Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

مضاربت

  • مضاربت يعنى ايک کا روپيہ ايک کا کام

      اگر کوئی تجارت کے لئے کسی کو کوئی رقم دے کہ اس سے تجارت کرو جو کچھ نفع ہوگا وہ ہم تم بانٹ ليں گے يہ جائز ہے اس کو مضاربت کہتے ہيں ليکن اس کى چند شرطيں ہيں اگر ان شرطوں کے موافق ہو تو صحيح ہے نہيں تو ناجائز اور فاسد ہ ہوگا۔

    • ايک تو جتنا روپيہ دينا ہو وہ بتلا نا چاہئیےاور اس کو تجارت کے ليے دے بھى دینا چاہئےو۔اپنے پاس نہ رکھے۔ اگر روپيہ اس کے حوالہ نہ کيا اپنے ہى پاس رکھا تو يہ معاملہ فاسد ہے۔
    • دوسرا يہ کہ نفع بانٹنے کى صورت طے کر لنان چاہئے اور بتلا نا چاہئےدکہ دونوں کو کتنا کتنا ملے گا۔ اگر يہ بات طے نہيں ہوئى بس اتنا ہى کہا کہ نفع ہم تم دونوں بانٹ ليں گے تو يہ فاسد ہے
    • تيسرايہ کہ نفع تقسيم کرنے کو اس طرح نہںا طے کر نا چاہئے کہ جس قدر نفع ہو اس ميں سے دس روپے ہمارے باقى تمہارے۔ يا دس روپے تمہارے باقى ہمارے۔ غرضيکہ کچھ خاص رقم مقرر نہ کرےکہ اتنى ہمارى يا اتنى تمہارى بلکہ يوں طے کرےکہ آدھا ہمارا آدھا تمہارا۔ يا ايک حصہ اس کا دو حصے اس کے يا ايک حصہ ايک کا باقى تين حصے دوسرے کے۔ غرضيکہ نفع کى تقسيم حصوں کے اعتبار سے کرنا چاہيے نہيں تو معاملہ فاسد ہو جائے گا۔ اگر کچھ نفع ہوگا تب تو وہ کام کرنے والا اس سے اپنا حصہ پائے گا اور اگر کچھ نفع نہ ہوا تو کچھ نہ پائے گا۔ اگر يہ شرط کر لى کہ اگر نفع نہ ہوا تب بھى ہم تم کو اصل مال ميں سے اتنا ديں گے تو يہ معاملہ فاسد ہے۔ اسى طرح اگر يہ شرط کى کہ اگر نقصان ہوگا تو اس کام کرنے والے کے ذمہ پڑے گا يا دونوں کے ذمہ ہوگا يہ بھى فاسد ہے۔ بلکہ حکم يہ ہے کہ جو کچھ نقصان ہو وہ مالک کے ذمہ ہے اسى کا روپيہ گيا۔(بشرطیکہ وہ نقصان مضاربت کسی کوتاہی و غفلت برتنے کی وجہ سے نہ ہوا ہو )
  • مسائل
    • مسئلہ۔ جب تک اس کے پاس روپيہ موجود ہو اور اس نے اسباب نہ خريدا ہو تب تک تم کو اس کے موقوف کر دينے اور روپيہ واپس لے لينے کا اختيار ہے اور جب وہ مال خريد چکا تو اب موقوفى کااختيار نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر يہ شرط کى کہ تمہارے ساتھ ہم کام کريں گے يا ہمارا فلاں آدمى تمہارے ساتھ کام کرے گا تو يہ معاملہ فاسد ہے۔
    • مسئلہ۔ اس کا حکم يہ ہے کہ اگر وہ معاملہ صحيح ہوا ہے کوئى واہيات شرط نہيں لگائى ہے تو نفع ميں دونوں شريک ہيں جس طرح طے کيا ہو بانٹ ليں۔ اور اگر کچھ نفع نہ ہوا يا نقصان ہوا تو اس آدمى کو کچھ نہ ملے گا اور نقصان کا تاوان اس کو نہ دينا پڑے گا۔ اور اگر وہ معاملہ فاسد ہو گيا ہے تو پھر وہ کام کرنے والا نفع ميں شريک نہيں ہے بلکہ وہ بمنزلہ ملازم کے ہے۔ يہ ديکھو کہ اگر ايسا آدمى ملازم رکھا جائے تو کتنى تنخواہ دينى پڑے گى بس اتنى ہى تنخواہ اس کو ملے گى نفع ہو تب بھى اور نہ ہو تب بھى بہرحال تنخواہ پائے گا اور نفع سب مالک کا ہے ليکن اگر تنخواہ زيادہ بيٹھتى ہے۔ اور جو نفع ٹھيرا تھا اگر اس کے حساب سے ديں تو کم بيٹھتا ہے تو اس صورت ميں تنخواہ نہ ديں گے نفع بانٹ ديں گے۔