Download PDF

بسم الله الرحمٰن الرحيم


فکر آگہی

مجموعہ کلام

 

سيد شبير احمد کاکا خيل

 

فکر محتاج بصیرت کی ہے

آگہی روشنی حکمت کی ہے

دونوں اب فکرِ آگہی بن کر

صورت اک حسنِ تربیت کی ہے

 

دیباچہ

الحمد للہ! بندہ کی شاعری کی یہ تیسری کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کے لئے اس کو مفید بنائے۔پہلی کتاب “شاہراہ محبت” حج کے سفر کے بارے میں ہے اور بے مہار عقل کو، دل کا ایک جواب ہے۔دوسری کتاب “پیغام محبت” ہے۔وہ تو دل کا پیغام ہے دل کو۔یہ تیسری کتاب “فکر آگہی”ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، یہ ایک دعوتِ فکر ہے۔

دین کے بارے میں معلومات کافی ہونے کے باوجود بعض دفعہ چند مفاہیم کے نہ سمجھنے سے علم کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔اس لئے ان مفاہیم کی اصلاح از حد ضروری ہوتی ہے۔اس کتاب میں الحمد للہ ان مفاہیم کی اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈوب کے غم میں ترے ہی اب تو ، غم دنیا سے نکل جاؤںمیں

لہریں رکتی ہیں کناروں پہ جب ، تو اب تیری ہی طرف آ ؤںمیں

وحشتِ دنیا بڑھ گئی اس قدر ، رہی کسی کو کسی کی نہ فکر

ساری فکروں سے خود کو کاٹ کےاب ، ترے پانے کی فکر پاؤں میں

وقت ہے قرب قیامت کا اب ، کام غلط ہوتےنظر آتےہیں

کیوں نہ کچھ کام فکر آگہی کا ، کرکے شروع آگے بڑھاؤں میں

دل کو خوں کرکے کام یہ کرنا ہے ، ذہن کو درست اس میں رکھنا ہے

دل و جگر کے خون سے آلودہ اپنے اشعار کچھ سناؤں میں

دلِ ویراں ذکر سے خالی دل ، بنے ذاکر شبیرؔ اس کے لئے

ہر طرف ذکر کی محافل کو ، ہر جگہ منعقد کراؤں میں

اس غزل کے پیغام سے اندازہ ہو چکا ہوگا کہ اس کتاب کا منظرِ عام پر آنا کیوں ضروری تھا۔اصل فیصلہ تو قارئین کریں گے کہ بندہ اس میں کامیاب ہوچکا ہےیا نہیں۔لیکن سر دست اپنی پوری کوشش یہی رہی ہے کہ کوئی ایسی بات باقی نہ رہے جس میں آج کل کے مسلمان کو فکری پریشانی ہو اور اس کے بارے میں بات کرنی رہ جائے۔دعویٰ البتہ نہیں ہے خدا سے دعا ہےکہ بندہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے اور مطلوبہ نتائج بھی اس سے برآمد ہوں ۔

اس کتاب میں نظم اور رباعی کی اصناف اختیار کی گئی ہیں کیونکہ فکری باتوں کی شرح، شعر میں زیادہ آزادی کا متقاضی ہوتی ہے جس میں غزل سے زیادہ نظم میں فائدہ ہوتا ہے ۔طریقہ کار زیادہ تر مسدس کا رکھا گیا ہے کہیں کہیں مخمس بھی ہیں ۔

حمد اور نعت کے بعد ایک منظوم دعا ہے ۔ا للہ تعالیٰ قبول فرمائے۔اس کے بعد توحید کا ذکر ہے ،پھر رسالت ،پھر فرشتوں ، پھر کتابوں اور پھر آخرت کے مفاہیم بیان کئے گئے ہیں۔اس کے بعد دعوت الی اللہ ، درس و تدریس اور پھر سیاست کے بارے میں ضروری بات اشعار میں کی گئی ہے۔

اس کے بعد صحابہؓ کی مدح کی اور پھر اہل بیت کی مدح کی رباعیات ہیں پھر اس کے بعد قرآن اور حدیث پرعمل کی اہمیت کے بارے میں رباعیات ہیں۔ان کے بعد اہل سنت و الجماعت کے مسلک کی نشاندہی، رباعیات میں کی گئی ہے۔ان رباعیات میں اہل سنت و الجماعت کا بنیادی مسلک، صحابہؓ کے بارے میں بتایا گیا تاکہ افراط تفریط سے بچنا ممکن ہوجائے۔

سوال و جواب کا طریقہ چونکہ مفاہیم کی درستی کے لئے زیادہ مناسب تھا اس لئے کچھ مکالمے سوال و جواب کی صورت میں پیش کئے گئے ہیں۔پہلا مکالمہ اختلاف کے بارے میں ہے جس میں مفید اور غیر مفید اختلاف کے بارے میں بتایا گیا ہے۔اس میں صحیح اختلاف کو برداشت کرنے کے ساتھ غلط اختلاف سے بچنے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔

دوسرا مکالمہ روحانیت کے بارے میں ہے جس میں روحانیت کی حقیقت واضح کی گئی ہے اور بعض دوسری چیزوں کو جنہیں غلطی سے روحانیت سمجھا جاتا ہے، ان کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔

تیسرا مکالمہ غلط اور صحیح پیروں کے بارے میں ہے۔صحیح پیروں کی اہمیت بتانے کے ساتھ ساتھ ان کو جانچنے کے لئے نشانیاں بھی بتائی گئی ہیں۔آج کل اس مکالمے کی بڑی ضرورت تھی اس لئے بہت سارے حضرات نے اس کی فوری اشاعت پر زور دیا تھا۔ لیکن احقر کے خیال میں اس کو اس کتاب میں شائع کرنا زیادہ مفید تھا۔

چوتھا مکالمہ دل اور عقل کے بارے میں ہے ۔یہ عقل اور دل کے درمیان مکالمہ ہے جس میں ہر دو کی اہمیت اوراصلاح کے بارے میں بتایا گیا ہے۔عقل کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اگر دل کی اصلاح نہ ہو تو عقل کے لئے نفس کے اثر سے بچنا ممکن نہیں رہتا ۔دوسری طرف اگر دل کی اصلاح ہوچکی ہو، تو اگر نفس کے اثر سے گناہ ہو بھی جائے تو اس کا گناہ ہونا معلوم ہوتا ہے اور توبہ کی توفیق بھی جلدی ہوتی ہے۔

پانچواں مکالمہ تراویح کے بارے میں ہے جس میں رکعتوں کی تعدادکے بارے بعض لوگوں کی ضد کی نشاندہی کی گئی ہے۔آج کل بعض لوگو ں کو کیا ہو جاتا ہے کہ متفقہ باتوں کو بھی اختلافی بنانے پر تلے ہوتے ہیں ۔یہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے ۔چاروں آئمہ اور تمام صحابہؓ کا اس پر اجماع ہے ۔اس کے باوجود ایک چھوٹی سی جماعت سوادِ اعظم کے لوگوں کو پریشان کرنے پر تلی ہوتی ہے۔اگر بات صرف اتنی ہوتی تو مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا لیکن ان لوگوں سے نفس زدہ لوگ اثر لے کر ان کے پیچھے چل کر گمراہی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ان لوگوں کو اس سے بچانے کے لئے یہ مکالمہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے ۔

اس کے بعد وساوس کے بارے میں ایک مکالمہ ہے۔وساوس ہر کسی کو آسکتے ہیں لیکن ناواقف اس سے بہت پریشان ہوجاتے ہیں یا پھر ان کے شکار ہوجاتے ہیں ۔اس مکالمے میں اس کا علاج بتایا گیا ہے۔

اس کے بعد معاملات کے بارے ایک مکالمہ ہے جس میں آجکل بعض دیندار لوگ بھی کمزوری دکھاتے ہیں ۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے لوگ اس کی اصلاح کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے ہیں، حالانکہ عبادات سے انسان کو جو فائدہ ہوتا ہے معاملات میں سستی سے وہ فائدہ ضائع ہوتا رہتا ہے۔

اس کے بعد اختلاط نا جنس سے بچنے کے بارے میں مکالمہ ہے۔کچھ حضرات اس میں رواجی پردے پر مطمئن ہوتے ہیں اور شرعی پردے کو دین میں سختی پر محمول کرتے ہیں، حالانکہ وہی دین ہے ۔

اس کے بعد شادی کی رسومات اور اس کے بعد فوتگی کی رسومات کے بارے میں مکالمہ ہے۔رسومات میں پڑ کر لوگ، اپنی زندگی اجیرن کرلیتے ہیں ۔ان مکالموں میں رسومات سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

اس کے بعد ایک فکر مند شاگرد، توبہ اور صحیح راستے کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے اوراس کے بعد ایک نوجوان طالبعلم آجکل کے حالات سے متاثر ہوکر اپنی من چاہی دنیا کے بارے میں کچھ کہتا ہے اور استاد اس کو نصیحت کرتا ہے۔یہ آج کل کے جوانوں کا مسئلہ ہے ۔ان کی مناسب تربیت سے وہ بچ سکتے ہیں ۔ان مکالموں میں ایسے نوجوانوں کے لئے مفید مشورے ہیں ۔

اس کے بعد سلوک اور جذب کا آپس میں مکالمہ ہے ۔سلوک اصلاح کا ایک باقاعدہ طریقہ ہے جبکہ جذب، دل کی اصلاح کا ایک تیز رفتار طریقہ ہے ۔ان میں ہر دو کے فضائل اور ان کے مسائل ساتھ ساتھ بیان کئے گئے اور آخر میں ایک مناسب طریقہ تجویز کیا گیا ہے۔

اس کے بعد تقدیر کے بارے میں ایک متردد شخص کے خیالات ہیں اور اس کا جواب ہے۔یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا مکمل جواب دینا اگر ممکن نہیں تو اس کے بارے میں مکمل خاموشی بھی خطرے سے خالی نہیں ۔زیر نظر مکالمہ اس کی بین بین صورت کی ایک مثال ہے۔ایک کثیر تعداد کو شیطان ان امور میں دھوکہ دے کر راہِ حق سے ہٹا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسے لوگوں کے لئے یہ چھوٹا سا مکالمہ کافی ہوجائے۔

اس کے بعد نفس اور شیطان کی حقیقت کو بھی ایک مکالمے کی صورت میں عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے بعد خودی اور بے خودی پر ایک مکالمہ ہے ۔یہ وہ الفاظ ہیں جو حساس دلوں میں ہلچل تو پیدا کرتے ہیں لیکن ان کا صحیح فہم نہ ہو تو ذہن ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتا ہے۔اس کے بعد تصوف کے آخری مقام کے بارے میں مکالمہ ہے جو اس ضمن میں اختلاف لفظی کو رفع کرتا ہے۔

اس کے بعد میراث میں بہنوں کے حصے پر اشکال کے جواب کا مکالمہ ہے۔اس میں آج کل میراث کے بارے میں ظلم اور ناسمجھی کا بیان کیا گیا ہے۔اس کے بعد، طریقت میں پیر بننے کی نیت کا فساد کیا ہے، اس کے بارے میں مکالمہ ہے۔ یہ وہ گھاٹی ہے جس میں کوئی گر جاۓ تو برسوں کی محنت ضایٔع ہوسکتی ہے۔اس کے بعد ایک اور گھاٹی، کشفیات کا شوق اور اس کے نقصانات کے بارے میں مکالمہ ہے جس میں کشفیات کے شوقین حضرات کو سمجھایا گیا ہے کہ یہ مقاصد میں نہیں ہیں۔اس کے بعد خانقاہی تعلقات کو دنیا کے لیٔے استعمال کرنے پر تنبیہ کی گئی ہے۔

دیوبند ایک عظیم ادارہ ہے۔ جس کا طرہ امتیاز اعتدال ہے جس پر پوری کایٔنات اور پورا دین قائم ہے۔حال ہی میں اسی دیوبند میں افراط تفریط کی وجہ سے بعض چیزیں اصل دین سے ہٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیٔے اس کے بعد ایک مقالہ اصلی دیوبندی کی پہچان پر دیا گیا ہے۔اس کے بعد عورتوں کی بیعت ، غلط اور صحیح تصوف اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے بارے میں مکالمے دیٔے ہوۓ ہیں ۔موت کی یاد سے غفلت ، سخاوت اور عبادت ، ختم نبوت، خانقاہوں کی ضرورت اور جذب پر بھی مکالمے ہیں ۔

دین کی سادگی سے کیا مراد ہے؟ اس میں غلط فہمی سے کیا ہوتا ہے؟ اور ایک غلطی جو ایک مفتی صاحب کو لگی، اس کے بارے میں ایک خصوصی مکالمہ ہے جس میں سادگی اور تعطل کا فرق واضح کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص عبادات مثلاً رمضان ، اعتکاف اور عید میں کیا کرنا ہے کے بارے میں نظموں میں بتایا گیا ۔نیز حب رسول اور سنت پر عمل یہ دونو ضروری ہیں کے بارے میں بھی نظمیں ہیں ۔اصلاح کے مختلف طریقوں اور تبلیغی جماعت سے متعلق بھی کچھ مفید باتیں بتائی گئی ہیں ۔

اس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ قاری کے سامنے افراط تفریط کو رکھ کراصل اور معتدل دین سمجھایا جاۓ۔اس کے لیٔے بڑی بصیرت اور حکمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔احقر کے پاس یہ دونوں چیزیں کہاں۔توکل علی اللہ اپنے بزرگوں کی تحریروں میں غور کر کرکے، اس سے یہ موتی چن چن کر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں بڑا حصہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مولانا اشرف سلیمانیؒ کی کتابوں کا ہے۔

آخر میں چند مفید نظموں کے ساتھ اس کتاب کو ختم کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کو اپنی درگاہ میں قبول فرما کر مؤلف کے لیٔے ایک صدقہ جاریہ بناۓ۔

فکر آگہی کیا ہے؟

ذرا سوچو بھی کہ یہ فکر آگہی کیا ہے

موت آئے گی موت کے بعد زندگی کیا ہے

جب مسافر ہو تو سامان ذرا ہلکا رکھو

مسافری میں آسائش میں مشغولی کیا ہے

 

مزيد تفصيل کے لیٔے اگلے صفحہ پر دی گیٔ نظم کا

مطالعہ مفید ہوگا ۔انشاء اللہ۔

آپ فرمایئے کہ فکرِ آگہی کیا ہے

اور ضرورت بھی بتا دیجیے اس کی کیا ہے

علم کی کیا افادیت ہے جانتے ہیں ہم

سکول کالج یہ مدرسے جو ہیں یہ ہیں نہیں کم

آپ کو کیوں ہے یہ جو آگہی کا آپ کو ہےغم

سمجھ میں آۓ نہیں آپ کی یہ کوشش پیہم

آپ کا پیغام محبت بہت ضروری ہے

پر اسی فکر آگہی کی کیا مجبوری ہے

جواب مصنف

بیٹا یہ جان لو پہلے کہ آگہی کیا ہے

پھر سمجھنا یہ کہ جو فکر ہے اس کی کیا ہے

بیٹا جانتے ہو کہ ہم سارے مسلمان ہیں نا

اور مسلمان جو ہیں حامل قرآن ہیں نا

باوجود اس کے ان کو دیکھ کہ حیران ہیں نا

غیروں سے لیتے ہیں پیہم اور بے جان ہیں نا

فکر اب یہ ہے مسلمان کو ہوا کیا ہے

جس نے یہ حال کیا اس کا وہ بلا کیا ہے

اب مسلمان جب اغیار کا فلسفہ لے لے

اس طرح اپنی تباہی میں خوب حصہ لے لے

اپنی اصلاح کے لیٔے غیر سے طریقہ لے لے

تو وہی غیر اس سے خوب کیا بدلہ لے لے

اس طرح کٹ گیا قرآن سے فلسفے میں ہے گم

کون ہے آۓ کہ اب اس سے کہے دل سے قُمْ

کون ہے اس کو جو قرآن سے ملاۓ گا

اور کون اپنا مقام اس کو یاد دلاۓ گا

کون اس کو کوۓ جہالت سے اب نکالے گا

کون منزل کا اس کو راستہ دکھاۓ گا

جو فلسفہ ہے مرا آپ کا اندازہ ہے

اور قران حقیقت کا اک دروازہ ہے

یہی قرآن آگہی تجھے دلاتا ہے

کامیابی کا تجھے راستہ دکھاتا ہے

اور تلاوت میں خدا سے تجھے ملاتا ہے

اور تدبر سے بہت کچھ تجھے سمجھاتا ہے

اس آگہی کی فکر نہ کروں خاموش رہوں

فسونِ مغرب کا مارا رہوں مدہوش رہوں

جو ماديت کا ہے طوفان وہ بھی سر پر ہے

اور جو عفریت بے حیائی کا ہے ہر در پر ہے

نظرِ انتخاب دشمن کی تیرے گھر پر ہے

اور تیری جو ہے وہ اپنے کروفر پر ہے

کیا کروں چپ رہوں یا چیخوں اور چلاؤں میں

ان ہی کی فکر آگہی کیوں نہ پاؤں میں

دشمن کے ہاتھ سے ڈوری میڈیا کی ہلتی جاۓ

اس سے مایوسی مسلمانوں میں پھیلتی جاۓ

کام چھوڑ کر قوم ہر روز بہلتی جاۓ

اور دھمکی دشمنوں سے روز روز ملتی جاۓ

آگہی میڈیا کی الٹی ہو ، الٹاۓ ہمیں

تو فکر آگہی پھر کیوں نہیں بچاۓ ہمیں

دین کے دشمن ہمیں الحاد سے خراب کریں

ان کے دھوکوں کو ہم پھر کیوں نہ بے حجاب کریں

حملے دشمن اس کے ہم پر جو بے حساب کریں

تو پھر لازم ہے کہ ہم بھی اس کا جواب کریں

اسی کے واسطے فکر آگہی کو لانا ہے

ان کے داؤں کے بارے میں سب کو اب بتانا ہے

سایٔنس روز روز کرشمے نیٔے دکھاتی ہے

سہولیات زندگی کے سامنے لاتی ہے

پر اس کے ساتھ لغویات بھی پھیلاتی ہے

نفس و شیطان کے وسایٔل نئے بناتی ہے

اس سے ہونا متاثر تو کوئی بات نہیں

جو تغیر ہے اس میں ، اس سے تو نجات نہیں

اس تغیر سے اس کی بات کوئی حتمی نہ رہے

اور کوئی ان کو حتمی بات کے مقابل نہ رکھے

مذہب اسلام مستقل ہے ہمیشہ یہ سمجھے

مذہب اسلام کو سایٔنس پر کبھی نہ پرکھے

مذہب ہے غیب پر منحصر مشاہدہ پر نہیں

جو کرے گا وہ خود ہی خود کو ڈبوۓ گا وہیں

لوگ سایٔنس سے کیا مذہب نہیں پرکھتے ہیں

اور اس میں ہر کس و ناکس کا ذوق چکھتے ہیں

اور علماء سے پوچھیں کیا ان سے بدکتے ہیں

یوں یہ الحاد کی بنیاد اس میں رکھتے ہیں

فکر اس کا نہ کروں آگہی حاصل ہو انہیں

نکلیں بھنور سے ، میسر اب تو ساحل ہو انہیں

 

سا یٔل سمجھ جاتا ہے

بات سمجھا میں کہ یہ کام ضروری ہے بہت

آج کے مسلم کے حقیقت سے جو دوری ہے بہت

بحر ظلمات میں آپ کی فکر تو نوری ہے بہت

چھاپنا اس کا ضروری تو اب فوری ہے بہت

میں منتظر ہوں اس کو خوب میں پھیلاؤں گا

اس سے ناسمجھوں کو اب خوب میں سمجھاؤں گا

ہمارا اقبال بھی اسی کشمکش کا شکار رہا ہے۔د یکھیٔے ان کی کایا􀋄 کیسے پلٹی۔اگلے صفحےپر ملاحظہ فرمایئے ۔اس کے بعد رخصتہونا چاہوں گا تاکہ آپ کے اور کتاب میں مز ید حا یٔل نہ رہوں۔

اقبالؒ کی کایا کیسے پلٹی؟

 

رومیؒ نے مثنوی میں کیا پیش اپنا دل

انورؒ کی صحبتوں کا ہوا نور بھی شامل

 

نورِ یِدبیضا سے ہوئیں آنکھیں روشن

اقبالؒ کی، دل سے ہوا یوں حق کا وہ قایٔل

 

اقبالؒ نے دیکھا کہ حقیقت تو یہاں ہے

چھوڑنا نہ رہا خشک فلسفہ کوئی مشکل

 

یہ نور کا رستہ نظر آتا نہیں اُس کو

دل جس کا ہو نابینا ، رہا حق سے ہو جاہل

 

ا ِس عشق کے رستے میں عقل اُس کی ہے خادم

خود دیکھیٔے شبیر کیوں اس میں ہو حایٔل

والسلام

حمد باری تعالیٰ

خالقِ حسن و کمال، لا الہ الا اللہ

کیا ہو پھر اس کا جمال، لا الہ الا اللہ

تھوڑا سا حسن ازل کا تو تصور کر لو

دل اس کے ذکر کی روشنی سے منور کرلو

جو گند دنیا کی محبت کا ہے باہر کرلو

وعدہ جو یوم الست میں کیا ہے پھر کرلو

وہی ہے ہادی و نور، لا الہ الااللہ

وہی صبور و شکور، لا الہ الا اللہ

عطا کیا ہے ہمیں جسم یہ پیارا پیارا

ہمیں دیکھنے کی دی طاقت اور ہمیں سنوایا

نظر دوڑائی جس طرف اس کا کرم پایا

ہمارے واسطے کائنات کو پیدا فرمایا

وہی ستار و غفار، لا الہ الا اللہ

وہی قہار و جبار، لا الہ الا اللہ

اس کی تعریفیں ختم ہوں اس کا امکان نہیں

اس کی قدرت پہ تحیر پہ میں حیران نہیں

قدر کرتا ہے ، اس کی طرح قدردان نہیں

جو اس کے ذکر سے محروم ہے اس میں جان نہیں

وہ ہے رحیم و کریم، لا الہ الااللہ

وہ ہے حلیم وحکیم، لا الہ الا اللہ

اس کی قدرت کی کوئی حد نہیں، قادر ہے وہ

اقتدار اس کا ہی سب پر ہے مقتدر ہے وہ

وہی جامع، وہی اول، وہی آخر ہے وہ

وہی تواب، وہی باطن، وہی ظاہر ہے وہ

وہی والی و ولی ، لا الہ الا اللہ

وہی مغنی و غنی ، لا الہ الا اللہ

رشد اس سے ہی ہے بے شک کہ جب رشید ہے وہ

بزرگی والا اے شبیرؔ ہےجب مجید ہے وہ

اس پہ سب کچھ عیاں کیوں نہ ہو شھید ہے وہ

لائقِ حمد و ستائش ہے خود حمید ہے وہ

وہی لطیف و خبیر، لا الہ الا اللہ

وہی سمیع و بصیر، لا الہ الا اللہ

 

حفاظت

حب دنیا کے، دل پہ جالے نہ ہوں

اور ذہن پر طمع کے تالے نہ ہوں

پھر خدا کے سپاہی بن سکیں ہم

اور پھر شیطان کے ہم آلے نہ ہوں

 

نعت شریف

قلم مرا خدایا نعت پہ مشغول کردے

کوشش اخلاص سے ہو اور اسے قبول کردے

میں کہاں آپﷺ کی تعریف کا سرا ہے کہاں

میں یہاں خاک پہ، پہنچے آپ جہاں ہے لامکاں

کہ جبرئیل بھی قاصر ہے پر مارنے سے وہاں

تو اب درود سے رہوں میں یہاں پہ رطب اللساں

آپ کی تعریف کی ،تعریف سے قاصر تو ہوں

دل ہے بے چین تو کچھ دیر اس کے ساتھ چلوں

حبیب اللہ ہیں، آپ کے جمال کے کیا کہنے

رسول اللہ ہیں، آپ کے کمال کے کیا کہنے

خاتم الانبیاء ہیں، آپ کے حال کے کیا کہنے

شان نبوت کی آپ کی لازوال کے کیا کہنے

فتح کے بعد دشمنوں کو معاف کیسے کیا

فتح کے وقت سر آپ کا رہا جھکا جھکا

کس طرح آپ نے صحابہؓ کی تربیت کی ہے

امت کے ساتھ آپ نے کیسے محبت کی ہے

ہر غلط کام کی کیسے مخالفت کی ہے

چھوٹوں پہ رحم بڑوں کی کیسے عزت کی ہے

آپﷺ کو جب قوم نے ہر حال میں آزمایا تھا

آپﷺ کو صادق اور امین ہی تو پایا تھا

آپ کی زندگی سب، صدق و امانت کی ہے

آپ نے جذبات کی کس شان سے رعایت کی ہے

پر اس کے ساتھ ہر وقت حق کی حمایت کی ہے

جس کو جو چاہيے تھا اس کو ہدایت کی ہے

آپ نے قرآن پہنچایا اور اس کی تعلیم

دی صحابہؓ کو اور ساتھ حکمت کی تفہیم

میں اگر آپ کی سنت کی برکات دیکھوں

اور صحابہؓ کے، آپ کے، میں اگر حالات دیکھوں

آپ کی آل کے جس وقت کمالات دیکھوں

لازماً آپ کی پیروی میں، میں نجات دیکھوں

سب سے آسان جو رستہ ہےآپ کی سنت

محبوبیت کا ذریعہ ہے آپ کی سنت

حق ہے چاہا جو خدا نے تو آپ نے وہ ہی کیا

آپ کا قول جو بھی ہے آپ کو وحی ہوا

رب کو محبوب ہے، کرے دل سے جو آپ کی اتباع

خود بخود دل سے برآمد ہو مرے صلِ علیٰ

آپﷺ کی تعریف ،آپ کی نعت ،قرآن کا حصہ

آپﷺ کی ذات سے محبت ہے ایمان کا حصہ

جس کو اللہ سے محبت ہو اور آپﷺ سے نہ ہو

کیا یہ ممکن ہے ؟ جو مؤمن ہے سے خود ہی سوچو

رحمت خدا سے جب چاہوآپﷺ پہ درود بھیجو

کامیابی ہو گر مقصود آپﷺ کے رستے پہ چلو

مختصر یہ خدا کے بعد بزرگ تر آپﷺ ہیں

ہر خوش نصیب کے شبیرؔ ،دل کے بس افسر آپﷺ ہیں

 

 

سبب اور مسبب الاسباب

دنیا دار العمل ہے اور اسباب کا گھر ہے

منشائے الٰہی سے ان اسباب میں اثر ہے

اسباب بہر حال مؤثر نہیں خود سے

مسبب الاسباب پر ضروری نظر ہے

 

اہل حق

یہ اہلِ حق تو سارے ہیں باہم شیر و شکر

دشمن کی سازشوں کا ان پہ کچھ نہیں اثر

اے کاش ختم ہو کہ ہیں جو غلط فہمیاں

شبیرؔ مسلمان پھریں یوں نہ در بدر

 

 

دعا

حمد و تسبیح زبان پر ہو صبح شام یا رب

زباں پہ ذکر کے اجراء کو سمجھیں کام یا رب

اپنے ماضی کے گناہوں پہ استغفار کریں

لباسِ عجب و تکبر کو تار تار کریں

عاجزی تجھ کو ہے پسند اس کو اختیار کریں

تری پہچان کے واسطے دل کو بیدار کریں

خوش اسلوبی سے ہوان سب کا انتظام یا رب

حمد و تسبیح زبان پر ہو صبح شام یا رب

سب کو اب چھوڑ کر تجھ سے ہی دوستی کرلیں

جو تو چاہتا ہے ہم سے صرف ہم وہی کرلیں

جس سے ناراض ہوتا تو ہے، ہم نہیں کرلیں

سامنے تیرے قلب و ذہن سلامی کرلیں

تو دے توفیق، ہو ان سب کا اہتمام یا رب

حمد و تسبیح زبان پر ہو صبح شام یا رب

جو ہے خانقاہ کی یہ خدمت قبول ہوجائے

راستہ اس کو ملے تیرا جو یہاں آئے

ہو یہ محفوظ، پڑیں اس پر نہ اب برے سائے

آخرت میں ہے یہ قبول، یہ تو فرمائے

قبول سب کو ہو شبیرؔ کا یہ پیغام یا رب

حمد و تسبیح زبان پر ہو صبح شام یا رب

توحید پر ایمان

نہیں کوئی معبود لا الہ الا اللہ بس صرف اور صرف خدا

وہی ہی دیتا ہر کسی کو ہے وہ اپنی قدرتوں میں ہے یکتا

ہم جھکیں کیوں کسی اور کی جانب، اک خدا صرف ہمارا معبود

ہم کسی اور کے لئے کیوں کام کریں، وہی ہی اصل میں ہے جب مقصود

باقی سب کچھ تو اس کے دم سےہے، کہ وہی ہے حقیقتاً موجود

دوسرے کیونکر نظر آئیں گے اسے، کہ ہے عاشق کاصرف وہی مشہود

جب بھی مشکل کوئی پڑے ہم کو، اپنا کارساز صرف اسے جانیں

اپنا داتا صرف اسے جانیں اپنی حاجات صرف اس سے مانگیں

شرک سےاب دور ہمیں رہنا ہے اورکسی دوسرے کو سجدہ نہ کریں

کتنا یہ کام بے وقوفی کا ہے کبھی یہ کام بے ہودہ نہ کریں

وہ تو شہ رگ سے ہے قریب اپنے، اس سے خود کو کبھی جدا نہ کریں

اب بھروسہ صرف اسی پر ہو اور کسی غیر پہ تکیہ نہ کریں

وہی کارساز ہے قدرتوں والا، اب اس پہ چھوڑ دے سب کچھ اپنا

دل میں وہ ہی ہو، نظر اس کی طرف، ہر وقت اس کا نام ہو جپنا

وہی تو ہے جو بن سکے محبوب، دل ہو دینا تو صرف اسے دینا

ہاتھ رکھتا ہے اپنا اوپر ہی، اس کا بن جا اس سے سب کچھ لینا

سوچ لو! سوچ لو! ہاں پھر سوچودینے والا صرف وہی ہے نا

وہ ترے پاس ہے ہر وقت، شبیرؔؔہر وقت ساتھ اس کے ہی رہنا

انَّا للہ کہو اور کہہ دل سے، کہ ہم خدا کے ہیں، دل سے جان لو

انَّا الیہِ رَاجِعُونْ کہہ کر اس کے جانب ہے لوٹنا مان لو

مقامِ نبوت

جیسے مطلوب ہے اس طرح خدا کا ماننا ہے

اور پھر ہرحال میں اس کا حکم بھی جاننا ہے

کیا ہے مطلوب، کیا حکم ہے، یہ کیسے جانیں گے

اس حکم پر خود کو ہر وقت کیسے لائیں گے

وہ ہے محبوب یقیناً اسی کو چاہیں گے

اس کے ہونے کا طریقہ ہم کیسے پائیں گے

خدا کے دینے کا اک ہی ذریعہ ہے بس نبی﷐

خدا سے لینے کا اک ہی واسطہ ہے بس نبی﷐

نبی﷐ ہی جانے کہ کس وقت کیا کرنا ہے

ہمارا کام ہر وقت اس کے پیچھے چلنا ہے

اس کی سیرت کے مطابق خود کو سنورنا ہے

اور اس کے دل کے نور کو، دل میں اپنے بھرنا ہے

جانیں ہم کیا؟ وہی صفات الہٰی جانیں

علم لیں اس سے، عمل بھی ہم اسی سے پائیں

وہی صحیح عقائد ہمیں سکھاتا ہے

وہی ہی کام کے کرنے کا گر بتاتا ہے

ہدیٰ کا رستہ ہمیشہ ہمیں دکھاتا ہے

شبیرؔ خدا سے نبی﷐ ہی ہمیں ملاتا ہے

نبی﷐ پہ ایماں ہی دیکھو تو اصل ایماں ہے

اسی کی ذات، حق و باطل کا اصل فرقاں ہے

فرشتوں پر ایمان

جو فرشتے ہیں زبردست ہیں نوری مخلوق

کام کے واسطے ہر آن ہیں حضوری مخلوق

یہ ہیں تکوین کے احکام پہ عامل ہروقت

اسی نظام تکوینی میں ہیں شامل ہر وقت

پورے کرتے ہیں اپنے کام کے مراحل ہر وقت

ہیں سب بے نفس، جوتا بعدار ہے سب کا دل ہر وقت

ان کو ہو جیسا حکم اس کے تابعدار جانو

بڑے مخصوص کاموں پہ جو ہیں ان کوچار جانو

وحی اور خاص کاموں پہ ہیں مامور جبرائیل

بارشوں کے نظام کے واسطے ہیں میکائیل

صور پھونکنے پہ ہیں مامور ان میں اسرافیل

موت کے سارے ملائیک کے سردار عزرائیل

یہ سب چلاتے ہیں خوبی سے سارے اپنے نظام

نامکمل کبھی رہتا ہی نہیں ان سے کام

کچھ ملائیک ہیں جو کرتے صرف عبادت ہیں

کچھ ہیں کرتے جو نیک کاموں میں معاونت ہیں

کچھ ساتھ نیک لوگوں کے ہیںجن کے دلوں کی راحت ہیں

مختلف کام ان کے ایسے تا قیامت ہیں

جنت و دوزخ پہ بھی مامور فرشتے ہوں گے

اور خدا جانے شبیرؔ کتنے مرحلے ہوں گے

 

کتابوں پر ایمان

 

صحف کے ساتھ کتابیں ہیں اتریں چار ساری

تورات، زبور، انجیل، قرآن، یہ ہیں سب پیاری

مگر قرآن کے علاوہ ہیں اب منسوخ یہ سب

اور قرآن کا فیض ہے تا قیامت جاری

 

تقدیر اور دعا

 

خدا کے علم میں ہےجو بھی پیش آتا ہے

ہر ایک دنیا میں اپنا نصیب پاتا ہے

خدا کا حکم جب بے فائدہ نہیں کوئی

عمل ہو اس پہ، اس کا حکم جب دعا کا ہے

 

نوٹ۔ اس کی تفصیل کے لئے آخری مکالمہ ملاحظہ فرمائیں

 

آخرت پر ایمان

یہ دنیا میں لگانا دل تمہیں کیا راس آئے گا

جو ہے ایک عارضی نقشہ جسے تو چھوڑ جائے گا

نہ ڈالے تجھ کو غفلت میں یہ دنیا کے مزے بھائی

ہوا غافل وہاں سے جوتو اس نے منہ کی ہے کھائی

مزے تھوڑے تو ہیں پر آپ نے کیا بات فرمائی

ہے دنیا قید خانہ، بات اس میں کیا نظر آئی

یہ سوچو قید خانے میں کوئی رہنا نہیں چاہتا

ہمیشہ کی مصیبت کوئی بھی سہنا نہیں چاہتا

وہاں جو ہے وہ ہے زیادہ اور وہ باقی بھی ہے یارو

تو اس کے واسطے وہ چھوڑنا کیسا رہے پیارو

اگر یہ عقل کہتی ہے اسے دیوار پہ دے مارو

کہ وہ ہے نفس زدہ تو نفس کی تربیت بھی کروادو

یہاں کی جو مصیبت ہے وہ اک دن ختم ہوجائے

بغیر ایمان عذابِ آخرت ختم ہی نہ ہو پائے

گناہ آلود گر ایمان کے ساتھ ہوزندگی یاں پر

حساب معلوم ہوجائے گا جب آئیں گے میزاں پر

عذاب اس کے مطابق جھیلنا ہوگا اسے واں پر

تو سوچے کیسے ہوپھر آگئی حالت یوں گر جاں پر

اس مشکل حال سے خود کو اگر واں پر بچانا ہے

گناہوں سے ہمیں خود کو ہمیش یاں پر بچانا ہے

ہمیں معلوم ہونی چاہئے کیفیت جنت کی

وہاں پر زندگی ہوگی مزے کی عیش و عشرت کی

ہو عیش من چاہی منہ مانگی کروفر شان عزت کی

نصیب دیدار اس کا ہو ،نظر ہو اس کی رحمت کی

ملے گا مژدہ میں راضی ہوں اب ناراض نہیں ہونا

مزے یہ مل گئے تم کو ہمیش ان کو نہیں کھونا

جہنم میں ہمیش ہوں گے جو بے ایمان ہوں گے سب

کہا جائے گا ان کو، تم سے میں راضی نہ ہوں گا اب

وہ چاہیں گے کہ مرجائیں مگر پھر موت آئے کب

کہ موت تو مینڈھے کی شکل میں ذبح ہوئی ہےجب

شکر ایمان پر، یا رب ہو اپنا خاتمہ اس پر

گناہوں سے بچا شبیرؔ کو اور نیک اس کوکر

 

قارئین سے درخواست ہے کہ اس پر آمین کہیں ۔میں ان کے لئے بھی یہی دعا کرتا ہوں۔

 

 

 

اصل دعوت الی اللہ کیا ہے؟

یقیناًان سے بات کس کی، سن اچھی ہوگی؟

بصیرت سےجس نے اللہ کی دعوت دی ہوگی

دعوت کے ساتھ وہ اعما ل بھی نیک کرتے ہوں

اور ہو مؤمن مسلمانی کا بھی دم بھرتے ہوں

ماشاءاللہ اس پہ پورے بھی وہ اترتے ہوں

اور وہ ہر حال میں اللہ سے بھی ڈرتے ہوں

دعوت خدا کی طرف اس طرح تو ہے بہتر

اس کی قسمیں ہیں مختلف اور بے شمار مگر

ہے یہ دعوت موذنین جب دیتے ہیں اذان

اور یہ بھی کہ جب جہاد کرے مرد میدان

اور حق کے واسطےعلماء کے دلائل کا بیان

اور اس کی کہ ہو حاصل ہمیں کیفیت احسان

دعوت اک خاص طریقے کے ساتھ نہیں مخصوص

ان سب طرق کے ہیں موجود اشارے منصوص

چاۂیے ہے کہ ہم سب بھی اس دین کے داعی بنیں

ہم مستعد اور مسلح دین کے سپاہی بنیں

حق پہ ہم ہوں اور حق کے راستے کے راہی بنیں

خدا چاہی بنیں ہم سب نہ کہ من چاہی بنیں

یہ سارے راستے اس دین کی دعوت کے ہیں

طریقے مختلف اپنے اپنے، محنت کے ہیں

ہم اگر ان میں کوئی بھی اک طریقہ لے لیں

اس میں بھر پور پھر پورا گر حصہ لے لیں

خوب محنت کریں اس میں اچھی طرح لے لیں

دل میں لیکن یہ ہمارا بھی اک نسخہ لے لیں

دوسرے طریقوں کی ہر گز مخالفت نہ کریں

اہل حق میں کسی کو ہر گز ملامت نہ کریں

و التکن منکم امتاً یدعون کا کیا مطلب

کہ یہ دعوت کے طریقے فرض کفایہ ہیں سب

دل میں یاد رکھو ہمیشہ یہی مضمون تو اب

کہ غیر ضروری اختلاف سے بچنا ہے جب

صرف دعوت ہی نہیں اور بھی دین کے ہیں کام

جو بھی ہیں کام دین کے ان کا ہے واجب احترام

جو بھی داعی ہے اس کا کام ہے دین پر لانا

علم کے واسطے علماء کے پاس لے جانا

اصلاح کے واسطے مشائخ سے بھی ان کا ملانا

اس طرح پورے دین پہ ان کوحکمت سے چلانا

جو بھی داعی ہے وہ نظر اپنی محدود نہ رکھے

تاکہ شبیرؔ ہر ایک خیر سے پھر خوب وہ چکھے

 

 

دینی مدارس کی اہمیت

 

نبی﷑ کا کام اللہ کی کتاب کی تعلیم

اور اس کے ساتھ اس کا کام حکمت کی تفہیم

درس و تدریسِ علم دین ہے تسلسل اس کی

اس لئے دینی مدارس کی ہے لازم تکریم

فرض عین علم کیا ہے؟

 

کرنا کیا ہے اور ہے نہ کرنا کیا

اور جو کرنا ہے، ہے کیسے کرنا

ہر وقت کے عمل کے واسطے پس

فرض عین ہے یہ روزمرہ فقہ

فرض عین علم کی کتابیں

ہے ایسی کتابوں کا گھر میں ہونا ضروری

جس سے ضرورت علمِ فرض عین کی ہو پوری

معلوم مسایٔل رہیں بوقت ضرورت

ره جاۓ کوئی بات عمل میں نہ ادھوری

فرض عین علم کی تدریس

 

دروس قرآن و حدیث کے تو ہیں پیارے سارے

کہ ان پہ منحصر ہیں دین کے رستے سارے

 

تجھ کو یہ علم نہ ہو گر، کہ کیا وہ چاہتے ہیں

عبث ہوں شایدپھر عمل کے طریقے سارے

 

علم نافع کی ناقدری سے جہالت پیدا

اور جہالت سے ہی اٹھتے ہیں پھر فتنے سارے

 

ہزار عابدوں پہ ہے حق کا عالم بھاری

فروع حق میں ہوں مشغول یہ مدرسے سارے

 

پر یہ دنیا کی محبت دلِ عالم میں نہ ہو

ورنہ پھیلیں گے علم سوء کے نقشے سارے

 

شبیرؔ فرض کفایہ علم پہ زور نہ ہو صرف

جو فرض عین ہے اس کے بھی ہوں سلسلے سارے

 

دینی سیاست کی اہمیت

 

اب تک اس مملکت میں کیوں نہیں ہوا آغاز

اسلامی فیصلوں کا بتا د یہ راز

 

ایوانِ حکمراں پہ رہے قبضۂ دشمن

اور ان کے اشاروں پہ کرے ناچ جب مجاز

 

پھر حق کی صدا کیسے بلند ہوسکے وہاں

اس کے لئے بھی چاہئے کوئی تو جانباز

 

جب ہو برادری و مال اصولِ انتخاب

تو باطل و حق میں رہے پھر کیسا امتیاز

 

ہیں دین کے سب کام ضروری مگر ہے بھی

فرض کفایہ شرعی قوانین کا نفاذ

 

مستغنی نہ ہوں دین کی سیاست سے کبھی بھی

مؤمن کو اب سنادے یہ شبیرؔ کی آواز

دینی سیاست کی اہمیت

 

اب تک اس مملکت میں کیوں نہیں ہوا آغاز

اسلامی فیصلوں کا بتا د یہ راز

 

ایوانِ حکمراں پہ رہے قبضۂ دشمن

اور ان کے اشاروں پہ کرے ناچ جب مجاز

 

پھر حق کی صدا کیسے بلند ہوسکے وہاں

اس کے لئے بھی چاہئے کوئی تو جانباز

 

جب ہو برادری و مال اصولِ انتخاب

تو باطل و حق میں رہے پھر کیسا امتیاز

 

ہیں دین کے سب کام ضروری مگر ہے بھی

فرض کفایہ شرعی قوانین کا نفاذ

 

مستغنی نہ ہوں دین کی سیاست سے کبھی بھی

مؤمن کو اب سنادے یہ شبیرؔ کی آواز

 

جہاد فی سبیل اللہ

 

دشمنِ جاں جو بہائم ہیں مارنا ان کا

جائز ہے گر، تو ہو کیا حکم دیں کے دشمن کا

 

آپ کے آخری دس سال کے کام دیکھیں ذرا

متردد جہاد کے بارے میں دل ہے جن کا

 

مارے اور پھر دفاع میں مارنے کو برا سمجھے

وہ یہ سوچے کیا خون ارزاں ہے اتنا مؤمن کا

 

جنت تلواروں کی سائے میں ہے یہ کس نے کہا

راہ ملے کیسے راہ گر نہ روکو رہزن کا؟

 

جو ہے مقتول اس کے راستے کا وہ زندہ ہے شبیرؔ

آساں طریقہ کامیابی کا ہے اس دن کا

 

 

صحابہؓ کی شان

صحابہؓ کی شان میں بیان کیا کروںکہ قرآں میں اس کا بیاں ہوچکا ہے

صحابہؓ کا رستہ ہدایت کا معیار

طریق نبی﷐ یعنی سنت کا معیار

حب ان کا نبی﷐ کی محبت کا معیار

ستارے ہدایت کے ہیں یہ صحابہؓ مقام ان کا سب پر عیاں ہوچکا ہے

یہ حبِ صحابہؓ نہ ہو جن کو حاصل

نہ ہوسکتا ہے وہ کبھی حق کا واصل

یہ حق اور باطل کا ہے ایک فاصل

جو بغضِ صحابہؓ کا داعی بنے تو جو شر ہے وہ اس میں جواں ہوچکا ہے

عقیدہ صحابہؓ کا اصلی عقیدہ

جو ہے مختلف اس سے ،ہے سر بریدہ

کہ باقی شنیدہ ہیں اور وہ ہیں دیدہ

جوغیر انبیاء سے ہیں افضل یہ سارے کہ رب ان پہ یوں مہرباں ہوچکا ہے

کبھی بھی صحابہؓ پہ تنقید نہ کرنا

کہ بارے میں ان کے خدا سے ہے ڈرنا

جو ان سے کٹے، ان کا کیسے سنورنا

تباہی کے رستے کھلے واں پہ شبیرؔ ظلم خود پہ ایسا جہاں ہو چکا ہے

اہلِ بیت کا مقام

مقام اہل بیت کا بیاں کیا کروں محبت کے آسمان کے تارے ہیں یہ

جو سمجھے کوئی دل میں شانِ رسول

ہو محبوب انہیں خاندانِ رسول

ذرا پڑھ تو لینا فرمانِ رسول

ہے قرآن کے ساتھ عترتی اس میں جب لائق اتباع کے پھر سارے ہیں یہ

خواتینِ جنت کی ہے سیدہ

جگر گوشہ آقا کی ہے فاطمہؓ

مثالی رہی ہے یوں ان کی حیا

مثالی رہے ہیں یہ سب اہل بیت، نہیں غیر کے ہیں ہمارے ہیں یہ

شجاعت علیؓ کی رہی ہے مثالی

جو ہیں بابِ علم مقام ان کا عالی

سلاسل کے باغِ مقدس کے مالی

یہ گلشن نبی﷐ کے ہیں پھول ایسے ،کہ جو حق پہ ہیں سب ان کے پیارے ہیں یہ

وہ سردارِ امت اور نام کا حسنؓ

فہیم اُمت تھے بچایا چمن

تھے اُمت کے جوڑ کی امید کی کرن

یہ آقا کے گود میں پلے اور بڑھے ہیں اور آقا کے سچ مچ دلارے ہیں یہ

وہ شیر متقی ، وہ حسین ؓ ، وہ نڈر

کہ حق کے لئے پیش کیا جس نے سر

جب آواز حق اس پہ تھی منحصر

رقم اپنے خون سے کی داستانِ حق ،عجب فکرِ حق کے نظارے ہیں یہ

نبوت، ولایت یہاں دیکھ لو

یہ دل کا کچھ اور ہی جہاں دیکھ لو

شبیرؔ ان کی قربانیاں دیکھ لو

تبھی ساتھ ہونے کا فرمایا ہےکہ دیں پر عمل کے سہارے ہیں یہ

 

نوٹ۔صحابہؓ کا لفظ اگر اکیلے آئے تو اس میں امہات المؤمنین ، اہل بیت اور سارے باقی صحابہؓ شامل ہوتے ہیں۔

 

 

اہل سنت و الجماعت صحابہؓ کس کو کہتے ہیں؟

 

بوبکرؓ صحابی ہے تو علیؓ بھی صحابی

اور عائشہؓ صحابیہ تو فاطمہؓ ہے بھی

اور مائیں بھی اپنی صحابیات ہی توہیں

حسنینؓ صحابہ ہیں یہ ان سے جدا نہیں

 

 

امہات المؤ منین کا مقام

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

حدیجہؓ کا جب لب پہ آتا ہے نام

تصور میں میں پیش کردوں سلام

وہ ایثار و قربانی و احترام

نبی﷐ کے لئے جو ہمیش کرتی تھیں، ذرا سوچے کوئی کہ وہ کس قدر ہے

حمیرا لقب عائشہؓ ماں ہماری

اشاعت میں دیں کا حصّہ ان کا بھاری

اٹھائی ہے کس شان سے ذمّہ داری

ہے قرآن میں ان کی براءت کا اعلان جو ظاہر کہ سب پر" کالشمس و القمر "ہے

ہمیں ماؤں سے دین کا حصّہ ملا وہ

ہے باقی صحابہؓ سے بالکل چھپا وہ

جو دیں کے لئے تھا ضروری کیا وہ

بغیر اس کے تکمیل دین کیا تھا ممکن، یوں احسان ان کا بہت امت پرہے

تو بھیجیں ہم ان پہ شبیرؔ اب سلام

رہے دل میں ان کے لئے احترام

ایصالِ ثواب کا بھی ہو اہتمام

کہ ماؤں کا حق ہے مسلم، وہ سمجھے شرافت کی جس کی کوئی کچھ نظر ہے

میں ماؤں کا جب بھی مقام سوچوں تو جھکا احترام سے مرا جاتا سر ہے

 

اہل سنت والجماعت کا مسلک

اہل سنت و الجماعت ساری احادیث کو پڑھ کر سب کو صحیح سمجھ کر اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں اس لیئے یہ کسی کے بھی خلاف نہیں اور حق پر ہیں ۔دوسرےلوگ البتہ ان کی مخالفت ضرور کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔

قرآن و سنت معیارِ ہدایت

 

قرآن اور سنت تو ہے معیار یقیناً

سنت اور صحابہؓ پہ ہے مدار یقیناً

قرآن و سنت پر ہو عمل کیسے اے شبیرؔ

ہے اس میں بڑا فقہ کا کردار یقیناً

اہل تشیع عام صحابہؓ اور امہات المؤ منین کو نہیں مانتے اور ناصبی اہل بیت کو نہیں مانتے۔

صحابہؓ بطور شارحِ قرآن و سنت

 

سب مل کے صحابہؓ ہیں بڑی شان ہے ان کی

سنت کے یہ شارح ہیں یہ پہچان ہے ان کی

سنت پہ عمل ان کی ہی تشریح سے ممکن

قرآن کے سمجھنے پہ لگی جان ہے ان کی

اہل سنت وا لجماعت کون؟

 

قرآن کی تشریح ہے سنت پہ منحصر

تشریح میں سنت کی صحابہؓ ہیں معتبر

ہیں اہل سنت والجماعت وہ کہ جو چلیں

تینوں گروہِ صحابہؓ کی تشریح کو لیکر

 

 

صحابہؓ سے بغض

 

اور دشمنی بھی ان کی بہت سخت ضلالت

کرتے جو دشمنی ہیں ان سے اس پہ ہے حیرت

من ابغضھم کوبھی فببغضی سے جوڑ لو

پھر دیکھ لیں کہ ان سے بغض ہے کتنی حماقت

 

 

غیر مقلدین کا پہلا دعویٰ (مقلدین کا اس سے اختلاف نہیں)

 

قرآن میں ہدایت ہے تو تشریح ہے سنت

یہ دونوں جو مل جائیں توملتی ہے ہدایت

ان دونوں کو مضبوط پکڑنے کا حکم ہے

ان میں کوئی چھوٹے نہ ورنہ چھائے ضلالت

غیر مقلدین کا دوسرا دعویٰ

 

سنت حدیث سے ہے، ہو حدیث پہ عمل

ہو دونوں کے سنگم میں اپنا دین مکمل

تو اس طرح تیسرے کی ضرورت نہیں کچھ بھی

یہ راستہ جنت کا ہے سیدھا تو اس پہ چل

 

اہل سنت کا استفہامیہ جواب

 

قرآن سے، سنت سے اخذ کون کرے گا؟

عالم نہ ہوں اگر، تو انہیں کون سمجھے گا؟

خیر القرون کا مجتہد بہتر اسے کرے

یا آج کا، مسجد کا امام درست رہے گا؟

غیر مقلدین کا تیسرا دعویٰ

 

قرآن ہے امام، اماموں کی ضرورت کیا؟

حدیث بھی موجود تو پھر فقہ کی حاجت کیا؟

ہے عقل اپنے پاس تو ان دو سے ہی پوچھیں

ان دو سے آگے کون؟ کہ بولے اس کی جرأت کیا؟

جواب میں غیر مقلد کا اپنا حال

 

جو غیر مقلد ہیں ان کا نفس ہے امام

قرآن سے، حدیث سے، ان کا ہے کیا کام؟

آقا نے فقاہت کو بھلائی ہے بتایا

دشمن یہ فقاہت کے ہیں، ان کو ہے بس سلام

غیر مقلدیت کا وبال

 

جو غیر مقلد ہیں، مقلد ہیں سمجھنا

جب ان کا کسی اور کے پیچھے رہے چلنا

دور فتن کا فرد ہے، امام ان کا دیکھ

خیر القرون کے مجتہد سے ان کو ہے بچنا

فقہاء اور صحابہؓ

 

قرآن کے سنت کے مفاہیم کےحامل

جو نور فقہاء کو صحابہؓ سے تھا حاصل

حسب حدیث ان کو بھلائی ہوئی نصیب

اس نور سے مرتب ہوئے فقہ کے مسائل

اہل سنت اور اہل بیت

 

ہیں اہلسنت و الجماعت کے پیروکار

قرآن و سنت اور صحابہؓ کے تابعدار

ان کے آئمہ سارے اہل بیت کے ممنون

یہ اہل حق ہیں کرتے نہیں حق سےیہ انکار

اہل سنت اور تینوں گروہ صحابہؓ

اہل سنت، سنت ہی پہ چلنے کے ہیں داعی

اہل جماعت یعنی صحابہؓ کے سپاہی

ماؤں پہ اپنی جان یہ کرتے ہیں نچھاور

اور اہل بیت کے بھی یہ طریقوں کے ہیں راہی

اہل سنت کے امام اہل بیت کے ساتھ

نعمانؒ ہمارے ہیں جو جعفرؓ کے خلیفہ

مالکؒ بھی ان ہی ایک معتبر کے خلیفہ

احمدؒ بھی اہل بیت سے کچھ بھی نہیں جدا

شافعیؒ امام ان کے ہی پسر کا خلیفہ

اہل سنت حامل عدل

ہے رستہ عدل کا جب سب سے بہتر

تشدد پر چلے کوئی کیونکر

ہیں حامل اہل سنت عدل کے تب

کہ ہے آقا کی ہر نسبت معتبر

آقا کے ہر ساتھی کے ساتھ

 

کیوں کوئی نفس کے راستے پہ چلے؟ اور اپنے آقا کے رستے سے ہٹے

اہل بیت ، مائیں ، صحابہؓ آپ کے ساتھ

احترام دل میں سب کا کیوں نہ رکھے

فقہاء کا مقام

پڑھ احادیث سمجھ آئے فقہاء کا مقام

پھر ذرا سوچو کہ کیا ہے ان اولیاء کا مقام

بھلائی کا ہو ارادہ جب رب کا جس کے ساتھ

سمجھ وہ جاتا آسانی سے ہے پھر دین کی بات

دین کی تشریح میں استعمال ہو پھر اس کی ذات

لگے اس کے دین سمجھنے سمجھانے میں اوقات

وہی منشاء الہٰی کا پھر بنیں ناشر

وہ پھر محفوظ رکھیں دین کا جو ہے ظاہر

فقہ کا لفظ ذرا سوچ فقاہت سے ہے

ابتدا اس کی بھی حدیث کی روایت سے ہے

فہم قراں سے اور ساتھ ہی سنت سے ہے

اور بالخصوص اجتہادی بصیرت سے ہے

یاد رکھنا اس میں تقویٰ کا مرکزی کردار

علم ظاہر میں بھی باطن کے ہیں مطلوب آثار

نیز واقعات صحابہؓ پہ یہ رکھتے ہیں نظر

جب صحابہؓ ہوںمتفق ، یہ متفق ہوں ادھر

جن مسائل میں صحابہؓ کا اختلاف ہو اگر

ان کا کام کچھ نہیں ان میں صرف تطبیق مگر

راجح مرجوح کی تشخیص یہ پھر کرتے ہیں

فیصلہ کرتے ہیں پر اس میں یہ سب ڈرتے ہیں

جو فقہاء ہیں حق تو اولیاء وہ سارے ہیں

کیونکہ آسمانِ فقاہت کے وہ ستارے ہیں

یہ ہدایت کے ذریعے ہیں سب ہمارے ہیں

ہمیں یقیں ہے کہ اللہ کو سب پیارے ہیں

مگر ہم پیروی تو ایک کی کرسکتے ہیں

ساتھ محبت مگر ہم سب کے لئے رکھتے ہیں

جو فقہاء کی قدردانی نہیں کرتے ہیں

اس معاملے میں وہ خدا سے نہیں ڈرتے ہیں

اپنے خیالات کے جنگل میں صرف چرتے ہیں

بے ادبی بھی کبھی اس میں کر گزرتے ہیں

کاش شبیرؔ، ان کو بھی نصیب فقاہت ہوتی

دین سیکھنے واسطے فقہاء کی بھی حاجت ہوتی

 

فقہاء اور محدثین

خدا کا رحم فقہاء پر ہوں، ہوتے ہیں یہ معالجین کی طرح

محدثین ہیں دواساز ان کے دوایٔیوں کے ماہرین کی طرح

کام دونوں کا ضروری ہے بہت ان میں امت کا بہت خیر سمجھ

دل سے دو ان کو دعا اور مانو مقام ان کا صادقین کی طرح

محدثین کا مقام

خدا نے چاہا کہ محفوظ ہو آپ کا اسوہ

محدثین کو دی توفیق وہ سب کچھ لکھا

جو کہ کسی طرح کسی سے بھی آپ نے کچھ کہا

یا کسی وقت بھی کسی طرح بھی کچھ کام کیا

یا کوئی کام جو آپ کے سامنے ہوا،ہونےدیا

یا کسی کام کو جو سامنے ہوا، ہو وہ روکا

ان ہی اخبار کو احادیث نبوی﷐ ہم کہیں

ہمیں کہ حکم ہے اسوہ نبی﷐ کا اپنائیں

ان احادیث کو پرکھنے کا بھی نظام ہے ایک

جو ہیں راوی ان کو جاننے کا انتظام ہے ایک

رجال کو جاننے والوں کا بھی مقام ہے ایک

حدیث کے بارے میں جاننا ضروری کام ہے ایک

پرکھنے والے کسی کی بھی رعایت نہ کریں

کسی کے بارے میں بیان میں خیانت نہ کریں

ان احادیث میں ہر طرح روایتیں موجود

اس لئے مختلف حدیث کی قسمیں موجود

کچھ صحیح کی،کچھ اس سے کم کی کتابیں موجود

کیونکہ ان سب کی جمع کی ہیں حکمتیں موجود

صحاح کی فقہ کی تدوین میں ضرورت ہے بہت

اور فضائل میں اور کو لیں اس میں وسعت ہے بہت

کسی نے سوچا کہ آقا کی بات کمزور نہ رہے

کہیں آپ سے کوئی غیر واقعی منسوب نہ کرے

کسی قسم کی بھی اس واسطے تبدیلی سے ڈرے

سب ثقہ راوی ہوں جس کے، وہ روایت لے لے

محدثیں ایسے صحیح ہی روایات لے سکیں

جن کی صحت کی شرائط پر گواہی دے سکیں

محدثین فقہاء اور صوفیاء

 

دین کو محفوط، محدثین نے کیا اور استعمال میں فقہاء لاۓ

دونوں کی محنتوں نے پھل جو دیا خوش نصیب اس سے بہت خیر پاۓ

نتیجہ اس کا علماء سے لیں ہم ، نفس گر اس میں رکاؤٹ ڈالے

نفس کی تربیت کرنے کے لیۓ بفضل حق پھر صوفیاء آۓ

کامیابی کا راز

 

ہے بہترین نمونہ اسوہ ، نبی﷐ کا ہے وہ حدیثوں میں موجود

اور اس سے سنتیں پائیں ہم نے ، جن پہ ہے منحصر اپنا بہبود

عشق مہمیز ہو تو ان پہ عمل، ہم کو عالم کا بناۓ سردار

راز جانے ہے یہ دشمن اپنا ، اس سے روکے ہیں نصاریٰ و یہود

اختلاف

مرے استاد بتا یہ کہ اختلاف کیا ہے؟

اس اختلاف میں طریقٔہ انصاف کیا ہے؟

میں نے ارد گرد یہاں مختلف فرقے دیکھے

باہمی دست و گریبان اور لڑتے دیکھے

اس طرح توڑ کے امت میں سلسلے دیکھے

اس طرح کرتے جو ہیں ان کو صحیح کیسے کہوں؟

اور اگر ہے یہ غلط اس پہ میں چپ کیسے رہوں؟

کوئی شافعی ہے مالکی ہے یا پھر حنفی ہے

کوئی حنبلی ہے جعفری ہے یا پھر سلفی ہے

توڑنا امت کا ٹکڑیوں میں کام منفی ہے

ان میں کوئی بھی محمدﷺ کا پیروکار نہیں

محمدی کہلوانے کو جو تیار نہیں

جس طرح ایک خدا ہے اور قرآن بھی ہے ایک

ایک کعبہ ہے اور رسول آخر زمان بھی ہے ایک

دیکھ لیں ہم ذرا آیا کہ مسلمان بھی ہے ایک؟

تفرقے کو تو کرتے خدا پسند نہیں

تو کیوں یہ سارا اختلاف بھی ہو بند نہیں؟

 

استاد کا جواب

میرے بیٹے ترا جذبہ ہے یقیناً بہتر

لیکن اس میں کھلا نہیں ہے ابھی حق تجھ پر

جوں کے مارنے کوجلاتا نہیں کوئی بستر

مخالفت اور اختلاف کا فرق جان لینا

اس میں جو حق ہو، سمجھتے ہوئے وہ مان لینا

وہ بھلائی ہی ہے جو دین کی فقاہت ہے

یہی ہے خیر، اسی میں عوام کو راحت ہے

سمجھ کی ان کو بغیراس کی کہاں طاقت ہے

کوئی تو ان کے لئیے سادہ طریقے ڈھونڈیں

عمل کے واسطے کچھ سادہ سے نسخے ڈھونڈیں

یہی تو فقہ ہے دین پر عمل کے نسخہ جات

سمجھ سکیں عوام کیسے صرف نصوص کی بات؟

جو مانے اس کو نہیں، دن کو کہے شاید رات

یہ نسخہ جات جو ہیں کیسے یہ ترتیب پائیں؟

تو اس کے واسطے مجتہد کی ضرورت جانیں

ہم کو ہے حکم صحابہؓ کی پیروی کرنا

جن پہ اجماع صحابہؓ ہو ، تو وہی کرنا

جب اختلاف ہو تو پھر اپنی تسلی کرنا

کہ کس کے پیچھے چلیں کس سے ہوں معذور عمل

بچیں ہم کیسے اس سے جو ہے اپنے نفس کا دجل

کیا ہم یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پہ رکھیں

یا جو ہے دور فتن ،اس کے استادوں پہ رکھیں

یا پھر قرون اولیٰ کے ہم اماموں پہ رکھیں

جو تھے فقیہ، متقی شب بیدار بھی تھے

دور قربت میں حقیقت سے خبردار بھی تھے

حنفی شافعی اور مالکی محمدی ہی ہیں

ابن حنبل کے حنبلی محمدی ہی ہیں

سارے تقلید کے داعی محمدی ہی ہیں

راہ سنت کے سمجھنے کا صحابہؓ واسطہ

تو صحابہؓ کے طریقے کا فقہاء واسطہ

جو ہو قرآن سے ثابت تو بات ختم ہوئی

جس میں دلیل ہو سنت تو بات ختم ہوئی

جس پہ اجماع ہو حجت تو بات ختم ہوئی

جو صحابہؓ میں کوئی بات اختلافی رہے

تو اجتہاد ہی پھر اس کا علاج شافی رہے

جو اجتہاد میں خطا ہو ملے پھر بھی ثواب

اور دگنا ہو یہ جب اجتہاد ہو باصواب

جو صرف خود کو کہے ٹھیک، یہ دعویٰ ہے خراب

اس طرح مسلکِ حنفی و مالکی سب ٹھیک

ساتھ پھر مسلکِ شافعی و حنبلی سب ٹھیک

جان لو کس طرح غلط ہے تشدد کی راہ

جو خوارج تھے صحابہؓ﷡کے بنے تھے بد خواہ

بس صرف خود کو ہی کہتے تھے ٹھیک وہ ہر گاہ

اپنے اعمال میں شدت تھی دین پر نہ رہے

تیر چھوٹےکماں سے، اس طرح نکل وہ گئے

اب اگر کام ہو کوئی اک صحابیؓ کا عمل

اور ہو دوسرے صحابیؓ سے کوئی دوسرا نقل

اس میں پھر جانے کوئی کیسے کہ کونسا ہے اصل

اب اگر کہہ دوں صحابہؓ کا اختلاف ہے یہ

ٹھیک دونوں مرے نزدیک ہیں انصاف ہے یہ

ہاں مگر ممکن تو ہے ایک کے پیچھے چلنا

ہاں ادب یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ہے ٹھیک کہنا

کہ صحابہؓ کو غلط کہنے سے جو ہے ڈرنا

یہ خطر ناک فیصلہ کیوں نہ امام کرے

وہ اس قابل ہے احتیاط سے کلام کرے

پس ایک امام اگر قول صحابیؓ لے لے

اور کسی دوسرے صحابیؓ کا بھی کوئی لے لے

کیا غلط ہےکوئی تحقیق جو ان کی لے لے

تو یقیناً پھر ائمہ میں اختلاف ہوگا

لیکن ہر ایک کا ٹھیک ہونا ہی انصاف ہوگا

پس محمدﷺ کی پیروی سارے حنفی بھی کریں

یہ مالکی بھی کریں اور حنبلی بھی کریں

اس طرح سچ ہے کہ اس طرح شافعی بھی کریں

کہ ہیں قرآن و سنت پر یہ سب امام عامل

اور جو ان کے پیروکار ہیں وہ بھی شامل

اپنی تحقیق ہی پہ اس میں فیصلہ گر کریں

ہم جیسے لوگ نفس کی خواہشوں کے پیچھے چلیں

یا دو رکعت کے امام کو امام مانیں

اس طرح نفس ہی میرا اصل امام ہوگا

اسی خامی سے مرا کام ہر اک خام ہوگا

بات بنتی ہے تبھی ایک کو امام مانوں

جو مجھے اس سے ملیں میں وہی احکام مانوں

اور اپنے نفس کی تحقیقات کو میں خام مانوں

اور دوسرے جو ہیں امام ان کو ٹھیک کہوں

یہ اولیاء ہیں ان کے بارے خدا سے میں ڈروں

شاگرد کا اعتراف

جزاک اللہ! کہ آپ نے مجھ کو سمجھدار کیا

میری غفلت سے آپ نے مجھے بیدار کیا

ان ائمہ کی محبت سے جو سرشار کیا

کرتا توبہ ہوں خدایا میں غلط خیالوں سے

شکر ہے بچ گیا شیطان کی ان چالوں سے

اب میں حنفی ہوں اور اس پر نہیں شرماتا ہوں

یہی طریق عافیت ہے یہ بتاتا ہوں

اب میں ایماں کی حلاوت بھی دل میں پاتا ہوں

ان اولیاء کے لئے میرے دل میں زیغ نہ رہا

اور اپنے آپ پہ وہ ظلم بے دریغ نہ رہا

وہ مرے بھائی جو تقلید نہیں کرتے ہیں

بے مہار کرتے گفتگو ہیں، نہیں ڈرتے ہیں

نفس گرفتہ ہیں اور اس سے نہیں نکلتے ہیں

کاش کچھ سوچ لیں اور اپنی کچھ اصلاح کریں

اور اللہ کے حضور زاری بہ الحاح کریں

اور ہاں پھر بھی وہ تقلید پہ گر آنہ سکیں

سوچتے سوچتے حقیقت کی گرہ پا نہ سکیں

خود کو آئینہء فطرت اگر دکھا نہ سکیں

تو آئمہ کی بہر حال مخالفت نہ کریں

بدگمانی نہ کریں گر موافقت نہ کریں

استاد

اپنے شاگرد پہ مجھے فخر ہے سبحان اللہ

ایسی تحقیق عظیم شاندار ہے کیا اللہ

بس مرے دل سے یہ نکلے ہے کہ ماشاء اللہ

یہ چند اشعار ہیں شبیرؔ کے ایک درسِ عظیم

سب سمجھ جائے اگر تھوڑا سا ہو قلب سلیم

 

 

روحانیت کیا ہے ؟

مرے استاد بتا کہ روحانیت کیا ہے؟

میں اس کو سمجھوں کیا اس کی ضرورت کیا ہے؟

کیا غیب دانی کو ہی میں روحانیت سمجھوں

کیا عملیات ہی کو اس کی حقیقت سمجھوں

مسمریزم اور ٹیلی پیتھی اس کا ست سمجھوں

پروفیسر بہت اس کے،اس کے ماہر بھی بہت

لوگ ہوتے ہیں جو ان سے متاثر بھی بہت

استاد کا جواب

تُو ہے انساں، پہلے سمجھو انسانیت کیا ہے؟

ساتھ ہے نفس ترے ، تو نفسانیت کیا ہے؟

روح بھی تجھ میں ہےتو سوچ روحانیت کیا ہے؟

ایک بات جان لے ہے روح امر رب جلیل

اس کا جو علم دیا جاتا ہے ہم کو ہے قلیل

روح طیب کا احادیث میں نام آتا ہے

روح خبیث کے بارے میں بھی بتاتا ہے

کیا اس سے کوئی اشارہ نہیں تو پاتا ہے؟

روح اعمال سےلیتی ہے اثر ٹھیک ہے نا

ہوتا اس سے متاثر ہے بشر ٹھیک ہے نا

 

روح ہر چیز میں موجود اس کو جان لیا

اس طرح دل میں بھی موجود اس کو مان لیا

کسی نے اس میں گر کیفیت احسان لیا

اس کا ہر عمل شریعت کے مطابق ہو پھر

صاحب دل ہو ہر اک چیز کے لائق ہو پھر

دل اگر ٹھیک ہےسارا جسم صحیح ہوگا

تب ہدایت کے لینے کا یہ قابل بھی ہوگا

یہ اگر درست نہیں ایسا پھر نہیں ہوگا

دل کی اصلاح کا عمل، روح کی اصلاح کا عمل

یہ عمل اس لئیے روحانیت کا بھی ہے اصل

ان عملیات کو روحانیت سے میل نہیں

اس طرح علم نجوم کی طرح یہ کھیل نہیں

غیب دانی وغیرہ کوئی اس کا بیل نہیں

بیٹے اب روح یعنی دل پہ ہے محنت کرنا

روحانیت ہے یہی اس کی ہی ہمت کرنا

روحانیت کی قوت دل کی صفائی سےہے

اور پھر اس کی بقاء ذکرِ دائمی سے ہے

اور کیفیت احسان بھی اسی سے ہے

یعنی اعمال میں کیفیت حضوری ہو

وہ ہمیں دیکھتا ہے، کم سے کم ضروری ہو

 

شاگرد کا سمجھ جانا

مرے استاد آپ کا مجھ پہ ہے بہت احساں

کتنا میرے لئیے مفید ہوا آپ کا بیاں

میں کچھ سے کچھ جو سمجھتا تھا اور تھا حیراں

لفظ روحانیت میں حق کا انکشاف ہوا

آپ کے دل کی برکت سے دل بھی صاف ہوا

اب جو روحانیت میں حق ہے ،کروں گا حاصل

تاکہ یہ دل جو امانت ہے، یہ بھی ہو واصل

اب مرے دل اور حق میں نہ کوئی ہو فاصل

دل کی دھڑکن میں میں الہام ربانی سمجھوں

آدم ابلیس و ملائک کی کہانی سمجھوں

استاد کی دعا

یا الٰہی! اور مری روح کو بیدار کردے

آج کا جو ہے جواں ،اس کو سمجھدار کردے

سب کو اب روح محمدﷺ کا تابعدار کردے

مرا سرمایہ ہے یہ اس کو بچانا یارب

راہ حق مجھ کو اور سب کو دکھانا یارب

راہ حق میں جو رکاوٹ ہے اس کو دور فرما

نفس کو حق پہ مطمئن و دل میں نور فرما

اپنے شبیرؔ کی دعا بھی تو منظور فرما

جن سے راضی ہوان میں اس کو بھی شامل فرما

طالبِ وصل ہے اب اس کو واصل فرما

شاگرد کا پیر وں کے بارے میں شکوہ

میرے استاد بتا پیری مریدی کیا ہے؟

سنتے رہتے ہیں اسے، دل کی صفائی کیا ہے؟

لوگ پیروں کا یہاں خیال بہت رکھتے ہیں

جو ہر اک کام میں کمال بہت رکھتے ہیں

کرتے اعمال نہیں حال بہت رکھتے ہیں

یہ مریدوں سے خبردار بہت ہوتے ہیں

ان سے ملنے کے بھی اسرار بہت ہوتے ہیں

ان کی خدمت سے ہر اک کام صحیح ہوتا ہے

پاس ان کے جو نہ آئے تو وہی روتا ہے

جاگتا رہتا ہے یہ پیر کہاں سوتا ہے

ان کے تعویذ سے ہر کام نکل آتا ہے

یہ نہ چاہیں تو پھر آرام کہاں آتا ہے؟

یہ شریعت پہ جو چلنا ہے وہ ہے ٹھیک مگر

ہوتا جب ذکر الٰہی سے ہے دل پر جب اثر

تو کچھ اسرار وہ پاتے ہیں پھر اپنے دل پر

مل گیا اصل تو پھر نقل سے کیا بات بنے

پھر شریعت کے تقاضوں پہ کوئی کیسے چلے؟

 

یہ جو ہیں پیر تو اسرار ان کا سمجھے کون؟

ہیں یہ واصل، قلب بیدار ان کا سمجھے کون؟

حب حق میں قلب سرشار ان کا سمجھے کون؟

دن کو جب رات کہیں رات سمجھنا ہے ٹھیک

الغرض ان کی ہر اک بات سمجھنا ہے ٹھیک

یہ جو چپ ہوں تو یہ چپ شاہ بنے رہتے ہیں

اور بولتے یہ معارف ہیں جو بھی کہتے ہیں

سب مریدوں کی یہ تکلیف ساری سہتے ہیں

تک نہ کوئی ہو بولنے میں تو رموز اسرار

اور کسی کے یہ مخاطب ہوں تو بنے سرکار

ان کے انداز ہر اک چیز میں نرالے ہیں

ہر غلط کام میں جب ہاتھ ان کے کالے ہیں

اس پہ سب ٹھیک سمجھتے ہیں جو متوالے ہیں

کیسے یہ ٹھیک میں سمجھوں سمجھ آتا ہی نہیں

کہ شریعت سے کوئی میل یہ کھاتا ہی نہیں

یہ نہ قرآن پہ چلتے ہیں اور نہ سنت پہ

اثر انداز یہ ہوتے ہیں سب کی قسمت پہ

مجھ کو پھر شک نہ کیونکر ہو ان کی صحت پہ

ان کی خانقاہیں مراکز ہیں کاروبار کی بس

گمرہی میں ہیں اپنے شتر بے مہار کی بس

بس شریعت پہ جو چلنا وہی ٹھیک ہے جب

چھوڑ میں دوں یہ خرافات اور یہ صوفی سب

مل سکے مجھ کو پھر نجات جعل سازی سے تب

اب سمجھ آئی مرے دل میں بس یہی اک بات

جو کہ قرآن ہے سنت ہے وہ طریق نجات

استاد کاجوابِ شکوہ

بیٹا ہاں ٹھیک ہے یہ سب مگر انصاف تو ہو

رہتی جو بھی غلط فہمی ہے پہلے صاف تو ہو

ایسے پیروں کی پیروی یہ ضلالت تو ہے

کہ شریعت کی مخالف ان کی حالت تو ہے

پیچھے پھر ان کےکوئی جائے حماقت تو ہے

لیکن جو ایسے نہ ہوں ان سے مفر کیسا ہے؟

جو ضروری ہے تو پھر ان سے صبر کیسا ہے؟

کیا علم رکھنا شریعت کا ہی بس کافی ہے؟

کیا تکبر کا علم اس کے لئے شافی ہے؟

کیا برائی کے جاننے پہ ہی معافی ہے؟

کتنے جانتے ہیں مگر ساتھ وہ بدکار بھی ہیں

اور اسباب علاجی سے وہ بیزار بھی ہیں

دنیا اسباب کا گھر ہے یہ جانتے ہیں ہم

ہوتے اسباب مؤثر ہیں مانتے ہیں ہم

خود کو کیوں اس سے مبرا گردانتے ہیں ہم

جو کہ دنیا کے ہیں اسباب ہم برتتے ہیں

کیسے اسباب اصلاحی کو پرے رکھتے ہیں

یہ ہے معلوم ہے دشمن بڑا شیطان اپنا

نفس امارہ کے ہاتھوں میں ہے گریبان اپنا

ان سے بچنے پہ زور دیتا ہے قرآن اپنا

خود بخود نفس امارہ ہمیں آزاد کرے

سادگی یہ تری کوئی بھی کیا یاد کرے

ہمیں قرآن میں زکھّٰا نظر آتا ہے

کیسے فاعل کی ضرورت ہمیں دکھاتا ہے

رستہ دسّٰھا تباہی کا ہی دکھاتا ہے

رزق اللہ پہ ہے ہم پھر بھی مشقت میں ہیں

فرض اصلاح کی چھوڑنے کی مصیبت میں ہیں

اپنی اصلاح کے لئے کوئی ہمارا تو ہو

جس پہ ہم ٹک سکیںکوئی بھی سہارا تو ہو

کاٹنے شر کی جڑوں کو کوئی آرا تو ہو

اپنے اصلاح کے لئے کوئی راہبر تو رکھیں

دلِ بیمار کے لئے دارو مؤثر تو رکھیں

وہ طریقہ جو بزرگوں کا چلا آتا ہے

جس سے ہر ایک شفا، دل کے لئے پاتا ہے

جھنڈا اصلاح کا ہر گاہ جو لہراتا ہے

ایسے دریا سے کیوں ہم بھی فیضیاب نہ ہوں؟

اور دنیا کی کثافت سے ہم خراب نہ ہوں

 

جو ہیں گمراہ اگر ان کی نقل کرلیں بھی

اپنے دامن میں مفادات اپنے بھر لیں بھی

اپنے جالوں میں اگر خلق بہت دھر لیں بھی

ٹھیک ہم ان کے لئے چھوڑ دیں یہ ٹھیک ہے کیا؟

اور کاموں میں غلط کیلئے ٹھیک چھوڑدیا؟

کتنوں کو کہتے قصائی ہیں ڈاکٹروں میں دیکھ

کتنے کرتے ہیں ملاوٹ ان تاجروں میں دیکھ

غلط کاموں میں کچھ مصروف استادوں میں دیکھ

ان میں جو ٹھیک ہیں ہم ان کو الگ رکھتے ہیں

ہم جدا ان کو کسوٹی سے جو کرسکتے ہیں

اسطرح پیر جو سچ ہوں اگر ان کو ڈھونڈیں

اپنی اصلاح کے لئے ان کو ہی راہبر سمجھیں

دامن اپنا منبع فیض سے اِن کے بھر لیں

ہم بھی زکھّٰا کے الفاظ عمل میں لائیں

اور دسّٰھا تباہی سے امن میں آئیں

صاحب دل سے ذرا صاف اپنا دل کرلے

فیض صحبت سے ذرا نور کو حاصل کرلے

جہد سے نفس کو پھر خیر پہ مائل کرلے

دل نورانی میں پھر نور خود ہی پائے گا

جو علم خیر ہوگا تیرے لئے وہ آئے گا

جو ہو بیمار نہ ڈاکٹر کے پاس جائے وہ

جودوائی ہے اس کو ہاتھ نہ لگائے وہ

کیسے صحت کو بے اسباب اس میں پائے وہ

اس طرح کرنے سے نقصان کس کا ہوتا ہے؟

اور نقصان اگر ہو تو کیوں روتا ہے؟

یہ غزالی جو ہیں رومی ہیں سارے کیسے بنے؟

شیخ جیلان، سہروردی ہیں سارے کیسے بنے؟

اور خواجہ معین چشتی ہیں سارے کیسے بنے؟

فخر کرتے ہیں ہم اسلاف کے مقاموں پر

اور کرتے ہیں لعن اِن کے سارے کاموں پر

چاہیں مقصد اور ذریعے سے رکھتے بیر ہوں ہم

کھائے کچھ بھی نہیں منہ سے تو کیسے سیر ہوں ہم؟

اس طرح خود سے ہی شیطاں کے آگے ڈھیر ہوں ہم

یہ جو ہیں سارے ذرائع یہ تجربات ہی ہیں

یہ مشکلات میں وسائلِ نجات ہی ہیں

جس طرح طب میں ذرائع کا بدلنا ہے ضرور

مختلف لوگوں کےحالات میں چلنا ہے ضرور

پس طریقت میں بھی کچھ ایسا ہی کرنا ضرور

طرق اصلاح کامنصوص نہ ہونا جائز

جس طرح طب میں اجتہاد پہ حکیم فائز

حبِ دنیا میں آخرت کی طلب ہی نہ رہے

کیسے وہ پیر کی کڑوی کسیلی باتیں سنے

جو کوئی دودھ کا مجنوں ہو وہ خوں کیسے دے

جس کو کچھ حبِ الٰہی سے سرو کار نہ ہو

اس پہ حیرت نہیں اصلاح پہ وہ تیار نہ ہو

شاگرد کا اعتراف

میرے استاد! مرا اللہ تجھے رکھے شاد

آپ نے آباد کیا میرا دل جو تھا برباد

خود کو پہچان لیا اب کروں گا اللہ یاد

مرے اللہ مری غفلت کو اب معاف کرے

جو پڑا گند مرے دل میں ہے اس کو صاف کرے

میں نے جو نفس کی اصلاح سے منہ تھا موڑ لیا

اور مجھے جس کی ضرورت تھی اس کو چھوڑلیا

جزاک اللہ آپ نے مجھ کو جو جھنجھوڑ لیا

اب میں چاہتا ہوں کہ اب اس کی تلافی کرلوں

اب اپنے نفس کی اصلاح میں شافی کرلوں

ایک مشکل سے ابھی تک مگر دوچار ہوں میں

کون ہو میرا مسیحا اگر بیمار ہوں میں

جس پہ سب کچھ ہی اپنا چھوڑنے تیار ہوںمیں

کس طرح خود کو بچا لوں میں دھوکہ بازوں سے

کچھ تو اب پردہ اٹھادیں بھی ان کے رازوں سے

استاد کا جواب اور تسلی

یہ اعترافِ حقیقت تجھے مبارک ہو

اس پہ اللہ کی نصرت تجھے مبارک ہو

سچ کو پانے کی سعادت تجھے مبارک ہو

نشانیاں صحیح پیروں کی بتا دیتا ہوں

راستہ حق کا جو ہے وہ بھی دکھادیتا ہوں

اک صحابہؓ کے عقیدے پہ ہوں وہ پیر بالکل

فرض ہو علم میسر اور اس پر ہو عمل

اس کی صحبت کا سلسلہ ہو تا رسولﷺ اکمل

اس کو دوسروں کی تربیت کی اجازت بھی ہو

صاحبِ فیض ہو، مصلح بے مروت بھی ہو

اس کی صحبت سے بس اللہ کی یاد آجائے

اور دنیا کی محبت میں کمی پاجائے

عظمتِ حق جو ہے وہ دل پہ خود ہی چھا جائے

ایسا مل جائے تو دیکھ گر مناسبت بھی ہو

اس سے جڑ جائے ،ہے بہتر اس سے بیعت بھی ہو

سچ تو یہ ہے کہ جوانوں پہ جب اسرار کھلیں

اور جب عشقِ الٰہی سے وہ سرشار رہیں

اور سنت کے طریقوں کو وہ اختیار کریں

کامیابی مسلمانوں کی قدم چھومے گی

چرخہ گلہائے سعادت کی خود ہی گھومے گی

کامیابی سے تجھے رب اب ہمکنار کرے

بندگی ہو جو تری اس پہ تجھے پیار کرے

جو پڑی ہم پہ خزاں ہے اسے بہار کرے

سیکھے تو رسم شبیری ، مری دعا ہے یہ

اور راضی ہو خدا ، اصل مدعا ہے یہ

عقل دل سے کہتی ہے

دنیا کو دیکھ نظر آتا ہے اسباب کا گھر

اور ان اسباب میں آتا ہے مرے دم سے اثر

دنیا ویران رہے، میں جب مؤثر نہ رہوں

خراب کام ہو، جب اس کا ہم سفر نہ رہوں

علم عالم کا ہو ضائع بھی، میں اگر نہ رہوں

غصہ آئے اگر کسی کو، میں ادھر نہ رہوں

میرے ہونے سے یہ دنیا جنت نظیر بنے

ہر عقلمند مری زلف کا اسیر بنے

یہ ہندوستان میں انگریز کیسے آئے تھے؟

یہاں کے لوگ مرے دم سے سب دبائے تھے

میں نے آدابِ حکمرانی جب سکھائے تھے

یہاں کے لوگ وہ عاری ہی اس سے پائے تھے

دس ہزار لوگ، کروڑوں پہ حکمران بنے

صرف حکمران نہیں، مطلق العنان بنے

یہاں کے لوگوں نے میری قدر جو کی تھی کم

سزا کے طور پہ ان کو ملا پھر کتنا غم

جن کی کھوپڑی مجھ سے خالی ہو تو وہ ہوں بیدم

وہ اگر تیر اٹھائیں گے میں ماروں گا بم

مجھ کو پانے سے تو دنیا بھی نئی ملتی ہے

اور نہ ہونے سے، جو موجود ہے وہ بھی ہلتی ہے

میرے ہونے سے یہ انسان تو انسان ہے نا

زندگی میرے ہی ہونے سے تو آسان ہے نا

معترف میری کرامات کا کل جہان ہے نا

میرا انسان پہ دیکھو بڑا احسان ہے نا

جو مجھے ساتھ نہ رکھے اس کو گرادیتی ہوں

اپنی ناقدری کا احساس دلا دیتی ہوں

میں اگر سر میں نہ ہوں سر ہی سلامت نہ رہے

میری عزت نہ کرے جو اس کی عزت نہ رہے

مجھے حاکم نہ کہے اس کی حکومت نہ رہے

علم کے ساتھ میں شامل نہ ہوں، حکمت نہ رہے

میرے والوں کو خدا نے اولو الباب کہا

میرے دشمن کو تو تاریخ نے خراب کہا

دل عقل سے کہتا ہے

تیری باتوں کا میں انکار نہیں کرتا ہوں

لیکن حق بات کے کہنے سے نہیں ڈرتا ہوں

عقل میں عقل تبھی ہو میں اگر ٹھیک رہوں

ناس تیرا ہو اور سب کا، اگر میں نہ بنوں

میں اگر واسطہ اپنا خدا سے درست رکھوں

تو پھر میںٹھیک دیکھوں، ٹھیک کہوں، ٹھیک سنوں

میں اگر درست رہوں درست رہیں سارے نظام

تو بھی پھر ٹھیک رہے درست سارے تیرے کام

تو اگر میری نہیں، نفس کا بنے گی پھر غلام

اور سر اٹھا کے ذرا دیکھ قارون کا انجام

تو اگر میری نہیں نفس تجھ پہ سوار رہے

ترا ہر آن ظالموں میں پھر شمار رہے

سارے اعمال میں اخلاق کے بیمار رہے

انجام کار تری قسمت میں نار ہی نار رہے

سر کے بل چلنا کیا آسان نظر آۓ ہے

مرے ماننے میں یہ نخرے جو تو دکھاۓ ہے

چاہیے تجھ کو ہے جذبات پہ حکومت کرنا

فضولیات کی ہر آن مخالفت کرنا

نافذ احکام میرے حسبِ ہدایت کرنا

بےوقوفوں کو طریقے سے نصیحت کرنا

ہاں مگر مجھ سے کوئی پنگا نہیں لینا ہے

مجھ سے لیکر پھر طریقے سے آگے دینا ہے

شریعت دونوں کا محاکمہ کرتی ہے

عقل کا کام ہے جذبات پہ حکومت کرنا

اور جو ہے قلب سلیم اس کی حمایت کرنا

نفس کے شر سے بھی اعمال کی حفاظت کرنا

اور اس کے واسطے اتباعِ شریعت کرنا

عقل ناقص ہے جب مغلوب ہو جذبات سے یہ

اور ملوث ہو لغویات و خرافات سے یہ

عقل پابندِ شریعت ہو تو اک نور ہے یہ

اس وقت نورِ فراست کا اک ظہور ہے یہ

اور اگر سفلی خواہشات سے مجبور ہے یہ

پھر یہ شیطان کا آلہ ہے، حق سے دور ہے یہ

یہ فقاہت کا ذریعہء عظیم دین کا ہے

اس وقت فضل بڑا رب العالمین کا ہے

دل میں شیطان سے لینے کا راستہ بھی ہے

اور الہام کا مورد صاف ستھرا بھی ہے

آنکھ ، زبان ، کان کے ساتھ اس کا سلسلہ بھی ہے

گر استعمال ہوں غلط یہ ، ان سے خطرہ بھی ہے

آنکھ ، زبان ، کان یہ سب دل سے اثر لیتے ہیں

اور یہ بھی کہ یہ سب اس کو اثر دیتے ہیں

خواہشیں نفس کی شیطان کو آتی ہیں نظر

وہ وساوس سے ہےکرتا پھر ان سے دل پہ اثر

شروع ہوتا ہے اس سے آگے گناہوں کا سفر

اور بچ جائے وساوس کا اثر نہ لے اگر

ان گناہوں سے تو بچنے پہ اجر ملتا ہے

ان تقاضوں سے تو تقویٰ کا باغ کھِلتا ہے

اصل عقلمندی

دل اگر درست نہیں کون اس کی درستگی کرلے؟

عقل کا اصلی استعمال جو ہے وہی کرلے

تربیت نفس کی جو مطلوب ہے وہ بھی کرلے

ان میں آپس میں جو رشتہ ہے وہ صحیح کرلے

یہ جو چار کام ہیں اس کو ہی طریقت کہہ دیں

جو اِس کو کرلے ، اس کو اس کی بصیرت کہہ دیں

جس سے یہ کام ہے کروانا اس کو شیخ کہیں

اور اس کے واسطے اس کے ساتھ تعلق بھی رکھیں

اپنے احوال کی پھر اس کو اطلاع بھی کریں

پھر جو فرمائے علاجاً وہ تو اس پر ہی چلیں

لیکن ہوشیخ صحیح ، اس کا سلسلہ ہو صحیح

اس کی پہچان میں پڑیں نہیں دھوکے میں کبھی

اک صحابہؓ کے عقیدے پہ ہوں وہ شیخ بالکل

فرض ہو علم میسر اور اس پر ہو عمل

اس کی صحبت کا سلسلہ ہو تا رسولﷺ اکمل

اس کی صحبت سے ہو ، خدا کی محبت حاصل

اس کو دوسروں کی تربیت کی اجازت بھی ہو

صاحبِ فیض ہو ، مصلح بے مروت بھی ہو

شیخ ملے ایسا تو پھر اور نہ انتظار کریں

شیخ کا ہاتھ پکڑ کر دل کو بیدار کریں

عقل کو اس کی ماننے پہ پھر تیار کریں

علاجِ شیخ سے شبیرؔ ، درست نفسِ بیمار کریں

نفس کا انگ انگ شریعت پہ نچھاور ہوپھر

دل اپنا بحرِ معرفت کا شناور ہو پھر

کامیابی کی نوید

دل خدا کے لیٔے ہو اور عقل اس کی مرید

عقل حاکم رہے جذبات کا ہو اس پہ مزید

نفس قابو میں ہو اور اس سے عقل کام لے لے

جس کی بھی ہو کامیابی کی ملے اس کو نوید

جہالت کا انجام

ایک ہی رستہ ہے اور وہ ہے شریعت کا بس

پسند خدا کو طریقہ جو ہے سنت کا بس

باقی رسمیں جو جہالت کی ہیں وہ دور پھینکو

یہ کہ انجام صحیح ہے اس جہالت کا بس

تراویح کے بارے میں

مہینہ رمضاں کا آیا سر پر اے مرے استاد کیا کریں گے؟

تراویح کیا ہے؟ اور اس میں کتنی رکعتیں ہیں کل جو ہم پڑھیں گے؟

رسولﷺنے تو رکعتیں گیارہ پڑھیں ہمیشہ، نہ کم نہ زیادہ

رکعتیں تین وتر کی رکھیں، تو باقی آٹھ کا ہو کیا ارادہ؟

یہی تراویح کی ہیں رکعتیں اگر، ہو رمضاں میں استفادہ

سنت یہی ہے تو ہم بھی چاہیں، اسی عمل کو کہ جو ہے سادہ

رسولﷺ نے ہی یہی کیا ہے تو ہم بھی اس کو ہی چاہتے ہیں

کرے گا ایسا ہی جو بھی ہم میں تو ہم تو اس کو سراہتے ہیں

ہمیں فخر ہے کہ ہم ہیں سچے، گلے میں ایک ہے ہمارے پھندا

وہ ہے طریقہ نبیﷺ کا، بس اک یہی ہے اک بس ہمارا دھندا

محمدی ہیں اور ہیں مسلماں، کوئی مقلد بنے ہو اندھا

ہے لاش تقلید اگر تو اس کو، بتاؤ کیسے دیں اپنا کندھا؟

ہے کرنا ایسا ہی ہم کو اس میں، یہی تو عشقِ محمدی ہے

تو آٹھ کا پڑھنا اگر ہے نیکی، پڑھے جو بیس پھر تو وہ بدی ہے

 

استاد کا جواب

اے بیٹے سن لے طریقہ کیا ہے! کہ دین کے کاموں میں حق کو پائیں

کتاب رب کی پکڑ لیں ہم اک طریقہ سنت کی ہم چلائیں

طریقہ سنت سمجھنے واسطے، عمل صحابہؓ کا آگے لائیں

جو راشدیں ہیں خلفاء اپنے، تو ان کے پیچھے بھی چلتے جائیں

یہی بتایا رسولِ ربﷺ نے، ہمیں طریقہ ہے فہم دیں کا

جو اس کو چھوڑے ، رہے وہ خود رو ، تو کہلائے وہ احمق کہیں کا

خلیفہ راشد عمرؓ نے جمع کئے صحابہؓ جو بیس پر سب

تو خود بتادیں کہ اس کے ہوتے، ہم ان مسایٔل میں کیا کریں اب

یہ جانتے ہوں کہ تھے صحابہؓ نبی﷐ کا منشاء تھے جانتے جب

اگر غلط تھا امر عمرؓ کا، تو یہ صحابہؓ پھر مانتے کب؟

یہی طریِق صحابہؓ ثابت ، طریِق نبویﷺ وہ جانتے تھے

وہ اہل حق ہی کی انجمن تھی، وہ ایک حق ہی کو مانتے تھے

طریق عثماںؓ یہی رہا ہے، علیؓ نے اس کو رکھا ہے جاری

بتاؤ اس میں بتانا حق کا، تھی اور کس کس کی ذمہ داری؟

سوادِ اعظم کے ساتھ رہنے میں کامیابی جو ہے ہماری

تو بعد ا سکے بیان کردوں تجھے میں اک بات بہت ہی پیاری

تو اہل حق سے جدا نہ رہنا، صحابہؓ کے ساتھ ساتھ رہنا

تو خود کو کردے علیحدہ ان سے، نہ ایسا کوئی اب بول کہنا

قرونِ اولیٰ میں اہلِ حق نے کئے ہیں تحقیق وہ ہیں مقدم

تو دورِ فتنہ کے فیصلوں سے، ہیں وہ بہر حال بہت مکرم

یہ چاروں مذہب رہیں جو باقی، سواد اعظم کے ہیں مسلم

تو ان میں اک ہی رکھو عمل میں، یہی طریقہ رکھو تو ہر دم

شاگرد کی توبہ

مری ہے توبہ بڑا ہوں گستاخ، کہاں صحابہؓ، کہاں گنہگار

کہاں وہ عشقِ نبی﷐ میں ڈوبے، کہاں ہو مجھ جیسا کوئی بد کار

ہوں ان کے رستے پہ رہنا چاہتا برائی سے ہوں میں اپنی بیزار

مجھے سکھایا ہے تو نے استاد، تو اب آپ ہی ہیں میرے سردار

شبیرؔ اس میں تو کرلو غور اب، کہ چاہیئے ہے کیا اب کرنا؟

بس ڈرتے ڈرتے ہے کرتے رہنا، اور کرتے کرتے ہے ہم کو ڈرنا

طریِق صحابہؓ

جب صحابہؓ کے طریقے کا تو قایٔل نہیں ہے

تو طریقہءِ نبوی پہ تو مایٔل نہیں ہے

پڑھ لے تو ما أنا علیہ و اصحابی ذرا

دین میں ان کے بغیر تو کسی قابل نہیں ہے

وسوسے

یوں لگتا ہے کہ صورت بن گئی میری تباہی کی

نظر آتی نہیں مشکل میں صورت جو خلاصی کی

دعا کرتا تو ہوں پر اس سے کچھ ہوتا نہیں ہے اب

کسی کا دم میں ڈلواؤں تو وہ چلتا نہیں ہے اب

میں کوشش جو بھی کرتا ہوں وہ ہوسکتا نہیں ہے اب

ذہن ماؤف اب میرا جو کچھ کرتا نہیں ہے اب

جو کرنا تھا وہ دیکھا کرکے بھی، کچھ بھی نہیں ہوتا

میں روتے روتے اتنا تھک گیا کہ اب نہیں روتا

تکالیف پر تکالیف اور میں انسان اک کمزور

میںاب برداشت اسکو کیسے کرلوں، کیا ہو اورکس طور؟

مسیحا ہے کوئی ؟ جو لائے اس کا حل کوئی فی الفور

مگر مجھ میں سکت باقی نہیں کرلوں میں کام کچھ اور

مجھے آتا نظر ہے چار جانب سے بس اندھیرا

مصائب اور تکلیفوں نے ڈالا اپنے ہاں ڈیرہ

نصیحت کیسے میں مانوں کہ ہوتا اس سے ہے اب کیا؟

میں اوپر نیچے دیکھوں تو مری تاریک ہے دنیا

بس اک اب یہ خیال آتا ہے سب کچھ چھوڑ اب مرجا

میں ہوں اک بوجھ مر جاؤں کسی کو کیا خیال میرا؟

یہ دنیا تو مجھے آرام سے مرنے نہیں بھی دے

کہ سارے لٹ گئے اس میں جو کچھ ارمان میرے تھے

تسلی اور علاج

وساوس کے شکار بھائی! مری کچھ عرض بھی سننا

اسے سن کر ذرا کچھ سوچ کر چاہو تو کچھ کہنا

یہاں پر صرف دنیا کے لیئے آنا نہیں ہوتا

یہاں خود اپنی مرضی سے تو یوں جانا نہیں ہوتا

کوئی مشکل یہاں ہو اس سے مرجانا نہیں ہوتا

اور اس سے آخرت میں خود کو جلوانا نہیں ہوتا

مشا کل میں اگر ڈھونڈیں، بہت ہمت کے راستے ہیں

یہ تکلیفیں ہمارے واسطے جنت کے راستے ہیں

یہ تکلیفیں ملیں جن کو، اجر وہ کتنا پائیں گے

ہوں کتنے خوش وہاں جب اجر ان کے سامنے آئیں گے

فضل ان پر خدا کاہوگا اور جنت میں جائیں گے

تو ان کو دیکھ کر کچھ لوگ بالآخر چلائیں گے

ہماری جلدکٹ جاتی خدایا کاش قینچی سے

مگر یہ اجر جو ان کو ملا یہ ہم بھی آج پاتے

بعض حاصل نہیں کرتے مقام اپنی عبادت سے

ذکر سے یا نوافل سے، تلاوت سے ،سخاوت سے

تو پھر آزما لیا جاتا ہے ان کو کچھ مصیبت سے

نوازا جاتا ہے ان کو اجر سے اور نعمت سے

خدا کے کام حکمت سے کبھی خالی نہیں ہوتے

کہ واپس یاں سے خالی جھولی، سوالی نہیں ہوتے

دعا میں یا وہ ملتا ہے جو اس سے مانگا جاتا ہے

کسی دوسری مصیبت سےخلاصی یا وہ پاتا ہے

اجر اس کا ذخیرہ یا پھر آخر میں کراتا ہے

غرض کوئی دعا کا فائدہ اس کو دلاتا ہے

اجر کو دیکھ کر جنت میں پھر وہ یوں ہی کہہ پائے

دعا میری کوئی قبول نہ ہوتی وہاں ہائے

یہی سچ ہے یہاں دشمن بڑا شیطان ہے اپنا

خدا پر بد گمان ہونا بڑا نقصان ہے اپنا

خدا ہم سے زیادہ ہم پہ مہربان ہے اپنا

جو ایسا ہے تو اس پر ہوش تو حیران ہے اپنا

خدا سے عافیت مانگو مصیبت پھر بھی گر آئے

صبر کرنا مرے بھائی کہ رحمت اس سے تو پائے

دعا کرنا اور کرتے رہنا اس سے تو نہ اکتانا

نہ سستی کر، نہ کرکے رستہء تعجیل پہ جانا

دعا مغزِ عبادت ہے، نبی﷐ کا ہے یہ فرمانا

امیدرکھ اُس سے، اُس کے کام سب ہیں جب حکیمانہ

اسے زاری پسند ہے جب تو ،تو رو رو کے زاری کر

یہ مایوسی کی باتیں چھوڑ، دل امید سے تو بھر

وسوسوں کا ختم ہونا

جزاک اللہ! کہ تو نے مجھ کو گرنے سے بچایا ہے

مجھے شیطان کے پنجے سے تو نے جو چھڑایا ہے

میں اب مایوسیوں کا راستہ ہی چھوڑ دیتا ہوں

بچھا شیطان کا جو جال تھا وہ توڑ دیتا ہوں

میں دل اپنا وہاں سے رب کی جانب موڑ دیتا ہوں

کنکشن ذکر کا اب رب کے ساتھ میں جوڑ دیتا ہوں

نصیحت میں شبیرؔ کی خیر سے اب مان لیتا ہوں

میں مانوں گا خدا کی دل سے اب یہ ٹھان لیتا ہوں

 

وساوس

تم وساوس کا اعتبار نہ کرو

مقتضا ان کا اختیار نہ کرو

تو وساوس کوئی نقصان نہ کریں

یکسوئی اپنی تار تار نہ کرو

 

معاملات

شاگرد استاد سے

مرے استاد جی آج کل کے یہ حالات کیا ہیں؟

دین کہتے ہیں کسے؟ یہ معاملات کیا ہیں؟

میں تو دیکھوں بعض لوگوں کو نمازیں پڑھتے

سر پہ پگڑی سجائے ہاتھ میں تسبیح لیئے

اور لوگوں کو نماز روزے کی تلقین کرتے

جب کاروبار میں دیکھوں انہیں دھوکے کرتے

یہ مسلمانی اگر ہے منافقت کیا ہے؟

خود ہی بہتر بتائیں دل کی یہ حالت کیا ہے؟

یہ دیانت کو مرے خیال میں جانتے ہی نہیں

جس کو کہتے ہیں امانت شاید مانتے ہی نہیں

جو اپنے آپ کو شریعت پہ جانچتے ہی نہیں

شاید اس فکر کو لازم گردانتے ہی نہیں

ان کی صورت پہ فرشتوں کا گماں ہوتا ہے

لین دین ان کا ہو، ساتھ جس کے تو وہ روتا ہے

خوشی غمی میں یہ سنت کا خیال کرتے نہیں

ڈرتے لوگوں سے ہیں پر یہ خدا سے ڈرتے نہیں

جو شریعت کی راہ ہے اس پہ یہ گزرتے نہیں

عہد کرلیں تو یہ پورے اس پہ اترتے نہیں

کیسے برداشت ہوں نقشے منافقت کے یہ

لوگ باعث ہیں اسلئے مری حیرت کے یہ

استاد کی تحقیق

بیٹا افسوس ہے کہ حال تو آج ایسا ہے

ہاں یہ غلط ہے یہ غلط ہے اور کیسا ہے

لوگ شریعت کو عبادات ہی سمجھتے ہیں

معاشرت کو مدارات ہی سمجھتے ہیں

معاملات کو مشکلات ہی سمجھتے ہیں

حبِ دنیا میں یہ نجات ہی سمجھتے ہیں

خود کو معذور سمجھتے ہیں یہ مسائل میں

کہ مستغرق ہیں چند اعمال کے فضائل میں

باوجود اس کے بھی خود کو ولی اللہ سمجھیں

اور قوانین الہٰی سے مستثنیٰ سمجھیں

سارے علماء و مشائخ سے بھی اعلیٰ سمجھیں

اس طرح ان کی نصیحت کو پھر وہ کیا سمجھیں؟

لگتا یوں ہے کہ بس ان کی تو شریعت ہے جدا

ان کا انداز جدا اور مصلحت ہے جدا

جب تلک لوگ یہ آئیں نہ تربیت کی طرف

فکر کی حد تک کم از کم یہ شریعت کی طرف

دل کا رخ کر نہ لیں اپنا اس کی محنت کی طرف

ہو نہ مایٔل یہ اک خدا کی محبت کی طرف

نفس کے جال سے کیسے یہ چھڑائیں خود کو

کیسے شیطان کی چالوں سے بچائیں خود کو

جب تلک ذکر سے دل کی زمیں نرم نہ کریں

مجاہدے سے نفس کے زور کوختم نہ کریں

دلوں سے ختم بے شمار اپنے صنم نہ کریں

دل میں بنیادیں جو ان کی ہیں منہدم نہ کریں

اپنی مرضی کو یہ دیں گے نام دینداری کا

اور اڑائیں گے یہ مذاق دل کی بیداری کا

شیخ کامل کی اے کاش یہ کچھ ضرورت سمجھیں

اپنی اصلاح کی فکر اور اہمیت سمجھیں

اس نصیحت کو نہ اپنی مخالفت سمجھیں

خیر سے رکنے کو اپنے نفس کی شرارت سمجھیں

ادخلوا فی السلم کافۃ کی یہ تشریح سمجھیں

پورے دین پر ہی چلنے کا حکم صریح سمجھیں

پھر عبادات سے نیکیوں کا کمانا سیکھیں

معاملات میں پھر ان کا بچانا سیکھیں

معاشرت میں حق کے نور کا پھیلانا سیکھیں

باطنی حس کو اخلاق سے بڑھانا سیکھیں

یہی کوشش ٹھیک ہونے کی عمر بھر ہی رہے

ہمیشہ اپنی ہی خطاؤں پہ نظر ہی رہے

ہاں مگر جتنا کوئی ٹھیک ہے اس کو ٹھیک کہو

اس کو کہنا کہ نہ رکنا مزید آگے بڑھو

ترقیوں کی سیڑھیوں پہ ہمیشہ تو چڑھو

یہ تو موقع ہے عمل کا کیوں تو پیچھے رہو

ہم ہر رکعت میں ہدایت کی دعا کرتے ہیں

یہ جو ہم اھدنا الصراط المستقیم پڑھتے ہیں

دیکھ مطلب اسی تسلسلِ دعا کا ہے کیا؟

اور انعمت علیہم کے مدعا کا ہے کیا؟

یہ ہر نماز میں ہر رکعت میں فاتحہ کا ہے کیا؟

اس پہ آمین کہنے کے مقام اعلیٰ کا ہے کیا؟

کبھی ہم خود کو ہدایت سے مستغنی نہ سمجھیں

علیٰ صراط مستقیم خود کو ہی نہ سمجھیں

ہم نورِ وحی سے ہی حق مشاہدہ کرلیں

صحیح غلط کو، آپس میں جدا جدا کرلیں

اس پہ چلنے کے لیے پھر مجاہدہ کرلیں

ذکر سے دل کو منور اور مجلیٰ کرلیں

کرلیں یہ دونوں کسی شیخ کی نگرانی میں

ورنہ کچھ ہاتھ نہ آئے، رہے حیرانی میں

شاگرد کا سمجھ جانا

مرے استاد خدا آپ کو سلامت رکھے

آپ کے ارشاد میں، تلقین میں ہدایت رکھے

آپ نے کس پیار سے آج حق مجھے سمجھایا ہے

سبحان اللہ ، ماشاءاللہ کیا مزہ آیا ہے

آپ کی بات سے اب یہ سمجھ میں آیا ہے

دل سے تسلیم کروں سارا دیں جو آیا ہے

پھر بتدریج سارے دین کو حاصل بھی کروں

اور استعمال اس کے واسطے وسایٔل بھی کروں

دین کا فرض علم سیکھ میں علماء سے لوں

اور تربیت پھر عمل کی میں صوفیاء سے لوں

ان میں ایک شیخ طریقت با صفا سے لوں

کامیابی کے لیئے کام میں دعا سے لوں

وہ مربی ہو شبیرؔ اس کی تربیت میں رہوں

اس طرح نفس اور شیطان سے حفاظت میں رہوں

صفائی معاملات

 

نیکیاں خوب عبادات سے لیں معاملات اپنے رکھو صاف

ہوں پھر محفوظ نیکیاں اپنی ہو اس اصول سے نہیں انحراف

" تعاشروا "ہے کا لاخوان کے ساتھ "تعاملوا کالاجانب" آیا

اس لیٔے دوسرے کا حق نہ رکھو یا وہ خود کردے اسے تجھ کو معاف

اختلاطِ ناجنس سے پرہیز

مرے استاد اک مشکل سے ہوں دوچار مگر

بہت سوچا مگر آتا نہیں حل اس کا نظر

لوگ پردہ دارجو ہیں وہ بھی پردہ دار نہیں

اس طرح میرے بھی ان میں کچھ رشتہ دار نہیں

لوگ کزنوں سے پردہ کرنے کو تیار نہیں

کہتے ہیں بہنیں ہیں ان پر بھی اعتبار نہیں ؟

ہم کہیں لاکھ کہ ہے حکم شریعت کے خلاف

وہ ہیں کہتے بھائی بزرگ ہمیں کردے معاف

پردہ کرتے ہیں صرف وہ کہ جو رواج میں ہے

کیا پتہ کس طرح ٹیڑھ آئی یہ مزاج میں ہے

کسر کچھ رہ گئی کوئی اس کے علاج میں ہے

کیوں نہ ہو خوئے بغاوت جو نفس کے راج میں ہے؟

اورسب بزرگ بھی اس پر ہیں آنکھیں بند کیے

جانے کیسے یہ شریعت سے ہیں پیوند کیے

اس طرح جب ہم رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں

غیر محرم بھی ہم سے ہاتھ جب ملاتے ہیں

کوئی انکار کی جگہ تب ہم نہیں پاتے ہیں

کچھ کہیں ہم تو پھر وہ سارے منہ بناتے ہیں

جب نہ جائیں صلہ رحمی پھر آڑے آتی ہے

اس طرح کرنا بے رخی وہاں کہلاتی ہے

علاوہ اس کے دفتروں میں بھی صورت ہے یہی

بے مروت کہیں ان کو جو کرے پہلو تہی

ہم تو کہتے ہیں کوئی بات نہیں یوں ہی سہی

پوچھنا یہ ہے بتائیں غلط ہوں ہم نہ کہیں

آپ سے درخواست ہے جواب ہم کو دیں اس میں شافی

کیوں کہ اس سے ہمیں ہوئی ذہنی تکلیف کافی

استاد کا جواب

مرے بیٹے یہی مشکل تو بہت عام ہے اب

کتنا مفقود شریعت کا احترام ہے اب

لوگ شریعت میں بھی مرضی اپنی اپناتے ہیں

نفس نہ دے ساتھ تو کنی اپنی کتراتے ہیں

جو کہ دیندار ہیں ان میں بھی یہی پاتے ہیں

نہ ان کو عقل ہے اس پر نہ یہ شرماتے ہیں

ان بے وقوفوں کو اب کس طرح سمجھادیں ہم

ان کو معلوم ہے اور کس طرح بتادیں ہم

بہنیں کہتے ہیں انہیں صرف ہے کہنا کہنا

سب اڑے دھم سے، جو جذبات میں ہو جب بہنا

جو مسائل ہوں ان کے بعد میں ان کو سہنا

بے حیائی کے چکروں میں یوںپھنسے رہنا

خدا سے زیادہ کوئی ہم میں سمجھدار نہیں

زباں خموش مگر دل سے تابعدار نہیں

ہے ضرورت کہ مفاسد ان کے بیاں ہوں خوب

تاکہ ہر شخص پہ مسائل ان کے عیاں ہوں خوب

بلند اعمال ہوں اور صاحب ایماں ہوں خوب

مسلمانی پہ سب تیار مسلماں ہوں خوب

کی محمد﷑ سے وفا ہم نے رب ہمارے ہیں

جو اس میں پاس ہوں اللہ کے وہ پیارے ہیں

اور بچیں یا نہ بچیں خود کو بچانا ہے ضرور

کم از کم خود کوشریعت پہ چلانا ہے ضرور

آپﷺ کا جو بھی طریقہ ہے اپنانا ہے ضرور

اور اپنے اہل کو سب کچھ یہ سنانا ہے ضرور

کوئی پردہ نہ کریں آنکھیں جھکا سکتے ہیں

زہریلے تیروں سے ہم دل کو بچا سکتے ہیں

جو مقامات خطرناک ہوں جایا نہ کریں

اپنی مرضی سے کبھی خود کو پھنسایا نہ کریں

غیر محرم سے کبھی ہاتھ ملایا نہ کریں

اور ان کے سامنے کبھی بھی خود سے آیا نہ کریں

اس میں احکام شریعت کی اتباع ہے ضرور

صلہ رحمی سے بلند اس کا مرتبہ ہے ضرور

جو رشتہ دار ہوں پیار سے انہیں سمجھادینا

اور یہ احکام شریعت انہیں بتادینا

حکمت سے ان کو آیئنہ ان کا دکھادینا

کم ازکم یہ جو ہے حدیث ان کو سنادینا

مخلوق کی ماننے میں خالق کی نافرمانی ہو گر

اس کا ماننا نہیں جائز، نہیں لازم تم پر

مقرر کئے ہیں خود خدا نے جو بندوں کے حقوق

ان میں ہی آتے ہیں دوستوں، رشتہ داروں کے حقوق

اس کے ماننے سے ہی مانتے جو لوگوں کے حقوق

درست ہے پورے کریں گے ہم دوسروں کے حقوق

اس میں قانونِ الہٰی سے بغاوت نہ ہو گر

اور اگر ہو کبھی اس میں تو پھر ایسا نہ تو کر

جس سے شادی کبھی ممکن ہے غیر محرم ہے

ان سے پردہ ہے ہر اس شخص کا جو مسلم ہے

جو بھی یہ حکم نہ مانے تو رب کا مجرم ہے

کیونکہ یہ حکم الہٰی ہے خوب محکم ہے

اپنے نفس کے لیئے کبھی رشتہ داری کو نہ چھوڑ

رشتہ داری کے لیئے اس کی بندگی کو نہ چھوڑ

شاگرد کا اقرار

میرے استاد تو نے میرے دل کو شاد کیا

مجھ کو جھوٹی انانیت سے جو آزاد کیا

اب میں جانتا ہوں رب کا حکم نہیں توڑنا ہے

رشتہ داروں کا بھی دل اس کی طرف موڑنا ہے

ضمیر سب کے اس کے واسطے جھنجھوڑنا ہے

جو مجھے رب کا نہ رہنے دے اس کو چھوڑنا ہے

جفا خدا سے ہو، رشتوں سے وفا کیسے ہو؟

بندہ بندہ ہے شبیرؔ، اس سے جدا کیسے ہو؟

شادی خانہ آبادی

ماں بیٹے سے

بیٹا دل چاہتا ہے اب تیری شادی کرلوں

میں اپنے سامنے تری خانہ آبادی کرلوں

میں یہ چاہوں تری شادی بڑی دھوم دام سے ہو

ترا ولیمہ بہت تزک و احتشام سے ہو

ترا ہر کام اس میں خوب انتظام سے ہو

تزیئن آرائش اس میں خوب اہتمام سے ہو

ایسی شادی ہو کہ اس کی کوئی مثال نہ ہو

کیوں نہ ہر چیز میں مثالی یہ مرا لال نہ ہو

برادری میں، میں ہر ایک کی دعوت کرلوں

اپنی عزت کے لیئے ساروں کی عزت کرلوں

کوئی ناراض نہ ہو سب کی میں خدمت کرلوں

کیا مزہ ہو کہ مبارک اور سلامت کرلوں

جو مخالف ہے ہمارا اس کو منانا ہے

تجھ پہ قربان بس ہر ایک کو گھر میں لانا ہے

y

 

بیٹا ماں سے

ماں جی یہ ٹھیک ہے شادی تو ہے سنت کا عمل

سب کچھ سنت کے مطابق ہو تو پھر یہ ہے اصل

آپ نے جو مری شادی کا ہے نقشہ کھینچا

مرے ابا کے شاید بس میں نہیں ہے ایسا

کہ ہر اک چیز پہ لگتا ہے بہت ہی پیسہ

تو اس صورت میں یہ سب کچھ ہو مگرہو کیسا

اس کے اسباب میسر نہ ہوں تو پھر کیا کریں؟

کیوں یہ بہتر نہیں کہ اپنے ہی اوقات میں رہیں

ماں

بیٹا یہ ٹھیک ہے اسباب میسر تو نہیں

تیرے ابا کے جو ہیں دوست وہ گئے نہ کہیں

ان سے قرض لے کے بھی ہوسکتا ہے سب کچھ اور یہیں

اور مزید بیچ بھی سکتے ہیں یہ تھوڑی سی زمیں

بیٹا ہمت ہو اور دل میں ہو خدا پہ یقیں

بیٹا کیا کام ہےدنیا میں کہ ممکن وہ نہیں

بیٹا

ماں جی! اللہ پہ یقیں ہو تو شریعت پہ چلیں

کیوں نہ ہم اسکے ہی محبوب کی سنت پہ چلیں

اور رکاؤٹ ہو اگر اس میں تو ہمت پہ چلیں

جھوٹ کو چھوڑ کر ہم صرف صداقت پہ چلیں

ہم کو لوگوں کا نہ پھر ڈر ہو خدا سے ہی ڈریں

جو پسند اس کو ہو، ہر حال میں بس وہ ہی کریں

کیوں نہ شادی میں، علیؓ کی میں پیروی نہ کروں

اس میں جو آپ نے کیا ہے، کیا وہی نہ کروں؟

کیا ان کی طرح اس عمل میں سادگی نہ کروں؟

کیااس کے ساتھ اپنے دل کی تسلی نہ کروں؟

اپنے محبوب سے اس عمل میں کیوں وفا نہ کریں؟

دل تو چاہے بس اسی ذوق سے ہٹا نہ کریں

مزے چند روز اور لمبی افسردگی اپنی

پریشان زندگی گزرے جو پھر ساری اپنی

کیا ہو اچھا کہ ہو سادہ ہی یہ شادی اپنی

کچھ نہ ہوقرض مزے سے ہو زندگی اپنی

قرض جھنڈا ہے اک ذلت کا، اس کو کیوں گاڑیں

بجائے اس کے، رسومات ہی کا سر پھاڑیں

جس میں دنیاکی بھی ذلت ہو، آخرت بھی تباہ

اس قسم کا کام کریں کیوں ہم، مری ماں جی بتا؟

لوگ کسی حال میں بھی خوش نہ ہوں توان کا کیا؟

لوگ ہوں خوش اور ناراض رہے میرا خدا؟

اب تو ابا سے ہی پوچھوںگا کیا ارشاد ہے اب؟

فیصلہ ان سے ہی، اس باب میں کروں میں طلب

باپ

بیٹا میرا بھی ارادہ تھا، تری ماں کا جو تھا

مگر جو بات کی ہے تو نے تو اب وہ نہ رہا

کیا پیاری بات کی ہے تو نے، ہوں اب اس پہ فدا

لوگ ناراض ہوں کچھ بھی نہیں، راضی ہو خدا

لوگ کسی حال میں معلوم ہے خوش ہوتے نہیں

دل پہ ہم کیوں لیں یہ، مولا پہ ہے گر ہم کو یقیں

فیصلہ یہ ہے کہ اس میں بھی ہم سنت پہ چلیں

خدائے پاک کی لا محدود اس حکمت پہ چلیں

اپنا نقصاں نہ کریں اور ہدایت پہ چلیں

جو نہ مانے تو ہم ان سے معذرت پہ چلیں

میرا بیٹا، رسول اللہ کا خادم بن جائے

اس طرح نور سے بھر پور ہر مسلم بن جائے

ماں

میں کیوں پیچھے رہوں حق کے ماننے سے اب

ساتھ دوں گی میں یقیناً، حق مجھ پہ کھل گیا جب

لازم ہے فکر کریں اس کی مسلمان ہم سب

کہ راضی کرلیں خوشی میں بھی ،غمی میں بھی، رب

زندگی اپنی خوشگوار ہی بن جائے گی

ہر گھڑی اجر، شبیرؔ سب کے لیئے لائے گی

 

ختم

ہوں شادیوں کے فوتگیوں کے رسومات ختم

حق ہے ہوجائیں بہت سارے پھر بدعات ختم

اور جو بدعات تو نہیں پر ہیں تبذیر و اسراف

ایسے ہی کتنے ہی ہوجائیں خرافات ختم

کامیابی کی کنجی

 

راستہ آقا کا ہی بہتر سمجھے

عقل کو جو بھی مؤثر سمجھے

کامیابی قدم چومے اس قدر

گفت یہ جو بھی جس قدر سمجھے

فوتگی کے بارے میں

شاگرد

مرے استاد میں نے عجیب طریقہ دیکھا

میں نہ سمجھا میں کہوں کیا ،کہ میں نے کیا دیکھا؟

مرے ایک دوست کا والد، سنا کہ فوت ہوا

جنازہ کے لیئے اس گھر کی طرف تیز چلا

جب پہنچا تو اس کے گھر میں بہت ہی شور تھا

عورتوں کے بین سےسوگوار وہ ماحول دیکھا

عورتیں کیا کہ مرد ان کے روتے جاتے تھے

پوز رونے کے وہ عجیب اک بناتے تھے

یہ جو رونا تھا مصنوعی سا نظر آتا تھا

بعد میں اس کا اثر مفقود، میں تو پاتا تھا

ہر مرد رونے کی اک شکل جب بناتا تھا

اس طرح ان سے محبت وہ اک جتاتا تھا

اٹھی چارپائی جب ،میت کو لے کے جانے لگے

کلمہ وہ سارے پھر زور سے دہرانے لگے

جب جنازہ پڑھا گیا تو لوگ آنے لگے

لوگ چہرہ انہیں میت کا پھر دکھانے لگے

اور کچھ لوگ گلے لگ کے گھر کو جانے لگے

وہ جنازے میں حاضری کو یوں جتانے لگے

دفن کے واسطے چارپائی اٹھی بالآخر تب

جو باقی رہ گئے تھے قبر پہ آئے وہ سب

قبر میں پھر میت نیچے اتارے جانے لگی

دفن کے بعد مٹی بھی پھر ڈالے جانے لگی

مٹی قبر کی بھی پھر درست کرائی جانے لگی

اور اس کے بعد تلاوت کرائی جانے لگی

دعا کے بعد رسمِ قل کا بھی اعلان ہوا

رسم کا نام تو سنکر ہی میں حیران ہوا

تین دن گھر میں دعوتوں کی فراوانی تھی

مرے نصیب میں دیکھ کر اسکو حیرانی تھی

دیکھی جاتی نہیں اس دوست کی پریشانی تھی

رشتہ داروں اور دوستوں کی تو مہمانی تھی

میں تھا حیران اور حیران ہوا جاتا تھا

اور ان حالات میں پریشان ہوا جاتا تھا

رسمِ قل میں تو وہ پڑھنا، برائے نام سا تھا

لوگوں کو مطلب، اس آنے میں، ایک کام سے تھا

ملنے جلنے سے اور گپ شپ، دعا سلام سے تھا

اسی میت کے وسیلے سے فیضِ عام سے تھا

یعنی اندازِ ضیافت بڑا شاندار رہا

مجھ پہ تو دیکھ یہ، غم بڑا سوار رہا

اور چہلم میں انتظام اور عجیب ہوا

کارڈ بھیجے گئے چہلم جو کچھ قریب ہوا

دوسرا شاندار ایک طعام پھر نصیب ہوا

کھایا مالداروں نے محروم تو غریب ہوا

قرض پر قرض مرے دوست پہ چڑھتا ہی رہا

یہ وہ خدمت اپنے والد کی سمجھتا ہی رہا

مرے مشفق یہ جو دیکھا یہ طریقہ کیا ہے؟

میری آیا نہ سمجھ میں یہ ماجرا کیا ہے؟

خرچ کرنے کا اس اندا ز میں سلسلہ کیا ہے؟

اس کے بارے میں اکابر کا بھی فتویٰ کیا ہے؟

استاد کا جواب

مرے بیٹے ان طریقوں سے ہم انجان نہیں

اس لیئے اس طرح کاموں پہ ہم حیران نہیں

لوگ رسومات میں اپنی عقل کو چھوڑتے ہیں

مذہبی بات بھی، کلچر کی طرف موڑتے ہیں

اس طرح نفس کے چکر سے رشتہ جوڑتے ہیں

اور سنت کی طریقوں سے رشتہ توڑتے ہیں

ہر جگہ، ہر طرح، لوگوں کی خوشنودی مطلوب

واہ کیا کام ہوا، یہ سنیں، یہ ہی مطلوب

آپﷺ نے جذبات کا بے شک ہے احترام کیا

جو ہر اک کر سکے، تو اس طرح ہر کام کیا

دور تکلف کو کیا، سادگی کو عام کیا

شرکیہ کاموں اور ٹوٹکوں کا اختتام کیا

یہ سادگی ہمیں پھر راس کیوں نہیں آتی؟

تکلفات کی جو عادت ہے وہ نہیں جاتی؟

رونا غالب ہوتو رونے میں قباحت بھی نہیں

عورتیں بین کریں اس کی اجازت بھی نہیں

اور رونے کے محض پوز کی حاجت بھی نہیں

غم مزید اور بڑھانے کی ضرورت بھی نہیں

مرد قوام ہیں، عورتوں کو تسلی دے دیں

رو کے خود، ان کو یہ رونے کی شہہ نہیں دے دیں

میت ہو مرد، تو عورتوں کے درمیان نہ ہو

تاکہ پھر چہرہ دکھائی کا بھی سامان نہ ہو

نیز غیر محرم عورتوں کا امتحان نہ ہو

غسل کے واسطے کوئی بھی پریشان نہ ہو

عورتیں چارپائی اٹھانے میں مزاحم بھی نہ ہوں

سامنے اضطراری اس میں غیر محرم بھی نہ ہوں

چا لے جانے میں میت کو ہم عزت دے دیں

اس کی چارپائی کو کندھے سے رفاقت دے دیں

اور گھروالوں کو حوصلہ دیں اور ہمت دے دیں

ان کو اس وقت پہ جس چیز کی ہو حاجت، دے دیں

ہم خموشی سے چلیں ساتھ اور عبرت پکڑیں

اور کرائے کے ذاکرین کی نہ حاجت پکڑیں

حق میں میت کے، جنازہ ہی تو بڑی ہے دعا

تو اس کے بعد بھی دعا ہی ہو تو یہ ہے کیا؟

ضروری کام ہے میت کو اب دفن کرنا

تو اس کے واسطے فوراً ہے قبر پر جانا

یہی سنت ہے کہ فوراً ہواب تدفین کا عمل

کوئی اچھا یا برا کام نہ ہو اس میں مخل

بڑی عزت سے اس میت کی ہوتدفین ابھی

مٹی ڈالنے میں بھی شریک قبر پر ہوں سبھی

دیکھ لیں سب کو جو آنا ہے وہ جگہ ہے یہی

پس یہی روز بھلائے ہمیں دشمن نہ کبھی

قبر پر وعظ یہی ہو کہ یہاں آنا ہے

جو بھی دنیا میں ہے موجود،سب کو جاناہے

تین دن تک ہوگی تعزیت اس کے گھر والوں سے

کہ ہم قریب رہیں غم میں سوگواروں سے

ساتھ ہونے کا ہو اظہار ان کےپیاروں سے

چاہیں مہمانی نہیں ایسے غم کے ماروں سے

بلکہ تین دن تک ان کے گھر میں آگ جلے ہی نہیں

ہم کھلائیں انہیں، کچھ بھی وہاں پکے ہی نہیں

ہو جو میت کے لیئے کوئی بھی ایصالِ ثواب

نہ بنادے اسے رسم و رواج اور یوں اک عذاب

ان کو آزاد رکھیں جس طرح بھی جانیں صواب

ورنہ ان کی کہیں ہوجائے نہ نیت ہی خراب

کیونکہ لوگوں کے لئے جو بھی کریں گے، وہ عمل

بنے ریا، خدا کے ہاں نہ وہ رہا یہ اصل

اس میں تخصیصِ رواجی کا احتمال نہ ہو

اور غیر شرعی طریقوں کا استعمال نہ ہو

اور لوگوں کی خوشی کا بھی اس میں خیال نہ ہو

کسی مالک کے بھی ترکے سے یہ فی الحال نہ ہو

ترکہ میت کا ورثاء میں ہو تقسیم فوراً

اس کی تقسیم کی دی جائے بھی تعلیم فوراً

فرض،واجب کے مقابل مستحب کچھ بھی نہیں

جب خدا راضی نہ ہو پھر ،تو یہ سب کچھ بھی نہیں

حق میں میت کے یہ سب شور و شعب کچھ بھی نہیں

بس محض ضد ہو تو پھر اس سے عجب کچھ بھی نہیں

ضد میں شیطان نے،شبیرؔ تیر کیا مارا ہے

سوچ لیں ہم اگر ارادہ یوں ہمارا ہے

 

ایک شاگرد کی فکر

مرے استاد ہےمرے دل میں اضطراب بہت

بہت بے چین ہوں ہے حالت مری خراب بہت

اس اضطراب کو کیسے قرار آجائے؟

سکوں ملے گا کہاں یہ کوئی بتاجائے؟

کوئی طریقہ کامیابی کا سکھا جائے

داغ دل پر جو لگے ہیں انہیں مٹا جائے

عمر کاٹی تو ہے غفلت میں اب کیا ہوگا؟

مرے اعمال نامے میں کیا لکھا ہوگا؟

میرا دل چاہے گناہوں سے میں توبہ کرلوں

خود کو شر کی جگہیں جو ہیں ان سے جدا کرلوں

اچھا ہونے کا میں فی الفور ارادہ کرلوں

کیسے ہوگا یہ اب ،اس کے لیئے میں کیا کرلوں؟

مرے استاد کوئی گُر اب بتانا مجھ کو

جو کہ رستہ ہے اصل اس پہ چلانا مجھ کو

استاد کا جواب

مرے بیٹے یہ ارادہ تجھے مبارک ہو

کتنا یہ خیال ہے اچھا، تمہیں مبارک ہو

بیٹا اللہ اس ارادے کا قدرداں ہے بہت

ایسا چاہے جو تو ان پر وہ مہربان ہے بہت

کامیابی ہے قریب کیوں تو پریشان ہے بہت

اس ارادے میں ہی موجود اس کا سامان ہے بہت

اس ارادے پہ عمل میں ہی کامیابی ہے

یہ تو اک نور ہے، سر سبزی ہے، شادابی ہے

تو پڑھ نماز دو رکعت اب توبہ کے لیئے

ہوں گے معاف اس سے جتنے بھی گناہ ہوئے

پھر اس کے واسطے کہ تو اس پہ قائم بھی رہے

اور مزید یہ کہ نیک اعمال میں ترقی بھی ملے

تو کسی شیخ کے دامن سے وابستہ ہوجا

اس نیک مقصد کے لیئے اس پہ فریفتہ ہوجا

توبہ قائم ہو اگر صحبتِ صالح ہو نصیب

اس پہ ہو شکر، اور رہتے رہو اس کے قریب

ایسی قربت کے ملیں تجھ کو نتائج کچھ عجیب

حق ملے تم کو،اگر تم کو ملے حق کے نقیب

جوہرِصحبت صالح کو شیخ جان لینا

اور اس کا ہو کے، ہر اک بات اس کی مان لینا

شیخ دروازہ ہے اللہ سے لینے کے لیئے

یہ ہے ایک نور، نورِ سلسلہ پانے کے لیئے

روحانیت کے فضائل کے پنپنے کے لیئے

اور رذائلِ روحانی کے دبانے کے لیئے

شیخ خدا نہیں،خدا کا ہے بندہ عاجز

تربیت لینے کا، بندوں کا ذریعہ جائز

شاگرد کا ماننا

جزاک اللہ، مرے استاد آپ کی شفقت

سے ،کتنی آئی مرے دل میں آج ہے فرحت

میں ہوں بیمار مگر اب ہے امیدِ صحت

خدا کے فضل سے اب تک ختم نہیں مہلت

اسی مہلت کو میں جلدی سے استعمال کروں

پیش توبہ میں اپنے اشکِ انفعال کروں

مرے مولا بہت کریم ہیں، کردیں گے معاف

شیخ پکڑوں گا تو دل میرا بھی ہوجائے گا صاف

اپنی اصلاح کے طریقوں سے نہ ہو اب انحراف

اب تو ہمت کی ضرورت ہے راستہ ہےشفاف

درِ توبہ سے جو چمکی ہے رحیمی کی ضیاء

مایوسیوں کے اندھیروں کا اختتام ہوا

میرے مولا ، میں تجھ سے عفو عافیت مانگوں

خاتمہ اچھا اور ایمان بھی سلامت مانگوں

اچھے کاموں کے لیئے تجھ سے میں ہمت مانگوں

ذہنِ رسا، قلبِ سلیم اور بصیرت مانگوں

نفس کی اصلاح ہو مری اور رضا ہو تیری نصیب

اپنے بندے، یعنی شبیرؔ کو بھی کردے قریب

ایک طالبعلم کے خیالات

مرے استاد، متردد ہوں بہت کیا میں کروں؟

زندگی بوجھ ہے ایک، دیکھتا ہوں کیسے چلوں؟

ہروقت بوجھ مرے سر پر پڑھائی کا ہے

میں ہوں جوان، مرا دور یہ خوشی کا ہے

میں تو انجائے کروں اس کو یہ اسی کا ہے

میں کتابوں میں رہوں غرق، کیا اس ہی کا ہے؟

مرے جب دوست بے دریغ اڑائے پیسہ

میں چاہوں میرے بھی پاس اس طرح آئے پیسہ

لوگ کیوں میرے ان جذبات کو جانے ہی نہیں؟

میں سمجھاؤں انہیں تو بات مری مانے ہی نہیں

میں لاؤں جس پہ تو اس طرف کوئی آئے ہی نہیں

اس سے یہ ٹھیک ہے مجھ کو وہ پڑھائے ہی نہیں

میں خود کما کے بہت جلد یہ دکھاؤں گا

کہ کیا کرسکتا ہوں خود میں انہیں بتاؤں گا

ان کتابوں سے تو بالکل میں چڑ گیا ہوں اب

دل ہے عاری خوشی سے اور بجھا ہوا ہوںاب

مجھ کو پتہ نہیں یہ کیا ہے، کیا ہوا ہوںاب؟

شاید یہ درست نہیں جس پہ میں چلا ہوں اب

یہ ہے سب ٹھیک مگر کس طرح میں دل سے کٹوں؟

یہ زندگی ہے بھلا اس سے کیا رشتہ رکھوں؟

استاد

مرے بیٹے بتا کے مجھ کو تو نے اچھا کیا

ابھی سب ہاتھ میں ہے، چل نہیں کچھ بھی ہے ہوا

تجھ کو اللہ نے موقع ہے ترقی کا دیا

بہت لوگوں کو میں جانتا ہوں یہ نہیں ہے ملا

ضرورتیں ہوں اگر پوری تو پھر کیوں ہو گلا؟

تجھ کو محنت کا انشاء اللہ ملے گا بھی صلہ

بڑا ہونے کو، پہلے ہوتا ہے چھوٹا بننا

سٹڈی اور اس کے سب کاموں میں بھی اچھا بننا

جو ہیں بل گیٹس کے بچےتو ان کا حال تو دیکھ

ان کا جیب خرچ تھوڑا اور صورتِ احوال تو دیکھ

اتنا کچھ ہونے میں بل گیٹس کا کمال تو دیکھ

اپنے اس حال میں اس کا فکر استقبال تو دیکھ

ان کو دولت کی چھری سے وہ ذبح کرتے نہیں

چھری سونے کی ہو ،کیا اس سے لوگ مرتے نہیں؟

تو نے محنت سے ہے سنوارنی زندگی اپنی

تو نے رکھنی ہے ٹھیک ہر حال میں سٹڈی اپنی

ذرا تو روک اب ہر اک سے لڑائی اپنی

ایسے لوگوں سے اب تو کاٹ دے دوستی اپنی

جو ترے وقت کے ضیاع کا سبب بن جائیں

کامیابی سے تجھے دور وہ پھر لے جائیں

دوست، دشمن کو عقلمندی سے تو جان لینا

بے وقوفی جو کسی کی ہو وہ پہچان لینا

اپنے کردار و کارکردگی، خوب چھان لینا

اپنی غلطی ہو جو تری، اس کو تو مان لینا

اس وقت سر کا جھکانا ترا کمال ہوگا

جو کہ باعثِ ترقی، فی الاستقبال ہوگا

یہ پڑھائی کا زمانہ ہے اور پڑھنا ہے

وقت بڑھنے کا ہے، رکنے کا نہیں، بڑھنا ہے

اور زینہ ہائے ترقی پہ خوب چڑھنا ہے

سڑے خیالات سے رک جانا، کیوں سڑنا ہے؟

تو اگر اس پہ عمل کرنے میں کامیاب رہے

راستہ تیرا پھر سرسبز اور شاداب رہے

دوست رلائے گا اور دشمن تجھے ہنسائے گا

تو ان کی مان کے، بے وقوف خود کو پائے گا

اور پھر بعد میں خود ہی اس پہ پچھتائے گا

لیکن پچھتانے سے کیا ہاتھ ترے آئے گا؟

اب بھی ہے وقت ،سوچ اور کچھ ہوش کے ناخن تو لے

تو کیا کرتا ہے ماحول کی سن گن تو لے

مرے بیٹے خدا تجھے اب سمجھدار کرے

ہوش میں لا کے تجھے پھر سے ہوشیار کرے

اور والدین اساتذہ کا تابعدار کرے

ترے مشفق جو ہیں تو ان پہ اعتبار کرے

کہے شبیرؔ اپنی خیر سے نہ تو اندھا بنے

میں چاہتا ہوں، تو سچا خدا کا بندہ بنے

سلوک کہتا ہے

میں ہوں سلوک، رذائل کو جو دبائے خوب

اور جو دل کے فضائل ہیں سامنے لائے خوب

میں رذائل کو تو قابو مجاہدات سے کروں

دل کی تنویر کے لئے ذکر اس میں خوب بھروں

ہر رذیلے کو ختم کرنے تک میں ساتھ چلوں

جب تلک دل کی صفائی نہ ہو چپ کیسے رہوں

پھر تو قرآن کا زکھّٰاسمجھ میں آئے

اس کے دسّٰھاسے نجات بھی نفس خوب پائے

ایک مشکل مجھے آج کل یہ نظر آتی ہے

کہ رذائل سے خلاصی نہیں ہوپاتی ہے

ایک برائی ختم ہو دوسری دل کو بھاتی ہے

دوسری شروع ہو ، جب یہ ایک ختم ہوجاتی ہے

اب میں چاہتا ہوں کہ اس کی کوئی تدبیر کروں

خوابِ اصلاح کی مناسب کوئی تعبیر کروں

جذب کہتا ہے

جذب ہوں، جذب سےاصلاح بہت آسان ہے نا

دیکھ لیا آپ نے ، سلوک پریشان ہے نا

دل سے دنیا کی محبت کو جب نکالوں گا

دل میں اللہ کی محبت کو جیسے لاؤں گا

جو رذائل ہوں پھر دنیا کے وہ دبالوں گا

جو فضائل ہیں ان کو راستے میں جالوں گا

سامنے میرے دنیا کی محبت کچھ بھی نہیں

ہے جو دنیا کی عزت اور ذلت کچھ بھی نہیں

میں دل کو حبِ الہٰی سے جب سرشار کروں

اس سے حاصل میںجواباً ، خدا سے پیار کروں

کیسے ایک ایک رذیلے کا انتظار کروں؟

آؤں جس دل میں اس کو روشن اور بہار کروں

طریقِ جذب بتا کیسے نظر آتا ہے؟

جو کہ خالق سے ایک جست میں ملاتا ہے

ایک مشکل ہے کہ اس میں کچھ انتظام نہیں

طریقِ خاص ہے ہر ایک کےلئے عام نہیں

جو ملائے خدا سے وہ بھی ہر اک جام نہیں

جست تو ہو مگر ہو رو بہ انہدام نہیں

کہیں یہ جست کسی پتھر سے سر کو پھاڑ نہ دے

صرف رذائل کو نہیں سب کو کہیں جھاڑ نہ دے

x

محاکمہ بین السلوک و الجذب

سلوک خوب ہے آج کل یہ کفایت نہ کرے

جذب ہے خوب، پر خطر ہے، حفاظت نہ کرے

سلوک طویل ہے یہ تو ختم نہ ہوپائے

جذب مختصر ہے، پرُخطر کہیں نہ ہوجائے

دیر ہونے سے کہیں بخت اپنا نہ سو جائے

زیادہ تیزی سے کہیں سب کچھ ہی نہ کھو جائے

طریق مختصر تو ہو پر انتظام بھی ہو

فہم ہو اپنی جگہ پر ہاتھ میں جام بھی ہو

اس لئے ابتداء ہوگی سلوک سے بہتر

اور پھر جذب ہو کہ ہے یہ اک طریق مختصر

ہوش میں رہنے سے بچ جائیں گے اپنے بال و پر

اور تکمیل کے لئے ہے مفید جذب مگر

ایک ہاتھ جام شریعت ،دوسرے عشق کی سنداں

انشاء اللہ شبیرؔ پھر سامنے ہو جانِ جاناں

اصل مجذوب

جذب تو ہو پر شریعت کے وہ قابو میں رہے

اصل مجذوب وہی ہے جو شریعت پہ چلے

عقل بھی کام کرے اور دل ہو اس کے ساتھ

پھر کچھ ہی دیر میں مجذوب کہاں تک پہنچے

تقدیر کے بارے میں ایک متردد شخص کے اشکالات

میں ایک بے آسرا حالت اپنی بیان کروں

سوچ ماؤف، ذہن گندہ یہ عیان کروں

مرا کاموں پہ کسی طرح جب نہیں اختیار

اپنے جرموں پہ پھر میں کیسے بن جاؤں سزاوار

سب کچھ ہونے میں جو ہو اس کے فیصلے پہ مدار

مجھے کیوں میرے کئے پر سمجھا جائے گنہگار؟

میں جو کرتا ہوں اگر ،لکھا مجھے ایسا ہے

پھر میرے بارے میں کیوں یہ کہے کہ کیسا ہے؟

گناہ میں نے کئے وہ جو لکھے تھے ایسے

غلط صحیح کو نہ دیکھ، تھے ہی فیصلے ایسے

مجھے برا نہ کہہ، تھے میرے نصیبے ایسے

اٹھے دعا کے لئے ہاتھ پر گرے ایسے

لکھا ہے پہلے سے تو پھر دعا میں کیسے کروں؟

مرے تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں، رہوں یا مروں؟

میں ہر طرف سے خود کو قید میں بند پاتا ہوں

میں زندہ تو ہوں پر مر مر کے جیا جاتا ہوں

جواب چاہوں، چپ اب میں رہا نہ جاتا ہوں

میں روز روز تحیر سے بھرا جاتا ہوں

میں ہوں مایوس ہر طرف سے کدھر دل جائے؟

کاش کچھ میرے سوالوں کا جواب مل جائے

اس کے سوالوں کے جوابات

مرے بھائی نہ ہو مایوس تجھے قریب کروں

تو بد نصیب نہیں تجھ کو خوش نصیب کروں

دیکھ کتے کو، جب کاٹتا ہے سمجھ دار ہے وہ

پتھر مجبور پہ کبھی کرتا نہیں وار ہے وہ

جو پتھر پھینکے انسان، سمجھے با اختیار ہے وہ

اس لئے اس کو ہی دوڑ کاٹنے پہ تیار ہے وہ

جب یہ کتا ہم میں دیکھے جبر بھی، اختیار بھی

تو انسان ہوکے کریں اس سے کبھی انکار بھی

صرف ایک پیر باآسانی اٹھا سکتے ہیں ہم

نہیں دوسرا برابر اس کے لاسکتے ہیں ہم

اختیار اتنا عمل میں دکھا سکتے ہیں ہم

جتنا اختیار ہے اس پر آسکتے ہیں ہم

لا یکلف اللہ نفساً کو پڑھ اب قرآن میں

اور الا وسعھا کو بھی سمجھ اس فرقاں میں

ہم سے پوچھیں گے اتنا، جتنا اختیار تھا ہمیں

اس لئے جتنا وقت ہے پاس، اس کو ضائع نہ کریں

اپنا مال کیسے کمایا، اس کا حساب رکھیں

اور پھر خرچ کرتے کیسے ہیں، یہ دیکھتے رہیں

اعضائے جسم استعمال ہم کیسے کرتے ہیں؟

علم حاصل کے مطابق کیا ہم چلتے ہیں؟

دیکھئے وضو اگر مشکل ہو، تیمم کرنا

عذر ہو تم کو اگر، بعد میں روزہ رکھنا

بے استطاعت فرض نہیں حج کو ترا چلنا

جو کر سکو وہی کر، پھر ہے کیوں تم کو ڈرنا؟

جو لکھے پر، تو بے پرواہ اگر اعمال سے ہے

گھر میں پھر بیٹھ، کیا فائدہ کام کے جنجال سے ہے؟

کیلکولیٹر اور کمپیوٹر بھی ہینگ ہوجاتے ہیں

کبھی سوال بڑے ان کی حد سے جب آتے ہیں

تقدیر کی بات ساری کوئی اگر سمجھاتے ہیں

دماغ اپنے کہاں ان کو سمجھ پاتے ہیں

اس لئے اس کا جو اجمال ہے، پر یقین کرنا

اور جو تفصیل ہے اس میں جانے سے، اے دوست ڈرنا

تردد کا دور ہونا

ماشاء اللہ آپ کی بات میں سچائی ہے

کچھ کچھ شاید یہ میری بھی سمجھ میں آئی ہے

روشنی دل میں اس سے تھوڑی بہت آئی ہے

آگے تو تیرنا ممکن نہیں، گہرائی ہے

میں نے شیطان کے وساوس کو دل میں پالا تھا

حال تو حال، مسقبل بھی مرا کالا تھا

اپنے اختیار کو بہتر اب استعمال کرلوں

مستقبل کے لئے میں درست اپنا حال کروں

جو دل پہ تھا، شیطان کا تار تار وہ جال کرلوں

بے ہودہ گفتگو میری کیا مجال کرلوں

مرے اللہ میری غلطی جو تھی معاف کرے

شیطانی وسوسوں سے میرے دل کو صاف کرے

خوشی کی کیفیت اور ایک سبق

دل سے آمین کہوں آپ کی دعا پہ اب

اس کے کرم کے ہی محتاج ہیں ہر وقت، ہم سب

دل اپنا بھر دیں محبت سے ہی اس کی ہم جب

خود بخود ہم کو ملے اس کی بدولت وہ ادب

کہے شبیرؔ کہ پھر جان بھی دینا ہو آسان

پھر سمجھ آئے سب حدیثیں ، فقہ اور قرآن

شیطان دشمنی

شیطان تو دشمن ہے ،کہے جو بھی کہے ہے

بکتا ہےیہ ہمیش، بکے یہ جو بکے ہے

باتوں میں اس کی آنا نہیں ،چھوڑ دے اس کو

جو چھوڑ دے اس کو، تو یہ بھی چھوڑ دے اسے

نفس اور شیطان کی حقیقت

شاگرد سوال کرتا ہے

نفس و شیطان کے بارے میں تو کہتے ہیں بہت

ہم ان کے بارے میں شاید نہیں جانتے ہیں بہت

نفس کیا ہے؟ اس کی تفصیل بتادیں استاد

اور شیطان کے بارے میں سمجھادیں استاد

اور جو بچنے کا گر ہے ان سے ،سکھادیں استاد

چھڑا کے ان سے ہمیں ،حق سے ملا دیں استاد

ہمارے حق میں مفید آپ کی یہ تعلیم ہوگی

یہ علم نعمت ہمارے لیٕٔے عظیم ہوگی

نفس، خواہشات کا ہے جسم میں مربوط اک نظام

اس کی خواہش ہو پوری ،ہے اس کی چاہت یہ تمام

چاہے نقصان ہو، فائدہ ہو اس کو کیا اس سے کام

شوق پورا کرکے بے شک، رہ جائے بے نیل و مرام

اس کو گناہ ثواب سے کوئی سروکار نہیں

بات ماننے کے لئے یہ کبھی تیار نہیں

اور جو شیطان ہے اس کا نام تھا پہلے ابلیس

اور عبادت سے ملائک کا ہوا تھا یہ جلیس

دل میں لیکن تھا عبادت سے خلافت کا حریص

نہ کیا سجدہ آدم کو،کیا بحث و تمحیص

اس کی پاداش میں، مردودِ بارگاہ ہوا

سب کچھ غارت ہوا، ذلیل ہوا،تباہ ہوا

اس نے عین اس وقت اللہ سے کچھ مہلت مانگی

تو خدا نے اسے،اس وقت ہی مہلت دے دی

وہ جب سمجھا کہ میں نے رب سے ہے مہلت پالی

اس تباہ حال نے، اللہ سے اک بات کہہ ڈالی

جن کے آنے سے مرا سب کچھ ہی تباہ ہوا

میں نافرماں ہوا، مردودِ بارگاہ ہوا

ان کی اولاد کے رستے میں، میں بیٹھ جاؤں گا

آگے پیچھے سے، دائیں بائیں سے میں آؤں گا

ان کو تجھ تک کبھی آنے نہ دوں، بہکاؤں گا

ہوں گے ناشکرے،ناشکر ے ان کو بناؤں گا

تیرے بندوں پہ البتہ، مرا کچھ بس نہ چلے

سن کے اللہ بھی جواباً پھر یوں گویا ہوئے

جو ہوں گے میرے،ان کو تو نہیں گمراہ کر سکے

ساتھ جہنم میں ترے ڈالوں بنیں جو بھی ترے

تو شیاطین ہمیں گمراہ کرنے شروع پھر ہوئے

پر جو طاقت تھی ان کی وہ بس وسوسے ہی رہے

بچ جائیں وہ جو اس کے وسوسوں پہ کان نہ دھریں

آگے پیچھے نہ ہوں بس سیدھے شریعت پہ چلیں

ہاں یہ شیطان ہمارے نفس سے خبردار بھی ہے

یہ دھوکہ بازی کے کاموں میں تیز طرار بھی ہے

بے وقوفی سے نفس جب ماننے کو تیار بھی ہے

یہ ہے حریص اور ناسمجھ ہے، بے اعتبار بھی ہے

تو ذریعہ اس کو شیطان پھر بنا دیتا ہے

دل میں یہ زہر وسوسوں کا ملا دیتا ہے

کہیں منقول نہیں شیطان کی تربیت کرنا

ہر غلط وسوسے کی ہے مخالفت کرنا

نفس کی اصلاح میں البتہ بہت محنت کرنا

شیخ کامل سے ہے بہتر اس پہ بیعت کرنا

نفس کی اصلاح ہو تو شیطان کے یہ ہاتھ آتا نہیں

نفس مطمئن کبھی شیطان سے ہاتھ ملاتا نہیں

نفس کی پاکی پہ ہے، قرآن میں، فلاح منحصر

اور ہے نفس کی تباہی پہ گندگی مقدر

اس میں کہیں بھی نہیں دیکھ لیں شیطان کا ذکر

نہ کچھ بگاڑ سکے شیطان، نفس اپنا پاک ہو اگر

دل سےشبیرؔ کہے گر نفس کی اصلاح ہو تو

تو پھر شیطان کے وسوسے کاکوئی زور نہ ہو

اقبال کی خودی اور رومی کی بے خودی

شاگرد کا سوال

مرے استاد، فکرِ اقبال کی خودی کیا ہے؟

بے خودی کیا ہے؟پھر اس میں فکرِ رومی کیا ہے؟

خودی کا لفظ وہ معنیٰ نہیں بتاتا ہے

جو کہ اقبال کا تخیل ہمیں دکھاتا ہے

ذہن میں آتا نہیں دل میں مگر آتا ہے

سمجھ میں آئے بھی تو پھر سے نکل جاتا ہے

خودی کا سّر ہوا جب لا الہ الا اللہ

تو مطلب یہ کہ خدا کے لئے ہواپنی فنا

خودی سے خود پہ نظر ہونا سمجھ میں آئے

نظر ہو خود پہ، تو پھر کیسے خدا کو پائے؟

خودی بلند کرنے سے خدا کیوں فرمائے؟

رضا ہے کیا تری ؟کیسے سمجھ میں آجائے؟

مرے استاد یہ پہیلی سی مجھے لگتی ہے

کیا آپ کی بات تشفی مری کرسکتی ہے؟

استاد کاجواب

کہا اقبال نے خودی اگر بلند کریں

جواب میں اس کے، خدا ہم کو بہرہ مند کریں

وہ چاہے جوکریں ہم ، ہم کو وہ پسند کریں

پسند اس کو جو نہیں ہے، ہم وہ بند کریں

خدا نے ہم کو جو ایمان کی دولت دی ہے

جان لیں اور وہ جو اسلام سے عزت دی ہے

دوسری قوموں کی کبھی بھی کاسہ لیسی نہ کریں

پسند اللہ کو جو نہیں وہ ہم کبھی نہ کریں

اپنے ایمان کی کبھی بھی بے عزتی نہ کریں

فکر فردا سے ہم، گندا حال اور ماضی نہ کریں

ہمارا اس پہ ہی بھروسہ رہے ہر حال میں

یہی اسرار ہے خودی کا فکرِ اقبال میں

خدا کی معرفت میں ہے نفس پرستی حائل

اوراس ذریعے سے شیطان کی دوستی حائل

قال موجود مگر حال کی کمی حائل

متاثر ہے نفس سے جو اپنی خودی حائل

یہ خودی چھوڑ کے ہی تو خدا پہچان سکیں

پھر ہر اک حکم شریعت کا بھی ہم مان سکیں

یقیناً اس سے تم اللہ کے بن جاؤگے

اس کے جواب میں تم، خدا کو بھی اپناؤگے

من کان للہ کی طرف جس وقت آؤگے

تو کان اللہ لہ کو بھی وہاں پاؤگے

پھر تجھے یہ پتا چلے گا کہ مؤمن کیا ہے؟

دنیا ذلیل کیا ہے؟ اسلام کا پیرہن کیا ہے؟

اس طرح بےخودی سے اپنا، پا جانا سمجھو

نفس کی چکر سے خود کو یوں نکلوانا سمجھو

اور پھر خود کا اپنے اصل پہ آنا سمجھو

پھر اپنے خود کو، خدا سے یوں ملوانا سمجھو

یہی ہے بے خودی رومی کی اور اپنی معراج

خود کو پانا ہو اگر اس سے پالو خود کو آج

خودی اقبال کی، رومی کی بے خودی ہے ایک

پس منظر میں جو دونوں کی روشنی ہے ایک

بدلے کردار نظر آئیں کہانی ہے ایک

الفاظ مختلف میں نورِ عرفانی ہے ایک

ایک میں غیر کو دل سے ہے نکالنا بالکل

دوسرے میں بھول کے خود کو، اس کا پانا شامل

سمجھو تم بے خودی، اقبال کے کلام میں خودی

بے خودی سے ہی میسر ہو، خودی اقبال کی

کہ ذریعہ روحانیت کا ہے بے نفسی ہی

فنا جو اس کے لئے ہوگیا، ہے وہ باقی

مٹا دے اس کے لئے خود کو باقی بن جا پھر

خودی کا سِر ہے شبیرؔ یوں پھر ،بے خودی کا سِر

تصوف کا آخری مقام

مرے استاد بتادے مجھ کو، مقام آخر تصوف کا کیا ہے؟

یہ عبدیت ہے یا محبوبیت ہے، فنا اس کو کہوں یا یہ بقا ہے؟

خدا کی بندگی مطلوب ہے، جب حصول اس کا بڑا مقام ہوگا

جو محبوبِ خدا بن جائے تو پھر، کہوں کیسے شخص وہ عام ہوگا؟

فنا میں ہستی سب مٹ جاتی جائے ،جب اس کے واسطے یہ کام ہوگا

جسے دے دے بقا، مولائے کل جب، یہ کتنا ہی بڑا انعام ہوگا

اگر منزل مرے دل میں ہو واضح، تو پھر اس طرف بڑھنا ہی میں چاہوں

تردد ہو نہیں جب ذہن میں تو، میں یکسو ہوکے آگے بڑھتا جاؤں

 

استاد کا جواب

 

مرے بیٹے یہ سارے ایک ہی ہیں ، تمہیں گومختلف آئیں نظر یہ

ذرا تم عبدہ کو دیکھ لینا، رسالت سے بھی پہلے آئے گر یہ

جو بن جائے خدا کا بندہ خالص، تو بن جائے محبت کا اثر یہ

خدا کی بندگی محبوبیت سے ہو ہم آغوش بن جائے ثمر یہ

فنا ہے بندگی کا جب تقاضا، بقا اس کا نتیجہ جان لینا

یہ چاروں مختلف آئے نظر گو، مگر سب ایک ہیں یہ مان لینا

تو اس کا بن، بنے تیرا وہ خود ہی، یہ ہے قانون اس نے جب بتایا

تو سب کو بھول کر یاد اس کو رکھنا، وہ جس نے تجھ کو سب کچھ ہے دلایا

اسے یاد رکھ جو وہ پھر یاد دلادیں ، اگر دل میں ہے تیرے وہ سمایا

تو اس کی یاد میں گم ہونا سیکھے، تو پھر پوچھوں بتاؤ کیسے پایا؟

اصل میں وہ ہی ہے جب حسن ازل، ازل سے ہم بنیں عاشق ہیں اس کے

شبیرؔ محبوب ہیں جب اپنا مالک ،تو ہم بندے بنیں پھر اور کس کے

 

پسند آؤں تجھے

تو عاشق بن خدا کا بھول جاسب

کرو تو وہ کہے جو وہ ہی کہہ اب

میں بندہ ہوں ترا ایسا بنا دے

پسند آؤں تجھے ہر آن یا رب

 

 

میراث میں بہنوں کا حصہ

شاگرد استاد سے

مرے استاد ،مری بہنوں نے پریشان ہے کیا

مجھ سے حصہ وہ مانگتی ہیں میرے والد کا

میں تو چاہوں کہ میں خود ان کا خیال رکھتا رہوں

میں ان کی شادی پہ اچھا جہیز بھی دے دوں

جو شادی شدہ ہیں ان کا خیال بھی رکھوں

ہیں جو چھوٹے، ان کی تعلیم پہ میں خرچ کروں

کیا ان کاموں میں، ان کا مجھ پہ اعتبار نہیں؟

میراث تقسیم کرنے اس لئے تیار نہیں

کیا یہ غیروں کی طرح، مانگنا میراث کا ہے درست؟

کیا محبت ہے جو میراث لینے میں ہیں چست؟

ان کی خدمت کروں دل جان سے اور نہ ہوں میں سست

ان کے کاموں میں ،میں مصروف ہوں دکھاؤں نہ پشت

حیف اس پر کیا ہے یہ انداز بے اعتباری کا؟

کیا ہو علاج مری بہنوںکی اس بیماری کا؟

استاد

مرے بیٹے میں سمجھتا تھا کہ تم جانتے ہو

حکم اللہ کا جو بھی ہے اس کو مانتے ہو

 

ہائے افسوس، آپ کے بارے میں غلط خیال ہے مرا

تم اور خدا میں، جانے زیادہ کون؟ سوال ہے مرا

کیا عبث سارا ہے جو بھی وہ قیل و قال ہے مرا

تری باتوں سے یقیناً اب برا حال ہے مرا

اب تو جانوں میں کہ دراصل بے اعتبار تم ہو

دین کو جانتے نہیںہو،شتر بے مہار تم ہو

خدا نے جن کو دیا جو حصہ، وہ ان کا ہی ہے

خود ساختہ رسموں کی ہوا البتہ بھی چلی ہے

اہل و عیال کا اپنے طور پہ جدا حق بھی ہے

میراث جہیز کے دینے سے کیا ختم ہوئی ہے؟

اگر یہ بات ہو، جہیزاپنے پاس رکھ لینا

مگر جو حصہ ہو میراث کا، ان کو دے دینا

میراث کا حصہ فرائض میں ہے شمار دیکھو

اس سے غفلت میں ،بہت سخت شیطان کا وار دیکھو

اگلی آیات میں ان پر قہرِ جبار دیکھو

دوزخ ، تصور میں ان کے لئے تیار دیکھو

چڑھانا، بات اپنی،خدا کی بات پہ کیسا ہے؟

کیا ُگھس گیا اتنا یہ تیرے دل میں پیسہ ہے

خدا کی بات پہ اپنی بات کوبڑھایا نہ کرو

خود اپنے پاؤں پہ کلہاڑی چلایا نہ کرو

مقابلے میں اس کے نکتے اٹھایا نہ کرو

دل میں کچھ مال کی محبت یوں بٹھایا نہ کرو

جو ان کا حق ہے تو دینا اسے خوشی سے تو

تاکہ پھرہوسکو دونوں جہاں میں تم سرخ رو

یہ ہندؤں کی جو باتیں ہیں ان کو بھول جانا

یہ رسومات کی حرکتیں ہیں ان کو بھول جانا

یہ تو شیطان کی علتیں ہیں ان کو بھول جانا

اس میں جو نفس کی لذتیں ہیں ان کو بھول جانا

اب صرف یاد رکھ کہ تو خدا کا بندہ ہے

کیونکہ یہ یاد نہ ہوجب تلک، تو گندا ہے

تاکلون التراث کا گلہ اللہ کا سنو

اور بل تحبون العاجلہ ، اللہ سے سنو

میراث نہ دینے کا بھی فیصلہ، اللہ سے سنو

اور جو دیتے ہیں تو ان کا صلہ، اللہ سے سنو

کبھی قرآن کو عمل کی نیت سے دیکھیں

ورنہ کرتوت تو اس کے بِنا اپنے دیکھیں

میراث کے بارے میں رکوع ،سورۃ نساء کا پڑھ

عمل کر اس پہ اور رفعت کے تو زینوں پہ چڑھ

بچ دنیا کی محبت سے ،ہے خطاؤں کی جڑ

اور خدا کی محبت لینے واسطے آگے بڑھ

تاکہ شیطان کے شر سے تم بچاؤ خود کو

طریق مصطفوی پر اب چلاؤ خود کو

شاگرد

مرے استاد تو نے کھول دی میری آنکھیں

لگاؤں دیکھنے قرآن میں یہ اپنی آنکھیں

میں تو ظالم تھا ظلم خود پہ کررہا تھا میں

وہ جو اک آگ ہے وہ پیٹ میں بھر رہا تھا میں

اور جہنم کے گڑھوں میں اتر رہا تھا میں

اور بے موت، شیطانی موت مر رہا تھا میں

تو نے استاد مجھے زندہ کیا ، زندہ ہوں میں

جو کیا پہلے ہے، اس پر بہت شرمندہ ہوں میں

میں اب میراث اپنے ہاتھوں سے بہنوں کو دوں گا

گو کہ میں مستحق نہیں، پر دعائیں لوں گا

آئندہ راستے کو غور سے میں دیکھوں گا

میں اب شیطان کے ہاتھوں میں نفس نہ چھوڑوں گا

اب میں طریق مصطفےٰ پہ چلنا چاہوں گا

اور اس طریق پہ،خدا سے ملنا چاہوں گا

استاد

میرے بیٹے تجھے شاباش ،خوش ہوا میں بہت

اگر چہ تجھ پہ ہوا ہوں، ابھی غصہ میں بہت

تجھ پہ ہو آفرین کہ حق کو تو نےجان لیا

اور پھر مزید سعادت کہ اس کو مان لیا

ماشاء اللہ مغفرت کا تو نے سامان لیا

دوست اور دشمن کو بروقت جب پہچان لیا

کہے شبیرؔ ان جوانوں کی جوانی ہو قبول

حق کا راستہ نظر آئے اور نہ ہو اس سے زہول

ایک پیر کی اپنے مرید کے بارے میں پریشانی

فلاں مرید کی مجھ کو سمجھ کیوں آئی نہیں؟

کیوں کسی طرح بھی ترقی اس نے پا ئی نہیں؟

فکر میں اس کی میں، روحانی زندگی کے لیٔے

کوشش میں جتنی کروں اس کی ترقی کے لیٔے

جتنا سمجھاؤں اسے، اس کی بہتری کے لیٔے

وہ بھی کوشش کرے خوبی سے ہاں اسی کے لیٔے

کوئی کوشش مری کارگر کیوں نظر آتی نہیں؟

اس سے ہی پوچھوں، پریشانی تو یہ جاتی نہیں

پیر، مرید سے پوچھتا ہے

میرے بیٹے، یہاں تو کس نیت سے آیا ہے؟

خیال کو نسا یہ تیرے دل پہ چھایا ہے؟

اس خانقاہ میں ڈیرہ کیوں جمایا ہے؟

کس طرح تو نے یہاں کا سراغ پایا ہے؟

کیونکہ نیت پہ ہیں مدار جو سارے اعمال

بعد اس کے ہیں، سارے قال اور سارے احوال

میں ترے دل کے ارادے سے خبردار نہیں

تیری خدمت سے مجھے گو کو ئی انکار نہیں

اور بغیراس کے آگے بڑھنے کو تیار نہیں

کہ اس طریق میں میرا کو ئی اختیار نہیں

خدا ہی دل کے ارادے سے ہوتے ہیں آگاہ

وہی ہر ایک کو دکھاتے ہیں اس طریق میں راہ

مرید جواب دیتا ہے

اے مرے شیخ ،مرا دل چاہے کہ حاصل میں کروں

جو آپ کے پاس ہے اس سے خود کو واصل میں کروں

خیر خوبی سے طے پھر سارے منازل میں کروں

پھر باقی لوگوں کو اس کام میں شامل میں کروں

میں بھی خدمت کروں دیں کی جو آپ کرتے ہیں

مجھے یقین ہے آپ حق کی راہ پہ چلتے ہیں

آپ کی خدمات کو دیکھ کر منہ میں پانی آۓ

جو بھی آۓ ہے پاس آپ کے وہ فیض پاۓ

آپ کے در سے خالی ہاتھ نہ کو ئی جاۓ

کاش مجھ کو بھی ہو حاصل یہ سعادت ہاۓ

میں بھی مخلوق کو آپ کی طرح فیضیاب کروں

رب کی مخلوق پہ شفقت، میں بے حساب کروں

پیر کا چونک جانا

اوہ یہی بات تو رکاوٹ ہے ترقی میں تری

یہی تو روڑہ ہے اٹکا، جانوں سعی میں تری

اب کو ئی شک نہیں ،کو ئی بھی بے حسی میں تری

اف کیا ظلمات بھری چیز ہے روشنی میں تری

ابھی سے تو نے پیر بننے کی ٹھان لی ہے

میں کہوں اس سے بس ،اخلاص کی تو نے جان لی ہے

اپنی اصلاح ہی پہ ہے کامیابی کی نوید

پیر بننے کی نیت کا،نہیں ہے کو ئی خرید

ایسی نیت نہیں ہےکچھ، مگر اصلاح میں چھید

ایسی نیت ہو تو مجھ سے کیا سنوگے مزید

یہاں تو عشق اور فنا کا ہے کاروبار بیٹے

کیا ایسے کام کے لیٔے ہے تو تیار بیٹے ؟

جب تو عاشق ہے، مشیخت سے ترا کام کیا ہے؟

جس میں دنیا کی نجاست ہو تو وہ جام کیا ہے؟

یہ دل میں چور ترا تسخیر ِ خاص و عام کیا ہے؟

تجھ کو معلوم ہے ایسے خیال کا انجام کیا ہے؟

اس کے دربار میں، پاک دل ہی کی پہنچ ہے بس

پہنچنا چاہے اس کے پاس گو ہر کس و ناکس

کچھ لینا چاہو تو اس خیال سے توبہ کرلو

نوری دنیا ہے اس سے بھی خود کو جدا کرلو

اپنی کوشش کرو اور رب پہ بھروسہ کرلو

اس کے دربار میں، بے دریغ خود کو فنا کرلو

بھول جا فخر کی چیزیں اور خاکسار بن جا

اس کی نعمت سے بہر یاب ،شکر گزار بن جا

مرید کی توبہ

میں اپنے خیال سے، مرے شیخ توبہ کرتا ہوں

یہ جو گھاٹی میں گرا تھا اس سے نکلتا ہوں

راستہ اخلاص کا نظر آیا اس پہ چلتا ہوں

اب تو میں عشقِ الٰہی ہی کا دم بھرتا ہوں

اپنی اصلاح ہی کی نیت دل میں اب ٹھان لی ہے

کہ اس طریق کی حقیقت میں نے اب جان لی ہے

مرا الٰہ مجھے اس راہ میں قبول کرے

اب مرے دل میں صرف تو ہی رہے، تو ہی رہے

مجھے شیطان کے وساوس سے تو اب دور رکھے

جو بھی سالک ہے، بنے ایسا اب شبیرؔ کہے

اس بڑے فتنے سے یارب، اب بچانا ہم کو

ہے جو طریقِ صفا، اس پہ چلانا ہم کو

شرک فی الطریقت

شرک فی الطریقت ہے پیر بننے کی خواہش کرنا

ایساچاہنے سے طریقت میں بہت ہے ڈرنا

اپنی اصلاح ہو مقصود مریدی میں بس

بنا اصلاح کے خطرناک بہت ہے مرنا

کشفیات کی حقیقت

ایک مرید، دوسرے مرید سے کہتا ہے

ہمارے سلسلے کے دیکھو، برکات کیا ہیں

مجھ سے پوچھو کہ آج کل میرے حالات کیا ہیں

مجھ پہ احوال دوسروں کے اب کھل جاتے ہیں

وہ جیسے ہوتے ہیں اندر سے،نظر آتے ہیں

مرے رب، فضل سے مجھ کو یہ سب دکھاتے ہیں

پردے آنکھوں سے مری ،روز روز ہٹاتے ہیں

جس کی اصلاح نہیں ہو ئی ہو وہ معلوم ہو سب

معلوم مقام ہو ان کا، کسی کو دیکھوں جب

دوسرا مرید کہتا ہے

میرے بھائی، مجھے خطرہ سا نظر آتا ہے

سلسلے سے تیرا انداز میل نہیں کھاتا ہے

چلیں اب شیخ سے ہو معلوم حقیقت اس کی

ہم پہ کھل جاۓ اس طرح کچھ حیثیت اس کی

ہم کو معلوم ہو طریق میں حاجت اس کی

گو کہ آپ سے تو جان لی ہے برکت اس کی

مگر طریق میں اس کا خیر و شر تو شیخ جانے

وہ جو اس میں کہے، تو بس وہ مرا دل مانے

پہلا مرید شیخ سے پوچھتا ہے؟

اے مرے شیخ ، یہ مرا دوست کشف مانتا نہیں

کشف کے بارے میں کچھ بھی شاید یہ جانتا نہیں

اس لیٔے کشف کو طریق میں حق گردانتا نہیں

اس لیٔے حق اور اہل حق کو یہ پہچانتا نہیں

کیا بزرگوں کو کشف ہونا، نہیں یہ ہے حق؟

یا کسی طرح سے ان کا کہیں الٹا ہے سبق؟

دوسرا مرید

اے مرے شیخ، مجھے کشف سے انکار نہیں

میں یہ کہتا تھا کہ بس کشف پر مدار نہیں

اور ان کشفی نظایٔر کا اعتبار نہیں

پر مری بات سمجھنے کو یہ تیار نہیں

اب تو اس بات میں آپ کا ہی قول فیصل ہوگا

آپ ہی سے ہمارا یہ مسٔلہ حل ہو گا

شیخ جواب دیتا ہے

مرے بیٹو ،کشف ایک چیز غیر اختیاری ہے

اس میں دھوکے کا بھی امکان بہت بھاری ہے

اس سے بچنا بھی اہل کشف کی ذمہ داری ہے

جو کہ پھنس جاۓ اس میں،اس کی بہت خواری ہے

ہاں مگر کشفِ بزرگان سے انکار نہیں

مگر کمال کا اس پر کوئی مدار نہیں

اس کے حصول کا خیال ہے مگر اخلاص کی نفی

خود بخود ہو وے بدوں طلب، تو پھر ہو یہ صحیح

کچھ مگر اس کی حیثیت نہیں ہے پیشِ وحی

جو مطابق ہو اس کا وحی کے،تو ٹھیک ہو وہی

قابلیت کو ئی سمجھے اسے تو ٹھیک ہے بات

قبولیت کا تعلق نہیں ہے اس کے ساتھ

کشف اپنے عیوب کا ہو، کبھی چاہیٔے گر

اپنی اصلاح کے لیٔے ہے یہ بہت اچھی نظر

نہ کہ یہ ،آنکھ ہو مرکوز دوسروں کے عیوب پر

بے ضرورت ہو اگر یہ،ہے یہ شیطاں کا اثر

ہو اگر شیخ کو، تو اس سے مستثنیٰ ہے وہ

کیونکہ اصلاح میں، دوسروں کی مبتلا ہے وہ

جس کو حاصل نہ ہو، اس کی وہ سعی نہ کرے

جس کو حاصل ہو، ناجایٔز پیش قدمی نہ کرے

جو شریعت کا مخالف ہو، تو وہی نہ کرے

اپنی اصلاح سے غفلت شبیرؔ کبھی نہ کرے

عشق کے میدان میں کھلونوں سے دل بہلانا نہ ہو

یہ جو ہیں کھیل تماشے، تو ان پہ آنا نہ ہو

خانقاہی تعلقات کا دنیا کے لیٔے استعمال

ایک مرید،دوسرے مرید سے

یار مرا بچہ جو بیمار بہت رہتا ہے

اس کے علاج کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟

اس خانقاہ میں ڈاکٹر بہت سے آتے ہیں

ہمارے شیخ سے اصلاح وہ سب پاتے ہیں

ساتھی بعض اپنے، کچھ علاج ان سے کرواتے ہیں

ان میں بچوں کے بھی ایکسپرٹ بعض کہلاتے ہیں

کیا اپنے بچے کا علاج ان سے کرواؤں نہیں؟

کیا اپنے بچے کو بیماری سے بچاؤں نہیں؟

دوسرا مرید

بھا ئی یہ ٹھیک ہے بچے کا علاج کرنا ہے

مگر اخلاص سے نکلنے سے بہت ڈرنا ہے

ٹھیک ہے تھوڑا سا فایٔدہ اس سے حاصل ہوگا

مگر دنیا سے ملوث یہ اپنا دل ہوگا

کیونکہ دنیا پہ ہی اپنا یہ دل مایٔل ہوگا

اپنی روحانی ترقی میں یہ حایٔل ہوگا

دنیا اور دین ہوں اکھٹے تو ہو دنیا کی جیت

کہ عاجلہ سے محبت ہی ہے دنیا کی ریت

پہلا مرید

ہم زبردستی کب علاج ان سے کرواتے ہیں؟

مفت انعام خدا کا، خدا سے پاتے ہیں

وقت کلینک پر اگر جانے کا بچاتے ہیں

وہ وقت دین کے استعمال میں ہم لاتے ہیں

ہاں مگر ٹھیک ہے ہم شیخ سے ہی پوچھ لیں اب

کہ کسی بات پہ ہم لوگ مطمٔن ہوں سب

شیخ جواب دیتا ہے

میرے بیٹو ،رب نے دی ہیں یہ نعمتیں دیکھو

ان نعمتوں میں ہی پھر اس کی حکمتیں دیکھو

ان نعمتوں کے پھر حصول کی محنتیں دیکھو

اور جو لوگوں کی مختلف ہیں، حالتیں دیکھو

سب کے اوقات، سب کے مال، ملکیت ان کی

اور پھر ان سب کا استعمال، حکومت ان کی

طیب خاطر کے بغیر ان سے کوئی چیز لینا

یا ان کی مرضی کے بغیر کوئی تکلیف دینا

سوچ ،حکومت میں یہ ان کی، مداخلت ہے نا

ہوتی تکلیف ہے ہر ایک کو جو اس سے نا

ہم اپنی دنیا ان کے دین پر منحصر کیوں کریں؟

ایسا بے جا جو تصرف ہے پر خدا سے ڈریں

کہیں اس کے لیٔے ہم دین سے رکاوٹ نہ بنیں

تو ضرورت بہت اس کی ہے کہ حدود میں رہیں

ہم طمع لوگوں سے کوئی نہ اپنے دیں پہ رکھیں

کہ یہ اخلاص کا مخالف ہے تو ہم اس سے بچیں

ان سے گر چاہیٔے کوئی بھی ہو خدمت لینا

تو ہمارا ہو پھر ضرور اس پہ اجرت دینا

کسی سے بھی کبھی دنیا کا نہ کریں ہم سوال

سوال کیا، کہ ہم نہ دل میں اس کا رکھیں خیال

اس کی گر دین ہو بنیاد، تو کیسا ہے یہ حال

دین کا بیچنا دنیا پہ، ہے شیطان کا جال

عشق کے زور سے یہ جال توڑنا ہے شبیرؔ

حق پہ کب رہتا ہے، ہوجاۓ جو خواہش کا اسیر

 

راہِ عشق کے آداب

طرقِ اخلاص میں اخلاص کے ہو جاؤ اسیر

پھر ملے تجھ کو کیا اس کی نہیں ملے گی نظیر

عشق کی راہ میں بس عشق کا ہی خیال رہے

نفس کی چاہتیں کریں نہ تجھ کو اس میں ظہیر

 

اصلی دیوبندی

مرے استاد بتا، یہ دیوبندیت کیا ہے؟

اس طرح نام کے رکھنے کی حقیقت کیا ہے؟

مختلف لوگ دیکھوں خود کو وہ دیوبندی کہیں

اور پھر آپس میں باہم دست و گریباں بھی رہیں

ہم نہیں جانتے ان میں ہم پھر کن کے پیچھے چلیں؟

اس میں دھوکہ ہو تو اس دھوکے سے ہم کیسے بچیں؟

اس اختلاف سے حالت اپنی خراب ہے بہت

حق کے جاننے کے لیٔے دل میرا بیتاب ہے بہت

استاد

ٹھیک ہے،ہے یہ اختلاف مگر جان لینا

حق کہ دایٔر ہے انہی میں، تو یہ بھی مان لینا

جو بھی اصلی ہوں، ان کی لوگ نقل کرتے ہیں

اصل پھر کیا ہو ؟جن کی نقل پہ لوگ مرتے ہیں

اہلِ حق جتنا چھپاؤ وہ پھر ابھرتے ہیں

اور ان کو دیکھ کر پھر لوگ خود سنورتے ہیں

بس اصولوں کو ذرا ذہن میں رکھنا ہوگا

پھر ذرا غور سے دیکھنے سے سمجھنا ہوگا

دیوبندیت، کوئی جگہ نہیں، دیوار نہیں

اس کا پتھر کی دیواروں پہ انحصار نہیں

اس کا نعروں سے، نشانوں سے ،سروکار نہیں

اس کا کچھ لوگوں کے دعوؤں پہ بھی مدار نہیں

جیسے نعمان(امام ابوحنیفہؒ) کے پیچھے چلنا حنفیت ہے بس

تو چند اشخاص کے عقأد ، دیوبندیت ہے بس

قاسم نانوتویؒ ، رشیداحمدؒ اور اشرف علیؒ

ہو شیخ الہندؒ ، خلیل احمدؒ ، حسین احمد مدنیؒ

جو عقایٔد ان بزرگوں کے ہیں، دیوبند ہے یہی

اور جو ہیں ان کے مخالف ، وہ ہیں دیوبندی نہیں

ان بزرگوں کے عقایٔد سے اتفاق کرنا

ورنہ دیوبندیت سے ہے پھر خود کو عاق کرنا

المہند علی المفند، غور سے دیکھ ذرا

کہ اس میں کیا دیوبندیت کے بارے میں ہے لکھا؟

کہ جس کو سب بڑے دیوبندیوں نے ٹھیک کہا

اب جو اس کے ہیں مخالف، تووہ دیوبندی ہیں کیا؟

اسی کو کہتے ہیں تحقیق و استناد، بیٹے

نکتے یہ سارے شبیرؔ کے تو رکھنا یاد، بیٹے

 

 

عورتوں کی بیعت

مرے استاد ،سنی میں نے ہے عجب اک بات

میں نے چاہا کہ اس پہ بات کروں آپ کے ساتھ

جو فلاں پیر ہے، عورتوں کو کرتے ہیں بیعت

مجھ کو ان کے اس عمل پر ہے یقیناً حیرت

بھلا ان عورتوں کو کیا پڑی اس کی حاجت؟

چاہیٔے گھر میں رہیں یہ، پھر یہ کیسی حرکت؟

ایک غیر محرم کی، اس عورت کا، مریدی کرنا

اور کیا ہے پیر کی، ان عورتوں کی، پیری کرنا

استاد

تیری حیرت مجھے لگتا ہے جہالت سے ہے

یا مجھے لگتا یہ نفرت،نفسِ بیعت سے ہے

دور کیونکہ بات آپ کی اس میں فقاہت سے ہے

نا واقفی یا پھر نظامِ تربیت سے ہے

بیٹے قرآن سے ثابت ہے عورتوں کی بیعت

جبکہ حدیث سے ثابت ہے مردوں کی بیعت

نصف سے زیادہ عورتیں ہیں، ان کا کیا ہوگا؟

جب ان پہ ہاتھ نہ تربیت کا، کسی کا ہوگا؟

ان کا بے تربیت رہنا، کیا بھلا ہوگا؟

ان کا جذبات میں بہنا، کیا اچھا ہوگا؟

ان کی بیعت کی اجازت جب کہ قرآن سے ہو

ان کی دوری پھر کیوں، کیفیت احسان سے ہو؟

ہے طبعیت میں، عورتوں کی انفعال بہت

تبھی ہیں سخت،نفس و شیطان کے ان پہ جال بہت

رکھنا تب ان کی، تربیت کا ہے خیال بہت

اس سے غفلت کا، پڑے گا سب پہ وبال بہت

پھر کیوں نظامِ تربیت سے مفر ان کو ہو؟

جبکہ مردوں سے زیادہ بھی اثر ان کو ہو؟

مرد جس حال کے حصول میں لگاۓ سال

تو عورتوں کو مہینوں میں ہو حاصل وہ کمال

ان کی صحبت کا مگر رکھنا پڑے گا تجھے خیال

پھر ترقی انہیں نصیب ہوگی کیا بے مثال

عورتیں ٹھیک ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتی ہیں

خراب ماحول سے جلدی بھی بگڑ جاتی ہیں

اس لیٔے ان کی تربیت تو ہے ضروری بہت

کہ بغیر اس کے ہوگی دین سے ان کو دوری بہت

خراب راہ پہ پھر دکھائیں سینہ زوری بہت

اس لیٔے ان کا بچانا اس سے، مجبوری بہت

بات کرنے سے پہلے بیٹے سوچا کرتے ہیں

عقل سے بیٹے، بہت کام لیا کرتے ہیں

 

شاگرد کی معافی کی درخواست

مرے استاد، حماقت مری معاف کردے

ایسی باتوں میں یہ عجلت مری معاف کردے

بلاشبہ ہے جہالت مری معاف کردے

اور آپ کے سامنے یہ جرأت مری معاف کردے

اب مرے فکر کو کچھ آگہی نصیب ہوئی

خوش قسمتی، مرے استاد مرے قریب ہوئی

 

دنیا اور آخرت

 

خدا کے حکم کے آگے سر جھکانا سیکھیں

یہ ہے مطلوب اس کو دل میں جمانا سیکھیں

دنیا کھیتی ہے آخرت کی آخرت کے لیٔے

دنیاۓ عارضی نظروں سے گرانا سیکھیں

 

 

غلط اور صحیح تصوف

بتا میرے استاد، تصوف کیا ہے؟

یہ ماحول میں اس نام سے کیا پڑا ہے؟

کوئی ہے کہ جس کا سنیں ہم دعاوی

وہ باتیں بہت اونچی ، حب الٰہی

کی، دیکھیں تو ہم پر وہ ہو جاۓ حاوی

نہیں جانے پر وہ اوامر نواہی

عمل کے لیٔے وہ کبھی بھی نہ سوچے

مگر فلسفے کے ستارے وہ نوچے

کو ئی ان میں دیکھوں، وہ دہمال ڈالے

ہیں ہر چیز میں ان کی، رسموں کے جالے

وہ بدعات سے خود کو نہ ہر گز بچا لے

حقیقت کی دنیا سے پھر وہ کیا لے؟

ہے “ھو حق” کے نعروں میں مست مستقل وہ

کیا سوچے گا پھر اصلاحِ نفس و دل وہ

تصوف تو تھا، حبِ دنیا کا توڑنا

لذایٔذ جو نفس کے ہیں، تھا ان کو چھوڑنا

کہ اصلاح کے واسطے ، تھا خود کو جنجھوڑنا

کھلے چشمِ دل ،چشمِ نفس کا تھا پھوڑنا

مگر اس میں دیکھوں، ہے نفس ہی کا ماننا

تو اب اس کے بارے میں، ہے آپ سے جاننا

استاد

یہ کیا بیٹے تو نے مرا زخم چھیڑا

جو دل میں مرا زخم تھا وہ ادھیڑا

یہ شیطان و نفس کا دجل دیکھتے ہو

تصوف کو جو آج کل دیکھتے ہو

جو ہرکام یوں بے محل دیکھتے ہو

جو اچھے ہیں ہاتھ ان کے شل دیکھتے ہو

جو ہے فلسفہ، ہے حقیقت کا جاننا

پھر اس جاننے سے ہو، حق ہی کا ماننا

تخیل کی دنیا میں رہنا ہمیشہ

ہو خواہش نفس میں بھی بہنا ہمیشہ

عمل کچھ نہ ہو اور ہو کہنا ہمیشہ

ہے دل کا جو شیشہ ہو گہنا ہمیشہ

ہو باریکیاں دل پہ ہر وقت مسلط

عمل کچھ نہ ہو یہ طریقہ ہے غلط

تصوف عمل پہ ہی آنے کا ڈھنگ ہے

یہ نفس کی فہمایٔش، یہ شیطاں سے جنگ ہے

کھرچنا ہے دل سے جو دنیا کا زنگ ہے

نہیں فلسفہ جس کا میدان تنگ ہے

یہ عشق کا سفر فلسفہ کیسے جانے؟

خیالی پلاؤ کے نہیں تانے بانے

 

پھر رسموں کی دنیا ہے اس کے مقابل

کہ جس میں پڑے ہوتے ہیں سارے جاہل

ہے نفس کا دجل ان کے ہر کام میں شامل

جو نفس کو کرے خوش وہ زیادہ ہو قابل

کہ نص سے نہیں ان کو احکام لینا

نہیں عقل سے بھی ہے کچھ کام لینا

یہ نفس کو کریں خوش ، دھمال ڈالیں

بزرگوں کی نعتوں کو گانوں میں گائیں

بزرگوں کے عرسوں کو میلے بنائیں

اور خوب اس میں پھر گلچھرے یہ اڑائیں

یہ اصلاح کی باتوں کو جانے کہاں سے؟

کہ ملتا ہے یہ ان کو پیر مغاں سے

زباں پر رکھیں یہ رسول کی محبت

لگاتے ہیں سینے سے ہر ایک بدعت

نتیجے میں چھوڑیں مقابل کی سنت

مزین ہو اس سے، ہر اک ان کی حرکت

نصیحت کرے کوئی اس پہ یہ بپھریں

جو ساتھ ان کا دے کوئی ، اس سے یہ نکھریں

یہ تعظیم کے نام پہ کریں شرک ہر دم

یہ تو حید کے سننے سے ہوتے ہیں برہم

نہیں عاقبت کا انہیں کوئی بھی غم

تصوف صحیح ہی، یقیناً وہ مرہم

لگانے سے دل ان کا بیمار ٹھیک ہو

بھریں زخم ہاۓ دل ، اس سے ہوں جو جو

تصوف کا مطلب ہے نفس کو دبانا

مطابق شریعت کے اس کو چلانا

جو دل ہے، وہ حبِ الٰہی پہ لانا

خدا کے لیٔے ہی، ہو کرنا کرانا

تصوف عمل ہے، نہیں فلسفہ یہ

نہ بدعات اور شرک کا ہے کچھ حصہ یہ

تصوف میں، دنیا ہے دل سے نکالنا

ہے حب الٰہیِ پھر اس دل میں ڈالنا

اسے ذکر سے پھر ہمیشہ ہے پالنا

ہے نفس آسمان سے زمیں پر اتارنا

بدوں تربیت ایسا ممکن کہاں ہے؟

تو جاؤ وہاں شیخ کامل جہاں ہے

جو کہتا ہو شیخ، ویسا کرنا پڑے گا

جو ہے حبِ جاہ، سے اترنا پڑے گا

شکنجے میں نفس کو جکڑنا پڑے گا

کہ موت تک بہر حال، سدھرنا پڑے گا

جو لذات حرام ہیں، سے منہ موڑنا ہے

حرام عادتیں جو ہیں سب چھوڑنا ہے

مقاصد، تصوف کے ثابت ہیں سارے

مگر جو طریقے ہیں ،سمجھو اے پیارے

کہ یہ تجربے ہی ہیں، آپ کے، ہمارے

کہ شیخ دل مریدوں کے اس سے سنوارے

ہے ہر ایک مرید مختلف دوسرے سے

طریقہ علاج کا ہو یکساں پھر کیسے؟

شاگرد

خدا شاد آپ کو رکھے، میں ہوں سائل

تھا آپ کی بصیرت کا، پہلے سے قائل

میں حق کی طرف ہوں، ہوا اور مائل

کہاں جانوں میں یوں، یہ مشکل مسائل

مرا فکر اس میں، خدا اور بڑھاۓ

مجھے آگہی اس میں، اور بھی دلاۓ

 

ٹھیک اور غلط

ٹھیک کو ٹھیک اور غلط کو غلط

کہنا لازم ہے کرلے اس میں محنت

غلط کے واسطے یہ ٹھیک چھوڑنا

کچھ سوچئے ہے یہ کونسی حکمت؟

حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تعلق

مرے استاد میں نے لوگوں سے کچھ سنا ہے جدید

ان کی باتوں سے مجھے لگ گئی ہے فکر شدید

وہ یہ کہتے ہیں کہ بندوں کے ہیں حقوق ہم پر

وہ نہ ضائٔع ہوں ہمیں اس کا بہت ہی ہے ڈر

ہیں جو اللہ کے حقوق، ان کی بات ہو وے اگر

ان کے دل پر مگر ،محسوس نہیں ہوتا کچھ اثر

وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تو ہے کریم بہت

وہ حق معاف کرے اپنا،وہ ہے رحیم بہت

اس کا کیا جاتا ہے، کوئی اگر نماز نہ پڑھے

یا اگر حج نہ کرے یا اگر روزے نہ رکھے

کمی اس کونہیں، کوئی اگر زکوٰۃ نہ دے

ہاں ضروری ہے کہ بندے کا کو ئی حق نہ رہے

اللہ معاف نہ کرے، بندے کا حق جب تک وہ

اس کو بندہ نہیں معاف کرے، یہ سوچو

جو ہیں ڈاکٹر، کہیں مریض کا حق ہےہم پر

نماز پڑھنے سے فارغ خود کو سمجھے دن بھر

گھر کے بچوں کا بھی خیال ہو جب آۓ گھر

اور پھر آرام کی خواہش کرے پوری سو کر

حقوق اللہ جو ٍ ہیں، کے لیٔے وقت رہتا نہیں ہے

کوئی لمحہ عبادت کے لیٔے ملتا نہیںہے

استاد

کیسے تلبیس ہے شیطان کا، میرے بیٹے

حال بناتا ہے کیا انسان کا، میرے بیٹے

اس پہ اثر نہ ہو قرآن کا، میرے بیٹے

اور پیغمبر کے بھی فرمان کا، میرے بیٹے

بیٹے ایمان کا لانا، کیا حق ہے بندوں کا ؟

ذرا یہ پوچھ ،حال کچھ دیکھ عقل کے اندھوں کا

بیٹا بندوں کا جو حق ہے وہ حق اللہ ہی کا ہے

اس نے یہ حق مہربانی سے بندوں کودیا ہے

حقوق اللہ کا چھوڑنا کیسے مطلب اس کا ہے؟

بندوں کو اس نے عبادت واسطے پیدا کیا ہے

کوئی بندوں کا حق پورا کرکے مشرک بنے گر

کیا معاف ہوسکتا ہے وہ صرف اس بات پر

ہمیں یہ چاہیے کہ بندوں کے حق پورے کریں

اور اس معاملے میں ہم، ہمیش خدا سے ڈریں

حقوق اللہ جو ہیں ہم ان میں بھی پیچھے نہ رہیں

اور ہر ایک کام میں ہم، دم صرف خدا کا بھریں

اسی کو کہتے ہیں بیٹے، شریعت پر چلنا

خدا کے واسطے جینا ہو اور ہو مرنا

ڈاکٹر مریض کی محبت میں کیا کھاتا نہیں

چستی مریض کو فارغ کرنے میں دکھاتا نہیں

جتنا وقت حق ہے ان کا، کو خاطر میں لاتا نہیں

ان مریضوں سے اپنا مال وہ بناتا نہیں

یہ خدمتوں کے جو الفاظ ہیں وہ رب خوب جانے

بیشک یہاں اس حقیقت کو، نہ کوئی مانے

جب عبادت میں بھی اللہ کی محبت نہ رہے

اس میں اخلاص نہ رہے اور حلاوت نہ رہے

قبول یہ نہ ہو پھر اس پہ بھی حیرت نہ رہے

یعنی بدلہ کچھ اس کا روز قیامت نہ رہے

حقُ العباد میں، حقِ اللہ کا گر خیال نہ رہے

وہ محض رسم ہو پھر ، دین کا وہ حال نہ رہے

سارے اعمال کا لازم ہے نیتوں پہ مدار

صحیح نیت نہ ہو تو ہو یہ پھر عمل کا مزار

دل میں اللہ نہ رہے دل میں ہو پھر دنیا مردار

اور آخرت میں پھر بن جاۓ وہ ذلیل اور خوار

بیٹا شیطان یہ چاہتا ہے کہ ہم ایسے بنیں

بولے شبیرؔ، خود ہی سوچ کہ ہم کیسے بنیں؟

 

 

 

 

موت کی یاد سے غفلت

ایک شخص، دوسرے سے

بھائی اک بات کروں ناراض مجھ سے ہونا نہیں

ڈرتا اس سے ہوں کہ محسوس نہ کرلیں آپ کہیں

آپ کے گھر سے تو مسجد بہت قریب ہے نا

آپ اس میں آۓ نہ یہ بات بہت عجیب ہے نا

جو ہو مسجد کے قریب وہ تو خوش نصیب ہے نا

کہ یہی بات آنے کے لیٔے ترغیب ہے نا

پھر کیا بات ہے کہ آپ اس میں آتے نہیں؟

ہے کوئی بات بھی تو آپ وہ بتاتے نہیں

دوسرا شخص

آپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ دعوت دی ہے

آپ نے بے شک کہ مرے ساتھ محبت کی ہے

سبب محرومی کا، اس میں مصروفیت ہی ہے

کچھ وجہ اس میں مری سستی کی عادت بھی ہے

میں ہوں معذور کہ آنے سے ہوں، ناراض نہیں

کچھ وجہ دوسری اس میں نہ سمجھنا آپ کہیں

پہلا شخص

مری ناراضگی کی کیا ہے حیثیت بھائی؟

ڈرنا اللہ کی ناراضگی سے ہر وقت بھائی

کہ بہت مہنگی ہے پڑتی اس سے غفلت بھائی

سب کے نزدیک کہ یہ موت ہے حقیقت بھائی

موت آنی ہے یہ سب چھوڑ کے جانا ہے ہمیں

مٹی کی قبر میں اس سر کو چھپانا ہے ہمیں

پانچ چیزوں کا خدا پوچھے گا، ہر ایک سے وہاں

وقت، علم و مال و جسم کیسے کیٔے خرچ یہاں

سارا محفوظ ہے، جو بھی کیا ہے جہاں جہاں

سامنے سب آۓ گا،چھپنے کی جگہ ہوگی کہاں؟

یہ جو چار چیزیں ہیں اعمال کی مشینیں ہیں

کرلو باقی انہیں،فانی یہ ساری چیزیں ہیں

اے میرے بھائی ،وہ جب موت کا فرشتہ آۓ

اس وقت ملتی نہیں کوئی بھی مہلت ہاۓ

جیسے بھی زندگی گزری ویسے حالت پاۓ

وقت آنا ہے یہ ضرور،اس میں نہیں دو راۓ

کیوں ایسے وقت کی پہلے سے تیاری نہ کریں

بوجھ جو سر پہ ہے وہ اور تو بھاری نہ کریں

بلکہ توبہ سے گناہوں کو ختم کرلیں یہاں

اور نیکیوں سے اپنی جھولیاں بھی بھرلیں یہاں

جو کرنا چاہیٔے یہاں ہمیں وہ کر لیں یہاں

خیر لینا ہے ہر ایک چیز سے، نہ کہ شر لیں یہاں

جو اولیاء ہیں خدا کے، وہ بھی انسان ہیں نا

ہماری طرح تو ان کے بھی خاندان ہیں نا

دوسرا شخص

جزاک اللہ، کہ آپ نے حق سے خبردارکیا

آپ نے دل مرا حق کے لیٔے تیار کیا

گو خود کو میں نے ابھی تک، بہت ہے خوار کیا

ایسی حالت میں بھی امید سے ہمکنار کیا

توبہ کرتا ہوں میں سستی سے اور غفلت سے

اور گناہوں کی کسی طرح سے بھی حرکت سے

البتہ ڈر مجھے لگتا ہے مستقبل کے لیٔے

نفس و شیطان کی رکاوٹ کی ہر مشکل کے لیٔے

اس کے بھنور میں تڑپتا ہوں میں ساحل کے لیٔے

رہنمائی کا ہوں طالب اپنی منزل کے لیٔے

کس طرح خود کو میں غفلت سے اب بچاؤں گا؟

میں بھٹک کر بھی راستے پہ کیسے آؤں گا؟

پہلا شخص

ماشاء الله، آپ کے احساس سے دل باغ باغ ہوا

اس سے کہ فکر کا روشن ،دل میں چراغ ہوا

اور اسی فکر سے مایوس، شر کا زاغ ہوا

نورِ ایمان سے معطر، دل و دماغ ہوا

آپ کو اب میں طریقہ ایسا بتاتا ہوں

ابھی نطام ہدایت سے میں ملاتا ہوں

حکم ہے سچوں کے ساتھ ہونے کا قرآن میں جب

اور پھر انعمت علیہم کو ہم پڑھتے ہیں سب

ان کا مطلب جو ہے وہ آپ کو بتاتا ہوں اب

پھر آپ اختیار کریں اس کے مطابق روز وشب

اس میں ہے یہ کہ ہم صحبتِ صالحین میں رہیں

اور اس کی برکت سے شیطان کی شر سے ہم بچیں

اور اس صحبتِ صالحین کا حاصل ڈھونڈیں

اب اپنے واسطے بھا ئی، شیخ کامل ڈھونڈیں

اور اتباع میں اس کی ،حل ِمسایٔل ڈھونڈیں

نفس و شیطان کے بھنور میں ہی ساحل ڈھونڈیں

نشانیاں ان کی ہیں فکرِ آگہی میں موجود

اس میں موجود جو ہے، شبیرؔ کی شاعری میں موجود

مراقبہِ موت

زندگی موقع ہے آگے موت ہے

آخرش ہر شے کی ہاۓ موت ہے

آخرت کے واسطے ہو جا تیار

چاہے تو اور یا نہ چاہے موت ہے

 

سخاوت اور عبادت

پہلا شخص، دوسرے شخص سے

بھا ئی میں آپ کو دیکھوں کبھی مسجد میں نہیں

مجھے ہے فکر کہ ہم سے نہ ہوں ناراض آپ کہیں

شاید نماز آپ پڑھتے ہوں گھر میں فرداً

بہت اچھا ہے ، باجماعت نمازی بھی بن

پچیس نمازوں کا ثواب کیا نہیں احسن؟

خود کو تیار کیوں کریں نا، اس واسطے ذہناً

کام بطریقہ احسن کیوں کریں نہ ہم؟

پچیس گنا کا جو ہے فرق، ہے نہیں وہ کم؟

دوسرا شخص

بھائی ناراض نہ ہوں وقت کہاں میرے پاس

آپ کرتے ہیں عبادت اچھی طرح ہے احساس

مجھ کو بھی فکر لگی ہے ایک، یعنی فکرِ ناس

مجھ کو اللہ سے ہے اس کی قبولیت کی آس

آپ عبادت کا بہت نام لیا کرتے ہیں

میں یہ پوچھتا ہوں، سخاوت بھی کیا کرتے ہیں؟

ہے عبادت تو محض اپنی ذات ہی کے لیٔے

یہ ہے کوشش صرف اپنی کامیابی کے لیٔے

تھوڑا سا سوچ لیا کریں کسی اور بھی کے لیٔے

اس میں بھی راستے ہیں،اللہ کی خوشنودی کے لیٔے

جو کہ خشوع سے عبادات کیا کرتے ہیں

کیوں وہ غلط معاملات کیا کرتے ہیں

میں عبادات میں اللہ سے معافی مانگوں

جو سخاوت ہے وہ اپنے لیٔے کافی مانوں

جو آپ کہتے ہیں، کیسے میں وہ صحیح مانوں؟

ہاں شیخ فلاں ہے میں اس باب میں اس کی مانوں

چلو ہم ان کے پاس اس کے لیٔے چلتے ہیں

جو تردد ہے ، سے اس باب سے نکلتے ہیں

شیخ فلاں کا محاکمہ

دونوں آپ ٹھیک ہیں یقیناً ،مگر جزوی طور پر

اور پرجوش ہیں دونوں اس میں فطری طور پر

اپنی باتوں کو نہ لینا ہے اب کلی طور پر

اپنی اصلاح دونوں کروائیں یقینی طور پر

دونوں دوسرے کی جو ہے بات، کا احترام کریں

کامیابی کا اس طرح کچھ انتطام کریں

کوئی یقیمون الصلوٰۃ قرآن میں پاتا ہے

تو عبادت کی ضرورت اس سے بتاتا ہے

مما رزقنہم ینفقون آگے آتا ہے

تو سخاوت کے لیٔے دل پھر مچل جاتا ہے

تو سخاوت اور عبادت کو جمع کرلینا

خوب نیکیوں سے تم دامن پھر اپنا بھر لینا

یاد رکھنا ہر ایک فتنہ میں سچ ہے موجود

جس طرح زہر سے آلودہ کرے کوئی دودھ

دودھ ظاہر ہو مگر اس سے ہو دھوکہ مقصود

جو ہوں جاہل تو نظر ان کی ہو اس میں محدود

وہ ایک جزو کو لیں دوسرے کا وہ انکار کریں

حق پہ قایٔم نہ رہیں خود کو خوار و زار کریں

لینا قرآن سے ہے، سنت سے، مگر پورا ہو وہ

ہو نہ عالم،تو پوچھے ان سے جو کہ عالم ہو

وہ ہے محفوظ اپنا جہل مانتا ہو جو

جو ہو جاہل، خود کو عالم کہے ،سے دور رہو

اس طرح فتنوں کے شکار نہ ہوں گے اس میں

اور یوں جہل سے پھر خوار نہ ہوں گے اس میں

دونوں اعتراف کرتے ہیں

جزاک اللہ، آج آپ نے ہم کو تو بچا ہی دیا

آپ نے حق کے ساتھ ہم کو تو ملا ہی دیا

آپ نے راستہ آج حق کا جب دکھا ہی دیا

ہمارے فکرِ آگہی کو آج رخ کیا ہی دیا

ہم بھی اب شیخ،آپ کے ہاتھ پہ بیعت کریں آج

اپنی اصلاح کے لیٔے دونوں ہم ہمت کریں آج

ختم نبوت

ایک شخص، ایک عالم سے

ایک صاحب ہے مرے دوست، احمدی مشہور

ان سے دوسرے جو مسلمان ہیں، رہتے ہیں دور

وہ احمدی پورا کلمہ پڑھے ، نماز پڑھے

ہماری طرح شریعت کے سب اعمال کرے

وہ غریبوں اور مسکینوں پر مہربان بھی ہے

کوئی ان سب کے ہوتے، کیسے اس کو کافر کہے؟

میں تو اس بات پر حیران ہوں، پریشان بھی ہوں

اس میں غلط کہیں نہ ہوں کہ ،مسلمان بھی ہوں

عالم جواب دیتا ہے

میرے بھائی، اگر نفاق سے کرے یہ سب

غلام احمد کو محمد رسول اللہ سمجھے جب

اور آپﷺ کا ختم نبوت کا نہ مانے منصب

اس طرح جھوٹا سمجھے آپﷺ کو،تو بولو اب

وہ اس حالت میں مسلمان رہ سکتا ہے پھر؟

جو بھی ہو اس کا یوں ایمان رہ سکتا ہے پھر؟

بیٹے یہ دیکھ عقیدے کا ہے نمبر اول

یہ نہ ہو درست ،تو بیکار ہوتے ہیں سب عمل

دل میں ایمان نہ ہو گر،تو باقی سارا دجل

اس پہ دھوکہ وہی کھاۓ گا، جو ہوگا بے عقل

مسیلمہ کذاب کے ساتھ، صدیق نے کیا کیا؟

اس طرح واضح دلایٔل سے بھی سبق نہ لیا

آپﷺ کی ختم نبوت میں شک ہے بے ایمانی

آپ کے حیران ہونے پر ہے مجھے حیرانی

ناواقفی پرآپ کی، مجھے ہے پریشانی

اس سے معلوم کہ ہوتی ہے دل کی ویرانی

آپﷺ کی ختمِ نبوت پہ ہے اجماع قائم

جو نہ مانے اسے، اس پر ہو لعنتِ دائم

ملک کے قانون میں کافر ہیں احمدی سارے

قادیانی تو ہیں ہی اور لاہوری سارے

سارے ملکی تو ہیں ہی اور غیر ملکی سارے

مارِ آستین ہیں امت کے کہ یہی سارے

ان سے دوستی تو دیکھ، احمدﷺ سے بے وفائی ہے

کیا مری بات اب آپ کی سمجھ میں آئی ہے

جو کوئی بھی نبی﷐ ہونے کا دعوٰی جب کرے

اور کوئی اپنی تسلی کے لیٔے اتنا کہے

کہ نبی﷐ ہو تو معجزہ دکھا، تو وہ یہ سنے

وہ ہے بد بخت، ہوا کافر وہ ایسا کہنے پہ

چھوڑ دوستی اس کی، ساتھ اس کے تو بد بخت نہ بن

ذکر سے دل کو مجلٰی کر، دل کا سخت نہ بن

وہ شخص سمجھ جاتا ہے

جزاک اللہ، کہ مجھے حق سے باخبر کردیا

جو مرا جہل تھا اس سے مجھے باہر کردیا

خبث باطن کاان کا، آپ نے ظاہر کردیا

اور اس مسٔلے میں آپ نے مجھے بھی ماہر کردیا

اب میں دیکھوں کہ مسلمان خود کو یہ کیسے کہیں؟

اب میں جانوں انہیں کوئی بھی یہ بہروپ بھریں

اب ان کا خبث ، مؤمنوں کوبتاؤں گا خوب

ان کے دھوکوں اور ڈھکوسلوں کو دکھاؤں گا خوب

جو پھنسیں ان میں ،جان پہ کھیل کے نکالوں گا خوب

فکر سے ان کو آگہی میں دلاؤں گا خوب

مرا رب مجھ کو اپنے فضل سے معاف کرے

جو کجی دل میں ہے میری، دل اس سے صاف کرے

منکرِ ختمِ نبوت کا انجام

منکر ختمِ نبوت کا کيا کرنا ہے

سیکھ صدیقؓ سے اس میں کیا تجھے ڈرنا ہے

مسیلمہ کا کیا انجام ہوا دیکھ ذرا

تجھ کو اس میں بھی صحابہؓ کے پیچھے چلنا ہے

x

سادہ دین

ایک مفتی شیخ سے

مرے شیخ ،میں نے تصوف کی اک کتاب میں پڑھا

وہی اچھا ہے جس کا دین میں ہوعمل سادہ

وہ شریعت پہ ہو چلتا ، صرف کیفیات پر نہیں

ان کا پختہ ہو یقین رب پہ، ظنیات پہ نہیں

وہ انحصار رکھے خوابوں اور کشفیات پہ نہیں

عمل ہمیش رکھے سنت پہ ہی، بدعات پہ نہیں

وہ ایک عام شخص کی طرح نظر آۓ

پیچیدگیوں، باریکیوں سے وہ باہر آۓ

یہ اگر ٹھیک ہے، تصوف کی ضرورت کیا ہے؟

مجاہدوں، ذکر و اذکار کی حاجت کیا ہے؟

پھر کیا سمجھوں کہ اس کی ساری محنت کیا ہے؟

جب شریعت ہی ہے مقصود تو طریقت کیا ہے؟

یہ وساوس مجھے آرام سے بیٹھنے دیتے نہیں

اس لیٔے میں، شروع جہاں سے کیا ہے، ہوں وہیں

شیخ

مفتی صاحب، کتاب سے آئیں کتابی باتیں

کھلیں عمل سے ہی عامل پہ ہی عملی باتیں

اور وسوسوں سے تو آتی ہیں شیطانی باتیں

سستی اس کام میں لاتی ہیں نفس کی باتیں

جو عالیشان تھی اک چیز، اس کا یہ انجام

کاش مفتی سارے سمجھ جائیں ،کہ کیا ہے یہ کام؟

ایک مبتدی ، ایک متوسط، ایک منتہی سمجھو

کام ہو اک ، اس میں حالت پھر ہر اک کی سمجھو

منتہی کی بھی حالت پھر ،مبتدی کی سمجھو

متوسط ہو جدا ان سے، تو یہی سمجھو

تکلیف میں دونوں مبتدی ،منتہی روتے ہیں

متوسط رہتے خاموش ہیں یا خوش ہوتے ہیں

مبتدی کو نفس کی تکلیف پہ پریشانی ہو

منتہی کو خدا کو عاجزی دکھانی ہو

متوسط کو تو ان دونوں پہ حیرانی ہو

نفسِ مضمون سے، کڑی اس کی گرملانی ہو

دیکھ منتہی، مبتدی کی طرح نظر آۓ

کیا دونوں ایک ہونے کا خیال دل پر آۓ؟

ایک کے عمل کا محرک نفس کا اثر ہی ہے

جو منتہی ہے نظر اس کی خدا پر ہی ہے

سنت پہ منتہی کی یہ عملی نظر ہی ہے

سامنے گو کہ نتیجہ تو برابر ہی ہے

اصل میں دونوں میں فرق ،مشرق و مغرب کا ہے

سن لیں کہ فیصلہ نیت پہ محتسب کا ہے

 

اب منتہی بھی،مبتدی کی طرح آۓ نظر

دونوں نیت کی وجہ سے ہوں مختلف مگر

متوسط کا پل پار کرنا کسی کو ہو اگر

صرف کتابوں سے کہاں جاۓ بھلا نفس کا اثر

مجاہدوں سے سب کچھ نفس کو منوانا پڑے گا

ذکر اذکار سے روشن دل کو کروانا پڑے گا

صحیح صوفی کا سروکار کشفیات سے نہیں

یہ شریعت پہ ہی چلتے ہیں ظنیات پہ نہیں

دل سے سنت پر عمل کرتے ہیں، بدعات پہ نہیں

حکم دیکھتے ہیں، چلتے نفس کی خواہشات پہ نہیں

نفس کی خواہش کو دبانا ہی تصوف تو ہے

اس کا حق کی طرف لانا ہی تصوف تو ہے

حال کہتے ہیں کبھی عارضی کیفیت کو

کبھی اعمال میں جان ڈالنے کی صلاحیت کو

سیاق سباق سے جان لو اس کی اصلیت کو

پھر دیکھ اعمال میں جان ڈالنے کی اہمیت کو

اس کے حامل کو صوفیاء پھر مرد حال کہیں

جاننے والے اسی کو تو ہی کمال کہیں

مصنف نے پھر تصوف کا بتایا کیا ہے؟

سب کے آخر میں نتیجہ پھر نکالا کیا ہے؟

اپنے قارین کو طریقہ پھر سکھایا کیا ہے؟

منزل پہ پہنچنے کا رستہ پھر بتایا کیا ہے؟

وہ تھا صوفی، رہا صوفی تو آپ بتائیں پھر

یہ نہ ہو، جان مرے فکر آگہی کا سِر

خانقاہوں کی ضرورت

ایک دوست، دوسرے دوست سے

اے مرے دوست ،کہاں جارہے ہو یہ تو بتا؟

ابھی بیٹھو، کریں گپ شپ، اتنی جلدی بھی کیا

دوسرا دوست

بیان سننے جارہوں میں خانقاہ بھائی

جاتا روز روز تو نہیں ہوں، پر گاہ گاہ بھائی

آخرت کیلیٔے درست کرنے اپنی راہ بھائی

ورنہ روز روز کرتے ہم خود کو ہیں تباہ، بھائی

آخرت کیلیٔے کچھ کام بھی تو کرنا ہے

زندہ رہنا نہیں ہمیشہ، آگے مرنا ہے

پہلادوست

ہم نے سنا ہے مرے دوست مدرسے کا نام

اور کچھ جانتے ہیں اس میں جوہوتے ہیں کام

اس میں تعلیم کا ماحول ہوتا ہے صبح و شام

دینی تعلیم کا اس کے دم سے ہے قائم اک نظام

خانقاہ کیا ہے بھائی؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟

اس سے ہوتا ہے کیا؟ اسکی افادیت کیا ہے؟

جانا تبلیغ کے لیے، یہ بھی ہم کچھ جانتے ہیں

اور اس کی جو ہے ضرورت، اس کو بھی مانتے ہیں

دین واسطے اس کو ضروری بھی ہم گردانتے ہیں

ایک راہ ِ حق کے طور، اس کو بھی پہچانتے ہیں

کیا تعلق ہے ان خانقاہوں کا مزاروں سے؟

عرس، چراغان سے یا خیراتی اداروں سے

دوسرا دوست

ہاۓ مرے دوست ،آپ کی ایسی غفلت کو کیا کہوں؟

اس میں قصور کس کا ہے؟ آپ کا یا اپنا کہوں؟

بس آپ کو اس میں، حقیقت سے ہی بے بہرہ کہوں

نفس کی سستی ہے یا شیطان کا دجل ،ایسا کہوں

لفظِ تعلیم و تربیت کو اگر جانتے ہیں

تربیت گاہ یعنی خانقاہ کیوں نہیں مانتے ہیں؟

جب ہے تعلیم کی ضرورت تو مدرسے موجود

یہ درسیات کے عظیم سلسلے موجود

امتحانات کے نظام اور نقشے موجود

پڑھنے،پڑھانے کے اس کے مجاہدے موجود

علمِ حاصل پہ، مدرسوں کے،عمل بھی تو ہو

جس طرح حکمِ شریعت ہے، تو وہی تو ہو

نفس و شیطان کی رکاوٹ کو عبور کرنا ہو

جو شریعت ہے اس پہ دل سے اگر چلنا ہو

دین پہ چلنے کو، اپنی عادت کو بدلنا ہو

خواہشِ نفس کے شکنجے سے گر نکلنا ہو

واسطے اس کے ضروری ہے تربیت نفس کی

دل ، روشن ذکر سے اور بدلے حالت نفس کی

واسطے اس کے ہیں خانقاہیں جیسے ہسپتال

ان میں ٹھیک ہوتے ہیں جو دل کے ہوتے ہیں اعمال

ان میں ہی قال سے بنتا ہے مناسب جو ہو حال

ان میں ہوتی ہے دل اور نفس کی اچھی دیکھ بھال

اب تو خود کہہ کہ کیا یہ کام ضروری نہیں ہیں؟

ان میں دیر کرنا ،کیا مقصود؟ کیا یہ فوری نہیں ہیں؟

جو ہے تبلیغ پہ جانے کا ہے مقصد وہ جان

وہ بے طلبوں میں طلب لانے کا ہے اک میدان

اس میں ہوتے ہیں فضایٔل پہ ہیں جب سارے بیان

تعلیم و تربیت کے واسطے ہیں کچھ اور سامان

تعلیم کے واسطے مدسوں کا تو نظام ہے ایک

اور خانقاہوں میں تربیت ہی کا کام ہے ایک

کوئی پیدا کرے بے طلبوں میں اصلاح کی طلب

تو اس کے واسطے ڈھونڈے گا وہ پھر خود ہی سبب

اور اس سب میں لگاۓ نہ جہالت سے نقب

طلب کو دل میں رکھے ،آۓ پھر خانقاہ میں جب

دل اس کا صاف ہو اور نفس ہو مطمٔن اس کا

تو پھر آسان ہو اللہ سے ملن اس کا

پہلا دوست

بھائی مجھ کوبھی خانقاہ میں اب ساتھ لے چلو

تربیت کا ہوں میں خواہاں، مجھے بھی ساتھ رکھو

مجھ سے غفلت کوئی مزید، نہ اس کام میں ہو

تو نے دل خوش کیا میرا ،تو بھی سدا خوش رہو

نفس و شیطان کے جال سے، فکر سے نکلتا ہوں

دنیاۓ آگہی کے ساتھ میں بھی ملتا ہوں

 

بربادی سے آبادی

نظمِ بربادی کو برباد کرو

اور خانقاہوں کو آباد کرو

دل ویران کو خانقاہ میں پھر

کرلو آباد خدا کو یاد کرو

جذب

مرے استاد مجھے آۓ جذب کا معنیٰ

کہ یہ اللہ کی محبت ہی کا ہے پانا

جذب کا راستہ، اللہ کی طرف جاتا ہے

جذب،مجذوب کو اللہ سے ملاتا ہے

اس سے مجذوب، خدا کا قرب خوب پاتا ہے

اس کے دل میں صرف اللہ ہی سماتا ہے

یہ اگر یوں ہے تو مجذوب مقتدا کیوں نہیں؟

جس کا یہ مستحق ہے، وہ صلہ ملا کیوں نہیں؟

جذب دنیا کی محبت سے نکالے ہے خوب

اس کے نقصان جو ہیں ان سے بچالے ہے خوب

ہر خطا اس سے جو ہے اس سے چھڑا لے ہے خوب

دل کو اللہ کی محبت سے سجالے ہے خوب

لوگ مجذوب بننے سے پھر کیوں ڈرتے ہیں؟ کنی کترا کے مجذوب سے کیوں گزرتے ہیں؟

استاد

مرے بیٹے جذب کی راہ ہے شاندار بہت

اس سے ملتا ہے یقیناً خدا کا پیار بہت

 

اس میں تیزی ہے مگر تیزی بھی قابو میں رہے

جس طرح اچھے ڈرایٔیور کے ہاتھ سے گاڑی چلے

اور اگر تیزی سے کوئی بھی سڑک سے پھسلے

اتنی تیزی میں پھسلنے سے اس کا کیا پھر بچے؟

جذب قابو میں ہو تو ہے یہ کامیابی پھر

بے قابو جذب کے قریب نہیں بالکل گزر

جو مرشدین ہیں، اس کا خیال بہت رکھتے ہیں

وہ مریدوں کا بھی اندازہ خوب کرسکتے ہیں

جن کے پیمانے، وہ جانیں کہ بس چھلکتے ہیں

ان کو دیتے نہیں، وہ دور سے ہی چکھتے ہیں

جب ہے مطلوب اسی جذب سے، خدا کا بننا

علم باعمل ہو نہ کہ شور و غوغا کا بننا

آپ نے خدی کو عورتوں کے لیٔے رکوایا

اس طرح جذب کے کنٹرول کو بھی سکھلایا

جو ہیں نازک تو یہ ان کے لیٔے ہی فرمایا

شیشے ہیں ٹوٹ نہ جائیں گر خدی کو گایا

شاخ نازک پہ وزن ڈالنا اچھا نہیں ہے

تار نازک جو ہے وہ زور سے ہلانا نہیں ہے

جذب ایک وہ کہ عمل کے لیٔے دیوانہ بنے

دل سے اعمالِ شریعت پہ ہمیشہ وہ چلے

اور دنیا کی محبت سے وہ بس دور رہے

اپنے محبوب کی محبت کا یوں دم بھرتا رہے

ایسے مجذوب کا مقام ہے پھر سب سے بلند

کہ خدا کا ہے وہ اور وہ بھی خدا کو ہے پسند

جذب ہے دوسرا ،کہ جذب سے بس جل جاۓ

یعنی ذکر و مجاہدہ میں نہ سنبھل جاۓ

عقل اس میں نہ رہےیعنی دماغ چل جاۓ

یعنی اعمال کی مشین ہی بس گل جاۓ

ایسا مجذوب اب اعمال کا مکلف ہی نہیں

پر اس کے ساتھ ترقی کا ذریعہ بھی نہیں

وہ تھا عاشق ، عشق کی ہے وہ زندہ لاش مگر

اک امتحان ہے لوگوں کا، اس پہ جب ہو نظر

بوجھ کسی اور کی تربیت کا نہیں ہے اس پر

بے ادبی نہ کرے کوئی اس کی، اس کا ہو ڈر

ایسے مجذوبوں کو ہوتے ہیں کشف بھی دیکھو

پر ان سے لینے کو، اس کو کبھی نہیں دیکھو

یہ میزائل کی طرح چلتے ہیں، بچ کے رہنا

جو یہ دیں، خطرہ ہے اس میں، نہ کچھ اس سے لینا

خدمت کے واسطے دینا ہو تو وہ دے دینا

دین کی بات میں اس کے نہیں پیچھے رہنا

دین کی بات مشائخ علما سے لے تو

اس طرح دل سے رہو حق پہ ہمیشہ یکسو

شاگرد کا سمجھ جانا

جزاک اللہ، کہ آنکھیں کھول دیں آپ نے میری

ماشاءاللہ تشفی اس سے ہوئی ہے میری

میں تو مجذوب کا شیدا تھا اور اعمال کا نہیں

کبھی واقف رہا اس میں، میں اصلی حال کا نہیں

کبھی پتا چلا اس میں شیطان کے جال کا نہیں

جواب کو کیا میں سمجھتا، پتا سوال کا نہیں

آپ نے اعمال کو جب حال سے ملادیا اب

جو اصلی جذب ہے بیشک وہ سمجھ آگیا اب

آپ کے جذب سے مجذوب ہوا جاتا ہوں

آپ کے قلبِ نورانی سے نور پاتا ہوں

اور اسی نور کے لیٔے آپ کے پاس آتا ہوں

یہ علم نور ہے اب سب کو یہ بتاتا ہوں

کیا مجھے آپ اب سینے سے لگائیں گے استاد؟

میں کہ طالب ہوں خدا سے اب ملائیں گے استاد؟

 

 

 

استاد

بیٹا بیشک مری باتوں سے فائدہ تو ہوا

کہ ترا حق بھی شاگردی کا کچھ ادا تو ہوا

میں ہوں جیسے بھی مگر آپ کا بھلا تو ہوا

اور جانبین کا اچھا یہ معاملہ تو ہوا

پر مگر شیخ نہیں میں، شیخ کو ڈھونڈنا ہے تجھے

اور اسی شیخ کے پیچھے ہر وقت چلنا ہے تجھے

شیخ کی صفات اسی فکرِ آگہی سے جان لیں

اور ان صفات کے ذریعے پھر اس کو پہچان لیں

اس سے بیعت ہو تربیت میں بس پھر اس کی مان لیں

تجھ کو بننا خدا کا اس سے ہے دل میں ٹھان لیں

یہ ہی شبیرؔ کی ہے فکر آگہی کا نچوڑ

حال سے متصف ، کیفیت جذبی کا نچوڑ

قال سے حال کا سفر

قال سے حال تک سفر کرلے

اور اس میں حال اپنا بہتر کرلے

عقل کو دل کا ہے کرنا تابع

اور دل، خدا کا مسخر کرلے

 

عاجزی

خود کو خدا کے دَین سے جدا نہ کریں ہم

غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں ہم

خود پر کوئی کہیں نہ کرے بند عاجزی

ہر حال میں اللہ کو ہے پسند عاجزی

کرتا ہے اس لئیے ہر عقلمند عاجزی

خود کو کہیں اچھا کبھی کہا نہ کریں ہم

غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں ہم

اپنی نظر میں آئیں ہمیش ہم بہت حقیر

گو حسنِ ظن سے دوسرےسمجھیں ہمیں کبیر

اور شہرتوں کے آپ نہ بن جائیں ہم اسیر

سوچ اپنی بڑائی کی توپیدا نہ کریں ہم

غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں ہم

ہم جانتے ہیں ہم ہیں گنہگار بہت جب

ہم دائرۂ سوچ میں لائیں گے اسے کب؟

احساسِ گناہ بنتا تو توبہ کا ہے سبب

کیوں اس کے باوجود بھی توبہ نہ کریں ہم؟

غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں ہم

 

عابد بھی تھا،عالم بھی تھا، عارف بھی تھا شیطان

ہوجائے گا مردود، وہ رکھتا تھا کب گماں؟

وہ اپنی عبادات و علم پر تھا جو نازاں

ڈرنا ہے ہمیں اب کہیں ایسا نہ کریں ہم

غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں

دل میں کہیں نہ در آئے تیرے خود پسندی

بچنا ہے اس سے خوب، کہ یہ چال ہے گندی

کر اپنے نفس کو پست کہ ملے تجھ کو بلندی

خود رائی میں ہاں خود کو مبتلا نہ کریں ہم

غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں ہم

اعمال میں رہ جائے نہ ہم سے کوئی کمی

بندے ہیں ہم خدا کے یہ ہے حقِّ بندگی

اعمال پہ تکیہ مگر نہ ہو، ہو اُس پہ ہی

شبیرؔ اپنی مرضی پہ چلا نہ کریں ہم

غلطی سے کبھی بھی کوئی دعویٰ نہ کریں ہم

عاجزی

عاجزی کیا ہے اپنے نفس کو یہ سمجھا نا ہے

کہ کہیں بھی نہیں بے موقع سر اٹھا نا ہے

اس کی عظمت ہو اگر دل میں سر پھر کیا اٹھے

سر اٹھائیں گے کیا منہ اپنا ہی چھپانا ہے

عِلَّتْ کے جاننےسے ہے بندے کا کیا کام؟

سب کچھ ہمیں قبول، ہیں ہم حکم کے غلام

علت کے جاننےسے ہے بندے کا کیا کام؟

بندے کا ہے یہ فخر کہ آقا کہے، بندے!

کیوں تیری نگاہ میرے علاوہ بھی کہیں ہے؟

ہم کو نظر آتے ہیں خوب حالات جب ترے

تیرے لئے کیا ہے، یہ سارا ہی اہتمام

علت کے جاننے سے ہے بندے کا کیا کام؟

بندے کا ہاتھ نیچے ہے،اوپر ہے اس کا ہاتھ

ہم چھوڑ نہ جائیں ،نہیں ہے چھوڑتا وہ ہاتھ

سنتا ہے ہر اک حال میں، دن ہو یا ہو پھر رات

بن جائے کوئی اس کا تو ہوتا نہیں ناکام

علت کے جاننے سےہے بندے کا کیا کام؟

کس پیار سے بھیجا ہے، ہمارا نبی﷐ پیارا

ہم جیسے گنہگاروں کا مضبوط سہارا

اپنا کلام پیارا بھی اس پر ہے اتارا

موجود اس میں سارے، ہدایت کے ہیں احکام

علت کے جاننےسے ہے بندے کا کیا کام؟

ہم ہیں جب گنہگار تو، توبہ کا در کھلا

دروازہ شاندار دعا کا ہمیں ملا

اچھا ہوا جو کام، دس گنا ملا صلہ

سب خود سے ہی دیتا ہے ،ہے وہاب اس کا نام

علت کے جاننے سےہے بندے کا کیا کام؟

لے ہم بھی ذرا دل سےاب نکال لیںصنم

رک کر گناہ سے، خیر کی جانب بھی لیں قدم

اس مہربان کے ذکر سے ہم خوب لیں کرم

ہم بھی شبیرؔ پی لیں محبت کا اسکا جام

علت کے جاننے سےہے بندے کا کیا کام؟

 

علتوں کی نفی

یہ ہی کافی ہے کہ اس کا حکم ہے علتیں ڈھونڈنا اپنا کام نہیں

بے ضرورت نہیں کرنا ایسا اچھا اس کا یہ جان انجام نہیں

عشق میں محبوب کا ماننا مطلوب اور کیا چاہیٔے عاشق ہو اگر

آۓ محبوب کے جانب سے ہیں جان معمولی یہ احکام نہیں

 

 

میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے

میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے

جو ملے گا وہاں ، اس کے کیا کہنے

یہ حسیں عورتیں یہ مکاں عالیشاں

ان کے نخرے بھی خوب اور تو بھی جواں

چلتی پھرتی ترے سامنے گاڑیاں

تو زمیں چھوڑلے دیکھ لے آسماں

ترا دل تو امانت ہے اس کی ارے

میرے پیارے ذرا دل کو سنبھال لے

یہ موبائل کی دنیا یہ میسج کا دھن

کھارہے ہیں تجھے سارے یہ مثلِ گھن

تیرا وقت قیمتی جارہا ہے یہ سن

کیسے سمجھے گا تو جب نشے میں ہو ٹُن؟

جس کی کوئی سنے نہ،تجھے کیا کہے

میرے پیارےذرا دل کو سنبھال لے

پوسٹوں، گریڈوں کے چکر میں آئے ہو تم

تو سنے گا نہیں قسم کھائے ہو تم

ارضی جنت یہاں آج پائے ہو تم

بوجھ کتنا یہاں کا اٹھائے ہو تم؟

تجھ کو پرواہ نہیں کیا وہاں کا بنے؟

میرے پیارےذرا دل کو سنبھال لے

چاہتیں تیری سب ہی وہاں ہوں گی پوری

تو یہاں چاہتا ہے، یہاں ہے ادھوری

شکر کر کچھ ملے جو یہاں پر ضروری

کم کرو اپنے رب سے جو ہے تیری دوری

ہاں وہاں سرخرو ہو کے،کرپھر مزے

میرے پیارےذرا دل کو سنبھال لے

اس کا بن تو یہاں، تو جنت جائے گا

ہوگا جنت میں سب کچھ، جو تو چاہے گا

وہ ملے گا تجھے جو کہ تو مانگے گا

اہل جنت پہ یہ دور ضرور آئے گا

ہوگا بے خوف وہ جو یہاں پر ڈرے

میرے پیارےذرا دل کو سنبھال لے

اپنی خواہش یہاں پر تو کنٹرول کر

جس سے ڈرنا ضروری ہے تو اس سے ڈر

ہے جہاں باغِ جنت، وہاں تو بھی چر

اپنے دل پر طلب سے تو لے لے اثر

سن نصیحت کے اشعار ،شبیرؔ کے

میرے پیارےذرا دل کو سنبھال لے

مجھے کاش اپنا بنا لے مرا رب

مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب

مجھے کاش اپنا بنا لے مرا رب

میں دریائے عصیاں میں ڈوبا رہا ہوں

میں شیطاں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہوں

میں اپنی نظر میں بھی خود ہی گرا ہوں

برا ہوں، برا ہوں ،بہت ہی برا ہوں

مجھے اچھا پھر سے بنا دے مرا رب

مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب

مرا نفس ظالم ہے میرے ہی در پے

ہتھوڑے چلاتا ہے میرے ہی سر پہ

جو شیطان ہے باہر ، یہ ہے مرے گھر پہ

جوقابو نہیں ہے کوئی اس کے شرپہ

مجھے اس کے شر سے بچا لے مرا رب

مجھے کاش اپنا بنا لے مرا رب

ہتھوڑے چلاتا ہے یہ حبِ جاہ کے

دکانیں سجاتا ہے یہ حبِ باہ کے

حسد کے و کینہ کے اور کیا کیا کے

وسائل ہیں اس میں بس ہر ایک بلا کے

بس اب اس بلا کو سلا دے مرا رب

مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب

 

میں نیکوں کی صحبت سے بھاگا رہا ہوں

برائی کی صحبت کو پاتا رہا ہوں

میں ہر نیک خواہش سلاتا رہا ہوں

تمنائیں دِل میں سجاتا رہا ہوں

اب اس گھن چکر سے نکالے مرا رب

مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب

ذرائع کے پیچھے مقاصد بھلائے

ان ہی غلطیوں نے کیا کیا گل کھلائے

محبت کے نعروں سے چیخے چلائے

صد افسوس، شبیرؔ عمل پر نہ آئے

عمل کے ارادے پہ لائے مرا رب

مجھے اپنا رستہ دکھا دے مرا رب

اک عاجزانہ دعا

مرے رب قبول کردے یہ دعاۓ عاجزانہ

کہ مرے نصیب میں لکھ دے مرے رب تو اپنا پانا

میں ترا بنوں الٰہی اور تو میرا ، ہو نصیب یہ

تو بچا مجھے کہ دشمن کا بنوں نہیں نشانہ

 

 

رمضان کا مہینہ

اک لوٹ کا سماں ہے رمضان کا مہینہ

جانے خدا کہ کیا ہے، رمضان کا مہینہ

اعمال نہیں مانے جب نفس بے مہار ہو

اور سرکشی کے واسطے ہر وقت وہ تیار ہو

کڑھتا ہی رہے گا بس بے شک دل بیدار ہو

روکنا پڑے گا اس کو لذت سے جس سے پیار ہو

یہ وہ مجاہدہ ہے رمضان کا مہینہ

جانے خدا کہ کیا ہے، رمضان کا مہینہ

سالک ذرا تو سوچو،یہ دل عرش اصغر ہے

لینے خدا سے، ظرف اک نماز معتبر ہے

قرآن، ترایح میں پڑھنے کا کیا اثر ہے؟

ان دونوں کے سنگم سے دل کتنا منور ہے؟

اصلاح کا ذریعہ ہے رمضان کا مہینہ

ہے آخری امت یہ اور عمر اس کی ہے کم

اعمال کے لحاظ سے، اس کا نبی﷐ کو تھا غم

ہزار مہینے کی اک رات دی مسلم

رمضان میں ہوتی ہے چھوڑیں نہ اس کو اب ہم

دینے کی انتہاء ہے رمضان کا مہینہ

دن میں مجاہدہ ہو ،رات میں مشاہدہ ہو

ہر رات میں ملنے کا جاری یہ سلسلہ ہو

قرآن کے سننے سے دل نور کا ہالہ ہو

پورا مہینہ ایسا رہ جائے تو پھر کیا ہو؟

بخشش کا بہانہ ہے رمضان کا مہینہ

جو قدردان ہوں گے، تر جائیں گے وہ اس میں

کرنے کا کام اس میں، کرجائیں گے وہ اس میں

میزان کے پلڑے بھی ،بھر جائیں گے وہ اس میں

تقویٰ کا نور لیکر، ڈر جائیں گے وہ اس میں

کیا راستہ ملا ہے، رمضان کا مہینہ

جو اس میں بھی سستی سے کچھ لینا نہ چاہیں گے

اس میں بھی قدم خیر کی جانب نہ بڑھائیں گے

شر پر رہیں قائم وہ، خیر پر نہ وہ آئیں گے

تو بد دعا نبی﷐ کی، افسوس وہ پائیں گے

ان کی تو ابتلاء ہے رمضان کا مہینہ

اے دوستو! اے پیارو! بارے خدا یہ سوچو

گامزن ہوں شر کی جانب، تو خود کو اس میں روکو

وہ دن بڑا مشکل ہے، اس میں ہی خود کو ٹوکو

منزل ہو خیر شبیرؔ آگے بڑھو اور بولو

 

برکت کا خزینہ ہے رمضان کا مہینہ

جانے خدا کہ کیا ہے، رمضان کا مہینہ

اعتکاف

چاہتے گر کامیابی ہو، اعتکاف کرو

پاک رمضان میں اپنا یہ دل بھی صاف کرو

لیلۃ القدر کے پانے کا طریقہ آسان

اور تربیت کے لیئے بھی مجاہدہ آسان

یہ ہے مسنون طریقۂ تخلیہ آسان

اور اعمال کے کرنے کا سلسلہ آسان

اپنی تطہیر کے لئے کر، یہ طریقہ اختیار

اپنے دل کی خزاں کو، اس کے ذریعے کر بہار

ہے ٹھہرنے کی اجازت در محبوب پہ ہاں

یہی موقع ہے چلے آؤ یہ ملتی ہے کہاں؟

کچھ تو سمجھو کہ ہوتی کیا ہےتخلیہ کی فغاں

رات میں اس کے کرم کا، کیا ہوتا ہے سماں

تو ہو اور وہ ہو کوئی اور درمیاں میں نہ ہو

ایسا موقع تو کوئی اور کل جہاں میں نہ ہو

تو نے روزے سے اپنے نفس کو بھی مارا ہو

دل کو سمجھانے کا ارادہ اب تمہارا ہو

پھر اعتکاف کا منظر بھی ایسا پیارا ہو

ہم کسی کے نہیں، کوئی نہیں ہمارا ہو

اس میں ہو اس پہ نظر، اس سے بات کرنی ہو

ہاں کیا بات ہو رحمت بھی جب اترنی ہو

ترے لب پر ہو مناجات “الٰہی میرے”

دل میں اس کا ہو تصور اور ہلیں ہونٹ تیرے

ٹپ ٹپ آنسو بھی گریں آنکھ سے دھیرے دھیرے

اس کی رحمت لامتناہی پھر تجھے گھیرے

اس کی آواز تجھے دل میں سنائی دے پھر

ساتھ ہونے کی تجھے، پیار سے تسلی دے پھر

دن کو آرام مزے سے تو پورا کرلینا

رات کو اعمال سے دامن تو اپنا بھر لینا

اور تراویح میں تو قرآن سے اثر لینا

اور تہجد میں بھی رحمت کی اک نظر لینا

دن میں آرام، رات کام کی ترتیب رہے

کچھ بھی مشکل نہ ہو اور ساتھ خوش نصیب رہے

عورتیں گھر میں جگہ کوئی منتخب کرلیں

پھر وہاں ہو یہ اعتکاف کی نیت جب کرلیں

وہاں سوئیں ، سارے اعمال وہاں سب کرلیں

اس طرح اس کی رضا طلب روزشب کرلیں

اعتکاف ان کا پھر مردوں سے کچھ آسان رہے

یہ اپنے گھر میں رہیں اور وہ مہربان رہیں

سوءِ صحبت سے ہے حدیث میں تخلیہ اچھا

اچھی صحبت کا تو اس سے بھی نتیجہ اچھا

وہ جدا اچھا اور خوب یہ جدا اچھا

ساتھ ہو شیخ کی صحبت تو پھر ہو کیا اچھا

اسمیں اصلاح کی نیت ہو، فرض عین جو ہے

فرض اصلاح ہمیں سنت میں ملے، یہ بھی تو ہے

یوں اعتکاف بھی اپنا اک خانقاہ بنے

پانے منزل کے لئے یہ اک شاہراہ بنے

اور منزل ہماری صرف اس کی چاہ بنے

تو پھر سلوک کے دوران یہ جذب کی راہ بنے

اس میں مل جائے پھر اتنا کہ سال کافی ہو

دل کو درست رکھنے،شبیرؔ یہ علاج شافی ہو

رمضان کیا ہے؟

ہے بارش رحمتوں کی کیا بپا، رمضان کی صورت میں

خدا کا پیار ملتا ہے، تراویح کی تلاوت میں

نفس تیار ہوتا ہے عمل کے واسطے اس سے

کہ تقویٰ دل کا مضمر ہے ہمیش نفس کی مشقت میں

آخری عشرۂ رمضاں کی برکات

آخری عشرۂ رمضاں کی برکات سنو

مجھ کو پتہ نہیں تھا اس کا، کہیں یہ نہ کہو

عشرۂ یہ خاص جہنم سے خلاصی کا ہے

یہ اپنے سارے گناہوں سے معافی کا ہے

لیلۃ القدر کے حصول اور سعی کا ہے

جو کہ ہمت کرے اس میں تو بس اسی کا ہے

اس میں جاگنے اور جگانے کا عمل جاری رہے

دل پہ بس حب الہٰی کا کیف طاری رہے

لیلۃ القدر کی اک رات اس میں پانی ہے

جس میں اَجر و قبولیت کی فراوانی ہے

ہزار مہینے سے افضل یہ رات آنی ہے

تو نے بھی ہمت و مردانگی دکھانی ہے

چاہیے ساری یہ دس راتیں جاگ کر گزریں

پسند اعمال جو اللہ کو ہیں وہ کرگزریں

لیلۃ القدر کے پانے کا طریقہ آسان

اور تربیت کے لیئے بھی مجاہدہ آسان

جوہے مسنون طریقۂ تخلیہ آسان

اور اعمال کے کرنے کا سلسلہ آسان

وہ ہے مسنون اعتکاف کا عمل اس میں

نصیب اسکو ہو، ہو شوق اور ہمت جس میں

کسی کے واسطے مشکل ہو اعتکاف اگر

ہیں چند عملی گزارشات عمل کردے ان پر

نہ کوئی فرض و سنت چھوٹے، رکھے اس پہ نظر

زباں پہ ذکر ہو جاری، نہ کرے کام منکر

اور کچھ بھی نہ ہو، تویہ تو ہو گناہ نہ ہو

بعد اعمال کے سحری تلک گو سوتے رہو

دو نمازیں اس میں آتی ہیں، ہوں جماعت کے ساتھ

زباں پہ ذکر ہو، کرے کوئی فضول نہ بات

کچھ نوافل، کچھ تلاوت، کچھ دعائیں، ہر رات

ایسا مشغول ہو اعمال میں کہ ہوجائے نجات

طاق راتوں میں یہ اعمال ذرا ہوں زیادہ

لیلۃ القدر کے پانے کا طریقہ سادہ

کچھ بد نصیب کرتے شاپنگ ہیں ایسی راتوں میں

اور کچھ لوگ گزارتے ہیں ان کو باتوں میں

کچھ عید کارڈ ہی بیچتے ہیں لیئے ہاتھوں میں

کاش ان کی رات بھی گزرتی یہ مناجاتوں میں

کاش کچھ انکو سمجھ ہوتی، کماتے ہیں یہ کیا؟

اپنے اعمال کے نامے میں، سجاتے ہیں یہ کیا؟

آیئے اس میں ہم کچھ اور تجارت بھی کریں

صلح اللہ سے کریں، اس کی عبادت بھی کریں

اور گناہوں سے اپنی خاص حفاظت بھی کریں

اسی اک رات کی پانے کی کچھ ہمت بھی کریں

راتیں یہ گزریں شبیرؔ اپنی صالحین کے ساتھ

کریں اعمال اس کی ذات پہ یقین کے ساتھ

 

آخری عشرہ

 

آخری عشرے کی رمضان کے برکات دیکھیں

اور اس کے واسطے بزرگوں کے کچھ حالات دیکھیں

ایک ہے کتاب اکابر کا رمضان دیکھیٔے وہ

اس میں کچھ ذوق عبادت و مناجات دیکھیں

 

 

حُبّ ِذاتِ رسول و عمل بر سنتِ رسول

ہے کیاشیطاںکی کاوش سے اُمت میں تفرقہ برپا

سنوں لوگوں کے میں جب درمیاں انہونی کا چرچا

فریق اک زور دے جب آپ کی ذات کی محبت پر

اوردوسرا زور عمل کرنے پہ دے، آقا کی سنت پر

میں ہوں حیراں، ہے کس کو اختلاف دونوں کی صحت پر؟

کمال یہ ہےکہ دونوں کو ہے حیرت، میری حیرت پر

بتاؤں کیسے ان دونوں کو،ان میں ہر اک ثابت ہے

ہے اک حکم نبی﷐، دوسرے پہ دال قرآن کی آیت ہے

ذرا سوچیں یہ کہ جن کو بھی آقا سے محبت ہو

نگاہوں میں بتاؤ، ان کی ہلکی کیسے سنت ہو؟

عمل میں ان کے دوستو، سمجھونا پھر کیسے بدعت ہو؟

حقیقت یہ ہے کہ سنت ہمہ وقت ان کی چاہت ہو

اگر یہ ہے نہیں تو پھر محبت انکی جھوٹی ہے

نہ سمجھے یہ اگر کوئی تو اس کی عقل موٹی ہے

کہے آقا، محبت ان کی جب تکمیلِ ایماں ہے

تو سنت پر چلے جو اس میں، پھر وہ کیسے حیراں ہے؟

پڑھی جب نعت جائے اس سے پھر وہ کیوں پریشان ہے

ہو جب بھی تذکرہ آقا کا اس سے کیوں گریزاں ہے؟

اگر ایماں نہیں کامل عمل کو کون دیکھے گا؟

خراب ہی ہوگا، رستے پر خوارج کے جو جائے گا

یہ دونوں ٹھیک ہیں ان کاملانا ہے ضروری بھی

ختم کرنی ہے شیطاں نے بنائی ہے جو دوری بھی

ہر اک سوچے کہ اس کی بات جو ہے وہ ہےپوری بھی

جدا ہر ایک ناری ہے، تو یکجا دونوں نوری بھی

کوئی تو ہو شبیرؔ جو میری حیرانی ختم کردے

کوئی آگے بڑھے، ان دو میں شیطانی ختم کردے

ہمارے نبیﷺ

کتنی بڑی نعمت ہے محبت حضورﷺ کی

کتنی ہے ضروری متابعت حضورﷺ کی

اصلاح اپنے احوال کا مقصود ہو تو پھر

پڑھ دل سے اس کے واسطے سیرت حضور ﷺکی

اصلاح کے تین طریقے

گزرتا وقت تیزی سے بہت ہے

معین وقت پہ سب کی چلت ہے

فضل سے وہ ہمیں اوپر اٹھائے

نفس ہم کو وہاں سے نیچے لائے

نفس قابو میں اپنا کیسے آئے؟

خدا کے واسطے کوئی بتائے؟

نفس کو اپنے قابو کرنا ہوگا

شریعت پر ہمیشہ چلنا ہوگا

جسم کا جان لو! دل بادشاہ ہے

کبھی کچھ خیال اس کا بھی کیا ہے؟

اگر سب کچھ تو کرنا ٹھیک چاہے

تو کردو ٹھیک اسے، یہ فیصلہ ہے

سلیم ہو قلب گر کام آئے گا یہ

صلہ اس کی صلاح کا پائے گا یہ

علم سے اس کو تو بس جان لے گا

مگر فائدہ ہو جب تو مان لے گا

وہاں کے واسطے جو سامان لے گا

خیال کرنا اچک شیطان لے گا

تو شیطان سے بھی بچنا ہے ضروری

کرے ورنہ خدا سے تیری دوری

تو ان سب کے لئے سوچا ہے پھر کیا؟

بہت جلد آرہا ہے وقت تیرا

ذرا آنکھوں کے سامنے لاؤ نقشہ

کہ تیرے سامنے ہے تیرا اللہ

اگر اِس وقت تو ہوجائے تائب

ختم کتنے ہوں تیرے وہ مصائب

یہ ماضی کے لئے بہتر رہے گا

اگر غالب تو ساتھ حال پر رہے گا

اور مستقبل کا تجھ کو ڈر رہے گا

تو پھر مقصود تجھے مل کر رہے گا

اگر کرلو یہ تو اخیار میں ہے تو

جو پکڑو شیخ تو پھر، ابرار میں ہے تو

پکڑنے شیخ سے، ہوتی ہے آسانی

نفس پر اس کو دے دو حکمرانی

وہ دیکھے خود ترے دل کی کہانی

کہے جو بات، وہ دل میں ہے جمانی

ذکر سے دل ترا آباد کرے گا

وہ برکت ہوگی کہ تو یاد کرے گا

اگر ہو شیخ سے تجھ کو محبت

تو اصلاح کے عمل میں کم ہو محنت

جو وہ چاہے بنے تیری وہ چاہت

نہ ہو اس کے مخالف تیری حرکت

تو تیز ہوجائے خوب، اصلاح کی رفتار

شبیرؔ شطاریہ کا یہ ہے کردار

 

فکرِ شیطان

مجھے خوب یاد ہے آدم پیدا ہوئے تھے جب

سجدہ اس کو نہ کیا جب ، تھا نکالا مجھے تب

اس وقت سے مری چھاتی پہ مونگ دلتی ہے

کڑھن آنتوں میں مری بار بار ابھرتی ہے

مری نفرت بڑھے روز روز ،نہیں اترتی ہے

اور یہی چیز مجھے مجبور اس پہ کرتی ہے

اس کی اولاد کو کامیاب نہ ہونے دوں میں

ان کو تکلیف دوں، آرام سے نہ سونے دوں میں

ہر اچھے کام سےٹوکوں، نہ کرنے دوں گا انہیں

ہر برا کام جو ہوگا، اس پہ ڈالوں گا انہیں

آخری دم تک کسی حال میں نہ چھوڑوں گا انہیں

کسی ترکیب سے کافر میں بناؤں گا انہیں

پھر میں فارغ رہوں ان سے، اگر مؤمن نہ رہیں

اور اگر ہوں تو، یہ تو ہو مرے دشمن نہ رہیں

یہ ہوں مؤمن، میں گناہوں پہ ان کو ڈالوں گا

ان کی نگاہ میں گناہ ہلکا کر دکھاؤں گا

تفرقے کے راہ پر ان کو چلاؤں گا

ان کو ایک دوسرے کا دشمن میں یوں بناؤں گا

 

 

 

 

ہے یہ کوشش اپنے بڑوں سے ان کو کاٹ دوں میں

پھر تر نوالا سمجھ کر ان سب کو چاٹ دوں میں

عورت ،شراب ،مال و دولت کے یہ رسیا ہوکر

عقل و خرد سے یہ کٹ کر، بے دست و پا ہوکر

اپنے کپڑوں سے یہ باہر ہوں بے حیا ہوکر

گندے خیالات و رسومات میں مبتلا ہوکر

مری جھولی میں پکے پھل کی طرح گر جائیں

ہر طرف میں ہی رہوں ان کے، پھر کدھر جائیں؟

میں ان کے دین کے دریچوں میں جاکے بیٹھ جاؤں

میں مسجدوں میں ،خانقاہوں میں جاکے بیٹھ جاؤں

ان کے میں، علمی مدرسوں میں جا کے بیٹھ جاؤں

میں ان کے سکولوں، کالجوں میں جاکے بیٹھ جاؤں

کہ حق کی بات کبھی بھی یہ نہ سمجھے کوئی

یہ سب ظلمت میں رہیں، نور نہ پائے کوئی

جو مرے داؤ میں نہ آئیں، ان کو چھوڑوں کہاں؟

وہاں پہ لاؤں پیاسا، پانی نہیں ہو گا جہاں

مرے لشکر سے بچ سکے نہ ان کے پیر و جواں

ان کے بال بال کو باندھوں نہ ملے ان کو اماں

مرے یہود و نصاریٰ ، ہنود کس لئے ہیں؟

ان مؤمنوں کو پریشان کریں، بس اس لئے ہیں

ان کو میں اپنے فائدوں سے یوں جدا کردوں

کہ دینی کاموں کے غلو میں مبتلا کردوں

بس وہ ہی حق پہ ہیں، یہ خیال ان میں پیدا کردوں

باہم وہ لڑپڑیں، پھر مفت میں کیا سے کیا کردوں

 

یہ حق پہ ہوتے ہوئے حق پہ نہ رہیں گے پھر

یہ خوارج کی طرح میرے ہی بنیں گے پھر

کچھ کو سنت کی اہمیت میں خوب جتلاؤں گا

محبت آپ کی، ان کے دل سے پر نکالوں گا

کچھ کو میں آپ کی محبت پہ ایسے لاؤں گا

سنت چھڑواکے، بدعتوں پہ میں چلاؤں گا

ٹھیک سے غلط ہی نتیجہ برآمد کرنا ہے

کون جانے مرا، ان کے دلوں پہ دھرنا ہے

کچھ کو میں شرک کی مذمت پہ یوں لگاؤں گا

تعظیم شعائر کی، میں شرک باور کراؤں گا

مسلمانوں کو کافر، ان سے کہلواؤں گا

بغضِ یہود نصاریٰ، ان سے چھپاؤں گا

پھر خوارج کا یہ رستہ خود ہی اپنا لیں گے

جوش میں آکے خود ہی دین سے نکل جائیں گے

سر چڑھ کے بولے جو جادو تو وہ جادو ہے مرا

مرا جادو یوں بعض لوگوں پہ کچھ ایسا چڑھا

کہ اپنے آپ کو انہوں نے میرے بندے کہا

میں ہوں جیسے بھی انہوں نے مجھے مگر چاہا

میں کامیاب ہوں، کامیاب ہوں اور خوش ہوں اب

آگ میں ناچوں گا ، عذاب ان کو ہوگا جب

 

 

 

فضلِ رحمان

کہا شیطان کو خدا نے، بس نہ چلے تیرا

ان پہ کسی طرح کہ جو کہ بندہ ہے میرا

میں مومنوں کا ہوں دوست اور ہوں مہربان ان پر

ہر اچھا کام جو کریں یہ، کروں میں اس کی قدر

سارے گناہ کروں معاف، توبہ کریں یہ اگر

بات شیطان کے بھائیوں کی مختلف ہے مگر

شیطان اور ساتھ جو اس کے ہیں ،سے جہنم بھر دوں

ان سے کٹ کر جو آئے، ان پہ فضل میں کردوں

نفس میں فجورہیں ، تقویٰ کی قابلیت بھی ہے

کتاب اللہ میں ان کے واسطے ہدایت بھی ہے

راستہ دکھلانے کو، رسول کی سنت بھی ہے

نمونہ واسطے، صحابہؓ کی جمعیت بھی ہے

مرے رسول و صحابہؓ کے طریقے پہ ہوں جو

ہوں مطمئن، نہیں چھو سکتا ہے شیطان ان کو

 

 

 

 

جو کہ کوشش کرے محکم مجھ کو پانے کے لئے

کھول دوں ان کے لئے میں ہدایت کے رستے

مرے محبوب کے سنت کے طریقوں پہ چلے

وہ مرا بندہ جو ہے وہ مرا محبوب بنے

جو چاہے ،نام سے مرےکردے روشن اپنا دل

میں آساں کردوں اس کے واسطے اپنی منزل

سورۃ شمس میں اللہ نے کیا ہے یہ خطاب

نفس کیا پاک جس نے ہے وہ یقیناً کامیاب

یہ اگر پاک ہے ،شیطان کا ہے بے باک حساب

نہ کرسکا اگر یہ تو اس کی حالت ہے خراب

نفس ہو پاک اور اللہ سے محبت بھی رہے

مکرِ شیطان ہے ضعیف، شبیرؔ کیوں اس سے ڈرے؟

تبلیغ کے مختلف طریقے

تبلیغ میں دعوت کے طریقے ہیں مختلف

حق بات کی رسائی کے ذریعے ہیں مختلف

عالم و مؤذن و مجاہد اور شیخ کی بھی

دعوت کے طریقوں کے سلسلے ہیں مختلف

c

 

تبلیغی جماعت کے چھ نمبر

پہلے ایمان ہو، توحید سے ہوں ہم آگاہ

اس واسطے پڑھتے رہیں، لا الہ الا اللہ

یقیں ہونے کا کسی سے نہ ہو،پر اللہ سے

مانگیں پھر ہم نہیں کسی سے، مگر اللہ سے

خیال ہمارا نہ ہو، ادھر اور ادھر اللہ سے

کوئی روک سکتا نہیں حکم ہو گر اللہ سے

ستر سالہ بوڑھا یہ پڑھ لےمسلمان ہو جائے

یہ اس کے واسطے مغفرت کا بھی سامان ہوجائے

جب مسلمان ہو کوئی، کرنے اس کو ہیں اعمال

ان میں نماز ہے ضروری بہت، ہر وقت ،ہر حال

دیں کا ستون ہے رکھنا بہت ہے اس کا خیال

آخرت میں بھی سب سے پہلے ہوگا اس کا سوال

جو فرائض ہیں ان کو چھوڑنا تو تباہی ہے

جو نوافل ہیں آخرت کی وہ آبادی ہیں

ہر عمل کے لئے جاننا اس کا ضروری ہے

ذکر کرنے سے دور ہوتی، خدا سے دوری ہے

علم ہے نور خارجی ، دل اگر نوری ہے

ذکر سے نوری ہو دل ،پھر تو بات پوری ہے

جس طرح آنکھ روشنی میں دیکھ سکتی ہے

علمی روشنی، دل بنا ہو، تو اثر رکھتی ہے

 

ہم مسلمان ہیں مسلمان کا اکرام کرلیں

اور اس اکرام کو ہر خاص و عام میں عام کرلیں

مسلمانوں کے فائدے کا جائز کام کرلیں

چھوٹوں پہ رحم اور بڑوں کا احترام کرلیں

یہ مسلمان تو مہمان ہیں حضور﷑ کے گھر کے

دعائیں ان کے دلوں کی بھی، لیں ہم جی بھر کے

خدا راضی ہو یہ نیت اپنے ہر کام میں رہے

دیکھیں اخلاص اپنے کاموں میں جو ہیں ہم نے کیئے

کریں ہم شکر نیتاً اگر یہ اچھے ہوئے

اور استغفار ! بری نیت کا اگر پتا چلے

سارے اعمال کا نیتوں پہ ہے جب دار و مدار

تو پھر نیت ہماری اس میں کیوں رہے بیمار؟

امر، معروف کا ہو نہی عنِ المنکر بھی

گھر کے اندر بھی ہو اور گھر سے باہر بھی

چاہے جانا پڑے اس کے لئے اب گھر گھر بھی

یہ طریقہ نبی﷐ کا ہو، رہے یہ منظر بھی

دین کوپھیلانے، خدا کے لئے چلناہے ہمیں

حسبِ تشکیل گھروں سے بھی نکلنا ہے ہمیں