قرآن، حدیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل کی رو سے قادیانی کافر ہیں

سوال نمبر 1595

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
برمنگھم - برطانیہ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

7 ستمبر 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا، اس فیصلہ کی شرعی حیثیت کیا تھی؟ قادیانی تو قرآن پاک، آپ ﷺ کی احادیث شریفہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال کی روشنی میں پہلے سے کافر تھے، تو پھر اس فیصلہ کو اتنا اہم کیوں سمجھا رہا ہے؟

جواب:

یہ بات تو صحیح ہے کہ بات تو قرآن، حدیث اور ائمۂ مجتہدین کی ہی سچی ہے، لیکن عمل کس چیز پہ ہوتا ہے؟ یہاں عمل قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ لہذا جب تک قانون نہ بنا ہو، اس وقت تک آپ اس کو قانونی گرفت میں نہیں لا سکتے۔ پس قانون کا اس کے مطابق ہونا بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہاں اس کو جو بہت اہم سمجھا رہا ہے، تو وہ اس کی ملکی قانونی حیثیت ہے۔ مثلًا پہلے اگر آپ اس کے خلاف بات کرتے، تو حکومت کہتی کہ تم لوگوں کے درمیان تفرقہ ڈال رہے ہو اور یہ کررہے ہو اور وہ کررہے ہوں، یعنی حکومت کے لوگ ہمارے خلاف قوانین استعمال کرسکتے تھے، بلکہ پہلے استعمال کرتے بھی تھے۔ پتا نہیں کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ لیکن اب وہ ایسا نہیں کرسکتے، اب یہ لوگ Defence line میں آگئے۔ اب یہ اپنے آپ کو صحیح ثابت نہیں کرسکتے، یہاں تک کہ تبلیغ بھی نہیں کرسکتے۔ اب یہ لوگ جو اپنی بات بھی پیش نہیں کرسکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون بن گیا ہے۔ اب ان کو defence میں ہونا ہے، پس یہی کامیابی ہے۔ ویسے تو ظاہر ہے کہ ہمارے نزدیک تو پہلے سے کافر تھے، ہمارے نزدیک کیا کافر تھے، قرآن کے نزدیک، احادیث شریفہ کے نزدیک اور ائمہ مجتہدین کے نزدیک یہ کافر تھے۔ اس میں تو دوسری بات ہے ہی نہیں، لیکن ملکی قانون کے لحاظ سے ان کو کافر قرار دیا جانا؛ یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اب پوری دنیا کی طاغوتی طاقتیں زور لگا رہی ہیں کہ یہ دفعات آئین سے نکل جائیں، تاکہ ان کے لئے راستہ کھل جائے۔ وہ پوری کوشش یہی کررہی ہیں۔ مختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں، لیکن آئین سے مجبور ہو کر وہ کچھ کر نہیں سکتے۔ اب اگر وہ کچھ کرتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ ان کے خلاف بات جاتی ہے۔ پس یہ کامیابی کی بات ہے۔ آپ دیکھیں کہ مفتی قاضی سے زیادہ جانتا ہے، لیکن بات کس کی چلے گی؟ بات قاضی کی چلے گی۔ پس اس لحاظ سے اس فیصلہ کو بہت اہم فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت ما شاء اللہ مسلمانوں کی اسلامی سلطنت میں کم از کم قرآن و سنت کا فیصلہ آئینی طور پر بھی تسلیم شدہ ہے۔ ویسے بھی ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ کوئی فیصلہ قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہوگا، لیکن لوگ پھر بھی راستے بنا لیتے ہیں۔ لیکن جب واضح قانون بن جائے، تو پھر وہ اس میں راستے نہیں بنا سکتے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو اس کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

قرآن، حدیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل کی رو سے قادیانی کافر ہیں - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال