کی ایسی سمجھ میں نہ آئے

ہو مشکل کبھی جو سمجھ میں سوال

تو اس کے لئے چاہيے پھر مثال

تو حج اس کا پھر اک مثالی سفر ہے

محبت سے بھرپور ہے پر اثر ہے

ہو چشم محبت تو نام اس کا حج ہے

نظر آتا اس میں عقل کو حرج ہے

تو داستان ایسی سفر کی سنو

سمجھنے اسے پھر کبھی دیکھ لو

چلے پنڈی سے ہم جو سوئے حرم

نہ تھا کچھ مگر يہ تھا اس کا کرم

ہے کلیہ کہ ہوتا ہے جب فضلِ رب

تو کاموں کے بنتے ہیں، خود سے سبب

پشاور سے ہونا تھا ہم کو روانہ

پھر اس قافلے کو تھا، آگے چلانا

تو اپنے پروگرام سے، ہم بھی چلے

سہولت سے ہم ٹکڑيوں ميں گئے

چلے ہم پشاور سر شام پر

پتہ یہ چلا لیٹ جہاز ہے مگر

یہ پی آئی اے کا ہے کیا انتظام!

پريشان رہتے ہيں حجاج کرام

صحیح وقت يہ جو بتاتے نہيں

جہاز اپنے و قت پر چلاتے نہيں

نہیں اس ادارے میں برکت کوئی

سبب ڈھونڈ لے اس کی حرکت کوئی

جو رمضان و حج کے دن آتے ہيں جب

کرايہ سفر کا بڑھاتے ہيں تب

دعائیں یہ حجاج سے ليتے ہيں

خسارے ميں تب سے، يہی رہتے ہيں

کہ دنيا ميں حج ميں ڈسکاؤنٹ ملے

یہاں تو انہيں بس مسکاؤنٹ ملے

ائر پورٹ چلنا تو تھا صبح دم

مگر بات اصلی نہ جانتے تھے ہم

پتہ یہ چلا ،جانا 11 بجے ہے

کوئی اور ہی ہے بساط جو سجے ہے

تو اس انتظار میں رہے منتظر

حاجی کیمپ سے آئے ائیر پورٹ پر

ائیر پورٹ پر دو نمازیں ہوئیں

اورساتھ ایمپلی فائر پہ وعظيں ہوئیں

تھیں دو چادریں پاس احرام کی

تو تہبند انہی میں سے اک باندھ لی

جہاز کے لیے رکھ لی ساتھ دوسری

کہ احرام کی نیت وہیں کرنی تھی

کہ جب چلنے کا ہو یقیں پھر ہے ٹھیک

جنایت سے بچنے کا یہ گر ہے ،سیکھ

سہولت جو ممکن ہو لو دوستو

شریعت پہ چلتے رہو دوستو

نہ مشکل میں ڈال خود کو یوں بے محل

کہ کچھ بھی ہے ممکن یہاں آج کل

جہاز لیٹ بھی ہوتا ہے وقت سے

مسائل پہ مشکل عمل نہ بنے

جہاز پھر اڑا رخ تھا سوئے حرم

تھا اللہ کا ہم پہ ایسا کرم

نماز ہم نے مغرب کی پڑھنی بھی تھی

نیت ہم نے احرام کی کرنی بھی تھی

جو تھے مفت کے مفتی، بہکتے رہے

نماز سیٹ پہ پڑھنے کو کہتے رہے

نمازوں کی قربانی جائز نہیں

امامت پہ سٹی وارڈ(steward) فائز نہیں

تو چُھپ کے نماز ہم نے مغرب پڑھی

کہ کھل کے جو اس کی اجازت نہ تھی

نیت اِس کو اوڑھ کے احرام کی کی

تھا کیسا سرور، وہ جو لبیک پڑھی

یوں سوئے حرم ہم تو اڑتے رہے

براستہء قلب اس سے جڑتے رہے

ترانہء لبیک تھا بر زباں

سنو دوستو ہوگاکیسا سماں

کہ حاجی دو چادر میں تھے ننگے سر

جو ہے کروفر اس سے تھے بے خبر

سفر یوں محبت کا کٹتا رہا

اثر جو تھا دنیا کا ہٹتا رہا

بالآخر جدے ہم پہنچ ہی گئے

تلاشی میگریشن سے فارغ ہوئے

بسیں اپنی مکتب کی ملنی جو تھیں

گزاری یوں ہی رات وہ نہ ملیں

یہ سُستی ء مکتب ، سوئے انتظام

پریشان رہے سارے حجاج کرام

صبح وقت سے پہلے اذاں اک ہوئی

نماز وقت سے پہلےہی بعض نے پڑھی

تو آذان مسجد سے پھر جب ہوئی

پڑھائی گئی پھر نماز وقت پہ بھی

یہ جلدی ہے اک جذبہء خود نمائی

ہے شیطان کی منفرد کاروائی

ہاں دنیا میں لوگ ایسا کرتے ہیں گر

مگر دین کی بات میں تو ہوتا ہے ڈر

جو بات دین کی ہو اور ڈرنا نہ ہو

یوں لگتا ہے پھر جیسے مرنا نہ ہو

یہ شوق اس اذان کا، مبارک رہے

مگر وقت پر ہو ، یہ جو بھی کہے

مساجد میں آذان دیتے ہیں لوگ

ذمہ سارے لوگوں کا ،لیتے ہیں لوگ

مسائل جو ہیں، وہ نہیں جانتے

جو جانتے ہیں، ان کی نہیں مانتے

تو پوچھ جب مسائل کی ہو نہ خبر

نہ پوچھنے کا ہوتا برا ہے اثر

تو خیر سے ہوا جب وقت چاشت کا

اثر کچھ ہوا اپنی درخواست کا

کہ مکے کو جانا ہےجلدی ہمیں

ظہر تب مکے میں ملے گی ہمیں

روانہ ہوئیں دو بسیں بھی ہماری

ہَوا لگ رہی تھی،جدے میں پیاری

تھا کعبے میں دل بر زبان تلبیہ

سفر تھا یہ جاری بفضلِ خدا

پہنچے ہوٹل ہم بوقتِ ظہر

حرم کی نماز ہی کا تھا ہم کو ڈر

کیا پھر وضو ہم نے بھی ،جلدی سے

حرم ہم بوقت نماز پہنچے تھے

آرام کچھ کیا ہم نے بعد از نماز

کہ عمرے میں ہو کچھ نشاط یہ تھا راز

نماز عصر جوں ہی پڑھ لی حرم میں

طواف عمرے کا کرلیا شروع ہم نے

تھا اک شانہ ننگا ڈھکا دوسرا

اول تین چکر میں رمل بھی کیا

مگر اضطباع اس میں جاری رہا

یہ رنگ عاشقانہ ہی طاری رہا

قرب خانہ کعبہ کا ہم مضمحل

مگر خانہ کعبہ کو کھنچتا تھا دل

مکمل کیا یہ بوقت غروب

اذاں جب ہوئی وقت مغرب کی خوب

طواف کی نماز بھی دوگانہ پڑھی

جوتھی ننگے سر عاشقانہ پڑھی

مشورہ ہوا کب کریں ہم سعی

کہا اب آرام اور یہ ہوصبح ہی

تو تب ہی سعی میں ملے گی نشاط

نہ سر سے گزارنے کی ہو یوں ہی بات

تو نیت سعی کی ، کی جب صبح دم

صفا سے چلے رخ بہ مروہ تھے ہم

کہ اک ساتھی نے یہ اچانک کہا

نواں استلام ہم سے تو رہ گیا

یہ پوچھا سعی کیا دوبارہ کریں

کہا مستحب ہے یہ ،آگے چلیں

پسندیدہ جو ہے نہ چھوڑو کبھی

نہ واجب مگر اس سے توڑو کبھی

جو کہتے ہیں یہ مستحب ہی تو ہے

یہ قول البتہ کچھ عجب ہی تو ہے

محبت رہے سارے اعمال میں

شریعت نہ چھوٹے کسی حال میں

شریعت کی ترتیب مقدم رہے

محبت کا جوش دل میں محکم رہے

سنو مجھ سے بھائی یہ حسن مقال

طریقہ بزرگوں کا ہے اعتدال

مکمل کی ہم نے سعی دوستو

ِقران تھا ،تھے حلق سے بَری دوستو

حرم کی نمازیں ہی پڑھتے رہے

کہ دن چند جو تھے گزرتے رہے

تیاری جو حج کی تھی کرتے رہے

تھکا وٹ کے کاموں سے بچتے رہے

سفر حج کا جلدی ہمیں کرنا تھا

منیٰ اسی احرام میں چلنا تھا

کیا حج سے پہلے طواف قدوم

تھے دن آخری، تھا بہت ہی ہجوم

سعی اس کے بعد ہم نے حج کی بھی کی

فضیلت قران حج میں اس طرح تھی

منیٰ کی طرف ترویہ میں چلے

ترانہءِ لبیک پڑھتے رہے

تھا خیمہ ہمارا بھی باہر منیٰ سے

تو تب ہر نمازمیں منیٰ کو ہم آتے

کہ سنت وہاں ترویہ میں یہ ہے

وہاں پر منیٰ میں نمازیں پڑھے

تو ہم نے منیٰ میں نمازیں پڑھیں

وہاں بیٹھ کر حج کی باتیں ہوئیں

صبح عرفہ کا دن گیا جب نکل

تو عرفات ہی کو گیا میرا دل

فجر سے وہ تکبیریں تشریق کی

شروع کیں ،ساتھ پڑھتے لبیک بھی

تو عرفات کی جانب چلےقافلے

بسیں چھوڑ کر ہم تو پیدل چلے

ہے پیدل کے حج کا زیادہ ثواب

نہ اس سے مگر ہووے صحت خراب

کہ پیدل ہے حج دوستومستحب

بنے فرض چھوٹنے کا نہ یہ سبب

قدم بہ قدم یوں ہی چلتے رہے

ترانہء لبیک پڑھتے رہے

کہ شوق جنوں بھی تو جوبن پہ تھا

لبوں پہ تھا“ لبیک” اثر “من” پہ تھا

جو بڑھتے رہے قافلے دم بہ دم

تو اڑتے رہے یوں ہمارے قدم

یوں لگتا تھا، ہو جیسے دعوت ملی

وہاں پر خدا سے ملاقات کی

وہاں پر دعا کا اثر ہے جدا

ملے بار بار یہ سعادت، خدا

تو ہم بر طریق مشاۃ یوں چلے

کہ عرفات وقت پر پہنچ ہی گئے

وہاں عورتوں بچوں کے خیمے ملے

طریق مشاۃ پر ہی تھے رستے میں

رکاوٹ بنی تو بنا اژدھام

ذرا سوچ یہ تھا غلط کتنا کام

یہ ان کی شقاوت کا تھا اک کمال

کہ حجاج کا کرتے رہے استحصال

ہوئے ساتھی اپنے بھی تتر بتر

کوئی تھا کدھر اور کوئی تھا کدھر

یوں عرفات میں مشکل بنا داخلہ

ملا بے اصولی کا ہم کو صلہ

نماز نمرہ میں پڑھناکارِ ثواب

ہے لوگوں کو تکلیف دینا خراب

اے کاش ! ہم سمجھ جائیں دیں کے اصول

کہ کوشش ہماری اسے ہو قبول

تلاش ہم کو تھی اپنے مکتب کی بھی

گزرتا رہا اپنا وقت قیمتی

اچانک خدا کی مدد آئی جب

تو مکتب کا راستہ ملا ہم کو تب

ظہر کی نماز جاکے مکتب پڑھی

عصر کا ہوا وقت عصر تب پڑھی

وقوف پھر کیا ہم نے عرفات کا

وہ رحمت کا دریا ،کیا اس کا مزہ!

وہ رحمت کی برسات ،برستی رہی

عجب کیف دل میں تھی،مستی رہی

وہ اشکوں کے دریا تھے ،بہتے رہے

دعائیں جو دل میں تھیں، کرتے رہے

کہ شیطان اس دن تھا خوار و ذلیل

معافی کی مل جو رہی تھی سبیل

معاف جو خدا ہم کو کرتا رہا

اسے دیکھ کے ابلیس مرتا رہا

گناہوں سے بندے رہا تھا نکال

برا بننا ہی تو تھا شیطاں کا حا ل

الٰہی ہمارا بھی دل اب بدل

کہ تیرے نبی کی کریں ہم نقل

الٰہی قبول کرلے یہ نقل تو

کہ ہوجائیں آخر میں ہم سرخرو

الٰہی ترے ہم ہیں بندے حقیر

فضل تیرا یا رب جو ہےبے نظیر

نہ ہو ہم سے ناراض ڈرتے ہیں ہم

گناہوں سے اب توبہ کرتے ہیں ہم

الٰہی بخش دے ہمارے گناہ

کہ رحمت تری کتنی ہے بےپناہ

الٰہی بخش دے نبی کے طفیل

کہ اس امتحاں میں نہ ہو جائیں فیل

الٰہی ہمیں دے دے سنت کا ذوق

تجھے راضی کرنے کا ہم کو ہو شوق

الٰہی مسلمان جیسے بھی ہیں

مگر سب کے سب تیرے بندے ہی ہیں

جولوگ ان کو تکلیف دیتے ہیں جب

تیرا نام لینا ہے اس کا سبب

تو رکھ پاس اب اپنے اس نام کا

بنا دے انہیں تُو کسی کام کا

تو عرفات میں سورج ہوا جب غروب

روانہ ہوئے قافلے واں سے خوب

تو مغرب کا وقت یوں تو داخل ہوا

ہمیں تو پہنچنا تھا مزدلفہ

ہمیں تو عشاء سے ملانا یہ تھا

کہ حاجی کے حج کا زمانہ یہ تھا

وہاں سے بھی ہم یوں ہی پیدل چلے

نظر میں تھے حدِ نظر قافلے

بہر کیف اپنا سفر جاری تھا

دلوں پہ بھی حج کا اثر جاری تھا

ہمیں جلدی جلدی پہنچنا بھی تھا

وہاں کے دخول سے نکلنا بھی تھا

وہاں رستے میں لوگ بیٹھ جاتے ہیں

جو سستی ہو غالب تو لیٹ جاتے ہیں

گزرگاہ یوں ہوتی رہتی ہے تنگ

کہیں حاجیوں سے ،نہ ہو جائے ،جنگ

تو بن جاتا ہے اس میں، یوں اژدھام

پریشان ہوتے ہیں حجاج کرام

پہنچے بفضل الٰہی جو ہم

گزرگاہ میں دیکھا رش کچھ تھا کم

خدا کا شکر خیمہ میں دس بجے

خدا کی مدد سے پہنچ ہی گئے

وہ ساتھی ہمارے جو پیچھے رہے

تو رات ساری رش میں وہ پھنسے رہے

ہمارا تو خیمہ مزدلفہ میں تھا

لہٰذا وقوف ہم نے اس میں کیا

برائے حجاج یہ مزدلفہ کی رات

شب قدر ہے ،ہے کیا اسکی بات!

کچھ آرام کر کے بطور سنت

پھر اٹھ کر عمل کیا بقدر ہمت

شب قدر ہم سے چھپائی گئی ہے

مگر یہ ہے ظاہر، بتائی گئی ہے

تو پھر سُستی کیسے ہو اعمال میں

کمی کیسے برداشت ہو حال میں

ہے لازم خیال رکھنا اسکا سنو

کہیں وقت سے پہلے ہی اذان نہ ہو

یہی بات سب کو بتائی بھی تھی

صحیح وقت پر تب آذاں ہم نےدی

جو ہوتا بعض کو ہے شوقِ آذاں

تو کرتے ہیں اس میں وہ یوں پُھرتیاں

کہ داخل نہیں ہوتا وقت ہی ابھی

کہ شوقِ اذاں ہی میں آذان دی

یہ اذان دوسرے جونہی سنتے ہیں

تو وہ بھی اذاں پر اذاں دیتے ہیں

نماز اس اہم صبح کی ہو خراب

تو شوقِ اذاں کا کیا ہو حساب!

نکل ہم گئے پھر منیٰ دس بجے

تو پون گھنٹے میں ہم پہنچ ہی گئے

وہاں جمرہء عقبہ کی، کی پھر رمی

خبر اس کی قربان گاہ میں بھی کی

تو ساتھی نے قربانی کی پھروہاں

ہمیں دی خبر اسکی خود بعد ازاں

ہم اس وقت اپنی ہی بلڈنگ میں تھے

حلال تب سہولت سے سارے ہوئے

کیا ہم نے حلق اپنا خود ہی وہاں

سنو دوستو تھا وہ کیسا سماں

طوافِ زیارت عصر کو گئے

مگر رش بہت تھا تو ہم بھی ڈرے

فراغت عشاء سے جب پا گئے ہم

تو دیکھا مطاف میں کہ رش کچھ تھا کم

وہاں حیراں ہم دیکھتے رہ گئے

جودیکھا پولیس اس کے کنٹرول پہ

مطاف میں وہ لوگ، جانے دیتے نہیں

جو رش اب مزید بڑھنے دیتے نہیں

تو دل سے دعا محو پرواز ہوئی

اترنے کا رستہ ملے ہم کو بھی

فضل کچھ خدا کا یوں ہم پر ہوا

کہ چلتے ہوئے گرد، رستہ ملا

اترنے کی ہم کو اجازت ملی

تو نیت پھر ہم نے طواف ہی کی، کی

وقت اس میں گھنٹے سے کم ہی لگا

خدا پر نظر ہے کلید فلاح

خدا ہم پہ خود مہربان ہوگئے

جو مشکل تھے کام وہ آسان ہوگئے

سعی ہم نے پہلے ہی کی تھی ہوئی

تو ہم کو فقط اب رمی کرنی تھی

دو دن اب مزید تھا منیٰ میں ٹھہرنا

وہیں پر مبیت اور وہیں رمی کرنا

رمی تینوں جمروں کی واجب بھی تھی

روانہ ہوئے ہم وہاں سے سبھی

ارادہ تھا شب کو منٰی ہم چلیں

برائے مبیت ہم وہاں پر رہیں

کہ اک ساتھی کی جیب حرم میں کٹی

ہمیں اس کی جانب سے اطلاع ملی

یہ سخت دل وہاں پر بھی رکتے نہیں

بڑی ہی شقاوت ہے جھکتے نہیں

تو بھیجا اسے پھر برائے تلاش

حرم میں نہ ہوتا ظلم ایسا کاش

حرم میں ہے نیکی کا رتبہ بڑا

گناہ بھی مگر ہے وہاں لاکھ کا

حرم میں کیا اس نے ایسا گناہ

ہے نفس کتنا ظالم خدا کی پناہ

تھی نفس کی شرارت خطا اس نے کی

ہے ممکن خراب اس سے ہو کوئی بھی

کوئی بھی نہیں اس کے شر سے بری

ہے اس پر گواہ رب کا قرآن بھی

کہ نفس کے رذائل ہیں اس کی وجہ

ضروری ہے پس، نفس کا تزکیہ

نبی کا یہ فرمان ہے اس کو پڑھ

کہ ہے حب دنیا خطاوں کی جڑ

جو نفس کا کرے کوئی بھی تزکیہ

تو وہ کامیابی پہ فائز ہوا

بغیر تزکیے کے جو چھوڑے اسے

خسارے میں وہ پھر ہمیشہ رہے

تو بلڈنگ میں ہم منتظر پھر رہے

منیٰ ہم نہ اس رات پھر جاسکے

یوں سنت مبیت ہم سےبھی رہ گئی

چھری غم کی ساتھی کے دل پہ چلی

صبح پھر برائے رمی ہم گئے

منیٰ کو رمی کرکے خیمے چلے

منیٰ سے تھا باہر جو خیمہ ہمارا

منیٰ پھر مبیت کو تھا جانا دوبارہ

تو مغرب منیٰ میں پڑھی اور رہے

عشاء تک برائے مبیت جو بھی تھے

وہاں اپنا معمول درس کا ہوا

جو ساتھی اُدھر تھے انہوں نے سنا

صبح کو رمی پھر تھی بعد زوال

تھی جانے کی جلدی یوں لگتا تھا حال

ہر اک جلدی جانے کو بیتاب تھا

تو رستوں میں لوگوں کا سیلاب تھا

کہ مغرب سے پہلے نکلنا جو تھا

وگرنہ یہاں پر ہی رہنا جو تھا

رمی تیرہ کی گو کہ ہے مستحب

تھے بارہ کو چلنے کو بیتاب سب

ہمارا ارادہ تو رہنے کو تھا

رمی تیرہ کی بھی جو کرنے کو تھا

منیٰ ہی کے خیمے سے دعوت ملی

تو جمرات کے قرب میں رہائش بنی

وہاں پر ٹھہرنا بھی آسان تھا

خدا ہم پہ اس میں مہر بان تھا

عصر کی نماز جب مکے میں پڑھی

تو ہم کو ملی ہوگی کتنی خوشی

بفضل خدا ہم کو حج مل گیا

خوشی سے ہمارا بھی دل ِکھل گیا

ابھی بس طواف وداع کرنا تھا

مکے سے ہمیں جس وقت چلنا تھا

تو حج کرکے اب جب مکے آگئے

یہاں رہنے کو چند دن پا گئے

مکے کی کیا عظمت اور شان ہے

کہ اس طرف قلبِ مسلمان ہے

پڑھے گا مسلمان نماز جب کبھی

تو رخ اس کا ہوگا بس اس طرف ہی

یہ رخ ہم کو اللہ نے دے دیا

مجسم اس رخ کو یہاں پر رکھا

ہے رخ اس طرف کرنا حکم خدا

طریقِ عبادت یہ ہم کو ملا

ملا حکم سجدے کاآدم کو جب

فرشتے پڑے سارے سجدے میں تب

مگر ایک ابلیس وہ رہ گیا

تھا ظالم کسے کیسا کیا کہہ گیا

خدا کے حکم سے وہ اپنا خیال

بڑا سمجھا تب ہی کیا اس کا حال

ہمیں تو حکم اس کا ہے ماننا

تو اس کے لئے اس کا ہے جاننا

جو عالم ہیں ا س کا حکم جانتے ہیں

طریقت سے ہم وہ حکم مانتے ہیں

جو پاس اپنا علم شریعت رہے

خدا کی محبت سے دل بھی بنے

کریں ہم جہد سے یہ نفس بھی مطیع

ہو اللہ کی جانب طریق سریع

مجازاً تو کعبے پہ ہم ہیں فدا

حقیقت میں مطلوب ہے اک خدا

مجازاً چکر اس کے گرد لگتے ہیں

خدا کی طرف ہم قدم رکھتے ہیں

توجہ خدا کی ہو کعبے پہ جب

تو سیراب پھر کیوں نہ زائر ہوں سب

ہے کن عظمتوں کا خدا کا یہ گھر

یہاں کے شعائرتو ہیں معتبر

یہا ں پر تو نیکی ہے اک لاکھ پر

گناہ کا بھی اتنا ہی زیادہ اثر

یہاں نعمتیں بھی فراوان ہیں

یہاں پر جو آئے ہیں مہمان ہیں

یہاں تربیت کے بھی موقعے بہت

مگر ساتھ شیطان کے دھوکے بہت

یہاں بننے پر کیا ملے گا مقام

یہاں گرنے سے کام ہوگا تمام

ہے توحید لازم ،ادب بھی رہے

شعائر کی تعظیم،سب بھی رہے

شعائر کی تعظیم تقویٰ دل

شعائر سے اعراض دل کا ہے غل

کچھ اشعار آتے ہیں اب وہ پڑھیں

ملے کعبے سے کیسے اس سے سنیں

 

O

 

کعبے کا ادب

جو سب کو ملے ہے سبب کے مطابق

حرم سے ملے ہے ادب کے مطابق

 

حرم سب کی ماں ہے ہیں تھن اس کے نکلے

ملے دودھ سب کو طلب کے مطابق

 

کریں مختلف لوگ، کام مختلف

چلیں ہم بھی اپنے مذہب کے مطابق

 

یہاں لمحے لمحے کی قیمت بہت ہے

عمل کرلیں خوب روز و شب کے مطابق

 

یہ دار العمل ہے عمل کر شبیؔر

کہ جنت ملے فضل رب کے مطابق

بڑا جو عمل یاں ہے سمجھو وہ صاف

سنو دوستو وہ عمل ہے طواف

طواف کیا ہے؟ اس کی حقیقت ہے کیا

ہے اگلی غزل میں بتایا ہوا

کیا ہے طواف ؟

تجھے کیا پتا ہے کہ کیا ہے طواف؟

ہے حب الہی کا یہ اعتراف

یوں پروانے گھومتے ہیں شمع کے گرد

نہ کرتے ہیں اس سے کبھی انحراف

 

یہ کعبہ، نشانی ہے محبوب کی

محبت کی ہے شاہراہ یہ مطاف

 

مکاں سامنے ہے مکیں کو دو دل

کرو اب تو دل حب دنیا سے صاف

 

الہی تو شبیؔر کو کر قبول

گناہ اس کے ہوجائیں سارے معاف

بتاؤں میں اس کے فضائل مزید

تو اگلی غزل پڑھ ہے قول سدید

 

شاہراہ محبت طواف

 

عجب شاہراہِ محبت طواف

کہ دل حب دنیا سے ہوتے ہیں صاف

 

معافی ہے ملتی یہاں پر بہت

تو مانگو کہ سارے گناہ، ہوں معاف

کروگے صحیح تو خدا سے ملا دے

عجب شان کعبے کی ہے یہ طواف

 

جو قابو کروگے یہ دو تو ہے جنت

دو جبڑوں میں ایک ، دوسرا زیر ناف

 

طریق صحابہ و سنت رہے

نہ اس سے کسی وقت ہو انحراف

 

جو ہو حجر اسود پہ جانا شبیؔر

تو حالت رہے دل کی صاف و شفاف

 

بتاؤں، ہے کعبے کی عظمت کیا

یہ اگلی نظم سے ملے گا پتا

مری منتہا اس کی دید ہے

جو ہمیں یہاں پہ بلایا ہے یہ تو رحمتوں کی نوید ہے

مگر اپنے نفس سے میں ڈرتا ہوں اس کا ظلم، ظلم ِشدیدہے

 

یاں کی عظمتوں کا میںکیا کہوں میں تو بندہ اک ہوں حقیر سا

کرے سارے گناہ وہ معاف یاں اس پہ فضل اس کا مزید ہے

 

رخ دل بجانب ایں مکاں ایں طواف کعبہ طواف او

اسے پیش اپنا بھی دل کرو کہ قبولیت کی امید ہے

 

یاں قدم قدم پہ ہیں منزلیں تو بھی مانگ لے جو ہے مانگنا

کہ وہ ذات ،ذات کریم ہے فعال لما یرید ہے

 

مجھے مانگنا اس کی معیت ہے مجھے کھینچ لے اپنی طرف وہ یوں

کہ نہ بن سکوں کسی غیر کا مری منتہا اس کی دید ہے

 

بن تو اس کے حبیب کا اگر تجھے بننا اس کا عزیز ہے

کہ شبیؔر اس سے بنے گا تو، یہی قول ،قول ِسدید ہے

 

 

 

ہم اک دن وہاں جب حرم جارہے تھے

کبوتر اڑے جہاں ہم جارہے تھے

 

زمین پر پڑے ان کے سائے عجیب

ہوئے چند اشعار اس سے نصیب

یہاں پر وہ اشعار رقم کرتے ہیں

بیان اس میں چند چیزیں ہم کرتے ہیں

 

حرم کے کبوتر فضاء میں اڑے

 

یہ سائے زمیں پر تو دیکھو چلے

حرم کے کبوتر فضاء میں اڑے

 

یہ کن کا تھا مولد یہاں کون آئے

مگر اس زمیں سے وہ کیسے گئے

 

بچھونا تھا کس کا یہ تپتی سی ریت

ظلم کس نے کس کے یہاں پر سہے

 

کبوتری نے انڈا کہاں پر دیا

وہ کمزور مکڑی بھی جالا بنے

 

وہ کندھے پہ کس نے اٹھایا ہوا

وہ دشمن بھی پیچھے ہیں آئے ہوئے

 

وہ کس شان سے آئے مکے میں پھر

عدوتھےکھڑے منہ چھپائے ہوئے

 

وہی منتظر اپنے قسمت کے ہیں

کہ غم ان کے دل پر ہیں چھائے ہوئے

 

معافی کے اعلان سن کر وہ حیراں

شرم سےتھے گردن جھکائے ہوئے

یہ قربانیاں ایسی آساں نہیں

کہ ہم نے فقط ان کے قصّے سنے

ذرا دیکھو شبیؔر وہ میزابِ رحمت

کہ ہے کس طرف یہ اشارہ کیے

رسول خدا نے تو بت توڑے تھے

شعائر حرم کے وہ سب چھوڑے تھے

یہاں تک کہ کعبہ رکھا جوں کا توں

کہ شیطان کا کچھ بھی چلے نہ فسوں

یہاں جو بھی کعبے کو پیر کرتے ہیں

تو وہ دل کے تقویٰ کو ڈھیر کرتے ہیں

یہاں جو بھی قرآن زمین پر رکھے

ہدایت وہ قرآن سے کیا پاسکے!

یہاں جو موبائل میں میوزک رکھے

وہ کعبے سے کیسے اور کیا فیض لے؟

موبائل کا نقصان سمجھنا ہو گر

تو اگلی غزل پر ذرا غور کر

 

جو حب موبائل ہو اس زور سے

نمازوں میں میوزک بجے شور سے

 

پڑے بل نہ ماتھے پہ اس سے بھی تو

مسلمان پھر ہم ہوں کس طور سے

 

طواف بھی نہ محفوظ اس سے رہے

پڑا ہم کو واسطہ ہے کس دور سے

 

خشوع کا یہ دشمن پڑا جیب میں

تو سوچو ذرا اس پہ کچھ غور سے

 

کیا اس کو دل پہ جو شبیؔر سوار

نتائج ملیں گے ہمیں اور سے

نجس جوتے لاتے ہیں جو لوگ یاں

ہے دل کی خرابی کا عبرت نشان

یہ کعبے کی عظمت نہیں جانتے

جو جانتے ہیں ان کی نہیں مانتے

جو چند لوگ تعظیم کو شرک کہتے ہیں

طریق صحابہ سے دور رہتے ہیں

طریق صحابہ طریق معتدل

سمجھ سکتا ہے سب کا یہ ذہن و دل

تشدد طریق خوارج رہا

طریق معتدل سے یہ خارج رہا

جو ہیں اہل سنت کے چاروں امام

مقلد کرے ساروں کا احترام

جو آپس میں ان کے ہیں کچھ اختلاف

اصولی ہیں ، دل اپنا رکھتے ہیں صاف

 

طریق اپنا کرتے مسلط نہیں

کسی کو بھی کہتے یہ غلط نہیں

جو ہیں تنگ نظر ان کا دل بھی ہے تنگ

وہ کرتے ہی رہتے ہیں دوسروں سے جنگ

یہاں پر جوبعض عورتیں آتی ہیں

وہ شوق دل میں لے کے حرم جاتی ہیں

مگر اپنا چہرہ چھپاتی نہیں

وہ مردوں سے خود کو بچاتی نہیں

جہاں مردوں کا رہتا ہو اژدہام

بھلا عورتوں کا وہاں ہو کیا کام

اور اس پر طرہ ہو وہ کام مستحب

خراب اپنا پردہ کرے ہے عجب

ہاں مجبور ہوں تو ہو پھر کوئی بات

بچائے گناہ سے ہر اک اپنی ذات

کہا حضرت عائشہسے یہ جو

نہ کیوں حجر اسود پہ تم آتی ہو

کہا اس گناہ سے جدا ہی رہوں

ثواب اس کا دور ہی سے پاتی رہوں

جب ان کی نہ کرتے ہیں نیت امام

حرم کی جماعت سے پھر کیا ہے کام

بعض کام ہوتے ہیں یوں دیکھا دیکھی

حقیقت نہیں ان کی معلوم ہوتی

ثواب ان کی گھر کی نماز کا زیادہ

حرم کی نماز کا ہے پھر کیوں ارادہ

ہاں حج گرہو فرض ہے یہ ان کا جہاد

طواف کرلیں گر رش ہو کم زندہ باد

یا مطلوب ہو ان کو کعبہ کی دید

رہے اک جگہ،نہ پھریں وہ مزید

خبر ہم کو اک دن ملی دوستو

کہ جانا مدینے کو ہے بھایئو

خبر یہ خوشی کی ملی ہم کو جب

تو حالت ہماری ہوئی یوں عجب

نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا تھا

مدینے کو جانے کو بھی چاہتا تھا

نظم یوں ہوئی اک غزل اس پہ بھی

بیاں اس میں حالت ہماری ہوئی

D

 

نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا ہے

نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا ہے

مدینے کو جانے کو بھی چاہتا ہے

 

یہاں کعبہء محترم ہی کے گرد

میں چلتا رہوں دل یہی چاہتا ہے

 

یہ زمزم کا پانی نظارہء کعبہ

انہیں چھوڑ دوں دل نہیں چاہتا ہے

 

یہ میزاب رحمت کرے ہے اشارہ

چل آگے اگر روشنی چاہتا ہے

 

میں کیا! میری خواہش! ہےکیا اے شبیؔر

جو چاہے خدا دل وہی چاہتا ہے

بھرے ہم نے زمزم کے کین اپنے سارے

کہ تھے منتظر اس کے پیارے ہمارے

طواف وداع کے لئے بھی تھا جانا

کہ پھر کب ملے ایسا منظر سہانا

تھا دل ،کہ حرم میں ہی گزرے یہ رات

سفر صبح کرنا بھی تھا یہ تھی بات

تو سوئے حرم نصف رات ہم چلے

وقت یہ تھا بہتر طواف کے لئے

تو ہم نے طواف وداع کرلیا

یہ واجب بھی حج کا ادا کرلیا

تو ہم نے تہجد وہیں پھر پڑھی

وداعی غزل ہم نے اس دم لکھی

تھیں آنکھیں بھی نم انگلیوں میں قلم

کلام وہ یہاں پیش کرتے ہیں ہم

 

الٰہی ہمیں لا یہاں باربار

 

ہے میزاب رحمت سے رحمت پھوار

الٰہی ہمیں لا یہاں باربار

 

یہ کعبے کی چوکھٹ اور یہ ملتزَم

طفیل اس کے بخش دے ہمیں یا غفار

 

یہ کعبے کا حصہ ہے باہر حطیم

ہے باہر مگر یہ ہے اندر شمار

سکینہ برستا یہاں ہے بہت

یہاں کے زمان و مکان پر بہار

 

مقام براہیم بھی سامنے

نشانی نبی کی یہ ہے پروقار

 

میں چاہتا ہوں چوموں یہاں حجر اسود

ہے ڈر کہ نہ کوئی ہو مجھ سے ازار

 

طواف وداع کرکے ہوں سامنے

مرے دل پہ جانے کا غم ہے سوار

 

میں مقبول و مغفور یاں سے چلوں

کھڑا در پہ تیرے شبیؔر اشکبار

 

روانہ ہوئے ہم مکے سے صبح

خوشی جانے کی رہنے کا غم بھی تھا

قلم نوٹ بک ہم نے سنبھال لی

جو حالت تھی وہ اس پہ لکھ ڈال دی

مدینے کے رستے پہ ہم آگئے

یہ اشعار بہ نوکِ قلم آگئے

 

مدینے کا سفر شروع ہوا ہے

مدینے کا سفر شروع ہوا ہے

جہاں دل پہلے سے اڑکر گیا ہے

 

مجھے جانا تو ہے شرمندہ بھی ہوں

کہ میں نے اس سے پہلے کیا کیا ہے

 

کروں گا پیش میں دل سے سلامی

ابھی سے سرتصور میں جھکا ہے

 

کھڑا ہوں گا قبر کے پاس میں جب

سنے گا خود یہی میں نے سنا ہے

 

ادب سے جھک کے آہستہ چلوں گا

بزرگوں نے مجھے ایسا کہا ہے

 

میں کہہ سکتا نہیں، عاشق ہوں ان کا

کہ میرے سامنے میری خطا ہے

 

 

زبان شبیؔر کی قاصر ہے لیکن

خدا کے بعد دل ان کو دیا ہے

 

ہوئی نعت اور اس کے لکھنے کے بعد

لکھی وہ بھی یوں تھوڑا چلنے کے بعد

نعت رسول مقبول

ہمارے نبی پر ہوں لاکھوں سلام

پڑھوں میں درود ، ان پہ ہر صبح شام

 

میں سیرت پڑھوں ان کی، اس پر چلوں

میں دل میں رکھوں ان کی صورت مدام

 

خدا کے لئے میں خدا کا بنوں

مگر ہو طریقہء خیر الانام

 

میں بدعت کو جوتی سے ٹھوکر لگا دوں

جو راسخ ہے دل میں سنت کا مقام

 

میں شبیؔر اپنے خدا سے یہ مانگوں

مجھے بھی پلا دے محبت کا جام

 

یہ نعت نوٹ بک پررقم جب ہوئی

مدینے کی جانب فکرچل پڑی

تو اگلی غزل اس سفر کی خبر ہے

ہے دل کا سفر تو تبھی پُر اثر ہے

کوئی مجھ سے پوچھے کہاں جارہا ہوں

کوئی مجھ سے پوچھے کہاں جارہا ہوں

اڑا جارہا ہوں اڑا جا رہا ہوں

 

مدینے کا رستہ قلم ہاتھ میں ہے

لکھا جارہا ہوں لکھا جارہا ہوں

 

مرے عقل و ہوش اب جدا ہو رہے ہیں

جہاں اپنا دل ہے وہاں جارہا ہوں

 

مرے دل میں صورت جو اس کی بسی ہے

اسے دیکھ کر میں مٹا جارہا ہوں

 

مرا بس کہاں اس سفر کا شبیؔر

مگر میں بفضل خدا جارہا ہوں

مدینہ پہنچے عشاء کو جو ہم

عشاء کی جماعت میں تھا وقت کم

وضو کرکے جلدی سے مسجد گئے

وہاں کچھ جماعت میں شامل ہوئے

ہوا ٹھنڈی اس دن بہت تھی چلی

مگر اسکی ہم کو تیاری نہ تھی

 

گلا اس لئے کچھ خراب ہوگیا

نہ تھی احتیاط سو یہ ہونا ہی تھا

پہنچ کر مدینے لکھی اک غزل

یہ تھا مجھ پہ اللہ کا اک فضل

غزل آگے لکھی ہے پڑھ لیجئے

ہے جام محبت اسے پیجئے

 

اللہ کا کرم ہے مدینے پہنچ گئے

 

اللہ کا کرم ہے مدینے پہنچ گئے

ہو فضل اب مزید یہاں کا ادب ملے

 

یہ تو ادب کی جا ہے کہاں سر اٹھا سکوں

بس اب تو ہو درود و سلام سر جھکا کئے

 

اب میں تو تصور میں ان کے ساتھ ہی رہوں

کیا خوب بزرگوں نے طریقے بتا دیئے

 

کرلوں سلام ان کو یہاں بار بار اب

سنتے ہیں یہاں خود ہی اپنے چشم وا کئے

 

اپنی خطائیں مجھ کو بہت یاد آتی ہیں

حاضر در شفیع پہ اب ہم یہاں ہوئے

 

ہم کوخدا سے ان کا وسیلہ عطا ہوا

مل جائے معافی بھی شبیؔر اب خدا کرے

 

اسی دن کہ مسجد میں بیٹھے تھے ہم

نظر سامنے گنبد پہ ہاتھ میں قلم

تو طاری ہوئیں دل پہ کچھ کیفیات

بیان کرنا چاہا وہ حال ہاتھوں ہاتھ

خدا کے فضل سے بیان ہوگیا

یہاں سب کے سامنے عیاں ہوگیا

 

سامنے روضہ ءاقدس کا نظارہ کیا خوب

 

سامنے روضہ ءاقدس کا نظارہ کیا خوب

بخت کیا جاگ اٹھا ایسا ہمارا کیا خوب

 

ہم بھی قدموں میں یہا ں آئے زہے قسمت ا ب

مل گیا ہم کو معافی کا اشارہ کیا خوب

 

ہم تو کمزور سے انسان ہیں بفضل خدا

مل گیا ہم کو وسیلے کا سہاراکیا خوب

جس نے محبوب کے محبوب کے محبوب اعمال

کئے تو اس نے اپنےنفس کو ہے مارا کیا خوب

 

پیروی سنت رسول کی محبوب تو ہے

ذات اقدس کی محبت ہے دل آ راء کیا خوب

 

ہم صحابہ کے ہیں مشکور جنہوں نے کیسا

دل میں درس حب نبی کا ہے اتارا کیا خوب

 

پڑھتے مسجدِ نبوی میں رہوشبیؔر سلام

یاں پہ سجتا ہے یا رسول کا فقرہ کیا خوب

چلے اگلے دن جب سلام کے ليے

مواجہ کی جانب ہم جیسے بڑھے

تو شور عورتوں کا کچھ ایسا سنا

یہاں شور یا رب! اور ایسی جگہ

جہاں پر حکم رب کا لا ترفعوا

وہاں حال ایسا رہے چارسو

خدایا یہ کیا دور ہم دیکھتے ہیں

ادب گاہ میں یوں زیر و بم دیکھتے ہیں

تو دیکھ اس کو دل اپنا بھی رو پڑا

بیاں کرنے اس کو قلم چل پڑا

پڑھو اس کو تم بھی کہ تم بچ سکو

ادب گاہ میں پھر ادب سے رہو

اے کاش یہاں درس ادب بھی تو ہو چلے

 

یہ بے ادبی دیکھ کےآج ہم بھی رو پڑے

اے کاش یہاں درس ادب بھی تو ہو چلے

 

یہ شور عورتوں کا یہ مسجد نبوی اف

تعظیم شعائر کیا بالکل ہی کھو گئے

 

تعظیم شعائر کو جو تقویٰء دل کہا

تعظیم شعائر کو کوئی کیسے شرک کہے

 

فرمایا جب رسول نے ادبنی اللہ”

پھر کیسے ادب چھوڑ دے مومن جو یہ سنے

 

شوق مستحبات میں واجب سے ہوں محروم

کچھ درستگی کے واسطے تدبیر بھی بنے

 

اک شرک کو اللہ بخشتے نہیں مگر

اعمال کہیں خبط نہ ہوں بے ادبی سے

 

لَا تَرْفَعُوْۤا نکیر ہے جب بے ادبی پر

اس پر شبیؔر بے ادبی یہ کیوں رہے

ادب کی یہاں بات ہوتی رہے

محبت میں آنکھ اپنی روتی رہے

ادب سے ہی دل اپنا سرشار ہو

حماقت نہ ہو ذہن بیدار ہو

یہاں کا وظیفہ درود و سلام

کہ کرتے ہی رہتے ہیں یہ خاص و عام

یہاں پر نہ ہو شور و غوغا مگر

بچو اس سے خودپہ یہ احسان کر

 

نظم یہ بیاں کچھ وہاں پر ہوئی

تمہارے لئے بھی یہاں پر لکھی

 

ادب ادب کی بات ہے

جس کو ملے اور جتنا ملے یاں ملتی جو خیرات ہے

ادب ادب کی بات ہے سمجھ سمجھ کی بات ہے

بالکل ٹھیک ریاض الجنت جنت کا اک ٹکڑا ہے

مسجد نبوی ساری مبارک نور یہاں پر بکھرا ہے

لیکن اس میں دوڑ لگانا کیا طریقہ ستھرا ہے؟

بھائی ادب جسے کہتے ہیں وہ یہیں پر اترا ہے

ا یسی دوڑ میں پیارے بھائی کچھ شیطان کا ہاتھ ہے

ادب ادب کی بات ہے سمجھ سمجھ کی بات ہے

جنت کے ٹکڑے میں بیٹھنا یہ کار ثواب ہے

لیکن اس میں بیٹھے رہنا اس کا کیا جواب ہے

دوسروں کا حق دابے رکھنا اس پر تو عتاب ہے

ہم یہاں پر ظلم کریں اف یہ حالت خراب ہے

چپ رہنے اور دیکھتے رہنے میں ہی احتیاط ہے

ادب ادب کی بات ہے سمجھ سمجھ کی بات ہے

حرص ثوابوں کی اچھی لیکن ادب تو کرنا ہے

ہم بگڑنے آئے نہیں یاں، ہم کو تو سدھرنا ہے

بہت ادب کی جا ہے ہم کو ،قدم قدم پر ڈرنا ہے

نیچی نگاہیں، آہستہ اور خاموشی سے چلنا ہے

ماشاء اللہ پھر تو خدا ہر وقت ہمارے ساتھ ہے

ادب ادب کی بات ہے سمجھ سمجھ کی بات ہے

خود ہی سلام وہ سنتے ہیں مسجد نبوی میں ہر جگہ

ہر نماز کو جیسے آؤ، بیٹھ ،سلام پھر پڑھ یہاں

پھر ترستے ہی رہوگے ایسے مواقع کہاں

خاموشی سے لیتے رہو برکات جو ہیں یاں جہاں جہاں

وقت یہاں پر جتنا ملے یوں سمجھو کہ سوغات ہے

ادب ادب کی بات ہے سمجھ سمجھ کی بات ہے

اور یہاں پر موقع ملے تو چالیس نمازیں پڑھ لو نا

آپ کی ہم کو ملے شفاعت اس کی کوشش کرلونا

دامن اپنا، ہر خیرات برکات سے، پورا بھر لونا

اپنے دامن سے گناہ کو توبہ کرکے جھڑلونا

فکر ہے شبیؔر کی یا پھر یہ آپکی نعت ہے

ادب ادب کی بات ہے سمجھ سمجھ کی بات ہے

اگلے دن ہی مسجدمیں مغرب کوجوبیٹھنا ہوا

آئے کچھ اشعار، قلم پر ان کا بھی لکھنا ہوا

خالق کے محبوب کی عظمت خود بخود گویا ہوئی

آپ بھی اس کو پڑھ لیں کہ پھر یہ گویائی کیا ہوئی

 

خالق نے محبوب کے واسطے کیا منظر سجایا ہے

خالق نے محبوب کے واسطے کیا منظر سجایا ہے

قادر ہوکر اللہ نے محبوب کیسا بنا یا ہے

 

تعریفیں ان کی جتنی بھی ہوں پوری نہ ہوں

شجر حجر اور حیوانوں میں کیسا شوق رچایا ہے

شجر حجر اور حیوا نات مکلف مخلوقات نہیں

تب کہوں ہمارے واسطے یہ سب کچھ کرایا ہے

 

اونٹ قربان ہوتے ہوئے کرتے ہیں پیش اپنے گلے

روتے شجر کو ہاتھ سے تھپکی دے کر چپ کرایا ہے

 

چاند کے ٹکڑے ہوگئے جب، انگلی کے اشارے سے

اس کو دیکھ کرہندو راجہ مسلم ہونے آیا ہے

 

کعبہ بت کدہ بنا تھاکتنے پڑے تھے بت اس میں

فاتح ہوکر آقا نے اک اک بت کو تڑوایا ہے

 

ذہن رکاوٹ بن جائے توآقا دل میں آجائے

آقا نے اخلا ق کا لوہا کتنوں سے منوایا ہے

 

ایک ہی رستہ اللہ سے ملنے کا ہے بس آقا کا

یہ گر خود اللہ نے اپنے، قرآں میں بتایا ہے

اب اگر موسیٰ بھی آئے ،آقا کے رستے پر ہوں

اس طرح تورات پڑھنے پہ، عمر کو فرمایا ہے

 

اور جب آیئں گے عیسیٰ، آیئں گے امتی بن کے

آقا نے مستقبل کا، یہ منظر بھی دکھلایا ہے

 

کیسے خوش نہ ہوں ہم کہ ہیں، ان کے اُمتی شبیؔر

امتیوں کو اپنی شفاعت کا، مژدہ سنایا ہے

اس کے بعد جب شکر کے جذبات بنےمیرے تو پھر

وارد یہ اشعار ہوئے مجھ پرجو ہیں لکھے ادھر

 

ترا ہی فضل میرا آسرا ہے

 

الٰہی شکر میں آیا یہاں پر

رسول اللہ ہوتے ہیں جہاں پر

 

گو میں نا چیز ہوں کچھ بھی نہیں ہوں

مگر اس وقت ہوں یا رب کہاں پر

 

الہی اب ادب سکھلا دے مجھ کو

جو کرنا ہے یہاں مجھ پر عیاں کر

بحرمت سید الابرار سہل

مرے واسطے تو ہر مشکل آساں کر

 

ترا ہی فضل میرا آسرا ہے

تو اپنے میرے اس کو درمیاں کر

 

مرا دل تیرا بن جائے خدایا

یہ رحمت مجھ پہ اب تو بے کراں کر

 

تری رحمت کا مظہر سامنے ہے

وقتِ آخر مرا یارب یہاں کر

 

ترے محبوب کے در پر ہے شبیؔر

دعا پر میری یا رب اب تو ہاں کر

 

وہاں پر رہیں اور سلام چھوڑ دیں

یہ گویا ہے ایسے کہ کام چھوڑ دیں

تو اب پیش کرتا ہوں اس پہ سلام

جو ہیں مجتبیٰ اور عالی مقام

 

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

آتا رہوں یہاں پہ اب مدام یا رسول

گو میں ہوں یا رسول گنہگار امتی

ہوں تیری شفاعت کا امیدوار امتی

حاضر ہوں ترے در پہ شرمسار امتی

بن جاؤں اب تو میں بھی تابعدار امتی

مل جائے معافی مجھے انعام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

ڈرتا ہوں آخرت میں اگر ہوگیا حساب

اعمال بد کے واسطے کوئی نہیں جواب

ہوجائے اب کرم کہ ہے حالت مری خراب

کچھ بھی نہیں صحیح ہے نہ اعمال نہ آداب

ہوجاوں نہ کہیں اس میں ناکام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

بس جائے مرے دل میں اک خدا کی محبت

سب انبیاء صحابہ اولیاء کی محبت

تکمیل ہے ایماں کی مجتبٰی کی محبت

اور دل سے نکل جائے یہ دنیا کی محبت

مل جائے معافی مجھے انعام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

دور فتن ہے کتنے ہیں فتنے کھلے پڑے

لباس دوستی میں ہیں دشمن چھپے ہوئے

اور ہم ہیں جان کر بھی ہمنوا بنے ہوئے

مدت صلاح الدین کی گزری مرے ہوئے

ایساہو میسر ہمیں امام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

اب خواب جو غفلت کا ہے بیدار ہوں اس سے

منہ دیکھنا پڑا ہے یوں ناکامی کا جس سے

اپنا کیا دھرا ہے تو گلہ کریں کس سے

آباء کے اپنے رہ گئے ہوشیاری کے قصے

اب ہم بھی سمجھ جائیں اپنا کام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

کلمہ پڑھوں بن جائے تو کلمے کا اب گواہ

اب میں چلوں اس پر کہ جو خالص ہے تری راہ

سب اس کے مطابق ہوں گو سفید ،گو سیاہ

مقصود نہ ہوں مال،نہ ہی باہ ، نہ ہی جاہ

بن جائے یہی حال اب مقام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

دنیا کی چاہتوں کا گو بنا ہوں میں اسیر

اللہ کا فضل ہے بے مثال و بے نظیر

کرتا ہے عاجزی سے اب یوں عرض یہ شبیؔر

دنیا میں رہوں اب تو ترے در کا اک سفیر

شامل ہو غلاموں میں مرا نام یا رسول

پھر پیش کروں تجھ پہ میں سلام یا رسول

 

اپنے نانا کو کروں دل سے سلام

 

آمدم بفضلِ رب در این مقام

اپنے نانا کو کروں دل سے سلام

 

میرے دل میں خواہشیں کتنی اٹھیں

اب تو بس کرلوں یہاں پر ایک کام

 

میں غٹاغٹ پی چکا ہوں گا یہاں

گر ملا مجھ کو محبت کا وہ جام

 

عشق مولا مانگ لوں اب میں یہاں

عمر ہوجائے مری اس میں تمام

اب تو پڑھنا ہے سلام حاضری

سامنے جو ہیں یہاں خیر الانام

 

دین پر میں مانگتا ہوں پختگی

کب تلک یوں ہی رہے شبیؔر خام

 

دیکھا ہم نے مسجد نبوی میں یہ

لوگ اکثر احتیاط کرتے نہیں

جس وقت کوئی نماز پڑھتے ہیں لوگ

عین ان کے سامنے چلتے ہیں لوگ

حکم سترہ تو یہاں نازل ہوا

پھر کیوں اس پر عمل مشکل ہوا

ہے تو بیت اللہ میں یوں یہ معاف

کیونکہ واں ہوتا ہے کعبے کا طواف

یہ عذر کیونکر یہاں معقول ہے

کیونکہ مسئلہ اس طرح منقول ہے

جسکی سجدے کے مقام پر ہو نظر

سامنے اس کے چلے کوئی اگر

وہ جہاں تک بھی نظر آئے اسے

واں سے جانا سامنے ممنوع ہے

 

اس کا اندازہ دو صف تک لیتے ہیں

اس میں تب فتویٰ اسی پہ دیتے ہیں

ہو اگر مسجد بڑی یہ ہے درست

ہو اگر چھوٹی تو ہوجانا نہ سست

اس میں سامنے جانا جائز ہی نہیں

مسئلہ اس میں ہے شریعت کا یہی

ہاں اگر سترہ ہو سامنے اس کا تو

اس کے سامنے جانا پھر تو ٹھیک ہو

طول و عرض ہو ساٹھ ساٹھ فٹ اگر

حد بڑی مسجد کا جانو اے پسر

پس بڑی مسجد میں دو صف دور ہو

سامنے جانا اگر ضرور ہو

مسجد نبوی بڑی مسجد ہے ہاں

ہو عمل اس فارمولے پر وہاں

 

نمازی کے سامنے گزرنا نہیں

نمازی کے سامنے گزرنا نہیں

بہت ہی غلط ایسا کرنا نہیں

 

اوامر نواہی کا منبع جہاں ہے

وہاں تو کم ازکم بگڑنا نہیں

 

وعید اس کی آئی بہت سخت ہے

اسے جان کر بھی سنبھلنا نہیں؟

 

شریعت کے احکام بھولو نہیں

شریعت کی حد سے نکلنا نہیں

 

مساجد جو چھوٹی ہوں ان میں تو پھر

بدوں سترہ سامنے کو بڑھنا نہیں

 

مساجد بڑی ہوں تو دوصف سے پھر

ہو کم فاصلہ آگے چلنا نہیں

 

گزشتہ گناہوں پہ توبہ کریں

شبیؔر اب تو رک! تجھ کو مرنا نہیں؟

 

