اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم صفحہ 97 پر عقل بشری کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ وحی اور ملکہ نبوت کے علاوہ نبی ميں نبوت و رسالت کے فرائض سے باہر کی چیزوں ميں اُن کی عقل وہی ہوتی ہے جو عام انسانوں کی ہوتی ہے اور جس ميں اجتہادی غلطی کا ہر وقت امکان ہوتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اجتہاد کی یہی وہ دوسری قسم ہے جس میں نبی سے بھی غلطی ہو سکتی ہے جس کا مدار وحی الہام اور ملکہ نبوت پر نہیں بلکہ انسانی علم و تجربہ پر ہوتا ہے اور یہی وہ قسم ہے جس کا اتباع پیروؤں پر واجب نہیں اور اس کی بہترین مثال کھجور کی کاشت کا واقعہ ہے اس عنوان کے آخر میں حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ یہی وہ امور ہیں جن میں زمانہ اور تمدن کی ترقی کے ساتھ تغیر و انقلاب ہوتا ہے اس لئے ان کو ہمیشہ کے لئے محدود کر دینا مصلحتِ الہی کے خلاف تھا۔ اس سے مسلمانوں کو دنیوی امور میں ترقی کے لحاظ سے کیا ہدایات مل رہی ہیں؟
جواب:
پہلے سوال کو سمجھنے کی کوشش کر لیں کیونکہ سوال ذرا ایسا ہے جس میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اصل میں پیغمبر انسان ہی ہوتا ہے اور انسان کے ساتھ جو بنیادی چیزیں ہیں وہ پیغمبر کے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً پیغمبر کا بھی دماغ ہوتا ہے، پیغمبر کا بھی دل ہوتا ہے، پیغمبر کے بھی ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں، پیغمبر بھی کھاتا ہے، پیغمبر بھی پیتا ہے، پیغمبر بھی سوتا ہے کیونکہ یہ چیزیں عام انسانوں کی طرح ہیں یعنی عام انسانوں کی جو requirement ہے وہ پیغمبر کی بھی ہے۔ انسانوں کے اندر پیغمبر کو بھیجا گیا ہے اگر انسانوں والی چیزیں پیغمبر میں نہ ہوتیں تو پیغمبر انسانوں کی تربیت نہ کر سکتا، ان کو پتا ہی نہ ہوتا کہ انسانوں کے مسائل کیا ہیں؟ لہذا پیغمبر کو انسانوں میں جب بھیجا جاتا ہے تو انسان بنا کر بھیجا جاتا ہے۔ پیغمبر میں عقلِ انسانی بھی ہوتی ہے اور دل میں جذبات بھی ہوتے ہیں اور خواہشات بھی ہوتی ہیں، یہ تمام چیزیں انسانوں کی طرح ہیں لیکن پیغمبر اور عام انسان میں فرق یہ ہے کہ پیغمبر پر وحی بھیجی جاتی ہے ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ (الکہف: 110) ”آپ کہیے میں تمہاری ہی مثل بشر ہوں، میری طرف یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے“ تو جو بات آپ ﷺ نے وحی کے ذریعے سے کی ہو اس میں تو غلطی کا امکان ہی نہیں کیونکہ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور جو آپ ﷺ نے اپنی سوچ کی بنیاد پر کہی یا انسانی تجربے کی بنیاد پر کہی ہو تو جیسے انسانی تجربے میں ایک بات کے اوپر دوسری بات ہو سکتی ہے تو اسی طرح پیغمبر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کھجوروں کی کاشت والا واقعہ ہوا تھا۔ آپ ﷺ سمجھ رہے تھے کہ شاید کھجور کو آپس میں ملانا کوئی ٹونا ٹوٹکا ہے چنانچہ صحابہ کو منع فرمایا۔ اب چونکہ اس وقت آپ ﷺ کے اوپر یہ بات نہیں کھلی تھی کہ یہ تناسل کا ایک physical system ہے یعنی نر اور مادہ کو اکٹھا کرنا اور کھجور کی کاشت کرنا۔ اگر یہ نہ کیا جائے تو پھر کھجوریں نہیں آتیں۔ جب آپ ﷺ نے روکا تو صحابہ نے مان لیا، تو اس دفعہ کھجوریں نہیں آئیں۔ آپ ﷺ پوچھا کہ کیا وجہ ہوئی؟ عرض کیا: حضرت یہ تو ایسے ہوتا ہے۔ فرمایا "اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم" (علي بن محمد، نور الدين الملا الهروي، شرح الشفاء، ج1، ص28) تم دنیاوی امور کو اچھی طرح جانتے ہو۔ یعنی تم اس میں ویسے ہی کرو جیسے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حکمت کے ساتھ اس بات کو پہنچایا۔ اب ہمارے لئے دنیاوی researchers اور تحقیقات کے راستے کھل گئے، کوئی medical research کر رہا ہے تو medical research بھی ٹھیک ہے، اگر کوئی engineering research کر رہا ہے تو وہ بھی ٹھیک ہے، اگر کوئی scientific research کر رہا ہے تو یہ بھی ٹھیک ہے، اگر کوئی ویسے social science میں research کر رہا ہے بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن ان سب میں وحی کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے، وحی کے ساتھ ٹکرانا نہیں چاہیے۔ اگر وحی ایسی بات کہے جو ہماری research کے خلاف ہو تو پھر research زیرو ہے، پھر ہم research نہیں مانیں گے اور اگر وحی کی بات نہ ہو بلکہ تجربے کی بات ہو تو وہ کسی کی بھی ہو ہم مان لیں گے۔ مثال کے طور پر science evolve ہوتی رہتی ہے، چلتی رہتی ہے، سائنسی باتوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ پہلے ہماری جو مذہبی کتابیں اور دینی کتابیں تھیں فقہ کی یا اس کے علاوہ اور کتابیں، ان میں سمجھانے کے لحاظ سے اس وقت کی science کے لحاظ سے بات ہوئی تھی، اب science تبدیل ہو گئی ہے۔ تو ان پرانی مثالوں میں مذہب کی یا وحی والی بات نہیں تھی بلکہ science کی بات تھی، لیکن اگر ہم کہتے ہیں کہ وہ بھی قرآن و حدیث کی طرح بالکل پکی بات تھی، تبدیل نہیں ہو سکتی تو یہیں سے فتنہ اور مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔
عیسائیت اس طرح ختم ہوئی تھی کہ انہوں نے اس طرح کی چیزوں کو اپنے دین کا حصہ بنا دیا اور جب زمانے کے لحاط سے اس میں تبدیلی آئی تو وہ لوگ دین کے مخالف ہو گئے اور اپنے سائنسدانوں کو سولی پر چڑھایا دیا تھا کہ تم یہ کیسی باتیں کرتے ہو؟ کتاب میں تو کچھ اور لکھا ہے۔
موجودہ دور کے عیسائی، عیسائی نہیں ہیں، وہ اپنے آپ عیسائی کہتے ہیں لیکن ان کا مذہب کے اوپر یقین نہیں ہے بلکہ انہوں نے دو حصے کر لئے ہیں۔ ایک دنیاوی اور ایک جو ان کا دینی گروہ ہے۔ وہ گروہ دنیا کے ساتھ کوئی لگاؤ ہی نہیں رکھتا، ان کا دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اصل میں ہمیں خبر دار کرنا ہے کہ بھئی science کی باتوں کو دین کی باتیں نہ بناؤ، ان کو وحی کی شکل نہ دو۔ جیسے سراجی (میراث کی کتاب) کو مقدس قرار دیا گیا کہ بس اسی کے ذریعہ سے میراث پڑھی جا سکتی ہے کسی اور طریقے سے نہیں پڑھی جا سکتی۔ یہ بھی ہماری غلطی ہے یہ بھی نقصان کی بات ہے۔ ریاضی سائنس ہے، ریاضی قرآن و حدیث نہیں ہے۔ اب تداخل و تباین و تماثل اس طریقے سے اگر میراث کے مسائل حل نہیں کر سکتے تو آج کل کی جدید ریاضی کے ذریعے سے حل کرنا غلط ہو جائے گا؟ اور ایسے بھی علماء ہیں جو غلط فہمی میں مبتلا ہیں، میرے پاس articles موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ زمین چپٹی ہے اور سورج اس کے گرد چکر لگا رہا ہے چونکہ پہلے یہی بات کہی جاتی تھی تو وہ آج بھی اس پر قائم ہیں اور اس پر قرآن و حدیث کے دلائل دے رہے ہیں۔ جبکہ یہ بات ایک بچے کو بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن وہ اس پہ ڈٹے ہوئے ہیں، یہ غلط بات ہے۔ بھئی science کو مذہب کا حصہ نہ بناؤ۔ بدعت کس کو کہتے ہیں؟ یعنی آپ نے کوئی نئی چیز دین کے اندر داخل کر دی اس کو دین بنا دیا جبکہ وہ دین نہیں ہے تو یہ بدعت ہے۔ اسی طریقے سے اگر آپ نے science کو دین بنا دیا تو یہ بدعت نہیں ہو گی؟ یہی اصل میں بنیادی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے نقصان بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ ہمیں ہر چیز کو علیحدہ علیحدہ دیکھنا چاہیے جو قرآن و حدیث ہے وہ علیحدہ ہے، فقہ اس پہ جو مبنی ہے وہ علیحدہ ہے اور جو science کی باتیں اس میں شامل ہو گئیں ہیں وہ علیحدہ چیز ہے۔ مثال کے طور پر بہشتی زیور میں ہے کہ سورج کی وجہ سے جو پانی گرم ہو جاتا ہے اس سے وضو نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے برص کی بیماری ہو جاتی ہے، ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حکیموں کی بات ہے۔ یعنی قرآن و حدیث کی بات نہیں ہے۔ آج کل ڈاکٹر research اس کے خلاف ہو جائے تو ہم ڈاکٹروں کی بات مانیں گے۔ اس وقت حکیم کی research وہ تھی لیکن ضروری نہیں کہ وہ research قائم رہے۔ یہ کوئی مذہبی بات نہیں ہے۔ بعض اس قسم کی باتیں جو نقصان پہنچاتی ہیں اور نقصان پہنچنے والی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن اگر پتہ چل جائے کہ نقصان نہیں پہنچاتیں تو پھر علت ہی ختم ہو گئی پھر مسئلہ نہیں رہے گا۔ جس کی علت کوئی دنیاوی تحقیق ہو تو "اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم" ہمارے سامنے ہے، وہ تحقیق مان لینی چاہیے جو latest ہے۔ صحابہ کرام کو آپ ﷺ نے یہی فرمایا "اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم"۔ لیکن دین کی بات میں ہم science کی بات نہیں مانیں گے۔ مثال کے طور پر کروڑوں سائنسدان اکٹھے ہو کر ایک آواز ہو کر بلند آواز سے کہیں کہ چاند موجود ہے اس وجہ سے رمضان فلاں تاریخ کو ہے حالانکہ بادل ہیں، چاند نظر نہیں آیا تو ہم کہتے ہیں تم اپنی اس field میں کامل ہو، تم صحیح کہتے ہو لیکن ہم رمضان شروع نہیں کریں گے کیونکہ ہم نے چاند دیکھا نہیں اور ہمیں چاند دیکھنے کا حکم ہے، ہمیں شہادت چاہیے۔
ایک دفعہ پشاور میں ہمارا اجلاس تھا جو اس وقت کے وزیر نے arrange کیا تھا۔ انہوں نے بات شروع کی کہ اس وقت scientific research اتنی advance ہو گئی ہے کہ وہ ایک ایک سیکنڈ کا حساب کر سکتی ہے تو ہمیں اب اس پر سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے چاند دیکھنے کے نظام کو حساب کی بنیاد پر کر لیں، اس میں پریشانی نہیں رہے گی، رمضان اور عید پوری ملک میں ایک ہی دن ہو جائے گی۔ پانچ چھ آدمی مجھ سے پہلے تھے اور ہر ایک کو 5، 5 منٹ بولنے کا موقع تھا۔ وزیر صاحب نے جو بات کی کسی نے بھی اس پر رد نہیں کیا اور بات مجھ تک پہنچ گئی۔ میں نے کہا: میں حساب کی وجہ سے بد نام ہوں ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ حساب بہت کرتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ چیز حساب کی بنیاد پر نہیں ہے۔ KPK والے مجھے کہتے ہیں کہ center کے ساتھ ہے اور center والے کہتے ہیں KPK کے ساتھ ہے۔ میں نہ KPK کے ساتھ ہوں نہ میں center کے ساتھ ہوں بلکہ میں حقیقت کے ساتھ ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ حساب کی بنیاد پر نہیں ہے، چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے گا اور چاند دیکھ کر افطار کی جائے گی۔ بے شک چاند نظر نہ آئے اور چاند موجود ہو بادلوں کے پیچھے کیونکہ صاف فرمایا گیا ہے اگر آڑ ہو جائے۔ تو آڑ بادل بھی ہو سکتے ہیں کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے۔ تو اگر آڑ کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو ہم تو 30 پورے کریں گے۔ اس پہ فوراً وزیر صاحب نے اپنی بات واپس لے لی اور کہا: میں صرف اپنی ایک رائے دے رہا تھا۔ میں اس وقت سائنسدان کے طور پہ بیٹھا ہوا تھا یعنی مجھے سائنس کی نمائندگی کرنی تھی لیکن اس وقت میں نے دھڑلے سے یہ کہہ دیا کہ یہ حدیث شریف کی بات ہے۔ تو جب وحی کی بات آ جائے تو اس وقت science کو ہم نہیں مانیں گے کیونکہ science تبدیل ہو رہی ہے۔ ہم ایک ایسی چیز کا معیار بنا سکتے ہیں جو کہ تبدیل نہیں ہوتی لیکن ہم science کو بنیاد نہیں بنا سکتے، یہ بالکل نپا تلا اصول ہے۔ لہذا ہم "اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُم" کو مانتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے لئے ہم وحی چھوڑ دیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وحی اور ان دو چیزوں کو علیحدہ علیحدہ دیکھو، وحی میں اس کو شامل نہ کرو کیونکہ وحی میں شامل کرنے سے یہ دین بن جائے گا اور یہ دین نہیں ہے۔ لہٰذا دین میں اضافہ ہو جائے گا اور یہ بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن