Download PDF
فہم التصوف
"الحمد ﷲ العلی العظیم و الصلوٰۃ والسلام علی رسولہ المزکی الکریم امّا بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔یاایھا الذین آمنوا اتقواللہ و کونوا مع الصادقین۔"
1. تصوف کا ایک مختصر تعارف
2. تصوف کا بنیادی مقصد
3. تصوف علیحدہ فن کیوں؟
4. تصوف متنازعہ کیوں؟
5. علمی اشکالات کا جواب
6. غالی صوفیاء کو جواب
7. چند اصطلاحات تصوف
  7.1.شریعت
  7.2.فقہ
  7.3.تصوف
  7.4.طریقت
  7.5.حقیقت
  7.6.معرفت
  7.7.نسبت
  7.8.بیعت
  7.9.شیخ
  7.10.مرُید
  7.11.سلسلہ
  7.12.تلوین
  7.13.تمکین
  7.14.سیر الی الله
  7.15.سیر فی الله
  7.16.علم الیقین
  7.17.عین الیقین
  7.18.حق الیقین
8. حاصل تصوف
9. ضرورت شیخ
10. مشائخ سے کیا پوچھنا چاہیئے؟
11. شیخ کامل کی پہچان
12. مناسبت شیخ
13. صحبت شیخ کامل کے فوائد
14. بیعت طریقت
15. حقیقت بیعت
16. بیعت کرنے کا طریقہ
17. بیعت کے وقت تعلیم
18. مرشد کے حقوق
19. شیخ اور مرید کا تعلق
20. شیخ کا مقام
21. سلاسل اربعہ کے مشائخ
22. بندہ کی نسبت
23. امور تصوف
  23.1. مقصود
  23.1.1. اعمال
  23.1.1.1. جلبی اعمال
  23.1.1.2. سلبی اعمال
  23.1.2. ثمرات
  23.1.2.1. بندگی
  23.1.2.2. اللہ تعالیٰ کیطرف سے رضا و قرب خاص
  23.2. غیرمقصود
  23.2.1. ذرائع
  23.2.1.1. مجاہدہ
  23.2.1.2. فاعلہ
  23.2.2. توابع
  23.2.2.1. جن میں نقصان کا احتمال ہے
  23.2.2.1.1. سکر کے ساتھ وحدۃ الوجود
  23.2.2.1.2. کشف الہٰی
  23.2.2.1.3. کشفِ کونی
  23.2.2.1.4. اِستغراق
  23.2.2.1.5. تصرف
  23.2.2.1.6. قبض و بسط
  23.2.2.1.7. کرامت
  23.2.2.1.8. مشاہدہ
  23.2.2.2. وہ توابع جن میں ضرر کا احتمال نہیں
  23.2.2.2.1. وجد
  23.2.2.2.2. رویائے صالحہ
  23.2.2.2.3. اجابت دعا
  23.2.2.2.4. الہام
  23.2.2.2.5. فناء و بقاء
  23.2.2.2.6. وحدۃ الوجود بغیر سکر
  23.2.2.2.7. فراستِ صادقہ
  23.2.3. موانع
  23.2.3.1. حسن پرستی
  23.2.3.2. تعجیل
  23.2.3.3. تصنع
  23.2.3.4. خالفت ِسنت
  23.2.3.5. مخالفت ِشیخ
24. حاصل مطالعہ
25. سالک کے لئے مفید کتابیں
26. متعلقین کے لیئے ابتدائی ہدایات
27. اخلاق
  27.1. قوت علم
  27.2.قوت غضب
  27.3.قوت شہوت
  27.4.قوت عقل
  27.5.قوت عدل
  27.6.اخلاق کی قسمیں
  27.6.1.اخلاق رذیلہ
  27.6.1.1.حقیقت دنیا
  27.6.1.2.حقیقت حب جاہ
  27.6.1.2.1.طریق علاج
  27.6.1.3.حب باہ
  27.6.1.3.1.علاج
  27.6.1.4.حب مال
  27.6.1.4.1.حقیقت
  27.6.1.4.2.علاج
  27.6.1.5.حرص
  27.6.1.5.1.حقیقت حرص
  27.6.1.5.2.تشریح
  27.6.1.5.3.طریق علاج
  27.6.1.6.شھوت
  27.6.1.6.1.علاج
  27.6.1.7.غُصَّہْ
  27.6.1.7.1.حقیقت غصہ
  27.6.1.7.2.طریق علاج
  27.6.1.8.جھوٹ
  27.6.1.8.1.جھوٹ کی حقیقت
  27.6.1.8.2.تشریح
  27.6.1.8.3.طریق علاج
  27.6.1.9.غیبت
  27.6.1.9.1.حقیقت غیبت
  27.6.1.9.2.تشریح
  27.6.1.9.3.طریق علاج
  27.6.1.10.حسد
  27.6.1.10.1.حقیقت حسد
  27.6.1.10.2.تشریح
  27.6.1.10.3.طریق علاج
  27.6.1.11.بخل
  27.6.1.11.1.حقیقت بخل
  27.6.1.11.2.تشریح
  27.6.1.11.3.طریق علاج
  27.6.1.12.رِیا
  27.6.1.12.1.حقیقت ریا
  27.6.1.12.2.تشریح
  27.6.1.12.3.طریق علاج
  27.6.1.13.عُجب
  27.6.1.13.1.حقیقت عجب
  27.6.1.13.2.تشریح
  27.6.1.13.3.طریق علاج
  27.6.1.14.خود رائی
  27.6.1.15.تکبّر
  27.6.1.15.1.حقیقت کبر
  27.6.1.15.2.تشریح
  27.6.1.15.3.طریق علاج
  27.6.1.16.حسد و کینہ
  27.6.1.16.1.حقیقت کینہ
  27.6.1.16.2.تشریح
  27.6.1.16.3.طریق علاج
  27.6.2.اخلاق حمیدہ
  27.6.2.1.توحید
  27.6.2.1.1.توحید کیا ہے؟
  27.6.2.1.2.حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.2.اخلاص
  27.6.2.2.1.اخلاص کیا ہے؟
  27.6.2.2.2.حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.2.3.اخلاص کے فائدے
  27.6.2.2.4.ایک قابل توجہ بات
  27.6.2.3.توبہ
  27.6.2.3.1.توبہ کی حقیقت
  27.6.2.3.2.تشریح
  27.6.2.3.3.ضرورت توبہ
  27.6.2.3.4.اتوبہ کا طریقہ
  27.6.2.3.5.توبہ کا محرک
  27.6.2.4.محبت
  27.6.2.4.1.تشریح
  27.6.2.4.2.اسباب محبت
  27.6.2.4.3.خدا کی محبت کو حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.4.4.محبت کو حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.5.شوق
  27.6.2.5.1.حقیقتِ شوق
  27.6.2.5.2.تشریح
  27.6.2.5.3.شوق حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.6.انس
  27.6.2.6.1.انس حاصل کرنے کا طریقہ
 . 27.6.2.7.خوف
  27.6.2.7.1.حقیقتِ خوف
  27.6.2.7.2.تشریح
  27.6.2.7.3.خوف حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.8.رجا
  27.6.2.8.1.رجا کی حقیقت
  27.6.2.8.2.رجا حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.9.زُھد
  27.6.2.9.1.زھد کی حقیقت
  27.6.2.9.2.تشریح
  27.6.2.9.3.زھد حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.10.توکل
  27.6.2.10.1.حقیقت توکل
  27.6.2.10.2.تشریح
  27.6.2.10.3.توکل حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.11.قناعت
  27.6.2.11.1.حقیقت قناعت
  27.6.2.12.حلم
  27.6.2.12.1.حقیقت حلم
  27.6.2.12.2.حلم حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.13.صبر
  27.6.2.13.1.حقیقت صبر
  27.6.2.13.2.تشریح
  27.6.2.13.3.صبر کو حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.14.شکر
  27.6.2.14.1.شکر کی حقیقت
  27.6.2.14.2.تشریح
  27.6.2.14.3.شکر حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.15.صدق
  27.6.2.15.1.حقیقت صدق
  27.6.2.15.2.تشریح
  27.6.2.15.3.صدق کو حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.16.تواضع
  27.6.2.16.1.تواضع کی حقیقت
  27.6.2.16.2.مزیدتشریح
  27.6.2.16.3.تواضع حاصل کرنے کاطریقہ
  27.6.2.17.تفویض
  27.6.2.17.1.تفویض کی حقیقت
  27.6.2.17.2.مزیدتشریح
  27.6.2.17.3.تفویض کی صفت حاصل کرنے کاطریقہ
  27.6.2.18.رضا
  27.6.2.18.1.رضا کی حقیقت
  27.6.2.18.2.مزیدتشریح
  27.6.2.18.3.صفت رضاحاصل کرنے کاطریقہ
  27.6.2.19.فنا
  29.19.1.حقیقتِ فنا
  27.6.2.19.2.صفت فناحاصل کرنے طریقہ
  27.6.2.20.فناءالفناء یعنی فناء کافناء
  27.6.2.21.دُعا
  27.6.2.21.1.دعا کی حقیقت
  27.6.2.21.2.ضرورت ِدُعا
  27.6.2.21.3.قبولیت دعا اور اس کا طریقہ کا ر
  27.6.2.21.4.دعا کے آداب
  27.6.2.21.5.دعا اور اسباب
  27.6.2.22.خشوع
  27.6.2.22.1.حقیقت خشوع
  27.6.2.22.2.سکون قلب کو حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.22.3.ضرورت خشوع
  27.6.2.22.4.طریق کار
  27.6.2.22.5.اعمال میں خشوع حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.22.6.آسان طریقہ
  27.6.2.23.تبلیغ
  27.6.2.23.1.تبلیغ کی حقیقت
  27.6.2.23.2.تبلیغ کے آداب اور شرائط
  27.6.2.23.3.تبلیغ کا طریقہ
  27.6.2.23.4.حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.23.5.موجوہ تبلیغی جماعت
  27.6.2.24.تفکر
  27.6.2.24.1.حقیقت فکر
  27.6.2.24.2.تفکر کی ضرورت
  27.6.2.24.3.فکر کا طریقہ
  27.6.2.24.4.حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.2.25.تقویٰ
  27.6.2.25.1.حقیقت تقوی
  27.6.2.25.2.حاصل کرنے کا طریقہ
  27.6.3.اعمال کے ثمرات
  27.6.3.1.طریق کار
  27.6.3.2.حصول کا طریقہ
  27.6.3.3.طریقہ تحصیل
28. وصول الی اللہ کے تین طریقے
  28.1.اول :اطول
  28.2.دوم :اوسط
  28.3.سوم :اقل و اقرب
29. باب الخواطر
  29.1.علامات فرق
درمیان شر من جانب اللہ و نفس و شیطان
  29.2.علامات فرق
درمیان خیر من جانب اللہ تعالیٰ و ملک ملہم
  29.2.1. تنبیہہ
  29.2.2. تبیہہ
29.2.3. تنبیہہ
  29.2.4.اول
  29.2.5.دوم
  29.2.6.سوم
  29.2.7.تنبیہہ
30. حقیقت نفس
  30.1.نفس امّارہ
  30.2.نفس لوّامہ
  30.3.نفس مطمئنہ
31. خیال کی قسمیں اور ان کا حکم
37. علاماتِ حصولِ نسبت مع اﷲ
  37.1.تنبیہہ
38. لطائف ستہ اور ان کے آثار
39. شرط اجازت
40. سیر الی اللہ
42. سیر فی اللہ
  42.1.تنبیہہ
  42.2.تنبیہہ
43. توابع یعنی احوال کا بیان
  43.1.احوال غیر محتملۃ الضرر
  43.1.1.اجابت دعا
  43.1.2.الہام
  43.1.3.رویائے صالحہ
  43.1.4.فراست صادقہ
  43.1.5.فنا و بقا ء
  43.1.6.وجد
  43.1.7.وحدۃ الوجود
43.2. جن احوال میں نقصان کا اندیشہ ہے
  43.2.1. استغراق
  43.2.2.تصرف و تاثیر المعروف بہ توجہ
  43.2.3.سکر
  43.2.4.قبض و بسط
  43.2.5.مشاہدہ
  43.2.6.کرامت
  44.موانع
  44.1.تصنع
  44.2. تعجیل
  44.3. حسن پرستی
  44.4. مخالفت سنت
  44.5. مخالفت شیخ
  45.ذرائع
  45.1.مجاہدہ
  45.1.1.طریقہ
  45.1.2.مجاھدہ کی ضرورت
  45.1.3.شیطان اور نفس کے اغوا میں فرق
  45.1.4.مجاھدہ میں اعتدال
  45.1.5.مجاہدکي اقسام
  45.1.6.مجاھدہ کی چار قسمیں
  45.1.6.1.(1) قلت طعَام(کم کھانا)
  45.1.6.2.(2) قلت منام (کم سونا)
  45.1.6.2.1.سونے میں اعتدال
  45.1.6.3.(3) قلت کلام(کم بولنا)
  45.1.6.3.1.تشریح
  45.1.6.3.2.طریق علاج
  45.1.6.4.(4) قلت اختلاط مع الانام
  45.1.6.4.1.خلوت کے فائدے
  45.1.6.4.2.اختلاط کے فوائد
  45.1.6.4.3.طریق کار
  45.2.فاعلہ
  45.2.1.ذکر
  45.2.1.1.اقسام ذکر
  45.2.1.2.ذکر ناسوتی ،ملکوتی ،جبروتی ،لاہوتی
  45.2.1.4.وضاحت
  45.2.1.5.ذکر اسم ذات دو ضربی
  45.2.1.6.ایک اور تشریح
  45.2.1.7.ذکر جلی و خفی
  45.2.2.شغل
  45.2.2.1.سلطان الاذکار
  45.2.2.2.شغل سلطاناً نصیراً
  45.2.2.3.شغل سلاطاناً محموداً
  45.2.2.4.شغل سہ پایہ
  45.2.2.5. تحقیق
  45.2.2.6. پاس انفاس
  45.2.2.7.لطأف کا ذکر
  45.2.2.8.افعال لطائف ستہ
  45.2.2.10.نوٹ:
  45.2.2.12.ذکر.حضور . مکاشفہ . شہود . معائنہ.
  45.2.2.14.سلطان الاذکار
  45.2.2.15.نوٹ
  45.2.2.16.نوٹ
  45.2.2.17.خلاصئہ بیان لطائف ستہ
  45.2.2.18.محل
  45.2.2.19.الوان
  45.2.2.20.افعال و آثار
  45.2.3.مراقبہ
  45.2.3.1.مراقبہ کی قسمیں
  45.2.3.1.1.مراقبہ رویت
  45.2.3.1.2.مراقبہ اقربیت
  45.2.3.1.3.مراقبہ وحدت
  45.2.3.1.4.مراقبہ فناء
  45.2.3.1.5.انوارات اور ان کے علامات
  45.2.4.وہ فاعلات جن میں خطرہ ہے
  45.2.4.1. تصور شیخ
  45.2.4.2. عشق مجازی
  45.2.4.3. سماع

اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور (ایمان و عمل کے ) سچوں کے ساتھ رہو۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس وقت کے سچوں کے ساتھ بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی ۔اللہ تقویٰ بھی نصیب فرمائے ۔

تصوف دین کا ایک ایسا شعبہ ہے جس کا جو مقصد بتایا جاتاہے اس سے کوئی بھی دیندار مستغنی نہیں ۔یہ انبیاء کی سنت ہے اور سب اس کے محتاج ہیں اس لئے ہر ایک پر لازم ہے کہ اس کے بنیادی مقاصد تک رسائی حاصل کریں۔جہاں تک اس کے ذرائع کا تعلق ہے تو ان سے جب تک اس کے مقاصد پورے ہورہے ہوں تو اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں لیکن جب اس سے وہ مقاصد پورے نہ ہورہے ہوں جس کا تصوف میں حاصل کرنا ضروری ہے تو پھر ان ذرائع کے ساتھ چمٹنے میں کوئی خیر نہیں ان کو ایسا بدلنا کہ پھر ان سے مقصود حاصل ہو، ضروری ہوجاتا ہے ۔

اس شعبے کا چونکہ اعمال قلب کے ساتھ تعلق ہے جو کہ انتہائی لطیف چیز ہے اس لئے اس میں دو طرح کے غیر پسندیدہ تغیرات اکثر و پیشتر وجود میں آتے رہتے ہیں جن کی پیش بندی اس فن کے ذمہ داروں کے ذمے لازمی ہوتی ہے ۔ان میں پہلا تغیر ان لوگوں کی وجہ سے آتا ہے جو جان بوجھ کر تصوف کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے سفلی مقاصد اس بگاڑ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ۔وہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں لیکن اپنے سفلی مقاصد کی وجہ سے اس کا اقرار نہیں کرتے اور مخلوق خدا کو دین سے برگشتہ کررہے ہوتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جو ان کی طرح ہیںجن کو قُرآن میں "الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ " کہا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی صحبت سے ہر مؤمن کو بچائے کیونکہ یہ ایمان کے ڈاکو ہوتے ہیں ۔یہ لوگ اولیاء کرام کی باتوں کی غلط تعبیریں کرتے ہیں اور قُرآن و سنت کا کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔وحدت الوجود کے نام پر شرک اور معرفت کے نام پر الحاد پھیلا رہے ہوتے ہیں ۔دوسرا تغیر ان لوگوں کی وجہ سے آتا ہے جو تصوف کے اصل مفاہیم سے واقف نہیں ہوتے ۔وہ لوگ سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کے پھیلاتے رہتے ہیں ۔وہ مقاصد کو ذرائع اور ذرائع کو مقاصد بنادیتے ہیں ۔اس طرح نظریاتی طور پر تصوف کو’’ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ‘‘ کی عملی تصویر بنادیتے ہیں اور عملی طور پر ’’ دعوے بڑے اور عمل کم ‘‘کے مصداق بن جاتے ہیں ۔یہ لوگ ان لوگوں کی طرح ہیں جن کو "الضَّآ لِّیۡنَ " کہا گیا۔یہ لوگ قابل رحم ہیں کیونکہ یہ گمراہ ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہ گمراہ ہیں ۔اگر ان کو کوئی ایسا ولی کامل مل جائے جن سے ان کو مناسبت ہو تو ان کی اصلاح ہوجاتی ہے اور خوش عقیدہ ہونے کی وجہ سے بہت جلد اپنے مقصود تک رسائی حاصل کردیتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں تو پہلا گروہ ان کو بہت آسانی کے ساتھ اپنا آلہ کار بنالیتے ہیں۔

ان ہی دو گروہوں کے مقابلے میں ایک ایسا تیسرا گروہ بھی وجود میں آیا ہے جو کہ اخلاص کے ساتھ تصوف کو خلاف سنت سمجھ کر اس کی مخالفت کے درپے ہوجاتے ہیں یہ لوگ بھی قابل رحم ہیں ۔ان تک بھی تصوف کے صحیح تعبیر نہیں پہنچائی گئی ہے اگر کوئی ان کو تصوف کے بارے میں صحیح بات ان کی زبان میں پہنچائے تو یہ بھی قابل اصلاح ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی گمراہ ہیں کیونکہ نبی کے کاموں میں سے ایک کام کے اپنی غلط فہمی کی وجہ سے مخالفت کررہے ہیں ۔اگر ان کو بھی کسی طرح یہ سمجھا دیا جائے کہ اصل تصوف وہ نہیں جس کو تم تصوف سمجھ بیٹھے ہو یعنی جو ان پہلے دونوں گروہوں کا بیان کردہ ہے بلکہ اصل تصوف تو عین شریعت بلکہ شریعت کی تکمیل یا روح ہے تو وہ اپنی مخالفت سے باز آسکتے ہیں اور اس طرح ان کو تصوف کے برکات حاصل ہوسکتے ہیں۔

چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے جو تصوف کو جانتے ہیں کہ عین حق ہے وہ قُرآنی آیات کی تشریحات جانتے ہیں اور دل میں تصوف کی اصل اس کو مانتے ہیں لیکن بعض دنیاوی مقاصد کے خاطر تصوف کی مخالفت پر کمر بستہ ہوتے ہیں ۔ یہ گروہ بھی پہلی گروہ کی طرح "الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ" کی نقش قدم پر چل رہے ہیں اس لئے اصل میں یہ دونوں ایک ہیں ۔پہلا گروہ تصوف کے ذریعے اسلام میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں اور یہ آخری گروہ تصوف کا انکار کرکے اُمت کو اس کے برکات سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔ان دونوں کے لئے تو دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل سے حب دنیا کو ختم کرکے ان کو ہدایت سے نواز د ے ۔نہ انہوں نے دلائل سننے ہیں اور نہ ماننے ہیں اس لئے ان کے ساتھ بحث ضیاع اوقات کے سوا کچھ نہیں البتہ دوسرا اور تیسرا گروہ جو راستہ گم کرچکے ہیں ان کو راستے پر لانے کی کوشش کی جاسکتی ہے کیونکہ ان کو جیسے ہی صحیح راستے کا پتہ چلے گا اس پر چل اپنے منزل مقصودکو پالیں گے ۔

یہ کتاب ان ہی دو درمیانی گروہوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ۔اس میں یہ کوشش کی جائے گی کہ تصوف کے اصل کو واضح کیا جائے کہ یہ اصل میں کیا ہے ۔اس کا قُرآن و حدیث کے ساتھ کیا رشتہ ہے ؟ ان کی اصطلاحات جن کے مفاہیم کو لوگ بگاڑ کر حقیقت سے دور چلے جاتے ہیں ان کا اصل مفہوم کیا ہے ؟اس میں مقاصد کیا ہے اور ذرائع کیا ہیں اور ان کا آپس میں کیا ربط ہے ؟

یہ کتاب گو کہ فقیر کے الفاظ میں ہے لیکن یہ یا تو ان بزرگوں کے ملفوظات سے ماخوذ ہے جن کی صحبت میں اس فقیر نے نبوی شعبے کی الف با سیکھی ہے یا پھر ان بابرکت ہستیوں کی تحریرات سے جنہوں نے اس صدی کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس نبوی شعبے کو پھر سے نکھار کر قابل عمل بنادیا ۔اس میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) مجد د ملت ،قطب ارشاد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا (رحمۃ اللہ علیہ) ،علامۃ الدھر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) ،اپنے شیخ مولانا محمد اشرف (رحمۃ اللہ علیہ) اور اپنے محسن حضرت صوفی محمد اقبال مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) کے تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے گاہے گاہے اور حضرات کی تحریریں بھی زیر نظر رہی ہیں لیکن غلبہ ان کو حاصل ہے ۔

فقیر کی یہ خواہش تھی کہ اس فن کے تشنگان کی اصل چشموں سے براہ راست پیاس بجھے اس لئے فقیر کی یہ عادت رہی ہے کہ جس کو بھی تھوڑا سا دین کے طرف مائل دیکھا تو ان کو حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے تحریرات سے متعارف کرنے کی کوشش کی لیکن آجکل کی انگریزی ماحول اور عربی لٹیریچر سے دوری نے عام قاری کو ان بابرکت ہستیوں سے براہ راست فیضیاب ہونے کا راستہ کافی حد تک بند کیا ہے اس لئے تعارف کے طور پر یہ کتاب انشاء اللہ کفایت کرے گی ۔آگے یہ کس کا دعویٰ ہے کہ اس فن کے ساتھ میں نے انصاف کیا ۔ہر ایک کی ہمت اور قسمت ہے کہ اپنے آ پ کو کہاں تک سیراب کرتا ہے ۔فقیر کا کام ہے منزل کا تعین کرنا اس پر چلنا پھر ہر ایک کے ظرف پر منحصر ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کو اُمت کے لئے بابرکت بنادے اور جس مقصد کے لئے اس کو لکھا جارہا ہے وہ مقصد پورا ہو۔آمین ثم آمین ۔

سید شبیر احمد عفی عنہ

"اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیِّینْ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِمِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیِمِ ط بِسْمِ اﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ ۔قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَنْ دَسّٰھَا "

تصوف کا ایک مختصر تعارف

تصوف ایک متنازعہ لفظ ہے لیکن اس کا متنازعہ ہونا حقیقی نہیں بلکہ بعض حضرات نے ناسمجھی میں اس کے معنی غلط سمجھ لئے لہٰذا اس کی افادیت سے انکار کر بیٹھے ۔ حقیقت میں کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ظاہراً کرنے کے ہوتے ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ۔ اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو کہ دل کے اعمال ہوتے ہیں جن کا پتہ کسی اور کو نہیں چلتا اس کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ کو یا کرنے والے کوہوتا ہے اور ان ہی اعمال پر ظاہری اعمال منحصر ہوتے ہیں۔اگر کسی کے یہ دل والے اعمال درست نہ ہوں تو چاہے اس کے ظاہر کے اعمال کتنے ہی درست ہوں وہ قبولیت کا درجہ نہیں پاتے ۔ یا بعض دفعہ یہ ظاہری اعمال ان باطنی اعمال کی خرابی کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا ان باطنی یعنی دل کے اعمال کا درست کرنا بھی ضروری بلکہ اشد ضروری ہوا۔ پس وہ طور طریقے اختیار کرنا جن سے یہ دل والے اعمال درست ہوجائیں تصوف کہلاتا ہے ۔ شریعت کے طور طریقوں کو چونکہ فقہ بھی کہتے ہیں لہٰذا ان معنوںمیں تصوف کو فقہ الباطن بھی کہا جاتا ہے۔

ثبوت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب پیدا فرمایا تو اس کو اپنے ارادے کا مختار بنایا اور اس میں خیر و شردونوں طرح کے مادے رکھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے " وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا فَاَلھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھاً " پس جب خیر کا مادہ استعمال ہوتا ہے تو کبھی کبھی اس پر فرشتے بھی رشک کرنے لگتے ہیں اور جب اس میں شر کے مادے کا پلڑا بھاری ہوجائے تو مجسم شیطان کی صورت میں بھی آجاتا ہے پھر فرمایا " قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا " یعنی مادے تو اللہ تعالیٰ نے اس میں دونوں رکھے لیکن ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کا اختیار اس کو دے دیا ۔لیکن چونکہ یہ امتحان کے لئے تھا اس لئے یہ ارشاد فرمایا کہ کامیاب تو وہ ہے جو خیر کے مادے سے کام لے کر اُمور خیر انجام دے اور اپنے آپ کو نفس کے شر سے بچائے ۔یہ اپنے آپ کو نفس کے شر سے بچانے کے لئے جوطریقے اور معمولات ہیں ان ہی کو تصوف کہتے ہیں ۔چونکہ یہ ایک ضروری امر تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں بغیر رہنمائی کے نہیں چھوڑا ۔اس کے لئے انبیاء کرام کا مبارک سلسلہ جاری فرمایا ۔ان کا جو فرض منصبی تھا ان میں ایک اپنی اُمت کا تزکیہ بھی تھا ۔تزکیہ سے مراد یہی اپنے آپ کو نفس کے شر سے بچانا ہے ۔سب سے آخر میں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت مبارک ہوئی جن کو قُرآن عطا ہوا جس نے تمام ادیان کی تکمیل کی اور دوسری کتابیں جن کی حفاظت کا وعدہ نہیں تھا ان پر عمل منسوخ قرار دیا گیا اور قُرآن کو ہدایت کا سرچشمہ قرار دے کر اس پر عمل کا مطالبہ ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود بھی اس پر عمل فرمایا اور صحابہ (رضی اللہ عنہ) کو بھی اس پر عمل کے لئے تیار کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قُرآن کے مطابق اپنے فرائض منصبی کا خوب حق ادا کیا جس کی طرف اشارہ اس آیت مبارکہ میں ہے ۔ "کَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیۡكُمْ رَسُوۡلًا مِّنۡكُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡكُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیۡكُمْ وَیُعَلِّمُكُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَیُعَلِّمُكُمۡ مَّا لَمْ تَكُوۡنُوۡا تَعْلَمُوۡنَ (بقرۃ ۔151)" اس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے صحابہ (رضی اللہ عنہ) کوقُرآن کی آیتوں کی تلاوت سے روشناس کیا ۔ان کے دلوں میں للّٰہیت پیدا فرمائی اور ان کو کتاب وسنت کی تعلیم سے بہرہ ور فرمایا اور ان کو ایسے ان گنت علوم سے روشناس فرمایا جو وہ پہلے نہیں جانتے تھے ۔

ان اُمور میں سے پہلے تلاوتِ قُرآن کی تعلیم ہے جس کی ذمہ داری بعد میں قُراء حضرات نے اٹھائی ۔اس کے بعد تعلیم للّٰہیت ہے جس کا ذمہ تصوف کے ماہرین نے لیا اور اس کے ساتھ کتاب و سنت کی تعلیم ہے جس کی ذمہ داری علماء اُمت نے اٹھائی۔پس اعمال کی دو قسمیں ہوئیں۔ جن میں ایک اعمال ظاہر یا اعمال جوارح ہیں اور دوسرے اعمال باطن یا اعمال قلب ہیں۔ علم ظاہر میں تلاوت ِقُرآن اور فقہ ظاہر کے علوم آئے اور علم باطن میں فقہ باطن یا اعمال قلب کے علوم آئے ۔گو ان تمام علوم کی تدوین بعد میں ہوئی ہے لیکن یہ چونکہ اصل کارِ نبوت ہیں اس لئے ان کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تلاوت قُرآن اور تلاوت یا سماعت احادیث کے سلا سل کی طرح سلاسلِ تصوف بھی جاری ہوئے ۔اگر چہ اس کا معروف نام تصوف ہے لیکن حضرت سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) کی تحقیق کے مطابق اس کا قُرآنی نام تقویٰ ہے جو کہ تمام علوم ہدایت کا دروازہ ہے جیسا کہ قُرآن کے بارے میں قُرآن ہی میں ارشاد ہے " ذَالِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ھُدیً لِّلْمُتَّقِیْنَ (بقرۃ ۔ 2)" اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس عظیم الشان کتاب میں کوئی شک نہیں اور یہ متقین کے لئے ہدایت ہے ۔پس ضروری نہیں کہ غیر متقین اس قُرآن سے ہدایت حاصل کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ غیر متقی اسا تذہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسی قُرآن کے اعلیٰ مضامین کو کھول کھول کر بیان کررہے ہوتے ہیں لیکن خود ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیثِ احسان میں ا س کا نام احسان ہے۔اس کو کوئی زہد کہہ دے یا تقوی یااحسان کہہ دے یا تصوف، اس میں کام دلوں کی صفائی کا کیا جاتا ہے ۔دل میں کان ،زبان ،ناک اور ذہن کے ذریعے ہر دم جو آلودگیاں آتی ہیں ان کا تدارک اور تلافی کی جاتی ہے ،انسان کو انسان اور مسلمان کو مسلمان بنایا جاتا ہے۔دلوں سے تکبر ،عجب، حسد ،کینہ ، ریا ء،بدگمانی ،خود پسندی وغیرہ کو نکال کر اس میں تواضع ،مسکینی ،اخلاص، نیک گمانی، تفویض، توکل اور خو د احتسابی پیدا کی جاتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں انسان کے دل کو مادہ پرستی سے نکال کر خداپرستی کی طرف ڈالا جاتا ہے ۔اس کو ہر دم یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تو کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کیا ہوگا اور اس کے لئے کیا کرنا ہے ؟بس کرنا تو وہی شریعت کی اتباع ہے کہ ہمیں اسی کے لئے تو پیداکیا گیا ہے لیکن تصوف میں اس پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) خلیفہ مجاز حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے تصوف کی جو مختصر مگر جامع تعریف بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے

تصوف میں ساری ریاضتیں اور کوششیں اس لئے ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دائمی تعلق حاصل ہوجائے اور ہر کام فقط اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہونے لگے۔

تصوف کا بنیادی مقصد

مندرجہ بالا جامع تعریف میں خط کشیدہ حصّہ تصوف کا بنیادی مقصد ہے ۔اس کو اچھی طرح ذہن نشین کیا جائے۔کیونکہ اسی پر قُرآن میں ولایت کا وعدہ ہے "بَلیٰ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ ِﷲِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہ آَجْرُہ عِنْدَ رَبِّہٰ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (بقرۃ ۔1 12)" جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دیا یعنی دل کا قبلہ درست کرلیا اور سب کام اللہ تعالیٰ کے لئے کرنے لگا اور تھا نیکی کرنے والا یعنی شریعت پر چلنے والا تھا تواس کو اللہ تعالیٰ اس کا اجر عطا فرمائیں گے اور نہ ان کو کوئی ڈر ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ "لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ " نشانی ہے ولایت کی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے " اَلآ اِنَّ اَوْلِیَائَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ " اس کا مفہوم یہ ہے کہ آگاہ ہوجاؤ کہ اولیاء اللہ کو نہ ڈر ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ مضمون سورۃ اعراف میں اور بھی وضاحت کے ساتھ آیا ہے "یٰبَنِیْ اٰدَمَ مَّا یَٲ تِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیَاتِیْ فَمَنِ اتَّقٰی وَ ٲصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (الاعراف 35) " یعنی اے بنی آدم (ہم نے عالم ارواح ہی میں تمہیں کہاتھا کہ) اگر تمھارے پاس پیغمبر آویں جو تم میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں سو (ان کے آنے پر ) جو شخص (تم میں ان آیات کی تکذیب سے) پرہیز رکھے اور (اعمال کی) درستی کرے (مراد یہ کہ ان کی کامل اتباع کرے) سو ان لوگوں پر (آخرت میں) نہ کچھ اندیشہ کی بات (واقع ہونے والی) ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تصوف کی ایک علیحدہ فن کے طور پر ضرورت

جیسا کہ اعمال ظاہر میں بعض چیزیں فرض ہیں ،بعض واجب ،بعض سنت اور بعض مستحب ۔اسی طرح اعمال باطن میں بھی بعض چیزیں فرض ہیں ،بعض واجب بعض سنت اور بعض مستحب۔دوسری طرف اعمال ظاہر میں بعض چیزیں حرام ہیں ،بعض مکروہ تحریمی ہیں اور بعض مکروہ تنزیہی ۔اسی طرح اعمال باطن میں بھی بعض چیزیں حرام ہیں، بعض مکروہ تحریمی اور بعض مکروہ تنزیہی۔ اس لئے ہر چیز کا اس کے مقام کے حساب سے مطالبہ ہوگا۔ جب بڑے بڑے لوگ اعمال باطن کے ایک حرام میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جہنم جاتے ہوں تو پھراس سے بچنا ضروری نہیں تو کیا ہے ؟ سورۃ ھود میں ارشاد باری تعالیٰ ہے "مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ۔ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْن (ہود ۵۱۔۶۱)"

جو شخص(اپنے اعمال خیر سے) محض حیات دنیوی(کی منفعت)اوراس کی رونق(حاصل کرنا)چاہتا ہے( جیسے شہرت و نیک نامی و جاہ اور ثواب آخرت حاصل کرنے کی اس کی نیت نہ ہو) تو ہم ان لوگوں کے( ان )اعمال (کی جزا) ان کو دنیا ہی میں پورے طور سے بھگتا دیتے ہیں اور ان کے لئے دنیا میں کچھ کمی نہیں ہوتی( یعنی دنیا ہی میں ان کے اعمال کے عوض ان کو نیک نامی اور صحت و فراغ عیش و کثرتِ اموال و اولاد عنایت کردیا جاتا ہے جب کہ ان کے اعمال کا اثر ان کے اضداد پر غالب ہو اور اگر اضداد غالب ہوں تو پھر یہ اثر بھی نہیں ہوتا ۔یہ تو دنیا میں ہوا ۔رہا آخرت میں سو یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ (ثواب وغیرہ )نہیں او ر انہوں نے جو جو کچھ کیا تھا وہ آخرت میں سب( کا سب) ناکارہ( ثابت) ہوگااور( واقع میں تو) جو کچھ کررہے ہیں وہ (اب بھی )بے اثر ہے( بوجہ فسادِ نیت کے مگر صورت ظاہری کے اعتبار سے ثابت سمجھا جاتا ہے ۔آخرت میں یہ ثبوت بھی زائل ہوجائے گا۔) یہ ترجمہ بیان القُرآن سے یہ لیا گیا ہے اور اس میں قوسین میں تفسیری کلمات ہیں۔

بخاری شریف کی پہلی حدیث شریف ہے " اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ" جس کا مفہوم یہ ہے کہ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے یعنی ظاہر شریعت کے جتنے اعمال بھی کئے جائیں ان کا نتیجہ اس پر موقوف ہوگا کہ وہ اعمال کس کیلئے کئے گئے۔

اسی طرح ترمذی شریف کی ایک طویل حدیث شریف کے مطابق تین آدمی جو اعلیٰ اعمال کو کرنے والے ہیں، ان میں ایک قاری ہے ایک سخی ہے اور ایک شہید ۔لیکن چونکہ یہ اعمال انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں کئے تھے تو نتیجتاً بجائے جنت کے جہنم پہنچ گئے ۔اس حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) پر اس کی روایت کے دوران باربار غشی طاری ہوجاتی تھی

مسلم شریف کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کے دل میں اگر رائی برابر بھی تکبر ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ۔اس سے اندازہ لگانا چاہیے کہ ریاء اور تکبر سے بچنا کتنا ضروری ہے ۔یہ دونوں اعمال قلب ہی تو ہیں ۔پس اخلاق حمیدہ کا حاصل کرنا اور اخلاق ذمیمہ سے چھٹکارا پانا روحانی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔اور جس کو یہ صحت حاصل ہوجاتی ہے تو اس کا قلب، قلب ِسلیم کہلاتا ہے ۔جیسا کہ سورۃ شعراء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ " یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْم" جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس دن مال اور بیٹے کوئی نفع نہیں دیں گے مگر سلیم دل جو لے کے آیا ہو اس سے فائدہ ہوگا۔پس ان آیات مبارکہ اور احادیث شریفہ سے تصوف کی ضرورت خوب واضح ہوگئی ۔آگے ہر ایک کی مرضی ہے کیونکہ یہاں تو اختیار دیا گیا اور اچھے بھلے کی تمیز سکھائی گئی ہے ۔ہر ایک کو اپنے ارادے کا پھل ملے گا۔

اعمال ظاہرہ تو فقہ کی صورت میں کتابوں میں مدوّن ہوگئے ۔ان کو کسی سے بھی سیکھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ان کی تشریح کسی بھی عالم سے لی جاسکتی ہے لیکن اپنے اپنے حالات میں اعمال قلبیہ پر کیسے عمل ہو یہ آسان بات نہیں ۔مثلاً نماز کو لے لیا جائے اس کے فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر اچھی اچھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان میں سے کسی کتاب کا بھی مطالعہ کر لیا جائے تو نماز کے مسائل معلوم ہوجائیں گے اور تھوڑی سی کوشش سے ان تمام اُمور کو سیکھا بھی جاسکتا ہے ۔اس کے لئے کسی بڑے عالم کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہیں جس نے بھی نماز اچھی طرح سیکھی ہو اس سے یہ نماز آسانی کے ساتھ سیکھی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں اسے ہر ایک چیز نظر آرہی ہے اس لئے اس کی اصلاح کوئی مشکل نہیں۔لیکن نماز کے اندر اگر کسی میں خشوع یا اخلاص نہیں تواس کاپیدا کرنا آسان کام نہیں ۔نہ تو یہ محض کتابوں سے سیکھنے کی چیزیں ہیں اور نہ ہی یہ آپ ہر ایک سے پوچھ پوچھ کر حاصل کرسکتے ہیں ۔اس کے لئے باقاعدہ کسی کو اپنا رہنما بنانا پڑے گا جو اس راستے سے گزرا ہو۔ اور راستہ چونکہ نازک ہے اس لئے اس میں کسی خطرہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ رہنما اپنے فن میں طاق ہونے کے ساتھ ساتھ مستند بھی ہو۔ یعنی اس پر اعتماد کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچتا ہو ۔اس کو سلسلہ کہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا تومیں اس کے بارے میں اتنا فکرمند نہیں ہوتا ۔کیونکہ یہ ابھی اگر نمازی ہونے کی نیت کرلے تو ایک سیکنڈ میں نمازی ہوجائے گا لیکن اگر کسی میں تکبر دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں ڈر جاتا ہوں۔ کیونکہ اگر اس نے اپنی اصلاح کی نیت کرکے کام شروع بھی کیا تو تکبر کو نکلتے نکلتے کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔

تصوف متنازعہ کیوں ہے ؟

یہ امر واقعی پریشان کن ہے کہ اتنا اہم اور مفید فن متنازعہ کیسے بنا ؟ جب ہم اپنے اکابر کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سارے اکابر نہ صرف اس فن کے قدردان نظر آتے ہیں بلکہ ان میں بعض نے تو اس فن کی خدمت میں اپنی عمریں گزاردیں۔ لیکن آج ان ہی سے منسوب بعض حضرات اس فن کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسے کہ یہ گمراہی کا ایک دروازہ ہو۔

اس کی جو وجہ اس عاجز کی سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ جو تصوف کے مقاصد ہیں ان سے تو کسی کو بھی انکار نہیں۔لیکن جو ان مقاصد کے ذرائع ہیں ان پر بعض لوگ کلام کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ناسمجھوں نے ان ذرائع کو مقاصد کے طور پر پیش کرکے تصوف کا حلیہ بگاڑ دیا ۔ناسمجھوں کا تو خیر علاج ممکن ہے کیونکہ وہ جہالت سے ایسا کرتے ہیں اس لئے اگرجہالت دور ہوجائے تو ان کی اصلاح ہوجاتی ہے لیکن جو لوگ جان بوجھ کر اپنے چند ذاتی مفادات کی خاطر ذرائع کو مقاصد قرار دیتے ہیں ان کے ہاں سے اصل چیز رخصت ہوجاتی ہے اور چند رسومات رہ جاتی ہیں۔ جن میں وقت کے ساتھ مزید شدت آتی جاتی ہے جیساکہ بعض صحیح بزرگوں کی وفات کے بعد ان کے سجادہ نشینوں نے کیا ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) طریق قلندر میں فرماتے ہیں

’’تصوف کے اصول صحیحہ قُرآن و حدیث میں موجود ہیں ۔اور یہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف قُرآن و حدیث میں نہیں بالکل غلط ہے ۔غالی صوفیاء کا بھی یہ خیال ہے اور خشک علماء کا بھی کہ تصوف سے قُرآن و حدیث خالی ہیں ،مگر دونوں غلط سمجھتے ہیں ۔خشک علماء تو یہ کہتے ہیں کہ تصوف کوئی چیز نہیں سب واہیات ہے بس نماز روزہ قُرآن و حدیث سے ثابت ہے ،اسی کو کرنا چاہیے۔ یہ صوفیوں نے کہاں کا جھگڑا نکالا ہے ؟تو گویا ان کے نزدیک قُرآن و حدیث تصوف سے خالی ہیں ۔ اور غالی صوفی یہ کہتے ہیں کہ قُرآن و حدیث میں تو ظاہری احکام ہیں ،تصوف تو علم باطن ہے ۔ان کے نزدیک تصوف میں قُرآن و حدیث ہی کی ضرورت نہیں۔غرض دونوں حضرات قُرآن و حدیث کو تصوف سے خالی سمجھتے ہیں ،پھر اپنے اپنے خیال کے مطابق ایک نے تو تصوف کو چھوڑ دیا اور دوسرے نے قُرآن و حدیث کو۔ ‘‘

علمی اشکالات کا جواب

حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’ جس طرح قُرآن میں " وَاَقِیْمُوا لصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکوٰۃ " موجود ہے اس طرح " یَاٰ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاصْبِرُوْا " یعنی اے ایمان والو صبر کرو اور " وَاشْکُرُوْ ِﷲ" اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ موجود ہے ۔اگر ایک مقام پر "کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ " او ر "وَ ِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتَ " پاؤگے تو دوسرے مقام پر " یُحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہ" اور "وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ" بھی دیکھوگے ۔جہاں " اِذَا قَامُوْاِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْ کُسَالیٰ " ہے ۔اس کے ساتھ ہی " یُرَآؤُنَ النَّاسَ " بھی موجود ہے ۔اگر ایک مقام پر تارک صلوٰۃ اور تارک زکوٰۃ کی مذمت ہے تو دوسرے مقام پر تکبر اور عجب کی برائی ہے ۔

اسی طرح احادیث شریفہ کو دیکھو جس طرح ابواب نماز و روزہ، بیع و شراء، نکاح و طلاق پاؤگے ۔ابواب ریا ءو کبر بھی دیکھو گے ۔اس بات سے کون مسلمان انکار کرسکتا ہے کہ جس طرح اعمال ظاہرہ حکم خداوندی ہیں اس طرح اعمال باطنی بھی حکم الٰہی ہیں ۔کیا " َاَقِیْمُوا لصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکوٰۃ " امر کا صیغہ ہے اور " وَاصْبِرُواوَاشْکُرُو " امر کا صیغہ نہیں؟ " کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ " سے روزہ کی مشروعیت اور ماُمور بہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور " وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ " سے محبت کا ماُمور بہ ہونا ثابت نہیں ؟ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ظاہری اعمال سب کے سب ہی باطن کی اصلاح کے لئے ہیں۔اور باطن کی صفائی موجب نجات ہے اور اس کی کدورت موجب ہلاکت ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔ "قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَنْ دَسّٰھَا " بے شک جس نے نفس کو صاف کیا کامیاب رہا اور جس نے اس کو میلا کیا ناکام رہا " یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْن " یعنی اس دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کے پاس سلیم قلب لے کے آیا ۔دیکھیں پہلی آیت میں تزکیہ باطن کو موجب فلاح اور دوسری میں سل اُمتی قلب کے بغیر مال و اولاد سب کو غیر نافع فرمایا ہے ۔ایمان اور عقائد جن پر سارے اعمال کی مقبولیت منحصر ہے ،قلب ہی کا فعل ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جتنے اعمال ہیں سب ایمان کی تکمیل کے لئے ہیں ۔پس معلوم ہوا کہ اصل مقصود دل کی اصلاح ہے جس سے انسان مقبول بارگاہ اور صاحب مدارج و مقام ہوتا ہے اور اسی کا نام اصطلاح و عرف میں تصوف ہے ۔

حضرت سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے ایک مستفسر کے جواب میں تحریر فرمایا ’’یہ فن ِسلوک نظری سے زیادہ عملی ہے ۔اس کے لئے ایسے کاملین کی ضرورت ہے جو اپنے حسن اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے اسوۂ نبوی پر ہوں ۔جو اپنے آداب ، اخلاق، عادات اور اتباعِ اوامر و نواہی میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نمونہ ہوں۔ جن کی صحبت میں پرتو نبوی کا اثر ہو، اور جن کا سلسلہ صحبت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت تک منتہی ہو،جس کا اصطلاحی نام شجرہ ہے۔ جس طرح فن روایت میں اس کا نام سلسلہ ہے ۔اس مفہوم کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے ،کہ علم حدیث جس طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روایت کا سلسلہ ہے، یہ سلوک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت کا سلسلہ ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سارا فیض صحبت نبوت کی تاثیر کا نتیجہ تھا ۔ان کے بعد صحابہ کے فیض سے تابعین اٹھے اور تابعین کے فیض صحبت سے تبع تابعین کا ظہور ہوا ۔یہ تین دور ایسے ہیں جن میں پچھلی جماعت اگلی جماعت سے بحیثیت جماعت کے متاثر ہے ۔مگر ہر دور میں جماعت، تعداد اور کیفیت میں کم ہوتی چلی گئی۔تبع تابعین کے بعد جب فتنوں کا ظہور ہوا تو تعداد بھی کم ہوگئی اب جماعت کی صحبت جماعت سے جاتی رہی ۔اب اشخاص کاملین کی صحبت سے اشخاص بااستعداد کے پیدا ہونے کا سلسلہ ہوا جس کا نام متاخرین نے ارادت یا پیری مریدی رکھ دیا ہے ،ورنہ قدماء اور سلف صالحین کی اصطلاح صحبت ہی کی تھی ۔ مرُیدکو صحبت یافتہ کہتے تھے جیسا امام محمد (رحمۃ اللہ علیہ) اور قاضی ابویوسف (رحمۃ اللہ علیہ) کو صاحب ابوحنیفہ کہتے ہیں ۔اس طرح حضرت شبلی (رحمۃ اللہ علیہ) اور جنید (رحمۃ اللہ علیہ) بھی صحبت یافتہ کہلاتے تھے۔ جیسے یوں کہتے تھے کہ فلاں شخص نے شبلی(رحمۃ اللہ علیہ) کی صحبت اٹھائی ہے یا جنید (رحمۃ اللہ علیہ) کی صحبت اٹھائی ہے۔

غالی صوفیاء کو جواب

صوفیاء پر اپنے اکابر کے اقوال حجت ہیں اس لئے اگر غالی صوفیاء تصوف کے مدعی ہیں تو ان کو اپنے اکابر کے اقوال سامنے رکھنے چاہیے جن میں چند پیش کیے جاتے ہیں

حضرت بایزید بسطامی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’ اگر تم کسی کو کرامات والا دیکھو کہ ہوا میں اڑتا ہو تو دھوکے میں نہ آجانا ،جب تک یہ نہ دیکھو کہ وہ امر و نہی، حفظ ِحدود اور پابندیء شریعت میں کیسا ہے ؟‘‘

حضرت جنید (رحمۃ اللہ علیہ) کا ارشاد ہے ’’ مخلوق پر سب راستے بند ہیں سوا ئے اس کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدم بقدم چلے ۔‘‘ حضرت ابولحسن نوری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’ جس کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کو حد شرعی سے باہر کردیتی ہے تو اس کے پاس بھی نہ پھٹکو۔‘‘ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ’’ متابعت پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ضروری ہے قولاً، فعلاً و ارادتاً اس لئے کہ محبت ِخدا تعالیٰ بے متابعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نصیب نہیں ہوتی۔‘‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ’’ جو آدمی شریعت پر قائم ہوا اور جو کچھ احکام شرع کے ہیں ان کو بجا لایا اور سر مو تجاوز نہیں کرتا تو اس کا مرتبہ آگے بڑھتا ہے یعنی تمام ترقیاں اس پر موقوف ہیں کہ شریعت پر ثابت قدم رہے ۔ ‘‘

ایک بات جس کا سمجھنا ضروری ہے کہ بعض اوقات بزرگوں نے نااہلوں سے اپنے علوم کو چھپانے کے لئے ذو معنی الفاظ استعمال کئے ہیں ۔جو اہل تھے انہوں نے اس سے اصل مطلب لے لئے اور دوسروں نے اس کو اپنے اپنے مطالب پر منطبق کیا جس سے مطلب کچھ کا کچھ ہوگیا۔ اس لئے اہل حق صوفیاء نے بعد میں یہ قانون بنالیا کہ صوفیاء کے کلام کو قُرآن وحدیث پر پیش کیا جائے اگر اس کے مطابق ہے تو اس کو تو من و عن لے لیا جائے ۔اگر بظاہر قُرآن و حدیث سے متصادم ہو تو اگر اس کی تاویل کی جاسکتی ہو تو تاویل کے ساتھ اس کا وہ مفہوم لیا جائے جو کہ قُرآن و حدیث کے مطابق ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو یا تو شطحیات میں سے ہوگا جس میں صوفی کو معذور سمجھا جائے گا لیکن اس کے قول کی تقلید نہیں کی جائے گی اور یا پھر اس کے کلام میں تحریف ہوچکی ہوگی جو کہ بعید نہیں ۔آخر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث شریفہ میں اگر لوگ موضوع روایتیں شامل کرسکتے ہیں ،جن کی نگرانی کے لئے اسماء الرجال کا عظیم فن موجود ہے، تو صوفیاء کے اقوال میں تحریف کیوں نہیں ہوسکتی؟ جس کے لئے اس قسم کا کوئی فن معرض وجود میں نہیں آیا۔

اگر کوئی مدعی مثلاً حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ) کا کوئی ایسا قول سامنے کرے جو شریعت سے متصادم ہو تو بجائے اس کے کہ ہم نعوذ باللہ قُرآن و حدیث میں تحریف کے مرتکب ہوں یہ ضروری ہے کہ ہم اس کی کوئی ایسی تاویل کریں جس سے یہ شریعت کے ساتھ متصادم نہ رہے ۔ اور اگر اس کی کوئی ایسی تاویل ممکن نہ ہو تو ہم اس کو حضرت شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) کے کلام میں تحریف پر مبنی سمجھیں کیونکہ لوگوں کے لئے شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) کے کلام میں تحریف کرنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں تحریف سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ اس کو اسماءالرجال کی کسوٹی پر پیش کرنا ممکن نہیں جبکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے ایسا انتظام موجود ہے۔اس سے نہ تو شریعت پر حرف آئے گا نہ حضرت شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) پر کوئی تہمت آئے گی۔اکابر اُمت نے اس طرح کے اُمور میں یہی کیا جس پر تاویل پرستی کی پھبتی کسی گئی ۔لیکن اس سے کیا ہوتا ہے ہمیں تو اپنا دین بچانے سے غرض ہے جو کہ کتاب اللہ اور رجال اللہ کی بیک وقت اتباع کا نام ہے۔ اس لئے نہ تو کتاب اللہ پر کوئی حرف آنا چاہیے اور نہ ہمیں رجال اللہ سے کٹنا چاہیے۔خوارج نے اپنے زعم میں کتاب اللہ کے ساتھ تمسک کیا تھا لیکن رجال اللہ کی ناقدری سے اتنے دور جاپڑے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی گمراہی کی مستقل پیشنگوئی فرمائی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ اپنے اس کارنامے پر فخر فرماتے تھے جو انہوں نے نہروان میں خوارج کو تہ تیغ کرکے کیا تھا ۔دوسری طرف باطنیین نے رجال اللہ کے نام پر معانی کو اتنا بدلا کہ قُرآن و حدیث سے انکار کے مرتکب ہوئے ۔اس طرح نہ ان کے عقائد محفوظ رہے اور نہ اعمال ۔ اُمت کو بعد میں ایسے گمراہوں کو راہ راست پر لانے اور لوگوں کو ان کی شر سے محفوظ رکھنے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی تھی ۔قلعۃ الموت اور فاطمین کے دور میں عقلمندوں کے لئے کافی سامان موجود ہے۔

تصوف کا آخری مقام خالص بندگی ،فنائیت اور بقاء عند اللہ ہے جس کا لازمی نتیجہ محبوبیت عند اللہ ہے ۔پس کسی کو اتنی بات اگر سمجھ میں آگئی تو اس کے لئے تصوف کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ۔ وہ ان غالی متصوفین کے کہنے سے جو یہ کہتے ہیں کہ شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے، گمراہ نہیں ہوں گے بلکہ طریقت کو تکمیل شریعت سمجھیں گے ۔وہ خدا پرستی کے لبادے میں ان مادہ پرستوں کو بھی پہچان لیں گے جو دوسروں کو اکابر کے استغنا کی بڑی بڑی باتوں میں اس لئے مشغول کرتے ہیں کہ ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالیں ۔وہ فکر کے مصلحین کے جامے میں فکرکی گمراہی کو فروغ دینے والے ان فلسفیوں کو بھی پہچان لیں گے جو اپنی کج بحثی کے ذریعے سیدھی سادھی طریقت کو چیستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔انہوں نے چونکہ خودتصوف کو فلسفہ کی عینک سے دیکھا ہوتاہے اس لئے دوسروں کو بھی یہ عینک لگانے پر مصر ہوتے ہیں ۔وہ ہمارے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں بظاہر مرنے والے ان نفس پرستوں کو بھی پہچان لیں گے جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے دین میں نت نئے طریقے وضع کئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ ارشاد "کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃْ " کو نہ صرف خود پس پشت ڈالا بلکہ اپنے متعلقین کو ان اللہ والوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے کہ مبادہ وہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ پیغام سنا دیں اور پھر وہ ان کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہ بن سکیں ۔اگر کچھ کسر باقی ہو تو اس کے لئے حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ کی تصنیف سلوک سلیمانی سے ’’ غیر شرعی یا عجمی تصوف ‘‘ کے عنوان پر مشتمل تحریر پڑھی جاسکتی ہے جس کی تفصیل حضرت کی کتاب سلوک سلیمانی جلد اول میں ملے گی جس سے انشاء اللہ اچھی طرح تسلی ہوجائے گی۔

تصوف کی چند مفید اصطلاحات

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق زندگی گزارے ۔اس کے لئے جن علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے وہ بھی فرض اور جن ذرائع پر یہ موقوف ہیں وہ بھی لازم ہیں۔اور یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ذریعہ فی نفسہ مقصود نہیں ہوتا لیکن اگر مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہوتا ہو تو وہ بھی لوازمات میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ کتاب و سنت ہے جس کی ابتدائی تعلیم مجلس نبوی میں دی جاتی تھی اور چونکہ ابتدائی دور تھا حلقہ بگوشان اسلام اپنے اصلی مرکز میں موجود تھے جن کی تعداد بھی اس وقت اتنی زیادہ نہ تھی جتنی بعد میں ہو گئی اس لئے نبوی درسگاہ میں ان ضروری تعلیمات کو حاصل کرنے کے لئے علم حدیث ،علم فقہ ، علم تفسیر ، اور علم تصوف کے نام گو کہ معروف نہیں تھے لیکن بعد میں جن تعلیمات سے یہ مدون ہوئے ان کے اصل کی تعلیم یکجا دی جاتی تھی ۔کوئی الگ الگ شعبے قائم نہ تھے ۔پس ان تمام علوم کے مقاصد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نگرانی میں حاصل ہورہے تھے اور ان سب مقاصد کو حاصل کرنے کا جو سب سے بڑا ذریعہ موجود تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت تھی جس کے ہوتے ہوئے کسی اور ذریعے کی حاجت نہیں تھی۔ اس نبوی درسگاہ میں ایک اقا متی شعبہ ایسا بھی موجود تھا جس میں محبان خدا اور عاشقان رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم تزکیہ نفس و اصلاح باطن کی عملی تعلیم و تربیت کے لئے ہر وقت موجود رہتے تھے اور وہ اصحاب صفّہ کہلاتے تھے ۔

بعد ازاں جب اسلام عالمگیر حیثیت اختیار کر گیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت بھی موجود نہیں رہی اور نہ ہی ان کی صحبت جن کو براہ راست آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت حاصل رہی تھی اس لئے ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے علماء دین نے الگ شعبے قائم کئے ۔ جنہوں نے علم حدیث کی خدمت کی وہ محدث کہلائے ۔اور جنہوں نے علم تفسیر کا کام سنبھالا وہ مفسر کہلائے ۔جو فقہ کا کام کرنے میں منہمک ہو گئے وہ فقیہ بن گئے اور جنہوں نے تزکیہ نفس و اصلاح باطن کا شعبہ سنبھالا وہ مشائخ اور صوفیاء مشہور ہوئے ۔اسی لئے اکابر سلف میں سے کسی نے شریعت کو طریقت سے الگ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ طریقت کو شریعت کے تابع رکھا ۔درج ذیل میں چند ضروری اصطلاحات کا تعارف بیان کیا جاتا ہے جو کہ فی الحقیقت تو بہت آسان ہیں لیکن دکاندار پیروں نے ان کو باطل فلسفے کا ایسا گورکھ دھندہ بنایا ہو ا ہے کہ بعض مخلصین ان کے ناموں سے چڑنے لگے ہیں۔ اس لئے علم تصوف میں ان کے اصل مفاہیم کا سمجھنا سالک کے لئے بہت ضروری ہے تاکہ کسی مرحلے پر کوئی اس کو دھوکہ نہ دے سکے ۔ایک بزرگ نے راقم سے فرمایا کہ اصطلاحات مبتدی کے لئے علم کی سیڑھی ہے اور منتہی کے لئے عیب ہے کیونکہ مبتدی اس کے بغیر سیکھ نہیں سکتا اور منتہی کو اس کی حاجت نہیں ہوتی وہ جس کے حسب حال جو مناسب سمجھتے ہیں ارشاد فرماتے ہیں کیونکہ اس کو سمجھا نا مقصود ہوتا ہے اصطلاحات مقصود نہیں ہوتے ۔چند ضروری اصطلاحات کا تعارف یہاں ضروری ہے تاکہ آگے کے ابواب آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکیں۔

شریعت

شریعت احکام تکلفیہ کے مجموعہ کا نام ہے ۔اس میں اعمال ظاہری و باطنی سب آگئے۔زندگی گزارنے کا جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے لئے پسند فرمایا ہے اس کو شریعت کہتے ہیں ۔اس کو ہم تک پہنچانے کے لئے چونکہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارک ذریعہ بنی ہے۔اس لئے اس کو آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کا طریقہ یا سنت بھی کہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شارع بھی کہتے ہیں یہ صرف اسی نسبت سے ہے ورنہ فی الحقیقت احکامات تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں ۔

فقہ

متقدمین کی اصطلاح میں لفظ فقہ کو شریعت کا مترادف (ہم معنیٰ )سمجھا جاتا ہے ۔ جیسا امام اعظم ابو حنیفہ (رحمۃ اللہ علیہ) سے فقہ کی تعریف "معرفت النفس ما لھا وما علیھا" منقول ہے یعنی نفس کے نفع و نقصان کی چیزوں کو پہچاننا پھر متاخرین کی اصطلاح میں شریعت کے صرف اس جز کا نام جو اعمال ظاہرہ سے متعلق ہیں فقہ ہو گیا ۔

تصوف

شریعت کا وہ جزو جو اعمال باطنہ سے متعلق ہے متاخرین کے نزدیک اس کا نام تصوف ہو گیا۔یہ وہ فن ہے جس کے ذریعے دل کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔اس کے ذریعے دل کی صحت اور بیماری کا پتہ چلتا ہے اور بیمار دل کا علاج کیا جاتا ہے ۔اسی کو حدیث شریف میں احسان کہا گیا اور قُرآن میں لفظ تقویٰ کا مفہوم اس کے قریب تر ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ تقویٰ تو دل کی ایک کیفیت کا نام ہے جو مقصود فی الاعمال ہیں اور تصوف اس کو بلکہ تمام اخلاق حمیدہ کی اصلاح کو حاصل کرنے کا اور اس کے اضداد سے بچنے کا علم و فن ہے ۔

طریقت

ان اعمال باطنی کے طریقوں (Procedures)کو جس سے اخلاق حمیدہ حاصل ہوتے ہیں اور اخلاق رذیلہ سے چھٹکارہ حاصل ہوتا ہے ،اس کو طریقت کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے کیونکہ مقصد صحت ہے طریقہ نہیں پس جس وقت جن طریقوں سے روحانی اور قلبی صحت کا زیادہ امکان ہو اس وقت ان ہی طریقوں کو طریقت کہا جائے گا۔

حقیقت

طریقت سے جب اعمال کی درستگی ہوتی ہے تو اس سے قلب میں صفائی اور ستھرائی پیدا ہوتی ہے اس سے دل پر بعض اعمال اور اشیاء بالخصوص اعمال حسنہ و سیّہ کے حقائق و لوازمات منکشف ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا ادراک ہوتا ہے جس سے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جیسا تعلق ہونا چاہیے اس کا ادراک ہوتا ہے ان علوم و معارف تک سالک کی رسائی کو حقیقت کہتے ہیں۔

معرفت

بندے اور خدا کے درمیان اس تعلق کا ادراک ہی معرفت کہلاتا ہے کہ اس کے ذریعے سالک ہر وقت اپنے حال کے مطابق اللہ تعالیٰ کی منشاء کا بہتر طریقے سے ادراک کرلیتا ہے۔ اس لئے اس صاحب انکشاف کو محقق اور عارف کہتے ہیں اور اس نعمت کو معرفت ۔ عارف چونکہ اپنی عجز اور بے ثباتی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بھی اچھی طرح جانتا ہے اس لئے باوجود دوسروں سے بہتر جاننے کے اپنے آپ کو ہمیشہ قاصر سمجھتا ہے ۔اس کو سمجھنے کے لئے آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعے کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔

نسبت

نسبت کے معنی تعلق کے ہیں ۔یہ تعلق جانبین سے ہوتا ہے ۔تصوف کی اصطلاح میں نسبت سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا ایسا تعلق ہے کہ اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر اور جوابدہ پاتا ہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی صورت میں یاد کرتا ہے۔اس سے اس کو طاعات اور عبادات کی طرف طبعی رغبت یا ایسی کامل عقلی رغبت کہ وہ اس کی طبعیت ثانیہ بن جائے ہوجاتی ہے اور گناہوں سے اس کو ایسی نفرت ہو جاتی ہے جیسا کہ پیشاب پاخانے سے ہوتی ہے۔ایسے شخص کوہمہ وقت اتباع سنت کی فکر ہوتی ہے۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو ایسا قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کا معصیتوں سے حفاظت کا انتظام ہوجاتاہے اور طاعات کی توفیقات سے اس کو نوازا جاتا ہے جس پر رضاء الٰہی کا ترتب ہوتا ہے۔اس کے آثار مختلف ہوتے ہیں جن میں خود بخود روحانی تربیت کے اسباب کا بننا ،دینی کاموں کے لئے استعمال ہونا، اہل قلوب کے دلوں میں خود بخود اس کے لئے محبت کا پیدا ہونا اور اس کے پاس بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ کا استحضار پیدا ہونا وغیرہ شامل ہیں ۔

بیعت

بیعت تصوف کی اصطلاح میں شیخ اور مرُیدکے درمیان معاہدہ ہے کہ شیخ اس کو طریق تعلیم کرے گا اور مرُیداس پر عمل کرے گا۔اس کا مقصد اعمال ظاہری و باطنی کا اہتمام و التزام ہے جس کے لئے مرُیدشیخ کو اپنا نگران دل سے تسلیم کرلیتا ہے اور شیخ اس کو اپنا سمجھ کر اپنی تعلیم اور دعا سے اس کی مدد کا قصد کرتا ہے ۔اس کو بیعت طریقت کہا جاتا ہے اور ہمارے بزرگوں کے ہاں بتواتر رائج ہے ۔ اس کی شرعی حیثیت سنت مستحبہ کی ہے لیکن اس کی برکت سے فرائض واجبات اور سنن پر عمل نصیب ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر بعض خوش نصیبوں کو نسبت حاصل ہوجاتی ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی بھی دوسری چیز کچھ بھی نہیں۔نسبت کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تربیت کروانا فرض عین ہے اور بیعت اس کا ایک ذریعہ ہے لیکن سنت مستحبہ ہے۔

شیخ

وہ عارف جو طالبین طریقت( جن کو سالک یا مرُیدکہا جاتا ہے ) کو تعلیم کرنے کا اہل ہو شیخ کہلاتا ہے ۔شیخ کی پہچان کے بارے میں تفصیل سے آگے آرہا ہے ۔

مرُید

وہ طالب جو شیخ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اور اپنی اصلاح کے لئے جو کہ فرض عین ہے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ شیخ کی ہر بات کو بلا چون و چرا مانے گا ۔

سلسلہ

اس سے مراد صحبت اور اعتماد کا وہ سلسلہ ہے جو موجودہ شیخ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے ۔ہند میں چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں ۔جو کہ چشتیہ ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔جس شیخ سے آدمی بیعت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آدمی اس کے سلسلے میں داخل ہوجاتا ہے ۔ان سلاسل کی مثال فقہ کے چار طریقوں حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی یا طب کے مختلف طریقوں یعنی ایلوپیتھی ،ہومیوپیتھی ،آکو پنکچر اوریونانی حکمت وغیرہ سے دی جاتی ہے ۔ان کے اصولوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے لیکن سب کا نتیجہ وہی روحانی صحت یعنی نسبت کا حاصل کرنا ہے ۔

تلوین

احوال کا بدلنا تلوین کہلاتا ہے ۔ چونکہ مرُیدکی جب تربیت ہوتی ہے تو اس پر عجیب عجیب انکشافات ہوتے ہیں جس سے اس کے احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ناپختگی کی علاُمت ہوتی ہے اس لئے سالک اس سے پناہ مانگتا ہے اور تمکین کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن تمکین کے لئے تلوین لازمی ہے جیسا کہ منزل کے لئے راستے کا قطع کرنا۔چونکہ دوران تلوین مختلف احوال کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے سالک گو کہ اس میں معذور ہے اور یہ لوازم طریق میں سے ہے اس لئے ماخوذ نہیں ہوتے۔ لیکن اس حال میں وہ قابل تقلید بھی نہیں ہوتے بلکہ ابھی راہ میں ہوتے ہیں اس لئے مشائخ بھی ان کے لئے تمکین کے انتظار میں ہوتے ہیں۔

تمکین

آخر میں حسب استعداد کسی حالت محمودہ پر استمرار نصیب ہوجاتا ہے اس کو تمکین کہتے ہیں اس وقت تمام اشیاء کے حقوق خوب ادا ہوتے ہیں ۔اسی کو توسط اور اعتدال بھی کہتے ہیں صاحب تمکین حق شناس ہوتا ہے اور واصل ہوتا ہے اس لئے قابل تقلید اور مقتدا بننے کا اہل ہوتا ہے ۔

سیر الی اللہ

سالک جو ابتدا ءمیں روحانی مریض ہوتا ہے ، علاج کے لئے مرشد کامل کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور اس میں اطلاع و اتباع کے ذریعے سالک کی روحانی بیماریاں آہستہ آہستہ دور ہورہی ہوتی ہیں ۔یہاں تک درجہ ضرورت میں سالک کا دل ان بیمایوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔یعنی اس کے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے جس کی طرف قُرآن میں اشارہ "قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا " یعنی بے شک جس نے نفس کو پاک کیا کامیاب رہا ۔اس کے ساتھ سالک کا قلب اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہوا یعنی اس میں تواضع ،اخلاص ، تفویض، حب الٰہی و حب رسول اور انابت الی اللہ کی صفات پیدا ہوئیں اور اس میں رسوخ حاصل ہوا۔ یعنی ان صفات نے قلب میں جگہ پکڑ لی اور ان کو حاصل کرنے کی تدابیر سے آگاہی ہوئی تو کہا جاتا ہے کہ اس کی سیر الی اللہ کی تکمیل ہوئی۔اس کے بعد سالک کو علم الیقین اور فناءِ تام حاصل ہوجاتا ہے اور شیخ اس کو اکثر اجازت وخلافت دے دیتا ہے ۔

سیر فی اللہ

سیر الی اللہ کے بعد قلب کے اندر تزکیہ اور تقویٰ سے ایک خاص جلاء اور نور پیدا ہوتا ہے اور سالک برابر قلب کو ماسواء اللہ سے فارغ کرتا رہتا ہے تو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال نیز حقائق کونیہ اور حقائق اعمال شرعیہ سالک کے دل پر منکشف ہوجاتے ہیں، جس سے اس کا خالق کے ساتھ قرب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ عین الیقین سے حق الیقین تک سفر کرتا رہتا ہے اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں جتنا حصّہ جس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی استعداد کے مطابق پایا وہ اس کا حصّہ ہے ۔موت تک سالک کی یہ سیر جاری رہتی ہے اور تفرید اور تجرید کے ذریعے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے ۔اس میں چاہے شیخ سے مرُیدبڑھ جائے ۔یہ بھی ممکن ہے۔ اس تمام تفصیل سے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ بعض کتابوں میں سیر فی اللہ کے بعد بھی دو سیر لکھی گئی ہیں لیکن حقیقت میں یہ سیر فی اللہ کا ہی حصّہ ہیں۔ان کو الگ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔جہاں تک شیخ کی نگرانی میں سالک کے سلوک طے کرنے کا تعلق ہے وہ سیرالی اللہ ہے جس کاجاننا ضروری ہے ۔سیر فی اللہ سالک اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے

میان عاشق و معشوق رمزے ست

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

چاہے کسی کو اپنے جمال کے مشاہدہ میں مستغرق کردے جو اصطلاح میں "مُسْتَہْلِکِیْن "کہلاتے ہیں یا ان کو مخلوق کی اصلاح پر ماُمور کرکے صفت بقاء سے متصف کردے جو اصطلاح میں راجعین کہلاتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو بھی فیصلہ فرمادے ۔ راجعین کو مرشدین بھی کہتے ہیں ۔ان کے ظاہر کو عام مخلوق سے خلط ملط کرکے ان کے ذریعے احکام شرعیہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

علم الیقین

اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے مستند طریقوں سے کسی کو پتہ چلے کہ زہر سے آدمی مرتا ہے اور آگ اشیاء کو جلاتی ہے ۔

عین الیقین

اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کوئی کسی چیز کو آگ سے جلتا ہوا دیکھتا ہے یا زہر سے مرتا ہوا دیکھتا ہے۔

حق الیقین

اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے خود پر کوئی چیز گزرتی ہے جیسے آگ سے جلا یا زہر سے مرنے لگا تو اس کے لئے وہ حق الیقین ہے ۔

حاصل تصوف

حضرت حکیم الاُمت حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں ’’وہ ذرا سی بات جو حاصل ہے تصوف کا ، یہ ہے کہ جس طاعت میں سستی محسوس ہو ،سستی کا مقابلہ کرکے اس طاعت کو کرے ،اور جس گناہ کا تقاضا ہو ،تقاضے کا مقابلہ کرکے اس گناہ سے بچے ،جس کو یہ بات حاصل ہوگئی اس کو پھر کچھ بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہی بات تعلق مع اللہ پیدا کرنے والی ہے اور یہی اس کی محافظ ہے اور یہی اس کو بڑھانے والی ہے ۔‘‘ صحبت صالحین کے فوائد۔ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے جو دعا تلقین فرمائی ہے اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ " اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ" اس میں ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ عنایت فرما ۔راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا ہے نہ کہ ان لوگوں کاراستہ جن پر تیرا غصّہ ہے اور نہ ان کا جو گمراہ ہوچکے ہیں۔انعام کن لوگوں پر ہوچکا ہے ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو انبیاء ہیں ،صدّیقین ہیں،شھداء ہیں اور صالحین ہیں۔نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکاہے اور باقی تینوں ہر زمانے میں موجود رہیں گے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں " کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنْ " یعنی صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ صادقین کے ساتھ ہونے کا چونکہ حکم الٰہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ قیاُمت تک صادقین پیدا کرتے رہیں گے ۔شھداءبھی ہر دور میں ہیں اور صالحین بھی۔ صرف کتاب کے ذریعے حق اور باطل کا واضح ہونا بھی بہت مشکل ہے ۔اگر یہ واضح ہوبھی جائے تو عمل کی توفیق اکثر تب ملتی ہے جب صالحین کی صحبت میسر ہو کیونکہ انسان پر صحبت کا اثر لازم ہے۔ ایک حدیث شریف ہے کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں۔اس لئے صالحین کی صحبت کے حاصل کرنے پر بہت زور ہے اور اس کے بالمقابل صحبت بد سے بچنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔بقول مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ)

یک ساعت در صحبتے بااولیاء

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاء

اللہ والوں کی تھوڑی دیر کی صحبت سو سالہ بے ریاءطاعت سے بہتر ہے ۔نیکوں کی صحبت اگر ایک گھڑی بھی نصیب ہو جائے تو وہ سو سالہ زہد و طاعت سے بہتر ہے ۔ صحبت صالح کی مثال عطار کی دی گئی ہے کہ اور کچھ نہ ہو تو بھی عطر کی خوشبو تو نصیب ہوہی جاتی ہے ۔ اور صحبت بد کی مثال لوہار کی دکان سے دی گئی ہے کہ اور کچھ نہ بھی ہو تودھواں تو پریشان کر تاہی ہے۔اس لئے انسان کو ہمیشہ اپنی صحبت کا خیال رکھنا چاہیے نہیں تو نتیجہ بہت خراب ہوسکتا ہے۔بقول مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ)

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح تر ا طالح کند

مطلب یہ ہے کہ نیک آدمی کی صحبت تم کو نیک بنا دے گی ،اسی طرح بد بخت کی صحبت تم کو بد بخت بنا دے گی ۔جو شخص خدا تعالیٰ کی ہم نشینی کا طالب ہو تو اس کو اولیائ کرام کی صحبت میں بیٹھنا چاہئے۔ صحبت ِنیکاں کے متعلق یہ قطعہ بہت عجیب اور مناسب ہے

رسید از دستے محبوبے بتم

کہ از بوئے دل آویز تو ہستم

یعنی حمام میں ایک دن محبوب کے ہاتھ سے ایک خوشبو دار مٹی مجھ کو ملی ،میں نے اس سے کہا کہ تو مشک ہے کہ عنبر کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مست ہو گیا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میں ناچیز اور معمولی مٹی ہی تھی مگر ایک مدت تک پھول کے ساتھ میری صحبت رہی ۔میرے ہم صحبت کی خوبی نے مجھ پر اثر کیا ۔ورنہ میں تو وہی خاک ہوں جیسی کہ پہلے تھی ۔

ضرورت شیخ

جیسا کہ بتایا گیا کہ نیک ہونے کے لئے نیکوں کی صحبت ضروری ہے۔یہ ایک عام بات ہے جس کو ہر ایک جانتا ہے ۔لیکن باقاعدہ تربیت کے لئے کسی ایک نیک کے ساتھ شخص جس کو تربیت کا فن بھی آتا ہو اور اس کی صحبت میں برکت بھی ہو ، تعلق ہونا ضروری ہوتا ہے۔عادت اللہ یوں ہی جاری ہے کہ کوئی کمال استاد سے سیکھے بغیر حاصل نہیں ہوتا پس جب اس راہ طریقت میں آنے کی توفیق ہو تواستاد ِطریق کو ضرور تلاش کرنا چاہئے ۔جس کے فیض، تعلیم ،برکت وصحبت سے مقصود حقیقی تک پہنچے گا-

دامنِ رہبر بگیر و پس بیا

یعنی اے دل اگر اس سفر کی خواہش ہو تو رہبر کا دامن پکڑ کر چلو ۔اس لئے کہ جو بھی عشق کی راہ میں بغیر رفیق کے چلا اس کی عمر گذر گئی اور وہ عشق سے آگاہ نہ ہوا۔ چنانچہ حضرت حکیم الاُمت فرماتے ہیں کہ ’’بھلا نری کتابوں سے بھی کوئی کامل مکمل ہوا ہے۔موٹی بات ہے کہ بڑھئی کے پاس بیٹھے بغیر کوئی بڑھئی نہیں بن سکتا ۔حتٰی کے بسولہ بھی بطور خود ہاتھ میں لے کر اٹھائے گا تو وہ بھی قاعدہ سے نہ اٹھایا جا سکے گا ۔بلا درزی کے پاس بیٹھے سوئی پکڑنے کا انداز بھی نہیں آتا ۔بلا خوشنویس کے پاس بیٹھے اور بلا قلم کی گرفت اور کشش دیکھے ہر گز کوئی خوش نویس نہیں بن سکتا ۔ایسی ہستی اگر کسی کو میسر ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان سے استفادہ کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے ۔اسی ہستی کو طریقت میں شیخ کہتے ہیں۔ ویسے تو شیخ عربی میں بوڑھے کو کہتے ہیں لیکن اس سے مراد رہبر کامل ہے جس کا ہاتھ پکڑنے سے مقصود حاصل ہونے کی قوی امید ہوتی ہے‘‘۔

مشائخ سے کیا پوچھنا چاہیے ؟

بعض حضرات کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ جب کتابوں میں سب کچھ لکھا جاچکا ہے اور یہ معلوم ہو چکا ہے کہ جو چیز اختیاری ہے اس کے لئے ہمت سے کام لینا چاہیے اور جو اختیار میں نہیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے نیز مقصود اور غیر مقصود کا پتہ بھی لگ گیا توپھر شیخ کی کس لئے ضرورت ہے یا ان کی صحبت تو مفید ہے لیکن اس سے کن چیزوں کے بارے میں پوچھنا چاہیے؟ ایک طالب کے جواب میں حضرت تھانوی(رحمۃ اللہ علیہ) نے جو تحریر فرمایا اس کا لب لباب یہاں دیا جاتا ہے ۔حضرت کے جواب کا مفہوم یہ ہے

مقاصد ،یعنی جن کے کرنے کا حکم ہے یا جن سے رکنے کا حکم ہے وہ سب اختیاری اعمال ہیں ۔باوجود اس کے سمجھ جانے کے کچھ غلطیاں سالک سے ایسی ہوسکتی ہیں کہ اصل مقصود حاصل نہیں ہوپاتا۔ مثلاً کبھی تو کوئی مقام حاصل ہوچکا ہوتا ہے اس کو غیر حاصل سمجھتا ہے مثلاً کسی کو مجاہدے سے خشوع کا مقصود درجہ حاصل ہوچکا ہے لیکن اس کو غیر اختیاری وساوس پیش آرہے ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ابھی مجھے خشوع حاصل نہیں اور اس کے غم میں کڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف بعض اوقات جو مقام حاصل ہوچکا ہوتا ہے وہ بدپرہیزی کی وجہ سے باقی نہیں رہتا لیکن یہ غفلت کی وجہ سے اس کا ادراک نہیں کررہا ہوتا ہے۔ مثلاً پہلے اس کو خشوع کا مقصود درجہ حاصل تھا لیکن اب یہ وساوس سے متاثر ہوکر اس میں اپنا ارادہ بھی شامل کرتا ہے جس سے وساوس غیر اختیاری نہیں بلکہ اختیاری بن جاتے ہیں لیکن سالک ان کو غیر اختیاری سمجھ رہا ہوتا ہے ۔کبھی سالک کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس نے کسی رذیلہ پر قابو پالیا ہے اس لئے وہ اس سے بے فکر ہوجاتا ہے حالانکہ موقع پر پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا نہ تھا ۔ مثلاً دو چار خفیف حادثوں میں رضا ءبالقضا ءکا احساس ہوا یہ سمجھا کہ رضا کا مقام حاصل ہوگیا ہے پھر کوئی بڑا حادثہ واقع ہوا اور اس میں رضا ءنہیں ہوئی ،یا درجہ مقصود تک نہیں ہوئی مگر یہ اسی دھوکے میں رہا کہ رضا ءحاصل ہے۔

اس طرح حاصل کو غیر حاصل سمجھنے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ مایوس ہو کر سالک کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش ترک کردیتاہے پھر وہ حاصل کردہ نعمت بھی سچ مچ زائل ہو جاتی ہے۔ اور غیر حاصل کو حاصل سمجھنے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ اس کا اہتمام ہی نہیں کرتا اور محروم رہتا ہے۔غیر راسخ کو راسخ سمجھنے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ سالک تکمیل کا اہتمام ترک کردیتا ہے اور راسخ کو غیر راسخ سمجھنے کا نتیجہ پریشانی اور تعطل ہوتا ہے۔ مثلاً شہوت حرام کا مقابلہ کیا اور نئے نئے ذکر کی وجہ سے عالم شوق میں شہوت حرام کا تقاضا ایسا دب گیا کہ اس کی طرف التفات بھی نہیں ہوتا تھا۔ پھر ان آثا رکا جوش و خروش کم ہونے سے طبعی التفات گو درجہ ضعیفہ میں سہی ہونے لگا ،یہ شخص سمجھا کہ سارا مجاہدہ بے کار گیا پھر اصلاح سے مایوس ہو کر سچ مچ شہوت حرام میں مبتلا ہو گیا ۔ہزارہا مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محض معلومات سے عمل حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس نظام اصلاح کی ایک عملی ترتیب ہوا کرتی ہے جس پر عمل اس وقت ہوسکتا ہے جب سالک کسی شیخ کی نگرانی میں ہو۔ اور اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ مر ید کو شیخ سے اپنی اصلاح کے لئے کیسے رابطہ رکھنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ مرُید کو اپنا حال جو کچھ بھی ہے بلاکم و کاست اچھا ہے یا برا شیخ کو بتانا چاہیے ۔سالک کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی چیز پر اچھے یا برے کا حکم لگا دے۔ یہ کام شیخ کا ہے کہ واقعات اور احوال کے تسلسل میں اس کو کیا سمجھتا ہے ؟وہ چاہے مرُیدکو اس کے بارے میں بتائے یا بغیر بتائے اس کو ایسا طریقہ بتادے کہ اس پر عمل کرنے سے اس کی بری حالت اچھی میں بدل جائے یا اچھی حالت میں مزید ترقی ہو۔ بعض دفعہ سالک کو علم تو ہوتا ہے لیکن تجربہ نہیں ہوتا اور اصلاح میں تجربہ کی افادیت سے کون منکر ہے؟

بعض دفعہ سالک اپنے لئے کوئی اچھی چیز تجویز بھی کرسکتا ہے لیکن اپنے نسخے پر عمل سے اس کو اطمینان نہیں ہوتا اور تشویش میں مبتلا رہتاہے ۔شیخ سے جو بات معلوم ہوتی ہے اس سے تشویش ختم ہوجاتی ہے جو کہ یکسوئی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نیز طالب اگر مخلص ہے تو شیخ کی عدم موجودگی میں اپنے لئے مشکل طریقہ پسند کرسکتا ہے ۔کیونکہ وہ جلد اصلاح چاہے گا جس کا تقاضا مجاہدہ زیادہ کرنا ہوگا۔حالانکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنی برداشت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر مجاہدہ کرکے اور اس میں ناکام ہوکر ہمیشہ کے لئے مایوس ہوجائے ۔جبکہ تجربہ کار شیخ راستے کی مشکلات کو جانتے ہوئے اس کی استعداد اور حالات کے مطابق زیادہ آسان طریقہ تعلیم کرے گا۔ جس سے مقصود میں کامیابی ہوگی اور بشاشت حاصل کرکے مزید ترقی کا بھی اہل ہوگا۔ جب کوئی سالک کام شروع کر کے شیخ کو اپنے احوال کی بالا لتزام اطلاع کرتا رہے اور اس کے مشورہ کی اتباع کرتا رہے اور یہ اتباع کامل اس وقت ہو سکتی ہے جب اس پر اعتماد ہو اور اس شیخ کی بات کے ماننے کا خود کو پابند کرے تو اس وقت اس کو محسوس ہوگا کہ شیخ کے بغیر مقصود تک رسائی عادۃتقریباً ناممکن ہے ۔

شیخ کامل کی پہچان

شیخ کے بارے میں جب معلوم ہوا کہ اس کی صحبت کتنی اکثیرہے اور بغیر اس کی رہبری کے مقصود پانا بہت مشکل ہے تو یہ بھی لازم ہوگیا کہ شیخ کامل کی پہچان ہو۔ کیونکہ خدا نخواستہ کسی دنیادار یا اناڑی شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا تو اس کی مثال یوں ہوگی کہ کوئی اپنی گاڑی کے لئے اناڑی ڈرائیور یا کسی ڈاکو کا انتخاب کرلے۔ الحمد للہ بزرگوں نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے شیخ کامل کی پہچان کی نشانیاں کھول کھول کے بیان کی ہیں جو یہاں درج کی جاتی ہیں ۔

شیخ وہ ہے جو امراضِ باطنہ اور اخلاق رذیلہ و حمیدہ سے پوری واقفیت رکھتا ہو اور سالک سے جو غلطیاں ہوسکتی ہوں ان کو بھی جانتا ہو اور ایسے غلطی کرنے والوں کی اصلاح بھی کرسکتا ہو۔ نیز سلوک کے مختلف مراحل میں عُروج و نُزول سے واقف ہو اور نفس و شیطان کے اثرات اور ملکوتی اور ربانی تصرّفات کی پوری واقفیت رکھتا ہو کہ ان کے درمیان تمیز کر سکے ۔اسلئے شیخ کا صاحب فن اور صاحب ذوق اور مجتہد ہونا ضروری ہے ۔اگر طریق کو محض کتب تصوف دیکھ کر یا لوگوں سے سن کر حاصل کیا ہو اور تربیت کرنے کے لئے بیٹھ گیا ہوتو وہ مرُیدکے لئے مہلک ہے۔ اس لئے کہ وہ طالب اورسالک کے حالات ا ور واردات و تغیرِ حالات کو نہیں سمجھتا جس کو ابن عربی (رحمۃ اللہ علیہ) نے شیخ کی علامات میں مختصراً تین چیزوں پر موقوف کیا ہے یعنی یہ کہ شیخ میں

(۱) دین انبیاء کا سا ہو۔۔ (۲) تدبیر اطباء کی سی ہو۔۔ (۳) سیاست بادشاہوں کی سی ہو جس کی تفصیل یہ ہے

(1) اتنا علم رکھتا ہوکہ اس سے روزمرہ کے کام شریعت کے مطابق ہوسکیں خواہ کسی عالم سے پڑھا ہوا ہو یا صحبت ِعلماء محققین سے حاصل کیا ہو ۔

(2) کسی شیخ کامل صحیح السلسلہ سے مجاز ہو۔

(3) خود متقی پرہیزگار ہو یعنی ارتکاب کبائر سے اور صغائر پر اصرار سے بچتا ہو ۔

(4) وقت کے اہل علم و فہم اس کو اچھا سمجھتے ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتے ہوں ۔

(5) اس کی صحبت سے آخرت کی رغبت، محبت الٰہی کی زیادتی اور محبت دنیا سے نفرت محسوس ہوتی ہو ۔

(6) اس کے مریدین میں سے اکثر کی حالت شریعت کے مطابق ہوتی جاتی ہو ۔

(7) مریدین کو آزاد نہ چھوڑے بلکہ جب انکی کوئی نا مناسب بات دیکھے یا معتبر ذریعے سے معلوم ہو تو روک ٹوک کرے اور ہر ایک کو اس کی استعداد اور حال کے مطابق سمجھایا کرے ۔ہر ایک کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکے یعنی موقعہ شناسی اور مردم شناسی کی صفت سے بہرہ ور ہو۔

جس میں یہ علامات موجود ہوں اس کی صحبت کو اپنے لئے اکسیر اعظم سمجھے وہ شخص اس قابل ہے کہ اس کو شیخ بنایاجائے اور اس کی زیارت و خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھے۔ ان کمالات و علامات کے بعد پھر شیخ کامل میں کشف و کرامات، تصرف و خوارق وغیرہ کو ہر گز نہ دیکھے کہ ان کا ہونا شیخ کامل کے لئے ضروری نہیں ۔

مناسبتِ شیخ

یہ امر تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ فیوض باطنی کے لئے پیر و مرُیدکی باہمی مناسبتِ فطری شرط ہے ۔کیونکہ نفع عادتاً الفت پر موقوف ہے ۔جومناسبتِ فطری کی حقیقت ہے اور یہی مناسبت ہے جس کے نہ ہونے پر مشائخ طالب کو اپنے پاس سے بعض دفعہ دوسرے شیخ کے پاس جس کے ساتھ مناسبت ،ظن یا کشف سے معلوم ہو بھیج دیتے ہیں۔ کیونکہ اس طریق میں مصلح کے ساتھ مناسبت ہونا بڑی ضروری چیز ہے ۔ مناسبت کے بغیر طالب کو نفع نہیں ہو سکتا اور مناسبت شیخ جو فیض لینے اور دینے کا مدار ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ شیخ سے مرُیدکو اس قدرانس ہو کہ شیخ کے کسی قول و فعل سے مرُیدکے دل میں طبعی نکیر پیدا نہ ہو گو عقلی پیدا ہو ۔یعنی شیخ کی سب باتیں مرُیدکو پسند ہوں اور شیخ کو مرُیدسے انقباض نہ ہو اور یہی مناسبت بیعت کے لئے شرط ہے ۔لہٰذا پہلے مناسبت پیدا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔کہ اس کی سخت ضرورت ہے جب تک یہ نہ ہو مجاہدات، ریاضت مراقبات و مکاشفات سب بیکار ہیں ۔کوئی نفع نہ ہو گا۔ اگر طبعی مناسبت نہ ہو تو عقلی پیدا کر لی جائے، اس پر نفع موقوف ہے ۔اس لئے جب تک پوری مناسبت نہ ہو بیعت نہیں کرنی چاہئے ۔

شیخ کامل کی صحبت کے فوائد

(1) شیخ کے اندر جو چیز ہے وہ آہستہ آہستہ مرُیدکے اندر آجاتی ہے ۔

(2) اصلاح کامل نہ بھی ہو تو کم از کم اپنے عیوب نظر آجائیں گے جو اصلاح کی کنجی ہے۔

(3) آہستہ آہستہ مرُیدپر شیخ کا رنگ چڑھتا جاتا ہے جس سے وہ شیخ کے اخلاق و عادات میں اتباع کرنے لگتا ہے۔شیخ کی صحبت میں جو افادات زبانی سننے میں آتے ہیں وہ یا تو شیخ کے عمر بھر کے تجربے کا نچوڑ ہوتا ہے جس کا مفید ہونا ظاہر ہے یا شیخ کے قلب پر مریدین کے لئے ان کے مناسب مضامین القاء کئے جاتے ہیں جو تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں۔

(4) شیخ کے سامنے اپنا ہیچ ہونا مکشوف ہوجاتا ہے جو تواضع کی کنجی ہے ۔

(5) اہل محبت کی صحبت سے مرُیدکے دل میں بھی محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔

(6) مشائخ اعمال صالحہ کی وجہ سے بابرکت ہوتے ہیں اس لئے ان کی تعلیم میں برکت ہوتی ہے اس کے مقابلے میں خود کتابیں دیکھ کر علاج کرنا مفید نہیں ہوتا۔

(7) مقبولین ِالٰہی کی صحبت میں اگر آدمی اخلاص کے ساتھ رہ رہا ہو تو یاتو اس کی حالت اچھی ہوگی یا بری ۔اگر اچھی ہوگی تو اس سے یہ حضرات خوش ہوں گے اور دل سے ان کے لئے دعا گو ہوں گے جس سے ان کو مزید ترقی حاصل ہوگی اور اگر ُمریدکی حالت بری ہے تو شیخ کو اس پر شفقت ہوگی وہ اس کی اصلاح کریں گے تعلیم سے اور دعا سے۔ اس لئے صحبت سے ہر صورت فائدہ ہوا۔

(8) مرُیدجب شیخ کی صحبت میں ہوتا ہے تو شیخ کے کمالات اس پر ظاہر ہوتے ہیں اور دین پر چلنے کا جو سلیقہ ان کو عطا ہوتا ہے وہ مرُیدکو بھی صحبت سے آہستہ آہستہ ملنے لگتا ہے۔ دوسری طرف شیخ پر مرُیدکے عیوب منکشف ہوتے رہتے ہیں اس لئے وہ مرُیدکے بارے میں بہتر سے بہتر رائے قائم کر لیتے ہیں جس سے مرُیدکی اصلاح کافی تیز ہوجاتی ہے۔

(9) ان حضرات کے دل خدا کی یاد سے روشن ہوتے ہیں ۔ان کے پاس رہنے سے وہ نور آہستہ آہستہ مرُیدکے دل میں بھی آجاتا ہے ۔نور جب آتا ہے تو ظلمت ختم ہوجاتی ہے اس لئے مرُیدپر اپنی حیثیت اور اللہ تعالیٰ کی عظمت منکشف ہونے لگتی ہے جس سے اس کی قلبی بیماریوں کی اصلاح خود بخود ہونے لگتی ہے اور اس کے اشکالات حل ہونے لگتے ہیں۔

(10) شیخ کی خدمت میں رہ کر بزرگوں کی خدمت کا موقع مل جاتا ہے ۔بعض دفعہ قبولیت کی کوئی ایسی گھڑی مل جاتی ہے جس میں شیخ کے دل میں اس کے لئے ایسے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جس سے یہ بہت جلدی واصل ہوجاتا ہے۔

(نوٹ )

شیخ کی صحبت کو حاصل کرنے پر حریص ہونا اچھی بات ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا لیکن یہ اس صورت میں فائدہ مند ہوتی ہے جب اس سے شیخ کو تکلیف نہ دی جائے اور اس کے مزاج کے مطابق ان مواقع میں حاصل کی جائے جو مواقع شیخ نے مریدین کے لئے کسی ضابطے کے مطابق مقرر کئے ہیں۔ ورنہ مریدین کے لئے شیخ کی صحبت کو حاصل کرنے کی وہ کوششیں جس سے شیخ کو تکلیف ہو سخت مضر ہے ۔اس لئے شیخ کے مزاج کی اچھی طرح تحقیق کی جائے کہ وہ مریدین کو اپنی صحبت کس طرح میسر کرنا چاہتے ہیں ،بس اسی طرح اس کو حاصل کیا جائے ۔ان میں جو اوقات میسر ہوں تو اس وقت اپنے تقاضوں کو اگر ممکن ہو آگے پیچھے کرکے شیخ کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کی جائے۔

بیعتِ طریقت

جب کسی شیخ کامل کا پتہ چل جائے اور ان کے بارے میں اطمینان ہوجائے اور وہ شیخ بھی تربیت کرنے پر آمادگی کا اظہار فرمائے تو اس کے لئے ایک معاہدہ بہت مفید ہوتا ہے جس کو بیعت ہونا کہتے ہیں۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس باشرع صاحبِ سلسلہ شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ عہد کیا جائے کہ اپنی تربیت کے لئے صرف اسی شیخ کے ساتھ رابطہ رکھوں گا اور شیخ اس کی تربیت کا ارادہ کرے ۔یہ سنت مستحبہ ہے ۔اس کے ذریعے اکثر وہ نعمت عظیم جس کو نسبت کہتے ہیں حاصل ہو جاتی ہے ۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے صحابہ(رضی اللہ عنہ) کو مخاطب فرما کر علاوہ بیعت ِجہاد و بیعت اسلام کے التزامِ احکام و اہتمامِ اعمال کے لئے بیعت فرمایا ہے متعدد احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے :

عن عوف ابن مالک الاشجعی(رضی اللہ عنہ) قال کنا عند النبی صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم " تسعۃ او ثمانیۃ او سبعۃ فقال الا تبایعون رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم فبسطنا ایدینا وقلنا علیٰ ما نبایعک یا رسول اﷲ قال ان تعبدوا اﷲ ولا تشرکو ا بہٰ شئیا وتُصَلُّوْا صلوات الخمس وتسمعوا و تطیعوا" (الحدیث اخرجہ مسلم و ابو داؤد و نسائی )

یعنی حضرت عوف ابن مالک اشجعی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔نو آدمی تھے یا آٹھ یا سات۔ ارشاد فرمایا کہ تم رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم سے بیعت نہیں کرتے ؟ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور عرض کیا کہ کس امر پر آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کی بیعت کریں یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ان اُمور پر کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور پانچوں نمازیں پڑھو اور احکام سنو اور مانو ۔ (روایت کیا اس کو مسلم ،ابو داؤد و نسائی نے)

اس بیعت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو خطاب کیا کہ یہ نہ بیعت اسلامی تھی نہ بیعت جہادی ۔لہٰذا اس حدیث میں بیعت مروجہ فی المشائخ کا صریح ثبوت ہے ۔جس طرح فقہ میں چار سلسلہ ہیں ،حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی اسی طرح فن تصوف میں بھی چار سلسلہ ہیں چشتیہ،قادریہ،نقشبندیہ،سہر وردیہ ۔جس صاحب کو جس سلسلہ کے ساتھ بھی مناسبت ہو اس کے ذریعے اس کو نسبت حاصل ہوسکتی ہے۔ کافی تو ایک ہی سلسلہ ہوتا ہے لیکن ہمارے اکابر چاروں سلسلوں میں بیعت فرماتے ہیں تاکہ سب کا ادب ملحوظ رہے اور سلاسل کے تقابل سے، جیسا کہ بعض مغلوب الحال لوگ کرتے ہیں محفوظ رہے۔

حقیقت ِبیعت

بیعت جو کہ اپنے اندر بیع کا معنی لئے ہوئے ہے شیخ کے ہاتھ بک جانا ہے۔ جس میں اپنے کو شیخ کے ہاتھ احکام ظاہرہ و باطنہ کے التزام کے واسطے گویا بیچ دیا۔ جس کی حقیقت یہ ہے کہ طالب کو اپنے شیخ پر پورا اعتقاد اور کلی اعتماد ہو کہ یہ میرا خیر خواہ ہے جو مشورہ دے گا وہ میرے لئے نہایت نافع ہو گا ۔اس پر پورا اطمینان ہو۔اس کی تجویز و تشخیص میں دخل نہ دے ۔یوں یقین رکھے کہ دنیا بھر میں میری جستجو اور میری تلاش میں میرے نفع کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی نہیں۔اس کو اصطلاح تصوف میں وحدتِ مطلب کہا جاتا ہے ۔ اس کے بغیر بیعت ہونا نافع نہیں ۔کیونکہ اصلاح نفس کے لئے شیخ سے مناسبت شرط ہے اور مناسبت کی پہچان یہی ہے کہ اس کی تعظیم اور قول و فعل اور حال پر قلب میں اعتراض نہ ہو ۔بالفرض اگر قلب میں اعتراض آئے تواس سے رنجیدہ ہو ،اورگھٹن محسوس کرے ۔عوام کے لئے بیعت کی صورت البتہ نافع ہوتی ہے ۔بیعت سے ان کے قلب پر ایک عظمت اور شان ،شیخ کی طاری ہو جاتی ہے ۔جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے قول کو با وقعت سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔خواص کے لئے کچھ مدت کے بعد بیعت نافع ہوتی ہے ۔بیعت سے جانبین میں ایک خلوص اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ شیخ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ ہمارا ہے اور ُمریدسمجھتا ہے کہ یہ ہمارے ہیں۔ ڈانواں ڈول حالت نہیں رہتی ۔

بیعت کرنے کا طریقہ

شیخ مرُیدکے داہنے ہاتھ کو اپنے داہنے ہاتھ میں لے کر بیعت کرتا ہے ۔اور کثیر مجمع کو بذریعہ رومال ،چادر وغیرہ بیعت کیا جاتا ہے۔اور مستورات کو پردہ کے پیچھے کہ وہاں ان کا کوئی محرم بھی ہو رومال وغیرہ سے بیعت کیا جاتا ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ :عن عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ " مَا مَسّ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم ید امراۃٍ قط اِلاّ اَنْ یاخذ علیھا فاذا اخذ علیھا فا عطتہ قال اذھبی فقد با یعتکَ رواہ الشیخان و ابو داؤد ۔" اس سے ثابت ہوا کہ بدون عورت کا ہاتھ ہاتھ میں لئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم معاہدہ فرماتے تھے پھر فرماتے میں نے تم کو بیعت کر لیا ہے ۔اس لئے مشائخ میں عورتوں کو بغیر ہاتھ میں ہاتھ لئے زبانی طور پر یا کسی کپڑے وغیرہ سے بیعت کرنا معمول ہے ۔

یہ بیان تو شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت ہونے کا ہے اور جو شخص شیخ کی خدمت میں نہ پہنچ سکے وہ وہیں سے بذریعہ خط و کتابت، ٹیلی فون یا بواسطہ شخصِ معتبر بیعت ہو سکتا ہے اور اس کو بیعت عثمانی کہا جاتا ہے ،جیسا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے بموقع بیعت رضوان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر موجودگی میں اپنے بائیں ہاتھ پر دائیں دستِ مبارک کو رکھ کر فرمایا کہ میں نے عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بیعت کر لیا ۔

بیعت کے وقت تعلیم

مریدین کو یہ بتانا چاہیے کہ

(1) ہروقت اللہ تعالیٰ پر نظر ہو ، عبادت صرف اس کی ہو ،مانگنا صرف اس سے ہو ، اسی کو راضی کرنے کے لئے تمام کوششیں ہوں اور ہر حال میں اس سے راضی ہوں ۔

(2) خوشی غمی یعنی ہر حال میں سنت کی تلاش اور اس پر عمل ہو۔ جس پر عمل نہ ہوسکے اس پر دل سے ند اُمت اور استعفار ہو ۔ اپنی ہر رائے کو سنت کے مقابلے میں بودی اور نکمی سمجھنا اور سنت پر عمل کرنے اور اس کو پھیلانے کا عزم ہی اپنا شیوہ ہو ۔

(3) تمام عبادات میں سنت طریقے کو جاننے کی اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو۔ معاملات کی صفائی کا خیال اور اہتمام ہو ۔ا پنی معاشرت کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کا عزم ہو ۔ اور دل کے روحانی امراض مثلاً تکبر، عجب اور حسد وغیرہ کا علاج کرکے روحانی فضائل مثل تواضع ،تفویض اور اخلاص وغیرہ سے مزین کرنے کی نیت ہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد کا خواستگار ہو نیز ہر وقت اپنی اصلاح کادھن اور اپنے رب کا دھیان ہو ۔

(4) شریعت اور طریقت کو ایک سمجھا جائے ۔ شریعت پر چلنے کے عزم کے ساتھ وقتی طور پر ماحول کی مشکلات کی پیش نظر اور شریعت پر چلنے کی منصوبہ بندی کی خاطر کچھ شرعی ضروریات کو آگے پیچھے کرنا پڑے تو اس کے لئے شیخ سے رابطے کی کوشش کی جائے تاکہ اس سلسلے میں رہنمائی حاصل ہوسکے کیونکہ یہ کام بہت نازک ہے ۔

(5) شیخ کے بتائے ہوئے ذکر کی پوری پابندی کی جائے اور اگر اس میں کوئی مسئلہ یا مشکل پیش آرہی ہو تو شیخ کو اس کی اطلاع کی جائے ۔

(6) نماز وں کی قضا اس طرح کرنا کہ ہر وقت کی نمازکے ساتھ نماز سے پہلے یا بعد اسی وقت کے قضا کے صرف فرض ادا کرنا اور عشاء میں وتر بھی اور فرصت اور ہمت کے ساتھ یا ایک دن میں کئی کئی وقت یا کئی کئی دن کی نمازوں کو ادا کر لینا۔اس طرح قضا شدہ روزوں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا،حج فرض ہو تو اس کی تیاری کرنا۔

(7) کسی کا مالی حق اپنے ذمے ہو اس کو ادا کرنا یا معاف کرانا ۔

(8) بدنظری سے ایسے بچتا ہو جیسے سانپ بچھو سے ۔ جن اخبارات اور رسائل میں تصویریں ہوں کوشش کی جائے کہ ان کو نہ پڑھا جائے ۔ اگر کسی وجہ سے پڑھنا پڑھ جائے تو اس کا خیال رکھا جائے کہ تصویریں نہ دیکھیں ۔ اسی طرح گانا سننے سے سخت پرہیز کیا جائے اگر روکنے پر قادر نہ ہوں تو "یا ھادی یا نور لاحول ولا قوۃ الا باﷲ" پڑھیں تاکہ اس کے شیاطین آپ کے اوپر حاوی نہ ہوں ۔

(9) ہر قسم کے مال حرام سے بچتا ہو۔ سوال اور اشراف نفس ، نمود و نمائش ، شرکیہ اور بدعتی رسومات ، بے صبری اور ناشکری سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس کے لئے ایسی کتابیں پڑھنی چاہیئں جس میں ان چیزوں کی مذمت مؤثر انداز میں کی گئی ہو ۔

(10) والدین کے تمام جائز حقوق کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہو ۔ ان کی ناجائز باتوں سے اگر کسی کو تکلیف ہورہی ہو تو ان کو نہ ماننا چاہیےلیکن ادب اور خدمت کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ اگر کوئی مشکل صورت ہو تو شیخ کے ساتھ مشورہ کرنا چاہیے اس کے علاوہ شیخ جو بھی تعیم فرمائے تو اس پر عمل کرنا۔اپنے احوال سے شیخ کو وقت پر ان کے پسندیدہ طریقے پر آگاہ کرنا اور اس کے مطابق پھر عمل کرنا۔اطلاع اور اتباع کا سلسلہ تا اصلاح جاری رہنا چاہیے ۔

مرشد کے حقوق

(1) یہ اعتقاد رکھے کہ میرا مطلب اسی شیخ سے حاصل ہوگا اس لئے صرف اسی کی طرف متوجہ رہے اور اگر کسی اور سے جاگتے میں یا خواب میں فائدہ محسوس ہو تو اس کو بھی اپنے شیخ ہی کی برکت سمجھے ۔

(2) اپنے شیخ کے ساتھ محبت کرے کیونکہ شیخ کے ساتھ عقیدت بھی گو کہ کافی ہے لیکن محبت اس سے زیادہ مفید ہے ۔اصلاح میں شیخ کی محبت کو بہت دخل ہے کیونکہ محبوب کی بات میں کوئی عاشق بات نہیں نکالتا ۔

(3) جو وظیفہ شیخ تعلیم کرے صرف اسے کرے۔ اگر کسی اور نے وظیفہ دیا ہو یا خود سے کوئی وظیفہ شروع کیا ہو تو اس پر شیخ کو مطلع کرے ۔اگر شیخ اجازت دے تو ٹھیک ہے ورنہ بلا تکلف ان وظائف کو چھوڑ دے صرف وہی وظائف جو شیخ نے دیئے ہیں ان کو کافی سمجھے ۔

(4) شیخ کی موجودگی میں ہمہ تن شیخ کی طرف متوجہ رہے ۔فرائض ،واجبات اور سنتوں کے علاوہ نوافل شیخ کی تجویز سے ہی پڑھے ۔اگر وہ روکیں تو بالکل رک جائے۔ اس میں اپنے دل کو سمجھائے کہ مریض کو بعض دفعہ ملائی سے بھی روکا جاتا ہے جو کہ صحت مند ی کے لئے بہت مفید ہے۔

(5) جو کچھ مرشد کہے اس پر نہ اعتراض کرے نہ شیخ کے ساتھ مناظرہ کرے ۔دل میں پھر بھی تشویش ہو تو حضرت موسیٰ ، (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کرلے۔

قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید

(6) مرشد کی آواز پر آواز بلند نہ کرے لیکن اتنی کم آواز سے بھی بات نہ کرے کہ سننے میں تکلیف ہو۔

(7) جو کچھ اپنا حال ہو برا یا بھلا، بلاکم و کاست بیان کرے اس پر شیخ جو تجویز کرے دل وجان سے قبول کرے ۔

(8) اس کے پاس بیٹھ کر کسی وظیفہ وغیرہ میں مشغول نہ ہو اِلاّ یہکہ شیخ خود ہی وظیفہ کرنے کو فرمائے۔

(9) کوئی بھی دینی خدمت کرنی ہو چاہے کتنا ہی اس کے ساتھ تعلق ہو یا اس کا شرح صدر ہو اگر شیخ اس سے روک دے تو بلا تکلف اس سے رک جائے کیونکہ شیخ کو مرُیدکے بارے میں زیادہ معلوم ہے کہ اس کو کس وقت کونسا کام کرنا چاہیے۔

شیخ اور مرُیدکا تعلق

آج کل چونکہ اسی تعلق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے اس طریق میں افراط اور تفریط کا بازار گرم ہے اس لئے اس کو واضح کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ُمریدکے لئے مرشد کی مثال ایک طبیب کی سی ہے یا ایک شفیق راہبر کی۔شیخ مر یدکو اپنی بصیرت کے مطابق طریقہ تعلیم کرتا ہے۔ یعنی مریدکو کچھ کرنے کو بتاتا ہے اور کچھ کرنے سے روکتا ہے ۔جس کے کرنے کے بارے میں بتاتا ہے اس میں کچھ کی مثال تو دوا کی سی ہوتی ہے کہ اس پر عمل اگر نہ ہو تو بیماری کا علاج نہیں ہوگا اور مرض بڑھے گا اور کچھ کی مثال غذا کی سی ہے جس سے روحانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ اور جن سے روکتا ہے اس کی مثال پرہیز کی سی ہے پس اگر کوئی دوا اور غذا کا اہتمام تو کرے لیکن پرہیز نہ کرے تو اس کا بھی علاج نہیں ہو پاتا۔بلکہ اس سے عین ممکن ہے کہ دوا ہی آئندہ کے لئے غیر مؤثر ہوجائے اور شیخ کو بعد میں اپنی دوا تبدیل کرنی پڑے ۔پس شیخ کا کام تعلیم کرنا ہے اور مرُیدکا کام اس پر عمل کرنا ۔اگر مرُیدعمل کرنے کے لئے تیار ہو لیکن شیخ تعلیم نہ کرے تب بھی کام نہیں ہوسکتا اور شیخ تعلیم کرے لیکن مرُیداس پر عمل نہ کرے تب بھی کام نہیں چلے گا ۔اس کے لئے شیخ کی صحبت کی ضرورت ہے اور اس کی غیر موجودگی میں مکاتبت یا کسی اور ذریعے سے رابطے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ ُمر یدکے ذمہ لازم ہے کہ شیخ کو اپنی حالت سے مطلع کرے جیسا کہ مریض ڈاکٹر کو مطلع کرتا ہے اور شیخ جو نسخہ تجویز کرے اس پر مرُیدکو عمل کرنا پڑتا ہے ۔اس باہمی تعلق کو دو الفاظ کے ذریعے یاد رکھا جاسکتا ہے ۔"اطلاع و اتباع "پس مرشد کو بروقت اطلاع کرنا اور شیخ کی تجویز کا اتباع کرنا مرُیدکے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے شیخ کے بارے میں مرُیدکا یقین راسخ ہو کہ یہی شیخ میرے لئے سب سے زیادہ مفید ہے ۔یہ نہیں کہ یہی شیخ سب سے افضل ہے کیونکہ اس کا پتہ تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شیخ کے ساتھ اپنے آپ کو مقید کرے گا اور کسی اور شیخ کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہوگا چاہے وہ دوسرا شیخ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اسی کو توحید مطلب کہتے ہیں ۔اس کی مثال بھی بالکل ایسی ہے کہ علاج کے دوران کسی اور ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا علاج کو بگاڑ دیتا ہے ۔شیخ کے ان چار حقوق کو حضرت خواجہ مجذوب(رحمۃ اللہ علیہ) نے یوں نظم کیا ہے ۔

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد

اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

شیخ کا مقام

بعض حضرات بڑے بڑے مشائخ کی تلاش میں عمر بھر سر گرداں رہتے ہیں اور اپنے قریب کے مشائخ کے فیض سے محروم ہوجاتے ہیں ۔شیخ سے فیض حاصل کرنے کا ذریعہ اس کا بڑ ا ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ مناسبت ہونا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ رابطے کا قائم ہونا ہوتاہے ۔اگر کوئی شیخ بہت بڑا ہو لیکن اس کے ساتھ کسی کو مناسبت نہ ہو یا اس کے ساتھ مناسبت تو ہو لیکن اس کے ساتھ رابطے کے ذرائع کمزور ہوں تو اس سے فائدہ نہیں ہوگا۔شیخ اور مرُیدکے باہمی تعلق میں دو چیزیں مؤثر ہوتی ہیں ۔ایک تو شیخ کا صاحب فن ہونا اور ایک اس کا صاحب برکت ہونا ۔اب اگر کوئی شیخ بہت بڑا ہے تو وہ زیادہ صاحب برکت ہوگا لیکن ان کے فن سے مستفید ہونے کے لئے رابطہ قائم ہونا ضروری ہوتا ہے یعنی اطلاع اور اتباع کا انتظام ہونا ضروری ہے ۔برکت چونکہ اس کی تعلیم میں ہوگی اس لئے اگر تعلیم ہی نہ ہو تو صرف برکت کس چیز میں آئے گی ۔یہی وجہ ہے کہ گو حضرت اویس قرنی (رحمۃ اللہ علیہ) کا مقام بہت بڑا ہے لیکن کسی بھی صحابی سے کم ہے کیونکہ صحابی کو صحبت حاصل تھی جو کہ تمام چیزوں سے زیادہ اہم ہے ۔ صاحب برکت ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ شیخ صاحبِ سلسلہ ہو کیونکہ سلسلہ ہی برکت کا ماخذ ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ بڑے شیخ کے ہاں کچھ اور نزاکتیں بھی آجاتی ہیں۔ ان کے ساتھ نباہنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے بعض لوگ بڑے بڑے مشائخ کے پاس رہ کر بھی محروم ہوجاتے ہیں، جس کی وجوہات ان گنت ہیں۔اس لئے قریب ترین جن مشائخ کے ساتھ مناسبت ہو، ان میں جس کے ساتھ مناسبت زیادہ ہو اور رابطہ آسان ہو، ان کی طرف رجوع کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔بڑے مشائخ بھی بعض اوقات ان ہی وجوہات کی وجہ سے طالبین کو ان کے قریب کے مشائخ کی طرف رجوع کرادیتے ہیں۔بعض حضرات نے اس ضمن میں شیخ کی مثال بجلی کے کھمبے کے ساتھ بھی دی ہے۔ کہ جس کھمبے کے ساتھ بھی اپنے بلب کو لگایا جائے گا تو وہ جلے گا تو اتنا ہی جتنی بلب کی طاقت ہے چاہے وہ کھمبا پاور ہا وس میں ہو یا اس سے دور کسی اور جگہ ۔پس مرُیدکی استعداد کے مطابق ہر اس شیخ سے جس کے ساتھ اس کو مناسبت ہے اتنا ہی فائدہ ہوگا جتنا بڑے مشائخ سے ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات مرُیداپنے شیخ سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مربی حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہ ہر طالب کی طلب کے مطابق اس کے شیخ کے قلب باصفا سے اس کی طلب کے بقدر چشمہ عرفان جاری کرتا ہے۔اس کا بعض اوقات کھلی آنکھوں مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ بعض طالبین کی مجلس میں موجودگی سے شیخ کے قلب پر ایسے عالی مضامین کا ورود ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں پہلے خود شیخ کو بھی پتہ نہیں ہوتا اور اس وقت اس کے سامنے بھی آجاتے ہیں۔ اسی لئے بعض حضرات نے اپنے ملفوظات کے قلمبند کروانے کا بندوبست کیا ہوتا ہے کہ مبادا کسی طالب کی طلب صادق کے طفیل دنیاء عرفان کا کوئی موتی اچانک ہاتھ آجائے تو اس کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔

تصوف کے سلاسل۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا یہ سلاسل صحبت کے سلسلے ہیں۔ مقصد کے اعتبار سے سب ایک ہیں یعنی سب کے ہاں نفس کی اصلاح مقصود ہے لیکن ہر ایک نے اپنے اپنے ذ رائع اختیار کئے ہیں جن کے اپنے اپنے اصول ہیں۔مثلاً سلسلہ چشتیہ میں پہلے رذائل کو دور کرنے پر زور دیاجاتا ہے پھر فضائل پیدا کئے جاتے ہیں اور نقشبندیہ میں فضائل کے پیدا کرنے سے رذائل کو بھی دور کیا جاتا ہے۔سلسلہ قادریہ اور سہروردیہ کے بھی اپنے اصول ہیں ۔جس طرح اپنے شیخ کو اپنے لئے سب سے زیادہ مفید سمجھنے کے ساتھ باقی مشائخ کی تنقیص سے بچنا ضروری ہے اسی طرح ا للہ تعالیٰ نے کسی کی مناسبت جس سلسلے کے ساتھ پیدا فرمائی ہو اس سلسلے سے استفادہ کرتے ہوئے باقی سلاسل کی تنقیص سے اپنے قلب و ذہن کو بچانا ضروری ہے۔

چاروں سلسلوں کے مشائخ کے اسمائے گرامی

سلسلہ چشتیہ کے سرخیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ان کے آگے پھر دو شاخ ہیں چشتیہ صابریہ کے سرخیل حضرت صابر کلیری (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں اور چشتیہ نظامیہ کے سرخیل حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں،سلسلہ قادریہ کے سرخیل حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)،سلسلہ سہروردیہ کے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللہ علیہ) اور سلسلہ نقشبندیہ کے حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبندی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ شجرہ اور اس کی اہمیت۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناصب جو اللہ تعالیٰ نے قُرآن میں بیان فر مائے ہیں چار ہیں۔یعنی قُرآن کی تلاوت سکھانا،صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کا تزکیہ کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔قُرآن کی تلاوت کے شعبے کی ذمہ داری قرّا ءحضرات نے ،تزکیہ کی صوفیاء کرام نے اور علم و حکمت کی علماءکرام نے۔علماء کرام میں محدثین کرام نے احادیث شریفہ کو اُمت تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔اس مقصد کے لئے وہ اپنی سندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی سندوں کو اس ترتیب سے روایت کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک روایت پہنچی ہوتی ہے۔بعینہ اسی طرح صوفیاء کرام اپنی نسبت کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک نسبت پہنچی ہوتی ہے۔نسبت کی اسی ترتیب کا بیان شجرہ کہلاتا ہے۔بعض حضرات نے اپنا شجرہ منظوم انداز میں چھاپا ہوتا ہے اور برکت کو حاصل کرنے کے لئے اس کو پڑھتے ہیں۔یہ دعائیہ شکل میں بھی ہوتی ہے اور مریدین اپنی دعا کی قبولیت کے لئے اس نسبت کو بطور وسیلہ پکڑتے ہیں۔

بندہ کی نسبت

بندے کو حضرت صوفی محمد اقبال مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) سے بواسطہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا(رحمۃ اللہ علیہ) چاروں سلسلوں میں اور ان ہی سے بواسطہ حضرت مولانا ابوالحسن ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) طریقہ قادریہ راشدیہ میں اور بواسطہ حضرت علی مرتضےٰ(رحمۃ اللہ علیہ) کے سلسلہ نقشبندیہ میں ،حضرت سید تنظیم الحق حلیمی مدظلہ سے بواسطہ حضرت مولانا فقیر محمد (رحمۃ اللہ علیہ) کے چاروں سلسلوں میں اور ان ہی سے بواسطہ حضرت سیف الرحمٰن گل بادشاہ المعروف میخ بند باباجی (رحمۃ اللہ علیہ) سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، معصومیہ مجددیہ میں اور حضرت ڈاکٹر فدا محمد صاحب مدظلہ سے بواسطہ مولانا محمد اشرف (رحمۃ اللہ علیہ)چاروں سلسلوں میں اجازت حاصل ہے ۔اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے اس حسن ِظن کو بندے کے حق میں قبول فرماکر اپنی خالص بندگی میں قبول فرمائے۔ آمین

اُمور تصوف

اب چند سطروں میں تصوف کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جو کہ مشہور کتا ب شریعت اور طریقت سے لیا گیا ہے۔اس کو بلاشبہ تصوف کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے۔

(1)مقصود

یہ دو قسم کے ہیں

(1.1) اعمال

(1.2) ثمرات

(2)غیر مقصود

یہ تین قسم کے ہیں

الف) ذرائع )

ب) توابع )

ج ) موانع)

(1) الف ۔ اعمال دو قسم کے ہیں ۔

(1.1.1)جلبی اعمال

جلب کسی چیز کے حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ پس اس سے اخلاق حمیدہ جیسے اللہ کی محبت ،صبر ،شکر ،اخلاص ،تفویض،تواضع ،رضا ،صدق وغیرہ کا حاصل کرنا مطلوب ہے۔

(1.1.2)سلبی اعمال

سلب کسی چیز کے دور کرنے کو کہتے ہیں۔پس اس سے اخلاق رذیلہ جیسے دنیا کی محبت ریاء ،تکبر ، حسد ،کینہ ،بغض ،بے صبری ،ناشکری و غیرہ سے چھٹکارہ حاصل کرنا مطلوب ہے۔

(1) ب- ثمرات(نتائج ) بھی دو قسم کے ہیں

بندے کی طرف سے ہمہ وقت بندگی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا اور قرب خاص کا حاصل ہونا جس کو وصول بھی کہتے ہیں۔

(2) الف ۔ذرائع بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔

مجاہدہ

، جس میں کم بولنا، کم کھانا ،کم سونااور ناجنس یعنی جن سے ملنے میں نقصان کا اندیشہ ہو ان سے کم یعنی صرف بضرورت ملنا جلنا شامل ہیں اور

فاعلہ

یہ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی وہ جو مفید ہیں اور ان میں کوئی خطرہ بھی نہیں ان میں ذکر ، شغل اور مراقبہ آتے ہیں اور وہ جو مفید تو ہیں لیکن ان میں خطرہ بھی ہے ۔ ان میں تصور شیخ ، عشق مجازی اور سماع آتے ہیں ۔

(2 )ب -توابع

یعنی سلوک میں ان سے کوئی چاہے یا نہ چاہے پالا پڑسکتا ہے اور یہ سب غیر اختیاری ہیں۔یہ بھی دو قسم کے ہیں یعنی وہ جن میں نقصان کا احتمال ہے اور وہ جن میں کوئی نقصان نہیں ۔

جن میں نقصان کا احتمال ہے وہ یہ ہیں

(1) سکر کے ساتھ وحدۃ الوجود

یعنی وحدۃ الوجود میں بغیر قصد کے شرعی تشریحات کا ذہن میں نہ ہونا اور ایسی باتوں کا منہ سے نکل جانا جس پر شریعت گرفت کرتی ہو۔

(2) کشف الہٰی

علوم و اسرار و معارف متعلق ذات و صفات الہٰی کا قلب پر ورود کرنا

(3)کشفِ کونی

یعنی جن کو عام لوگ نہیں دیکھ سکتے ان کا نظر آنا ،چاہے وہ گزشتہ وقت کے حالات ہوں یا آئندہ کے واقعات، یا غائب چیزیں دور یا قریب کی ہوں۔

(4) اِستغراق

کسی کیفیت میں ہمہ تن متوجہ رہ کر باقی چیزوں کو بھول جانا۔

(5) تصرف

اپنی ہمت و توجہ سے کسی شخص یا چیز کو متاثر کرنا۔

(6) قبض و بسط

واردات قلبی کا موجود نہ ہونا قبض اور اسکا موجود ہونا بسط کہلاتا ہے ۔ دل پر منجانب اللہ جو کیفیات القاء کی جاتی ہیں ان کو واردات قلبی کہتے ہیں۔

(7) کرامت

کسی نیک مسلمان کے ہاتھ سے ایسے کام کا ہوتے نظر آنا جو کہ عام فطری قوانین کے مطابق ممکن نہ ہو۔

(8) مشاہدہ

کسی امر یا ہستی کا کامل استحضار۔اس کو کیفیت حضوری بھی کہتے ہیں ۔اس میں سالک کو اپنے آپ کی خبر نہیں رہتی اس لئے اس سے ایسی حرکات کا ظہور ہوسکتا ہے جو عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں۔

اور وہ توابع جن میں ضرر کا احتمال نہیں ہے ان میں چند درج ذیل ہیں

(1) وجد

کسی عجیب و غریب محمود حالت کا طاری ہوجانا۔

(2) رویائے صالحہ

اچھے خوابوں کا نظر آنا۔

(3) اجابت دعا

دعاؤں کا قبول ہونا۔

(4) الہام

کسی ولی کے دل میں حق تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کا القا ء ہوجانا۔

(5) فناء و بقاء

رذائل کا دل سے اتر جانا فناء ہے اور فناء کا بھی دل سے اتر جانا یعنی خود فناء کے حاصل ہونے کو نہ جاننا بقاء ہے۔ بعض لوگ اس کو فناء الفناء بھی کہتے ہیں۔

(6) وحدۃ الوجود بغیر سکر

دل کا صر ف اللہ سے متعلق ہونا جیسے سورج ہو تو تارے نظر نہیں آتے ۔

(7) فراستِ صادقہ

یعنی سچی اٹکل جو واقع کے مطابق ہو۔اس کو بصیرت بھی کہتے ہیں۔

(2) ج ۔ موانع

وہ اُمور جن سے سالک اپنے مقصد سے دور ہٹ جاتا ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ کی گئی تو عباد الرحمٰن کی بجائے عباد الشیطان میں سے ہوسکتا ہے ۔وہ یہ ہیں۔

(1) حسن پرستی

کسی شخص کے حسن میں ایسا محو ہوجانا کہ شریعت کے احکامات کی پرواہ نہ رہے ۔یہ انتہائی مذموم حرکت ہے۔صوفیاء کے کلام سے بعض لوگوں کو اس کا شبہ ہوجاتا ہے جس کی نا سمجھی سے غلط تعبیر کرکے اپنی عاقبت خراب کر بیٹھتے ہیں ۔چاہے وہ شخص عورت ہو یا مرد یا امرد۔اللہ تعالیٰ بچائے۔آمین

(2) تعجیل

کسی کیفیت کو حاصل کرنے کے ایسے درپے ہوجانا کہ راہ سلوک کی احتیاطیں پیش نظر نہ رہیں ۔اس سے سالک کا دل پریشان ہوکر ہمت ہار جاتا ہے ۔بسا اوقات شیخ کے ساتھ بدگمانی تک ہوجاتی ہے ۔

(3) تصنع

سالک کو جو حالت حاصل نہیں ہے اس کا حاصل کیا ہوا اپنے آپ کو دکھا نا ۔

(4) مخالفت ِسنت

سلوک کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو سنت کا مخالف ہو اس لئے سنت کی مخالفت کا کوئی راستہ نہیں ۔سالک کا کسی امر میں قصداً سنت کی مخالفت اس کو سلوک سے بہت دور گرادیتا ہے۔

(5) مخالفت ِشیخ

سلوک میں شیخ کے بتائے ہوئے طریقے کی مخالفت کرنا۔

حاصل مطالعہ

ان اصطلاحات کے تعارف سے اب پتہ چل چکا ہوگا کہ یہ سب اُمور متعلق شریعت ہی کے ہیں اور عوام میں جو یہ شائع ہو گیا ہے کہ طریقت اور چیز ہے اور شریعت اور چیز ، محض غلط اور بے بنیاد ہے ۔جب حقیقت سلوک معلوم ہو گئی تو اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس میں نہ کشف و کرامات ضروری ہیں نہ قیاُمت میں بخشوانے کی ذمہ داری ہے ،نہ دنیا میں کار برآری کا وعدہ ہے کہ تعویذ گنڈوں سے کام بن جائیں یا مقدمات دعا سے فتح ہو جایں یا روزگار میں ترقی ہو یا جھاڑ پھونک تعویذات سے بیماری جاتی رہے یا ہونے والی بات بتا دی جایا کرے ،نہ تصرفات لازم ہیں کہ پیر کی توجہ سے مرُیدکی از خود اصلاح ہو جائے ۔اس کو گناہ کا خیال بھی نہ آئے ،خود بخود عبادت کے کام ہوتے رہیں۔ مرُیدکو ارادہ نہ کرنا پڑے یا ذہن و حافظہ بڑھ جائے ۔نہ ایسی باطنی کیفیات پیدا ہونے کی ضمانت کہ عبادت کے وقت لذت سے سر شار رہے ،عبادت میں کوئی خطرہ ہی نہ آئے یا یہ کہ خوب رونا آئے یا ایسی محویت ہو جائے کہ اپنی پرائی خبر نہ رہے ،اور نہ ذکر و شغل میں انوار وغیرہ کا نظر آنا نہ کسی آواز کا سنائی دینا ضروری ہے ۔نہ اچھے خوابوں کا نظر آنا یا الہامات کا ہونا لازمی ہے ۔بس اصل مقصود حق تعالیٰ کی رضا ہے اسی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ،جو ان کے نصیب میں ہوتی ہے جن کو خشیت حاصل ہوتی ہے۔

سالک کے لئے مفید کتب۔

تفسیر

معارف القُرآن مؤلفہ حضرت مفتی محمد شفیع (رحمۃ اللہ علیہ) ، تفسیر عثمانی اور تفسیر مظہری۔

حدیث

ریاض الصالحین اور معارف الحدیث مؤلفہ مولانا منظور نعمانی، (رحمۃ اللہ علیہ)۔

فقہ

بہشتی زیور مؤلفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) اور تعلیم الاسلام مؤلفہ مفتی کفایت اللہ (رحمۃ اللہ علیہ)۔

تصوف

بندہ کی کتاب تصوف کا خلاصہ

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے افادات پر مشتمل کتاب شریعت و طریقت

حضرت مولانا محمداشرف صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب سلوک سلیمانی3جلدیں۔

بندہ کی زیر طبع کتاب فہم التصوف اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے مواعظ اور ملفوظات۔

فضائل

حضرت شیخ الحدیث (رحمۃ اللہ علیہ) کی فضائل اعمال ، فضائل درود شریف اور فضائل حج۔

معذرت

بندہ نے عوام کو پریشانی سے بچانے کے لئے اس کا اہتمام نہیں کیا کہ مضمون کا کونسا حصّہ کہاں سے لیا گیا ہے ۔روانی اور اختصار کے لئے اس کوایسا لکھا ہے جیسا کہ ایک ہی شخص کے قلم سے لکھا گیا ہو۔بندہ کو اپنے الفاظ کے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کہ یہ بندہ کے اپنے ہیں بلکہ جو کچھ تحریر کیا اپنے شیخ حضرت مولانا محمد اشرف صاحب (رحمۃ اللہ علیہ)،حضرت صوفی محمد اقبال صاحب مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) اور حضرت شیخ(رحمۃ اللہ علیہ)(رحمۃ اللہ علیہ) الحدیث(رحمۃ اللہ علیہ) و دیگر اکابر کی برکت ہے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔

ضروری نوٹ

الف) اگر شرعی رکاوٹ نہ ہو تو اپنا حال بالمشافہ یا بذریعہ ٹیلیفون شیخ کو بتائے۔ ، نہیں تو خط کے ذریعے۔) (خواتین کے لئے بالمشافہ رابطہ زیادہ مناسب نہیں ہے۔)

ب) شیخ کی جو تحقیق ہو اس کو جاننے کے بعد اس پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آرہی ہو تو پھر پوچھ لیا جائے۔

ج) اپنے شیخ کو کل عالم میں اپنے لئے سب سے بہتر سمجھیں۔ یہ نہیں کہ اس کو سب سے افضل سمجھیں کیونکہ اس کا علم توصرف اللہ تعالیٰ کوہی ہے اور فقیر تو بہت گنہگار ہے اللہ تعالیٰ ستاری فرمائے ۔

د)۔ روحانی اصلاح کے لئے صرف اپنے شیخ سے تعلق رکھیں ۔کبھی کسی اور پراپنا حال ظاہر نہ کریں اس سے بعض اوقات سخت نقصان ہوسکتا ہے۔ اسی کو توحید مطلب کہتے ہیں ۔ بقول حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب (رحمۃ اللہ علیہ )خلیفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ)

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد

اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

فقیر سے متعلق حضرات کے لئے ابتدائی ہدایات

بیعت کے وقت کی تعلیم میں جو کچھ بتایا گیا ہے اس کو فقیر کی طرف سے بھی سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل باتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔

(1) فقیرکے دئیے ہو ے ذکر کے ساتھ کلمہ سوم 100 بار ، درود شریف 100 بار ، استغفار 100 بار صبح شام ذکر کیا جائے ۔ ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ ، 34 بار اللہ اکبر ۔ تین بار درود شریف پڑھیں ۔ تین بار کلمہ طیبہ اور تین بار استغفار کا ذکر کیا جائے اور ایک بار آیت الکرسی کی تلاوت کی جائے ۔

(2) نوافل کا جو معمول ہو اس کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے اگر نہ ہوسکے تو فقیرکیساتھ اس کے بارے میں مشورہ کیا جائے ۔ خود سے اپنے لئے نوافل یا نفلی عبادت کا معمول مقرر نہ کیا جائے ۔

(3) جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات درود شریف کی کثرت اور جمعہ کے روز سورۃ کہف کی تلاوت کا خاص خیال رکھاجائے اور جمعہ کے آخر وقت میں اپنے لئے ، فقیر کے لئے اور پوری اُمت کے لئے دعائیں کرنے کی کوشش کی جائے ۔

(4) روزانہ کم از کم آدھا پارہ تلاوت کی جائے۔ اگر قرٲت نہ کرسکتا ہو تو جلد از جلد اس کو سیکھنے کی اور اگر مخارج درست نہ ہوں تو ان کی درستگی کا بندو بست کیا جائے ۔

(5) اپنے ہاتھ ، زبان اور قلم کے شر سے ہر کسی کو بچائیں۔ جس چیز میں نہ دین کا فائدہ ہو نہ دنیا کا اس میں مشغول ہونے کو سب سے بڑی حماقت جانیں اور اس سے بچیں ۔ کوشش کی جائے کہ بشرط تحمل ہر کسی کو فائدہ پہنچایا جائے اس کے لئےاللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرے اور خود کوشش بھی ۔ خط کشیدہ بات کے لئے فقیر سے مشورہ مفید ہوگا۔

(6) بیویوں اور بچوں کے بارے میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ نہ تو ان پر ظلم ہو چاہے اس کے لئے کوئی بھی آمادہ کرے اور نہ ہی ان کے لئے کسی پر ظلم ہو ۔ ان کو فتنہ کہا گیاہے ۔ اس لئے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔

(7) جس بات کی تحقیق نہ ہو اس کو آگے نہ پھیلائیں ۔ بالخصوص جس میں کسی مسلمان کی تذلیل کا پہلو نکلتا ہو نیز مجلس میں یا کسی بھی موقعہ پر کسی کا مذا ق اڑانا ، اس کو برے نام سے پکارنا ، اس کی نسل یا پیشے پر انگلی اٹھانا سخت ممنوع ہے۔

(8) جو چیزیں اختیاری ہیں مثلاً نماز روزہ یا شریعت میں مطلوب دوسرے اعمال ،ان میں سستی نہ کریں اور جو چیزیں غیر اختیاری ہیں مثلاً مزہ ، شوق و ذوق یا دوسرے احوال وغیرہ جو محظ وہبی ہیں ان کی فکر نہ کریں پھر ان دونوں میں جو حاصل ہوں اس پر شکر کریں۔ اختیاری اعمال میں کوتاہی پر استغفار اور نداُمت کے ساتھ آئندہ کوشش کا عزم ہو اور غیر اختیاری احوال میں جو محمود احوال حاصل نہ ہوں ان میں اپنے لئے خیر سمجھیں۔

(9) گھر میں بہشتی زیور کا رکھنا بہت مفید رہتا ہے۔اس میں اہل سنت و الجماعت کے عقائد لکھے گئے ہیں ان کے مطابق عقائد رکھے جائیں اور ضرورت کے وقت مسائل بھی معلوم ہوسکتے ہیں۔حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے مواعظ اور ملفوظات کا مطالعہ روحانی ترقی کے لئے بہت مفید ہے۔

(10) مرد متعلقین کو اپنی بیویوں کے حقوق واجبہ کا بہت خیال رکھنا چاہیے ۔جو اولاد والے ہیں ان کو اولاد کی تربیت کی طرف خوب توجہ کرنا چاہیے۔جو شادی شدہ نہیں ان کو اپنی حفاظت کے لیئے فقیر سے فوراً مشورہ کرنا چاہیے ۔اس طرح جن خواتین کا فقیر کے ساتھ اصلاح کا تعلق ہے اگر وہ شادی شدہ ہیں تو ان کو اپنے شوہروں کی دل سے خدمت کرنا چاہیے اور اولاد کی تربیت میں شوہر کی مدد کرنی چاہیے ۔اگر وہ شادی شدہ نہیں ہے تو اپنے والدین اور بہن بھایئوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنا چاہیے اور مناسب رشتہ ملے تو انکار نہیں کرنا چاہیے

اخلاق

اخلاق خُلق کی جمع ہے۔ خَلق اور خُلق دو جدا جدا لفظ ہیں ۔خَلق سے مراد صورت ظاہری ہے اور خُلق سے مراد صورت باطنی ۔کیونکہ انسان جس طرح جسم سے ترکیب دیا گیا ہے اور ہاتھ پاؤں اور آنکھ کان وغیرہ اعضاء اس کو مرحمت ہوئے ہیں ۔جن کا قوت بصارت یعنی چہرے کی آنکھیں ادراک کر سکتی ہیں ،اس طرح انسان روح اور نفس سے ترکیب دیا گیا ہے اور اس کا ادراک بصیرت یعنی دل کی آنکھ کرتی ہے ۔یہ ترکیب ان ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ان دونوں ترکیبوں میں حق تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جدا جدا صورت اور قسم قسم کی شکلوں پر پیدا فرمایا ہے ۔کہ کوئی صورت اور سیرت حسین اور اچھی ہے اور کوئی سیرت اور صورت بری ہے بھونڈی ہے ۔ظاہری ہئیت اور شکل کو صورت کہتے ہیں اور باطنی شکل اور ہئیت کو سیرت کہتے ہیں ۔سیرت کا مرتبہ صورت سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کو حق تعالیٰ نے اپنی جانب منسوب کیا ہے چنانچہ "وَنَفَخْتُ فِیْہٰ مِنْ رُّوْحِی" یعنی آدم علیہ السلام کے پتلے میں میں نے اپنی روح کو پھونک دیا ۔ اس آیت کریمہ میں روح کو اپنا کہہ کر ذکر فرمایا "قُلِ الرُّوْحْ مِنْ اَمْرِ رَبّیْ" یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کا امر ہے ۔ اس میں اس امر کا اظہار فرمایا ہے کہ روح امر ربّی ہے اور جسم کی طرح سفلی اور خاکی نہیں ہے ۔کیونکہ جسم کی نسبت مٹی کی جانب فرمائی ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے "وَاِنّیْ خَا لِقٌ م بَشَراً مِّنْ طِی" اس مقام پر روح سے مراد وہ شے ہے جو حق تعالیٰ کے الہام اور القائ سے اپنی اپنی استعداد کے موافق اشیاء کی معرفت اور ادراک حاصل کر سکتی ہے۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ زیادہ قابل لحاظ امر ربانی یعنی سیرت انسانی ہے کہ جب تک اس باطنی ترکیب کی شکل اور ہئیت میں حسن موجود نہ ہوگا اس وقت تک انسان کو خوب سیرت نہیں کہا جا سکتا اور چونکہ اس صورت کے اعضاء ہاتھ پاؤں کی طرح سیرت کو بھی اللہ تعالیٰ نے باطنی اعضاء مرحمت فرمائے ہیں جن کا نام قوت علم، قوت غضب، قوت شہوت ،قوت عقل اور قوت عدل ہے ۔لہٰذا جب تک یہ سارے اعضاء سڈول اور متناسب اور حد اعتدال پر نہ ہونگے اس وقت تک سیرت کو حسین نہیں کہا جائے گا ۔ان باطنی اعضاء میں جو بھی کمی بیشی ہو گی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کسی کی ظاہری شکل و صورت جسمیہ میں افراط و تفریط ہو کہ پاؤں مثلاً گز بھر ہوں اور ہاتھ تین گز کے یا ایک ہاتھ مثلاً آدھا گز کا ہو اور دوسرا گز بھر کا اور ظاہر ہے کہ ایسے آدمی کو خوب صورت نہیں کہا جائے گا ۔پس اسی طرح اگر کسی کی قوت غضبیہ مثلاً حد اعتدال سے کم ہو اور قوت شہوانیہ اعتدال سے بڑھی ہوئی ہو تو اس کو خوب سیرت نہیں کہہ سکتے ۔اب ہم چاروں اعضاءے مذکورہ کا اعتدال اور تناسب اور حسن بیان کرتے ہیں ۔

(1) قوت علم

انسان جان سکتا ہے، پہچان سکتا ہے اور یاد رکھ سکتا ہے اس کا نام علم ہے -اس کا اعتدال یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعے سے اقوال کے اندر سچ جھوٹ میں اُمتیاز اور اعتقادات کے متعلق حق اور باطل میں فرق کر سکے اور اعمال میں حسن و قبح یعنی اچھا اور برا پہچان سکے ۔پس جس وقت یہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو اس وقت حکمت کا وہ ثمرہ پیدا ہوگا جس کو حق تعالیٰ بایں الفاظ ارشاد فرماتے ہیں ۔ "وَمَنْ یُّوْتَی الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْراً کَثِیْراً" یعنی جس کو حکمت عطا ہوئی اس کو خیر کثیر عطا ہوئی ۔ اور حقیقت میں تمام فضیلتوں کی اصل اور جڑ یہی ہے ۔اس میں کمی جہالت ہے اور زیادتی گمراہی ہے۔سمجھنے کے لئے یہ کافی ہے کہ جتنا علم حاصل کرنے کا حکم ہے اس سے کم جہالت ہے اور جن چیزوں کا علم ہمارے لئے مفید نہیں یا اس میں افراط مفید نہیں مثلاً تقدیر یا ذات باری تعالیٰ کے بارے میں غور و فکر وغیرہ یہ گمراہی ہے۔پس سب سے ضروری علم یہ ہے کہ ہمیں اس کا علم ہو کہ کس کس چیز کا علم اور کتنا ہمارے لئے مفید ہے اس میں نہ تو افراط کریں نہ تفریط۔ایسے لوگوں کو قُرآن میں راسخون فی العلم کہا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں سے کردے ۔آمین۔

(2)قوت غضب

انسان کی طبعیت جن چیزوں کو پسند نہیں کرتی ان کو دور کرنا چاہتا ہے جس قوت سے یہ کام لیا جاتا ہے وہ قوت غضب ہے ۔اسکے اعتدال کا نام شجاعت ہے ۔اور یہی عند اﷲ پسندیدہ ہے ۔ کیونکہ اگر اس میں زیادتی ہوگی تو اس کا نام تہوّر اور بے باکی ہوگا ۔اور اگر کمی ہوگی تو بزدلی کہلائے گی ۔اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں حالتیں نا پسندیدہ ہیں ۔حالت اعتدال یعنی شجاعت سے لطف و کرم ،دلیری و جودت و بردباری استقلال نرمی و ملاطفت اور غصہ کے ضبط کا مادہ نیز ہر کام میں دور اندیشی و وقار پیدا ہوتا ہے ۔اور اگر زیادتی ہوتی ہے تو نا عاقبت اندیشی ،ڈینگ مارنا،شیخی بگھارنا،غصہ سے بھڑک اٹھنا ،تکبر اور خود پسندی پیدا ہوتی ہے ۔اور اگر اس میں کمی ہوتی ہے تو بزدلی و ذلت بے عزتی ،کم ہمتی ،خساست ،کمینہ پن،اور وہ حرکات ظاہر ہوتی ہیں جو چھچھور پن کہلاتی ہیں ۔

(3)قوت شہوت

انسان کو طبعاً جو چیزیں پسند ہوتی ہیں ان کو اپنانا چاہتا ہے ۔جو قوت اس میں کارفرما ہوتی ہے اس کو قوت شہوت کہتے ہیں۔ اس کی حالت اعتدال کا نام پارسائی ہے ۔ اگر یہ اپنے حد اعتدال سے بڑھ جائے تو حرص و ہوا کہلائے گی اور گٹھ جائے تو بے کار محض ہو کر معاشرے کا عضو معطل ہوجاتا ہے ۔حالت معتدل یعنی پارسائی اللہ پاک کو پسند ہے اور اس سے جو فضائل پیدا ہوتے ہیں وہ سخاوت ،حیا، صبر ، قناعت و اتقائ، کہلاتے ہیں ۔طمع کم ہو جاتی ہے ۔خوف و خشیت اور دوسروں کی مدد کرنے کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور اعتدال سے بڑھنے اور گھٹنے سے حرص و لالچ ،خوشامد ،چاپلوسی ،امراءکے ساتھ تذلل،اور افقراء کو بنظر حقارت دیکھنا ، بے حیائی ،فضول خرچی ،ریا ،تنگ دلی ،نا مردانگی ،اور حسد وغیرہ خصائلِ بد پیدا ہوتے ہیں ۔

(4)قوت عقل

اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت انسان کو عطا فرمائی کہ اس کے ذریعے انسان اپنے علم سے کام لے سکتا ہے کیونکہ محض علم کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے استعمال کے لئے عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔بارہا دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ معلومات تو کافی رکھتے ہیں لیکن ان کے استعمال کا ان کو سلیقہ نہیں ہوتا جس کی وجہ ان میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔کم عقل لوگوں پر جذبات زیادہ حاوی ہوتے ہیں اور عقلمند لوگ جذبات کے حاکم ہوتے ہیں ۔قوت عقل میں اگر اعتدال ہوتا ہے تو انسان مدبر اور منتظم اور ذکی اور سمجھ دار ہوتا ہے ۔اس کی رائے صائب(درست)ہوتی ہے اور ہر مضمون میں اس کی طبیعت چلتی ہے ۔اور جودت دکھلاتی ہے اور اگر حد اعتدال سے بڑھ جائے تو دھوکہ بازی ،فریب دہی ،اور مکاری کہلاتی ہے ۔اور اگر عقل کی قوت میں کسی قسم کا نقصان اور ضعف ہو گا تو کند ذہنی و حماقت اور بے وقوفی کہلائے گی ۔جس کا اثر یہ ہوگا کہ ایسا آدمی جلدی دوسرے کے دھوکے میں آجائے گا۔

(5) قوت عدل

یہ وہ قوت ہے جو قوت عقل اور علم کو استعمال کرکے قوت غضب اور شھوت کو ان کے صحیح موقع پر استعمال کرا تی ہے ۔یہ قوت علم سے روشنی لیتی ہے اور عقل سے فہم اور شریعت سے رہنمائی جس سے قوت غضب اور شھوت کے افراط تفریط کے اثرات کو جان کر ان کو اپنے اپنے موقعہ پر اعتدال کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ جس وقت یہ حالت قابل اطمینان اور لائق تعریف ہو جائے گی اس وقت انسان صاحب حسن خُلق اور خوب سیرت کہلائے گا ۔اصل میں یہ قوت دوسری قوتوں کا آپس میں بہترین رابطہ ہے۔ غرض جس وقت یہ ساری قوتیں حد اعتدال پر ہونگی تو اس وقت انسان کو خوب سیرت کہا جائے گا ۔کیونکہ اعتدال سے بڑھنا اور گھٹنا دونوں حالتیں حسن سے خارج ہیں ۔ "خَیْرُ الاُمُوْرِاَوْسَا طُھَا" نیزحق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے بندے وہ ہیں کہ نہ وہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل بلکہ اس کے بین بین حالت پر رہتے ہیں ۔ جس طرح حسن ظاہری میں کمی و بیشی ہوتی ہے کہ کوئی زیادہ خوب صورت ہے اور کوئی کم اسی طرح حسن باطنی میں بھی لوگ متفاوت ہوتے ہیں ۔پس سب سے زیادہ حسین سیرت تو سرور عالم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کی شان میں یہ آیت کریمہ "اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ " نازل ہوئی ہے ۔ آپ کے بعد جس مسلمان کو آُ پ کے اخلاق کے ساتھ جتنی مناسبت ہوگی اسی قدر اس کو حسین سیرت کہیں گے اور ظاہر ہے کہ سیرت باطنی میں جس قدر بھی جس کو حسن حاصل ہوگا اسی قدر اس کو سعادت اخروی حاصل ہوگی۔ اخلاق سب فطری ہیں ۔ اخلاق سب فطری جبلی ہیں ۔اور درجئہ فطرت میں کوئی خلق نہ مذموم ہے نہ محمود بلکہ مواقع استعمال سے ان میں مدح و ذمّ آجاتی ہے ۔ "مَنْ اَعْطیٰ ﷲِ فَقَدِاسْتَکْمَلَ الاِیْمَانَ" ’’یعنی جس نے اﷲ ہی کی رضا کے لئے دیا ،اور اللہ ہی کی رضا کے لئے روکا تو اس کا ایمان مکمل ہوا ‘‘ اس میں اعطیٰ اور مَنَعَ دونوں کے ساتھﷲ کی قید ہے جس سے معلوم ہوا کہ سخاوت مطلقاً محمود نہیں نہ بخل مطلقاً مذموم ہے ۔بلکہ اگر خدا کے لئے ہو تو دونوں محمود ہیں ورنہ دونوں مذموم ہیں ۔اخلاق ذمیمہ جن سے نفس کا تزکیہ کرانا ضروری ہے ،یوں تو بہت ہیں مگر اصول یہی ہیں جن کا آئیندہ ذکر آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور ان میں باہم ایسا تعلق ہے کہ ایک کے ساتھ دوسرا اور دوسرے کے ساتھ تیسرا لگا ہوا ہے ۔اس لئے جب تک سب ہی سے نجات نہ ملے گی اس وقت تک نفس قابو میں نہ آوے گا ۔اور ایک کی اصلاح کرنا اور دوسرے سے بے پرواہ رہنا اس سے کچھ نفع نہ ہوگا ،کیونکہ جو شخص دس بیماریوں میں گرفتار ہووہ تندرست اس وقت کہلایا جا سکتا ہے جب کہ اس کی دسوں بیماریاں جاتی رہیں ۔جس طرح کوئی خوب صورت آدمی حسین اسی وقت کہلایا جا سکتا ہے جبکہ ہاتھ ،پاؤں ،آنکھ ،کان غرض سارے اعضاء مناسب ہوں اور خوبصورت ہوں ۔ اسی طرح انسان کو حسن خُلق اسی وقت حاصل ہو گا جب کہ اس کی تما م باطنی حالتیں قابل تعریف اور پسندیدہ ہوں ۔رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان وہی ہے جس کا خُلق کامل ہو اور مومنین میں افضل وہی ہے جس کا خلق سب سے بہتر ہو پس اسی اصل کا نام دین ہے ۔اور اسی کی تکمیل کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تھے ۔ مروجہ اخلاق صرف اخلاق کا ایک جزو ہو سکتا ہے۔

بعض لوگ اخلاق کو مروت کے معنیٰ میں لیتے ہیں جو کہ صرف اخلاق کا جزو ہو سکتا ہے ۔اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتا ہے ۔بات چیت اچھی طرح کرتا ہے یا کسی کے کام کوئی آتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کے بہت اچھے اخلاق ہیں اور ملنسار ہے وغیرہ وغیرہ حالانکہ اوپر اخلاق کے بارے میں تفصیل جاننے سے پتہ چلا کہ یہ صرف اخلاق کا جزو ہوسکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب یہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو ۔اگر خدا کے لئے نہ ہو اس سے کوئی دنیاوی مقصد وابستہ ہو تو پھر جزو بھی نہیںکاروبار ہے ۔ اس سے کافروں کی یا کمزور مسلمانوں کی ان اچھی صفات کی نفی نہیں کیونکہ ان کو بھی یہ اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کی ہوئی ہیں اس لئے وہ قابل تعریف تو پھر بھی ہیں جیسے حاتم طائی کی سخاوت کی آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے تعریف فرمائی ۔پس اگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے نہ ہو تو اس کا صلہ ان کو دنیا میں تو مل جائے گا کہ لوگ ان کی تعریف کریں گے یا ان کے دوسرے دنیاوی کاموں میں لوگ ان کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں گے لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ہوگا۔ اور ظاہر ہے یہ کتنی بڑی محرومی ہے کہ عمل بھی کیا اور فائدہ بھی نہیں ہوا۔دوسری طرف اگر کچھ ایسے دنیاوی مقاصد کے لئے استعمال کی جائیں جن کا حاصل کرنا ان کے لئے جائز نہیں تھا تو پھر یہ دھوکہ ہے فریب ہے ۔اخلاق کے پردے میں بد اخلاقی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔

اخلاق کی قسمیں

اخلاق باطنہ کی دو قسمیں ہیں ۔ایک قسم کا تعلق دل کے ساتھ اور دوسری کا نفس کے ساتھ۔ جن کا تعلق دل کے ساتھ ان کو اخلاق حمیدہ و ملکات فاضلہ کہتے ہیں اوران کو مقامات سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً توحید ،اخلاص ،توبہ ،محبت الٰہی ،قوت زہد و توکل ،قناعت ،حلم ،صبر ،شکر ،صدق ، تفویض ،تسلیم ،رضا ،فناء ،فناء الفناء ۔جس قلب میں یہ اخلاق جمع ہوں اس کو قلب سلیم کہا جاتا ہے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ یو م ینفع مال و لا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم ۔ یعنی اس دن کسی کے اس کا مال اور بیٹے کام نہیں آئیں گے مگر وہ سلیم دل جو وہ اللہ کے پاس لائے گا۔ جن کا تعلق نفس کے ساتھ ہے ان کو اخلاق رذیلہ کہتے ہیں مثلاً طمع ،طول امل ،غصہ دروغ ،غیبت ،حسد ،بخل ،ریا ،عجب ،کبر ،حقد ،حب مال ،حب جاہ،حب دنیا ،حب باہ وغیرہ اخلاق رذیلہ ہیں ،ان سے نفس کو پاک کرنے کا نام تزکیہ نفس ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے "قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا " یعنی وہ مراد کو پہنچا جس نے اس نفس کو پاک کیا ۔

فضائل کو درجہ ضرورت میں حاصل کرنا اور رذائل سے چٹکارہ حاصل کرنا فرض عین ہے اور اسی کو اصلاح نفس کہتے ہیں ۔اسی پر کامیابی موقوف ہے جیسا کہ اوپر ذکر آچکا۔ اسی کے لئے تصوف ہے اور اسی کے لئے مشائخ کی جوتیاں سیدھی کی جاتی ہے ۔بظاہر تو یہ بہت مختصر سا نصاب ہے لیکن فی الحقیقت اس نصاب کو پورا کرنا اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے البتہ ناممکن بھی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب اس کا حکم دیا ہے تو یہ ممکن ہونے کی وجہ سے دی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ناممکن کا حاصل کرنے کا حکم نہیں دیتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے لا یکلف اللہ نفساً الاً وسعھا ۔یعنی اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتے بس کوشش ہماری طرف سے اور فضل اس کی طرف سے ۔اللہ تعالیٰ ہم پر فضل فرما کر ہماری کامل اصلاح فرمائے آمین ثم آمین۔

اخلاق رذیلہ

اللہ تعالیٰ نے انسان سے صحتمند دل کا مطالبہ فرمایا ہے ۔اگر دل روحانی طور پر بیمار ہوجائے تو انسان پھر انسان نہیں رہتا اس سے کچھ بھی سرزد ہوسکتا ہے ۔ان ہی دل کی بیماریوں کو رذائل بھی کہتے ہیں۔ جب تک دل میں یہ موجود ہوں انسان خطرے میں ہوتا ہے کہ مبادا کس مرض سے روحانی ہلاکت ہوجائے اس لئے جلد از جلد ان بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے ۔اگر چہ دل سے ان ساری بیماریوں کو ختم کرنا مقصود ہے لیکن ان کے علاج میں ترتیب شیخ کی اجتھادی بصیرت پر موقوف ہوتا ہے ۔مرید کا کام اپنے احوال کا اطلاع کرنا ہوتا ہے اور شیخ اس سے اندازہ لگاتا ہے کہ کونسی بیماری اس اطلاع سے معلوم ہورہی ہے یا کس مرض کے صحت یابی کے بارے میں پتہ چل رہا ہے ۔پھر اس کے دل میں اللہ تعالیٰ جو ڈال دیتا ہے اس کے مطابق وہ مرید کو بتاتا ہے اس طرح شدہ شدہ ان بیماریوں کا علاج ہورہا ہوتا ہے یہاں تک کہ کبھی مکمل صحت ہوجاتی ہے پھر اس صحت کو برقرار رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔

روحانی بیماری اور جسمانی بیماری میں جو سب سے موٹا فرق ہے وہ یہ ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ جو جسمانی عوارض خود بخود آتے ہیں کہ ہرشخص نے ایک دن اس دارفانی سے جانا ہوتا ہے اس سے مکمل چھٹکارا معالج کے بس میں نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات آدمی ارذل العمر کو جب پہنچتا ہے تو معالج کی یہ بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے کہ مزید بیماریوں سے صرف جتنا ممکن ہو بچانا مقصود ہوتا ہے موجودہ بیمایوں کے ساتھ تو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔اس کے برخلاف جب روحانی صحت حاصل ہوجاتی ہے یعنی ان امراض سے چھٹکارا مل جاتا ہے تو پھر روحانی قوت میں اضافہ شروع ہوجاتا ہے یہاں تک آخری عمر میں بعض مشائخ کی روحانی قوت اتنی زیادہ ہوجاتی ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا کیونکہ روح کا میدان اور ہے اور جسم کا اور ۔جسم فانی ہے اور روح باقی۔ آنے والے صفحات میں روحانی امراض کی ضروری تفصیل دی جاتی ہے جو صرف تعارف ہے اس کی تفصیل اس مختصر کتاب میں نہ سماسکتی ہے نہ اس کا بیان کرنا مقصود ہے کہ یہ مشائخ کا کام ہے کہ ہر مرض کی ضروری تفصیل معلوم کرے ہر کس و ناکس کا نہیں۔

اخلاق رذیلہ کی جڑ حب دنیا سے نکلی ہے جو کہ تین قسم کی محبتوں پر مشتمل ہوتی ہے وہ تین مندرجہ ذیل ہیں:

(1)حب جاہ

(2)حب باہ

(3)حب مال

سب سے پہلے حب دنیا کو بیان کیا جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کی تفصیل یعنی یہ تینوں محبتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "وَمَا الحَیٰو ۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ" یعنی اور نہیں ہے زندگا نی دنیا مگر دھوکے کی ٹٹی ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ "اَلدُّنْیاَ سِجْنُ الْمُؤمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَا فِرِ (رواہ مسلم )" یعنی دنیا مؤمن کا قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے۔ نفس کی جو خواہش شریعت سے متصادم ہو، دنیا ہے ۔نفس امارہ شریعت کی پابندی سے تنگ ہوتا ہے اس سے خلاصی چاہتا ہے مآل پر نظر کرتے ہوئے عقلمند اس کو شریعت پر عمل کے لئے خوگر بناتا ہے ۔اس سے یہ دنیا مؤمن کے لئے قیدخانہ بن جاتا ہے اور کافر جو نفس کو آذاد چھوڑتا ہے جو چاہے کرے چاہے آخر میں اس کو نقصان ہی ہو تو یہ اس کی جھوٹی جنت ہے کیونکہ اس کی سزا عنقریب بھگتے گا۔ بعض علماء نے اس کی تشریح یوں فرمائی ہے کہ مؤمن کے لئے وہاں جنت ہے جہاں تمام خواہشات پوری کی جائیں گی اس لئے اس دنیا میں جس میں چند خواہشات ہی جائز طریقے سے پوری ہوسکتی ہیں باقی کی قربانی دینی پڑتی ہے یہ قید خانہ ہی ہے ۔اس طرح کافر کے لئے وہاں دوزخ ہے جہاں ان کی کوئی خواہش پوری نہیں ہوگی اس کے مقابلے میں دنیا جہاں ان کی چند خواہشات پوری ہوسکتی ہیں یہ جنت ہی تو ہے۔

حقیقت دنیا

جس چیز میں فی الحال حظ نفس ہو اور آخرت میں اس کا کوئی نیک ثمرہ مرتب نہ ہو وہ دنیا ہے ۔

تشریح

ہر چند ہمارے اندر مختلف امراض پائے جاتے ہے ۔لیکن حسب فرمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام امراض کی جڑ صرف ایک ہی چیز حب دنیا ہے ۔جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "حُبُّ الدُّنْیَا رَٲسُ کُلِّ خَطِیْٓئَۃٍ" یعنی دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور جڑ یعنی اصل مرض ہی بقیہ امراض کا سبب ہوا کرتی ہے ۔اور اصل کا علاج کرنے سے جملہ امراض خود ہی دفع ہو جائیں گے ۔جس میں حب دنیا ہوگی اس کو آخرت کا اہتمام ہی نہ ہوگا ۔اور جب آخرت کا اہتمام ہی نہ ہوگا تو وہ شخص نہ تو اعمال حسنہ کو انجام دے گا اور نہ برائیوں سے بچے گا ۔ اور اس کے بر عکس جب آخرت کی فکر ہوتی ہے ۔تو جرائم صادر نہیں ہوتے کیونکہ حب دنیا میں فکر دین کم ہوتی ہے ۔جس درجہ کی حب دنیا ہو گی اسی درجہ فکر دین کم ہوگی ۔اگر کامل درجہ کی حب دنیا ہوگی ۔تو کامل درجہ کی دین سے بے فکری ہو گی جیسی کہ کفار میں ہے اور مسلمانوں میں جس درجہ کی حب دنیا ہوگی اسی درجہ کی دین سے بے فکری ہو گی ۔مگر یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ حقیقت میں دنیا مال و دولت زن و فرزند کا نام نہیں ۔بلکہ دنیا کسی ذی اختیار کے ایسے مذموم فعل یا حالت کا نام ہے جو اللہ سے غافل کرا دے خواہ کچھ بھی ہو ،اسی کو کہا ہے کہ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ حب دنیا کے تین شعبے ہیں ،حب مال ،حب باہ اور حب جاہ ۔ان کی تفصیل عنقریب آرہی ہے ۔ طلب دنیا یعنی دنیا کمانا تو بری بات نہیں البتہ اگر اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈالے تو یہ واقعی جرم ہے ،مال مثل پانی کے ہے اور قلب مثل کشتی کے ہے ۔اسی کو کہا ہے

یعنی پانی کشتی کا معین بھی ہے اور اس کو ڈبونے والا بھی ہے اس طرح کہ کشتی سے باہر اور نیچے رہے تو معین اور مددگار ہوتا ہے اور اگر کہیں پانی کشتی کے اندر آجائے تو کشتی کو ڈبو دیتا ہے ۔ اسی طرح مال ہے کہ اگر قلب سے باہر صرف ہاتھ میں ہے تو معین ہے اور اگر قلب کے اندر اس کی محبت ہے تو مہلک ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ "نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحْ " یعنی نیک آدمی کے لئے مال حلال بہت ہی اچھا ہے چونکہ مؤمن صالح اس مال میں سے اقارب کو دے گا۔ضروریات دین میں چندہ دے گا ۔لوگوں کی مدد کرے گا اور اگر دل میں مال کی محبت ہے تو اوروں کے حقوق دبا دے گا ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کے سامنے جب فارس کا خزانہ آیا تو آپ نے یہ آیت کریمہ پڑھی " زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ " اور فرمایا اے اللہ ا س سے معلوم ہوا کہ ہمارے اندر اس کی رغبت تو پیدا کی گئی ہے تو اس کا تو ازالہ نہیں چاہتے مگر یہ دعا ہے کہ مال تیری محبت میں معین ہو جائے اور وہ دنیائے مذموم جو آخرت سے غافل کرے اس کی مثال سانپ کی سی ہے جس کا ظاہر تو اچھا ہے اور نقش و نگار سے آراستہ ہے مگر اندر زہر بھرا ہوا ہے ۔ اسی کو کہا ہے کہ اگر کسی بچے کے سامنے کوئی زہریلا سانپ چھوڑ دیا جائے تو وہ اس کی ظاہری خوبصورتی کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے اور اس کو پکڑ لیتا ہے ،چونکہ اس کو یہ خبر نہیں کہ اس کے اندر زہر بھرا ہوا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ہماری حالت بھی اس بچے کی سی ہے کہ ہم دنیا کی ظاہری آب و تاب نقش و نگار اور رنگ و روپ پر فریفتہ ہیں اور اندر کی خبر نہیں اور یہ بھی تجربہ ہے کہ سانپ جس قدر خوب صورت ہوتا ہے اسی قدر زہریلا ہوتا ہے ۔اسی لئے حقیقت شناس اس کی طرف رغبت نہیں کرتے ۔دنیا کی حقیقت معلوم نہ ہونے سے لوگ اس پر فریفتہ ہو رہے ہیں اگر اس کی حقیقت معلوم ہو جائے تو سخت نفرت ہو جائے

چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ "لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَاﷲِجَنَا حَ بَعُوْضَۃٍ مَّا سَقیٰ کَافِراً مِّنْھَا شَرْبَۃَ مَآئٍ"" یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قدر مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافر کو ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ دیتے چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی قدر کچھ بھی نہیں ہے اس لئے مبغوض شے اپنے دشمنوں کو دیتے ہیں اور حقیقت شناس آدمی ہمیشہ ایسی چیز سے گھبراتا ہے ۔جو خدا تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہو ،نیز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایک مثال میں بیان فرمایا ہے۔چنانچہ بیان فرماتے ہیں کہ "وَمَا لِیَ وَلِلدُّنْیَا اِنَّمَا مَثَلِیْ مِثْلَ رَا کِبٍ اِسْتَظَلَّ بِشَجَرَۃٍ" یعنی مجھ کو دنیا سے کیا علاقہ ہے میری مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی سوار راستے میں جا رہا ہواور کسی درخت کے سائے میں سستانے کے لئے ٹھہر جائے اور سستا کر اپنی راہ لے ۔ طریق علاج :موت کو کثرت سے یاد کرتے رہنا ۔اور مدتوںکے لئے منصوبے اور سامان نہ کرنا اور نہ سوچنا اس کا علاج ہے جیسا کہ ارشاد ہے موتوا قبل ان تموتوا یعنی مرجانے سے پہلے مرجاؤ جس کا مطلب ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے میں مرنے والوں کے اوصاف پیدا کرو۔ حُب جاہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "تِلْکَ الدَّارُ الا ٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلَوّاً فِی الاَ رْضِ وَلاَ فَساَداً ط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ" یعنی وہ جو دارالآخرت ہے ہم اس کو انہیں لوگوں کے لئے کریں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ اودھم مچا تے ہیں اور انجام کار متقیوں ہی کے لئے ہے ۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے " مَا ذِئبَانِ جَآئِعَانِ اُرْسِلاَ فِیْ غَنَمٍ بِاَفْسَدَلَھَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرْفِ لِدِیْنِہٰ۔ (رواہ الترمذی)" یعنی دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں کے گلے میں چھوڑ دئے جائیں تو وہ اس گلہ کو اتنا تباہ نہیں کرتے جتنا آدمی کی حرص مال پر اور جاہ پر اس کے دین کو تباہ کر دیتی ہے ۔

حقیقت حب جاہ

دل میں دوسروں سے اپنی تعظیم کا خواہشمند ہونا حب جاہ کی حقیقت ہے تشریح: حب جاہ ایسا مرض ہے کہ اس کا پتہ چلنا مشکل ہے ۔جب کوئی واقعہ پیش آئے جس کی وجہ حب جاہ ہو تب پتہ چلتا ہے کہ میرے اند ر حب جاہ کا مرض ہے ۔ یہ مرض محض وہمی ہے اور محض دوسرے کے خیال سے قائم ہے ۔کیونکہ جاہ دوسرے کی نظر میں معزز ہونے کا نام ہے ۔جس کا مدار دوسرے کے خیال پر ہے ۔وہ جب چاہے اپنا خیال بدل دے پس ساری جاہ خاک میں مل جاتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود طالب جاہ خوش ہے کہ آہا لوگ مجھے اچھا کہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ معزز ہونا بیماری نہیںکیونکہ یہ تو فی الحقیقت دوسروں کا فعل ہے جس میں ضروری نہیں کہ اس معزز شخص نے اس کی طلب کی ہو ۔بہت سارے لوگ ہیں جو کہ اپنی نگاہوں میں گرے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے میں کوئی کمال نہیں پاتے لیکن لوگوں کی دلوں میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ عزت ڈالتے ہیں ۔ جاہ مذموم وہ ہے جس کی طلب اور خواہش میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پرواہ نہ کی جائے ۔ اور ظاہر ہے یہ وہ بلا ہے جو دین و دنیا دونوں کو مضر ہے ۔دینی ضرر تو یہ ہے کہ جب آدمی دیکھتا ہے کہ دنیا مجھ پر فدا ہے تو اس میں عجب و کبر پیدا ہو جاتا ہے ۔آخر کار اس عجب و کبر کی وجہ سے برباد ہو جاتا ہے ۔بہت سے لوگ آکر اس میں ہلاک ہو گئے ۔یہ تو دین کا ضرر ہوا اور دنیا کا ضرر یہ ہے کہ مشہور آدمی کے حاسد پیدا ہو جاتے ہیں ۔پس صاحب جاہ کا دین بھی خطرے میں رہتا ہے اور دنیوی خطروں کا بھی اندیشہ لگا رہتا ہے پس حق تعالیٰ کی طرف سے بدون طلب کے جاہ حاصل ہو وہ تو نعمت ہے لیکن خود سے اس کا اپنے آپ کو مستحق سمجھنا اور اپنے کمالات کی طرف اس کا نسبت کرنا مذموم ہے ۔ ایک اور بات کا بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ مال کی طرح انسان جاہ کا بھی بقدر ضرورت محتاج ہے ۔تاکہ اس کی وجہ سے مخلوق کے ظلم و تعدی سے محفوظ اور بے خوف ہو کر با اطمینان قلب عبادت میں مشغول رہ سکے جیسا کہ حدیث شریف میں یہ دعا منقول ہے اللّٰھم اجعل فی عینی صغیراً و فی اعین الناس کبیراً یعنی اے اللہ مجھے اپنی نگاہوں میں گرادے اور دوسروں کی نگاہوں میں معزز کردے اس میں یہی جاہ مطلوب ہے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا ہونے کا توڑ اس میں موجود ہے کہ اپنی نظروں میں آدمی چھوٹا ہو۔لہٰذا اتنی طلب جاہ میں بھی مضائقہ نہیں ۔ اس لئے قاعدہ یہ ہوا کہ: خود سے جوجاہ حاصل ہو اور عمل شریعت کے مطابق ہو یہ تو خدا کی طرف سے انعام ہے ۔عمل شریعت کے مطابق نہ ہو اور خود سے جاہ حاصل ہو یہ خدا کا امتحان ہے اور ابتلائ ہے ۔جاہ کی ایسی طلب کہ لوگوں کو اپنا مطیع بنانے کا جذبہ ہو اس میں بھی دو صورتیں ہوسکتی ہیں

(1) کہ لوگوں سے اپنی اطاعت ان کو خیر پہنچانے کے لئے ہو جیسے حاکم عادل ،استاد مربی شیخ وغیرہ یہ جائز اور بعض اوقات ضروری ہے ۔

(2)لوگوں کو صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے مطیع کرنا چاہتا ہو یہ نہ صرف ناجائز بلکہ اکثر بیماریوں کی جڑ ہے

خلاصہ یہ کہ جاہ شریعت سے ہٹا دے چاہے طلب میں یا نتیجے میں اس سے باز آنا چاہیئے اور جو شریعت پرچلنے میں مدد کرے وہ اللہ تعالیٰ کا کرم اور احسان ہے ۔مختصراً آدمی اس جاہ کا طالب بنے کہ جو منجانب اللہ ایسی عطا ہو کہ اس میں اپنے کمال پر نظر نہ جائے۔

طریق علاج

یوں سوچے کہ اس وہمی کمال سے کیا حاصل جو پائیدار نہیں ۔اس کی بجائے اس کمال کو حاصل کرنا چاہیئے جو پائدار ہو یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ کرم فرماکر عزتمند بنادے اور اس کے لئے چونکہ اپنے کو چھوٹا سمجھنا ضروری ہے اس لئے ہر اس تدبیر کو اختیار کرنا جس سے آدمی اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے مثلاً اپنے نقائص پر نظر رکھنا ۔جو لوگ اپنے پر تنقید کرنے والے ہوں ان کی باتیں غور سے سننا کہ مبادا کوئی کام کی بات اس میں نکل آئے ۔تکبر کے بارے میں وعیدوں کو پیش نظر رکھنا وغیرہ وغیرہ ۔یہ سوچنا کہ نہ تعظیم و اطاعت کرنے والے رہیں گے اور نہ میں رہوں گا ۔ پھر ایسی موہوم اور فانی چیز پر خوش ہونا نادانی ہے اس سے بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔

حب باہ

ویسے تو باہ ایک خاص قسم کی جنسی لذت کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں تمام لذات دنیاوی کی محبت حب باہ کہلاتی ہے۔ نفس لذت کا طالب ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ ساری لذات کو اپنے لئے جمع کرے۔ اس کے لئے وہ پرواہ نہیں کرتا کہ وہ جائز طریقے سے حاصل کی جائیں یا ناجائز طریقے سے۔ حب باہ بھی چونکہ ایک وقتی جذبہ ہوتا ہے اس لئے اس کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں اس پر بعد میں انسان نادم ہوتا ہے لیکن ان کا چھوڑنا بھی آسان نہیں ہوتا کیونکہ لذات کا خوگر نفس مجاہدہ کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔اس میں بڑی برائی یہ بھی ہے کہ ان لذات کی طلب بڑھتی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ عام طریقوں سے ان لذات سے بد کار نفس مطمئن ہی نہیں ہوتا ۔اس وقت انسان مجسم شیطان بن جاتا ہے اور اس سے ایسی ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔اس کو انگریزی میں (Perversion)کہتے ہیں اور دنیائے طب میں اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اس کا علاج دنیائے لذات میں منہمک معالجین کیا جانیں؟ اس لئے یورپ اور امریکا میں بظاہر بہت ہشیار لوگ بھی اس معاملے میں بالکل بے وقوف بن جاتے ہیں اور اس کو بعض اوقات مرض ہی نہیں سمجھتے۔

جاہ کی طرح اگر باہ کی تسکین منجانب اللہ جائز طریقے سے نصیب ہوجائے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیًے ۔اس لئے کہ لذات سے بالکل منہ موڑنا مطلوب نہیں لیکن ان میں اتنا انہماک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ٹوٹ جائے مذموم ہے۔روزہ میں خواہش نفس کی مخالفت کرائی جاتی ہے لیکن افطار میں جب وقت ہوجائے، جلدی مستحب ہے اوراس کو فرحت فرمایا گیا ۔اس طرح عید کی خوشی ،ولیمے کی خوشی وغیرہ وغیرہ ۔نیز شادی میں باکرہ کے ساتھ شادی کی پسندیدگی ،چار تک شادیوں کی اجازت وغیرہ سب تسکین باہ ہی کے جائز ذرائع ہی تو ہیں ۔ اسلام میں نہ تو رہبانیت ہے کہ خود کو اذیت دینا ہی دین ٹھہرے اور نہ ہی اباحیت ہے کہ ہر چیز جائز ہوجائے بلکہ ان کے درمیان اعتدال کا ایک راستہ ہے جس پر چلنا مطلوب ہے اور اس کا تعین سوائے وحی کے ممکن نہیں تھا اس لئے اس کے بارے میں وحی سے استفادہ کرنا ہی نجات کا باعث ہوسکتا ہے۔

علاج

اس کا علاج مجاہدہ ہے کہ نفس کو روکا جائے ۔روزہ رکھنا اور شرعی قیود مثل غض بصر یعنی نیچے نگاہ رکھنا وغیرہ اس کا علاج ہے ۔موت کی یاد ان لذات کا مؤثر توڑ ہے ۔ایسی محفلوں سے بچنا جن میں لذات نفس کے لئے ترغیب ہو بہترین پرہیز ہے ۔اپنے نفس پر ہر وقت بد گمان رہنا چاہیئے اور دل میں یہ سوچا جائے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں اگر اس وقت میری موت واقع ہوجائے تو کیا ہوگا۔بعض لوگ ایسے حالات میں مرجاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں کہ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجاتے ہیں ۔اس لئے ایسے عبرتناک موت کا سوچ کر ایسی چیزوں کے قریب بھی نہیں جانا چاہیئے جس میں اتنے خطرات ہوں۔

حب مال

مال کا جمع کرنا ایک علیحدہ بیماری ہے اور بعض دفعہ یہ بیماری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ جس چیز کے لئے مال مطلوب ہوتا ہے یعنی عزت اور آرام اس کو بھی مال کے لئے قربان کیا جائے جیسے ڈوم اس کے لئے عزت قربان کرتے ہیں اور بنیئے آرام اور لذات ۔مثل مشہور ہے چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے ایسے موقع کے لئے ہے ۔مال کا جمع کرنا فی نفسہ مطلوب ہے کیونکہ اس کے ساتھ بہت سارے منافع وابستہ ہیں لیکن اس کے ساتھ دل نہیں لگانا چاہیئے ۔اس کا امتحان یہ ہے کہ مال ہو لیکن کار خیر میں اس کے خرچ سے دل مانع نہ ہو تو یہ مال کی محبت نہیں ہے۔بخل اسی حب مال ہی کا اثر ہے ۔ اس کی باقی تفصیل حب دنیا میں گزر گئی ہے وہیں دیکھی جائے ۔

حقیقت

مال کی ایسی محبت کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے جائز ناجائز کی تمیز نہ رہے حب مال کی حقیقت ہے ۔

علاج

کار خیر میں نفس پر جبر کرکے مال کو خرچ کرنا اس کا علاج ہے ۔کم ازکم زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے ادائیگی کا التزام ہونا چاہیئے ۔کبھی کبھی نیک لوگوں کی دعوت کرنا بھی فائدہ مند ہوتا ہے ۔

حرص

ارشاد باری ہے کہ "وَلاَ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلیٰ مَا مَتَّعْنَا بِہٰ ٓ اَزْوَاجاً مِّنْھُم زَھْرَۃَالْحَیوٰۃِ الدُّ نْیَا" ’’یعنی اپنی آنکھیں اس چیز کی طرف مت بڑھاؤ جس سے ہم نے نفع دیا ان کافروں کے مختلف گروہوں کو آرائش زندگانی دنیا کی ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یَھْرُمُ ابْنُ اٰدَمَ وَیَشِیْبُ مِنْہُ اثنَانِ اَلْحِرْصُ عَلیَ الْمَالِ وَالْحِرْصُ عَلیَ الْعُمْرِ(متفق علیہ)" ’’یعنی آدمی بوڑھا ہوتا رہتا ہے ،اور اس کی دو چیزیں بڑھتی رہتی ہیں ۔مال پر حرص کرنا اور عمر پر حرص کرنا ۔‘‘

حقیقت حرص

حرص حب دنیا کا تقاضا ہے ۔دل کا اپنے مفادات کے ساتھ ہمہ وقت مشغول ہونا حرص کی حقیقت ہے ۔

تشریح

جیسا کہ حب دنیا تمام روحانی بیماریوں کی جڑ ہے اس طرح حرص تمام بیماریوں کی جڑ ہے ۔یہ ایسا مرض ہے کہ اس کو امُّ الامراض کہنا چاہئے کیونکہ اس کی وجہ سے جھگڑے فساد ہوتے ہیں ۔اس کی وجہ سے مقدمہ بازیاں ہوتی ہیں ۔اگر لوگوں میں حرص مال نہ ہوتو کوئی بھی کسی کا حق نہ دبائے ۔بدکاری کا منشائ بھی لذت کی حرص ہے ۔ اخلاق رذیلہ کی جڑ بھی یہی حرص ہے ۔کیونکہ عارفین کا قول ہے کہ ’’تمام اخلاق رذیلہ کی اصل کبر ہے اور کبر جاہ کا حرص ہے ‘‘پس کبر بھی حرص سے ہوا ۔انسان کا طبعی خاصہ ہے کہ اگر اس کے پاس مال کے دو جنگل بھی ہوں جن میں سونا یا چاندی پانی کی طرح بہتے ہوں پھر بھی وہ تیسرے کا طالب ہوگا ۔جتنا ہوس کو پورا کرو گے اتنا ہی بڑھے گی جیسا کہ خارش والا جتنا کھجلاتا ہے اتنی ہی خارش بڑھتی جاتی ہے ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "اَمْ لِلاِنْسَانِ مَا تَمَنیّٰ" یعنی بھلا انسان کی ہر آرزو پوری ہو سکتی ہے ۔ یعنی کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔یہی وجہ ہے کہ حریص کو کبھی راحت نہیں مل سکتی ۔اس کے ہوس کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔کیونکہ ایک آرزو ختم نہیں ہوتی کہ دوسری شروع ہو جاتی ہے اور جب تقدیر پر راضی ہی نہ ہو تو ہر کام میں یوں دل چاہتا ہے کہ یہ بھی ہو جاوے اور وہ بھی ہو جاوے ۔اور سب امیدوں کا پورا ہونا دشوار ہے ۔اس لئے اس کا نتیجہ پریشانی ہی پریشانی ہے ۔گو ظاہر میں اولاد اور مال سب کچھ ہو مگر حریص کا دل ہمیشہ پریشان رہتا ہے ۔

طریق علاج

یہ سوچے کہ حرص انسان اس لئے کرتا ہے کہ مزے میں رہے اور آرام پائے جبکہ حرص کے ساتھ ان دو چیزوں کا حاصل کرنا ممکن نہیں۔پس جس چیز سے آرام اور مزہ ختم ہو اس کوآرام و مزے کے لئے کیوں کیا جائے ؟تقدیر پر قانع رہے ۔ضروریات کے لئے اسباب کو اختیار کرنے میں حرج نہیں لیکن جو فیصلہ پھر رب کی طرف سے ہو اس پر راضی رہے ۔ خرچ کو گھٹائے ۔تاکہ زیادہ آمدنی کی فکر نہ ہو ۔اور آئیندہ کی فکر نہ کرے کہ کیا ہوگا ۔اور یہ سوچے کہ حریص و طمع کرنے والا ہمیشہ ذلیل و خوار رہتا ہے ۔جنت کے مزوں کو سوچے اور یہ کہ اگر میں نے ان لذائذ کو غلط طریقے سے حاصل کیاتو جنت کی لذائذ کو کیونکر حاصل کروں گا ۔اس طرح یہاں کا حرص وہاں کے حرص میں بدل جائے گا۔اعمال کے فضائل کا مطالعہ کرے تاکہ اعمال کی حرص پیدا ہو اور وہ یہاں کی حرص کا توڑ کرے ۔نیز اللہ تعالیٰ کی محبت کو بڑھائے تا کہ لذائذ کی محبت مغلوب ہو۔ موت کو کثر ت کے ساتھ یاد کرے کہ وہ لذات کو توڑنے والی چیز ہے اور آخرت کی طرف راغب کرنے والی ہے ۔

عشق با مردہ نباشد پائدار

عشق را با حیُّ و باقیوم دار

عشق فانی تو پائدار نہیں

حیُّ و قیوم کا عاشق بن جا

شھوت

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے "و امّا من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوٰی فان الجنۃ ھی الماوٰی" اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے خوف سے اپنے نفس کو خواہشات سے روکا پس تحقیق اس کے لئے جنت کا ٹھکانہ ہے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا ارشاد مبارک ہے کہ "فامّا المھلکات فھوی متبع رواہ البیہقی۔" رہے مہلکات سو وہ وہ خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے۔ خواہش نفسانی کا نام شھوت ہے اس کو ہوا بھی کہتے ہیں ۔اس کا اعلیٰ درجہ کفر و شرک ہے ۔وہ تو اسلام ہی سے خارج کر دیتا ہے اور جو ادنیٰ درجہ ہے وہ کمال اتباع سے ڈگمگا دیتا ہے ۔ہر خواہش نفس میں یہ خاصیت ہے کہ راہ مستقیم سے ہٹا دیتی ہے ۔ ارشاد باری ہے کہ "وَلاَ تَتَّبِعِ الْھَوَیٰ فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ" یعنی اور نفسانی خواہشات کی پیروی مت کرنا اگر ایسا کرو گے تو وہ خدا کے رستہ سے تم کو ہٹا دے گی اور ارشاد نبوی ہے کہ "وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہُ ھَوٰھَا وَتَمَنّیٰ عَلیَ اﷲِ" یعنی عاجز وہ ہے جو اپنی خواہشات کی اتباع کرے اور پھر خدا سے نیک اجر کی امید رکھے خواہش نفسانی ایسی بری چیز ہے کہ دنیا کی بھی خرابی اور دین کی بھی صد ہا معصیتیں ہیں۔انسان نفس کی فوری خواہش کی تسکین کے لئے اسی نفس ہی کے مستقبل کے خواہشات کو داؤ پر لگا دیتا ہے نیز اسی فوری خواہش کے لئے دوسروں کے نقصان کے درپے ہوجاتا ہے ۔اسی حقیقت کے پیش نظر لادین حکومتیں بھی قوانین بنانے پر مجبور ہوتی ہیں کیونکہ اس کے بارے اجتماعی مفادات کا حصول ممکن نہیں ۔اس سے یہ پتہ چلا کہ نفس کو اگر قابو نہیں کیا گیا تو نہ یہ نہ صرف ملک دشمن قوم دشمن ہے بلکہ خود اپنا بھی دشمن ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے مصالح کو ہم سے زیادہ جانتا ہے اس لئے دونوں جہاں میں ہمیں خیر پہنچانے کے لئے کچھ قوانین جن کو شریعت کہا جاتا ہے پر عمل کرنے کے لئے حکم دیتا ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں فائدہ ہمارا اپنا ہے اس لئے شریعت پر بلا چون و چرا عمل کرنا ہی عقلمندی ہے ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں "فاتبعھا و لا تتبع اھوائ الذین لا یعلمون ۔ " یعنی شریعت کا اتباع کیجیئے اور ان جاہلوں کی خواہشوں کا اتباع نہ کریں ۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے فائدہ نقصان سے غافل ہیں اس لئے ان کی خواہشات کا اتباع کرنے میں سراسر نقصان ہے ۔اس کے مقابلے میں اس علیم و خبیر کے احکامات پر عمل کرنا جو غنی بھی ہے اور ہمارا خیر خواہ بھی نہایت ہی سود مند ہے۔ طریق کار نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ "لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ۔" یعنی کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتا جب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہ ہوجائے جس کو میں حق تعالیٰ کے پاس سے لایا ہوں یعنی شریعت۔ مرض کا علاج یہی ہوتا ہے کہ اس کے مادہ اور سبب کو قطع کیا جائے پس جو کام کیا جائے سوچ کر کیا جائے کہ کہیں یہ شریعت کے خلاف تو نہیں۔

علاج

مجاھدہ کرنا ہے ،یعنی جائز اُمور میں بھی تربیتاً اپنے نفس کو روکے تو ناجائز اُمور میں نفس کو روکنا آسان ہوجائے جیسے روزہ میں نفس کی تربیت کی جاتی ہے اورمجاھدہ نام ہے نفس کے تقاضوں کو روکنا بتکلف ہو یا بلا تکلف ۔

غُصَّہْ

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ " وَالْکَاظِمِیْنَ الغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَن ِالنَّا سِ وَاﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ" یعنی اور غصہ کو ضبط کرنے والے اور لوگوں کی تقصیرات سے در گذر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو محبوب رکھتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، "لاَ تَغْضَبْ(رواہ البخاری)" یعنی غصہ مت کر ۔

حقیقت غصہ

بدلہ لینے کے لئے دل کے خون کا جوش مارنا غصّہ کی حقیقت ہے ۔ تشریح:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بڑا پہلوان اور طاقتور وہ نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑے بلکہ قوی اور پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے ۔ایک روایت میں ہے ،قوی وہ ہے جو غصے کا مالک ہو یعنی غصے پر غالب ہو ،یہ نہ ہو کہ غصہ کے منشائ کے مطابق فوراً عمل کرے بلکہ اس کو شریعت کی تعلیم کے مطابق استعمال کرے اس لئے کہ غصہ میں جوش پیدا ہونا طبعی امر ہے ۔اس میں ملاُمت نہیں مگر انسان کو خدا تعالیٰ نے اختیار بھی دیا ہے اس لئے اس کو روکنا چاہئے ۔اس اختیار کو صرف نہ کرنا انسانیت کے خلاف ہے ۔غصہ کو بھی حق تعالیٰ نے بہت سی مصلحتو ں سے انسان کی سرشت میں داخل کیا ہے ۔اس سے بہت سے کام نکلتے ہیں ۔ لیکن اختیار کو بھی ساتھ ساتھ رکھ دیا ہے کہ جس جگہ غصہ کا کام ہو وہاں کام لے اور جو جگہ غصہ کے کام کی نہیں وہاں کام نہ لے ۔

غصہ فی نفسہٰ غیر اختیاری ہے لیکن اس کے اقتضائ پر عمل کرنا اختیاری ہے ،اس لئے اس کا ترک بھی اختیاری ہے ،اور اختیاری کا علاج بجز استعمالِ اختیار کے کچھ نہیں ۔گو اس میں کچھ تکلف و مشقت بھی ہو اسی استعمال کی تکرار اور مداومت سے اس کا تقاضا ضعیف ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ترک میں زیادہ تکلف نہیں ہوتا البتہ اس کے اختیار کے استعمال میں کبھی قدرے تکلف ہوتا ہے ۔اسی لئے حدیث شریف میں ہے کہ "لاَ یَقْضِیَنَ قاَض بین اثْنَیْنِ وَھُوَ غَضْبَانَ۔" مطلب یہ ہے کہ حاکم کو چاہئے کہ غصہ کیَّ قَاض ب حالت میں فیصلہ کبھی نہ کرے ۔بلکہ اس وقت مقدمہ ملتوی کر دے اور تاریخ بڑھادے ۔یہاں حاکم سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کی دو آدمیوں پر حکومت ہو اس میں معلم استاد اور گھر کا مالک بھی شامل ہے ۔لہٰذا غصہ کی حالت میں بچوں یا دیگر ماتحتوں اور کمزوروں کو کسی جرم میں بھی سزا دینے میں جلدی نہ کریں ۔بلکہ غصہ ختم ہونے کے بعد سوچ سمجھ کر سزا دی جائے ۔اور یاد رکھیں کہ جس حق کا مطالبہ کرنے والا کوئی نہ ہو اس کا مطالبہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہوگا ۔یہاں تک کہ اگر کافر ذمی پر کوئی حاکم ظلم کرے تو حدیث میں آیا ہے ’’اللہ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے مطالبہ کریں گے ‘‘۔لہٰذا سزا دینے کے وقت احتیاط لازمی ہے اور اگر طبعی طور پر غصہ زیادہ ہو اور ذرا سی بات پر حد سے زیادہ غصہ آجاتا ہو کہ اس وقت عقل نہ رہتی ہو تو جس پر غصہ کیا جاوے غصہ ختم ہو جانے کے بعد مجمع میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑیں ،پاؤں پکڑیں بلکہ اس کے جوتے اپنے سر پر رکھ لیں ،ایک دو بار ایسا کرنے سے نفس کو عقل آجائے گی ۔قول یا فعل میں ہر گز جلدی نہ کریں،بتکلف اس تقاضے کی مخالفت کریں ۔جب کوتاہی ہو جائے استغفار کریں ،اور اگر کسی شخص کے حق میں زیادتی و حدود شرعیہ سے تجاوز ہو گیا ہو تو اس سے معاف کرائیں ،زبان سے اعوذ باﷲ پڑھیں ۔اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اور اگر بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں اور ٹھنڈے پانی سے وضو کر ڈالیں ۔یا ٹھنڈا پانی پی لیں ۔ فوراً کسی ایسے جائز کام میں لگ جائے جو دل کو جلدی مشغول کرے مثلاً مطالعٔہ کتب میں مصروف ہو جائیں ۔اگر اس سے بھی غصہ نہ جائے تو اس شخص سے علیٰحدہ ہو جائیں یا اس کو علیٰحدہ کر دیں ،جیسا موقع ہو ۔

طریق علاج

یہ یاد کریں کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ پر زیادہ قدرت ہے اور میں اس کی نافرمانی بھی کرتا ہوں ،اگر وہ بھی مجھ سے یہ معاملہ کریں تو کیا ہو اور یہ سوچیں کہ خدا کے ارادہ کے بغیر کچھ واقع نہیں ہوتا سو میں کیا چیز ہوں کہ مشیت الٰہی سے مزاحمت کروں ۔اگر اس وقت میں صبر کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے اس پر اجر دے گا میں کیوں اجر کے اس موقعہ کو ضائع کردوں اور یہ حقیقت ہے کہ جس کو جلدی جلدی غصّہ آتا ہو اور وہ اس پر قابو پانے پر قادر ہوجائے تو اس کے لئے یہ اجر اتنا زیادہ ہے کہ اس کے لئے ہزارہا نوافل پڑھنے کے اجر سے زیادہ نافع ہوگا بس تھوڑی سی فکر اورسمجھ کی ضرورت ہے ۔

جھوٹِ

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ " یعنی اور جھوٹی بات سے کنارہ کش رہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "عَلَیْکُمْ بِاالصِّدْقِ وَاِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ (متفق علیہ )" یعنی ہمیشہ سچ بولو ،جھوٹ مت بولو۔

جھوٹ کی حقیقت

خلاف واقعہ بات کہناجھوٹ ہے ۔آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ جو بات سنے بیان کر دے ،بلا تحقیق بات کو نقل کر دے ۔

تشریح

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ بولنے سے بچو کہ جھوٹ اور فجور ساتھ ساتھ ہیں ۔اور یہ دونوں جہنم میں ہیں اور فرمایا کہ جھوٹی شہادت تین مرتبہ شرک کے برابر ہے ،نیز دوسری حدیث میں ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا کھڑا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک زنبور ہے اور وہ اس بیٹھے ہوئے شخص کے کلّے کو چیر رہا ہے یہاں تک کہ گدی تک جا پہنچتا ہے ۔پھر وہ کلہ درست ہو جاتا ہے ، پھر وہ اس کے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے ۔میں نے اپنے ساتھی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو کہا کہ وہ شخص جھوٹا ہے ،اس کے ساتھ قیاُمت تک ایسا ہی کرتے رہیں گے (یعنی قبر میں یہ عذاب ہوتا رہے گا )۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ کسی عورت نے اپنے چھوٹے سے بچے کو بلایا اور کہا آؤ ہم تمھیں چیز دیں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے دریافت فرمایا کہ اگر بلانے سے بچہ آگیا تو کیا چیز دے گی؟عورت نے کہا چھوہارہ دے دوں گی ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے فرمایا اگر کچھ دینے کا ارادہ نہ ہوتااور صرف بہلانے کے لئے ایسا لفظ نکلتا تو یہ بھی زبان کا جھوٹ شمار ہوتا۔

طریق علاج

کلام میں احتیاط ہو بدون سوچے کوئی کلام نہ کرے ۔ا استحضار قبل از وقت، ہمت در عین وقت، تدارک بعد الوقت،اس کا علاج ہے یعنی وقت پر اس کا استحضار ہو کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا۔ اس کے لئے کوئی نشانی مقرر کریں مثلاً کوئی چیز ہاتھ کے ساتھ باندھ لے جس سے یاد آئے کہ جھوٹ نہیں بولنا اور اگر جھوٹ بولنا شروع ہوا چاہتا ہو تو ہمت کرکے اس سے رکے ۔اگر ہوجائے تو اپنے دوستوں کو بتائے کہ میری فلاں بات جھوٹی ہے اور اپنے نفس پر کچھ جرمانہ کرے اگر نفس کو نفلوں سے زیادہ تکلیف ہو تو نفل پڑھے اور اگر پیسے کے ساتھ محبت ہو تو کچھ خیرات کردے ۔ اگر کوئی بات کبھی منہ سے خلاف شریعت نکل جاوے تو فوراً خوب توبہ بھی کر لے کہ جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کا حق بھی ضائع کرنا ہے ۔

غیبت

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "ولا یغتب بعضکم بعضا۔" یعنی تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ، "الغیبۃ اشد من الزنا۔" یعنی غیبت زنا سے بھی سخت تر ہے ۔ کیونکہ غیبت گناہ جاہی ہے یعنی غیبت جا ہ سے پیدا ہوتی ہے ۔اس کے بعد نداُمت نہیں ہوتی بلکہ فخر کرتا ہے اور زنا پر نداُمت ہوتی ہے اس پر کوئی فخر نہیں کرتا ۔اس لئے غیبت زنا سے بد تر ہوتی ہے ۔

حقیقت غیبت

کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا کہ اگر وہ سنے تو اس کو نا گوار ہو ،اگرچہ وہ بات اس کے اندر موجود ہی ہو اور اگر وہ بات اس میں نہیں تو وہ بہتان ہے ۔

تشریح

جس طرح غیبت کرنا حرام ہے ،اسی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جس کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت ہوتی ہو اور وہ اس کی حمایت پر قادر ہو اور اس کی حمایت کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی حمایت فرمائیں گے ۔اور اگر اس کی حمایت پر قادر ہوتے ہوئے اس کی حمایت نہ کی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر گرفت فرمائیں گے ۔(شرح السنۃ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان بھائی کا آئینہ ہے پس اگر اس میں کوئی گندی بات دیکھے تو اسے اس سے دور کر دے ۔(ترمذی) یعنی جس طرح آئینہ چہرہ کے داغ دھبے کو صرف عیب والے پر ظاہر کرتا ہے اور کسی پر ظاہر نہیں کرتا اسی طرح اس شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی خفیہ طور پر اصلاح کر دے اس کو رسوا نہ کرے ۔ زبان اور کان کے گناہوں میں غیبت کرنا اور سننا ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ شاید ہی کوئی طبقہ اس سے بچا ہوا ہو الاّ ما شا ء اللہ ۔اس سے بچنے کا بہت ہی اہتمام کرنا چاہئے اور اگر غیبت ہو جائے تو جس کی غیبت کی ہے اس کو علم بھی ہو جائے تو اس سے معافی مانگنا ضروری ہے اور اگر اس کو علم نہ ہو تو کثرت سے استغفار کرے ،اور جس کی غیبت کی ہے اس کے لئے دعائے مغفرت کرے ۔

طریق علاج

بات کرنے سے قبل تھوڑی دیر تامل کرے اور سوچے کہ اس بات سے اللہ تعالیٰ جو سمیع و بصیر ہیں نا خوش تو نہیں ہونگے؟ انشاء اللہ کوئی بات منہ سے گناہ کی نہ نکلے گی ۔غیبت صرف زبان کو ہی تو کنٹرول کرنا ہے پس اگر ذرا سی ہمت سے انسان اتنے بڑے گناہ سے بچ سکے تو ہمت کیوں نہ کی جائے ؟اس کو سوچے اور ہمت سے کام لے کر غیبت سے رکیں۔ یہ سوچے کہ جس کی میں غیبت کررہا ہوں ان کو اپنی نیکیاں دے رہا ہوں گویا کہ میں اس شخص کو فائدہ پہنچا رہا ہوں جو مجھے پسند نہیں۔جب بھی کسی کی غیبت کرنے کو جی چاہے تو فوراً اس کے لئے دعا کرے کہ یا اللہ تو اس پر قادر ہے کہ اس شخص سے ان عیوب کو دور کرسکتا ہے اس لئے اس سے ان عیوب کو دور فرما اور مجھے غیبت سے بچا ۔اس پر ہمت کے ساتھ چند روز بھی عمل ہو تو شیطان کسی کی غیبت کا خیال ہی نہ آنے دے۔

حسد

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "وَمِنْ شَرِّ حَا سِدٍ اِذَا حَسَدْ" یعنی تم کہو میں حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے پناہ مانگتا ہوں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "لَا تَحَا سَدُ وْا (رواہ البخاری)" یعنی آپس میں حسد نہ کرو ۔

حقیقت حسد

کسی شخص کی اچھی حالت کا نا گوار گذرنا اور یہ آرزو کرنا کہ یہ اچھی حالت اس کی زائل ہو جائے یہ حسد ہے ۔

تشریح

حسد کے ساتھ تین باتیں ہیں ۔ایک یہ کہ ایک کیفیت انسانیہ ہے ،جس میں انسان معذور ہے ۔ ایک اس کے مقتضائ پر عمل ہے ۔اس میں انسان مازور یعنی گنہگار ہے ۔ایک اس کے مقتضائ کی مخالفت ہے اس میں انسان ماجور ہے یعنی ثواب پانے والا ہے ۔حسد کا باعث عموماً تکبر و غرور ہوتا ہے یا خبث باطن اور نیچ پن ،کہ بلا وجہ خدا تعالیٰ کی نعمت میں بخل کرتا ہے ۔اور چاہتا ہے کہ جس طرح میں کسی کو کچھ نہیں دیتا حق تعالیٰ بھی دوسرے کو کچھ نہ دے ۔البتہ دوسرے کو نعمت میں دیکھ کر حرص کرنا ،اور یہ چاہنا کہ اس کے پاس بھی یہ نعمت رہے اور مجھے بھی ایسی ہی نعمت حاصل ہو جائے تو یہ غبطہ اور رشک کہلاتا ہے اور غبطہ شرعاً جائز ہے ۔حسد قلبی مرض ہے اس میں دین کا بھی نقصان ہے اور دنیا کا بھی ۔دین کا نقصان تو یہ ہے کہ اس کے کئے ہوئے نیک اعمال ساقط ہو جاتے ہیں ۔نیکیاں چلی جاتی ہیں اور حق تعالیٰ کے غصے کا نشان بن جاتا ہے ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’حسد نیکیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جس طرح آگ سوکھی ہوئی لکڑیوں کو جلا دیتی ہے ۔‘‘

اور دنیا کا نقصان یہ ہے کہ حاسد ہمیشہ رنج و غم میں مبتلا رہتا ہے اور اسی غم م��ں گھلتا رہتا ہے کہ کسی طرح فلاں شخص کو ذلت و افلاس نصیب ہو ۔اسی طرح عذاب آخرت میں بھی اپنے سر کو رکھا اور اپنی قناعت و آرام کی زندگی رخصت کر کے ہر وقت کی خلش اور دنیوی ک��فت خریدی ۔اسی ��و کسی نے کہا ہے کہ حاسد کو ایک دم نہیں راحت جہان میں رنج حسد ہے جان ہے جبتک کہ جان میں

طریق علاج

گو بتکلف سہی اس شخص کی خوب تعریف کیا کرو اور اس کے ساتھ خوب احسان و سلوک و تواضع سے پیش آؤ اور اپنے آپ کو یہ سمجھاو کہ اے ظالم یہ نعمت فلاں کو اللہ تعالیٰ نے دی ہے اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے کہ میرے کام پر اعتراض کیوں کیا ؟ تو میں کیا جواب دوں گا۔ایسے لوگوں کے لئے جن کے ساتھ حسد ہو ان کے لئے بتکلف مزید نعمتوں کی دعا کرو اور ساتھ یہ دعا بھی کرو کہ یہ نعمتیں( اگر جائز ہوں ) مجھے بھی عنایت فرمائی جائیں۔

بخل

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَفْسِہٰ" یعنی اور جو بخل کرتا ہے وہ اپنے آپ سے بخل کرتا ہے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "وَالْبَخِیْلُ بَعِیْدٌمِّنَ اﷲِ بَعِیَْدٌ مِّنَ الجَنَّۃِ بَعِیْدٌ مِّنَ النَّاسِ قَرِیْبٌمِّنَ النَّارِ (رواہ الترمذی)" یعنی کنجوس اللہ تعالیٰ سے دور ہے ،جنت سے دور ہے ،لوگوں سے دور ہے ،دوزخ کے قریب ہے ۔

حقیقت بخل

جس چیز کا خرچ کرنا شرعاً یا مروتاً ضروری ہو اس میں تنگ دلی کرنا بخل ہے ۔

تشریح

بخل کے دو درجے ہیں ۔ایک خلاف مقتضائے شریعت ہے اور یہ معصیت ہے اور دوسرا مقتضائے مروت کے خلاف ہے اور معصیت نہیں ہے ۔لیکن خلاف اولیٰ ہے ۔ فضیلت تو یہ ہے کہ یہ بخل بھی نہ ہو نیز جو ضرورتیں اتفاقیہ طور پر پیش آجائیں ،ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس مال کے ذریعے سے آدمی اپنی آبرو کو بچائے وہ بھی صدقہ ہے ۔مثلاً کسی مال دار کو یہ اندیشہ ہو کہ یہ شاعر یا ڈوم یا ہیجڑا یا بہروپیہ تیری ہجو کرے گا اور اگر اس کو کچھ میں دے دوں گا تو اس کا منہ بند ہو جائے گا اور با وجود اس علم کے اگر اس کو کچھ نہ دے تو وہ شخص بخیل سمجھا جائے گا ۔کیونکہ اس نے اپنی آبرو محفوظ رکھنے کی تدبیر نہ کی ۔اور بد گو کو بد گوئی کا موقع دیا ۔بخل بہت بڑا مرض ہے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ کہ اس نے پہلی اُمتوں کو ہلاک کر دیا ۔پس مسلمان کو شایان نہیں کہ بخل کرے اور جہنم میں جاوے اور چونکہ بخل در حقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت دنیا کی طرف متوجہ کر دیتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا علاقہ ضعیف اور کمزور ہو جاتا ہے اور بخیل مرتے وقت حسرت بھری نظروں سے اپنا جمع کیا ہوا محبوب مال دیکھتا اور جبراً و قہراً آخرت کا سفر کرتا ہے اس لئے اس کو خالق جل جلالہ کی ملاقات محبوب نہیں ہوتی اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص مرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ملاقات پسند نہ کرے وہ جہنمی ہے ۔

طریق علاج

مال کی محبت کو موت کے یاد کی کثرت سے دل سے نکالنا اس کا علاج ہے۔مال کو حسنات کے لئے استعمال کرنے کی فضلتیں سننا یعنی فضائل صدقات۔حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب فضائل صدقات اس میں مطالعہ کرنا بہت خوب ہے ۔سخی لوگوں کے واقعات پڑھنا ۔بتکلف لوگوں پر جائز طریقے سے خرچ کرنا چاہے دعوت کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں اور اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا زیادہ مفید ہے ۔

رِیا

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "یُرَ آ ئُوْ نَ النَّا سَ (الآیۃ)" یعنی وہ لوگوں کو دکھلاتے ہیں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اَنَّ یَسِیْرالرِّیَآ ئِ شِرْکٌ (رواہ ابن ماجہ)" یعنی بے شک تھوڑی ریا بھی شرک ہے ۔

حقیقت ریا

اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لوگوں کی پسند اور ناپسند پر نظر ہونا ریا کی حقیقت ہے۔

تشریح

ریا کی اصلیت یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اپنی عبادت اور عمل خیر کے ذریعے سے وقعت اور منزلت کا خواہاں ہو ۔اور یہ عبادت کے مقصود کے بالکل خلاف ہے ۔کیونکہ عبادت سے مقصود حق تعالیٰ کی رضا مندی ہے ۔اور اب چونکہ اس مقصد میں دوسرا شریک ہو گیا کہ رضاء خلق اور حصول منزلت مقصود ہے ،لہٰذا اس کا نام شرک اصغر ہے ۔نیز آیت کریمہ "فَمَنْ کَا نَ یَرْ جُوْا لِقَآئَ رَبِّہٰ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَا لِحاً وّلاَ یُشْرِکْ بِعِبَْا دَۃِ رَبِّہٰ اَحَداً میں مفسرین نے وَلاَ یُشْرِکْ بِعِبَاْدَۃِ رَبِّہٰ " کی تفسیر ریا نہ کرنے سے فرمائی ہے ۔ چنانچہ قاضی ثنائ اللہ صاحب پانی پتی قدس سرہ تفسیر مظہری میں اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں ، " اَ ی لَا یُرَاَئی بِعَمَلِہٰ وَلاَ یَطْلُبُ عَلیٰ عَمَلِہٰ اَجْراً مِّنْ اَحَدٍ غَیْرِہٰ تَعَالیٰ جَزَآئً وَّلاَ ثَنَائً" یعنی اپنے عمل کو دکھلاوے کے لئے نہ کرے اور نہ اپنے عمل پر خدا تعالیٰ کے سوا کسی سے کسی قسم کے بدلے یا تعریف کا طلبگار ہو ۔نیز حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیاُمت کے دن جب اللہ تعالیٰ بندوں کو جزا اور سزا اور انعامات عطافرمائے گا تو ریا کاروں کو حکم دے گا کہ انہیں کے پاس جاؤ جن کے دکھلانے کوتم نمازیں پڑھتے تھے اور عبادتیں کیا کرتے تھے ،اپنی عبادتوں کا ثواب اور طاعت کا صلہ بھی انھیں سے لو اور دیکھو کیا دیتے ہیں ؟ دوسری طویل حدیث میں آیا ہے کہ قیاُمت کے دن احکم الحاکمین کی عدالت میں شھید ،عالم اور سخی کی پیشی ہو گی ،اور تینوں اپنے جہاد فی سبیل اللہ تعلیم و تعلم اور مشغلہ علم و دین اور اپنی خیرات و صدقات کا اظہار کریں گے۔ حکم ہو گا کہ یہ سب اعمال تم نے چونکہ محض دکھلاوے ،اور نام آوری کے لئے اسی غرض سے کئے تھے تاکہ لوگ تمہیں کہیں کہ فلاں شخص بہادر ہے ، فلاں شخص بڑا عالم ہے اور فلاں شخص بڑا سخی ہے سو یہ باتیں حاصل ہو لیں کہ دنیا میں تم کو شہرت حاصل ہوئی اور لوگوں نے تم کو بہادر و عالم و سخی کہہ کر پکارا پھر جس مقصود کے لئے اعمال کئے تھے جب وہ حاصل ہو چکا تو اب کیا استحقاق رہا اب کیا چاہتے ہو لہٰذا جاؤ جہنم میں ۔

نیز رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس عمل میں ذرہ برابر بھی ریا ہوگا اس کو اللہ تعالیٰ قبول نہ فرمائیں گے ۔جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کو گوش بگوش سنو اور عبرت پکڑو ۔ لہٰذا کسی عمل میں نہ اظہار کا قصد کریں نہ اخفائ کا، اپنے کا م سے کام رکھیں ۔اپنے اختیار سے ہر کام میں رضاء حق کا قصد اوراپنے اختیار سے رضاء خلق کا قصد نہ کریں بلا قصد کے اگر رضاء خلق کا وسوسہ یا خیال آوے تو اس کی مطلق پرواہ نہ کریں ۔اور عمل سے پہلے مراقبہ و محاسبہ کرتے رہیں کہ اس میں میرا کیا قصد ہے آیا رضاء حق ہے یا رضاء خلق ،اور نیت کو خالص کر کے عمل کیا کریں ۔ریا اختیاری عمل ہے اس لئے اگر کوئی اپنے اختیار سے کرتا ہے تو گنہگار ہے اور اگر اس کو صرف ریا کا وسوسہ آتا ہے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ۔اس کو خوب سمجھ لیا جائے کیونکہ اس میں بہت سارے غلطی کرتے ہیں ۔

طریق علاج

حب جاہ کو دل سے نکالیں ،کیونکہ ریا اسی کا ایک شعبہ ہے اور عبادت پوشیدہ کیا کریں ، یعنی جو عبادت کہ جماعت سے نہیں ہے اور جس عبادت کا اظہار ضروری ہے اس کے اندر ازالہئ ریا کے لئے ازالہئ حب جاہ کافی ہے ۔ اور طریق معالجے کا یہ ہے کہ جس عبادت میں ریا ہو اس کو کثرت سے کریں ،پھر نہ کوئی التفات کرے گا نہ اس کو یہ خیال رہے گا ۔ چند روز میں ریا سے عادت پھر عادت سے عبادت اور اخلاص بن جائے گی ۔

عُجب

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ (الآیۃ)" یعنی جبکہ تم کو تمھارا زیادہ ہونا بھلا معلوم ہوا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وَاَمَّا ا لْمُھْلِکَاتُ فَھَو یً مُتَّبَعٌ وَ شُحٌّ مُطَاعٌ وَاِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہٰ وَھِیَ اَشَدُّھُنَّ (رواہ البیہقی)" یعنی رہے مہلکات ،سو وہ خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے اور بخل ہے جس کے موافق عمل کیا جائے اور آدمی کا اپنے آپ کو اچھا سمجھنا اور یہ سب سے بڑھ کر ہے ۔

حقیقت عجب

اپنے کمال کا اپنی طرف نسبت کرنا اور اس کا خوف نہ ہونا کہ شائد سلب ہو جائے ۔یہ عجب ہے ۔

تشریح

عجب کی حقیقت یہ ہے کہ نفس کی ایک چال ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ممتاز ہو کر رہے اور اس میں اس کو مزا آتا ہے ۔سو یہ عجب ہے اور عجب ایسی بری چیز ہے کہ جس وقت کوئی شخص اپنی نظر میں پسندیدہ ہو جاتا ہے اس وقت اللہ کی نظر میں نا پسندیدہ ہوتا ہے ۔ البتہ اگر اللہ کی نعمت پر خوش ہووے اور اس کے چھن جانے کا خوف بھی دل میں رکھے اور اتنا ہی سمجھے کہ یہ نعمت حق تعالیٰ نے فلاں علم یا عمل کے سبب مجھ کو مرحمت فرما دی ہے اور وہ مالک مختار ہے جس وقت چاہے اس کو مجھ سے لے لے تو یہ خود پسندی اور عجب نہیں ہے ۔کیونکہ خود پسند شخص نعمت کا منعم حقیقی (اصل انعام کرنے والا )کی جانب منسوب کرنا ہی بھول جاتا ہے ۔اور جملہ نعمتوں کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے ۔ عجب میں صرف ایک قید کم ہے یعنی اس میں دوسروں کو چھوٹا سمجھنا نہیں صرف اپنے کو بڑا سمجھنا ہے باقی سب اجزائ وہی ہیں جو تکبر کے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اتراتا ہوا چلتا ہے وہ قیاُمت کے روز خدا تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک ہوگا ۔(مسند احمد)

طریق علاج

اس کمال کو عطائے خدا وندی سمجھے اور اس کی قدرت کو یاد کر کے ڈرے کہ شاید سلب ہو جاوے دوسرا علاج یہ ہے کہ کامل کا اعلیٰ درجہ پیش نظر رکھ کر غور سے اپنی لغز ش اور کوتاہی ظاہری و باطنی دیکھے تاکہ اپنی بزرگی اور کمال کا گمان پیدا نہ ہو ۔اس کا بھی اصل علاج اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنا ہے ۔شیطان کے دل میں بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں تھی اس لئے سب کمالات کی نسبت اپنے طرف کی ۔جو عاشق ہوتا ہے وہ محبوب میں فنا ہوجاتا ہے اور اس کو سب چیزوں میں اپنا محبوب نظر آتا ہے اس لئے اس کے لئے اپنے کمالات محبوب تک پہنچنے کا باعث ہوتا ہے ۔

خود رائی

جب کوئی شخص کسی خوبی کا سن کر اس کو اپنے میں سمجھنا شروع کرے تو سمجھ لو کہ یہ خود رائی میں مبتلا ہے ۔یہ بھی بڑا عیب ہے ۔اس کی وجہ سے انسان کی نظر اپنے عیوب سے اور دوسروں کے محاسن سے اٹھ جاتی ہے۔وہ صرف اپنے ذات میں مگن رہتا ہے ۔اپنے منہ میاں مٹھو بنا رہتا ہے ۔جب بھی کسی کی کوئی خوبی سنتا ہے تو بجائے اس کے اس کی تحسین کرے کوشش کرتا ہے کہ اس وقت اپنی کوئی خوبی چاہے وہ واقعی ہو یا من گھڑت سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعریف کی بجائے اس کی تعریف کرے۔اللہ تعالیٰ اس بیماری سے ہر ایک کو بچائے ۔یہ اصلاح کے راستے میں بہت رکاوٹ بن جاتی ہے کیونکہ اس کا مریض اپنی اصلاح کے لئے محنت نہیں کرتا اور ان محاسن کو جن کے حاصل کرنے کا حکم ہے اپنے میں موجود سمجھ کر اس سے غافل ہوتا ہے نتیجہ صاف ظاہر ہے ۔یہ عجب کی بھی ماں ہے کیونکہ عجب میں تو انسان اپنے محاسن پر ناز کرتا ہے یہاں تو عیوب کو بھی محاسن سمجھنے لگتا ہے ۔یہ دونوں سراب ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کو ان سے بچائے ۔اس کی وجہ بھی دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت کا نہیں ہونا ہے ۔اس لئے ایسے شخص کو چاہیئے کہ جلد از جلد اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اس کے لئے اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنا جاری رکھے ۔شیخ کی صحبت میسر ہو تو وہ تو نور علی ٰ نور ہے۔یہ مراقبہ بھی اس کے لئے مفید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے میرے اعمال پیش کئے جارہے ہیں اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی اس لئے بندہ حیران و پریشان ہے کہ اپنے اعمال میں جو عیوب ہیں ان کو کیسے چھپائے بس یہی بات دل کو لگے گی کہ اپنے اعمال کو انتہائی کمزور سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہو اور جب تک زندہ ہے اپنی اصلاح کی فکر لگا ہو۔اس مراقبہ سے دل کے گرہیں کھلیں گی ۔اپنے محاسن بھی عیوب نظر آئیں گے اور حقیقی توبہ کی دولت نصیب ہوجائے گی ۔انشاء اللہ۔

ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے ایک مرید نے خط میں ذکر کیا کہ میں کیا کروں مجھے اپنے عیوب نظر نہیں آرہے ہیں۔ حضرت نے جواب میں لکھا کہ اگر یہ بات ہے تو تم لاعلاج ہو ۔یہاں سے دفع ہوجاؤ۔مجھے اپن منہ نہ دکھاؤ۔ بے وقوف ذرا یہ مراقبہ تو کرو (جو اوپر ذکر کیا گیا ) پھر دیکھو تیرے اعمال کی کیا حقیقت ہے۔اس شخص نے جب اس پر عمل کیا تو لکھا کہ حضرت میرا دماغ درست ہوگیا ۔اب مجھے کوئی عمل بھی ایسا نظر نہیں آتا جو رب کے حضور پیش کروں ۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا دل ایک صندوق ہے جس پر اوپر سے خوشنما کاغذ اور پھول سجھے ہوئے ہیں لیکن اند رجب کھول کر دیکھا تو اس میں گوہ اور گوہ (بول براز) ہی جما ہوا ہے۔ حضرت (رحمۃ اللہ علیہ) نے جواب میں لکھا مبارک ہو حقیقت تک رسائی ہوئی اب انشاء اللہ اس بول براز سے کھا د کا کام لیا جائے اور دل میں ایسے خوشنما پھول اور پھل لگیں گے کہ دل خوش ہوجائے گا۔پس خود رائی کا یہ مراقبہ مؤثر علاج ہے۔

تکبّر

ارشاد خدا وندی ہے کہ "اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ المُسْتَکْبِرِیْنَ" یعنی تحقیق اپنی بڑائی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "لاَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اَحَدٌ فِیْ قَلْبِہٰ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِّن کِبْرٍ (رواہ مسلم )" یعنی جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔

حقیقت کبر

اپنے آپ کو صفات کمال میں دوسرے سے بڑھ کر سمجھنا یا دوسروں کو کسی بھی وجہ سے خقارت سے دیکھنا۔

تشریح

تکبر کے اقسام بہت ہیں ۔اور اکثر ان میں بہت باریک اور مخفی ہیں کہ کسی کی نظر سوائے شیخ کامل کے وہاں تک نہیں پہنچتیاور اس میں علماء ظاہر کو بھی کسی محقق کی تقلید کرنی پڑتی ہے ۔تکبر کا حاصل یہ ہے کہ کسی کمال دینی یا دنیوی میں اپنے آپ کو با اختیار خود دوسرے سے اس طرح افضل سمجھنا کہ اپنے مقابلے میں دوسرے کو حقیر سمجھے تو اس میں دو جز ہوں گے ۔اول اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ،دوم دوسرے کو اپنے سے حقیر سمجھنا ۔یہ تکبر کی حقیقت ہے جو حرام اور معصیت ہے اور ایک تکبر کی صورت ہے کہ اس میں سب اجزائ ہیں ،بجز ایک جزو اختیار کے یعنی بلا اختیار ان اجزائ کا خیال آگیا ۔یہاں تک تو معصیت نہیں لیکن اگر اس کے بعد اس خیال کو با اختیار خود اچھا سمجھا یا با وجود اچھا نہ سمجھنے کے با اختیار خود اس کو باقی رکھا تو یہ حقیقت کبر کی ہو جائے گی ۔اور معصیت ہو گی اور جو قید لگائی گئی ہے کہ دوسرے کو حقیر سمجھے یہ اس لئے ہے کہ اگر وہ واقعی کوئی بڑائی چھوٹائی کا اس طرح معتقد ہو کہ دوسرے کو ذلیل نہ سمجھے تو وہ تکبر نہیں ہے جیسا کہ ایک بیس برس کی عمر والا دو برس کے بچے کو سمجھے کہ یہ عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے مگر اس کو حقیر نہیں سمجھتا تو یہ کبر نہیں ۔الغرض جو شخص با اختیار خود اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا سمجھتا ہے اس کا نفس پھول جاتا ہے اور پھر اس کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں مثلاً دوسروں کو نظرِ حقارت سے دیکھنا یا اگر کوئی سلام کرنے میں پیش قدمی نہ کرے تو اس پر غصہ ہونا ،کوئی اگر تعظیم نہ کرے تو ناراض ہونا ،کوئی اگر نصیحت کرے تو ناک بھوں چڑھانا ،حق بات کے معلوم ہونے کے بعد بھی اس کو نا ماننا اور عوام الناس کو ایسی نظر سے دیکھنا جس طرح گدھوں کو دیکھتے ہیں ۔

تکبر سے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے یہ بہت برا مرض ہے اور تمام امراض کی جڑ ہے ۔ تکبر ہی سے کفر پیدا ہوتاہے۔تکبر ہی سے شیطان گمراہ ہوا ۔اس لئے حدیث میں اس پر سخت وعیدیں آئیں ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تکبر کرنے والے کا بہت برا ٹھکانہ ہے ۔کبریائی میری چادر ہے پس جو شخص اس میں شریک ہونا چاہے گا ،میں اس کو قتل کر دوں گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے قلب میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا ۔اور فرمایا کبر سے بچو ،کبر ہی وہ گناہ ہے جس نے سب سے پہلے شیطان کو تباہ کیا اور فرمایا دوزخ میں اس قسم کے آتشیں صندوق ہیں جن میں متکبروں کو بند کر دیا جائے گا ۔

علاج کبر

اللہ تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرے ۔ تاکہ اپنے کمالات ہیچ نظر آویں ،اور جس شخص سے اپنے کو بہتر سمجھتا ہے اس کے ساتھ تواضع اور تعظیم سے پیش آوے تاکہ عادی ہو جاوے ۔ذہن میں بات جمادے کہ مجھے یہ ساری نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں اور ان کا بقا بھی اس کے حکم سے ہے ۔اگر وہ نہ چاہے تو یہ نعمتیں آن کی آن میں چھن سکتی ہیں۔اگر کسی کے اعمال اپنے سے کم نظر آئیں تو یہ سوچے کہ ممکن ہے میرے اعمال اس سے زیادہ ہوں لیکن کامیابی زیادہ اعمال پر نہیں بلکہ اس کی فضل پر ہے نیز جیسے آگ تمام چیزوں کو آن کی آن میں خاکستر کرتی ہے یا ذہر تمام غذاؤں کی اثر کو آن واحد میں تباہ کرسکتا ہے اس طرح میرے اس تکبر سے ممکن ہے میرے تمام اعمال ہیچ ہوجائیں اور اس کے پاس جو تھوڑے بہت اعمال ہیں وہ اس کی عاجزی کے سبب قبول ہوجائیں۔یا یہ نہ ہو تو آخر کا کسے پتہ کہ خاتمہ کیسے ہو ممکن ہے میں مارا جاوں اور وہ کامیاب ہو۔

حسد و کینہ

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "خُذِالعَفْوَ وَئا مُرْ بِا الْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ" یعنی اختیار کرو معاف کر دینے کو اور حکم کرو اچھی بات کا اور منہ موڑ لو جاہلوں سے ۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "وَلاَ تَبَا غَضُوْا" یعنی آپس میں بغض نہ رکھو ۔

حقیقت کینہ

جب غصہ میں بدلہ لینے کی قوت نہیں ہوتی تو اس کے ضبط کرنے سے اس شخص کی طرف سے دل پر ایک قسم کی گرانی کا ہو جانا جس کی سبب سے اس کو کسی تکلیف دینے کا درپے ہونا۔

تشریح

کینہ صرف ایک عیب نہیں بلکہ بہت سے گناہوں کا بیج ہے ،جب غصہ نہیں نکلتا تو اس کا خمار دل میں بھرا رہتا ہے ۔اور بات بڑھتی اور رنجیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ کینہ یہ ہے کہ اپنے اختیار اور قصد سے کسی کی برائی یا بد خواہی دل میں رکھی جائے اور اس کو ایذا پہنچانے کی تدبیر بھی کرے ۔اگر کسی سے رنج کی کوئی بات بھی پیش آوے اور طبیعت اس سے ملنے کو نہ چاہے تو یہ کینہ نہیں بلکہ انقباضِ طبعی ہے جو گناہ نہیں ۔ کینہ کے متعلق حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کینہ پرور بخشا نہیں جاتا ،اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے پیر اور جمعرات کو جب بندوں کے نامہئ اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہر استغفار کرنے والے کی مغفرت کر دیتا ہے ،لیکن اہل کینہ کی مغفرت نہیں ہوتی ۔ نیز فرمایا کہ ان دو آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی جن کے درمیان عداوت و کینہ ہو ۔ یہاں پر عداوت سے مراد وہ عداوت ہے جس کا معنیٰ نا حق اُمور ہوں ۔اسی لئے اگر کسی مسلمان کو کسی سے دین کے متعلق خدا تعالیٰ کے واسطے دشمنی ہو تو یہ عداوت مستحسن اور قابل اجر ہے ۔جیسا کہ حدیث شریف میں "اَلْحُبُّ ﷲ ِ وَالْبُغْضُ ﷲِ " کا امر ہے ۔

طریق علاج

جس شخص سے کینہ ہو اس شخص کا قصور معاف کر دینا اور اس سے میل جول شروع کر دینا گو بتکلف ہی ہو ۔کینہ میں چونکہ مخفی طور پر غصّہ شامل ہے بس فرق یہ ہے کہ غصّہ وقتی طور پر ہوتا ہے اور اس میں سوچ کا عنصر کم ہوتا ہے جبکہ کینہ مستقبل کے لئے ہوتا ہے اور اس میں سوچ کا عنصر شامل ہوتا ہے اس لئے روحانی طور پر کینہ زیادہ قابل مذمت ہے ۔سوچ کا علاج سوچ ہے اس لئے اپنے آپ کو رب کا قصور وار سمجھ کر یہ سوچا جائے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ حساب کیا تو میں کیسے بچ سکتا ہوں ؟ پس مجھے بھی اس کے مخلوق کو معاف کرنا چاہیئے تاکہ وہ میرے اوپر رحم فرمائے ۔ایک حدیث شریف کہ مفہوم ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

اخلاق حمیدہ

توحید

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔ "وَاﷲ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْن" اور اللہ ہی نے تم کو اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے۔ نیز ارشاد ہے کہ "وَمَا تَشَآوئُ نَ اِلاَّ اَنْ یَّشَآئَ اﷲُ۔" اور تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے جب تک اللہ نہ چاہے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، " وَاعْلَمْ اَنَّ الاُ مَّۃَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلیٰ اَن یَّنْفَعُوْکَ لَمْ یَنْفَعُوْکَ اِلاِّ بِشَیئٍ قَدْ کَتَبَ اﷲُ لَکَ وَ لَوِ اجْتَمَعُوا عَلیٰ اَن یَضُرُّوْک َ لَمْ یَضُرُّوْکَ اِلاَّ بِشَیئٍ قَدْ کَتَبَ اﷲُ عَلَیْکَ۔ (رواہ احمد و الترمذی)" یعنی جان تو کہ اگر سب متفق ہو جائیں اس پر کہ تجھ کو کچھ نفع پہنچا دیں ،ہر گز نہیں پہنچا سکتے ۔مگر اس چیز کا جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے ،اور اگر سب متفق ہو جائیں کہ تم کو ضرر پہنچائیں ہر گز ضرر نہ پہنچا سکیں گے مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیاہے ۔

توحید کیا ہے؟

یہ یقین کر لینا کہ خدا کے ارادے کے بغیر کچھ نہیںہو سکتا توحید کہلاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ خدا کے بغیر کوئی دوسرا موجود نہیں جیسا کہ جو لوگ وحدت الوجود کا دعویٰ کرنے والے کہتے ہیں کیونکہ خدا کو اس کی تمام صفات کے ساتھ ماننا پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ایک صفت خلق بھی ہے اور خالق کوئی تب ہی ہوسکتا ہے جب اس نے مخلوق تخلیق کی ہو اس لئے مخلوق کی موجودگی ماننا خالق کا ماننا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ایسا ادراک کسی کو ہوجائے کہ مخلوق کی موجودگی اس کو محسوس ہی نہ ہو جیسے سورج کی موجودگی میں ستارے نظر نہیں آتے ۔ اسی کو وحدت الشہود کہتے ہیں ۔

توحید کو توہین مقربین میں بدلنا ٹھیک نہیں ۔ توحید کے مقابلے میں شرک ہے جس کو اللہ تعالیٰ نہیں بخشتے اس لئے توحید کا حاصل کرنا اور شرک سے بچنا سب کے لئے انتہائی ضروری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جن مقربین کو عزت عطا فرمائی ہے چاہے وہ انبیاء علیھم السلام ہوں یا اُمتی ہر دو صورتوں میں توحید کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان کی توہین کی جائے ۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہے تو اس سے بچنا بہت ضروری ہے ورنہ بے ادبی کے جرم میں سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنے محبوبین کے بارے میں بہت غیور ہے اس لئے جو ان کی شان میں بے ادبی کرنے کا مرتکب ہوتے ہیں وہ مردود ہوجاتے ہیں۔ان کے سارے اعمال ضائع ہوسکتے ہیں۔ لا ترفعو ا اصواتکم فوق صوت النبی میں اس کی تعلیم موجود ہے نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جو میرے کسی ولی کو تکلیف پہنچاتا ہے میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے پس نہ تو شرک میں مبتلا ہونا چاہیئے کہ یہ جرم ناقابل معافی ہے اور نہ بے ادبی کا مرتکب کہ اس کا انجام بھی تباہی ہے ۔توحید کا مطلب مقربین کی بے ادبی نہیں اور ادب کو شرک نہیں بنانا چاہیئے ۔

حاصل کرنے کا طریقہ

مخلوق کے عجز اور خالق کی قدرت کو یاد رکھنا اور سوچنا۔ سورۃ فاتحہ میں اس کا بہترین علاج موجود ہے ۔ایاک نعبد و ایاک نستعین میں شرک سے بچنے کا انتظام ہے اور صراط الذین انعمت علیھم میں بے ادبی سے بچنے کا انتظام ان دونوں کو جمع کرنا ہدایت ہے اور ان دونوں میں سے کسی سے اعراض غضب الٰہی کو دعوت دینا اور گمراہی ہے ۔ان آیات مبارکہ کی تلاوت کے دوران اس کا مفہوم ذہن میں رکھنا اور صحابہ (ص) کی زندگی کا مطالعہ بہت فائدہ پہنچاتا ہے ۔

اخلاص

اخلاص توحید کا لازمی نتیجہ ہے۔ جو بھی صحیح معنوں میں موحد ہوگا وہ مخلص بھی ہوگا کیونکہ خدا کو ہم سے اخلاص مطلوب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "وَمَآ اُمِروآ اِلاِّ لِیَعْبُدُواﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّ یْنَ حُنَفَآئَ" اور انہیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ عبادت کریں اللہ تعالیٰ کی دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے ایسی حالت میں کہ ہر طرف سے یکسو ہوں ۔ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اِنَّ اﷲَ لاَ یَنْظُرُ اِلیٰ صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِن یَّنْظُرُ اِلیٰ نِیَّاتِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ" یعنی حق تعالیٰ تمھاری صورتوں اور مالوں کی طرف نظر نہیں فرماتے بلکہ تمھاری نیتوں اور اعمال پر نظر فرماتے ہیں ۔

اخلاص کیا ہے؟

اپنی اطاعت میں صرف اورصرف اللہ کی خوشنودی کا ارادہ کرنا اور مخلوق کی خوشنودی اور رضا مندی یا اپنی کسی نفسانی و مالی و جاہی خواہش کے ارادے سے اپنے آپ کو بچانا اخلاص کہلاتا ہے ۔یہ ریا کی ضد ہے اس لئے ریا کا ہونا اخلاص کی غیر موجودگی ھی دلیل ہے البتہ بعض دفعہ ایک آدمی کوئی کام نہ تواللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہے اور نہ کسی مخلوق کے لئے بس صرف اس سے اپنا کوئی ذاتی منفعت وابستہ ہوتا ہے۔اس لئے وہ ریا تو نہیں کہ اس کو گناہ ہو البتہ اس کو اس عمل کا آخرت میں کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوتا مثلاً کوئی داڑھی اس لئے رکھے کہ اس سے خوبصورت لگتا ہے تو وہ خوبصورت تو لگے گا اور داڑھی نہ رکھنے کا گناہ بھی نہیں ہوگا لیکن اس کو سنت کا ثواب نہیں ملے گا۔اگر مخلوق کی رضا یا خوشنودی کے لئے کوئی دینی کا م کیا جائے گا تو وہ ریا ہے۔اس سے بچنا فرض ہے ورنہ وہی عمل جہنم میں لے جاسکتا ہے جیسا کہ عالم ،سخی اور شھید والی حدیث میں ہے۔

حاصل کرنے کا طریقہ

اخلاص ارادے کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے اپنی نیت کو درست کرنے سے یہ حاصل ہوجاتا ہے ۔ ریا کے باب کو تفصیل سے پڑھ کر اس سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہیئے ۔کسی شیخ کامل کی اتباع سے ہی ریا کا سد باب ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بہت مخفی طریقے سے داخل ہوتی ہے ۔مخلصین کی صحبت کا التزام کرنا چاہیئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔واصبر نفسک مع الذین ۔۔۔۔جس میں مخلصین کے ساتھ بیٹھنے کا امر ہے اور دنیا داروں کے پاس بیٹھنے کی ممانعت ہے ۔

اخلاص کے فائدے

چاہے کیسا ہی نیک کام ہوبڑا ہو یا چھوٹا مگر خلوص کے ساتھ ہو تو اس میں برکت ہوتی ہے ۔چاہے اس کا کوئی بھی معاون نہ ہو ،جس قدر اخلاص زیادہ ہوگا اسی قدر ثواب بڑھتا جائے گا اور اسی واسطے حدیث میں آیا ہے کہ میرا صحابی اگر نصف مد ،یعنی آدھا سیر جو اللہ کی راہ میں خرچ کر ے تو وہ دوسروں کے احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنے سے بہتر ہے ۔بات یہ ہے کہ ان حضرات کے اندر خلوص اور محبت اس قدر تھی کہ اوروں کے اندر اتنی نہیں اسی لئے ان حضرات کے صدقات و حسنات بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔اخلاص کا اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ محض خدا کے لئے کام کرے ۔مخلوق کا اس میں تعلق ہی نہ ہو ۔اس سے کم یہ ہے کہ مخلوق کو راضی کرنے کے لئے کام کرے مگر کوئی دنیوی غرض مطلوب نہ ہو ۔تیسرا درجہ یہ ہے کہ کچھ نیت نہ ہو ،نہ دنیا ہو نہ دین ۔یوں ہی خالی الذہن ہوکر کام کر لیا ۔یہ بھی اخلاص یعنی ریا کا نہ ہونا ہے ۔

ایک قابل توجہ بات

۔یہاں اس ضمن میں ایک بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ صرف اخلاص پر بخشش نہیں ہوگی بلکہ اس کے ساتھ حضورصلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے طریقے پر عمل بھی ہو کوئی شخص چاہے کتنے ہی اخلاص کے ساتھ نماز میں ایک رکعت میں تین سجدے کرلے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی کیونکہ اس نے حضور صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے طریقے پر نماز نہیں پڑھی ۔یہیں سے بدعت اور سنت میں فرق بھی سمجھنا چاہیئے ۔اہل بدعت بدعت کو دین سمجھ کر کرتے ہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اس کو کر رہے ہوں لیکن بدعت کے بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا ارشاد مبارک ہے کل بدعۃ ضلالۃ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے پس آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا طریقہ سیکھنا اور اس کے مطابق اخلاص کے ساتھ عمل کرنا لازمی ہے ۔ان دو میں سے کوئی ایک چیز بھی رہ گئی تو تباہی کا اندیشہ ہے۔اس لئے یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنے عمل کا علمی اور قلبی جائزہ لینا چاہیئے کہ کہیں کوئی بات آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کے طریقے کے خلاف تو نہیں ہورہی ہے ؟ یا طریقہ تو آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا ہو لیکن کہیں نیت میں کھوٹ تو نہیں آئی۔اپنا احتساب روزانہ کرنا چاہیئے اور اس کی فکر کرنی چاہیئے۔

اس میں ایک بات البتہ سمجھ لینی چاہیئے کہ جو مخلصین ہوتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ سمجھنے کا راستہ بنا ہی دیتا ہے جس سے ان کے اخلاص کا بھی امتحان ہوجاتا ہے ۔پس اگر کوئی مخلص شخص بدعات یاجھالت کی کسی بات میں مبتلا ہو تو اس کے فوراً درپے نہیں ہونا چاہیئے بلکہ احسن طریقے سے اس پر حضورصلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمکا طریقہ پیش کرنا چاہیئے ۔اگر وہ مخلص ہوگا تو وہ اس کو ضرور لے گا ۔اس سے اس حدیث شریف کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا کہ اللہ تعالیٰ ہماری صورتوں اور اعمال کو نہیں دیکھتے بلکہ ہماری نیتوں اور اعمال کو دیکھتے ہیں پس اگر صرف نیت کافی ہوتی تو اعمال کا یہاں تذکرہ نہ ہوتا ۔اس لئے نیت کا درست ہونا اور عمل کا صحیح ہونا دونوں لازمی قرار پائے ۔ اخلاص نہ صرف قبولیت کے لئے ضروری ہے بلکہ ثواب کے درجات و مراتب بھی اخلاص کے مطابق ہوتے ہیں ۔ہر انسان عمل کرتا ہے تو جن کے اعمال درست ہیں ان کے اجر میں فرق ان کی اخلاص میں فرق کی وجہ سے ہوگا۔جس کے عمل میں اخلاص زیادہ ہوگا وہ زیادہ اجر کا مستحق ہوگا۔

توبہ

ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کی بندگی کرنا ہمارا فرض ہے ۔اس فرض میں جب کوتاہی ہوجاتی ہے اور شیطان کے اغوا سے یا نفس کی شرارت سے آدمی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کا اللہ تعالیٰ سے ابھی رشتہ نہیں ٹوٹا یہ بندہ اب بھی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے روئے گڑگڑائے ۔اپنی خطا کا اعتراف کرے اوراللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرکے اپنا قصور معاف کرائے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ : "یَآاَیُّھَا الِّذِیْنَ اٰ مَنُوْا تُوْ بُوْآ اِلیَ اﷲِ تَوْبَۃً نَّصُوْحاً" یعنی اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "یَآیُّھَا النَّاسُ تُو بُوْآ اِلیَ اﷲِ (رواہ مسلم )" یعنی اے لوگو اللہ کی طرف خالص توبہ کرو ۔

توبہ کی حقیقت

خطا کو یاد کر کے اس پر نادم ہونا ۔ اس گناہ کا ترک کر دینا اور آئیندہ کے لئے پختہ ارادہ کرنا کہ اب نہ کریں گے اور خواہش کے وقت نفس کو روکنا توبہ کہلاتا ہے ۔

تشریح

توبہ کے معنیٰ رجوع کرنے اور بعد سے قرب کی جانب لوٹ آنے کے ہیں ۔مگر اس کے لئے بھی ایک ابتدائ ہے اور ایک انتہا ہے ۔ابتدائ تو یہ ہے کہ قلب پر نور معرفت کی شعاعیں پھیل جائیں اور دل کو مضمون کی آگاہی حاصل ہو جائے کہ گناہ ستم قاتل ہے اور تباہ کر دینے والی شے ہے اور پھر خوف اور نداُمت پیدا ہو کر گناہ کی تلافی کرنے کی سچی اور خالص رغبت اتنی پیدا ہو جائے کہ جس گناہ میں مبتلا تھا اس کو فوراً چھوڑ دے ۔اور آئیندہ کے لئے اس گناہ سے بچنے اور پرہیز کرنے کا مصمم قصد کرے اور اس کے ساتھ ہی جہاں تک ہوسکے گذشتہ تقصیر و کوتاہی کا تدارک کرے جب ماضی اور مستقبل اور حال تینوں زمانوں کے متعلق توبہ کا یہ ثمرہ پیدا ہو جائے گا تو گویا توبہ کا وہ کمال حاصل ہو گیا جس کا نام توبہ کی انتہا ہے ۔

ضرورت توبہ

توبہ کے معنی اور حقیقت سمجھنے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ توبہ ہر شخص پر واجب ہے ۔کیونکہ حق تعالیٰ تمام مسلمانوں کو مخاطب بنا کر فرماتے ہیں "یَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلیَ اﷲِ تَوْبَۃً نَّصُوْحاً" یعنی اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرو ،چونکہ توبہ کی حقیقت یہی ہے کہ گناہوں کو اخروی زندگی کے لئے ستم قاتل اور مہلک سمجھے اور ان کے چھوڑنے کا عزم کر لے اور اتنا مضمون ایمان کا جز ہے اس لئے ہر مومن پر اس کا واجب اور ضروری ہونا تو ظاہر ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا " فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٰ وَاَصْلَحَ فَاِنِّ اﷲَ یَتُوْبُ عَلَیْہٰ" مطلب اس آیت کریمہ کا یہ ہے کہ جو شخص قاعدئہ شریعت کے موافق اپنی اس زیادتی یعنی گناہ کرنے کے بعد توبہ کرے اور آئیندہ کے لئے اعمال کی درستی رکھے ،یعنی تما م برائیوں کو چھوڑ دے، شریعت کے مطابق کام کرے اور اپنی توبہ پر قائم رہے تو بے شک اللہ تعالیٰ اس کے حال پر رحم کے ساتھ توجہ فرمائیں گے کہ تو بہ سے پچھلے گناہ معاف فرما دیں گے اور توبہ پر استقاُمت عطا فرما کر مزید اعانت فرما دیں گے

حدیث شریف میں ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر زمین اور آسمان کے برابر بھی گناہ لے کر میرے پاس آئیں اور مجھ سے مغفرت چاہیں تو میں سب کو بخش دوں گا ۔اور گناہوں کی کثرت کی پرواہ نہ کروں گا ۔نیز دوسری حدیث میں ہے " اَلتّآئِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہُ " یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا وہ شخص جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اِنّیِ لَاَسْتَغْفِرُاﷲَ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً" یعنی بے شک میں ہر روز ستر دفعہ استغفار کرتا ہوں ۔عصمت انبیاء یعنی انبیاء علیہ السلام کا گناہو ں سے پاک ہونا ایک مسلم مسئلہ ہے ۔پھر بھی آپ استغفار فرما رہے ہیں ۔ یہ انبیاء علیہ السلام اور اکابرین کی حالت ہے تو ہم پھر کس شمار میں ہیں ۔اس کی پرواہ نہ کریں کہ توبہ ٹوٹ جائے گی ۔جب توبہ ٹوٹ جائے تو دوبارہ توبہ کر لے مگر شرط یہ ہے کہ توبہ دل سے ہو یعنی توبہ کے وقت یہ عزم پختہ ہو کہ اب یہ گناہ نہیں کروںگا ۔اس طرح توبہ کر کے اگر سو مرتبہ بھی توبہ ٹوٹے تو کچھ پرواہ نہیں ۔ہر دفعہ پھر توبہ کرتے رہیں ۔خدا تعالیٰ کے مقبول اور اہل طاعت میں شمار ہونگے ۔

باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ

گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ

ایں در گہ ما در گہ نو میدی نیست

صد بار اگر توبہ شکستی باز آ

یعنی ہماری در گاہ کی طرف ضرور واپس آؤ ،جو کچھ بھی تم ہو واپس آجاؤ۔اگر کافر بت پرست ہو تو بھی واپس آؤ،یہ ہماری درگاہ نا امیدی کی درگاہ نہیں ہے ،سینکڑوں بار اگر توبہ توڑ چکے ہو تو بھی واپس آؤ اور توبہ کرو ۔ہم قبول کریں گے ۔ حق تعالیٰ کی وسعت رحمت ہے کہ ہر حالت میں اجازت دے دی کہ ہم سے باتیں کر لو ہمارا نام لے لو ، ہر حالت میں سماعت ہو گی ۔

توبہ کا طریقہ

(1)گذشتہ گناہوں پر نداُمت اور معذرت ظاہر کرے ۔جو حقوق العباد واجب الادا ہیں فی الحال ان کے ادا کا عزم کرے اور پھر ان کے ادا کا اہتمام کریں یا اہل حقوق سے معاف کرائے ۔

(2)اگرپھر گناہ صادر ہو جائے تو فوراً دو رکعت نماز توبہ کی نیت سے پڑھ کر پھر توبہ کرے ،زبان سے بھی توبہ کرے اور رونے کی شکل بنا کر خدا تعالیٰ سے خوب معافی مانگے ۔

(3)توبہ کے لئے تو گناہوں کو یاد کرے ،اس کے بعد جی بھر کے توبہ کرے مگر ان کو بلاوجہ بار بار یاد نہ کرے کہ اس سے بندہ اور خدا تعالیٰ کے درمیان ایک حجاب سا معلوم ہونے لگتا ہے ،جو محبت اور ترقی سے مانع ہے ،جس کا اثر یہ ہوگا کہ وہاں سے بھی عطا میں کمی ہوگی کیونکہ جزا اور ثمرات کا ترتب عمل پر ہوتا ہے ۔سچی توبہ کے بعد اگر از خود پرانے گناہ یاد آ جائیں تو پھر تجدید توبہ کر کے کام میں لگ جاوے اس سے زیادہ کاوش کرنا غلو ہے ۔

(4)نیز استغفار اور توبہ کے وقت معاصی کے تذکرے اور استحضار میں ایک قسم کا توسط ہونا چاہئے یہ ضروری نہیں کہ سب گناہوں کی پوری فہرست پڑھنے بیٹھ جائے ۔صرف اجمالی طور پر سب گناہوں سے توبہ کر لے ۔ہر گناہ کا نام لینا ضروری نہیں

حدیث میں ہے "وَمَآ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٰ مِنِّیْ" اور اس گناہ سے بھی توبہ کرتا ہوں جس کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "وَ اَتُوْبُ اِلَیْہٰ مِنَ الذَّ نْبِ الَّذِیْٓ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّ نْبِ الَّذِیْ لآ اَعْلَمُ" اور اس کی طرف اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں جس کو میں جانتا ہوں اور اس گناہ سے بھی جس کو میں نہیں جانتا ۔ اس سے بھی یہی بات نکلتی ہے کہ اس میں سب گناہ آگئے اگرچہ یاد نہ آئیں ،کیونکہ اس سوچ میں وقت ضائع کرنا مطالعہئ محبوب سے غافل ہونا ہے ۔البتہ جو از خود یاد آ جائیں ان سے بالخصوص توبہ کریں ،خوا مخواہ کرید کرید کر تلاش کرنا یہ خو دایک ایسا مشغلہ ہے جوحضور سے مانع ہے ۔بس سب گناہوں سے توبہ کر کے اپنے کاموں میں لگیں ،کیونکہ مقصود بالذات خدا تعالیٰ کی یاد ہے ۔نہ کہ گناہوں کی یاد ۔ نہ ہی طاعت کی یاد مقصود ہے ۔گناہوں کی یاد سے توبہ مقصود ہے جب وہ حاصل ہے تو پھر قصداً گناہ کو یاد کر کے اس کی یاد کو مقصود بالذات نہ بنائیں اور اگر یاد آ جائے تو پھر توبہ و استغفار کر لیں ،جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ مصیبت خود بخود یاد آ جائے تو اِنَّا ﷲِ پڑھ لیں کہ اس وقت اِنَّا ﷲِ پڑھنے کا وہی ثواب ہو گا جو عین مصیبت کے وقت پڑھنے کا ثواب تھا ۔ شیخ اکبر کا قول ہے کہ معصیت کی یاد کو مقصود بالذات نہ بنائیں ،کیونکہ اس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ مجھ سے ناراض ہیں اور یہ خیال خطرناک ہے ۔

توبہ کا محرک

قُرآن و حدیث میں جو وعید گناہوں پر آئی ہے ان کو یاد کرے اور سوچے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے گناہوں کا حساب دینا ہوگا نیز اللہ تعالیٰ کے جو ہمارے اوپر احسانات ہیں اور جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کو یاد کرکے سوچے کہ ہم کتنے کمینے ہیں کہ ایسے رب کو جو ہمیں ہمارے فائدے کیلئے گناہوں سے روکتا ہے اور ہم ہر حالت میں اس کے محتاج ہیں اس کو تو ناراض کرتے ہیں اور اپنے دشمن جس نے ہمارے دشمنی میں اپنا سب کچھ کھویا ہے یعنی شیطان اس کی بات مانتے ہیں۔ اس سے گناہ پر دل میں سوزش اور نداُمت پیدا ہوگی ،یہی توبہ ہے ۔

محبت

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّونَہُ" اور اللہ تعالیٰ ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو دوست رکھتے ہیں ۔ نیز ارشاد ہے کہ "وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا ﷲ" یعنی جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ تعالیٰ سے محبت میں بہت مضبوط ہیں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مَنْ اَحَبَّ لِقَآ ئَ اﷲِ اَحَبَّ اﷲُ لِقَا ئَہُ وَمَنْ کَرِہَ لِقَآئَ اﷲِ کَرِہَ اﷲُ لِقَآئَہُ (متفق علیہ )" یعنی جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتاہے ،اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتاہے ۔اور جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ۔ حقیقت محبت :طبیعت کا ایسی چیز کی طرف مائل ہونا جس سے لذّت حاصل ہو محبت کہتے ہیں ،یہی میلان اگر قوی ہو جاتا ہے تو اس کو عشق کہتے ہیں ۔

تشریح

محبت کی دو قسمیں ہیں ۔ محبت طبعی اور محبت عقلی ۔محبت طبعی اختیاری نہیں ہے ،اس کا ہوجانا اور اسکی بقا بالکل غیر اختیاری ہے اورغیر اختیاری کام بعض اوقات پائدار نہیں ہوتا لہٰذا محبت طبعی ماُمور بہٰ نہیں ہے جبکہ محبت عقلی کا حاصل کرنا اور اس کی بقا اختیاری ہے تو یہ پائدار بھی ہوتی ہے ،اس لئے محبت عقلی ماُمور بہٍ ہے اور یہی افضل اور راجح ہے ،چونکہ محبت طبعی کا منشا جوش طبیعت ہے اور جوش ہمیشہ نہیں رہا کرتا ۔

اسباب محبت

محبت کے تین سبب ہوا کرتے ہیں ۔یا تو یہ کہ کوئی ہم پر احسان کرتا ہو اور اس کے احسان کی وجہ سے ہمیں اس سے محبت ہو یا کہ وہ نہایت حسین و جمیل ہو اور اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اس کی طرف میلان خاطر ہو یا اس میں کوئی کمال پایا جاتا ہو اور وہ کمال باعث محبت ہو ۔

سو انعام و نوال و حسن و جمال و فضل و کمال علی وجہ الکمال خدا تعالیٰ ہی میں پائے جاتے ہیں ۔تو جب تک یہ کمالات باقی ہیں اس وقت تک محبت بھی رہے گی اور محبوب حقیقی کے کمالات ختم نہیں ہو سکتے اور ان کی محبت بھی ختم نہ ہوگی اور چونکہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی میں بھی بالذات کمالات نہیں اس لئے کاملین کو خدا تعالیٰ کے سوا کسی سے محبت عقلی نہیں ہو سکتی ،ہاں حب طبعی یعنی عشق غیر خدا سے بھی ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ جس محبت کا امر ہے وہ حب عقلی ہے نہ کہ طبعی ۔اس کے لئے نصوص میں حب طبعی یعنی عشق کا عنوان کہیں مذکور نہیں ۔بلکہ جا بجا حب کا ذکر ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ حب طبعی مطلوب نہیں بلکہ حب عقلی مطلوب ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ حب عقلی والوں یعنی کاملین میں حب طبعی نہیں ہوتی ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ غلبہ حب عقلی کو ہوتا ہے ،باقی جن پر حب عقلی کا غلبہ ہوتا ہے بعض اوقات ان میں محبت طبعی بھی ان لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے جن پر محبت طبعی کا غلبہ ہے مگر وہاں محبت طبعی پر حب عقلی غالب ہوتی ہے اسلئے جوش دبا رہتا ہے لیکن گاہے گاہے کاملین پر بھی حب طبعی کا غلبہ ہوتا ہے ۔

بہر حال کاملین حب طبعی اور حب عقلی دونوں کے جامع ہوتے ہیں مگر ان میں غلبہ حب عقلی کو ہوتا ہے اور ناقصین میں حب طبعی کا غلبہ ہوتا ہے ۔یہ کمال گو مطلوب نہیں مگر محمود ضرور ہے اور جو دونوں سے کورا ہے وہ خطرہ میں ہے ،پس محبت کا ہونا ضروی ہے ۔بغیر محبت کے صرف طاعات و عبادات کافی نہیں کیونکہ ان کا بھروسا کچھ نہیں ۔

خدا کی محبت کو حاصل کرنے کا طریقہ

اللہ تعالیٰ کے کمالات و اوصاف و انعامات کو یاد کرے اور سوچے ۔احکام شرعیہ کی بجا آوری کرے اور کثرت ذکر اللہ سے غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر اللہ کی محبت کو دل میں داخل کرے ۔ اتباع سنت اللہ تعالیٰ کی محبت بلکہ محبوبیت کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ " اس میں ان لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہیں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ اتباع سنت کریں تو ان کو محبوب بنادیا جائے گا۔ حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے ایک دفعہ فرمایا کہ میں آپ کو کامیابی کا طریقہ بتادوں ۔لوگوں نے کہا ضرور تو حضرت نے فرمایا کہ محبت کی پڑیا کھا لو لوگوں نے پوچھا محبت کی پڑیا کہاں سے ملے گی ۔حضرت نے فرمایا محبت کی دکانوں سے ۔قصہ مختصر حضرت کا مطلب یہ تھا کہ محبت کامیابی کا اصل مدار ہے جس کا حصول اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے در پر ہوتا ہے پس اہل اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنے سے یہ نعمت حاصل ہوسکتی ہے ۔ محبت ایک طاقت ہے ۔ محبت ہی عمل میں قوت پیدا کرتی ہے۔سلوک میں اعمال اور محبت کو جمع کیا جاتا ہے تو اس سے کامیابی ہوتی ہے مثلا ایک ریل گاڑی کے پہیے ہیں اور لائن پر کھڑی ہے لیکن انجن میں بھاپ نہیں تو اس انجن کو صرف دھکے کے ذریعے کہاں تک چلایا جاسکتا ہے اس میں لائن شریعت کی مثال ہے اور پہیے دوسرے ذرائع ہیں اور بھاپ محبت کی طرح ہے پس اگر محبت ہو تو دوسرے ذرائع راستہ کو طے کرنے میں کافی مدد دیں گے ۔اس صورت میں گاڑی اگر لائن پر ہو تو مسافت بہت جلد قطع ہوگی اور اگر لائن پر نہ ہو تو زبردست تباہی کا ذریعہ بنے گی پس اگر محبت ہو اور شریعت کا پاس نہ ہو تو انسان گمراہ ہوکر نصارٰی کی طرح گمراہیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ختم ہوسکتا ہے ۔ محبت قاطع وساوس ہے ۔ محبت میں انسان محبوب میں فنا ہوجاتا ہے اس لئے اس کو اپنی ہوش ہی نہیں ہوتی ۔اس کو صرف اس سے سروکار ہوتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے خوش ہے یا نہیں پس وہ اپنے محبوب کو خوش رکھنے میں اتنا مگن ہوتا ہے کہ اس کو راستے کی مشکلات پریشان نہیں کرسکتیں ۔

محبت کو حاصل کرنے کا طریقہ

محبت طبعی کا حاصل ہونا غیر اختیاری ہے اور محبت عقلی کا حاصل کرنا اختیاری ہے۔اس لئے محبت عقلی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کیونکہ غیر اختیاری چیزوں کے درپے ہونے سے پریشانی کے علاوہ اور کچھ نہیں حاصل ہوتا پھر جب محبت عقلی ہوجائے تو یہ بعض اوقات محبت طبعی میں بھی بدل جاتی ہے یا اس کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ اس پر محبت طبعی کا گمان ہونے لگتا ہے

۔حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) کا ارشاد مبارک ہے کہ محبت طبعی میں سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن اس میں انتظام نہیں ہوتا ۔بعض حضرات سے جب محبت میں ایسے کام ہوجاتے ہیں کہ شریعت اس کی عام حالات میں اجازت نہیں دیتی اس کی وجہ بھی یہی ہے ۔اس صورت میں ایمان کی محافظت ہو اور عقائد پر زد نہ پڑتی ہو تو بعض اُمور میں ایسے لوگوں کو معذور سمجھ کر ان سے صرف نظر کرنے کا حکم دیا جاتا ہے کہ نہ تو دین پر حرف آئے نہ بزرگوں سے بدگمانی ہو ۔ محبت عقلی کو حاصل کرنے کا طریقہ اہل محبت کی مجالس میں شرکت اور ا ن کی عدم موجودگی میں ان کے واقعات کا مطالعہ یا سننا ،علاجی ذکر شغل اور مراقبہ کا کرنا ہے ۔اس سے دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور خدا کی محبت آجاتی ہے ۔یہ تصور کرنا کہ خدا مجھ سے محبت کررہا ہے اور اس کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا اس کے لئے بہت مفید ہے ۔اعمال میں جو راحت کی جائز صورت ہو اس کو اختیار کرنا بھی اس کے لئے ذریعہ ہے ۔شریعت کا علم حاصل کرنا سالک کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر محبت میں خطرات بہت ہیں

درکفے جام شریعت در کفے سندان عشق

ہر ہوسناکے نداند جام و سندان باختن

شوق

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے "مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اﷲِ فَاِنَّ اَجَلَ اﷲِ لَاٰتٍ" یعنی جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا امیدوار ہے تو وہ جان لے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ساعت ( یعنی موت) تو آنے والی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اَسْئَلُکَ النَّظْرَ اِلیٰ وَجْھِکَ وَالشَّوْقَ اِلیٰ لِقَآئِکَ (رواہ نسائی)" یعنی تجھ سے تیرے رخ مبارک کی زیارت اور تیری ملاقات کا شوق مانگتا ہوں ۔

حقیقتِ شوق

کسی محبوب چیز کو حاصل کرنے یا کسی محبوب کا قرب حاصل کرنے کے لئے دل کا بے قرار ہوناشوق کہلاتا ہے ۔شوق ایک جذبہ ہے اور اس میں ایک کیفیت مغلوبیت کی ہوتی ہے ۔

تشریح

ابتدائ میں محبت شوق کے رنگ میں ہوتی ہے اور بعد میں انس کا رنگ غالب ہوتا ہے اس وقت وہ کیفیتیں نہیں رہتیں جو شوق کے وقت ہوا کرتی ہیں ۔مثلاً بات بات پر رونا اور استغراق کا غلبہ ہونا وغیرہ مگر لوگ انہیں آثار کو مقصود سمجھتے ہیں اور انس کی حالت میں جب یہ آثار کم ہو جاتے ہیں ۔تو پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔حالانکہ یہ مقصود نہیں کہ ہر وقت شوق غالب رہے اور تقاضہئ طبعی مرغوبات نفسانیہ کا کبھی نہ ہو۔ نہ یہ مقصود ہے کہ دل میں حرکت پیدا ہو جائے

۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوق کی ایک حد بیان فرمائی ہے ۔ "اَسْئَلُکَ شَوْ قاً اِلیٰ لِقَآئِکَ مِنْ غَیْرِ ضَرَّآئَ مُضِرَّۃٍوَّلاَ فِتْنَۃٍ مُّضِلَّۃٍ۔" یعنی اے اللہ ! میں آپ سے آپ کی ملاقات کا شوق بغیر کسی تنگی میں پڑنے کے جو نقصان دینے والی ہو اور بغیر کسی گمراہ کن آزمائش میں مبتلا ہونے کے طلب کرتا ہوں ۔ چونکہ شوق اور عشق کا غلبہ کبھی ہلاکت اور مضرت کا باعث بھی بن سکتا ہے جس سے اعمال میں خلل پڑتا ہے اور اصل مقصود اور ذرائع قرب اعمال اوراحکامات کی پابندی ہے اور کبھی غلبہ شوق میںآدمی ادب کا پاس نہیں رکھتا اور بے ادبی کی باتیں کرنے لگتا ہے ۔جیسا کہ اکثر عشاق غلبہئ حال میں کرتے ہیں اور یہ بے ادبی موجب ضرر دین ہوسکتی ہے گو غلبہ کی حالت میں معاف ہے مگر کمال نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادب اور اطاعت اور محبت کے جامع ہیں ،اسلئے یہ مذکورہ بالا دعا فرمائی ہے ۔

شوق حاصل کرنے کا طریقہ

محبت الٰہی کے ساتھ شوق خود بخود پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ محبت کے لئے شوق لازم ہے ۔

انس

جب آدمی کا دل کسی چیز کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوجاتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے تو اسکا تعلق اتنا محسوس نہیں ہوتا لیکن جب وہ نہیں ہوتا تو اس کی جدائی برداشت نہیں ہوتی تو کہتے ہیں کہ اس آدمی کو اس چیز کے ساتھ انس ہوگیا۔شوق کیساتھ عاشق پر جب حقائق کا انکشاف ہوتا ہے اور محبوب کی پسند و ناپسند کا اندازہ ہوجاتا ہے تو شوق مبدل بہ انس ہوجاتا ہے جو شوق کی طرح ظاہر تو نہیں ہوتا لیکن دیرپا اور مؤثر ہوتا ہے ۔اس وقت عاشق اپنی محبت کا حق ایک طریقے سے ادا کررہا ہوتا ہے لیکن نیا عاشق اس کو عشق سے خالی سمجھتا ہے مثلاً صاحب شوق تو محبوب کے لئے جان دے دے گا لیکن جو محبوب کو مطلوب ہے ضروری نہیں کہ وہ یہ کرگزرے جب کہ صاحب انس محبوب کے لئے اپنی جان کی حفاظت بھی کرے گا اور جان کو اس کے لئے استعمال بھی کرے گا۔

انس حاصل کرنے کا طریقہ

صاحب شوق اگر شیخ کامل کے ہاتھوں میں ہے تو اس کے احکامات پر بے چون و چرا عمل کرے کہ جس کی برکت سے یہ نعمت ملی ہے وہ میرا خیر خوا ہ ہے ۔شدہ شدہ شوق مبدل بہ انس ہوجائے گا یعنی دل محبوب کے ساتھ مانوس ہوجائے گا ۔ چونکہ یہ بھی آثار محبت میںسے ہے اس لئے اس کی تحصیل کے لئے کوئی جدا گانہ طریقہ نہیں ہے محبت کے ساتھ ہی حاصل ہو جاتا ہے ۔

خوف

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ "وَاخْشَوْنِیْ" اور مجھ سے ڈرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے " مَنْ خَافَ اَدْلَجَ وَمَنْ اَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ اَلآ اِنَّ سَلْغَۃَاﷲِ غَالِیۃٌ اَلآ اِنَّ سَلْعَۃَاﷲِ الجَنَّۃُ" یعنی جو ڈرتا ہے وہ منہ اندھیرے چلتا ہے اور جو منہ اندھیرے چلتا ہے وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے سن لو اللہ تعالیٰ کا سودا مہنگا ہے سن لو اللہ تعالیٰ کا سودا جنت ہے ۔

حقیقتِ خوف

ناگوار طبع چیز کے خیال اور اس کے واقع ہونے کے اندیشے سے قلب کا ڈرنا۔

تشریح

یہ احتمال کہ کہیں مجھے عذاب نہ ہوجائے خوف کی حقیقت ہے اور یہ احتمال مسلمانوں میں ہر شخص کو ہے اور یہی ماُمور بہٰ ہے ۔اور اسی کا بندہ مکلف کیا گیا ہے ۔یہ تو شرط ایمان ہے اور اس کا نام خوف عقلی ہے کہ تقاضائے معصیت کے وقت وعید اور عذاب خدا وندی کو یاد کر کے سوچ سوچ کے گناہوں سے بچا جائے ۔یہ درجہ فرض ہے اور اس کے نہ ہونے سے گناہ ہوگا ۔اور یہی حق تعالیٰ کا خوف جملہ نیک کاموں میں رغبت کرنے اور تمام گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے خوف کرنے والوں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت ،رحمت ،علم ، اور رضا کی محمود خصلتیں جمع فرمائی ہیں جو شخص خدا سے ڈرتا ہے اس سے ہر چیز ڈرنے لگتی ہے ۔

حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی بندے کو دو خوف نصیب نہ ہونگے ،یعنی جو بندہ دنیا میں خدا تعالیٰ کا خوف رکھے گا وہ آخرت میں بے خوف ہوگا اور جو دنیا میں نڈر رہا اس کو آخرت میں امن و اطمینان نصیب نہ ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیاُمت کے دن ہر آنکھ روتی ہوگی بجز اس آنکھ کے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیز کے دیکھنے سے روکی گئی اور وہ آنکھ جس نے اللہ کے راستے میں پہرا دیا اوروہ آنکھ جس میں خوف الٰہی کی وجہ سے مکھی کے سر کے برابر آنسو نکل آیا ۔نیز مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے ۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ خدا وند تعالیٰ فرشتوں سے قیاُمت کے دن فرمائے گا کہ آگ میں سے اس شخص کو نکال دو جو کسی مقام پر مجھ سے ڈرا ہے ۔

الغرض خشیت مؤمن کے لئے لازم ہے اور اس کی دو وجہ ہیں مآل میں احتمال کہ شائد کوئی اختیاری کوتاہی ہو جائے دوسرے یہ کہ شائد کوئی اختیاری کوتاہی فی الحال ہو گئی ہو جس کا علم بھی التفات سے ہو سکتا تھا اور التفات میں کوتاہی ہوئی کہ یہ بھی اختیاری ہے دیکھو ڈاکو سزا کے خوف سے ڈاکہ نہیں ڈالتا ،بچہ پٹنے کے خوف سے شرارت سے رکتا ہے ۔جرمانے کے خوف سے لوگ جرائم سے باز رہتے ہیں آدمی سبکی کے خوف سے محفل میں تہذیب سے بیٹھتا ہے ۔خوف ہی تو اٹھ جاتا ہے جو ملک میں امن نہیں رہتا گویا کہ خوف جملہ برائیوں کی جڑ کاٹنے والا اور خوف ہی جملہ طاعات کا ذریعہ ہے ۔

ایک خوف یہ بھی ہے کہ عاشق اپنے محبوب کے ناراض ہونے سے ڈرتا ہے اس لئے اپنے آپ کو ہر وقت خطرے میں محسوس کرتا ہے ۔جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہو ان کا ڈر سب سے زیادہ سخت ہوتاہے کیونکہ وہ اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہوجائے۔ خدا کا خوف اس طرح نہیں ہوتا جیسا سانپ بچھو سے ہوتا ہے ۔ان سے تو طبعی خوف ہوتا ہے ۔اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کا خوف عقلی خوف ہے جو انبیاء علیھم السلام کو سب سے زیادہ حاصل ہوتا ہے ۔جیسا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔دنیا میں جن چیزوں سے ہم ڈرتے ہیں وہ نہ صرف طبعی ہوتی ہیں بلکہ ان سے رحم کی امید بھی نہیں ہوتی اس لئے یہ ڈر زیادہ محسوس ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید بھی ہوتی ہے اس لئے یہ خوف زیادہ محسوس نہیں ہوتا لیکن وقت پر اس کا پتہ چلتا ہے ۔

ِخوف حاصل کرنے کا طریقہ

اللہ تعالیٰ کے قہر و عذاب کو یاد کیا کرے اور سوچا کرے ۔قُرآن و حدیث میں آخرت کے جو عذاب بیان کئے گئے ہیں ان کے بارے میں سوچا جائے کہ کہیں شاُمت اعمال سے میں ان عذابوں کا مستحق ہوا تو پھر کیا ہوگا؟

رجا

جس طرح اللہ تعالیٰ کا خوف ضروری ہے کیونکہ وہ مالک ہیں کسی بھی وقت گرفت فرماسکتے ہیں ۔اس کی رحیمی پر جرأت کرنا حماقت ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے عفو کی امید بھی نہیں ٹوٹنی چاہیئے کہ وہ رحیم ہے ستار ہے غفار ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارا رب ہے جس نے ہمیں سب کچھ بغیر ہمارے استحقاق کے عطا فرمایا ۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے "لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اﷲِ " یعنی اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ۔ "لَوْ یَعْلَمُ الکَافِرُ مَا عِنْدَاﷲِ مِںَالرَّحْمَۃِ مَا قَنَطَ مِنْ جَنَّتِہٰ اَحَدٌ (متفق علیہ)" یعنی اگر کافر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حال جان لے تو اس کی جنت سے نا امید نہ ہو ۔

رجا کی حقیقت

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اور اس امید پر عمل کیئے جانا کہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی سے کوئی بعید نہیں کہ ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال کو قبول فرمالیں ۔ جس طرح شیطان انسان کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرکے اور بے خوف کرکے جہنم کا مستحق بنانے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح اس کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوکر عمل چھوڑ دے ۔اگر غور کیا جائے تو بے خوفی اور مایوسی دونوں انسان کو عمل سے محروم کردیتی ہیں ۔حضرت وحشی (رضی اللہ عنہ) جب مسلمان نہیں ہوئے تھے تو ان کو جب حالت کفر کے اپنے ظلم یاد آتے تھے تو اس کی وجہ سے اپنی مغفرت سے مایوس ہوگئے تھے ۔ان کی تسلی کے لئے قُرآن میں یہ آیت اتری " لا تقنطو من رحمۃ اﷲ ان اﷲ یغفر الذنوب جمیعاً" یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ (جب چاہیں) تو تما م گناہوں کو بخش دیتے ہیں

اس سے ہمت پاکر حضرت وحشی (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے اور صحابیت کا شرف پایا ۔اس لئے اگر اپنے گناہوں کے خیال سے مایوسی طاری ہونے لگے تو اس آیت کو سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید کرنی چاہیئے اور عمل کی کوشش کرنی چاہیئے نہ کہ رحمت کی باتیں کرکے اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوجائے ۔ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہے یعنی ان دونوں میں اعتدال ہونا چاہیئے ۔اس اعتدال سے کسی طرف بھی جھکاؤ خطرے سے خالی نہیں ۔عارفین فرماتے ہیں کہ جوانی میں خوف غالب ہونا چاہیئے اور بڑھاپے میں رجا ۔جو شخص رحمت اور جنت کا منتظر رہے اور اس کے حاصل کرنے کے اسباب یعنی عمل صالح توبہ وغیرہ کو اختیار نہ کرے اس کو مقام رجا حاصل نہیں وہ دھوکے میں ہے جیسا کہ کوئی شخص تخم پاشی نہ کرے اور غلہ پیدا ہونے کا منتظر رہے کہ یہ محض ہوس خام ہے ۔

رجا حاصل کرنے کا طریقہ

اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت و عنایات کو یاد کرے اور سوچا کرے ۔رحمت کی آیتوں میں غور کرے لیکن عمل میں اختیاری سستی نہ کرے ۔دین میں رخصتوں کا علم حاصل کرکے بوقت ضرورت ان سے کام لے ۔

زُھد

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "لِکَیْلاَ تَأسَوا عَلیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتَاکُمْ" تاکہ فوت شدہ چیز پر افسوس نہ کرو اور جو تم کو دیا ہے اس پر خوشی سے اترا نہ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "اَوّلُ صَلاَ ح ھٰذِہِ الاُمَّۃِ الْیَقِیْنُ وَالزُّھْدُ وَاَوَّلُ فَسَادِھَا الْبُخْلُ وَالاَمَلُ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)" یعنی اول بہتری اس اُمت کی یقین او ر زھد ہے اور اول بگاڑ اس اُمت کا بخل اور طول امل ہے ۔

زھد کی حقیقت

آخرت کی نعمتوں کو سامنے رکھ کر اس دنیا میں تھوڑے پر قناعت کرنا زھد کی حقیقت ہے ۔

تشریح

زھد اصل میں دل کی آنکھوں سے آخرت کی نعمتوں کا دیکھنا ہے جو ایک عظیم نعمت ہے جس کاذریعہ وہ نور اور علم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلب میں ڈالا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے سینہ کھل جاتا ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کا ساز و سامان مکھی کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے اور آخرت ہی بہتر اور پائیدار ہے ۔جس وقت یہ نور حاصل ہو جاتا ہے تو اس حقیر دنیا کی آخرت کے مقابلے میں اتنی بھی وقعت نہیں رہتی جتنی کہ بیش قیمت جواہر کے مقابلے میں پھٹے پرانے چیتھڑے کی ہوا کرتی ہے ۔اور زھد کا ثمرہ یہ ہے کہ بقدر ضرورت و کفایت دنیا پر قناعت حاصل ہو جائے پس زاھد اتنی مقدار پر کفایت کیا کرتا ہے جتنا کہ مسافر کو سفر کا توشہ اپنے پاس رکھنا ضروری ہوتا ہے نیز زھد ترکِ لذّات کا نام نہیں بلکہ محض تقلیلِ لذّات زھد کے لئے کافی ہے یعنی لذّات میں انہماک نہ ہو ،نفیس نفیس کھانوں اور کپڑوں کی فکر میں رہنا زھد کے منافی ہے ورنہ بلا تکلف و بلا اہتمام خاص کے لذّات میسر ہو جائیں تو حق تعالیٰ کی نعمت ہیں ، شکر کرنا چاہئے ۔نفس کو خوب آرام سے رکھے اور اس سے کام بھی لے کہ

مزدور خوش دل کند کارِبیش

حقیقت یہ ہے کہ جن کی نظر اللہ پر ہوتی ہے ان کی نظر میں سونا چاندی تو کیا دنیا و مافیھا بھی کچھ نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنے جگر گوشوں اور خاص لوگوں کے لئے دنیا کو پسند نہیں فرمایا لہٰذا مخلوق کے ہاتھ میں جو کچھ ہے متاعِ دنیا ہے۔سب سے امید قطع کر دی جائے ۔جو شخص ایسا کرے گا راحت میں رہے گا کیونکہ زھد سے قلب اور بدن دونوں کو راحت حاصل ہوتی ہے ۔

زھد حاصل کرنے کا طریقہ

دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی نعمتوں کو اپنے سامنے رکھ کر اس میں غور کرے کہ عقلمندی کیا دنیا کی طلب میں آخرت سے ہاتھ دھونے میں ہے یا دنیا میں جتنا اللہ تعالیٰ دے اس پر قناعت کرکے آخرت کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اس مراقبہ سے انشاء اللہ وہ علم اللہ تعالیٰ دل میں القا فرمادے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے ۔

توکل

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "وَعَلیَ اﷲِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُوْمِنُوْنَ" یعنی اور چاہئے کہ ایمان والے اللہ ہی پر توکل کریں ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "وَاِذَا سَئَلْتَ فاسْئَلِ اﷲَ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِا ﷲِ (رواہ الترمذی)" جب کچھ مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد چاہوتو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد چاہو ۔ یہ حدیث شریف دیکھا جائے تو ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تفسیر ہے ۔

حقیقت توکل

سبب کی بجائے مسبب الاسباب پر نظر رکھنا اور اس سے اپنی امیدیں وابستہ کرنا توکل ہے ۔

تشریح

توکل کا مطلب کسی کو بتکلف اپنا وکیل بنانا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کام کو خود نہیں سمجھ سکتے اس کو دوسروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔کہ اس کے بتلانے کے موافق کرتا رہے ۔لہٰذا توکل یہی ہے کہ ضروری تدبیر کرکے نتیجہ دل سے خدا کے سپرد کیا جائے کہ وہی جانتا ہے کہ کس چیز میں ہماری خیر ہے اس کے تین ارکان ہیں

1 معرفت

2 حالت

3 اعمال

اب ان تینوں کا الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے ۔ رکن اول معرفت ہے ۔ دل پر توحید کا مضمون جب کھل جائے اور اس کے ساتھ دل مانوس ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی جب معرفت حاصل ہوجاتی ہے تو دل غیر اللہ کے تعلق سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔عارف اپنے دل میں صرف اللہ تعالیٰ کو موثر سمجھتا ہے اور غیراﷲ کو غیر موثر ۔توکل اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے دوسرا رکن پہلے رکن کا نتیجہ ہے یعنی سالک اپنا کام خدا کے حوالے کر دیتا ہے اور قلب کو مطمئن رکھتا ہے اور غیر اللہ کی طرف قطعی التفات نہیں کرتا ۔اگر کسی سبب کو اختیار کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے ورنہ خود اس کا دل سبب کو اختیار کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔

تیسرا رکن دوسرے رکن کا نتیجہ ہے کہ سالک خدا پرجو مسبب الاسبا ب ہے ،نظر رکھتے ہوئے اس کی مرضی کے مطابق سبب اختیار کرتا ہے لیکن اس سبب کو موثر نہیں سمجھتا بلکہ خدا کے حکم پر اس کی نظر ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے ارادے کو اپنے ساتھ کرنے کے لئے دعا اور اعمال صالحہ کا اہتمام کرتا ہے ۔سبب سے نہیں بھاگتا بلکہ سبب میں دل کے مشغول ہونے سے بھاگتا ہے ۔جاہلوں کا خیال ہے کہ توکل تو محنت مزدوری اور کسب کو چھوڑ دینے کا نام ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بے کار بن کر بیٹھ جائے اگر بیمار ہو تو علاج نہ کرائے بے سوچے سمجھے اپنے آپ کو خطرات اور ہلاکت میں ڈال دیا کرے کہ کہیں آگ میں گھس جائے اور کہیں شیر کے منہ میں ہاتھ دے دے تب متوکل کہلایا جائے ۔حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ ایسا کرنا شرعاً حرام ہے اور شریعت ہی توکل کی خوبیاں بیان کر رہی ہے پھر بھلا جس بات کو شریعت خود حرام بتلائے اسی کی رغبت و حرص دلائے یہ کیونکر ہو سکتا ہے ۔

حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی (رحمۃ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے کہ ایسا توکل تو بچہ بھی کرسکتا ہے کہ کچھ بھی پاس نہ ہو اور کہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے ۔اصل توکل تو وہ ہے کہ بینک بھرے ہوئے ہوں لیکن ان پر نظر نہ ہو ۔نظر اللہ پر ہو اور یہ سمجھے اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو کام بنے گا ورنہ کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔

توکل حاصل کرنے کا طریقہ

اس کی عنایتوں اور وعدوں اور اپنی گذشتہ کامیابیوں کا یاد کرنا اور ان کو سوچنا۔

قناعت

حقیقت قناعت

لذات کی تحصیل میں مبالغے سے اپنے نفس کو روکنا قناعت کی حقیقت ہے ۔ اگر کسی لذت والی چیز کی طرف طبعی میلان ہی نہ ہو تو یہ غیر اختیاری ہے ۔جس کو یہ حاصل ہے وہ امتحان سے بچا ہوا ہے لیکن خود اس پر اجر نہیں ۔لیکن اگر میلان تو ہو لیکن عقلاً اپنے نفس کو یہ سمجھائے کہ یہاں کی چیزیں فانی ہیں ۔ان میں مشغول ہونے سے سوائے پریشان ہونے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لئے اپنے نفس کو مجاہدات کے ذریعے تھوڑے پر راضی کیا جائے اس سے جو قناعت حاصل ہو وہ مطلوب اور ماجور ہے ۔چونکہ یہ زھد کا نتیجہ ہے اس کے لئے زھد کے باب کا مطالعہ کیا جائے ۔

حلم

حقیقت حلم

یہ غضب کی ضد ہے ۔نفس کا ناگوار بات پر بھڑکنے سے رکنا حلم کہلاتا ہے ۔ جس شخص میں حلم ہوتا ہے وہ حلیم کہلاتا ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت بھی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کے پیش نظر ناگوار باتوں سے درگز فرماتے رہتے ہیں پس حلیم شخص بھی اپنے غصّے پر قابو پاکر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانے کا کوشش کرتا ہے جس کا ہمیں حکم بھی ہے ۔

حلم حاصل کرنے کا طریقہ

غصہ کا زائل کرنا اور غصہ کا علاج بار بار سوچنا جو کہ اخلاق رذیلہ کے بیان میں آ رہا ہے ۔

صبر

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "یٰآَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصْبِرُوْا" یعنی اے ایمان والو صبر کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "عَجَباً لِّاَمْرِ المُؤمِنِ تنَّ اَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَّلَیْسَ ذَالِکْ لِاَحَدٍ اِلاَّ لِلْمُؤمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّآئُ شَکَرَ وَاِنْ اَصَا بَتْہُ ضَرَّآئُ صَبَرَ فَکَاْنَ خَیْراً لَّہُ۔ (رواہ مسلم )" یعنی مؤمن پر تعجب ہے کہ اس کی ہر بات میںبہتری ہے اور یہ کسی کو میسر نہیں مگر مؤمن ہی کو اگر اس کو خوشی پہنچے تو شکر کرتا ہے اور اگر اس کو سختی پہنچے تو صبر کرتا ہے اور وہ اس کے لئے خیر بن جاتی ہے ۔

حقیقت صبر

انسان کے اندر دو قوتیں ہیں ایک دین پر ابھارتی ہے دوسری ہوائے نفسانی پر ۔سو محرک دینی کو محرک ہوا پر غالب کرنا صبر ہے ۔اور اس کی حقیقت ہے حَبْسُ النَّفْسِ عَلیٰ مَا تَکْرَہُ یعنی ناگوار بات پر نفس کو جمانا اور مستقل رکھنا آپے سے باہر نہ ہونا ۔

تشریح

صبر کی تین قسمیں ہیں ۔

اول:صبر علی العمل یعنی عمل کی پابندی پر صبر

دوم:صبر فی العمل یعنی کسی عمل کے کرتے وقت صبر

سوم: صبر عن العمل یعنی کسی عمل کے نہ کرنے پر صبر

صبر علی العمل یہ ہے کہ نفس کو کسی کام پر روک لینا یعنی اس پر جم جانا اور قائم رہنا ۔مثلاً نماز ،زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کرنا اور بلا ناغہ ان کو ادا کرتے رہنا ۔ اور صبر فی العمل یہ ہے کہ عمل کے وقت نفس کو دوسری طرف التفات کرنے سے روکنا ،طاعات بجا لانے کے وقت ان کے ارکان کو مع آداب کے اطمینان سے ادا کرنا اور ہمہ تن متوجہ ہو کر کام کو بجا لانا ،مثلاً نماز پڑھنے کھڑے ہوئے یا ذکر میں مشغول ہوئے تو نفس کو یہ سمجھا دیا کہ تم اتنی دیر تک سوائے نماز یا ذکر کے اور کوئی کام نہیں کر سکتے پھر دوسرے کاموں کی طرف توجہ کرنا فضول ہے ۔اتنی دیر تک تجھ کو نماز یا ذکر ہی کی طرف متوجہ رہنا چاہئے ۔

تیسری قسم ہے صبر عن العمل یعنی نفس کو اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی باتوں سے روکنا اور ان سے بچنا ۔ نیز حالات دو قسم کے ہوتے ہیں ۔نعمت اور مصیبت ۔ نعمت سے مسرت ہوتی ہے اور مسرت کی وجہ سے منعم کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے ۔ بخلاف مصیبت کے کہ اس میں نا گواری ہوتی ہے اور صبر کا موقع مصیبت ہے اور مصیبت کہتے ہیں اس حالت کو جو نفس کو ناگوار ہو ۔اس کی دو قسمیں ہیں :ایک صورت مصیبت اور دوسری حقیقت مصیبت ۔جس سے انقباض و پریشانی بڑھے وہ تو گناہوں کی وجہ سے ہے اور حقیقت مصیبت ہے اور جس سے تعلق مع اﷲ میں ترقی ہو ،تسلیم و رضا زیادہ ہو ،وہ حقیقت مصیبت نہیں بلکہ صورت مصیبت کی ہے ۔عارفین کو مصیبت کا احساس تو ہوتا ہے ۔بلکہ بوجہ ادراک لطیف ہونے کے دوسروں سے زیادہ احساس ہوتا ہے مگر ان کا رنج و غم حد سے نہیں بڑھتا کیونکہ اس میں ان کی نظر اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے ۔ مصائب سے بہت سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے بعض دفعہ حق تعالیٰ اپنے بندے کو خاص درجہ اور مرتبہ عطا فرمانا چاہتے ہیں جس کو وہ اپنے عمل سے حاصل نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی مصیبت یا مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں جس سے وہ اس درجہ عالیہ کو پا لیتا ہے ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیاُمت میں اہل مصائب کو دیکھ کر اہل نعمت کہیں گے کہ کاش ہماری کھالیں دنیا میں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں ۔تاکہ آج ہم کو بھی یہ درجات ملتے ۔جو اہل مصائب کو عطاکئے گئے ہیں ۔نیز حدیث شریف میں ہے جو شخص اپنا انتقام خود لے لیتا ہے تو حق تعالیٰ معاملہ اسی کے سپرد کر دیتے ہیں اور جو صبر کرتا ہے اس کی طرف سے حق تعالیٰ انتقام لے لیتا ہے ۔کبھی دنیا میں مزا چکھا دیتے ہیں اور کبھی آخرت میں پوری سزا کو ملتوی رکھتے ہیں ۔

حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "اِذَآ اَصَا بَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوآ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" مطلب یہ ہے کہ مصیبت اور غم کے وقت زبان کو اِنَّا ﷲِ کے ورد میں مشغول کیا جائے اور دل کو اس کے معنی کے تصور میں کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور مالک کو ہر قسم کے تصرف کا اپنے مملوک میں اختیار ہے غلام کو چاہئے کہ مالک کے تصرف پر راضی رہے اس لئے اس موقع پر تصرف حق پر راضی رہنا چاہئے۔ مصیبت کے وقت اول تو اپنے گناہوں کو یادکریں تاکہ اپنی خطاؤں کا استحضار ہو کر مصیبت سے پریشان نہ ہوں ۔کیونکہ اپنی خطاؤں پر جو سزا ہوتی ہے اس سے دوسرے کی شکایت نہیں ہوتی بلکہ انسان خود نادم ہوتا ہے ۔کہ میں اس قابل تھا ۔پھر اجر کو یاد کریں کہ اللہ تعالیٰ نے مصیبت کا بہت ثواب رکھا ہے یاد کر کے غم کو ہلکا کریں اور مصیبت میں ثابت قدم رہیں خدا تعالیٰ کی شکایت نہ کریں ۔کوئی بات ایمان اور اسلام کے خلاف دل اور زبان پر نہ لائیں ۔اور یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہو گئے ہیں ۔کیونکہ یہ خیال خطر ناک ہے ۔اس سے تعلق ضعیف ہوتا ہے ۔اور رفتہ رفتہ زائل ہو جاتا ہے مصائب کو سزا سمجھیں یا آزمائش سمجھیں اور اس کے ثواب کو یاد کریں ۔شریعت نے مصیبت کے وقت صبر و تحمل کی تعلیم دی ہے ۔اس پر کار بند رہیں اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہر مصیبت پر نعم البدل ملتا ہے اس میں نفع ضرور ہوگا ۔آخرت میں بھی اور دنیا میں بھی ۔اگرچہ دنیوی نفع ابھی سمجھ میں نہ آوے

صبر کو حاصل کرنے کا طریقہ

قوت ہویٰ یعنی خواہشات و جذبات نفسانی کو ضعیف و کم زور کرنا

شکر

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ "وَاشْکُرُوْلِیْ" اور میرا شکر کرو ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّآئُ شَکَرَ (رواہ مسلم )" یعنی اگر مؤمن کو خوشی پہنچے تو شکر کرتا ہے ۔

شکر کی حقیقت

نعمت کو منعم حقیقی کی طرف سے سمجھنا جس کا اثر منعم سے خوش ہونا اور تعمیل حکم میں سر گرمی دکھانا ہے ۔

تشریح

نعمت کو منعم حقیقی کی طرف سے سمجھنے سے دو باتیں ضرور پیدا ہوتی ہیں ۔ایک منعم سے خوش ہونا اور دوسرا اس کا ممنون ہوکر اس کی خدمت گزاری اور اُمتثال امر میں سر گرمی دکھانا ۔ یعنی جو حالت طبیعت کے موافق ہو خواہ اختیاری ہو یاغیر اختیاری ، اس حالت کو دل سے خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھنا اور اس پر خوش ہونا اور اپنی لیاقت سے اس کو زیادہ سمجھنا اور زبان سے خدا تعالیٰ کی تعریف کرنا اور اس نعمت کا جوارح یعنی اعضاء سے گناہوں میں استعمال نہ کرنا بلکہ اس نعمت کو اس کی رضا مندی میں استعمال کرنا شکر ہے اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب کہ مخلوق کی پیدائش کے اغراض و مقاصد اور یہ بات معلوم ہو جائے کہ کہ کیا کیا چیز کس کس کام کے لئے پیدا ہوئی ہے ۔مثلاً آنکھ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس کا شکر یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قُرآن مجید اور علم دین کی کتابوں کو پڑھنے اور آسمان و زمین جیسی بڑی مخلوقات کا اس غرض سے مشاہدہ کرنے میں صرف کرے کہ یا عبرت حاصل ہو اور خالق برتر کی عظمت و کبریائی سے آگاہی یا علم حاصل ہو جس سے خالق کی عظمت کا پتہ چلے اور وہ جو ہم سے چاہتا ہے وہ معلوم ہو نیز ستر کے دیکھنے اور غیر عورت پر نظر ڈالنے سے اور دیگر ممنوعات سے روکے رکھے ۔اسی طرح کان ایک نعمت ہے اس کا شکر یہ ہے کہ اس کو ذکر الٰہی اور ان باتوں کے سننے میں استعمال کرے جو آخرت میں نفع دیں اور ہجو اور لغو اور فضول کلام سننے سے روکے ۔

زبان کا یہ شکر ہے کہ اس کو یادخدا ،حمد و ثنائ اور اظہار شکر میں مشغول رکھے اور تنگ دستی اور تکلیف میں شکوہ شکایت سے باز رکھے کہ اگر کوئی حال بھی پوچھے تو شکایت کا کلمہ زبان سے نہ نکلنے پائے ،کیونکہ شہنشاہ کی شکایت ایسے ذلیل اور بے بس غلام کے سامنے کرنا جو کچھ بھی نہیں کر سکتا بالکل فضول اور معصیت میں داخل ہے ۔اور اگر شکر کا کلمہ نکل گیا تو طاعت میں شمار ہوگا صرف زبانی الحمد ﷲ کہنا جب کہ دل میں منعم اور نعمت کی قدر نہ ہو محض درجۂ عنوان میں ہے یہ چھلکا ہے جس میں گری نہیں یعنی محض الفاظ شکر ہیں ،معنی شکر نہیں اور جب معنی شکر نہیں تو اس کی مثال بادام کے نرے چھلکے جیسی ہے جس میں گری نہ ہو کہ محض چھلکے کو بادام نہیں کہیں گے ۔

اسی طرح ہر عمل کا مغز اور روح ہے اور ایک پوست اور صورت ہے ۔پس شکر کی روح یہ ہے کہ منعم اور نعمت کی دل سے قدر ہو ۔ ابتدائی درجہ شکر تو مرتبہئ عقلی ہے کہ حق تعالیٰ کو منعم حقیقی جانے اور عقلاً اس کی قدر پہچانے اور انتہائی مرتبہ یہ ہے کہ اس کا اثر طبع اور جوارح اور حرکات و سکنات میں نمایاں ہو یعنی تمام اعتقادات عبادات معاملات اخلاق و معاشرت وغیرہ شریعت کے مطابق ہوں ۔

شکر حاصل کرنے کا طریقہ

حق تعالیٰ کی نعمتوں کو سوچنا اور یاد کرنا اور ہر نعمت کو اس کی طرف سے جاننا ۔ اس سے رفتہ رفتہ حق تعالیٰ کی محبت پیداہوگی ۔اور شکر کا درجہ کاملہ نصیب ہو جائے گا ۔زبان سے بھی شکر کے کلمات اس طرح کہنا کہ دل اس کے ساتھ ہو ۔کہتے ہی کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا پس جب انسان غور و فکر اور مجاہدے سے جب اپنی حقیقت جان لے کہ میں کتنا کمزور ہوں کتنا بے حقیقت ہوں ۔میرے سارے جوارح ،صلاحیتیں ،اوقات اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کی دین ہے تو پھر جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر نظر ہوتی ہے تو دل میں بے اختیار شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔

مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ) ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے میرے جسم کے بالوں کے برابر منہ عطا فرمائے اور ہر منہ میں 70 زبانیں ہوں اور سب سے میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں تو اس نعمت کا شکر کیسے ادا کروں گا کہ اس نے مجھے اتنی زبانیں دی ہیں۔پس اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا تو محال ہے لیکن اس کی طلب کرنا اور اپنے آپ کو ناشکری سے بچانا اور اس سب کچھ کو کم سمجھنا یہ شکر کے طور پر قبول ہوجائے اس کی امید کی جاسکتی ہے ۔

شکر کے فوائد ۔شکر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے کیونکہ شکر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں ۔نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔لئن شکرتم لازیدنکم (اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کروگے تو میں ان نعمتوں میں اور اضافہ کروں گا ۔) ۔ایک بزرگ فرماتے تھے کہ شکر نعمتوں کا بیمہ ہے کیونکہ شکر کرنے سے کم از کم وہ نعمتیں جو موجود ہیں وہ تو باقی رہیں گی کیونکہ یہ بڑھوتری کا سب سے کم درجہ ہے ورنہ امید کرنی چاہیئے کہ ان میں اضافہ ہوگا ۔پس بندے کو چاہیئے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا رہے اسی میں دونوں جہانوں کا فائدہ ہے ۔

صدق

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ " اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٰ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اُولٰٓئِکَ ھُمَ الصَّادِقُونَ۔" یعنی مؤمن تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے،پھر کچھ تردد نہیں کیا اور اپنی جان و مال سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا ،یہی لوگ پورے سچے ہیں۔

اور حدیث شریف میں ہے کہ "عَنْ عَائشۃِ قَالَتْ سَمِعَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم اَبِی بَکْر رضی اللہ عنہ وَ ھُوَ یَلْعِنُ بَعُضَ رَقِیقِہ فَالْتَفَتْ الیہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم و قال یا ابا بکر َ لَعَانِین و صدیقین کلا و رب کعبۃ فٲعْتَقَ ابو بکر یومَئِذٍ بعض رقیقہ و جائ الیہ فقال لا ٲعودُ یا رسول اللہَ۔ (نوادر الاصول فی احادیث الرسول)" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنا کہ وہ اپنے کسی غلام پر لعنت کر رہے ہیں آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ صدیق اور لعنت کرنے والے ہر گز نہیں رب کعبہ کی قسم ۔پس اس دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض غلاموں کو آزاد کیا اور آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کے پاس آیا اور کہا کہ اب ایسا نہ کروں گا یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ ۔

حقیقت صدق

جس مقام کو حاصل کرے کمال کو پہنچا دے کہ اس میں کسر نہ رہے ۔

تشریح

صدق کے معنی پختگی کے ہیں ۔اور اسی لئے ولی کامل کو صدّیق کہا جاتا ہے ۔کیونکہ وہ تمام احوال و افعال و اقوال میں پختگی حاصل کر چکا ہوتاہے ۔شریعت میں صدق عام ہے ۔یہ احوال کو بھی شامل ہے ،افعال کو بھی ،اقوال کو بھی ۔اقوال کا صدق تو یہ ہے کہ بات پکی اور سچی ہو ۔یعنی واقعہ کے مطابق ہو جو شخص اس صفت سے موصوف ہو اس کو صادق الاقوال کہتے ہیں ۔اور افعال کا صدق یہ ہے کہ ہرفعل شریعت کے مطابق ہو ،اس کے خلاف نہ ہو پس جس شخص کے افعال ہمیشہ شریعت کے مطابق ہوں اس کو صادق الافعال کہا جاتا ہے ۔اور احوال کا صدق یہ ہے کہ احوال سنت کے مطابق ہوں پس جو احوال خلاف سنت ہیں وہ احوال کاذبہ ہیں اور جس شخص کے احوال و کیفیات سنت کے مطابق ہوں اس کو صادق الاحوال کہتے ہیں ۔نیز صدق احوال میں یہ بھی ہے کہ وہ احوال ایسے ہوں جن کا اثر صاحب حال پر باقی رہے یہ نہ ہو کہ آج ایک حالت پیدا ہوئی ، پھر زائل ہو گئی اور اس کا کچھ بھی اثر باقی نہ رہا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ احوال کا غلبہ ہمیشہ رہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا اثر ہمیشہ رہنا چاہئیے کہ جو حالت طاری ہو وہ مقام ہو جائے۔اصطلاح میں اس کو تمکین کہتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس طاعت کا ارادہ ہو اس میں کمال کا درجہ اختیار کیا جائے ۔مثلاً نماز کو اس طرح پڑھنا کہ جس کو شریعت نے صلوٰۃ کاملہ کہا ہے یعنی اس کو مع آداب ظاہرہ و باطنہ کے ادا کرنا اس طرح تمام طاعات میں جو درجہ کمال کا شریعت نے بتایا ہے اس کا اختیار کرنا صدق ہے ۔

صدق کو حاصل کرنے کا طریقہ

صدق ہر قال ،حال اور فعل میں کمال کے جاننے پر موقوف ہے کیونکہ اگر کمال کا پتہ نہیں ہوگا تو اس کو حاصل کیسے کیا جاسکے گا۔لہٰذا ہمیشہ نگراں رہے۔ اگر کچھ کمی ہو جائے اس کا تدارک کرے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کمال حاصل ہو جائے گا ۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ صادقین کے ساتھ رہے اور ان کی نگرانی میں اپنا کام کرے اور ان میں جن کے ساتھ مناسبت ہو اس کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرکے اس کو اپنے قول و فعل اور حال سے باخبر رکھے کہ وہی اس میں کمال کی صحیح نشاندہی کرنے والا اور اس کے حصول کی آسان ترکیب بتانے والا ہوسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کہ سنت عادیہ یہ ہے کہ اکثر طالبین کی اس طرح اپنے فضل سے رہنمائی فرمادیتے ہیں اور ان کو جلد یا بدیر مقام صدق پر سرفراز فرمادیتے ہیں۔

تواضع

اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے کہ "وَعِبَا دُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلیَ الاَرْضِ ھَوْناً" اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر تواضع سے چلتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے مزاج میں تواضع ہے تمام اُمور میں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من تواضعﷲ رفعہ اﷲیعنی جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو رفعت اور بلندی عطا کرے گا

مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتاہے

تواضع کی حقیقت

تواضع کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے کو ایک کمزور انسان سمجھے اور ہر چیز میں اللہ تعالی کی عظمت پیش نظر ہو ،اپنی کمزوریوں پرایسی نظر ہو اکہ اپنی طرف بڑائی کی نسبت سے سچ مچ دور ہو ۔اس کی اصل مجاھدہ نفس ہے اور یہ تکبر کی ضد ہے ۔

مزیدتشریح

تواضع صرف اس کا نام نہیں ہے کہ زبان سے اپنے کو خاکسار ،نیاز مند ،ذرئہ بے مقدار ،کہہ دیا اور بس ۔بلکہ تواضع یہ ہے کہ اگر کوئی ہمیں ذرئہ بے مقدار کہہ کر برا بھلا کہے اور ذلیل کریں تو ہم میں انتقام کا جوش پیدا نہ ہو ۔اور نفس کو یوں سمجھایئں کہ ہم جب واقعی ایسے ہیں تو پھر برا کیوں مانتے ہیں اور کسی کی مذمت سے ہمیں کوئی رنج و اثر نہ ہو یہ تو تواضع کا اعلیٰ درجہ ہے کہ تعریف اور برائی عقلاًبرابر ہو جائے کیونکہ طبعاً تو مساوات ہو ہی نہیں سکتی کہ یہ تو غیر اختیاری ہے البتہ اختیاری اُمور میں تواضع ہمیں اختیار کرنی چاہیئے اور اسی کا انسان مکلف بھی ہے ۔اتفاق کی اصل تواضع ہے ،جن دو شخصوں میں تواضع ہو گی ان میں نا اتفاقی نہیں ہو سکتی ۔تواضع میں جذب اور کشش کی خاصیت ہے۔تواضع کی طرف خود بخود کشش ہوتی ہے بشرطیکہ صحیح تواضع ہو ۔

تواضع حاصل کرنے کاطریقہ

انسان جب تک ناسمجھ ہوتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں ،صلاحیتوں اور توفیقات کو اپنا مسجھ کر پھول جاتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں اور جس طرح دی ہیں اس طرح لے بھی سکتاہے ۔پس انسان کا اپنے اندریہ سمجھ پیدا کرنا اور اپنی حیثیت کا مشاہدہ کرنااور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایسا دھیان حاصل کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ہر وقت پیش نظر اور مستحضر رہے یہی تواضع کو حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ ۔ یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ کو تکبر سے نفرت ہے ۔تو متکبر سے ضرور نفرت ہو گی اور تواضع و عاجزی پسند فرماتے ہیں تو متواضع کو بھی پسند فرمائیں گے۔ ذکر کی کثرت ،موت کی یاد اوران حضرات سے ملنا جن میں تواضع ہو تواضع حاصل کرنے کے لئے مفید اعمال ہیں ۔

تفویض

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ ٓ اِلیَ اﷲِ ۔ اِنَّ اﷲَ بَصِیْرٌ بِا لْعِبَا دِ۔" اور میں اپنا معاملہ حق تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں خدا تعالیٰ سب بندوں کا نگراں ہے ۔ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اِذَآ اَصْبَحْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِا المَسَآئِ وَاِذَا اَمْسَیْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَکَ بِا لصَّبَا حِ۔" مطلب یہ ہے کہ جب صبح کرو تو شام کے متعلق اپنے دل میں خیال نہ لاؤ اور جب شام کرو تو صبح کے متعلق اپنے دل میں خیال نہ لاؤ

تفویض کی حقیقت

اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینا کہ جو وہ چاہیں تصرف کریں اپنے لئے کوئی حالت تجویز نہ کرنا یعنی خدا کے سوا کسی پر نظر نہ رکھے ،تدبیر کرے اور نتیجے کو خدا کے سپرد کر دے ۔

مزیدتشریح

تفویض کے معنی ترکِ تدبیر نہیں ۔بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی پر نظر نہ رکھیں ۔تدبیر کرے اور تدبیر کے نتیجے کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے ۔اور جن اُمور میں تدبیر کا کچھ تعلق و دخل نہیں ان میں تو ابتدائ ہی سے تفویص و تسلیم اختیار کرے۔ اپنی طرف سے کوئی حالت یا نظام تجویز نہ کرے تجویز ہی تمام پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ ہم نے ہر چیز کا ایک خاص نظام اپنے ذہن میں وضع کر رکھا ہے اور چاہتے ہیں کہ ہر کام اس نظام کے مطابق ہو لیکن جب کوئی کام اس نظام کے خلاف واقع ہوتا ہے تو دل کو تکلیف ہوتی ہے اور زیادہ حصہ اس نظام کا جو ہماری طرف سے تجویز ہوتا ہے غیر اختیاری ہوتا ہے ۔تو غیر اختیاری اُمور کے لئے نظام تجویز کرنا حماقت نہیں تو کیا ہے ۔ اسی لئے اہل اللہ نے تجویز چھوڑ کر یہ مذہب اختیار کر لیا ہے ۔

زندہ کنی عطائے تو وربکشی فدائے تو

دل شدہ مبتلائے تو ہر چہ کنی رضاء تو

یعنی زندہ کریں تو آپ کی عطا ہے اور اگر موت دیں تو بھی آپ پر فدا چونکہ جب دل ہی آپ پر آ گیا ہے تو اب جو بھی آپ کی مر ضی ہو تسلیم ہے۔ الغرض اپنی تجویز کو دخل نہ دے اس طرح تربیت کے سلسلہ میں بھی اپنی تربیت کو خدا کے سپرد کرے کہ جس طرح چاہے وہ تربیت کرے حالات و کیفیات عطا کریں یا سب کو سلب کریں اپنی تجویز کو خدا تعالیٰ کی تجویز میں فنا کر دیں یعنی کامل عبدیت اختیار کر یں۔

تفویض کی صفت حاصل کرنے کاطریقہ

حق تعالیٰ کے حکیم اور کریم ہونے کا مراقبہ اس کے لئے بہت مفید ہے ۔حکیم ہے اس لئے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اور کریم ہے تو اس کے ہر کام میں ہماری خیر ہے ۔ جب کوئی خلاف طبع ناگوار واقعہ پیش آوے تو فورا ً یہ سوچے کہ یہ حق تعالیٰ کا تصرف ہے جس میں لازماًکوئی حکمت ور مصلحت ہے ۔ابتدائ میں تکلف سے یہ بات حاصل ہوگی پھر سوچتے رہنے سے تجویز کو فنا کرنا پڑتا ہے ۔اور پھر یہ حالت اہل اللہ کے لئے طبعی بن جاتی ہے ۔

رضا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے کہ "رَضِیَ اﷲُعَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ" یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "مِنْ سَعَا دَۃِ ابْنِ اٰ دَمَ رِضَا ہُ بِمَا قَضیٰ اﷲُلَہُ (رواہ الترمذی و احمد)" یعنی آدمی کی سعادت سے ہے راضی رہنا اس پر جو اس کے لئے اللہ نے مقرر کر دیا ہو ۔

رضا کی حقیقت

قضا پر اعتراض نہ کرنا نہ زبان سے نہ دل سے ۔

مزیدتشریح

رضا بر قضا کا بعض مرتبہ ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ تکلیف بھی محسوس نہیں ہوتی ۔پس اگر مصیبت کا احساس ہی نہ ہو تو رضاء طبعی ہے اور اگر مصیبت کا احساس باقی رہے تو رضاء عقلی ہے ۔اول رضاء طبعی حال ہے جس کا بندہ مکلف نہیں اور ثانی رضاء عقلی مقام ہے جس کا بندہ مکلف ہے۔قضا پر راضی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تکلیف کی صورتوں میں تکلیف تو محسوس ہوتی ہے ۔مگر چونکہ عقل نے اس کے بہتر انجام یعنی ملنے والے ثواب پر مطلع کر دیا ہے اس لئے طبیعت اس تکلیف کو بلا تکلف گوارا کرتی ہے

اس کی مثال ایسی ہے جیسے طبیب کسی مریض کو پینے کے لئے تلخ دوا بتائے یا آپریشن کرانے کی ہدایت کرے تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ اس تلخ دوا کا پینا اور اپریشن کرانا تکلیف کی باتیں ہیں مگر چونکہ اس کے ساتھ ہی عمدہ نتیجہ یعنی صحت و تند رستی سے مریض کو آگاہی حاصل ہے لہٰذا وہ ا ن تکلیف دہ باتوں کے بتانے والے طبیب سے راضی بلکہ اس کا احسان مند و ممنون رہتا ہے ۔اسی طرح جو شخص سچے دل سے اس کا یقین کئے ہوئے ہے کہ دنیا کی ہر تکلیف پر حق تعالیٰ کی طرف سے اجر مرحمت ہو گا اور ہر مصیبت و صدمہ پر اس قدر ثواب عطا ہوگا جس کے مقابلے میں اس عارضی تکلیف کی کچھ حقیقت نہیں ہے تو اس یقین سے وہ ضرور مسرور و شاداں ہوگا ۔جس وقت مولائے حقیقی کی جانب سے جو عطا ہوتا ہے اس وقت کے وہی مناسب ہوتا ہے اس کے خلاف کی تمنا نہیں چاہئے جب اللہ تعالیٰ بظاہر ہمارے نقصانات ہی کو ہمارے لئے بہتر سمجھ رہے ہیں تو ہم کو اس میں صدمہ کی کون سی بات نظر آئی ۔جس کو اللہ تعالیٰ نے جیسا بنا دیا اس کے لئے وہی مناسب تھا گو ہر شخص دوسروں کو دیکھ کر یہ تمنا کرتا ہے کہ میں ایسا ہوتا اور اپنی حالت پر قناعت نہیں ہوتی لیکن غور کر کے دیکھے اور سوچے تو اس کو معلوم ہوگا کہ میرے لئے مناسب حالت وہی ہے جس میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو رکھا ہے ۔

البتہ دعا کرنا خلاف رضا نہیں ۔اہل اللہ محض حکم کی وجہ سے اظہار عبدیت کے لئے دعا کرتے ہیں اس واسطے دعا نہیں کرتے کہ ہم نے جو مانگا ہے ضرور ہمیں وہی مل جائے ،بلکہ ہر حال میں خدا کی رضا پر راضی رہتے ہیں خواہ قبول ہو یا نہ ہو ۔قبول نہ ہونے سے شاکی اور تنگ دل نہیں ہوتے ہیں یہی رضا کی علاُمت ہے ۔

صفت رضاحاصل کرنے کاطریقہ

یہ آثار محبت میںسے ہے اس لئے اس کے واسطے جدا گانہ طریق نہیں ہے ۔محبت کے ساتھ ہی رضا بھی حاصل ہو جاتی ہے ۔جب محبت ہوجاتی ہے تو پھر بقول شاعر

سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے

فنا

حقیقتِ فنا

فناء ذات یعنی اپنے آپ کو مٹانا ۔اسی کو اصطلاح میں فنا کہتے ہیں ۔اس میں عبدیت تامہ حاصل ہوجاتی ہے جس سے افعال ذمیمہ و ملکات رذیلہ زائل ہو کر معاصی ترک ہوجاتے ہیں اور قلب سے غیر اللہ کی محبت نکل جاتی ہے ۔اس سے حرص طول امل،کبر و عجب و ریا وغیرہ جو سب ذات کے ساتھ وابستہ چیزیں ہیں ، ان کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔

صفت فناحاصل کرنے طریقہ

ملکہئ یاداشت کواتنا راسخ کرنا کہ غیر اللہ کے ساتھ کوئی عملی تعلق نہ رہے اس کی اصل ہے جس کو حاصل کرنے کا طریقہ مجاھدہ اور کثرتِ ذکرِ لسانی و قلبی ہے ۔

فناءالفناء یعنی فناء کافناء

ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اتنی خود رائی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ خدا کو بھی بھول جاتے ہیں یہ تکبر پیدا کرتا ہے اور ایک وہ مبارک لوگ ہیں جو اپنی ذات کو اس حد تک بھول جاتے ہیں کہ ان کو اپنی فنائیت کا بھی علم نہیں ہوتا۔ بس ان کو صرف اللہ یاد ہوتا ہے اور اسی کی خوشنودی میں لگے رہتے ہیں وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیںاس لئے اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کے لئے ہر عمل کے لئے تیار رہتے ہیں اور اس معاملے میں وہ دوسروںسے زیادہ ہوش رکھتے ہیں۔ اس لئے اس کو بقا بھی کہتے ہیں ۔یعنی وہ بے خودی جو فنا میںتھی وہ بھی نہ رہی یعنی جیسا التفات اور استحضار غیر کا پہلے تھا وہ نہ رہا ۔ غیر دل سے نکل گیا ۔حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ ��نہ) کا یہی تو کمال تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کی وفات کے عظیم سانحے کو برداشت کیا اور بے خودی میں نہ گئے ۔مکمل ہوش میں رہے ۔حقائق کا ادراک کیا اور اس صورت حال میں جو اللہ تعالی کا حکم تھا پ��را کرکے دکھایا اور وہ آیت مبارکہ کا جس میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کے وصال کا ذکر تھا وہ حضرت کو اچھی طرح یاد رہی اور اس آیت کا پڑھنا تھا کہ باقی سب صحابہ (رضی اللہ عنہ) کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہوگیا۔اس کے حاصل کرنے کا طریقہ محبت الہی ہے جو اس کو اپنے سے بیگانہ اور اللہ تعالی کا دیوانہ کردے ۔

اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد

دُعا

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا "وقاَلَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی استَجِبْ لَکُمْ ِانَّ الَّذِیْنَ ےَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْ خُلُوْنَ جَھَّنَمَّ دَاخِرین۔" اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھ کو پکارو میں تمہاری درخواست قبول کر لوں گا جو لوگ میری عبادت سے سر تابی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے ۔

دعا کی حقیقت۔

اس کی حقیقت نیاز مندی اور بندگی ہے یعنی اپنی حاجت اور احتیاج کو پیش کرنا کہ اے اللہ ہمیں یہ دیدے قُرآن و حدیث دونوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعا عین عبادت ہے خواہ کسی قسم کی ہو ۔ دینی ہو یا دنیوی مگر ناجائز امر کے لیے نہ ہو خواہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کی ہو یا بڑی سے بڑی چیز کی ۔حدیث شریف میں یہاں تک آیا ہے کہ اگر جوتی کا تسمہ بھی ٹو ٹ جائے تو خدا سے مانگا کرو اور دعا کی خاص بات یہ ہے کہ جتنی عبادتیں ہیں اگر دنیا کے لیے ہوں تو عبادت نہیں رہتیں مگر دعا ایک ایسی عبادت ہے کہ یہ اگر دنیا کے لیے بھی ہو تب بھی عبادت ہے اور ثواب ملتا ہے مثلا مال مانگے یا اور کوئی دنیوی حاجت مانگے جب بھی ثواب کا مستحق بنے گا ۔حدیث شریف میں ہے "مَنْ لَمْ ےَسْئَلِ اﷲَ ےَغْضَبْ عَلَےْہِ " کہ جو شخص اللہ تعالی سے نہ مانگے اس پر اللہ تعالی غصہ کرتے ہیں اور یہی آیت بالا سے بھی مفہوم ہوتا ہے نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو برابر مانگتا رہے اس سے خوش ہوتے ہیں ۔

ہر تدبیر میں انسان اپنے جیسے عاجز کے سامنے احتیاج کو ظاہر کرتا ہے خواہ قالاً یا حالاً ۔اور دعا میں ایسی ذات سے مانگتا ہے جو سب سے زیادہ کامل القدرۃ ہے اور جس کے سب محتاج ہیں اور عقل بھی یہی کہے گی کہ جو سب سے قادر تر ہے اسی سے مانگنا زیادہ کمال اور نفع رساں ہے پس یقینا یہ تدبیر ہر تدبیر سے بڑھ کر ہے کیونکہ کوئی بھی تدبیر حق تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ ہی سے کامیاب ہوسکتی ہے تو جو شخص حق تعالیٰ سے مانگے گا وہ ضرور کامیاب ہوگا ۔

دعا صرف غیر اختیاری اُمور کے ساتھ خاص نہیں جیسا کہ عام خیال کیا جاتاہے کہ جو امر اپنے اختیار سے خارج ہوتا ہے وہاں مجبو ر ہو کر دعا کرتے ہیں ورنہ تدبیرپر اعتماد ہوتا ہے بلکہ اختیاری اُمور میں بھی دعا کی سخت ضرورت ہے اصل کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے یہ اسباب و علامات محض بندوں کی تسلی اور دوسری حکمتوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں ۔

ضرورت ِدُعا

دعا کے علاوہ جتنے اسباب ہیں یا وہ دنیا کے لئے ہیں یا آخرت کے لئے مثلاًزراعت ،تجارت وغیرہ کے لئے جو اسباب ہیں ان کا اصل مقصود دنیا ہے چاہے حسن نیت سے اس کا اجر آخرت میں بھی ملے ۔ اور اسباب شرعیہ مثلاً نماز روزہ زکوٰۃ حج وغیرہ سے آخرت مقصود ہے چاہے وہ نتیجے کے لحاظ سے دنیا کے لئے بھی مفید ہوں یعنی ان میں دنیا کی نیت نہیں کی جاسکتی ہے ۔صرف دعا ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں دنیا کی بھی نیت ہو تو یہ آخرت میں مفید ہے اور آخرت کے لئے ہو تو وہ تو ہے ہی جس سے بوجہ اس جامعیت کے ا س کی وقعت و عظمت ظاہر ہے اس لیے قُرآن مجید و حدیث میں نہایت درجہ اس کی ترغیب و فضیلت و تاکید جا بجا و ا رد ہے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو دعا کی توفیق ہو گئی اس کے لیے قبولیت کے دروازے کھل گئے ایک روایت میں ہے جنت کے دروازے کھل گئے ۔اور ارشاد فرمایا کہ قضا کو صرف دعا ہٹا دیتی ہے احتیاط و تدبیر سے نہیں ٹلتی اوردعا نازل شدہ بلا کے لئے بھی نافع ہے اور اس بلا کے لئے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئی اور کبھی بلا نازل ہوتی ہے اور ادھر سے دعا پہنچ کر اس سے ملتی ہے اور دونوں میں قیاُمت تک کشتی ہوتی رہتی ہے اس سے معلوم ہو ا ہے کہ قبل مصیبت بھی دعا کرتا رہے اس کی برکت سے مصیبت نہیں آتی اور کبھی اس کی وجہ سے مصیبت ٹل جاتی ہے۔

اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز قدرو منزلت کی نہیں اور جس کو یہ بات پسند ہوکہ اللہ تعالی سختیوں کے وقت اس کی دعا قبول فرمالیا کریں اس کو چاہیے کہ خوشی اور عیش کے وقت کثرت سے دعا مانگا کرے۔ اور ارشاد فرمایا کہ دعا مسلمان کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمان کا نور ہے ۔ دعا میں یہ خاصیت ہے کہ اس سے معمولی تدبیر بھی موثر ہوجاتی ہے ۔ دعا کرنے سے بندہ کو حق تعالیٰ سے خاص تعلق ہو جاتا ہے جس وقت آدمی دعا کرتا ہے اس وقت غور کر کے ہر شخص دیکھ لے کہ اس کو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق محسوس ہوگا بغیر اس کے خاص تعلق نہیں ہوتا بلکہ صرف ہوائی ہوتا ہے ۔اس لئے دعا کے ذریعے سلوک بھی آسانی کے ساتھ طے ہوجاتا ہے یعنی جو برکات یعنی اللہ تعالیٰ کا دھیان ذکر سے حاصل کیا جاتا ہے وہ دعا سے جلدی حاصل ہوجاتا ہے ۔

دعا میں ایک نفع یہ بھی ہے کہ یہ حق تعالی کے یہاں معذور سمجھا جائے گا کیونکہ جب اس سے سوال ہوگا کہ تم نے حق کا اتباع کیوں نہیں کیا تو یہ کہہ دے گا کہ میں نے طلب حق کے لیے بہت سعی کی اور اللہ تعالیٰ تو ایک ہی تھے میں نے ان سے بھی عرض کردیا تھا کہ مجھ پر حق واضح ہو جاوے۔بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و عنایت سے نیک بندوں کی عاجزی اور دعا وزاری پر نظر فرما کر محض اپنی قدرت سے تھوڑے سے ناتمام اسباب سے بلا اسباب بھی اثر مرتب فرمادیتے ہیں ۔

قبولیت دعا اور اس کا طریقہ کا ر

احادیث شریفہ میں دعا کی بڑی فضیلت آئی ہے اور عقلاً بھی یہ سب سے بڑی چیز ہے اور یہ ہر تدبیر سے بڑھ کر ہے اس کو تقدیر سے زیادہ قرب ہے کیونکہ اس میں اس ذات سے درخواست ہے جس کے قبضہ میں تقدیر ہے۔عوام سب تدبیریں کرتے ہیں مگر دعا نہیں کرتے بس دو تین دعائیں یاد کرلی ہیں نماز کے بعد آمو ختہ کے طور پر ان کو پڑھ کے منہ پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں نہ خشوع ہے نہ خضوع ہے یہ تو ایک غلطی ہوئی اور دوسری غلطی یہ ہے کہ دعا کے نہ قبول ہونے سے شیطان پھر یہ دھوکہ دیتا ہے کہ یہ تدبیر تو سب تدبیروں سے کم ہے دیکھو اتنا عرصہ دعا کرتے گزرگیا قبول ہی نہ ہوئی مگر حضور اکرمصلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جو دعا میں اڑ جائے اور پھر عطا نہ ہو خواہ سردست اس کو دے دیں یا آئندہ کے لیے جمع کردیں اس سے معلوم ہو ا کہ دعا قبول ضرور ہوتی ہے مگر صورتیں اس کی مختلف ہیں کبھی تو وہی مل جاتا ہے جو مانگا تھا اور کبھی اس سے افضل چیز مل جاتی ہے اور کبھی دنیا میں کچھ عطا نہیں ہوتا بلکہ اس کا اجر آخرت میں جمع کر کے آخرت میں دیا جائے گا ۔اس وقت ثواب کو دیکھ کر تمنا کریں گے کہ کاش ہماری سب دعائیں آخرت میں ہی ذخیرہ رہتیں دنیا میں ایک بھی نہ ملتی پس یقین کرلینا چاہیے کہ ہماری سب دعائیں قبول ہی ہوتی ہیں کیونکہ اللہ تعالی ہر چیز کی مصلحت کو تم سے زیادہ جانتے ہیں پس اس بات کو بھی وہی خوب جانتے ہیں کہ جس نعمت کی تم درخواست کررہے ہو وہ تمہارے لئے مناسب ہے یا نہیں اور مناسب ہے تو کس وقت اور کس حالت میں مناسب ہے جیسے اگر کوئی طبیب سے درخواست کرے کہ میرا علا ج مسہل سے کر دیجئے تو اصل منظوری تو علاج کا کر دینا ہے گو مسہل نہ دے اور دوسری منظوری مسہل دینا ہے اگر یہ مفید ہو پس اللہ تعالی کا جو ارشاد ہے "اجیب دعوۃ الداع اذا دعان " کہ ہم ہر دعا کرنے والے کی درخواست کو لے لیتے ہیں اور اس پر توجہ کرتے ہیں بے توجہی نہیں کرتے تو جب درخواست لے لی گئی ہے تو اگر اس کا پورا کرنا ہماری مصلحت کے خلاف نہیں ہوگا تو ضرور پوری ہو گی ورنہ اس کی جگہ کچھ اور مل جائے گا سو یہ تو اصل کامیابی ہے پس اجابتِ دُعا جس کا وعدہ ہے اس کے معنی درخواست کا لے لینا ہے اور اس پر توجہ کر نا ہے یہ اجابت یقینی ہے اس سے کبھی محرومی نہیں ہوتی آگے دوسرا درجہ ہے کہ جو مانگا ہے وہی مل جا ئے ۔ یہ اگرچہ ممکن ہے لیکن اس کا وعدہ نہیں۔

دعا کے آداب

احادیث معتبرہ میں دعا کے لیے چند آداب تعلیم فرمائے گئے ہیں جن کو ملحو ظ رکھ کر دعا کرنا بلا شبہ کامیابی کی کنجی ہے اور جن کی رعایت کے بعد دعا کا قبول نہ ہونا اللہ تعالیٰ کی عادت کے خلاف ہے اس لئے کوشش کرنی چاہیئے کہ ان آداب کا خیال رکھ کر دعا کی جائے لیکن اگر کوئی شخص کسی وقت ان تمام یا بعض آداب کو جمع نہ کر سکے تو یہ نہیں چاہیے کہ دعا ہی چھوڑدے بلکہ دعا تو ہر حال میں مفید ہی مفید ہے اور ہر حال میں حق تعالی سے قبولیت کی امید رکھنی چاہیئے ۔ یہ آداب مندرجہ ذیل ہیں ۔ سب سے بڑا ادب یہ ہے کہ رزق حلال ہو ۔رزق حرام سے اپنے آپ کو بچائے کیونکہ رزق حرام دعا کے قبول نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔اس کے علاوہ جو آداب ہوسکتے ہیں ان میںوضو کرنا۔ قبلہ رخ ہونا ۔ دو زانو بیٹھنا ۔دعا کے لیے دونوں ہاتھ پھیلانا ۔اخلاص اور ادب و تواضع کے ساتھ دعا کرنا ۔دعا کے لیے اول و آخرحمد و ثنا اور درود شریف پڑھنا ،اپنی محتاجی اور عاجزی کو ذکر کرنا ۔دعا کے وقت انبیاعلیہم السلام اور دوسرے مقبول بندو ں کے ساتھ توسل کرنا ۔یعنی یہ کہنا کہ یا اللہ ان بزرگوں کے طفیل سے میری دعا قبول فرما ۔ان دعاؤں کے ساتھ دعا کرنا جو حضوراکرمصلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم سے منقول ہیں ۔رغبت و شوق اور عزم کے ساتھ دعا کرنا ۔یعنی یہ نہ کہے کہ یااللہ اگر تو چاہے تو میرا کام پورا کردے بلکہ قبول دعا کی امید قوی رکھے ، ہیں۔کسی ناجائز چیز ،گناہ اور محال چیز کی دعا نہ کر ے ۔اپنی سب حاجات صرف اللہ تعالی سے طلب کرے اور مخلوق پر بھروسہ نہ کرے ۔دعا کے آخر میں آمین کہہ کر دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پر پھیرے ۔مقبولیت دعا میں جلدی نہ کرے ۔یعنی یہ نہ کہے کہ میں نے دعا کی تھی اب تک قبول نہیں ہوئی ۔

دعا اور اسباب

ان میں اعتدال اصل طریقہ نبویہ ہے۔ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے دعا و توکل کے ساتھ اسباب کی رعایت فرمائی ہے کہ نہ دعا کے بھروسہ پر اسباب کو چھوڑدے اور نہ اسباب میں ایسا منہمک ہوکہ مسبب الاسباب پر نظر نہ رہے ۔ آخر دعا بھی تو ایک سبب ہے ۔اس لئے یہ بات بڑی عجیب ہے کہ باقی اسباب کا خیال تو رکھا جائے لیکن اس اصل سبب کی طرف دھیان نہ ہو ۔عوام میں اس طرف سے بڑی غفلت ہے ۔تعویز وغیرہ پر تو عوام کو بہت یقین ہوتا ہے جس کوثابت کرنا محنت طلب کام ہے لیکن دعا جو قُرآن و حدیث سے یقینی طور پربلا غبار ثابت ہے اور تمام انبیاء ،صدیقین اور اولیائ کا لازمی طریقہ رہا ہے اس کی قدر نہیں کی جاتی اور اگر دعا کے لئے کہتے ہیں تو پھر اسباب کی طرف توجہ نہیں کی جاتی تو بعض لوگ تو یہ ظلم کرتے ہیں کہ دعا کو ایک سبب بھی نہیں مانتے تو دعا سے محروم ہیں اور بعض اپنے اختیاری اُمور جن میں اسباب کے اختیار کرنے کے ساتھ دعا کا حکم ہے اس کو صرف دعا سے کروانا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اس لئے اس بندگی کا تقاضا ہے کہ ہم شریعت کے مطابق اسباب کا بھی ڈٹ کر استعمال کریں اور ان اسباب پر ہمارا بھروسہ نہ ہو مسبب الاسباب پر ہو اس لئے اللہ تعالیٰ سے ان اسباب کے مؤثر ہونے کی دعا بھی کی جائے ۔ہم کون کہ اللہ تعالیٰ کہ چھوٹی چیز مانگنے سے اللہ تعالیٰ ناخوش ہونگے کیونکہ حق تعالیٰ کے نزدیک ہر بڑی چیز چھوٹی ہے ان کے نزدیک عرش اور نمک کی ڈلی برابر ہے ۔دعا میں اگر دل نہ لگتا ہو تو دل کو اس طرح سمجھادیں کہ دنیا میں بعض اسباب میں نفع یقینی نہیں ہوتا لیکن ہم اس امید پر کہ شاید اس سے نفع ہوجائے ہمت سے کام لیتے ہیں ۔گو آخر میں خسارہ ہی ہوجائے یعنی خسارہ کا خطرہ ہوتا ہے جیسے تجارت وغیرہ میں،تو دعا میں تو کسی قسم کے نقصان کا احتمال ہی نہیںپھر ا س میں کوتا ہی کیوں کی جاتی ہے ؟

خشوع

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا "ھم فی صلوٰتھم خاشعون" وہ نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وِالہٰ وسلم نے فرمایا فیصلی رکعتیں مقبلا علیھا پھر دو رکعت نماز ا سطرح پڑھے کہ اپنے دل اورچہرہ سے اس کی طرف متوجہ رہے ۔

حقیقت خشوع

کسی نیک عمل میں بطور مقصودیت کسی غیر اللہ کا قلب میں حاضر نہ ہونا او ر نماز میں کسی غیر مطلوب چیز کی طرف التفات کا نہ ہونا خشوع کہلاتاہے ۔خشوع لغت میں مطلق سکون کو کہتے ہیں اور شرعا ً اعضاء کے سکون کے ساتھ سکون قلب جس کی حقیقت حرکت فکریہ کا انقطاع ہے کو جتنا اختیار سے حاصل ہوسکتا ہے حاصل کرنا خشوع ہے۔ جس طرح اعضاء کا سکون بقدر قدرت ممکن ہے مثلا صحیح اور قوی آدمی اس پر قادر ہے کہ نماز میں کوئی حرکت نماز کے علاوہ صادر نہ ہونے دیں وہ اس کا مکلف ہوگا اور جو کسی درجہ میں معذور ہے مثلاً غلبہ درد کے وقت اس پر قابو نہیں جب درد اٹھے گا بے چین ہو کر پیچ و تاب کھائے گا اس لیے وہ اس درجہ سکون کا مکلف نہ ہوگا البتہ جب درد نہ اٹھے پھر و ہ از سر نو اس سکون کا مکلف ہوگا اسی طرح سکون قلب بھی بقدر قدرت مطلوب ہے مثلا جو شخص تشو یش کے تمام اسباب سے محفوظ ہو وہ حرکات فکریہ کے کلی انقطاع پر قادر ہے اس لیے وہ اس کا مکلف ہوگا اور جو تشویش کے اسباب میں مبتلا ہو وہ ایسی انقطاع پر قادر نہیں اس لیے وہ اس درجہ کا مکلف بھی نہ ہوگا البتہ جتنا وقت تشویش سے سکون کا میسر ہوگا یعنی وہ تشویش تخیل پر غالب نہ ہو اس وقت میں اس کا مکلف ہوگا یہ تو اس کا اصل مفہوم ہے اب اس مقام پر ایک باریک بات ہے جو زیادہ قابل اعتنائ ہے اور اس میں زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے اگر صاحب معاملہ کو ایسی بصیرت نہ ہو تو اس کو کسی مصلح تجربہ کار سے مشورہ کرنا چاہیئے وہ یہ کہ اس حرکت فکریہ کو قطع کرنے طریقہ کیا ہے کیونکہ یہ انقطاع براہ راست حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہاپنے دل کو یا تو کسی ایک محمود چیز کی طرف قصدا ًمتوجہ کردیا جائے جونماز کے خلاف نہ ہو مثلا ذات حق کی طرف برابر متوجہ رہے اگر خیال نہ جمنے کی وجہ سے اس پر قادر نہ ہو تو یہ تصور کرے کہ میں کعبہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہوں ۔ یا پھر غور و خوض میں دل کو مشغول کرے مثلاً نماز میں جواذ کا رو قرات پڑھ رہا ہے انکی طرف توجہ رکھے کہ میں یہ الفاظ پڑھ رہا ہوں یا ان کے معانی کی طرف توجہ رکھے چونکہ نفس ایک وقت میں دو طرف متوجہ نہیں ہوتا اس لیے یہ توجہ دوسرے خطرات کے آنے سے مانع ہوجاوے گی یہ ہے

سکون قلب کو حاصل کرنے کا طریقہ

اب اس میں ایک غلطی تو یہ ہوتی ہے کہ ہر شخص کی استعدا د جدا ہے کسی کے لیے ایک تصور نافع ہے تو کسی کے لیے دوسرا تصور بعض اوقات صاحب معاملہ بصیرت اورتجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے لئے ایک طریقے کواختیارکرتا ہے اور وہ طریقہ اس کہ طبعیت کے مناسب نہیں ہوتا اس لیے اس سے مقصود اس کو حاحل نہیں ہوتا اور بار بار کی ناکامی سے مایوس ہوکر اس غلط گمان میں مبتلا ہوجا تا ہے کہ خشوع فعل اختیاری نہیں اس لیے بالکل اس کا اہتمام چھوڑ بیٹھتا ہے اور اس کی برکت سے محروم رہتا ہے اس لیے اپنے لئے مناسب طریقے کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے ۔ دوسری غلطی جو اس سے اشد ہے یہ ہوتی ہے کہ تعیین کے بعد جس طریق کو اختیار کیا گیا ہے اس مین کاوش زیادہ کرنے لگتا ہے اور اس کا منتظر اور متوقع رہتا ہے کہ دوسرا کوئی خیال بالکل نہ آئے اور ا س کے لیے طبعیت پر زور ڈالتا ہے حتی کہ نوبت کلال و ملال کی پیش آتی ہے جس کا نتیجہ وہی یاس اور نا امیدی ہے کہ خشوع کو حاصل کرنے کی کوشش ترک کر دیتا ہے ۔ اس لیے زیادہ کاوش نہیں کرنی چاہیئے بس سر سری معتدل توجہ کافی ہے اگر اس توجہ کے ساتھ کوئی دوسرا خطرہ آجائے وہ غیر اختیاری ہو گا اور مضر نہ ہوگا جیسے کسی خاص صفحہ میں کسی خاص لفظ پر قصدا ًنظر کی جاوے تو یقینی بات ہے کہ وہ شعاعیں بلا قصد دوسرے کلمات پر بھی پہنچ جاتی ہیں مگر اس کا قصد نہیں ہوتا ۔

اور تیسری ایک غلطی سب سے بڑھ کر یہ ہوتی ہے کہ دوسرے خیال کے آنے کے ساتھ یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ خیال قصد اً آیا یا بلا قصد سو یہ فیصلہ محض بیکار ہے اگر یہ فرض کیا جائے کہ قصدا آ گیا تو اب گزشتہ کی تلافی تو نہیں ہوسکتی یہی کہ آئند ہ کے لیے اپنے خیال کو درست رکھنے کی ضرورت ہے تو اپنی توجہ اب بہتر کرلے یہی ہوسکتا ہے اور اس کا ہی حکم ہے۔ اصل میں جو توجہ خیالات کو روکے وہ دو قسم کی ہوتی ہے ایک غور و خوض اگرچہ مختلف اشیاء کی طرف ہو دوسری کسی ایک چیز کی طرف دھیان چاہے اس میں غور خوض نہ ہو پس جس شخص کو آیات وا ذکار کے معانی بلا خوض ذہن میں آتے ہوں مثلاً کوئی پکا حافظ ہے اور عالم بھی وہاں نہ غور خوض کا وجود ہے اور نہ ہی جس چیز میں فکر سے کام لیا جارہا ہووہ ایک چیز ہے اس لیے توجہ کی کوئی قسم نہ پائی گئی پس اس سے خیالات منقطع نہیں ہوں گے بخلاف اس شخص کے جس کو سوچنے سے معنی یاد آتے ہیں اس شخص کی توجہ قاطع خطرات ہوگی پس ایسے شخص کے لیے دوسری توجہ کی ضرور ت ہوگی یعنی شے واحد کی طرف خواہ وہ شے واحد کچھ بھی ہو ذات حق ہو یا کعبہ پر نظر یا کچھ اور۔ اور توجہ الی الحق یہی ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات کا اجمالاً تصور رکھے جس طریق سے بھی بے تکلف ذہن میں آجائے زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں یا ان کے کسی فعل کا تصور رکھے مثلاً یہ کہ وہ ہم کو دیکھ رہے ہیں ۔

حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ کسی ایک چیز کی طرف توجہ کا ایک طریقہ جو بہت آسان بھی ہے اور بے حد نافع بھی ،یہ ہے کہ اپنی تمام طاعات صلوٰۃ و تلاوت واذکار بلکہ مباح افعال میں بھی اس کا تصور رکھے کہ یہ سب عنقریب حق تعالیٰ کے دربار میں پیش ہوں گے تو ان میں کوئی ایسا اختیاری فعل نہ ہو کہ یہ پیشی کے قابل نہ رہے بس اتنا تصور کافی ہے ابتدا تو استحضار ضعیف ہوگا لیکن کوشش کے بعد اس میں دوام اور پختگی آئے گی ۔انشاء اللہ ۔

حدیث شریف میں ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے اور نماز میں آپ کو کچھ خطرہ ہوا (الحدیث اخرجہ الترمذی ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کا نماز میں خیال نہ آنا نماز میں خشوع کا شرط ہے ،یہ بات درست نہیں لیکن اپنے اختیار سے کسی لایعنی بات میں فکر و غور کرنا البتہ خشوع کے خلاف ہے ۔ غرض خطرات اور وساوس کا لانا تو اختیاری ہے پس نماز میں یہ خشوع کے خلاف ہوگا اور خطرات کا آنا غیر اختیاری ہے اس لئے اس سے نماز میں خشوع پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ہر شخص صرف اتنے کا مکلف ہے کہ وہ نماز میں وساوس اور خیالات کی طرف متوجہ نہ ہو ۔اس میں چونکہ مشقت ہے اس لئے بعض دفعہ خطرہ والی نماز بے خطرہ والی نماز سے افضل و اکمل ہوتی ہے کہ خطرات کو دفع اور قلب کو جمع کرنے میں مشقت لاحق ہوتی ہے جس کی وجہ یہی مشقت ہے کیونکہ ایک مطلوب امر کے لئے ہے ۔

غرض کمال توجہ کے منافی وہ وساوس و خیالات ہیں جو اختیاری ہوں اب اگر وہ وساوس اختیاریہ مباحات کے درجے ہیں تو ان سے گناہ تو نہ ہوگا البتہ اس سے خشوع ناقص ہو جائے گا اور اگر وہ تصورات حرام ہیں تو ان سے گناہ بھی ہوگا چنانچہ نص میں وارد ہے وان تبدوا مافی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اﷲ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وساوس پر بھی مواخذہ ہوگا لیکن حدیث سے تفسیر معلوم ہوئی کہ مراد وساوس اختیاریہ ہیں جو درجہ عزم میں ہوں اور اس کے بعد لا یکلف اﷲ نفساًالا وسعھانے بالکل صاف کردیا کہ وسعت سے زیادہ پر مواخذہ نہیں اور وساوس اضطراریہ وسعت سے خارج ہیں پس وساوس غیر اختیاریہ سے بالکل مطمئن رہیں کیونکہ شیطان ضابطہ سے کام کرتا ہے جن سے گناہ بلاواسطہ نہیں کرا سکتا یعنی اتقیائ سے ، ان کو وہ عبادت کے وقت وساوس میں مبتلا کرتا اور اس طرح سے پریشان کرتا ہے تاکہ وساوس سے گھبرا کر یہ عبادت ترک کردیں مگر جو محقق ہیں وہ اس سے ہر گز نہیں گھبراتے وہ تو وساوس آنے کے وقت کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ دشمن کی سب چالیں ختم ہوکر وسوسہ پر رہ گئیں بلکہ وہ گھبرانے کی بجائے شیطان سے کہتے ہیں کہ آجتنے وسوسے ڈال سکے ڈال د ے ہمارا کچھ ضرر نہیں۔ عام لوگ اس کے دفع کی کوشش کرتے ہیں مگر محققین فرماتے ہیں کہ دفع کے قصد سے بھی اس کی طرف توجہ نہ کریں بلکہ جب وسوسہ آئے اس وقت مقصود کی طرف توجہ کی تجدید کریں اور وسوسہ کے نہ لانے کا قصد کریں نہ دفع کا کیونکہ دفع توجہ کے بغیر ہوگا نہیں تو دفع وسوسہ کا قصد کرنے سے اس کی طرف اور توجہ بڑھے گی ،گھٹے گی نہیں پھر جب شیطان اس کو وسوسہ کی طرف متوجہ پائے گا تو وہ اور زیادہ وسوسے ڈالے گا ۔

ضرورت خشوع

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا " الم یأن للذین آمنو ان تخشع قلوبھم لذکر اﷲ وما نزل من الحق ولا یکونو کالذین او تو الکتب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم و کثیر منھم فٰسقون ۔" کیا ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور جو دین حق نازل ہوا اس کے سامنے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب ملی تھی پھر ان پر زمانہ دراز گزر گیا پس ان کے دل سخت ہوگئے اور بہت سے ان میں نافرمان ہوگئے۔

یہاں ذکر اللہ میں خشوع کی ضرورت کا بیان ہے اور ذکر اللہ میں ساری عبادتیں آگئیں اس خشوع کے نہ ہونے پر کیسی وعید ہے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دے کر ذکر کر دیا ہے کہ ایسے نہ بنو جس سے ظاہر ہو کہ ترک خشوع کیسی بری چیز ہے جس کے باعث آدمی کافروں سے مشابہ ہوجاتا ہے اور اس کا ثمرہ بیان فرمایا کہ "فقست قلوبھم " (پس ان کے دل سخت ہوگئے )یہ قسادت قلبی ایسی بری چیز ہے کہ قُرآن مجید میں ہے کہ "فویل للقاسیۃقلوبھم من ذکر اﷲ اولٓئِک فی ضلٰلٍ مبین ۔" یعنی تباہی و ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل خدا کی ی اد سے سخت ہورہے ہیں وہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔

اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کا ارشاد ہے "ان ابعد شئی من اللہ القلب القاسی" بے شک سب سے زیادہ دور اللہ سے قسادت والادل ہے ۔ پس خشوع حاصل کرنے کی تاکید کرنا جیسا کہ آیت میں ہے اور (اس کی ضد یعنی)قسادت کی برائی کرنا جیسا کہ قُرآن اور حدیث میں ہے اس کے ضروری اور واجب ہونے کے لیے کھلی دلیل ہے پس ہر اک کیلے لازم ہے کہ وہ دل میں خشوع پیدا کرے۔

طریق کار

اگر صفت خشوع موجود ہے تب تو اس کے مناسب وضع اختیار کرنا لازم ہے اور اگر یہ صفت موجود نہیں تو خود اس کے حاصل کرنے کے لیے چار اسباب ہیں ایک سبب تو یہ ہے کہ اس کے آثار کا اختیار کرنا ضروری ہے اور اس کے ظاہری آثار ہیں کہ جب چلے گردن جھکا کر چلے بات چیت میں معا ملات میں سختی نہ کرے غصہ اور غصب میں آپے سے باہر نہ ہو ۔ بدلہ لینے کی فکر میں نہ رہے اپنی رفتار میں میانہ روی پیدا ہو اور آواز پست ہو ۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل خشوع کی صحبت اختیار کی جائے ۔

تیسرا سبب یہ ہے کہ خدا تعالی کا خوف دل میں بٹھایا جائے اس خوف کو پیدا کرنے کے لیے یہ تدبیر کی جائے کہ کوئی مناسب وقت تجویز کر کے اس میں تنہا بیٹھ کر اپنی نافرمانی کی حالت اور پھر خدا وند کریم کی نعمتیں سوچے کہ نافرمانی کے سبب کہیں موقوف نہ ہوجائیں اور عذاب آخرت اور قیاُمت کی ہولناک باتوں ،پلصراط میزان دوزخ کی حالت وغیرہ کو سوچا جائے توانشاء اللہ بہت فائدہ ہو کیونکہ اس کو خوف کے پیدا ہونے میں بڑا دخل ہے اور پھر خوف سے خشوع پیدا ہوگا ۔

چوتھا سبب خشوع کے پیدا ہونے کا یہ ہے (اور یہ کتابوں وغیرہ سے بھی فراغت کے بعد ضروری ہے )کہ اگر ظاہری علم کے حاصل کرنے میں دس سال ختم کیے ہیں تو باطن کی درستی میں فی سال ایک مہینہ ہی خرچ کر دیجے یعنی کم از کم دس مہینے ہی کسی کا مل بزرگ کی صحبت میں خرچ کیجیے اور اس کے ارشاد کے مطابق عمل کیجیے خدا وند کریم کی عادت ہے کہ اس کی برکت سے خشوع کی دولت عطا فرماتے ہیں ۔

اعمال میں خشوع حاصل کرنے کا طریقہ

خشوع کے لیے عمل کی ابتدا میں توجہ کافی ہے ہر ہر لفظ پر ضروری نہیں مثلا قُرآن مجید کی تلاوت سے پہلے یہ خیال کریں کہ محض اللہ تعالی کیلیے تلاوت کرتا ہو ں یہ کافی ہے۔ ہر ہر حرف پر ایسی توجہ ضروری نہیں کیونکہ یہ حاصل نہیں ہوسکتا مگر اس میں یہ قید بھی ہے کہ جب تک اس کی مخالف بات کی طرف توجہ نہ ہو اس وقت تک اسی پہلے توجہ کو حکماًباقی سمجھا جائے گا جیسا کہ انسان چلنے سے پہلے یہ ارادہ دل میں کرلے کہ جامع مسجد کی طرف چلتا ہوں بس اتنا کافی ہے ہر ہر قدم پر یہ ارادہ ضروری نہیں ورنہ چلنا دشوار ہوجائے گا ہاں اگر کسی دوسری جانب ایسی توجہ جو اس توجہ کے خلاف ہو، پائی جائے تو پھر پہلی توجہ ختم سمجھ کر نئے سرے سے اپنے ارادہ کی تجدید کی جائے گی۔

طبعیت کو مجبور کرنے سے (اعمال مثلا )نماز میں خشوع حاصل ہوتا ہے پس انسان اسی کا مکلف ہے اور مجبور کرنا مجاہدہ ہے او مجاہدے کے ساتھ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بغیر مجاہدے کے عمل سے افضل ہے جس کو مبتدی طلب کرتا ہے۔ اگر غفلت سے ادھر ادھر کے پریشان خیالات موجود ہوں پھر بہ تکلف نماز کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور یہی مجاہدہ ہے اور اگر کوئی چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود ہونے لگے تو یہ مطلوب نہیں چنانچہ حدیث میں ہے ۔ الذی یتعتع فیہ وھو علیہ شاق لہ اجران۔ جو شخص پڑھنے میں رکتا ہے اور اس پر دشوار بھی ہے تو ا س کو دوہر ا ثواب ہوگا ۔ (یعنی ایک ثواب تو پڑھنے کا اور دوسرا محنت اور مجاہدہ کا )

تو اب خشوع کا طریقہ سمجھیں کہ پختہ حافظوں کی طرح نہ پڑھا کریں بلکہ ایسے ناظرہ خواں یا حافظ کے طرح جس کا قُرآن کچا ہو تو جس طرح ایسا ناظرہ خواں یا حافظ ہر لفظ کو دیکھ کر یا سوچ کر ادا کرتا ہے اور لفظ لفظ پر دھیان کر کے پڑھتا ہے اسی طرح نماز میں ہر ہر لفظ پر مستقل توجہ اور ارادہ کیا کریں اور جو قول دفعل نماز میں صادر ہو وہ توجہ اور قصد سے ہونا چاہیے ۔محض مشق اور یاد سے نہ ہو مثلا زبان سے سبحنک الھم کہا تو اس کی طرف مستقل توجہ ہوکہ میں زبان سے کہہ رہا ہوں پھر وبحمدک کہا تو اسی طرح اس کی طرف توجہ اور قصد ہو اسی طرح آخر نماز تک۔ پس اس طرح کرنے سے برابر ساعات نماز میں توجہ الی الطاعت رہی اور ایک طرف جب توجہ ہوتی ہے تو دوسری طرف نہیں ہوتی پس لامحالہ اس سے غیر صلوٰۃکی طرف توجہ نہ ہوگی پس حضور کا مل میسر ہوگا اور حضور کے لیے کف جوارح بھی ضرور ہے ورنہ چہرہ پھیرنے سے بواسطہ نگاہ خیالات منتشر ہوں گے ۔

آسان طریقہ۔

یہ تصور رکھیں کہ میں خداوند کریم کے سامنے ہوں اور خدا وند کریم کے سامنے ہوں اور خداوند کریم سن اور دیکھ رہے ہیں۔لقاء رب اور رجوع الی اللہ کا استحضار کریں اس طریقہ سے خشوع جلد حاصل ہوجائے گا۔

تبلیغ

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔ "ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر وےٲمرون بالمعروف وینھون عن المنکر و اولٰئِک ھم المفلحون " اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضرور ہے کہ اور لوگوں کو بھی خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے لوگ آخرت میں ثواب سے پورے کامیاب ہوں گے ۔ اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ "مُرو بالمعروف وانھواعن المنکر " امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو۔

تبلیغ کی حقیقت

امر بالمعروف یقینا واجب ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے اور حکم سب کو عام ہے مگر اس میں ایک تفصیل ہے وہ یہ کہ اس کی دو قسمیں ہیں ایک خطاب عام اور دوسرا خطاب خاص ۔تبلیغ خاص تو ہر جگہ اور ہر شخص پر ہے یہ کسی فرد بشر سے ساقط نہیں ہوتی اور امر بالمعروف (تبلیغ )عام یعنی وعظ کہنا یہ سب کے ذمہ فرض نہیں بلکہ یہ صرف علماء پر واجب ہے مگر عوام مسلمین کے ذمہ سفر خرچ و دیگر اسباب کا مہیا کرنا ہے اور امر بالمعروف کا مدار قدرت پر ہے یعنی جس کو جس کسی پر جتنی قدرت ہے اس کے ذمہ اتنی تبلیغ واجب ہے مثلا ماں باپ کے ذمہ واجب ہے کہ اپنی اولاد کو نماز روزہ اور دیگر ضروریات دین کی نصحیت کریں خاوند پر فرض ہے کہ اپنی بیوی کو احکام شرعیہ پر مجبور کرے آقا کے لیے لازم ہے کہ اپنے نوکر چاکر اور جو ان کے ماتحت ہیں ان کو امر بالمعروف کرے ۔

حدیث شریف میں ہے ۔ "مُرو اصبیانکم بالصلوٰۃاذا بلغو۱ سبعاً واضربو ھم اذا بلغوا عشراً" تم اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا امر کرو جب کہ جب کہ ان کی عمر سات سال ہو اوردس سال کی عمر میں مار کر پڑھائو۔ غرض ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے ماتحتوں کو اُمور خیر کا حکم کرے اور خلاف شرع باتوں سے روکے۔ "الذین ان مکنّٰھم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ و امرو ا بالمعروف ونھو ا عن المنکر "

یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دے دیں تو یہ لوگ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور زکوٰ ۃ دیں اور دوسروں کو بھی نیک کاموں کے کرنے کو کہیں اور برے کاموں سے منع کریں ۔ ان سب کا نچوڑ یہ ہوا کہ جو شخص امر بالمعروف و نہی المنکر پر قادر ہے یعنی قرائن سے غالب گمان رکھتا ہو کہ اگر امر و نہی کروں گا تو مجھ کو کوئی قابل اعتبار ضرر لاحق نہیں ہوگا اس کے لئے اُمور واجبہ میں امر و نہی کرنا واجب ہوگا اور اُمور مستحبہ میں مستحب ،مثلاً نماز پنجگانہ فرض ہے تو ایسے شخص پر واجب ہوگا کہ بے نماز کو نصیحت کرے ۔اور نوافل مستحب ہیں ان کی نصیحت کرنا مستحب ہوگا۔جو شخص کسی وجہ سے تبلیغ پر قادر نہ ہو اس پر اُمور واجبہ میں بھی تبلیغ کرنا واجب نہیں۔اس کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ تارک اُمور واجبہ کو دل سے برا سمجھے البتہ اگر ہمت کرے گا تو ثواب ملے گا ۔پھر جس پر تبلیغ واجب ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر ہاتھ سے قدرت ہے تو ہاتھ سے تبلیغ واجب اور اگر زبان سے ہے تو زبان سے تبلیغ واجب ہے ۔

ہاتھ سے تبلیغ کی اجازت صرف حکام کو ہے عوام کو نہیں کیونکہ اس میں فتنہ کا احتمال ہے پس اس سے فساد ہوسکتا ہے جبکہ تبلیغ کا مقصد اصلاح ہے فساد نہیں لیکن حکومت کی بھی قسمیں ہیں ۔باپ کو بیٹے پر اور شوہر کو بیوی پر حکومت حاصل ہے اس لئے یہاں اگر ہاتھ سے تبلیغ ممکن ہو تو اس کی کوئی حرج نہیں۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب لوگ معصیت میں مبتلا ہوجائیں اور ان میں ایسے لوگ موجود ہوں جو ان کو معصیت سے روک سکیں مگر وہ کاہلی کریں اور ان کو معصیت سے منع نہ کریں تو حق تعالیٰ ان پر عذاب نازل فرمائے گا۔حضرت عایشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ) فرماتی ہیں کہ ایک قصبہ پر عذاب نازل ہوچکا ہے جس میں اٹھارہ ہزار مسلمان آباد تھے اور ان کے اعمال انبیاء جیسے تھے مگر اتنا نقص تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں دیکھ کر ان کو غصّہ نہیں آتا تھا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑے ہوئے تھے لہٰذا ہلاک کردیئے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی جگہ پر کوئی کسی ناجائز کام کو ہوتا ہوا دیکھے اورخاموش بیٹھا رہے تو اس گناہ میں وہ شریک سمجھا جائے گا۔پس ان گناہوں سے نہ صرف خود بچنا ضروری ہوا بلکہ دوسروں کو بھی بچانا ضروری ہوا۔

تبلیغ کے آداب اور شرائط۔

(1) جس چیز کی تبلیغ کرنا ہو اس کے احکامات تفصیل سے معلوم ہوں۔

(2) اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے نصیحت نہ ہو بلکہ اس سے مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو۔

(3) نصیحت کرتے ہوئے طریقہ مشفقانہ ہو۔

(4) تبلیغ کے وقت صرف تبلیغ ہی کو مقصود سمجھے ۔ثمرات پر نظر نہ رکھے کیونکہ ان کا حصول غیر اختیاری ہے اور غیر اختیاری میں کاوش کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

(5) وعظ میں کسی کو نشانہ بنائے بلکہ سب کو مخاطب کرے۔

(6) واعظ ہدایا وعیرہ لینے سے اجتناب کرے تاکہ بے لوث رہے اس سے کام میں برکت ہوتی ہے۔

(7) کسی بھی شخصی کی مجمع عام میں اصلاح نہ کی جائے کیونکہ اس سے اس کو واعظ سے بغض ہوسکتا ہے جس سے وہ ضد پر اتر آکر مزید بگڑ سکتا ہے۔

(8) واعظ کے لئے سختی اور درشتی کا طریقہ مناسب نہیں بلکہ جتنی شفقت اور نرمی ہوگی فائدہ ہوگا ۔اس پر بھی مخالفت ہو تو تحمل کرے ۔طاقت نہ ہو تو خطاب خاص کی بجائے صرف خطاب عام پر اکتفا کرے ۔

تبلیغ کا طریقہ

ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم آپ لوگوں کو سبیل رب کی طرف حکمت اور مواعظ حسنہ کے ساتھ بلایئے اور اگر مجادلہ کی ضرورت ہو تو ان سے مجادلہ بھی کیجئے (مگر) یہ احسن طریقہ سے ہو۔ سبیل رب سے مراد اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ہے جو کہ ازوئے حدیث شریف صرف اسلام ہے پس اس کی طرف بلانے کا آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کو حکم ہوا ۔اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں بتائیں ۔

(1) دعوت بالحکمت

(2) دعوت بالموعظۃ الحسنہ

(3) مجادلہ مگر بطریقہ احسن

گفتگو میں دو چیزیں ہوتی ہیں ایک اپنے دعوٰی پر علی دلائل قائم کرنا اور دوسرا مخاطب کے دلائل کا توڑ اور ابطال۔پہلے کو عوت بالحکمت کہیں گے اور دوسرے کو مجادلہ ۔اب ایک تو ظابطے کے طور پر بتانا ہے جیسا کہ ڈھنڈورچی بادشاہ وقت کا حکم لوگوں تک پہنچاتا ہے کہ اس کا اس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوتا کہ کون اس پر عمل کرتا ہے کون نہیں اور ایک باپ کا بیٹے کو سمجھا نا ہے کہ اس میں غایت شفقت ہوتی ہے اور ایسے طریقے سے بات کی جاتی ہے کہ بیٹا کسی طریقے سے مان لے ۔اس کے لئے چاہے اس کو کتنی تکلیف اٹھانی پڑے لیکن اس کوسمجھاکر چھوڑتا ہے کیونکہ باپ اس کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کا بیٹا خیر سے محروم ہوجائے ۔یہی موعظۃ الحسنۃ کا اصل ہے کہ واعظ ایسے طریقے سے بات کرے کہ مخاطبین کا دل پگھل جائے اور عمل کے لئے تیار ہوجائیں ۔وہ ظابطے کی خانہ پری نہیں کرتا ۔یہی انبیاء کا طریقہ ہے جیسا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کو ارشاد ہوا تھا آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے بھی تمام زندگی اس پر عمل کرنے کا حق ادا کیا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی تمام زندگی اس طرح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے لئے ہر واعظ کوعافیت کے ساتھ لمبی عمر ،صحیح فہم اور صحیح نیت نصیب فرمائے ۔آمین ۔ثم آمین۔

حاصل کرنے کا طریقہ

فضائل تبلیغ اور اس کے چھوڑنے کے مواعید میں غور کرنا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مانگنا اس کا طریقہ ہے۔جن کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے سرفراز کیا ہو ان کے مجالس میں شرکت بھی اس کے حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

موجوہ تبلیغی جماعت

موجودہ تبلیغی جماعت چونکہ اہل حق کے کوششوں سے وجود میں آئی ہے اور اس کے لئے اہل خیر نے بہت دعائیں کی ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اس لئے اس میں خیر کا پہلو غالب ہے اس لئے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے تاہم جیسا کہ انبیاء کے تشریف لے جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے انبیاء کی تعلیم کی جب حفاظت نہیں کی تو گمراہ ہوگئے اس لئے اس جماعت کے جو اصول اکابر چھوڑ چکے ہیں ان پر جب تک یہ جماعت قائم رہے گی تو اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ساتھ شامل حال رہے گی اور اور اگر ان پر یہ عمل چھوڑ دیں تو پھر خطرہ ہے کہ خیر ان سے اٹھ نہ جائے ۔اس لئے اس جماعت کے ذمہ داروں کے سامنے یہ بات لائی جائے کہ اپنے جماعت میں مندرجہ ذیل کمزوریوں کی اصلاح کا جلد سے جلد بندوبست فرمائے ۔

(1) علماء حق کے ساتھ ٹکراؤ نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو ان کا خادم سمجھے اور جو کچھ سنے ان سے اس کی تصدیق کرواتے رہیں کہ وہ ٹھیک ہے یا غلط تاکہ کہیں ناسمجھی سے غلط باتوں کی تشہیر نہ کررہے ہوں۔

(2) مشائخ کے ساتھ اپنی انفرادی اصلاح کے لئے تعلق رکھیں اور ان سے اپنی اصلاح کرائیں کیونکہ اپنی اصلاح فرض عین ہے اور دوسروں کی اصلاح فرض کفایہ۔

(3) صرف اپنی جماعت کو خیر پر نہ سمجھیں بلکہ اہل حق کے جتنے کام ہیں ان سب کو حق پر سمجھتے ہوئے اپنا کام سمجھیں اور ان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ توڑ نہ ہو بلکہ ان کے لئے دل سے دعائیں کریں۔

(4)جو فضائل دین کے دوسرے کاموں کے لئے احادیث شریفہ میں وارد ہوں اور جماعت کے اکابر نے تاویل کے ساتھ ان کو تبلیغ کے کسی جزو کے لئے ثابت کئے ہوں تو ان کو بیان تو بے شک کیا جائے لیکن جن کاموں کے لئے یہ اصلاً ثابت ہوں ان سے کسی طرح انکار نہ ہو کیونکہ یہ حدیث شریف کے معنوی تحریف میں آئے گا جس سے بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھل سکتا ہے

مثلاً تبلیغی جماعت والےحضرات ایک دن اور ایک رات تبلیغ میں لگانے والے کے لئے یہ اجر بتاتے ہیں کہ اس کا اتنا اجر ہے کہ یہ دنیا اور مافیھا سے بہتر ہے۔یہ فضیلت اصل میں اس حدیث شریف سے لیا گیا ہے جس میں جہاد میں ایک دن اور ایک رات پہرہ دینے والے کے لئے اس فضیلت کا ذکر ہے ۔اس کے جماعت والے حضرات نے تبلیغ میں وقت لگانے کو پہلے جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ۔پھر اس میں ایک دن اور ایک رات لگانے کو جہاد میں پہرہ دینے کا مشابہ قرار دیا اور پھر اس پر اس فضیلت کو قیاس کیا گیا ۔یہاں پر اس قیاس کی نفی مراد ہر گز نہیں ۔اس پر قیاس کرنا ممکن ہے ۔اور فضیلت کے لئے ضعیف استدلال بھی کافی ہوسکتا ہے لیکن اگر اس فضیلت کا اصلی جہاد فی سبیل اللہ میں پہرہ دینے کے لئے ہونے سے انکار کیا گیا تو یہ بلاشبہ اس حدیث شریف کی معنوی تحریف قرار پائے گی۔اس طرح جماعت والے حضرات جب گشت میں چلنے والے حضرات کے لئے یہ فضیلت بیان کرتے ہیں کہ گشت میں جانے والوں کے راستے میں فرشتے پر بچھاتے ہیں۔اس فضیلت کی اصل وہ حدیث شریف ہے جس میں طالبعلم کے راستے میں فرشتوں کے پر بچھانے کی فضیلت مذکور ہے۔اس طرح جماعت والے حضرات اپنے بیان کے لئے جمع ہونے والوں کے لئے اس فضیلت کو ثابت کرتے ہیں جس میں ذکر کرنے والوں کے بارے میں ذکر ہے کہ ان کے ارد گرد فرشتے جمع ہوتے ہیں اور وہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے دربار میں ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں آخر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹحنے والے بھی محروم نہیں ۔تو بیان کے لئے اس فضیلت کو بیان کرنا جائز ہے لیکن ذکر کے حلقوں سے اس کی نفی کوئی کرے گا تو یہ حدیث شریف کی معنوی تحریف کے ذمرے میں آئے گا۔

تفکر

"و یضرب اﷲ الامثال للناس لعلھم یتفکرون"

اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے شاید وہ کچھ فکر کریں۔ اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے فرمایا "فاٰثرو ا مایبقیٰ علی ٰ ما یفنی" پس باقی رہنے والی چیزوں کو فانی چیزوں پر اختیار کرو۔

حقیقت فکر

دو معلوم چیزوں کا ذہن میں حاضر کرکے اس سے تیسری بات اخذ کرنا تفکر کہلاتا ہے مثلاً یہ کہ آخرت باقی ہے اور یہ کہ دنیا فانی ہے اس سے یہ بات ذہن میں آئی کہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہیئے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔

"ان فی خلق السمٰوات و الارض و اختلاف الیل و النھار لآیات لا ولی الباب الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً و علیٰ جنوبھم ویتفکرون فی خلق السمٰوات و الارض ۔ربنا ما خلقت حٰذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار۔"

بلا شبہ آسمانوں اور زمینوں کے بنانے اور یکے بعد دیگرے رات دن کے انے جانے میں اہل عقل کے لئے دلائل ہیں جن کی حالت یہ ہے کہ وہ لوگ (ہر حال میں دل سے بھی اور زبان سے بھی ) کھڑے بھی بیٹھے بھی لیٹے بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کے پیدا ہونے میں غور و فکر کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے اس (مخلوق ) کو لایعنی پیدا نہیں کیا (بلکہ اس میں حکمتیں رکھی ہیں ) ہم آپ کو منزہ اور پاک سمجھتے ہیں سو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے۔ ان آیات مبارکہ اور احادیث شریفہ سے بالکل یہ واضح ہوتا ہے کہ مخلوقات اور مختلف واقعات میں غور کرکے اس سے صحیح نتیجے تک پہنچنے کا کام لینا چاہیئے ۔اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور آخرت کے یقینی ہونے کا ادراک کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے بخشش طلب کرنی چاہیئے ۔ان فانی نعمتوں کی ان باقی نعمتوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں اس لئے ہمیں ان باقی نعمتوں کی طلب میں دیر نہیں کرنی چاہیئے ۔یہ دوسری بات ہے کہ مانگنا تو سب کچھ اللہ سے ہی ہے کہ وہی کارساز ہے اس لئے اس دنیا کے ضروریات بھی اللہ سے ہی مانگنی چاہیئے ۔یہاں اس سے مطلب صرف یہ ہے کہ باقی کو فانی پر ترجیح دینی چاہیئے ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ اسی لئے دائم الفکر رہتے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا بڑا ہنسنا بس تبسم ہوتا تھا ۔کبھی بھی کھل نہ ہنستے تھے اور یہ بھی آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا ہی حوصلہ تھا ورنہ جو احوال شدیدہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کے سامنے تھے ان کی وجہ سے تو شاید تبسم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے جو معلوم ہے اگر آپ کو معلوم ہوجائے تو بہت کم ہنستے اور زیادہ رویا کرتے ۔

تفکر کی ضرورت

"عن علی قال لاخیر فی قرائ ۃ لیس فیھا تدبر ولا عبادۃ فیھا فقہ"

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا ۔ایسے قُرآن نجید پڑھنے میں (معتد بہ ) نفع نہیں جس میں فکر نہ ہو اور ایسی عبادت میں جس میں معرفت نہ ہو۔ صوفیاء کے طریق کا مدار اعظم یہی فکر ہے لہٰذا خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ اکابر کو بھی اپنے حال سے فارغ نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ اپنا محاسبہ کرکے تغیر حال کی فکر کرنی چاہیئے ۔فکر کی وجہ سے راستے خود بخود منکشف ہوجاتے ہیں۔سوچنے کی مثال حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے گھڑی کی بال کمانی سے دی ہے کہ ہے تو مختصر سی لیکن تمام پرزوں کی حرکت اسی سے ہوتی ہے ۔اس طرح سوچنے سے دین کے قلعے فتح ہوتے ہیں۔ سارا قُرآن فکر کی تاکید سے بھرا ہوا ہے ۔

ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے "لعلکم تتفکروں فی الدنیا والآخرۃ " یعنی اللہ تعالیٰ یہ احکام اس لئے کھول کھول کربیان کررہے ہیں تاکہ تم دنیا اور آخرت میں موازنہ کرنے کے لئے فکر کرو۔اہل اللہ نے دنیا کی حقیقت میں فکر کرکے ہی آخرت کی حقیقت کو سمجھا ہے اس لئے دنیا سے نفرت کرتے ہیں۔

فکر کا طریقہ

نور ایمان کے کامل کرنے کا طریقہ ذکر فکر ہے ۔ارشاد فرماتے ہیں۔ "و التنظر نفس ماقدمت لغد" یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہے کہ آج دن میں کتنے نیک کام کئے ۔جو نیک کام ہوئے ہیں ان پر خدا کا شکر کرے اور جو گناہ ہوئے ان پر توبہ استغفار کرے ۔جو بات کہے سوچ کر کہے اور جو کام کرے پہلے سے اس کا انجام سوچ لے ۔مراقبات کرکے بالخصوص مراقبہ موت اور اگر موت کے سوچ سے دل گبھراوے تو پھر مراقبہ حیات یعنی آخرت کی حیات کا مراقبہ کرے کہ وہاں کیسی کیسی لذتیں ہیں اور ان لذتوں کے حصول کا طریقہ یہ کہ ہم اللہ کو راضی کریں اور اس کی ناراضگی سے بچیں۔اس سے اعمال کی لالچ پیدا ہوگی اور اعمال کی توفیق نصیب ہوگی۔

حاصل کرنے کا طریقہ

دونوں چیزوں یعنی آخرت اور دنیا کی حقیقت کا ذہن میں رکھ کر اس میں غور کرنا ہی اس کا طریقہ ہے۔

تقویٰ

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا "یاا یھا الذین اٰمنواا تقواﷲ و کونو امع الصّٰدقین ۔" اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو ۔ اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا "الا ان التقوی ھٰھنا واشار الی صدر" آگاہ رہو کہ تقوی اس جگہ ہے اور آپ نے قلب کی طرف اشارہ کیا ۔

حقیقت تقوی

تقوٰی کاحکم اور فضیلت قُرآن مجید میں جس قدر ہے غالبا کسی چیز کا اتنا نہیں ہے اس سے اس کا مہتم بالشان ہونا معلوم ہوا ہے۔ حقیقت اس کی یہ ہے کہ تقوٰی کا استعمال شریعت میں دو معنی میں ہوتا ہے ایک ڈرنا دوسرا بچنا۔ اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو معاصی سے بچنا ہی ہے مگر سبب اس کا ڈرنا ہی ہے کیونکہ جب کسی چیز کا خوف دل میں ہوتا ہے تو پھراس سے بچا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اول جب "ےٰا یھا الذین اٰمنواا تق فاتقو اﷲ حق تقاتہ" کا نزول ہو تو اس سے صحابہ (رضی اللہ عنہ) ڈر گئے کیونکہ وہ یہ سمجھے کہ آج ہی حق تقوٰی لازم ہوگیا حالانکہ شروع ہی سے تقوی کا حصول دشوار ہے حق تقوٰی کا معنی ایک تو یہ ہے کہ خدا تعالی کے شان کے لائق جیسا تقوی ہے وہ اختیار کرو سو آیت میں یہ مراد نہیں کیونکہ یہ تو بشر کی طاقت سے خارج ہے اور جو چیز تحمل سے باہر اللہ تعالیٰ اس کا کسی کو مکلف نہیں بناتا اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان کی وسعت کے موافق جو تقوٰی خدا کی شان کے لائق ہے اس کو بجا لاؤ ۔ آیت میں یہی معنی مراد ہیں۔ ابتدا ہی سے انسان کا اس درجہ میں پہنچ جانا دشوار ضرور ہے تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے اس آیت کو اس کے فوری حصول کا حکم سمجھا اور پھر یہ خوف ہوا کہ حق تقوٰی کا آج ہی سے حاصل ہونا تو بڑا دشوار ہے پھر اس حکم کی تعمیل کیونکر ہو اس پر دوسری آیت نازل ہوئی "فاتقواللہ مااستطعتم" یعنی جتنا تقوی تم سے اس وقت ہوسکتا ہے اس وقت تو اس کو اختیار کرو پھر ترقی کرتے رہو یہاں تک کہ حق تقوی حاصل ہوجائے اس آیت نے پہلی آیت کی تفسیر کردی ۔

تقوٰی کے مختلف درجے ہیں ایک درجہ یہ ہے کہ کفر اور شرک سے بچے دوسرا درجہ یہ ہے کہ اعمال صالحہ کو ترک نہ کرے اور محرمات کا ارتکاب نہ کرے پھر جیسے جیسے اعمال ہونگے ویسا ہی تقوٰی پیدا ہوتا رہے گا اور اس تقوٰی کے کمال سے ایمان بھی کامل ہوتا رہے گا حتی ٰکہ درجہ احسان حاصل ہوجائے گا جو کہ ایمان کا اعلی درجہ ہے اور یہی تقوی کا بھی اعلی درجہ ہے اور یہی درجہ مطلوب ہے حق تعالی ارشا د فرماتے ہیں ۔

" لیس البر ان تولو وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باﷲ والیوم الاخر والملٰئِکۃ والکتاب والنبین واٰتی المال علی حبہ ذو القربی والیتٰمیٰ والمسکین وابن السبیل والسائلین و فی الرقاب و اقام الصّٰلٰوۃ واتی الزکواۃ والموفون بعھد ھم اذا عاھدوا والصبرین فی البٲسائ والضرَّائ و حین الباس اولٰئِک الذین صدقوا واولٰئِک ھم المتقون۔"

کچھ سارا کمال اسی میں (نہیں آگیا) کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کو کرلو لیکن( اصل) کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی (کی ذات وصفات) پر یقین رکھے اور اسی طرح قیاُمت کے دن( آنے) پر( بھی) اور فرشتوں (کے وجود) پر (بھی) اور اللہ کی کتاب پر اور سب پیغمبروں پر بھی اور وہ شخص مال دیتا ہو ۔اللہ کی محبت میں اپنے (حاجتمند) اور رشتہ داروں کو اور( نادار )یتیموں کو بھی اور بے خرچ مسافروں کو بھی اور( لاچاری) میں بھی سوال کرنے والوں کو( قیدی اور غلاموں کی) گردن چھڑانے میں (بھی مال خرچ کرتا ہو) اور وہ شخص نماز کی پابندی بھی رکھتا ہو او( مقررہ) زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو اور جو اشخاص( کہ ان عقائد اور اعمال کے ساتھ یہ اخلاق رکھتے ہوں کہ) اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب( کسی جائز امر کا) عہد کرلیں او ر(اس صفت کو خصوصیت کے ساتھ کہوں گا کہ) وہ لوگ ان مواقع میں مستقل مزاج رہنے والے ہوں ایک تو تنگدستی میں اور دوسرے بیماری اور تیسرے معرکہ قتال کفارہ میں یعنی کم ہمت اور پریشان نہ ہوں بس یہ لوگ ہیں جو سچے( کمال کے ساتھ موصوف) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو سچے متقی ہیں جو سچے متقی کہے جاسکتے ہیں ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصلی مقاصد اور کمالات دین کے یہ ہیں کہ نماز میں کسی سمت کو منہ کرنا انہیں کمالات مذکورہ میں ایک کمال خاص یعنی اقاُمت صلوۃ کے توابع اور شرائط میں سے ہے اور اس کے حسن سے اس میں بھی حسن آگیا ورنہ اگر نماز نہ ہوتی تو کسی خاص سمت کو منہ کرنا بھی عبادت نہ ہوتا ۔ اس آیت میں تمام ابواب تقوی کو اجمالاً بیان کردیا ہے جس میں اول محض صورت بے معنی کو کافی سمجھنے کی ممانعت ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ پر ایمان ،ملائکہ پر ایمان ،آسمانی کتابوں اور تمام انبیاء پر ایمان کا حکم ہے یہ تو عقائد کے متعلق ہے پھر حب مال کو انفاق سے زائل کرنے کا امر ہے یا محبت الہی میں مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے یہ اصلاح قلب کے متعلق ہے پھر اقاُمت صلوٰۃ کا امر ہے جو بدنی اطاعت ہے پھر زکوٰۃ دینے کا ہے کا یہ مالی اطاعت ہے اس کے بعد ایفاء عہد کا امر ہے جو معاشرت کے متعلق ہے پھر صبر کا امر ہے جو سلوک کے متعلق ہے غرض اس میں تمام شعب تقوی کو اجمالا جمع کردیا ہے اسی لیے "اولٰئِک ھم المتقون" پر اس کو ختم کردیا ہے ۔

اعمال تین قسم کے ہیں ۔ایک وہ جو دین میں نافع ہیں ان کو تو کرنے کا حکم ہے چاہے فرض واجب کے درجہ میں ہو یا سنت کے درجہ اور بعض وہ ہیں جو دین میں مضر ہیں ۔ان کو چھوڑنے کا حکم ہے خواہ حرام کے درجہ میں یا مکروہ کے درجہ میں اور بعض وہ ہیں کہ جن کے کرنے کا حکم ہے نہ چھوڑنے کا ،یہ مباحا ت ہیں ۔مباحات اپنے اثر کے لحاظ سے دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ دین کے لیے نافع ہیں جیسے بغرض حفظ صحت چلنا پھرنا ورزش کرنا یا نافع نہیں اگر دین میں نافع ہے تو ان کو تو کرنا چاہیئے گو درجہ واجب میں نہ ہو مگر جب مباح نافع فی الدین کو اچھی نیت سے کیا جائے تو وہ مستحب ضرور ہوتا ہے اور اس میں ثواب بھی ملتا ہے اور وہ مباحات جو دین میں نافع نہیں تو وہ فضول ہے اور فضولیات کا ترک کردینا شرعاً مطلوب ہے چنانچہ حدیث میں ہے "من حسن اسلام المرئ ترکہ مالا یعنیہ " یعنی اسلام کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ مالا یعنی کو ترک کردیا جائے جب فضولیات کے ترک کو حسن اسلام میں دخل ہے اور حسن اسلام ماُموربہ اور مطلوب ہے تو ان فضولیات کا ترک بھی ماُموربہ ہوگیا ۔گو ان کو حرام نہ کہا جائے مگر فضولیات میں اشتعال کراہت سے خالی نہیں پس جس طرح حرام اور مکروہ سے بچنا ضروری ہے اسی طرح فضولیات سے بچنا بھی ضروری ہے غرض بے ضرورت مباحات میں مشغول ہونا بھی برا ہے اور ضرورت کے وقت مشغول نہ ہونا بھی برا ہے ۔

بعض لوگ قبل اسلام کے حالت احرام حج میں اگر کسی ضرورت سے گھر جانا چاہتے تو دروازہ سے جانا ممنوع جانتے تھے اس لیے پشت کی دیوار میں نقب دے کر اس میں اندر جاتے تھے اور اس عمل کو فضیلت سمجھتے تھے حق تعالیٰ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔ "لیس البر بان تٲتو البیوت من ظھورھا ولکن البر من اتقی وٲتو البیوت من ابوابھا واتقواﷲ لعلکم تفلحون " اس میں کوئی فضلیت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو وہاں فضیلت یہ ہے کہ حرام( چیزوں) سے بچے (چونکہ دروازوں سے گھروں میں آنا حرام نہیں اس لیے اس سے بچنا بھی ضروری نہیں سو اگر آنا چاہو تو )گھروں میں ان کے دروازوں سے آئو اور (اصل الاصول تو یہ ہے کہ) خدا تعالی سے ڈرتے رہو اس سے البتہ امید ہے کہ تم( دارین میں) کامیاب ہوجاؤ۔ اس آیت سے ایک بڑے کام کی بات معلوم ہوئی کہ جو شے شرعاً مباح ہو اس کو طاقت و عبادت اعتقاد کر لینا اسی طرح اس کو معصیت اور محل ملاُمت اعتقاد کر لینا شرعا ً قابل مذمت ہے چنانچہ گھروں میں دروازوں سے آنا مباح تھا اس کو ان لوگوں نے معصیت سمجھا تھا اور دروازہ چھوڑ کر کسی اور طرف سے آنا بھی فی نفسہ مباح ہے اس کو ان لوگوں نے عبادت و فضیلت سمجھا تھا ا س پر حق تعالیٰ نے ان پر رد فرمایا اور ان کے اعتقاد کو باطل اور مخالف تقوٰی کے ٹھہرایا اور تقوٰی کو واجب فرمایا تو جس چیز سے واجب کا ترک اور خلاف لازم آئے گا وہ ضرور گناہ ہوگی پس ان کے یہ دونوں اعتقاد گناہ ہوئے اس قاعدہ سے ہزاروں اعمال کا حکم معلوم ہوگیا جو کہ عوام بلکہ خواص میں بھی شائع ہیں ۔ نیز خیال رہے کہ ہر شے اور اعضاء کا تقوٰی ہے آنکھ کا تقوٰی یہ ہے کہ بری نگاہ سے کسی عورت یا مرد کو نہ دیکھے، زبان کا تقوٰی یہ ہے کہ کسی کی غیبت نہ کرے جھوٹ نہ بولے کسی ک کو ستائے نہیں، اسی طرح ہاتھ کا تقوٰی ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرے شہوت سے مس نہ کرے، پائوں کا تقوٰی یہ ہے کہ بری جگہ چل کر نہ جائے، کان کا تقوٰی یہ کہ کسی کی غیبت نہ سنے راگ باجے سے بچے۔ وضع میں بھی تقوٰی ہے کہ خلاف شریعت وضع نہ رکھے پیٹ کا تقوی یہ ہے کہ حرام مال نہ کھاوے وغیرہ ۔

حاصل یہ ہے کہ صادق اور متقی یہی لوگ ہیں جن کے یہ اوصاف ہیں جو مذکور ہوئے اور ان اوصاف میں تمام اجزاء دین کا ذکر اجمالا آگیا دین کا کوئی جزو اس سے باقی نہیں رہا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ متقی وہی ہے جو دین میں کامل ہو ظاہر میں بھی باطن میں بھی لیکن یہ حاصل ہوتا دل کے ایک عمل سے جو کہ اللہ سے ڈر ہے کہ وہ ناراض نہ ہوجائے ۔

حاصل کرنے کا طریقہ

اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا کی جائے اور پھر یہ سوچا جائے کہ میرا کوئی قول اور فعل اس کو ناپسند تو نہیں ۔یا یہ سوچے کہ کیا میں اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوسکتا ہوں پس جس جس چیز میں کوئی مسئلہ محسوس ہو اگر ظاہر سے متعلق ہو تو علماء کرام سے اس کی تحقیق کرے اور باطن سے متعلق ہے تو اپنے شیخ سے یا جس کو اپنے باطن کا راہبر بنایا ہے۔اللہ تعالیٔ کے قہر و عتاب کی آیتیں پڑھ کر ان چیزوں سے بچنا چاہیئے جو اس عتاب کی وجہ بن سکتی ہیں۔اہل تقویٰ کی صحبت اس میں اکثیر کا کام دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی تقویٰ نصیب فرمائے۔

اعمال کے ثمرات

(1)بندے کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبدیت کاملہ

(2) اللہ تعالیٔ کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رضاء الہی

(1) عبدیت کاملہ

"و ما خلقت الجنس و الانس الا لیعبدون "

اور جن اور انس کو میں نے صرف اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں ۔ جب کوئی شخص سلوک میں قدم رکھتا ہے تو اس وقت اس کے ساتھ رزائل لگے ہوتے ہیں ۔ان رذائل کو دور کرنے کے لئے وہ مجاہدات کرتا ہے ،ریاضتیں کرتا ہے ۔شیخ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارتا ہے ۔کرتے کرتے رذائل دور ہوجاتے ہیں یا ان کے دور ہونے کے سامان ہوجاتے ہیں ۔ساتھ ساتھ سالک اپنے قلب کو فضائل سے آراستہ کرتا رہتا ہے جس کے لئے ذکر شغل مراقبہ جاری ہوتا ہے حتیّٰ کہ وہ وقت آپہنچتا ہے کہ اس کے قلب میں ایک ایسی کیفیت القاء کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے غیر مشروط طور پر سلامی ہوجاتا ہے اور اپنی نفس کی جو کجی اس حقیقت کے سمجھنے میں رکاوٹ تھی وہ نہیں رہتی اور یہ اپنے صفا قلب کی نور سے اس حقیقت کا ادراک کرلیتا ہے کہ میں بندہ ضعیف اللہ تعالیٰ کا محض بندہ ہوں اور وہ میرا عظیم رب ہے ۔اس کو اختیار ہے کہ میرے اندر جو تصرف کرنا چاہے کرے مجھے چوں چرا کرنے کا اختیار نہیں کہ میں غلام ہو ں اور میرے مالک ہے ۔میں نہ صرف اس کا غلام ہوں بلکہ اس کا عاشق بھی ہوں کیونکہ وہی میرا ازلی محسن ہے ایسا کمال والا اور جمال والا ہے کہ ہر کمال والے کا کمال اس کی کمال سے اور ہر جمال والے کا جمال اس کی جمال سے ہے اس لئے یہ سالک اپنا دل اپنے اللہ کو دے دیتا ہے اور بزبان حال کہتا ہے

زندہ کنی عطائے تو ور بکشی فدائے تو

دل شدہ مبتلائے تو ہر چہ کنی رضاء تو

اس صورت میں شریعت پر عمل کرنا اس کی طبعیت ثانی بن جاتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت اس تلاش میں ہوتا کہ میں کس طرح اپنے مالک کو راضی کرلوں اور چونکہ اس پر یہ خوب واضح ہوچکا ہوتا ہے کہ اپنے محبوب کو راضی کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کے احکامات پر بے چون و چرا عمل کرتا جائے اور اسی کو شریعت کہتے ہیں اس لئے شریعت پر عمل کرنے کو وہ ہر دم تیار رہتا ہے ۔اصل میں عبدیت کے حصول میں یہی نفس ہی تو آڑ ہوتا ہے جیسا ہی نفس کی تہذیب ہوگی تو سچ سچ اور حق حق نظر آئے گا۔ بس اس کے نتیجے میں بندہ خود کو اپنے رب کا ادنیٰ غلام سمجھ لیتا ہے۔اس میں اس کی نظر اپنے سے ہٹ کر اپنے مالک پر آجاتی ہے اور اس کی خوشنودگی کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے چاہے اس کو کوئی جاہل کہے یا گنوار لیکن اس کے لئے سب کچھ گوارا ہوتا ہے محبوب کی ناراضگی گوارا نہیں ہوتی ۔ اس کو کیفیت بندگی یا عبدیت کہتے ہیں ۔اسلام بھی اسی کو کہتے ہیں ۔پس کیفیت بندگی کا حصول اسلام کا کمال بھی ہے ۔

ایسا شخص احکامات کے مصلحتوں کی کرید میں نہیں ہوتا کیونکہ اس کو ان سب کی بڑی مصلحت معلوم ہوچکی ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے محبوب کی رضا ۔وہ اپنے کسی کام پر اتراتے نہیں کیونکہ محبوب کی عظمت کے سامنے اس کو اپنا عمل ہیچ نظر آتا ہے لیکن اس پر خوش ضرور ہوتے ہیں کیونکہ ایسے کام کی توفیق ہوجانا جس میں اس کی محبوب کی رضا ہے اس کے محبوب کی رضا مضمر ہوتی ہے اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر خوش ہوجاتا ہے لیکن اس خوف سے کہ کہیں اپنی کسی غلطی سے ناقبول نہ ہوجائے لرزاں ترساں بھی رہتا ہے اور محبوب کے کرم کو دیکھتے ہوئے پر امید بھی رہتا ہے ۔احادیث شریفہ میں ایک مومن کی علامات ایسی ہی بتائی گئی ہیں۔عبد ہر خیر کی نسبت اپنے محبوب مالک کی طرف اور ہر شر کی نسبت اپنے نفس کی طرف کرتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا "و ما ابری نفسی " اور حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ کلالۃ کے بارے میں میری ایک رائے ہے اگر وہ صحیح ہے تو میرے رب کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو شیطان اور میرے نفس کی طرف سے ہے ۔احادیث شریفہ کی دعائیں اس سے پر ہیں ۔ایسے حضرات نہایت لجاجت کے ساتھ دعاوں میں مشغول ہوتے ہیں کہ محبوب کی رضا اسی میں ہے لیکن نتیجہ خدا پر چھوڑ دیتے ہیں کہ خود کوئی تجویز ہی نہیں رکھتے ۔ان کو پتہ ہوتا ہے کہ ہمارا محبوب مالک ہمارے تمام ضروریات سے آگاہ اور ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے ۔

عبد کی کوئی شان نہیں ہوتی ۔بقول حضرت حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کبھی تو اس کو آقا کی رضا کے لئے پاخانہ اٹھانا پڑتا ہے تو کبھی اس کی قائمقامی کے لئے جلسہ یا دربار میں جانا پڑتا ہے ۔اس لئے عبد کی نظر میں خوشگوار اور ناخوشگوار حالت برابر ہوتی ہے کہ ایک میں ّحبوب کی محبوبیت ہے "واللہ یحب الشاکرین " اور دوسرے میں محبوب کی معیت "ان اﷲ مع الصابرین ۔" فراق و وصل چہ باشد رضاء دوست طلب کہ حیف باشد از و غیر او تمنائے پس کیفیت عبدیت والے حضرات کو اچھی چیز ملے تو دل سے خدا کا شکر ادا کردیتے ہیں اور ناخوشگوار حالت پیش آئے تو اس کو منجانب اللہ سمجھ کر صبر کرلیتے ہیں ۔ہر حالت میں ان کی خیر ہے ۔اصل میں یہ ایسی کیفیت ہے جو تمام فضائل کو لئے ہوئے ہے اس لئے اس کا حصول سارے فضائل کا حصول اور سارے رذائل سے پاکی کا مظہر ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کے طفیل یہ نعمت نصیب فرمائے ۔

طریق کار

اعتقادات ،عبادات ،معاملات ،معاشرت اور اخلاقیات میں شریعت کا جو بھی حکم ہو اس کو بسر و چشم پورا کرنا عبدیت ہے ۔

حصول کا طریقہ

نفس کی اصلاح اس کی تحصیل ہے کیونکہ جب تک نفس کی شرارت مؤثر ہے عبدیت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ ثمرہ من الحق (رضاء الٰہی ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے "و رضوان من اللہ اکبر " او ر اللہ تعالیٰ کی رضا بڑی چیز ہے ۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے دعا فرمائی ۔ " اللہمّ انی ٲسئلک رضاک و الجنۃ ۔" اے اللہ میں آپ سے اپنی رضا اور جنت کا سوال کرتا ہوں ۔ حق تعالیٰ کے ساتھ بندے کو ایسے تعلق کا نصیب ہوجانا کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا سمجھے یعنی جن کو رجال اللہ کہا جاتا ہے ان میں سے ہوجائے ۔ یہ وہ نعمت ہے جو بڑے خوش نصیبوں کو ملا کرتی ہے۔ اس کے لئے سارے ہی پاپڑ بیلنے پڑیں اور یہ نعمت حاصل ہوجائے تو بہت سستا سودا ہے ۔ عرفی اگر بہ گریہ میسر شدے وصال صد سال من بہ

کسی عمل صالح میں یہ قابلیت نہیں کہ اس کا بدل ہو کیونکہ وہ سب ہی توفیقات الٰہیہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ عادتاً ان لوگوں کو ہی نوازتے ہیں کہ محض اپنی فضل سے اپنی رضا کو اعمال پر مرتب فرمادیتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ کوئی شخص اپنے عمل سے جنت نہیں جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جائے گا۔اور یہ نسبت مع اللہ جب نصیب ہوجاتی ہے تو پھر زائل نہیں ہوتی ۔اللہ تعالیٰ جس کو دوست بناتے ہیں تو پھر ان کو اپنے سے دور نہیں فرماتے ۔البتہ لوازم بشریت سے کبھی کبھی اگر زہول ہوجاتا ہے اور کچھ ایسے اعمال ان سے سرزد ہوجائے جن پر گرفت کی جاسکے تو ان حضرات کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب اپنے اللہ سے رو دھو کے معاف نہیں کرادیتے ۔اس لئے اگر منفی عمل ہوگیا تو ساتھ ہی مثبت عمل یعنی توبہ و استغفار کی اتنی توفیق ہوجاتی ہے کہ نہ صرف وہ گناہ معاف ہوجاتی ہے بلکہ مزید ترقیات کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں ۔جیسے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے ایک صحابی پر حد کے دوران ایک اور صحابی کے جب مذمت کے الفاظ سنے تو فرمایا کہ اس کی مذمت نہ کرو کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر سارے حجاز والوں پر بھی تقسیم کی جائے تو سب کی بخشش ہوجائے ۔الغرض ایسے لوگ معصوم نہیں ہوتے کہ وہ تو صرف انبیاء ہیں لیکن محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ان کو رضی اللہ عنھم و رضو عنہ کا مژدہ سنایا جاتا ہے اور یہ ان سب کے لئے جن کو خشیت حاصل ہو۔

طریقہ تحصیل

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا یہ غیر اختیاری ہے جب اللہ تعالیٰ کرم فرمائے ہوجاتا ہے البتہ ہمارا کام اختیاری اُمور میں سستی نہیں کرنا ہے کیونکہ ہم اسی کے مکلف ہیں ۔ "ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین" اس لئے ایسے کریم رب سے قبولیت کی امید رکھتے ہو ئے اعمال ظاہرہ اور باطنہ جو اختیاری ہیں میں دل وجان سے لگنا ہی اس کے حاصل کرنے کا طریقہ ہے جو پورا سلوک ہے اس کے بعد جب بھی اس کا فضل ہوجائے تو یہ خوش نصیبی ہے ۔دیر سویر میں نہیں لگنا چاہیئے کہ اس راستے میں تعجیل ایک کانٹا ہے جس سے بچ کے گزرنا چاہیئے لیکن اختیاری اُمور میں غفلت بھی نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ وہ محرومی کی وجہ بن سکتی ہے ۔ پانے کا نہ پانے کا تو اختیار گو نہیں پس ہم کو چاہیئے کہ تگ و دو لگی رہے

یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نہ باشی

شاید کہ نگاہےکندآگاہ نہ با شی

وصول الی اللہ کے تین طریقے

(1)اَطْوَلْ یعنی سب سے طویل

(2)اَوْسَطْ یعنی درمیانی

(3)اَقَلَّ و اَقْرَبْ یعنی مختصر

اول :اطول

یہ ہے کہ کثرت صوم و صلوٰۃ قرات قُرآن پاک و حج و جہاد وغیرہ کرنا یہ طریق اخیار کا ہے ۔

دوم :اوسط

ان اُمور کے علاوہ مجاھدہ و ریاضت اخلاق ذمیمہ کے ازالہ اور اخلاق حمیدہ کی تحصیل میں مشغول ہونا اور اکثر اسی طریق سے واصل ہوتے ہیں ۔یہ طریق ابرار کا ہے ۔

سوم :اقل و اقرب

طریق عشق کہ ریاضتوں اور صحبت خلق سے گھبراتے ہیں صرف ذکر ، فکر ، شکر اور دردو شوق و اشتیاق ان کا کام ہوتا ہے اس سے واصل بحق ہوتے ہیں ۔اسی طریق سے تزکیہئ نفس اور تصفیئہ قلب اور تجلیہ روح میں مشغول ہوتے ہیں اور کشف و کرامات کو بعوض ایک جو کے بھی نہیں خریدتے اور مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تِمُوْتُوْا پر مستقیم ہوتے ہیں ۔یہ طریق شطاریہ کاہے ۔ " مُوْتُوْ ا قَبْلَ اَنْ تَمُوْ تُوْا " کے ساتھ انطباق اور مرنے سے پہلے مرنے کی نوعیت یہ ہے کہ موت کے وقت مردے کہ یہ احوال ہوتے ہیں توبہ ،زھد،توکل،قناعت،عزلت،توجہ الی اﷲ ،صبر ،رضا ،ذکر ،مراقبہ جو کہ شطاریہ کا شیون ہے ۔ توبہ ،یعنی ہر فعل بد سے نکل جانا جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔زہد، دنیا و مافیہا کا ترک کرنا ،جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔توکل اسباب ظاہرہ غیر عادیہ کا ترک کرنا جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔قناعت ،شہوات کا ترک کرنا جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔ عزلت ،خلق سے قطع کرنا ،جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔توجہ الی اﷲ ،ماسِویٰ اﷲ سے اعراض کرنا جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔صبر ،ترک حفوظ کرنا ،جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔رضا ،رضاء نفس کو ترک کرنا ، اور رضا ئے حق پر راضی رہنا اور خدا کے حکم کو تسلیم کرناجیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔ذکر ،ذکر غیر حق کو ترک کرنا اور یاد حق میں مشغول ہونا جیسا کہ موت کے وقت ہوتا ہے ۔مراقبہ ،اپنے وقت کے لوٹنے کے خیال کو ترک کرنا جیسا کہ بوقت موت ہوتا ہے ۔ یہ ہے "مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا " ہوناکہ جو موت کے وقت حالت ہوتی ہے وہ حالت حیات میں نقد حال ہو کہ جسم دنیا میں ہو اور روح متوجہ باآخرت ہو اور واصل بحق ہو ،مال و ددولت ہفتِ اقلیم کی سلطنت ہاتھوں میں ہو پر دل سب سے فارغ ہو جس کی پہچان یہ ہے کہ ممنوعات و مکروہات شرعیہ سے قولاً و فعلاً و حالاً جوارح و زبان کو بند کرے ،قلب کو ماسِویٰ اللہ سے فارغ اور اخلاق حمیدہ سے آراستہ کرے بیہودہ مجالس سے پرہیز ہو ۔جو چیز طالب کو یاد الٰہی سے باز رکھے وہی بیہودہ اور لا یعنی ہے ۔باطل لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرے جو طالب خدا کا نہیں وہی باطل ہے ۔اے عزیز !یہ ہے " مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا " کا مصداق جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔آپ نے اُمت سے اس طرح رہنے کو چاہا ہے ۔ علاماتِ رسوخ ِ اخلاق :اخلاق کے رسوخ کی علاُمت یہ ہے کہ جس وقت جس خلق کا موقع پیش آوے اس وقت بلا التفات ،بلا اختیار تدبیر فوراً یا ادنیٰ تدبیر سے اس خلق کا با محل استعمال ہو ۔

باب الخواطر

بندہ کے دل پر جو خطاب گذرتا ہے اسے خاطر کہتے ہیں ،وہ کبھی خیر ہوتا ہے کبھی شر ہوتا ہے ۔خیر کا دل میں واقع ہونا کبھی من جانب اللہ ہوتاہے ۔کبھی من جانب ملک جس کا نام ملہم ہے ۔اور کبھی من جانب الشیطان اور شر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔کبھی نفس کی طرف سے اور کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خیر ہوتا ہے وہ اکراماً ہوتا ہے یا الزام حجت کے لئے ہوتا ہے اور جو شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے وہ امتحاناً ہوتا ہے اور محنت میں ڈالنے کے لئے ہوتا ہے ملہم کی طرف سے ہمیشہ خیر ہی وارد ہوتا ہے ۔اس لئے ملک ملہم مرشدِ ناصح ہے ۔اس لئے اس کو ساتھ کیا گیا ہے ۔ شیطان کی طرف سے جو خیر ہوتا ہے وہ مکر و استدراج ہوتا ہے صورتاً خیر ہوتا ہے ۔ حقیقتاً شر مثلاً کسی اعلیٰ خیر سے روک کر جھوٹی خیر میں مبتلا کرنا اور جو شر ہوتا ہے وہ " اغوائً " اور "استذلالاً" (یعنی ذلایل کرنے کے لئے )ہوتا ہے ۔ نفس کی طرف سے جو شر ہوتا ہے "تعسفاً " (یعنی بے راہ چلانے کے لئے )ہوتا ہے اور " تَمَنُّعاً" (یعنی راہ حق سے روکنے کے لئے )ہوتا ہے اور بہت کم خیر ہوتا ہے ۔مثل شیطان کے ۔

علامات فرق درمیان شر من جانب اللہ و نفس و شیطان

جو شر اس طرح وارد ہو کہ نہایت مضبوط ہو اور ایک حالت میں جمع رہے نفس نہایت شدت سے اس کے کرنے پر بے قرار ہو ،تدابیر دفع کی کرتا ہو مگر کسی طرح دفع نہیں ہوتا وہ شر من جانب اللہ ہے ۔اس کا علاج بغیر اس کے کچھ نہیں کہ حق تعالیٰ کے دربار میں اعانت اور توفیق طلب کرے اور تضرع اور گریہ و زاری رکھے اور اس قدر شدت نہ ہو مگر ایک حالت پر رہے وہ نفس کی جانب سے ہے ۔اور اگر کسی گناہ کے بعد خطرہ شر قوت کے ساتھ پیدا ہو تو وہ من جانب اللہ عاصی کی اہانت اور اس گناہ کی ظلمت کی سزا میں ہے اور اگر گناہ کے بعد خطرہ شر قوت کے ساتھ پیدا نہ ہو ،اول ہی اول ہو تب وہ شیطان کی جانب سے ہے ۔بشر طیکہ ذکر کرنے کی وجہ سے دفع ہو جائے یا کمزور ہو جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اِنَّ الشَّیْطَانَ جَاثِمٌ عَلیٰ قَلْبِ اِبْنِ اٰدَمَ اِذَا ذَکَرَ اﷲَ خَنَسَ وَاِذَا غَفَلَ وَسْوَسَ" کہ شیطان آدم کی اولاد کے قلب پر ٹیک جما کر بیٹھتا ہے ،جب اللہ کا ذکر کرتا ہے ،تو ہٹ جاتا ہے اور جب اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے تو وسوسے ڈالتا ہے ۔ اور اگر وہ شر ذکر کی وجہ سے دفع نہ ہو کمزور ہو تو نفس کی طرف سے ہے جس طرح کہ شیطان کو خطرہ " خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وِّ خَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنِ" (یعنی آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا )نفس کی جانب سے تھا جس کا دفعیہ نہ اس کا ذکر کر سکا اور نہ حق تعالیٰ کی تلقین و تذکیر سے ہوا اس کا سبب عبدیت اور عجز کا نہ ہونا تھا ۔ نیز مشاہدہ سے محرومی تھی وہ طاعت و عبادت محض جسمانی تعب تھا ،قلبی مشاہدہ نہ تھا کیونکہ بعد مشاہدہ حجت کا پیش کرنا نہیں ہوتا بلکہ تعمیل میں تسلیم و رضا ہوتی ہے یہ کیفَ و لِمَا مشاہدے سے قبل ہی ہوا کرتے ہیں

علامات فرق درمیان خیر من جانب اللہ تعالیٰ و ملک ملہم

جو خیر ،قوت اور صمیم قلب کے ساتھ وارد ہو کہ اس پر بلا عمل کئے چین نہیں آتا یا وہ خیر مجاھدہ اور طاعت کے بعد ہو یا وہ خیر اصول اور اعمال باطنہ میں سے ہو تو وہ من جانب اللہ ہے ۔ "وَ الَّذِیْنَ جَا ھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا " یعنی اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے قرب و ثواب یعنی جنت کے رستے ضرور دکھاویں گے ۔ یہ آیت کریمہ اس پر دلیل ہے اور اگر ایسی قوت و حالت نہ ہو یا بدون مجاھدہ ابتدائً ہو یا فروع اعمال ظاہرہ کے متعلق ہو تو وہ خیر من جانب ملہم ہے علامات فرق درمیان خطرئہ خیر من جانب اللہ تعالیٰ و من جانب الشیطان جو خطرئہ خیر اس طرح وارد ہو کہ اس سے نشاط بلا خوف ہو اور عجلت بلا رکاوٹ ہو اور عمل بلا نظر انجام ہو وہ من جانب الشیطان ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ عجلت من جانب الشیطان ہے مگر پانچ مواقع میں ، (۱) نکاح باکرہ،(۲)ادائے قرض ،(۳)تجہیز میت،(۴)اطعَام مہمان،(۵)توبہ از گناہ۔ اور اگر خطرئہ خیر کا وارد ہونا اس طرح نہ ہو بلکہ نشاط مع الخوف اور انجام پر نظر نہ ہونے کے ساتھ ہو تو وہ من جانب اللہ تعالیٰ ہے اور من جانب ملک بھی کہا جاتا ہے ۔

تنبیہہ

خوف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس خیر کے پورے طور پر ادا ہونے اور اس کو اس کے حق کے طریق پر ادا ہونے کا خوف ہو ،نیز قبول ہونے نہ ہونے کا احتمال ہو کر خوف ہو انجام پر نظر ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے متعلق رشد و خیر اور ثواب و آخرت میں دیکھنے اور امید رکھنے پر نظر ہو ،دوسرا مطلب اور غرض نہ ہو ۔

تنبیہہ

ملہم ایک فرشتے کا نام ہے جس دائیں جانب ابن آدم کے قلب پر جما بیٹھا ہے اور وسواس ایک شیطان کا نام ہے جو بائیں جانب ابن آدم کے قلب پر جا بیٹھا ہے ۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ " اِذَا وُلِدَ لاِبْنِ اٰدَمَ مولود قَرَنَ اﷲُ مَلَکاً وَقَرَنَ بِہٰ شَیْطَاناً فَاَلشَّیْطَانُ جَاثِمٌ عَلیٰ اُذْنِ قَلْبِ ابْنِ اٰدَمَ الْاَیْسَرْوَ ااَلْمَلَکُ جَاثِمْ عَلیٰ اُذْنِ قَلْبِہٰ اَلاَیْمَنَ فَھُمَا یَدْعُوْنِہٰ۔" یعنی جب بھی انسان کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایک فرشتہ پیدا فرماتے ہیں اور ایک شیطان بھی ۔شیطان تو اس کے قلب کے بائیں جانب بیٹھ جاتا ہے اور فرشتہ اس کے قلب کی داہنی جانب پر اور وہ دونوں اس کو اپنی اپنی طرف بلاتے ہیں ۔

تنبیہہ

شیطان کے خطرے اور شر کو دفع کرنے کے لئے معمولی توجہ اور ذکر اور لاحول کا ورد کفایت کرتا ہے ۔کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ " اِنَّ کَیْدَالشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیْفاً" یعنی واقع میں شیطانی تدبیر لَچَر ہوتی ہے ۔ اصل علاج شیطانی وساوس کا یہ ہے کہ قطعاً اس طرف التفات نہ ہو اور التفات نہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ ان وساوس پر مغموم و متفکر نہ ہو بلکہ وسوسے سے پہلے جو حال تھا اسی طرح رہے بلکہ وسوسے کا آنا اپنے مؤمن ہونے پر دلیل سمجھ کر مسرور ہو چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب وساوس کے آنے پر اپنا حال ذکر کیا کہ یا رسول اللہ اب تو ایسے وسوسے آتے ہیں کہ اس سے تو ہمارا جل کر کوئلہ ہو جانا اچھا ہے ۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، "ذَالِکَ صَرِیْحُ الاِیْمَانُ" یہ کھلی ہوئی ایمان کی دلیل ہے ۔ چور وہیں آتا ہے جہاں کچھ ہوتا ہے البتہ ہوائے نفس کے دفع کے واسطیبہت ہی جد و جہد اور اس پر غیظ و قہر کی ضرورت ہے ۔اس لئے ہوئے نفس کے دفع کے تین طریق ہیں ۔

اول

شہوات سے روکنا اس کی خوراک اس کو نہ دی جائے ۔اس کی خواہشات بمقاومت نفس پوری نہ کی جائے جیسے کہ چویایئہ شہ زور کا جب چارہ روک دیا جاتا ہے یا کم کر دیا جاتا ہے تو نرم پڑ جاتا ہے ۔اس طرح خواہش نفس بھی آہستہ آہستہ مضمحل ہو کر منقطع ہو جاتی ہے ۔

دوم

عبادت کا بوجھ اس پر لادنا ،جس طرح گدھا کہ جب اس کو چارہ کی کمی کے ساتھ بوجھ زیادہ لادا جاتا ہے تو پست و تابع اور منقاد ہو جاتا ہے ۔،دو لتی نہیں پھینکتا ۔ ،اسی طرح نفس پر عبادت نافعہ کا بوجھ ڈالا جائے تو وہ رام ہو جاتا ہے ۔کشا کشی سے نکل جاتا ہے ۔

سوم

استعانت باﷲ اور تضرّع الی اﷲ عزّ و جلّ جیسا کہ فرمایا "اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بَا لسُّوْئِٓ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْ" یعنی نفس تو ہر ایک کا بری ہی بات بتلاتا ہے بجز اس کہ جس پر میرا رب رحم کرے ۔ جب ان تینوں اُمور پر مواظبت کی جائے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ نفس شریر منقاد و مطیع ہو جائے گا اور اس کے شر سے مامون و محفوظ رہے گا ،مگر فکر رکھے ،غافل نہ ہو ،کہیں غافل پا کر غلبہ نہ پا لے ۔

تنبیہہ

حقیقت نفس

انسان کے اندر ایک ہی قوت ہے جس سے کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے ۔ اس کا نام نفس ہے خواہ وہ خواہش خیر ہو یا شر اور یہ نفس تین طرح پر ہے ۔

(1)امّارہ

(2)لوّامہ

(3)مطمئنِہ

نفس امّارہ

یہ ہے اکثر شر کی خواہش کرے اور نادم بھی نہ ہو اسی درجے کا نام ہوائے نفس ہے ۔

نفس لوّامہ

شر کی طرف خواہش بھی کرے اور نادم بھی ہو ۔

نفس مطمئنہ

بیش از بیش خواہش خیر کرے ۔اس کو مطنئنہ کہتے ہیں ۔

خیال کی قسمیں اور ان کا حکم

حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کے لئے ان کے خیالات سے تجاوز فرما دیا ہے ۔جن کی وہ اپنے جی سے باتیں کرتے ہیں ۔جب تک کہ ان کو منہ سے نہ نکالیں ..یا ان کو عمل میں نہ لاویں ۔۔دوسری روایت میں ہے کہ ان کے سینوں میں جو وساوس پیدا ہوں ۔

خیال کے مراتب پانچ ہیں ۔

(1) ہاجس (2) خاطر (3) حدیث النفس (4) ہم (5) عزم

پس جب کوئی بات قلب میں ابتدائً واقع ہوئی اور اس نے نفس میں کوئی حرکت نہ کی اس کو ہاجس کہتے ہیں ۔پھر اگر اس شخص کو توفیق ہوئی اور اول ہی سے اس کو دفع کر دیا تو وہ ما بعد کے مراتب کی تحقیق کا محتاج نہ ہوگا اور اگر وہ نفس میں دورہ کرنے لگے یعنی وقوع ابتدائی کے بعد اس کے نفس میں اس کی آمد و رفت ہونے لگے مگر اس کے کرنے نہ کرنے کا کوئی منصوبہ نفس نے نہیں باندھا اس کو خاطر کہتے ہیں ۔اور جب نفس کرنے نہ کرنے کے برابر درجہ میں منصوبہ باندھنے لگے اور ان سے کسی اوک کو دوسرے پر ترجیح نہ ہوئی تو اس کو حدیثِ نفس کہتے ہیں ۔سو یہ تین درجہ ایسے ہیں کہ ان پر نہ عتاب ہے ،اگر یہ شرمیں ہے اور نہ ثواب ہے ،اگر خیر میں ہے ۔پھر جب اس فعل کو کر لیا تب اس فعل پر عتاب یا ثواب ہوگا اور ہاجس اور خاطر اور حدیثِ نفس پر نہ ہوگا ۔پھر جب نفس میں فعل یا عدم فعل کا منصوبہ ترجیح فعل کے ساتھ ہونے لگا ،لیکن وہ ترجیح قوی نہیں، بلکہ مرجوح ہے ۔جیسا کہ وہم ہوتا ہے اس کو ہمّ کہتے ہیں اس پر ثواب بھی ہوتا ہے اگر وہ خیر میں ہے اور عتاب بھی ہوتا ہے اگر وہ شر میں ہے ۔پھر جب فعل کا رجحان قوی ہو گیا یہاں تک کہ جازم مصمم بن گیا اس کو عزم کہتے ہیں ۔اس پر بھی ثواب ہوتا ہے اگر خیر میں ہے اور عتاب ہوتا ہے اگر شر میں ہے ۔

علاماتِ حصولِ نسبت مع اﷲ

نسبت کے معنی تعلق کے ہیں ۔اور تعلق دو جانب سے ہوتا ہے ۔یہاں پر نسبت مع اللہ کے معنی یہ ہانگے ،ایک تعلق اللہ تعالیٰ کا بندے کے ساتھ اور ایک تعلق بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔اور حصول نسبت مع اللہ کو حصول الی اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔بندے کے ساتھ تعلق ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا تعلق بندے کے ساتھ رضاء کا ہو اور بندے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہونے کے یہ معنی ہیں کہ دوامِ طاعت ،کثرتِ ذکر مع ملکئہ یادادشت جس کی علاُمت یہ ہے کہ طاعات و عبادات کی طرف ایک اضطرابی رغبت ہوتی ہے اور معصیت ظاہری و باطنی سے ایسی نفرت ہو جیسے پیشاب پاخانہ سے ہوتی ہے اور اتباع سنت کا بکمال اہتمام ہو ۔

تنبیہہ

عبادات میں نماز ایسی اعظم عبادت ہے کہ اگر اس کو پورے اہتمام آداب و شرائط سے ادا کیا جائے تو کسی دوسری مستقل ریاضت کی ضرورت نہیں اس میں ذکر شغل مراقبہ اور اومثل تسبیحات ،استغفار ،درود شریف وغیرہ سب جمع ہیں ۔اس میں ذکر کا ہونا ،کلام پاک کی تلاوت ہے جو جامع اذکار ہے اور شغل بحالت قیام سجدہ کی جگہ نظر کا جمانا بحالت رکوع قدم پر نگاہ رکھنا بحالت سجدہ پرّہ بینی پر نگاہ رکھنا بحالت جلسہ و قعدہ گود پر نگاہ جمانا ،بحالت سلام دائیں بائیں کندھے پر نگاہ رکھنا ۔ مراقبہ بحالت تحریمہ باستحضار نیت اور کل صلوٰۃ میں "اﷲُ نَا ظِرِیْ " کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو دیکھ رہے ہیں ،خیال رکھنا یہ مقام احسان اکہلایا جاتا ہے جس کے لئے تمام مجاھدے اور ریاضتیں اختیار کی جاتی ہیں

جیسے کہ حدیث شریف میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ " مَا الِاْحْسَانْ" کہ احسان کیا چیز ہے ؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اَنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ " کہ اللہ تعالیٰکی عبادت اس طرح کرے گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے کیونکہ اگر تو نہیں دیکھ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ یجھ کو دیکھ رہے ہیں ۔ غرض نماز کو اس کے آداب و متحبات اور شروط کے ساتھ ادا کرنے سے راہ سلوک اور اس کا انتہائی درجہ مقام احسان حاصل ہو سکتا ہے اور لطائف ستہ کے آثار ظہور کر سکتے ہیں

لطائف ستہ اور ان کے آثار

(1)نفس (2)قلب (3)روح (4)سرّ (5)خفی (6)اخفیٰ

یہ چھ لطیفے ہیں ۔ان کے آثار یہ ہیں ۔نفس یعنی نفس مطمئنہ کی غذا معاصی سے قرار نہ پکڑنا ہے یعنی معاصی سے نفور رہنا ہے ۔قلب کی غذا ذکر ہے ۔روح کی غذا ظہوری ہے ۔سرّ کی غذا انکشاف حقائق ہے ۔خفی کی غذا شہود و فنا ہے ۔اخفیٰ کی غذا فناء الفناء ہے (بعض نے اس میں کسی قدر اختلاف کیا ہے )نماز میں ان لطائف ستہ کے آثار کے ظہور کی صورت یہ ہے کہ صلوٰۃ سات درجے کی ہے ۔ ۱۔صلوٰۃ تن ،۲۔ صلوٰۃ نفس ،۳۔صلوٰۃ قلب ،۴۔صلوٰۃ روح ،۵۔صلوٰۃ سرّ ، ۶۔صلوٰۃ خفی ، ۷۔ صلوٰۃ اخفیٰ۔

(1) صلوٰۃ تن :مانع عن المعاصی ہوتی ہے ۔

(2) صلوٰۃنفس:مانع عن المعالق ہوتی ہے ۔

(3) صلوٰۃقلب:مانع عن الغفلۃ الکثیرۃ ہوتی ہے ۔

(4) صلوٰۃروح :غیر کے دیکھنے سے مانع ہوتی ہے ۔

(5) صلوٰۃ سرّ :مانع توجہ عن ماسویٰ اللہ ہوتی ہے ۔

(6) صلوٰۃ خفی :انسان کو مرتبئہ عنابت میں پہنچاتی ہے کہ اس سے اس پر حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔

(7) صلوٰۃ اخفیٰ :مشاہدہ ذات بحت اور جامعیت مقام معراج ہوتی ہے ۔

شرط اجازت

شیخ طالب کو جب مجالست و مکاتبت وغیرہ سے مسلسل اصلاح کی طرف باستقلال و استقاُمت متوجہ پاتا ہے ۔اور وہ اس راہ سلوک کو طے کرتو ہوا سیر الی اللہ تک پہنچ جاتا ہے تو اس وقت شیخ اس مرید طالب کو خلافت بیعت سے نوازتا ہے ۔ سیر سلوک دو قسم پر ہے سیر الی اللہ و سیر فی اللہ

سیر الی اللہ

سیر الی اللہ یہ ہے کہ امراض نفسانیہ جو کہ اخلاق رذیلہ ہیں ان سے نفس کا پاک ہونا جس کو تزکئہ نفس کہتے ہیں جس کا ذکر " قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زکّٰھَا ْ" (یعنی بے شک جس نے نفس کو صاف کیا کامیاب رہا )میں ہے اور قلب کا اخلاق حمیدہ و اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہونا جس کو تحلیہ و یجلیہ کہتے ہیں ان کا حاصل ہو نا جس کوسلوک میں مقامات سے تعبیر کیا جاتا ہے ،پس جب ان مقامات کے حصول اور تزکیہ نفس میں رسوخ ہوجا تا ہے اور اس کے ازالہ اور حصول کے طرق و تدابیر سے واقفیت ہو جاتی ہے اس وقت اس کو سیر الی اللہ پر پہنچنے کے بعد اس طالب کو اجازت دے دی جاتی ہے۔

سیر فی اللہ

سیر الی اللہ کے بعد قلب کے اندر تزکیہ اور تقویٰ سے ایک خاص جلائ اور نور پیدا ہوتا ہے اور برابر قلب انقطاع ماسویٰ اللہ کے ساتھ شغل بحق رکھتا ہے ۔تو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال نیز حقائق کونیہ و حقائق اعمال شرعیہ و معاملات مابین اللہ و بین العبد منکشف ہوتے ہیں ۔ اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں ۔اور اس کی کوئی نہایت نہیں کہ حسب استعداد بشغل حق تبضرید (کسی چیز کو اپنی طرف منسوب نہ کرنے )و تجرید (دنیاوی و اخروی اغراض کو ترک کر دینے کے ساتھ )ترقی ہوتی رہتی ہے ۔

تنبیہہ

شیخ مرید کو سیر الی اللہ کے مرتبے پر پہنچنے کے بعد ہی مجاز بیعت کر دیتا ہے ۔اور کبھی سیر فی اللہ کے حصول کا انتظار کرتا ہے ۔یہ مرید کے حال اور شیخ کے ذوق پر منحصر ہے ۔ دوسرا شیخ تجویز کرنا اس کی چند صورتیں ہیں ۔شیخ اول کا متبع شرع نہ پانا ۔یعنی بدعت یا اصرار کبیرہ پر دیکھنا یا شیخ اول سے با وجود متشرع ،متبع سنت ہونے کے مناسبت کا نہ ہونا یا شیخ اول کا انتقال کر جانا ۔اس تیسری صورت میں بدوں بیعت کسی دوسرے شیخ سے صرف اپنے اصلاح کی تکمیل کرانا یا دوسرے شیخ سے بیعت ہونے کے ساتھ اصلاح کے لئے متوجہ ہونا ۔ چنانچہ ہمارے حضرت دادا پیر حاجی امداد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہُ اول سلسلہ نقشبندیہ سے مجاز بیعت تھے ۔ان کا انتقال ہونے کے بعد چونکہ ابھی طبیعت کو سیری نہ ہوئی تھی ،اس لئے سلسلہ چشتیہ میں حضرت میانجیو نور محمد صاحب جھنجھانوی نور اللہ مرقدہُ سے بیعت فرمائی ۔اور حضرت میانجیو صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کی طرف سے بھی مجاز بیعت ہوئے جن کے فیوض و برکات سے آج عرب و عجم فیض یاب ہیں ۔

تنبیہہ

دوسرا شیخ تجویز کرنے پر پہلے شیخ کی شان میں کبھی سؤ ادبی قولاً و فعلاً ،غائباً ،حاضراً ہر گز نہ کرے اگرچہ شیخ اول متشرع نہ رہا ہو کہ یہ سخت وبال ہے ۔

توابع یعنی احوال کا بیان

طریقت کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے دوران بعض کیفیات غیر اختیاری طور پر حاصل ہوتی ہیں ۔ان کو احوال کہتے ہیں ۔یہ مقصود نہیں ہوتے ۔مقصود مقامات ہیں جو اختیار سے حاصل کئے جاتے ہیں۔یہ احوال جیسے خود بخود حاصل ہوتے ہیں ۔اس طرح خود بخود چلے بھی جاتے ہیں یعنی ان کے آنے پر اختیار نہ ان کے باقی رہنے پر اختیار۔اگر یہ طاعت میں استعمال ہوجائیں تو محمود ہیں اور اگر خدانخواستہ معصیت میں استعمال ہوجائیں تو مذموم۔ان میں چونکہ بعض احوال میں برا مزہ ہوتا ہے اس لئے مبتدی کو ان سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے ۔حقیقت یہ کہ جیسے بچے کو ابتدا میں مٹھائی کھلائی جاتی ہے لیکن جب چل پڑتا ہے تو پھر ایسا نہیں ہوتا اس لئے ابتدا میں طفلان طریقت کو بھی شوق و ذوق اور رقت و گریہ کے طرف زیادہ مائل کیا جاتا ہے جس سے وہ چل پڑتے ہیں اس لئے ان کے لئے یہ محمود ہوتے ہیں لیکن جس وقت یہ نہ ہوں تو اس کا غم نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ مقصود نہیں ہوتے ۔

ہر عمل کا ایک مبدا ہوتا ہے جو اس عمل کا محرک ہوتا ہے اور ایک منتہا جو عمل مقصود ہوتا ہے ۔مثلاً اہل مصیبت کے ساتھ مدد کرنا مقصود ہے پس اہل مصیبت کو دیکھ آدمی کا دل کڑھتا ہے اور اس میں اس کے ساتھ مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے یہ تاثر ہے جو عمل کی وجہ بنی ۔پھر وہ عمل آدمی کرلیتا ہے۔اللہ تعالی مبادی سے پاک ہے اس لئے جو کرنا چاہتا بغیر تاثر کے کرلیتا ہے ۔پس اگر کوئی شخص اس کڑھنے کی کیفیت سے گزرے بغیر اہل مصیبت کی مدد کرتا ہے تو اس کے اخلاق اللہ تعالی کے اخلاق کا عکس ہے اور وہ زیادہ کامل ہے بمقابلہ اس کے جو اس کیفیت سے گزرنے کے بعد وہ عمل کرے۔پس اگر کسی کو مقامات بغیر کیفیات کے حاصل ہیں تو وہ زیادہ کامل ہے۔اس بات کو خوب سمجھنا چاہیئے۔ احوال میں بعض وہ ہوتے ہیں جن میں کسی نقفان کا اندیشہ نہیں ہوتا ان احوال غیر محتملۃ الضرر کہتے ہیں اور بعض میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ان کو احوال محتملۃ الضرر کہتے ہیں۔

احوال غیر محتملۃ الضرر

(1)اجابت دعا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔اجیب دعوۃ الداع اذا دعانِ جس کا مفہوم یہ کہ اللہ تعالیٰ دعا مانگنے والوں کی دعا قبول فرماتے ہیں ۔اور آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں سو دو تو منظور کیں اور ایک نامنظور کی۔ دعا مانگنے کا حکم ہے اس لئے دعا ضرور کرنی چاہیئے اورایک حدیث شریف کے مطابق دعا کرتے وقت یہ یقین ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول فرماتے ہیں ۔دعا کی قبولیت حالت رفیعہ میں سے ہے لیکن یہ ولایت کے لوازم میں سے نہیں کیونکہ مندرجہ بالا حدیث شریف میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک دعا منظور نہیں ہوئی۔ دعا کے بارے میں جاننے کے دو باتوں کا جاننا لازمی ہے ۔ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے سب کچھ کرسکتا ہے اور ہمارے اوپر ہم سے زیادہ مہربان ہے

دوسری بات یہ کہ ہم عاجز ہیں ۔اپنا بھلا برا نہیں جانتے ۔یہ باتیں سمجھ میں آجائیں تو اب دیکھیں خدا تعالیٰ نے ہمیں اختیار دیا کہ ہم جس چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھیں اور وہ جائز ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ سے اس یقین کے ساتھ مانگ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میر دعا سنتے ہیں اور قبول فرماتے ہیں۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے ہمیں وہ بھی دے سکتا ہے جو ہم نے مانگا لیکن چونکہ ہمارے اوپر ہم سے زیادہ مہربان ہے اس لئے اگر ہم نے وہ چیز نہیں مانگی جو ہمارے لئے بہتر ہے تو وہ اس کے بدلے ہمیں وہ چیز دے دیتا ہے جو ہمارے لئے بہتر ہے ۔اس لئے کبھی کوئی آنے والی مصیبت اس کی وجہ سے ہٹا دیتے ہیں اور کھبی ہمارے لئے اس کوآخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں۔انسان کو چاہیئے کہ جتنے اسباب اختیار کرسکتے ہیں ان کو اختیار کرنے کے بعد نتیجے کے لئے دعا کریں تاکہ جو اختیار میں نہیں اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہو کیونکہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ناکافی اسباب سے بھی دعا کی برکت سے کام کردیتا ہے۔پس اجابت دعا احوال رفیعہ میں سے ہے لوازم ولایت میں سے نہیں

۔

(2)الہام

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ میں عمر ہوں اور تم پر حکومت کرنے کی مجھے خواہش نہیں تھی لیکن مجھ کو متوفی حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اس کی وصیت کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے قلب میں اس کا القا فرمایا تھا۔ اگر بغیر کسی واسطہ کے دل میں کوئی بات حقائق میں سے آجائے یا ہاتف غیبی سے آواز آئے تو اس کو الہام کہتے ہیں ۔مندجہ بالا اثر سے اس کی تائید ہوتی ہے۔بعض اولیائ اللہ کا صاحب الہام ہونا منقول ہے اس لئے انکار نہیں کرنا چاہیئے۔ صاحب الہام کو الہام کی مخالفت نہیں کرنی چاہیئے ۔اس کی مخالفت گناہ تو نہیں لیکن بعض کیفیات کا اس سے زوال ہوسکتا ہے جس سے بعض اعمال بھی متاثر ہوسکتے ہیں الا کہ صاحب الہام قوی الارداہ ہو اور شوق و ذوق کے بغیر بھی اعمال میں کوئی کمی نہ ہو۔بعض دفعہ الہام کی مخالفت سے کوئی اور دنیاوی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔جیسے ایک صاحب کو الہام ہوا کہ فلاں جگہ نہ جاو لیکن وہ چل پڑے تو وہ گرے اور پیر ٹوٹ گیا۔

(3)رویائے صالحہ

صحابہ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم مبشرات کیا ہیں ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے فرمایا صالح خواب اور یہی تفسیر ہے و لھم البشرٰی فی الحیوٰۃ الدنیا الخ کی یعنی ان کے لئے خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں ۔ سچا خواب ایک حالت محمود ہے ۔حدیث شریف سے یہ ثابت ہے ۔محمد بن سیرین (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ خواب کی تین قسمیں ہیں۔حدیث نفس یعنی اپنے خیالات ، تخویف الشیطان یعنی شیطان خواب میں ڈرانے کے لئے مکروہ خواب دکھاتا ہے اور بشارت من اللہ ۔یہ آخری مبشرات ہیں ۔ حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ تم میں کوئی برا خواب دیکھے تو بائیں طرف تین بار تھتکار اور تین بار اعوذ باللہ پڑھے اور جس کروٹ پر تھا اس کو بدل دے۔اس کو مسلم نے روایت کیا۔ خواب کی تعبیر ہر ایک سے نہیں پوچھنی چاہیئے کیونکہ خواب دو آدمیوں کے کشف پر مبنی ہی ایک خواب دیکھنے والے کی اور ایک تعبیر دینے والے کی پس جس کو خوابوں کی تعبیر کا علم نہیں دیا گیا وہ کیسے خواب کا تعبیر دے سکتا ہے۔ اس طرح بعض لوگوں کو خوابوں پر بہت نظر ہوتی ہے ۔اچھے خوابوں کی کمی ہوجاتی ہے تو پریشان ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دوری کی علاُمت سمجھتے ہیں ۔ایسے لوگ غلطی پر ہیں ۔ان کو اپنی اصلاح کرنی چاہیئے ۔ان کو سمجھنا چاہیئے کہ یہ مقصود نہیں اگر اچھا خواب آئے تو وہ محمود ہوسکتا ہے لیکن مقصود تو نہیں۔ہمیں فکر مقصود کی کرنی چاہیئے ۔طریق میں جو چیز اختیاری نہیں اس کے درپے نہیں ہونا چاہیئے۔اس کے لئے لوگوں کو بیداری کے باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے ۔فرماتے ہیں

نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

من ہمہ ز آفتابم و ز آفتاب گویم

یعنی میں نہ تو رات ہو نہ رات کا پرستار ہوں میں تو سورج کا غلام ہوں اور سورج ک باتیں کرتا ہوں۔یہ بھی جاننا چاہیئے کہ خواب خود تو مؤثر نہیں البتہ کسی نیک اور بد عمل کا اثر ہوسکتا ہے اس لئے اعمال پر زیادہ توجہ دینا چاہیئے خوابوں پر نہیں۔بعض لوگوں کے لئے خواب البتہ تربیت کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔اس لئے اگر کسی کا شیخ اس سے کام لے لے تو ٹھیک ۔خود سے اس کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھنا چاہیئے۔

(4)فراست صادقہ

رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ ’’ مؤمن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور الٰہی سے دیکھتا ہے ۔‘‘ فراست صا��قہ سچی اٹکل کو کہتے ہی�� اور احوال رفیعہ میں سے ہے ۔یہ ایک قسم کا کشف ہے جو ذکر اللہ پر مواظبت ،اکل حلا ل اور تقوےٰ سے حاصل ہوتا ہے ۔اس سے واقعات کے حقائق اور اشخاص کے حالات منکشف ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو ایک شخص کی زنا کی حالت ان کی آنکھوں سے معلوم ہوئی ۔حضرات صحابہ (رضی اللہ عنہ) نے جہاں جہاں مسجدیں بنائی ہیں ان کا قبلہ بالکل درست نکلتا ہے حالانکہ نہ ان کے پاس قطب نما تھا نہ نقشہ وغیرہ ۔مشائخ کو بعض دفعہ اس فراست صادقہ کی برکت سے گفتگواور خط وغیرہ سے مریدوں کا اندرونی حال معلوم ہوجاتا ہے ۔

>(5)فنا و بقا ء

فناء کا لغوی مطلب تو ختم ہونا ہے لیکن یہاں فناء کا مطلب رذائل کا ختم ہوجانا ہے ۔اس کے مقابلے میں فضائل یعنی اخلاق حمیدہ کا حاصل ہوجانا ابقاء کہلاتا ہے ۔اس طرح جب سالک کا غیر اللہ کی طرف بالکل التفات نہ رہے اور وہ اس کی نظر میں کالعدم ہوجاتا ہے اس کو بھی فناء کہتے ہیں۔یہ غایت استحضار اور محبت کی وجہ سے دوسری چیزوں کے ساتھ بھی ممکن ہے لیکن یہاں یہ نعمت استضار حق اور حق کی محبت کی وجہ سے ملتی ہے۔اس وقت بعض سالکین پر استغراق کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کا ذکر بعد میں آرہا ہے ۔بعض پر سکر طاری ہوجاتی ہے اور بعض بالکل مجذوب ہوجاتے ہیں۔ان میں سے بعض کو اشیاء کے علم کی طرف لوٹایا جاتا ہے لیکن اس وقت ان کا لوٹنا مخلوق کے لئے نہیں خالق کے لئے ہوتا ہے ۔اس کیفیت کو ابقاء کہتے ہیں ۔بعض اس کیفیت کو فناء الفناء بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کو اس کو اپنی فنا کا علم نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت مخلوق کے درمیان رہتے ہوئے مخلوق کے نہیں ہوتے اس لئے یہ فانی تو ہوتے ہیں لیکن مخلوق کے ساتھ ملے جلے ہوتے ہیں اس لئے ان کو اس فناء کا ادراک نہیں ہوتا۔بعض نے فناء کی کیفیت قرب نوافل سے اور ابقاء کی کیفیت کو قرب فرائض سے تعبیر کیا ہے ۔

(6)وجد

بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ’’ میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ دوسرے کی زبان سے قُرآن مجید سنوں سو میں نے پڑھ کر سنایا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ کے آنسو بہنے لگے۔‘‘ حضرت اسمائ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے سلف (صحابہ و تابعین ) میں سے تلاوت قُرآن کے وقت نہ کسی پر بے ہوشی طاری ہوتی تھی نہ کوئی چیختا تھا ۔صرف رویا کرتے تھے اور ان کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے ۔پھر خدا کی یاد کی طرف ان کے پوست اور قلوب نرم ہوجاتے تھے۔ جسم کا کسی کیفیت سے ایسا متاثر ہونا کہ اس کا اثر ظاہر ہو وجد کہلاتا ہے ۔حدیث شریف میں تذرفان سے اس کی اصل ثابت ہے ۔اور قُرآن مجید میں بھی اس کا تذکرہ ہے البتہ خواص کو اس درجہ کا وجد نہیں ہوتا جتنا کہ عوام کو ہوتا ہے ۔وجہ اس کی قوت برداشت ہے ۔ ایک تنکا تھوڑے سے پانی کے ساتھ بھی بہ پڑتا ہے لیکن وہی پانی شہتیر کو نہیں بہا سکتی ۔اس کے برعکس آبشار شہتیروں کو بھی بہا جاتی ہے ۔اس لئے عوام تو معمولی وارد کا تحمل بھی نہیں کر پاتے اور چیخنا شروع کرلیتے ہیں ۔کاملین اتنے وارد کا تو تحمل کرلیتے ہیں لیکن وارد اگر بہت تیز ہو تو پھر کاملین کو بھی تغیر ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بے ہوش ہوئے تھے ۔کہتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی (رحمۃ اللہ علیہ) ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے تھے ایک شعر پر پوری مجلس کو وجد آگیا لیکن حضرت اسی طرح استقلال کے پہاڑ بن بیٹھے رہے ۔کسی نے پوچھا حضرت آپ پر اثر نہیں ہوا ۔حضرت نے اس سے فرمایا کہ میرے جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگاؤ تو اس نے جب ہاتھ لگایا تو وہاں سے خون نکلا۔حضرت نے فرمایا اندر تو تغیر ہوتا ہے لیکن اس کو باہر نہیں آنے دیتے ۔

اگر سالک خود میں تغیر پیدا کردے تو یہ تواجد کہلاتا ہے جیسے رونے کی کوشش کرنا لیکن یہ اگر بقصد ریا ہو تو گناہ ہے۔اس میں پہلے قصود(قصد کرنا ) ہوتا ہے ،پھر ورود(وارد کا طاری کرنا ) ،پھر شہود(مشاہدہ کرنا ) پھر وجود (بے خود ہونا ) اور پھر خمود (مستغرق ہوجانا ) ۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی نے دریا پر آنے کا قصد کیا پھر آپہنچا ،پھر اس کو دیکھا ،پھر اس میں کودا اور پھر ڈوب گیا۔

(7)وحدۃ الوجود

حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے آزردہ کرتا ہے کہ زمانے کو برا کہتا ہے حالانکہ زمانہ تو میں ہوں ۔آگے اس کی تفسیر ہے کہ میرے ہی قبضے میں سب کام ہیں جو کہ زمانہ میں واقع ہوتے ہیں۔ زمانہ اگر چہ بالکل مختلف چیز ہے لیکن چونکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کامل تصرف ہے اس لئے اس کی نسبت اپنی طرف کردی۔پس صوفیہ پر جب حق تعالیٰ کے وجود کی تجلی اتنی غالب ہو کہ ماسوا سے اس کو غافل کردے تو وہ بزبان حال یہ کہتا ہے کہ صرف وہی موجود ہے ۔اسی کیفیت کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں ۔یہ ایک حال ہے جس سے بعض لوگوں نے فلسفہ بنایا ۔نقصان اس سے ہوا ۔کہ لوگوں نے اس کی فلسفیانہ تشریحات شروع کیں حالانکہ یہ بالکل سادہ سی بات ہے کہ جب سورج موجود ہوتا ہے تو تارے ہر گز نظر نہیں آتے اس لئے اگر کوئی اپنا مشاہدہ یہ بتائے کہ صرف سورج موجود ہے تارے نہیں ہیں تو وہ اگر چہ حقیقت کے خلاف ہے لیکن کہنے والا بھی جھٹا نہیں ہے وہ تو اس وقت یہی کہے گا لیکن جو حقیقت سے واقف ہے وہ اس کی بات کی تاویل تو کرے گا لیکن اس کی بات سے تاروں کی وجود کا انکار نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور اس نے مخلوق کو پیدا کیا ۔قُرآن میں ان مخلوقات کا ذکر ہے ۔شریعت کا ایک مسقل نظام ہے جو انسانوں کے لئے ہے پس ان سارے حقائق سے کون انکار کرسکتا ہے ۔دوسری طرف اس کیفیت کا بھی انکار نہیں کہ سالک کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نظر ہی نہ آئے ۔اسی کا نام حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) نے وحدت الشہود رکھا ہے یعنی ایک کا مشہود ہونا جو کہ اس کیفیت کی زیادہ بہتر تشریح ہے ۔اس مسئلے کی اتنی تشریح پر عوام کو قناعت کرنی چاہیئے ،اس میں زیادہ حوض کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے ۔

جن احوال میں نقصان کا اندیشہ ہے

(1) استغراق

لوگوں نے حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ یہ لڑکی آپ (رضی اللہ عنہ)کی صاحبزادی جو آپ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ جارہی تھی ) آپ کی ہے ۔تو آپ اس کو بہت غور سے دیکھ کر فرماتے ہیں ۔کہ ہاں گھر والے کہتے تو تھے کہ یہ میری لڑکی ہے یعنی یہ بھی یاد نہیں رہا کہ یہ میری لڑکی ہے گھر والوں کے قول سے استدلال کیا۔کیفیت استغراقیہ اصل میں فناء کی ہی ایک حالت ہے ۔اس میں انسان کا علم بالاشیاء سے انقطاع ہوجاتا ہے یا وہ بہت کمزور ہوجاتا ہے ۔یہ کوئی کمال نہیں ۔اکثر یہ متوسطین کو ہوتا ہے ہاں اگر وارد بہت قوی ہو تو کاملین کو بھی ہوسکتا ہے ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ نماز کو طول دوں مگر نماز میں کسی بچہ کی آواز سن کر نماز میں تخفیف کردیتا ہوں کہ اس کی ماں پریسان نہ ہو ۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کو استغراق نہیں ہوتا تھا لیکن اگر اس استغراق سے اعمال شریعت میں کوئی کمی نہ آئے تو محمود ضرور ہے جیسا کہ حضرت عبد القدوس گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) نے خادم کا ذمہ یہ کام کیا تھا کہ نماز کے وقت اس کو مطلع کیا جایا کرے ۔آور وہ آپ کے کان میں حق حق کی آواز لگا کر آپ کو اس کیفیت سے باہر نکالتے ۔راستہ میں بھی حق حق کے نعرے سے مسجد کی طرف رہنمائی کرتے ۔

(2)تصرف و تاثیر المعروف بہ توجہ

حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) سے ایک لمبی حدیث میں روایت ہے کہ ’’ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے میری یہ حالت دیکھی جو مجھ پر غالب ہورہی تھی ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا میں پسینہ پسینہ ہوگیا اور خوف سے میری یہ حالت ہوگئی کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا تصرف تھا۔بعض لوگ فطرتاً صالح التصرف ہوتے ہیں گو صاحب نسبت نہ ہوں اس کا طریق صرف ہمت کو صرف کرنا ہے دوسرے کی بھی ہمت اگر قوی ہو تو اس کو روک سکتا ہے۔مشق کے ذریعے اس کو حاصل کیا جاسکتا ہے ۔توجہ متعارف اسی کو کہتے ہیں ۔اس سے بعض حضرات القاء نسبت کا کام لیتے ہیں ۔اس میں تمام طرف سے اپنے آپ کو یکسو کرکے مرید پر توجہ کی جاتی ہے

مسمیرزم وغیرہ بھی یہی چیز ہے لیکن اس کا استعمال غلط جگہ پر ہے۔ہمارے اکابر کو اس میں یہ اشکال ہے کہ گو اس کا استعمال صحیح ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اپنی توجہ ہٹانا چاہے تھوڑی دیر کے لئے کیوں نہ ہو عجیب ہے کیونکہ یہ توجہ ہٹانا بالارداہ ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ منفعل بعض اوقات اسی پر تکیہ کرلیتا ہے اور خود کام چھوڑ دیتا ہے حالانکہ یہ دیرپا نہیں ہوتا ۔اس کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے گاڑی گڑھے میں پھنس گئی تو لوگوں کو ساتھ ملا کر دھکے سے گاڑی نکلوائی ۔جب گاڑی نکلی تو اب تو اس کو خود چلنا چاہیئے ۔نہ کہ گاڑی کو بند کرکے دھکہ پر تکیہ کرکے بیٹھا رہے ۔تیسری بات یہ ہے کہ لوگ اس کو بزرگی سمجھتے ہیں اس لئے شہرت ہوجاتی ہے جس کے کئی مفاسد ہیں ۔چوتھے یہ کہ اس سے فاعل کے قلب کو نقصان بھی ہوسکتا ہے جو آخر عمر میں ظاہر ہوتا ہے ۔

توجہ کا احسن طریقہ یہ ہے کہ مرید کے لئے دل س دعا کی جائے کہ اس کو نسبت القاء ہوجائے ۔یہ قلبی دعا توجہ کی طرح ہوتی ہے لیکن اس میں توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے ۔ذکر بالجہر بیک آواز میں بھی توجہ کی تاثیر ہوتی ہے ۔اس لئے جو لوگ انفرادی طور پر ذکر میں نہیں چلتے اجتماعی ذکر میں چل پڑتے ہیں۔

(3)سکر

رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے ارشاد فرمایا کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم اگر آپ مجھے اس وقت دیکھتے تو تعجب فرماتے کہ میں دریا کے کیچڑ کو فرعون کے منہ میں ٹھونسٹتا تھا اس اندیشہ سے کہ اس کو رحمت الٰہیہ نہ پالیوے۔ حضرت جبریئل علیہ السلام کا یہ عمل غلبہء سکر سے تھا اور اس کی وجہ بعض فی اللہ تھا۔وارد غیبی کے ظاہری اور باطنی احکامات میں اُمتیاز کا اٹھ جانا سکر کہلاتا ہے اور اس اُمتیاز کا موجود ہونا صحو کہلاتا ہے۔اس کا غلبہ گو کہ اکثر ناقصین پر ہوتا ہے لیکن گاہے کاملین پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا عبد اللہ بن ابی کے جنازہ کے بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ سے یہ کہنا کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کو تو اس کا جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ۔بعد میں حالت صحو میں آنے پر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو اپنی جرٲت پر تعجب ہوا۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا غزوہ بدر کے موقع پر یوں دعا فرمانا کہ اگر یہ مختصر جماعت ہلاک ہوگئی جو اس وقت میرے ساتھ ہے تو پھر آج کے بعد کوئی آپ کا نام نہیں لے گا۔

حالت صحو میں ضبط واجب ہے اور ایسی حالت میں اخفاء کی کوشش کرنی چاہیئے کیونکہ اہل زمانہ فتنہ انگیز ہیں اور ایسے اُمور میں فتنہ بپا کردیتے ہیں۔خود فتنہ میں پڑنا یا دوسروں کو فتنہ میں ڈالنا درست نہیں اور غلبہء حال میں اگر کچھ ایسی باتیں ناکردنی سرزد ہوجائیں تو اشک ندامت سے اس کا تدارک کرنا چاہیئے کیونکہ کامل سکر کا یقین کرنا مشکل ہے اور استغفار ہر حالت میں مفید ہے۔یہ اس لئے کہ مخلوق گمراہی سے بچ جائے جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی (رحمۃ اللہ علیہ) کی زبان سے حالت سکر میں جب یہ کلمہ سبحانی ما اعظم شانی نکلا اور صحو میں آنے کے بعد آپ کو جب بتایا گیا تو آپ نے فوراً فرمایا اوہ اس طرح کہنے سے تو میں مجوسی ہوگیا ۔میں زنار کو توڑتا ہو اور کلمہ شہادت پڑھتا ہوں۔حالت صحو میں اگر کسی نے اہل سکر کے حالت سکر کی کلمات کی نقل کی تو اگر وہ کلمہ گناہ کا ہے تو اس کو گناہ ہوگا اور اگر کلمہ کفر ہے تو اس سے کافر ہوجائے گا۔اس لئے اس سے بہت احتیاط چاہیئے۔

(4)قبض و بسط

حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ) س ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم(ابتدائے نبوت میں جب وحی میں توقف ہوا ) تو اس قدر مغموم ہوئے کہ غم کے سبب کئی بار اس ارادہ سے تشریف لے گئے کہ پہاڑ کی بلندی سے گر کر جان دے دیں سو جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر انے گرانے کی نیت سے چڑھتے تو جبرائیل علیہ السلام آپ کو نظر آتے اور فرماتے ۔اے محمد مغموم نہ ہو ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو سچ مچ اس سے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کے قلب کو سکون ہوجاتا اور جی ٹھہر جاتا۔ واردات کا انقطاع جو کسی مصلحت سے ہو قبض کہلاتا ہے ۔حدیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔محبوب کی تجلی جلالی یعنی آثار عظمت اور استغناء کے فی الحال وارد ہونے سے سالک کا قلب گرفتہ ہوجاتا ہے ۔اس کو قبض کہتے ہیں۔حضرت عبد اللہ بن کعب کے واقعہ تخلف عن التبوک میں ضیق ارض اور ضیق الفس سے تعبیر کیا گیا۔قبض کے مقابلے میں حالت بسط ہے جس میں آثار لطف و فضل سے دل مسرور ہوتا ہے۔

کبھی کبھی سوء اعمال سے بھی اعمال کی لذت ختم ہوجاتی ہے ۔کبھی کبھی فتور و ملال و کسل جس کو آج کل کے دور میں ڈپریشن کہتے ہیں یہ حالت پیش آتی ہے۔اس لئے جب اس قسم کی حالت ہو تو سب کا حق اسا کیا جائے ۔یعنی توبہ اور استغفار کیا جائے ۔مفرحات کا استعمال کیا جائے اور اس حالت پر صبر کی نیت کیا جائے ۔اپنے شیخ سے رابطہ رکھا جائے وہ جیسے تجویز فرمائیں اس پر عمل کیا جائے ۔اس دوران یا باسط کا ورد کثرت سے کرنا چاہیئے ۔ قببض میں منافع بسط سے زیادہ ہیں ۔اس سے کبر اور عجب کی جڑ کٹ جاتی ہے۔تواضع اور عاجزی نصیب ہوتی ہے۔گناہوں سے توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔عبدیت کا کامل مشاہدہ ہوجاتا ہے۔اس وقت جو اعمال کئے جاتے ہیں اس میں نفس کا ذرہ بھر حصہ نہیں ہوتا اس لئے اس کی قبولیت کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ حضرت مولانا یعقوب (رحمۃ اللہ علیہ) سے ایک واقعہ مروی ہے کہ ایک شیخ پر قبض کی حالت طاری ہوگئی اور وہ سمجھنے لگا کہ میں شیطان ہوں ۔ایک اور شیخ کے پاس گئے ان سے جب یہ کہا تو انہوں نے کہا کہ اگر شیطان ہوگئے ہو تو "لاحول و لا قوۃ الا باللہ " اس سے وہ اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ اپنے ایک مرید سے کہا کہ اب ایک شیخ نے بھی اس کی تصدیق کی اس لئے میں خود کشی کرتا ہوں اور کرلی۔حضرت مولانا یعقوب صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) فرمانے لگے جس شیخ کے پاس وہ گئے تھے میںسمجھتا تھا کہ وہ شیخ کامل ہے لیکن اس سے تو پتہ چلا کہ کامل نہیں ناقص ہے۔اگر میرے پاس آتا تو میں اس سے کہتا کہ کوئی بات نہیں شیطان بھی خدا کا بندہ ہے ۔اس سے اس کا قبض مائل بہ بسط ہوجاتا۔اس لئے شیخ کامل کی رہنمائی اس موقعے پر لازمی ہے۔

(5)مشاہدہ

حضرت حنظلہ (رضی اللہ عنہ) سے ایک لمبی حدیث میں روایت ہے ۔’’ میں نے کہا کہ ہم لوگ االلہ تعالیٰ کے رسول صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کی خدمت میں جو ہوتے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ ہمیں دوزخ و بہشت یاد دلاتے ہیں تو اس وقت ایسے ہوتے ہیں گویا کھلی آنکوں سے ان کو دیکھ رہے ہیں۔

مشاہدہ (حق ) کی دو قسمیں ہیں ۔ایک مشاہدہ تام جو کہ جنت میں ہوگا انشاء اللہ ۔ دوسرا مشاہدہ ناقص یعنی استحضار تام یہ دنیا میں ہوسکتا ہے ۔ اس سے مراد یہ غلبہء استحضار ہے ۔اس کا لغوی مطلب نہیں۔اگر چہ مشاہدہ تام کے سامنے یہ استحضار تام استتار کے ضمرے میں آتا ہے لیکن اثر کے لحاظ سے یہ کافی ہے کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے ۔اس میں اگر استحضار کامل بھی حاصل ہوجائے تو بہت بڑی بات ہے ۔کیفیت احسان بھی تو اسی استحضار ہی کا نام ہے جس کا حدیث شریف میں حکم ہے۔دنیا میں چونکہ انسان میں تحمل نہیں اس لئے اگر تجلی دائمی ہوتی تو استغراق کی حالت ہوتی ۔اس لئے تجلی کو استتار میں تبدیل کرلیتے ہیں تاکہ تحمل کرسکے ۔اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک محبوب نے عاشق کو دیکھا کہ یہ بڑے غور سے مجھے دیکھ رہا ہے کہیں یہ شوق سے مر نہ جائے تو ایک صورت تو یہ تھی کہ اس کو مشاہدے سے روکتے تو یہ صورت تو عاشق پر بہت سخت ہوتی اس لئے یہ تو نہیں کیا لیکن اس کو کسی کام سے بازار بھیج دیا پس عاشق خوش ہے کہ میں محبوب کے کام میں مشغول ہوں لیکن استتار کا مقصد بھی حل ہوگیا۔پس یہاں بھی عاشق کو دوسرے کاموں کی طرف متوجہ کردیا ۔اس سے ایک گونہ استتار بھی ہوگیا تاکہ اس کا شوق معتدل رہے ۔

(6)کرامت

"قال یا مریم انّٰی لک ِ ھٰذا قالت ھو من عند اﷲ"

حضرت زکریا علیہ السلام یوں فرماتے کہ اے مریم یہ چیزیں تمھارے پاس کہاں سے آئیں وہ کہتیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے آئیں۔حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے ایک طویل حدیث شریف میں روایت ہے کہ حارث کی ایک دختر سے منقول ہے کہ میں نے حضرت خبیب (رضی اللہ عنہ) کو انگور کا خوشہ کھاتے دیکھا ۔اور اس وقت مکہ میں میوہ یا پھل کا کہین نام و نشان نہیں تھا ۔اور خود وہ لوہے میں مقید تھے ۔اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا۔ کرامت اس امر کو کہتے ہیں جو عادتاً محال ہو اور نبی کے کسی متبع کامل کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ پس اگر وہ خرق عادت کام نہ ہو یا خرق عادت تو ہو لیکن نبی کے متبع کامل کے ہاتھ پر نہ ہو تو وہ استدراج ہے۔اسدراج ڈھیل دینے کو کہتے ہیں۔ جوگیوں وغیر ہ کے کام اس ضمرے میں آتے ہیں۔ کرامت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اس لئے اس کا کوئی حد نہیں ۔معجزہ اور کرامت میں صرف یہی فرق ہے کہ معجزہ اللہ تعالیٰ کے نبی کے ہاتھ پر ہوتا ہے اور کرامت ولی کے ہاتھ پر۔ کرامت کی دو قسمیں ہیں ایک حسّی یعنی غجیب کاموں کا واقع ہوجانا اور دوسرے معنوی ۔معنوی کرامت حسّی کرامت سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے ۔

موانع

یوں تو جتنے بھی معاصی اور تعلقات ماسویٰ اللہ ہیں سب اس راہ سلوک کے رہزن ہیں۔مگر چند ضروری چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے جن سے سالک کو بے حد پرہیز کرنا چاہئے ۔ورنہ ساری محنت بے کار و رائیگاں چلی جائے گی ۔یہ موانع مندرجہ ذیل ہیں ۔

(1) تصنع (2)تعجیل (3) حسن پرستی (4) مخالفت سنت (5) مخالفت شیخ

(1)تصنع

"عن اسمآء قالت قال رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم المتشبع بما لم یعط کلا بس ثوبی زور اخرجہ الخمس"

حضرت اسمآء (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایسی چیز کا اظہار کرے جو اس کو نہیں ملی اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی نے دونوں کپڑے جھوٹ کے پہنے ہوں ۔چونکہ مالم یعط عام ہے ظاہری اور باطنی نعمتوں پر اس لئے جو شخص اپنا کوئی ایسا حال ظاہر کرنا چاہے جو اس کو حاصل نہیں تو وہ بھی اس میں آئے گا ۔تصنع باب تفعل سے ہے جس میں تکلف پایا جاتا ہے پس ایسا طریقہ جس میں بتکلف کسی عادت یا خوبی کو اپنے میں ظاہر کیا جائے ۔پس جو خود کو بتکلف بزرگوں کی طرح اپنے آپ کو ظاہر کرے گا وہ بھی اس وعید میں داخل ہوگا۔

تصوف تو محبت کا راستہ ہے ۔اس میں دعویٰ اور تصنع کا کہاں دخل ۔دوسری بات یہ ہے کہ تصنع مخلوق کی خوشنودی یا دنیاوی مفاد کے لئے کیا جاتا ہے جو کہ تصوف کے بنیادی مقاصد کی خلاف ورزی ہے اس لئے ایسے لوگ بہت دور پڑ جاتے ہیں ۔اس میں جھوٹے خواب ،جھوٹے حال اور تمام ریائی افعال داخل ہیں ۔اللہ تعالیٰ مجھ سمیت سب کو اس سے محفوظ فرمائے ۔ بعض لوگ اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ جیسے بزرگ کہتے تھے کہ ہم میں اصل کہاں ہم تو نقل کرتے ہیں تاکہ مقربین کی نقل سے ہمارا بھی بھلا ہوجائے اور ہم قبول ہوجائیں ۔وہ اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے اچھا عمل کرنے کی انتہائی کوشش کے بعد یہ بات محض دعویٰ کی رد میں ایک حال میں کہی ہوتی ہے کیونکہ ان کو اپنے اعمال اچھے نظر ہی نہیں آتے چاہے وہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں پس وہ اپنے اعمال کو کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کو محض نقل قرار دیتے ہیں جو کہ ان کی غایت تواضع کی وجہ سے ہے جب کہ یہاں پر عمل سرے سے موجود ہی نہیں صرف دکھاوا ہے ۔کتنا فرق ہے ان میں اور ان میں ۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سالک بعض دفع بڑوں کی کتابیں پڑ کر ان کے احوال پڑھ کر ان سے متاثر ہوجاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو بھی یہ احوال حاصل ہوجائیں پس ان احوال کو مقصود خیال کرکے ان کی نقل شروع کرتے ہیں ۔ان میں وہ اقوال و معارف جو ان حضرات کے احوال کے ثمرہ کے طور پر ان کے مبارک زبانوں پر جاری ہوئے وہ یہ عوام سے بیان کرنے لگتے ہیں ۔عوام کو چونکہ اصل اور نقل کی پہچان نہیں ہوتی اس لئے وہ بھی ان کو اصل سمجھ کر ان کے معتقد ہوجاتے ہیں ۔جس سے ان کو بھی اپنے پر بزرگ ہونے کا خیال آنے لگتا ہے اور اس کو پھر نبھانے کے لئے بزرگوں کے احوال کا نقل اتارتا رہتا ہے جس سے وہ اس تصنع کی دلدل میں پھنستا رہتا ہے ۔اللہ بچائے شیطان کی اس جال سے ۔کاش وہ یہ بات سمجھ جاتا کہ احوال مقصود نہیں مقامات مقصود ہیں اور سب سے

اصل مقصود تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو یہ غلطی نہ کرتا ۔اس لئے مطالعہ بھی شیخ کے مشورہ سے کرنا مناسب ہے ۔ بعض لوگوں کو اس سے بھی دھوکہ ہوجاتا ہے کہ یہ فرمایا گیا ہے کہ دعا میں اگر رونا نہ آئے تو رونے کی شکل ہی بنادے چونکہ یہ بھی تصنع ہے اور اس کا حکم ہے اس لئے تصنع ناجائز نہیں ۔یہاں بھی ان لوگوں کو یہ دھوکہ ہوا ہے کہ اس میں رونے کی شکل بنانے سے مراد صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے بتکلف عاجزی کا اظہار ہے ۔تو اللہ تعالیٰ کے سامنے تو عاجزی مطلوب ہے ہی اس لئے یہ بتکلف رونے کا شکل بنانا ایک ذریعہ ہوا اللہ تعالیٰ کے رحم کو متوجہ کرنے کا اس لئے یہ مستحسن ہے لیکن اگر یہی بتکلف رونا اس لئے ہو کہ لوگ میرا رونا دیکھ کر معتقد ہوجائیں تو پھر یہ گریہ ریائی بن جائے گا جیسے شیعہ لوگ کرتے ہیں ۔اس وقت یہ مذموم ہوگا۔اچھی طرح سمجھ لیا جائے ۔ اس سے البتہ مشائخ کی ان باتوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے جو صحیح مشائخ اپنے مریدوں کی اصلاح کے لئے کرتے ہیں ۔یعنی وہ اپنے مشیخت کا خیال رکھ کر بعض دفع بتکلف بعض اُمور انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کو ہر طرح کے لوگوں کی مزاج کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔اس سے مقصود اپنی بزرگی کا اظہار نہیں بلکہ عوام کو بدگمانی سے بچانا ہوتا ہے تاکہ ان کو روحانی نقصان نہ ہو۔یہ مدارات کے قبیل سے ہے اور مشائخ کے فرائض منصبی میں سے ہوتا ہے لیکن بعض مشائخ ان سے بھی مبرا ہوتے ہیں۔ان کا حال یہ ہوتا ہے ۔ سوختن افروختن و جامہ دریدن پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموخت

(2) تعجیل

"قال رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم یستجاب لاحدکم مالم یعجل ( ترمذی)"

رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِنے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک جلدی نہ کرے ۔پس ایک مانع مجاہدات کے ثمرات میں عجلت اور تقاضا کرنا ہے کہ اتنے دن مجاھدہ کرتے ہو گئے اب تک کچھ نتیجہ نہیں ہوا پھر اس انجام کا یہ ہوتا ہے کہ یا تو شیخ سے بد اعتقاد ہو جاتا ہے یا مجاہدہ کو ترک کر دیتا ہے طالب کو سمجھنا چاہئے کہ کوئی چیزبھی ایسی نہیں جو دفعتاً حاصل ہو جاتی ہو ،دیکھو یہی شخص خود کسی وقت بچہ تھا کتنے دنوں میں جوان ہوا ۔پہلے جاہل تھا کتنے دنوں میں عالم ہوا ۔ غرض عجلت و تقاضہ اپنے شیخ پر فرمائش ہے ۔جو بہت مضر ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ایسا شخص اپنے رہبر پر قناعت نہیں رکھتا ۔ہر کس و نا کس سے چارہ جوئی کرتا ہے اور پھر ہر جائی ہونے کی وجہ سے اس کے اوپر سے شیخ کی عنایت و لطف بھی جاتا رہتا ہے اور پھر مزید بر آں یہ کہ جس چیز کو جلدی چاہتا ہے اس کا حصول اختیار سے خارج ہوتا ہے اس سے اور بھی پریشانی بڑھتی ہے غرض ظاہراً و باطناً ہر طرح سے برائی ہی برائی ہاتھ آتی ہے ۔

ہمہ کامی زخود کامی بہ بدنامی کشید آخر

نہاں کے ماند آں رازے کزد سازند محفلہا

خود کامی سے مراد استعجال وصل ہے یعنی محبوب کے وصال میں جلدی مچانے کا انجام یہ ہوا کہ ہرجگہ رسوائی ہوئی کیونکہ مجھے اپنی محبت کا اظہار دوسروں سے کرنا پڑا جس سے سب پر میری محبت کا راز فاش ہوا ۔راز اس کا یہ ہے کہ جب دوسروں سے اپنا حال کہے گا تو یہ ہرجائی بنے گا اور کوئی بھی اس کو خصوصیت کے ساتھ توجہ نہیں دے گا اس لئے محروم ہوجائے گا۔ طریق میں سب سے مشکل اس چیز سے اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کیونکہ اپنا مطلب ہر ایک کو عزیز ہوتا ہے لیکن دو باتیں سالک کی ذہن میں نہیں رہتیں جس سے وہ تعجیل میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ایک تو یہ کہ ہر کام اپنے وقت پر ہوتا ہے اس لئے وقت سے پہلے اس کا حصول انسان کو محروم کردیتا ہے ۔ایک طالبعلم ہے وہ میڈیکل کالج میں پڑھتا ہے وہ ایک مطلوبہ کورس پورا کرے گا ۔اس کے امتحانات دے گا جب کامیاب ہوگا تو ترقی کرتے کرتے ایک دن ڈاکٹر بن جائے گا ۔اب ایک طالبعلم ڈاکٹروں کو دیکھ دیکھ کر چاہتا ہے کہ وہ بھی جلدی سے ڈاکٹر بن جائے اور اس کی تدبیریں کرنے لگے تو وہ کبھی بھی ڈاکٹر نہیں بن سکے گا کیونکہ وہ پڑھائی پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرسکے گا ۔دوسری بات یہ ہے کہ طریق میں طریقہ بتانا تو شیخ کے زمہ ہے لیکن وصول شیخ کے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ۔یہ ہر سالک کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے معاملے پر موقوف ہے پس اگر شیخ کے تعلیمات صحیح ہیں اور کسی سالک کو وصول نہیں ہورہا تو گڑبڑ تو سالک میں ہوا ۔یہ جس شیخ کے پاس بھی جائے گا تو اپنے ساتھ یہ گڑ بڑ لے جائے گا تو وہاں بھی اس کو ناکامی ہوگی ۔دل میں یہ ہر شیخ سے بدگمان ہوتا جائے گا اور اصل برائی اس کے نفس میں ہوگی ۔پس اگر یہ اپنا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست کرلے اور ایک شیخ کامل پر اعتماد رکھے تو کامیابی چند قدم پر ہے ۔

اس کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر

تجھ سے کیا بیر تھی گر تو کسی قابل ہوتا

(3) حسن پرستی

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے ۔اس کے لئے بعض چیزوں کی محبت دل میں ڈال دی اور اس سے رکنے کا حکم دیا یہ جانچنے کے لئے کہ کون حکم پر عمل کرتا ہے اور کون نہیں۔ان میں سے ایک حسن بھی ہے ۔ہر شخص کو ہر حسین چیز اچھی لگتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں ہیں۔ان حسینوں میں بعض کو دیکھنا جائز ،بعض کو دیکھنا ناجائز ہے ۔پس جن کو دیکھنا ناجائز ہے ان کی طرف دیکھنا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے جس کی وجہ سے سالک اپنے منزل سے بہت دور جاسکتا ہے اس لئے یہ بھی بڑے موانع میں سے ہے۔ان میں عورتوں کی محبت اور امارد یعنی لڑکوں کی محبت آتی ہے ۔امارد کے ساتھ اختلاط زیادہ ہوتا ہے اور یہ چونکہ غیر فطری بھی ہے اس لئے ان کی محبت زیادہ بری ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچائے۔ جواہر غیبی میں لکھا ہے کہ ایک شخص طواف کرتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ "اَللّٰہُمَ اِنّی اَعُوْذُبِکَ مِنْکَ " یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔کسی نے اس کا حال دریافت کیا تو کہنے لگا کہ ایک بار کسی حسین امرد کو نظر شہوت سے دیکھا اسی وقت غیب سے ایک طمانچہ لگا جس سے آنکھ جاتی رہی ۔

یوسف بن حسین فرماتے ہیں کہ "رَائ یْتُ اٰفَاتِ الصُّوْفِیُۃ فِیْ صُحْبَۃِ الاَحْدَاثِ وَمُغَاشِرَۃِ الاَضْدَادِ وَرِقَقِ النِّسْوَانِ" ۔یعنی دیکھا میں نے آفات صوفیہ کو امردوں کے میل جول کرنے کو اور نا جنسوں سے ملنے کو اور عورتوں سے نرمی برتنے میں ۔شہوت باالنسائ سے زیادہ اشد امردوں (یعنی بے ریش )لڑکوں کی شہوت ہے ۔آج کل امردوں کے ساتھ ابتلائ عام ہو رہا ہے ۔یہ فعل حرمت میں سب سے بڑھا ہوا ہے اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑا ڈر مجھ کو اپنی اُمت پر قوم لوط کے فعل کا ہے ۔(ابن ماجہ) دوسری حدیث میں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سات قسم کے گنہگاروں پر ساتوں آسمانوں کے فرشتے لعنت کرتے ہیں یہ لعنت بھی اس کثرت سے ہوتی ہے کہ ملعون کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہے ۔(ان میں سے اول )اعلام کرنے والا ملعون ہے آپ نے یہ تین بار فرمایا ۔(الحدیث طبرانی ) نیز ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مرد کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے جو کسی مرد سے لواطت کرے ۔(الحدیث ) عورتوں کے ساتھ نرمی اور مہربانی بھی بعض اوقات بہت مہنگی پڑتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے مواقع کا شیطان طاق میں ہوتا ہے کہ کس طرح مرد اور عورت کی آپ میں فطری میلان کو استعمال کرکے ان کو یا ان میں کسی کو گناہ میں مبتلا کرے ۔ایسے مواقع پر دل پر پتھر رکھنا ہی سب سے بڑی عقلمندی ہے ۔مظفر قرمینی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ نرمی اور مہربانی کرنے میں سب سے برا عورتوں سے نرمی اور مہربانی کرنا ہے۔کسی نے شیخ نصیر آبادی (رحمۃ اللہ علیہ) سے کہا کہ لوگ عورتوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو دیکھنے میں ہماری نیت پاک ہے ۔انہوں نے فرمایا ۔’’ جب تک جسم انسانی باقی ہے امر و نہی بھی باقی ہے اور تحلیل اور تحریم کے ساتھ مخاطب ہے۔

بعض لوگ ایسے ہیں جو شہوت سے پاک و صاف ہیں ۔مگر ان میں بھی اکثر نظر کے مرض میں مبتلا ہیں ۔حالانکہ زنا آنکھوں سے بھی ہوتا ہے ۔اس میں بھی بہت کم لوگ احتیاط کرتے ہیں حالانکہ نظر فعل کا مقدمہ ہے اور فقہ کا قاعدہ ہے کہ حرام فعل کا مقدمہ بھی حرام ہوتا ہے خوب اچھی طرح سمجھ لیں ۔ میلان کے دو درجے ہیں ۔ایک تو مرد اور عورت کا ایک دوسرے کی طرف فطری میلان جو کہ طبعی ہے اور اس میں بڑی حکمتیں ہیں ۔اسی پر تناسل کا سلسلہ قائم ہے اس لئے اس کو کوئی ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی امید رکھنی چاہیئے الاّ کہ غلبہء حال ہو جس کا انسان مکلف نہیں ۔دوسرا درجہ میلان کا اختیاری ہے کہ اپنے اختیار سے نامحرم کو دیکھنا یا نظر کو برقرار رکھنا وغیرہ ۔ یہ چونکہ اختیاری ہے اس لئے اس سے رکنا بھی اختیاری ہے چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو البتہ مجاہدہ سے آہستہ آہستہ آسان ہوجاتا ہے ۔اس کا انسان مکلف ہے اور اس پر اجر عظیم بھی ہے ۔ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ڈر سے نامحرم سے نظر ہٹایا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں ہی ایسے کسی عبادت کی توفیق دے دیں گے جس سے وہ اپنے ایمان کا حلاوت دنیا میں محسوس کردیں گے۔ اصل بات یہ کہ دنیا کی شہوت مذموم نہیں کیونکہ اسی سے تو تقویٰ کا حمام روشن ہے لیکن اس کے تقاضا پر بالقصد عمل پیرا ہونا یا اس کا عزم کرنا مذموم ہے ۔ سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں رہبانیت نہیں ۔ہماری رہبانیت یہ ہے کہ شباب ہو ۔موقع ہو ۔دعوت ہو اور ہم کہیں کہ ہمیں اللہ کا ڈر مانع ہے۔

بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ایک بار اچھی طرح دیکھنے سے غبار نکل جائے گا پھر طلب نہیں رہے گی حالانکہ اس کے طرف جتنی توجہ کی جائے گی شہوت کی آگ مزید بڑکے گی حتیٰ کہ آخری مرحلہ پر ممکن ہے تھوڑی دیر کے لئے معاملہ سرد پڑجائے لیکن پھر اس کی عادت ہوجاتی ہے اور طلب مزید بڑھ جاتی ہے۔اور اس میں شہوت بالنسائ سے شہوت بالامارد زیادہ اشد ہے۔ اول تو کوشش کرنی چاہیئے کہ کسی ایسی جگہ جایا ہی نہ جائے جہاں پر اس قسم کا فتنہ ہو ۔اگر بد نظری خدا نخواستہ ہوجائے تو وہیں سے پھر اس کا گلہ گھونٹا جائے یعنی اس سے توبہ کرنا چاہیئے اور ذہن کو کسی اور چیز میں مشغول کیا جائے ۔ "اللھم انی اعوذ بک من الفتنۃ النسائ اور اللھم انی اعوذبک من الفتنۃ الامارد " اس وقت کی دعا ہے۔آج کل انٹرنیٹ وغیرہ پر یہ مصیبت عام ہے اس کو کھولتے ہوئے بھی یہ دعا پڑھنی چاہیئے اور ہمت کرکے اپنی نظر کی حفاظت کرنی چاہیئے ۔چاہے کتنا ہی خطرناک صورت حال بن جائے ہمت سے انسان چاہے تو بچ سکتا ہے یہ دعا پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیًے اور ہمت کرنی چاہیئے

یہی اصل علاج ہے۔یہ سوچنا چاہیئے کہ اگر اس عورت یا لڑکے کے وارثوں کو میری اس حرکت کا پتہ چلے تو وہ کیا کہیں گے اور یہ کہ اگر میرے بہن بیٹی بیوی بیٹے وغیرہ کو کوئی اس نیت سے گھورے تو میں کیا کہوں گا نیز اللہ تعالیٰ کو تو ہر چیز کا پتہ ہے اس کو تو میرے دل کے ارادے کا بھی پتہ ہے پس مجھے اپنے دل کی حفاطت کرنی چاہیئے جس کے لئے مجھے کان اور آنکھ پر پہرا بٹھانا چاہیئے ۔اگر خدا نخواستہ کسی پر دل آجائے تو اس کا اصل علاج تو یہ ہے کہ اپنے شیخ کو فوراً اطلاع کیا جائے تاکہ وہ اس کے لئے مناسب تدبیر کرے ۔اگر اس کے ساتھ شادی ممکن ہو تو اس کے ساتھ شادی کا بندوبست کرنا چاہیئے نہیں تو دل سے اس کا خیال نکال پھینکے ۔اس کی آسانی کے لئے اگر صحت اجازت دے تو لا الہ الا اللہ کا ذکر اس طرح کرے کہ لا الہ میں یہ تصور کرے کہ اس کی ّحبت دل سے نکال پھینک رہا ہو ں اور الااللہ میں یہ تصور کرے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں داخل کررہا ہوں ۔یہ روزانہ ایک ہزار بار کرے ۔عفت پر ثابت قدم رہے ملنے کی کوشش نہ کرے ۔اگر اس میں جان بھی چلی جائے تو اعلیٰ درجہ کی شہادت ہے ۔

(4) مخالفت سنت

تصوف کا ثمرہ وصول ہے اور وصول کا سب سے بڑا ذریعہ اتباع سنت ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ۔یعنی اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنا چاہتا ہو تو وہ اتباع سنت کرے تو اللہ تعالی اس کو محبوب بنالیں گے ۔پس اگر اتباع سنت وصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو مخالفت سنت سب سے بڑا مانع ہوگا ۔افسوس اس زمانے میں رسوم و بدعات کی بڑی کثرت ہے اور تصوف بھی انہیں رسوم و بدعات کا نام رہ گیا ہے ،جیسا کہ حدیث شریف میں ہے فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےُ "اَنْ یَّاتِیَ عَلیَ النَّاسِ زَمَا نٌ لاَّ یَبْقیٰ مِنَ الاِسلام الاَّ اسْمُہُ وَلاَ یَبْقیٰ مِنَ الْقُرْاٰنِ اِ لاَّ رَسْمُہُ (الحدیث رواہ بیہقی)" یعنی عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آوے گا کہ نہ باقی رہے گا اس میں اسلام سے مگر نام ہی نام اور نہ باقی رہے گا قُرآن سے مگر صرف خطوط نقوش ۔

حضرت جنید بغدادی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ مخلوق پر سب راستے بند ہیں سوائے اس کی جو رسول کریم (رحمۃ اللہ علیہ) پر قدم بہ قدم چلے ۔آپ سے کسی نے پوچھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب ہم واصل ہو گئے ہیں اس لئے ہمیں نماز روزہ کی اب حاجت نہیں ۔آپ نے فرمایا کہ واقعی واصل تو ہوگئے ہیں لیکن سقر کے ساتھ یعنی جہنمی ہوگئے۔حضرت ابو العباس دینوری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ’’ لوگوں نے ارکان تصوف کو توڑ دیا اور اس کے طریقوں کو تباہ کردیا اور اس کے معنوں کو بدل دیا ایسے ناموں سے جو خود گڑھے طمع کا نام زیادت رکھا ۔بے ادبی کا اخلاص ۔اور دین حق سے نکل جانے کو شطحیات اور بری چیزوں سے لذت لینے کو خوش طبعی اور خواہش کی پیروی کا امتحان اور دنیا کی طرف لوٹ آنے کو وصل اور بدخلقی کا رعب اور بخل کا جوانمردی اور سوال کا عمل اور بدزبانی اور بے ہودگی کا ملاُمت اور قوم کا یہ طریقہ نہیں تھا ‘‘

افسوس ہے کہ بعض لوگ صوفیوں کا لباس تو زیب تن کردیتے ہیں لیکن شاہی وردی کو اتار دیتے ہیں یعنی داڑھی نہیں رکھتے ۔ایسے لوگ جو اپنے آپ کو صوفی کہتے ہیں ان کو شرم آنی چاہیئے ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ نے زندگی میں ایک پارسی قاصد کو جو بغیر داڑھی کا تھا کو دیکھنا گوارا نہ فرمایا تو جواپنے آپ کو حضورصلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمکا اُمتی کہتا ہے اور طریقت کا جو کہ تکمیل شریعت کا نام ہے مدعی ہے کیسے یہ سمجھتا ہے کہ بغیر اس اتباع سنت کے طریقت میں ترقی کرسکتا ہے ۔کاش یہ بات سب کو سمجھ آجائے ۔جس کو جتنا جلدی سمجھ آجائے بہتر ہے۔اہل کشف کا کہنا ہے کہ اب بھی آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ ان کے سلام کا جواب نہیں دیتے جس نے داڑھی نہ رکھی ہو یا اس نے داڑھی چھوٹی کی ہو۔ایک مرید اگر ایسا کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی نقصان ہے لیکن جو بزعم خود شیخ ہو اور متبع سنت نہ ہو اس کو ہر گز شیخ نہیں سمجھنا چاہیئے۔یہ طریقت کے ڈاکو ہیں ۔حضرت بایزید بسطامی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم ایسا آدمی دیکھو جس کے ہاتھ پر کرامتیں ظاہر ہورہی ہیں یہاں تک کہ ہوا میں اڑتا ہے تو دھوکے میں نہ آنا جب تک یہ نہ دیکھو کہ وہ امر و نہی ،حفظ و حدود اور اتباع شریعت میں کیسا ہے ؟

تصوف اصل میں شریعت کے ظاہر پر عمل پیرا ہوکر اعمال قلب کو درست کرنے کا نام ہے ۔پس جہاں اصل مقصد فوت ہورہا ہو اور صرف رسومات باقی رہیں تو اس وقت اس کو چھوڑ کر حق کی تلاش لازمی ہے جیسا کہ حضرت شا ولی اللہ (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ہے کہ صوفیہ کی نسبت تو بڑی بھاری نعمت ہے لیکن ان کی رسومات کا کچھ بھی وزن نہیں۔

(5) مخالفت شیخ

تصوف میں اصلاح نفس کا سب سے بڑا ذریعہ اتباع شیخ کامل ہے ۔جیسا کہ اعمال ظاہر میں کسی امام کی تقلید سے نفس کے شر سے انسان بچ سکتا ہے اس طرح اعمال قلب میں نفس کی شر سے انسان اتباع شیخ سے ہی بچ سکتا ہے۔اللہ تعالی نے اس دنیا میں جس کو جس چیز کا ذریعہ بنایا ہے اس چیز کا حصول اس کے قدردانی پر رکھا گیا ہے مثلاً والدین ظاہری وجود کا ذریعہ ہیں اس لئے جو والدین کی قدر نہیں کرتے ان کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ۔استاد علم کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے تو جو استاد کی قدر نہیں کرتے ان کی علم میں برکت نہیں ہوتی ۔شیخ روحانی ترقی کا ذریعہ ہوتا ہے تو جو شیخ کا قدر نہیں کرتے ان کی روحانی ترقی رک جاتی ہے ۔

حضرت ابن منصور (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے شیخ کے دل کو مکدر کیا تھا کیونکہ حضرت جنید (رحمۃ اللہ علیہ) ان کو اظہار حال سے روکتے تھے اور اس کو اس پر قادر سمجھتے تھے لیکن ابن منصور (رحمۃ اللہ علیہ) اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھتے تھے اور اپنا حال ظاہر کردیتے تھے تو انہوں نے کبھی چین نہیں پایا یہاں تک کہ ان پر علماء کرام نے کفر کا فتویٰ لگایا اور انجام کار سولی پر چڑھ گئے ۔چونکہ ابن منصور (رحمۃ اللہ علیہ) معذور تھے اس لئے آخرت میں تو معتوب نہیں ہوں لیکن زندگی میں تو مزید ترقی سے رک گئے۔ بعض دفعہ شیخ کی مخالفت تو کوئی نہیں کرتا لیکن شیخ کی تعلیم کے علاوہ از خود مجاہدہ کرتا ہے اس سے اس سے چند روز میں گھبرا کر وہ تھوڑا تعلیم کیا ہو ا بھی چھوٹ جاتا ہے ،چنانچہ بہت سے لوگوں کو ایسا اتفاق ہوا ۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال میں اتنا اختیار کرو کہ اکتاؤ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا جب تک تم نہ اکتا جاؤ ۔ شیخ سے محبت و عقیدت میں فتور ڈالنا یا اس سے بھی بڑھ کر شیخ کا رنجیدہ کرنا اور اس کو ایذا پہنچانا انتہائی نقصان دہ امر ہے کہ اس سے مناسبت باقی نہیں رہتی ۔اور بدوں مناسبت کے طالب کو نفع نہیں ہو سکتا اور مناسبت شیخ کے یہ معنی ہیں کہ شیخ سے مرید کو اس قدر موانست و عقیدت ہو جائے کہ شیخ کے کسی قول و فعل و حال سے مرید کے دل میں طبعی نکیر نہ پیدا ہو گو یہ عقیدت عقلی ہی ہو یعنی شیخ کی سب باتیں مرید کو پسند ہوں اور یہی مناسبت بیعت کی شرط ہے لہٰذا اس کا بہت اہتمام چاہئے اس کی سخت ضرورت ہے جب تک یہ نہ ہو مجاہدات ، ریاضات ،مراقبات ،و مکاشفات سب بیکار ہیں ۔ کوئی نفع نہ ہوگا ۔اگر طبعی مناسبت نہ ہو تو عقلی پیدا کر لی جائے اس پر نفع موقوف ہے ۔اسی لئے جب تک پوری طرح مناسبت ہو بیعت نہ کرنا چاہئے ۔جب پوری طرح محبت و مناسبت ہو جائے اس وقت پیر سے بیعت زیادہ نافع ہے ۔

یہ بھی جاننا چاہیئے کہ مخالفت اور چیز ہے اور اختلاف اور چیز ہے ۔بعض دفعہ کسی فقہی جزیہ میں شیخ سے اگر اختلاف ہوجائے اور دل میں شیخ کا ادب ہو اور ظاہر میں بھی کسی بے ادبی کا مرتکب نہ ہو تو اگر شیخ کے ہاں اس قسم کے اختلاف کی وسعت موجود ہو تو اس سے نقصان نہیں ہوتا ۔یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ طبعاً بعض مشائخ ادب اور اخلاص کے ساتھ اختلاف سے ناراض نہیں ہوتے بلکہ خوش ہوتے ہیں ۔اس لئے اس وقت اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔حضرت مولانا عُزیر گل صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کو جب ایک دفعہ یہ خیال ہو ا کہ مخالفت شیخ سے بہت نقصان ہوتا ہے اور ان کی طبعی سادگی اور اخلاص کی وجہ سے بعض دفعہ شیخ کے ساتھ اختلاف کا موقع بھی آجاتا تھا ۔اس لئے حضرت شیخ الہند (رحمۃ اللہ علیہ) جو ان کے شیخ تھے کے ہاں جانا چھوڑ دیا ۔حضرت کو اطلاع ہوئی تو بلایا اور پوچھا کہ کیوں نہیں آتے ۔اس نے کہا کہ حضرت مخالفت شیخ سے عاقبت خراب ہوجاتی ہے اور میں اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا اس لئے نہیں آتا۔حضرت نے فرمایا کہ اگر شیخ ایسا ہی چاہتا ہو تو مولانا نے کہا کہ پھر تو میں کروں گا تو شیخ نے فرمایا کہ پھر آیا کرو ۔

حضرت مولانا رشید گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) کو حضرت حاجی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کے ساتھ بہت محبت تھی لیکن بعض مسائل میں ان کا مسلک وہ نہیں تھا جو حضرت (رحمۃ اللہ علیہ) کا تھا انہوں نے تو اپنا مسلک چھوڑا اور نہ حاجی صاحب کو اور حاجی صاحب کے دل میں بھی کبھی مولانا رشید احمد گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) کی وقعت کم نہ ہوئی بلکہ بڑھ گئی۔خود راقم کو اپنے شیخ مولانا اشرف صاحب (رح) کے ساتھ ایک مسئلے میں اختلاف تھا ۔حضرت نے راقم کو کبھی اپنے مسلک سے رجوع کرنے کا نہیں فرمایا بلکہ ایک دفعہ صراحت کے ساتھ اس عاجز نے حضرت سے پوچھ بھی لیا کہ اگر حضرت مناسب سمجھیں تو اپنے مسلک کو چھوڑ دے ۔حضرت نے اس کی اجازت نہیں دی ۔

ذرائع

ذرائع کی دو قسمیں ہیں ۔

(1) مجاہدہ (2) فاعلہ

مجاہدہ میں نفس پر محنت کی جاتی ہے کہ بندہ اس کے مرغوبات پر قابو پانے پر قادر ہو تاکہ اس نفس سے اللہ تعالیٰ کے منشائ پاک کے مطابق کام لیا جاسکے ۔ فاعلہ میں نفس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارا جاتا ہے کہ بندے کے رذائل دور ہوجائیں اور اس کو فضائل حاصل ہوجائیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ ذرائع مقصود نہیں ہوتیں لیکن جن مقاصد کے حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتے ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے پھر ان کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔مثلاً کسی کو فقہ میں مہارت حاصل کرنی ہو تو اس کو پہلے صرف نحو ،اصول فقہ ،قُرآن کی تفسیر اور احادیث کی تشریح میں جان کھپانی پڑے گی پھر اس کو کسی ماہر فقہ کی نگرانی میں فتاوےٰ کا کام کرنا پڑے گا تب کہیں اس میں فقہ کی مہارت پیدا ہوسکے گی۔اگر کوئی یہ کہے کہ میں ایک فقیہ کی نگرانی میں فتویٰ لکھنا شروع کردیتا ہوں تو مہارت حاصل ہوجائے گی تو اس کی یہ بات قابل سماعت نہیں سمجھی جائے گی۔اس طرح اگر کسی کو ڈاکٹر بننا ہے تو اس کو ایم بی بی ایس میں اناٹومی ،بائیو کیمسٹری ، فارمکالوجی ،پیتھا لوجی وغیرہ سب پہلے پڑھنی پڑتی ہیں پھر ان کو میڈیسن اور سرجری سمجھ میں آتی ہیں ۔پس اگر کوئی کہے میں نے تو صرف سرجری اور میڈیسن پڑھنا ہے تو اس کی بات نہیں سنی جائے گی۔ اب سب سے پہلے مجاہد ہ کا بیان ہوگا ۔پھر اس کے بعد فاعلہ کا۔

مجاہدہ

مجاھدہ کی حقیقت نفس کی مخالفت کی مشق و عادت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا و اطاعت کے مقابلے میں نفس کی خواہشات کو مغلوب رکھا جائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے "وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا" یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں بر داشت کرتے ہیں ہم ان کو قرب و ثواب یعنی جنت کے راستے ضرور دکھائیں گے ۔ اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "عن فضالۃ الکامل قَا لَ قَا لَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲ عَلَیْہٰ وَسَلَّمْ اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ فِیْ طَا عَۃِ اﷲ۔(رواہ البیھقی)" یعنی فضالۃالکامل (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجاھد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے ۔روایت کیا اس کو بیھقی نے ۔(مشکواۃ شریف )

طریقہ

نفس کو بعض چیزیں محبوب ہوتی ہیں اور بعض چیزیں نفس پر گراں ہوتی ہیں۔جو چیزیں نفس کو محبوب ہوتی ہیں ان میں کچھ تونفس کے حقوق ہیں جن سے حیات اور جسم قائم ہے اور یہ نفس کی ضروریات ہیں اور کچھ نفس کے حظوظ ہیں اور یہ نفس کی خواہشات ہیں سو مجاھدہ و ریاضت میں حظوظ میں کمی کی جاتی ہے یا ان کا ترک کرایا جاتا ہے اورنفس پر جو چیزیں گراں ہیں ان کا نفس کو عادی بنایا جاتا ہے حقوق البتہ ادا کئے جاتے ہیںکیونکہ جائز حقوق سے اپنے نفس کو محروم کرنا خلاف سنت ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ " اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقَّاً" (یعنی بے شک تمھارے نفس کا تم پر حق ہے)کیونکہ اس سے ضعف بڑھتا ہے اور صحت میں خلل پڑتا ہے ۔پھر ضروری اشغال و عبادات سے بھی انسان عاجز ہو جاتا ہے ۔

مجاھدہ کی ضرورت

فرض کریں زید نے باربرداری کا ایک جانور خریدا جو کہ اڑیل ہے اس پر زید جب کوئی بوجھ ڈالتا ہے تو وہ مزاحمت کرتا ہے اور اگر اس کو آزاد چھوڑتا ہے تو دوسری چیزوں کو خراب کرتا ہے کسی اور کے کھیت میں جاکر اس کا نقصان کرتا ہے جس کا خمیازہ زید کو بھگتنا پڑتا ہے اب زید اس جانور کے ساتھ کیا کرے گا۔ظاہر ہے اگر زید اس کا کچھ نفع اٹھانا چاہتا ہے یا اس کے نقصان سے بچنا چاہتا ہے تو اس کی تربیت کرے گاجس کا طریقہ یہ ہوگا کہ ترغیب و ترہیب کے ذریعے اس کو مشقت کا عادی بنائے گا۔اس کی ضرورت کی چیزیں تو اس کا مہیا کرے گا لیکن اس کی دوسری خواہشات کو کنٹرول کرے گا۔ایسی صورت میں یہ جانور زید کے لئے نفع بخش بن جائے گا لیکن اس کی شر سے بچنے کے لئے زید پھر بھی اس پر نگاہ رکھے گا اور اس کو کھلا نہیں چھوڑے گا اور کھلا چھوڑنے کے قابل کبھی ہوا بھی تو پھر بھی اس کی خبر رکھے گا کہ اس کی خواہشات کہیں اس کی تربیت کو ضائع نہ کر دیں اسی ترتیب کو تربیت نفس پر بھی منطبق کریں۔

اعمال صالحہ چونکہ نفس کو کرنے پڑتے ہیں۔ اگر وہ نفس پر گراں ہوںتو اعمال صالحہ میں مشقت رہتی ہے کیونکہ نفس ان کے مقابلے میں مخالفت کرتاہے اگر نفس کی تربیت نہ ہوچکی ہو تو اس کی مثال زید کا اڑیل جانور ہے ۔ نفس کی اس مخالفت کے باوجود عمل کرنا مجاہدہ حقیقی ہے جو فرض و واجب اعمال کی صورت میں فرض و واجب ہے اور سنت و مستحب کی صورت میں سنت و مستحب ہے۔چونکہ ان اعمال کو تو کرنا ہی کرنا ہے اسی لئے نفس کی یہ مخالفت تو عمر بھر کرنی پڑتی ہے ۔دوسری طرف نفس کے کچھ ایسے تقاضے بھی ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے سے شریعت کی مخالفت ہوتی ہے نفس ان چیزوں کو کرنا چاہتا ہے چونکہ شریعت کی مخالفت سے بچنا ہی بچنا ہے اس لئے نفس کے خلاف عمر بھر جما رہنا پڑے گا البتہ جس نے اپنے نفس کو مشقتوں کا عادی بناکر اس کی تربیت کی تو ایک طرف اعمال صالحہ کی مزاحمت کم ہوجاتی ہے اور دوسری صورت میںخلاف شرع اعمال کی طلب کم ہوجاتی ہے جیسا کہ زید نے اپنے جانور کی تربیت کی تو زید نے اس کا نفع اٹھایا اور اس کی شر سے محفو ظ ہوا۔ "قد افلح من زکّٰھا" کا یہی مطلب ہے ۔

مبتدی یعنی جس نے اپنی تربیت ابھی شروع کی ہے اس کے لئے تو یہ غلط ہے ہی کہ وہ اپنے نفس کو مشقت سے بچانا چاہے یعنی مجاھدہ پر تیار نہ ہو اور اس انتظار میں رہے کہ سارا کام مشقت کے بغیر ہو جائے اور منتہی جس کی تربیت ہوچکی ہو اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ ابتدائی مجاھدہ کر کے آئندہ کے لئے بھی اپنے آپ کو مجاھدہ سے مستغنیٰ سمجھ لے چونکہ بسا اوقات نفس کے تقاضوں کی وجہ سے پھر کبھی کمزوری پیش آسکتی ہے اور اس وقت منتہی کو بھی معصیت کا تقاضا ہوتا ہے اس طرح اس کا نفس بھی بعض دفعہ طاعات میں کسل کرنے لگتا ہے اس وقت اس کو بھی مجاھدہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر مبتدی اور منتہی کے مجاھدہ میں بڑا فرق ہے ، جیسے ایک تو زید کا جانور جب اڑیل تھا اس وقت اس سے کوئی کام کرانا یا اس کو کسی چیز سے روکنا زیادہ مشکل تھا اور ایک جب وہ تربیت یافتہ ہوگیا تو اس سے کام کرانا اور اس کو کسی چیز سے بچانا جو کہ ظاہر ہے کم مشکل ہے ۔وقتی طور پر تربیت یافتہ جانور بھی اگر مزاحمت کرے تو اس کوقابو کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا البتہ اگر کوئی یہ سمجھ لے کہ اب میرا جانور سدھا ہوا ہے اس لئے اس سے بالکل بے فکر ہوجائے تو جو نقصان ہوسکتا ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

شیطان اور نفس کے اغوا میں فرق

کسی انسان کو برائی پر ابھارنے والی دو قوتیں ہیں ۔ایک نفس ہے اور دوسرا شیطان۔نفس لذات کا طالب ہے اور شیطان خدا سے دوری کا۔پس نفس کو اگر جائز طریقے سے مطمئن کیا جائے اور کچھ مجاہدے سے اس کی تہذیب ہوجائے تو ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے بخلاف شیطان کے کہ وہ لذت کا طالب نہیں خدا سے دوری کا طالب ہے اس لئے وہ ایسے گناہ بھی کرادے گا کہ جس میں نفس کو لذت نہیں ہوگی بلکہ عین ممکن ہے نفس کو تکلیف بھی ہو جیسے گمراہ صوفی جو نفس کو تکلیف دینا ہی دین سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام میں رھبانیت نہیں ہے ۔شیطان نے ان کو سمجھایا ہوتا ہے کہ تو چونکہ نفس کو تکلیف دے رہا ہے اس لئے تو روحانی ترقی کررہا ہے ۔بعض عیسائی جو بعض اوقات حضرت عیسیٰ (ع) کی اپنے زعم میں مصلوبیت کو یاد کرکے ان کی طرح اپنے آپ کو پھانسی لگاتے ہیں اپنے جسم پر کیل ٹونکتے ہیں یا شیعہ جو امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے حالات کو یاد کرکے اپنے آپ کو پیٹتے ہیں اور بعض دفعہ زنجیروں سے اپنے آپ کو مارتے ہیں یہ اسی نوعیت کے تماشے ہیں۔اس لئے اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اپنے نفس کو کونسی تکلیف دینا جائز ہے اور کونسی ناجائز؟

نفس کی تو تربیت ہوسکتی ہے شیطان کی نہیں۔شیطان سے تو ہمیشہ پناہ مانگنی چاہیئے اور اس کے مکائد کو اچھی طرح سمجھنا چاہیئے ۔نفس چونکہ گھر کا بھیدی ہے اس لئے شیطان اس کو آلہ کار بناتا ہے اور اپنا کام کراتا ہے لیکن اگر اس طرف سے شیطان مایوس ہو تو پھر وہ دوسرے رخ سے حملہ کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی محبت کا دل میں راسخ ہونا اور محبوب خدا صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کی سنت کے ساتھ چپکنا ہی شیطان کا توڑ ہے کیونکہ اس راہ سے شیطان حملہ آور نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس ملعون سے پناہ مانگنا چاہیئے ۔آجکل بھی اس دنیا میں بعض ایسے غیرتمند موجود ہیں جن کے ہاں اگر ان کے دشمن کسی چیز سے پناہ مانگیں تو ان کے لئے جان پر کھیل جاتے ہیں تو جس خدا نے ان غیرتمندوں کو پیدا کیا ہوا ہے وہ اپنے دشمن سے آپ کو پناہ نہیں دیں گے ؟خوب سمجھنا چاہیئے اور اس کے لئے صحبت صالحین اور ذکر کی کثرت بہت مفید ہے۔

مجاھدہ میں اعتدال

مجاھدہ سے مقصود نفس کو پریشان کرنا نہیں ہے بلکہ نفس کو مشقت کا عادی بناناہوتا ہے اور اس کی راحت و تنعم کی عادت کو ختم کرنا ہوتاہے اور اس کے لئے اتنا مجاھدہ کافی ہے جس سے نفس پر کسی قدر مشقت پڑے ۔بہت زیادہ نفس کو پریشان کرنا اچھا نہیں ۔ورنہ وہ بالکل معطل و بے کار ہو جائے گا ۔اس کو خوب سمجھنا چاہیئے ،محنت و مشقت ہمیشہ اور ہر حال میں مستحسن نہیں بلکہ جب اعتدال سے ہو اور اس پر نتیجہ اچھا مرتب ہو ،اسی وقت مستحسن ہے ۔پس مجاھدہ میں افراط بھی مذموم ہے ۔لہٰذا اعتدال کی رعایت لازم ہے ۔اسی کو حضرت شیخ سعدی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں

نہ چنداں بخور کز دہانت بر آید

نہ چنداں کہ از ضعف جانت بر آید

یعنی نہ اتنا کھاؤ کہ منہ سے باہر آنے لگے اور نہ اتنا کم کھاؤ کہ جسم میں کمزوری آ جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے "وَالَّذِیْنَ اِذَآانْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْاوَکاَنَ بَیْنَ ذَالِکَ قَوَاماً" یعنی خدا کے بندے وہ ہیں ،جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ وہ خرچ اس کے درمیان میں معتدل ہوتا ہے ۔ پس مجاھدہ میں بھی اعتدال کی رعایت کرنی چاہئے ۔بلکہ اس اعتدال کو بھی اپنی رائے سے تجویز نہ کرنا چاہیئے بلکہ کسی محقق سے درجہ اعتدال اور طریق مجاھدہ معلوم کرنا چاہیئے ۔

مجاہدے کے اقسام

مجاھدہ کی دو قسمیں ہیں ،ایک مجاھدہ جسمانی کہ نفس کو مشقت کا عادی کیا جائے ۔مثلاً نوافل کی کثرت سے نماز کا عادی کرنا اور روزہ کی کثرت سے طعام کا حرص وغیرہ کو کم کرنا اور ایک مجاھدہ بمعنی مخالفت نفس بوقت تقضائے معصیت ہے کہ جس وقت نفس معصیت کا تقاضا کرے اس وقت اس کے تقاضے کی مخالفت کرنا ۔اصل مقصود یہ دوسرا مجاھدہ ہے اور یہ واجب ہے اور پہلا مجاھدہ اس کو حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ جب نفس مشقت برداشت کرنے کا عادی ہوگاتو اس کو اپنے جذبات کے ضبط کرنے کی بھی عادت ہوگی ،لیکن اگر مجاھدہ جسمانیہ کے بغیر کسی کو نفس پر قدرت حاصل ہو جائے تو اس کو مجاھدہ نفسانیہ کی ضرورت نہیں ۔مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔اسی واسطے صوفیاء نے مجاھدہ جسمانیہ کا بھی اہتمام کیا ہے ۔اور ان کے نزدیک اس کے چار ارکان ہیں ۔

(1)کم کھانا

(2)کم بولنا

(3 )کم سونا

(4)ان لوگوں سے کم ملنا جن سے نقصان ہو۔

جو شخص ان ارکان کا عادی ہو جائے گا ،واقعی وہ اپنے نفس پر قابو یافتہ ہو جائے گا کہ معصیت کے تقاضے کو ضبط کر سکے گا ۔اور مجاھدہ نفسانیہ یہ ہے کہ جب نفس گناہ کا تقاضا کرے اس کی مخالفت کی جائے اور یہ بات اس وقت حاصل ہو گی جب نفس کی جائز خواہشوں کی بھی کسی حد تک مخالفت کی جائے ۔مثلاً کسی لذیذ چیز کو جی چاہا تو فوراً اس کی خواہش کو پورا نہ کیا جائے بلکہ اس کی درخواست کو اس وقت رد کر دیا جائے ۔اور کبھی کبھی سخت تقاضے کے بعد اس کی جائز خواہش پوری کر دی جائے ۔تاکہ نفس پریشان نہ ہو جائے بلکہ اس کو خوش رکھا جائے اور اس سے کام بھی لیا جائے کہ

مزدور خوش دل کند کار بیش

پھر جب کوئی مباحات میں نفس کی مخالفت کا عادی ہوجاتاہے ،اس وقت معاصی کے تقاضے کی مخالفت پر آسانی سے قادر ہوجاتاہے ۔اور جو شخص مباحات میں نفس کو بالکل آزاد رکھتا ہے وہ بعض اوقات تقاضائے معصیت کے وقت اس کو دبا نہیں سکتا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ریاضت و مجاھدہ کے دو رکن ہیں ۔اول مجاھدہ اجمالی یا جسمانی ،دوسرا مجاھدہ تفصیلی یا نفسانی ۔مجاھدہ اجمالی کے چار اصول ہیں ، کم کھانا ،کم سونا ،کم بولنا اور کم ناجنس سے ملنا۔ان سب اُمور میں مرتبہء اوسط پر شیخ کی نگرانی میں عمل ہونا چاہیئے ،نہ اس قدر کثرت کرنی چاہیئے جس سے غفلت وقساوت و کاہلی پیدا ہو ،نہ اس قدر قلت کرے کہ صحت و قوت زائل ہو جائے ۔ دوسرے رکن مجاھدہ تفصیلی کی دو قسمیں ہیں ۔اول اخلاق حمیدہ میں دوسری اخلاق رذیلہ میں ۔ان دونوں قسموں کی تفصیل آئیندہ اخلاق کے باب میں ملاحظہ فرمائیں ۔

مجاھدہ کی چار قسمیں

(1) قلت طعَام(کم کھانا)

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے "کُلُوْ ا وَا شْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ" یعنی خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو ،بے شک اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "یُجْزِیئہُم مَا یُجْزِیئُ اَھْلَ السَّمآئِ مِنَ التَّسْبِیْحِ والتقدیس۔ (مشکواۃ)" مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو غذا کی جگہ وہ چیز کافی ہو جائے گی جو اہل آسمان کو کافی ہو جاتی ہے یعنی تسبیح و تقدیس ۔ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ انہوں نے خلوت میں مدتوں کھانا نہیں کھایا ۔اس حدیث سے ظاہر ہے کہ بعض اوقات صرف ذکر و تسبیح بھی غذا کا کام دے سکتے ہیں لیکن تقلیل غذا کے جو واقعات منقول ہیں آج کل ان پر عمل نہیں ہو سکتا ،کیونکہ ان حضرات کو قوت زیادہ تھی کہ غذا کم کرنے سے بھی ان کا دل پریشان نہیں ہوتا تھا ۔اور ان کی قوت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ان سے بعض اشغال ایسے منقول ہیں جس کا آجکل کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ان میں ایک صلوٰۃ معکوس کو لیجئے جس کی حقیقت یہ ہے کہ الٹا لٹک کر شغل کرتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ شارع علیہ السلام نے تقلیل طعام کو تجویز کیا ہی نہیں بلکہ کھانے کے عادت والے اوقات کو بدل کر ان میں وقفہ بڑھا دیا اور اس تبدیل عادت اور وقفہ کی زیادتی سے جو نفس کو تکلیف ہوتی ہے اس کو شریعت نے تقلیل طعام کے قائم مقام سمجھا ہے اس میں جتنی صورتیں مجاھدے کی نکل سکتی ہیں۔ روزہ ان میں سب سے افضل ہے۔

لہٰذا تقلیل طعام کو شریعت نے روزہ کی صورت میں مقرر فرمایا ہے اس کے علاوہ صورتیں اہل مجاھدہ نے جو تقلیل طعام کی اختیار کی ہیں ،شریعت میں اس کی مقصودیت کی اصل نہیں ،یعنی کم کھانا اور بھوکا رہنا یہ شرعی مجاھدہ نہیں ۔اور بھوک کی جو فضیلت وارد ہے اس سے اختیاری بھوک مراد نہیں بلکہ غیر اختیاری مرادہے ۔یعنی یہ اس بھوک کے فضائل نہیں جو باوجود گھر میں غلہ ہونے کے اختیار کی جائے ،بلکہ کسی شخص پر فاقہ آ پڑٰے تنگ دستی ہو تو اس کی تسلی کے لئے فضائل بیان کر دئے گئے ہیں ۔کہ مسلمان کو فاقہ سے پریشان نہ ہونا چاہئے اس سے اس کو ثواب ملتا ہے ،درجات میں ترقی ہوتی ہے ۔یہ فضائل ایسے ہی ہیں جیسا کہ احادیث میں بیماری کے فضائل ہیں اور اس پر ثواب بیان کیا گیا ہے ۔یقیناً اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ خود بیمار پڑ جائے اسی وجہ سے چونکہ قلت طعام نہ خود بالذات مقصود ہے اور نہ اتنی قلت طعام کی آج کل کے لوگوں میں برداشت کی قوت ہے جتنی کہ متقدمین میں تھی اسی لئے امام غزالی (رحمۃ اللہ علیہ) کے تبلیغ دین کے قلت طعام کے بیان پر عمل کرنا آجکل کے لئے نہیں ہے ۔

الغرض قلت طعام فی نفسہٰ مقصود نہیں بلکہ مقصود حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور مقصود اس حیوانی قوت کے زور کو توڑنا ہے جو انسان کو سرکشی پر آمادہ کرتا ہے اپس اگر یہ گناہوں سے نفس کا رکناتقلیل طعام کے بغیر میسر آجائے تو تقلیل طعام (کھانے کو کم کرنا )ضروری نہیں ہوگا نیز عبادت میں سرور و نشاط صحت اور قوت ہی سے ہوتا ہے اور تجربہ ہے کہ آج کل تقلیل غذا سے اکثر صحت برباد ہو جاتی ہے ۔لہٰذا سالک کو چاہئے کہ نہ تو اتنا کم کھائے کہ صحت برباد ہو جائے اور عبادت کی قوت ہی نہ رہے اور نہ اتنا زیادہ کھائے کہ سستی کی وجہ سے عبادت کے قابل ہی نہ رہے بلکہ اوسط درجے کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اسی کا قُرآن میں حکم دیا گیا ہے اور ہر شخص کا اوسط اس کی خوراک کی مقدار کے اعتبار سے جدا جدا ہوتا ہے ۔اصل طریقہ یہ ہے کہ جس وقت بھوک لگے اس وقت کھانا کھائے اور اتنا کھا کر رک جانا چاہیئے کہ چند لقمے اور کھانے کو جی چاہ رہا ہو ۔

(2)قلت منام (کم سونا)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "قُمِ اللَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً نِّصْفَہُ آَوِنْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً۔" یعنی رات کو کھڑے رہا کرو ،مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات یا اس نصف سے کسی قدر کم کر دو۔ مذکورہ بالا آیت میں قیام لیل کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ریاضت کے خوگر ہوں ۔جس سے نفس عبادت کے ساتھ مانوس ہو جائے اور سستی دور ہوجائے ۔چونکہ رات کا اٹھنا اور جاگنا نفس کے کچلنے میں خوب مؤثر ہے اور دعا ہو یا قرات ہو ،نماز ہو یا ذکر ہو ،ظاہراً و باطناً ہر بات خوب ٹھیک سے ادا ہوتی ہے ۔ظاہراً تو اس طرح کہ فرصت کا وقت ہوتا ہے ،الفاظ خوب اطمینان سے ادا ہوتے ہیں ۔اور باطناً اس طرح کہ خوب جی لگتا ہے اور موافقت دل و زبان کا یہی مطلب ہے ۔

اسی لئے رمضا ن المبارک میں نماز تراویح کا ادا کرنا شرعی حکم ہے جس سے نیند خود بخود کم ہوجاتی ہے ۔جس طرح روزے سے کم کھانے کے برکات حاصل ہوتے ہیں اسی طرح تراویح سے کم سونے کے فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔اور جس طرح روزہ میں کھانے کی عادت بدلنا ایک مجاہدہ ہے اسی طرح یہاں بھی رکعتوں کی تعدادوں کو بڑھا کر کم سونے کی عادت ڈالی جاتی ہے کیونکہ عام عادت یہی ہے کہ اکثر لوگ عشائ کے بعد فوراً سو جاتے ہیں تو نیند کے وقت میں تراویح کا امر کر کے عادت کو بدل دیا ہے ،جس سے نفس پر گرانی ہوتی ہے اور یہی مجاھدہ ہے ۔غرض شریعت نے تقلیل منام میں محض بیداری پر اکتفا نہیں کیا کہ خالی بیٹھے جاگتے رہو بلکہ اعمال کی تلقین فرمائی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نیک بندوں کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں ۔ "وَبِاالْاَسْحَا رِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ" یعنی وہ پچھلے حصئہ رات میں استغفار کرتے ہیں ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ "تَتَجَاَفیٰ جُنُوْبُھُمْ عَن ِالْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفاً وَّ طَمْعاً۔(الآ یۃ )" مطلب یہ ہے کہ رات کو نماز پڑھتے ہیں ،مگر طرز کلام سے عموم ظاہر ہے لہٰذا مطلق دعا و ذکر بھی مراد ہو سکتا ہے پھر اس میں دینی فوائد کے علاوہ دنیوی فوائد بھی ہیں

چنانچہ نیند کم ہونے سے رطوبت فضلیہ کم ہوتی ہے ۔جو صحت کے لئے معین ہے ۔نیز اس سے چہرے پر نور پیدا ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک محدث کا قول ہے ۔ " مَنْ کَثُرَتْ صَلَوٰتُہُ فی اللَّیْلِ حَسُنَ وَجْھُہُ فیِ النَّھَارِ" یعنی جو رات کو نماز زیادہ پڑھے گا ،دن میں اس کا چہرہ خوبصورت ہو جائے گا ۔ اور حد سے زیادہ سونے سے برودت بڑھ جاتی ہے جس سے قوت فکریہ کم ہو جاتی ہے ۔ اور قوت فکریہ کی کمی سے دنیا اور دین دونوں کے کام خراب ہوتے ہیں ۔جس سے اُمور انتظامیہ میں خلل پڑتا ہے ۔ایسے شخص کو پابندی اوقات کبھی نصیب نہیں ہوتی ۔

سونے میں اعتدال

اس مجاھدہ میں بھی اعتدال مطلوب ہے ۔چنانچہ آجکل چھ سات گھنٹہ ضرور سونا چاہئے ۔اور اگر نیند بہت غالب ہو تو اس کو دفعہ نہ کیا جائے ۔وظیفہ کو چھوڑ کر سو رہنا چاہئے ۔پھردوسرے وقت پورا کر لیا جائے اور اگر زیادہ غلبہ نہ ہو تو ہمت کر کے جاگنا چاہئے ،غلبہ کی صورت میں اگر نیند کو دفع کیا جائے تو اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ دماغ میں خشکی پیدا ہو جاتی ہے ۔صفرا میں اشتعال بڑھ جاتا ہے ۔سودا میں ترقی ہو جاتی ہے ۔خیالات فاسدہ آنے لگتے ہیں اور بعض اوقات وہ ان کو الہام سمجھ کر اپنے آپ کوبزرگ جاننے لگتا ہے ۔آخر یہ ہوتا ہے کہ جنون ہو جاتا ہے ۔چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اِذَا قَامَ اَحَدُکُمْ مّنَ اللَّیْلِ نَاسْتَعْجَمَ الْقُرْاٰنُ عَلیٰ لِسَا نِہٰ فلم یَدْرِ مَا یَقُوْلُ فَلْیَضْتَجِعْ" یعنی جب تم میں سے کوئی شخص رات کو اٹھے پھر غلب نیند کی غلبہ ہ سے قُرآن اس کی زبان سے صاف نہ نکلے اور کچھ خبر نہ ہو کہ کیا زبان سے نکل رہا ہے تو اس کو لیٹ جانا چاہئے ۔

بعض لوگ تقلیل منام وغیرہ میں بہت غلو کرتے ہیں کہ اس سے جونقصان ہوسکتا ہے اس کی طرف بھی التفات نہیں کرتے ۔اس حدیث میں اس کی اصلاح ہے اور راز اس میں دو ہیں ۔ایک یہ کہ غلو سے بعض اوقات ضرر جسمانی لاحق ہو جاتا ہے ۔جیسا کہ اوپر گذرا اور پھر ضروری عبادت بھی نہیں ہو سکتی ۔دوسرا یہ کہ جب نیند کی غلبہ سے الفاظ صحیح نہیں نکلیں گے تو جو ثواب ان الفاظ سے متعلق ہے وہ بھی حاصل نہ ہوگا ۔پھر صرف جاگنے سے کیا فائدہ ہے ؟ یہ دیکھا گیا کہ رمضان شریف کے اعتکاف میں بعض حضرات پوری رات جاگتے ہیں اور دن کو کچھ سوتے اور کچھ اعمال میں مشغول ہوتے ہیں ۔اس میں اگر ضروری نیند پوری ہوسکے تو پھر تو یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اگر ضروری نیند پوری نہ ہو اور دن کو اتنا نہ سونے دیا جائے کہ رات کی کسر پوری ہو تو ایسا کرنا بہت خطر ناک ہے

۔حضرت شیخ الحدیث (رحمۃ اللہ علیہ) نے اعتکاف کو اصلاحی چلے کی شکل دی جس کے گوناگوں فوائد برآمد ہوئے جو کہ حضرت شیخ الحدیث (رحمۃ اللہ علیہ) کا اُمت پر بہت احسان ہے چونکہ حضرت کے وقت میں رمضان گرمیوں میں آرہا تھا اس لئے دن کو رات کی کسر نکل جاتی تھی لیکن اب رمضان سردیوں میں ہوتے ہیں تو راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں ان راتوں میں معمولات میں تبدیلی لازمی ہے تاکہ سالکوں کی نیند پوری ہو ورنہ ان کو دنیاوی نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ دینی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔واللہ اعلم

(3)قلت کلام(کم بولنا)

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے "مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہٰ رَقِیْبٌعَتِیْدٌ" یعنی جو کچھ بات نہیں بولتا ہے ،مگر اس کے نزدیک نگہبان تیار ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مَنْ صَمَتْ نَجیٰ(رواہ احمد و الترمذی)" یعنی جو چپ رہا ،اس نے نجات پائی۔ "عَنْ مَالِکٍ اَنَّہُ بَلَغَہُ اَنَّ عیسیٰ بِن مَرْیَمَ قَا لَ لاَ تکثروالکلامَ بِغیر ذکراﷲ تعالیٰ فتقسوا قلوبکم وَاَنَّ الْقَلْبَ القَاسِیَ بَعیْدٌ مِنَ اﷲوالکِنْ لاَّ تعلَمُونَ ۔۔۔۔۔(تیسیر ص۴۴۴)" مطلب یہ ہے کہ امام مالک(رحمۃ اللہ علیہ) سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ذکر اللہ کے سوا تم بہت کلام نہ کیا کرو کہ اس سے تمھارے دل سخت ہو جائیں گے یعنی ان میں خشوع نہ رہے گا ۔اور یہ بالکل تجربہ کی بات ہے اور جس دل میں قساوت ہو وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے ،لیکن تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی (کہ اللہ تعالیٰ سے بعد ہو گیا کیونکہ حقیقت تو اس کی آخرت میں مشاہد ہوگی اور آثا ر گو یہاں بھی مشاہد ہیں مگر ان کا ادراک بوجہ بے التفاتی کے نہیں ہوتا)

تشریح

کم بولنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان جتنے کلام کرتا ہے بظاہر اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں

(1)مفید جس میں کوئی دین یا دنیا کا فائدہ نہ ہو

(2) مضر،جس میں دین یا دنیا کا کوئی نقصان نہ ہو

(3) نہ مفید نہ مضر ،جس میں نہ کوئی فائدہ ہو نہ کوئی نقصان

اس تیسری قسم کو ہی حدیث میں لا یعنی کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔لیکن جب ذرا غور سے کام لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تیسری قسم بھی در حقیقت دوسری قسم یعنی مضر میں داخل ہے ،کیونکہ وہ وقت جو ایسے کام یا کلام میں صرف کیا گیا کہ اس میں ایک دفعہ سُبْحَانَ اﷲ کہہ لیتاتو میزان عمل کا آدھا پلّہ بھر جاتا ،کوئی اور مفید کام کرتا تو گناہوں کا کفارہ اور نجات آخرت کا ذریعہ کم از کم دنیا کی ضرورتوں سے بے فکری کا سبب بنتا ،حدیث شریف میں ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،’’انسان کا اسلام درست اور صحیح ہونے کی ایک علاُمت یہ ہے کہ بے فائدہ باتوں اور کاموں کو چھوڑ دے ‘‘۔احیائ العلوم میں ہے کہ ’’لایعنی کلام کا حساب ہو گا اور جس چیز کا حساب اور مواخذہ ہو اس سے خلاصی یقینی نہیں‘‘۔

یہ تقلیل کلام کا مجاھدہ تقلیل طعام اور تقلیل منام د ونوں مجاھدوں سے زیادہ مشکل ہے ۔کیونکہ کھانے میں کچھ تو اہتمام کرنا پڑتا ہے ۔نیز اگر زیادہ بھی کھائے گا ،ایک دو دفعہ کھا لے گا پھرکہاں تک کھا ئے گا ،جب ہضم نہ ہوگا خود ہی تقلیل ہو جائے گی اسی طرح کہاں تک سوئے گا ، کبھی تو جاگے گا ،بخلاف بولنے کے کہ اس میں کچھ اہتمام ہی نہیں کرنا پڑتا نہ زیادہ بولنے سے بد ہضمی ہوتی ہے اور نہ زبان چلانے سے کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان جس قدر حظوظ اختیار کرتا ہے ،لذت کے لئے کرتا ہے سو کلام کے سوا دوسرے جس قدر حظوظ ہیں اس میں کثرت کرنے سے لذت کم ہو جاتی ہے ۔پیٹ بھرنے کے بعد پھر کھانے میں مزا نہیں آتا نیند بھر جانے کے بعد پھر سونے سے جی گھبراتا ہے جبکہ بولنے کی لذت ختم ہی نہیں ہوتی بلکہ جتنا بولتے جاؤ اتنی ہی لذت بڑھتی جاتی ہے

اسی لئے تقلیل کلام سب سے زیادہ دشوار ہے مگر باوجود دشواری کے اس میں آزادی اس لئے نہیں دی گئی کہ زیادہ بولنے میں نقصانات بہت ہیں ،اور ان سے کئی قسم کے گناہ وجود میں آسکتے ہیں جس میں جھوٹ ،غیبت ،کسی انسان کا تمسخر اور نہ جانے کیا کیا اس لئے اس کی تقلیل کو مجاھدے کا ایک مستقل رکن قرار دیا گیا ہے ۔لیکن تقلیل کلام کا یہ مطلب نہیں کہ ضروری باتوں کو بھی کم کر دے بلکہ مطلب یہ ہے کہ فضول کلام چھوڑ دے گو مباح ہی ہو باقی جو باتیں حرام ہیں جیسے جھوٹ ،غیبت و بہتان وغیرہ وہ تو اس سے خود ہی چھوٹ جائیں گے کیونکہ وہ تو مجاھدئہ حقیقیہ ہیں ،جو شخص مجاھدئہ حکمیہ کرے گا وہ مجاھدئہ حقیقیہ کیسے ترک کر سکتا ہے ،رہا ضروری کلام سو اس کا ترک کرنا جائز نہیں چونکہ اس سے ضرورت میں حرج ہو گا ۔یا مخاطب کو تکلیف ہوگی ۔ ضرورت کی تفسیر یہ ہے کہ "لَوْ لاَہُ لَتَضَرَّرَ " یعنی بات کے نہ کرنے سے ضرر ہو۔

پس جس بات کے ترک کرنے سے دین یا دنیا کا ضرر ہو وہ بات ضروری ہے ۔مثلاً تاجر کے پاس کوئی خریدار گھنٹہ بھر تک چیزوں کی قیمتیں دریافت کرتا رہے اور تاجر کو امید ہے کہ یہ ضرور کچھ خرید لے گا تو جب تک یہ امید ہو اس وقت تک خریدار سے باتیں کرنا ضرورت میں داخل ہیں کیونکہ اس صورت میں خریدار سے باتیں نہ کرنے سے دنیا کا نقصان ہوتا ہے ۔اس لئے شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ تجارت کی باتیں کرے اور جو باتیں ضرورت میں داخل ہیں ان سے قلب میں ذرہ برابر ظلمت نہیں ہوتی چنانچہ حضرات عارفین کا مشاہدہ ہے کہ ضروری گفتگو دن بھر بھی ہوتی رہے تو اس سے قلب پر اثر نہیں ہوتا چنانچہ ایک کنجڑا اگر دن بھر ’’لے لو امرود‘‘پکارتا پھرے تو اس سے قلب پر ذرہ برابر بھی ظلمت نہ آوے گی چونکہ یہ کلام بضرورت ہے اور بے ضرورت ایک جملہ بھی اگر زبان سے نکل جائے تو دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ شریعت نے تقلیل کلام کی وہ صورت تجویز نہیں کی کہ زبان بند کر کے بیٹھ جاؤ بلکہ اس کی یہ صورت تجویز کی کہ تلاوت قُرآن مجید میں مشغول رہو یا ذکر کرتے رہو ۔جس سے مجاھدہ تقلیل کلام کا فائدہ بھی حاصل ہو جائے کہ زبان گناہوں سے بچی رہے فضول باتیں کرنے کی عادت کم ہو جائے اور اسی کے ساتھ ثواب بھی بے شمار ملتا رہے ۔جو خاموش رہنے میں کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتا ۔

ایک اور بات جس کی طرف توجہ دلانی ضرور ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔مفید چیزوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے کیونکہ اس کے بعد ان کی افادیت میں یا تو کمی ہوجاتی ہے یا بعض اوقات فائدے کی جگہ نقصان ہوجاتا ہے ۔تبلیغی جماعت کے مخلصین حضرات دعوت کے فضائل سن سن کر بعض دفعہ اتنی دعوت دینا شروع کردیتے ہیں کہ بعض دفعہ مدعو کو نقصان ہوجاتا ہے کہ وہ ضد میں آکر صاف انکار کردیتا ہے جس سے بعض دفعہ نوبت کفر تک آجاتی ہے اور بعض دفعہ اس داعی کو نقصان ہونے لگتا ہے کہ افادہ یعنی دوسروں کو نفع پہنچانے کی جوش میں استفادہ یعنی خود دوسروں سے نفع حاصل کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں ۔خاتم النبیین کو جب خلوت کے اعمال کا حکم دیا گیا تو دوسرے اس سے کیسے مستغنی ہوسکتے ہیں اس لئے اتنی دعوت دینا کہ نہ خود کو نقصان پہنچے اور نہ دوسروں کو بلکہ دونوں کو نفع پہنچے اس کا سیکھنا ضروری ہے

چونکہ تبلیغی جماعت میں اس مسئلے کا تعلق عوام کے ساتھ ہے جو ان احتیاطوں کو خاطر میں لانا کم علمی سے ضروری نہیں سمجھے اس لئے جماعت کے ذمہ داروں کو اس طرف خصوصی توجہ کرنی چاہیئے ۔اس وقت کے صوفیاء نے تقلیل طعام اور تقلیل منام کے مجاہدے کو متروک سمجھا اور تبلیغی جماعت والوں نے تقلیل کلام اور تقلیل خلط مع الانام کو متروک کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج مجاہدہ سرے سے ختم ہی ہوا حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔نہ تو تقلیل کلام اور تقلیل منام کلیتاً متروک ہے اور تقلیل کلام اور تقلیل خلط مع الانام سے غافل ہونا مناسب ۔یہ ہر شخص کے حال کے مطابق بات ہوتی ہے اس لئے سب کو چاہیئے کہ اس مسئلے میں فیصلہ شیخ پر چھوڑا جائے کہ وہ کسی کے لئے کیا مجاہدہ تجویز کرتے ہیں ،واللہ اعلم۔

طریق علاج

بات کرنے سے قبل تھوڑی دیر تامل کریں ،اور سوچیں کہ اس بات سے اللہ تعالیٰ جو کہ سمیع و بصیر ہیں نا خوش تو نہ ہونگے ۔انشاء اللہ تعالیٰ کوئی بات منہ سے گناہ کی نہ نکلے گی ۔اور اگر پھر بھی طبیعت میں ایسی بات کرنے کا تقاضا ہو تو اس وقت ہمت سے کام لے ،اگر کوئی بات ایسی منہ سے نکل جائے تو اس کا تدارک اس طرح کرے کہ فوراً توبہ کرے اور اگر کسی کو گالی دی ہو یا کسی سے تمسخر کیا ہو ،یا چغل خوری یا غیبت کی ہو تو توبہ کے بعد اس صاحب حق سے بھی معافی مانگے اور اگر کسی وجہ سے معاف کرانا دشوار ہو تو اس شخص کے لئے اور اس کے ساتھ اپنے لئے استغفار کرتے رہیں ۔اس طرح "اَلّٰلھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلَہُ" یعنی اے اﷲ ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔حضرت شیخ قرید الدین عطار (رحمۃ اللہ علیہ) نے ان دو شعروں میں خاموشی کے فوائد کے مضمون کو کس کمال جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے

بطبعم ہیچ مضمون بہ زلب بستن نمی آید

خموشی معنئی دارد کہ در گفتن نمی آید
خموشی سے مرے دل نے کوئی بہتر نہیں سوجھا

فوائد اس کے اتنے ہیں زبان پر آنہیں سکتے

یعنی میرے ذہن میں خاموشی سے بہتر کوئی مضمون نہیں آتا اور خاموشی اتنے فوائد رکھتی ہے کہ ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔

سینہ ہارا خامشی گنجینئہ گوہر کند

یاد دارم از صدف ایںنکتہئ سر بستہ را
خامشی سینے کو گوہر سے مزین کرتی ہے

راز سربستہ کو سیپی نے جو کھولا ہے یہی

مطلب یہ ہے کہ سیپی پانی کے قطرے کو اپنے اندر لے کر بند ہو جاتی ہے تو وہ پانی کا قطرہ موتی بن جاتا ہے ،اس طرح انسان کا سینہ بھی لب بند کرنے سے حکمت کے موتیوں کا خزانہ بن جاتا ہے ۔

(4)قلت اختلاط مع الانام(لوگوں کے ساتھ کم ملنا جلنا)

یعنی لوگوں سے غیر ضروری میل جول نہ بڑھانا ،یاد رکھنا چاہئے کہ ماسوا اللہ سے تین قسم کے تعلقات ہیں ۔

(1)تعلق محمود جس کا شریعت نے امر فرمایا ہے وہ تو عین اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے ۔اس کو ختم کرنا ناجائز ہے

(2)تعلق مذموم جس کی شریعت میں ممانعت ہے ۔اس کو ختم کرنا واجب ہے

(3)تعلق مباح ،جو نہ طاعت ہے نہ معصیت ،اس کو بالکل ختم کرنا ضروری نہیں البتہ اس کو کم کرنا ضروری ہے

جہاں تعلق کو ختم کرنے کی تعلیم ہے وہاں مراد تعلق محمود نہیں بلکہ مذموم و مباح ہے ۔مگر مذموم کو تو ترک کیا جائے گا اور مباح کو کم کرنا ہوگا اور جب تک نسبت مع الخالق راسخ نہ ہو ،تو مخلوق کے ساتھ بلا ضرورت تعلق سراسر نقصان ہے اور جو فائدہ اس میں سوچا جاتا ہے کہ اس میں مخلوق کے حقوق کی ادائیگی ہے تومخلوق کا حق بھی جبھی ادا ہوتا ہے کہ نسبت مع الخالق راسخ ہو جائے ۔ورنہ تو نہ تو حق خالق ادا ہوتا ہے اور نہ حق خلق ۔یہ ایک کا نہیں بلکہ ہزاروں اہل بصیرت کا تجربہ ہے ۔اور ہم سے زیادہ اہل تمکین نے ایسے تعلقات کو چھوڑ دیا ۔حضرت ابراہیم بلخی(رحمۃ اللہ علیہ) و حضرت شاہ شجاع کرمانی(رحمۃ اللہ علیہ) کے واقعا ت معلوم ہیں ۔خلفائے راشدین پر اپنے کو قیاس نہ کیا جائے ۔

کارِ پاکاں را قیاس از خود َیگر

خو د کو پاکوں پہ خود قیاس نہ کر

قول فیصل اس خلوت کے بارے میں یہ ہے کہ جس شخص کو کوئی ضروری حاجت دینی یا دنیوی نہ دوسروں سے متعلق ہو اور نہ دوسروں کی کوئی ایسی دینی یا دنیوی حاجت اس شخص سے متعلق ہو۔اس کے لئے خلوت جائز ہے ،بلکہ افضل ہے ۔خصوصاً ایام فتن و شرور میں جب کہ اختلاط کے خلجانات و تشویشات و ایذاؤں پر صبر کرنے کی توقع و ہمت نہ ہو ۔احادیث میں جو ترغیب خلوت کی آئی ہے ۔وہ ایسی ہی حالت میں ہے ۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے "وَرَجُلٌ مُعْتَزِلٌ فِی شَعْبِ جَبَلٰ لَّہُ غُنَیْمَۃٌ یُوئَدِّی حَقَّھَا وَیَعْبُدِاﷲَ" دوسری حدیث میں ہے کہ " یُوْ شِکُ اَنْ یَّکُوْنَ خَیْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَیْبَعُ بِھَا شِعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ القَطْرِ یَضِرُّ بِدِیْنِہٰ مِنَ الفِتْنِ۔(اخرجہ البخاری)" یعنی ایسا وقت نزدیک آنے والا ہے کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی ،جن کو لئے لئے پہاڑیوں کی چوٹیوں اور بارش کے جمع ہونے کی جگہوں یعنی (نالوںمیں جبکہ وہ خشک ہو جائیں )اپنے دین کو لئے ہوئے فتنوں سے بھاگا بھاگا پھرے گا ۔(روایت کیا اس کو بخاری نے ) اصحاب کھف کے واقعے سے بھی سبق حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

اور جس شخص کو دوسرے سے یا تو کوئی حاجت ضروری ہو ،خواہ دنیوی ہو جیسے اہل عیال کے لئے نفقہ کی تلاش جبکہ توکل پر قادر نہ ہو یا دینی ہو ،مثلاً تحصیل علوم ضروریہ ۔اس کے لئے خلوت جائز نہیں ۔اس طرح اگر اس کے ساتھ خلائق کی حاجات دنیوی یا دینی متعلق ہوں تو بھی خلوت جائز نہیں اور بعض احادیث سے جو خلوت کی ممانعت مفہوم ہوتا ہے ،وہ ایسی ہی دونوں حالتوں پر محمول ہے ۔جیسا کہ حضرت عثمان ابن مظعون کو تبتل سے منع فرمایا گیا کہ اس وقت ان کو بھی تحصیل علوم دین کی حاجت تھی ۔ادھر مسلمانوں کو بھی ان کی طرف دینی حاجت تھی بالخصوص اعلائ کلمۃ اللہ و ترقی اسلام ان کی بہت بڑی ضرورت تھی ۔ یہ تفصیل اس خلوت کے بارے میں ہے جس کو دائمی طور پر اختیار کرناہو۔اگر اس سے مراد خلوت چند روزہ ہوتو اس کی ضرورت بسا اوقات مبتدی سالک کے لئے واقع ہوتی ہے ۔

خلوت کے فائدے

گناہوں سے بھی اجتناب ہوتا ہے ۔بشرطیکہ ایسی گوشہ نشینی ہو جس میں نگاہ کی بھی حفاظت ہو ،کان کی بھی حفاظت ہو ،دل کی بھی حفاظت ہو ،قصداً کسی غیر کا خیال دل میں نہ لائے ،اگر آجائے تو ذکر میں مشغول ہو کر اس کو دفع کر دے ۔ایسی عزلت یعنی گوشہ نشینی میں واقعی گناہوں سے بہت حفاظت ہوگی ۔اور ظاہر ہے دفع مضرت جلب منفعت پر مقدم ہے یعنی موہوم فائدے پر یقینی نقصان سے بچنا مقدم ہے تو ایسی صورت میں گوشہ نشینی اختلاط پر مقدم کیوں نہ ہوگی ۔جبکہ اختلاط میں گو منافع بہت ہیں مگر ساتھ ہی یہ نقصان بھی ہے کہ اس میں اکثر گناہ ہو جاتے ہیں۔دوسرے اختلاط کے ساتھ قلت کلام بہت دشوار ہے ۔یہ کام صدیقین و کاملین کا ہے ورنہ اکثر اختلاط میں فضول باتیں بہت کرنی پڑتی ہیں ۔جن لوگوں کا وقت خلوت کے لئے مخصوص نہیں ہوتا ،رفتہ رفتہ ان کا قلب انوار سے بالکل خالی ہو جاتا ہے ۔

اختلاط کے فوائد

اور جن حالات میں بعض افراد کے لئے جلوت یعنی اختلاط مفید ہے ان کے لئے اس کے یہ فوائد ہیں ۔

اول:- تعلیم و تعلم اس پر موقوف ہے ۔گوشہ نشینی سے تعلیم و تعلم کا باب بند ہو جاتا ہے ۔

دوم:-اختلاط میں خدمت خلق کا موقع ملتا ہے ۔

سوم:-جماعت کی فضیلت اختلاط ہی سے حاصل ہوسکتی ہے ،جو شخص گوشہ نشین ہوگا وہ جماعت کا ثواب اور خدمت خلق کی فضیلت سے محروم رہے گا ۔

چہارم:-اس سے تواضع پیدا ہوتی ہے ۔

پنجم :-دین کا فیض ہوتا ہے ۔ اختلاط کے بغیر بزرگوں سے فیض حاصل کرنا دشوار ہے ۔

نتیجہ مختصر :سالکین کے لئے تو شیخ یہ تجویز کرے گا کہ اس کے لئے کن حالات میں خلوت مفید ہے اور کن حالات میں جلوت کیونکہ ہر ایک کے حالات مختلف ہوتے ہیں جن کا کسی کتاب میں احاطہ ممکن نہیں ۔ مشائخ کے لئے البتہ افادے کے لئے جلوت مفید ہوتا ہے لیکن نسبت مع الخالق کو تازہ رکھنے کے لئے کچھ وقت بالخصوص رات کو جس میں افضل ترین رات کا آخری حصہ ہے نکالنا چاہیئے جس میں وہ ہوں اور ان کا اللہ تعالیٍٰ

میان عاشق و معشوق رمزے ست

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

عاشق اور معشوق جب ہوں ہمکلام خلوت میں تو ان کی باتوں کافرشتوں کو بھی علم ہوتا نہیں تاکہ دل کا چشمہ تازہ پانی سے لبریز ہوتا رہے اور دل روز روز کے ملنے جلنے کی کثافتوں سے پاک ہوتی رہے ۔

طریق کار

ہر کام اپنے اوقات مقررہ پر کریں۔ دنیا کا کام اپنے وقت میں اور وظائف اپنے وقت میں ۔حتیٰ کہ گاہ گاہ لطیف اور مختصر مزاح بھی اپنے اور دوسرے مسلمانوں کی تفریح و تطییب قلب کے لئے اپنے موقع میں کر لینا چاہئے۔اس طرح سب کام چلتے رہیں گے ورنہ بالکل گوشہ نشین ہونے سے بعض اوقات طبیعت میں شوق اور امنگ کا مادہ ضعیف ہو جاتا ہے اور اس کے بغیر کام چلنا دشوار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا سالک کے لئے بہت ہی نافع ہوتا ہے ۔مگر جتنی ضرورت ہو اتنا تو ٹھیک ہے اس سے زیادہ اختلاط نہیں ہونا چاہیئے کہ اس سے روحانی نقصان کا خطرہ ہے ۔سالک کے لئے گوشہ نشینی بہتر ہے۔زیادہ تعلقات نہیں بڑھانے چاہئے نہ دوستی نہ دشمنی ،کہ ذکر اللہ میں خلل ہوگا ۔جب تک خلوت میں دل خدا تعالیٰ کے ساتھ لگا رہے ،خلوت میں رہے اور جب خلوت میں انتشار اور ہجوم خطرات ہونے لگے تو مجمع میں بیٹھے ۔اس سے خطرات دفع ہونگے اور اس وقت یہ جلوت بھی خلوت کے حکم میں ہے ۔یہ چار قسمیں قلت کلام ،قلت طعام ،قلت منام اور قلت اختلاط مع الانام مجاھدہ اجمالی کی ہیں ۔اب آگے اخلاق کے بیان میں مجاھدہ تفصیلی کی قسمیں بیان کی جاتی ہیں ۔

فاعلہ

فاعلہ میں بھی دو قسمیں ہیں ۔

(1) جس میں خطرہ نہیں مثلاً ذکر ،شغل اور مراقبہ

(2) جس میں خطرہ ہے مثلاً تصور شیخ ، عشق مجازی اور سماع

ان میں سے ہر دو کو ترتیب سےذکر کیا جا تا ہے ۔

ذکر

ذکر صوفیاء کی اصطلاح میں یہ ہے کہ انسان خدا کی یاد میں تمام غیر خدا کو بھول جاوے اور بحضور قلب خدا کا قرب نزدیکی اور معیت حاصل کرے جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد خدا وندی بلسان جبریل و رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "اَنَا مَعَ عَبَدِیْ اِذَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّ کَتْ بِیْ شَفَتَا ہُ اَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ " کہ جب میرا بندہ مجھ کو یاد کرتا ہے اور میرے نام سے اس کے ہونٹ ہلتے ہیں تومیں اس کے ساتھ ہو جاتا ہوں اور جو مجھے یاد کرتا ہے میں اس کا ہمنشین ہوں ۔ اور ارشاد ربانی بنصّ قُرآنی ہے کہ "وَسَبَّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاً" اورخدا کی صبح شام تسبیح کیا کرو ۔ نیز فرمایا کہ "فَا ذْکُرُ اﷲَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّ عَلیٰ جُنُوبِکُمْ" پس اٹھتے بیٹھتے ،لیٹتے ہمہ وقت خدا کو یاد کرتے رہا کرو (کما ہوا المحاورۃ) ان آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو ہمہ وقت ذکر مطلوب ہے ۔اس کی مدح بھی ہے، فضیلت بھی ہے اور ترغیب بھی ہے ۔

لہٰذا پوری توجہ سے یاد الٰہی میں اس طرح منہمک ہو جاوے کہ اپنے نفس سے بالکل بے خبر ہو جائے ۔یہ حقیقی ذکر ہے کہ نفس کی خواہش سے کچھ بھی نہ کرے ۔ "کُلُّ مُطِیْعٍ للّٰہِ فَھُوَا ذَا کِرٌ" کے مطابق ہر عمل میں ذکر کا ظہور ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ذکر اللہ ہے ۔

اقسام ذکر

ذکر کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن اس کی دو بڑی قسمیں یہ ہیں۔ ذکر مسنون جو کہ غذا ہے اور ذکر علاج جو کہ دوا ہے۔ چونکہ مقصود ذکر سے مطلوب کا حاصل کرنا ہے ۔اس لئے جس ذکر سے یہ فائدہ و مقصود حاصل ہو جائے وہی ذکر ہے خواہ وہ نماز و روزہ ہو یا ادعیہ ماثورہ و درود شریف اور اوراد مسنونہ ہوں یا کوئی اور ذکر لیکن یاد رہے کہ مقصود اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ذاکر کبر سے نہ نکل جائے ،اپنے آپ کو مٹا نہ دے ،اورکے ذکر میں اس طرح منہمک نہ ہو جائے کہ خود کو اور ہر غیر اللہ کو بھول جائے ۔جب اس طرح ہو جائے گا تو اس پر انوار الٰہیہ کی اس قدر تجلیا ت نازل ہوں گی کہ اس کے حواس خمسہ مغلوب اور مستور ہو جائیں گے ۔اس سے ذکر و ذاکر دونوں فنا ہ ہوجائیں گے اور صرف مذکور ہی رہ جائے گا اور "ا شَھِدَ اﷲُ اَنَّہُ لآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ" میں جو اقرار کیا تھا اس کا مصداق ہو کر عین الیقین بلکہ حق الیقین تک پہنچ جائے گا ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ذکر علاج میں سالک کو لگایا جاتا ہے تاکہ ذکرمسنون اور اعمال مسنون کی تمام برکات اس کو حاصل ہوجائیں۔

یوں تو ذکر کی اقسام بہت ہیں جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا لیکن چونکہ حدیث شریف میں "اَفْضَلُ الذِّکْرَ لآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲٌ " آیا ہے اس لئے اکثر مشائخ اس ذکر سے ابتدائ کرتے اور اس کی تعلیم دیتے ہیں ۔

ذکر ناسوتی ،ملکوتی ،جبروتی ،لاہوتی

ذکر کا مقصد چونکہ بندے کا نفس کی غلامی سے نکل کر نفس کے مالک کا بندہ بننا ہے اس لئے اس میں ترتیب کے ساتھ بندے کو نفس سے نکالنے اور اس کو حق کے پاس لے جانے کا خیال رکھا جاتا ہے جس کے چار مرحلے ہیں ۔ بعض حضرات کے نزدیک اول مرحلہ نفی و اثبات لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ ،دوسرا اثبات اِلاَّ اﷲ،تیسرا اﷲ،اور چوتھا ھو ہے۔ پہلے کو ناسوتی ، دوسرے کو ملکوتی تیسرے کو جبروتی اور چوتھے کو لاہوتی کہتے ہیں۔ جیسا کہ عالم بھی چار ہیں ۔ (1) ناسوت (2)ملکوت (3)جبروت (4)لاہوت

بعض مشائخ کے نزدیک پہلے دو ذکر تو اسی طرح ہیں لیکن تیسرا ذکر اللہ اللہ (پہلے لفظ ذکر کے آخر میں پیش ہے اور دوسرے کے آخر میں جزم )اور چوتھا صرف اسم ذات بسیط بلاتکرار اللہ(جزم کے ساتھ) ہے ۔ بعض نے ذکر لسانی کو ناسوتی ،ذکر قلبی کو ملکوتی ،ذکر روح کو جبروتی اور ذکر سر کو لاہوتی کہا ہے۔ بعض نے ذکر لسانی کو جسمی، فکر کے ذکر کو نفسی، مراقبہ کو ذکر قلبی ، مشاہدہ کو ذکر روحی اور معائنہ کو ذکر سرّی کہا ہے۔

ذکر نا سوتی لآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ ہے کہ اس میں ناسوتی اُمور ،شہوات و لذات و خواہشات یعنی جو جو عالم دنیا سے متعلق ہیں اور نفس کو خود میں مشغو ل رکھتے ہیں ،سے نفی ہے ۔اس سے نکل جانا اوراللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہونا ہے یعنی لا الہ کی تلوار سے غیر اللہ کو فنا کرنا اور الااللہ کی ضرب سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا حاصل کرنا ہے۔ ذکر ملکوتی یعنی اِلاَّ اﷲ سے سے اس حقیقت کا ادراک حاصل کرنا ہے کہ ہم تو صرف اللہ کے لئے ہیں جیسا کہ فرشتے صرف اللہ تعالیٰ کے امر کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں اور ان کا کسی اور طرف دھیان ہی نہیں ہوتا تو اس طرح ہمارا بھی دھیان صرف اللہ کی طرف ہو اور غیر اللہ کی طرف التفات کا شائبہ بھی نہ ہو حتی کی اس کی نفی کی طرف بھی خیال نہ ہو۔

ذکر جبروتی اﷲُ اﷲْ سے مراقبہ ذات مع صفات عظمت و احسان و رحمت و شفقت وغیرہ ہو یعنی حق کا ادراک دمادم ایسا ہو کہ ہر دم اس ادراک میں ترقی ہو اور قلب و ذہن اس میں مشغول ہو۔ ذکر لاہوتی اﷲ کا مقصد محض اللہ کی ذات کی طرف ایسی توجہ ہے کہ اس کی صفات کی طرف بھی دھیان نہ ہو ۔ بعض حضرات ذکر جبروتی’’ اللہ ‘‘ کے ذکر کو اور ذکر لاہوتی ’’ہو ‘‘ کے ذکر کو قرار دیتے ہیں۔ پہلا طریقہ عموماً اہل چشت کے ہاں ہوتا ہے اس کو بارہ تسبیح بھی کہتے ہیں ۔یہ حضرات پہلے دو سو بار ذکر ناسوتی ،چار سو بار ذکر ملکوتی ،چھ سو بار ذکر جبروتی اور سو بار لاہوتی کراتے ہیں لیکن ذکر لاہوتی میں سالک کی استعداد کے مطابق روز افزوں ترقی کراتے کراتے اس کو بعض اوقات 24ہزار تک بھی لے جاتے ہیں۔

دوسرا طریقہ عموماً قادریہ حضرات کے نزدیک چلتا ہے ۔ ذکر علاجی میں اجتھاد جاری ہے ۔ ایک انتہائی ضروری امر کی تشریح یہاں پر کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام طریقے اجتھادی ہیں ۔جیسے طب میں ہر حکیم مجتھد ہوتا ہے اس طرح ظب روحانی یعنی تصوف میں ہر شیخ مجتھد ہوتا ہے یعنی وہ تصوف کے مسلمہ قواعد سے کام لے کر وقت اور سالک کی استعداد کو پیش نظر رکھ کر اس کے لئے جو مفید سمجھتا ہے تعلیم کرتا ہے اس لئے اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں البتہ یہ شیخ کے اپنے فائدے کی بات ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو اچھی طرح پوری کرنے کے لئے اگر دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے تو اس سے فائدہ ممکن ہے ۔اسی مقصد کے پیش نظر کتابیں لکھی جاتی ہیں جس میں یہ کتاب بھی ہے۔

ذکر نفی و اثبات یعنی لاالہ الااﷲ کا طریقہ:کتابوں میں جو طریقہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ لآ اِلٰہَ کے لآ کو ناف سے ذرا طاقت سے کھینچ کر لفظ اِلٰہَ کو داہنے بازو تک لے جا کر سر کو پیٹھ کی طرف تھوڑا سا جھکا کر یہ خیال کرے کہ میں نے غیر سے اپنے دل کو پاک کر کے تمام اغیار کو پس پشت ڈال دیا پھر اِلاَّ اﷲْ کی ضرب ذ را زور سے دل پر لگائے یہ دو سو بار کہے اس طرح کہ ہر دس بار یا سانس ٹوٹنے پر محمد الرَّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہے ۔آج کل کے حالات کے پیش نظر ہمارے شیخ مولانا محمد اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس میں یہ ترمیم فرماتے تھے کہ لا کو ناف سے طاقت کے ساتھ کھینچ کر الا اللہ سے دل کو دائیں بائیں یو ں ہلائے کہ جس سے نفی کی قلبی کیفیت پیدا ہوجائے یعنی اس کے ساتھ ہی یہ سوچے کہ میرے دل سے غیر اللہ کی محبت نکل گئی اور الا اللہ سے دل پرسینے کی اندرون سے ایسی ضرب لگائی جائے کہ اس سے یہ کیفیت پیداہوجائے کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگئی۔حضرت فرماتے تھے کہ آج کل لوگ خارجی ضرب کے متحمل نہیں۔

وضاحت

لآ اِلٰہَ کہتے وقت مبتدی لا معبود سوچے، متوسط لا مقصود یا لا مطلوب سوچے اور منتہی کامل لا موجود کا تصور کرے اور تھوڑی دیر مراقب ہو کر خیال کرے کہ فیوضات الٰہیہ قلب میں مسلسل حاصل ہو رہے ہیں اور تصور کرے کہ فیضان الٰہی عرش سے میرے سینہ میں آ رہاہے خواہ چوکڑی بھر کر بیٹھے یا دو زانو جس میں سہولت ہو،ذوق کے مطابق کرے ۔ ذکر الاّاﷲ کا طریقہ : کتابوں میں اِلاَّ اﷲ کے ذکر کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی بار لآ اَلٰہَ کہتے وقت ناف سے کھینچ کر سر کو دائیں شانہ کی طرف لے جا کر اِلاَّ اﷲ کی ضرب دل پر لگائے ۔اور پھر دل پر ہی بائیں جانب ضرب لگاتا رہے ۔ یہ ذکر چار سو بار کرے پھر نفی و اثبات کی طرح مراقبہ کرے ۔آج کل کے حالات کے پیش نظر یہ مناسب ہے کہ الااللہ کہتے ہوئے ضرب دائیں شانے کی جانب سے لیکن سینے میں دل کے قریب سے دل پر ضرب لگائی جائے ۔اس میں مراقبہ ملکوتی ہی مناسب ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے بندے ہیں ۔اس طریقے سے نہایت آسانی کے ساتھ مطلوبہ کیفیت حاصل ہوجاتی ہے ۔اس لئے بہت زور دار ضرب لگانے کی آج کل ضرورت نہیں بلکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے۔

ذکر اسم ذات دو ضربی

اﷲُ اﷲْ اول ’’ہ‘‘ پیش کے ساتھ اور دوسری ’’ہ‘‘ جزم کے ساتھ۔اس کا کتابوں میں لکھا ہوا طریقہ یہ ہے کہ دونوں آنکھیں بند کر کے سر داہنے کندھے کی طرف لے جا کر اﷲُ پیش کے ساتھ دل پر ضرب لگایا جائے اور دوسرے لفظ اﷲْ (جزم کے ساتھ) سے بھی دل پر ضرب لگایاجائے ۔یہ چھ سو بار ہے ۔پھر اس طرح مراقبہ کرے کہ ہر دس یا زائد کے بعد اﷲُ نَاظِرِیْ اَﷲُ حَا ضِرِی اَﷲُ مَعِی کہتا رہے تاکہ کیفیت و لذت اس کی حاصل ہو ۔اس میں بھی آج کل بہتر یہی ہے سر کو ہلائے بغیر جہاں سے الا اللہ کے ضرب کا بتایا گیا وہیں سے یعنی سینے میں دائیں شانے کی جانب سے مگر قریب سے دل پر ضرب لگائی جائے ۔ ذکر اسم ذات یک ضربی :اس کا طریقہ کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ لفظ اﷲْ جزم کے ساتھ سر کو بائیں جانب لے کر دل پر ضرب کرے ۔یہ سو بار ہے ۔پھر مراقب ہو کر اس طرح کہے ، اﷲُحَاضِرِی (اللہ مجھ کو دیکھ رہا ہے )،اﷲُ نَاظِرِی (اللہ میرے پاس ہے )،اﷲُ مَعِی (اللہ میرے ساتھ ہے )۔اور معنی کا خیال کرے ۔ آج کل اس کے لئے بھی مناسب یہ ہے کہ یہ مراقبہ کرے میرا اللہ میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور میرا دل بھی اس کی طرف متوجہ ہے اور میری زبان کے ساتھ مل کر اللہ اللہ شوق میں کررہا ہے ۔ اس میں اوپر کے مراقبے بھی آگئے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ قلبی بھی حاصل ہوگئی۔جو تصور ذات بخت کا پیش خیمہ بنے گا انشاء اللہ۔

ایک اور تشریح

بعض مشائخ نے اس کی تشریح یوں بھی کی ہے کہ سالک ذکر نفی و اثبات لآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ میں اس قدر مشغول ہو کہ سوائے ذکر کے کچھ نہ رہے ۔کوئی سانس بغیر ذکر نہ نکلے ۔جب اس حالت کو سالک پہنچ گیا تو عالم مادیت ،عالم اجسام سے تجاوز کر کے مرتبہ لطیفہ پر پہنچ جائے اور اب بجز اِلاَّ اﷲ کے اثبات کے تمام کی نفی ہو جاتی ہے ۔ اب یہ مرتبہ نفس سے نکل کر لطیفہ قلب کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ۔چونکہ یہ ذکر اِلاَّ اﷲ دل کا ذکر ہے اس لئے اب اِلاَّ اﷲ کا تصور بحضور قلب چاہئے کہ اپنی ذات و صفات کو اللہ کی ذات و صفات کے ساتھ ربط ہو جاوے ۔جب سالک اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے تو مرتبہ دل سے گذر کر مرتبہ روح پر پہنچ جاتا ہے ۔اور روح کا ذکر اسم ذات اللہ کا ذکر ہے اس واسطے اس ذکر اسم ذات میں اس طرح انہماک ہو کہ الف لام جو اللہ پر داخل ہے باقی نہ رہے صرف ھو رہ جائے ۔اس مرتبہ پر پہنچنے سے سالک سراپا ذکر ہو جائے گا اور روح سے ترقی کر کے مرتبہ سر پر پہنچ جائے گا اور مقام فناء الفناء پر فائز ہو جائے گا

۔اب سالک کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ اب وہ مصداق حدیث شریف " بِیْ یَسْمَعُ وَبِیْ یبْصر" ہو گا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب وہ میرے ساتھ سنتا ہے میرے ہی ساتھ دیکھتا ہے "وَبِیْ یَبْطِشُ " میرے ہی ساتھ پکڑتا ہے "وَبِیْ یَمْشِیْ " میرے ہی ساتھ چلتا ہے یعنی اس کا ہر حرکت و سکون خدا کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے ۔ (دیکھنے میں بشر ہے لیکن بے شر ہے ۔سراپا نور ہے )اب اس کو لا الہ الا اللہ کی خوب معرفت ہو جائے گی ۔عبدیت کاملہ حاصل ہو جائے گی ۔عبدیت میں درجہ کمال اور بصرف ہمت عبادت میں مشغول ہو گا ۔حفظ مراتب اور احکام شریعت کا امراً و نہیاً اُمتثال کرے گا

ذکر جلی و خفی

ذکر لسانی کو جلی اور ذکر قلبی کو خفی کہتے ہیں ۔اور یہ بھی ہے کہ جہر کو جلی اور غیر جہر کو خفی کہتے ہیں ۔ذکر جلی کی ادنیٰ حد تو متعین ہے وہ زبان کو حرکت دینا یا اپنے آپ کو سنانا ہے لیکن اکثر کی کوئی حد نہیں یہ اپنے اپنے نشاط پر ہے مگر اس کا خیال ضروری ہے کہ کسی نمازی یا سونے والے کو ایذا نہ ہو ۔

شغل

شغل کی حقیقت اتنی ہے کہ اگر ذکر میں وساوس تنگ کریں اور کسی طرح دور نہ ہوں تو دل کو کسی تدبیر سے جب کسی ایسی چیز کی طرف مائل کیا جائے کہ اس سے یکسوئی حاصل ہو اور وساوس دور ہوں شغل کہلاتا ہے ۔ یاد رکھیئے کہ یہ مقصود نہیں لیکن معاون فی المقصود ہوسکتا ہے ۔اس کی اصل نماز میں نظر کا محبوس کرنا ۔بکائ کی کیفیت کو ضبط کرنا اور سترہ وغیرہ ہے۔حبس دم بھی اس کی ایک قسم ہے ۔یہ گو کہ جوگیوں سے لیا گیا ہے لیکن یہ ان کا کوئی مذہبی شعار نہیں تھا اس لئے ایک تدبیر کے طور پر اس کا لینا جائز تھا جیسا کہ جنگ خندق میں خندق کا کھودنا۔ شغل اسم ذات ۔کاغذ کے ایک ٹکڑے پر دل کی تصویر بنا کر اس پر لفظ ’’اللہ ‘‘ خوبصورت لکھا جائے اور پھر اس کو بغور مسلسل دیکھا جائے حتی ٰ کہ اس کا نقش دل پر جم جائے ۔یا دل پر ایک خیالی قلم سے لفظ اللہ لکھنے کی کوشش کی جائے ۔عموماً اس میں پہلا طریقہ آسان اور دوسرا مشکل ہوتا ہے۔

سلطان الاذکار

اس کے کئی طریقے ہیں ۔ایک طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے سے حجرہ میں جہاں شور و غل نہ ہو داخل ہو کر درود شریف اور استغفار اور اعوذ باﷲ پڑھ کر "اَللّٰہم اَعْطِیْ نُوْراً وَّ اجْعَل لِّیْ نُوْراً وَّ اَعْظِمْ لِیْ نُوْراً وَّ اجْعَلْنِیْ نُوْراً" تین بار حضور قلب وتصور کے ساتھ کہے پھر خواہ لیٹ کر یا بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر بدن کو ہلکا کرے اور مردہ تصور کرے اور پورا متوجہ اور باہمت ہو جاوے اس کے بعد سانس لیتے وقت اللہ کا اور سانس باہر نکالتے وقت ہو کا تصور کرے اور خیال کرے کہ سانس لیتے وقت اور باہر نکالتے وقت ہر بال بال سے ہو نکل رہا ہے ۔یہاں تک مشغول ہو کے کہ اپنا خیال تک بھی جاتا رہے اور "ھُوَا الْحَیُّ الْقَیُّومْ " کا ہر وقت تصور قائم ہو جاوے انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح سے کچھ عرصہ بعد جسم کا ہر رواں رواں ہر ہر بال ذاکر ہو جائے گا ۔اور انوار تجلی سے منور ہو جائے گا ۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حواس خمسہ کو روئی سے یا انگلیوں سے اس طرح بند کرے کہ دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے سوراخوں میں دے اور دونوں انگلیاں شہادتین کی دونوں آنکھوں کے پپوٹے پر رکھے اور دونوں انگلیاں بیچ کی دونوں نتھنوں پر رکھے اور دونوں انگلی چھنگلی کے پاس کی اوپر کے ہونٹ پر اور چھنگلی نیچے کے ہونٹ پر رکھے اوراکڑوں بیٹھ کر یا جس طرح بیٹھنے کی سہولت ہے بیٹھ کر زبان کو تالوے سے لگائے اور آہستہ آہستہ سانس لے کر حبسِ دم کرے یعنی سانس کو روکے اور لفظ اللہ خیال سے بلا حرکت لسان ناف سے کھینچ کر ام الدماغ یعنی بیچ سر میں روکے ۔جب تک بلا تکلف رک سکے اور وہاں سے دل مُدَوَّر میں لے جا کر اسم ذات ’’اللہ ‘‘خیال سے کہتا رہے ۔جب سانس لینے کا تقاضا ہو تو صرف نتھنوں سے انگلیاں ہٹا کر ناک سے آہستہ سانس چھوڑے تین سانس لے کر پھر حبس دم کرے اور پھر ایک ایک سانس بڑھا کر تحمل کی مقدار کو پہنچا دے ۔

شغل سلطاناً نصیراً

اس کا طریقہ یہ ہے کہ صبح شام رو بقبلہ دونوں زانوں بیٹھے اور اطمینان خاطر سے دونوں آنکھیں یا ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ سے ناک کے نتھنے پر نظر ڈالے اور بغیر پلک جھپکائے جس طرح چراغ یا ستارہ کی روشنی کو دیکھتا ہے غیر معین نور کا تصور کرے اور استغراق ایسا ہو کہ وہ محو ہو جائے ۔ ابتداء میں تو آنکھوں میں ضرور تکلیف ہو گی اور پانی بہے گا لیکن چند دن کے بعد جب عادت ہو جائے گی تو یہ تکلیف جاتی رہے گی اور اس کو اپنی صورت جس طرح آئینہ میں نظر آتی ہے نظر آنے لگے گی اور نور الٰہی سے منور ہو جائے گا ۔خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا ہے کہ اس شغل کے فوائد بہت ہیں خصوصاً خطرات کے انسداد میں عجیب و غریب تاثیر رکھتا ہے ۔

شغل سلاطاناً محموداً

اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح سلطاناً نصیراً کے ذکر میں نتھنوں پر نظر رکھتے ہیں اسی طرح اس شغل میں دونوں بھوؤں کے بیچ نظر رکھتے ہیں ۔ اس شغل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذاکر کو اپنا سر نظر آنے لگتا ہے اور جب سر نظر آنے لگتا ہے تو عالم بالا کے حالات سے مطلع ہو جاتا ہے ۔

شغل سہ پایہ

شغل سہ پایہ "اﷲُ سَمِیْعٌ " "اﷲُ بَصِیْرٌ" "اﷲُ عَلِیْمٌ" کا ذکر ہے ۔طریقہ اس کا یہ ہے کہ چار زانو بیٹھ جائے اور سلطاناً نصیراً کا تصور کرے اور سانس روک کر ناف سے لے کر ام الدماغ تک پہنچائے جب سانس ام الدماغ میں پہنچے تو "اﷲُ سَمِیْعٌ" کہے اور " بِیْ یَسْمَعُ" کا تصور کرے پھر "اﷲُ بَصِیْرٌ " کہے اور " بِیْ یَبْصُرْ " کا تصور کرے پھر ناف پر "اﷲُ عَلِیْمٌ " کہے اور " بِیْ یَنْطِقُ " کا تصور کرے پھر اس کے بعد اس طرح شروع کرے کہ ام الدماغ میں "اﷲُ عَلِیْمٌ " اور ناف پر "اﷲُ سَمِیْعٌ " عروج و نزول کے طریقہ پر کہے یہاں تک کہ ایک سانس میں ایک سو ایک بار شغل سہ پایہ کرنے لگے ۔

تحقیق

یہ شغل لکھ دئے ہیں جس کی صحت عمدہ ہو ،اعصاب میں ضعف نہ ہو اور سالک چاہے تو کرے لیکن شیخ کی تجویز ہر حالت میں ضروری اور مقدم ہے ،اطلاع اور اتباع اصل ہے ۔ ذکر و شغل یک ضربی ،چہار ضربی ،پنج ضربی شش ضربی اور ہفت ضربی بھی ہے ۔ لیکن اب بس یک ضربی اور دو ضربی پر کفایت ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ حسب بیانِ سابق کافی و وافی ہے ۔

پاس انفاس

انسان کو ہر سانس پر ہوشیار و بیدار رہنا چاہئے ۔بغیر پاس انفاس کی مدد کے انسان کا دل کدورتوں ظلمتوں سے ہر گز صاف نہیں رہ سکتا ۔

لطأف کا ذکر

لطائف جمع کا صیغہ ہے ۔اس کا واحد لطیفہ ہے ۔یعنی وہ چیز جس میں کثافت نہ ہو مراد ان سے وہ چیزیں ہیں جو مادی نہ ہوں ۔مادہ سے محرّد اور خالی ہوں ۔غیر مادی قوتیں جن کو انسانی اعضاء سے تعلق ہوتا ہے ،ان کی تعداد چھ ہے ۔ (۱)لطیفہ نفس (۲)لطیفہ قلب (۳)لطیفہ روح (۴)لطیفہ سرّ (۵) لطیفہ خفی (۶) لطیفہ اخفیٰ

محققین اہل فن تصوف نے ان ک ے مقامات اور مواقع بھی متعین فرمائے ہیں ۔اور ان کے رنگ وغیرہ بھی بیان فرمائے ہیں اور افعال و آثا ر بھی ۔چنانچہ کہا ہے کہ لطیفہ نفس کا محل ناف کے نیچے ہے اور اس کا رنگ زرد ہے ۔بعض نے پیشانی میں بتایا ہے اور لطیفہ قلب کا محل قل دل ہے جو بائیں پستان کے دو انگل نیچے ہے ۔اور اس کا رنگ سرخ ہے ۔اور لطیفہ روح کا محل دائیں پستان کے دو انگل نیچے دل کے بالکل سامنے ہے (اسی لئے لطیفہ قلب اور لطیفہ روح دونوں کا ذاکر بنانے کے لئے دو ضربی ذکر کیا جاتا ہے )۔اس کا رنگ سفید ہے ۔لطیفہ سرّ کا محل قلب اور روح کے درمیان سینہ کے بیچوں بیچ ہے ۔اس کا رنگ سبز ہے ۔لطیفہ خفی کا محل دونوں ابروؤں کے درمیان ہے اس کا رنگ نیلگوں ہے ۔ لطیفہ اخفیٰ کا محل ام الدماغ ہے جو کہ دماغ میں ایک نقطہ ہے جس کو جوہر دماغ کا مرکز کہا جاتا ہے ۔ اس لطیفہ کا رنگ سیاہ ہے ۔جیسے آنکھ کا تارا۔

افعال لطائف ستہ

لطائف کی تعداد اور ان کے محال اور الوان بیان ہو چکے ا ب ان کے افعال بیان کئے جاتے ہیں ۔ نفس امّارہ ،لوّامہ ،مطمئنہ اول لطیفہ نفس ہے ۔جس کے تین درجے ہیں ۔ (۱)نفس امارہ ،(۲)نفس لوامہ اور(۳) نفس مطمئنہ۔

نفس کا اصل فعل غفلت اور شہوت ہے کیونکہ غفلت اور شہوت میں تلازم ہے یعنی غفلت سے شہوت پیدا ہوتی ہے اور شہوت سے غفلت ۔یہ غفلت و شہوت کلی مشکک ہے ۔اس لئے اس کے افراد شدت و ضعف میں مختلف ہیں ۔علاج بضد کے قانون کے مطابق نفس کی اصلاح مجاہدات و طاعات سے ہوتی ہے یعنی ریاضت و تقویٰ سے شہوت و غفلت میں کمی ہو جاتی ہے اس کمی کا نام سکون ہے جس کے تین درجے ہیں ۔

(1) عدم سکون مطلاقاً (2)غیر کامل و غیر وتام (3)سکون کامل و تام

پہلے درجے میں نفس کا نام امارہ با سوئ ہے ۔دوسرے درجے میں اس کا نام لوامہ ہے ۔اور تیسرے درجے میں اس کا نام مطمئنہ ہے ۔اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ نفس فی الاصل تو لذات کا طالب ہوتا ہے اس لئے غفلت اور شہوت کی وجہ سے گناہ کی طرف مائل کرتا ہے اس حالت میں یہ نفس امارہ بالسوئ کہلاتا ہے کیونکہ ہمیشہ سوئ اور قباحت و شناعت کی راہ میں مبتلا رہتا ہے ۔ جب کوئی شخص مجاہدہ کرتا ہے تو یہ نفس پر شاق ہوتا ہے لیکن مسلسل مجاہدے کے ساتھ نفس کچھ عادی ہوتا چلا جاتا ہے اگر اس مقابلے میں بالکل مغلوب نہیں ہوتا بلکہ کبھی غالب کبھی مطیع کبھی مطاع ہوتا ہے تو اس حالت میں نفس لوامہ کہلاتا ہے کیونکہ اس حالت میں اور اس درجہ میں نفس افعال شنیعہ کے ارتکاب سے نادم بھی ہوتا ہے اور اپنے آپ کو ملاُمت بھی کرتا ہے اور اگر مزید مقابلہ مقابلہ کرتے کرتے نفس بالکل مغلوب ہو گیا اور اس میں بالکل شان اطاعت پیدا ہو گئی تو پھر نفس مطمئنہ کہلاتا ہے کیونکہ یہ حالت اطمینان کی ہے ۔صدور شر سے اطمینان ہو گیا ۔یہ نفس کے تین درجے ہوئے ۔

نوٹ:

نفس مطمئنہ اُمور خیر میں مزاحمت و مقاومت تو نہیں کرتا مگر اس کو وساوس و خطرات پیش آ جاتے ہیں ۔جس سے انسان کی ترقی اور اس کے کمال میں ازدیاد ہوتا ہے ۔جیسے شائستہ تعلیم یافتہ گھوڑا کبھی کبھی شوخی کرتا ہے لیکن سوار کے اشارہ ہی سے درست ہو جاتا ہے اسی طرح نفس مطمئنہ وساوس و خطرات کے درجہ میں کبھی کبھی خفیف و ضعیف مقاومت کرتا ہے لیکن سالک کے اشارہ پر درست ہو جاتا ہے ۔تو چونکہ نفس مقاومت کو کالعدم قرار دیا ہے اور اس حالت کو سکون تام سے تعبیر کیا گیا ہے یہ لطیفہ نفس کے فعل کا حال بیان کیا گیا ہے ۔

اب باقی پانچ لطائف کا فعل جو سب میں مشترک ہے بیان کیا جاتا ہے ۔وہ فعل مقصود حقیقی کی طرف توجہ اور اس کا تصور ہے اسی تصور کو ذکر ،یاد ،دھیان ،وغیرہ الفاظ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے تو ان پانچ لطائف کے فعل تصور کی اصل حقیقت اس قدر ہے کہ نفس ذات باری تعالیٰ کا تصور ذہنی اور ذکر مفرد کیا جائے اور لفظ اللہ کے لئے کسی صفت کا تصور جیسے اللہ قادر ، اللہ علیم ،اللہ سمیع ،اللہ بصیر وغیرہ کہنا اصل ذکر کے تحقق کے لئے لازم نہیں ۔بس لفظ اللہ ہی کافی ہے ۔کیونکہ بالاتفاق ایسا ذکر یا اس کا تصور جائز ہے ۔ کیونکہ علماء کرام کا ذکر قلبی جس میں کسی صفت کا ذکر نہ ہو کے جائز ہونے پر اتفاق ہے تو اس سے اس کا ذکر لسانی میں بھی جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ ذکر لسانی تو ذکر قلبی ہی کی حکایت ہے ۔اور حکایت اگر محکی عنہ کے مطابق ہو تو اس میں کیا خرابی ہو سکتی ہے اس کو یوں سمجھو کہ تصور کے درجات مختلف ہیں ۔

ذکر. حضور . مکاشفہ . شہود . معائنہ.

مثلاً(1)ایک شخص محبوب ہے جو موجود و حاضر نہ ہو بلکہ غائب اور غیر موجود ہو اس کو یاد کیا جائے

(2)وہ محبوب سامنے موجود ہو لیکن مسافت بعیدہ پر ہو جس سے خط و خال اچھی طرح نظر نہ آ سکیں اس کا تصور کیا جائے

(3)وہ سامنے مسافت قریبہ پر ہو جس سے خط و خال اچھی طرح نظر آ سکیں اس کا تصور کیا جائے۔

(4)وہ شخص بالکل قریب موجود ہو اس کے تصور و دیدار میں اس قدر محویت ہو جائے کہ فرط عشق و محبت کی وجہ سے اپنی بھی خبر نہ رہے ۔

(5) پانچویں وہ محویت یہاں تک ترقی کرے کہ بے خبری کی بھی خبر نہ رہے ۔

یہ تصور کے پانچ درجات ہیں ۔ ان میں چوتھا اور پانچواں درجہ اونگھ اورنیند کے مشابہ ہے کیونکہ اونگھ میں اونگھنے والے کو یہ علم ہوتا ہے کہ میں اونگھ رہاہوں ۔لیکن جسم و دماغ پر ایک نیم شعوری کی کیفیت چھائی رہتی ہے ۔گو دیگر اشیاء سے لا علمی ہو مگر اس لا علمی کا اس کو علم ہوتا ہے اور پانچواں درجہ بالکل نیندکے مانند ہے کہ سونے والے کو اس کا بھی علم نہیں ہوتا کہ میںسو رہا ہوں بس لا یدری کا پورا مصداق ہوتا ہے ۔ورنہ وہ سونے والا نیند میں نہیں ہوگا ۔کیونکہ نیند کے لئے یہ لازم ہے کہ نیند سے بے خبری ہو ۔جب تمثیل سے اتنی بات سمجھ میں آ گئی تو اب تصوف کے پانچویں اصطلاحی درجوں کو سمجھئے ۔

صوفیاء کے یہاں درجہ اول کا نام ذکر ہے ۔کیونکہ اس میں محض یاد ہے ۔ دوسرے درجے کا نام حضور ہے کیونکہ اس میں متصور کی موجودگی محسوس ہورہی ہوتی ہے ۔ تیسرے درجے کا نام مکاشفہ ہے کیونکہ اس میں متصور کے غایت قرب کی وجہ سے حضور تام اور کامل انکشاف ہوتا ہے ۔ چوتھے درجے کا نام شہود و مشاہدہ ہے کیونکہ صوفیاء کی اصطلاح میں شہود و مشاہدہ حضور اتّم و اکمل کو کہتے ہیں اور اس درجہ میں حضور اتّم و اکمل سے غایت شیفتگی و فریفتگی اور حالت وفور ،والہانہ ہوتی ہے ۔اس درجہ کا نام فناء بھی ہے کیونکہ محویت کی وجہ سے اپنی ہستی کا علم نہیں ہوتا ۔ پانچویں درجہ سے مراد معائنہ ہے ۔معائنہ سے مراد اصطلاحاً وہ حضور و معائنہ ہے جو شہود و اصطلاحی سے زائد ہو اور اس درجہ میں معائنہ شہود اصطلاحی سے زائد ہوتا ہے کیونکہ لا علمی سے بھی لا علمی ہوتی ہے اس وجہ سے اس کا نام فناء الفناء بھی ہے کیونکہ غایت محویت کی وجہ سے اپنی لا علمی کا بھی علم نہیں ہوتا ۔اسی کو کسی نے کہا ہے کہ

تو دَرَوگم شو وصال این است و بس

گم شدن گم کن کمال این ست و بس
ہو فنا ذات میں کہ تو نہ رہے

تیری ہستی کا رنگ و بو نہ رہے

تو تصور مقصود حقیقی کے یہ پانچ درجات ہیں ۔

(1)ذکر (2)حضور ( 3) مکاشفہ (4)شہودو مشاہدہ و فنا (5) معائنہ و فناء الفناء۔

اس کے بعد یہ سمجھئے کہ لطیفہ قلب کا فعل ذکر ہے ۔لطیفئہ روح کا فعل حضور ،لطیفئہ سر کا فعل مکاشفہ ،لطیفئہ خفی کا فعل شہود و مشاہدہ و فناء،اور لطیفہ اخفیٰ کا فعل معائنہ اور فناء الفناء۔ان افعال لطائف و درجات تصور کے حاصل ہونے کے لئے حضرات مشائخ کی تعلیم مختلف طرق سے ہوتی ہے ۔بعض حضرات ،طالبین و سالکین کو ذکر کے مخصوص طرز کے ساتھ اس قدر مشق کرنے کو فرماتے ہیں کہ یہ لطائف خمسہ علیٰحدہ علیٰحدہ ذاکر ہو جائیں ۔یہ سب افعال ان سے صادر ہونے لگیں ۔اور بعض حضرات ،صرف قلب سے ذکر کی مشق کرنے کو فرماتے ہیں ۔جن سے ان سب افعال کا صدور ہونے لگے ۔اس کی بالکل ضرورت نہیں سمجھتے کہ یہ بتایا جائے کہ یہ فعل کس لطیفہ کا ہے ۔کیونکہ یہ حضرات لطائف کی طرف تفصیلی توجہ کو حجاب سمجھتے ہیں ۔حدیث شریف میں بھی قلب کا ذکر وارد ہے ۔ فرمایا کہ " اِنَّ فِی الجَسَدِ مُضْغَۃً اذا صُلُحَتْ صُلُحَ الجَسَدُ کُلُّہُ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ کُلہ اَلاَ وِھیَ القَلبُ۔" تو ایسے اُمور میں صرف قلب ہی کا ذکر وارد ہوا ہے ۔

اور وہ حضرا ت جو لطائف کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں ان کے نزدیک بھی ان لطائف خمسہ میں باہم اتصال ہے ۔اس لئے صرف ذکر قلب سے بھی بقیہ لطائف میں آثار اور افعال مذکورہ سرایت کرتے جاتے ہیں کیونکہ یہ لطائف آپس میں متعاکس ہوتے ہیں کہ آپس میں ایک دوسرے سے انعکاسی طور پر آثار و افعال کو قبول کرتے ہیں جیسے ایک آئینہ پر آفتاب کی شعاعیں واقع ہوں اس کے مقابلے میں دوسرا آئینہ ایسی طرح رکھا جائے کہ آفتاب کا عکس اس آئینہ میں اس آئینہ سے منعکس ہو ۔اس طرح پھر تیسرا پھر چوتھا آئینہ رکھا جائے تو جیسے ایک آئینہ سے دوسرے متصل آئینوں میں نور آفتاب درخشاں ہوتا ہے ایسے ہی ذکر قلبی سے دوسرے لطائف میں بھی آثار مطلوبہ نمایاں ہوتے ہیں ۔

حضرات صوفیاء کے نزدیک حدیث شریف میں جس قلب کا ذکر ہے ،گو اس سے لطیفئہ قلب مراد نہیں ،مضغہ ہی مراد ہے ۔لیکن یہ حکم اصل میں اس لطیفہ کا ہے جس کو اس مضغہ کے لئے غایت تعلق کی وجہ سے ثابت فرمایا ہے جیسے حالت ادراکیہ کو صورت علمیہ سے تعبیر کر دیتے ہیں ۔

یہ گوشت کا دل جسد ظاہری کا جزو اور مادی شے ہے اور جو قلب لطیفہ ہے وہ اور شے ہے ۔وہ مادی نہیں ہے مجرد ہے ۔اس لطیفہ کا دل سے تعلق افاضہ آثار و انوار کا ہے جیسا کہ حکمائ بیان فرماتے ہیں کہ نفس ناطقہ مجرد ہے ،جزو بدن نہیں مگر اس کا تعلق بدن سے تصرف و تدبیر کا ہے تو جس طرح لطیفئہ قلب کو بدن مادی کے ایک خاص جزو یعنی قلب صنوبری سے تعلق ہے اسی طرح بقیہ لطائف اربعہ کو بھی جسم انسانی کے خاص خاص مقامات سے افاضئہ آثار و انوار کا تعلق ہے ۔اسی تعلق کی وجہ سے جب ذاکر لطائف سے ذکر کرنا چاہتا ہے تو ان لطائف کے خاص خاص مقامات جن کو ان لطائف سے تعلق ہے ان کی طرف بھی توجہ کرتا ہے ۔چنانچہ جب لطیفئہ قلب کو ذاکر بنایا جاتا ہے تو قلب صنوبری کی جانب توجہ کی جاتی ہے اسی طرح دوسری لطائف کے ذاکر بنانے میں بھی ان کے محل و مقام کی طرف توجہ کی جاتی ہے البتہ توجہ کے طریقے مختلف ہیں جو عمل کرانے والے کی رائے پر موقوف ہیں وہ جس طریقہ کو مناسب سمجھتا ہے بتا دیتا ہے ۔

اس ذکر لطائف کے سلسلے میں اصل تو ذکر ہی ہے اگرچہ اس کے ساتھ دوسری چیزوں کو بھی بیان کیا جاتا ہے ۔جیسے فکر ،شغل، مراقبہ ،تصور ،یہ سب ذکر ہی کے انواع ہیں ۔ذکر ہی کے ذرائع ہیں ۔ذکر ہی کے رسوخ و ملکہ کے طُرُقْ ہیں ۔ان سب کے مجموعہ کو اہل فن اصطلاحاً ذکر کہتے ہیں ۔ذکر سے مراد وہی ذکر ہے جو شریعت میں مذکور ،ماثور و منقول اور معمول بہٰ اور مقصود ہے اور شغل وغیرہ سے مراد ہیئیت ذکر ہے گویا کہ وہ ذکر کی علت صوریہ ہے یعنی یہ تصور کیا جائے کہ فلاں موقع جو فلاں لطیفہ کا محل ہے ،مشغول ذکر ہے جیسے جارحئہ لسان ذاکر ہے اسی طرح یہ محل بھی ذاکر ہے

مثلاً لطیفہ قلب میں لسانی ذکر کے ساتھ یہ تصور کیا جائے کہ یہ دل بھی ذکر کر رہا ہے تو لطائف کے ذکر میں اصطلاحی شغل بھی ہوتا ہے یعنی لطیفوں کے محل کے متعلق یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ذکر الٰہی میں یہ محل بھی ہم نوائے لسان ہے اور اسی شغل کی تقویت اور اس کے کامیاب اور مؤثر بنانے کے لئے بعضے اور افعال بھی کئے جاتے ہیں ۔مثلاً کلمات ذکر کو سانس سے اوپر اٹھایا جاتا ہے پھر وہاں سے دماغ میں پہنچایا جاتا ہے اور وہاں پہنچا کر سانس کو روک لیا جاتا ہے ۔اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ام الدماغ میں سانس بند ہے کیونکہ تجربہ سے یہ بات پایئہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ حَبْسِ دم کو دفع خطرات اور مطلوب کی جانب توجہ قوی ہونے میں زیادہ دخل ہے چنانچہ شکار میں ہدف کو سامنے رکھنے کے لئے حَبْسِ دم ضروری سمجھا جاتا ہے اسی طرح ذکر لسانی یا ذکر قلبی میں مشغولیت کی جاتی ہے کہ ذکر لسانی کے علاوہ ذکر قلبی بھی ہوتا ہے کہ الفاظ متخیّلہ سے قلب کو ذاکر بنایا جاتا ہے جیسے آیت "وَاذکُر رَّبّک فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَّ خِیْفۃ" میں ذکر قلبی مراد ہے ۔اور حدیث شریف "کاَنَ النَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم یَذْکُرُ اﷲ عَلیٰ کُلّ اَحْیَانہٰ" سے علی الاطلاق ذکر اللہ سے ذکر ہی مستنبط ہوتا ہے کہ بول و غائط و جماع کی حالت میں ذکر لسانی منفی و منہی عنہ ہے تو اس وقت ذکر قلبی ہی کا صدور ہوگا معلوم ہوا کہ ذکر جس طرح لسانی ہوتا ہے قلبی بھی ہوتا ہے بلکہ اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ ذکر قلبی خود ذکر لسانی کی اصل ہے کیونکہ ذکر قلبی کلام نفسی ہے اور ذکر لسانی کلام لفظی ہے۔ اسی کو یوں کہا ہے اور یہ مسلم ہے کہ "اِنَّ الْکَلاَمِ لَفِی الْفُؤَادِ وَاِنَّمَا جُعِلَ الْلِسَانُ عَلَی الفُؤاَدِ دَلِیْلاً" :ترجمہ کلام در حقیقت دل ہی میں ہوتاہے اور زبان تو اس پر دلالت کرنے والی ،بتلانے والی ترجمان ہے ۔

چنانچہ شریعت نے بہت سے مواقع پر ذکر قلبی کو معتبر مانا ہے چمامچہ باتفاق اُمت گونگے کے ایمان کے لئے اقرارً بالسان ضروری نہیں صرف توحید و رسالت کا تخیلِ جازم اور اعتقادِ کامل و تصدیق تام کافی ہے ۔اسی طرح جو شخص بالقصد الاختیار مضامین کفریہ کو الفاظ متخیلہ سے قلب میں جاگزیں و مستقر کرے وہ شریعت میں کافر ہے تو معلوم ہوا کہ ذکر جس طرح لسانی ہوتا ہے قلبی بھی ہوتا ہے ۔الفاظ متخیلہ سے قلب کو ذاکر بنایا جاتا ہے اور ذکر جا گزیں کیا جاتا ہے ۔کہ قلب اللہ کے ذکر سے ،اللہ کی یاد سے ، اللہ کے خیال سے ، اللہ کے تصور سے ،اللہ کے دھیان سے غافل نہ ہو ۔دل میں اللہ کی یاد ایسی جم جائے کہ کسی آن اس سے نہ اترے ۔اِلاَّ ما شائ اللہ

حاصل یہ کہ ذکر لطائف اصطلاحاً دو چیزوں سے مرکب ہے ۔ذکر اور فکر ۔اسی فکر کو شغل سے تعبیر کر دیا جاتا ہے پس ان دونوں کے مجموعہ سے یعنی ذکر کی مزاولت اور فکر کی مواظبت سے لطائف کے محل میں مختلف اور نئے نئے آثار و کوائف محسوس ہوتے ہیں ،خواہ وہ آثار و کوائف ان محلوں میں پہلے سے موجود ہوں اور احساس و ظہور اب ہوا ہو خواہ ان آثار و کوائف کا حدوث ہی اب بعد فکر ہوا ہو اور یہ آثار و کوائف کبھی حرکات کی شکل میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور کبھی اصوات (آوازوں ) کی صورت میں رونما ہوتے ہیں ۔اور یہ اصوات کبھی غیر الفاظ ہوتے ہیں۔اور کبھی خاص خاص الفاظ محل لطائف میں محسوس ہوتے ہیں۔اور یہ الفاظ بعض کے نزدیک صرف خیالی ہوتے ہیں اور بعض فرماتے ہیں کہ خیالی نہیں بلکہ حقیقتاً محل لطائف میں پہلے سے موجود و محفوظ ہیں ۔جیسا کہ قُرآن شریف میں ہے کہ "وَاِ ن مِّن شَئیٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٰ " کہ ہر چیز اس کی حمد کی تسبیح کرتی ہے اور ذکر کرتی ہے ۔

چونکہ لطائف کے محل بھی اشیاء ہیں اس لئے وہ بھی آیت شریفہ کے منطوق کے موافق تسبیح میں مشغول ہوں گے اور یہ تسبیحات ہی وہ الفاظ ہیں جو ذاکر کو اب محل لطائف میں محسوس و مسموع ہو رہے ہیں اور کبھی یہ آثار و کوائف الوان مختلفہ کے رنگ میں نمایاں ہوتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ذکر کی مزاولت اور فکر و شغل کی مواظبت پر تینوں قسم کے آثار و کیفیات مرتب ہیں جو فکر کے سرایت کی علاُمت ہیں ۔

(1)حرکات محل لطائف (2)ستماع الفاظ فی محل لطائف یعنی ان لطائف کے مخصوص مقامات میں کسی اواز کا سنا جانا ۔ (3)احساسِ الوان محل لطائف

ان لطائف کے مخصوص مقامات میں کسی رنگ کا ظاہر ہونا ۔ یہ تینوں آثار و کیفیات انتہاء مشق سے پیدا ہوتے ہیں اور سرایت ذکر کی علامات سمجھے جاتے ہیں۔

کبھی یہ تینوں آثار مجتمع ذکر و فکر کی مزاولت پر مرتب ہوتے ہیں کبھی ایک یا دو پائے ہو جاتے ہیں لیکن واضح رہے کہ یہ آثار سرایت ذکر کی محض علامات ہیں ۔سرایت ذکر کی حقیقت میں داخل یا اس کے خصائص (و لوازم)میں سے نہیں ہیں ۔ان علامات ثلٰثہ کے ظہور سے ولایت و مقبولیت پر استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔اصل مقصود تو ذکر و فکر و شغل کی مداومت سے یہ ہے کہ ذہول و غفلت کم ہو اور اکثر اوقات اس کی دھن اور دھیان نصیب ہو۔ان آثار سے تقویت و تائید کا فائدہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات بعض طبائع کو وساوس و خطرات کا ہجوم ہوتا ہے او ر وہ یکسوئی و دفع وساوس کے طالب ہوتے ہیں اس لئے شیخ کامل اس ذکر لطائف کی مشق کراتا ہے تاکہ سکون و اطمینا حاصل ہو جائے اور طبیعت سے انتشار و وساوس تخیل کی پرا گندگی دور ہو جائے۔

اس لئے بھی اہل طریق کبھی لفظ اللہ کاغذ پر لکھ کر اس پر نظر جماتے ہیں اور کبھی عمل استکتاب تجویز کرتے ہیں ۔یعنی لفظ اللہ برابر لکھتے چلے جائیں حتیٰ کہ یہ اسم اعظم قلب و ذہن میں کماحقئہ مسقرر و متمکن ہو جائے لیکن یہ سب طریق مقصود با الذات نہیں بلکہ صرف وسیلہ یکسوئی ہے جو کہ ایک درجہ میں شرعاً بھی مطلوب ہے اس شرعی مطلوبیت کا درجہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کھانے کے تقاضہ کے وقت نماز سے قبل کھانے سے فراغت حاصل کرنے کا حکم ہے تاکہ یکسوئی ہو جائے اور نماز اعتدال و اطمینان سے ادا کی جا ئے ۔تو کھانے سے فراغت مقصود بالذات نہیں بلکہ یکسوئی کا وسیلہ ہے تاکہ نماز اطمینان قلب سے ادا ہو سکے۔ اسی طرح لفظ اللہ لکھ کر کاغذ پر ،اس پر نظر جمانا یا عمل استکتاب مقصود بالذات نہیں بلکہ یکسوئی کا وسیلہ ہے مگر عبادت کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے ان کا شمار حسنات ہی میں ہے اور یہ موجب اجر و ثواب ہیں جیسے فراغت از طعام بقصد یکسوئی و اطمینان در نماز باعث اجر و ثواب ہے پس یہ

بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ یہ کیفیات اگر مقدمہ عبادت نہ بنائی جائیں تو پھر ان کا کچھ اجر نہیں اور مقاصد میں سے تو کسی حال میں ہی نہیں ۔چنانچہ ان الوان وغیرہ کا انکشاف غیر مسلمین تک کو بھی یکسوئی سے حاصل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ مجنونوں کو بھی جیسا کہ کتاب فن طب ، شرح اسباب میں صراحتہ مذکور ہے کہ جنون میں کشف ہو جاتا ہے کیونکہ بعض اوقات مجنوں کے تخیلات بھی کسی ایک مرکز پر مجتمع ہو جاتے ہیں ۔نیز اگر کسی شخص کو معصیت کے ارتکاب میں یکسوئی ہو جائے تب بھی اس کو حقائق کونیہ کا کشف ہو سکتا ہے بلکہ بعض لوگوں میں فطرۃً کشف سے مناسبت ہوتی ہے ۔ان کو اکتساب یکسوئی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔چہ جائیکہ اسلام کی ،اسی لئے غیر مسلم اور مسلم عاصی کے لئے ایسے اُمور کو ایسے کشفیات اور صوری کرامات کو کہانت اور استدراج کہا جاتا ہے ۔

سلطان الاذکار

غرض انہیں اشغال میں سے ایک ایسا شغل بھی ہے کہ ذاکر تمام اعضاء و جوارح کے متعلق عین ذکر کے وقت یہ اجمالی تصور کرتا ہے کہ یہ سب ذکر کر رہے ہیں ایسے ذکر و شغل کو اہل فن سلطان الاذکار کہتے ہیں ۔اس سلطان الاذ کار سے بھی ایسی ہی حرکات و الوان و اصوات پیدا ہو جاتی ہیں کبھی چڑیوں کی سی آوازیں سنائی دیتی ہیں کبھی رعد و صاعقہ کی خطر ناک گرجیں سنائی دیتی ہیں ۔بعض دفعہ ذاکر ان آثآر کے ہجوم سے خائف و پریشان ہو جاتا ہے ایسے موقع پر شیخ کے کلمات تسلی اور الفاظ تشفی سے ہی کشتی پار ہوتی ہے۔

مکتوبات قدوسیہ میں اس کیفیت کا بہت ذکر ہے ۔شیخ جلال الدین تھانسیری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے حالات میں ان کیفیات کو بار بار لکھا ہے اور حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) کی تشفیات و تسلیات بھی موجود ہیں ،انہیں وساوس کے خطرات و دفع ہجوم کے لئے اور سکون جمع خاطر کے لئے حبسِ دم سے بھی کام لیا جاتا ہے کیونکہ حبس دم سے یکسوئی میں اعانت ہوتی ہے البتہ حبس دم باندازء ضبط و تحمل اور بقدر طاقت ہونا چاہئے اور وہ بھی شیخ کی تعلیم پر از خود نہیں ۔اس وقت اکثر نے اس کو ترک کر دیا ہے کہ قویٰ و اعصاب میں تحمل نہیں ۔

نوٹ

صوفیاء کے ان ترک تعلیمات پر اعتراض نہ ہونا چاہئے چونکہ ان حضرات محققین کا کوئی اس قسم کا طریق تعلیم خلاف شرع نہیں ہوتا بلکہ مستندا لی الشرع ہی ہوتا ہے کہیں یقیناً کہیں ظناً کہیں احتمالاً ۔اس لئے اس کو خلاف شرع نہیں کہہ سکتے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ "اِجْعَلْ بَصَرَکَ حَیْثُ تَسْجُدُ" کہ حالت قیام صلوٰۃ میں اپنی نظر کو جائے سجدہ پر جمائے رکھو ۔ تو یہ حکم جیسے اد ب تعظیم کی رعایت کے لئے ہے اسی طرح یہ حکم جمعیت خاطر و اطمینان قلب اور یکسوئی حاصل کرنے کے لئے بھی ہے اسی سے حضرات صوفیاء کرام نے اشغال کی اصل کا استنباط فرمایا ہے اور ایسے اُمور ظنیہ میں احتمال بھی کافی ہوتا ہے جو اجتہاد کے انضمام سے راجح بھی ہو جاتا ہے ۔کیونکہ اس احتمال سے اس امر کا تو یقین ہو جاتا ہے کہ صوفیاء کا تجویز فرمودہ شغل شریعت مطہرہ میں بے اصل نہیں ۔جیسے حضرات مجتہدین و فقہاء بدون نصوص صریحہ کے بعض احتمالات پر محض ذوق سے احکام ظنیہ ظاہرہ کا استنباط فرماتے ہیں ۔اسی طرح یہ حضرات بھی احکام ظنیہ باطنہ کا استخراج کرتے ہیں ،کیونکہ یہ حضرات بھی فن طریقت کے احکام باطنہ میں مجتہد ہیں ۔

الغرض ذکر لطائف و سلطان الاذکار حبس دم وغیرہ سے مقصود اصلی یہ ہے کہ ذاکر کے دل و دماغ میں ایک راسخ ملکئہ یاد داشت پیدا ہو جائے جس کے سبب اکثر اوقات مقفود سے ذہول و غفلت نہ ہو ۔بلکہ ذکر میں مشغول رہے ۔جو کہ مطلوب عند اللہ ہے ۔ جس پر " لاَ یَزَالُ لِساَنُکَ رَطْباً مِّنْ ذَکْرِ اﷲِاورکُلُّ مُطِیْعٍ ﷲِ فَھُوَذاکِرٌ" نیز آیت شریفہ صریحہ منصوصہ " فَاِذَا قَضَیْتُمْ الصَّلوٰۃَ فَا ذْکُرُ اﷲَ قِیَا ماً وَّقُعُو داً وَّ عَلیٰ جُنُو بِکُمْ " صریحۃ الدلالۃ ہیں ۔اور پھر آیات و احادیث سے کثرت ذکر کا حکم ظاہر ہے ۔حتیٰ کہ ارشاد ہے کہ " اُ ذْکُرُ اﷲَ حَتّیٰ یَقُوْلُو اِنَّہُ لَمَجْنُونٌ " اسی کثرت ذکر کو حضرات صوفیاء دوام ذکر سے تعبیر فرماتے ہیں پس جب تصریح قوم (صوفیاء)سے معلوم ہو چکا کہ تمام اذکار و اشغال سے مقصود اصلی یہ ہے کہ ذاکر کے دل و دماغ میں ایک مستحکم اور راسخ ملکہ یاد داشت پیدا ہو جائے جس میں اکثر اوقات ذہول و غفلت نہ ہو تو اس ذکر میں قوت و ترقی ہو کر وہ درجات پیدا ہو جاتے ہیں جن کا ذکر کیا جا چکا ہے یعنی ذکر ،حضور ، مکاشفہ ،شہود ، معائنہ ۔

نوٹ

حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان اشغال و مراقبات وغیرہ تدابیر و طرق کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ سید الانبیاء و المرسلیں صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاس طیبہ کی برکات اور مصاحبت مطہرہ کے فیوض سے اپنے قلوب و اذہان میں ایسی قوی اور کامل استعداد رکھتے تھے کہ ان اُمور کو وساطئہ مقصود بنانے کی ان کو ضرورت نہ تھی ۔اعمال ماُمور بہا ہی ان اشغال کے ثمرات کے لئے ان کو کافی تھے ۔یہی راز ہے کہ یہ علوم مروجہ خیر القرون میں مدون نہیں ہوئے ۔جوں جوں خیر القرون سے بُعد ہوتا گیا حل مشکلات و فتح مغلقات کے لئے تدوین علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا جس کو علماء اُمت نے خیر القرون سے متصل ازمنہ متقاربہ میں با حسنِ وجوہ انجام کو پہنچا دیا اور چونکہ ضرورتیں مختلف تھیں اس لئے فطرتاً تقسیم عمل کی حاجت ہوئی ۔چنانچہ بعض حضرات نے علم ظاہر کی جانب توجہ مبذول کی اور اس کے مختلف شعبوں میں سے کسی خاص شعبے کو اپنا مخصوص مرکز توجہات بنا لیا گو اور شعبوں کی جانب بھی بقدر ضرورت متوجہ رہے اور بعض حضرات نے امانت باطنی کو سنبھالا اور اس خاص شعبہ شریعت کو مخصوص توجہات کا مرکز بنایا ۔

اس طرح دونوں جماعتوں نے اُمت مرحومہ کو رہین منت فرمایا پس ہم چونکہ ضعیف الاستعداد اور ضعیف العقائد ہیں ،ہمارے دل و دماغ میں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس کا حسن و جمال مرکوز اور جما ہوا ہے ،حقائق ہم سے مستور ہیں اس لئے ہم کو وصولی الی اللہ کے لئے اور قرب حق کے لئے ان ذرائع و وسائل خاصہ کی حاجت ہے اور شدید حاجت ہے اس لئے کتب تصوف کی تدوین ہوئی اور ان میں امراض باطنہ ،اسباب امراض ،طریق تشخیص ،معالجات بتما مہما و بکما لہا منضبط و مضبوط اور مبسوط ہیں ،لیکن با وجود اس کے سالیکن کو سلوک کے مراحل طے کرنے اور اصلاح نفس تزکئہ اخلاق میں شیخ کامل کی سخت ضرورت ہے بغیر تعلیمات و تنبیہات شیخ کے وسوسہ شیطانی سے محفوظ رہنا اور صحیح سالم منزل مقصود پر پہنچنا کارے دارد اور عادۃً محال ہے ۔شیخ مختلف اذکار و اشغال وغیرہ میں سے اپنی فتانت و فہم و فراست اور اپنے تجارب کی بنا پر کہ وہ شیخ کامل اس راہ سلوک کے اطراف و جوانب کو بعلم الیقین و عین الیقین و حق الیقین طے کر چکا ہوتا ہے تو اب وہ ہر سالک کے مزاج اور خصوصیات کے موافق ذکر و شغل وغیرہ تجویز کرتا ہے جس سالک کو جس طریق سے مناسبت سمجھتا ہے اسی طریق کے ذریعے منزل مقفود کی جانب اس کی رہبری کرتا ہے ۔بالکل ایسی مثال ہے کہ طب ظاہری میں علاج ابدان کے لئے متعدد ادویہ ایک اثر ایک درجہ ایک کیفیت ایک مزاج کی ہوتی ہیں لیکن طبیب حاذق مختلف اصحاب کے لئے خفی مناسبت کی بنا پر علیٰحدہ علیٰحدہ دوا تجویز کرتا ہے

،اس پر اعتماد نہیں کرتا کہ یہ دوائیں خواص میں متحد ہیں اس لئے سب مریضوں کے لئے جو ایک ہی مرض میں مبتلا ہیں ایک ہی دوا تجویز کر دوں تو دیکھئے کتب طب ظاہری میں بھی نہایت شرح و بسط کے ساتھ یہ دوائیں موجود ہیں لیکن مریضوں کے لئے اپنے معاملات میں صرف ان کا مطالعہ کافی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ضرور ماہر فن طبیب کی تلاش کی جاتی ہے خصوصاً پیچیدہ امراض میں حتیٰ کہ امراض شدیدہ میں تو خود اطباء بھی اپنے معالجات میں اکثر دوسرے اطباء سے مشورہ لیتے ہیں پس جو نسبت مرض جسمانی اور کتب طبیہ اور اطبآء میں ہے وہی نسبت سالکین کے امراض روحانیہ و نفسانیہ اور کتب تصوف و مشائخ میں ہے ۔

خلاصئہ بیان لطائف ستہ

یہ لطائف کے سلسلے میں بیان تھا مگر طویل ہو گیا اس لئے اب خلاصہ کے طور پر لطائف کی تعداد اور ان کے نام اور ان کے محال اور الوان اور افعال لکھے جاتے ہیں ۔ لطائف چھے ہیں ۔ان کے نام یہ ہیں ۔ (۱)لطیفہ نفس (۲)لطیفہ قلب (۳)لطیفہ روح (۴)لطیفہ سر (۵)لطیفہ خفی (۶)لطیفہ اخفیٰ

محل

ان کے محل یہ ہیں ۔ لطیفہ نفس کا محل زیر ناف ہے ۔لطیفہ قلب کا محل ،قلب صنوبری ہے جو بائیں پستان کے دو انگل نیچے ہے ۔لطیفہ روح کا محل دائیں پستان کے دو انگل نیچے ہے ،لطیفہ قلب کے محاذی ہے ۔لطیفہ سر کا محل ذقن کے نیچے سینہ کے بیچوں بیچ ہے ۔لطیفہ خفی کا محل دونوں ابرؤں کے درمیان ہے ۔لطیفہ اخفیٰ کا محل ام الدماغ ہے ۔

الوان

لطائف کے الوان یہ ہیں۔ لطیفہ نفس کا لون و رنگ زرد ہے ۔لطیفہ قلب کا رنگ سرخ ہے ۔لطیفہ روح کا لون و رنگ سفید ہے ۔لطیفہ سر کا لون سبز ہے ۔لطیفہ خفی کا لون نیلا اور لطیفہ اخفیٰ کا لون و رنگ سیاہ ہے ۔

افعال و آثار

لطائف کے افعال و آثار یہ ہیں ۔ لطیفہ نفس کا فعل غفلت و شہوت ہے ۔مقاومت و مخالفت نفس کا ذریعہ انقطاع عن الخلق ہے ۔لطیفہ قلب کا فعل ذکر ہے ۔لطیفہ روح کا فعل حضور ہے ۔لطیفہ سر کا فعل مکاشفہ ہے لطیفہ خفی کا فعل شہود و مشاہدہ اورفناء ہے ۔لطیفہ اخفیٰ کا فعل معائنہ اور فناء الفناء ہے ۔

مراقبہ

جب ذکر ضربی یا سری کی تکثیر سے سالک منور ہو جاتا ہے اور اس کی رگ رگ ،رونگٹے رونگٹے میں ذکر سرایت کر جاتا ہے اور ایک محویت کی سی حالت پیدا ہو جاتی ہے تب مراقبات کی تعلیم کی نوبت آتی ہے ۔اصل یہی ہے ۔ لیکن اب عوارض کے سبب ذکر کے ساتھ ساتھ ہی مراقبات بھی تعلیم کر دیئے جاتے ہیں۔کسی ایسے مضمون کو سوچنا جواللہ جلّ شانہُ تک پہنچانے والی ہو اس کے خیال رکھنے کو مراقبہ کہتے ہیں ۔لہٰذا مراقبہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مد نظر رکھنے کو کہتے ہیں ۔

اور مراقبہ خاص یہ ہے کہ خدا کی ذات میں اس قدر فکر کرے کہ اپنے سے بے فکر و بے خبر ہو جاوے ۔کبھی یاد دل سے نہ اترے خواہ جمال کے لحاظ سے ہو یا جلال کے لحاظ سے ہو ۔انس کے طور پر ہو یا خشیت کے ساتھ ہو ،خوف کے ساتھ ہو یا رحمت کے ساتھ ،محبت کے ساتھ ہو یا اس کے ساتھ ملنے کے شوق کے ساتھ۔

طریقہ اس کا یہ ہے کہ دو زانو نمازی کی طرح سر جھکا کر بیٹھے اور دل کو غیر اللہ سے خالی کر دے اور اللہ جل شانہ کی حضوری میں حاضر کر دے اور اعوذ و بسم اﷲ پڑھ کر تین بار اﷲُ حَاضِریْ ،اﷲُ نَا ظِرِی اور اﷲُ مَعِیْ زبان سے کہہ کر ان کے معنوں کو دل میں ملاحظہ کرے ،تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ حاظر و ناظر ہے اور میرے پاس ہے ،اس جاننے اور تفور کرنے خیال کرنے میں اس قدرر محو ہو کہ غیر حق کا تصور نہ رہے حتیٰ کہ اپنی بھی خبر نہ رہے ۔

مراقبہ کی قسمیں

مراقبہ کے متعدد طریقے ہیں جس طریقے سے جس قسم سے طالب کو نفع ہوا ہو ،منزل مقصود تک پہنچائے ،اس کے ساتھ کوشش کرے ۔چند اہم قسمیں یہ ہیں ۔ مراقبہ رویت مراقبہ معیت مراقبہ اقربیت مراقبہ وحدت مراقبہ فناء۔

مراقبہ رویت

خدا کی رویت کا تصور کرے "اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اﷲَ یَریٰ" (کیا نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے )اس پر غور کرے اور اس پر مواظبت کرے اور یہاں تک مشغول ہو کہ یہ مراقبہ پکا ہو جائے ۔ مراقبہ معیت "ھُوَا مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ" (تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے )اس کے معنی کے ساتھ تصور اور یقین کرے کہ خلوت اور جلوت ،بیماری تند رستی ہر حالت میں اللہ میرے ساتھ ہے ۔اسی خیال سے مستغرق ہو جاوے ۔

مراقبہ اقربیت

"نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلٍ الْوَرِیْد "

(ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ) اس آیت پر معنی کے ساتھ غور کرے اور اس خیال میں محو ہو جاوے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریب ہے ۔

مراقبہ وحدت

"ھُوَ الْاَوَّلُ وَالاٰخِرْ "

(اس کا وجود ہر جگہ جلوہ فرما ابتداء اور انتہا میں وہی ہے ) اس کو زبان سے کہے اور تصور کرے کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے اسی خیال میں مستغرق ہو جاوے ۔

مراقبہ فناء

"کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ "

(دنیا کی تمام چیزیں فانی ہیں اور اللہ بزرگ و برتر باقی رہے گا )اس کے معنی کا تصور کرے کہ تمام چیزیں فناء ہو جائیں گی اور ذات باری ہی ہمیشہ رہے گی اور دل کی آنکھ سے دیکھے اور اس خیال میں محو ہو جائے تاکہ اس کے معنی خوب منکشف ہو جائیں اور اپنے وجود کو فنا اور علم و عقل کو اضمحلال ہو ۔ ہو فنا ذات میں کہ تو نہ رہے

تری ہستی کا رنگ و بو نہ رہے
علم حق در علم صوفی گم شَوَدْ

اس سخن کے بور مردم شَوَدْ

تو دریںْ گم شو کہ توحید ایں بوَد

گم شدن گم کن کہ تفرید ایں بود

انوارات اور ان کے علامات

جب ذاکر باہتمام تقویٰ خدا کا ذکر کرنے لگتا ہے اور ذکر تمام اعضاء میں سرایت کر جاتا ہے اور غیر خدا سے دل پاک و صاف ہو جاتا ہے اور روحانیت سے تعلق خاص پیدا ہو جاتا ہے تو انوار الٰہی کا ظہور ہونے لگتا ہے اور وہ انوار کبھی خود اپنے میں دکھائی دینے لگتے ہیں اور کبھی اپنے سے باہر ۔اچھے انوار وہی ہیں جن کو سالک دل سینہ و سر یا دونوں طرف اور کبھی تمام بدن میں پائے یا کبھی داہنے بائیں کبھی سامنے سر کے پاس ظاہر ہوں وہ بھی اچھے ہیں لیکن ان کی طرف توجہ نہ کرنا چاہئے کہ کہیں لطف اندوز و متلذذ ہو کر خسارہ اٹھائے ۔ تفصیل یہ کہ اگر کسی رنگ کا نور داہنے شانے کے برابر ظاہر ہو تو وہ فرشتوں کا نور ہے ۔

(1) اگر سفید رنگ کا نور ہے تو کراماً کاتبین کا ہے ۔

(2) اگر سبز پوش خوبصورت آدمی یا کوئی اچھی صورت ظاہر ہو تو وہ فرشتہ ہے جو ذاکر کی حفاظت کے لئے آیا ہے

(3) اگر داہنے شانے سے کچھ ہٹا ہو یا آنکھ کے برابر ہے تو مرشد کا نور ہے ۔

(4) اور سامنے ہے تو وہ نور محمدی ہے جو راہ مستقیم کی تعلیم فرماتا ہے ۔

(5) اگر بائیں شانے کے متصل ظاہر ہو تو کاتب فرشتوں کا سینہ ہے ۔

(6) اگر بائیں شانے سے دور ظاہر ہو خواہ کسی رنگ کا ہو شیطان کا نور ہے یا دنیا کا نور ہے ۔

(7) اگر پیچھے یا بائیں طرف آواز ہو یا صورت ہو وہ شیطان کا دھوکہ ہے لاحول الخ پڑھنا چاہئے۔اعوذ الخ پڑھے توجہ نہ کرے ۔

(8) اگر نور اوپر سے یا پیچھے سے آوے تو وہ نور ان فرشتوں کا ہے جو حفاظت کے لئے مقرر ہیں ۔

(9) اگر بلا کسی جہت کے نور ظاہر ہو اور دل میں خوف پیدا کرے اور اس کے رفع ہو جانے کے بعد باطنی حضور نہ رہے تو وہ نور شیطان کا ہے ۔ "لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّتَ اِلاَّ بِا ﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمْ " پڑھنا چاہیئے۔

(10)اگر بلا کسی جہت نور ظاہر ہو اور اس کے زوال کے بعد حضور باطنی کی لذت نہ جائے اور اشتیاق و طلب اسی طرح غالب رہے تو وہی مطلوب نور ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عطا فرمائے (آمین)

(11)اگر دھویں یا آگ کے رنگ کا نور سینہ یا ناف کے اوپر ظاہر ہو تو وہ خناس کا نور ہے ۔ "اَعُوْذُ بِا ﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم" پڑھنا چاہئے ۔

(12) اگر سینہ کے اندر یا دل پر ظاہر ہو تو وہ صفائی قلب کا نور ہے ۔

(13) اگر سرخ یا سفید زردی مائل نور دل سے ظاہر ہوتو دل کا نور ہے ۔

(14) اگر خالص سفید ہے تو روح کا نور ہے جس نے طالب کے دل میں تجلی کر کے اپنی ہستی کو ظاہر کیا ہے ۔

(15) اگر سر کی جانب سے ہے تو وہ بھی روح کا نور ہے ۔

(16) اگر آفتاب کے رنگ کا نور ہے اور سامنے سے ہے تو وہ بھی روح کا نور ہے ۔

(17) اگر اوپر سے آفتاب کے رنگ کا نور ہے تو نور ذات ہے ۔

(18) اگر چاند جیسا نور ہے تو دل کا ہے ۔

(19) اگر چاند جیسا نور ہے اور سامنے سے ہے تو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

(20 )اگر کاجل کی سیاہی کی طرح تاریک اور اس کے گرد باریک اور مکدّر نورانی خطوط ہیں تو وہ نور نفی کا ہے ۔اس طرف توجہ سے نفی حاصل ہو گی اور ماسویٰ اللہ سے قلب کا صاف ہونا اور تجلی افعالی اور تجلی صفاتی میں محویت اور فنآئ کا حصول ہے جو مقصد اصلی ہے ۔

(21) اگر آنکھ کی سیاہی کے مانند بلا گردا گرد باریک مکدر نورانی خطوط کے ہے تو وہ نور تجلی ذاتی کا نور ہے اس میں عارف کا فناء الفناء ہے اور بقاء کا حصول ہے ۔ پہلے کہا جا چکا ہے اب پھر تاکید کی جاتی ہے کہ سالک کو چاہئے کہ انوار میں سوائے مطلوب کے کسی طرف نہ متوجہ ہو اور سرور و لطف حاصل نہ کرے بلکہ صرف نور الٰہی میں ترقی کرے کیونکہ خدا کی تجلی کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔

وہ فاعلات جن میں خطرہ ہے

(1)تصور شیخ

حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں گویا رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کو دیکھ رہا ہوں کہ ایک نبی کی انبیاء میں حکایت بیان فرماتے ہیں جن کو ان کی قوم نے مارا تھا اور خون آلودہ کردیا تھا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ جانتے نہیں ۔ اس حدیث شریف سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ مثل حاضر تھے حالانکہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ اس وقت سامنے نہیں تھے اور یہ غایت محبت کی وجہ سے ہے ۔

شیخ کی مجلس میں سالک کو بہت فائدہ پہنچتا ہے ا س لئے اگر وہ یہ تصور کرے کہ وہ شیخ کی مجلس میں بیٹھے ہیں تو اس کو اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ اصل تصور تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات نظر نہیں آسکتی اس لئے اس کا تصور آسانی سے جمتا نہیں اس لئے وساوس آتے ہیں ۔ان وساوس کو دفع کرنے کے لئے کیونکہ شیخ محبوب ہوتا ہے اور اس کا تصور باقی تمام خیالات کو دفع کرسکتا ہے اس لئے بعض حضرات کے ہاں تصور شیخ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن چونکہ بعد میں طبائع میں فساد آگیا اس لئے متاخرین مشائخ نے اس کے مفاسد پر نظر کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا ۔

جن حضرات کے ہاں یہ تعلیم تھی تو وہ بھی اس کو مقاصد میں نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک ذریعہ کے طور پر سمجھتے تھے کہ اس سے یکسوئی حاصل ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی تصور تک رسائی حاصل ہو ۔پس جب مقصود حاصل ہوجاتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا۔اس کی مثال مکان میں جھاڑو دینے کی طرح ہے کہ بجائے ایک ایک تنکا کو جمع کرنے کے سب کو جھاڑو سے جمع کرکے اس کو جلادیا ۔پس تمام محبتوں کو تو شیخ کی محبت سے ختم کیا اور شیخ کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا کیا تو مقصود تک جلد رسائی ہوئی۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک یہ شغل خواص کے لئے تو مفید ہے لیکن عوام کے لئے سخت مضر کیونکہ اس میں صورت پرستی تک بات جاسکتی ہے جو کہ شرک کا زینہ ہے ۔کثرت تصور سے بعض اوقات کوئی صورت مثالیہ ظاہر ہوسکتی ہے جو بعض اوقات محض خیال ہوتا ہے اور بعض دفعہ کوئی لطیفہء غیبی اس شکل میں متمثل ہوجاتا ہے جس کا بسا اوقات شیخ کو پتا بھی نہیں ہوتا لیکن سالک اس کو حاضر ناظر سمجھ کر اپنا نقصان کرسکتا ہے ۔اس لئے اس سے بچنا اولیٰ ہے ۔ اس کے مقاصد کو حاصل کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ شیخ کے ملفوظات اور کتابیں پڑھے یا پھر اپنے پیر بھائیوں سے اس کا تذکرہ وغیرہ کرے۔ان میں چونکہ یہ مفاسد نہیں اس لئے ان کا کوئی حرج نہیں۔

(2)عشق مجازی

مولانا جامی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں ۔

متاب از عشق رد گر چہ مجازیست

کہ آں بہر حقیقت کارسازیست

یعنی عشق سے اعراض نہ کرو چاہے مجازی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ عشق حقیقی کے لئے سبب ہے۔ اس طرح مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ

عاشقی گر زیں سرو گرزاں سرست

عاقبت مارا بداں شہ رہبر ست

عشق اگر اس شے کا ہو یا اس شے کا آخر ہمارے لئے محبوب حقیقی کے لئے رہبر ہے۔ یہ اور اس طرح کے بزرگوں کے واقعات کے بارے میں بعض لوگ بتاتے رہتے ہیں جس سے بعض لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ شیطان اصل بات کو چھپا دیتا ہے اور اس کا غلط مطلب دل میں بٹھا دیتا ہے حالانکہ تھوڑا سا غور کیا جائے تو بات بالکل صاف ہے یہ اشعار جن بزرگوں کی طرف منسوب ہیں تو کیا ان کے صرف یہی اشعار ہیں یا ان کے اور اشعار بھی ہیں ۔اگر ان اشعار میں ایسے مضامین ہیں جو کہ ان لوگوں کے غلط خیالات کا توڑ کرتے ہیں تو ان کے ان اشعار کو کیوں نہیں لیا جاتا مثلاً حضرت مولانا جامی (رحمۃ اللہ علیہ) کا یہ شعر

دلے باید کہ در صورت نمانی

و زیں پل زود کود را بگزرانی

یعنی یہ ضرور ہے کہ کہیں تو صورت ہی میں نہ رہ جائے کیونکہ یہ پل کی طرح ہے اور اس پل سے جلدی گزرنا چاہیئے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عشق مجازی مولانا جامی (رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک تو ایک پل کی طرح ہے اور اس سے جلدی نکلنا چاہیئے ورنہ عشق حقیقی سے محروم ہوجائے گا۔ اور حضرت مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں

عشق با مردہ نباشد پائدار

عشق را باحی و باقیوم دار

یعنی فانی شے کے ساتھ عشق نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ وہ تو فانی ہے عشق تو حی و قیوم ذات کے ساتھ کرنا چاہیئے کیونکہ وہ باقی ہے۔ اب ان دو بزرگوں اور دوسرے بزرگوں کے اقوال کی تطبیق کیسے ہوگی تو وہ کوئی مشکل نہیں بالکل آسان ہے ۔ان بزرگوں کا عشق مجازی کے تایئد سے صرف اتنا مراد ہے کہ اگر خدا نخواستہ کسی کو عشق مجازی ہوجائے تو پھر اس سے کام لینا چاہیئے تاکہ اسی کو ہی عشق حقیقی کا ذریعہ بنایا جائے ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس مردار کے ساتھ تو بالکل تعلق نہ رکھا جائے بلکہ ہوسکے تو تعلق توڑ دیا جائے اور اس سے جو سوز و گداز پیدا ہو اس کو عشق حقیقی کے لئے استعمال کیا جائے۔ سب سے بہتر طریقہ تو اس میں یہ ہے کہ اگر شیخ کامل ہو تو اس کی رہنمائی حاصل کی جائے ۔ورنہ وضو کرکے خوشبو لگا کر خوب دل کے ساتھ 500سے ایک ہزار تک ذکر نفی اثبات اس طرح کرے کہ لا الہ کے ساتھ سوچے کہ میں نے اس مردار کی محبت کو دل سے نکال دیا اور الا اللہ کے ساتھ یہ تصور کرے کہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا محبت داخل کیا۔اس میں ضرب بھی ہو ۔اور کچھ دیر یہ مراقبہ کرے کہ ایک بارعب اور محبوب ہستی میرے دل سے اس مردار کی محبت کھرچ کھرچ کر نکال پھینک رہا ہے اور اس مردار کے ساتھ جو طبعی تبدیلیاں بڑھاپے اور بیمایوں کی صورت میں آسکتی ہیں ان کا تصور کرے کہ اس کی شکل بہت گندی ہوگئی ہے اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اس میں کام کرنے پر توجہ کی جائےٰ اور نتیجے میں جلدی نہ کریں ۔ذہنی طور پر اس کے لئے تیار رہے کہ چاہے ساری عمر یہ کرنا پڑے تو یہ کروں گا۔اس میں اگر جان بھی چلی جائے تو اعلیٰ درجہ کی شہادت ہے۔ان دنوں کوئی حدیث کی کتاب یا کوئی بھی کتاب جس میں دوزخ اور عذاب الٰہی کا جو نافرمانوں کو ہوگا کا ذکر ہو اس کا مطالعہ کرنا چاہیئے

(3)سماع

غزوہ خندق یا احزاب میں جب آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم خندق کھود رہے تھے تو انصار اور مہاجرین کا دل بڑھانے کے لئے یہ اشعار پڑھے

ان عیش عیش الآخرۃ

فاغفر الانصار و المہاجرۃ

صحابہ (رضی اللہ عنہ) نے اس کا جواب دیا ۔

نحن الذین بایعوا محمدا ً

علی الجہاد ما بقینا ابداً

بعض اہل طریق کا یہ مذاق رہا ہے کہ جب اسباب عارضہ سے طبعیت میں کسل آئے تو اس کو دور کرنے کے لئے خوش آوازی کے ساتھ کسی اچھے کلام کو شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے سن لیتے ہیں ۔سماع کی بس یہی حقیقت ہے۔جہاں تک اس کے ساتھ مزامیر کا تعلق ہے تو آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کا صریح ارشاد پاک ہے کہ میں مزامیر کو توڑنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں ۔بات یہاں پر ختم ہونے چاہیئے تھی کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلمِ کے ارشاد پاک کے سامنے کسی اور کی بات کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن چونکہ معاملہ یہاں ایسے نادانوں کے ساتھ ہے جن کا متاع ان کے سامنے لوٹا جارہا ہے اور وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں اس لئے چند ایسے بزرگوں کے ارشادات بھیٔ لکھے جاتے ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سماع سنتے تھے ۔ان میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیائ (رحمۃ اللہ علیہ) کا نام زیادہ مشہور ہے ۔آپ ہی کے ملفو ظات جو باب نمبر 27 در نظامی میں مذکور ہیں میں یہ ملفوظ بھی ہے ۔’’فرمایا سماع کی چار قسمیں ہیں ،حلال ،حرام ،مکروہ اور مباح ۔اگر صاحب وجد کا میلان حقیقت کی طرف ہے زیادہ ہے تو مباح ،اگر مجاز کی طرف زیادہ ہے تو مکروہ ،اگر بالکل حقیقت کی طرف ہے تو حلال اور اگر بالکل مجاز کی طرف ہے تو حرام۔ فرمایا سماع کے واسطے کئی باتیں درکار ہیں جب یہ موجود ہوں تب سنیں ۔مسمع ،مستمع مسموع اور آلہ سماع۔مسع یعنی گانے والا پورا مرد ہو عورت یا امرد نہ ہو۔مستمع یعنی سننے والا بھی یاد حق میں مشغول ہو ،مسموع یعنی گانا فخش یا کسی کی ہجو نہ ہو،آلہ سماع (یعنی مزامیر) نہ ہو تب یہ سماع مباح ہے۔

حضرت کے مریدین میں ایک مرید نے کہا کہ مولانا رکن الدین ایسی مجلس میں شریک ہوئے ۔آپ نے دریافت فرمایا ۔عرض کیا کہ اس مجلس میں بندہ کا کوئی دوست نہیں تھا جو میری تائید کرتا اور گمان یہ تھا کہ اگر منع کرتا تو باز نہ آتے حضرت نے فرمایا -تم منع کرو وہ لوگ باز آیئں فبہ نہیں تو تم وہاں سے اٹھ کھڑے ہو۔ بعض حضرات نے جن میں قاضی حمید الدین ناگوری (رحمۃ اللہ علیہ) کا ذکر بھی آتا ہے سماع درد دل کے دوا کے طور پر سنتے تھے اور اس کو تداوی بالحرام میں داخل سمھتے تھے۔علامہ سنجری (رحمۃ اللہ علیہ) کے بقول شیخ سیف الدین سماع سنتے تھے لیکن باقاعدہ مجلس مرتب نہ کرتے جب کوئی وقت خوش دیکھتے تو فرماتے کوئی ہے ۔اس وقت جو ہوتا ،آتے اور کچھ کہتے ۔ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) بھی کبھی کبھی طبعیت جب اس کے لئے مناسب سمجھتے تو فرماتے کوئی ہے جو کچھ سنائے ؟۔ایک دفعہ کوئی اور اچھا پڑھنے والا نہیں تھا میں موجود تھا میری آواز تو اچھی نہیں تھی لیکن پشتو کی ادائگی اچھی تھی اس لئے میں نے رحمٰن بابا کے اشعار کتاب سے سنائے ۔

اصل میں ہر چیز کے اپنے حدود ہوتے ہیں ۔آج کل تو بعض ظالموں نے حد کردی مسجد میں بھی مزامیر کے ساتھ قوالی کرتے ہیں ۔مسجد کا تو ہندو بھی احترام کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ بچائے ۔پیٹ کے دھندے نے انسان کو کس حد تک گرادیا۔یہی غالباً وہ وقت ہے کہ اس کے مباح صورتوں پر بھی پابندی لگائی جائے کیونکہ حفظ حدود کی لوگوں میں صلاحیت نہ رہی۔جن فقہائ نے اس کی جائز صورتوں کو منع فرمایا تھا ان کی نظر مسقبل پر تھی اور جنہوں نے اس کو مباح سمجھا ان کی نظر حال پر تھی۔حضرت خواجہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کا سماع مباح تھا لیکن قاضی ضیاالدین سنامی (رحمۃ اللہ علیہ) اس کو روکتے تھے ۔وجہ یہی تھی ۔آج لوگ خواجہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کے جائز سماع سے استدلال کرکے ناجائز سمع پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سماع ایک محرک قوی ہے جو انسان کے اندر کی کیفیت کو باہر بہت قوت کے ساتھ منتقل کرتی ہے ۔اگر وہ صاحب عرفان ہے تو اس کا عرفان ظاہر ہو گا اور اگر وہ باطن میں خبیث ہے تو اس کا خبث بہت تیزی کے ساتھ ظاہر ہوگا۔آج کل لوگ خود دیکھیں کہ لوگوں پر کونسی چیز غالب ہے اس لئے سماع کے قریب بھی نہیں جانا چاہیئے تاکہ پردہ تو پڑا رہے۔واللہ اعلم۔