چلے ایک دن ہم زیارات کو

جو تاریخی ہیں ان مقامات کو

ہے مسجد قبا کی وہاں ہم گئے

پڑھیں دو رکعت اس میں اور کچھ رہے

حدیث میں ثواب اس کا عمرےکا ہے

اثر یہ صحابہ کے رتبے کا ہے

تھے عمرہ سے محروم ہجرت کے بعد

بہت تھے وہ مغموم ہجرت کے بعد

خدا نے ثواب اس کا ویسے دیا

جو چاہا انہوں نے انہیں دے دیا

یہ پاکوں کی مسکن قبا کی زمین

ہےتعریف قرآن میں ان کی یہی

چلے ہم احد کی زیارت کو بھی

شہیدوں کا مسکن بڑا ہے یہی

شہیدوں کے سردار بھی ہیں ادھر

سلام پیش ان پہ کیا خوب پھر

وہاں جو تھے سارے شہیدوں پہ بھی

مگر چپکے چپکے، اجازت نہ تھی

بنایا ہے مشکل رد عمل نے

تشدد ہے دین کی ہر اک چیز میں

یہاں شرک کہتے ہیں تعظیم کو بھی

جو تقویٰ ہے از روئے قرآن ہی

وہاں ایک ساتھی نے یہ بھی کہا

پتھر اک احد کا جوساتھ ان کے تھا

وہ لایا ہے رکھنے دوبارہ یہاں

کہ مسئلہ تھا ساتھ اس کے کوئی وہاں

انہیں دوڑ کر رکھنے کو کہہ دیا

وہ ساتھ ایک ساتھی کے دوڑ کے گیا

تو خیر سے ہوئی جب ان کی واپسی

تو نعمت ہمیں ایک ان سے ملی

وہ لائے تھے پتے احد سے جو ساتھ

وہ ہم نے لئے ان سے خوب ہاتھوں ہاتھ

کہ سنت احد سے ہے کھانا یہاں

کہ روشن ہے سنت سے سارا جہاں

کھجوریں بھی ہم نے وہاں کھائی تھیں

جو ریڑھوں پہ ڈل کے وہاں آئی تھیں

وہاں سے بہ رخ قبلتین ہم گئے

بصورت جماعت بسوں میں چلے

جہاں رخ بہ کعبہ حکم قبلہ کا

ہوا تھا تو کعبہ ہی قبلہ ہوا

پڑھی اک دُعا حسب توفیق واں

صحیح دل کا قبلہ ہو اپنے یہاں

صحیح دل کا قبلہ بنے گا تو پھر

نیت درست ہوگی تبھی تو ادھر

تو سبع مساجد وہاں سے چلے

یہ غزوہ احزاب میں خیمے تھے

تھا میں ایک دفعہ ایک ڈرائیور کے ساتھ

تو رستے میں اس نے کہی ایک بات

کہاں تم نے جانا ہے مجھ کو بتا

وہاں ہے تمہارا ارادہ کیا

کہا، جانا سبع مساجد کو ہے

تو بولے مساجد نہیں، خیمے تھے

وہاں پر نماز تم کو پڑھنا نہیں

صرف دیکھنا۔۔ کچھ بھی کرنا نہیں

کہا میں نے ٹھیک یہ تھے خیمے مگر

کیا جائز نہیں کوئی پڑھ لے اگر

ہے مسجد ضروری نفل کے لئے؟

دلیل کیا ہے ایسے عمل کے لئے؟

تھے اصحاب کہف جس جگہ پر رہے

واں از روئے قرآن تو مسجد بنے

مذمت خدا نے نہ کی اس کی جب

تو کیوں نہ ہو جائز مساجد یہ سب

جو خیمہ رسول خدا کا رہا

تو کیا اعتراض گر وہ مسجد بنا

کہا میں نے یہ جب، وہ خاموش تھا

مگر جب پہنچے تو یہ کہہ اٹھا

کھڑا منتظر میں ترا ہوں یہاں

نماز ان مساجد میں پڑھ لے تو ہاں

بنے کیا تشدد کے رستے کا حال

بس اک سینہ زوری عبث قیل و قال

کہاں یہ گنہگار کہاں ان کی نعت

مگر چاہے دل کہ کروں ان کی بات

خدا کی مدد گر میسر رہے

تو پھر جو یہ کاوش ہے بہتر رہے

خدا سے مجھے مانگنا ہے یہی

تو اشعار میں یہ ہی صورت بنی

اگر ذوق ہو ان کو پڑھ لینااب

کہ کام کرنے کا ہے دعا اک سبب

کروں پیش نانا کے در پر سلامی

میں مانگوں یہاں نعتیہ خوش کلامی

کروں پیش نانا کے در پر سلامی

میں دل اپنے الفاظ میں کردوں پیش

نہ گرچہ ہوں رومی، عراقی یا جامی

 

مرا اب تو پختہ ہو رشتہ یہاں پر

ختم ہو کہ جو کچھ بھی ہو اس میں خامی

 

ہو جام شریعت نصیب اب یہاں سے

محبت ملے بھی یہاں سے دوامی

 

کروں استعمال جان و مال وقت بہتر

ختم میری ہو جائے بے انتظامی

 

صحابہ نہیں ہیں جو آنکھوں سے دیکھیں

مگر دید شبیؔر کو ہووے منامی

 

 

خدا سے مجھے مانگنا ہے یہی

تو اشعار میں یہ ہی صورت بنی

بئر روحا دیکھا اک کنواں عجیب

سرِ راہ بدر کے ، کچھ اس کے قریب

پیا آپ﷑ نے اس کنویں کا ہے پانی

مزید انبیاء کی بھی ہے یوں کہانی

کلی آپ نے اس میں اک ڈال دی

کہ یاد آئی امت استقبال کی

 

جب اس میں نیت آپکی امت کی ہے

تو جھوٹے کی نیت سے ہر اک پئے

خدایا کیا تھا وہ مبارک لعاب

ہوں مالامال پی کے ہم بے حساب

رکھا ہم نے اک دن برائے بدر

کیا جی ایم سی سے پھر ہم نے سفر

تو اس دن روانہ ہوئے شوق سے

جو ساتھی تھے رستے میں وہ سو گئے

مرا ماضی میں پھر رہا تھا دماغ اسی سے مرا دل ہو ا باغ باغ

تصور میں آیا بدر کا غزوا

ہوئی کیسی رسم وفا جب ادا

کچھ اسباب جب آپ نے پورے کئے

تو بعد اس کے ہاتھ آپ کے اٹھ گئے

وہ کیسے تھے الفاظ جو آپ کہہ گئے

اور آنسو بھی چہرے پہ بہتے گئے

کیا وعدہ اللہ نے پھر ان سے جب

رسول خدا نے بھی لی سانس تب

زمیں تھی جو اچھی کفار نے وہ لی

صحابہؓ کی جو ریتلی تھی وہ رہی

ہوئی بارش آپ کی مدد کے لئے

تھے ر یتلے جو رستے وہ پکے ہوئے

مٹی جس طرف تھی وہ کیچڑ بنی

یوں تدبیر اللہ کی ایسی ہوئی

جو اسباب اچھے تھے کفار کے

وہ سارے اسی سے الٹ ہوگئے

کٹے پھر تو میداں میں کفار خوب

پڑی ان پہ قہار کی مار خوب

جو سردار تھے ان کے مارے گئے

وہ سارے ہی کنویں میں ڈالے گئے

پکارا انہیں آپ نے نام سے

کہ واقف ہوئے اب تو انجام سے

جو ہم سے تھا وعدہ وہ پورا ہوا

تم اپنا بتاؤ کہ کیا کچھ بنا ؟

کہہ اٹھے عمرؓ ان سے کیوں ہے خطاب

نہیں سنتے ، تو کیوں یہ سوال و جواب

یہ سن لیتے ہیں تجھ سے زیادہ عمر

ہیں معذور اس میں جواب سے مگر

گزرجاتے ہیں دن محبت کے سب

مزے تھے کیا ۔۔ تھے کیا روز و شب

تھا معلوم ایک روز ہے جانا ہمیں

مچلتا رہا دل ہے آنا ہمیں یہیں

کشمکش دل میں ہوتی رہی

اور آنکھ چپکے چپکے سے روتی رہی

قلم کچھ نہ کچھ خیر سے لکھتا رہا

مگر دل ہمارا تو دکھتا رہا

وہی دکھ ہے اب پیش اشعار میں

مزہ کچھ اخفا میں کچھ اظہار میں

مرا محبوب مرا نانا ہے

آخری دن ہے رات جانا ہے

پھر جدائی کا اک زمانہ ہے

 

میں تو رو رو کے کہوں گا اے خدا

مجھ کو تو ، باربار آنا ہے

 

حاضری یہ نہ آخری ہو مری

مرا یہ سوال عاجزانہ ہے

 

مرا حبیب ہے تیرا بھی حبیب

تجھ کو بھی، اس کو بھی منانا ہے

 

مرے گناہ ہوں معاف سارے

یہ بھی خواہش مودبانہ ہے

 

نفس و شیطاں کے شر سے بچ جاؤں

ان کا ہر وار ظالمانہ ہے

 

اب ملے مجھ کو محبت کا جام

خود بھی پینا ہے اور پلانا ہے

 

اپنے محبوب پہ شبیؔر سلام

مرا محبوب مرا نانا ہے

مدینے سے رخصت ہو اجارہا ہوں

مدینے سے رخصت ہوا جارہا ہوں

ندامت سے بالکل دبا جا رہا ہوں

 

یہاں پر کیا کچھ نہیں تھا خدایا

مگر کرکے کیا میں چلا جارہا ہوں

 

یہ آسماں کے نیچے عجیب اک شہر ہے

کہاں یہ کہاں میں جہاں جارہا ہوں

یہاں میرا آنا مقدر میں لکھ دے

الٰہی میں گو اس دفعہ جارہا ہوں

 

مدینہ، مدینہ ،مدینہ ،مدینہ

تصور میں، اس میں، سما جارہا ہوں

 

میں مکے کی دولت یہاں پر بھی پاؤں

کہ زمزم کہے، میں پیا جارہا ہوں

 

یہاں پر یہ انوار و برکت کی بارش

جدائی میں اس کی جلا جارہا ہوں

 

ملے مجھ کو آخر میں، خاکِ مدینہ

عجب کیف اس کا میں پا جارہا ہوں

 

نہیں مڑ کے دیکھنے کی شبیؔر کو ہمت

مدینہ، میں اب الوداع ،جارہا ہوں

بسوں کے ذریعےجو پہنچے جدے

امیگریشن سب کچھ سے فارغ ہوئے

جدے میں جو بیٹھے تھے ہم منتظر

تو سوچا کہ جا ہم رہے ہیں کدھر

کہاں پر یہ دن رات ہم نے گزارے

کہاں آرہے ہیں یہ دن اب ہمارے

جو اعمال تھے اس میں پیغام بھی ہے

کیا فکر آگے کی ہم کو ملی ہے

جہاں جا رہے ہیں وہاں کیا کریں گے

وہاں جاکے کیا ہوگا کیسے رہیں گے

تو اس سوچ کو بھی نظم میں تھا ڈھالا

جدے میں ہی کرکے قلم کے حوالہ

 

وہاں پر جا کے اب ہم کیا کریں گے

پھر اپنے دیس میں ہم جا بسیں گے

وہاں پر جا کے اب ہم کیا کریں گے

 

مبارک حج تمہیں حاجی مبارک

اگر برکت کے در کو وا کریں گے

 

بدلنا زندگی تم کو ہے حاجی

وفا کی رسم تب ادا کریں گے

 

فخر نہ حاجی ہونے پر کریں ہم

وگر نہ سارا کچھ تباہ کریں گے

ہمیں ہنسائے گا اللہ وہاں پر

گناہوں پر اگر رویا کریں گے

 

یہ کوشش ہو تہجد روز پڑھ لیں

نہ اب ہم دیر تک سویا کریں گے

 

جو مالی کام ہیں وہ ٹھیک ہوں سب

تو اب اس کے لئے سوچا کریں گے

 

جدے سے جو دیا شبیؔر نے پیغام

اب اس پیغام کو پھیلا یا کریں گے

 

خداکے فضل سے جہاز وقت پر

روانہ ہوا، اک تھی مشکل مگر

اڑے جب جدے سے بجانب وطن

تھا مغرب کا وقت اور تھا اپنا چلن

جو مشرق کے جانب جہاز اڑتے ہیں

تو وقت جلدی جلدی ختم کرتے ہیں

مزید اس پہ یہ قبلہ تبدیل ہو

اور عملے کو پڑھنا نماز فیل(feel) ہو

تو دل میں تھے کرتے یہی اک دعا

کہ ہوجائے مغرب نماز خوب ادا

جدے میں ہی داخل تھا مغرب کا وقت

تو مشکل پڑی اس سے تھی ہم پہ سخت

ارادہ یوں تھا ابتدئے اڑان

ہی میں ہم پڑھیں یہ نماز عالی شان

کہ قبلہ جہاز ہی کی سمت رہے

مگر ہم کو موقع پہ ہمت رہے

بفضل الٰہی یہ کوشش جو کی

نماز اپنے وقتِ صحیح پہ پڑھی

جو کوشش کرے خود سے انسان بھی

مدد پھر کرے اس کی رحمان بھی

خدایا ہماری جو ہیں مشکلات

آسان کر شبیؔر کی ہے یہ مناجات

ہوا اس سفر کا یہاں اختتام

یہاں رکھ دیا اس کا مینا و جام

مگر سوچ دل پہ یہ غالب رہے

کیا اس میں حقیقت کی طالب رہے

کہاں یہ محبت کے دعوے ہمارے

کہاں اپنے سوء عمل کے پٹارے

کہاں عشق و مستی کی اپنی محافل

کہاں کسل و سستی کے اپنے مسائل

مگر اک خدا کے کرم پر نظر ہے

کہ جس سے منور جہاں بحر و بر ہے

یہ جذبات بھی آگے زیر قلم ہیں

بیاں جو کئے ہیں حقیقت سے کم ہیں

 

نبی کی محبت کے دعوے بہت

 

نبی کی محبت کے دعوے بہت

زبان پر محبت کے نعرے بہت

 

عمل کے تقاضے پہ چپ کا ہے روزہ

اگر چہ بڑھک یوں ہی ماریں بہت

 

عمل کی ہی دعوت نبی نے جو دی تھی

ہیں اس کے فضائل سنائے بہت

 

کرے کوئی دعویٰ دلیل اس پہ لازم

عمل کچھ نہیں دعویٰ ہائے بہت

 

حقیقی محبت کو حاصل کریں ہم

کہ اس سے عمل پر جو آئے بہت

نبی کی اطاعت کرو دل سے شبیر

کہ یوں ہی تو چیخے چلائے بہت

 

جو حج پر ہو گئے اشعار وہ لکھ

ہیں پچھلے سال کے یاد گار وہ لکھ

جو حمد و نعت کا مجموعہ ہے اک

کلام خاص غیر مطبوعہ ہے اک

یہ درد دل کا اک اظہار جو ہے

مگر بصورت اشعار جو ہے

 

کہ کھلے گا گر تو یہاں پہ ہی جو مرے نصیب کا تالا ہے

 

میںمریض حب رسولہوں کہ مرض صحت سے یہ بالا ہے

جو سبب حیات کا ہے مری ،مرے دل میں جس سے اجالا ہے

 

مرے دل میں اس سے سرور ہے مرے دل کو اس سے سکون ہے

میں نے دل میں شوق سے ذوق سے جانے کب سے پیار سے پالا ہے

 

کوئی مجھ کو اس سے نہ روک دے میں علاج اس کا کروں گا کیوں

کہ مرض یہی تو علاج ہے اس نے نفس کے شر کو جو ٹالاہے

مرے نفس نے مجھ کو اٹھا دیا اور اٹھا اٹھا کے پٹخ دیا

میں پٹخ پٹخ کے گرا گرا تو اسی نے مجھ کو سنبھا لاہے

 

میں دیوانہ عشق کی مار کا ،مجھے عقل کی کوئی دوا نہ دے

مرے دل میں ایسا دخل جو دے میں نے دل سے اس کو نکالا ہے

 

در جد پہ آکے پڑا ہوں میں گو نہیں ہوں اس کےبھی قابل میں

کہ کھلے گا گر تو یہاں پہ ہی جو مرے نصیب کا تالا ہے

 

یہ بڑائی تیرے گھر کی کیا حقیقت میرے سر کی

رہِ عشق پہ چلوں میں، ننگے سر نہ عار ہووے

کہ چلوں دو چادروں میں ،جتنا خوار و زار ہو وے

 

بہ مجاز میں حقیقت، ترے گھر کے ہر چکر میں

تجھے دل میں دے رہا ہوں، ایسا بار بار ہو وے

 

درمیان عاشقاں جو، میں طواف کررہا ہوں

ان میں جن کی مغفرت ہو، مرا بھی شمار ہو وے

یہ بڑائی تیرے گھر کی ، کیا حقیقت میرے سر کی

کیا ہو شان اس کی بالا ،جو یہاں نثار ہو وے

 

استلام کررہا ہوں ، اسود کا جان و دل سے

دے ایمان کی گواہی ،کہ مجھے قرار ہو وے

 

ملتزَم پہ جارہا ہوں ،کہ لگاؤں اس سے سینہ

میں شبیؔر پھٹ پڑوں اب ،کہ نصیب پیار ہو وے

 

ترے در پہ جو بھی آئے خالی ہاتھ نہ وہ جائے

 

ترے در پہ گنہگار ،یا رسول آیا ہوں

مغفرت کا طلبگار ،یا رسول آیا ہوں

 

مرا قلب پارہ پارہ ہے ،دنیا کی محبت سے

میں ہوں شتر بے مہار ،یا رسول آیا ہوں

 

ترے در پہ جو بھی آئے ،خالی ہاتھ نہ وہ جائے

پر امید پھر ایکبار ،یا رسول آیا ہوں

 

یہ گواہی مری دے دے کہ ہوں تیرا اُمتی میں

شرمندہ و شرمسار یا رسول آیا ہوں

 

یہ گواہی مری دے دے ،کہ ایمان ہے مرے دل میں

غم ہے دل پہ یہ سوار یا رسول آیا ہوں

 

مرے جد تجھ پہ سلام ،غلاموں میں تیرا ہو وے

اب شبیؔر کا شمار ،یارسول آیا ہوں

 

مرا دل تو چاہے کہ نعت کہوں

 

مرا دل تو چاہے کہ نعت کہوں ،کہ یہاں یہ حسن مقال ہے

میں کہ حب نبی میں ڈبو دوں دل ،کہ یہی تو حسن مآل ہے

 

میں چپل پہن کہ یہاں چلوں، مرے دل پہ بوجھ یہ بھا ری ہے

پر حرم کو کرے نہ نجس قدم ،مرے دل میں اس کا خیال ہے

 

مرے دل کی سوچ اچھی بھی ہو ،مگر اس کا درجہ ہے ثانوی

جو طریق حبیب رہے نہیں ،کیسے ہو یہ کس کی مجال ہے

 

یہاں جو بھی ہے وہ جمیل ہے، بھائی چھوڑ دو قیل و قال کو

جو لگی ہو دل کو یہاں تو پھر، ہر اک شے میں اس کا جمال ہے

 

مرے دل کا ان پہ سلام ہو پھر ،یہی ذوق عاجز شبیؔر ہے

مرے لب ہلیں تو درود پر، یہ خدا سے میرا سوال ہے

شبیؔر پھر بھی کرم ہے اس کا

مجازی محور کے گرد ہم بھی، یہاں پہ چکر لگا رہے ہیں

مگر حقیقت کی بات یہ ہے ،کہ وہ ہی دل میں سما رہے ہیں

 

یہاں ہے حسن ازل مجازی، تبھی تو عاشق امڈ پڑے ہیں

کہ گرد کعبہ جو بحر عشق میں، یہاں پہ غوطے لگا رہے ہیں

 

یہاں پہ حسن ازل مجازی ،یہاں پہ اظہارعشق کرنا

اکڑ اکڑ کے بھی لے رہے ہیں ،مچل مچل کے بھی پارہے ہیں

 

ہو قرب کعبہ طواف میں تو ،نظر نہ کعبے پہ پڑنے دینا

یہی ہیں محبوب کی وہ ادائیں ،کہ جس سے وہ کچھ سکھا رہے ہیں

 

جو دل ہو بے تاب دید کوتو، ہو رش تو آگے کبھی نہ جانا

ادب یہ حب کا عجیب تر ہے،کہ دور سے بھی دلا رہے ہیں

 

یہاں پہ پستی ہماری اپنی ،وہاں بلندیِ حب محبوب

شبیؔر پھر بھی کرم ہے اس کا،کہ گر دکعبہ چلا رہے ہیں

 

بیچ حائل تیرے گھر اور میرے دیوانے تیرے

 

گھومتے ہیں گرد تیرے گھر کے پروانے تیرے

بیچ حائل تیرے گھر اور میرے، دیوانے تیرے

 

بوڑھے بوڑھے جھکی کمر اور ٹک ٹک کرکے چلتے ہیں

اور کوئی دوڑ کے چلتے ہیں مستانے تیرے

 

ٹک ٹک دیکھے تیرے گھر کو پلک جھپکنے پائے نہیں

مستی کے پھر کیسے کیسے یاں ہیں میخانے تیرے

 

حجر اسود نام کا اسود دل اس سے ہوجائے سفید

لینے کو ملتے ہیں یہاں پر کتنے بہانے تیرے

 

میں یہاں ! یہ گھر ! اور یہ چوکھٹ ! کیا یہ سچ ہے شبیؔر؟

چشم تصور ہے یہ یا یہ خواب ہیں سہانے تیرے

 

یہ تھکن مدینے کی گلیوں میں جو ہے پھرنے سے وہ نرا لی ہے

 

میں تھکن سے گو کہ ہوں چور چور، مگر اس میں بھی تو مزہ سا ہے

اس تھکن سے میں نہ تھکا کبھی ،کوئی کیف اس کا جدا سا ہے

 

یہ تھکن مدینے کی گلیوں میں ،جو ہے پھرنے سے وہ نرالی ہے

کہ تھکن تھکن میں بھی دل لگے، یہی تجربہ تو نیا سا ہے

 

یہ ہوا کے ٹھنڈے جو جھونکے ہیں ،اس سے درد تو سر میں ہوتا ہے

مگر آیا اس سے ہی چپکے سے، مرے دل میں کوئی دلاسا ہے

 

یہ ہے دیس میرے حبیب کا ، یہ صحابہؓ کا بھی تو دیس تھا

یہ سمجھ کے رشتہ یہاں سے ،مرا دل یہاں پہ کھلا سا ہے

 

ان پہ اب سلام تو دل سے بھیج کہ یہاں تو خود وہی سنتے ہیں

اب شبیؔر کردو یاں پیش دل کہ وہ کب سے اس کا پیا سا ہے

 

عشق ہوجائے عنایت تو عبادت پھر ہو

دل میں ہو چسک محبت تو عبادت پھر ہو

اس پہ کھل جائے حقیقت، تو عبادت پھر ہو

 

عشق کی آگ سے معدوم کرو میں لے لو

آنکھ میں اشک ندامت تو عبادت پھر ہو

 

"میں" کہاں ختم ہو جلوہ جو نہ دیکھا اس کا

"میں" نہ ہو پاس سلامت تو عبادت پھر ہو

 

عشق کی آگ میں عاشق کہاں پھر سوتا ہے

عشق ہوجائے عنایت تو عبادت پھر ہو

 

قبلہء دل کو کرو درست مدینے میں اول

پھر ہو کعبے کی معیت تو عبادت پھر ہو

 

اپنا دل درست کرو صاحب دل کے دل سے

جب ملے شان عبدیت تو عبادت پھر ہو

 

فکر از ذکر مصفا کرواور قلب سلیم

جہد سے نفس کی طہارت تو عبادت پھر ہو

 

اپنی مستی میں جو اشعار گنگناتا ہے شبیؔر

ایسی حاصل ہو کیفیت تو عبادت پھر ہو

 

m

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

سال1433 کی واردات قلبی

(نئے حج کی باتیں)

تشنہ اب تک بھی ہیں کئی باتیں

اب نئے حج کی ہیں نئی باتیں

 

دل میں پھر شوق ملاقات جاگا

چلنے دو اب جو ہیں چلی باتیں

 

گرد کعبے کے چلنا پھر ہو نصیب

دل میں کھلمل ہوں پھراس کی باتیں

 

پھر ادب سے کھڑے سلام کہہ دوں

عرض کردوں وہاں دل کی با تیں

 

عشق کا یہ سفر نصیب ہو پھر

پھر سے جاندار ہوں مری باتیں

 

میں فدا اس کی ہر اک بات پہ ہوں

دل پہ ہیں اس کی ہی چھائی باتیں

 

عشق تکمیل سے عاری ہے شبیؔر

ہاں مگر اس کی ہوں جاری باتیں

جدہ پہنچ کر

حرم پاک کی جانب سفر اک بار ہے پھر

ہمارے دل کو ہمارا واں انتظار ہے پھر

 

کون جانے گا ہمارے دل بیتاب کا حال

اپنے محبوب پہ مرنے کو جو تیار ہے پھر

 

نشانیاں اپنے محبوب کے محبوبوں کی

دیکھ لیں سامنے ان کا دلنشیں کردار ہے پھر

 

کشش کعبہ سے سب لوگ کھنچے جاتے ہیں

جو کہ کعبہ کو ہے مطلوب وہ بہار ہے پھر

 

ہم گناہ گار و سیاہ کار کیسے شکر کریں

خوشی کے مارے یہ شبیؔر اشکبار ہے پھر

 

G

 

حرم شریف پہنچ کر

یہی حرم ہے کہ ایسے اشعار میرے دل پہ اتر رہے ہیں

مجھے بھی ملتا ہے فیض اس سے اور دوسرے دل بھی نکھر رہے ہیں

 

یہی حرم ہے کہ نور اس سے ہر آن ہر سو بکھر رہا ہے

یہ رحمتوں کا ہے جب سمندرتو بادل اس کے بکھر رہے ہیں

 

یہ دل کی دنیا بدل ہی ڈالےبدلنے ہی جو یہاں پہ آئے

بفیض کعبہ یہ اندر اندر ہیں کتنے دل جو سدھر رہے ہیں

 

مگر یہ گھر جو بڑا ہی گھر ہے ادب نہیں ہیں جو اس کا کرتے

اے کاش سمجھائے کوئی ان کو کہ کتنے نیچے وہ گر رہے ہیں

 

مقام عشق ہے دل اس سےجوڑیں شبیؔر پیغام یہ ان کو دینا

طواف میں شامل جو سارے بندےیہ اس کے ارد گرد جوپھر رہے ہیں

 

G

 

حرم کی دعا ئیں

حرم کی فضائیں ، حرم کی ہوائیں

حرم کی نمازیں حرم کی دعائیں

 

حرم سے محبت خدا سے محبت

حرم سے خدا کی محبت کو پائیں

 

حرم کا ادب تقویٰ ہے دل کا یارو

ادب سے یہاں دل کا تقویٰ بڑھائیں

 

یہاں نیکی ایک لاکھ گنا بنے گی

برائی بھی یوں ہے تو خود کو بچائیں

 

یہاں دل کی دنیا کو سیراب کردیں

یہاں روتے روتے خدا کو منائیں

 

دعا کی جگہ ہےدعا کر لے شبیؔر

دعا کے لیے ہاتھ اب ہم اٹھائیں

 

عاشق اور غیر عاشق کے حج کا ایک فرق

جو دم آئے کسی پہ حج میں اس میں دم نہیں ہوتا

محبت دل میں ہو تو اس سے کوئی غم نہیں ہوتا

 

مگر مالدار آدمی قصد سے دم خو د پہ لائے تو

حج اس سے زخمی ہوتا ہے عمل پیہم نہیں ہوتا

 

یہ دل کی بات ہے دل سیدھا رکھنا اس میں لازم ہے

نشہ دو لت کا جب ہوتا ہے کوئی کم نہیں ہوتا

 

یہ محبوبوں کی باتیں کس لئے پیاری ہیں اللہ کو

کہ دیکھو خوب دیکھو ان میں پیچ و خم نہیں ہوتا

 

تو آگے بڑھ وہی تو کر شبیؔر جو حکم اس کا ہے

کریم کا دیکھ کیسے تجھ پہ پھر کرم نہیں ہوتا

P

 

کعبے پہ نظر

(میزاب رحمت کے سامنے)

بیٹھا ہوا حرم میں ہوں کعبے پہ نظر ہے

انوار میں ڈوبا ہوں میرے دل پر اثر ہے

 

یہ گھر سیاہ پوش رحمتوں کا سمندر

میں دل میں بسا لوں اسے یہ سب کا مگر ہے

گرد اس کے یہ سب لوگ لگاتے جو ہیں چکر

انداز مختلف میں کوئی اور چکر ہے

 

دل اس میں رو بہ کعبہ نظر سیدھ میں رہے

کعبہ ہے اپنا رخ ،ہم ہیں اس پر یہ جدھر ہے

 

ملتا ہے فیض شبیؔر یہاں سب کو ، ہومحفوظ

ہر کوئی اپنے دل سے جو موجود اِدھر ہے

G

 

فیض کعبہ

(حرم شریف میں)

الٰہی فیض تو کعبے کا عطا کردینا

جو فیض اس کاہے میرے بھی دل میں بھر دینا

 

میں خالی دل سے ہوں بیٹھا کہ اسے بھر دے تو

جو فیض لے سکے اس سے، وہی نظر دینا

 

میں گناہ گار سیئات سے بھر پور دل سے

ہوا حاضر ہوں معافی مجھے مگر دینا

 

یہ رحمتوں کا سمندر جو میرے سامنے ہے

ان رحمتوں سے میرے دل کو آج تردینا

 

بس میں تیرا ہی بنوں تو بھی میرا بن جائے

دل پیش شبیؔر کا ہے اس کو تو سنور دینا

 

L

حقیقت کعبہ

(حرم شریف میں)

مکعب نما کمرہ کعبہ! یہ کیا ہے

جو قائم یہاں پر بحکم خدا ہے

 

یہ گھر پتھروں کا حقیقت نہیں ہے

حقیقت تو وہ ہے جو سب سے جدا ہے

 

یہ کعبہ جہاں ہے وہاں فی الحقیقت

ہے کعبہ جو ہر ایک کی سجدہ گاہ ہے

 

تجلی خدا کی اسی پر ہے مرکوز

یہاں سے پھر ہر ایک کو حصہ ملا ہے

اترتی ہے رحمت یہاں سب سے پہلے

وہاں سے ملے جس کا حصہ رکھا ہے

یہ پتھر غلاف سب منور ہیں اس سے

بقدر قرب اس میں ہر ایک کا ہے

 

جدا بات ہے حجر اسود کی لیکن

یہ تحفہ جنت کا خدا سے ملا ہے

 

نشانی ہے توحید کی کعبہ شبیؔر

یہ تعظیم اور عشق کی آماجگاہ ہے

l

 

 

 

 

 

نورانی کعبہ

(حرم شریف میں)

ایک سمندر ہے نور کا کعبہ

کس کو پتا ہے کہ ہے کیا کعبہ

 

پوری دنیا کا نکتہ وحدت

پورے عالم کا سجدہ گاہ کعبہ

 

رحمتوں کا ہے اولین مرکز

حسن ازل کا ہے جلوہ کعبہ

 

حجر اسود کے جنتی پتھر

اور ملتزم کا نظارہ کعبہ

 

دل سے جھک جائیں اس کے سامنے شبیؔر

آج اخلاص سے ، ہے جس کا کعبہ

 

K

کعبہ نظر آیا

(حرم شریف میں)

کتنا ہوں خوش نصیب جو کعبہ نظر آیا

حسن ازل کے نور کا جلوہ نظر آیا

 

کور باطنی سے کیا ہم نظارہ کریں اس کا

ہم جانتے ہی کیا ہیں کہ یہ کیا نظر آیا

 

دل سب کے اس طرف ہیں جہاں کے بھی ہیں مومن

گورے ہیں یا کالے ہیں ہر ایک نظر آیا

 

دل عشق سے لبریز ہو تو حسن ازل پھر

دکھلا دے خود کو، رنگ یہ نمایاں نظر آیا

 

دل دے کے اس کو لینا ،یہی طے ہے اے شبیؔر

جھانکا جو دل میں، اس پہ یہ لکھا نظر آیا

 

D

 

رحمت کےنظارے

(حرم شریف میں)

آئیے ہم بھی یہ رحمت کےنظارے دیکھیں

دیکھیں کعبہ کو اور نور کے جلوے دیکھیں

 

ہمارے دل کی تسلی کے لئے حسن ازل

نے سجایا ہےاسے ، اس کے فیصلے دیکھیں

 

اس کا چکر بھی محبت کے دائرے کا عمل

فاصلے دور کے اس سے جو سمٹتے دیکھیں

 

ایک کونے میں ہے پتھرجویعنی حجر اسود

اپنے ایمان کا ثبوت اس کو بھی دے کے دیکھیں

وہ جو ایمان کی گواہی حشر میں دے گا

حجر اسود کے مجازی مصافحے دیکھیں

 

قبولیت دعا کا یہاں مقام شیبر

ہم ملتزم سے اپنے سینے چمٹتے دیکھیں

 

دوسرے دن کی رمی غروب سے پہلے کرنے میں ناکامی پر

اس دفعہ بھی حسب معمول خواہش یہ تھی کہ رمی ہم مستحب وقت میں کریں۔دوسرے دن طواف زیارت سے فارغ ہونے کے بعد جب ہم منیٰ روانہ ہو گئے تو رش کی وجہ سے گاڑیوں میں پھنس گئے جس کی وجہ سے غروب راستے میں ہوا ۔اس حالت پر مژدگی میں مندرجہ ذیل کلام وارد ہوا جس سے تسلی ہوگئی۔

 

ایک خواہش تھی کہ گیارھویں ذی الحج کوہم دن کے وقت میں رمی کرلیں

کہ یہ سنت ہے پاک رسولکی تو ،آپ نے جو کیا وہی کرلیں

 

ہم رش میں گاڑیوں میں پھنس گئے اس لئے وقت پر پہنچ نہ سکے

رب کی حکمت ہماری خواہش پر ہوئی غالب تو صبر ہی کرلیں

 

رب کے حکمت کے سامنے اپنی سوچ کی حقیقت ہی کیا ہےدیکھ لیا

ہاں ان اسباب کی دنیا میں تو کمی کوشش میں ہم نہیں کرلیں

اپنے اسباب کو پورا کرکے اب نتیجہ خدا ہی پر چھوڑ دیں

ان ہی اسباب میں نہ سستی کرلیں اور نہ ہی بے تکی جلدی کرلیں

 

جب ارادے شکستہ ہوتے ہیں اس سے پہچان ہوتی ہے رب کی

دل میں شبیؔر رکھ یہ قول علی کبھی اس پر ہم عمل بھی کرلیں

حج (منیٰ )سے واپسی پر بس میں

یہ جو بشاشت قلبی ہے دکھائے ہے کیا

یوں لگے اس سے ہمارا بھی حج قبول ہوا

 

کریم رب نے بہائے ہیں کرم کے دریا

خدا کے فضل سے حصہ کچھ ہم نے بھی پایا

 

خدا کا شکر کہ پورے ہوئے احکام سارے

خدا نے پیار سے ہم کو یہاں پر بلوایا

 

ہے تقصیرات سے بھراگو کہ دامن اپنا

مگر حدیث میں مروی ہے ایک قول سنا

جو عرفات کے بعد خود کو گناہگار سمجھیں

وہی بدبخت ہے اس سے الٰہی مجھ کو بچا

 

دست بدعا ہوں الٰہی تیرے حضور اب میں

کہ مجھ شبیؔر کو بار بار یہاں پر تو لا

 

حج کے بعد زیارت خانہ کعبہ کے بعد

ملا موقع خدا کا شکر کعبہ کی زیارت کی

ملی مجھ کو یہاں پر خوب ہے دولت سعادت کی

 

میرے ہے سامنے میزاب رحمت اس کا کیا کہنا

امڈتی جاتی ہیں اس میں جو ہر آں لہریں رحمت کی

میں نظروں سےاثر اس کا سماؤں دل میں کیا پاؤں

تو میرے دل سے نکلے پھر دُعا اپنی ہدایت کی

 

خدا کا شکر آنا پھر ہوا ہےمجھ کو حج کے بعد

کروں میں شکر اس توفیق کا جو اس نے عنایت کی

 

میرے دل کو بھی اس سے باندھ لے تار محبت سے

کرے محسوس ہر دم لہریں اب اس کی محبت کی

 

تو کعبے کی حقیقت دل پہ میرے کھول دے اللہ

فضل فرما شبیؔر کو دے تو اب توفیق عبادت کی

کعبہ کی جاذبیت

(حرم شریف میں)

دل عشق سے بھر پور ہے کعبے پہ نظر ہے

اس عظمتوں کے گھر کا میرے دل پر اثر ہے

قدموں ذرا خیال کرو بھول نہ جانا

کعبے کی طرف آنا میرا دل بھی ادھر ہے

انوار سے بھر پور ہیں ذرات بھی ا ن کے

ایک مبہط انوار جو مکے کا شہرہے

 

جو مبداء معراج نبوی ہے اس سے ہی

تاریکیوں کی رات میں اُمید سحر ہے

دل سجدہ ریز ہےعشق کے سجادہ پہ شبیؔر

جائے یہاں سے کیسے کہاں اس کو صبر ہے

 

f

 

کعبہ کے زائرین کے بارے میں

(حرم شریف میں)

کہاں کہاں سے یہ عشاق امڈ آتے ہیں

نظر میں مستی ہےسینے پہ زخم کھاتے ہیں

 

دلوں کی دنیا کچھ آباد نظر آتی ہے

زبان پہ ذکر ہے ساتھ ہونٹ بھی ہلاتے ہیں

 

امڈتے جاتے ہیں ایک رخ میں پانچ وقت یہ سب

بس ایک دھن ہے کہ جس کایہ مزا پاتے ہیں

 

گرد کعبے کی یہ گھومتے ہیں جو پروانہ وار

خیال ایک کا یہ دل میں اب بساتے ہیں

 

اسی کو دیکھ کر دشمن کرے کیسے آرام

خدا کے عشق میں مست ان کو جب ستاتے ہیں

 

ڈوب کر تو بھی نظارہ کعبہ میں اے شبیؔر

وہی کرنا ہے جو عشاق یاں بتاتے ہیں

 

رہائش مکہ کے دوران کی حالت

(حرم شریف میں)

شراب عشق لے لو دم بدم اب

سبھی کچھ بھول جاؤ کر نہ غم اب

 

اسے پانا ہی جب مقصود ٹھہرا

کرو پھر ذکر دنیا کم سے کم اب

 

نظر میں وہ ہے دل اس کا ہوا ہے

بنا ہے مختلف سب زیر و بم اب

 

نظر دل کی طرف کر لو تو دیکھو

وہاں ہے وہ تو لو اس کا کرم اب

 

کوئی چشموں کو کیسے روک دے اب

نہ پونچھو تم بھی ان آنکھوں کی نم اب

 

بس اب تو راستہ سیدھا ہے شبیؔر

نہیں اس میں جو کوئی پیچ و خم اب

سرور کعبہ

(حرم شریف میں)

دیکھنے کا سرور کعبہ کا

لے لو نظروں سے نور کعبہ کا

 

کیا تقدس کی جگہ ہے یہ حرم

اور کیا ہے ظہور کعبہ کا

 

اس کی تعظیم دل میں پاتا ہے

جس کو کچھ ہے شعور کعبہ کا

 

پاؤں کعبے کے رخ کریں ان سے

مقام ہے مستور کعبہ کا

 

دل کے تقویٰ سے بیگانوں کو شبیؔر

نہیں حاصل حضور کعبہ کا

 

l

 

حرم میں ایک فریاد

(حرم شریف میں)

الٰہی بندہ تو خالص اپنا بنانا مجھے

راہ جو پسند ہے تجھے اس پر ہی چلانا مجھے

 

میں نفس کے دام میں ہر وقت پھڑ پھڑاتا ہوں

یہ دام مکر ہے اس میں نہیں پھنسانا مجھے

 

میں دل سے تیرا بنوں تو مجھے اپنا سمجھے

میرے محبوب کا جو راستہ ہے اس پہ لانا مجھے

 

اب کوئی غیر میرے دل میں کبھی آ نہ سکے

سارے غیروں کی محبت سے اب چھڑانا مجھے

 

میں تیری یاد میں مشغول رہوں تیرا رہوں

حلال رزق اپنے فضل سے کھلانا مجھے

 

میرا جان مال وقت اولاد سب قبول ہوں اب

فریب دے نہ اب مکان اور نہ زمانہ مجھے

 

میرا ہر لمحہ بال بال ہر ایک پیسہ شبیؔر

فدا ہو اس پہ ہو نصیب اس کا پانا مجھے

مجاز ،حقیقت او رکعبہ

(حرم شریف میں)

ہمارے دل کی تسلی کے لئے کعبہ ہے وگرنہ ہم تو سامنے اس کے سجدہ کرتے ہیں

یہ اس کا گھر ہے اس پہ خاص تجلی ہے اک اس تجلی پہ ہم بھی اس کے لئے مرتے ہیں

 

وہ ذات ہمارےتصور سے ہے بالا بالا اسی نے گھر یہ ہمارے لئے سجایا ہے

اسی کے گرد لگاتے ہیں چکر اس کے لیے دل اس سےجوڑتے ہیں دم بھی اس کا بھرتے ہیں

 

جب اس کے دید کا وعدہ ہے آخرت میں صرف یہاں تواس سے ہی آنکھیں کریں ٹھنڈی اپنی

یہی مجاز حقیقت سے ملا دے گا انہیں جو دل کے ساتھ اس کے سامنے گزرتے ہیں

 

اسی سے تار محبت کا جو ہے دل تک ہے اسی سے بلب اپناحسن عقیدت روشن

اسی میں دیکھتے ہیں ہم بھی حقیقت اپنی راز کھلتےہےہیں بندگی کے دل مچلتے ہیں

 

نور کعبہ کا دل میں لےکے سمجھنا ہے ہمیں کہ سارے ایک ہیں ہم ،ایک رب ہمارا ہے

یہی ایک نکتہ وحدت ہمیں بتاتا ہے کہ ہم جب ایک ہیں پھر اس سے کیوں نکلتے ہیں

 

اسی دیوانگی سے ہوش کے در کھلتے ہیں کہ بس ہم ایک کےلئے ایک ہی بن جائیں سب

کاش یہ دیوانگی شبیؔر کو مل جائے بھی کہ وہی ہوش میں ہے جو بھی اس پہ چلتے ہیں

کعبہ کے ساتھ ایک والہانہ اظہار محبت

کہاں ہم اور کہاں یہ گھر خدایا ! ہے کرم تیرا

یہاں پر فضل سے اپنے بلایا ! ہے کرم تیرا

 

کہاں عظمت یہ کعبہ کی کہاں ہم عاجز و مسکین

بس ایک جھونکا تیری رحمت کا پایا ! ہے کرم تیرا

 

بہ فیض کعبہ روشن کر میرا دل ذکر سے اپنے

فضل سے تو نے اپنا نام سکھایا ! ہے کرم تیرا

 

میں اب اس گھر سے باندھوں دل نہ چھوڑوں میں کبھی اس کو

جو نور سے اس کا میرا دل سجایا ! ہےکرم تیرا

 

میں ظلمت کے گڑھے سے کیسے نکلوں ہے شبیؔر کہتا

فضل سے تو نے مجھ کو ہے جگایا ! ہے کرم تیرا

 

k

 

حج میں ایڑی کی تکلیف اور اس سے آرام کے بعد

خدا کا شکر ہے ایڑی نے کچھ آرام کیا

دعا نے کام کیا تو دوا نے کام کیا

 

دعا مسبب الاسباب سے تعلق ہے

دوا نے ظاہری سبب کا انتظام کیا

یہ سب اسباب احکامات خداوندی ہیں

قدرت کو ساتھ رکھا اور ان کو عام کیا

 

اسی قدرت کے لئے مانگنا اسی سے ہے

اس کا فادعونی کے عنوان سے کلام کیا

 

جب وہ مانگنے سے ہو راضی تو کیوں نہ مانگیں شبیؔر

دوا کے ساتھ دعا کا جو التزام کیا

 

G

 

حج میں مشکل حالات کا جائزہ

یہ جو حالات ہم پر آتے ہیں

اسی سے ہم کو وہ سمجھاتے ہیں

 

ہو رہا ہوتا ہے کچھ اپنے ساتھ

کچھ حقائق ہمیں سمجھاتے ہیں

 

ہاں نظر اس پر رکھنا لازم ہے

ورنہ ضائع بھی یہ ہوجاتے ہیں

 

اس کے احکام ہیں دو قسموں پر

ان کو ساتھ ساتھ وہ چلاتے ہیں

ایک احکامات تو تکوینی ہیں

دنیا کے کام ان سے کراتے ہیں

دوسرے احکام ہیں تشریعی بھی

اپنے بندوں سے وہ منواتے ہیں

 

انبیاء اس کے لئے آئے ہیں

علماء یہ ہمیں سمجھاتے ہیں

 

ہم شریعت کے مکلف ہیں شبیؔر

وہ اس طرف ہمیں بلاتے ہیں

 

G

 

 

رباعی

طواف حقیقی ہو صرف ظاہری نہ ہو

چکر لگا رہا ہوں جو یہ آخری نہ ہو

بار بار یہاں آؤں یہ کہتا ہے اب شبیؔر

بند مجھ پہ ترے گھر کے کبھی حاضری نہ ہو

G

 

غار حرا کے بارے شاعر کا ایک اچھوتا خیال

اے غار حرا یاد ہے کیا تجھ کو وہ ہستی

جو اس کے یاد میں گم تھی اور تجھ میں تھی بیٹھی

 

کعبے کی طرف کھڑکی میں کعبہ نظر آتا

کیا یاد ہے رحمت وہ تجھ پہ تھی جو برستی

 

سب چھوڑ کے آئے تھےتجھے یاد تو ہوگا

ایک یاد جو رکھا تھا وہ تھی اس کی یاد ہی

 

کیا ان کا تصور تھا ، تصور میں نہ آئے

ہاں یہ کہ اس کے بعد نبوت انہیں ملی

 

اب بھی خدا کی یاد میں جو گم ہو اے شبیؔر

تو رتبہ بلند ملے اس پر اس کو بھی

E

 

 

ماڈرن لوگوں کو خطاب ان کی زبان میں

حج میں کیسے رہیں

لوگوں سے کٹ کٹا کے ذرا اس طرف تو دیکھ

خیالات جو دل میں ہیں ترے ان کو ذرا پھینک

موجود ہے دشمن ترا اس سے ہوخبردار

کرلے نہ تجھ کو یوں ہی اپنے کام سے ہائی جیک

 

دوستوں کو خیر آباد اصل دوست کو رکھ یاد آج اس سےبھی کرلے تو ہینڈ اپنا ذرا شیک

 

آج مانگ معافی ، ملے گی تجھ کو یقیناً

اپنے کو گناہ گار سمجھ کر نہ یہ کہ نیک

 

رونا پسند اس کو ہے رو لے نہ شرم کر

شبیؔر بخشے تجھ کو آج وہ ہی خدا ایک

A

 

غار ثور کے بارے میں

وہ پناہ گاہ ہمارے نبی کی ثور کا غار

جو معجزانہ حفاظت کا ایک تھا شاہکار

 

کبوتری نے دیے انڈے، مکڑی نے بنا جالا

عدو کو ان کے نہ آنے کا ہوا تھا اعتبار

 

اور کبھی قریب ہی پہنچے عدو کے چمچے جب

"اللہ ہے ساتھ ہمارے" کا ہوا تھا گفتار

 

ان تین دنوں پر صدیق﷜ؓ کو ساتھ ان کے چاہتے عمرؓ تھے کریں اپنی ساری نیکیاں نثار

 

یہ سنگ میل تھا ہجرت کی کامیابی کا

مدینہ پاک میں آئی تھی اسی سے ہی بہار

 

شبیؔر اسباب کی دنیا میں تو اسباب ڈھونڈو

پھر ضرورت کے وقت مدد کرے خود ہی کردگار

f

کعبہ سے استفادہ

(حرم شریف میں)

کعبہ کو دیکھ دیکھ کر دل اپنا سنواریں

کعبہ کی حقیقت کو ذرا دل میں اتاریں

 

یہ گھر خدا کا گھر ہے بڑا گھر ہے اس کی شان

خوب جان لے پہچان لے آج اس کی بہاریں

 

دیکھ دیکھ کے اس کو دیکھ اس کے ساتھ دل کو جوڑ

دیکھ دیکھ کر اس کی لینی ہیں آنکھوں سے بلائیں

 

توحید کا مظہر ہے اس کو دیکھ کر توحید

مضبوط کریں اس کو اپنے دل میں بسا لیں

 

اس پر پڑی ہے حسن ازل کی جو تجلی

شبیؔر اس کو جذب کرکے دل کو بنالیں

l

 

مکہ مکرمہ میں مختلف لوگوں کی حالت

نگری عجیب ہے یہ نظارے عجیب ہیں

ہم رب کے در کےپاس اور اس کے قریب ہیں

 

کچھ اس کو پانے کے لئے آئے ہیں دور سے

کچھ اِن کو لوٹتے ہیں یہ ان کے رقیب ہیں

 

کچھ اس کی محبت میں مست ہیں سرکو جھکائے

لبیک کہنے والے بھی کچھ عندلیب ہیں

 

دیوانہ وار گھومتے کچھ ہیں طواف میں

کچھ ٹکٹکی باندھے ہوئے بھی خوش نصیب ہیں

 

کچھ آرہا ہے جارہا ہے چل چلاؤ ہے

شبیؔر مل رہا ہے جس کی جو نصیب ہیں

 

Y

 

حاضری نصیب ہونے پر شکر

(حرم شریف میں)

رکھوں بار بار زمین پر میں یہاں اپنی جبین

اس بڑے گھر سے میں محروم نہ ہوجاؤں کہیں

اس بڑے گھرکے تو مالک سےہے اُمید بہت

اپنے اعمال سےتو کوئی بھی اُمید نہیں

 

میرے ہر بال میں سینکڑوں بھی ہوں زبانیں اگر

وہ کریں شکر تو بھی شکر ادا ہو گا نہیں

 

میرا رب مجھ سے ہے آگاہ کہ ہوں کمزور کتنا

نفس پرزور ہے شیطان بھی ہے میرا قریں

 

المدد میرے خدایا بھاگتا ہوں تیری طرف

ورنہ شیطان تو کھینچے ہے میرے نیچے سے زمین

 

مال و لذات ہیں درپے ، جاہ طلبی بھی ساتھ

مدد خدا کی نہ ہو گر تو گرا دیں نازنین

 

اس بڑے گھر کے وسیلے سے طلبگار ہے شبیؔر

سامنے مصطفےٰ کہ ہووے نہ رسوا وہ وہیں

حرم میں ایک دعا

فضل سے اپنے الٰہی دل بینا دے دے

جو نہ ٹوٹے وہ تعلق مجھے اپنا دے دے

 

میں تجھے بھول نہ جاؤں کسی لمحے بھی خدا

ذکر سے تر ہو زبان قلب مجلیّٰ دے دے

 

تو میرے دل میں رہے میں تیری نظروں میں رہوں

تو مجھے اپنا کہے اپنا وہ لمحہ دے دے

 

پورے عالم میں تیرے ذکر کو عام کرتا رہوں

سب تیرے بن جائیں کیسے فکر ایسا دے دے

 

اب تیرے سامنے سجدے میں پڑا ہوں میں شبیؔر

کیسے بن جاؤں میں تیرا وہی سجدہ دے دے

 

 

r

 

 

بڑے گھر کے سامنے

(حرم شریف میں)

بیٹھے ہوئے یہاں ہیں بڑے گھر کے سامنے

کیا حال دل کا ہو اسی منظر کے سامنے

 

ہم کور باطنوں کو سمجھ آئے اس کی کیا

کیا حال دل کا ہوتا ہے دلبر کے سامنے

 

دوری اور اسکی قرب میں نسبت کیا ہوگی

قطرے کی جو ہوتی ہے سمندر کے سامنے

 

جو ہوں گے اہل ذوق ان کا حال کیا ہوگا

دل اپنا چلتا ہے اس کے در کے سامنے

 

دل اپنا اس کے نور سے منور کرو شبیؔر

جانا ہے اس کے بعد نبی سرور کے سامنے

 

D

بڑے گھر میں گناہ ہونا اگر زیادہ خطرناک ہے تو اس میں توبہ زیادہ مفید

ساری گڑ بڑ کا ہے علاج توبہ

جو بنا لے اپنا مزاج توبہ

 

غلطیاں ہم سے بہت ہوتی ہیں

لیکن کرتی ہے اس پہ راج توبہ

 

اپنی کمزوری اس کی عفو کا

کتنا حسین ہے امتزاج توبہ

 

جتنا گند دل میں پڑا ہے پہلے سے

سب کا کرتی ہے یہ اخراج توبہ

تائبوں کے لئے خاص در ہے شبیؔر

عجز گر سر ہے تو ہے تاج توبہ

G

 

عمرہ میں طواف کے بعد کے جذبات

جس طرح شمع کے گرد گھومتے پروانے ہیں

اس طرح کعبہ کے گرد گھومتے دیوانے ہیں

 

یہی دیوانگی سو ہوش سے بہتر ہوگی

عشق کے میدان کے کچھ اور ہی پیمانے ہیں

 

جو کہ محجوب ہیں یہ بات کیا سمجھ پائیں

سمجھ میں آئے صرف ان کی جو مستانے ہیں

 

اس نے کعبے کی زیارت تو کی نصیب ہمیں

اس کے دیدار کے بھی دل میں تانے بانے ہیں

 

میرے الٰہ اب شبیؔر کو پہنچا تو وہاں

جہاں پر تیری معرفت کے آستانے ہیں

 

a

 

مسجد تنعیم کی شان

اے مسجد تنعیم کیا شان ہے تیری

عمرہ کیا ہے تجھ سے مومنوں کی ماں نے بھی

 

بھائی کےساتھ بھیج دیا ان کو تیرے پاس

سو ابتدا نبی نے ہی تجھ سے ہے کرائی

 

تعمیر کی کعبے کی جب ابن زبیرؓ نے

اہل مکہ کے ساتھ کیا عمرہ پھر تجھ سے ہی

 

احناف کے نزد عمرہ تجھ سے تو ہے افضل

کیونکہ پسند نبی کو ہے دین میں جوآسانی

کہنے دیں جاہلوں کو کہ بدعت ہے یہ شبیؔر

محرومی ہے محروم کےلئے سزا کافی

 

v

 

