اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے ساتھ شامل فرمایا ہے۔ اس وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات میں بھی ہمارے لئے راہنمائی موجود ہے۔ آپ ﷺ جن اعمال کا اہتمام فرماتے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ان اعمال کا اہتمام فرماتے تھے۔ آپ ﷺ تہجد کی نماز خود بھی اہتمام سے اداء فرماتے تھے اور اس بارے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تہجد کے فضائل بھی بیان فرماتے تھے۔ ایک واقعہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ ایک دفعہ ان سے تہجد کی نماز قضاء ہو گئی تو اس قضاء پر اللہ تعالیٰ کے سامنے اتنا زیادہ روئے کہ اللہ تعالیٰ نے تہجد سے زیادہ ثواب عطاء فرمایا۔ اگلی رات شیطان نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خود جگایا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر شیطان نے رونے کی وجہ سے زیادہ اجر ملنے کا بتایا۔ اس واقعے سے تہجد کے بارے میں کیا ہم یہ طریقہ لے سکتے ہیں کہ اگر تہجد قضاء ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس عظیم نعمت کے فوت ہونے پر رونا شروع کر لیں۔ کیا اسی طرح ہر اس نفلی عمل کے فوت ہونے پر بھی کر سکتے ہیں جس کو کسی نےاپنا مستقل معمول بنایا ہو؟
جواب:
سوال بہت اچھا ہے کیونکہ اس میں ایک فقہی جزئیہ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو عمل مستحب ہے اگر اس کو اس طرح کیا جائے کہ اس پر واجب کا گمان ہونے لگے تو اس کا ترک واجب ہو جاتا ہے۔ دوسرا جزئیہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کے بارے میں فرمایا کہ تم ان جیسے نہ ہو جانا کہ وہ چند رکعات رات کو پڑھا کرتا تھا اور اب نہیں پڑھا کرتا۔ یعنی تہجد کی نماز کے لئے دوام کا فرمایا۔ معلوم ہوا جس نے شروع کی ہے تو اس کو دائمی طور پہ پڑھ لیا کرے۔
تہجد کی نماز نبی پر تو فرض ہوتی ہے جیسے آپ ﷺ پر بھی فرض تھی اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کی بہت بڑی value ہے۔ لیکن امت پر آسانی کے لئے اس کو فرض قرار نہیں دیا گیا۔
آپ ﷺ جب معراج شریف پہ تشریف لے گئے تو ابتدا میں پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر آپ ﷺ نے اللہ میاں سے درخواست کی کہ اس میں کچھ تخفیف کی جائے۔ تخفیف ہوتی رہی 45 ہو گئیں، 40 ہو گئیں، 35 ہو گئیں، ہوتے ہوتے پانچ تک آ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میری امت پہ تین نمازیں فرض تھیں لیکن وہ پوری نہیں کر سکتے تھے آپ پھر بھی تخفیف کے لئے عرض کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اب مجھے شرم آتی ہے، میں مزید نہیں کہہ سکتا۔ اس کے بعد اللہ پاک نے فرمایا: یہ پانچ پڑھ لیں میں 50 کا ثواب دوں گا۔ معلوم ہوا ثواب اور اجر کی پہلے جو حیثیت تھی وہ بر قرار رہی۔ لیکن تخفیف کے لئے اس کو پانچ کر دیا گیا۔ اس سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگرچہ امت پر آسانی کے لئے تہجد کی نماز مستحب کر دی گئی لیکن اس کی اہمیت اسی شان سے ہے، جیسے نبی ﷺ کی نماز کی تھی۔ چونکہ اس کی value بہت زیادہ ہے اس وجہ سے اگر کوئی اس کو شروع کرے تو پھر پڑھنا نہ چھوڑے اور اللہ پاک سے مانگتا رہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی پر عمل کر لیا تھا۔ اس وجہ سے اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خلاف واقع ہو۔ پس ہم لوگوں کو بھی تہجد کی نماز کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مشائخ تو اس کو ولایت کی کنجی کہتے ہیں۔ شیخ مباح چیز کو بھی کسی پر مجاہدے کے لئے لازم کر سکتا ہے۔ مثلاً کسی کو کہہ دے کہ باہر جا کر لوگوں کے جوتے سیدھے کیا کرو۔ یہ فرض واجب نہیں ہے لیکن تربیت کے لئے کرنا پڑے گا۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا تھا جس وقت وہ بیعت ہونے کے لئے آئے تھے کہ: "تم جہاں گورنر رہے ہو وہاں ایک سال سبزی بیچو"۔ یہ فرض، واجب، سنت یا مستحب تھا؟ نہیں بلکہ تربیت کا ایک نظام ہے، تربیت کا حصہ ہے۔ لہذا تربیتاً اگر شیخ کسی کو کہہ دے کہ تہجد کی نماز پڑھ لیا کرو تو اس سے فرضیت اور واجب ہونے والی بات نہیں آتی، اس کے لئے تربیت کی بات آتی ہے۔ کیونکہ جب تہجد کے لئے اٹھے گا تو اس کے ساتھ اور کام بھی ہو جائیں گے جیسے ذکر ہو جائے گا۔ بہت سارے لوگ بعد میں ذکر نہیں کر پاتے۔ قرآن کی تلاوت ہو جائے گی اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ فجر کی نماز ہو جائے گی۔ یہ ساری باتیں اس کے ساتھ connected ہیں۔ بلکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ مستحبات سنتوں کے محافظ ہیں۔ جو مستحبات کا خیال رکھتا ہے ان کی سنتیں محفوظ ہوتی ہیں اور جو سنتوں پہ عمل کرتے ہیں ان کے واجبات محفوظ ہوتے ہیں اور جو واجبات کا اہتمام کرتے ہیں ان کے فرائض محفوظ ہوتے ہیں اور جو فرائض کا اہتمام کرتے ہیں ان کا ایمان بچا رہتا ہے۔ مستحبات گرنے شروع ہوئے تو سنتیں خطرے میں آ گئیں۔ شیطان کے لئے اب وار کرنا آسان ہے، next اس کے سامنے وہی چیز ہو گی اور سنتوں پہ اثر پڑ گیا۔ واجبات متاثر ہو گئے تو فرائض خطرے میں ہو گئے اور فرائض خطرے میں آ گئے تو اب ایمان اللہ بچائے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ سستی کرتے کرتے بہت دور چلے جاتے ہیں، ابتدا مستحب سے ہوتی ہے، آدمی سمجھتا ہے مستحب ہی تو ہے۔ یہ جملہ ہی خطرناک ہے۔ کیونکہ اس میں تحقیر ہے۔ مستحب کا مطلب ہے اللہ کا پسندیدہ۔ آ گے جا کر فقرہ آئے گا سنت ہی تو ہے۔ اس طرح بات آگے بڑھتی رہے گی۔ تو ہمیں ادھر ہی رکنا چاہیے تاکہ معاملہ خراب نہ ہو۔ ہمیں اس بارے میں صحابی کی سند بھی مل گئی کہ صحابی اس پر روئے ہیں۔
سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ یہ تھا کہ جن کی تہجد قضا ہو جاتی تھی ان کو فرماتے کہ اب قضا کے طور پر چاشت کی 12 رکعتیں پڑھو۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کا نفس شیر نہ ہو جائے، ایک چیز کو گرا کے شیر نہ ہو جائے۔ دوسرا تم اس پہ گراؤ تاکہ وہ اپنے آپ میں رہے ورنہ بات آگے بڑھتی جائے گی۔ آج کل فتنے کا دور ہے نتیجتاً جو چیزیں متاثر ہو رہی ہیں ان کی وجوہات بہت ہیں۔ سب سے پہلے ماحول کے اندر فسق و فجور ہے اور اس کے اثرات دوسروں پہ پڑتے ہیں۔ آپ کسی اچھے ماحول میں چلے جائیں آپ کو اچھے عمل کی توفیق ہونا شروع ہو جائے گی اور برے ماحول میں چلے جائیں گے تو برے اعمال کی طرف دھیان بڑھتا جائے گا۔ اس سے پتا چلا کہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک تو صحبت صالحین اختیار کرے اور دوسرا انسان کے اندر Will power اتنی strong ہو کہ بے شک ساری دنیا سر کے اوپر کھڑی ہو جائے لیکن میں تو صحیح کام کروں گا۔ میں ان کے پیچھے بھیڑ کی چال نہیں چلوں گا، سارے لوگ اگر سر کے اوپر کھڑے ہو جائیں مجھے کیا، نعوذ باللہ من ذالک سارے کافر بھی ہو جائیں تو میں ان کے اوپر محنت کر کے ان کو دوبارہ اسلام میں لانے کی کوشش کروں نہ کہ میں بھی ان کے پیچھے چلا جاؤں۔ دنیا کی مثال سامنے ہے کہ دنیا میں آگ لگ جائے تو مثال کے طور پر 20 افراد میں سے 18 جل گئے تو کیا 2 بھی اپنے کو جلا ڈالیں۔ بلکہ وہ وہاں سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ کبھی بھی دوسروں کی خرابی کو بنیاد بنا کر خود اپنے آپ کو خراب نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمت جواں رکھنی چاہیے اور اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن