شاہرائے محبت
تقریظ
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ وَ الَّذِیْن َ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ
اس میں اللہ پاک ایمان والوں کی ایک خاص صفت کا ذکر فرمارہے ہیں کہ ایما ن والوں کی دلوں میں شدید محبت ہوتی ہے اللہ پاک کی اور حق کی اور محبت کااگر ایک ہی لفظ میں خلاصہ بتایا جائے تو وہ عشق ہی بنتا ہےیعنی اللہ تعالی اور اللہ کے رسول کے ساتھ اتنا تعلق ہو جائے کہ اپنی جان سے اولاد سےمال سے اور ہر چیز سے بڑھ کر ہو۔یہی مقصود ہےاسلام کا کہ اتنی شدید محبت ہو جائے اور پھر حج کا سفر تو ہے ہی عشاق کا سفر۔ حج تکمیلی رکن ہے۔ حضورﷺ سارے مراحل اپنے صحابہ سے طے کرانے کے بعداس آخری رکن حج کے ذریعے عشق کی کامل منا زل تک پہنچا نے کے بعد پھر اس دنیا سےرخصت ہو گئے ۔ہمارے عزیز دوست جو اپنے سلسلے کی بہت خدمت کر رہے ہیں برادر شبیرسلمہ اللہ ، اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ہمارے اکابرین کی تعلیمات کی اشاعت جو کہ عین عشق کی تعلیمات ہیں کومزید پھیلانےکا ذریعہ بنیں۔انہوں نےخوب محبت کے ساتھ اپنی کتاب شاہراہ محبت میں اس سفر کی داستان کو نثر اور نظم میں قلم بند کیا ۔ بندے نے اس میں سےتقریبا سارے کو دیکھا۔سفر کے شروع سے لے کے مدینہ منورہ کےسفر تک اور ماشاءللہ پڑھتے ہوئے خاص کیفیت بن جاتی ہے ۔نثر کے ساتھ ساتھ شعروشاعری کو عشاق کے ساتھ خاص مناسبت ہوتی ہےایسے عشاق کےلئے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ یہ بہت مفید ہے اور دل سے دعا ہے کہ قبولیت عام بھی عطا فرما ئےاور تام بھی عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
عبد المنانعفی عنہ
خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد اشرفصاحب سلیمانی
مقام ابو حنیفہ مسجد حرم مکہ مکرمہ
بمطابق 15 نومبر 2012ء ، ۳۰ ذی الحج ۱۴۳۳ ھ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور اگر نہیں ہے تو ہونی چاہیے۔پس ہر وہ ذریعہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا باعث بنے اسے استعمال کرناضروری ہوگا۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ نے دین پر عمل پیرا نہ ہو سکنے کی دو قسم کی وجوہات بتائی ہیں۔ ایک وہ جو طبیعت کی وجہ سے ہوتی ہیں مثلاً شہوات کی محبت، نماز میں کسل، زکوٰۃ کا نہ دینا وغیرہ۔دوسری وجہ عقل پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہونا ہے۔ پہلی کی تدارک کے لئے نماز، روزہ اور زکوۃ فرض کئے گئے اور دوسری کے لئے حج۔حج کے اعمال پر اگر نظر دوڑا ئی جائے تو ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں وہ اعمال کرائے جاتے ہیں جن میں یا توبے مہارعقل پر انحصار کا توڑ ہے یا اللہ تعالیٰ کے ان محبوبوں کے منتخب اعمال ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں عقل کو حائل نہیں ہونے دیا یعنی دوسرے لفظوں میں عقل کے فیصلہ کن کردار کی نفی کی گئی ہے ۔اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جاسکتا کہ شریعت عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے بلکہ شریعت تو شریعت کے لئے عقل کے استعمال کو بہت مستحسن سمجھتی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے عاری لوگ جب شریعت کے کھلے احکامات کی مزاحمت کرتے ہیں تو ان کی اس حرکت کی اصلاح ضروری ہوجاتی ہے اسے ہی عقل پر غیر ضروری انحصار کہتے ہیں اور اسی کے تدارک کے لئے حج مشروع کیا گیاہے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے بھی محبت کرنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ “ تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک مجھے اپنی اولاد سے، اپنے والدین سے بلکہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے” اور حضرت عمرؓ کو تو فرمایا “ جب تک تم اپنی جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب نہیں سمجھو گے اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا ” ۔ پس ہمیں ایسے طریقوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے جن کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کے محبو بوں کی محبت نصیب ہوجائے۔ان طریقوں میں نعت اور منقبت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔اس کتاب میں اگر ایک طرف حج کے سفر نامے اور حمد باری تعالیٰ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف اس میں مدینہ منورہ کے قیام کے حالات اور نعت شریف کے ذریعے آپ ﷺ کی محبت کی دلوں میں آبیاری کی کوشش کی گئی ہے ۔جہاں کہیں نفس کی اصلاح کا کوئی پہلو سامنے آتا ہے اس کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی نفس کی اصلاح جو کہ حب الٰہی کاہی ایک سفر ہے۔ اس کو خاص طور پر اس میں شامل کیا گیا ہے۔پس یہ کتاب انشاء اللہ بجا طور پر ایک شاہراہ ہے جس پر چل کرمطلوب محبت کا راستہ طے کیا جاسکتا ہے۔اسی لئے اس کا نام توکلاً علی اللہ شاہراہ محبت رکھا گیاہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اسم با مسمٰی بنادے ۔آمین۔
اس میں چونکہ مثنوی کے طرز پر سفر نامہ لکھا گیا ہے لہٰذا درمیان میں غزل یا نظم کی صورت میں حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی موجود ہے ۔اس کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے دو مختلف طریقے استعمال کئے گئے ہیں۔مثنوی کو صفحات کے دائیں بائیں لکھا گیا ہے اور غزلوں اور نظموں کو صفحات کے درمیان میں ۔پس ہر دو کا فرق واضح ہوگیا ۔پہلے ارادہ تھا کہ ہرایک کے لئے ایک مختلف رنگ استعمال کیا جائے لیکن اس پر خرچ کچھ زیادہ ہی تھا جس سے اس کے شائقین کی جیب پر بوجھ پڑنے کے پیش نظر فی الوقت یہ فیصلہ بدل دیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے اور جس مقصد کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا ہے اس مقصد کو بدرجہ اتم پورا فرمائے آمین ثم آمین۔
اس کی ابتدا میں حج کا "عاشقانہ طریقہ" کےعنوان سے عشاق کے حج کرنے کا طریقہ دیا جارہا ہے ۔
امسال حج پر جانے سے جذبات کو مزید انگیخت ہوئی ۔یوں کلام میں مزید اضافہ ہوا جس کو اس کتاب کے آخر میں یاجہاں مناسب ہوا ، شامل کیا جارہا ہے تاکہ یہ کلام جن کی امانت ہے وہاں تک پہنچ جائے ۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔آمین۔ثم مین۔
سید شبیر احمد کاکاخیل
حج کا عاشقانہ طریقہ
دو ترتیبیں یہ ہیں ۔ایک رحمانی اور دوسری شیطانی۔ رحمانی ترتیب میں عقل جذبات کو قابو کرتی ہے اور عقل پر شریعت حاکم ہوتی ہے جبکہ شیطانی ترتیب میں جذبات عقل کو متاثر کرتے ہیں اور آفاقی تعلیمات یعنی شریعت میں تاویلیں کر کے نفس کی غلط خواہشوں کا دفاع کیا جاتا ہے جیسا کہ غیر مسلم مادر پدر آذاد معاشرہ کرتا ہے۔اس میں نفسانی خواہشات عقل پر اتنی غالب ہوجاتی ہیں کہ عقل کا کام ہی صرف ان ہی خواہشات کو پورا کرنا رہ جاتا ہے۔حدیث شریف میں ایسے لوگوں کو بے وقوف کہا گیا ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے ۔
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللهِ عز وجل
جس کا مفہوم یہ ہے کہ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لیے کام کیا اور بیوقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اپنی خواہشات پورا کرنے میں لگا دیا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ سے بغیر توبہ کئے مغفرت کی امید کرتا رہا۔پس وہ عقل جو جذبات سے مغلوب ہوکر شریعت کی خلاف ورزی کا سبب بنے فی الاصل بے وقوفی ہے ۔لہٰذا عقل کی صورت میں اس بے وقوفی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔شرعی فرائض کی جو حکمتیں ہوتی ہیں ان میں نماز کی روح عبدیت ہے، روزہ کی قوت بہیمیہ کی مخالفت ہے تاکہ تقویٰ حاصل ہوسکے ۔زکوٰۃ کی حکمت مال کی محبت کو کم کرنا ہے ۔اس طرح حج کی روح اس منفی عقل کا توڑ ہے اور عشق الٰہی کا حصول ہے ۔ شاعر نے نفسانی عقل اور ایمانی عقل کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے:
عقل نفسانی بمقابلہ عقل ایمانی
جو عقل نفس سے اثر لےعقل نفسانی ہے
جو ہو ایمان سے منورعقل ایمانی ہے
عقل نفسانی کی محدود نظر کیا سمجھے
عقل ایمانی پہ ہوتی اس کو حیرانی ہے
عقل ایمانی کا دل سے ہے تعلق اس لئے
چاہیے اس کو ہمیشہ قلب نورانی ہے
نفس کے جو بھی تقاضے ہوں بے مہار ان کو
دبائیں ، ٹھیک ہوں تو اس میں ہی آسانی ہے
اس طرح نفس کا پھر عقل پہ غلبہ نہ رہے
نہ رہے اس پہ ، نفس کی جو حکمرانی ہے
نفس مطمئن، قلب سلیم ہو، اور فہم رسا
نصیب میں ان کی پھر زمین کی سلطانی ہے
عقبیٰ محفوظ ہو راضی ہو رب اور جنت میں
شبیؔر ملے گی انہیں رب کی جو مہمانی ہے
مندرجہ بالا تمہید میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے لیے اور باقی تمام چیزوں کو انسان کیلئے پیدا کیا ہے ۔اور انسان میں چونکہ دل جسم کا بادشاہ ہے ۔اس لیے جب اس بادشاہ کو حقیقی بادشاہ کا خادم بنایا جائے گا تو سارا جسم حقیقی بادشاہ کا تابع ہوجائے گا یعنی شریعت پر حقیقی طور پرعمل پیرا ہوجائے گا - بصورت دیگر سارا جسم فاسد ہوجائے گا اور اس سے جسم کے سارے اعضاء شریعت کے خلاف چل پڑیں گے جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے ۔
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ رواہ البخاری
اس کا مفہوم یہ ہے کہ آگاہ ہوجاؤ بیشک اس جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگرو ہ ٹھیک ہوگاتو سارا جسم ٹھیک ہوگا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ہوگا۔ آگاہ ہوجاؤ یہ دل ہے۔
قرآن پاک میں ایسے خوش قسمت حضرات کے تذکرے موجود ہیں جن کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبت موجزن تھی اس لیے جب مختلف مواقع پر ان کو آزمایا گیا تو انہوں نے اپنے نفس کی خواہش کے خلاف اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہا اور وہ سرخرو ہوگئے اور ابدی کامیابی حاصل کرلی۔ایسے ہی ان میں سےبعض
اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی اللہ تعالیٰ کی محبت میں دی ہوئی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ قبول فرمایا بلکہ رہتی دنیا تک ان کو اپنے بندوں کے لیے ایک نمونہ بنادیا اس طرح کہ ان کے کیے ہوئے اعمال کو حج کے موقع پر کروایا جاتا ہے تاکہ سب کو اس کا پتہ چل جائے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں کس طرح اپنے تن من کو قربان کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ان قربانیوں کو کیسے قبول فرمایا۔آدم علیہ السلام کی عرفات میں حوا بی بی کے ساتھ ملاقات ،ہاجرہ بی بی کا اپنے بیٹے کی محبت میں پانی کے لیے دوڑنا ،منیٰ میں اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے لے جانا ،شیطان کے وسوسے کے جواب میں اس کو کنکریاں مارنا ، یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئیں کہ اب ہر حاجی کے لیے اسی طرح کرنا واجب ٹھہرگیا۔ایک بات یاد رکھنی چاہيے کہ جب کوئی اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اس کی محبت اللہ کی محبت ہوتی ہے مثلاً ہاجرہ بی بی چونکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کی وجہ سے قبول ہوچکی تھیں تو اب وہ دوڑ تو رہی تھیں اپنے بیٹے کی محبت میں لیکن اس کو
اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے طور پر لیا۔
حج میں ایسے ہی محبوبوں کے اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیے ہوئے کارنامے زندہ کئےجاتے ہیں ۔تاکہ ان مثالوں کو دیکھ کر حج کرنے والے اپنےد لوں کا رخ درست کرسکیں۔پس حب الٰہی میں یہ والہانہ پن ، دیوانہ پن اور فدا ئیت حج کی روح ہے ۔جس کسی کے حج میں یہ روح نہ ہو اس کا حج زندہ حج نہیں ہوتا ۔دوسری طرف اگر حج میں یہ روح کارفرما نہ ہو تو پھر حج کا ہر عمل انتہائی مشکل ہوجاتا ہے لیکن اگر اس میں یہ روح کارفرما ہو تو حج کا ہر عمل بے انتہا لذیذ، پر کیف اور آسان ہوجاتاہے۔محبوب کے در کی طرف چلنا مشکل ہے یا آسان کسی عاشق سے پوچھ کر دیکھیں۔حج کے اعمال سیکھتے وقت اگر اس روح کا بھی خیال رکھا جائے تو صحیح حج انشاء اللہ نصیب ہو سکتا ہے۔
حج نہیں ہے مگر عشق کی منزلیں
بس خدا کو جو محبوب ہیں حرکتیں
اس طرح کرنا حب الٰہی کے ساتھ
اس طرح کرتے کرتے ہم عاشق بنیں
وہ عقل کیا جو اس کی مخالف بنے
وہ عقل ہم بھی خود سے علیحدہ رکھیں
بات اصل ہے یہی کرنا ہم کو ہے وہ
جس سے خوش ہم سے محبوب ہمارےرہیں
کرنا کیا ہے ؟ یہ معلوم کیسے ہو پھر
وہ طریقہ بتایا ہے کس نے ہمیں
اس کے محبوب نے جو سکھایا ہے تو
اس طریقے پہ بالکل ہی ہم بھی چلیں
یہ طریقہ ہے سیدھا جنت کا شبیؔر
نہ رکیں اور اس پہ ہمیشہ چلیں
گھر سے روانگی
گھر کے ساری ذمہ داریوں سے شرعی طریقے سے فارغ ہوکر دل سے پھر سب کو اپنے سمیت اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں ۔اس پر بھروسہ رکھیں اوردو رکعت صلوٰۃ حاجت اور مسنون دعا پڑھ کراس مبارک سفر پر روانہ ہوں۔
اب تیرے بھروسے پہ میں ہوتا ہوں روانہ
یا رب تو بنا دینا مجھے اپنا دیوانہ
پیوست کرے میرے تو رگ رگ میں محبت
کردے نصیب اپنی معرفت کا خزانہ
میں کیا ہوں گناہ گار سیار کار و غلط کار
رستہ مجھے نصیب ہوا ایسا جانانہ
اب دل سے میں دنیا سے کروں ہجر کی تدبیر
اب اس کی محبت کو میرے دل میں نہ لانا
اب شوق سے میں اللہ کو اپنے دل میں سماؤں
ہو جاؤں خوش نصیب اگر یوں ہو سمانا
شبیؔر تو عاجز ہے ، مگر تو تو ہے قادر
قدرت سے اب رسول کی سنت پہ چلانا
ہو سکے تو ان اشعار کو پڑھ کر اپنے گھر سے چلیں۔آپ کی حج کی جو بھی ترتیب ہے وہ تو آپ کو بتادی گئی ہوگی اور ظاہر ہے کہ آپ کو ایسا ہی کرنا چاہيے لیکن دل تو ہر جگہ آپ کے ساتھ ہوگا اس کو ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رکھیں۔ایک پر کیف دعا کے ساتھ کہ اے اللہ تعالیٰ میں چل تو پڑا ہوں تجھے پانے کے لیے لیکن منزل پر تو تو ہی پہنچائے گا۔ پس ہمیں اپنی ظاہری اور حقیقی منزل دونوں پر اپنے
حبیب پاکﷺ کے طفیل پہنچا دے۔پس آپ اگر حاجی کیمپ جارہے ہیں تو وہاں بھی حج کے مسائل سیکھنے کے ساتھ دل کی فہمائش بھی جاری رکھیں۔
اے دل اسی رستے پہ یوں جایا نہیں کرتے
محبوب کے رستے میں گھبرایا نہیں کرتے
کتنی ہوں تکالیف ہیں دشنام محبت
ماتھے پہ اس میں بل کبھی آیا نہیں کرتے
جی ہاں یہ رستہ یوں ہی ہے ۔قدم قدم پر چیکنگ ہورہی ہے اور قدم قدم پر نوازا جارہا ہے۔ہوش بھی قائم رکھنا ہےاور جوش بھی ۔
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باختن
ہر حاجی کو یہ سمجھنا ہے کہ یہ میرے محبوب کا مہمان ہے ۔اگر اس کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تو کم از کم ا س کے لیے کسی پریشانی کا باعث تو نہ بنوں ۔پس جس طرح مریدین اپنے شیخ کی اولاد اور شاگرد اپنے استاد کی اولاد کی غلطیوں پہ دل برا نہیں کرتے تو ہم اللہ کے ان مہمانوں پہ دل کیوں برا کریں۔سارے کام حوصلے اور ہمت سے کرتے رہیں۔انتظامیہ کو محبوب کا دربان سمجھتے ہوئے۔ان کی درشتی اور سختی کو محبوب کا امتحان سمجھا جائے۔
مرے محبوب کو حق ہےکہ آزمالے مجھے
میں اس پہ مر مٹا جو ہوں اٹھا بٹھا لے مجھے
اس کا دربان بھی محبوب کا دربان ہے جب
ٹھیک آداب محبت ذرا سکھا لے مجھے
ہاں میں کمزور ہوں درخواست کروں گا اس سے
مجھ کو کمزور سمجھ کریوں ہی اپنا لے مجھے
میں ہوں جب شوق سے مجبور مری کیا اوقات
خود کرم کرکے رستہ آپ ہی دکھالے مجھے
مرے دشمن ہمہ وقت ساتھ مرے پھرتے ہیں
ان کی دھوکوں کے منجدھار سے بچالے مجھے
دل مرا اس پہ نظر اس پہ سوچ اس کی ہے
پکڑ کے میری انگلی پیار سے چلالے مجھے
رستہ منزل ہی ہے منزل کا کیا پتہ ہے شبیؔر
رحمت کی بانہوں میںاپنی مگر چھپا لے مجھے
ائر پورٹ پر ممکن ہو تو بہتر ہے کہ نہا کر ،نہیں تو وضو کرکے دو رکعت سنت احرام پڑھ کر ایک چادر کو تہہ بند کے طور پر باندھ لیں اوردوسری کو ساتھ رکھ لیں۔جہاز میں قمیص اتار کر دوسری چادر کو اوڑھا جاسکتا ہے۔خدا نخواستہ جہاز اگر لیٹ ہوا تو احرام کی پابندیاں لازم ہو چکی ہوں گی جس کی وجہ سے دم کا خطرہ رہے گا اور دم لازم آجانے کی صورت میں شیطان کے پریشان کرنے کا خطرہ ہوگا۔
شیطاں سے اپنے آپ کو بچانا ہے ضروری
اور نفس کو طریقے سے چلانا ہے ضروری
دینے پہ وہ مائل ہوں جب آسانی تو شبیؔر
نعمت سمجھ کے اس کو اپنانا ہے ضروری
اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ جہاز پر چڑھتے وقت بعض نادان ائر ہوسٹسز اور سٹیوارڈز ہاتھوں میں خوشبودار تولئے تھما دیتے ہیں اور حاجی ناواقفیت میں ان کو اپنے چہرے پہ مل لیتے ہیں جس سے ان پر دم آ سکتا ہے پس پہلے احرام باندھنا تو مستحب ہو گا لیکن دم سے اپنے آپ کو بچانا واجب ہےاور واجب کو مستحب پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
دور میں بیٹھ کے دیدار سے محظوظ رہوں
قرب میں بے ادبی ہو نے سے محفوظ رہوں
مستحب نیکی سے گناہ سے ہے بچنا افضل
اپنے محبوب کا میں واقف ِرموز رہوں
جہاز میں احرام کی نیت اس وقت کی جائے جب اس کو روانہ ہوئے تقریباً دو گھنٹے گزرچکے ہوں ۔اس وقت احرام کی دونوں چادریں اوڑھ کر اگر دو رکعت سنت احرام پہلے نہ پڑھی ہو تووضو ہونے کی صورت میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھےہی سنت احرام پڑھ لی جائے کیونکہ یہ نفل نماز ہے اور نفل نماز سیٹ پر بیٹھ کر بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
جس طرح کام پسند ہو اس کو ویسا کر لوں
اس کی بنیاد پہ سوچوں کہ اب میں کیا کرلوں
جب سواری پہ نفل بیٹھ کے پڑھ چکےہیں محبوب
میں نفل سیٹ پہ کیوں نہ اس طرح ادا کرلوں
سنت احرام پڑھنے کے بعد عمرہ کی ، صرف حج کی یا حج اور عمرہ دونوں کی یعنی جیسے بھی آپکا ارادہ ہے نیت کر ليجئے۔ا سکے بعد کم از کم ایک دفعہ تلبیہ پڑھیں۔
کس کام کا ارادہ میں کر نے چلا ہوں اب
یہ فضل ہے اس کا ہی میں قابل ہوںاس کا کب
لبیک ہے زباں پر دل میں ہے اس کی یاد
بندہ ہوں گنہگارمیں حاضر ہوں میرے رب
نیت مری قبول ہو اورآسان بھی فرما
آپ میری معافی کا بناليجئے سبب
یہ نام بھی عظیم ہےاور کام بھی عظیم
میں اس میں بنا لوں نہ کہیں خود کو بے ادب
دل شوق سے پر اور زبان پر ہو ترا نام
مانگے شبیؔر اور بڑھا دے مری طلب
اس کے بعد لبیک کے ذریعے محبوب کے دربار میں زیادہ سے زیادہ حاضری لگاتے رہیں ۔کیا کوچہء یار میں آواز لگانے سے کوئی تھک سکتا ہے۔ہاں ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم اب قبول ہوجائیں اور اس کا ایک ہی دروازہ محبوب نے بتایا ہے۔ اور وہ اس کے محبوب کا طریقہ ہے اس لیے ہر کام اس کے محبوب کے طریقے پر ہی کرنا پڑے گا ۔سنی سنائی نہیں بلکہ محبوب کی بتائی چلے گی اور وہ کیا ہے۔
پانچ وقفوں کے ساتھ تلبیہ کہنا
لبیک ایک وقفہ
اللّٰھم لبیک دوسرا وقفہ
لبیک لا شریک لک لبیک تیسرا وقفہ
ان الحمد و النعمت لک و الملک چوتھا وقفہ
لا شریک لک پانچواں وقفہ
اس ترتیب کو تین مرتبہ دہرا ئیں۔
اس کے بعد ایک دفعہ درود شریف پڑھیں اور اس کے بعد کوئی بھی دعا مانگیں لیکن اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو یہ مسنون دعا ہے
حاجی صاحبان جو کورس کی صورت میں تلبیہ پڑھتے ہیں وہ مسنون نہیں ہے۔ تلبیہ مسنون طریقہ پر انفرادی طور پر پڑھنا ہے۔ہاں تعلیم کے لیے کچھ دیر اکھٹے پڑھا جا سکتا ہے۔
جدہ میں انتظار
جدہ جو کہ سعودی عرب کا بین الاقوامی ائر پورٹ ہے۔اس میں چونکہ کافی کچھ ہوتا ہے اس لئے کافی لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔وہاں ایمیگریشن ،سامان کی چیکنگ،مکتب کے بسوں کا حصول وغیرہ کے تمام کاموں پر وقت صرف ہوتا ہے۔اجنبی ملک، اجنبی زبان اور اس پر رش ۔ان سب صبر آزما حالات سے سے حجاج کو جن میں سے اکثر کا یہ پہلا تجربہ ہوتا ہے ، کو گزرنا پڑتا ہے۔کسی صوفی کیلئے یہ برداشت کرنا تو اتنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ:
ذکر ذاکر کا انتظار آسان کرتا ہے
اسے پتا ہے کہ عقبیٰ میرا سنورتا ہے
مجاہدے کا تصور بھی نفس کی اصلا ح خوب
تو انتظار سے جو صوفی ہے نہیں ڈرتا ہے
لیکن باقی حجاج بھی عشق کے سفر پر ہیں وہ ان سے پیچھے کیوں رہیں وہ تو بزبان حال یوں گویا ہیں:
یار کو مطلوب جب انتظار ہوؤے
یہ انتظار گلے کاہار ہوؤے
ہم تو نکلے ہیں یار کو پانے
چاہے کوئی کوچہء یار ہوؤے
بے خانماں خانہ بدوش ہوں بس
مگر نصیب اس کا پیار ہووے
دو چادروں میں کفن پوش ہونے
دل ہمارا بھی پھر تیار ہووے
اس سے منسوب گھر کے گرداگرد
پھریں ، دل یوں پروانہ وار ہووے
نفس کو مغلوب کرنا اب ہے شبیؔر
ورنہ یہ شتر بے مہار ہوؤے
مکہ مکرمہ میں داخلہ
مکہ مکرمہ عظمتوں کا شہر، شعائر اللہ کا شہر۔بیت اللہ کا شہر جہاں آپ ﷺ کا بچپن گزرا ، جہاں اسمٰعیل علیہ السلام کو شیر خواری میں ان کی ماں کے ساتھ فقط اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر چھوڑا گیا ، جہاں ہاجرہ بی بی بیٹے کو پیاسا دیکھ کر کسی قافلےکی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں اور یہ دوڑ اللہ تعالیٰ کو اتنی پیاری ہوئی کہ اس کو رہتی دنیا تک اپنےمحبوبوں کے لیے حج اور عمرہ میں واجب کردیا۔اس شہر میں داخلہ کے وقت دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہونا چاہيے۔
محبوب کے دربار میں ہے حاضری نصیب
شہر ِ عظیم میں ہے حاضری مری عجیب
یا رب مجھے توفیق ادب کی بھی عطا کر
میں دور نہ ہوجاؤں ، کرلے اور بھی قریب
جی ہاں! یہ عجیب شہر ہے۔ یہاں ہر نیکی ایک لاکھ کی اور گناہ بھی ایک لاکھ کا ہے۔نادان اسکی ایک لاکھ کی نیکی پر تو نازاں ہوتے ہیں اور سمجھ دار اس میں گناہ کا ایک لاکھ گنا ہونے سے لرزاں ترساں رہتے ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمر یہی تو کرتے تھے کہ نماز حدود حرم میں پڑھتے تھےلیکن رہائش حدود حرم سے باہر رکھتے تھے۔اسی کو سمجھداری کہتے ہیں۔
پہلی نظر
آہ! اب بیت اللہ شریف پر نظر پڑنے والی ہے۔دعاؤں کی قبولیت کی گھڑی قریب ہے ۔ ہوشیار خبردار نہ وقت ضائع کرنا ہے نہ ہی موقع۔کسی مناسب جگہ پر کھڑے ہوکر کہ کوئی سامنے نہ آئے نہ دل بٹے تاکہ زیادہ سے زیادہ دعائیں اس وقت نصیب ہوجائیں۔
کم ازکم یہ تو کہہ لیں کہ: اے اللہ حسنِ خاتمہ نصیب فرما۔ اے اللہ ایمانِ کامل نصیب فرما ۔
اے اللہ مجھے اور آپ ﷺکی پوری امت کو ہدایت عطا فرما ۔
اے اللہ مجھے مستجاب الدعوات بنادے۔
اگر یہ فقیر آپ کو یاد آئے تو زہے نصیب ۔اس کے لئے تو یہ دعا فرمادیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا بنادے، کسی غیر کا نہیں۔
گناہ گار ہوں معافی تو مگر دے
میں کعبہ دیکھ لوں دل کی نظردے
کرم فرما کرم فرما دے مجھ پر
محبت میرے دل میں بھی تو بھر دے
میں تیرے غیر کو دیکھوں نہیں اب
بنوں تیرا مجھے آہ سحر دے
زبان پر ذکر تیرا دل میں قرآں
فضل سے اس کا حافظ مجھ کو کردے
نہ بھولوں اس کو اور تجھ کو نہ بھولوں
مری دعوت میں خود سے تو اثر دے
الٰہی اب شبیؔر کو کردے واصل
نظر کر پاک اور دل باخبر دے
اللہ کے گھر کا طواف
اگر آپ عمرہ کی یا حج قران کی نیت کرچکے ہیں تو اب آپ کو عمرے کا طواف کرنا ہے۔اور اگر حج افراد کی نیت ہے تو طوافِ قدوم کرنا ہے ۔ بہر حال آپ کی خوش قسمتی کہ اللہ کے گھر کا طواف آپ کو نصیب ہورہا ہےجومقام شکر ہے ۔کعبہ کی عظمت کا ادراک کرتے ہوئے حجر اسود کی جانب قدم بڑھائیے۔ چادر کو دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پہ ڈال دیں ۔یہ اضطباع کی حالت ہے اور حالت ِطواف میں یہی کیفیت رہےگی۔
حجر اسود کےمقابل آنے سے پہلے طواف کی نیت کرلیں۔
میں طواف کی سات چکروں کی نیت کرتا ہوں ۔اے اللہ اس کو قبول فرما اور آسان فرما ۔اور ہاتھ کانوں تک اٹھاکر
اللہُ اَکْبَرْ وَ لِلہِ الْحَمْدْ
کہہ کر گرادیجئے ۔یہ گویا طواف کاتکبیر تحریمہ ہوگیا ۔اب حجر اسود کا ا ستلام کرنا ہے۔چاہيے تو یہ تھا کہ حجر اسود کو بوسہ دیا جاتا لیکن حجر اسود پہ خوشبو ہے جو احرام کی حالت میں استعمال کرنا منع ہے ۔کیوں نہیں؟
آدابِ عشق اور ہیں آدابِ ہوش اور
دیوانگی کی بات تو لاتی ہے جوش اور
خوشبو کی دلفریبی تو سنت سے ہے ثابت
ہاں عشق کا جب جام ہو کیجئے نوش اور
تیرے لیے عشاق کا نظام دلفریب
سنت سے بھی ثابت ہے یہ جوش و خروش اور
دو چادریں جو تیرے زیب تن ہوئی یہاں
تیرا یہی کفن ہے محبت کا پوش اور
محبوب کے محبوب کے محبوب طریقے
لے ان پہ چلو چاہیے کیا تجھ کو دوش اور
استلام کے لیے اشارہ کی اجازت ہے ۔اپنے دونوں ہاتھ اس طرح سامنے کریں کہ یوں محسوس ہوکہ یہ جیسے حجر اسود پررکھے ہوئے ہیں ۔اب ان کو چوم کر دائیں جانب گھوم کر طواف شروع کر لیں لیکن یاد رہےاگر یہ آپ کے عمرہ کا طواف ہے تو اس میں رمل بھی کرنا ہے کیونکہ اس کے بعد سعی ہے اور اگر طواف قدوم کے بعد سعی کا بھی ارادہ ہو تو پھر بھی رمل کرنا پڑے گا۔رمل طواف میں قوت کا اظہار ہے ہاتھوں کی جھٹک اور پیروں کی لپک سے قوت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔یہ صرف پہلے تین چکروں میں کیا جاتا ہے۔
ایک اہم نکتہ ۔بالائی منزل پر طواف کرتے وقت جو ابتدائے طواف کی جگہ کی نشانی بنی ہوتی ہے۔لوگ اس کا استلام کرتے ہیں حا لانکہ وہ حجراسود نہیں ہوتا ہے۔اس لیے استلام کرتے وقت ہاتھوں کا اشارہ اصلی حجرِاسود کی طرف کیا جائے یعنی ہتھیلیوں کو تھوڑا سا نیچے کی طرف موڑ کر استلام کیا جائے۔
دل مرا عشق سے بھرپور ہو اور صاف رہے
یا الٰہی مری قسمت میں یہ طواف رہے
جس طرح شمع کے گرد گھومتے پروانے ہیں
اس طرح میرا نہ اس گھر سے انحراف رہے
طواف کے دوران بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا منع ہے- کیوں؟
الٰہی تیری عظمت دل میں ہےاور ۔۔کعبہ ساتھ
تو چاہے دل ، لگاؤں مڑ کے میں اس کو ذرا ہاتھ
طواف اس کا کروں جس وقت اس کودیکھنا مکروہ
عقل میں کیسے آئے یہ جو ہیں سنت کی تعلیمات
انہی سے سیکھنے ہیں جو کہ انداز ِ محبت ہیں
اگر وہ دن کہے تو دن اگر وہ رات کہے تو رات
صحابہ کا رمل معمول تھا ہم بھی رمل کرلیں
یہ مسجد اور یوں چلنا ؟ کیا سمجھے عقل یہ بات
ہم عقل خام کو اصلی عقل کے واسطے توڑیں
کہے شبیؔر گر سمجھو اصل حج کی ہے یہ سوغات
اضطباع کو ساتوں چکروں میں جاری رکھتے ہوئے ہر چکر کی ابتدا میں استلام کے ساتھ سات چکر پورے کرلیں۔یہ کل آٹھ استلام ہو جائیں گے۔اس کے بعد دو رکعت واجب الطواف پڑھ لىجئے۔چونکہ آپ کا احرام جاری ہے اس لیے یہ نماز ننگے سر پڑھنی پڑے گی۔بڑوں کے سامنے ننگے سر ہونا بے ادبی ہے اور یہاں سب سے بڑے کے سامنے ننگے سر میں نماز ضروری ہے کیونکہ یہی انداز عاشقانہ انداز ہے ۔جب اس وقت یہی انداز محبوب حقیقی کو پیارا ہے تو ہمیں بھی یہی طریقہ اپنانا ہے کیوں؟
کیا ٹھیک کیا غلط ہے کیا اس میں میں سمجھوں؟
محبوب اس میں جو بھی کہے میں وہی کہوں
عاشق کی اپنی سوچ کہاں وہ تو ہے فانی
محبوب ہی دل میں ہے اس کی بات میں مانوں
میری تو یہ سمجھ ہے کہ جو سامنے دیکھوں
محبوب سے پوچھوں میں کہ میں اس کو کیا کہوں
شیطان اپنی سوچ سے کیسا ہوا مردود
مردود کے اغوا سے میں مردود کیوں بنوں
میخانہ دل میں مرے تصویرِ یار ہے
جب چاہوں ذرا سر جھکا کے میں اسے دیکھوں
کثرت سے سفر جانب وحدت ہے اب شبیؔر
بس ایک ہی نظر میں ہے تو کیوں نہ ھُو کروں
واجب الطواف
طواف پورا ہوجائے تو اس کا شکر ادا کرنے کے لیے دو رکعت نماز واجب الطواف پڑھنا واجب ہے۔یہ مقام ابراہیم کے قریب ادا کرنا سنت ہے لیکن اگر اژدہام ہو اور وہاں نماز پڑھنے میں طواف کرنے والوں کو تکلیف ہو یا اپنی جان کو خطرہ ہو تو حرم میں کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
کوشش یوں ہو کوئی بھی مستحب نہیں چھوٹے
اعمال کی اہمیت کی بھی ترتیب ہو سامنے
واجب کے مقابل ہو تو پھر ترک ہو مستحب
یہ قول ہے اہم کہ فقہ کا اصول ہے
اس کے بعد اللہ کا شکر کریں کہ اس نے عمرے کی اہم رکن کی تکمیل کرادی۔مزید ارکان میں آسانی اور قبولیت کی دعا کے ساتھ اپنی مطلوبہ دعائیں کرلیں۔
زمزم کا پانی پینا
اگر روزہ نہ ہو تو زمزم کا پانی پینے اور ملتزَم شریف پر حاضری میں اختیار ہے جو بھی پہلے کرنا چاہیں ، کرلیں۔اب چونکہ چاہ زمزم پر جانا ممکن نہیں اس لیے جو بھی قریب زمزم کا پانی مل جائے نوش فرمالیں ۔اس معجزاتی پانی سے لطف اندوز ہوں کیوں نہیں ؟آپ بھی اللہ تعالیٰ کے مہمان اور جنتی بھی ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنتی بنادے۔
زمزم پانی پینے کی دعا ہے۔
اللّٰھمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ عِلمًا نَافِعًا، وَ رِزقًا وَاسِعًا، وَ شِفَاءًمِن´ کُلِّ داء
یہ دعا پڑھ کر خوب ڈٹ کر پانی پیئں۔
بجھا دے پیاس آج موقع ہے آپ زمزم کے پانی سے
پیئے اس کو جو جی بھر کے یہ ایماں کی علامت ہے
یہ واسطے جس بھی مقصد کے پیا جائے یقیں ہو گر
خدا کے فضل سے اس سے وہ مقصد پورا ہوجائے
دعا کرعلم نافع کر عطا مجھ کو خداوندا
عطا کر رزق واسع مجھ کو وافر اور شفاہووے
مجھے جو بھی مرض ہو اس سے یا رب میں شفا ء پاؤں
اسے پی کر خدایا حشر میں بھی ہوں نہ ہم پیاسے
ہمارے کام سب ہوں ٹھیک تو ہو مہرباں ہم پر
کریموں کا تو خالق ہے شبیؔر تیرا کرم چاہے
ملتزَم شریف پر حاضری اور دُعا
زمزم کا پانی پی کر اگر ممکن ہو تو ملتزَم شریف پر جائیں۔حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کی درمیان کی جگہ کو ملتزَم شریف کہتے ہیں ۔ اگر ملتزَم شریف سےچمٹنےکا موقع نہ مل سکےتو حرم میں کہیں سےبھی ملتزَم کی جانب منہ کرکےاسپر نظریں جما کر دُعا کرلیجئے۔یہ دعاؤں کی قبولیت کی خصوصی جگہ ہے۔اس لیے دل لگا کر دعا کیجئے۔ اس عاجز کو بھی گر یاد کرلیں تو بڑا احسان ہوگا۔
جو مانگیں ملتزَم پہ دعا وہ قبول ہو
جو دل کا ہو مراد تو اس کا حصول ہو
رحمت کے خزانے سے جس نے دل لگادیا
اس دل پہ رحمتوں کا پھر نہ کیوں نزول ہو
صفا مروہ کی سعی
صفا اور مروہ کےدرمیان مخصوص طریقہ پر سات چکر لگانےکوسعی کہتےہیں، حج اور عمرہ کرنےوالےپر سعی کرنا واجب ہے۔جس طرح طواف حجر اسود کےاستلام سےشروع ہوتا ہےاسی طرح سعی بھی حجر اسود کےاستلام سےشروع کرنا آپ کی سنت ہے۔ اسلئےحجر اسود کا استلام کر لیں۔ یا دور سےاسکی جانب ہتھیلیاں اٹھا کرہتھیلیوں کو چوم کر باب الصفا کی جانب بڑھیں۔یہ حجر اسو د کا نواں استِلام ہوگا۔
حجر اسود کی کی مخالف سمت میں بالکل سیدھ میں چلیں، اسی جانب صفا پہاڑی کا مقام ہےاور وہاں عربی و انگلش میں “الصفا ” کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ وہاں سےتھوڑا آگےبڑھنے کے بعد پہاڑ کی علامت شروع ہو جاتی ہے۔اب دل میں سعی کی نیت کریں اور زبان سےاِس طرح پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ السَّعیَ بَینَ الصَّفَا وَ المَروۃَ سَبعۃ اَشوَاطٍ لِوَجھِکَ الکَرِیمِ ، فَیَسِّرہ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی
پھر دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائیں جیسےدعا میں اٹھائےجاتےہیں۔ اور خوب دعائیں مانگیں،تقریبا پچیس آیات پڑھنےکی مقدار کھڑےرہ کر اپنی رفتار سےذکر کرتےہوئے، دعا مانگتےہوئےمروہ پہاڑی کی طرف چلیں۔
صفا مروہ نشانی ہے خدا کی
یہ برکت ہے مگر اک باخدا کی
ترا محدود اس کا ہو گیا جب
رسی پکڑو گے اس کی انتہا کی
یہ پانچوں حس تمہاری پاک ہوویں
میسر تجھ کو ہے گر دل کی پاکی
قیامت تک یہاں دوڑیں گے سارے
قبول کتنی ہے دوڑ وہ ہاجرہ کی
نقل کرنا ہے یاں مطلوب شبیؔر
یہی سنت ہے سارے اولیاء کی
صفا مروہ کےدرمیان جب وہ جگہ آنےلگےجہاں دیوار میں سبز رنگ کےستون لگائےہوئےہیں اور وہ جب بقدر چھ ہاتھ کےدوری پرہو تو درمیانی چال سےدوڑنا شروع کریں اور دوسرے سبز ستونوں کےبعد بھی چھ ہاتھ تک دوڑیں، اس دوران دل کی گہرائیوں سےدعائیں مانگےاور یہ دعا پڑھتےرہیں ۔
رَبِّ اغفِر ،وَ ارحَمْ ط اَنتَ الاعزُّ الاکرَم
پھر اپنی چال چلنےلگیں۔ آگےمروہ پہاڑی آئیگی ، اس پر چڑھیں اور بیت اللہ کی جانب رخ کرکےکھڑےہو کر جسطرح صفا پہاڑی پر ذکر و شکر اور دعائیں کی تھیں اسی طرح یہاں بھی کریں، اب آپکا ایک چکر مکمل ہوگیا، اسکےبعد مروہ سےصفا یہ آپکا دوسرا چکر ختم ہوا، بس اسی طرح آپکو سات چکر مکمل کرنےہیں۔ ساتواں چکر مروہ پہاڑی پر ختم ہوگا۔ اب آپ مطاف میں آکر کسی بھی جگہ دو رکعت نماز پڑھیں ، شرط یہ ہےکہ مکروہ وقت نہ ہو۔
حلق کرنا
اگر آپ کی عمرہ کی نیت تھی تو اس کے بعد شوق سے حلق کرا کے یعنی سر کو منڈوا کر احرام کھول دیجئے ۔آپ قصر بھی کرسکتے ہیں یعنی ایک چوتھا ئی سر کے بال اگر ایک پور سے زیادہ ہیں تو ایک پور کے برابر تراش کر احرام کھول سکتے ہیں لیکن اگر آپ عشق کے مسافر ہیں تو سر کو ہی منڈوا لیجئے کیونکہ آپ ﷺ نے اس موقع پرسر کو منڈوایا ہے نیز آپ ﷺ نے سر منڈوانے والوں کے لیے تین دفعہ اور قصر کرنے والوں کے لیے ایک دفعہ دعا فرمائی ہے۔فرق صاف ظاہر ہے ۔خیر کسی نے صحیح قصر کرلیا تو بھی ٹھیک ہے لیکن حنفی ہوکر چند بالوں کو تراش کر قصر پر مطمئن ہونے والو! کیا محبوب کو پانے سے اپنی محبوب زلفیں زیادہ عزیز ہیں ذرا سوچو تو سہی!
آپ نے پیاری زلفیں منڈوا کر اپنی امت کو کچھ سکھایا ہے
عشق کی اس منفرد عبادت میں اپنے مٹنے کو یوں بتایا ہے
ایسے موقعہ پہ زلفیں پیاری ہوں ایسا ہو ذوق تو عجیب ہے وہ
چاہئیے خود کو مٹائیں یوں ہم اس کا یہ راستہ دکھایا ہے
ٹھیک ہے قصر کرنا بھی ہے ٹھیک اپنے مسلک کے مطابق ہو گر
چند بالوں کے بچانے کے لیے اپنے مَسلک کو کس نے ڈھایا ہے
خواہش نفس اتنی غالب ہو اپنے مسلک کو چھوڑنا ہو آسان
حب دنیا کے سامنے ڈھیر ہے وہ شوق جس نے بھی یوں رچایا ہے
نفس کو عقل سے اور عقل عشق سے کرنا مغلوب حج کی روح ٹھہری
اس سے محروم خود کو کرکے شبیؔر ذوق کیسا کسی نے پایا ہے
حج تمتع والے اب عام کپڑوں میں جبکہ حجِ افراد اور حجِ قِران والے احرام ہی میں حج کا انتظار کریں گے۔
حج کی تیاری اور انتظار
آٹھ ذی الحجہ سےحج کےارکان شروع ہوجاتےہیں، آٹھویں ذی الحجہ کا سورج طلوع ہونے کےبعد احرام کی حالت میں مکہ مکرمہ سے منیٰ کےلئےروانہ ہونا ہے۔ حج کا احرام حدود حرم میں کسی بھی جگہ سےباندھا جا سکتا ہے۔یہ اپنی قیام گاہ پر بھی باندھ سکتےہیں۔نفل طواف کرکےسر ڈھانک کر دو رکعت واجب الطواف پڑھیں۔ اسکےبعد سر کھول کےاحرام کی نیت اسطرح کریں۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ الحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی لَبیکَ اَللّٰھُمَّ لبّیک لبَّیک لا شَرِیکَ لَکَ لبَّّیک، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمۃ لَکَ وَ المُلکَ، لا شَرِیکَ لَکَ
نیت کرکے اور تلبیہ پڑھ کےآپ محرم ہوگئےاور احرام کی وہ ساری
پابندیاں آپ پر عائد ہوگئیں جو عمرہ کےاحرام کےوقت تھیں۔حج ایک مشکل عبادت ہے لیکن عشق اس منزل کو آسان کرتا ہے ۔اس کی ہر دعا کے ساتھ یہ کہنا لازم ہے کہ اے اللہ اس کو آسان فرما ۔بہر حال عشاق کے لئے تو :
حج کے مزے مزے تو ہیں پر کلفتیں بھی کم نہیں
عاشق مزے اس کے نہ لے یہ غم تو ایسا غم نہیں
محبوب کی ادائیں ہیں اور چھیڑ ہے سمجھو اگر
کعبے کے گردگھوم جا کعبہ ہے یہ صنم نہیں
عشاق کی اداؤں کو لازم کیا عشاق پر
عاشق نہ ہو کوئی تو پھرسمجھے یہ زیر و بم نہیں
جب فاصلے زیادہ تھے رش کی بلا نہیں تھی پھر
اب رش کا زور خوب ہے سفر کا گو الم نہیں
اللہ کے بھروسے نے کیا ہاجرہ بنادیا
ضائع جو اس کی دوڑ کا کوئی یہاں قدم نہیں
وہ باپ جو حلیم ہے بیٹے پہ مہرباں بھی ہے
بیٹے کو ذبح کرنے میں اس کو کوئی شرم نہیں
دھکے پہ دھکے کھائے جا گر گر کے بھی سنبھل شبیؔر
عاشق ہو کیونکر آنکھیںبھی گر اس خوشی میں نم نہیں
منیٰ کےلئےروانگی
آٹھویں تاریخ کو آپ نےحج کا احرام باندھ لیا، اب آج ہی آپکو منیٰ جانا ہے، منیٰ میں کوئی خاص عمل آپ کو نہیں کرنا، بس ظہر، عصر، مغرب، عشاءاور ٩، ذی الحجہ کی فجر کی نماز منیٰ میں اد ا کرنی ہیں۔آج سے نفسانی عقل اور عشق حقیقی کا معرکہ شروع ہورہا ہے۔اس میں ثابت قدم رہنا پڑے گا۔جو دشمن اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنے عظیم باپ کے خلاف اُ کسا رہا تھا جس پر اسمٰعیل علیہ السلام نے اس کنکریاںرسید کی تھیں وہ موجودہ ہے اور اس کے دل میں زبردست کینہ ہے وہ آپ کے دل میں بھی قدم قدم پر وسوسے ڈالے گا لیکن اس کا جواب تو ایک عاشق ہی دے سکتا ہے دیکھتے ہیں کہ عاشق اپنے دل سے کیا کہہ رہا ہے؟
اے دل کوچہ ء عشق میں جانے کے لیے چل
محبوب کو منیٰ میں منانے کے لیے چل
سب کچھ مرا قُربان ہو محبوب پہ ابھی
دیوانگی سر ننگے دکھانے کے لیے چل
بیٹے کو ذبح کرنا تھا خلیلؑ نے جہاں
تو بھی قدم وہاں کچھ اٹھانے کے لیے چل
ڈیرہ جمانا آج کہاں تجھ کو ہے نصیب
راہ فنا پہ قدم جمانے کے لیے چل
عشاق کا لباس زیب تن کئے شبیؔر
انگوٹھا عقلِ نفس کو دکھانے کے لیے چل
نویں ذی الحجہ کو عرفات کےلئےروانگی
نویں ذی الحجہ کی صبح سورج نکلنےکےبعد منیٰ سےعرفات جانا ہے، آج مغفرت کا دن ہے، آج یوم عرفہ ہے، مسئلہ کی رُو سےمیدان عرفات میں 9، ذی الحجہ کی دو پہر سے 10، ذی الحجہ کی صبح صادق تک کچھ دیر کا قیام حج کا رکن اعظم ہے، جس کےبغیر حج ادا نہیں ہوتا۔
9، ذی الحجہ کو فجر کی نماز کےبعد تکبیرات تشریق شروع ہو جاتی ہیں، منیٰ اور عرفات دونوں جگہ فرض نمازوں کےبعد ایک بار بلند آواز سےتکبیر تشریق پڑھیں۔
اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہُ اَکْبَر ، لَااِلٰہَ الاّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَر ، اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدْ
9، ذی الحجہ کی فجرسے10، ذی الحجہ تک فرض نماز کےبعدپہلےتکبیر تشریق اور پھر تلبیہ پڑھیں، چونکہ تلبیہ دسویں تاریخ کی رمی کےساتھ ختم ہو جاتا ہےاس لئےباقی ایام میں (یعنی 13، ذی الحجہ کی عصر تک) صرف تکبیرتشریق پڑھیں۔
تجھے پتہ ہے کہاں ہے جانا قدم بڑھانا قدم بڑھانا
ملے گا تجھ کو وہاں پہ رحمت کا آج کتنا بڑا خزانہ
قدم قدم پر ملے گاتجھ کوکیا ؟ یہ سمجھو ذرا اے حاجی
اصل میں یہ تو ہے رب کی جانب سے مغفرت کا بس اک بہانہ
یہ وہ جگہ ہے جہاں پہ شیطان کو آج ملتی ہے کتنی ذلت
معاف کروا کے خود کو روکر ،لے اس کے دل کا ذرا نشانہ
یہی تو دن ہے کہ اس کی خا طریہ لوگ آئے ہیںکہاں کہاں سے
قبول تیری یہ حاضری ہے ،تو منہ پہ لبیک خوب سجانا
اگرچہ کچھ بھی نہیں ہیں رکھتے کہ پیش کردیں ہم اسکے آگے
پسند اس کو مگر بہت ہے تری ادا آج یہ عاشقانہ
یہاں پہ محشر کا ایک سماں ہےتری نہ لوگوں پہ کچھ نظر ہو
شبیؔر یکسو تو خود کو کرلے کہیں نہ رہ جائے اس کو پانا
فی زمانہ بہتر یہی ہےکہ اپنےاپنےخیمےمیں روزانہ کی طرح ظہر اور عصر کی نماز اپنےاپنےوقت میں پڑھی جائے۔ وقوفِ عرفات کا وقت زوالِ آفتاب سےشروع ہو جاتا ہے۔اس لئےظہر کی نماز سےفارغ ہو کر وقوف میں مصروف ہو جائیں۔ سایہ کےبجائےدھوپ میں وقوف کرنا بہتر ہے، ہاں اگر کسی ضرر یا بیماری کا اندیشہ ہو تو سایہ میں اور خیمہ میں بھی وقوف کیا جا سکتا ہے۔ ہوسکےتو قبلہ رُخ کھڑے ہوکر پورا وقت یعنی مغرب تک وقوف کیجئے۔ اگر پورا وقت کھڑے رہنا مشکل ہو تو جتنی دیر کھڑے رہنےکی طاقت ہو، کھڑے رہیے۔ ضرورت ہو تو وقوف کےوقت بیٹھنا بلکہ لیٹنا بھی جائز ہے۔
مغرب کا وقت داخل ہوتے ہی کوچ کا وقت آگیا ۔کیا نماز نہیں پڑھنی؟ ابھی نہیں ۔کیوں؟ کیونکہ عاشقوں کو پہلے عشق کی ایک اور منزل پر پہنچنا ہے۔نمازوہاں پہنچ کر پڑھیں گے۔وہ منزل کیا ہے ؟ وہ ہے مزدلفہ ۔اور مزدلفہ جانے کو قافلے چل پڑے ۔کچھ سواریوں پر کچھ پیدل ۔ ہر کوئی مےِعشق کا جام پئے ہوئے ہے۔ روحانیت کے عروج کا مزہ چکھ کر عشق کی اگلی منزل کے لیے اب گویا تیار ہیں ۔ہجوم بیشک بہت ہے مگر دل کیفیت سے پر اور اگلی منزل کے لئے بے چین ہوا جارہا ہے۔
محبوب کے مہمان تھے جانے اس نے کیا دیا
دریائے مغفرت میں ہی غوطہ لگوادیا
نکلے یہاں پہ تیرے جو آنکھوں سے ہیں آنسو
ان کو بھی مغفرت کا ذریعہ بنا دیا
اس تیری مغفرت سے تو شیطان ہوا ذلیل
کچھ کر نہیں سکا تواپنا منہ چھپا دیا
کیا آج اس عرفات کو آنے کا تھا مقام
جواد نے دریائے مغفرت بہادیا
ہے مزدلفہ عشق کی منزل ترے آگے
وہ دن کی اِس کو رات کی منزل بنادیا
مغرب پڑھیں گے کب کتاب عشق میں ڈھونڈو
مزدلفہ پہنچ کر ہی ،کسی نے سنا دیا
سمجھا کہ سمجھنا کتاب عشق میں یوں ہے
شبیؔر وہی ٹھیک جو اس نے بتا دیا
اب لاکھوں انسانوں کی یہ بستی یہاں سےتین میل دورمنتقل ہو جائیگی۔ اور لیجئےاب مزدلفہ پہنچ گئے۔
ہم کو ملی نصیب سے مزدلفہ کی یہ رات
پرکیف و مزیدار ہے محبوب کی ہر بات
مغرب ہے پڑھنی پہلے بعد اس کے پھر عشاء
عاشق کی مختلف ہے آج ترتیب عبادات
آرام کچھ تو نیت سنت سے ہے کرنا
یہ شب شب قدر ہے ،لیل لیلِ مناجات
رخ دل کا اس طرف ہو زبان ذکر پہ اس کے
عاشق کے دل سے پوچھ کہ آج اور ہیں حالات
اب خود کو کردے پیش رضا اس کی مانگ لے
خوب لوٹ لے شبیؔر آج اس کےبرکات
بتلایا گیا ہےکہ مزدلفہ میں رات ٹھہرنےوالےحجاج کےحق میں شب قدر سےبھی افضل ہےاس لئے اس رات کی عظمت اور قدرو قیمت کو یاد رکھیئے۔ یہ رات جاگ کر گزاری جائے۔ عبادت، ذکر، استغفار، توبہ اور درود شریف میں مشغول رہیں، نوافل پڑھیں۔ لیٹنا یا سونا منع نہیں ہے، فجر کی نماز صبح صادق ہو تے ہی اندھیرےمیں پڑھیں۔تاکہ صبح صادق کےبعد تھوڑی دیرمزدلفہ میں وقوف جو کہ واجب ہے،اس پر بھی عمل ہو جائے۔ مزدلفہ کےوقوف کا وقت صبح صادق کےبعد سے شروع ہوکر سورج نکلنےتک رہتا ہے، مزدلفہ سے منٰی روانگی سےپہلےیاد رکھنا چاہیےکہ آپکو منٰی جا کر شیطان کو کنکریاں بھی مارنی ہیں اوراس کا انتظام یہیں مزدلفہ سےہی کریں، کم از کم ستر کنکریاں ایک تھیلی میں رکھ لیں، جب 10 ذی الحجہ کی صبح کا اجالا آسمان پر پھیلنےلگتا ہےتو انسانوں کا یہ سمندر ایک بار پھر منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے۔
منٰی میں قیام اور رمی جمار
دسویں تاریخ کو صرف جمرہ عقبہ کی رمی کرنی ہےاس پر پہلی کنکری پھینکتےہی تلبیہ پڑھنا موقوف ہو جاتا ہےلہذا اسکےبعد تلبیہ نہ پڑھیں۔جمرہ عقبہ کی رمی کا مسنون وقت طلوعِ آفتا ب سے زوال تک ہے۔ مباح وقت بلا کراہت مغرب تک ہےاور کراہت کےساتھ مغرب سے شروع ہو کرصبح صادق سےپہلےتک رہتا ہے۔ رمی کےساتھ تکبیر کہنا مسنون ہے۔ جب کنکریاں ماریں تو یہ دعاپڑھیں۔
بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر، رَغماً لِلشَّیطَانِ وَ رِضًی لِلرَّحمَان
کھلا ہے دشمن ہمارا شیطاں تو ہم بھی دشمن ہی اس کو جانیں
یہ وسوسے ہی تو ڈالتا ہے تو بات اس کی کبھی نہ مانیں
رہ سنت پہ ہی چل کے اس کو ذلیل کرنا ہے اس کا ممکن
طریق سنت پہ آگے بڑھ کے طریق مسنوں سے اس کو ماریں
جو گالی دیتے ہیں اس کو،یہ بھی طریقہ اس نے ہی ہےبتایا
وہاں چپل بھی جو اس پہ پھینکیں یہ بھی ہیں اس کی ہی کچھ ادائیں
دعائے مسنون پڑھ کے شبیؔر طریق مسنوںسے ماریں کنکر
اسی میں ذلت ہے اس کی پنہاں اسی میں ہمت ذرا دکھائی
قربانی
اگر آپ حج تمتع کررہے ہیں تو اللہ تعالی نے چونکہ آپکو اس نعمت سےسرفراز فرمایا لہذااسکےشکرانےکےطور پر قربانی کرنا واجب ہے۔ رمی کےبعد پہلےقربانی کیجئے پھر حلق یا قصر کرواکر احرام کھول دیجئے۔ اب آپ سِلےہوئےکپڑے پہن سکتےہیں، خوشبو لگا سکتےہیں اور احرام کی حالت میں ممنوع جملہ امور انجام دے سکتےہیں مگر ابھی بھی آپکی بیوی آپ پر حلال نہیں ہوئی ۔جب آپ طوافِ زیارت ادا کرلیں گےتو احرام کی باقی یہ ایک پابندی بھی ختم ہو جا ئے گی یعنی آپکی بیوی بھی آپ پر حلال ہوجائیگی۔
دیکھو ذرا یہ کام ہے کس چیز کی دلیل
بیٹے کو ذبح کرتا ہے اللہ کا خلیل
بیٹے کو گرایا ہےاور ہے ہاتھ میں چھری
اللہ کی محبت میں بہت زور سے پھیری
یہ سوچ کے ہوتی ہے عقلمند کو جھرجھری
یہ عشق کا میداں ہے یہاں سوچ کہاں ہے
یہ عقل کا نہیں ہے کوئی اور جہاں ہے
اللہ نے جب عشق کا دیکھا یہ نظارہ
اس نے بھی جبریئل کو بہت جلدی سے بھیجا
اور ساتھ ہی جنت سے اس کے ساتھ وہ مینڈھا
جلدی چھری کے سامنے ہی پھر رکھ دیا اس کو
خلیل نہیں جانتے کہ ذبح کیا کس کو
دیکھا تو سامنے ذبح شدہ مینڈھا پڑا ہے
بیٹا قریب اس کے ہی محفوظ کھڑا ہے
اللہ نے قبول یہ کام کتنا کیا ہے
فرمایا تو نے خواب سچا کرکے دکھایا
اور اس عمل کو آگے بھی کس طرح بڑھایا
کرتے ہیں مسلمان جو قربانیاں ہر سال
تو سامنےہوتی ہے یہی عشق کی مثال
اور اس سے مزین ہوئے حج کے ہیں یہ اعمال
چلتا رہے ہمیشہ یہی عشق کا سفر
ہوجائےاب شبیؔر کے دل پر بھی کچھ اثر
طواف زیارت
یہ طواف حج کا رکن اور فرض ہے۔یہ طواف عام طور پر قربانی اور سر منڈانے کےبعد سِلےہوئےکپڑوں میں کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ سوچ میں پڑ جاتےہیں کہ سلےہوئےکپڑوں میں طواف اور سعی کیسےکی جائے؟ تو خیال رہےکہ اسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں، آپ طواف زیارت اور سعی سلےہوئےکپڑوں میں بھی کر سکتے ہیں، طواف کے پہلےتین چکروں میں رمل بھی ہوگا، ہاں اب اضطباع نہیں ہوگاکہ اس کا اب موقع ختم ہو گیا۔
الحمد للہ دسویں ذی الحجہ کےسارے کام انجام پا گئے۔ اب آپ مکمل طور پر احرام کی پابندیوں سےفارغ ہو گئے۔ بیوی بھی اب آپ پر حلال ہو گئی۔ فارغ ہو کر آپ پھر واپس منیٰ چلےجائیں۔ طواف ِزیار ت کےبعد دو رات اور دو دن مزید منیٰ میں قیام کرنا ہے۔
سیاہ غلاف میں کعبہ ہے مرکز تنویر
یہ گھر خدا کا ہے دنیا میں نہیں اس کی نظیر
یہ حج کے بعد اس کے گرد کیا نظارہ ہے
ہر ایک حاجی نظر آئے اس کی زلف کا اسیر
حج میں حجاج نے عشاق کے احوال دیکھے
تب ان کے سامنے آیا یہ عشق کا بد رمنیر
لباس عشق میں حاجی گرد اس کے گھوم پھرے
لباس عام میں لیتے ہیں اب اس کی تاثیر
کہاں یہ عشق کی دنیا کہاں غرقِ دنیا
خدایا اپنے لیے کیجیے قبول شبیؔر
11 اور 12 ذی الحجہ کو تینوں جمروں کی رمی کرنی ہےاور آج رمی کا وقت زوالِ آفتاب کےبعد ہے۔ اپنےخیمےیا مسجد خیف میں ظہر کی نماز ادا کریں اور پھر رمی کےلئے چل پڑیں۔راستہ میں سب سےپہلےجمرہ اولیٰ “ چھوٹا شیطان” آئےگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کل جمرہ عقبہ کی رمی کی تھی، اس پر سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکر ی پر
بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَرْ، رَغمَاً لِلشَّیطَانِ وَ رِضًی لِلرَّحمَانِ- پڑھیں
رمی کےبعد ذرا ہٹ کر قبلہ رخ کھڑےہو کر دعا کریں۔ توبہ، استغفار اور تسبیح و ذکر کےبعد درود شریف پڑھیں، اپنےلئےدعا مانگیں، اپنےدوست و احباب کےلئےبھی دعا مانگیں۔ اس کےبعد آگےچلیں“ جمرہ وسطیٰ” “درمیانی شیطان” پر آئیں اور اسی طرح سات کنکریاں ماریں، جس طرح “ جمرہ اولیٰ” پر ماری تھیں اور ذرا ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دعا مانگیں اور اتنی دیر ہی ٹھہریں جتنی دیر “ جمرہ اولیٰ” پر ٹھہرےتھے۔ اس کےبعد“ جمرہ عقبیٰ” بڑےشیطان پر آئیں۔ اسی طرح سات کنکریاں اس کو بھی ماریں، جس طرح پہلےماری تھیں، مگر اس جمرہ پر نہ ٹھہریں نہ ہی دعا مانگیں ۔
11 اور 21 کو منیٰ میں رہنا احناف کے نزدیک سنت اور بعض آئمہ کے نزدیک واجب ،آخر کیوں مکہ مکرمہ کو چھڑوا کر اس واد ی میں ٹھہرنے کا حکم ہے ۔اس کا سوال کوئی فلسفی کرے تو کرےعاشق کے لئے تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ آپﷺ نے کیا ہے اور بس۔ وہ تو بزبان حال کہتے ہوں گے:
آپ بیٹھے ہوئے ہونگے اور صحابہ بھی یہاں
ہم جو بیٹھے دو چادروں میں ہیں منیٰ میں یہاں
ایک تقدس کے ساتھ اتنی آزادی کے ساتھ
ہم کہ بیٹھے ہیں یہ حالت ملے گی اور کہاں
یہ مناسک اپنی تاریخ ہے اور اپنا مقام
کیا برکات اور کیا حکمتیں ہیں ان میں نہاں
یہ بندگی کے نظارے اور عشق کے انداز
ملے گا کیسے بغیر اس کے ہمیں ایسا سماں
روح آزاد کو باندھا ہے نفس نے بنددربند
نفس نے کچھ چھوڑ دیا شبیؔر ہمیں یاں بے مکاں
12ذی الحج کو اختیار ہے کہ غروبِ آفتاب سے پہلے حدود منیٰ سے نکل جائیں۔ایسا کرنے والوں کے سوائے طوافِ وداع کےباقی سارے مناسک مکمل ہوگئے۔البتہ وہ عشاق جو اللہ تعالیٰٰ کی خاص مہمانی سے ایک دن اور لطف اندوز ہونا چاہیں تو ان کو ابھی کہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔ان کو عشاق کی سر زمین میں ایک اور دن ٹھہرنے کی اجازت ہے۔بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ کسی کو فلایئٹ وغیرہ کی پریشانی بھی نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ جلد از جلد حدود منیٰ سے نکلنے کے لئے بیتاب ہیں اور سامان اٹھائے خطرات مول لے کر حرم جارہے ہوتےہیں۔کاش سمجھ ہوتی تو آسانی بھی ہے مہمانی بھی ۔
دیکھئے اس سلسلے میں عشق کی زبان پر کیا آرہا ہے:
محبت سے ٹھہرنا تیرھویں ذی الحج کو حاجی کا
اشارے سے بتائے ذوق والوں کو نہ جانے کیا
خدا کی راہ میں ایک دن مزید منیٰ میں رہنا ہو
یہ لازم تو نہیں ہاں ہے مگر یہ دل کا اک سودا
مکہ شہر مبارک ہے وہاں جانا مبارک ہے
اجازت اس میںہے تاخیر کی توسوچنا کیسا
یہ جانے کے لئے جلدی مچانا کوئی کیا سمجھے
یہاں تو ہو رمی ایک اور دن پھر ہو ثواب زیادہ
نفل حج کے لئے آئے ہیں جو ان کے لئے توبس
بہت زیادہ اجرلینے کا ہے شبیؔر اک موقع
تیرھویں ذی الحج کی رمی کی زوال سے پہلے بھی اجازت ہے لیکن زوال کے بعد رمی کرنا مستحب ہے ۔جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
تھوڑی محنت سے گر سنت پر عمل ہووے نصیب
خوش قسمتی ہے اس سے اور ہوں جنت کے قریب
تیرھویں کی رمی زوال کے بعد ہم کرلیں
برکات اس کے ملیں ہم کو پھر عجیب و غریب
کچھ مشکلات انتظامی تو نظر آتے ہیں
اگر ہمت ہو یہ سب اجر عظیم کے ہیں نقیب
عقل جو رب نے عطا کی ہے استعمال کرلیں
جو محبت بھی ہو اس کی بنے کیا خوب ترکیب
ہر ایک مشکل میں وہ آسان کرے ہے رستہ
ہم اگر سامنے رکھیں شبیؔر اس کی ترتیب
مستحب کیا ہے ۔پسندیدہ ۔کس کا پسندیدہ ۔اللہ کا پسندیدہ۔کس طرح ؟ مکہ مکرمہ اس وقت جانے سے بھی پسندیدہ ۔عاشق صرف محبوب کی رضا چاہتا ہے ۔اس کو کوئی اور زبان آتی ہی نہیں وہ یوں کہے:
کمال عشق ہے اس میں کہ دیکھتے ہی رہو
جو وہ ٹھہرائے خوشی سے تو ٹھہرتے ہی رہو
جو وہ چپ رہنے کو کہہ دیں تو پھر توہونٹ سی لو
اور اگر کہنے کو کہہ دیں وہ تو کہتے ہی رہو
اگر وقار پہ خوش ہوں تو پر وقار بن جاؤ
جب مچلنے کا اشارہ ہو مچلتے ہی رہو
جب تجھ سے پیار وہ چاہے تو پھر پیارے بن جاؤ
اور اگر ڈرنے پہ خوش تو پھر ڈرتے ہی رہو
جان اس کی ہے تو اس کے لیے جینا ہو شبیؔر
اور اس کے ساتھ ہی بس اس پہ ہی مرتے ہی رہو
ایسے حجاج 13 ذی الحج کو زوال کے بعد رمی سے فارغ ہوکر حرم تشریف لے جائیںاور حرم کے قرب سے اس وقت تک مستفید ہوتے رہیں جب تک
اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھا ہے۔ایک بات یاد رکھیں ۔ مسجدِحرام میں تین حصے ہیں۔ ایک حصّہ طواف کرنے والوں کے لیے ، ایک حصّہ نماز پڑھنے والوں کے لیے
اور ایک حصّہ صرف خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں کے لئے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو وقت کی قدر کریں اور فضول پھرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں ۔فضول پھرنے سے آرام بہتر اور آرام ہو چکا ہو تو کام بہتر ۔
ذرا باہر قافلوں کو حرم جاتے دیکھیں کیا آپ کے دل کے کیفیت تبدیل نہیں ہورہی ہے:
ہیں حرم کے واسطے قافلے رواں دواں
رحمت الہی ہے سامنے جو بيکراں
بوڑھے بھی جوان بھی عورتيں اور مرد بھی
بخششوں کے واسطے آرہے ہيں جو يہاں
راستے حرم کے ہيں کيسے اب بھرے بھرے
بوڑھے بوڑھے لوگوں کی ہمتيں جواں جواں
قوم و ملک ہيں مختلف مختلف زبانيں ہيں
سب کا رخ ہے اک طرف اور کعبہ درمياں
نور کی شعاءوں ميں سب نہا رہے ہيں جو
نور لے رہے ہيں سب جائیں گے کہاں کہاں
فلسفہ نہيں ہے يہ عشق کی يہ باتيں ہيں
اب سجاؤ دم بدم دل ميں عشق کا سماں
دل جسم کا بادشاہ دل بناؤ دل يہاں
دل بنانے کے ليے خوب ديکھو يہ مکاں
دل خدا کا گھر بنا گھر خدا کا ديکھ کر
شايد لوٹ آئے نہ پھر کبھی يہی زماں
کيا سے کيا ہوا يہاں کيا سے کيا بنا يہاں
کيا قدر خدا نے کی يہ ہيں سب نشانياں
ياالٰہی اب شبير کا يہ دل قبول کر
شاں تيری اور ترے حبيب کی کرے بیاں
خانہ کعبہ کو دیکھئے اور نظروں سے محبت کے جام پر جام پیتے رہیے ۔یہی موقع ہے ،ضائع نہ ہو ۔
ذرا دیکھئے شاعر خانہ کعبہ کو کیسے دیکھ رہا ہے۔
میں نوری کعبہ کو دل میں سماؤں
جب اس کے سامنے میں بیٹھ جاؤں
یہ رحمت کا سمندر موجزن ہے
میں کچھ حصہ الٰہی اس سے پاؤں
مرے ہے سامنے تیری کریمی
تہی دست میں یہاں سے کیسے جاؤں
جو اب ہے سامنے میزاب رحمت
الٰہی تر بتر اس سے نہاؤں
دیوانے اس کے گرد اس کے ہیں گھومتے
میں ان کے ساتھ کچھ چکر لگاؤں
مقام عشق مجھے کردے نصیب اب
کہ میں ہر وقت ترے گن گاتا جاؤں
ترے در پر پڑا ناچیز شبیؔر
کرو ایسا قبول بار بار آؤں
اگر آپ حج سے پہلے مدینہ منورہ نہیں گئے تو وہاں جانے کا وقت جب آجائے تو انتہائی سوز اور کیفیتِ ہجر کے ساتھ طوافِ وداع کرلیں ۔
خدا کے گھر سے جدائی کا وقت طواف وداع
بس اک کیفیت ہجری کا وقت طواف وداع
دوبارہ ملنے کی درخواست کا یہی ہے وقت
غلطیوں کی بھی تلافی کا وقت طواف وداع
ملن کا جوش جو امڈا تھا بن گئی حسرت
اس پہ اندر سے تسلی کا وقت طواف وداع
دل کو خوب اس کی طرف کٹ کٹا کے کر مرکوز
دل سے بھرپور عاجزی کا وقت طواف وداع
وہ جو ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہے اے شبیؔر
دعا رضائے دائمی کا وقت طواف وداع
مدینہ منورہ کو روانگی
آپ ﷺ کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جو حج کو آئے اور میرے پاس نہ آئے اس نے میرے ساتھ بے وفائی کی۔اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں ۔ایک شخص انگلینڈ سے لاہور کسی کام کے سلسلے میں آتا ہے اور فیصل آباد میں اس کے والد رہتے ہیں ۔وہ شخص لاہور میں اپنا کام کرکے فیصل آباد میں اپنے والد سے ملے بغیر واپس انگلینڈ چلا جائے تو اس کے والد کیا کہیں گے؟ وہی نا جو آپﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے۔اس لئے مدینہ منورہ جانے کے لئے دوسری تیاریوں کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تیار کریں۔ یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ملاقات کی تیاری ۔بعض لوگ خوا مخواہ فضیلتوں کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں۔وہ لوگ اپنے دل میں باور کئے ہوتے ہیں کہ مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور مدینہ منورہ رسول اللہﷺ کا ۔ان نادانوں کو کوئی سمجھائے کہ خدا کے بندو اللہ تعالیٰ تو ہرجگہ موجود ہیں جبکہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہیں۔مکہ مکرمہ بھی اللہ تعالیٰ کا اور مدینہ منورہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہے۔مدینہ منورہ جانے کے لئے توآپ ﷺ کا ارشاد ہی کافی ہے اس لئے جہاں تک عقیدہ کی بات ہے تو وہ تو مدینہ منورہ جانے میں زیادہ محفوظ ہے۔اب رہی فضیلت کی بات تو اس کے لئے قرآن پاک کی وہ آیت پڑھ لیں" قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللٰهَ۔الخ" اس میں آپ ﷺکی اتباع میں بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے۔ذرا سوچئے تو سہی کہ آپ ﷺ حج کے بعد مکہ مکرمہ میں رہے یا مدینہ منورہ تشریف لے گئے ؟اتباع کس میں زیادہ ہے؟ تو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کس میں زیادہ ہوگی؟العیاذ باللہ میں خانہ کعبہ کی فضیلت کم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا صرف اس بات کو واضع کرنا چاہتا ہوں کہ جو مدینہ منورہ کے بارے میں کمزور ذہن رکھتے ہیں ان کی اصلاح ہوجائے ورنہ ہمارے لئے تو دونوں جگہیں بڑی ہیں۔ہمارا تو مسلک ہے ۔
نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا ہے
مدینے کو جانے کو بھی چاہتا ہے
ہاں جنت ابقیع میں دفن ہونے کی فضیلت کی بات اور ہے ۔
اس لیے بقول شاعر۔
شبیر جب بھی نکلے تو جان مدینے میں
ایک نور برستا ہے ہر آن مدینے میں
رہتا ہوں میں ہر وقت فرحان مدینے میں
اﷲ کا کرم ہے بس اس کی عنایت ہے
میں خوش نصیب آیا مہمان مدینے میں
میں گنبد خضراکے سائے میں یہاں بیٹھا
بھیجوں سلام ان پر ہر آن مدینے میں
دنیا تو بہت کھینچے فطرت کے مطابق تو
اصلی تو ہمارا ہے جانان مدینے میں
دنیا میں جہاں بھی ہوں ہوں ان کے طریقے پر
شبیؔر جب بھی نکلے تو نکلے جان مدینے میں
مدینہ منورہ کا سفر
اے دل ذرا خیال مدینے کا سفر ہے
اس شہر کو جانا ہے جہاں خیر البشر ہے
اے دل زہے نصیب غم فرقت ختم ہوئی
محبوب جہاں ہے تجھے جانا بھی ادھر ہے
دل میں خیال ان کا زباں پر درود ہو
رخ دل کا اس طرف رہےمحبوب جدھر ہے
محبوب ہمارا تو ہے محبوب الٰہی
تب اس کی طرف سے بھی درودوں کا امر ہے
پہنچیں سلام کے لیے قبر شریف پر
اس کے لیے میں نے بھی کیا کتنا صبر ہے
لبریز دل مرا ہو وہاں عشق نبیﷺ سے
بر حکم شریعت رہوں خیال اس کا مگر ہے
اللہ کو محبوب کا محب بھی ہے محبوب
شرک اس کی محبت نہیں یہ تجھ کو اگر ہے
خشک اتباع قبول نہیں بدون محبت
اس سے جو محبت نہ ہو ایماں کو خطر ہے
ہو اتباع سنت کی نتیجہ ء محبت
شبیؔر اتباع ہی محبت کا اثر ہے
مدینہ منورہ پہنچ کر انتہائی ادب کے ساتھ آپ ﷺ کی محبت کو دل میں رکھ کر رہنا چاہيے۔مدینہ منورہ کا ذرہ ذرہ ایک تاریخ رکھتا ہے۔یہاں کے چپے چپے کے ساتھ محبت ہونا فطرت کا تقاضا ہے ۔مسجد نبوی میں تو یہ ادب مزید بڑھ جاتا ہے اور روضہء اقدس کی حاضری کی تو بات ہی اور ہے۔معاملہ چونکہ دل کا ہے اس لیے اگر دل میں آپ ﷺ کی محبت ہو تو دل وہاں کے ادب کا خیال خود کروا دے گا البتہ بعض دفعہ غلط فہمی ہوسکتی ہے انسان محبت کے فوری تقاضے کے سامنے شریعت کے آفاقی اصولوں کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کسی رہنما کی۔اس لیے وہاں ادب بھی سیکھ کر کرنا چاہيے اور