تنعیم سے عمرہ کے بارے میں

بعض لوگ خود بھی کچھ نہیں کرسکتے تو دوسروں کو بھی کچھ کرتے نہیں دیکھ سکتے۔کچھ لوگ آج کل مکہ مکرمہ میں حاجیوں کو یہ کہتے نظر آئے کہ مسجد تنعیم سے عمرہ نہیں ہوسکتا اور یہ بدعت ہے۔اس سے متاثر ہوکر یہ اشعار وارد ہوئے۔

عمرہ تنعیم سے بدعت کیسے

کچھ تو سوچو یہ حماقت کیسے

 

اس سے عمرہ ہماری ماں نے کیا

اس پر بھی ایسی یہ جہالت کیسے

 

یہ استثناء ہے تو تشریح کے لئے

شان نزول کی ضرورت کیسے

 

بعد تعمیر کعبہ ابن زبیر نے کیا

پھر اس کی ہو مخالفت کیسے

 

اہل مکہ بھی ساتھ تھے پیدل

پھر بھی انکار یہ سفاہت کیسے

 

ہو جو تقلید سے آزادی شبیر

پھر نہ پوچھو کہ یہ حرکت کیسے

کعبہ کے بارے میں اللہ سے فریاد

تیرے کعبے کی حسین چہرے پر فدا ہونا نصیب میں لکھ دے

بار بار اس کے ساتھ چمٹ چمٹ کر خوب رونا نصیب میں لکھ دے

 

میں اس کے گرد گزرتا ہی رہوں تیرے خیال میںاور سوچ میں بس

تجھ کو پانے کی کوششوں میں ہمیش خود کو کھونا نصیب میں لکھ دے

میں ملتزم سے چمٹ جاؤں خوب اپنے سینے کو لگاؤں اس کے ساتھ

حجر اسود کو چوم کر یہ گناہ میرے دھونا نصیب میں لکھ دے

میں تیری یاد میں خود کو بھولوں تو مجھے یاد رہے ہر دم بس

سبب بنے نہ بھلانے کا کبھی وہ بچھونا نصیب میں لکھ دے

 

عشق کی آگ میں جلادے یا رب جو رذائل ہیں میرے نفس کے سب

کہتا شبیؔر ہے نام تیرا دل میں اب سمونا نصیب میں لکھ دے

 

v

 

مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ روانگی کے متفرق جذبات

فراق کعبہ کا احساس مدینے کی طلب

دل میں گڈ مڈ سی ہورہی ہے کیفیت اک عجب

 

اسی کعبے کے گرد طواف آپ نے ہے کیا

اور آپ ہی ہیں کائنات کی تخلیق کا سبب

آپ نے آنسو بہائے ہیں ملتز م پر یہاں

لے گیا آپ کو واپس پھر مدینے کا جذب

 

حسن سودا پہ سنہری حروف کا جھلمل

اس کو دیکھ کر کوئی بھول جائے سب یابس و رطب

 

ہم تو پرنالہء رحمت پہ سوالی ہیں کھڑے

میں کیا چیز ہوںکیا چاہوں گا کیا میرا کسب

 

یا الہٰی بھر دے توحید شبیؔر کے دل میں

اور ہو نصیب اس کو تیرے شعائرکا ادب

R

مدینہ منورہ روانگی کے وقت

(سامان بس میں رکھواتے وقت)

قافلہ اپنا حرم سے آج ہی جانے کو ہے

ضبط تو کرنا ہے پیمانہ چھلک جانے کو ہے

 

کیا یہاں پر زندگی کعبے کے نظارے کی تھی

چھوڑ جائیں گے یہاں پر وقت یہ آنے کو ہے

 

قدر کرتے کاش اپنے وقت کی جو تھا ملا

رہ گئی حسرت یہی تو وقت سمجھانے کو ہے

 

روز زم زم کے جو کاسے پیتے تھے بعد از نماز

رہ گیا سب، چل دیئے ہم، غم یہ چھا جانے کو ہے

 

شمع کی مانند کعبہ تھا تھے ہم پروانے سب

رہ گئی شمع شبیؔر بس غم یہ پروانے کو ہے

j

 

حرم کعبہ اور آپ

پکڑا ہم نے ہےحرم کا دامن

اور پھیلایا ہے اپنا دامن

 

بڑی امید اس کے در سے ہے

گو کہ تر ہی توہے میرا دامن

 

یاد رکھنا ہمیں ہے میرِ حرم

چھوٹنے پائے نہ اس کا دامن

 

وہ جو دونوں جہاں میں کام آئے

واہ! کتنا ہے وہ اچھا دامن

 

وقت ہے کام لو ہمت سے شبیؔر

کرلو جتنا بھی ہو ستھرا دامن

 

h

 

دل کا مدینہ منورہ کے لئے تڑپ

( مدینہ منورہ جاتے ہوئے بس میں)

مدینے کی دل کو ہوا کچھ لگی ہے

کہ دکھ میں بھی جانے کی پنہاں خوشی ہے

 

فضائے مدینہ ہوائے مدینہ

تصور میں دھوم اس کی جیسے مچی ہے

 

صحابہؓ کا مسکن ملائک کی منزل

وہاں جانے کو گاڑی اپنی چلی ہے

 

وہ جائے ادب ہے ادب سے ہے رہنا

بڑوں سے یہ بات ہم نے یونہی سنی ہے

 

چلن پست نگاہی سے بول پست پست ہو

ادب لینے کا ہی طریقہ صحیح ہے

 

بنا دے شبیؔر کو ادب کرنے والا

الٰہی تو کرپوری جو بھی کمی ہے

 

مدینہ منورہ کے راستے میں بس میں

شروع اب ہوا ہے مدینے کا رستہ

کہے دل کہ کیا ہے مدینے کا رستہ

یہ دل کا ہے رستہ یہ آرزوئے دل ہے

کہ دل پر کھلا ہے مدینے کا رستہ

یہ راہ محبت ہے راہ یقین ہے

طریق وفا ہے مدینے کا رستہ

 

اسی راہ پر تھے گئے کون سوچو

طریق صفا ہے مدینے کا رستہ

 

سڑک پر گزرتے میں اس بورڈ کو چوموں

کہ جس پر لکھا ہے مدینے کا رستہ

 

شبیؔر رستہ جنت کا کیا ہے جو پوچھے

تو دل نے کہا ہے مدینے کا رستہ

g

مدینہ منورہ کا خیال

(مدینہ منورہ جاتے ہوئے بس میں)

دل کی دنیا بدل سی جاتی ہے

جب مدینے کی یاد آتی ہے

 

عشق کی دنیا کا رنگ اور ہی ہے

دل کو یادوں سے بھی بہلاتی ہے

 

اپنی یادوں کے دریچے میں یہی

پھول رنگ رنگ کے مہکاتی ہے

 

وہاں کی یاد بارہا آ کے

گویا نعتیں مجھے سناتی ہے

 

یاد طیبہ میں جو مشغول رہوں

ہنساتی ہے کبھی رلاتی ہے

 

دنیا محبوب مجھے یہی ہے شبیؔر

اپنا دیوانہ جو بناتی ہے

 

مدینہ منورہ جاتے ہوئے بس میں

کیا خوب مزیدار مدینے کا سفر ہے

دل پر میرا سوار مدینے کا سفر ہے

 

دل گنبد خضرا کے نظارے میں مشغول

اور بخت بھی بیدار مدینے کا سفر ہے

 

کیا لکھے کیا سوچے قلم کیسے میں لکھوں

دل کا کیا اعتبار مدینے کا سفر

 

آنکھوں میں مدینہ ہے تصور میں مدینہ

خیالات بے شمار مدینے کا سفر ہے

 

کہنا قلم سے آج تھک نہ جائے اے شبیؔر

منہ پر بھی ہیں اشعار مدینے کا سفر ہے

 

 

\

 

مدینہ منورہ کا ادب

میرے دل سے آواز آئی ہے

ادب سے سب نے فلاح پائی ہے

 

ہو نہ اعراض ادب سے کبھی بھی

میری سب سے یہی دہائی ہے

 

کوئی محروم بے ادبی سے نہ ہو

گھٹا رحمت کی سب پر چھائی ہے

 

حج کو آئے اور مدینے نہ جائے

کیا یہ انداز بے وفائی ہے

 

اس کا سب کچھ یہاں پر ہی ہے شبیؔر

جس نے بھی عشق کی ہوا کھائی ہے

 

G

 

جان مدینے میں رہے

( مدینہ منورہ جاتے ہوئے بس میں)

جسم کہیں بھی ہو پر جان مدینے میں رہے

حق تو یہ ہے کہ بس انسان مدینے میں رہے

 

روح کو بار بار مدینے کے سفر پہ بھیجوں

تاکہ دل میرا بھی ہر آن مدینے میں رہے

 

میری سوچوں اور خیالات کا مرکز ہے وہ

میرے جینے کا یہ سامان مدینے میں رہے

 

جسم خادم ہے جہاں بھیج دیا بھیج دیا

پر مگر جسم کا سلطان مدینے میں رہے

 

اب تو شبیؔر کو خادم وہ بنا لے اپنا

نہ کہ آٹھ دن کا ہی مہمان مدینے میں رہے

H

 

ڈھیلا قلم اور وارداتِ قلب

( مدینہ منورہ جاتے ہوئے بس میں)

قلم ہے ہاتھ میں میرا مگر لکھوائے وہی

بات زبان سے میں نکالوں مگر بتائے وہی

 

چونکہ ہر چیز پہ غالب ہے مشیت اس کی

آلےگو بے شمار ہیں سب سے کرائے وہی

اس کو محبوب کی محبت کی ہی باتیں ہیں پسند

خود سے کھول کھول کے یہی باتیں منہ پہ لائےوہی

 

ہم کیا !رموزو حقیقت کی باتیں کیا جانیں

ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں گر نہیں سمجھائے وہی

 

لوگ قلم پرتو نظر رکھتے ہیں پر ہاتھ پہ نہیں

اور کہاں اس پہ ہو کہ ہاتھ کو ہلائے وہی

 

چھوڑ دو ڈھیلا قلم لکھنے دو جو لکھتا ہے

تجھ کو کیا غم ہے شبیؔر پھر اگر سکھائے و ہی

 

مدینہ منورہ میں پہنچنے پر

میں مدینہ بفضل خدا آگیا

اپنے آقا کو کردوں یہاں پیش کیا

 

میرا دامن ہے تر پاس کچھ بھی نہیں

جو کیا وہ ہے سب علتوں سے بھرا

 

اپنا چہرہ دکھانے کے قابل نہیں

ایسے چہرےکے ساتھ کیسے ہوں گا کھڑا

 

آنکھیں میری جھکی دل کی دھڑکن ہے تیز

اس لئے سامنے ان کی نہ میں جاسکا

 

جو شفاعت کرے میرا اور کون ہے

بس یہی در تو ہے اور ہے کونسا

ہو سیاہ کار شبیؔر پہ بھی کرم

بخش دی جائے اس کی ہے جو بھی خطا

 

D

مسجد نبوی میں حاضری کے بعد

بارش ہےرحمتوں کی ہوںمسجد نبوی میں

اور فضل الٰہی ہے رحمتیں ہی رحمتیں

 

ماحول پر ادب ہے نورانی ہے مطہر

ہے حق قریب کتنا اور اس کی وسعتیں

 

قربِ نبی کے نور سے آج ہم ہیں منور

کتنوں کے ہیں نصیب آج کتنی برکتیں

 

جب جسم ہو قریب تو یہ حال ہو نصیب

جب دل بھی ہو قریب تو ہوں کتنی برکتیں

 

لازم ہے اس کی ذات سےمحبت بھی اے شبیؔر

اور ساتھ ہو معمول بھی اس کی ہوںسنتیں

 

n

 

آپکے سامنے جانے کے بارے میں جذبات

اپنے محبوب کے دربار میں کیسے جائیں

جان دل پیش کریں اور وہ قبول فرمائیں

 

ہم بھی سامنے ہوں کھڑے ان کی نظر ہم پر ہو

اور پھر نظر کرم سے بھی ہم ان کی تر جائیں

 

اپنے آنکھیں ہوں جھکی جان و تن سے پیش ہوں ہم

کیسے ہوگا یہ خدایا بس ہم تو شرمائیں

 

لب سے اور دل سے پھر ہم پیش کریں درود و سلام

دل کہاں ہوگاساتھ لب بھی کہاں ہل پائیں

 

اس کیفیتِ بے بسی میں آنکھ کام آئے شبیؔر

موتیوں اور گوہروں کے اشک برسائیں

 

n

آپ کے سامنے جانے میں بے ادبی کا خوف

دل ہے گھبرایا سا ہمت ہی نہیں

آگے جانے کی تو طاقت ہی نہیں

 

سارا کچھ ہم نے کیا ہے تو خراب

پاس کچھ بھی جو سلامت ہی نہیں

 

یہاں کچھ اور ہی جہاں ہے بس

کہیں اس کی مشابہت ہی نہیں

 

اپنا چہرہ میں دکھاؤں کیسے

کہ دکھانے کی یہ صورت ہی نہیں

 

کہاں یہ در کہاں میں خاک شبیؔر

اِس کی اُس کی کوئی نسبت ہی نہیں

 

 

n

 

حاضری کے وقت کے جذبات

( اللہ معاف فرمائے)

ذرا چہرہ مجھے اپنا دکھائیں یا رسول اللہ

مجھے بھی آج سے اپنا بنالیں یا رسول اللہ

 

گناہ گار ہوں ، سیاہ کار ہوں مگر ہوں اُمتی تیرا

کرم کی اک نظر مجھ پر بھی ڈالیں یا رسول اللہ

 

میری کشتی پھنسی میرے ہی گناہوں کے بھنور میں

اسی بھنور سے مجھ کو بھی نکالیں یا رسول اللہ

 

تیری اُمت گری پڑتی ہے آج کس غار ذلت میں

گرتی پڑتی اس اُمت کو بچا لیں یا رسول اللہ

 

شفاعت کے لئے میری بھی ہے درخواست خدمت میں

گرا پڑتا ہوں اب مجھ کو سنبھالیں یا رسول اللہ

 

میرے پیچھے میرے عصیاں کے سائے ٹوٹے پڑتے ہیں

شبیؔر کو اپنے دامن میں چھپا لیں یارسول اللہ

خاتم الانبیاء مصطفیٰ پر سلام

خاتم الانبیاء مصطفیٰ پر سلام

سرور دو جہاں مجتبیٰ پر سلام

خاتم الانبیاء خاتم المرسلین

باکمال باجمال سب سے بڑھ کر حسین

محسن ما رسول خدا پر سلام

خاتم الانبیاء مصطفیٰ پر سلام

ظاہراً آخرین لیکن ہیں اولین

رحیم رووف اور نور المبین

رب کے محبوب شمس الھدیٰ پر سلام

خاتم الانبیاء مصطفیٰ پر سلام

جن کے واسطے یہ سب کچھ بنایا گیا

اس زمین آسمان کو سجایا گیا

جو کہ تھے انبیاء کی دعا پر سلام

خاتم الانبیاء مصطفیٰ پر سلام

وہ کہاں ہم کہاں ، ہم فقیر و حقیر

ان کی ملتی نہیں دو جہاں میں نظیر

پڑھ شبیؔر خاتم الانبیاء پر سلام

خاتم الانبیاء مصطفیٰ پر سلام

 

کیا رہے دل میں

کیا رہے دل میں اگر حب مصطفیٰ نہ رہے

یا پھر عمل میں اگران کی اتباع نہ رہے

 

جن کو معراج میں بھی خیال تھا اُمت کا تو پھر

ان کو خیال کیسے قیامت میں ہمارا نہ رہے

 

ان کی صورت ان کے انداز اور کمالات ان کے

یاد ہو کیسے عمل میں خیال ان کا نہ رہے

 

جبکہ احسان کا بدلہ نہیں احسان کے سوا

کیسے انسان پھر ان کے ساتھ باوفا نہ رہے

 

جب کہ ثانی نہیں جمال و کمال کے ان کا

دل کیسے ان کی محبت میں مبتلا نہ رہے

 

ایک ہی بات میں قصہ کرو اب ختم شبیؔر

نہیں انسان جو کسی حال میں ان کا نہ رہے

n

خدا کی چاہت اور مصطفےٰ کی چاہت

خدا یہ چاہے کہ ہم مصطفیٰ کے پیچھے چلیں

نبی یہ چاہیں کہ ہر حال میں اللہ کے بنیں

 

خدا نے رکھا طریقہ ہے مصطفیٰ کا صرف

نبی یہ چاہیں کہ بس صرف ہم خدا سے ڈریں

 

خدا یہ چاہیں کہ درود مصطفیٰ پر بھیجیں

نبی یہ چاہیں کہ ہر وقت خدا کا ذکر کریں

 

خدا نبی کو شفاعت کی اجازت دیں گے

نبی پھر بخشش امت کے بغیر کیسے رہیں

 

خدا نبی کی محبت سے ہو خوش اور نبی

خوش ہوں دل میں جو شبیؔر حب الٰہی رکھیں

n

 

 

جانِ دل کے لئے

جو دل کی جان ہے میری ہوجان دل کے لئے

مقام اس کا کیا اعلیٰ ہو کسی گل کے لئے

 

میں حق کو پاؤں ہمیشہ اور حق کے ساتھ رہوں

نہ استعمال میرا ہو کسی باطل کے لئے

 

سلام بھیجوں جان دل پہ دل کی جان کے ساتھ

یہی ہے نسخہ کیمیا ہر ایک مشکل کے لئے

فلاح کے لئے ایک ہی طریق ان کا ہے

ہے نصیحت یہ ہر ایک ناقص و کامل کے لئے

 

راہ سنت پر چلیں ہم شبیؔر اخلاص کے ساتھ

تو بس ایک گام پہنچنے میں ہے منزل کے لئے

 

n

 

باطل کی سازشیں

باطل کی قوتوں نے کتنا کام کردیا

غیروں کے طریقوں کو کتنا عام کردیا

 

جو ٹھیک ہے وہ ٹھیک نظر آتا نہیں ہے

شیطانیت کو قابل انعام کردیا

 

اب مرکز ارشاد کو ملتے ہیں اشارے

یہود سے حق کو وہاں ناکام کردیا

 

اب زور ہے رواج پر سنت سے ہے اعراض

اور نفس کی خواہشات کو بے لگام کردیا

 

شبیؔر توقع ہے کیا خیر کی ان سے

خود کو جنہوں نے غیر کے زیر دام کردیا

n

 

 

