Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

روزہ

  • فضائل
    • حديث شريف ميں روزہ کا بڑا ثواب آيا ہے اور اللہ تعالى کے نزديک روزہ دار کا بڑا رتبہ ہے۔ نبى عليہ السلام نے فرمايا ہے کہ جس نے رمضان کے روزے محض اللہ تعالى کے واسطے ثواب سمجھ کر رکھے تو اس کے سب اگلے گناہ صغيرہ بخش ديئے جائيں گے اور نبى عليہ السلام نے فرمايا کہ روزہ دار کے منہ کى بدبو اللہ تعالى کے نزديک مشک کى خوشبو سے بھى زيادہ پيارى ہے قيامت کے دن روزہ کا بے حد ثواب ملے گا۔ روايت ہے کہ روزہ داروں کے واسطے قيامت کے دن عرش کے تلے دستر خوان چنا جائے گا وہ لوگ اس پر بيٹھ کر کھانا کھائيں گے اور سب لوگ ابھى حساب ہى ميں پھنسے ہوں گے۔ اس پر وہ لوگ کہيں گے کہ يہ لوگ کيسے ہيں کہ کھانا کھا پى رہے ہيں اور ہم ابھى حساب ہى ميں پھنسے ہوئے ہيں۔ ان کو جواب ملے گا کہ يہ لوگ روزہ رکھا کرتے تھے اور تم لوگ روزہ نہ رکھتے تھے۔
      حديث۔ ميں ہے
      کہ فرمايا جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے روزہ دار کا سونا عبادت ہے اور اس کا خاموش رہنا تسبيح ہے يعنى روزہ دار اگر خاموش رہے تو اسے تسبيح يعنى سبحان اللہ پڑھنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کا عمل ثواب ميں بڑھ جاتا ہے يعنى اس کے اعمال کا ثواب بہ نسبت اور دنوں کے ان مبارک دنوں ميں زيادہ ہوتا ہے اور اس کى دعا مقبول ہے يعنى روزے کى حالت کو قبوليت دعا ميں خاص دخل ہے اور اس کے گناہ بخش دئيے جاتے ہيں يعنى گناہ صغيرہ معاف ہو جاتے ہيں
      حديث ميں ہے
      کہ روزہ ڈھال ہے اور مضبوط قلعہ ہے دوزخ سے بچانے کے ليے يعنى جس طرح ڈھال اور مضبوط قلعہ سے انسان پناہ ليتا ہے اور دشمن سے بچتا ہے اسى طرح روزے کے ذريعہ سے دوزخ سے نجات حاصل ہوتى ہے اس طرح کہ انسان کى گناہوں کى قوت کمزور ہو جاتى ہے اور نيکى کا مادہ بڑھتا ہے سو جب انسان باقاعدہ روزہ دار رہے گا اور اچھى طرح روزے کے آداب بجا لائے گا تو گناہ اس سے چھوٹ جائيں گے اور دوزخ سے نجات ملے گى۔
      حديث۔ ميں ہے
      کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ نہ پھاڑے يعنى برباد نہ کرے روزہ دار اس کو جھوٹ اور غيبت سے، يعنى روزہ ڈھال کا کام ديتا ہے جيسا کہ اوپر بيان ہو چکا ہے مگر جبکہ اس کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور اگر روزہ رکھا اور غيبت اور جھوٹ وغيرہ گناہوں سے باز نہ آئے تو گو فرض ادا ہو جائے گا مگر بہت بڑا گناہ ہوگا۔ اور روزے کى جو برکت حاصل ہوتى ہے اس سے محرومى ہوگى۔
      حديث ميں ہے
      روزہ ڈھال ہے دوزخ سے سو جو شخص صبح کرے اس حال ميں کہ وہ روزہ دار ہو پس نہ جہالت کرے اس روز اور جبکہ کوئى آدمى اس سے جہالت سے پيش آئے تو اسے بدلہ ميں برا نہ کہے اور اس سے برى گفتگو نہ کرے اور چاہيے کہ کہہ دے تحقيق ميں روزہ دار ہوں اور قسم اس ذات کى جس کے قبضہ ميں محمد کى جان ہے بے شک بدبو روزہ دار کے منہ کى زيادہ محبوب ہے خدا کے نزديک مشک کى خوشبو سے يعنى قيامت کے روز اس بدبو کے عوض جو روزے کى حالت میں روزے دار کے منہ کے اندر دنيا ميں پيدا ہوتى ہے وہ سبب ہے اس خوشبو کے حاصل ہونے کا جو قيامت کو ميسر ہوگى۔
      حديث ميں ہے
      کہ روزہ دار کو ہر افطار کے وقت ايک ايسى دعا کى اجازت ہوتى ہے جس کے قبول کرنے کا خاص وعدہ ہے۔
      حديث ميں ہے
      کہ جناب رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے دو آدميوں سے فرمايا کہ تم روزہ رکھو اس ليے کہ روزہ ڈھال ہے دوزخ سے بچنے کے ليے اور زمانہ کى مصيبتوں سے بچنے کے ليے يعنى روزہ کى برکت سے دوزخ اور مصائب و تکاليف سے نجات ملتى ہے
      حديث ميں ہے
      کہ تين ايسے آدمى ہيں کہ ان سے کھانے کا حساب قيامت ميں نہ ہوگا جو کچھ بھى کھائيں جبکہ وہ کھانا حلال ہو اور وہ روزہ دار ہے اور سحرى کھانے والا اور محافظ خدا تعالىٰ کے راستہ ميں يعنى جو اسلام کى سرحد ميں مقيم ہوا اور کافروں سے ملک الام کى حفاظت کرے يہاں سے بہت بڑى رعايت روزہ دار کى اور سحرى کھانے والے کى اور محافظ اسلام کى ثابت ہوئى کہ ان سے کھانے کا حساب ہى معاف کر ديا گيا ليکن اس رعايت پر بہت سے لذيذ کھانوں ميں مصروف نہ ہونا چاہيے۔ بہت سى لذتوں ميں مصروف ہونے سے خدا کى ياد میں غفلت پيدا ہو جاتى ہے اور گناہ کى قوت کو ترقى ہوتى ہے خوب سمجھ لو بلکہ خدا کى اس نعمت کى بہت قدر ہونى چاہيے اور اس کا شکر اس طرح ادا کرنا چاہيے کہ حق تعالى کى خوب اطاعت کرے۔ حديث۔ ميں ہے کہ جو روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تو اس روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ رکھنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا بغير اس بات کے کہ روزہ دار کا کچھ ثواب کم ہو يعنى روزہ دار کا ثواب کچھ کم نہ ہوگا بلکہ حق تعالى اپنے فضل و کرم سے اپنى طرف سے روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ دار کے برابر ثواب مرحمت فرمائيں گے اگرچہ کسى معمولى ہى کھانے سے روزہ افطار کرا دے گو وہ پانى ہى ہو۔
  • حکم
    • مسئلہ۔ رمضان شريف کے روزے ہر مسلمان پر جو مجنون اور نابالغ نہ ہو فرض ہيں جب تک کوئى عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہيں ہے۔ اور اگر کوئى روزہ کى نذر کرلے تو نذر کر لينے سے روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ اور قضا اور کفارے کے روزے بھى فرض ہيں اور اس کے سوا اور سب روزے نفل ہيں رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کوئى گناہ نہيں البتہ عيد اور بقر عيد کے دن اور بقر عيد سے بعد تين دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ يہ روزہ بھى دين اسلام کا بڑا رکن ہے جو کوئى رمضان کے روزے نہ رکھے گا بڑا گناہ ہوگا اور اس کا دين کمزور ہو جائے گا۔
  • وقت
    • مسئلہ۔ جب سے فجر کى نماز کا وقت شروع ہوتا ہے اس وقت سے لے کر سورج ڈوبنے تک روزے کى نيت سے سب کھانا اور پينا چھوڑ دے اورازدواجی تعلق بھی قائم نہ ہو۔ شرع ميں اس کو روزہ کہتے ہيں۔
      مسئلہ۔ شرع سے روزہ کا وقت صبح صادق کے وقت سے شروع ہوتا ہے اس ليے جب تک صبح نہ ہو کھانا پينا وغيرہ سب کچھ جائز ہے۔ بعض لوگ پچھلے(یعنی صبح صادق سے بہت پہلےہی) کو سحرى کھا کر نيت کى دعا پڑھ کر ليٹے رہتے ہيں اور يہ سمجھتے ہيں کہ اب نيت کر لينے کے بعد کچھ کھانا پينا نہ چاہيے يہ خيال غلط ہے۔ جب تک صبح نہ ہو برابر کھا پى سکتے ہیں ، چاہے نيت کر چکے ہوں يا ابھى نہ کى ہو۔
  • نیت
    • مسئلہ۔ زبان سے نيت کرنا اور کچھ کہنا ضروری نہيں ہے بلکہ جب دل ميں يہ دھيان ہے کہ آج ميرا روزہ ہے اور دن بھر نہ کچھ کھايا نہ پيا نہ ہمبسترى ہوئى تو اس کا روزہ ہوگيا۔ اور اگر کوئى زبان سے بھى کہہ دے کہ يا اللہ ميں کل تيرا روزہ رکھوں گا يا عربى ميں يہ کہہ دے کہ بصوم غد نويت تو بھى کچھ حرج نہيں يہ بھى بہتر ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر کسى نے دن بھر نہ تو کچھ کھايا نہ پيا صبح سے شام تک بھوکا پياسا رہا ليکن دل ميں روزہ کا ارادہ نہ تھا بلکہ بھوک نہيں لگى يا کسى اور وجہ سے کچھ کھانے پينے کى نوبت نہيں آئى تو اس کا روزہ نہيں ہوا۔ اگر دل ميں روزہ کا ارادہ کر ليتا تو روزہ ہو جاتا۔
    • مسئلہ۔ رمضان شريف کے روزے کى اگر رات سے نيت کر لے تو بھى فرض ادا ہو جاتا ہے اور اگر رات کو روزہ رکھنے کا ارادہ نہ تھا بلکہ صبح ہو گئى تب بھى يہى خيال رہا کہ ميں آج کا روزہ نہ رکھوں گا پھر دن چڑھے خيال آگيا کہ فرض چھوڑ دينا برى بات ہے اس ليے اب روزہ کى نيت کر لى تب بھى روزہ ہو گيا ليکن اگر صبح کو کچھ کھا پى چکا ہو تو اب نيت نہيں کر سکتا۔
    • مسئلہ۔ اگر کچھ کھايا پيا نہ ہو تو دن کو ٹھيک دوپہر سے ايک گھنٹہ پہلے پہلے رمضان کے روزے کى نيت کر لينا درست ہے۔
    • مسئلہ۔ رمضان شريف کے روزے ميں بس اتنى نيت کر لينا کافى ہے کہ آج ميرا روزہ ہے يا رات کو اتنا سوچ لے کہ کل ميرا روزہ ہے بس اتنى ہى نيت سے بھى رمضان کا روزہ ادا ہو جائے گا اگر نيت ميں خاص يہ بات نہ آئى ہو کہ رمضان کا روزہ ہے يا فرض روزہ ہے تب بھى روزہ ہو جائے گا۔
    • مسئلہ۔ رمضان کے مہينے ميں اگر کسى نے يہ نيت کى کہ ميں کل نفل کا روزہ رکھوں گا رمضان کا روزہ نہ رکھوں گا بلکہ اس روزہ کى پھر کبھى قضا رکھ لوں گا تب بھى رمضان ہى کا روزہ ہوا اور نفل کا نہيں ہوا۔
    • مسئلہ۔ پچھلے رمضان کا روزہ قضا ہو گيا تھا اور پورا سال گزر گيا اب تک اس کى قضا نہيں رکھى پھر جب رمضان کا مہينہ آگيا تو اسى قضا کى نيت سے روزہ رکھا تب بھى رمضان ہى کا روزہ ہوگا اور قضا کا روزہ نہ ہوگا قضا کا روزہ رمضان کے بعد رکھے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے نذر مانى تھى کہ اگر ميرا فلاں کام ہو جائے تو ميں اللہ تعالى کے ليے دو روزے يا ايک روزہ رکھوں گا پھر جب رمضان کا مہينہ آيا تو اس نے اسى نذر کے روزے رکھنےکى نيت کى رمضان کے روزے کى نيت نہيں کى تب بھى رمضان ہى کا روزہ ہوا نذر کا روزہ ادا نہيں ہوا نذر کے روزے رمضان کے بعد پھر رکھے سب کا خلاصہ يہ ہوا کہ رمضان کے مہينے ميں جب کسى روزے کى نيت کرے گا تو رمضان ہى کا روزہ ہوگا اور کوئى روزہ صحيح نہ ہوگا۔
    • مسئلہ۔ شعبان کى انتيسويں تاريخ کو اگر رمضان شريف کا چاند نکل آئے تو صبح کو روزہ رکھو اور اگر نہ نکلے يا آسمان پر ابر (بادل)ہو اور چاند نہ دکھائى دے تو صبح کو جب تک يہ شبہ رہے کہ رمضان شروع ہوا يا نہيں روزہ نہ رکھو بلکہ شعبان کے تيس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کرو۔
    • مسئلہ۔ انتيسويں تاريخ ابر کى وجہ سے رمضان شريف کا چاند نہيں دکھائى ديا تو صبح کو نفل روزہ نہ رکھو ہاں اگر ايسا اتفاق پڑا کہ ہميشہ پير اور جمعرات يا کسى اور مقرر دن کا روزہ رکھا کرتا تھا اور آج وہى دن ہے تو نفل کى نيت سے صبح کو روزہ رکھ لينا بہتر ہے پھر اگر کہيں سے چاند کى خبر آگئى تو اسى نفل روزے سے رمضان کا فرض ادا ہو گيا اب اس کى قضا نہ رکھے۔
    • مسئلہ۔ بدلى کى وجہ سے انتيس تاريخ کو رمضان کا چاند نہيں دکھائى ديا تو دوپہر سے ايک گھنٹہ پہلے تک کچھ نہ کھاؤ نہ پیو۔ اگر کہيں سے خبر آجائے تو اب روزہ کى نيت کر لو اور اگر خبر نہ آئے تو کھاؤ پيو۔
    • مسئلہ۔ انتيسويں تاريخ چاند نہيں ہوا تو يہ خيال نہ کرو کہ کل کا دن رمضان کا تو ہے نہيں، لاؤ ميرے ذمہ جو پار سال کا ايک روزہ قضا ہے اس کى قضا ہى رکھ لوں۔ يا کوئى نذر مانى تھى اس کا روزہ رکھ لوں اس دن قضا کا روزہ اور کفارہ کا روزہ اور نذر کا روزہ رکھنا بھى مکروہ ہے کوئى روزہ نہ رکھنا چاہيے اگر قضا يا نذر کا روزہ رکھ ليا پھر کہيں سے چاند کى خبر آگئى تو بھى رمضان ہى کا روزہ ادا ہوگا قضا اور نذر کا روزہ پھر سے رکھے اور اگر خبر نہيں آئى تو جس روزہ کى نيت کى تھى وہى ادا ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ روزے کى قضا ميں دن تاريخ مقرر کرکے قضا کى نيت کرنا کہ فلاں تاريخ کے روزے البتہ اگر تو رمضان کے کچھ روزے قضا ہو گئے اس ليے دونوں سال کے روزوں کى قضا رکھنا ہے تو سال کا مقرر کرنا ضرورى ہے يعنى اس طرح نيت کرے کہ فلاں سال کے روزوں کى قضا رکھتا ہوں۔
    • مسئلہ۔ قضا روزے ميں رات سے نيت کرنا ضرورى ہے اگر صبح ہو جانے کے بعد نيت کى تو قضا صحيح نہيں ہوئى بلکہ وہ روزہ نفل ہو گيا قضا کا روزہ پھر سے رکھے۔
    • مسئلہ۔ کفار ےکے روزے کا بھى يہى حکم ہے کہ رات سے نيت کرنا چاہيے۔ اگر صبح ہونے کے بعد نيت کى تو کفارہ کا روزہ صحيح نہيں ہوا۔
    • مسئلہ۔ رمضان کے مہينے ميں دن کو بيہوش ہو گیا اور ايک دن سے زيادہ بيہوش رہا تو بيہوش ہونے کے دن کے علاوہ جتنے دن بيہوش رہا اتنے دنوں کى قضا رکھے۔ جس دن بيہوش ہوا اس ايک دن کى قضا واجب نہيں ہے کيونکہ اس دن کا روزہ بوجہ نيت کے درست ہو گيا۔ ہاں اگر اس دن روزہ سے نہ تھا يا اس دن حلق ميں کوئى دوا ڈالى گئى اور وہ حلق سے اتر گئى تو اس دن کى قضا بھى واجب ہے۔
    • مسئلہ۔ اور اگر رات کو بيہوش ہوا ہو تب بھى جس رات کو بيہوش ہوا اس ايک دن کى قضا واجب نہيں ہے باقى اور جتنے دن بيہوش رہا سب کى قضا واجب ہے ہاں اگر اس رات کو صبح کا روزہ رکھنے کى نيت نہ تھى يا صبح کو کوئى دوا حلق ميں ڈالى گئى تو اس دن کا روزہ بھى قضا رکھے۔
    • مسئلہ۔ اور دوسرى نذر يہ ہے کہ دن تاريخ مقرر کر کے نذر نہيں مانى بس اتنا ہى کہا يا اللہ اگر ميرا فلاں کام ہو جائے تو ايک روزہ رکھوں گايا کسى کام کا نام نہيں ليا ويسے ہى کہہ ديا کہ پانچ روزے رکھوں گا ايسى نذر ميں رات سے نيت کرنا شرط ہے اگرصبح ہو جانے کے بعد نيت کى تو نذر کا روزہ نہيں ہوا بلکہ وہ روزہ نفل ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ نفل روزے کى نيت اگر يہ مقرر کر کے کرے کہ ميں نفل کا روزہ رکھتا ہوں تو بھى صحيح ہے اور اگر فقط اتنى نيت کرے کہ ميں روزہ رکھتا ہوں تب بھى صحيح ہے۔
    • مسئلہ۔ دوپہر سے ايک گھنٹہ پہلے تک نفل کى نيت کر لينا درست ہے تو اگر دس بجے دن تک مثلا ًروزہ رکھنے کا ارادہ نہ تھا ليکن ابھى تک کچھ کھايا پيا نہيں۔ پھر جى ميں آگيا اور روزہ رکھ ليا تو بھى درست ہے۔
  • قضا روزے کا بيان
    • مسئلہ۔ اور اگر رات کو بيہوش ہوا ہو تب بھى جس رات کو بيہوش ہوا اس ايک دن کى قضا واجب نہيں ہے باقى اور جتنے دن بيہوش رہا سب کى قضا واجب ہے ہاں اگر اس رات کو صبح کا روزہ رکھنے کى نيت نہ تھى يا صبح کو کوئى دوا حلق ميں ڈالى گئى تو اس دن کا روزہ بھى قضا رکھے۔
    • مسئلہ۔ اگر سارے رمضان بھر بيہوش رہے تب بھى قضا رکھنا چاہيے يہ نہ سمجھے کہ سب روزے معاف ہو گئے۔ البتہ اگر جنون ہو گيا اور پورے رمضان بھر ديوانہ رہا تو اس رمضان کے کسى روزے کى قضا واجب نہيں اور اگر رمضان شريف کے مہينے ميں کسى دن جنون جاتا رہا اور عقل ٹھکانے ہو گئى تو اب سے روزے رکھنے شروع کرے اور جتنے روزے جنون ميں گئے ان کى قضا بھى رکھے۔
    • مسئلہ۔ نذر دو طرح کى ہے ايک تو يہ کہ دن تاريخ مقرر کر کے نذر مانى کہ يا اللہ اگر آج فلاں کام ہو جائے تو کل ہى تيرا روزہ رکھوں گا يا يوں کہا کہ يا اللہ ميرى فلاں مراد پورى ہو جائے تو پرسوں جمعہ کے دن روزہ رکھوں گا ايسى نذر ميں اگر رات سے روزہ کى نيت کرے تو بھى درست ہے اور اگر رات سے نيت نہ کى تو دوپہر سے ايک گھنٹہ پہلے پہلے نيت کر لے يہ بھى درست ہے نذر ادا ہو جائے گى۔
    • مسئلہ۔ جمعہ کے دن روزہ رکھنے کى نذر مانى اور جب جمعہ آيا تو بس اتنى نيت کر لى کہ آج ميرا روزہ ہے يہ مقرر نہيں کيا کہ يہ نذر کا روزہ ہے يا کہ نفل کى نيت کر لى تب بھى نذر کا روزہ ادا ہوگيا ۔ البتہ اس جمعہ کو اگر قضا روزہ رکھ ليا اور نذر کا روزہ رکھنا ياد نہ رہا يا ياد تو تھا مگر قصدا قضا کا روزہ رکھا تو نذر کا روزہ ادا نہ ہوگا بلکہ قضا کا روزہ ہو جائے گا نذر کا روزہ پھر رکھے۔
  • نذر کے روزے کا بيان
    • مسئلہ۔ جب کوئى روزہ کى نذر مانے تو اس کا پور اکرنا واجب ہے اگر نہ رکھے گا تو گنہگار ہوگا۔
  • نفل روزے کا بيان
    • اگر کوئى شخص عيد کے دن روزہ رکھنے کى منت مانے تب بھى اس دن کا روزہ درست نہيں۔ اس کے بدلے کسى اور دن رکھ ليے۔
    • اگر کسى نے يہ منت مانى کہ ميں پورے سال کے روزے رکھوں گا سال ميں کسى دن کا روزہ بھى نہ چھوڑوں گا تب بھى يہ پانچ روزے نہ رکھے باقى سب رکھ لے پھر ان پانچ روزوں کى قضا رکھ لے۔
    • نفل کا روزہ نيت کرنے سے واجب ہو جاتا ہے۔ سو اگر صبح صادق سے پہلے يہ نيت کى کہ آج ميرا روزہ ہے پھر اس کے بعد توڑ ديا تو اب اس کى قضا رکھے۔
    • کسى نے رات کو ارادہ کيا کہ ميں کل روزہ رکھوں گا ليکن پھر صبح صادق ہونے سے پہلے ارادہ بدل گيا اور روزہ نہيں رکھا تو قضا واجب نہيں۔
    • بے شوہر کى اجازت کے نفل روزہ رکھنا درست نہيں اگر بے اس کى اجازت روزہ رکھ ليا تو اس کے تڑوانے سے توڑ دينا درست ہے پھر جب وہ کہے تب اس کى قضاء رکھے۔
    • کسى کے گھر مہمان آگئى يا کسى نے دعوت کى تھى اور کھانا نہ کھانے سے اس کا جى برا ہوگا دل شکنى ہوگى تو اس کى خاطر سے نفل روزہ توڑ دينا درست ہے اور مہمان کى خاطر سے گھر والى کو بھى توڑ دينا درست ہے۔
    • کسى نے عيد کے دن نفل روزہ رکھ ليا اور نيت کر لى تب بھى توڑ دے اور اس کى قضا رکھنا بھى واجب نہيں۔
    • محرم کى دسويں تاريخ روزہ رکھنا مستحب ہے حديث شريف ميں آيا ہے کہ جو کوئى يہ روزہ رکھے اس کے گذرے ہوئے ايک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہيں اور اس کے ساتھ نويں يا گيارہويں تاريخ کا روزہ رکھنا بھى مستحب ہے۔ صرف دسويں کو روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
    • اسى طرح بقر عيد کى نويں تاريخ روزہ رکھنے کا بھى بڑا ثواب ہے اس سے ايک سال کے اگلے اور ايک سال کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہيں اور اگر شروع چاند سے نويں تک برابر روزہ رکھے تو بہت ہى بہتر ہے۔
    • شب برات کى پندرہويں اور عيد کے چھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھى اور نفلوں سے زيادہ ثواب ہے۔
    • اگر ہر مہينے کى تيرہويں چودہويں پندرہويں تين دن روزہ رکھ ليا کرے تو گويا اس نے سال بھر برابر روزے رکھے۔ حضور صلى اللہ عليہ وسلم يہ تين روزے رکھا کرتے تھے ايسے ہى ہر دو شنبہ و جمعرات کے دن بھى روزہ رکھا کرتے تھے اگر کوئى ہمت کرے تو ان کا بھى بہت ثواب ہے۔
  • رویت ہلال
    • مسئلہ۔ اگر آسمان پر بادل ہے يا غبار ہے اس وجہ سے رمضان کا چاند نظر نہيں آيا ليکن ايک ديندار پرہيزگار سچے آدمى نے آکر گواہى دى کہ ميں نے رمضان کا چاند ديکھا ہے تو چاند کا ثبوت ہو گيا چاہے وہ مرد ہو يا عورت ہو۔
    • مسئلہ۔ اور اگر بدلى کى وجہ سے عيد کا چاند نہ دکھائى ديا تو ايک شخص کى گواہى کا اعتبار نہيں ہے چاہے جتنا بڑا معتبر آدمى ہو بلکہ جب دو معتبر اور پرہيزگار مرد ايک ديندار مرد اور دو ديندار عورتيں چاند کو ديکھنے کى گواہى ديں تب چاند کا ثبوت ہوگا۔ اور اگر چار عورتيں گواہى ديں تو بھى قبول نہيں۔
    • مسئلہ۔ جو آدمى دين کا پابند نہيں برابر گناہ کرتا رہتا ہے مثلا نماز نہيں پڑھتا يا روزہ نہيں رکھتا يا جھوٹ بولا کرتا ہے يا اور کوئى گناہ کرتا ہے شريعت کى پابندى نہيں کرتا تو شرع ميں اس کى بات کا کچھ اعتبار نہيں ہے۔ چاہے جتنى قسميں کھا کر بيان کرے بلکہ ايسے اگر دو تين آدمى ہوں ان کا بھى اعتبار نہيں۔
    • مسئلہ۔ يہ جو مشہور ہے کہ جس دن رجب کى چوتھى ہو اس دن رمضان کى پہلى ہوتى ہے شريعت ميں اس کا بھى کچھ اعتبار نہيں ہے اگر چاند نہ ہو تو روزہ نہ رکھنا چاہيے۔
    • مسئلہ۔ چاند ديکھ کر يہ کہنا کہ چاند بہت بڑا ہے کل کا معلوم ہوتا ہے برى بات ہے حديث ميں آيا ہے کہ يہ قيامت کى نشانى ہے جب قيامت قريب ہوگى تو لوگ ايسا کہا کريں گے۔ خلاصہ يہ ہے کہ چاند کے بڑے چھوٹے ہونے کا بھى کچھ اعتبار نہ کرو نہ ہندؤوں کى اس بات کا اعتبار کرو کہ آج دوئج ہے آج ضرور چاند ہے شريعت سے يہ سب باتيں واہيات ہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر آسمان بالکل صاف ہو تو دو چار آدميوں کے کہنے اور گواہى دينے سے بھى چاند ثابت نہ ہوگا چاہے رمضان کا چاند ہو چاہے عيد کا البتہ اگر اتنى کثرت سے لوگ اپنا چاند دیکھنا بيان کريں کہ دل گواہى دينے لگے کہ يہ سب کے سب بات بنا کر نہيں آئے ہيں اتنے لوگوں کا جھوٹا ہونا کسى طرح نہيں ہو سکتا تب چاند ثابت ہوگا۔
    • مسئلہ۔ شہر بھر ميں يہ خبر مشہور ہے کہ کل چاند ہوا بہت لوگوں نے ديکھا ليکن بہت ڈھونڈا تلاش کيا پھر بھى کوئى ايسا آدمى نہيں ملتا جس نے خود چاند ديکھا ہو تو ايسى خبر کا کچھ اعتبار نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ کسى نے رمضان شريف کا چاند اکيلے ديکھا سوائے اس کے شہر بھر ميں کسى نے نہيں ديکھا ليکن يہ شرع کى پابند نہيں ہے تو اس کى گواہى سے شہر والے تو روزہ نہ رکھيں ليکن خود يہ روزہ رکھے اور اگر اس اکيلى ديکھنے والى نے تيس روزے پورے کر ليے ليکن ابھى عيد کا چاند نہيں دکھائى ديا تو اکتيسواں روزہ بھى رکھے اور شہر والوں کے ساتھ عيد کرے۔
    • مسئلہ۔ اگر کسى نے عيد کا چاند اکيلے ديکھا اس ليے اس کى گواہى کا شريعت نے اعتبار نہيں کيا تو اس ديکھنے والے آدمى کو بھى عيد کرنا درست نہيں ہے صبح کو روزہ رکھے اور اپنے چاند ديکھنے کا اعتبار نہ کرے اور روزہ نہ توڑے۔
  • سحرى کھانےکا بيان
    • مسئلہ۔ سحرى کھانا سنت ہے اگر بھوک نہ ہو اور کھانا نہ کھائے تو کم سے کم دو تين چھوہارے ہى کھا لے۔ يا کوئى اور چيز تھوڑى بہت کھا لے کچھ نہ سہى تو تھوڑا سا پانى ہى پى لے۔
    • مسئلہ۔ اگر کسى نے سحرى نہ کھائى اور اٹھ کر ايک آدھ پان کھا ليا تو بھى سحرى کھانے کا ثواب مل گيا۔
    • مسئلہ۔ سحرى ميں جہاں تک ہو سکے دير کر کے کھانا بہتر ہے ليکن اتنى دير نہ کرے کہ صبح ہونے لگے اور روزہ ميں شبہ پڑ جائے۔
    • مسئلہ۔ اگر سحرى بڑى جلدى کھا لى مگر اس کے بعد پان تمباکو چائے پانى دير تک کھاتا پيتا رہا جب صبح ہونے ميں تھوڑى دير رہ گئى تب کلى کر ڈالى تب بھى دير کر کے کھانے کا ثواب مل گيا اور اس کا بھى وہى حکم ہے جو دير کر کے کھانے کا حکم ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر رات کو سحرى کھانے کے ليے آنکھ نہ کھلى سب کے سب سو گئے تو بے سحرى کھائے صبح کا روزہ رکھو سحرى چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑ دينا بڑى کم ہمتى کى بات اور بڑا گناہ ہے۔
    • مسئلہ۔ جب تک صبح نہ ہو اور فجر کا وقت نہ آئے جس کا بيان نمازوں کے وقتوں ميں گزر چکا ہے تب تک سحرى کھانا درست ہے اس کے بعد درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ کسى کى آنکھ دير ميں کھلى اور يہ خيال ہوا کہ ابھى رات باقى ہے اس گمان پر سحرى کھالى پھر معلوم ہوا کہ صبح ہو جانے کے بعد سحرى کھائى تھى تو روزہ نہيں ہوا قضا رکھے اور کفارہ واجب نہيں ليکن پھر بھى کچھ کھائے پئے نہيں روزہ داروں کى طرح رہے۔ اسى طرح اگر سورج ڈوبنے کے گمان سے روزہ کھول ليا پھر سورج نکل آيا تو روزہ جاتا رہا اس کی قضاکرے کفارہ واجب نہيں اور جب تک سورج نہ ڈوب جائے کچھ کھانا پينا درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر اتنى دير ہو گئى کہ صبح ہو جانے کا شبہ پڑ گيا تو اب کچھ کھانا مکروہ ہے اور اگر ايسے وقت کچھ کھا ليا يا پانى پى ليا تو برا کيا اور گناہ ہوا۔ پھر اگر معلوم ہو گيا کہ اس وقت صبح ہو گئى تھى تو اس روزہ کى قضا رکھے اور اگر کچھ نہ معلوم ہو شبہ ہى شبہ رہ جائے تو قضا رکھنا واجب نہيں ہے ليکن احتياط کى بات يہ ہے کہ اس کى قضا رکھ لے۔
  • افطار کرنے کا بيان
    • مسئلہ۔ مستحب يہ ہے کہ جب سورج يقينا ڈوب جائے تو فورا ًروزہ کھول ڈالے دير کر کے روزہ کھولنا مکروہ ہے۔
    • مسئلہ۔ بدلى کے دن ذرا دير کر کے روزہ کھولو جب خوب يقين ہو جائے کہ سورج ڈوب گيا ہوگا تب افطار کرو اور صرف گھڑى گھڑياں وغيرہ پر کچھ اعتماد نہ کرو جب تک کہ تمہارا دل گواہى نہ ديدے کيونکہ گھڑى شايد کچھ غلط ہوگئى ہو بلکہ اگر کوئى اذان بھى کہہ دے ليکن ابھى وقت آنے ميں کچھ شبہ ہے تب بھى روزہ کھولنا درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ چھوہارے سے روزہ کھولنا بہتر ہے اور اور کوئى ميٹھى چيز ہو اس سے کھولے وہ بھى نہ ہو تو پانى سے افطار کرے بعضى عورتيں اور بعضے مرد نمک کى کنکرى سے افطار کرتے ہيں اور اس ميں ثواب سمجھتے ہيں يہ غلط عقيدہ ہے۔
    • مسئلہ۔ جب تک سورج کے ڈوبنے ميں شبہ رہے تب تک افطار کرنا جائز نہيں۔
  • جن وجہوں سے روزہ نہ رکھنا یا رکھ کر توڑ دينا جائز ہے
    • مسئلہ۔ اگر ايسى بيمارى ہے کہ روزہ نقصان کرتا ہے اور يہ ڈر ہے کہ اگر روزہ رکھے گا تو بيمارى بڑھ جائے گی يا دير ميں اچھا ہوگا يا جان جاتى رہے گى تو روزہ نہ رکھے جب اچھا ہو جائے گا تو اس کى قضا رکھ لے ليکن فقط اپنے دل سے ايسا خيال کر لينے سے روزہ چھوڑ دينا درست نہيں ہے بلکہ جب کوئى مسلمان ديندار طبيب کہہ دے کہ روزہ تم کو نقصان کرے گا تب چھوڑنا چاہيے۔
    • مسئلہ۔ اگر حکيم يا ڈاکٹر کافر ہے يا شرع کا پابند نہيں ہے تو اس کى بات کا اعتبار نہيں ہے فقط اس کے کہنے سے روزہ نہ چھوڑے۔
    • مسئلہ۔ اگر حکيم نے کچھ کہا نہيں ليکن خود اپنا تجربہ ہے اور کچھ ايسى نشانياں معلوم ہوئيں جن کى وجہ سے دل گواہى ديتا ہے کہ روزہ نقصان کرے گا تب بھى روزہ نہ رکھے اور اگر خود تجربہ کار نہ ہو اور اس بيمارى کا کچھ حال معلوم نہ ہو تو فقط خيال کا اعتبار نہيں۔ اگر ديندار حکيم کے بغير بتائے اور بے تجربے کے اپنا خيال ہى خيال پر رمضان کا روزہ توڑے گا تو کفارہ دينا پڑے گا۔ اور اگر روزہ نہ رکھے گا تو گنہگار ہوگا۔
    • مسئلہ۔ اگر بيمارى سے اچھا ہو گیا ليکن ابھى ضعف باقى ہے اور يہ غالب گمان ہے کہ اگر روزہ رکھا تو پھر بيمار پڑ جائے گا تب بھى روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر کوئى مسافرت ميں ہو تو اس کو بھى درست ہے کہ روزہ نہ رکھے پھر کبھى اس کى قضا رکھ لے اور مسافرت کے معنے وہى ہيں جس کا نماز کے بيان ميں ذکر ہو چکا ہے يعنى تين منزل جانے کا قصد ہو۔
    • مسئلہ۔ مسافرت ميں اگر روزے سے کوئى تکليف نہ ہو جيسے ريل پر سوار ہے اور يہ خيال ہے کہ شام تک گھر پہنچ جاؤں گا يا اپنے ساتھ سب راحت و آرام کا سامان موجود ہے تو ايسے وقت سفر ميں بھى روزہ رکھ لينا بہتر ہے۔ اور اگر روزہ نہ رکھے تب بھى کوئى گناہ نہيں۔ ہاں رمضان شريف کے روزے کى جو فضيلت ہے اس سے محروم رہے گا۔ اور اگر راستہ ميں روزہ کى وجہ سے تکليف اور پريشانى ہو تو ايسے وقت روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر بيمارى سے اچھا نہيں ہوااس ميں مر گیا يا ابھى گھر نہيں پہنچا مسافرت ہى ميں مر گیا تو جتنے روزے بيمار يا سفر کى وجہ سے چھوٹے ہيں آخرت ميں ان کا مواخذہ نہ ہوگا کيونکہ قضا رکھنے کى مہلت ابھى اس کو نہيں ملى تھى
    • مسئلہ۔ اگر بيمارى ميں دس روزے گئے تھے پھر پانچ دن اچھا رہا ليکن قضا روزے نہيں رکھے تو پانچ روزے معاف ہيں فقط پانچ روزوں کى قضا نہ رکھنے پر پکڑا جائے گا۔ اور اگر پورے دس دن اچھا رہا تو پورے دسوں دن کى پکڑ ہو گى اس ليے ضرورى ہے کہ جتنے روزوں کا مواخذہ اس پر ہونے والا ہے اتنے دنوں کا فديہ دينے کے ليے کہہ مرے جبکہ اس کے پاس مال ہو اور فديہ کا بيان آگے آتا ہے۔
    • مسئلہ۔ اسى طرح اگر مسافرت ميں روزے چھوڑ ديئے تھے پھر گھر پہنچنے کے بعد مر گیا تو جتنے دن گھر ميں رہا ہے فقط اتنے دن کى پکڑ ہوگی اس کو بھى چاہيے کہ فديہ کى وصيت کر جائے۔ اگر روزے گھر رہنے کى مدت سے زيادہ چھوٹے ہوں تو ان کا مواخذ نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر راستہ ميں پندرہ دن رہنے کى نيت سے ٹھہر گیا تو اب روزہ چھوڑنا درست نہيں کيونکہ شرع سے اب وہ مسافر نہيں رہا۔ البتہ اگر پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کى نيت ہو تو روزہ رکھنا درست ہے۔
    • مسئلہ۔ حاملہ عورت اور دودھ پلانے والى عورت کو جب اپنى جان کا يا بچہ کى جان کا کچھ ڈر ہو تو روزہ نہ رکھے پھر کبھى قضا رکھ لے ليکن اگر اپنا شوہر مالدار ہے کہ کوئى انا رکھ کر دودھ پلوا سکتا ہے تو دودھ پلانے کى وجہ سے ماں کو روزہ چھوڑنا درست نہيں ہے۔ البتہ اگر وہ ايسا بچہ ہے کہ سوائے اپنى ماں کے کسى اور کا دودھ نہيں پيتا ہے تو ايسے وقت ماں کو روزہ نہ رکھنا درست ہے۔
    • مسئلہ۔ کسى انا نے دودھ پلانے کى نوکرى کى پھر رمضان آگيا اور روزہ سے بچہ کى جان کا ڈر ہے تو انا کو بھى روزا نہ رکھنا درست ہے۔
    • مسئلہ۔ اسى طرح اگر کوئى دن کو مسلمان ہوا یا دن کو جوان ہوا تو اب دن بھر کچھ کھانا پينا درست نہيں ہے اور اگر کچھ کھا ليا تو اس روزہ کى قضا رکھنا بھى نئے مسلمان اور نئے جوان کے ذمہ واجب نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ مسافرت ميں روزہ نہ رکھنے کا ارادہ تھا ليکن دوپہر سے ايک گھنٹہ پہلے ہى اپنے گھر پہنچ گیا يا ايسے وقت ميں پندرہ دن رہنے کى نيت سے کہيں رہ پڑا اور اب تک کچھ کھايا پيا نہيں ہے تو اب روزہ کى نيت کر لے۔
    • مسئلہ۔ عورت کو حيض آگيا يا بچہ پيدا ہوا اور نفاس ہو گيا تو حيض اور نفاس رہنے تک روزہ رکھنا درست نہيں۔
    • مسئلہ۔ عورت رات کو پاک ہو گئى تو اب صبح کو روزہ نہ چھوڑے۔ اگر رات کو نہ نہائى ہو تب بھى روزہ رکھ لے اور صبح کو نہا لے۔ اور اگر صبح ہونے کے بعد پاک ہوئى تو اب پاک ہونے کے بعد روزہ کى نيت کرنا درست نہيں۔ ليکن کچھ کھانا پينا بھى درست نہيں ہے اب دن بھر روزہ داروں کى طرح رہنا چاہيے۔
  • جن چيزوں سے روزہ نہيں ٹوٹتا اور جن سے ٹوٹ جاتا ہے
    • مسئلہ۔اگر روزہ دار بھول کر کچھ کھا لے يا پى لے يا بھولے سے ازدراجی تعلق قائم ہو جائے تو اس کا روزہ نہيں گيا۔ اگر بھول کر پيٹ بھر بھى کھا پى لے تب بھى روزہ نہيں ٹوٹتا۔ اگر بھول کر کئى دفعہ کھا پى ليا تب بھى روزہ نہيں گيا۔
    • مسئلہ۔ايک شخص کو بھول کر کچھ کھاتے پيتے ديکھا تو اگر وہ اس قدر طاقت دار ہے کہ روزہ سے زيادہ تکليف نہيں ہوتى تو روزہ ياد دلا دينا واجب ہے اور اگر کوئى ناطاقت ہو کہ روزہ سے تکليف ہوتى ہے تو اس کو ياد نہ دلائے کھانے دے۔
    • مسئلہ۔ دن کو سرمہ لگانا تيل لگانا خوشبو سونگھنا درست ہے اس سے روزہ ميں کچھ نقصان نہيں آتا چاہے جس وقت ہو۔ بلکہ اگر سرمہ لگانے کے بعد تھوک ميں یا رینٹھ ميں سرمہ کا رنگ دکھائى دے تو بھى روزہ نہيں گيا نہ مکروہ ہوا۔
    • مسئلہ۔ حلق کے اندر مکھى چلى گئى يا آپ ہى آپ دھواں چلا گيا يا گردوغبار چلا گيا تو روزہ نہيں گيا البتہ اگر قصدا ايسا کيا تو روزہ جاتا رہا۔
    • مسئلہ۔ لوبان وغيرہ کوئى دھونى سلگائى پھر اس کو اپنے پاس رکھ کر سونگھا تو روزہ جاتا رہا۔ اسى طرح حقہ پينے سے بھى روزہ جاتا رہتا ہے۔ البتہ اس دھوئيں کے سوا عطر کيوڑہ گلاب پھول وغيرہ اور خوشبو سونگھنا جس ميں دھواں نہ ہو درست ہے۔
    • مسئلہ۔ دانتوں ميں گوشت کا ريشہ اٹکا ہوا تھا يا ڈلى کا دھرا وغيرہ کوئى اور چيز تھى اس کو خلال سے نکال کر کھا گیا ليکن منہ سے باہر نہيں نکالا آپ ہى آپ حلق ميں چلى گئى تو ديکھو اگر چنے سے کم ہے تب تو روزہ نہيں گيا اور اگر چنے کے برابر يا اس سے زيادہ ہے تو جاتا رہا البتہ اگر منہ سے باہر نکال ليا تھا پھر اس کے بعد نگل گیاتو ہر حال ميں روزہ ٹوٹ گيا چاہے وہ چيز چنے کى برابر ہو يا اس سے بھى کم ہو دونوں کا ايک حکم ہے۔
    • مسئلہ۔ تھوک نگلنے سے روزہ نہيں جاتا چاہے جتنا ہو۔
    • مسئلہ۔ اگر پان کھا کر خوب کلى غرغر کر کے منہ صاف کر ليا ليکن تھوک کى سرخى نہيں گئى تو اس کا کچھ حرج نہيں روزہ ہو گيا
    • مسئلہ۔ کسى نے بھولے سے کچھ کھا ليا اور يوں سمجھا کہ ميرا روزہ ٹوٹ گيا اس وجہ سے پھر قصدا کچھ کھا ليا تو اب روزہ جاتا رہا فقط قضا واجب ہے کفارہ واجب نہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر کسى کو قے ہوئى اور وہ سمجھا کہ ميرا روزہ ٹوٹ گيا اس گمان پر پھر قصدا کھا ليا اور روزہ توڑ ديا تو بھى قضا واجب ہے کفارہ واجب نہيں۔
    • مسئلہ۔ اگر سرمہ لگايا يا فصد لى یعنی پچھنا لگوائے يا تيل ڈالا پھر سمجھا کہ ميرا روزہ ٹوٹ گيا اور پھر قصدا کھا ليا تو قضا اور کفارہ دونوں واجب ہيں
    • مسئلہ۔ رمضان کے مہينے ميں اگر کسى کا روزہ اتفاقا ٹوٹ گيا تو روزہ ٹوٹنے کے بعد بھى دن ميں کچھ کھانا پينا درست نہيں ہے سارے دن روزہ داروں کى طرح رہنا واجب ہے۔ مسئلہ۔ کسى نے رمضان ميں روزہ کى نيت ہى نہيں کى اس ليے کھاتى پيتى رہى اس پر کفارہ واجب نہيں۔ کفارہ جب ہے کہ نيت کر کے توڑ دے۔
    • مسئلہ۔ دن کو سو گیا ايسا خواب ديکھا جس سے نہانے کى ضرورت ہو گئى تو روزہ نہيں ٹوٹا۔
    • مسئلہ۔ مرد اور عورت کا ساتھ ليٹنا ہاتھ لگانا پيار کرنا يہ سب درست ہے ليکن اگر جوانى کا اتنا جوش ہو کہ ان باتوں سے صحبت کرنے کا ڈر ہو تو ايسا نہ کرنا چاہيے مکروہ ہے۔
    • مسئلہ۔ رات کو نہانے کى ضرورت ہوئى مگر غسل نہيں کيا دن کو نہائے تب بھى روزہ ہو گيا بلکہ اگر دن بھر نہ نہائے تب بھى روزہ نہيں جاتا البتہ اس کا گناہ الگ ہوگا۔
    • مسئلہ۔ اگر عورت سے ہمبسترى ہوئى تب بھى روزہ جاتا رہا اس کى قضا بھى رکھے اور کفارہ بھى ديدے۔ جب مرد کے پيشاب کے مقام کى سپارى عورت کےاندر چلى گئى تو روزہ ٹوٹ گيا اور قضا و کفارہ واجب ہو گئے چاہے منى نکلے يہ نہ نکلے۔
    • مسئلہ۔ اگر مرد نے عورت کےپاخانہ کى جگہ اپنا عضو کر ديا اور سپارى اندر چلى گئى تب بھى عورت مرد دونوں کا روزہ جاتا رہا قضا و کفارہ دونوں واجب ہيں۔
    • مسئلہ۔ ۔ روزہ ميں پيشاب کى جگہ کوئى دوا رکھنا يا تيل وغيرہ کوئى چيز ڈالنا درست نہيں اگر کسى نے دوا رکھ لى تو روزہ جاتا رہا قضا واجب ہے کفارہ واجب نہيں۔
    • مسئلہ۔ کسى ضرورت سے دائى نے پيشاب کى جگہ انگلى ڈالى يا خود سے اپنى انگلى ڈالى پھر سارى انگلى ياتھوڑى سى انگلى نکالنے کے بعد پھر کر دى تو روزہ جاتا رہا ليکن کفارہ واجب نہيں اور اگر نکالنے کے بعد پھر نہيں کی تو روزہ نہيں گيا ہاں اگر پہلے ہى سے پانى وغيرہ کسى چيز ميں انگلى بھيگى ہوئى ہو تو اول ہى دفعہ کرنے سے روزہ جاتا رہے گا۔
    • مسئلہ۔ کوئى عورت غافل سو رہى تھى يا بيہوش پڑى تھى اس سے کسى نے صحبت کى تو روزہ جاتا رہا فقط قضا واجب ہے کفارہ واجب نہيں اور مرد پر کفارہ بھى واجب ہے۔
  • تراويح کا بيان
    • فضيلت