تماشائےنظر کرم دیکھتے ہیں

کرے وہ ہی سب کچھ اور ہم دیکھتے ہیں

تماشائے نظر کرم دیکھتے ہیں

یہ الفاظ کی ترکیبیں کیسے ہیں بنتی

یہ چلتا ہوا جو قلم دیکھتے ہیں

 

اسی کی مشیت کی ہے کارگزاری

جہا ں میں جو ہم زیر و بم دیکھتے ہیں

 

ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچان اس کو

ارادے جو ہم منہدم دیکھتے ہیں

 

شبیؔر ان کی قسمت کا میں کیا کہوں گا

خدا چھوڑ کر جو صنم دیکھتے ہیں

D

 

 

میں ہو ں کہا ں

یہ مدینہ یہ مسجد یہ حرم میں ہو ں کہا ں

گو کہ یہ خواب سا لگتا ہے مگر میں ہوں یہاں

 

خوش نصیبی سے مجھے ہوگیا آنا یاں نصیب

اب دعا ہے کہ میسر ہو معیت بھی وہاں

 

قدم قدم پہ ہیں انوار و برکات موجود

ان سے خالی جو نہیں ہے یہاں پر کوئی مکاں

 

یہاں جبرائیل و ملائک کا آنا جانا تھا

جب صحابہ میں آپ ہوں گے ، ہوگا کیسے سماں

 

یہ زمین کا وہی قطعہ ہے لاجواب سوچو

کہ جھک کر ہی ملا کرتے ہیں یہاں پر آسماں

 

یہ صرف خیال نہیں ا س سے آگے بات ہے شبیؔر

یہا ں محبوب جو خدا کے ہیں ان کا ہے آستاں

 

O

تہی دامنی کا دامن

ہماری جماعت کے چند افراد کا تکبیر اولیٰ کا چلہ امام صاحب کے معمول کے وقفے سے کم وقفے کی وجہ سے متاثر ہوگیا تھا جس کا ان کو بہت قلق تھا اس سے متاثر ہوکر یہ اشعار وارد ہوئے۔

مستحب کے چھوٹنے سے ٹوٹا دل مسجد ِنبوی کی نماز میں

یہ نہ ہوتا یہ بھی تھا ممکن کہ گرے اس سے تو قعرِناز میں

 

ترے دل کا آئینہ ٹوٹا ہے تو قبول کرلے بشارت اک

کہ شکستگی ہے عزیز تر یاں نگاہِ آئینہ ساز میں

 

جو ہو بس میں اس کو نہ چھوڑو تو جو پسند اس کو ہو لینا تو

ترے بس میں گر نہ رہا کوئی تو ہے پانااس کو نیاز میں

 

ترا کڑھنا اس کو قبول ہے اس کے پیار کے رنگ جو ہیں مختلف

جب پسند اس کو ہے عاجزی نہ رہی چیز کوئی راز میں

 

تہی دامنی کو تو آگے کر تہی دامنی ہی تو دامن ہے

وہ غنی شبیؔر جو دے لمحوں میں نہ ملے وہ عمر دراز میں

n

یہ شہر مدینہ ہے

یہ شہر مدینہ ہے اور مسجد نبوی ہے

کھڑکی میرے دل میں بھی رحمتوں کی کھلی ہے

 

یاں ہم سلام پڑھ سکیں بہ صیغہ حاضر

آقا سے ہمیں اس کی اجازت جو ملی ہے

 

کہتا ہوں جب سلام یہاں یا رسول اللہ

کیا خوب حاضری ہے یہاں پر جو ہوئی ہے

 

نظریں جھکی جھکی سی دل سراپا منور

کچھ ہونٹ تو ہلے ہیں پر آواز دبی ہے

سر جھک ساگیا ہے دل پر رقت سی ہے طاری

کچھ مرتعش آواز ہے آنکھوں میں نمی ہے

 

قدموں ذرا آہستہ کیا تم کو خبر ہے

یہ مبہط انوار ہے اتری یاں وحی ہے

 

آنکھیں بچھا شبیؔر نہیں قدموں کا یہ راستہ

آقا چلے جس پر ہیں یہ راستہ تو وہی ہے

H

مجھے نصیب محمد ﷺ کی غلامی ہو

یا رب مجھے نصیب محمد ﷺ کی غلامی ہو

اور اس کا نتیجہ صرف تیری ہی بندگی ہو

 

جو کچھ کروں میں تیرے لئے ہو میرے خدا

اور جو عمل کروں میں طریقہ بھی اس کا ہی ہو

 

تجھ سے سوال تیری محبت کا کروں میں

اور ان کی محبت بھی میرے دل کی روشنی ہو

 

تو نے مجھے نصیب کیا ہے یہاں آنا

اب مانگتا ہوں میں بھی ادب اس کا دل میں بھی ہو

 

نقش قدم صحابہ کا کردے نصیب مجھے

ان کی طرح شبیؔر کی حق پر ہی دل جمعی ہو

w

 

 

محبت رسول کی

کتنی بڑی نعمت ہے محبت رسول کی

کتنا ہے ضروری متابعت رسول کی

 

اب سارے طریقے جو ہیں منسوخ ہوگئے

اللہ کو پسند ہے سنت رسول کی

 

اللہ نے جو جمال و کمال ان کو دیا تھا

دل پر تو اس لئے ہے حکومت رسول کی

معیار اب اچھے برے کا کیسے ہو مشکل

جب تجھ کو ہے معلوم شریعت رسول کی

 

جو ان کے بن گئے ہیں وہ اللہ کے بن گئے

اللہ کے ساتھ ہے کیسی حیثیت رسول کی

 

شبیؔر بن جا اب تو ان کا سچا متبع

مل جائے وہاں تجھ کوشفاعت رسول کی

h

جمعہ مدینہ اور درود

جمعہ کا دن ہو ،مدینہ ہو ہم درود پڑھیں

مزید یہ کہ ہم آقا کےبھی قریب رہیں

 

شکر کا موقع ہے کرتا زبان سے شکر تو ہوں

مگر یہ شکر کے الفاظ قبول ہوجائیں

 

ہم سیئات جو جھولی میں لیے پھرتے ہیں

وہ دیں توفیق تو گناہوں سے ہم بھی توبہ کریں

 

پیش کرتے ہیں عرض آقا کی آج خدمت میں

کہ شفاعت ہماری آج رب سے فرمائیں

ہم گناہگار ہیں پر آپ کی امت میں ہیں

ایک نظر ہم بھی کرم کی آج آپ کی پائیں

 

بھلا ہمارا دو جہاں میں ہوجائے شبیؔر

رب کی توفیق سے آقا کے پیچھے ہم بھی چلیں

Q

 

خیر البشر

پیار ان سے نہ ہو کس سے ہو یہ سوچیں ہم اگر

بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ تو ہے مگر ہیں خیر الابشر

 

دل کے والی ہیں ہمارے ان پر قربان ہوں ہم

حبیب اللہ ہیں ثانی ان کا کیسے آئے نظر

جو اتباع کرے ان کی بنے محبوب خدا

وہ امر رب ہے حقیت میں جو ہے ان کا امر

 

وہ انبیاء کے ہیں خاتم اور جن و انس کے نبی

ادب تعظیم کرے ان کی تمام شجر حجر

 

اونٹ قربان ہوئے جاتے ہیں قربانی میں

ہاتھ میں جب تھی چھری حج میں یعنی یوم النحر

 

ان کی سنت پہ عمل میں ہے کامیابی شبیؔر

مقابلے میں اس کی چھوڑ دے سب اگر مگر

G

قدمین شریفین میں حاضری کے وقت

قریب رب نے آپ کے قدموں میں پہنچا ہی دیا

جس کی آرزو تھی وہاں رب نے آج بٹھا ہی دیا

 

خدا کرے کہ وہاں بھی ہوں آپ کے قدموں میں

یہاں تو شکر ہے جلوہ اس کا دکھا ہی دیا

 

اُمید آج ہوئی ہے مزید انشاء اللہ

قریب ہونگے یہ مژدہ گویا سنا ہی دیا

 

سلام پڑھ لے عاجزانہ ابھی موقع ہے

جو رکاوٹ تھی اسے فضل سے ہٹا ہی دیا

 

کہاں یہ اونچا مقام اور کہاں ناچیز شبیؔر

خدا کریم ہے عملاً یہی بتا ہی دیا

 

y

 

یا رسول

تن من میرا اب آپ پر فدا ہو یا رسول

سنت کے مطابق کام ہر میرا ہو یا رسول

اب سینہ میرا ذکر سے ہوجائے منور

اور دل بھی میرا اس سے مجلیّٰ ہو یا رسول

 

میں امتی آپ کا ہوں گناہ گار و سیاہ کار

طالب ہوں اب کرم کا آپ کا ہوں یا رسول

 

وقت زندگی کا ہم نے تو یونہی گنوا دیا

آخر تو میرا ٹھیک ہو گیا ہو یا رسول

 

توبہ کی میں تجدیدکروں سامنے آپ کے

جو ہو گناہ معاف ہوچکا ہو یا رسول

 

خجلت سے آنکھ اٹھ نہیں سکتی شبیؔر کی

اب ختم گناہوں کا سلسلہ ہو یا رسول

y

جھکی جھکی نظریں

آپ کے در پرپہ ہیں میری جھکی جھکی نظریں

کرم کی ہو وے نصیب ہم کو آپ کی نظریں

 

میں کہاں اس کے ہوں قابل مگر کریم ہے تو

ہے طالب آپ کے کرم کی یہ میری نظریں

 

کہاں مقام تیرا پاسکے کوئی اندھا

روشنی کیسے پاسکے اس کی اندھی نظریں

 

میرا ہو قلب سلیم اور مطمئن ہو نفس

اس کی برکت سے بنے درست میری بھی نظریں

 

سامنے اَشکوں کا جھالر ہے لب خاموش شبیؔر

سامنے ان کے میری کام نہیں کرتی نظریں

 

G

 

دل مطمئن نہیں

دل مطمئن نہیں ہےجو کہتا ہوں وہ کم ہے

میں جو یہاں بیٹھا ہوں یہ بھی ان کا کرم ہے

 

میں کیسے بنوں اس کا مجھے وہ کہے اپنا

میں کیسے پاسکوں انہیں یہی میرا غم ہے

 

تن من میں اب قربان کروں اس پر الہٰی

جب تک کہ تن میں جان ہے جاری میرا دم ہے

 

دل عشق سے لبریز ہے قدموں میں ہے لرزہ

سر خم سا کھا گیا ہے اورآنکھوں میں بھی نم ہے

 

میں اس کی ہی تعریف میں مشغول بس رکھوں

شبیؔر انگلیوں میں جو میرا یہ قلم ہے

 

B

 

عشق رسول

آگ اب عشق کی لگا دے دل میں

اور ایک غل سا مچا دے دل میں

 

جس میں تعریف اس کی ہوتی رہے

محفل اک ایسی سجا دے دل میں

 

دل ہو گم اس میں اور لب پہ درود

حال کچُھ ایسا بنا دے دل میں

 

تجھ کو ہر چیز سے وہ یاد آئے

کڑیاں کچھ ایسی ملا دے دل میں

 

تجھ کو بھولے نہ کسی وقت شبیؔر

یاد اب کچھ ایسی بسا دے دل میں

R

 

 

مدینہ منورہ سے روانگی

جانے کے لئے یاں سے دل تیار نہیں ہے

ہاں حکم خداوندی سے انکار نہیں ہے

 

یہ تو وہی جگہ ہے کہ قسمت سے ہے ملتی

مومن ہو کوئی جس کو اس سے پیار نہیں ہے

 

آقا کے ہم قریب ہوں مسجد نبوی میں

گو دل ہمارا اتنا سمجھدار نہیں ہے

 

اے کاش سمجھ آئے ہمیں اس کی ادب کی

ناداں ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے

 

اب میں خدا سے مانگوں مدد اس میں خاص خاص

دل پر میرا کرم ہو جو بیدار نہیں ہے

 

شبیؔر اس کے فضل پہ کرتا ہے بھروسہ

اعمال پہ بالکل ہی انحصار نہیں ہے

G

قدمین شریفین سے رخصتی

آخری لمحوں کی صحبت میں کیا عرض کروں

میں نہ محروموں میں ہوجاؤں بس میں یونہی کہوں

 

وقت کی قدر نہ کی گزر گئی غفلت میں

دو کریموں کے درمیان میں امید سے ہوں

 

میری امید یہی ہے کہ کرم ہوگا یہاں

نا امیدی کی جو شیطان کی ہیں باتیں نہ سنوں

 

مجھ کو بار بار سعادت یہاں آنے کی ملے

یہاں قدمین شریفین کی برکتیں لوٹوں

 

اب تو نانا سے یہ کہنا ہے کہ اپنا لے مجھے

اور میں نا چیز اس پر بار بار سلام بھیجوں

 

میرے گناہ غفلتیں بھی ہوں معاف سارے

اپنے نانا کے سامنے اس طرح رسواء نہ رہوں

 

میرے نانا سلام تجھ پر ہے شبیؔر کا اب

نوازا جائے مجھے اب یہاں سے خوش خوش چلوں

 

مدینہ منورہ سے جانا

چلنے والے ہیں ہم مدینے سے

ہوک اٹھنے لگی ہے سینے سے

 

کتنی تکلیف ہورہی ہے مجھے

شربت ہجر آج پینے سے

 

اس کی یادوں کی جو باتیں ہیں انہیں

رکھنا ہے ذہن میں قرینے سے

 

پھر سے دنیا کی مشغلوں کی طرف

ہم چلے ہیں یہ کس سکینےے سے

 

شبیؔر با برکت مدینہ یہ غزل

ہے ملی آج رب کے خزینے سے

 

G

 

 

مدینہ منورہ کو الوداع

مدینہ کو میں الوداع کہہ رہا ہوں

نہ پوچھو میرے دل سے کیا کہہ رہا ہوں

 

ہے جاں مضمحل اور روح میری زخمی

نہ دل چاہتا ہے میرا کہہ رہا ہوں

 

سلام رخصتی کا تو میں آیا کرکے

کہاں حق ہوا ہے ادا کہہ رہا ہوں

 

یہ یادیں تو تڑپائيں گی اب ہمیشہ

کیا تھا کہاں پر ہوا کہہ رہا ہوں

 

مدینے کی یادوں کو سنبھالو شبیؔر

نہ ہو تجھ سے اب یہ جدا کہہ رہا ہوں

 

y

 

 

حج سے واپسی کا سفر

(جہاز میں)

حج پہ جانا ہے ایک خوشی کا سفر

دکھ سے بھرپور واپسی کا سفر

 

دل وہاں چھوڑ کر آنا کیسے

ہے یہ کیسا اک بے بسی کا سفر

 

اپنے اعمال پر نظر کرلیں

تاکہ ہوجائے درستگی کا سفر

 

تشنگی اس کی مبارک ہے بہت

تب یہ ہوتا ہے عشق ہی کا سفر

 

لے لے توحید کا اثر کعبہ سے

یاد رکھنا مدینہ بھی کا سفر

 

یاد ساری شبیؔر کی منظوم

دیکھ لینا یہ شاعری کا سفر

 

اللہ تعالیٰ کی دَین کے لئے حرص

(واپسی پر جہاز میں)

دیتا ہے وہ اگر تو اسے خوب خوب لے

لینے سے رک نہ جانا اپنے در سے جب وہ دے

 

یہ اس کا کرم ہے کہ قلم چل رہا ہے آج

تم اس کو روکنا نہیں لکھنے دے جو لکھے

 

دنیا ئے محبت تو سمندر ہے اک عظیم

یاد رکھ کہ سمندر کے کنارے نہیں ہوتے

 

تم عشق میں ڈوب جاؤ مجسم بنو تم عشق

عاشق کو کچھ نہیں مگر محبوب چاہیے

 

بس ایک تمنا پہ جی رہا ہوں میں شبیؔر

دس بستہ عرض کردوں کہ اپنا لے وہ مجھے

 

T

 

 

Wadi%20jin%20Ka%20Mugalta.JPG

فہرست مضامین

عنوانات صفہ عنوانات صفہ عنوانات صفہ

انتساب...

حج کا عاشقانہ طریقہ........... 4

گھر سے روانگی .............. 8

پانچ وقفوں کے ساتھ

تلبیہ کہنا ................ 13

مکہ مکرمہ میں داخلہ ...... 13

پہلی نظر .................. 14

اللہ کے گھر کا طواف ......16

واجب الطواف ............19

زمزم کا پانی پینا ...........20

ملتزَم شریف پر حاضری....12

صفا مروہ کی سعی............21

حلق کرنا ....................23

حج کی تیاری اور انتظار.......24

منیٰ کےلئےروانگی..........25

نویں ذی الحجہ کو ............26

منٰی میں قیام اور...........30

قربانی.......................31

طواف زیارت..............32

مدینہ منورہ کو روانگی.........36

شبیؔر جب بھی نکلے..........73

مدینہ منورہ کا سفر...38

درِ کریم پہ.............42

حاضر ترے قدموں...43

نعت رسول مقبول ﷺ...44

زیارتوں پہ حاضری...45

آنسوؤں کی لڑیوں...47

سفر نامہ شاہراہ محبت...50

کعبے کا ادب.............72

کیا ہے طواف ؟.............73

شاہراہ محبت طواف.........74

مری منتہا اس کی..........75

حرم کے کبوتر فضاء.........76

جو حبِ موبائل ہو.........78

نہ مکے سے جانے..........81

الہی ہمیں لا یہاں........83

مدینے کا سفر.............84

نعت رسول مقبول......85

کوئی مجھ سے پوچھے......86

اللہ تعالیٰ کا کرم ...........88

سامنے روضہء اقدس......89

اے کاش یہاںدرس......91

ادب ادب کی بات ہے...92

خالق نے محبوب ...94

تیرا ہی فضل کا ...........96

پھر پیش کروں ...........97

اپنے نانا کو سلام ...99

نمازی کے سامنے... 101

کروں پیش نانا کے... 106

مرا محبوب مرا نانا ہے...109

مدینے سے رخصت...110

وہاں پر جا کے اب...112

نبی کی محبت.............116

کہ کھلے گا گر تو.........117

یہ برائی تیرے گھر کی... 118

تیرے در پہ جو بھی...119

مرا دل تو چاہے.........120

شبیؔر پھر بھی کرم ہے...121

بیچ حائل تیرے گھر...122

یہ تھکن مدینے کی......123

عشق ہو جائے عنا یت ..124