      • حديث ميں ہے کہ بے شک اللہ تعالى نے فرض کیا ہے تم پر رمضان کا روزہ اور سنت کيا ہے ا س کى رات کا قيام يعنى تراويح پڑھنا پس جو شخص اس کا روزہ رکھے اور اس کى رات ميں قيام کرے يعنى تراويح پڑھے ايمان کے اعتبار سے يعنى روزے اور تراويح کو دين کا حکم سمجھے اور ثواب طلب کرنے کى نيت سے اور يقين ثواب کا سمجھ کر۔ تو ہوگا وہ يعنى روزہ اور تراويح کفارہ يعنى مٹانے والا اس کے ليے جو گذرا يعنى جو اس سے صغيرہ گناہ ہوئے وہ سب معاف ہو جائيں گے۔ پس اس مہينہ ميں بہت نيکياں کرنى چاہئيں۔ ايک فرض ادا کرنے سے ستر فرض کا اور نفل کام کرنے سے فرض کام کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔
    • مسائل
      • مسئلہ نماز تراويح ميں چار رکعت کے بعد اتنى دير تک بيٹھنا جتنى دير ميں چار رکعتيں پڑھى گئى ہيں مستحب ہے۔ ہاں اگر اتنى دير تک بيٹھنے ميں لوگوں کو تکليف ہو اور جماعت کے کم ہو جانے کا خوف ہو تو اس سے کم بيٹھے اس بيٹھنے ميں اختيار ہے چاہے تنہا نوافل پڑھے چاہے تسبيح وغيرہ پڑھے چاہے چپ بيٹھا رہے۔
      • مسئلہ اگر کوئى شخص عشاء کى نماز کے بعد تراويح پڑھ چکا ہو اور بعد پڑھ چکنے کے معلوم ہو کہ عشاء کى نماز ميں کوئى بات ايسى ہو گئى تھى جس کى وجہ سے عشاء کى نماز نہيں ہوئى تو اس کو عشاء کى نماز کے اعادہ کے بعد تراويح کا بھى اعادہ کرنا چاہيے۔
      • مسئلہ اگر عشاء کى نماز جماعت سے نہ پڑھى گئى ہو تو تراويح بھى جماعت سے نہ پڑھى جائے اس ليے کہ تراويح عشاء کے تابع ہے ہاں جو لوگ جماعت سے عشاء کى نماز پڑھ کر تراويح جماعت سے پڑھ رہے ہوں ان کے ساتھ شريک ہو کر اس شخص کو بھى تراويح کا جماعت سے پڑھنا درست ہو جائے گا جس نے عشاء کى نماز بغير جماعت کے پڑھى ہے اس ليے کہ وہ ان لوگوں کا تابع سمجھا جائے گا جن کى جماعت درست ہے۔
      • مسئلہ اگر کوئى شخص مسجد ميں ايسے وقت پر پہنچے کہ عشاء کى نماز ہو چکى ہو تو اسے چاہيے کہ پہلے عشاء کى نماز پڑھ لے پھر تراويح ميں شريک ہو اور اگر اس درميان ميں تراويح کى کچھ رکعتيں ہو جائيں تو ان کو بعد وتر پڑھنے کے پڑھے اور يہ شخص وتر جماعت سے پڑھے۔ مسئلہ مہينے ميں ايک مرتبہ قرآن مجيد کا ترتيب وار ترويح ميں پڑھنا سنت مؤکدہ ہے لوگوں کى کاہلى يا سستى سے اس کو ترک نہ کرنا چاہيے ہاں اگر يہ انديشہ ہو کہ اگر پورا قرآن مجيد پڑھا جائے گا تو لوگ نماز ميں نہ آئيں گے اور جماعت ٹوٹ جائے گى يا ان کو بہت ناگوار ہوگا تو بہتر ہے کہ جس قدر لوگوں کو گراں نہ گزرے اسى قدر پڑھا جائے۔ الم ترکيف سے اخير تک کى دس سورتيں پڑھ دى جائيں ہر رکعت ميں ايک سورت پھر جب دس رکعتيں ہو جائيں تو انہيں سورتوں کو دوبارہ پڑھ دے يا اور جو سورتيں چاہے پڑھے۔
      • مسئلہ ايک قرآن مجيد سے زيادہ نہ پڑھے تاوقتيکہ لوگوں کا شوق نہ معلوم ہو جائے۔
      • مسئلہ ايک رات ميں پورے قرآن مجيد کا پڑھنا جائز ہے بشرطيکہ لوگ نہايت شوقين ہوں کہ ان کو گراں نہ گزرے اگر گراں گزرے اور ناگوار ہو تو مکروہ ہے۔
      • مسئلہ تراويح ميں کسى سورت کے شروع ميں ايک مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحيم بلند آواز سے پڑھ دينا چاہيے اس ليے کہ بسم اللہ بھى قرآن مجيد کى ايک آيت ہے اگرچہ کسى سورت کا جزو نہيں پس اگر بسم اللہ بالکل نہ پڑھى جائے گى تو قرآن مجيد کے پورے ہونے ميں ايک آيت کى کمى رہ جائے گى۔ اور اگر آہستہ آواز سے پڑھى جائے گى تو مقتديوں کا قرآن مجيد پورا نہ ہوگا۔
      • مسئلہ تراويح کا رمضان کے پورے مہينے ميں پڑھنا سنت ہے اگرچہ قرآن مجيد قبل مہينہ تمام ہونے کے ختم ہو جائے۔ مثلا پندرہ روز ميں پورا قرآن شريف پڑھ ديا جائے تو باقى زمانہ ميں بھى تراويح کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
      • مسئلہ صحيح يہ ہے کہ قل ہو اللہ کا تراويح ميں تين مرتبہ پڑھنا جيسا کہ آجکل دستور ہے مکروہ ہے۔
  • اعتکاف کے مسائل
    • شرائط
      • اعتکاف کے لئے تين چيزيں ضرورى ہيں مسجد جماعت ميں بہ نيت اعتکاف ٹھہرنا ۔ پس بے قصد و ارادہ ٹھہر جانے کو اعتکاف نہيں کہتے چونکہ نيت کے صحيح ہونے کے لئے نيت کرنے والے کا مسلمان اور عاقل ہونا شرط ہے۔ لہذا عقل اور اسلام کا شرط ہونا بھى نيت کے ضمن ميں آ گيا حيض و نفاس سے خالى اور پاک اور جنابت سے پاک ہونا
    • قسمیں

        مسئلہ اعتکاف کى تين قسميں ہيں

      • واجب
        • واجب ہوتا ہے اگر نذر کی جائے نذر خواہ غير معلق ہو جيسے کوئى شخص بے کسى شرط کے اعتکاف کى نذر کرے يا معلق جيسے کوئى شخص يہ شرط کرے کہ اگر ميرا فلاں کام ہو جائے گا تو ميں اعتکاف کروں گا۔
          مسئلہ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے۔ جب کوئى شخص اعتکاف کرے گا تو اسکو روزہ رکھنا بھى ضرورى ہوگا بلکہ اگر يہ بھى نيت کرے کہ ميں روزہ نہ رکھوں گا تب بھى اس کو روزہ رکھنا لازم ہوگا۔ اسى وجہ سے اگر کوئى شخص رات کے اعتکاف کى نيت کرے تو وہ لغو سمجھى جاويگى ۔ کيونکہ رات روزے کا محل نہيں ۔ ہاں اگر رات دن دونوں کى نيت کرے يا صرف کئى دنوں کى تو پھر رات ضمنا داخل ہو جائے گى اور رات کو بھى اعتکاف کرنا ضرورى ہوگا۔ اور اگر صرف ايک ہى دن کے اعتکاف کى نذر کرے تو پھر رات ضمنا بھى داخل نہ ہوگى روزے کا خاص اعتکاف کيلئے رکھنا ضرورى نہيں خواہ کسى غرض سے روزہ رکھا جائے اعتکاف کے لئے کافى ہے مثلا کوئى شخص رمضان ميں اعتکاف کى نذر کرے تو رمضان کا روزہ اس اعتکاف کيلئے بھى کافى ہے۔ ہاں اس روزہ کا واجب ہونا ضرورى ہے نفل روزے اسکے لئے کافى نہيں ۔ مثلا کوئى شخص نفل روزہ رکھے اور بعد اس کے اسى دن اعتکاف کى نذر کرے تو صحيح نہيں اگر کوئى شخص پورے رمضان کے اعتکاف کى نذر کرے اور اتفاق سے رمضان ميں نہ کر سکے تو کسى اور مہينے ميں اس کے بدلے کر لينے سے اس کى نذر پورى ہو جائے گى مگر على الاتصال روزے رکھنا اور ان ميں اعتکاف کرنا ضرورى ہوگا
      • سنت موکدہ
        • سنت مؤکدہ (علی الکفایہ) ہے رمضان کے اخير عشرے ميں نبى علیہ السلام سے بالالتزام اعتکاف کرنا احاديث صحيحہ ميں منقول ہے مگر يہ سنت مؤکدہ بعض کے کر لينے سے سب کے ذمے سے اتر جائيگى
      • مستحب
        • عشرہ رمضان کے اخير عشرے کے سوا اور کسى زمانے ميں خواہ وہ رمضان کا پہلا دوسرا عشرہ ہو يا اور کوئى مہينہ اعتکاف بنیت ثواب کرنا مستحب ہے۔
    • مسائل
      • مسئلہ سب سے افضل وہ اعتکاف ہے جو مسجد حرام يعنى کعبہ مکرمہ ميں کيا جائے اس کے بعد مسجد نبوى کا ۔ اسکے بعد مسجد بيت المقدس کا ۔ اسکے بعد اس جامع مسجد کا جسميں جماعت کا انتظام ہو۔ اگر جامع مسجد ميں جماعت کا انتظام نہ ہو تو محلے کى مسجد اسکے بعد وہ مسجد جسميں زيادہ جماعت ہوتى ہو۔
      • مسئلہ اعتکاف مسنون ميں تو روزہ ہوتا ہى ہے اس لئے اس کے واسطے شرط کرنے کى ضرورت نہيں
      • مسئلہ اعتکاف مستحب ميں بھى احتياط يہ ہے کہ روزہ شرط ہے اور معتمد يہ ہے کہ شرط نہيں۔
      • مسئلہ اعتکاف واجب کم سے کم ايک دن ہو سکتا ہے اور زيادہ جس قدر نيت کرے اور اعتکاف مسنون ايک عشرہ اس لئے کہ اعتکاف مسنون رمضان کے اخير عشرے ميں ہوتا ہے اور اعتکاف مستحب کے لئے کوئى مقدار مقرر نہيں ايک منٹ بلکہ اس سے بھى کم ہو سکتا ہے۔
      • مسئلہ حالت اعتکاف ميں دو قسم کے افعال حرام ہيں يعنى ان کے ارتکاب سے اگر اعتکاف واجب يا مسنون ہے تو فاسد ہو جائے گا اور اسکى قضا کرنا پڑے گى اور اگر اعتکاف مستحب ہے تو ختم ہو جائے گا ۔ اس لئے کہ اعتکاف مستحب کے لئے کوئى مدت مقرر نہيں پس اسکى قضا بھى نہيں۔ پہلى قسم اعتکاف کى جگہ سے بے ضرورت طبعى نکلنا(اسميں داخل ہے جبکہ کوئى شخص کھانا لانے والا نہ ہو۔)اور شرعى ضرورت (جيسے جمعہ کى نماز کیلئے نکلنا ۔)
      • مسئلہ جس ضرورت کے لئے اپنے اعتکاف کى مسجد سے باہر جائے بعد اسکے فارغ ہونے کے وہاں قيام نہ کرے اور جہاں تک ممکن ہو ايسى جگہ اپنى ضرورت رفع کرے جو اس مسجد سے زيادہ قريب ہو۔ مثلا پائخانے کيلئے اگر جائے اور اسکا گھر دور ہو اور اس کے کسى دوست وغيرہ کا گھر قریب ہو تو وہيں جائے ۔ ہاں اگر اس کى طبيعت اپنے گھر مانوس ہو اور دوسرى جگہ جانے سے اسکى ضرورت رفع نہ ہو تو پھر جائز ہے۔ اگر جمعے کى نماز کے لئے کسى مسجد ميں جائے اور بعد نماز کے وہيں ٹھہر جائے اور وہيں اعتکاف کو پورا کرے تب بھى جائز ہے مگر مکروہ ہے۔
      • مسئلہ بھولے سے بھى اپنى اعتکاف کى مسجد کو ايک منٹ بلکہ اس سے بھى کم چھوڑ دينا جائز نہيں
      • مسئلہ جو عذر کثير الوقوع نہ ہوں ان کے لئے اپنے معتکف کو جائے اعتکاف چھوڑ دينا منافى اعتکاف ہے مثلا کسى مريض کى عيادت کے لئے يا کسى ڈوبتے ہوئے کو بچانے کے لئے يا آگ بجھانے کو يا مسجد کے گرنے کے خوف سے گو ان صورتوں ميں معتکف سے نکل جانا گناہ نہيں بلکہ جان بچانے کى غرض سے ضرورى ہے مگر اعتکاف قائم نہ رہے گا۔ اگر کسى شرعى يا طبعى ضرورت کے لئے نکلے اور اس درميان ميں خواہ ضرورت رفع ہونيکے پہلے يا اس کے بعد کسى مريض کى عيادت کرے يا نماز جنازے ميں شريک ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہيں۔
      • مسئلہ جمعہ کى نماز کيلئے ايسے وقت جاوے کہ تحية المسجد اور سنت جمعہ وہاں پڑھ سکے اور بعد نماز کے بھى سنت پڑہنے کے لئے ٹھہرنا جائز ہے اس مقدار وقت کا اندازہ اس شخص کى رائے پر چھوڑ ديا گيا ہے۔ اگر اندازہ غلط ہو جائے يعنى کچھ پہلے سے پہنچ جائے تو کچھ مضائقہ نہيں
      • مسئلہ اسى طرح اگر کسى شرعى يا طبعى ضرورت سے نکلے اور راستہ ميں کوئى قرض خواہ روک لے يا بيمار ہو جائے اور پھر معتکف تک پہنچنے ميں کچھ دير ہو جائے تب بھى اعتکاف قائم نہ رہے گا۔ دوسرى قسم ان افعال کى جو اعتکاف ميں ناجائز ہيں جماع وغيرہ کرنا خواہ عمدا کيا جائے يا سہوا ۔ اعتکاف کا خيال نہ رہنے کے سبب سے مسجد ميں کيا جائے يا مسجد سے باہر ۔ ہر حال ميں اعتکاف باطل ہو جائے گا۔ جو افعال کہ تابع جماع کے ہيں جيسے بوسہ لينا يا معانقہ کرنا وہ بھى حالت اعتکاف ميں ناجائز ہيں مگر ان سے اعتکاف باطل نہيں ہوتا تاوقتيکہ منى نہ خارج ہو۔ ہاں اگر ان افعال سے منى کا خروج ہو جائے تو پھر اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ البتہ صرف خيال اور فکر سے اگر منى خارج ہو جائے تو اعتکاف فاسد نہ ہوگا۔
      • مسئلہ حالت اعتکاف ميں بے ضرورت کسى دنياوى کام ميں مشغول ہونا مکروہ تحريمى ہے مثلا بے ضرورت خريدو فروخت يا تجارت کا کوئى کام کرنا۔ ہاں جو کام نہايت ضرورى ہو مثلا گھر ميں کھانے کو نہ ہو اور اس کے سوا کوئى دوسرا شخص قابل اطمينان خريدنے والا نہ ہو ايسى حالت ميں خريد و فروخت کرنا جائز ہے مگر مبيع کا مسجد ميں لانا کسى حال ميں جائز نہيں بشرطيکہ اس کے مسجد ميں لانے سے مسجد کے خراب ہو جانے يا جگہ رک جانے کا خوف ہو۔ ہاں اگر مسجد کے خراب ہونے يا جگہ رک جانے کا خوف نہ ہو تو بعض کے نزديک جائز ہے۔ مسئلہ حالت اعتکاف ميں بالکل چپ بيٹھنا بھى مکروہ تحريمى ہے ہاں برى باتيں زبان سے نہ نکالے جھوٹ نہ بولے غيبت نہ کرے بلکہ قرآن مجيد کى تلاوت يا کسى دينى علم کے پڑہنے پڑھانے يا کسى اور عبادت ميں اپنے اوقات صرف کرے خلاصہ يہ کہ چپ بیٹھنا کوئى عبادت نہيں۔